آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181592 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

کتاب کانام: آفتاب عدالت

مؤلف : آیت اللہ ابراہیم امینی

ترجمہ : نثار احمد زینپوری

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم ایران

نظرثانی : حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

کتابت : سید قلبی حسین رضوی کشمیری

سال طبع : ذی الحجة الحرام سہ ۱۴۱۵ ھ

تعداد : ۳۰۰۰

پریس کانام بہمن قم

۳

بسم الله الرحمن الرحیم

اللهمّ کن لوليّک الحجة

بن الحسن صواتک علیه

و علی آبائه فی هذه الساعة و

فی کل ساعة ولیاً و حافظاً

و قاعداً و ناصراً و دلیلاً و عینا

حتی تسکنه ارضک طوعاً

و تمتعه فیها طویلاً

۴

پیش گفتار

زندہ اور غائب امام حضرت مہدی موعود کے وجود کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے جو کہ امامیہ مذہب کے ارکان میں شمار ہوتا ہے _ یہ عقیدہ متواتر اور قطعی الصدور احادیث سے ثابت ہوچکا ہے _ اس میں شک کی گنجائشے نہیں ہے _ لیکن اس سلسلے میں بہت سے مسائل تحقیق کے محتاج ہیں _ جیسے : طول عمر ، طولانی غیبت ، غیبت کی وجہ ، زمانہ غیبت میں امام زمانہ کے فوائد ، غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کے فرائض ، ظہور کی علا متیں ، حضرت مہدی کا عالمی انقلاب ، آپ(ع) کی کامیابی کی کیفیت ، حضرت مہدی کی فوج کا اسلحہ ، ان کے علاوہ اور دسیوں مسئلے ہیں ، کیونکہ مخالفین جوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ کے در میان کتابوں اور تقاریر کی صورت میں ان ہی باتوں کو اعتراضات کا نشانہ بنا تے ہیں _ ان کا جواب دینا ضروری ہے _ با وجودیکہ امام زمانہ روحی فداہ کے بارے میں بہت سی کتا بیں لکھی جا چکی ہیں مگر افسوس کہ لکھنے والے ان اعتراضات کی طرف متوجہ نہیں تھے _ لہذا ان کا جواب بھی نہیں دیا _ مؤلف ان اعتراضات سے واقف تھے چنانچہ ان کا جواب دینے کی غرض سے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تا کہ امام زمانہ(ع) سے متعلق ایسے صحیح مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کئے جائیں جو کہ ان کی ضرورت کو پو را کرسکیں خدا کی توفیق شامل حال ہوئی اور ۱۳۴۶ ق ش میں یہ کتاب طبع ہوکر شائفین کے ہاتھوں میں پہنچ گئی _ لیکن مؤلف ہمیشہ اس کی تکمیل کی فکر میں رہے اور ہیں _ چنانچہ ۱۳۴۷ ق ش میں نظر ثانی اور اضافات کے ساتھ دوسرے ایڈیشن طبع ہو کر شائفیں تک پہنچ گیا ، اس کے بعد

۵

اگر چہ آج تک یہ کتاب مستقل چھپتی رہی لیکن تجدید نظر کے لئے فرصت نہ مل سکی _ یہاں تک کہ اس زمانہ میں توفیق نصیب ہوئی اور نئے مطالب جمع ہوگئے _ لہذا نظر ثانی اور سودمند اضافات کے ساتھ شائقین کی خدمت میں حاضر ہے _ واضح رہے ہمیشہ کی طرح کتاب ہذا کی فائل کھلی رہے گی _ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تحقیقات اور مشور وں سے نوازیں شکریہ

ابراھیم امینی قم _ مارچ ۱۹۹۵ئ

۶

مقدمہ

دنیا کے آشفتہ اور افسوس ناک حالات نے لوگوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے ، اسلحہ کی دوڑ ، سردو گرم جنگ اور مشرق و مغرب کے درمیان صف آرائی اور وحشت ناک بحرانوں نے دنیا والوں کے دل و دماغ کو فرسودہ کردیا ہے _ جنگی اسلحہ کی پیدا وار اور بہتا ت، نسل آدم کو تہدید کررہی ہے ، عالمی دہشت گردوں اور خودسروں نے پسماندہ قوموں کو زندگی کے حق سے بھی محروم کردیا ہے ، پسماندہ طبقے کی روز افزوں محرومیت ، دنیا کے بیماروں اور بھوکے لوگوں کا استغاثہ و امداد طلبی اوربڑھتی ہوئی بیکاری نے حساس و زندہ دل و خیراندیش اشخاص کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے_ اخلاقی تنزل ،دینی امور سے بے پروائی ، احکام الہی سے روگردانی ، مادہ پرستی اور شہوت رانی میں افراط نے دنیا کے روشن خیال افراد کو مضطرب کردیا ہے _

یہ اور ایسے ہی سیکڑوں حالات نے عاقبت اندیشی اور بشر کے خیرخواہ و اصلاح طلب افراد کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور انسانیت کی تباہی و پستی کے اندیشے کی گھنٹیاں ان کے کانوں میں بج رہی ہیں_ وہ انسان کی مشکلیں حل کرنے اور عالمی بحران کو دفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس لئے ہر در پردستک دیتے ہیں لیکن جتنی کوششیں کرتے ہیں اتنی ہی مایوسی سے دوچار ہوتے ہیں _ کبھی اس حد تک مایوس ہوجاتے ہیں کہ انسان کی اصلاح کی قابلیت ہی کا انکار کردیتے ہیں اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں بد ظن ہوجاتے ہیں اور اس کے بھیانک نتائج سے لرزہ بر اندام رہتے ہیں اور دنیائے انسانیت کی مشکلیں حل

۷

کرنے کے سلسلے میں عاجزی کا اظہار کرتے ہیں _ اس سے بڑھ کر ، کبھی غیظ و غضب کی شدت کی بناپر انسانیت کے ارتقاء کے بھی منکر ہوجاتے ہیں اور اس کے علم و صنعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ کبھی عام حالات میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ علم و صنعت کی کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ سرکش اور خودخواہ انسان اس سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے اور اصلاح کی بجائی اس سے فساد کی طرف لے جاتا ہے _

دنیا کا مستقبل شیعوں کی نظر میں

لیکن شیعوں نے یاس و ناامیدی کے دیو کو کبھی اپنے پاس نہیں آنے دیا ہے وہ انسان کی عاقبت اور سرنوشت کے بارے میں نیک توقع رکھتے ہیں _ دنیا کے نیک و شریف انسانوں کو کامیباب تصوّر کرتے ہیں _ وہ کہتے ہیں ( اس بات کو ثابت بھی کردیا ہے) کہ یہ مختلف قسم کے پروگرام اور بشر کے خود ساختہ دل فریب مسلک انسان کو بدبختی کے گرداب سے نہیں نکال سکتے اور عالمی خطرناک بحران کا علاج نہیں کر سکتے ہیں بلکہ وہ صالح بشر کی کامیابی و سعادت کیلئے صرف اسلام کے متین و جامع قوانین ، جن کا سرچشمہ منبع وحی ہے ، کو کافی سمجتھے ہیں _

وہ ایک روشن مستقبل کی پیشین گوئی کرتے ہیں _ جس زمانہ میں انسان حد کمال کو پہنچ جائے گا اور دنیا کی حکومت کی زمام ایسے معصوم امام کے ہاتھ میں ہوگی جو کہ غلطی و اشتباہ اور خود غرضی و خودخواہی سے پاک ہوگا _ کلی طور پر شیعہ امیدوار بنانے والے عطیات کے حال ہیں ، انہوں نے اس تاریک زمانہ میں بھی اپنے ذہن میں حکومت الہی کا نقشہ بنا رکھا ہے اور اس کے انتظار میں زندگی گزاررہے ہیں اور اس عالمی انقلاب کیلئے

۸

تیارہیں _

انتظار فرج اور ظہور میں تاخیر کی وجہ

شیعوں کے دشمن جن چیزوں پر اعتراض کرتے ہیں ان میں سے ایک مہدی موعود پر ایمان اور انتظار فرج ہے _ وہ کہتے ہیں کہ : شیعوں کی پسماندگی کا ایک سبب مصلح غیبی پر ایمان رکھنا ہے _ اس عقیدہ نے شیعوں کو بے پروا اور کاہل بنادیا ہے ، اجتماعی کوشش سے بازر کھا ہے اور ان سے علمی ترقیات و فکری اصلاحات کی صلاحیت سلب کرلی ہے _ چنانچہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں ذلیل و رسوا ہیں اور اب اپنے امور کی اصلاح کیلئے امام مہدی کے ظہور کے منتظر ہیں

ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم شیعہ اور مسلمانوں کے انحطاط کے اسباب کی تحقیق کریں لیکن اجمالی طور پر یہ بات مسلّم ہے کہ اسلام کے احکام و عقائد مسلمانوں کے انحطاط و پستی کا باعث نہیں بنے ہیں بلکہ خارجی اسباب و علل نے دنیائے اسلام کو پستی میں ڈھکیلا ہے ، یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آسمانی مذاہب میں سے اسلام سے زیادہ کسی نے بھی ملت کی ترقی و عظمت اور اس کے اجتماعی امور کی تاکید نہیں کی ہے _ اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے ظلم و فساد سے جنگ اور نہی عن المنکر کو لازمی قرار دیا ہے اور اجتماعی و سماجی اصلاحات ، عدل پرستی اور امر بالمعروف کو دین کے واجبات میں شامل کیا ہے _ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ سارے مسلمانوں پر واجب ہیں تا کہ ایک گروہ خود آمادہ کرے _

''تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو خبرکی دعوت دے ، نیکیوں کاحکم دے برائیوں سے منع کرے اور ایسے ہی لوگ

۹

نجات یافتہ ہیں ''_(۱)

بلکہ ان دو فریضوں کو مسلمانوں کے افتخارات میں شمار کرتا ہے اور فرماتا ہے :

'' تم دنیا میں بہترین امت ہو کیونکہ تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو''(۲)

پیغمبر (ص) مسلمانوں کے امور کی اصلاح کی کوشش کو اسلام کا رکن اور مسلمان ہونے کی علامت قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں :'' جو بھی دنیائے اسلام کی طرف سے بے پروائی کرے ، کوشش نہ کرے ، اہمیت نہ دے ، وہ مسلمان نہیں ہے '' _

قرآن مجید دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو مسلح اور تیار رہنے کا حکم دیتا ہے : ''جہاں تک ہوسکے دشمنوں کے مقابلہ میں خود کو مسلح و آمادہ کرو اور انھیں دہشت زدہ کرنے کیلئے جنگی توانائی کو مضبوط بناؤ''(۳)

اب ہم آپ ہی سے پوچھتے ہیں : ان آیتوں اور اس سلسلے میں وارد ہونے والی سیکڑوں احادیث کے باوجود اسلام نے مسلمانوں سے یہ کب کہا ہے کہ وہ دنیا کی علمی ترقی و صنعت سے آنکھیں بند رکھیں اور اسلام کیلئے جو خطرات ہیں انھیں اہمیت نہ دیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسلام اور مسلمانوں کی حمایت کیلئے ظہور امام مہدی (ع) کے منتظر رہیں؟ اور دنیائے اسلام پر ہونے والے حملوں کے سلسلے میں خاموش رہیں اور ایک مختصر جملہ _ '' اے اللہ: ظہور مہدی میں تعجیل فرما'' کہکر میدان چھوڑدیں

ہم نے اپنی کتاب میں یہ بات تحریر کی ہے کہ انتظار فرج بجائے خود کامیابی کا راز ہے _ چنانچہ جب کسی قوم و ملت کے دل میں چراغ امید خاموش ہوجاتا ہے اور یاس

____________________

۱_ آل عمران / ۱۰۴

۲_ آل عمران /۱۱۰

۳_ انفال / ۶۰

۱۰

و ناامیدی کا دیواس کے خانہ دل میں جایگزیں ہوجاتا ہے توہ کبھی کامیابی و سعادت کا منھ نہیں دیکھ سکتی ہے جو لوگ اپنی کامیابی کے انتظار میں ہیں انھیں اپنے آخری سانس تک کوشاں رہنا چاہئے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے راستہ ہموار کرنا چاہئے اور مقصد سے بہرہ مند ہونے کیلئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے _

امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے کہ : '' ضرور آل محمد (ص) کی حکومت قائم ہوگی لہذا جو شخص امام زمانہ کے انصار میں شامل ہوناچاہتا ہے اسے بھر پور طریقہ سے متقی و پرہیزگار بننا اور نیک اخلاق سے آراستہ ہونا چاہئے اور اس کے بعد قائم آل محمد (ص) کے ظہور کا انتظار کرنا چاہئے _ جو بھی اس طرح ہمارے قائم کے ظہور کا انتظار کرے اور اس کی حیات میں مہدی (ع) کا ظہور نہ ہو بلکہ ظہور سے قبل ہی مرجائے تو اسے زمانہ کے انصار کے برابر اجر و ثواب ملے گا'' _ اس کے بعد آپ نے فرمایا:'' کوشش و جانفشانی سے کام لو اور کامیابی کے منتظر رہو ، اس معاشرہ کو کامیابی مبارک ہو جس پر خدا کی عنایات ہیں ''_(۱)

اسلام نے مسلمانوں کی تیاری کو بہت اہمیت دی ہے، اس کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ امام صادق نے فرمایا:'' ظہور قائم کے لئے تم خود کو تیار رکھو اگر چہ ایک تیر ہی ذخیرہ کرنے کے برابر ہو '' _(۲)

خدا نے مقرر کردیا کہ دنیا کے پراگندہ امور کی مسلمانوں کے ذریعہ اصلاح ہو اور ظلم و ستم کا جنازہ نکل جائے اور کفر و الحاد کی جڑیں کٹ جائیں ، پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرائے کوئی سوجھ بوجھ رکھنے والا اس میں شک نہیں کرستا کہ ایسا

____________________

۱_ غیبت نعمانی ص ۱۰۶_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۶۶_

۱۱

عالمی انقلاب مقدمات اور وسائل کی فراہمی کی بغیر ممکن نہیں ہے _

قرآن مجید نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روئے زمین پرحکومت کیلئے شائستگی ضروری ہے _ خداوند عالم کا ارشاد ہے :'' ہم نے لکھدیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے صالح بندے ہوں گے ''(۱) مذکورہ مطالب کے پیش نظر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس انقلاب کا علم بردار مسلمانوں کو ہونا چاہئے وہ اس کے مقدمات و اسباب فراہم نہ کریں اور اس سلسلے میں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ؟ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند اس بات کو تسلیم کرے گا _

ایک پیغام

غیرت دار مسلمانو غفلت کا زمانہ ختم ہوچکا ہے ، خواب غفلت سے اٹھو اختلافات سے چشم پوشی کرلو ، پرچم توحید کے نیچے جمع ہوجاؤ ، اپنی زمام مشرق و مغرب کے ہاتھ میں نہ دو ، ہرجگہ تہذیب و تمدن انسانیت کے طلایہ دار بن جاؤ_ اپنی عظمت و استقلال اور تہذیب و تمدن کے محل کو اسلام کے محکم پایوں پر استوار کرو _ روح قرآن سے الہام حاصل کرو ، اسلام کی عزّت و سربلندی کی راہ پر چل کھڑے ہو ، مشرق و مغرب کے غلط اورزہریلے افکار کو لگام چڑھادو بشری تمدن کے قافلے کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لو ، اپنی عظمت و حریت حاصل کرو ، جہالت و نادانی اورفکری جمود و خرافات سے جنگ کرو _ جوانو اسلام کے حقائق سے واقفیت پیدا کرو تا کہ استعماری دیو تم سے مایوس ہوجائے اور تمہارے مرزوبوم (سرزمین) سے فرار کرجائے _

____________________

۱_ انبیائ/۱۰۵_

۱۲

پیارے مسلمانو عزت و اقتدار شائستہ اور صالح لوگوں سے مخصوص ہے ، تم نے اپنی شائستگی کو ثابت کردیا ہے _ قرآن کے اجتماعی ، اقتصادی اور اخلاقی علوم کے گراں بہا منابع کو حاصل کرو ، دنیا والوں کے سامنے اسلام کے تئیں اصلاحی پروگرام کو پیش کرو اور اپنے عمل سے یہ ثابت کردو کہ اسلام صرف عبادت گا ہوں میں گوشہ نشینی کی تلقین نہیں کرتا ہے بلکہ وہ بشر کی ترقی و سرفرازی کے اسباب فراہم کرتا ہے _ تم دنیا کے خیر اندیش افراد کی امید بندھا دو اور اس مقدس جہاد میں انھیں بھی مدد کرنے کی دعوت دو اور دنیائے انسانیت کے قافلہ تمدن و خیرخواہی کی قیادت کرو _

اے جوانان اسلام اس مقدس جہاد اور انسانیت کے عظیم مقصد و ذمہ داری کو پورا کرنے میں تمہارا بہت بڑا حصہ ہے _ تمہیں عظمت اسلام، مسلمانوں کی ترقی اور امام زمانہ (عج) کے مقصد کی تکمیل میں بھرپور طریقہ سے کوشش کرنا چاہئے _ تمہیں آفتاب عدالت حضرت مہدی (ع) کے اصحاب میں شامل ہونا چاہئے کہ جن کے بارے میں امیر المؤمنین(ع) فرمایا ہے:'' مہدی موعود کے سارے اصحاب وانصار جوان ہوں گے ، ان میں بوڑھے کمیاب ہوں گے '' _(۱)

و من اللہ التوفیق

ابراہیم امینی

حوزہ علمیہ قم _ ایران

فروردین ۱۳۷۴ (مارچ ۱۹۹۵ء)

____________________

۱بحارالانوارج۵۲ص۳۳۳

۱۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں نے ایک انٹر کالج میں منعقد ہونے والی محفل میں شرکت کی _ یہ باشکوہ محفل ۱۵ / شعبان کو امام زمانہ کی ولادت کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی _ بڑی ہی آراستہ و پیراستہ محفل تھی ، اس میں ہر طبقے کے لوگ شریک تھے جبکہ اکثریت تعلیم یافتہ اور جوانوں کی تھی ، اس کا نظم و نسق اس کالج کی انجمن اسلامی کے ہاتھ میں تھا_

پروگرام کا آغاز ایک کمسن بچے نے کلام پاک کی تلاوت سے کیا _ اس کے بعد دوسرا طالب علم نے امام زمانہ کے بارے میں اشعار پڑھے، پھر ایک طالب علم کالکھا ہوا بہت ہی دلچسپ مقالہ پڑھاگیا _ پروگرام کے اختتام پر مذکورہ کالج کے پرنسپل جناب ہوشیار صاحب نے امام زمانہ (ع) کے سلسلے میں بصیرت افروز تقریر کی _ اور بعد از آں شیرینی و غیرہ سے ضیافت کی گئی _ مذکورہ پروگرام سے سب ہی متاثر تھے لیکن میں اں سب سے زیادہ متاثر تھا _ میں آرائشے اور مہمان نوازی کے وسائل سے متاثر نہیں ہواتھا_ بلکہ میں ان جوانوں کی پاکیزہ روح سے متاثر ہوا تھا جو کہ دین و دانش کے جمع کرنے کے ساتھ حقائق و معارف کی اشاعت ، اور عمومی اذہان و افکار کوروشن کرنے میں بے پناہ کوشش کررہے تھے _ ملّت کے نونہالوں کی روح پاکیزگی ، بلند ہمتی اور صفائے قلب محفل کے درودیوارسے عیاں تھی وہ ذوق و شوق اور گرم جوشی سے شرکت کرنے والوں کا استقبال و مدارات کررہے تھے_

ان روشن فکر اور حوصلہ مند جوانوں نے مجھے مسلمانوں کے تابناک مستقبل کے بارے میں مطمئن کردیا _ میں نے ان کے دوش پر قوم کی تہذیب و ترقی کا پرچم دیکھا تو میری آنکھوں میں

۱۴

خوشی کے آنسو ڈبڈبانے لگے اور اس کالج کی انجمن اسلامی اور طلبہ کی کمیٹی اور ان کی بلند ہمتی کو میں نے دل کی گہرائی سے سراہا اور خداوند عالم سے ان کی کامیابی کیلئے دعا کی _

اسی اثناء میں انجینئر مدنی صاحب نے _ جو کہ جناب ہوشیار صاحب کے پاس بیٹھے تھے _ کہا:'' کیا آپ لوگ واقعاً امام غائب پر عقیدہ رکھتے ہیں؟ کیا آپ کے عقیدہ کی بنیاد تحقیق پر استوار ہیں یا تعصب کی بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں؟

ہوشیار: میرا ایمان اندھی تقلید کی بناپر نہیں ہے _ میں نے تحقیق و مطالعہ کے بعد یہ عقیدہ قبول کیا ہے ، پھر بھی اس عقیدہ پر نظر ثانی اور تحقیق کیلئے تیارہوں _

انجینئر: چونکہ امام زمانہ (عج) کا موضوع میرے لئے بخوبی واضح نہیں ہے اور ابھی تک اس سلسلے میں ، میں خود کو مطمئن نہیں کر سکا ہوں، اس لئے آپ سے بحث و تبادلہ خیال کے ذریعہ آپ کے مطالعہ سے مستفید ہونا چاہتاہوں _

ڈاکٹر امامی اور فہیمی : اگر ایسی کوئی نشست کا اہتمام ہوا تو ہم بھی اس میں شرکت کریں گے _

ہوشیار: جو وقت بھی آپ لوگ مقرر کریں میں حاضر ہوں _

آخر کار مناظرہ کے لئے ہفتہ کی شب کا تعین ہوااور اسی پر جشن ختم ہوگیا ، ہفتہ کی شب میں انجینئر صاحب کے گھر پر مجلس مناظرہ منعفد ہوئی رسمی چائے و غیرہ کے بعد ۸ بجے مناظرہ کی کاروائی شروع کرنے کا اعلان ہوا _

۱۵

عقیدہ مہدویت کا آغاز

ڈاکٹر: اسلامی معاشرہ میں عقیدہ مہدی کب داخل ہوا؟ کیا پیغمبراسلام کے زمانہ میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے یا اس عقیدہ نے آپکی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان شہرت پائی ہے ؟ بعض صاحبان قلم نے لکھا ہے کہ : صدر اسلام میں اس عقیدہ کا کہیں نام و نشان نہیں تھا _

ایک جماعت محمد بن حنفیہ کو مہدی کہتی ہے اور ان کے ذریعہ اسلام کے ارتقاء کی خوش خبری سنائی اور جب ان کاانتقال ہوگیا تو کہا: وہ مرے نہیں ہیں بلکہ رضوی نامی پہاڑ میں چلے گئے اور ایک دن ظہور کریں گے _

ہوشیار: عقیدہ مہدی صدر اسلام ہی سے مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا اور پیغمبر اسلام (ص) نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار مہدی کے وجود کی خبر دی اور کبھی تو امام مہدی کی حکومت اور ان کے اسم و کنیت کو بھی بیان کرتے تھے _

اس سلسلے میں آپ (ص) نے جو احادیث بیان فرمائی ہیں وہ شیعہ و سنی طریقوں سے ہم تک پہنچی ہیں ، اور توا تر کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں ، ان میں سے چند نمونے کے طور پر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں :

عبداللہ بن مسعود نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: '' اس وقت تک دنیا کا خاتمہ نہ ہوگا جب تک میرے اہل بیت سے مہدی نام کا ایک شخص لوگوں

۱۶

پر حکومت نہیں کرے گا ''_(۱)

ابوالجحاف نے بیان کیا ہے کہ رسول خدا نے تین مرتبہ فرمایا: '' میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں _ جب لوگوں میں شدید اختلاف ہوگا اور سخت مشکلوں میں گھرے ہوں گے اور زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی اس وقت ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے اور اپنے پیروکاروں کے دلوں کو عبادت اور عدل گستری کے جذبہ سے بھردیں گے '' ( ۲)_

آپ (ص) ہی کا ارشاد ہے :'' اس وقت تک قیامت بر پا نہ ہوگی جب تک ہمارا برحق قائم قیام نہ کرے گا _ جب خدا حکم دے گا تو ظہور کرے گا _ جو شخص ان کی پیروی کرے گا ، نجات پائے گا اور جوروگردانی کرے گا ، وہ ہلاک ہوجائے گا _ خدا کے بندو خدا پر نظر رکھوجب بھی مہدی (عج) کا ظہور ہو تو فوراً ان کی طرف دوڑو اگر تمہیں برف کے اوپر ہی سے چل کرجانا پڑے کیونکہ وہ خلیفة اللہ ہیں ''(۳)

آپ (ص) ہی نے فرمایاہے :'' جو میرے بیٹے قائم کا انکار کرے گویا اس نے میرا انکار کیا ہے ''(۴) نیز فرمایا :'' دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حسین (ع) کی اولاد میں سے ایک شخص میری امت کا حاکم نہ ہوگا جو کہ دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی''(۵)

____________________

۱_ بحار الانوار طبع اسلامیہ سنہ ۱۳۸۴ ھ ج ۵۱ ص ۷۵ _ اثبات الہداة ط ۱ ج ۷ ص ۹ _

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۷۴_

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۶۵ و اثبات الہداة ج ۶ ص ۲۸۲_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۷۳_

۵_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۶۶_

۱۷

مہدی (ص) عترت نبی (ص) سے ہیں

ایسی احادیث بہت زیادہ ہیں بلکہ ان میں سے اکثر سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت امام مہدی اور قائم کا موضوع زمانہ رسول (ص) میں ایک مسلم عقیدہ تھا اور آپ (ص) مسلمانوں کے سامنے کسی نئی خبر کے عنوان سے پیش نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے آثار و علامتیںبیان کرتے تھے اور فرماتے تھے:'' مہدی اور قائم میری عترت سے ہوگا '' _

حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں :'' میں نے رسول (ص) خدا کی خدمت میں عرض کی : کیا مہدی موعود ہم میں سے ہوگا یا ہمارے غیرمیں سے ؟ فرمایا : ہم میں سے ہوگا _ ان ہی کے ذریعہ خدا دین کو تمام کرے گا جیسا کہ اس کی ابتداء میرے ہاتھ سے ہوئی ہے ، اور ہمارے ذریعہ لوگ فتنوں سے نجات پائیں گے جیسا کہ ہمارے ہی وسیلہ سے شرک سے نجات پائی ہے ہمارے طفیل میں خدا انکے دلوں سے پرانی کدور تین ختم کرے گا جیسا کہ اس نے شرک و بت پرستی کے زمانہ کی دشمنی کے بعد دین میں انھیں باہم مہربان بنادیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئی ہیں '' _(۱)

ابو سعید خدری کہتے ہیں :'' میں نے سنا کہ رسول(ص) نے بالائے منبر سے فرمایا : مہدی موعود میرے اہل بیت سے ہوگا ، آخری زمانہ میں ظہور کرے گا ، آسمان ان کے لئے بارش برسائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی ، وہ زمین کو ایسے ہی عدل و انصاف سے پرکریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی''_(۲)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول (ص) خدا سے سنا کہ آپ (ص) نے فرمایا: '' مہدی میری عترت اور

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۸۴و اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۹۱ و مجمع الزوائد تالیف علی بن ابی بکر ہیثمی ط قاہرہ ج ۷ ص ۱۳۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۷۴و اثبات الہداة ج ۷ ص ۹_

۱۸

اولاد فاطمہ (ع) سے ہوگا ''_ (۱)

رسول خدا (ص) نے فرمایا :'' قائم میری ذریت سے ہوگا، اس کا نام میرا نام ، اس کی کنیت میری کنیت اور اس کی عادت میری عادت ہے _ وہ لوگوں کو میرے دین و مذہب اور کتاب خدا کی طرف بلائے گا_ جس نے اس کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی_ جس نے س کی غیبت کے زمانہ میں اس کا انکار کیا اس نے میرا انکار کیا جس نے اس کی تکذیت کی اس نے میرے تکذیب کی ، جس نے اس کی تصدیق کی اس نے میری تصدیق کی _ او رمیں اسکی تکذیب کرنے والے اور اس کے بارے میں اپنی حدیث کے انکار کرنے والے اور امت کو گمراہ کرنے والے کی خدا سے شکایت کروں گا _ ظالم عنقریب اپنے لئے کا نتیجہ دیکھ لیں گے ''(۲)

ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول (ص) خدا کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ (ع) نے فرمایا : '' میں پیغمبروں کا سردار ہوں اور علی (ع) اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے دو بیٹے بہترین بیٹے ہیں _ ہمارے معصوم ائمہ حسین (ع) کی اولاد سے ہوں گے اور اس امت کا مہدی ہم میں سے ہوگا'' یہ سن کر ایک صحرا نشین شخص اٹھا اور عرض کی :'' اے اللہ کے رسول (ص) آپ (ع) کے بعد کتنے امام ہوں گے ؟ فرمایا: ''جتنے عیسی کے حواری ، بنی اسرائیل کے نقباء اور اسباط تھے''(۳)

حذیفہ نے روایت کی ہے کہ رسول (ص) خدا نے فرمایا :'' میرے بعد اتنے ہی امام ہوں گے جتنے بنی اسرائیل کے نقباء تھے_ ان میں سے نو حسین کی نسل سے ہوں گے او راس امت کا مہدی ہم میں سے ہوگا _ آگاہ ہوجاؤ وہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے _ دیکھو

____________________

۱_ بحار ج ۵۱ ص ۷۵_

۲_ بحار ج ۵۱ ص ۷۳_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۵۱_

۱۹

میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کروگے ''_ (۱)

سعید بن مسیب نے عمر اور عثمان بن عفان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:'' ہم نے رسول (ص) خدا سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہوں گے _ ان میں سے نو حسین (ع) کی اولاد میں سے ہوں گے اور اس امت کا مہدی ہم میں سے ہوگا _ میرے بعد جو بھی ان سے تمسک کرے وہ یقینا خدا کی مضبوط رسی کو تھام لے گا او رجو انھیں چھوڑ دے گا وہ خدا کو چھوڑ دے گا ''_(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۳۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۲۶_

۲۰

احادیث مہدی (عج) اہلسنّت کی کتابوں میں

فہیمی: ہوشیار صاحب احباب جانتے ہیں لیکن آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا تعلق اہل سنّت سے ہے اور شیعوں کی احادیث کے بارے میں آپ کی طرح حسن ظن نہیں رکھتا ہوں میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جب کچھ اسباب کی بناپر شیعہ مہدویت کی داستان کے معتقد ہوگئے تھے اس وقت انہوں نے اپنے عقیدہ کے اثبات کے لئے کچھ حدیثیں گڑھی تھیں اور انھیں پیغمبر (ص) کی طرف منسوب کردیا تھا اور اس احتمال کا ثبوت یہ ہے کہ مہدی سے متعلق حدیثیں صرف شیعوں کی کتابوں میں مرقوم ہیں _ ہماری صحاح میں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ہے _ ہاں ہماری غیر معتبر کتابوں میں مہدی سے متعلق چند حدیثیں مرقوم ہیں _(۱) ہوشیار: اگر چہ بنی امیہ و بنی عباس کے زمانہء حکومت میں عام طور پر ایک مارشل لانافذ تھا، حکومت کی طاقت و سیاست اور مذہبی تعصب کی نباپر اہل بیت کی امامت و ولایت سے متعلق احادیث نہ بیان ہوسکتی تھیں اور نہ کتابوں میں درج ہوسکتی تھیں _ لیکن اس کے باوجود آپ کی احادیث کی کتابوں میں مہدی سے متعلق حدیثیں درج ہیں _ اگر تھکے نہ ہوں تو ان میں سے چند حدیثیں آپ کے سامنے پیش کروں ؟

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام تالیف سعد محمدحسن ، ط مصر سال ۱۳۷۳ ص ۶۹ _ مقدمہ ابن خلدون ط مصر مط محمد ص ۳۱۱_

۲۱

اینجنئر : ہوشیار صاحب آپ سلسلہ جاری رکھیں _

ہوشیار: فہیمی صاحب آپ کی صحاح میں مہدی کے نام سے ایک باب منعقد ہواہے اور اس میں پیغمبر(ص) کی حدیثیں نقل ہوئی ہیں ، بطور مثال:

عبداللہ نے پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: '' دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک عرب کا مالک میرے اہل بیت میں سے وہ شخص نہ ہوگا جس کا نام میرا نام ہے ''(۱)

اس حدیث کو ترمذی اپنی صحیح میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:'' یہ حدیث صحیح ہے اور مہدی کے بارے میں ابو سعید، ام سلمہ اور ابوہریرہ نے بھی روایت کی ہے_''

علی (ع) بن ابی طالب نے روایت کی ہے کہ رسول (ص) نے فرمایا: '' اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی رہے گا تو بھی خداوند عالم اہل بیت میں سے اس شخص کو بھیجے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ''_(۲)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول (ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میری عترت اور فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہوگا ''(۳)

____________________

۱_ صحیح ترمذی ج ۴ باب ماجاء فی المہدی ص ۵۱۵ _ کتاب ینابیع المودة تالیف شیخ سلیمان ط سال ۱۳۰۸ ج۲ ص ۱۸۰_کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف محمد بن یوسف شافعی ط نجف ص ۵۷_ کتاب نور الابصار ص ۱۷۱ _ مشکوة المصابیح ص ۲۷۰_

۲_ صحیح ابی داود ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷ _ البیان ص ۵۹_ کتاب نور الابصار تالیف شبلنجی ص ۱۵۶ _ الصواعق المحرقہ تالیف ابن حجر ط قاہرہ ص ۱۶۱ _ کتاب فصول المہمہ تالیف ابن صباغ ط نجف ص ۲۷۵ _ کتاب اسعاف الراغبین تالیف محمد الصبان _

۳_ صحیح ابی داؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷_ ابوداؤد در این باب ۱۱ حدیث نقل کردہ است _ صحیح ابن ماجہ باب خروج المہدی ج ۲ ص ۵۱۹_الصواعق ص ۱۶۱_ البیان ص ۶۴ _ مشکوة المصابیح تالیف محمد بن عبداللہ خطیب ط دہلی ص ۲۷۰_

۲۲

ابو سعید کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: '' ہمارا کشادہ پیشانی اور اونچی ناک والا مہدی زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی اور سات سال حکومت کرے گا _'' (۱)

حضرت علی (ع) بن ابی طالب نے رسول (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میرے اہل بیت سے ہے ، خداوند عالم ان کے انقلاب کے اسباب ایک رات میں فراہم کردے گا '' _(۲)

ابوسعید نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: ''جب زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی اس وقت میرے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور کرے گا اور ۷ یا ۹ سال حکومت کرے گا اور زمین کو عد ل و انصاف سے پر کرے گا ''_(۳)

ابوسعید نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:'' آخری زمانہ میں میری امت کے سرپر بادشاہ بلائیں اور مصیبتیں لائے گا _ ایسی بلائیں اور ظلم کو جو کبھی سنانہ گیا ہوگا _ میری امت پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوجائے گی اور ظلم وجور سے بھر جائے گی _ مسلمانوں کا کوئی فریاد رس و پناہ دینے والا نہ ہوگا _ اس وقت خداوند عالم میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی _ زمین و آسمان کے مکین اس سے راضی ہوں گے _ اس کے لئے زمین اپنے خزانے اگل دے گی اور آسمان پے درپے بارش برسائے گا _ ۷ یا ۹ سال لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرے گا _ اور زمین والوں پر جو خدا کی رحمتیں اور لطف ہوگا اس کے

____________________

۱_ صحیح ابی داوؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۸ _ فصول المہمہ ص ۲۷۵_ نور الابصار ط مصرص ۱۷۰ _ ینابیع المودة ج ، ص ۱۶۱

۲_ صحیح ابن ماجہ ج ۲ باب خروج المہدی ص ۵۱۹ _ اس باب میں ۷ حدیثیں ذکر ہوئی ہیں _ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱

۳_ مسند احمد ج ۳ ص ۲۸ باب مسند ات ابی سعید الخدری میں مہدی کے بارے ایک حدیث ذکر ہوئی ہے _ ینابع المودة ج ۲ ص ۲۲۷

۲۳

پیش نظر مرد ے زندگی کی آرزو کریں گے(۱)

ایسی ہی اور احادیث بھی کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن اثبات مدعا کیلئے اتنی ہی کافی ہیں _

ایک صاحب قلم کا اعتراض

فھیمی : المہدیہ فی الاسلام کے مؤلف نے تحریر کیا ہے : محمد بن اسماعیل بخاری اور مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی صحاح میںمہدی سے متعلق احادیث درج نہیں کی ہیں جبکہ صحاح میں معتبر ترین ، نہایت احتیاط و تحقیق کے ساتھ ان میں احادیث جمع کی گئی ہیں ، ہاں سنن ابی داؤد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ایسی احادیث جن کے منقولات میں زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیا گیا ہے _ چنانچہ منجملہ دوسرے علما کے ابن خلدون نے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۲_

ابن خلدون اور احادیث مہدی (عج)

ہوشیار: موضوع کی وضاحت کے لئے بہتر ہے کہ میں آپ کے سامنے ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ پیش کروں _ ابن خلدون اپنے مقدمہ لکھتے ہیں:سارے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانے میں پیغمبر اسلام کے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور

____________________

۱_ من خیرہ البیان ص ۷۲_ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱ _ ینابیع ج ۲ ص ۱۷۷_

۲_ کتاب المہدیہ فی الاسلام ص ۶۹_

۲۴

کرے گا ، دین کی حمایت کرے گا اور عدل و انصاف کو فروغ دیگا اور سارے اسلامی ممالک اس کے تسلّط آجائیں گے _ ان (مسلمانوں) کا مدرک وہ احادیث ہیں جو کہ علماء کی ایک جماعت ، جیسے ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، حاکم ، طبرانی اور ابویعلی موصلی کی کتابوں میں موجود ہیں _ لیکن مہدی (عج) کے منکروں نے ان احادیث کے صحیح ہونے میں شک کا اظہار کیا ہے پس ہمیں مہدی سے متعلق احادیث اور ان سے متعلق منکرین کے اعتراضات و طعن کو بیان کرنا چاہئے تا کہ حقیقت روشن ہوجائے_ لیکن اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ، اگر ان احادیث کے راویوں کے بارے میں کوئی جرح و قدح ہو تو اصل حدیث ہی غیر معتبر ہوجاتی لیکن ان کے راویوں کے بارے میں عدالت و وثاقت بھی وارد ہوئی ہے تو مشہور ہے کہ ان کا ضعیف ہونا اور ان کی بدگوئی عدالت پر مقدم ہے _ اگر کوئی شخص ہمارے اوپر یہ اعتراض کر ے کہ یہی عیب بعض ان لوگوں کے بارے میں بھی سامنے آتا ہے جن سے بخاری و مسلم میں روایات لی گئی ہیں وہ طعن و تضعیف سے سالم نہ رہ سکیں تو ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ ان دو کتابوں کی احادیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں علماء کا اجماع ہے اور یہ مقبولیت ان کے ضعف کاجبران کرتی ہے لیکن دوسری کتابیں ان کے پایہ کی نہیں ہیں '' (۱)

یہ تھا ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ ، اس کے بعد انہوں نے احادیث کے راویوں کی توثیق و تضعیف سے بحث کی ہے _

تواتر احادیث

ہمارا جواب : اول تو اہل سنّت کے بہت سے علما نے ، مہدی (عج) سے متعلق احادیث کو

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۱_

۲۵

متواتر جانا ہے _ یا ان کے تواتر کو دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان پر اعتراض نہیں کیا ہے ، مثلاً : ابن حجر ہیثمی نے '' صواعق محرقہ میں'' شبلنجی نے '' نور الابصار '' میں ، ابن صباغ مالکی نے ''فصول المہمہ'' میں، محمد الصبان نے '' اسعاف الراغبین'' میں ،کجی شافعی نے '' البیان'' میں ، شیخ منصور علی نے '' غایة المامول'' میں ، سویدی نے '' سبائک الذہب'' میں ا ور دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو متواتر قرار دیا ہے اور یہی تواتر ان کی سند کے ضعف کا جبران کرتا ہے _

عسقلانی لکھتے ہیں:'' خبر متواتر سے یقین حاصل ہوجاتا ہے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی ہے '' _(۱)

شافعی فرقہ کے مفتی سید احمد شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ : جو احادیث مہدی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ معتبر ہیں ، ان میں سے بعض احادیث صحیح ، بعض حسن اور کچھ ضعیف ہیں ،اگر چہ ان میں اکثر ضعیف ہیں لیکن چونکہ بہت زیادہ ہیں اور ان کے راوی اور لکھنے والے بھی زیادہ ہیں اس لئے بعض احادیث بعض کی تقویت کرتی ہیں اور انھیں مفید یقین بنادیتی ہیں _(۲)

مختصر یہ کہ عظیم صحابہ کی ایک جماعت ، عبدالرحمن بن عوف، ابو سعید خدری ، قیس بن صابر ، ابن عباس ، جابر ، ابن مسعود ، علی بن ابی طالب ، ابوہریرہ ، ثوبان ، سلمان فارسی ، ابوامامہ ، حذیفہ ، انس بن مالک اور ام سلمہ اور دوسرے گروہ نے بھی مہد ی سے

____________________

۱_ نزہتہ النظر مؤلفہ احمد بن حجر عسقلانی طبع کراچی ص ۱۲_

۲_ فتوحات الاسلامیہ طبع مکہ ج ۲ ص ۲۵۰_

۲۶

متعلق احادیث کو نقل کیا ہے اور ان حدیثوں کو علماء اہل سنّت نے لکھا ہے _

مثلاً ، ابوداؤد احمد بن حنبل ، ترمذی ، ابن ماجہ ، حاکم نسائی ، روبانی ، ابو نعیم ، جکرانی ، اصفہانی ، دیلمی، بیہقی ، ثعلبی ، حموینی ، منادی ، ابن مغازلی ، ابن جوزی ، محمد الصبان مارودی ، کنجی شافعی ، سمعانی ،خوارزمی ، شعرانی ،دار قطنی ، ابن صباغ مالکی ، شبلنجی ، محب الدین طبری ، ابن حجر ہیثمی ، شیخ منصور علی ناصف ، محمد بن طلحہ ، جلال الدین سیوطی ، سلیمان حنفی ، قرطبی ، بغوی اور دوسرے لوگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے _(۱)

ہر جگہ تضعیف مقدم نہیں ہے _

دوسرے جن افراد کو ضعیف قرار دیا گیا ہے اور ابن خلدون نے ان کے نام تحریر کئے ہیں _ ان کے بارے میں بعض توثیقات بھی وارد ہوئی ہیں کہ جن سے بعض کو خود ابن خلدون نے نقل کیا ہے اور پھر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہر جگہ بطور مطلق تضعیف کو تعدیل پر مقدم کیا جائے ، ممکن ہے ضعیف قراردینے والے کے نزدیک کوئی مخصوص صفت ضعف کا سبب ہو لیکن دوسرے اس صفت کو ضعف کا سبب نہ سمجھتے ہوں _ پس کسی راوی کو ضعیف قراردینے والے کا قول اس وقت معتبر ہوگا جب اس کے ضعف کی وجہ بیان کرے _

عسقلانی اپنی کتاب ، لسان المیزان میں لکھتی ہیں :'' تضعیف تعدیل پر اسی صورت میں مقدم ہوسکتی ہے کہ جب اس کے ضعف کی علت معین ہو اس کے علاوہ ضعیف قراردینے

____________________

۱_ یہ تھے اہل سنّت کے ان علما کے نام جنہوں نے مہدی سے متعلق احادیث کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور ان کی کتابیں رائج تھیں لیکن ان سب کی کتابیں دست رس میں نہیں تھیں ، لہذا دوسری کتابوں سے نقل کیا ہے _ مہدی خراسانی نے کتاب البیان پر بہترین مقدمہ لکھا ہے اس میں علمائے اہل سنّت کے ۷۲ نام لکھے ہیں _

۲۷

والے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بغدادی کہتے ہیں کہ:'' جن احادیث سے بخاری ، مسلم اور ابوداؤد نے تمسک کیا ہے _ باوجودیکہ اان میں سے بعض راویوں کو ضعیف اور مطعون قرار دیا گیا ہے ان کے بارے میں یہ کہنا چاہئے کہ ان حضرات کے نزدیک ان (راویوں کا ) ضعیف و مطعون ہونا ثابت نہیں تھا '' _(۱)

خطیب لکھتے ہیں کہ :'' اگر تضعیف و تعدیل دونوں برابر ہوں تو تضعیف مقدم ہے _ لیکن اگر تضعیف تعدیل سے کم ہو تو اس سلسلے میں کئی قول ہیں _ بہترین قول یہ ہے کہ تفصیل کے ساتھ یہ کہا جائے کہ اگر ضعف کا سبب بیان ہوا ہے تو ہماری نظر میں مؤثر ہے اور تعدیل پر مقدم ہے لیکن سبب بیان نہ ہونے کی صورت میں تعدیل مقدم ہے ''(۲)

مختصر یہ کہ ہر جگہ تعدیل کو بطور مطلق تضعیف پر مقدم نہیں کیا جا سکتا _ اگر یہ مسلم ہو کہ ہر قسم کی تضعیف موثر ہے تو طعن وقدح سے بہت ہی مختصر حدیثیں محفوظ رہیں گی _ اس سلسلے میں نہایت احتیاط اور کوشش و سعی کرنا چاہئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے _

شیعہ ہونا تضعیف کا سبب

راوی کے ضعیف ہونے کے اسباب میں سے ایک اس کا شیعہ ہونا بھی شمار کیا گیا ہے مثلاً ابن خلدون نے قطن بن خلیفہ جو کہ مہدی سے متعلق احادیث کا ایک راوی ہے ، کو شیعہ ہونے کے جرم میں غیر معتبر قراردیا ہے اور اس کے بارے میں تحریر کیا ہے :

____________________

۱_ لسان المیزان مؤلفہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی طبع اول ج ۱ ص ۲۵_

۲_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۵_

۲۸

''عجلی کہتا ہے : قطن حدیث کے اعتبار سے بہت اچھا ہے لیکن تھوڑا سا شیعیت کی طرف نائل ہے '' _

احمد بن عبداللہ بن یونس لکھتا ہے :'' میں نے قطن کو دیکھا لیکن اسے کتّے کی طرح چھوڑکر نکل آیا ''_ ابوبکر بن عیاش لکھتا ہے : میں نے قطن کی احادیث کو صرف اس کے مذہب کے فاسد ہونے کی بناپر چھوڑدیا ہے''_

جبکہ احمد ، یحیی بن قطاف ، ابن معین ، نسائی اور دوسرے لوگوں نے اسکی توثیق کی ہے _(۱)

اس کے بعد ابن خلدن ان احادیث کے راوی ہارون کے بارے میں لکھتا ہے : ''ہاروں شیعہ اولاد سے تھا''_(۲) ایک گروہ نے ان احادیث کے راوی یزید بن ابی زیاد کو مجمل انداز میں ضعیف قراردیا ہے اور بعض نے ان کے ضعف کی وضاحت کی ہے چنانچہ محمد بن فضیل ان کے متعلق لکھتا ہے :'' وہ سربرآوردہ شیعوں میں سے ایک تھے اور ابن عدی کہتے ہیں :'' وہ کوفہ کے شیعوں میں سے تھے''(۲)

ابن خلدون عمار ذہبی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :'' اگر چہ احمد ، ابن معین ، ابوحاتم ، نسائی اور بعض دوسرے افراد نے عمار کی توثیق کی ہے لیکن بشر بن مروان نے شیعہ ہونے کی بناپر انھیں قبول نہیں کیا ہے''_(۴)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۳_

۲_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۴_

۳_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۸_

۴_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۹_

۲۹

عبدالرزاق بن ہمام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : '' انہوں نے فضائل اہل بیت میں حدیثیں نقل کی ہیں اور شیعہ مشہور ہیں '' _(۱)

عقیدہ کا اختلاف

ایک اور چیز جو اکثر راوی کی تضعیف کا سبب ہوتی ہے اور جس سے وہ نیک اور سچے کو بھی متہم کردیتے ہیں اور ان کی حدیثوں کو رد کردیتے ہیں وہ عقیدہ کا اختلاف ہے _ مثلاً اس زمانہ میں ایک حساس اور قابل تفتیش و متنازع موضوع خلق قرآن کا شاخسانہ تھا ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ قرآن مخلوق نہیں ہے بلکہ قدیم ہے دوسرا کہتا تھا قرآن مخلوق وحادث ہے _ ان دونوں گروہوں کی بحث و کشمکش اور جھگڑے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک نے دوسرے کو کافر تک کہنا شروع کردیا _ چنانچہ احادیث کے راویوں کی ایک بڑی جماعت کو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کے جرم میں ضعیف وکافر قراردیدیاگیا _

صاحب ''اضواء علی السنة المحمدیہ '' لکھتے ہیں : علما نے راویان احادیث کی ایک جماعت ،جیسے ابن الحصیعہ ، کو کافر قراردیدیا _ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ قران کو مخلوق کہتا تھا _ اس سے بھی بڑھ کر محاسبی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :'' انہوں نے اپنے باپ کی میراث سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا: دو متفرق مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے ، مجھے والد کی میراث نہیں چاہئے _ میراث سے انکار کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد واقفی تھے یعنی قرآن کے مخلوق ہونے یا مخلوق نہ ہونے کے سلسلے میں متردد تھے _(۲)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۰_

۲_ اضواء علی سنة المحمدیہ طبع اول ص ۳۱۶_

۳۰

جیسا کہ شدید مذہبی تعصب اور عقیدوں کا اختلاف اس بات کا سبب ہوا کہ وہ لوگوں کی سچائی اور امانت داری کو نظر انداز کردیں اور ان کی احادیث کو مسترد کردیں _ اسی طرح مذہب و عقیدے کے اتحاد کی وجہ سے لوگ اپنے ہم مسلک افراد کے جرائم اور برائیوں سے چشم پوشی کرنے اور ان کی تعدیل و توثیق کا باعث ہوا مثلا عجلی ، عمر و بن سعد کے بارے میں کہتا ہے : وہ موثق تابعین میں سے تھے اور لوگ ان سے روایت کرتے تھے _ جبکہ عمرو بن سعد حسین بن علی یعنی جوانان جنت کے سردار رسول خدا کے پارہ دل کا قاتل تھا''_ (۱)

اسی طرح بسر بن ارطاة ایسے _ کہ جس نے معاویہ کے حکم سے ہزاروں بے گناہ شیعوں کو قتل کیا تھا اور جانشین رسول خدا حضرت علی بن ابی طالب کو کھلم کھلا برا بھلا کہتا تھا _ نجس انسان کو اس ننگ وعارکے باوجود مجتہد اور قابل درگزر قراردیتے ہی _(۲)

عتبہ بن سعید کے بارے میں یحیی بن معین کہتا ہے وہ ثقہ ہیں ،نسائی ، ابوداؤد اور دارقطنی نے بھی اسے ثقہ جانا ہے جبکہ عتبہ حجاج بن یوسف جیسے ظالم شخص کا مددگار تھا _ بخاری نے اپنی صحیح میں مروان بن حکم سے روایات نقل کی ہیں اور اس پر اعتماد کیا ہے _ حالانکہ جنگ جمل کے شعلے بھڑ کانے والوں میں سے ایک مروان بھی تھا اور حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے کیلئے طلحہ کو برا نگیختہ کیا تھا _ اور پھر اثنائے جنگ میں انھیں قتل کرد یا تھا _(۳)

____________________

۱_ اضواء علی سنة ص ۳۱۹

۲_ اضواء علی سنة ص ۳۲۱

۳_ اضواء علی سنة ص ۳۱۷

۳۱

یہ باتیں مثال کے طور پر لکھی گئی ہیں تا کہ قارئین مصنفّین کے طرز فکر ، فیصلہ کے طریقے اور عقیدہ کے اظہار سے آگاہ ہو جائیں اور یہ جان لیا کہ محبت و بغض اور تعصب نے انھیں کس منزل تک پہنچادیا ہے _

اضواء کے مولف لکتھے ہیں کہع ذرا ان علما کے فیصلہ کو ملا حظہ فرمائیں اور غور کریں کہ اس نے اس شخص کی توثیق کردی جو علی(ع) کی شہادت پر راضی ، طلحہ کا قاتل اور حسین بن علی (ع) کی شہادت کاذمہ دارتھا _ لیکن اس کے بر خلاف بخاری اور مسلم جیسے لوگوں نے امت کے علماء و حافظوں جیسے حماد بن مسلمہ اور مکحول ایسے عابد وزاہد کورد کردیا ہے _(۱)

مختصر یہ کہ جو شخص اہل بیت اور حضرت علی(ع) کے فضائل میں یا شیعوں کے عقیدہ کے مطابق کوئی حدیث بیان کرتا تھا تو متعصب لوگ اس کی حدیث کی صحت کو مخدوش بنادتیے تھے اور سر کاری طور پر اس کی حدیثوں کے مردود ہونے کا اعلان کردیا جاتا تھا اور اگر کسی شخص کا شیعہ ہونا ثابت ہو جاتا تھا تو اس کے لئے بغض دعناد اور اس کی حدیث کو ٹھکرانے کیلئے اتنا ہی کافی ہوتا تھا _ اگر آپ جریر کے کلام میں غور کریں تو عامة المسلمین کے تعصب کا اندازہ ہوجائے گا ، جریر کہتے ہیں : میں نے جابر جعفی سے ملاقات کی لیکن ان سے حدیثیں نہیں لی ہیں کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے _(۲)

بے جا تعصّب

غرض مندی اور بے جا تعصب تحقیق کے منافی ہے _ جو شخص حقائق کی تحقیق کرنا

____________________

۱_ اضواء ص ۳۱۹_

۲_ صحیح مسلم ج ۱ ص ۱۰۱_

۳۲

چاہتا ہے اسے تحقیق سے پہلے خود کو بغض و عناد اور بے جا تعصب سے آزاد کرلینا چاہئے ، اور اس کے بعد غیر جانبدار ہو کر مطالعہ کرنا چاہئے _ اگر تحقیق کے دوران کوئی چیز حدیث کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے تو اس حدیث کے راویوں کی وثاقت سے بحث کرے ، اگر ثقہ ہیں تو ان کی روایتوں پر اعتماد کرے ، خواہ سنّی ہوں یا شیعہ ، یہ بات طریقہ تحقیق کے خلاف ہے کہ ثقہ راویوں کی احادیث کو شیعہ ہونے کے الزام میں رد کردیا جائے _ عامة المسلمین سے منصف مزاج حضرات اس بات کی طرف متوجہ رہے ہیں _

عسقلانی لکھتے ہیں : جن مقامات پر تضعیف کرنے والے قول پر توقف کرنا چاہئے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تضعیف کرنے والے اور جس کی تضعیف کی گئی ہے ان کے درمیان عقیدہ کا اختلاف اور عدالت و دشمنی ہو مثلاً ابو اسحاق جوزجانی ، ناصبی تھا اور کوفے والے شیعہ مشہور تھے _ اس لئے اس نے ان کی تضعیف میں توقف نہیں کیا اور سخت الفاظ میں انھیں ضعیف قراردیتا تھا _ یہاں تک کہ اعمش ، ابو نعیم اور عبیداللہ ایسے احادیث کے ارکان کو ضعیف قراردیدیا ہے _ قشیری کہتے ہیں :'' لوگوں کی اغراض و خواہشیں آگ کے گڑھے ہیں _ اگر ایسے موارد میں راوی کی توثیق وارد نہ ہوتی ہو تو تضعیف مقدم ہے '' _(۱)

ابان بن تغلب کے حالات لکھنے کے بعد محمد بن احمد بن عثمان ذہبی لکھتے ہیں اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ بدعتی ہونے کے باوجود تم ابان کی توثیق کیوں کرتے ہو تو ہم جواب دیں گے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ، ایک چھوٹی بدعت ہے جیسے تشیع میں غلو ،

____________________

۱_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۶_

۳۳

یا تشیع بغیر انحراف _ البتہ تابعین اور تبع تابعین میں ایسی بدعت رہی ہے اس کے باوجود ان کی سچائی ، دیانت داری اور پرہیزگاری باقی رہی اگر ایسے افراد کی احادیث رد کرنا ہی مسلم ہے تو نبی (ص) کی بے شمار حدیثیں رد ہوجائیں گی اوراس بات میں قباحت ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے _ دوسری قسم بدعت کبری ہے یعنی مکمل رافضی _ رافضیت میں غلو اورابوبکر و عمر کی بدگوئی _ البتہ ایسے راویوں کی حدیثوں کو رد کردینا چاہئے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے _ (۱)

مختصر یہ کہ ان تضعیفات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے بلکہ بھر پور کوشش اور چھان بین سے راوی کی صلاحیت اور عدم صلاحیت کا سراغ لگانا چاہئے _

بخاری و مسلم اور احادیث مہدی (عج)

چوتھے یہ کہ اگر کوئی حدیث بخاری و مسلم میں نہ ہو تو یہ اس کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ بخاری و مسلم کے مؤلفوں کا مقصد تمام حدیثوں کو جمع کرنا نہیں تھا _

دار قطنی لکھتے ہیں ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جنھیں بخاری و مسلم نے اپنی صحاح میں نقل نہیں کیا ہے جبکہ ان کی سند بالکل ایسی ہے جیسی ان احادیث کی ہے جو انھوں نے نقل کی ہیں _

بیہقی لکھتے ہیں : مسلم و بخاری کا ارادہ تمام حدیثوں کو جمع کرنے کا نہیں تھا _ اس بات کی دلیل وہ احادیث ہیں جو کہ بخاری میں موجود ہیں لیکن مسلم نہیں اور مسلم میں ہیں بخاری میں نہیں ہیں _(۲)

____________________

۱_ میزان الاعتدال ج ۱ ص ۵_

۲_ صحیح مسلم بشرح امام نووی ج ۱ ص ۲۴_

۳۴

اور جیسا کہ مسلم نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صرف صحیح حدیثوں کو نقل کیا ہے تو ابوداؤد بھی اسی کے مدعی ہیں _

ابوبکر بن داسہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ : میں نے اپنی کتاب میں چارہزار آٹھ سو حدیثیں لکھی ہیں جو کہ سب صحیح یا صحیح کے مشابہ ہیں _

ابوالصباح کہتے ہیں کہ ابوداؤد سے نقل ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے صرف صحیح یا صحیح سے مشابہ احادیث نقل کی ہیں اور اگر کوئی حدیث ضعیف تھی تو میں نے اس کے ضعف کا بھی ذکر کردیا ہے پس جس حدیث کے بارے میں ، میں نے خاموشی اختیار کی ہے اسے معتبر سمجھنا چاہئے _

خطابی کہتے ہیں : سنن ابی داؤد ایک گراں بہا کتا ب ہے ، اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جو کہ مسلمانوں میں مقبول ہو جسے عراق ، مصر ، مغرب اور دوسرے علاقے کے علما میں مقبولیت حاصل ہوئی ہو _(۱) مختصر یہ کہ بخاری اور مسلم اور دوسری کتابوں کی احادیث اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ ان کی صحت و ضعف سے باخبر ہونے کیلئے ان کے راویوں کی تحقیق کی جائے _

پانچویں یہ کہ بخاری و مسلم ، جن کی احادیث کی صحیح ہونے کا آپ کو اعتراف ہے ، میں بھی مہدی سے متعلق احادیث موجود ہیں اگر چہ ان میں لفظ مہدی نہیں آیا ہے ، منجملہ ان کے یہ حدیث ہے:

پیغمبر :(ص) نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسی بن مریم نازل ہوں گے

____________________

۱_ مقدمہ سنن ابی داؤد

۳۵

جبکہ تمہارا امام خود تم ہی سے ہوگا _

ضروری وضاحت

ابن خلدون کے بارے میں یہ بات کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ مہدی (ع) سے متعلق احادیث کو کلی طور پر قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں قابل رد سمجھتے ہیں کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اس عالم نے یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانہ میں پیغمبر (ص) کے اہل بیت میں سے ایک شخص اٹھے گا اور عدل و انصاف قائم کرے گا _ اجمالی طور پر یہاں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مہدی (ع) موعود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا _ دوسرے یہ کہ راویوں کے بارے میں رد وقدح اور جرج و تعدیل کے بعد لکھتے ہیں :

''مہدی موعود کے بارے میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان میں سے بعض کے علاوہ سب مخدوش ہیں '' _ یہاں بھی ابن خلدون نے کلی طور پر مہدی سے متعلق احادیث کو قابل رد ہیں جانا ہے بلکہ ان میں سے بعض کی صحت کا اعتراف کیا ہے _

تیسرے یہ کہ مہدی موعود سے متعلق احادیث انھیں روایتوں میں منحصر نہیں ہیں جن پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں جرح و تعدیل کی ہے بلکہ شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں اور بھی بہت سی متواتر و یقین آور احادیث موجود ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ابن خلدون کی دست رس میں ہوتیں تو وہ مہدی موعود کے عقیدہ جو کہ مذہبی بنیادوں پر استوار ہے ، جس کا سرچشمہ وحی ہے ، کے بارے میں کبھی شک نہ کرتے مذکورہ مطالب سے اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ ابن خلدون نے مہدی سے متعلق احادیث

۳۶

کو قطعی قبول نہیں کیا ہے _ ایسا نظریہ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ''دیگ سے زیادہ چمچا گرم ہے _

ابن خلدون اس بحث کے خاتمہ پر لکھتے ہیں :'' ہم نے پہلے ہی یہ بات ثابت کردی ہے کہ جو شخص انقلاب لانا چاہتا ہے اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتا ہے اور طاقت جمع کرکے حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے مقصد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب اس کے قوم قبیلے والوں کی اکثریت ہو اور خلوص کے ساتھ اس کی حمایت کرتے ہوں اور مقصد کے حصول کے سلسلے میں اس کے مددگار ہوں دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خاندانی تعصب کی بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں _ اس کے علاوہ کامیابی ممکن نہیں ہے _ مہدی موعود کے عقیدہ کے سلسلے میں بھی یہ مشکل پیدا ہوتی ہے کیونکہ فاطمیین بلکہ طائفہ قریش ہی پراگندہ اور منتشر ہوگیا ہے اور اب ان میں خاندانی تعصب باقی نہیں رہا ہے بلکہ اس کی جگہ دوسرے تعصبات نے لے لی ہے ، ہاں حجاز و ینبع میں حسن (ع) و حسین(ع) کی اولاد میں سے کچھ لوگ آباد ہیں جن کے پاس طاقت ور سوخ ہے البتہ وہ بھی صحرا نشین ہیں جو کہ مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے ہیں، پھر ان کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں ہے _ لیکن اگر ہم مہدی موعود کے عقیدہ کو صحیح مان لیں تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ مہدی انھیں میں سے ظاہر ہوں گے اور ان لوگوں میں بھی اتفاق و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور وہ قومی تعصب کی بناپر ان کی حمایت کریں گے اور مقصد کے حصول کی وجہ سے ان کی مدد کریں گے ، اس لحاظ سے تو ہم مہدی (ع) کے ظہور اور ان کے انقلاب و تحریک کا تصور کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ممکن نہیں ہے _(۱)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۷_

۳۷

جواب

اس بات کے جواب میں کہنا چاہئے کہ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی انقلاب برپا کرنا چاہتاہے _ طاقت جمع کرنا چاہتا ہے ، حکومت تشکیل دینا چاہتا ہے تووہ اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے ایک گروہ سنجیدگی سے اس کی مدد وحمایت کرے ، مہدی موعود اور ان کے عالمی انقلاب کیلئے بھی یہی شرط ہے _ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ان کی حمایت کرنے والے صرف علوی سادات اور قریش ہوں گے _ کیونکہ اگر ان کی حکومت قوم و قبیلے کی حدتک محدود ہوتی تو ان کے طرف دار قوم و قبیلے کے لحاظ سے ان کی مدد کرتے جیسا کہ طوائف الملوکی کے زمانہ میں اسی نہج سے حکومتیں قائم ہوتی تھیں ، بلکہ یہ عام بات ہے کہ جو حکومت محدود اور خاص عنوان کے تحت قائم ہوتی ہے تو اس کے حمایت کرنے والے بھی محدود ہوتے ہیں خواہ وہ حکومت قومی ملکی ، اقلیمی یا مکتبی و مقصدی ناقص ہے _

لیکن اگر کوئی کسی خاص مقصد اور منصوبہ کے تحت حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس اس منصوبہ اور مقصد کے ہمنواؤں کا ہونا ضروری ہے _ اس کی کا میابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک گروہ اس منصوبہ کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اور اسے عملی جامہ پہنا نے کیلئے سنجیدگی سے جدو جہد کرتا ہو اور مقصد کے حصول کے سلسے میں اپنے قائد کی حمایت کرتا ہو اور قربانی دینے سے دریغ نہ کرتا ہو _ مہدی موعود کی عالمی حکومت بھی ایسی ہی ہے _ ان کا منصوبہ بھی عالمی ہے وہ بشریت کو جو کہ تیزی کے ساتھ مادیت کی طرف بڑ ھ رہی ہے اور الہی قوانین سے رو گرداں ہے _ آپ اسے

۳۸

الہی احکام اور منصوبہ کی طرف متوجہ کریں گے اور اس دقیق منصوبہ کونا فذ کر کے اس کی مشکلیں حل کریں گے _ بشریت کے ذہن سے موہوم سرحدوں کو ، جو کہ اختلاف و کشمکش کا سر چشمہ ہیں باہر نکال کراسے توحید کے قومی پرچم کے نیچے جمع کریں گے _ آپ دین اسلام اور خدا پرستی کو عالمی بنائیں گے _ اسلام کے حقیقی قوانین نافذ کر کے ظلم و بیداد گری کا قلع قمع کریں گے _ اور پوری کائنات میں عدل و انصاف اور صلح و صفا پھیلائیں گے _

ایسی عظیم تحریک اور عالمی انقلاب کی کامیابی کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حجاز اور مدینہ کے اطراف میں بکھر ے ہوئے علوی سادات کافی ہیں _ بلکہ اس کیلئے تو عالمی تیاری ضروری ہے _ مہدی موعود کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب غیبی تائید کے علاوہ ایک طاقت ور گروہ وجود میں آئے جو کہ خداکے قوانین اور منصوبہ کودرک کر ے _ اور دل و جان سے اس کے نفاذکی کوشش کرے _ ایسے عالمی انقلاب کے اسباب فراہم کرے اور انسانی مقاصدکی تکمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے _اس صورت میں اگر انہیں معصوم اور قوی و جری قائد مل جائے ، کہ جس کے ہا تھ میں الہی قوانین و احکام ہوں اور تائید غیبی اس کے شامل حال ہو ، تو وہ لوگ اس کی حمایت کریں گے اور عدل و انصاف کی حکومت کی تشکیل میں فدا کاری کا ثبوت دیں گے _

عقیدہ مہدی مسلم تھا

مہدی موعود سے متعلق رسول(ع) خدا کی بہت سی حدیثیں شیعہ اور اہل سنت نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں _ ان میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مہدی اور قائم کا موضوع پیغمبر اسلام کے زمانہ میں مسلم تھا چنانچہ لوگ ایسے شخص کے

۳۹

منتظر تھے جو حق ، خدا پرستی کی ترویج ، اصلاح کائنات اور عدل کیلئے قیام کرے یہ عقیدہ لوگوں میں اتنا شہرت یافتہ تھا کہ وہ اس کی اصل کو مسلّم سمجھتے تھے اور اس کی فروع سے بحث کرتے تھے _ کبھی وہ یہ سوچتے تھے کہ مہدی موعود کس کی نسل سے ہوں گے ؟ کبھی آپ (ع) کی کنیت و نام کے بارے میں استفسار کرتے تھے ؟ کبھی یہ سوال کرتے تھے آپ (ع) کا نامہدی کیوں ہے ؟ کبھی آپ (ع) کے انقلاب اور ظہور کے زمانے اور اس کی علامتوں کے بارے میں سوال کرتے تھے _ کبھی غیبت کی وجہ اور غیبت کے زمانہ میں اپنے فرائض دریافت کرتے تھے کبھی پوچھتے تھے ، کیا مہدی قائم ایک ہی شخص ہے یا د و اشخاص ہیں؟ پیغمبر اسلام بھی گاہ بگاہ آپ (ع) کے متعلق خبردیا کرتے تھے ، فرماتے تھے: مہدی میری نسل اور فاطمہ (ع) کے فرزند حسین(ع) کی اولاد سے ہوگا _ کبھی آپ کے نام اور کنیت سے آگاہ کرتے تھے اور کبھی آپ کی علامتیں اور خصوصیات بیان فرماتے تھے_

صحابہ اور تابعین کی بحث و گفتگو

رسول اکرم کی وفات کے بعد بھی صحابہ اور تابعین کے درمیان مہدی موعود کا عقیدہ مسلّم تھا اور اس سلسلے میں وہ بحث و گفتگو کیا کرتے تھے_ اس گروہ کے چند افراد یہ ہیں:

ابوہریرہ کہتے ہیں : رکن و مقام کے درمیان مہدی کی بیعت ہوگی _(۱)

ابن عباس معاویہ سے کہا کرتے تھے: آخری زمانہ میں ہمارے خاندان میں سے ایک شخص چالیس سال خلیفہ رہے گا _(۲)

____________________

۱_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص ۴۶_

۲_ الملاحم و الفتن ص ۶۳_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455