آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181865 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

ہوئی ہے کہ جس سے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے؟

ڈاکٹر نفیسی : انسان کی زندگی کیلئے ایسی کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوز محال ہو لیکن نوع انسان کی طویل ترین عمر حسب معمول سو سال سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان زمانوں سے بہت زیادہ مختلف نہیں سے جو مدون تاریخ میں وجود ہیں _ لیکن ، ممالک ، آب و ہوا ، نسل و میراث اور زندگی کی نوعیت کے لحاظ سے عمر کا اوسط مختلف ہے اور زمانہ میں متفاوت ہوتا ہے _ جیسا کہ آخری صدی میں عمر کے اوسط میں نمایان فرق آیا ہے _ مثلاً برطانیہ میں ۱۸۲۳ء مردوں کی عمر کا اوسط ۹۱/۲۹ اور عورتوں کی عمر کا اوسط ۸۵/ ۴۱ تھا لیکن ۱۹۳۷ ء میں مردوں کی عمر کا ۱۸/ ۶۰ اور عورتوں کی عمر کا اوسط ۴۰/۶۴ تھا _

۱۹۰۱ ء میں امریکہ میں مردوں کی عمر کا اوسط ۲۳/ ۴۸ اور عورتوں کا ۸۰/۵۱ سال تھا جبکہ ۱۹۴۴ ء میں مردوں کی عمر کے اوسط میں ۵۰/ ۶۳ اور عورتو ں کی عمر کے اوسط میں ۹۵/۶۸ تک اضافہ ہوا ہے _ یہ اضافہ بچوں کو شامل ہے اور یہ طبی حالت کی بہتر اور بیماریوں کی خصوصاً متعدی بیماریوں کے سد باب کا مرہون منت ہے لیکن بڑھاپے کی بیماریوں میں ، کہ جن کو استحالہ بھی کہتے ہیں ، جیسے شرایین کا سخت ہونے کے ، علاج و دو ا میںکوئی بہتری نہیں ہوتی ہے _

ہوشیار: کیا زندہ موجودات کی حیات کی تعیین کیلئے کوئی قاعدہ اور معیار ہے؟

ڈاکٹر نفیسی : عام خیال یہ ہے کہ بدن کے حجم اور مدت عمر کے درمیان ایک نسبت برقرار ہے _ مثلاً جلد ختم ہونے والی عمر ، پروانہ ، پشہ اور کچھولے کی زندگی قابل توجہ

۲۲۱

ہے لیکن یادرہے یہ نسبت ہمیشہ ثابت نہیں رہتی ہے کیونکہ طولا ، کوّا اور غاز اکثر اپنے سے بڑے پرندوں یہاں تک کہ اکثر دودھ پلانے والے جانوروں سے بھی زیادہ طویل زندگی گزارتے ہیں _

بعض مچھلیاں جیسے ''سالموں '' سوسال ، کریپ ایک سو پچاس اور پیک دو سو سال تک زندہ رہتی ہیں ان کے مقابلہ میں گھوڑے کو دیکھئے کہ تیس سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتے ارسطو کے زمانہ میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ہر موجود کی زندگی کی مدت کو اسی کے رشد و تمو کے زمانہ کی ضرب سے نکالا جا سکتا ہے _ اس ضرب کی شکل کو '' فرانسیس بیکن'' نے حیوانات میں چالیس گنا اور '' فلورنس'' نے پانچ گنا کو اس حیوان کے بلوغ کے لئے لازمی قرار دیا ہے _

''بوفن'' اور'' فلورانس'' نے انسان کی طبیعی عمر سو سال قرار دی ہے اور اب بھی عام خیال یہی ہے جبکہ داؤد پیغمبر نے عمر طبیعی ستّر سال قرارد دی ہے _

اس کے دوران بہت سے ایسی سن رسیدہ اور طویل العمر افراد کے بارے میں رپورٹ دی ہے کہ جن کی عمر سو سال سے زائد تھی اگر چہ عمر کی تعیین اور تخمینہ میں مبالغہ اور اغراق کا امکان ہے _

منجملہ ان معمرین کے ہانرے چنکنیز ۱۶۹ ، تماس پارس ، ۲۰۷ سال ، کاترین کنتس ڈسمونڈ ۱۴۰ سال کے تھے اس کے علاوہ بھی ایران اور دیگر ممالک کے اخباروں میںدوسرے افراد کے نام ملتے ہیں _

طول عمر کے اسباب

ہوشیار: طول عمر میں کونسے عوامل مؤثر ہیں؟

۲۲۲

ڈاکٹر: طول عمر کے عوامل درج ذیل ہیں

موروتی عامل: طول عمر میں موروثی عامل کی اہمیت واثر واضح ہے _ ایسے خاندان بھی پائے جاتے ہیں کہ جس کے افراد کی عمر کا اوسط عام طور پر زیادہ ہے مگر یہ کہ ان میں سے کوئی حادثاتی طور پر مرجائے _

اس سلسلے میں جو دلچسپ اور تحقیقی مطالعات ہوئے ہیں ان میں سے ایک '' ریمونڈ'' پیرل کا مطالعہ ہے _ اس نے اپنی بیٹی کے تعاون سے ایک کتاب تالیف کی اور اس میں ایک خاندان کی طویل العمری ، جس میں ایک فرد کی سات پشتوں ، دادا، پر دادا، نواسہ ، نواسہ کی اولاد اور موخر الذکر کی اولاد کی اولاد _ کی مجموعی عمر ۶۹۹ سا ل ہوتی ہے جبکہ اس خاندان کے دو اشخاص حادثہ میں مرگئے تھے _ بیمہ کمپنیوں کی تحقیق سے جو نئی شرح ''لوئی دوبلین'' اور ''ہربرٹ مارکس'' نے پیش کی میں انہوں نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ اسلاف کی درازی عمر اخلاف کی عمر پر اثر انداز ہوتی ہے _

ممکن ہے یہ عامل کبھی دیگر عوامل جیسے ماحول اور بری عادت و غیرہ کے اثر کو ختم کردے _ چنانچہ اس بناپر کہا جا سکتا ہے کہ نامسا عد حالات میں بعض افراد کی طور عمر کا یہی راز ہے _ مثلاً ممکن ہے ایک شخص الکحل پیتا ہے لیکن موروثی عامل کی بناپر طویل عمر پاتا ہے _

اولاد، ماں، باپ سے اعضاء سالم و طاقت ور قوامیراث میں پاتے ہیں جو کہ طول عمر میں موثر ہیں اور میراث ملنے والی درجہ اول کی چیزوں میں اعصاب کی مشنری اور خون کی گردش کا نام پیش کیا جا سکتا ہے _ انسان کی عمر اس کے شرائی کی رد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے یعنی بعض لوگوں کی سرخ رگین بڑھاپے کی عمر سے پہلے ہی سخت

۲۲۳

ہوجاتی ہیں _ واضح ہے کہ اس سکتہ کی وجہ شرائین کی سختی اور ان چھلنی ہوجاتی ہے _

دوسرا عامل ما حول ہے : جس ماحول کی ہوا معتدل ، صاف ، حراثیم اور زہر سے پاک ، شور و ہنگامہ سے خالی ، سکون سے مالا مال اور سورج کی شعاعوں کا مر کز ہوگی اس کے باشند وں کی عمر وراز ہو گی _

تیسرا عامل ، شغل کی نوعیت اور کام کی مقدارہے _ کام میں جدو جہد خصوصا روحی و عصبی فعالیت درازی عمرمیں بہت موثر ہے ، جب بدن سالم اور ذہن آزاد ہوتو

بدن اور روح کوبے کاری سے جورنگ لگتا ہے وہ بدن وروح کی پر کاری کے نتیجہ کی فر سودگی سے زیادہ ہوتا ہے اور اس سے عمرمیں کمی واقع ہوتی ہے _ اسی لئے طویل عمر لوگوں کی ، وزیرا عظیم اور پادر یوں کی عمر معمولی افراد سے زیادہ ہے _ یہ عمر طویل ان کی سعی پیہم کا نتیجہ ہے اور اس بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جوانی کےعالم میں رٹائر ڈمنٹ لے لینے اور جلد بیکار بیٹھنے سے بہت سے خطرات پیدا ہوجاتے ، میں اور اس سے عمر کم ہوتی ہے _

چوتھا عامل : غذا کی کیفیت ہے _ غذا بھی مقدار اور نوعیت کے اعتبار سے درازی عمر پر گہر ا اثر چھوڑی ہے_ جن لوگوں کی عمر سو سال سے زیادہ ہوئی ہے ان میں سے اکثر کم خوراک تھے ، خشک خوراکی کیلئے بہت سی ضرب المثل کہی گئی میں ، مونتین کہتا ہے : انسان مرتا نہیں بلکہ خود کشی کرتا ہے _ دوسّری ضرب المثل کہتا ہے :

تم اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودتے ہو _ زیادہ کھا نے سے جہاں بدن کی مختلف مشنریوں کی فعالیت بڑ ھ جاتی ہے وہاں بہت سی بیماریاں جیسے شکر کی بیماری ، رگوں ، قلب اور

۲۲۴

پھیھپڑوں کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے افسوس ہے کہ ایسے افرادکی بدنی طاقت بیماری کے ظاہر ہونے سے قبل بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اس جھوٹی طاقت پر فنحر بھی کرتے ہیں پہلی جنگ عظیم کے دوران اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ بعض ممالک میں شکرکے مرض میں مرنے والوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی _ اس کی علت جنگ کے زمانہ میں غذا کی کمیابی کو سمجھنا چاہئے _ اس بناپر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ فقر ابہت بڑا عطیہ ہے جو غذا کو معتدل اور اس میں کمی واقع کردے _ اور زیادہ گوشت کھانا ، خوصوصا چالیس سال کی عمر کے بعد بہت نقصاندہ ہے _

کورفل نیویارک یونیورسٹی میں ڈاکٹر mccay نے چوہوں پر ریسرچ کی ہے اس میں ا س بات کو ثابت کیا ہے کہ لاغر چوہے موٹے چوہو ں کو قبر میں پہنچاتے ہیں _ عام طور پر چوہے چار ماہ میں کامل و بالغ اور دو سال میں بوڑھے ہوجاتے ہیں اور تین سال سے پہلے مرجاتے ہیں _ ڈاکٹر mccay نے کچھ چوہے لئے اور انھیں کم کیلری والی غذا میں پالا لیکن ویٹامن اور معدنی مواد کے لحاظ سے یہ غذا قوی تھی _ اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان چوہوں کا رشد چار ماہ کے علاوہ ہزار دن تک جاری رہ سکتا ہے _ ان تجربوں میں اس نے مشاہدہ کیا کہ جن چوہوں نے معمولی غذا میں زندگی گزاری ہے وہ ۹۶۵ دن کے بعد مرے ہیں لیکن جن چوہوں کو کم کیلری والے غذا میں پالا تھا وہ اس کے بعد تک جو ان و زندہ رہے اگر ہم کم غذا کھانے والے چوہوں کا انسان سے موازن کریں تو انہوں نے نوع انسانی کی اس فرد کی ، جو کہ سو سے ایک سو پچاس سال تک زندہ رہتا ہے ، زندگی گزاری ہے _ اس کے: علاوہ یہ چوہے بہت کم بیمار ہوئے اور معمولی غذا میں زندہ رہنے والے چوہوں سے زیادہ چالاک تھے ایسے

۲۲۵

ہی تجربے کچھ مچھلیوں اور دیگر حیوانات پر RMPHIBIEN نے کئے ہیں اور اسی نتیجہ پر پہنچا ہے جیسا کہ پر خوری سے عمر کم ہوتی ہے اسی طرح غذا کی کمی بھی مرض کے پیدا ہونے اور عمر گھٹانے کے سلسلے میں گہر اثر رکھتی ہے یعنی اگر غذائی نظام میں ضروری مواد نہیں ہوگا تو امراض کو وجود میں لائے گی _

ضعیفی اور اس کے اسباب

ہوشیار: ضعیفی کیا ہے ؟

ڈاکٹر: جس وقت بدن کے اعضاء رئیسہ ، جیسے قلب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور داخلی غدود فرسودہ ہوکر اپنے فرائض کی انجام دی ، سے معذور ہوجاتے ہیں _ خون کے تصفیہ اور ضروری ترشحات سے عاجز ہوجاتے ہیں تو بدن پر ضعف و ناتوانی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور بڑھا پا آجاتا ہے _

ہوشیار: بڑھاپے کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟

ڈاکٹر: بڑھاپے کی علامتیں عام طور پر کسی بھی شخص میں معین وقت پر ظاہر ہوتی ہیں _ لیکن یہ بھی مسلّم نہیں ہے کہ بڑھا پے کی اصل وجہ عمر کی یہی مقدار نہیں ہے کہ بدن کے اعضاء پر اتنی مدت گزرجائے تو بڑھاپا آجاتا ہے بلکہ ضعیفی کی بنیادی علت اختلال کی پیدائشے کو قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ اختلال عام طور پر اسی عمر میں پیدا ہوتا ہے اس بنا پر ضعیفی کی علت مرور زمان نہیں ہے بلکہ اس کی اصل علت اختلال ہے جو کہ اسی عمر میں اعضاء بدن میں پیدا ہوتا ہے _ اور اسی عمر میں بدن کی مختلف مشنریوں کی فعالیت میں کمی واقع ہوتی ہے اور تشریح الاعضاء کے نقطہ نظر سے ان کی مختلف

۲۲۶

صنعتیں سکڑجاتی ہیں_ ان کی رگوں کی تعداد بھی کم ہوجاتی ہے ، نظام ہا ضمہ بیکار اور ضروری غذائیں فراہم کرنے سے عاجر ہوجاتا ہے اور نتیجہ میں پورے بدن پر ضعف طاری ہوجاتاہے ، طاقت تناسل کم اور مغز کی حرکت مدہم پڑجاتی ہے _ بعض اشخاص کا حافظہ خصوصاً اسماء کے سلسلہ میں بے کار ہوجاتا ہے ، نیز قوت ارادی متاثر ہوجاتی ہے _ لیکن یہ ممکن ہے کہ بدنی قوت کے کم ہونے سے روحانی طاقت میں اضافہ ہوجائے _ ممکن ہے تمام اعضاء بدن کی طرح داخلی مترشح غدود بھی چھوٹے اور ضروری ترشحات سے معذور ہوجائیں _ لیکن مذکورہ حوادث اور ناتوانیاں بدن میں واقع ہونے والے اختلال کی پیدا وارہیں _ پس یہ کہنا چاہئے کہ ضعیفی علت نہیں ہے بلکہ معلول ہے یہاںتک کہ اگر کوئی شخص ایسا پایا جائے کہ جس کے اعضاء بدن میں طویل عمر کے باوجود اختلال پیدا نہیں ہوا ہے تو وہ سالم و شاداب بدن کے ساتھ عرصہ دراز تک زندہ رہ سکتا ہے جیسا کہ ایسے افراد بھی مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ جو کم عمری کے باوجود طبیعی حالات کے تحت جلد فرسودہ ہوجاتے ہیں اور جلد ان پر برھاپا طاری ہوجاتا ہے _

ہوشیار: بدنی ضرورتوں کو منظم کرنے والی مشنریوں کی فرسودگی اور ناتوانی کا سرچشمہ کیا ہے؟

ڈاکٹر: پیدائشے کے وقت ہر شخص کے اعضاء بدن کام کرنے کی صلاحیت واستعداد سے مالامال ہوتے ہیں اور یہ خود والدین کے جسم ، غذا کی کیفیت ، ان کی زندگی کے ماحول اور آب و ہوا کی پیداوار ہوتے ہیں _ اس کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک ان کے اعضاء میں کوئی اختلال پیدا نہ ہوگا تو وہ اپنی طبیعی استعداد کے اختتام تک اپنا کام جاری رکھیں گے اور انسان زندہ رہے گا _ لیکن جب تمام اعضاء یا

۲۲۷

ان میں سے ایک میں کوئی خلل پیدا ہوجائے گا تو وہ بے کار ہوجائے گا اور بدن کا کارخانہ نصف کام انجام دے گا اور ضعیفی کے آثار آشکار ہوجائیں گے _

مختصر یہ کہ انسان کا بدن مستقل مختلف اقسام کے دائر س ، بیکٹیریا ، جراثیم اور زہریلی چیزوں کی زدمیں رہتا ہے جو مختلف طریقوں سے اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بدن کے اندر زیریلا مواد ترشح کرتے ہیں اور بے گناہ خلیوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے ان گی زندگی کا خاتمہ کردیتے ہیں _

اس وقت انسان کے بدن پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے _ ایک طرف اسے غذائی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، اور دوسری طرف متعدی بیماریوں اور ضرر رساں جراثیموں کو نابود کرنے کی کوشش کرتا ہے _ خراب اعضاء کو مدد دیتا ہے ، لیکن ابھی اس دشمن کے حملہ کو ناکام نہیں بنا پاتا کہ دوسرا دشمن حملہ آور ہوتا ہے _ اس لحاظ سے بدن کی داخلی طاقت کو ہمیشہ آمادہ _ اٹینشن _ اور جنگ کے لئے تیار ، رکھتا ہے _

انسان کا بدن مبارزہ کے وسائل اور رزق فراہم کرنے کے لئے مجبور ہے _ باہر سے وارد ہونے والی غذائی طاقت سے مدد حاصل کرتا ہے _ افسوس ہے کہ ہمیں وجودی تعمیر اور اپنی درونی احتیاجات کے بارے میں کافی معلومات نہیں ہیں _ اور اس مقدس جہاد میں صرف اس کی مدد ہی نہیں کرتے بلکہ جہالت و نادانی کی بناپر اس کے دشمن کی مدد کرتے ہیں اور مضر غذا کھاکر دشمن کے لئے راستہ کھولتے اور اپنے حیات کی جڑیں کاٹتے ہیں _ واضح ہے کہ جب اپنی ضرورت کی چیزوں کو باہر سے حاصل نہیں کیا جائے گا ، تو جراثیموں کے حملہ کے مقابلہ میں مقاومت نہیں کرسکیں گے اور اپنے فرائض کی انجام وہی ہے

۲۲۸

عاجز ہوجائیں گے ، سرزمین بدن کو دشمنوں کے حملہ سے بچانے کیلئے کوئی طاقت نہ ہوگی اور اس میں ضعف و ناتوانی کے آثار نمایاں ہوجائیں گے _

جیسا کہ کبھی بدن زیاد ہ محنت و مشقت کی وجہ سے ضعیف ہوجاتا ہے ، کبھی غیر معمولی حوادث کی وجہ سے طبیعی عمر سے پہلے ہی بلاء میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس پر بہت جلد بڑھاپا طاری ہوجاتا ہے _ بعض سائندانوں کا خیال ہے کہ بعض بیماریوں اور بری عادتوں سے انسان پر جلد بڑھا پا طاری ہوجاتا ہے _'' مچنیکوف'' کا نظریہ ہے ROTRTIK اور خشکی کے خمیر سے جو زہر یلے جراثم وجود میں آتے ہیں وہ بھی انسان کے ضعف و بڑھاپے کا باعث ہوتے ہیں اگر ان کو ختم کردیا جائے تو اس کی عمر میں اضافہ ہوجائے گا _

اس نظریہ کی بنیاد اس تجربہ پر استوار تھی چونکہ ، بالکان خصوصاً بلغارستان ترکی اور قفقاز میں سو سال سے زیادہ بوڑھوں کی تعداد اچھی خاصی ہے ، لہذا اس عمر درازی کی علت دھی کے استعمال کو قرار دیا ، اس کا نظریہ تھا کہ دھی میں چونکہ کھٹاس ہوتا ہے جو کہ ROTROTK کو ختم کردیتا ہے اور طول عمر میں معاون ہوتا ہے _ لیکن واضح ہے کہ ان کوہ نشین لوگوں کی طول عمر کا راز ان کی غذا ہی نہیں ہے بلکہ آب و ہوا ، پر سکون زندگی ، مستقل جد و جہد او رموروثی عوامل کم و بیش سب ہی اس میں دخیل ہیں _ ان مشاہدات کی نظیر ایران کے کوہ نشین انسانوں میں بھی موجود ہے _

ہوشیار: کیا موت اور کارخانہ بدن کے بیکار ونے کی اصل علت طول عمر اور اعضاء کے کام کی کثرت ہے کہ جس سے بڑھاپے میں موت یقینی ہے یا موت کی بنیادی علت کوئی اور چیز ہے ؟

ڈاکٹر: موت کی اصلی علت بدن کے تمام اعضاء رئیسہ یا ان میں سے

۲۲۹

ایک میں خلل کا پیدا ہونا ہے جب تک خلل پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک موت واقع نہیں ہوگی _ یہ خلل اگر ضعیفی کے زمانہ سے قبل پیدا ہوجاتا ہے تو جوان انسان بھی مرجاتا ہے لیکن اگر حوادث کی گزند سے محفوظ رہے کہ عام طور پر ضعیفی کے زمانہ میں ان حوادث کا پیدا ہونا ضروری ہے _لیکن اگر کوئی ممتاز انسان پایا جائے جس نے طویل عمر پائی ہو تو اپنے جسم کی مخصوص ترکیب اور تمام شرائط کی موجود گی کی بناپر اس کے کسی بھی عضو میں خلل پیدا ہوا ہو تو طول عمر اس کی موت کا باعث نہ ہوگی _

ہوشیار : کیا مستقبل میں انسان ایسی دو کے انکشاف میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ جس سے وہ اپنے بدن کی استعداد میں اضافہ کر سکے اور ضعیفی اور جسمانی خلل کو روک سکے ؟

ڈاکٹر: یہ ایسا موضوع ہے جو ممکن ہے اسے آج ناقص علم سے اور قیاس کی روسے غلط نہیں کہا جا سکتا _ اس سلسلے میں سائنسداں امید اور سنجیدگی کے ساتھ تحقیق میں مشغول تھے اور ہیں ، امید ہے کہ طو ل عمر کا راز جلد ہی کشف ہوجائے گا اور انسان ضعیفی اور کم عمرپر غلبہ پائے گا _

صاحب الامر کی طویل عمر

ہوشیار: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شیعہ ، مہدی موعود بن حسن عسکری کہ ، جو کہ ۲۵۵ یا ۲۵۶ ھ میں پیدا ہوئے تھے ، ابھی تک با حیات سمجھتے ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ آپ غیبت کی زندگی بسرکررہے ہیں اور شائد اسی طرح سیکڑوں سال تک زندہ رہیں گے _ کیا علم حیات و طب ایسی غیر معمولی عمر کو محال قرار دیتا ہے ؟

ڈاکٹر : اس سلسلے میں ابھی تک میں نے جو کچھ کتابوں میں پڑھاہے اس سے

۲۳۰

معلوم ہوتا ہے کہ قائم آل محمد کی طول عمر کا راز کسی پر عیان نہیں ہوا ہے _ لیکن ایسا لگتا ہے کہ علوم کی جو ترقی ہوئی ہے اور ہورہی ہے اور خدا کی مدد سے یہ مشکل بہت جلد حل ہوجائیگی اور عقیدت مندوں کے اختیار میں پہنچ جائے گی _

سردست جو کچھ جانتا ہوں اسے بیان کرتا ہوں : آج کے ناقص علم اور قیاس کی بناپر اسے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اصل امکان کے علاوہ ہمارے پاس غیر معمولی طول عمر کے چند نمونے موجود ہیں جن کے ثبوت میں کسی قسم کی شک و تردید نہیں ہے :

الف: نباتات کے درمیان ایسے طویل العمر درخت موجود ہیں جنھیں روئے زمین پر قدیم ترین موجودات کہا جاتا ہے ، منجملہ ان کے SEQUOIA ہے یہ کالیفورنیا میں موجود ہے _ ان میں سے بعض ۳۰۰ فٹ لمبے اور ۱۱۰ فٹ موٹے ہیں _ ان میں سے بعض کی عمر پانچ ہزار سال سے زیادہ ہے _ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جب فرعون اول ، KHORFU نے مصر کے بڑے ہرم کی تعمیر شروع کی تھی اس وقت یہ درخت شاداب و جوان تھا اور حضرت عیسی کی ولادت کے وقت اس کی چھال کی ضخامت ۴۰/۳ سنٹی میٹر تھی _ مثلاً( sequeiagentea ) ، قسم کے ایک درخت کے تنے _ جو کہ ( s: kensington ، کنسنگٹن جنوبی کے میوزیم میں موجود ہے _ میں ۱۳۳۵ حلقے ہیں یعنی اس کی عمر اتنے ہی سال(۱)

سن رسیدہ ترین زندہ موجود جو کہ آج بھی زندہ ہے جس کی عمر تقریباً ۴۳۰۰ سال ہے وہ ایک قسم کی کاجی ہے جس کا نام ( pinus aristata ) ہے اور یہ کالیفورنیا کے مشرقی مرکز میں موجود ہے _ حیوانات میں سب سے زیادہ طویل العمر ایک قسم کا زندہ کچھواہے جو کہ گالاگوش جزیرہ میں موجودہے _ اس کی عمر ایک سو ستّر (۱۷۰) سال

____________________

۱_ دائرة المعارف بریٹانیائی ج ۱۴ ص ۳۷۶_

۲۳۱

ہے _ وزن تقریباً ۴۵۰ پونڈ ہے اور طول چار فٹ ہے _(۱)

ب: قدیم مصر میں کھدائی ہوئی تو مصر کے جوان مرگ فرعون کے مقبرہ میں گیہوں نکلے ، میں نے خود مذکورہ مقبرہ میںوہ گیہوں دیکھے ہیں اور اخباروں میں پڑھاہے کہ بعض علاقوں میں انھیں بویا گیا تو وہ کامل طور پر سر سبز و شاداب ہوئے اور فصل دی _ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے گندم کا حیاتی نقطہ تقریباً تین یا چار ہزار سال تک زندہ رہا ہے _

ج: متعدی بیماری کے جراثیم کو قدیم ترین زندہ موجود قرار دیا جا سکتا ہے _ یہ ایسے زندہ موجودات ہیں کہ ممکن ہے جن کی زندگی کا مطالعہ حیات کے راز کو آشکار کردے _ ان ہی سے بعض نباتی ، حیوانی اور انسانی بیماریاں جیسے زکام انفلوانزا، خصرہ ، چیچک، پیدا ہوتی ہیں _ آثار قدیمہ کے ماہروں نے ان جراثیم کا وجود ما قبل تاریخ بتایا ہے _ یعنی یہ موجودات ایک لاکھ سال کے بعد بھی زندہ ہیں ، اور ان کی زندگی کے آثار ختم نہیں ہوئے ہیں _ اگر چہ اس دوران انہوں نے خفتہ و نہفتہ زندگی بسر کی ہے اور اس وقت بظاہر مردہ موجودات سے مختلف نہیں تھے _(۲)

د: چند سال قبل میں نے اخباروں میں پڑھا تھا کہ '' سائبیریا'' کے نواح کے کھدائی میں اکی بڑا جانور نکلا ہے جو کہ برف کی وجہ سے منجمد تھا _ چنانچہ جب اسے سورج کی دھوپ میں رکھا گیا تو اس میں زندگی کے آثار نمایان ہوگئے _

ھ: جن طریقوں سے ایک زندہ موجود کی عمر کو طولانی بنایا جا سکتا ہے اور اسے نیم جاں

____________________

۱_ دائرة المعارف امریکائی ج ۱۷ ص ۴۶۳

۲_ روزنامہ اطلاعات

۲۳۲

کرکے قابل مطالعہ قرار دیا جا سکتا ہے _ ان میں سے ایک ہایبرنیشن _ سردی کی نیند ہے یہ نیند بعض حیوانات پر سردی بصر طاری رہتی ہے اور بعض پرگرمی کے موسم میں طاری رہتی ہے _ جب حیوانات پر یہ نیند طاری ہوجاتی ہے تو اس وقت ان کی غذا کی احتیاج ختم ہوجاتی ہے اور بدن کی ما یحتاج چیزوں میں ۳۰ سے سوتک کمی واقع ہوتی ہے اس کی حرارت کو منظم رکھنے والی مشنری وقتی طور پر بند ہوجاتی ہے اور فضا کی حرارت کم ہوجانے سے اس کی کھال اور بال ٹھٹھر کر سخت نہیں بن جاتے ، اس کے بدن پر لرزہ طاری نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے بدن کی حرارت فضا و ماحول کی مانند ہوجاتی ہے کہ ممکن ہے درجہ حرارت نقطہ انجماد ہے ۳۹_ ۴۱ f سے بھی اوپر پہنچ جائے کہ جس سے سانس کی رفتار کم اور نامنظم ہوجاتی ہے اور حرکت قلب کبھی کبھی ہوتی ہے _ (زمین کے سنجاب کے دل کی حرکت فی منٹ ۷ سے ۱۰ ہوتی ہے جبکہ عام طور پر فی منٹ تین سو مرتبہ ہونی چاہئے ) اعصاب کے مختلف رفلکس رک جاتے ہیں اور ۵۲ سے ۶۶ فارن ہائٹ درجہ حرارت سے نیچے مغز کی برقی امواج کا مشاہدہ نہیں ہوتا ہے _

بعض حیوانات عرصہ دراز تک غیر معمولی سردسیال چیزوں میں زندہ رہ سکتے ہیں _ چنانچہ ناروے کے علاقوں میں مچھلیاں اسی طرح زندہ رہتی ہیں _ بہت سے زندہ خلئے جیسے انسان اور حیوان کے نطفہ کو پیوند کے لئے اور خون کے r.b.c کو ٹرانسفوجن کے لئے انجماد کی صورت میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے _ اسی طرح بہت سے چھوٹے چھوٹے جانداروں کو باربار برف میں منجمد اور گرم کیا جا سکتا ہے جبکہ اس سے ان کے بدن کو کوئی آنچ نہیں آتی _

۲۳۳

سردی کی نیند اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ شاید اس کے ذریعہ طول عمر کا راز منکشف ہوجائے اور انسان کو طول عمر نصیب ہوجائے _

طویل العمر درختوں کا مطالعہ ، نباتات کے نطفہ حیاتی کاکئی ہزار سال تک زندہ رہتا ، متعدی بیماری کے جراثیم کی زندگی سردی ، گرمی کی حیرت انگیز نیند نے اور علم طب و علم حیات کی محیر العقول ترقی و غیرہ نے عمر طویل بنانے اور ضعیفی پر غلبہ پانے کے سلسلے میں انسان کی امید بندھائی ہے اور اسے تحقیق و کوشش پر ابھارا ہے امید ہے کہ دانشور بشریت کے اس مقدس آرزو میں کامیاب ہوں گے اور نتیجہ میں قائم آل محمد کی طول عمر کے راز کو آشکار کریں گے _

اس دن کی آمد کی امید کے ساتھ

ڈاکٹر ابو تراب نفیسی

پروفیسر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ میڈیکل کالج اصفہان

ہوشیار: اس مدت کے دوران ایک دلچسپ مقالہ میری نظروں سے گزراہے جس کا ایک فرانسیسی مجلہ سے ترجمہ کیاگیا ہے _ چونکہ ہماری بحث سے مربوط ہے اس لئے میں نے اس کے متن کو لکھ لیا تھا _ اگر احباب کی اجازت ہو تو پڑھ لوں ،

وستین گلاس کا مقالہ

علم الحیات کے ماہروں نے زندہ موجودات کی عمر چند گھنٹوں سے لے کر سیکڑوں سال تک بتائی ہے _ بعض حشرات الارض کی عمر ایک دن اور بعض کی ایک سال ہوتی ہے لیکن ہر نوع میں بعض افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ جن کی عمر اپنے ہم جنس کی طبیعی عمر کے

۲۳۴

دو تین گناہوتی ہے _ جرمنی میں ایک سرخ پھول کا درخت ہے کہ جس کی عمر اس کے ہم جنس درختوں سے سیکڑوں سال زیادہ ہے _ میکسکو میں سرد کا ایک درخت ہے کہ جس کی عمر ۲۰۰۰ سال ہے _ بعض ایسے نہنگ پائے گئے ہیں جن کی عمر ۱۷۰۰ سال ہے _

سولھویں صدی میں لندن میں تماس پار نام کا ایک شخص تھا جس کی عمر ۲۰۷ سال تھی _ آجی بھی ایران کے شمالی علاقہ میں ایک شخص سید علی نام کا ہے کہ جس کی عمر ۱۹۰ سال اور اس کے بیٹے کی عمر ۱۲۰ سال ہے _ روس میں لوئی یوف پواک نامی شخص کی عمر ۱۳۰ سال ہے _ میکو خوپولوف قفقازی کی عمر ۱۴۰ سال ہے _

علم الحیات کے ماہروں کا خیال ہے کہ یہ غیر معمولی عمریں کسی ایے درونی عامل سے مربوط ہیں جو کہ کسی شخص کی عمر کو حد سے زیادہ بڑھانے کا باعث ہوا ہے _

علم الحیات کے ماہروں کے نظریہ کے مطابق ہر نوع کے زندہ موجود کی عمر طبیعی کو اس فرد کی نوع کے سات یا ۱۴ گنا ہونا چاہئے اور چونکہ انسان کے رشد کی عمر پچیس سال ہے اس لحاظ سے انسان کی عمر ۲۸۰ سال ہونا چاہئے _

مناسب و موزوں غذاؤںکے استعمال سے بھی عمر طبیعی کے قاعدہ کو باطل کیا جا سکتا ہے _ اس کی مثال شہد کی مکھیاں ہیں _ عام طور پر ان کی عمر چار پانچ ماہ ہوتی ہے _ جبکہ ان کی ملکہ کی عمر ۸ سال ہوتی ہے در آن حالیکہ وہ بھی تخم و تولید میں ان ہی کی مانند ہے لیکن و ہ شاہا نہ غذا میوہ کھاتی ہے _

البتہ انسان کے بارے میں ایسا نہیں ہے_ ہم شہد کی مکھیوں کی ملکہ کی طرح مخصوص جگہ زندگی نہیں گزار سکتے کہ جہاں گرمی بھی قابو میں ہو ، غذا محدود اور مخصوص قسم کی ہوا اور سیکڑوں محافظ و نگہبان ہوں _ ہمارے سامنے بہت سے خطرات ہیں _ علم الحیات

۲۳۵

کے ماہروں کے نقطہ نظر سے بعض یہ ہیں : خود بخود پیدا ہونے والا زہر ، وٹامن کی کمی اور شرایین کا سخت ہوجانا _ لیکن لندن کا ایک اسپیشلسٹ کہتا ہے : فولاد ، میگنشیم اور بدن کے پوٹاسیم ذخیرہ میں تعادل کے بگڑجانے سے جب ایک دوسرے پر غالب آجاتا ہے تو موت واقع ہوجاتی ہے _ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمام خطرات کے درمیان ، خصوصاً ضعیفی کا نام نہیں ہے _ موت کی علت بڑھاپا نہیں ہے _

ڈاکٹر سوئڈی ( امریکہ کی دراز عمر علمی انجمن کے صدر) کا نظریہ ہے کہ بڑھاپا طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ : '' پروٹین کے مالکولی بدن کے خلیوں میں گرہ لگاتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں ان کے کام سے روکتے اور موت کا باعث ہوتے ہیں _ اسی ڈاکٹر نے تحقیق و تلاش کے دوران ایک مادہ کشف کیا ہے جو اس گرہ کو کھولتا اور بدن کی مشنری ک از سر نو حرکت میں لاتا ہے _ اس ترتیب سے بڑھا پے کے زمانہ کو ختم کرتا ہے _ لیبارٹریوں میں محققین اس تجربہ میں کامیاب ہوئے ہیں کہ بعض تجرباتی حیوانات جیسے ہندوستان کے خوک کی مدت عمر کو ، اس کی خوراک میں وٹامن '' b '' نو کلیک اسیڈ اور پانتونکسیک اسیڈ ۴/۴۶ فیصد بڑھانے سے بڑھایا جا سکتا ہے _

''فیلاتف'' روس کے حیات شناس نے توقع ظاہری کی ہے کہ ضعیفی کے زمانہ کو غلط پیوند کاری کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے اس اجزاء ترکیبی فاسد میں کتنی عجیب طاقت ہے کہ کھاد کی مانند ہمارے بدن کے مزرعہ کو زر خیز بناتا ہے _ اس کے علاوہ کچھ ایسے اصول بھی ہیں کہ جن کی رعایت سے عمر بڑھتی ہے یہ اصول عبارت ہیں غذائی دستورات اور بیوکمسٹری ، سانس لینے کے قواعد ، استرخا کے طریقے ، غذا کے بعض ماہروں کا خیال ہے کہ صرف طبی اصول کے مطابق غذا کے ذریعہ سو سال سے زیادہ زندہ رہ جا سکتا

۲۳۶

ہے ہم جو کچھ کھاتے ہیں اسی کے بنے ہوئے ہیں _

طول عمر سے متعلق تحقیقات

میں نے ایک عربی مجلہ میں ، ایک مقالہ پڑھاہے چونکہ ہماری بحث سے مربوط ہے _ اس لئے آپ کی خدمت میں اس کا ترجمہ پیش کرتاہوں _

قابل اعتماد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حیوان کے بدن کے اعضاء رئیسہ میں سے ہر ایک میں لا محدود مدت تک زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے _ اگر انسان کے سامنے ایسے عوارض و حوادث پیش نہ آئیں جو کہ اس کی حیا ت کا سلسلہ منقطع کردیں تو وہ ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتا ہے _ ان سائنس دانوں کا قول کوئی خیال و تخمینہ نہیں ہے بلکہ ان کے تجربوں کا نتیجہ ہے _

ایک جرّاح ایک جاندار کے کٹے ہوئے جز کو اس حیوان کی معمولی زندگی سے زیادہ دنوں تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کٹے ہوئے جز کی حیات کا دارومدار اس کے لئے فراہم کی جانے والی غذا سے پر ہے جب تک اسے کافی غذا ملتی رہے گی اس وقت وہ زندہ رہے گا _

اس جراح کا نام ڈاکٹر '' الکسیس کارل'' تھا جو کہ راکفلر کے علمی ادارہ نیویارک میں ملازم تھا _ یہ تجربہ اس نے ایک چوزہ کے کٹّے ہوئے جز پر کیا تھا ، یہ مقطوع جز آٹھ سال سے زائد زندہ رہا اور رشد کرتا رہا _ موصوف اور دیگرا افراد نے یہی تجربہ انسان کے مقطوع اجزاء جیسے عضلات قلب اور پھپڑے پر بھی کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ جب تک اجزاء کو ضروری غذا ملتی رہے گی اس وقت تک وہ اپنی حیات و نمو کا

۲۳۷

سلسلہ جاری رکھیں گے _ یہاں تک کو جونس ہبکس یونیورسٹی کے پروفیسر ''ریمونڈ'' اور ''برل'' کہتے ہیں انسان کے جسم کے اعضاء رئیسہ میں دائمی قابلیت و استعداد موجود ہے _ یہ بات تجربات سے ثابت ہوچکی ہے کم از کم احتمال کو ترجیح ہے کیونکہ اجزاء کی حیات کے سلسلہ میں ابھی تک تجربات ہورہے ہیں _ مذکورہ نظریہ نہایت ہی واضح اور اہم اور علمی غور و فکر کے بعد صادر ہوا ہے _

جسم حیوان کے اجزاء پر بظاہر مذکورہ تجربہ سب سے پہلے ڈاکٹر ''جاک لوب'' نے کہا تھا وہ بھی علمی ادارہ راکفلر میں ملازم تھا ، جس وقت وہ مینڈک کو تلقیح نہ شدہ تخم سے پیدا کرنے والے موضوع پر تحقیق میں مشغول تھا اس وقت اچانک اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ بعض انڈوں کو مدت دراز تک زندہ رکھا جا سکتا ہے اس کے برعکس بہت سے کم عمر میں مرجاتے ہیں _ یہ قضیہ باعث ہوا کہ وہ مینڈک کے جسم کے اجزاء پر تجربہ کرے چنانچہ اس تجربہ میں انھیں مدت دراز تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوا _ اس کے بعد ڈاکٹر ''ورن لویس'' نے اپنی زوجہ کے تعاون سے یہ ثابت کیا کہ : پرندے کے جنین کے اجزاء کو نمکین پانی میں زندہ رکھا جا سکتا ہے ، اس طرح کہ جب بھی اس میں آبی مواد کا ضمیمہ کیا جائے گا اسی وقت ان کے رشد و نمو کی تجدید ہوگی _ ایسے تجربہ مسلسل ہوتے رہے اور اس بات کو ثابت کرتے رہے کہ حیوان کے زندہ خلیے ایسی سیال چیز میں اپنی حیات کے سلسلہ کو جاری رکھ سکتے ہیں کہ جس میں ضروری غذائی مواد موجود ہوتا ہے _ لیکن اسی وقت تک ان کے پاس ایسی کوئی نہیں تھی جس سے وہ موت کی نفی کرتے _

ڈاکٹر کارل نے اپنے پے درپے تجربوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اجزاء ضعیف نہیں ہوتے جن پر تجربہ کیا جاتا ہے اور پھر جو انوں کی زندگی بھی طویل ہوتی ہے _

۲۳۸

اس نے جنوری ۱۹۱۲ ء میں اپنے کام آغاز کیا ، اس سلسلے میں مشکلات پیش آئے ، لیکن اس اور اس کے عملہ نے ان پر غلبہ پالیا اور درج ذیل موضوعات کا انکشاف کیا _

الف: جب تک تجربہ کئے جانے والے زندہ خلیوں پر کوئی ایسا عارضہ نہ ہو جو ان کی موت کا باعث ہو ، جیسے جراثیم کا داخل ہونا یا غذائی مواد کا کم ہونا ، تو وہ زندہ رہیں گے _

ب : مذکورہ اجزاء صرف حیات ہی نہیں رکھتے بلکہ ان میں رشد و کثرت بھی پائی جاتی ہے _ بالکل ایسے ہی جیسے یہ اس وقت رشد و کثرت اختیار کرتے جب حیوان کے بدن کا جز ہوتے _

ج: ان کے نمو اور تکاثر کا ان کے لئے فراہم کی جانے والی غذا سے موازنہ کیا جاسکتا ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے _

د: ان پرمرور زمان کا اثر نہیں ہوتا ہے ، ضعیف و بوڑھے نہیں ہوتے بلکہ ان میں ضعیفی کا معمولی اثر بھی مشاہدہ نہیں کیا جاتا _ وہ ہر سال ٹھیک گزشتہ سال کی نمو پاتے اور بڑھتے ہیں _ ان موضوعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب تجربہ کرنے والے ان اجزاء کی دیکھ بھال کریں گے ، انھیں ضروری و کافی غذا دیں گے اس وقت وہ اپنی حیات اور رشد کو جاری رکھیں گے _

یہاں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بڑھاپا علت نہیں ہے بلکہ معلول و نتیجہ ہے _ پھر انسان کیوں مرتا ہے ؟ اس کی حیات کی مدت محدود کیوں ہے ، معدود افراد کی عمر ہی سو سال سے آگے کیوں بڑھتی ہے اور عام طور پر اس کی عمر ستّر یا اسی سال ہوتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ حیوان کے جسم کے اعضائ

۲۳۹

زیادہ اور مختلف ہیں اوران کے در میان کمال کا ارتباط و اتصال ہے _ ان میں سے بعض کی حیات دوسرے کی زندگی پر موقوف ہے _ اگر ان میں سے کوئی کسی وجہ سے نا تواں ہو جائے اور مرجائے تو اس کی موت کی وجہ سے دوسرے اعضاء کی بھی موت آجاتی ہے ، اس کے ثبوت کے لئے وہ موت کافی ہے جو کہ جراثیم کے حملہ سے اچانک واقع ہوجاتی ہے ، یہی چیز اس بات کا سبب ہوئی کہ عمر کا اوسط ستر ، اسی سال سے بھی کم قرار پائے بہت سے بچپنے ہی مرجا تے ہیں _

یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ستر ، اسی سویا اس سے زیادہ سال کی عمر ، موت کی علت نہیں ہے بلکہ اس کی اصلی علت : اعضا ہیں سے کسی ایک پر عوارض ، امراض کا حملہ کر کے اسے بیکار بنانا ہے چنانچہ اعضاء کی موت واقع ہو جاتی ہے _پس جب علم عوارض کا علاج تلاش کرنے یا ان کے اثر کو بیکار بنا نے میں کا میاب ہوجائے گا تو پھر سیکڑوں سالہ زندگی کے لئے کوئی چیز مانع ہوگی _ جیسا کہ بعض درختوں کی بہت طولانی عمر ہے ، لیکن اس بات کی توقع نہیں ہے کہ علم طب و حفظان صحت اتنی جلد اس عالی مقصد تک پہنچ جائیں گے _ لیکن اس مقصد سے نزدیک ہونے اور موجود عمر کی بہ نسبت دویا تیں گنا عمر تک پہنچنا بعید نہیں ہے _ ۱_

پھر طول عمر

بر طانیہ کے ایک ڈاکٹر نے اپنے تفصیلی مقالہ کے ضمن میں لکھا ہے : بعض

____________________

۱ _ المہدی تالیف آیت اللہ صدر منقول از مجلہ ء المقتطف شمارہ ۳

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

ہوشیار: سفیانی کی احادیث کو عامہ و خاصہ دونوں نے نقل کیا ہے بعید نہیں ہے کہ متواتر ہوں _ صرف احتمال اور ایک مدعی کے وجود سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور جعلی نہیں کہا جا سکتا ہے _ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لوگوں کے درمیان حدیث سفیانی شہرت یافتہ تھی اور لوگ اس کے منتظر تھے بعض لوگوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور خروج کرکے کہنے لگے : ہم ہی سفیانی منتظر ہیں اور اس طرح ایک گروہ کو فریفتہ کرلیا _

۲۸۱

دجال کا واقعہ

جلالی: دجال کے خروج کو بھی ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے ، ایک چشم ہے ، وہ بھی پیشانی کے بیچ میں سے ، ستارہ کی مانند چمکتی ہے _ اس کی پیشانی پر لکھا ہے ''یہ کافر ہے '' اس طرح کہ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے _ کھانے کے ( پہاڑ) ہوٹل اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا _ ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا _ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا ، زمین گلہ اگائے گی _ زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے _ مردوں کو زندہ کرے گا _'' میں تمہارا بڑا خدا ہوں ، میں ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور میں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو '' یہ جملہ اتنی بلند آوازمیں کہے گا کہ سارا جہان سنے گا _

کہتے ہیں رسول کے زمانہ میں بھی تھا ، اس کا نام عبداللہ یا صائدبن صید ہے ، رسول اکرم (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے _ وہ اپنی خدائی کا دعوی کرتا تھا _ عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پیغمبر (ص) نے منع کردیا تھا _ ابھی تک زندہ ہے _ اور آخری زمانہ میں اصفہان کے مضافات میں سے یہودیوں کے گاؤں سے خروج کریگا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۳ ، صحیح مسلم ج ۸ ، ص ۴۶ تا ص ۸۷ ، سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۱۲_

۲۸۲

علما نے تمیم الدا می سے ، جو کہ پہلے نصرانی تھا اورسنہ ۹ ھ میں مسلمان ہوا تھا ، سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے مغرب کے ایک جز یرہ میں دجال کو دیکھا ہے کہ زنجیر و در غل میں تھا(۱)

ھوشیار : انگریزی میں دجال کو انٹی کرایسٹ ( antlchrlst ) کہتے ہیں یعنی مسیح کا دشمن یا مخالف _ دجال کسی مخصوص و معین شخص کا نام نہیں ہے بلکہ لغت عرب میںہر دروغ گو اور حیلہ باز کو دجال کہتے ہیں _ انجیل میں بھی لفظ دجال بہت استعمال ہوا ہے _

یو حنا کے پہلے رسالہ میں لکھا ہے : جو عیسی کے مسیح ہوتے کا انکار کرتا ہے ، دروغگو اور دجال ہے کہ با پ بیٹے کا انکار کرتا ہے(۲)

اسی رسالہ میں لکھا ہے : تم تھ سنا ہے کہ دجال آئے گا ، آج بہت سے دجال پیدا ہوگئے ہیں مذکورہ رسالہ میں پھر لکھتے میں ، وہ ہراس روج کا انکار کرتے ہیں جو عیسی میں مجسم ہوئی تھی اور کہتے ہیں وہ روح خدانہیں تھی _ یہ و ہی روح دجال ہے جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا وہ اب بھی دنیا میں موجود ہے(۳)

یوحنا کے دوسرے رسالہ میں لکھا ہے چونکہ گمراہ کرنے والے دنیا میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ جسم میں ظاہر ہوتے والے عیسی مسیح کا اقرار نہیں کرتے ہیں

____________________

۱_ صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤدج ۳ ص ۳۱۴

۲_ رسالہ یوحنا باب ۲ آیت ۲۲

۳ _ رسالہ اول باب ۲ آیت ۱۸

۲۸۳

یہ ہیں گمراہ کرنے والے دجال_(۱)

انجیل کی آتیوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ دجال کے معنی گمراہ کرنے والے اور دروغگو ہیں _ نیز عیاں ہوتا ہے کہ دجال کا خروج ، اس کا زندہ رہنا اس زمانہ میں بھی نصاری کے در میان مشہور تھا اور وہ اس کے خروج کے منتظر تھے _

ظاہرا حضرت عیسی نے بھی لوگوں کو دجال کے خروج کی خبردی تھی اور اس کے فتنہ سے ڈرایا تھا _ اسی لئے نصاری اس کے منتظر تھے اور قوی احتمال ہے کہ حضرت عیسی نے جس دجال کے بارے میں خبردی تھی ، وہ دجال ودروغگو حضرت عیسی کے پانچ سو سال بعد ظاہر ہواتھا اور اپنی پیغمبر ی کا جھوٹا دعوی کیا تھا _ اسی کو دار پرچڑ ھا یا گیا تھانہ عیسی نبی کو _(۲)

دجال کے وجود سے متعلق مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں پیغمبر اسلام (ع) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے اور فرماتے تھے :

حضرت نوح کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبر اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرا تے تھے(۳)

رسول (ع) کا ارشاد ہے : اسی وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک

____________________

۱ _صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤد ج ۳

۲ _رسالہ دوم یوحنا آیت ۷

۳ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۷

۲۸۴

تیس دجال ، جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ، ظاہر نہیں ہوں گے _(۱)

حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے :

اولاد فاطمہ سے پیدا ہونے والے دو دجالوں سے بچتے رہنا ، ایک دجال وہ جو دجلہ بصرہ سے خروج کرے گاوہ مجھ سے نہیں ہے وہ دجال(۲) کا مقدمہ ہے _

رسول(ع) کا ارشاد ہے :

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک تیس دروغگو دجال ظاہر نہ ہوں گے اور وہ خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ باند ھیں گے(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :

دجال کے خروج سے قبل ستر سے زیادہ و دجال ظاہر ہوں گے(۴)

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دجال کسی معین و مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر دروغگو اور گمراہ کرنے والے کو دجال کہا جا تا ہے _

مختصر یہ کہ دجال کے قصہ کو کتاب مقدس اور نصاری کے در میان تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس کی تفصیل اور احادیث اہل سنت کی کتابوں میں ان ہی طریق سے نقل ہوئی ہیں _

____________________

۱ _ سنن ابی داؤد ج ۲

۲ _ ترجمہ الحلاحم والفتن ص ۱۱۳

۳_ سنن ابی داؤد ج ۲

۴_ مجمع الزواید ج ۷ ص ۳۳۳

۲۸۵

بہرحال اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے لیکن اس کی جو تعریف و توصیف کی گئی ہے _ ان کا کوئی قابل اعتماد مدرک نہیں ہے(۱)

دجال کا اصلی قضیہ اگر چہ صحیح ہے لیکن یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے افسانوں کی آمیزش سے اس کس حقیقی صورت مسخ ہوگئی ہے _ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے وقت آخری زمانہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فریب کار او ر حیلہ سازی میں سب سے آگے ہوگا اور دورغگوئی میں گزشتہ دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے اور رکیک دعوؤں سے غافل رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زمیں و آسمان اس کے ہا تھ میںہیں ، اتنا جھوٹ بولے گا کہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی و نیکی ثابت کرے گا بہشت کو جہنّم اور جہنم کو جنت بنا کرپیش کرے گا لیکن اس کا کفر تعلیم یافتہ اوران پڑ ھہ لوگوں پرواضح ہے _

اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صائد بن صید دجال ، رسول (ص) کے زمانہ سے آج تک زندہ ہے _ کیونکہ حدیث کی سند ضعیف ہے اس کے علاوہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا جبکہ صائد بن صید ان دونوں میں داخل ہوا اور مدینہ میں مرا چنانچہ ایک جماعت اس کی موت کی گواہ ہے _ بالفرض پیغمبر (ص) اکرم نے صائد بن صید کو اگر دجال کہا تھا تو وہ دروغگو کے معنی میں کہا تھا نہ کہ علائم ظہور والا دجال کہا تھا _ بعبارت دیگر پیغمبر اسلام نے صائد بن صید سے ملاقات کی اور اپنے

____________________

۱_ کیونکہ اس کا مدرک وہ حدیث ہے جو بحار الانوار میں نقل ہوی اور اس کی سند میں محمد بن عمر بن عثمان ہے جو کہ مجہول الحال ہے _

۲۸۶

اصحاب میں سے اسے دجال کا مصداق قرار دیا اور چونکہ بعد والے زمانہ میں دجال کے خروج کی خبر دی تھی اس لئے دونوں موضوعات میں اشتباہ ہوگیا اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر (ص) نے صائد کو دجال کہا ہے لہذا یہی آخری زمانہ میں خروج کرے گا اور اسی سے انہوں نے اس کی طول حیات کا نتیجہ بھی اخذ کرلیا ہے _

۲۸۷

دنیا والوں کے افکار

مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو ا ڈاکٹر صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

ڈاکٹر : انسانوں کے درمیان ان تما م رایوں اور عقائد کے اختلاف اور دیگر اختلافی مسائل کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے پور دنیا کا نظم و نسق ایک حکومت کے اختیار میں ہوگا اور روئے زمین پر صرف مہدی کی حکومت ہوگی ؟

ہوشیار: اگر دنیا کے عمومی حالات اور انسان کی عقل و ادراکات کی یہی حالت رہی تو ایک عالمی حکومت کی تشکیل بہت مشکل ہے _ لیکن جیسا کہ گزشتہ زمانہ میں انسان کا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ کے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھی نہیں رکے گا _

بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انسان کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں تعلق و تمدن اور اجتماعی مصالح کے درک میں وہ اور زیادہ ترقی کرے گا _ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ہم گزشتہ زمانے کے انسان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تا کہ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں _

یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ خودخواہی اور منفعت طلبی طبیعی چیز ہے اور اسی کسب کمال سعادت طلبی اور حصول منفعت کے جذبہ نے انسان کو کوشش

۲۸۸

و جانفشانی پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان اپنی طاقت کے طاقت کو شش کرتا ہے اور اس راہ کے موانفع کو برطرف کرتا ہے لیکن دوسروں کے فائد کے بارے میں غور نہیں کرتا _ ہاں جب دوسروں کے منافع سے اپنے مفادات وابستہ دیکھتا ہے تو ان کا بھی لحاظ کرتا ہے اور اپنے کچھ فوائد بھی ان پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے _ شاید اولین بار انسان خودخواہی کے زینہ سے اتر کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے شادی کے وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ مرد و عورت یہ احساس کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اسی احتیاج کے احساس نے مرد و عورت کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم کیا ہے _ چنانچہ دونوں اس کو مستحکم بنانے کے سلسلہ میں خودخواہی کو اعتدال پر لانے اور دوسرں کے فوائد کو ملحوظ رکھنے کے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت کے یک جا ہونے سے خاندان کی تشکیل ہوئی _ حقیقت ہے کہ خاندان کے ہر فرد کا مقصد اپنی سعادت و کمال کی تحصیل ہے لیکن چونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس کی سعادت خاندان کے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان کی سعادت کا بھی متمنی ہوتا ہے اور اس کے اندر تعاون کا جذبہ قوی ہوتا ہے _

انسان نے مدتوں خانوادگی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں کے انکار نے ترقی کی اور انہوں نے اس بات کا احساس کیا کہ سعادت مندی اور دشمنوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بڑے معاشرہ کی تشکیل ضروری ہے _ اس فکر کی ترقی اور ضرورت کے احساس سے طائفے اور قبیلے وجود میں آئے اور قبیلے کے افراد تمام افراد کے منافع کو ملحوظ رکھنے کے لئے تیار ہوگئے

۲۸۹

اور اپنے ذاتی و خاندانی بعض منافع کو قربان کرنے کیلئے بھی آمادہ ہوگئے _ اسی فکر ارتقاء اور ضرورت کے احساس نے انسان کو طول تاریخ میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنی سکونت کیلئے شہر و دیہات آباد کئے تا کہ اپنے شہر والوں کے منافع کا لحاظ رکھیں اور ان کے حقوق سے دفاع کریں _

انسان مدتوں اسی ، نہج سے زندگی گزارتا رہا ، یہاں تک کہ حوادث زمانہ اور خاندانی جھگڑے اور طاقتوروں کے تسلط نے انسان کو چھوٹے سے دیہات کو چھوڑ کر شہر بنانے پر ابھارا کہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسایہ دیہات و شہروں سے ارتباط رکھنے کے لئے بھی ہے تا کہ خطرے اور طاقتور دشمن کے حملہ کے وقت ایک دوسرے سے مدد حاصل کرسکیں _ اس مقصد کے تحت ایک بڑا معاشرہ وجود میں آیا او راس کے وسیع علاقہ کو ملک و سلطنت کے نام سے یاد کیا جانے لگا _

ملک میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی فکر نے اتنی ترقی کی کہ وہ اپنے ملک کی محدود سرزمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس ملک کے باشندوں کو ایک خاندان کے افراد شمار کرتے ہیں اور اس ملک کے اموال و ذخائر کو اس کے باشندوں کا حق سمجھتے ہیں _ اس ملکہ کے ہر گوشہ کی ترقی سے لذت اندوز ہوتے ہیں _ لسانی ، نسلی ، شہری اور دیہاتی اختلافات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ملک کے تمام باشندوں کی سعادت کو اپنی سعادت و کامیابی تصور کرتے ہیں _ واضح ہے کہ اس ملک کے افراد میں جس قدر فکری ہم آہنگی و ارتباط قوی ہوگا اور اختلاف کم ہوگا اسی کے مطابق اس ملک کی ترقیاں زیادہ ہوں گی _ انسان کا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ صدیوں اور ہزاروں حوادث

۲۹۰

اور گوناگون تجربات کے بعد ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _

ہزاروں سال کی طویل مدتوں اور حوادث زمانہ کے بعد انسان کی فکر نے ترقی کی اور کسی حد تک خودخواہی و کوتاہ نظری سے نجات حاصل کی لیکن اب بھی خاصی ترقی نہیں کی ہے اس پر اکتفا نہیں کر سکتا _ آج بھی علمی و صنعتی ترقی کے سلسلہ میں دنیا کے ممالک کے درمیان خاص روابط برقرار ہوتے ہیں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ کے دوران طے کیا ہے اسے آج بھی گھنٹوں اور منٹوں میں طے کررہے ہیں _ دور دراز سے ایک دوسرے کی آواز کو سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں _ ملک کے حوادث و اوضا ع ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں _ آج انسان اس بات کا احساس کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کو محکم طریقہ سے بند نہیں کرسکتا اور تمام ممالک سے قطع تعلق کرکے عزلت گزینی کی زندگی نہیں گزارسکتا _ عالمی حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ایک ملک کے معاشرہ اور اجتماع میں یہ طاقت نہیں ہے کہ لوگوں کی سعادت و ترقی کی راہ فراہم کرسکے اور انھیں حوادث و خطرات سے بچا سکے _ اس لئے ہر ملک اپنے معاشرہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے _

بشر کی یہ درونی خواہش کبھی جمہوریت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کبھی مشرق و مغرب کے بلاؤں کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے کبھی اسلامی ممالک کے اتحادیہ کی شکل میں وجود پذیر ہوتی ہے کبھی سرمایہ داری اور کمیونسٹ نظام کے پیکر میں سامنے آتی ہے _ اس اتحاد کی اور سیکڑوں مثالیں ہیں /و کہ روح انسان کے رشد اور اس وسعت طلبی کی حکایت کرتی ہیں _

آج انسان کی کوشش یہ ہے کہ عمومی معاہدوں اور اتحاد کو وسعت دی جائے

۲۹۱

ممکن ہے اس کے ذریعہ خطرات کا سد باب ہوسکے اور عالمی مشکلات و بحران کو حل کیا جا سکے اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کیلئے آسائشے و رفاہ کے وسائل فراہم ہو سکیں _

دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کی یہ کوشش و فعالیت اور وسعت طلبی ایک عالمی انقلاب کا مقدمہ ہے ، عنقریب دنیائے انسانیت پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ اتحاد بھی محدود ہے لہذا عالمی خطرات و مشکلات کو حل نہیں کرسکتے یہ اتحاد صرف کسی درد کی دوا ہی نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہو کہ مزید مشکلات کھڑی کردیتے ہیں _

انسان ابھی تجربہ کی راہ سے گزرہاہے تا کہ ان اتحادات کے ذریعہ جہاں تک ہوسکے خودخواہی کے احساس کو بھی ختم کرے اور عالمی خطرات و مشکلات کو بھی ختم کرے _ وہ ایک روز اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوگا کہ خودخواہی اور کوتاہ نظری انسان کو سعادت مند نہیں بنا سکتی _ اور لا محالہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ روئے زمیں کا ما حول ایک گھر کے ماحول سے مختلف نہیں ہے _ روئے زمین پر بسنے والے ایک خاندان کے افراد کی مانند ہیں _ جب انسان اس بات کو سمجھ جائے گا کہ غیر خواہی میں خود خواہی ہے تو اس وقت دنیا والوں کے افکار و خیالات سعدی شیرازی کے ہم آواز ہو کر اس بات کا اعتراف کریں گے _

بنی آدم اعضائے ایک دیگرند کہ در آفرینش زیک گوہرند

'' انسان آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ انکی خلقت کا سرچشمہ ایک ہی ہے ''

لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو قوانین و احکام اختلافات انگیز محدود نظام کے مطابق بنائے گئے ہیں وہ دنیا کی اصلاح کیلئے کافی نہیں ہیں _ عالمی اور اقوامی اتحاد کی

۲۹۲

انجمنوں کی تشکیل ، حقوق بشر کی تنظیم کی تاسیس کو اس عظیم فکر کا مقدمہ اور انسانیت کی بیداری اور اس کی عقل کے کمال کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑی طاقتوں کے دباؤں سے ابھی تک کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے اور ابھی تک اختلاف انگیز نظاموں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں لیکن ایسے افکار کے وجود سے انسان کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے _

دنیا کی عام حالت و حوادث کے پیش نظر اس بات کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں انسان ایک حساس ترین دورا ہے پر کھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادی گری یا خالص توحید سے _ یعنی انسان یا تو آنکھیں بند کرکے مادیت کو قبول کرلے اور خدا کے احکام کو ٹھکرادے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کو ٹھکرا دے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لے اور عالمی مشکللات اور بشری کی اصلاح آسمانی قوانین کے ذریعہ کرے اور غیر خد ا قوانین کو ٹھکرادے _ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسان کا خداپرستی اور دین جوئی کا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے اور جیسا کہ آسمانی ادیان خصوصاً اسلام نے پیشین گوئی کی ہے کہ آخر کار خدا پرستوں ہی کاگروہ کامیاب ہوگا اور دنیا کی حکومت کی زمام و اقتدا صالح لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور انسانوں کا بڑا معاشرہ انسانیت کے فضائل ، نیک اخلاق اور صحیح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائیں گے اور سارے انسان ایک خدا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے _ خداپرستوں کا گروہ اور حزب توحید ایمان کے محکم و وسیع حصار میں جاگزین ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرے گا

۲۹۳

قرآن مجید نے دنیا والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ :

'' آؤ ہم سب ایک مشترک پروگرام کو قبول کرلیں اور یہ طے کرلیں کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں گے اور انسانوں میں سے کسی کو واجب الاطاعت نہ سمجھیں گے _''(۱)

قرآن مجید اس عالمی انقلاب کے پروگرام کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے نافذ کرنے کی صلاحیت صرف مسلمانوں میں ہے _ رسول اکرم نے خبر دی ہے کہ جو شائستہ اور غیر معمولی افراد انسان کے گوناگون افکار و عقائد اور متفرق رایوں کو یک جا اور ایک مرکز پر جمع کریں گے اور انسانوں کی عقل کو کامل و بیدار کریں گے اور دشمنی کے اسباب و عوامل کا قلع و قمع کریں گے _ صلح و صفائی برقرار کریں گے _ وہ مہدی موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگی _ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

''جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو بندوں کے سرپرہاتھ رکھ کر ان کے پراگندہ عقل و فکر کو ایک جگہ کرے گا اور ایک مقصد کی طرف متوجہ کرے گا اور ان کے

اخلاق کو کمال تک پہنچادے گا '' _(۲)

حضرت علی (ع) بن ابیطالب فرماتے ہیں :'' جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگوں کے دلوں سے عداوت و دشمنی کی جڑیں کٹ جائیں گی اور عالمی امن کا دور ہوگا ''(۳)

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :'' ہمارے قائم کے ظہور کے بعد عمومی اموال اور زمین کے معاون و ذخائر آپ(ص) اختیار میں آئیں گے _(۴)

____________________

۱_ آل عمران /۹۴_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۶_

۳_ بحارالانوار جلد ۵۲ ص ۳۱۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۱_

۲۹۴

مستضعفین کی کامیابی

جلالی : آپ دنیا کی حالت کو جانتے ہیں کہ زمین کے ہر گوشہ میں مستضعفین و کمزورلوگوں پر ظالم و ستمگر و مستکبرین حکومت کررہے ہیں ، ان کی تمام چیزوں پر مسلط ہوگئے ہیں اور انھیں اپنی طاقت سے مرعوب کررکھا ہے _ ان حالات کے پیش نظر حضرت مہدی کیسے انقلاب لائیں گے اور کیونکر کامیاب ہوں گے ؟

ہوشیار: مستکبرین پر امام مہدی (ع) کی کامیابی دنیا کے مستضعفین کی کامیابی ہے _ جو کہ اکثریت میں ہیں اور ساری قدرت انھیں کی ہے _ مستکبرین کی تعدا د بہت ہی کم ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے _ اسی لئے امام مہدی کی کامیابی کا امکان ہے یہاں میں ایک بات کی تشریح کردوں تا کہ مدعا روشن ہوجائے _

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا بھر کے مستضعفین آخر کار اس عالمی انقلاب میں مستکبرین پر کامیاب ہوں گے کہ جس کے قائد امام مہدی ہونگے اور طاغوتی نظام کو ہمیشہ کیلئے نابود کرکے دنیا کی حکومت کی زمام سنبھالیں گے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ دنیا کے مستضعفین پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں اور زمین کی قدرت و تمکن

۲۹۵

ان کے دست اختیار میں دیدیں ''_(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ آیت اس بات کی حتمی نوید دے رہی ہے کہ دنیا کی طاقت اور جہان کا نظام مستضعفین کے ہاتھوں میں آئے گا _ اس بناپر امام مہدی کی کامیابی مستکبرین پر مستضعفین کی کامیابی ہوگی موضوع کی وضاحت کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں :

استضعاف کے کیا معنی ہیں اور مستضعفین کون لوگ ہیں ؟

مستکبرین کی کیا علامتیں ہیں؟

مستضعفین مستکبرین پر کیسے کامیاب ہوں گے ؟

اس عالمی انقلاب کی قیادت کوں کرے گا ؟

قرآن مجید میں مستضعفین کو مستکبرین و طاغوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے ان دونوں کی ایک ساتھ تحقیق کرنا چاہئے _ قرآن مجید میں مستکبرین کی کچھ علامتیں اورخصوصیات ذکر ہوئے ہیں ایک جگہ فرعون جیسے مستکبرین کے لئے فرماتا ہے :

'' بے شک فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھا یا تھا اور لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کیا تھا ایک گروہ کو کمزور بنادیا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا کیونکہ وہ مفسدوں میں سے تھا _(۲)

____________________

۱_ قصص/۵

۲_ قصص /۴

۲۹۶

مذکورہ آیت میں فرعوں کیلئے جو کہ مستکبرین میں سے ہے ، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں : اول بڑا بننا اور برتری چاہنا _ دوسرے لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا تیسرے فساد پھیلانا _ دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ :

'' فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھایا تھا کہ وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا''_(۱)

اس آیت میں اسراف اور سر اٹھانے کو بھی مستکبرین کی صفات قرار دیا گیا ہے دوسری آیت میں ارشاد ہے:

'' فرعون نے موسی کی تحقیر کی اور لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ لوگ فاسق تھے''(۲)

اس آیت میں لوگوں کی تو ہین کرنے کو مستکبرین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے اور یہی معنا لوگوں کی اطاعت کے ہیں _

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

''موسی نے قارون ، فرعون اور ہامان کے سامنے واضح دلیلیں پیش کیں لیکن انہوں نے روئے زمین پر سر اٹھایا اور تکبّر کیا ''( ۲)

مذکورہ آیت میں حق قبول نہ کرنے کو استکبار و سرکشی کی علامت قرار دیا

____________________

۱_ یونس /۸۳

۲_ زخرف /۵۴

۳_ عنکبوت/۳۹

۲۹۷

گیا ہے _ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

''قوم صالح کے مستکبرین مومن مستضعفین سے کہتے تھے: کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ صالح خدا کے رسول ہیں ؟ مومنین جواب دیتے تھے ہم صالح کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں _ مستکبرین کہتے تھے جس چیز پر تمہارا ایمان ہے ہم اس کے منکر ہیں ''(۱)

دوسری آیت میں کفر و شرک کی ترویج کو مستکبرین کی علامت شمار کیا گیا ہے : ''مستضعفین مستکبرین سے کہتے ہیں تمہاری رات ، دن کی فریب کاریاں تھیں کہ تم ہمیں خدا سے کفر اختیار کرنے اور اس کا شریک ٹھرانے کا حکم دیتے تھے''(۲)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں مستکبرین کی چند علامتیں بیان ہوئی ہیں :

۱_ بڑا بننا اور برتری چاہنا

۲_ تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا_

۳_ اسراف

۴_ لوگوں کو کمزور بنانا_

۵_ فساد پھیلانا

۶_ حق قبول کرنے سے منع کرنا _

۷_ کفر و شرک کی ترویج و اشاعت_

مذکورہ تمام آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستکبرین ان لوگوں کا

____________________

۱_ اعراف/۷۶

۲_ سبا/۳۳

۲۹۸

گروہ ہے جو خواہ مخواہ خود کو دوسرں سے برتر بناکر پیش کرتے ہیں _ لوگوں سے کہتے ہیں : ہم سیاست داںں ، عاقل اور ماہرہیں _ ہم تمہارے مصالح کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں تمہاری عقل تمہارے مصالح کے ادراک کیلئے کافی نہیں ہے _ تمہیں ہماری اطاعت کرنا چاہئے تا کہ کامیاب ہوجاؤ استکبار کا اہم کام اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا ہے _ کالے گئے مذہبی ، نسلی ، لسانی ، قومی ، ملی ، ملکی ، شہری ، صوبائی اور دوسرے سیکڑوں اختلاف انگیز عوامل کے ذریعہ لوگوں میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں _ صرف اس لئے تاکہ لوگوں پر حکومت کریں ، کفر و شرک کی ترویج کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ان کے سارے منافع ہڑپ کر لیتے ہیں _ ان کے سارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ عمومی اموال پر قابض ہوجاتے ہیں _ اپنی مرض سے جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں _ ملک سے دفاع کے نام پر اسلحہ اور ایٹمی توانائی خریدتے ہیں عمومی ضرورتوں کو پورا کرنے او رامن و امان برقرار رکھنے کے نام پر قضاوت اور دیگر دفاتر کی تشکیل سے ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں ، بیت المال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ، اپنے ہمنواؤں کے دریچے بھرتے ہیں _ ان کا مقصد صرف حکمرانی اور خودہواہی ہے _ مستکبرین بڑے نہیں ہیں ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ فریب کاری سے لوگوں کی عظیم طاقت'' کو اپنی بتاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھتے ہیں _

یہاں سے مستضعفین کے معنی بھی روشن ہوجاتے ہیں _ مستضعف کے معنی ضعیف و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستضعف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستکبرین کے غلط پروپیگنڈے اور حیلہ بازیوں سے اپنی طاقت کو گنوا دیا ہے اور غلامی و ذلت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،حقیقی طاقت عام لوگوں کی ہے _ زمین ، پانی ، قدرتی خزانے ، پبلک

۲۹۹

دالشور اور موجد سب ہی تو عام لوگ ہیں ، مزدور ، موجد ، پولیس و فوج ، انتظامیہ ، عدلیہ اور ادارے سب ہی ملّت کے افراد سے تشکیل پاتے ہیں _ صاحبان علم و اختراع اور صنعت بھی ملت ہی کے افراد ہوتے ہیں _ اس بناپر قدرتی خزانے پوری قوم کے ہوتے ہیں نہ کہ مستکبرین کے _ اگر لو گ مدد و تعاون نہ کریں تو مستکبرین کی کوئی طاقت بن سکتی ہے؟ لیکن مستکبرین نے حیلے و فریب او رغلط پروپیگنڈے سے لوگوں کو اپنے سے بیگانہ اور مستضعف بنادیا ہے وہ خود ہی اپنے کو کچلتے ہیں اور استعماری طاقتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں _ مستکبرین اقلیت میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے اور انھیں کمزور بناکر ان پر حکومت کی ہے _

لیکن خدا کے پیغمبر اس بات پر مامور تھے کہ ان لوگوں کو بیدار کریں جنھیں کمزور و مستضعف بنادیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی عظیم طاقت و توانائی سے آگاہ ہوجائیں اور مستکبرین کے چنگل سے نجات حاصل کریں پیغمبروں نے ہمیشہ مستکبرین کے حقیقت کا پردہ چاک کرنے اور ان کی جھوٹی طاقت اور جلال کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مستضعفین کو مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ان کے استعماری پھندوں سے نجات حاصل کرنے کی جرات دلائی ہے _

حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کیا _ حضرت موسی (ع) نے فرعون کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور حضرت عیسی (ع) اپنے زمانہ کے ظلم و سمتگروں کے خلاف اٹھے اور محروموں کونجات دلانے کے لئے قیام کیا _ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ابو جہل ، ابولہب ، ابوسفیان اور قیصر و کسری کے خلاف قیام کیا او ردنیا کے مستضعف و محروم لوگوں کی نجات کے لئے اٹھے _ پیغمبر

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455