آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181590 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ہوجائیں _(۱)

اگر امام حسن عسکر ی کی رحلت کے بعد ہی مکمل غیت واقع ہوجاتی تو امام زمانہ کے مقدس وجود ہی سے لوگ غافل رہتے اور رفتہ رفتہ فراموش کردیتے _ اس لئے غیبت صغری سے ابتداء ہوئی تا کہ شیعہ اس زمانہ میں اپنے امام سے نائبوں کے ذریعہ رابطہ کریں اور ان کی علامتوں اور کرامات کو مشاہدہ کریں اور اپنے ایمان کی تکمیل کریں جب خیالات مساعد اور کامل آمادگی ہوگئی تو غیبت کبری کا آغاز ہوا _

کیا غیبت کبری کی انتہا ہے؟

انجینئر: کیا غیبت کبری کی کوئی حد معین ہے؟

ہوشیار : کوئی حد تو معین نہیں ہے _ لیکن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت اتنی طویل ہوگی کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

امیر المؤمنین نے حضرت قائم کے بارے میں فرمایا:

'' ان کی غیبت اتنی طویل ہوگی کہ جاہل کہے گا : خد ا کو رسول (ص) کے اہل بیت کی احتیاج نہیںہے ''_(۲)

____________________

۱_ اثبات الوصیہ ص ۲۰۶_

۲_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۹۳_

۱۸۱

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''قائم (ع) میں جناب نوح (ع) کی ایک خصوصیت پائی جائیگی اور وہ ہے طول عمر ''(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۲۱۷_

۱۸۲

فلسفہ غیبت

انجینئر: اگر امام ظاہر ہوتے اور لوگ ضرورت کے وقت آپ کی خدمت میں پہنچ کر اپنی مشکلیں حل کرتے تو یہ ان کے دین اور دنیا کیلئے بہتر ہوتا _ پس غیبت کیوں اختیار کی؟

ہوشیار: اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اگر مانع نہ ہوتا تو آپ کا ظہور زیادہ مفید و بہتر تھا _ لیکن چونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ خداوند عالم نے اس مقدس وجود کو آنکھوں سے پنہاں رکھا ہے اور خدا کے افعال نہایت ہی استحکام اور مصلحت و اقع کے مطابق ہوتے ہیں _ لہذا امام کی غیبت کی بھی یقینا کوئی وجہ ہوگی _ اگر چہ ہمیں اس کی تفصیل معلوم نہیں ہے ، درج ذیل حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی بنیادی سبب لوگوں کو نہیں بتایا گیاہے ، صرف ائمہ اطہار علیہم السلام کو معلوم ہے _

عبداللہ بن فضل ہاشمی کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر کیلئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ گمراہ لوگ شک میں مبتلا ہوجائیں گے'' _ میں نے عرض کی ، کیوں ؟ فرمایا: ''ہمیں اس کی علّت بیان کرنے کی اجازت نہیں ہے'' _ اس کا فلسفہ کیا ہے؟ وہی فلسفہ جو گزشتہ

۱۸۳

حجت خدا کی غیبت میں تھا _ لیکن اس کی حکمت ظہور کے بعد معلوم ہوگی _ بالکل ایسے ہی جیسے جناب خضر(ع) کی کشتی میں سوراخ ، بچہ کے قتل اور دیوار کو تعمیر کرنے کی جناب موسی کو جدا ہوتے وقت معلو م ہوئی تھی _ اے فضل کے بیٹے غیبت کا موضوع سرّ ی ہے _ یہ خدا کے اسرار اور الہی غیوب میں سے ایک ہے _ چونکہ ہم خدا کو حکیم تسلیم کرتے ہیں _ اس لئے اس بات کا بھی اعتراف کرنا چاہئے کہ اس کے امور حکمت کی روسے انجام پاتے ہیں _ اگر چہ اسکی تفصیل ہم نہیں جانتے ''_(۱)

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ غیبت کی اصلی علت و سبب اسلئے بیان نہیں ہوئی ہے کہ لوگوں کو بتانے میں صلاح نہیں تھی یا وہ اس کے سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے _

فائدہ اول: امتحان و آزمائشے _ تا کہ جن لوگوں کا ایمان قوی نہیں ہے انکی باطنی حالت ظاہر ہوجائے اور جن لوگوں کے دل کی گہرائیوں میں ایمان کی جڑیں اتر چکی ہیں ، غیبت پر ایمان ، انتظار فرج اور مصیبتوں پر صبر کے ذریعہ ان کی قدر و قیمت معلوم ہوجائے اور ثواب کے مستحق قرار پائیں ، امام موسی کاظم فرماتے ہیں :

'' ساتویں امام کے جب پانچویں بیٹے غائب ہوجائیں ، اس وقت تم اپنے دین کی حفاظت کرنا _ ایسا نہ ہو کہ کوئی تمہیں دین سے خارج کردے _ اے میرے چھوٹے بیٹے صاحب الامر کے لئے ایسی غیبت ضروری ہے کہ جسمیں

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۹۱_

۱۸۴

مومنین کا ایک گروہ اپنے عقیدے سے منحرف ہوجائے گا _ خدا امام زمانہ کی غیبت کے ذریعہ اپنے بندوں کا امتحان لے گا _(۱)

دوسرا فائدہ : غیبت کے ذریعہ ستمگروں کی بیعت سے محفوظ رہیں گے _ حسن بہ فضال کہتے ہیں کہ امام رضا (ع) نے فرمایا:

''گویا میں اپنے تیسرے بیٹے (امام حسن عسکری(ع) ) کی وفات پر اپنے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ وہ اپنے امام کو ہر جگہ تلاش کررہے ہیں لیکن نہیں پارہے ہیں'' میں نے عرض کی : فرزند رسول کیوں؟ فرمایا:'' ان کے امام غائب ہوجائیں گے'' عرض کی : کیوں غائب ہوں گے ؟ فرمایا: '' تا کہ جب تلوار کے ساتھ قیام کریں تو اس وقت آپ کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو ''_(۲)

تیسرا فائدہ : غیبت کی وجہ سے قتل سے نجات پائی _

زرارہ کہتے ہیں کہ امام صادق (ع) نے فرمایا:

''قائم کے لئے غیبت ضرور ی ہے '' _ عرض کی کیوں ؟ فرمایا: قتل ہوجانے کا خوف ہے اور اپنے شکم مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا''_(۳)

مذکورہ تینوں حکمتیں اہل بیت کی احادیث میں منصوص ہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۱۳_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۲_

۳_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۱۸۵

امام زمانہ اگر ظاہر ہوتے تو کیا حرج تھا ؟

انجینئر : اگر امام زمانہ لوگوں کے درمیان آشکار طور پر رہتے ، دنیا کے کسی بھی شہر میں زندگی بسر کرتے ، مسلمانوں کی دینی قیادت کی زمام اپنے ہاتھوں میں رکھتے اور شمشیر کے ساتھ قیام اور کفر کاخاتمہ کرنے کیلئے حالات سازگار ہونے تک ایسے ہی زندگی گزارتے تو کیا حرج تھا؟

ہوشیار : اچھا مفروضہ ہے لیکن اس کا تجزیہ کرنا چاہئے کہ اس سے کیا نتائج بر آمد ہوئے _ میں حسب عادت موضوع کی تشریح کرتا ہوں _

پیغمبر اکرم (ص) اور ائمہ اطہار نے بارہا یہ بات لوگوں کے گوش گزار کی تھی کہ ظلم وستم کی حکومتیں مہدی موعود کے ہاتھوں تباہ ہوں گی اور بیداد گری کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے لوگوں کے دو گروہ ہمیشہ امام زمانہ کے وجود مقدس کے منتظر رہے _ ایک مظلوم و ستم رسیدہ لوگوں کا گروہ جو کہ ہمیشہ اکثریت میں رہا ہے _ وہ حمایت و دفاع کے قصد سے امام زمانہ کے پاس جمع ہوئے اور انقلاب و دفاع کا تقاضا کرتے تھے _ یہ ہمیشہ ہوتا تھا کہ ایک بڑا گر وہ آپ کا احاطہ کئے رہتا اور انقلاب کا تقاضا کرتا تھا _

دوسرا اگر وہ خونخوار ستمگروں کارہا ہے جس کا پسماندہ اور محروم قوموں پر تسلط رہا ہے یہ ذاتی مفاد کے حصول اور اپنے منصب کے تحفظ میں کسی بھی برے سے برے

۱۸۶

کام کو انجام دینے سے پرہیز نہیں کرتا تھا اور پوری قوم کو اپنے مفاد پر قربان کرنے کیلئے تیار رہتا تھا_ یہ گروہ امام زمانہ کے وجودکو اپنے شوم مقاصد کی راہ میں مانع سمجھتا اور اپنی فرمان روائی کو خطرہ میں دیکھتا تھا تو آپ کا خاتمہ کرکے اس عظیم خطرہ سے نجات حاصل کرنا چاہتا تھا _ اس منصوبہ میں وہ سب متحد ہوگئے تا کہ عدالت و دادخواہی کی جڑیں اس طرح کاٹ دیں کہ پھر سر سبز نہ ہو سکیں _

موت سے دڑ

جلالی : امام زمانہ اگر معاشرہ کی اصلاح ، دین کی ترویج اور مظلوموں سے دفاع کرتے ہوئے قتل ہوجاتے تو اس میں کیا حرج تھا؟ کیا ان خون ان کے آباء و اجداد کے خون سے زیادہ عزیز ہے ؟ موت سے کیوں دڑتے تھے؟

ہوشیار : دین و حق کی راہ میں قتل ہونے سے امام زمانہ اپنے آبا ء و اجداد کی طرح نہ ڈرتے تھے اور نہ ڈرتے ہیں _ لیکن ان کے قتل ہونے میں معاشرہ اور دین کی صلاح نہیں ہے _ کیونکہ ہر شہید ہونے والے امام کے بعد دوسرا امام اس کا جانشین ہوا ہے لیکن اگر امام زمانہ قتل ہوجائیں تو پھر کوئی جانشین نہیں ہے _ اور زمین حجّت خدا کے وجود سے خالی ہوجائے گی _ جبکہ یہ مقدر ہوچکا ہے کہ آخر کار حق باطل پر غالب ہوگا اور امام زمانہ کے ذریعہ دنیا کی زمام حق پرستوں کے ہاتھوں میں آئے گی _

کیا امام کی حفاظت کرنے پر خدا قادر نہیں ہے؟

جلالی : کیا خدا امام زمانہ کو دشمنوں کے شرسے بچانے اور ان کی حفاظت پر قادر

۱۸۷

نہیں ہے؟

ہوشیار : باوجودیکہ خدا کی قدرت لا محدود ہے لیکن اپنے امور کو وہ اسباب و عادات کے مطابق انجام دیتا ہے _ ایسا نہیں ہے کہ وہ انبیاء و ائمہ کی حفاظت اور دین کی ترویج میں عام اسباب و علل سے دست بردار ہوجائے اور عادت کے خلاف عمل کرے اور اگر ایسا کرے گا تو دنیا اختیار و امتحان کی جگہ نہ رہے گی _

ستمگران کے سامنے سراپا تسلیم ہوجاتے

جلالی : اگر امام زمانہ ظاہر ہوتے اور کفار و ستمگر آپ کو دیکھتے ، آپ کی برحق باتیں سنتے تو ممکن تھا کہ وہ آپ کو قتل نہ کرتے بلکہ آپ کے ہاتھوں پر ایمان لاتے اور اپنی روش بدل دیتے _

ہوشیار: ہر شخص حق کے سامنے سراپا تسلیم نہیں ہوتا ہے بلکہ ابتداء سے آج تک لوگوں کے درمیان ایک گروہ حق و صحت کا دشمن رہا ہے اور اسے پا مال کرنے کیلئے اپنی پوری طاقت صرف کی ہے _ کیا انبیاء و ائمہ اطہار حق نہیں کہتے تھے؟ کیا ان کی برحق باتیں اور معجزات ستمگروں کی دست رس میں نہیں تھے؟ اس کے باوجود انہوں نے چراغ ہدایت کو خاموش کرنے کے سلسلے میں کسی کام سے دریغ نہ کیا _ صاحب الامر بھی اگر خوف کے مارے غائب نہ ہوئے ہوتے تو ان کے ہاتھوں اسیر ہوجاتے _

خاموش رہو تا کہ محفوظ رہو

ڈاکٹر : میرے نقطہ نظر سے اگر امام زمانہ کلی طور پر سیاست سے علیحدہ رہتے

۱۸۸

اور کفار و ستمگروں سے کوئی سروکار نہ رکھتے ، ان کے اعمال کے مقابل سکوت اختیار کرتے اور اپنی دینی و اخلاقی راہنمائی میں مشغول رہتے تو دشمنوں کے شر سے محفوظ رہتے _

ہوشیار : چونکہ ستمگروں نے یہ بات سن رکھی تھی کہ مہدی موعود ان کے دشمن ہیں اور ان کے ہاتھوں ظلم کا قلعہ قمع ہوگا _ اس لئے وہ آپ کے سکوت پر اکتفا نہ کرتے _ اس کے علاوہ جب مومنین یہ دیکھتے کہ آپ ظلم و ستم کو خاموشی سے دیکھ رہے ہیں ، ایک دو سال سے نہیں بلکہ سیکڑوں سال سے اس کا مشاہدہ کررہے ہیں کہ امام کسی رد عمل کا اظہار نہیں کرتے تو وہ بھی آہستہ آہستہ دنیا کی اصلاح اور حق کی کامیابی سے مایوس ہوجاتے اور پیغمبر اکرم و قرآن مجید کی بشارتوں میں شک کرنے لگتے _ ان تمام چیزوں کے علاوہ مظلوم لوگ آپ کو سکوت کی اجازت نہ دیتے _

عدم تعرض کا معاہدہ

انجینئر : وقت کے ستمگروں سے عدم تعرض کا معاہدہ کرنے کا امکان تھا وہ اس طرح کہ آ پ(ع) ان کے کسی کام میں مداخلت نہیں کریں گے اور چونکہ آپ کی امانت داری و نیک منشی مشہور تھی اس لئے آپ کے معاہدے محترم اور اطمینان بخش ہوتے اور ستمگروں کو بھی آپ سے سروکار نہ ہوتا _

ہوشیار: مہدی موعود کا پروگرام تمام ائمہ اطہار کے پروگرام سے مختلف ہے _ ائمہ کو تا حد امکان ترویج دین اور امر بالمعروف و نہی از منکر کیلئے مامور کیا گیا تھا ، جنگ کے لئے نہیں _ لیکن ابتداء ہی سے یہ مقدر تھا کہ مہدی کی سیرت و رفتار ان سے مختلف ہوگی ، وہ ظلم اور باطل کے مقابلہ میں سکوت نہیں کریں گے اور

۱۸۹

جنگ و جہاد کے ذریعہ ظلم و جور کی بیخ کنی کریں گے اور ستمگروں کے خودسری کی محلوں کو منہدم کریں گے _

ایسی سیرت و رفتار مہدی کی علامتیں اور خصوصیات شمار کی جاتی تھیں_ ہر امام سے کہا جاتاتھا کہ ستمگروں کے خلاف قیام کیوں نہیں کرتے؟ فرماتے تھے : مہدی تلوار سے جنگ کریں گے ، قیام کریں گے جبکہ میرے اندر یہ خصوصیات نہیں ہیں اور ان کی طاقت بةی نہیں ہے _ بعض سے دریافت کیا جاتا تھا: کیا آپ(ع) ہی قائم ہیں؟ فرماتے تھے : میں قائم بر حق ہوں لیکن و ہ قائم نہیں ہوں جو زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کریں گے _ بعض کی خدمت عرض کیا جاتا تھا: ہمیں امید ہے کہ آپ ہی قائم ہیں _فرماتے تھے: میں قائم ہوں لیکن جو قائم زمیں کو کفر و ظلم سے پاک کریں گے وہ اور ہیں _ دنیا کی پریشان حالی ، ابتری ، ظالموں کی ڈکٹیڑی اور مومنین کی محرومیت کی شکایت کی جاتی تھی تو فرماتے تھے: مہدی کا انقلاب مسلّم ہے _ اسی وقت دنیا کی اصلاح ہوگی اور ظالموں سے انتقام لیا جائے گا _ مومنین کی قلّت اور کافروں کی کثرت و طاقت کی اعتنا کی جاتی تو ائمہ شیعوں کی ڈھارس بندھاتے اور فرماتے تھے: آل محمد کی حکومت حتمی اور حق پرستی کی کامیابی یقینی ہے _ صبر کرو اور فرج آل محمد (ص) کے منتظر رہو اور دعا کرو، مومنین اور شیعہ ان خوش خبریوں سے مسرور ہوتے اور ہر قسم کے رنج و غم کو برداشت کرنے کیلئے تیار ہوجاتے تھے ''_

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ مومنین بلکہ بشریت کو جو مہدی سے توقعات ہیں ان کے باوجود آپ وقت کے ستمگروں سے پیمان مودت و دوستی باندھ سکتے تھے؟ اگر آپ ایسا کرتے تو کیا مومنین پر یاس و ناامیدی غالب نہ آجاتی _ کیا وہ آپ پر

۱۹۰

یہ تہمت نہ لگاتے کہ آپ نے ظالموں سے ساز باز کرلی ہے اور آپ کا مقصد اصلاح نہیں ہے ؟

میرے نقطہ نظر سے تو اس کا امکان ہی نہیں تھا او راگر ایسا ہوگیا ہوتا تو مومنین کی قلیل تعداد مایوس و بد ظن ہوکر دین سے خارج اور طریقہ کفر پر گامزن ہوجاتی _

اس کے علاوہ اگر آپ ستمگروں سے عدم تعرّض اور دوستی کا معاہدہ کرلیتے تو مجبوراً اپنے عہد کی پابندی کرنے ، نتیجہ میں کبھی جنگ کا اقدام نہ کرتے ، کیونکہ اسلام نے عہدو پیمان کو محترم قرار دیا ہے اور اس پر عمل کو ضروری جانا ہے _(۱)

اس وجہ سے احادیث میں تصریح ہوتی ہے ک صاحب الامر کی ولادت کے مخفی رکھنے اور غیبت کا ایک راز یہ ہے کہ ظالموں سے بیعت نہ کر سکیں تا کہ جب چاہیں قیام کریں اور کسی کی بیعت میں نہ ہوں _ چند نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' صاحب الامر کی ولادت کو مخفی رکھا جائے گا تا کہ ظہور کے وقت آپ کسی پیمان کے پابند نہ ہوں ، خدا ایک رات میں ان کے لئے زمین ہموار کریگا ''(۲) _

ان تمام چیزوں کے علاوہ جب خودخواہ ستمگر و زمامدار اپنے مفاد و منافع کیلئے خطرہ محسوس کرتے تو وہ اس پیمان سے مطمئن نہ ہوتے اور آپ کے قتل کا منصوبہ بتاتے اور زمین کو حجت خدا کے وجود سے خالی کردیتے _

____________________

۱_ مائدہ /۱ و اسراء / ۳۴ و مومنوں/۸

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۹۶

۱۹۱

مخصوص نواب کیوں معین نہ کئے ؟

جلالی: ہم اصل لزوم غیبت کو قبول کرتے ہیں لیکن غیبت کبری میں آپ نے اپنے شعیوں کے لئے غیبت صغری کی مانند نواب کیوں معین نہیں کئے شیعہ ان کے ذریعہ آپ سے رابطہ قائم کر تے اور اپنے مشکلات حل کرتے ؟

ہوشیار : دشمنوں نے نواب حضرت کو بھی اذ یتیں پہنچائی ہیں '، شکنجے دیئےیں تا کہ وہ امام کی قیام گاہ کاپتہ بتادیں انھیں آزاد نہیں چھوڑ اگیا تھا _ _

جلالی : یہ بھی ممکن تھا کہ معین اشخاص کو وکیل منصوب کرتے _ خود کبھی کبھی بعض مومنین کے پاس تشریف لاتے اور شعیوں کے لئے انھیں احکام و پیغام دیتے _

ہوشیار : اس میں بھی صلاح نہیں تھی بلکہ ممکن نہیں تھا کیونکہ وہی لوگ دشمنوں کو امام کے مکان کا پتہ بتاد یتے اور آپ کی اسیری و قتل کے اسباب فراہم کردیتے _

جلالی : خطرہ کا احتمال اس صورت میں تھا کہ جب آپ مجہول الحال شخص کے لئے ظاہر ہوتے لیکن اگر آپ صرف علما اور موثق و معتمد مومنین کے لیے ظہور فرماتے تو خطرہ کا با لکل احتمال نہ ہوتا _

ہوشیار : اس مفروضہ کے بھی کئی جواب دیئےاسکتے میں :

ا_ جس شخص کے لئے بھی ظہور فرماتے اس سے اپنا تعارف کرانے اور اپنے دعوے کے ثبوت میں ناچار معجزہ دکھا ناپڑ تا بلکہ ان لوگون کے لئے تو کئی معجزے دکھا نے پڑتے جو آسانی سے کسی بات کو قبول نہیں کرتے _ اسی اثناء میں فریب کار

۱۹۲

اور جادو گر بھی پیدا ہوجاتے جو کہ لوگوں کو فریب دیتے ، امامت کا دعوی کرتے اور سحر و جادو دکھا کر عوام کو گمراہ کرتے اور معجزہ و جادو میں فرق کرنا ہر ایک کے قبضہ کی بات نہیں ہے ، اس قضسہ سے بھی لوگوں کے لئے بہت سے مفاسد و اشکالات پیدا ہوجا تے _

۲ _ فریب کار بھی اس سے غلط فائدہ اٹھاتے ، جاہل لوگوں کے در میان جاکر امام سے ملاقات کا دعوی کرتے اور اپنے مقصد تک پہنچا نے کیلئے آپ کی طرف خلافت شرع احکام کی نسبت دیتے ، جو چاہتا خلاف شرع عمل کرتا اور اپنے کام کی ترقی تصیح کے لئے کہتا _ میں امام زمانہ کی خدمت میں حاضر ہواتھا _ کل رات غریب خانہ ہی پر تشریف لائے تھے مجھ سے فرمایا ہے _ فلاں کام انجام دو ، فلاں کام کیلئے میری تائید کی سے ، اس میں جو خر ابی اور مفاسد میں وہ کسی پر پوشیدہ نہیں ہیں _

۳ _ اس بات پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ امام زمانہ کسی بھی شخص ، یہاں تک صالح لوگوں بھی ملاقات نہیں کرتے بلکہ ممکن ہے کہ بہت سے صالحین و اولیاء خدا آپ کی خدمت میں شرفیاب ہوتے ہوں لیکن انہیں یہ بات بیان کرنے کی اجازات نہ ہو ، ہر شخص اپنی ہی کیفیت سے واقف ہے اسے دوسروں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق نہیں ہے _

۱۹۳

امام غائب کا کیا فائدہ ؟

انجینئر : اگرامام لوگوں کے پیشوا ہیں ، تو انھیں ظاہر ہونا چا ہئے _ غائب امام کے وجود سے کیا فائدہ ہے ؟ جو امام سیکڑوں سال غائب رہے _ دین کی ترویج نہ کرے ، معاشر ے کی مشکوں کو حل نہ کر ے ، مخالفوں کے جواب نہ دے _ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر نہ کرے ، مظلوموں کی حمایت نہ کرے ، خدا کے احکام وحدود کو نا فذ نہ کرے ایسے امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟

ہوشیار :غیبت کے زمانہ میں لوگ آپ کے بیان کردہ فوائد سے اپنے اعمال کی بنا پر محروم ہیں لیکن وجود امام کے فوائد ان ہی میں منحصر نہیں ہیںبلکہ اور بہی فوائد ہین جو کہ غیبت کے زمانہ میں مترتب ہو تے ہیں منجملہ ان کے ذیل کے دو فوائد تہی ہیں:

اول : گزشتہ بحث ، علما کی کتابوںمیں نقل ہونے والی دلیلوں اور موضوع امامت کے سلسلہ میں وارد ہونے والی احادیث کے مطابق امام کا مقدس وجود نوع انسان کی غایت ، انسانیت کا فرد کامل اور عالم مادی وعالم ربویت کے در میان رابطہ ہے_اگرروئے زمین پر امام کا وجود نہ ہو گا تو نوع انسان تباہ ہو جائے گی _ اگر امام نہ ہوں گے توصحیح معنوں میں خدا کی معرفت وعبادت نہ ہوگی _ اگر امام نہ ہوں گے تو عالم مادی اور منبع تخلیق کے در میان رابطہ منقطع ہو جائے گا_ امام کے قلب مقدس کی مثال ایک

۱۹۴

ٹرانسفار مر کی سی ہے جو کار خانہ کے ہزاروں بلبوں کو بجلی فراہم کرتاہے_ عوالم غیبی کے اشراقات وافاضات پہلے امام کے پاکیزہ قلب پر اور ان کے وسیلہ سے تمام لوگوں کے دلوں پر نازل ہوتے ہیں _ امام عالم وجود کا قلب اور نوع انسانی کے رہبر و مربی ہیں اور یہ واضح ہے کہ ان فوائد کے ترتیب میں آپ کی غیبت وحضور میں کوئی فرق نہیں ہے _ کیا اس کے با وجود یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام کے وجود کا کیا فائدہ ہے ؟ میں سمجھتاہوں کہ آپ نے یہ اعتراض اس کی زبان سے کیا ہے جس نے امامت و ولایت کے معنی کی تحقیق نہیں کی ہے اور امام کو صرف مسئلہ بیان کرنے والا تصور کرلیا ہے نہ کہ حدود جاری کرنے والا جبکہ عہدہ امامت وولایت اس سے کہیںبلند وبالاہے_

امام زین العابدین (ع) فرماتے ہیں :

''ہم مسلمانوںکے امام ، دنیا پر حجت ،مؤمنین کے سردار، نیکوکاروں کے رہبر اور مسلمانوں کے مولاہیں ہم زمین والوں کے لئے امان ہیں جیسا کہ آسمان والوں کے لئے ستارے امان ہیں _ ہماری وجہ سے آمان اپنی جگہ ٹھراہواہے جب خدا چاہتا ہے ہمارے واسطہ سے باران رحمت نازل کر تا اور زمین سے برکتیں ظاہر کرتاہے _اگر ہم روئے زمین پر نہ ہو تے تو اہل زمین دھنس گئے ہوتے''پھر فرمایا : '' جس دن سے خدا نے حضرت آدم کو پیدا کیا ہے_ اس دن سے آج تک زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں رہی ہے لیکن حجت خدا کا وجود کبھی ظاہر وآشکار اور کبھی غائب و مخفی رہا ہے_ قیامت تک زمین حجت خدا سے خالی نہ ہوگی_ اگر امام نہ ہو گا تو خدا کی عبادت نہ ہوگی_

۱۹۵

سلیمان کہتے ہیں : میں نے عرض کی امام غائب کے وجود سے لوگوں کو کیسے فائدہ پہنچتا ہے ؟ جیسے ابر میں چھیے ہوئے سورج پہنچتا ہے(۱) _

اس اور دیگر حدیثوں میں صاحب الامر کے مقدس وجود اور ان کے ذریعہ لوگوں کو پہنچنے والے فائدہ کو سورج سے تشبیہ دی گئی ہے جو کہ بادل میں چھپ کربھی لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے _ وجہ تشبیہ یہ ہے : طبیعی اور فلکیات کے علوم سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ سورج شمسی نظام کامر کز ہے _ اس کی قوت جاذبہ زمین کی محافظ اور اسے گرنے سے بچاتی ہے ، زمین کو اپنے چاروں طرف گردش دیتی ہے ، دن ، رات اور مختلف فصلوں کو وجود میں لاتی ہے _ اس کی حرارت حیوانات ، نباتات اور انسانوں کی زندگی کا باعث ہے _ اس کا نور زمین کو روشنی بخشتاہے _ ان فوائد کے مترتب ہونے میں سورج کے ظاہر یابادل میں پوشیدہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا ہے یعنی اس کی قوت جاذبہ حرارت اور نور دونوں صورتوں میں رہتا ہے _ ہاں کم و بیش کا فرق ہوتا ہے _

جب سیاہ گھٹاؤں میں سورج چھپ جاتا ہے یارات ہوجاتی ہے تو جاہل یہ خیال کرتے ہیں کہ اب موجودات سورج کی حرارت اور نور میسر نہ ہو تو برف بن کر ہلاک ہوجا ئیں ، سورج ہی کی برکت سے سیاہ گھٹا ئیں چھٹتی ہیں اور اس کا حقیقی چہرہ ظاہر ہوتا ہے _

امام کا مقدس وجود بھی عالم انسانیت کا قلب اور سورج اور اس کا تکوینی مربی

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۲۱۷

۱۹۶

وہادی ہے ، اور ان فوائد کے ترتب میں آپ کی غیبت و حضور میں اثر انداز نہیں ہے _ حاضرین سے گزارش ہے _ کہ نبوت عامہ اور امامت کے بارے میں ہونے والی بحث کو مد نظر رکھیں اور نہایت سنجیدگی سے ایک مرتبہ اسے دھرالیں ، تا کہ ولایت کے حقیقی معنی تک پہنچ جائیں _ اور امام کے وجود کے، اہم فائدہ کو سمجھ جائیں اور اس بات کو سمجھ لیں کہ اب بھی نوع انسان کے پاس جو کچھ ہے وہ امام غائب کی برکت کا اثر ہے _

لیکن آپ نے جو دوسرے فوائد بیان کئے ہیں اگر چہ غیبت کے زمانہ میں عام لوگ ان سے محروم ہیں لیکن خداوند عالم اور خود امام فیض میں مانع نہیں ہیںبلکہ اس میںخود لوگوں کی تقصیر ہے _ اگر وہ ظہور میں مانع چیزوں کو بر طرف کر دیتے اور توحید و عدالت کی حکومت کے اسباب فراہم کر لیتے _ دنیا کے اذہان و افکار کو ہموار کر لیتے تو امام کا ظہور ہوجاتا اور آپ انسانی معاشرہ کو بے پناہ فوائد سے مالا مال کرد یتے_

ممکن ہے آپ یہ کہیں : جب عام حالات امام زمانہ کے ظہور کے لئے سازگار نہیں ہیں تو اس پر خطر کام کی کوشش کرنا بے فائدہ ہے ؟ لیکن واضح رہے مسلمانوں کی طاقت وہمت کو ذاتی منافع کے حصول میں منحصر نہیں ہونا چاہئے ، تمام مسلمانوں بلکہ ساری دنیا کے اجتماعی امور کی اصلاح میں کوشش کرنا ہر مسلمان کا فریضہ ہے ، رفاہ عام میں تندہی اور ظلم و بیدادگری سے مبارزہ بہت بڑی عبادت ہے _

ممکن ہے مزید آپ کہیں : ایک یا چند افرادکی کوشش سے کچھ نہیں ہوتا _ اور پھر میرا کیا گناہ ہے کہ امام کے دیدار سے محروم ہوں ؟ جواب : اگر ہم نے عام افکار کے رشد ، دنیا والوں کو اسلامی حقائق سے متعارف کرانے اور اسلام کے مقدس مقصد سے قریب لانے کی کوشش کی اوز اپنا فریضہ

۱۹۷

انجام دید یا ، تو اس کا ہمیں اجر ملے گا ، اگر چہ ہم نے معاشرہ بشریت کو مقصد سے ایک ہی قدم قریب کیا ہوگا اور اس کام کی اہمیت علماء پر مخفی نہیں ہے اسی لئے بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے کہ انتظار فرج سب سے بڑی عبادت ہے _ ۱ _

دوسرا فائدہ : مہدی ، انتظار فرج اور امام زمانہ کے ظہور پر ایمان رکھنے سے مسلمانوں کے دلوں کو سکون ملتا اور امید نبدھتی ہے اور امیدوار رہنا مقصد کی کا میابی کا سبب ہے _ جس گروہ نے اپنے خانہ دل کو یاس و نا اُمیدی سے تاریک کرلیا اور اس میں امید کی کرن کا گزرنہ ہوتووہ ہرگز کا میاب نہ ہوگا _

ہاں دنیا کے آشفتہ حالات ، مادیت کا تبا ہ کن سیلاب ، علوم و معارف کی سرد بازاری پسماندہ طبقہ کی روز افزوں محرومیت ، استعمار کے فنون کی وسعت ، سردو گرم جنگیں ، اور مشرق و مغرب کا اسلحہ کی دوڑ میں مقابلہ نے روشن فکر اور بشر کے خیرخواہوں کو مضطرب کردیا ہے ، یہاں تک کہ وہ کبھی بشرکی اصلی طاقت ہی کی تردید کردیتے ہیں _

بشرکی امید کا صرف ایک جھرو کا کھولا ہوا ہے اور اس دنیا ئے تاریک میں جو امید کی چمکنے والی کرن انتظار فرج اور حکومت توحید کا درخشاں زمانہ اور قوانین الہی کا نفاذ ہے _ انتظار فرج ہی مایوس اور لرزتے دلوں کو آرام بخشتا اور پسماندہ طبقے کے زخمی دلوں پر مرہم رکھتا ہے _ حکومت توحید کی مسرت بخش خوش خبریوں نے ہی مومنین کے عقائد کی حفاظت کی اور دین میں اسے پائیدار کیا ہے _ حق کے غلبہ اور کا میابی نے ہی بشر کے خیر خواہون کو فعالیت و کوشش پر ابھاراہے _اسی غیبی طاقت

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲_۱۵۰

۱۹۸

سے استمداد انسانیت کو یاس و نا امیدی کے ہولنا ک غار میں گرنے سے بچاتی ہے اور امیدو آرزوؤں کی شاہ راہوں کو منور کرتی ہے _ پیغمبر اکرم(ع) توحید کی عالمی حکومت اور عالمی اصلاحات کے رہبر کے تعین و تعارف سے دنیا ئے اسلام سے یاس و نا اُمیدی کے دیوکو نکال دیا ہے _ شکست و نا اُمیدی کے راستوں کو مسدود کردیا ہے _ اس بات کی تو قع کی جاتی ہے کہ اسلام کے اس گراں بہا منصوبہ پر عمل پیرا ہوکر مسلمان دنیا کی پراگندہ قوموں کو اپنی طرف متوجہ کریں گے اور حکومت توحید کی تشکیل کے لئے ان سے اتحاد کرلیں گے _ امام زین العابدین(ع) فرماتے ہیں :

'' انتظار فرج خود عظیم فرج و گشائشے ہے ''(۱)

مختصر یہ کہ محدی موعود پر ایمان نے شیعوَ کے مستقبل کو تا بناک بنادیا ہے اور اس دن کی امید میں خوش رہتے ہیں _ شکست و یاس کو ان سے سلب کرکے انھیں مقصد کی راہ ، تہذیب اخلاق اور معارف سے دلچپی لینے پر ابھارا ہے _ شیعہ ، مادیت ، شہوت رانی ، ظلم وستم ، کفرو بے دینی اور جنگ و استعمار کے تاریک دور میں حکومت توحید عقل انسانیت کی تکمیل ، ظلم و ستم کی تباہی ، حقیقی صلح برقراری اور علوم و معارف کی گرم بازاری کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں _ اور اس کے اسباب و مقاصد فراہم کردہے ہیں _ اس لئے اہل بیت(ع) کی احادیث میں انتظار فرج کو بہترین عبارت اور راہ حق میں شہادت قرار دیاگیا ہے _ ۲ _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲

۲ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۲۲ تا ۱۵۰

۱۹۹

اسلام سے دفاع

نہج البلاغہ کے ایک خطبہ سے یہ بات واضح طور پر سمجھ میں آتی ہے کہ ولی عصر (ع) زمانہ غیبت میں بھی اسلام کی عظمت و ارتقاء اور مسلمانوں کے امور کے حل و فصل میں ممکنہ حدتک کوشش فرماتے ہیں _

حضرت علی (ع) ارشاد فرماتے ہیں :

وہ لوگ راہ حق سے منحرف ہوکر ، دائیں بائیں چلے گئے اور ضلالت کی راہ

پر گامزن ہوئے ، ہدابت کے راستہ

کوچھوڑدیا ، پس جو ہونے والاہے

اس کیلئے جلد نہ کرو ، انتظار کرو اور جو چیز بہت جلد واقع ہونے والی ہے اسے ددرنہ سمجھو کتنے لوگوں نے کسی چیز کے بارے میں جلد بازی سے کام لیا لیکن جب اسے پالیا تو کہا : اے کاش میں نے اس کا ادراک نہ کیا ہوتا ، مستقبل کی بشار تیں کتنی قریب ہیں اب و عدوں کے پورا ہونے اور ان چیزوں کے ظاہر ہونے کا وقت ہے جنھیں تم پہچانتے آگاہ ہو جاؤ ہم اہل بیت میں سے جو اس زمانہ کو درک کرے گا _ وہ امام زمانہ ہے _ وہ روشن چراغ کے ساتھ قدم اٹھائے گا اور صالحین کا طریقہ اختیار کرے گا _ یہاں تک کہ اس زمانہ کے لوگوں کی مشکلکشائی کرے گا اور اسیروں کو آزاد کرے کا باطل و نقصان دہ طاقتوں کو پراگندہ کرے گا _ مفید لوگوں کو جمع کرے گا _ ان تمام کاموں کو خفیہ طور پرانجام دے گا کہ قیافہ شناس بھی غور وتامل کے بعد کچھ نہ سمجھ سکیں گے _ امام زمانہ کے وجود کی برکت سے _ دین سے

۲۰۰

دفاع کیلئے لوگوں کی ایک جماعت کو اس طرح تیز کیا جائے گا جیسے لوہا ر تلوار کی باڑ تیز کرتا ہے ، قرآن سے ان کے باطن کی آنکھوں میں جلا پیدا کی جائیگی اس کے معانی و تفاسیر ان کے گوش گزار جاتی رہیں گی اور علوم و حکمت کے چھلکتے ہوئے ساغر انھیں صبح و شام پلائے جائیں گے _(۱)

اس خطبہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب کے زمانہ میں بھی لوگ ان حوادث کے واقع ہونے کے منتظر تھے جن کی خبر انہوں نے رسول(ص) سے سنی تھی ، ممکن ہے وہ غیبت کے زمانہ میں نہایت خفیہ طور پر زندگی بسر کریں گے لیکن کامل بصیرت سے مسلمانوں کے ضروری مسائل کو حل اور اسلام کے مرکز سے دفاع میں کوشش کریں گے مسلمانوں کی مشکلکشائی کریں گے ، گرفتاری بندوں کو آزادی دلائیں گے _ اور جو لوگ اسلام کی مسخ کنی کے لئے جمع ہوگئے تھے ان کو متفرق کریں گے اور ہر نقصان وہ تشکیل کو درہم کریں گے ، ضروری اور مفید انجمنوں کی تشکیل کے مقدمات فراہم کریں گے _ امام زمانہ کی برکت سے لوگوں کا ایک گروہ دین سے دفاع کے لئے تیار ہوگا اور اپنے امور میں قرآن کے علوم و معارف سے مددلے گا _

فہیمی: میں چاہتا تھا کہ آپ یہ ثابت کریں کہ ہم اہل سنُت کی احادیث میں وجود مہدی کو _ خصوصا آپ کے دیگر اسما جیسے قائم و صاحب الامر _ اس طرح کیوں بیاں نہیں کیا گیا ہے _ لیکن وقت چونکہ ختم ہونے والا ہے ، اس لئے آئندہ جلسہ میں اس موضوع پر بحث کی جائے تو بہتر ہے _

سب نے اس بات کی تائید کی اور یہ طے پایا کے آئندہ جلسہ ڈاکٹر صاحب کے گھر منعقد ہوگا _

____________________

۱_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۱۴۶_

۲۰۱

خصوصیات مہدی (ع) اہل سنّت کی کتابوں میں

معمولی ضیافت اور گفتگو کے بعد جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور فہیمی صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

شیعوں کی احادیث میں مہدی موعود کا وجود مشخص اور واضح ہے جبکہ اہل سنت کی احادیث میں مجمل و مبہم انداز میں آپ کا تذکرہ ملتا ہے _ مثلاً غیبت مہدی کا واقعہ آپکی اکثر احادیث میں پایا جاتا ہے جبکہ آپکی مسلّم علامتیں اور خصوصیات کا ہماری احادیث میں کہیں نام ونشان بھی نہیں ہے _ اس سلسلہ میں وہ بالکل خاموش ہیں _ آپ حضرات کی احادیث میں مہدی موعود کے دوسرے نام قائم اور صاحب الامر و غیرہ بھی مذکور ہیں لیکن ہماری احادیث میں مہدی کے علاوہ اور کوئی نام بیان نہیں ہوا ہے ، خصوصاً قائم تو ہماری احادیث میں ہے ہی نہیں کیا یہ بات آپ کے نقطہ نظر سے معمولی ہے ، قابل اعتراض نہیں ہے ؟

ہوشیار : ظاہراً قضیہ کی علت یہ ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے دور خلافت میں مہدویت کا موضوع مکمل طور پر سیاسی مسئلہ بن چکا تھا چنانچہ تمام مشخصات و علامتوں کے ساتھ مہدی موعود خصوصاً غیبت و قیام سے متعلق احادیث کے نقل کرنے کے لئے آزادی نہیں تھی ، خلفائے وقت احادیث کی تدوین خصوصاً مہدی کی غیبت اور قیام سے متعلق احادیث کے سلسلہ میں بہت حساس رہتے تھے بس اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ غیبت ، قیام اور خروج کے الفاظ بھی برداشت نہیں کرتے تھے _

۲۰۲

آپ بھی اگر تاریخ کا مطالعہ فرمائیں اور بنی امیہ و بنی عباس کی خلافت کے بحرانی حالات اور سیاسی کشمکش کا نقشہ کھینچے تو میرے خیال کی تائید فرمائیں گے _ ہم اس مختصروقت میں اس زمانہ کے اہم حوادث و واقعات کا تجزیہ نہیں کر سکتے لیکن اثبات مدعاکیلئے دو چیزوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے _

۱ _ داستان مہدویت میں چونکہ ایکہ دینی پہلو موجود تھا اور پیغمبر(ع) اکرم(ع) نے اسکی خبردی تھی کہ جس زمانہ میں کفرو بے دینی فروغ ہوگا اور ظلم و ستم چھا یا ہوگا اس وقت مہدی موعود انقلاب بر پا کریں گے اور دنیا کی آشفتہ حالی کی اصلاح کریں گے اسی لئے مسلمان اس موضوع کو ایک طاقتو رپناہ گاہ اور تسلّی بخش وقوعہ تصور کرتے تھے اور ہمیشہ اس کے وقوع پذیر ہونے کے منتظر رہتے تھے _ خصوصاً مذکور ہ عقیدہ اس وقت اور زیادہ مشہور اور زندہ ہوجاتا تھا جب لوگ ظلم و ستم کی طغیانیوں اور بحرانی حالات میں ہرجگہ سے مایوس ہوجاتے تھے چنانجہ کبھی اصلاح کے علمبردار اور ابن الوقت افراد بھی اس سے فائدہ اٹھا تے تھے _

عقیدہ محدویت سے سب سے پہلے جناب مختار نے فائدہ اٹھایا تھا _ کربلا کے المناک سانحہ کے بعد جناب مختار قاتلوں سے انتقام لینا اور ان کی حکومت کو بر باد کرنا چاہتے تھے لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ بنی ہاشم اور شیعہ حکومت پر قبضہ کرنے کے سلسلے میں مایوس ہوچکے ہیں تو انہوں نے عقیدہ مہدویت سے استفادہ کیا اور اس فکر کے احیاء سے قو م کی امید بندھائی _ چونکہ محمد بن حنفیہ رسول کے ہم نام و ہم کنیت تھے _ یعنی مہدی کی ایک علامت ان میں موجود تھی لہذا مختار نے وقت سے فائدہ اٹھا یا اور محمد بن حنفیہ کو مہدی موعود اور خود کو ان کے وزیر کے عنوان سے پیش کیا اور لوگوں سے کہا محمد بن حنفیہ اسلام کے

۲۰۳

مہدی موعود ہیں ، اس زمانہ میں ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے _ حسین بن علی اوران کے اصحاب و جوان تشنہ لب کربلا میں شہید کردیئےئے ہیں ،محمد بن حنفیہ انقلاب لانے کا قصد رکھتے ہیں تا کہ قاتلوں سے انتقام لے سکیں اور دنیا کی اصلاح کرسکیں _ میں ان کا وزیر ہوں _ اس طرح مختار نے قیام کیااور کچھ قاتلوں کو تہ تیغ کیا در حقیقت اس عنوان سے برپاہونے والا یہ پہلا انقلاب اور خلافت کے مقابلہ میں اولین قیام تھا _

دوسرا ابومسلم خراسانی عقیدہ مہدویت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے_ ابومسلم نے خراسان میں ، امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب و انصار ، ہشام بن عبدالملک کے زمانہ خلافت میں ڈردناک و سنسی خیز انداز میں شہید ہونے والے زید بن علی بن حسین (ع) اور ولید کے زمانہ خلافت میں شہید ہونے والے یحیی بن زید کے انتقام کے عنوان سے بنی امیہ کی خلافت کے خلاف قیام کیا تھا _ ایک جماعت بھی ابومسلم کو مہدی موعود خیال کرتی تھی اور ایک گروہ اسے ظہور مہدی کا مقدمہ تصور کرتا تھا اور مہدی کی علامتوں میں شمار کرتا تھا کہ وہ خراسان کی طرف سے سیاہ پرچموں کے ساتھ آئے گا _ اس جنگ میں علوییں ، بنی عباس اور سارے مسلمان ایک طرف تھے ، چنانچہ انہوں نے بھر پور اتحاد کے ساتھ بنی امیہ اور ان کارندوں کو اسلامی حکومت سے برطرف کردیا _

یہ تحریک اگر چہ رسول کے اہل بیت کے مغصوب حق کے عنوان سے شروع ہوئی تھی اور شاید انقلاب کے بعض چیمپئین افراد بھی خلافت علویین ہی کی تحویل میں دینا چاہتے تھے لیکن بنی عباس اور ان کے کارندوں نے نہایت ہی چال بازی سے انقلاب کو اس کے حقیقی راستہ سے ہٹادیا _ حکومت علویوں کی دہلینر تک پہنچ چکی تھی لیکن بنی عباس نے اپنے کو پیغمبر کے اہل بیت کے عنوان سے پیش کیا اور اسلامی خلافت کی مسند پر متمکن ہوئے _

۲۰۴

اس عظیم تحریک میں ملت کامیاب ہوئی اور بنی امیہ کے ظالم خلفاء سے اسلامی خلافت چھین لی_ لوگوں کو بڑی خوشی تھی کہ انہوں نے ظالم خلفا کے شر سے نجات حاصل کرلی ہے اور اس کے علاوہ حق کو حق دار تک پہنچا دیا اور اسلامی خلافت کو خاندان پیغمبر(ص) میں پلٹادیا ہے _ علویین بھی کسی حد تک خوش تھے اگر چہ انھیں خلافت نہیں ملی تھی لیکن کم از کم بنی امیہ کے ظلم و ستم سے تو مطمئن ہوگئے تھے _ مسلمان اس کامیابی سے بہت خوش تھے اور ملک کے عام حالات کی اصلاح ، اسلام کی ترقی اور اپنی بہبودی کے سنہرے خواب دیکھ رہے تھے اور ایک دوسرے کو خوشخبری دے رہے تھے _ لیکن کچھ ہی روز کے بعد وہ خواب سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور بنی عباس و بنی امیہ کی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے _ سب ریاست طلب اور خوش باش ہیں _ مسلمانوں کا بیت المال تباہ ہورہاہے _ عدل و انصاف ، اصلاحات اور احکام الہی کے نفاذ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے _ رفتہ رفتہ لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے اپنے غلط فہمی اور بنی عباس کی نیرنگ کو سمجھ لیا _

علوی سادات نے بھی یہ بات محسوس کی کہ اسلام ، مسلمانوں اور خود ان سے بنی عباس کو جو سلوک ہے وہ بنی امیہ کی روش سے مختلف نہیں ہے اور جہاد کی ابتداء اور بنی عباس سے جنگ کے آغاز کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا _ تحریک چلانے کے لئے بہتر افراد جو ممکن تھے وہ علی و فاطمہ(ع) کی اولاد تھے کیونکہ اول تو ان میں شائستہ پاکدامن ، فداکار اور دانش ور پیدا ہوتے تھے جو کہ خلافت کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھے _ دوسرے پیغمبر کی حقیقی اولاد تھے اور آپ سے نسبت کی بناپر محبوب تھے _ تیسرے : مظلوم تھے ، ان کا شرعی حق پامال ہوچکا تھا _ لوگ بتدریج اہل بیت

۲۰۵

(ع) رسول کی طرف آئے _ خلفائے بنی عباس کے جیسے جیسے ظلم و ستم اور دکیٹڑ شپ بڑھتی جاتی تھی اسی کے مطابق لوگوں کے درمیان اہل بیت کی محبوبیت بڑھتی جاتی تھی اور ان میں ظلم کے خلاف شورش کا جذبہ پیدا ہوتا تھا _ قوم کی تحریک اور علویوں کا قیام شروع ہوا ، کبھی کبھی ان میں سے کسی کو پکڑتے اور شوروہنگامہ بپاکرتے تھے کبھی اس میں صلاح سمجھتے تھے کہ عقیدہ مہدویت پیغمبر (ص) کے زمانہ سے ابھی تک باقی ہے _ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہے ، اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور قائد انقلاب کو مہدی موعود کے نام سے پہنچنوایا جائے _ یہاں بنی عباس کے خلفاء کا سخت ، دلیر، دانشور اور قوم میں محبوب رقیبوں سے مقابلہ تھا _ خلفائے بنی عباس علوی سادات کو بخوبی پہچانتے تھے، ان کی ذاتی لیاقت ، فداکاری ، قومی عزت اور خاندانی شرافت سے واقف تھے ، اس کے علاوہ مہدی موعود کے بارے میں پیغمبر(ص) کی دی ہوئی بشارتوں سے بھی باخبر تھے _ پیغمبر کی احادیث کے مطابق انھیں معلوم تھا کہ مہدی موعود اولاد فاطمہ (ص) سے ہونگے جو قیام کرکے ستمگروں سے مبارزہ کریں گے اور ان کی کامیابی کو یقینی سمجھتے تھے وہ داستان مہدی اور لوگوں میں اس عقیدہ کے معنوی اثر سے بھی کسی حد تک واقف تھے _ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنی عباس کی خلافت کو سب سے بڑا خطرہ علوی سادات سے تھا _ انہوں نے ان کی اور ان کے کارندوں کی نیند حرام کردی تھی _ البتہ خلفانے بھی لوگوں کو علویوں کے پاس جمع نہ ہونے دیا اور ہر قسم کی تحریک و انقلاب کی پیش بندی میں بڑی تندی سے کام لیا _ خصوصاً علویوں کے سربرآوردہ افراد پر سخت نظر رکھتے تھے یعقوبی لکھتے ہیں _ موسی ہادی طالبین کو گرفتار کرنے کی بہت کوشش کرتا تھا _ انھیں خوف زدہ و ہراسان رکھتا تھا تمام شہروں میں یہ حکم نامہ

۲۰۶

بھیجدیا تھا کہ جہاں بھی طالبین کا کوئی آدمی ملے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیجدو _(۱)

ابوالفرج لکھتے ہیں :

''جب منصور تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس نے ساری کوشش محمد بن عبداللہ بن حسن (ع) کو گرفتار کرنے اور ان کے مقصد سے آگہی حاصل کرنے میں صرف کی _''(۲)

غیبت علویین

اس زمانہ کا ایک بہت ہی نازک اور مرکز توجہ مسئلہ بعض علوی سادات کی غیبت تھا _ ان میں سے جس میں بھی ذاتی شرافت و شائستگی اور قیادت کی صلاحیت پائی جاتی تھی _ قوم اسی کی طرف جھکتی اور ان کے دل اس کی طرف مائل ہوتے تھے خصوصاً یہ رجحان اس وقت اور زیادہ ہوجاتا تھا جب اس میں مہدی موعود کی کوئی علامت بھی ہوتی تھی _ دوسری طرف خلافت کی مشنری جیسے ہی قوم کو کسی ایسے آدمی کی طرف بڑھتی دیکھتی تھی تو اس کے خوف و ہراس میں اضافہ ہوجاتا تھا اور اس کے خفیہ و ظاہری کارندے اس شخص کی نگرانی میں مشغول ہوجاتے تھے_ لہذا وہ اپنی جان بچانے کیلئے خلافت کی مشنری سے روپوش ہوجاتا تھا ، یعنی غیبت و پوشیدگی کی زندگی بسر کرتا تھا ، علوی سادات کا ایک گروہ ایک زمانہ تک غیبت کی زندگی گزارتا تھا _ مثال کے طور پر ہم چند نمونے ، ابوالفرج اصفہانی کی کتاب'' مقاتل الطالبین '' سے نقل کرتے ہیں :

____________________

۱_ تاریخ یعقوبی ج ۳ ص ۱۴۲ طبع نجف سنہ ۱۳۸۴ ھ

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۳

۲۰۷

منصور عباسی کے زمانہ خلافت میں محمد بن عبداللہ بن حسن اور ان کے بھائی ابراہیم غیبت کی زندگی بسر کرتے تھے، منصور بھی انھیں گرفتار کرنے کی بہت کوشش کرتا تھا _ چنانچہ اس مقصد میں کامیابی کے لئے اس نے بنی ہاشم کے بہت سے افراد کو گرفتار کیا اور ان سے کہا : محمد کو حاضر کرو ان ان بے گناہوں کو قید خانہ میں لرزہ بر اندام سزائیں دیں ''(۱) _

''منصور کے زمانہ خلافت میں عیسی بن زید و روپوش تھے منصور نے انھیں گرفتار کرنے کی لاکھ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا _ منصور اور اس کے لڑکے نے بھی کوشش کی لیکن ناکام رہے ''(۲)

''معتصم اور واثق کے زمانہ خلافت میں محمد بن قاسم علوی خلافت کی مشنری سے روپوش تھے _ متوکل کے زمانہ میں گرفتارہوئے اور قید خانہ میں وفات پائی ''(۳)

''ر شید کے زمانہ خلافت میں یحیی بن عبداللہ بن حسن غائب تھے ، لیکن رشید کے جاسوسوں نے انھیں تلاش کرلیا _ ابتداء میں امان دی لیکن بعد میں گرفتار کرکے قید خانہ میں ڈالدیا ، اسی قید خانہ میں بھوک اور اذیتوں کی تاب نہ لا کر دم توڑدیا''(۴)

'' ماموں کے زمانہ خلافت میں عبداللہ بن موسی غائب تھے اور اس سے

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۳ تا ص ۱۵۴_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۲۷۸_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۳۹۲_

۴_ مقاتل الطالبین ص ۳۰۸_

۲۰۸

مامون بہت خوف زدہ تھا _(۱)

موسی ہادی نے عمر بن خطاب کی اولاد سے عبد العزیز کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا ، عبدالعزیز طالبین سے بہت برے طریق اور سختی سے پیش آتا اور ان کے اعمال و حرکات پر سخت نظر رکھتا تھا _ ایک روز ان سے کہا : تم ہر روز میرے پاس حاضری دیا کرو تا کہ تمہارے روپوش و غائب نہ ہونے کا مجھے علم رہے _ ان سے عہد و پیمان لیا اور ایک کو دوسرے کا ضامن بنادیا _ مثلاً حسین بن علی اور یحی بن عبداللہ کو ، حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن کا ضامن بنایا_ ایک مرتبہ جمعہ کے دن علویین اس کے پاس گئے انھیں واپس لوٹنے کی اجازت نہ دی یہاں تک کہ جب نماز کا وقت آگیا ، تو انھیں وضو کرنے اور نماز میں حاضر کا حکم دیا _ نماز کے بعد اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ ان سب کو قد کرلو_ عصر کے وقت سب کی حاضری لی تو معلوم ہوا کہ حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن نہیں ہیں _ پس ان کے ضامن حسین بن علی اور یحیی سے کہا : اگر حسن بن محمد تین دن تک میری خدمت میں شرف یاب نہ ہوئے یا انھوں نے خروج کیا یا غائب ہوگئے تو میں تمہیں قید خانے میں ڈال دوں گا یحیی نے جواب دیا کہ : یقیناً انھیں کوئی ضروری کام پیش آگیا ہوگا ، اسی لئی نہیں آسکے ہم بھی انھیں حاضر کرنے سے قاصر ہیں _ انصاف سے کام لو _ تم جس طرح ہماری حاضری لیتے ہو اسی طرح عمر بن خطاب کے خاندان والوں کو بھی بلاؤ اس کے بعد ان کی حاضری لو اگر ان کے افراد ہم سے زیادہ غائب ہوئے تو ہمیں کوئی اعتراض

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۴۱۵ _ ۴۱۸_

۲۰۹

نہ ہوگا پھر ہمارے بارے میں جو چا ہے فیصلہ کرنا _ لیکن حاکم ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوا اور قسم کھا کرکہا: اگر چو بیس ۲۴گنٹے کے اندر تم نے حسن کو حاضر نہ کیا تو تمہارے گھروں کو منہدم کرادو نگا ، آگ لگوادوں گااور حسین بن علی کو ایک ہزار تا زیانے لگاؤں گا_''

اس قسم کے حوادث سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ خلفا ئے بنی عباس کے زمانہ میں بعض علوی سادات غیبت وروپوشی کی زندگی گزارتے تھے اور یہ چیز اس زمانہ میں مرسوم تھی _ چنانچہ جب ان میں سے کو ئی غائب ہوتا تھا تو فریقین کی توجہ اسی کی طرف مبذول ہو جاتی تھی _ ایک طرف قوم کی نگاہیں اس پر مر کوز ہوتی تھیں خصوصاََاس وقت جب غائب ہونے والے میں کوئی مہدی کی علامت ہوتی ، اور وہ غیبت تھی_دوسری طرف خلافت کی مشنری اسے خوف زدہ ، مضطرب اور حساس ہوجاتی خصوصااس میں مہدی کی کوئی علامت دیکھتے اوریہ محسوس کرتے کہ لوگ اس کو احتمالی طور پر مہدی سمجھ رہے ہیں _ ممکن ہے اس کی وجہ سے ایسا انقلاب وشورش بر پاہوجائے کہ جس کے کچلنے میں خلافت کی مشنری کو بہت بڑ انقصان اٹھا نا پڑ ے _

اب آپ بنی عباس کے انقلابی اور بحرانی حالات یعنی نقل احادیث اور کتابوں کی تالیف کے زمانہ کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں اور یہ انصاف کر سکتے ہیں کہ مولفین ، علماء اور احادیث کے روات آزاد نہیں تھے کہ مہدی موعود سے متعلق خوصا مہدی کے قیام و غیبت سے مربوط احادیث کو اپنی کتابوں میں تحریر کرتے _ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۲۹۴ _۲۹۶

۲۱۰

مہدویت کے مقابلہ میں ، جو کہ اس زمانہ میں سیاسی مسئلہ بن چکا تھا ، نے کوئی مداخلت نہیں کی ہوگی اور احادیث کے روات کو آزاد چھوڑ یا ہوگا کہ وہ مہدی منتظر اور ان کے قیام و غیبت سے مربوط احادیث کو ، جو کہ سراسراکے ضرر میں تھیں ، کتابوں میں در ج کریں ؟

ممکن ہے آپ یہ خیال کریں کہ : خلفائے بنی عباس کم از کم اتناتو جانتے ہی تھے کہ دانشوروں کو محدود رکھتے اور ان کے امور میں مداخلت کرنے میں معاشرہ کی بھلائی نہیں ہے _ روایت احادیث اور علماء کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے تا کہ وہ حقائق لکھیں اور بیان کریں اور لوگوں کو بیدار کریں _ اس لئے میں خلفائے بنی عباس بلکہ ان سے پہلے خلفاء کی بے جامد اخلت کے چند نمونے پیش کرنے کیلئے مجبور ہوں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے:

خلفا کے زمانہ میں سلب آزادی

ابن عسا کرنے عبدالرحمان بن عوق سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب نے اصحاب رسول (ع) ، جیسے عبد اللہ بن خدیفہ ، ابو دردا ، ابوذر غفاری اور عقبہ بن عامر کو اسلامی شہروں سے طلب کیا اور سرزنش کرتے ہوئے کہا :

"پیغمبر (ع) سے تم لوگ کیا کیا حدیثیں نقل کرتے اور لوگوں میں پھیلاتے ہو؟ اصحاب نے جواب دیا یقینا آپ ہمیں حدیثیں بیان کرنے سے منع کرنا چاہتے ہیں ؟

عمر نے کہا : تم لوگ مدینہ سے با ہر نہیں جاسکتے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھ سے دور نہیں ہوسکتے میں بہتر جانتا ہوں کہ کس حدیث کو قبول کرنا اور کس کو رد کرناہے _ اصحاب رسول (ع) عمرکی حیات تک ان کے پاس رہنے پر

۲۱۱

مجبور ہو گئے _(۱)

معاویہ نے اپنے فرمانداروں کو حکم دیا کہ جو شخص بھی علی بن ابیطالب اور انکی اولاد کے فضائل کے بارے میں کوئی حدیث نقل کرتا ہے _ اس کے لئے امان نہیں ہے _(۲)

محمد بن سعد اور ابن عسا کرنے محمود بن عبید سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

میں نے عثمان بن عفان سے سنا کہ انہوں نے منبر کے اور پر سے کہا : کسی شخص کو ایسی حدیث نقل کرنے کا حق نہیں ہے جو کہ ابوبکر و عمر کہ زمانہ میں نقل نہ ہوئی ہو(۳) _

معاویہ نے اپنے فرمانداروں کو لکھا : لوگوں کو صحابہ اور خلفا کے فضائل میں حدیثیں نقل کرنے کا حکم دو اور انھیں اس بات پرتیار کرو کہ جو احادیث حضرت علی بن ابیطالب کے فضائل کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ایسی ہی احادیث کو صحابہ کے بارے میں بیان کریں _(۴)

مامون نے ۲۱۸ ہ میں عراق اور دوسرے شہروں کے علماو فقہا کو جمع کیا اور ان کے عقائد کے بارے میں بازپرس کی اور پوچھا کہ قرآن کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ اسے قدیم سمجھتے ہو یا حادث ؟ پس جو لوگ قرآن کو قدیم مانتے تھے انھیں کافر قرار دیا اور شہروں میں لکھ کر بھیجدیا کہ ان کی شہادت قبول نہ کی جائے _ اس لئے تمام علما قرآن کے بارے میں مامون کے عقیدہ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن چند افراد نے

____________________

۱_ اضواء علی السنة الحمدیہ ص ۲۹

۲_ نصائح الکافیہ مولفہ سید محمد بن عقیل طبع سوم ص ۸۷_

۳_ اضواء علی السنة المحمدیہ ص ۳۰_

۴_ نصائح الکافیہ ص ۸۸_

۲۱۲

قبول نہیں کیا _(۱)

حجاز کے بڑے فقیہ مالک بن انس نے مدینہ کے گورنر جعفر بن سلیمان کے مزاج کے خلاف ایک فتوی دیدیا_ حاکم نے انھیں بہت ہی رسوائی کے ساتھ طلب کیا اور ستر تازیانے لگانے کا حکم دیاجس سے وہ ایک مدت تک بستر سے نہ اٹھ سکے _

بعد میں منصور نے مالک کو طلب کیا ابتدائے گفتگو میں جعفر بن سلیمان کے تازیانہ لگانے پر اظہار افسوس کیا اور معذرت چاہی اس کے بعد کہا : فقہ و حدیث کے موضوع پر آپ ایک کتاب تالیف کیجئے لیکن اس میں عبد اللہ بن عمر کی دشوار ، عبداللہ بن عباس کی سہل و آسان اور ابن مسعود کی شاذ حدیثیں جمع نہ کیجئے _ صرف ان مطالب کو جمع کیجئے جن پر صحابہ کا اتفاق ہے _ جلد لکھئے تا کہ ہم اسے تمام شہروں میں بھیجدیں اور لوگوں کے لئے اس پر عمل کرنے کو لازم قرار دیدیں _ مالک کہتے ہیں فقہ و علوم کے سلسلے میں عراقیوں کا دوسرا عقیدہ ہے وہ ہماری باتوں کو قبول نہیں کریں گے ، منصور نے کہا: آپ کتاب لکھئے ہم اس پر عراق کے لوگوں سے بھی عمل کرائیں گے اور گر وہ روگردانی کریں گے تو ہ ان کی گردن ماردیں گے اور تازیانوں سے بد ن کو سیاہ کردیں گے _ کتاب کی تالیف میں جلد کیجئے ، سال آئندہ میں اپنے بیٹے مہدی کو کتاب لینے کے لئے آپ کے پاس بھیجوں گا _(۲)

معتصم عباس نے احمد بن حنبل کو بلایا اور قرآن کے مخلوق ہونے کے سلسلے میں ان کا امتحان لیا اور ا--سی کوڑے لگانے کا حکم دیا _(۳)

____________________

۱_ تاریخ یعقوبی ج ۳ ص ۲۰۲_

۲_ الامامہ و السیاسة ج ۲ ص ۱۷۷ و ۱۸۰_

۳_ تاریخ یعقوبی ج۳ ص ۲۰۶_

۲۱۳

منصور نے ابوحنیفہ کو بغداد بلا کر زہر دیا _(۱)

ہاروں رشید نے عباد بن عوام کے گھر کو ویران کردیا اور احادیث نقل کرنے سے منع کردیا _(۲)

خالد بن احمد ''بخارا'' کے گورنر نے محمد بن اسماعیل بخاری ، ایسے عظیم محدث سے کہا : اپنی کتاب مجھ پر ھکر سناؤ_ بخاری نے اس سے انکار کیا اور کہا :اگر یہی بات ہے تو مجھے نقل احادیث سے منع کردو تا کہ خدا کے نزدیک معذور ہوجاؤں _ اس بناپر بخاری ایسے عالم کو جلا وطن کردیا _ وہ سمرقند کے دیہات خزننگ چلے گئے اور آخری عمر تک وہیں اقامت گزیں رہے _ راوی کہتا ہے کہ میں نے بخاری سے سنا کہ وہ نماز تہجد کے بعد خدا سے مناجات کرتے اور کہتے تھے: اے اللہ اگر زمین میرے لئے تنگ ہوگئی ہے تو مجھے موت دیدے چنانچہ اسی مہینے میں ان کا انتقال ہوگیا _(۲)

جب نسائی نے حضر ت علی بن ابیطالب کے فضائل جمع کرکے اپنی کتاب خصائص تالیف کی تو لوگوں نے انھیں دمشق بلایا اور کہا: ایسی ہی ایک کتاب معاویہ کے فضائل کے سلسلے میں تالیف کرو، نسائی نے کہا: مجھے معاویہ کی کسی فضیلت کا علم نہیں ہے ، صرف اتنا جانتا ہوں کے پیغمبر (ص) نے اس کے بارے میںفرمایا ہے کہ: خدا کبھی معاویہ کو شکم سیر نہ کرے _ یہ سنکر لوگوں نے اس عالم کو جوتوں سے مارا اور ان کے خصیوں کو

____________________

۱_ مقاتل ص ۲۴۴_

۲_ مقاتل ص ۲۴۱_

۳_ تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳_

۲۱۴

اتنا دبایا کہ مرگئے _(۱)

فیصلہ

خلفا کے بحرانی اور انقلابی حالا ت ، مسئلہ مہدویت خصوصاً موضوع غیبت و قیام، جو کہ مکمل طور پر سیاسی بن گیا تھا اور عام لوگ اس کی طرف متوجہ تھے ، اس سے فائدہ اٹھایا جارہا تھا ، روات احادیث اور صاحبان قلم پر پابندیاں عائد تھیں _ ان تما م چیزوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیجئے : کیا صاحبان قلم ، روات احادیث مہدی موعود ، آپ کے علائم و آثار اور غیبت و قیام سے متعلق احادیث نقل کر سکتے تھے؟ کیا خلفائے وقت نے لکھنے والوں کو اتنی آزادی دے رکھی تھی کہ انہوں نے جو کچھ سنا یا پڑھاہے اس کی روایت کریں اور اپنی کتابوں میں لکھیں؟ یہاں تک ان احادیث کو بھی قلم بند کریں جو خلافت کے لئے خطرہ کا باعث اور سیاسی رنگ میں رنگی ہوں

کیا مالک بن انس اور ابو حنیفہ اپنی ان کتابوں میں جو کو منصور عباسی کے حکم سے تالیف ہوئی تھیں مہدویت اور علویین کی غیبت سے متعلق احادیث نقل کر سکتے تھے؟ جبکہ اسی زمانہ میں محمد بن عبداللہ بن حسن اور ان کے بھائی ابراہیم غائب تھے اور بہت سے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ محمد ہی مہدی موعود ہیں جو کہ قیام کریں گے ، ظلم و طتم کا قلع و قمع کریں گے او ردنیا کی اصلاح کریں گے : با وجودیکہ غیبت اور محمد کے قیام سے منصور بھی خوف زدہ تھا اور انھیں گرفتار کرنے کے لئے علویوں کے ایک بے گناہ گروہ کو قیدی بنا

____________________

۱_ نصائح الکافیہ ص ۱۰۹_

۲۱۵

رکھا تھا _ کیا اسی منصور نے ابوحنیفہ کو زہر نہیں دیا تھا؟ کیا اس کے گور نر جعفر بن سلیمان نے مالک بن انس کو کوڑے نہیں لگوائے تھے؟

کیا اسی منصور نے جب مالک بن انس کو کتاب تالیف کرنے کا حکم دیا تھا تو ان کے کام میں مداخلت نہیں کی تھی اور صریح طور پر یہ نہیں کہا تھا کہ اس کتاب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابن مسعود کی حدیثیں نقل نہ کرنا؟ اور جب مالک نے یہ کہا: عراق والوں کے پاس بھی علوم و احادیث ہیں ممکن ہے وہ ہماری احادیث کو قبول نہ کریں ، منصور نے کہا: ہم آپ کی کتاب پر نیزوں کی انی اور تازیانوں کے زور سے عمل کرائیں گے ؟ کیا منصور سے کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ لوگوں کے دینی امور می تمہیں مداخلت کا کیا ۳حق ہے ؟ تمہیں کیسے معلوم کہ عراق والوں کے علوم و احادیث باطل ہیں ؟ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر اور ابن مسعود کا کیا جرم ہے جو تم ان کی احادیث قبول نہیں کرتے؟

تدوین احادیث کے سلسلہ میں منصور جیسے لوگوں نے جو بے جا مداخلت کی ہے میں اس کا صحیح محل تلاش نہیں کر سکتا _ بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر اور ابن مسعود کی احادیث خلاف کی مشنری کے موافق نہیں تھیں اس لئے ان کے نقل کرنے میں قدغن تھی_ مالک کے بارے میں لکھتے ہیں ایک لاکھ احادیث سنی تھیں لیکن'' موطا'' میں پانچ سوسے زیادہ نہیں ہیں _(۱)

کیامعتصم سے کوڑے کھانے والے احمد بن حنبل ، جلا وطن ہونے والے بخاری اور زدکوب میں جان دینے والے نسائی اپنی کتابوں میں ایسی احادیث لکھ سکے ہیں جو علویوں

____________________

۱_ اضواء ص ۲۷۱

۲۱۶

کے موافق اور دربار خلافت کے مخالف تھیں ؟

نتیجہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے ، چونکہ احادیث مہدویت خصوصاً غیبت و قیام سے متعلق احادیث سیاسی صورت حال اختیار کر چکی تھیں اور خلافت کی مشنری کے ضرر اور اس کے مخالف یعنی علویوں کے حق میں تھیں _ اس لئے علمائے اہل سنّت پابندی کی وجہ سے انھیں اپنی کتابوں میں ڈرج نہیں کر سکے اور اگر لکھی ہوں گی تو انھیں ظالم سیاستمداروں نے محو کردیا ہے _ شاید ابہام و اجمال کی صورت میں وجود مہدی اس لئے حوادث کی دست برد سے محفوظ رہ گیا کہ حکومت کو اس سے کوئی ضرر نہیں تھا _ لیکن مہدی موعود کے مکمل آثار و علائم اور احادیث کو اہل بیت رسول (ص) اور ائمہ اطہار نے ، جو کہ علوم پیغمبر(ص) کے محافظ تھے ، محفوظ رکھا اور وہ آج تک شیعوں کے درمیاں باقی ہیں _

اس کے باوجود اہل سنّت کی کتابیں غیبت کے موضو ع سے خالی نہیں ہیں _ مثلاً ایک روز حذیفہ کے سامنے کہا گیا : مہدی نے خروج کیا ہے _ حذیفہ نے کہا : اگر مہدی نے ظہور کیا ہے تو یہ تمہارے لئے بڑی خوش قسمتی کی بات ہے جبکہ ابھی اصحاب پیغمبر(ص) زندہ ہیں لیکن ایسا نہیںمہدی اس وقت تک خروج نہیں کریں گے جب تک لوگوں کے نزدیک مہدی سے زیادہ کوئی غائب محبوب نہ ہو _(۱)

یہاں حذیف نے موضوع غیبت کی طرف اشارہ کیا ہے _ حذیفہ حوادث زمانہ اور

____________________

۱_ الحادی للفتاوی ج ۲ ص ۱۵۹_

۲۱۷

اسرار پیغمبر(ص) سے واقف و آگاہ ہیں _ و ہ خود کہتے ہیں : میں مستقبل کے حوادث اور فتنوں کو تمام لوگوں سے بہتر جانتا ہوں _ اگر چہ ان چیزوں کو رسول (ص) نے ایک مجلس میں بیان کیا تھا _

لیکن حاضرین میں سے اب میرے سوا کوئی باقی نہیں ہے _(۱)

جلالی : امام غائب کتنے سال زندہ رہیں گے؟

ہوشیار : آپ (ع) کی زندگی اور عمر کی مقدار معین نہیں ہوئی ہے _ لیکن اہل بیت کی احادیث طویل العمر قرار دیتی ہیں مثلاً امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا:

''میرے بعد میرا بیٹا قائم ہے اس میں پیغمبروں کی دو خصوصیتیں یہ بھی ہوں گی کہ وہ عمر دراز ہوں گے اور غیبت اختیار کریں گے _ ان کی طولانی غیبت سے دل تاریک اور سخت ہوجائیں گے ، آپ(ع) کے عقیدہ وہی لوگ باقی و قائم رہیں گے کہ خدا جن کے دلوں میں ایمان استوار رکھے گا اور غیبی روح کے ذریعہ ان کے مدد کرے گا _(۲) اس سلسلہ میں ۴۶ حدیثیں اور ہیں _

ڈاکٹر: امام زمانہ سے متعلق ابھی تک آپ نے جو باتین بیان فرمائی ہیں وہ سب مستدل اور قابل توجہ ہیں _ لیکن ایک اہم اعتراض ، کہ جس نے میرے اور تمام احباب کے ذہن کو ماؤف کررکھا ہے اور ابھی تک اما م غائب کے وجود کے سلسلے میں متردد ہیں وہ طول عمر ہے _ علما اور تعلیم یافتہ طبقہ ایسی غیر طبیعی عمر کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ بدن کے خلیوں کی عمر محدود ہے _ بدن کے اعضاء رئیسہ ''قلب'' ''مغز'' پھیپھڑ ے اور ''جگر''

____________________

۱_ تاریخ ابن عساکر ج ۴ ص ۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۲۴_

۲۱۸

کام کرنے کیلئے معین استعداد کے حامل ہیں _ میں اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک طبیعی انسان کا قلب ہزار سال سے زیادہ کام کرسکتا ہے _ صریح طور پر عرض کروں : ایسے موضوعات اس علمی زمانہ میں کہ جس مین فضا کو مسخر کرلیا گیا ہے ،دنیا والوں کے سامنے پیش نہیں کی جا سکتا _

ہوشیار : ڈاکٹر صاحب مجھے بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ حضرت ولیعصر کی طولعمر کا مسئلہ مشکل مسائل می ایک ہے _ میں بھی علم طل و علم الحیات سے نا واقف ہوں لیکن حق با ت قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ، حضور ہی طول عمر سے متعلق اپنی قیمتی معلومات سے نوازیں _

ڈاکٹر: مجھے بھی اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ میری علمی اطلاعات بھی اتنی نہیں ہیں جو کہ ہماری بنیادی مشکل کو حل کر سکیں _ اس بناپر ہمیں کسی سائنسد اں کی معلومات استفادہ کرنا چاہئے _ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام اصفہان کی میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر نفیسی کے ذمہ کیا جائے اور ان کے علم سے استفادہ کیا جائے ، کیونکہ موصوف کلاسیکی تعلیم کے علاوہ محقق بھی ہیں اور ایسے مطالب سے دل چسپی بھی رکھتے ہیں _

ہوشیار : کوئی حرج نہیں ہے _ میں اس سلسلے میں کچھ سوالات لکھتا ہوں اور بذریعہ خط ڈاکٹر نفیسی صاحب کی خدمت میں ارسال کرتا ہوں اور جواب کا تقاضا کرتا ہوں _ بہتر ہے کہ جلسہ کو ملتوی کردیا جائے ہو سکتا ہے اس مدت میں طول عمر کے موضوع پر ہم تحقیق کرلیں اور کامل بصیرت کے ساتھ بحث میں وارد ہوں ڈاکٹر نفیسی کا جواب موصول ہونے کے بعد جلالی صاحب آپ کا فون کے ذریعہ اطلاع دیں گے _

۲۱۹

طول عمر کے سلسلہ میں تحقیق

ایک ماہ تک تقریباً جلسہ ملتوی رہا یہاں تک جلالی صاحب نے احباب کو فون پر اطلاع دی چنانچہ ہفتہ کی شب میں سب ان کے گھر میں جمع ہوئے _ معمولی ضیافت کے بعد جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _

ہوشیار : خوش قسمتی سے ڈاکٹر نفیسی صاحب کا جواب آگیا ہے انکی ذرہ نوازی کے شکریہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے اس خط کے متن کی پڑھنے کی خواہش کرتا ہوں _

ڈاکٹر : کوئی حرج نہیں ہے _

محترم جنا ب خط ملا اظہار محبت اور ذرہ نوازی کا شکریہ جو مطالب آپ نے تحریر کئے ہیں ، اگر میری مشغولیتیں بہت زیادہ ہیں ، لیکن مطالعہ ، خصوصاً طبیعی ، آفاقی و انفسی مسائل میں تحقیق سے مجھے دلچسپی ہے اس لئے فراغت کے اوقات میں جنابعالی کے سوالات کے جواب د ینا ضروری سمجھتا ہوں خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں _ امید ہے وہ عقیدت مندوں کو پسند آئیں گے _

کیاانسان کی عمر کی حد معین ہے ؟

ہوشیار: کیا علم طب و علم الحیات میں انسان کی حیات کی کوئی حد معین

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455