آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181598 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

ہوئی ہے کہ جس سے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے؟

ڈاکٹر نفیسی : انسان کی زندگی کیلئے ایسی کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوز محال ہو لیکن نوع انسان کی طویل ترین عمر حسب معمول سو سال سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان زمانوں سے بہت زیادہ مختلف نہیں سے جو مدون تاریخ میں وجود ہیں _ لیکن ، ممالک ، آب و ہوا ، نسل و میراث اور زندگی کی نوعیت کے لحاظ سے عمر کا اوسط مختلف ہے اور زمانہ میں متفاوت ہوتا ہے _ جیسا کہ آخری صدی میں عمر کے اوسط میں نمایان فرق آیا ہے _ مثلاً برطانیہ میں ۱۸۲۳ء مردوں کی عمر کا اوسط ۹۱/۲۹ اور عورتوں کی عمر کا اوسط ۸۵/ ۴۱ تھا لیکن ۱۹۳۷ ء میں مردوں کی عمر کا ۱۸/ ۶۰ اور عورتوں کی عمر کا اوسط ۴۰/۶۴ تھا _

۱۹۰۱ ء میں امریکہ میں مردوں کی عمر کا اوسط ۲۳/ ۴۸ اور عورتوں کا ۸۰/۵۱ سال تھا جبکہ ۱۹۴۴ ء میں مردوں کی عمر کے اوسط میں ۵۰/ ۶۳ اور عورتو ں کی عمر کے اوسط میں ۹۵/۶۸ تک اضافہ ہوا ہے _ یہ اضافہ بچوں کو شامل ہے اور یہ طبی حالت کی بہتر اور بیماریوں کی خصوصاً متعدی بیماریوں کے سد باب کا مرہون منت ہے لیکن بڑھاپے کی بیماریوں میں ، کہ جن کو استحالہ بھی کہتے ہیں ، جیسے شرایین کا سخت ہونے کے ، علاج و دو ا میںکوئی بہتری نہیں ہوتی ہے _

ہوشیار: کیا زندہ موجودات کی حیات کی تعیین کیلئے کوئی قاعدہ اور معیار ہے؟

ڈاکٹر نفیسی : عام خیال یہ ہے کہ بدن کے حجم اور مدت عمر کے درمیان ایک نسبت برقرار ہے _ مثلاً جلد ختم ہونے والی عمر ، پروانہ ، پشہ اور کچھولے کی زندگی قابل توجہ

۲۲۱

ہے لیکن یادرہے یہ نسبت ہمیشہ ثابت نہیں رہتی ہے کیونکہ طولا ، کوّا اور غاز اکثر اپنے سے بڑے پرندوں یہاں تک کہ اکثر دودھ پلانے والے جانوروں سے بھی زیادہ طویل زندگی گزارتے ہیں _

بعض مچھلیاں جیسے ''سالموں '' سوسال ، کریپ ایک سو پچاس اور پیک دو سو سال تک زندہ رہتی ہیں ان کے مقابلہ میں گھوڑے کو دیکھئے کہ تیس سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتے ارسطو کے زمانہ میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ہر موجود کی زندگی کی مدت کو اسی کے رشد و تمو کے زمانہ کی ضرب سے نکالا جا سکتا ہے _ اس ضرب کی شکل کو '' فرانسیس بیکن'' نے حیوانات میں چالیس گنا اور '' فلورنس'' نے پانچ گنا کو اس حیوان کے بلوغ کے لئے لازمی قرار دیا ہے _

''بوفن'' اور'' فلورانس'' نے انسان کی طبیعی عمر سو سال قرار دی ہے اور اب بھی عام خیال یہی ہے جبکہ داؤد پیغمبر نے عمر طبیعی ستّر سال قرارد دی ہے _

اس کے دوران بہت سے ایسی سن رسیدہ اور طویل العمر افراد کے بارے میں رپورٹ دی ہے کہ جن کی عمر سو سال سے زائد تھی اگر چہ عمر کی تعیین اور تخمینہ میں مبالغہ اور اغراق کا امکان ہے _

منجملہ ان معمرین کے ہانرے چنکنیز ۱۶۹ ، تماس پارس ، ۲۰۷ سال ، کاترین کنتس ڈسمونڈ ۱۴۰ سال کے تھے اس کے علاوہ بھی ایران اور دیگر ممالک کے اخباروں میںدوسرے افراد کے نام ملتے ہیں _

طول عمر کے اسباب

ہوشیار: طول عمر میں کونسے عوامل مؤثر ہیں؟

۲۲۲

ڈاکٹر: طول عمر کے عوامل درج ذیل ہیں

موروتی عامل: طول عمر میں موروثی عامل کی اہمیت واثر واضح ہے _ ایسے خاندان بھی پائے جاتے ہیں کہ جس کے افراد کی عمر کا اوسط عام طور پر زیادہ ہے مگر یہ کہ ان میں سے کوئی حادثاتی طور پر مرجائے _

اس سلسلے میں جو دلچسپ اور تحقیقی مطالعات ہوئے ہیں ان میں سے ایک '' ریمونڈ'' پیرل کا مطالعہ ہے _ اس نے اپنی بیٹی کے تعاون سے ایک کتاب تالیف کی اور اس میں ایک خاندان کی طویل العمری ، جس میں ایک فرد کی سات پشتوں ، دادا، پر دادا، نواسہ ، نواسہ کی اولاد اور موخر الذکر کی اولاد کی اولاد _ کی مجموعی عمر ۶۹۹ سا ل ہوتی ہے جبکہ اس خاندان کے دو اشخاص حادثہ میں مرگئے تھے _ بیمہ کمپنیوں کی تحقیق سے جو نئی شرح ''لوئی دوبلین'' اور ''ہربرٹ مارکس'' نے پیش کی میں انہوں نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ اسلاف کی درازی عمر اخلاف کی عمر پر اثر انداز ہوتی ہے _

ممکن ہے یہ عامل کبھی دیگر عوامل جیسے ماحول اور بری عادت و غیرہ کے اثر کو ختم کردے _ چنانچہ اس بناپر کہا جا سکتا ہے کہ نامسا عد حالات میں بعض افراد کی طور عمر کا یہی راز ہے _ مثلاً ممکن ہے ایک شخص الکحل پیتا ہے لیکن موروثی عامل کی بناپر طویل عمر پاتا ہے _

اولاد، ماں، باپ سے اعضاء سالم و طاقت ور قوامیراث میں پاتے ہیں جو کہ طول عمر میں موثر ہیں اور میراث ملنے والی درجہ اول کی چیزوں میں اعصاب کی مشنری اور خون کی گردش کا نام پیش کیا جا سکتا ہے _ انسان کی عمر اس کے شرائی کی رد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے یعنی بعض لوگوں کی سرخ رگین بڑھاپے کی عمر سے پہلے ہی سخت

۲۲۳

ہوجاتی ہیں _ واضح ہے کہ اس سکتہ کی وجہ شرائین کی سختی اور ان چھلنی ہوجاتی ہے _

دوسرا عامل ما حول ہے : جس ماحول کی ہوا معتدل ، صاف ، حراثیم اور زہر سے پاک ، شور و ہنگامہ سے خالی ، سکون سے مالا مال اور سورج کی شعاعوں کا مر کز ہوگی اس کے باشند وں کی عمر وراز ہو گی _

تیسرا عامل ، شغل کی نوعیت اور کام کی مقدارہے _ کام میں جدو جہد خصوصا روحی و عصبی فعالیت درازی عمرمیں بہت موثر ہے ، جب بدن سالم اور ذہن آزاد ہوتو

بدن اور روح کوبے کاری سے جورنگ لگتا ہے وہ بدن وروح کی پر کاری کے نتیجہ کی فر سودگی سے زیادہ ہوتا ہے اور اس سے عمرمیں کمی واقع ہوتی ہے _ اسی لئے طویل عمر لوگوں کی ، وزیرا عظیم اور پادر یوں کی عمر معمولی افراد سے زیادہ ہے _ یہ عمر طویل ان کی سعی پیہم کا نتیجہ ہے اور اس بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جوانی کےعالم میں رٹائر ڈمنٹ لے لینے اور جلد بیکار بیٹھنے سے بہت سے خطرات پیدا ہوجاتے ، میں اور اس سے عمر کم ہوتی ہے _

چوتھا عامل : غذا کی کیفیت ہے _ غذا بھی مقدار اور نوعیت کے اعتبار سے درازی عمر پر گہر ا اثر چھوڑی ہے_ جن لوگوں کی عمر سو سال سے زیادہ ہوئی ہے ان میں سے اکثر کم خوراک تھے ، خشک خوراکی کیلئے بہت سی ضرب المثل کہی گئی میں ، مونتین کہتا ہے : انسان مرتا نہیں بلکہ خود کشی کرتا ہے _ دوسّری ضرب المثل کہتا ہے :

تم اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودتے ہو _ زیادہ کھا نے سے جہاں بدن کی مختلف مشنریوں کی فعالیت بڑ ھ جاتی ہے وہاں بہت سی بیماریاں جیسے شکر کی بیماری ، رگوں ، قلب اور

۲۲۴

پھیھپڑوں کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے افسوس ہے کہ ایسے افرادکی بدنی طاقت بیماری کے ظاہر ہونے سے قبل بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اس جھوٹی طاقت پر فنحر بھی کرتے ہیں پہلی جنگ عظیم کے دوران اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ بعض ممالک میں شکرکے مرض میں مرنے والوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی _ اس کی علت جنگ کے زمانہ میں غذا کی کمیابی کو سمجھنا چاہئے _ اس بناپر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ فقر ابہت بڑا عطیہ ہے جو غذا کو معتدل اور اس میں کمی واقع کردے _ اور زیادہ گوشت کھانا ، خوصوصا چالیس سال کی عمر کے بعد بہت نقصاندہ ہے _

کورفل نیویارک یونیورسٹی میں ڈاکٹر mccay نے چوہوں پر ریسرچ کی ہے اس میں ا س بات کو ثابت کیا ہے کہ لاغر چوہے موٹے چوہو ں کو قبر میں پہنچاتے ہیں _ عام طور پر چوہے چار ماہ میں کامل و بالغ اور دو سال میں بوڑھے ہوجاتے ہیں اور تین سال سے پہلے مرجاتے ہیں _ ڈاکٹر mccay نے کچھ چوہے لئے اور انھیں کم کیلری والی غذا میں پالا لیکن ویٹامن اور معدنی مواد کے لحاظ سے یہ غذا قوی تھی _ اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان چوہوں کا رشد چار ماہ کے علاوہ ہزار دن تک جاری رہ سکتا ہے _ ان تجربوں میں اس نے مشاہدہ کیا کہ جن چوہوں نے معمولی غذا میں زندگی گزاری ہے وہ ۹۶۵ دن کے بعد مرے ہیں لیکن جن چوہوں کو کم کیلری والے غذا میں پالا تھا وہ اس کے بعد تک جو ان و زندہ رہے اگر ہم کم غذا کھانے والے چوہوں کا انسان سے موازن کریں تو انہوں نے نوع انسانی کی اس فرد کی ، جو کہ سو سے ایک سو پچاس سال تک زندہ رہتا ہے ، زندگی گزاری ہے _ اس کے: علاوہ یہ چوہے بہت کم بیمار ہوئے اور معمولی غذا میں زندہ رہنے والے چوہوں سے زیادہ چالاک تھے ایسے

۲۲۵

ہی تجربے کچھ مچھلیوں اور دیگر حیوانات پر RMPHIBIEN نے کئے ہیں اور اسی نتیجہ پر پہنچا ہے جیسا کہ پر خوری سے عمر کم ہوتی ہے اسی طرح غذا کی کمی بھی مرض کے پیدا ہونے اور عمر گھٹانے کے سلسلے میں گہر اثر رکھتی ہے یعنی اگر غذائی نظام میں ضروری مواد نہیں ہوگا تو امراض کو وجود میں لائے گی _

ضعیفی اور اس کے اسباب

ہوشیار: ضعیفی کیا ہے ؟

ڈاکٹر: جس وقت بدن کے اعضاء رئیسہ ، جیسے قلب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور داخلی غدود فرسودہ ہوکر اپنے فرائض کی انجام دی ، سے معذور ہوجاتے ہیں _ خون کے تصفیہ اور ضروری ترشحات سے عاجز ہوجاتے ہیں تو بدن پر ضعف و ناتوانی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور بڑھا پا آجاتا ہے _

ہوشیار: بڑھاپے کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟

ڈاکٹر: بڑھاپے کی علامتیں عام طور پر کسی بھی شخص میں معین وقت پر ظاہر ہوتی ہیں _ لیکن یہ بھی مسلّم نہیں ہے کہ بڑھا پے کی اصل وجہ عمر کی یہی مقدار نہیں ہے کہ بدن کے اعضاء پر اتنی مدت گزرجائے تو بڑھاپا آجاتا ہے بلکہ ضعیفی کی بنیادی علت اختلال کی پیدائشے کو قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ اختلال عام طور پر اسی عمر میں پیدا ہوتا ہے اس بنا پر ضعیفی کی علت مرور زمان نہیں ہے بلکہ اس کی اصل علت اختلال ہے جو کہ اسی عمر میں اعضاء بدن میں پیدا ہوتا ہے _ اور اسی عمر میں بدن کی مختلف مشنریوں کی فعالیت میں کمی واقع ہوتی ہے اور تشریح الاعضاء کے نقطہ نظر سے ان کی مختلف

۲۲۶

صنعتیں سکڑجاتی ہیں_ ان کی رگوں کی تعداد بھی کم ہوجاتی ہے ، نظام ہا ضمہ بیکار اور ضروری غذائیں فراہم کرنے سے عاجر ہوجاتا ہے اور نتیجہ میں پورے بدن پر ضعف طاری ہوجاتاہے ، طاقت تناسل کم اور مغز کی حرکت مدہم پڑجاتی ہے _ بعض اشخاص کا حافظہ خصوصاً اسماء کے سلسلہ میں بے کار ہوجاتا ہے ، نیز قوت ارادی متاثر ہوجاتی ہے _ لیکن یہ ممکن ہے کہ بدنی قوت کے کم ہونے سے روحانی طاقت میں اضافہ ہوجائے _ ممکن ہے تمام اعضاء بدن کی طرح داخلی مترشح غدود بھی چھوٹے اور ضروری ترشحات سے معذور ہوجائیں _ لیکن مذکورہ حوادث اور ناتوانیاں بدن میں واقع ہونے والے اختلال کی پیدا وارہیں _ پس یہ کہنا چاہئے کہ ضعیفی علت نہیں ہے بلکہ معلول ہے یہاںتک کہ اگر کوئی شخص ایسا پایا جائے کہ جس کے اعضاء بدن میں طویل عمر کے باوجود اختلال پیدا نہیں ہوا ہے تو وہ سالم و شاداب بدن کے ساتھ عرصہ دراز تک زندہ رہ سکتا ہے جیسا کہ ایسے افراد بھی مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ جو کم عمری کے باوجود طبیعی حالات کے تحت جلد فرسودہ ہوجاتے ہیں اور جلد ان پر برھاپا طاری ہوجاتا ہے _

ہوشیار: بدنی ضرورتوں کو منظم کرنے والی مشنریوں کی فرسودگی اور ناتوانی کا سرچشمہ کیا ہے؟

ڈاکٹر: پیدائشے کے وقت ہر شخص کے اعضاء بدن کام کرنے کی صلاحیت واستعداد سے مالامال ہوتے ہیں اور یہ خود والدین کے جسم ، غذا کی کیفیت ، ان کی زندگی کے ماحول اور آب و ہوا کی پیداوار ہوتے ہیں _ اس کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک ان کے اعضاء میں کوئی اختلال پیدا نہ ہوگا تو وہ اپنی طبیعی استعداد کے اختتام تک اپنا کام جاری رکھیں گے اور انسان زندہ رہے گا _ لیکن جب تمام اعضاء یا

۲۲۷

ان میں سے ایک میں کوئی خلل پیدا ہوجائے گا تو وہ بے کار ہوجائے گا اور بدن کا کارخانہ نصف کام انجام دے گا اور ضعیفی کے آثار آشکار ہوجائیں گے _

مختصر یہ کہ انسان کا بدن مستقل مختلف اقسام کے دائر س ، بیکٹیریا ، جراثیم اور زہریلی چیزوں کی زدمیں رہتا ہے جو مختلف طریقوں سے اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بدن کے اندر زیریلا مواد ترشح کرتے ہیں اور بے گناہ خلیوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے ان گی زندگی کا خاتمہ کردیتے ہیں _

اس وقت انسان کے بدن پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے _ ایک طرف اسے غذائی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، اور دوسری طرف متعدی بیماریوں اور ضرر رساں جراثیموں کو نابود کرنے کی کوشش کرتا ہے _ خراب اعضاء کو مدد دیتا ہے ، لیکن ابھی اس دشمن کے حملہ کو ناکام نہیں بنا پاتا کہ دوسرا دشمن حملہ آور ہوتا ہے _ اس لحاظ سے بدن کی داخلی طاقت کو ہمیشہ آمادہ _ اٹینشن _ اور جنگ کے لئے تیار ، رکھتا ہے _

انسان کا بدن مبارزہ کے وسائل اور رزق فراہم کرنے کے لئے مجبور ہے _ باہر سے وارد ہونے والی غذائی طاقت سے مدد حاصل کرتا ہے _ افسوس ہے کہ ہمیں وجودی تعمیر اور اپنی درونی احتیاجات کے بارے میں کافی معلومات نہیں ہیں _ اور اس مقدس جہاد میں صرف اس کی مدد ہی نہیں کرتے بلکہ جہالت و نادانی کی بناپر اس کے دشمن کی مدد کرتے ہیں اور مضر غذا کھاکر دشمن کے لئے راستہ کھولتے اور اپنے حیات کی جڑیں کاٹتے ہیں _ واضح ہے کہ جب اپنی ضرورت کی چیزوں کو باہر سے حاصل نہیں کیا جائے گا ، تو جراثیموں کے حملہ کے مقابلہ میں مقاومت نہیں کرسکیں گے اور اپنے فرائض کی انجام وہی ہے

۲۲۸

عاجز ہوجائیں گے ، سرزمین بدن کو دشمنوں کے حملہ سے بچانے کیلئے کوئی طاقت نہ ہوگی اور اس میں ضعف و ناتوانی کے آثار نمایاں ہوجائیں گے _

جیسا کہ کبھی بدن زیاد ہ محنت و مشقت کی وجہ سے ضعیف ہوجاتا ہے ، کبھی غیر معمولی حوادث کی وجہ سے طبیعی عمر سے پہلے ہی بلاء میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس پر بہت جلد بڑھاپا طاری ہوجاتا ہے _ بعض سائندانوں کا خیال ہے کہ بعض بیماریوں اور بری عادتوں سے انسان پر جلد بڑھا پا طاری ہوجاتا ہے _'' مچنیکوف'' کا نظریہ ہے ROTRTIK اور خشکی کے خمیر سے جو زہر یلے جراثم وجود میں آتے ہیں وہ بھی انسان کے ضعف و بڑھاپے کا باعث ہوتے ہیں اگر ان کو ختم کردیا جائے تو اس کی عمر میں اضافہ ہوجائے گا _

اس نظریہ کی بنیاد اس تجربہ پر استوار تھی چونکہ ، بالکان خصوصاً بلغارستان ترکی اور قفقاز میں سو سال سے زیادہ بوڑھوں کی تعداد اچھی خاصی ہے ، لہذا اس عمر درازی کی علت دھی کے استعمال کو قرار دیا ، اس کا نظریہ تھا کہ دھی میں چونکہ کھٹاس ہوتا ہے جو کہ ROTROTK کو ختم کردیتا ہے اور طول عمر میں معاون ہوتا ہے _ لیکن واضح ہے کہ ان کوہ نشین لوگوں کی طول عمر کا راز ان کی غذا ہی نہیں ہے بلکہ آب و ہوا ، پر سکون زندگی ، مستقل جد و جہد او رموروثی عوامل کم و بیش سب ہی اس میں دخیل ہیں _ ان مشاہدات کی نظیر ایران کے کوہ نشین انسانوں میں بھی موجود ہے _

ہوشیار: کیا موت اور کارخانہ بدن کے بیکار ونے کی اصل علت طول عمر اور اعضاء کے کام کی کثرت ہے کہ جس سے بڑھاپے میں موت یقینی ہے یا موت کی بنیادی علت کوئی اور چیز ہے ؟

ڈاکٹر: موت کی اصلی علت بدن کے تمام اعضاء رئیسہ یا ان میں سے

۲۲۹

ایک میں خلل کا پیدا ہونا ہے جب تک خلل پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک موت واقع نہیں ہوگی _ یہ خلل اگر ضعیفی کے زمانہ سے قبل پیدا ہوجاتا ہے تو جوان انسان بھی مرجاتا ہے لیکن اگر حوادث کی گزند سے محفوظ رہے کہ عام طور پر ضعیفی کے زمانہ میں ان حوادث کا پیدا ہونا ضروری ہے _لیکن اگر کوئی ممتاز انسان پایا جائے جس نے طویل عمر پائی ہو تو اپنے جسم کی مخصوص ترکیب اور تمام شرائط کی موجود گی کی بناپر اس کے کسی بھی عضو میں خلل پیدا ہوا ہو تو طول عمر اس کی موت کا باعث نہ ہوگی _

ہوشیار : کیا مستقبل میں انسان ایسی دو کے انکشاف میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ جس سے وہ اپنے بدن کی استعداد میں اضافہ کر سکے اور ضعیفی اور جسمانی خلل کو روک سکے ؟

ڈاکٹر: یہ ایسا موضوع ہے جو ممکن ہے اسے آج ناقص علم سے اور قیاس کی روسے غلط نہیں کہا جا سکتا _ اس سلسلے میں سائنسداں امید اور سنجیدگی کے ساتھ تحقیق میں مشغول تھے اور ہیں ، امید ہے کہ طو ل عمر کا راز جلد ہی کشف ہوجائے گا اور انسان ضعیفی اور کم عمرپر غلبہ پائے گا _

صاحب الامر کی طویل عمر

ہوشیار: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شیعہ ، مہدی موعود بن حسن عسکری کہ ، جو کہ ۲۵۵ یا ۲۵۶ ھ میں پیدا ہوئے تھے ، ابھی تک با حیات سمجھتے ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ آپ غیبت کی زندگی بسرکررہے ہیں اور شائد اسی طرح سیکڑوں سال تک زندہ رہیں گے _ کیا علم حیات و طب ایسی غیر معمولی عمر کو محال قرار دیتا ہے ؟

ڈاکٹر : اس سلسلے میں ابھی تک میں نے جو کچھ کتابوں میں پڑھاہے اس سے

۲۳۰

معلوم ہوتا ہے کہ قائم آل محمد کی طول عمر کا راز کسی پر عیان نہیں ہوا ہے _ لیکن ایسا لگتا ہے کہ علوم کی جو ترقی ہوئی ہے اور ہورہی ہے اور خدا کی مدد سے یہ مشکل بہت جلد حل ہوجائیگی اور عقیدت مندوں کے اختیار میں پہنچ جائے گی _

سردست جو کچھ جانتا ہوں اسے بیان کرتا ہوں : آج کے ناقص علم اور قیاس کی بناپر اسے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اصل امکان کے علاوہ ہمارے پاس غیر معمولی طول عمر کے چند نمونے موجود ہیں جن کے ثبوت میں کسی قسم کی شک و تردید نہیں ہے :

الف: نباتات کے درمیان ایسے طویل العمر درخت موجود ہیں جنھیں روئے زمین پر قدیم ترین موجودات کہا جاتا ہے ، منجملہ ان کے SEQUOIA ہے یہ کالیفورنیا میں موجود ہے _ ان میں سے بعض ۳۰۰ فٹ لمبے اور ۱۱۰ فٹ موٹے ہیں _ ان میں سے بعض کی عمر پانچ ہزار سال سے زیادہ ہے _ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جب فرعون اول ، KHORFU نے مصر کے بڑے ہرم کی تعمیر شروع کی تھی اس وقت یہ درخت شاداب و جوان تھا اور حضرت عیسی کی ولادت کے وقت اس کی چھال کی ضخامت ۴۰/۳ سنٹی میٹر تھی _ مثلاً( sequeiagentea ) ، قسم کے ایک درخت کے تنے _ جو کہ ( s: kensington ، کنسنگٹن جنوبی کے میوزیم میں موجود ہے _ میں ۱۳۳۵ حلقے ہیں یعنی اس کی عمر اتنے ہی سال(۱)

سن رسیدہ ترین زندہ موجود جو کہ آج بھی زندہ ہے جس کی عمر تقریباً ۴۳۰۰ سال ہے وہ ایک قسم کی کاجی ہے جس کا نام ( pinus aristata ) ہے اور یہ کالیفورنیا کے مشرقی مرکز میں موجود ہے _ حیوانات میں سب سے زیادہ طویل العمر ایک قسم کا زندہ کچھواہے جو کہ گالاگوش جزیرہ میں موجودہے _ اس کی عمر ایک سو ستّر (۱۷۰) سال

____________________

۱_ دائرة المعارف بریٹانیائی ج ۱۴ ص ۳۷۶_

۲۳۱

ہے _ وزن تقریباً ۴۵۰ پونڈ ہے اور طول چار فٹ ہے _(۱)

ب: قدیم مصر میں کھدائی ہوئی تو مصر کے جوان مرگ فرعون کے مقبرہ میں گیہوں نکلے ، میں نے خود مذکورہ مقبرہ میںوہ گیہوں دیکھے ہیں اور اخباروں میں پڑھاہے کہ بعض علاقوں میں انھیں بویا گیا تو وہ کامل طور پر سر سبز و شاداب ہوئے اور فصل دی _ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے گندم کا حیاتی نقطہ تقریباً تین یا چار ہزار سال تک زندہ رہا ہے _

ج: متعدی بیماری کے جراثیم کو قدیم ترین زندہ موجود قرار دیا جا سکتا ہے _ یہ ایسے زندہ موجودات ہیں کہ ممکن ہے جن کی زندگی کا مطالعہ حیات کے راز کو آشکار کردے _ ان ہی سے بعض نباتی ، حیوانی اور انسانی بیماریاں جیسے زکام انفلوانزا، خصرہ ، چیچک، پیدا ہوتی ہیں _ آثار قدیمہ کے ماہروں نے ان جراثیم کا وجود ما قبل تاریخ بتایا ہے _ یعنی یہ موجودات ایک لاکھ سال کے بعد بھی زندہ ہیں ، اور ان کی زندگی کے آثار ختم نہیں ہوئے ہیں _ اگر چہ اس دوران انہوں نے خفتہ و نہفتہ زندگی بسر کی ہے اور اس وقت بظاہر مردہ موجودات سے مختلف نہیں تھے _(۲)

د: چند سال قبل میں نے اخباروں میں پڑھا تھا کہ '' سائبیریا'' کے نواح کے کھدائی میں اکی بڑا جانور نکلا ہے جو کہ برف کی وجہ سے منجمد تھا _ چنانچہ جب اسے سورج کی دھوپ میں رکھا گیا تو اس میں زندگی کے آثار نمایان ہوگئے _

ھ: جن طریقوں سے ایک زندہ موجود کی عمر کو طولانی بنایا جا سکتا ہے اور اسے نیم جاں

____________________

۱_ دائرة المعارف امریکائی ج ۱۷ ص ۴۶۳

۲_ روزنامہ اطلاعات

۲۳۲

کرکے قابل مطالعہ قرار دیا جا سکتا ہے _ ان میں سے ایک ہایبرنیشن _ سردی کی نیند ہے یہ نیند بعض حیوانات پر سردی بصر طاری رہتی ہے اور بعض پرگرمی کے موسم میں طاری رہتی ہے _ جب حیوانات پر یہ نیند طاری ہوجاتی ہے تو اس وقت ان کی غذا کی احتیاج ختم ہوجاتی ہے اور بدن کی ما یحتاج چیزوں میں ۳۰ سے سوتک کمی واقع ہوتی ہے اس کی حرارت کو منظم رکھنے والی مشنری وقتی طور پر بند ہوجاتی ہے اور فضا کی حرارت کم ہوجانے سے اس کی کھال اور بال ٹھٹھر کر سخت نہیں بن جاتے ، اس کے بدن پر لرزہ طاری نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے بدن کی حرارت فضا و ماحول کی مانند ہوجاتی ہے کہ ممکن ہے درجہ حرارت نقطہ انجماد ہے ۳۹_ ۴۱ f سے بھی اوپر پہنچ جائے کہ جس سے سانس کی رفتار کم اور نامنظم ہوجاتی ہے اور حرکت قلب کبھی کبھی ہوتی ہے _ (زمین کے سنجاب کے دل کی حرکت فی منٹ ۷ سے ۱۰ ہوتی ہے جبکہ عام طور پر فی منٹ تین سو مرتبہ ہونی چاہئے ) اعصاب کے مختلف رفلکس رک جاتے ہیں اور ۵۲ سے ۶۶ فارن ہائٹ درجہ حرارت سے نیچے مغز کی برقی امواج کا مشاہدہ نہیں ہوتا ہے _

بعض حیوانات عرصہ دراز تک غیر معمولی سردسیال چیزوں میں زندہ رہ سکتے ہیں _ چنانچہ ناروے کے علاقوں میں مچھلیاں اسی طرح زندہ رہتی ہیں _ بہت سے زندہ خلئے جیسے انسان اور حیوان کے نطفہ کو پیوند کے لئے اور خون کے r.b.c کو ٹرانسفوجن کے لئے انجماد کی صورت میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے _ اسی طرح بہت سے چھوٹے چھوٹے جانداروں کو باربار برف میں منجمد اور گرم کیا جا سکتا ہے جبکہ اس سے ان کے بدن کو کوئی آنچ نہیں آتی _

۲۳۳

سردی کی نیند اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ شاید اس کے ذریعہ طول عمر کا راز منکشف ہوجائے اور انسان کو طول عمر نصیب ہوجائے _

طویل العمر درختوں کا مطالعہ ، نباتات کے نطفہ حیاتی کاکئی ہزار سال تک زندہ رہتا ، متعدی بیماری کے جراثیم کی زندگی سردی ، گرمی کی حیرت انگیز نیند نے اور علم طب و علم حیات کی محیر العقول ترقی و غیرہ نے عمر طویل بنانے اور ضعیفی پر غلبہ پانے کے سلسلے میں انسان کی امید بندھائی ہے اور اسے تحقیق و کوشش پر ابھارا ہے امید ہے کہ دانشور بشریت کے اس مقدس آرزو میں کامیاب ہوں گے اور نتیجہ میں قائم آل محمد کی طول عمر کے راز کو آشکار کریں گے _

اس دن کی آمد کی امید کے ساتھ

ڈاکٹر ابو تراب نفیسی

پروفیسر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ میڈیکل کالج اصفہان

ہوشیار: اس مدت کے دوران ایک دلچسپ مقالہ میری نظروں سے گزراہے جس کا ایک فرانسیسی مجلہ سے ترجمہ کیاگیا ہے _ چونکہ ہماری بحث سے مربوط ہے اس لئے میں نے اس کے متن کو لکھ لیا تھا _ اگر احباب کی اجازت ہو تو پڑھ لوں ،

وستین گلاس کا مقالہ

علم الحیات کے ماہروں نے زندہ موجودات کی عمر چند گھنٹوں سے لے کر سیکڑوں سال تک بتائی ہے _ بعض حشرات الارض کی عمر ایک دن اور بعض کی ایک سال ہوتی ہے لیکن ہر نوع میں بعض افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ جن کی عمر اپنے ہم جنس کی طبیعی عمر کے

۲۳۴

دو تین گناہوتی ہے _ جرمنی میں ایک سرخ پھول کا درخت ہے کہ جس کی عمر اس کے ہم جنس درختوں سے سیکڑوں سال زیادہ ہے _ میکسکو میں سرد کا ایک درخت ہے کہ جس کی عمر ۲۰۰۰ سال ہے _ بعض ایسے نہنگ پائے گئے ہیں جن کی عمر ۱۷۰۰ سال ہے _

سولھویں صدی میں لندن میں تماس پار نام کا ایک شخص تھا جس کی عمر ۲۰۷ سال تھی _ آجی بھی ایران کے شمالی علاقہ میں ایک شخص سید علی نام کا ہے کہ جس کی عمر ۱۹۰ سال اور اس کے بیٹے کی عمر ۱۲۰ سال ہے _ روس میں لوئی یوف پواک نامی شخص کی عمر ۱۳۰ سال ہے _ میکو خوپولوف قفقازی کی عمر ۱۴۰ سال ہے _

علم الحیات کے ماہروں کا خیال ہے کہ یہ غیر معمولی عمریں کسی ایے درونی عامل سے مربوط ہیں جو کہ کسی شخص کی عمر کو حد سے زیادہ بڑھانے کا باعث ہوا ہے _

علم الحیات کے ماہروں کے نظریہ کے مطابق ہر نوع کے زندہ موجود کی عمر طبیعی کو اس فرد کی نوع کے سات یا ۱۴ گنا ہونا چاہئے اور چونکہ انسان کے رشد کی عمر پچیس سال ہے اس لحاظ سے انسان کی عمر ۲۸۰ سال ہونا چاہئے _

مناسب و موزوں غذاؤںکے استعمال سے بھی عمر طبیعی کے قاعدہ کو باطل کیا جا سکتا ہے _ اس کی مثال شہد کی مکھیاں ہیں _ عام طور پر ان کی عمر چار پانچ ماہ ہوتی ہے _ جبکہ ان کی ملکہ کی عمر ۸ سال ہوتی ہے در آن حالیکہ وہ بھی تخم و تولید میں ان ہی کی مانند ہے لیکن و ہ شاہا نہ غذا میوہ کھاتی ہے _

البتہ انسان کے بارے میں ایسا نہیں ہے_ ہم شہد کی مکھیوں کی ملکہ کی طرح مخصوص جگہ زندگی نہیں گزار سکتے کہ جہاں گرمی بھی قابو میں ہو ، غذا محدود اور مخصوص قسم کی ہوا اور سیکڑوں محافظ و نگہبان ہوں _ ہمارے سامنے بہت سے خطرات ہیں _ علم الحیات

۲۳۵

کے ماہروں کے نقطہ نظر سے بعض یہ ہیں : خود بخود پیدا ہونے والا زہر ، وٹامن کی کمی اور شرایین کا سخت ہوجانا _ لیکن لندن کا ایک اسپیشلسٹ کہتا ہے : فولاد ، میگنشیم اور بدن کے پوٹاسیم ذخیرہ میں تعادل کے بگڑجانے سے جب ایک دوسرے پر غالب آجاتا ہے تو موت واقع ہوجاتی ہے _ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمام خطرات کے درمیان ، خصوصاً ضعیفی کا نام نہیں ہے _ موت کی علت بڑھاپا نہیں ہے _

ڈاکٹر سوئڈی ( امریکہ کی دراز عمر علمی انجمن کے صدر) کا نظریہ ہے کہ بڑھاپا طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ : '' پروٹین کے مالکولی بدن کے خلیوں میں گرہ لگاتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں ان کے کام سے روکتے اور موت کا باعث ہوتے ہیں _ اسی ڈاکٹر نے تحقیق و تلاش کے دوران ایک مادہ کشف کیا ہے جو اس گرہ کو کھولتا اور بدن کی مشنری ک از سر نو حرکت میں لاتا ہے _ اس ترتیب سے بڑھا پے کے زمانہ کو ختم کرتا ہے _ لیبارٹریوں میں محققین اس تجربہ میں کامیاب ہوئے ہیں کہ بعض تجرباتی حیوانات جیسے ہندوستان کے خوک کی مدت عمر کو ، اس کی خوراک میں وٹامن '' b '' نو کلیک اسیڈ اور پانتونکسیک اسیڈ ۴/۴۶ فیصد بڑھانے سے بڑھایا جا سکتا ہے _

''فیلاتف'' روس کے حیات شناس نے توقع ظاہری کی ہے کہ ضعیفی کے زمانہ کو غلط پیوند کاری کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے اس اجزاء ترکیبی فاسد میں کتنی عجیب طاقت ہے کہ کھاد کی مانند ہمارے بدن کے مزرعہ کو زر خیز بناتا ہے _ اس کے علاوہ کچھ ایسے اصول بھی ہیں کہ جن کی رعایت سے عمر بڑھتی ہے یہ اصول عبارت ہیں غذائی دستورات اور بیوکمسٹری ، سانس لینے کے قواعد ، استرخا کے طریقے ، غذا کے بعض ماہروں کا خیال ہے کہ صرف طبی اصول کے مطابق غذا کے ذریعہ سو سال سے زیادہ زندہ رہ جا سکتا

۲۳۶

ہے ہم جو کچھ کھاتے ہیں اسی کے بنے ہوئے ہیں _

طول عمر سے متعلق تحقیقات

میں نے ایک عربی مجلہ میں ، ایک مقالہ پڑھاہے چونکہ ہماری بحث سے مربوط ہے _ اس لئے آپ کی خدمت میں اس کا ترجمہ پیش کرتاہوں _

قابل اعتماد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حیوان کے بدن کے اعضاء رئیسہ میں سے ہر ایک میں لا محدود مدت تک زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے _ اگر انسان کے سامنے ایسے عوارض و حوادث پیش نہ آئیں جو کہ اس کی حیا ت کا سلسلہ منقطع کردیں تو وہ ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتا ہے _ ان سائنس دانوں کا قول کوئی خیال و تخمینہ نہیں ہے بلکہ ان کے تجربوں کا نتیجہ ہے _

ایک جرّاح ایک جاندار کے کٹے ہوئے جز کو اس حیوان کی معمولی زندگی سے زیادہ دنوں تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کٹے ہوئے جز کی حیات کا دارومدار اس کے لئے فراہم کی جانے والی غذا سے پر ہے جب تک اسے کافی غذا ملتی رہے گی اس وقت وہ زندہ رہے گا _

اس جراح کا نام ڈاکٹر '' الکسیس کارل'' تھا جو کہ راکفلر کے علمی ادارہ نیویارک میں ملازم تھا _ یہ تجربہ اس نے ایک چوزہ کے کٹّے ہوئے جز پر کیا تھا ، یہ مقطوع جز آٹھ سال سے زائد زندہ رہا اور رشد کرتا رہا _ موصوف اور دیگرا افراد نے یہی تجربہ انسان کے مقطوع اجزاء جیسے عضلات قلب اور پھپڑے پر بھی کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ جب تک اجزاء کو ضروری غذا ملتی رہے گی اس وقت تک وہ اپنی حیات و نمو کا

۲۳۷

سلسلہ جاری رکھیں گے _ یہاں تک کو جونس ہبکس یونیورسٹی کے پروفیسر ''ریمونڈ'' اور ''برل'' کہتے ہیں انسان کے جسم کے اعضاء رئیسہ میں دائمی قابلیت و استعداد موجود ہے _ یہ بات تجربات سے ثابت ہوچکی ہے کم از کم احتمال کو ترجیح ہے کیونکہ اجزاء کی حیات کے سلسلہ میں ابھی تک تجربات ہورہے ہیں _ مذکورہ نظریہ نہایت ہی واضح اور اہم اور علمی غور و فکر کے بعد صادر ہوا ہے _

جسم حیوان کے اجزاء پر بظاہر مذکورہ تجربہ سب سے پہلے ڈاکٹر ''جاک لوب'' نے کہا تھا وہ بھی علمی ادارہ راکفلر میں ملازم تھا ، جس وقت وہ مینڈک کو تلقیح نہ شدہ تخم سے پیدا کرنے والے موضوع پر تحقیق میں مشغول تھا اس وقت اچانک اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ بعض انڈوں کو مدت دراز تک زندہ رکھا جا سکتا ہے اس کے برعکس بہت سے کم عمر میں مرجاتے ہیں _ یہ قضیہ باعث ہوا کہ وہ مینڈک کے جسم کے اجزاء پر تجربہ کرے چنانچہ اس تجربہ میں انھیں مدت دراز تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوا _ اس کے بعد ڈاکٹر ''ورن لویس'' نے اپنی زوجہ کے تعاون سے یہ ثابت کیا کہ : پرندے کے جنین کے اجزاء کو نمکین پانی میں زندہ رکھا جا سکتا ہے ، اس طرح کہ جب بھی اس میں آبی مواد کا ضمیمہ کیا جائے گا اسی وقت ان کے رشد و نمو کی تجدید ہوگی _ ایسے تجربہ مسلسل ہوتے رہے اور اس بات کو ثابت کرتے رہے کہ حیوان کے زندہ خلیے ایسی سیال چیز میں اپنی حیات کے سلسلہ کو جاری رکھ سکتے ہیں کہ جس میں ضروری غذائی مواد موجود ہوتا ہے _ لیکن اسی وقت تک ان کے پاس ایسی کوئی نہیں تھی جس سے وہ موت کی نفی کرتے _

ڈاکٹر کارل نے اپنے پے درپے تجربوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اجزاء ضعیف نہیں ہوتے جن پر تجربہ کیا جاتا ہے اور پھر جو انوں کی زندگی بھی طویل ہوتی ہے _

۲۳۸

اس نے جنوری ۱۹۱۲ ء میں اپنے کام آغاز کیا ، اس سلسلے میں مشکلات پیش آئے ، لیکن اس اور اس کے عملہ نے ان پر غلبہ پالیا اور درج ذیل موضوعات کا انکشاف کیا _

الف: جب تک تجربہ کئے جانے والے زندہ خلیوں پر کوئی ایسا عارضہ نہ ہو جو ان کی موت کا باعث ہو ، جیسے جراثیم کا داخل ہونا یا غذائی مواد کا کم ہونا ، تو وہ زندہ رہیں گے _

ب : مذکورہ اجزاء صرف حیات ہی نہیں رکھتے بلکہ ان میں رشد و کثرت بھی پائی جاتی ہے _ بالکل ایسے ہی جیسے یہ اس وقت رشد و کثرت اختیار کرتے جب حیوان کے بدن کا جز ہوتے _

ج: ان کے نمو اور تکاثر کا ان کے لئے فراہم کی جانے والی غذا سے موازنہ کیا جاسکتا ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے _

د: ان پرمرور زمان کا اثر نہیں ہوتا ہے ، ضعیف و بوڑھے نہیں ہوتے بلکہ ان میں ضعیفی کا معمولی اثر بھی مشاہدہ نہیں کیا جاتا _ وہ ہر سال ٹھیک گزشتہ سال کی نمو پاتے اور بڑھتے ہیں _ ان موضوعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب تجربہ کرنے والے ان اجزاء کی دیکھ بھال کریں گے ، انھیں ضروری و کافی غذا دیں گے اس وقت وہ اپنی حیات اور رشد کو جاری رکھیں گے _

یہاں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بڑھاپا علت نہیں ہے بلکہ معلول و نتیجہ ہے _ پھر انسان کیوں مرتا ہے ؟ اس کی حیات کی مدت محدود کیوں ہے ، معدود افراد کی عمر ہی سو سال سے آگے کیوں بڑھتی ہے اور عام طور پر اس کی عمر ستّر یا اسی سال ہوتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ حیوان کے جسم کے اعضائ

۲۳۹

زیادہ اور مختلف ہیں اوران کے در میان کمال کا ارتباط و اتصال ہے _ ان میں سے بعض کی حیات دوسرے کی زندگی پر موقوف ہے _ اگر ان میں سے کوئی کسی وجہ سے نا تواں ہو جائے اور مرجائے تو اس کی موت کی وجہ سے دوسرے اعضاء کی بھی موت آجاتی ہے ، اس کے ثبوت کے لئے وہ موت کافی ہے جو کہ جراثیم کے حملہ سے اچانک واقع ہوجاتی ہے ، یہی چیز اس بات کا سبب ہوئی کہ عمر کا اوسط ستر ، اسی سال سے بھی کم قرار پائے بہت سے بچپنے ہی مرجا تے ہیں _

یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ستر ، اسی سویا اس سے زیادہ سال کی عمر ، موت کی علت نہیں ہے بلکہ اس کی اصلی علت : اعضا ہیں سے کسی ایک پر عوارض ، امراض کا حملہ کر کے اسے بیکار بنانا ہے چنانچہ اعضاء کی موت واقع ہو جاتی ہے _پس جب علم عوارض کا علاج تلاش کرنے یا ان کے اثر کو بیکار بنا نے میں کا میاب ہوجائے گا تو پھر سیکڑوں سالہ زندگی کے لئے کوئی چیز مانع ہوگی _ جیسا کہ بعض درختوں کی بہت طولانی عمر ہے ، لیکن اس بات کی توقع نہیں ہے کہ علم طب و حفظان صحت اتنی جلد اس عالی مقصد تک پہنچ جائیں گے _ لیکن اس مقصد سے نزدیک ہونے اور موجود عمر کی بہ نسبت دویا تیں گنا عمر تک پہنچنا بعید نہیں ہے _ ۱_

پھر طول عمر

بر طانیہ کے ایک ڈاکٹر نے اپنے تفصیلی مقالہ کے ضمن میں لکھا ہے : بعض

____________________

۱ _ المہدی تالیف آیت اللہ صدر منقول از مجلہ ء المقتطف شمارہ ۳

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

دین خدا کے سلسلہ میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا _

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر ( آل عمران / ۱۰۴)

اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دے نیکیوں کا حکم دے ، برائیوں سے منع کرے _

یا ایها الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء لله (نساء/ ۱۲۵)

ایمان لانے والو تم عدل قائم کرنے والے اور خدا کیلئے گواہ بن جاؤ_

ایسی ہی بے شمار آیتیں ہیں جن میں ھام مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان سے ان اجتماعی فرائض کی انجام وہی کی خواہش کی گئی ہے جو اسلامی حکومت کی مصلحت کے مطابق ہوں _ مثلاً دشمنوں سے جنگ اور را ہ خدا میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، مستکبرین اور کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو، دنیا کے لوگوں کو خیر و صلاح کی دعوت دو ، فساد ، معصیت اور ستمگری سے مبارزہ کرو_ عدل و انصاف قائم کرو اور حدود خدا کو جاری کرو _

معمولی غور و فکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایسے اجتماعی اہم امور کا اجراء حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور چونکہ مسلمانوں سے اس امر کا مطالبہ کیا گیا ہے اس لئے اس کے مقدمات فراہم کرنا ، یعنی اسلامی حکومت کی تاسیس میں کوشش کرنا مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بعبارت دیگر ہر شعبہ میں دین کے قوانین کا نفاذ اسلامی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے جبکہ دینی احکام کا نفاذ مسلمانوں کا فریضہ ہے قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے _

۳۴۱

خدا نے تمہارے لئے دین کے وہ احکام مقرر کئے ہیں جن کی نوح کو وصیت کی اور پیغمبر ان ہی کی تمہاری طرف بھی وحی کی اور جس چیز کی ہم نے ابراہیم و موسی اور عیسی کو وصیت کی تھی وہ یہی تھی کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ پیدا کرنے سے اجتناب کرو ''(۱) _

قرآن مجید کے عام خطابات اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی احکام کے استمرار سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جس زمانہ میں معصوم امام تک رسائی نہ ہو _ اس میں اسلامی حکومت کی تاسیس خود مسلمانوں کا فریضہ ہے تا کہ اس کے ذریعہ ہر شعبہ میں دینی احکام کو نافذ کریں اور اس کے تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں _

اگر ہم اس عقلی بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہرج و مرج میں حکومت کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ شارع اسلام نے بھی ہرج و مرج کو پسند نہیں کیا ہے ، اور انسان کی دنیوی و اخروی سعادت و کامیابی کے لئے خاص حکومت کا نظریہ پیش کیا ہے اور اسی لئے سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام مقررکئے ہیں ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کا وجوب اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین اور منصوبوں کاا جراء و رسول (ص) خدا کی مختصر حیات ہی میں محدود نہیں ہے _ بلکہ انھیں ہر زمانہ میں جاری رہنا چاہئے ، اگر اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر زمانہ اور ہر شعبہ میں دین کو قائم کرنا مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تشکیل میں کوشاں رہیںاورپیغمبر اسلام کی حکومت کو استمرار بخشیں تاکہ اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبے اور احکام کے پرتو

____________________

۱_ شوری/ ۱۳

۳۴۲

میں امن و امان اور سالمیت کا ماحول پیدا ہوجائے اور خدائے متعال کی عبادت و اطاعت تزکیہ نفس اور سیر الی اللہ کیلئے زمین ہموار ہوجائے _

نبوّت

حکومت کی تشکیل کی ضرورت اور اس کے استمرار میں کوشاں رہنا ایک عقلی بات ہے اسے سارے عقلا تسلیم کرتے ہیں _ اسلام نہ صرف اس عقلی بات کو رد نہیں کیا ہے بلکہ اس کی تائید کی ہے چنانچہ جب جنگ احد میں رسول خدا کے شہید ہوجانے کی جھوٹی خبر گشت کرنے لگی تو اس جھوٹی خبر سے ان اسلامی جانبازوں کے حوصلہ ماند پڑگئے جو جنگ میں مشغول تھے تو یہ آیت نازل ہوئی _

اور محمد (ص) بھی ایک رسول(ص) ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں _ اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم پچھلے پاؤن اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹ جاؤگے ؟(۱) یعنی ان کے مرجانے یا تقل ہوجانے سے تم اپنے اجتماعی نظم و ضبط سے ہاتھ دھو بیٹھوگے اور جہاد کو ترک کردوگے ؟ جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں مذکورہ آیت اسلامی و اجتماعی نظام کے استمرار و تحفظ کو عقل سلیم رکھنے والے مسلمانوں پر چھوڑاہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ مسلمان لمحہ بھر کیلئے بھی یہاں تک پیغمبر کے قتل ہوجانے یا مرجانے سے بھی جہاد اور اسلامی و اجتماعی نظام سے دست کش نہ ہوں _

سقیفہ بنی ساعد ہ میں جو انجمن تشکیل پائی تھی اس کے سبھی ارکان پیغمبر (ص) کی

____________________

۱_ آل عمران / ۱۴۴_

۳۴۳

اسلامی حکومت کے استمرار و ضرورت پر اتفاق نظر رکھتے تھے ، کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہمیں حاکم و خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے ، ہاں اس کے مصداق کی تعیین کے بارے میں اختلاف تھا _ انصار کہتے تھے_ امیر و خلیفہ ہم میں سے ہوگا _ مہاجرین کہتے تھے اس منصب کے مستحق ہم ہیں _ بعض کہتے تھے _ ہم امیر ہوں گے اور تم ہمارے وزیر ، ایک گروہ کہہ رہا تھا ایک شخص ہم مییں سے اور ایک تم میں سے امیر ہوگا _ لیکن یہ بات ایک آدمی نے بھی نہیں کہی کہ ہمیں امیر و خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے اور زمامدار کے بغیر بھی ہم اجتماعی زندگی گزارسکتے ہیں _

یہاں تک حضرت علی نے بھی کہ جنھیں رسول خدا نے خلیفہ منصوب کیا تھا جو اپنے الہی حق کو برباد ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی کے مخالف تھے ، اس سلسلہ میں بعض صحابہ بھی آپ کی حمایت کرتے تھے ، رسول (ص) کی اسلامی حکومت کے استمرار و ضرورت کی مخالفت نہیں کی اور کبھی نہ فرمایاکہ : خلیفہ کی تعیین کی ضرورت ہی کیا تھی کہ جس کیلئے انہوں نے عجلت سے کام لیا ہے ؟ بلکہ فرمایا: خلافت و امامت کا میں زیادہ مستحق ہوں ، کیونکہ اس منصب کے لئے رسول خدا نے مجھ منتخب کیا ہے اور ذاتی علم و عصمت اور لیاقت کا بھی حامل ہوں _ با وجودیکہ حضرت علی اپنے ضائع شدہ حق اور اسلامی خلافت کو اصلی محور سے منحرف سمجھتے تھے لیکن چونکہ اصل حکومت کی ضرورت کو تسلیم کرتے تھے اس لئے کبھی بھی خلفاء کو کمزور بنانے کی کوشش نہ کی بلکہ نظام اسلام کی بقاء کی خاطر ضروری موقعوں پر ان کی مدد کی اور فکر تعاون سے بھی دریغ نہ کیا _ اگر آپ(ع) کے اعزاء یا اصحاب با وفا میں سے خلفا کسی کو کسی کام پر مامور کرتے اور وہ اسے قبول کرلیتے تھے تو حضرت علی

۳۴۴

(ع) انھیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے ، آپ کی روش سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ (ص) حکومت کے وجود کو ہر حال میں ضروری سمجھتے تھے چنانچہ جب خوارج یہ کہہ رہے تھے لا حکم الا اللہ تو آپ (ص) نے فرمایا تھا: کلمة حق یراد بہا الباطل _ یعنی بات صحیح ہے مراد غلط ہے ہاں اصلی حاکم خدا ہی ہے لیکن خوارج یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت و امارت بھی خدا ہی سے مختص ہے _ جب کہ لوگوں کو حاکم و امیر کی ضرورت ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تا کہ صالح افراد کی حکومت میں مومن اعمال صالح انجام دے گا اور کافر آرام کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور اللہ اس نظام حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دے گا اسی حاکم کی وجہ سے مال جمع ہوتا ہے ، دشمن سے لڑاجاتا ہے ، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ حاکم حکومت سے الگ ہوجائے اور برے حاکم کے علیحدہ ہونے سے دوسروں کو آرام ملے _ اس بناپر اسلامی حکومت کی تشکیل اور ضرورت و استمرار میں شک نہیں کرنا چاہئے _ اور یہ حساس و سنگین ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے کہ جس زمانہ میں ان کی دست رس پیغمبر یا معصوم امام تک نہ ہو اس میں انھیں حکومت کی تشکیل و استحکام کیلئے کوشش کرنا چاہئے _ اور جس زمانہ میں امام تک رسائی نہ ہو اس میں انھیں علماء و فقہا میں سے اس فقیہ کو قیادت و امامت کے لئے منتخب کرنا چاہئے جو کہ اسلامی مسائل خصوصاً سیاسی و اجتماعی مسائل سے کما حقہ واقف ہو اور تقوی، انتظامی صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کامل ہو _ کیونکہ ایسے شخص کی رہبری و امامت کو ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی قبول کیا ہے اور اس کی وصیت کی ہے _ ایسا ہی آدمی ملت اسلامیہ کی قیادت کرسکتا ہے اور اسلام کے اجتماعی وسیاسی منصوبوں کو عملی صورت میں پیش کر سکتا ہے _

۳۴۵

اس بات کی وضات کردینا ضروری ہے کہ حکومت اسلامی اور ولایت فقیہ کا مسئلہ اتنا نازک اور طویل ہے کہ اس کیلئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے _ اس مختصر کتاب میں ہم اس کے وسیع اور متنوع پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے _ لہذایہاں اشارہ ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنی بحث کو یہی ختم کرتے ہیں _ اس مقدمہ کو بیان کرنے کا مقصد جو کہ کچھ طولانی ہوگیا ، یہ ہے کہ جو احادیث امام مہدی کے انقلاب و تحریک سے قبل رونما ہونے والے انقلاب کی مخالف ہیں ، ان کی تحقیق کریں اور اس نکتہ پر توجہ رکھیں کہ جہاد ، دفاع ، حدود ، قصاص ، تعزیرات ، قضاوت ، شہادت ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ ، محروم و مستضعفین سے دفاع اور دوسرے اجتماعی و سیاسی مسائل ہیں جو اسلام کے ضروری اور اہم مسائل ہیں انکی تردید نہیں کی جا سکتی ، بلکہ ان پر عمل کرنا اور کرانا ضروری ہے اور اس کام کیلئے اسلامی حکومت کی ضرورت ہے اور اسلامی حکومت کی تشکیل اور دین کے احکام و قوانین کے اجراء کیلئے بھی جہاد و انقلاب کی ضرورت ہے _ اس بناپر انقلاب کی مخالف احادیث کی تجزیہ و تحقیق کرنا چاہئے کسی مناسب موقع پر اس موضوع پر تفصیلی بحث کریں گے تا کہ بہتر نتیجہ حاصل ہوسکے چونکہ جلسہ کا وقت ختم ہوچکا ہے لہذا اس زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے _

ڈاکٹر : احباب سے گزارش ہے کہ آئندہ ہفتہ جلسہ ہمارے گھر منعقد ہوگا _

۳۴۶

احادیث کی تحقیق و تجزیہ

ڈاکٹر : ہوشیار صاحب گزشتہ بحث ہی کو آگے بڑھایئے

ہوشیار: گزشتہ جلسہ میں ، میں نے مقدمہ کے عنوان سے ایک بحث شروع کی تھی اور چونکہ وہ کچھ طویل اور تھکا دینے والی تھی اس لئے معذرت خواہ ہوں اب ہم قیام و تحریک کی مخالف احادیث کی تحقیق کی بحث شروع کرتے ہیں _ سابقہ جلسہ میں ، ہم نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کی تھی کہ سیاسی و اجتماعی احکام اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں کہ جس کا تعلق دین کے متن سے ہے _ راہ خدا میں جہاد اسلام اور مسلمانوں سے دفاع ، ظلم و تعدی سے مبارزہ ، محروم و مستضعفین سے دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور کلی طور پر اقامہ دین مسلمانوں کے قطعی اور ضروری فرائض میں سے ہے لیکن ممکن ہے بعض اشخاص چند احادیث کو ثبوت میں پیش کرکے اس عظیم فریضہ سے سبک دوش ہونا چاہیں اور و ئوء بعض مذہبی مراسم کو انجام دے کر خوش ہولیں _ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم احادیث کی مکمل طور پر تحقیق و تجزیہ کرائیں _ مذکورہ احادیث کو کلی طور پر چند حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے _(۱)

____________________

۱_ ان احادیث کو وسائل الشیعہ ج ۱ ص ۳۵ تا ۴۱ اور بحار الانوار ج ۵۲ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے _

۳۴۷

جن روایات میں شیعوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم ہر اس قیام کرنے والے کی دعوت کو جو تمہیں مسلح ہو کر خروج کی دعوت دیتا ہے ، آنکھیں بند کرکے قبول نہ کرو بلکہ اس کی شخصیت اور اس کے مقصد کو پہنچا نو اور اس کی تحقیق کرو _ اگر اس میں قیادت کی شرائط مفقود ہوں یا باطل مقصد کیلئے اس نے قیام کیا ہو تو اس کی دعوت کو قبول نہ کرو اگر چہ وہ خاندان رسول ہی سے کیوں نہ ہو _ جیسے یہ حدیث ہے :

'' عیسی بن قاسم کہتے ہیں میں نے امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرما رہا تھے: تقوی اختیار کرو اور ہمیشہ اپنے نفسوں کی حفاظت کرو _ خدا کی قسم اگر کوئی شخص اپنی گوسفند چرانے کیلئے کسی چروا ہے کو منتخب کرتا ہے اور بعد میں اسے پہلے چروا ہے سے بہتر اور عاقل چرواہا مل جاتا ہے تو وہ پہلے کو معزول کردیتا ہے اور دوسرے سے کام لیتا ہے _ خدا کی قسم تمہارے پاس دو نفس ہوتے کہ پہلے سے تحقق تجربہ حاصل کرتے دوسرا تمہارے پاس باقی رہتا جو پہلے کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا تو کوئی حرج نہ تھا _ لیکن ایسا نہیں ہے ہر انسان کے پاس ایک ہی نفس ہے اگر وہ ہلاک ہوجائے تو پھر توبہ اور بازگشت کا امکان نہیں ہے _ اس بناپر تمہارے لئے ضروری ہے کہ اچھی طرح غور و فکر کرو اور بہترین راستہ اختیار کرو پس اگر رسو ل کے خاندان سے شخص تمہیں قیام و خروج کی دعوت دیتا ہے تو تم اس کی تحقیق کرو کہ اس نے کس چیز کیلئے قیام کیا ہے اور یہ نہ کہو کہ اس سے قبل زید بن علی نے بھی تو قیام کیا تھا کیونکہ زید دانشور اور سچے انسان تھے اور تمہیں اپنی امامت کی طرف نہیں بلا رہے تھے بلکہ اس انسان کی طرف دعوت دے رہے تھے جس سے اہل بیت (ع) خوش تھے _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوئے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے اور حکومت

۳۴۸

کو اس کہ اہل کے سپرد کردیتے _زید نے حکومت کے خلاف قیام کیا تا کہ اسے سرنگوں کرے _ لیکن جس ثخص نے اس زمانہ میں قیام کیا ہے وہ تمہیں کس چیز کی طرف بلا رہا ہے؟ کیا تمہیں اس آدمی کی طرف دعوت دیتا ہے جس پر اہل بیت کا اتفاق ہے ؟ نہیں ، ایسا نہیں ہے ، ہم تمہیں گواہ قرار دے کرکہتے ہیں کہ ہم اس قیام سے راضی نہیں ہیں _ اس کے ہاتھ میں ابھی حکومت نہیں آئی ہے اس کے باوجود وہ ہماری مخالفت کرتا ہے تو جب اس کے ہاتھ میں حکومت آجائے گی اور پرچم لہرادے گا تو اس وقت تو بدرجہ اولی وہ ہماری اطاعت نہیں کرے گا _ تم صرف اس شخص کی دعوت قبول کرو کہ جس کی قیادت پر سارے بنو فاطمہ کا اتفاق ہے وہی تمہارا امام و قائد ہے ، ماہ رجب میں تم خدا کی نصرت کی طرف بڑھو اور بہتر سمجھو تو شعبان تک تاخیر کرو اور اگر پسند ہو تو ماہ رمضان کا روزہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رکھو شاید یہ تمہارے لئے بہتر ہو _ اگر علامت چاہتے ہو تو سفیانی کا خروج تمہارے لئے کافی ہے _(۱)

اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں _

حدیث کا مفہوم

اس حدیث میں امام صادق (ع) یہ فرماتے ہیں : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہوانھیں عبث ہلاکت میں نہ ڈالو تم ہر قیام کرنے والے اور مدد طلب کرنے والے

____________________

۱_ وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۵ ، بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۰۱_

۳۴۹

کی آواز پر لبیک نہ کہو _ اگر دعوت دینے والا اپنی امامت و قیادت کا دعویدار ہے جبکہ امت کے درمیان اس سے زیادہ با علم و با صلاحیت شخص موجود ہے ، تو اس کی دعوت کو قبول نہ کرو _ جیسا ائمہ معصومین علیہم السلام کی حیات میں ایسا ہی ہوتا تھا _ خود قیام کرنے والے کی شخصیت اور اس کے مقصد کی تحقیق کرو _ اگر وہ لائق اعتماد نہ ہو یا اس کا مقصد صحیح نہ ہو تو اس کی دعوت قبول نہ کرو اور اس شخص _ بظاہر محمد بن عبد اللہ بن حسن _ کے قیام کا زید بن علی کے قیام سے موازنہ نہ کرو و اور یہ نہ کہو چونکہ زید نے قیام کیا تھا لہذا اس کا قیام بھی جائز ہے _ کیونکہ زید امامت کے دعویدار نہیں تھے اور نہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہے تھے _ بلکہ ان کا مقصد باطل حکومت کو سرنگوں کرکے اس کے اہل تک پہنچانا تھا یعنی جس شخص کے سلسلے میں آل محمد کا اتفاق ہے ، اس تک پہنچانا مقصد تھا _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورکرتے _ زید عالم اور سچے آدم تھے ، قیادت و قیام کی صلاحیت کے حامل تھے _ لیکن جس شخص نے آج قیام کیا ہے وہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے اور ابھی سے ہماری مخالفت کررہا ہے جبکہ حکومت اس کے ہاتھ میں نہیں آئی ہے اگر وہ اس انقلاب میں کامیاب ہوگیا تو بدرجہ اولی ہماری اطاعت نہیں کرے گا _ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں اس شخص نے قیام کیا جو اپنے کو منصب امامت کے لائق سمجھتا تھا اور اس منصب کو حاصل کرنے کیلئے لوگوں سے مددمانگتا تھا _ بظاہر یہ محمد بن عبداللہ بن حسن تھے کہ جنہوں نے مہدی موعود کے نام سے قیام کیا تھا _ ابوالفرج اصفہانی لکھتے ہیں کہ ، محمد کے اہل بیت انھیں مہدی کہتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی ہیں _(۱)

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ۱۵۷_

۳۵۰

اصفہانی ہی لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ کے مہدی موعود ہونے میں کسی کو شک نہیں تھا لوگوں میں یہ بات شہرت پاچکی تھی ، اسی لئے بنی ہاشم آل ابوطالب اور آل عباس میں سے بعض لوگوں نے ان کی بیعت کرلی تھی _(۱)

اصفہانی ہی لکھتے ہیں : محمد لوگوں سے کہتے تھے : تم مجھے مہدی موعود سمجھتے ہو اور حقیقت بھی یہی ہے _(۲)

محمد بن عبداللہ بن حسن نے امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں مہدی موعود کے عنوان سے قیام کیا تھا اور لوگوں کو اپنی طرف آنے کی دعوت دیتے تھے _ صرف اس موقع پر امام صادق (ع) نے عیسی بن قاسم اور تمام شیعوں سے فرمایا تھا کہ : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہو عبث ہلاکت میں نہ ڈالو اور اس شخص کے قیام کا زید کے قیام سے موازنہ نہ کرو _ کیونکہ زید امامت کے مدعی نہیں تھے بلکہ لوگوں کو اس شخص کی طرف بلا رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _

گزشتہ بیان سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ امام جعفر صادق (ع) نے بطور مطلق قیام سے منع نہیں فرمایا ہے بلکہ قیام کو دو حصوں تقسیم کیا ہے _ ایک باطل انقلابات و قیام ہے جیسے محمد بن عبداللہ بن حسن کا قیام ہے _ چنانچہ مسلمانوں کوایسے لوگوں کی دعوت قبول نہیں کرنا چاہئے اور اپنے نفوس کو ہلاکت سے بچانا چاہئے _ دوسرے صحیح انقلابا ت و قیام ہے جو موازین عقل و شرع کے مطابق ہوتے ہیں جیسے زید بن علی

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ۱۵۸

۲_ مقاتل الطالبین / ۱۶۳

۳۵۱

بن حسین (ع) کا قیام کہان کا مقصد بھی صحیح تھا اور ان میں قیادت کی شرائط بھی موجود تھیں _ امام صادق (ع) نے نہ صرف ایسے قیام کی نفی نہیں کی ہے بظاہر ان کی تائید کی ہے _ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو قیام زید کے قیام کے مانند ہو ائمہ معصومین اس کی تائید فرماتے ہیں _ زید کی شخصیت ، ان کے مقاصد اور ان کے قیام کے محرکات کے بیان و تحقیق کیلئے طویل بحث درکار ہے ، جس کی اس مختصر میں گنجائشے نہیں لیکن ایک سرسری جائزہ پیش کرتے ہیں _

۱_ انقلاب کے قائد یعنی زید عالم و متقی ، صادق اور قیادت کی صلاحیت کے حامل تھے ان سے متعلق امام صادق فرماتے ہیں : میرے چچا زید ہماری دنیا و آخرت کیلئے مفید تھے _ خدا کی قسم وہ راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں _ آپ کی مثال ان شہداء کی سی ہے جو رسول (ص) علی (ع) ، حسن اور امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہوئے تھے _(۱)

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے : کوفہ میںایک عظمت و جلال والا انسان قیام کرے گا جس کا نام زید ہوگا _ اولین و آخرین میں اس کی مثال نہیں ہے _ مگر یہ کہ کوئی اس کی سیرت و رفتار پر عمل پیرا ہوجائے _ زید اور ان کے اصحاب قیامت میں ایک صحیفہ کے ساتھ ظاہر ہوں گے _ فرشتے ان کے استقبال کو بڑھیں گے اور کہیں گے یہ بہترین باقی رہنے والے اور حق کی طرف دعوت دینے والے ہیں _ رسول خدا بھی ان کا استقبال کریں گے اور فرمائیں گے بیٹا تم نے اپنا فرض پورا کیا اور اب بغیر حساب کے جنت میں داخل _ ہوجاؤ(۲)

____________________

۱_ عیون الاخبار باب ۲۵_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۸۸_

۳۵۲

رسول خدا نے امام حسین (ع) سے فرمایا : تمہاری نسل سے ایک فرزند ہوگا کہ جس کا نام زید ہوگا وہ اور ان کے اصحاب قیامت میں حسین و سفید چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے اور جنّت میں داخل ہوں گے _(۱)

۲_ انقلاب میں زید کا مقصد صحیح تھا _ وہ امامت کے مدعی نہیں تھے بلکہ وہ طاغوت کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے اور اسے اس کے حق دار

کے سپرد کرنا چاہتے تھے یعنی اسے معصوم امام کے سپردکرنا چاہتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اور اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو اپنا وعدہ ضرور پورا کرتے ، امام صادق (ع) نے فرمایا ہے ، خدا میرے چچا زید پر رحم کرے اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے _ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دے رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے ، وہ میں ہوں _(۲)

یحی بن زید کہتے ہیں : خدا میرے والد پر رحم کرے _ خدا کی قسم وہ بہت بڑے عابد تھے ، وہ راتوں کو عبادت میں اور دنوں کو روزہ کی حالت میں گزارتے تھے _ انہوں نے راہ خدا میں جہاد کیا ہے _ راوی کہتا ہے : میں نے یحیی سے پوچھا : فرزند رسول (ص) امام کو ایسا ہی ہونا چاہئے؟ یحیی نے کہا : میرے والد امام نہیں تھے _ بلکہ وہ بعظمت سادات اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں میں سے ایک تھے _ راوی نے کہا : فرزند رسول (ص) آپ کے والد بزرگوار امامت کے مدعی تھے اور راہ خدا میں جہاد کے لئے انہوں نے قیام کیا تھا با وجودیکہ رسول (ص) سے امامت کے جھوٹے دعویدار ہونے کے بارے میں

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ص ۸۸

۲_ بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۹۹

۳۵۳

حدیث وارد ہوئی ہے _ یحیی نے جواب دیا : خدا کے بند ے ایسی بات نہ کہو ۰ بات میرے والد اس سے بلند تھے کہ وہ اس چیز کا دعوی کریں جوان کا حق نہیں ہے _ بلکہ میر ے والد لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کی طرف دعوت دیتا ہوں _ کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے اور ان کی مراد میرے چچا جعفر (ع) تھے _ راوی نے کہا پس جعفر بن محمد (ع) امام ہیں ؟

یحیی نے جی ہاں وہ بنی ہاشم کے فقیہ ترین فرد ہیں _(۱)

جناب زید بھی امام جعفر صادق (ع) کے علم و تقوے کے معترف تھے _ ایک جگہ قرماتے ہیں : جو جہاد کرنا چاہتا ہے وہ میرے ساتھ آجائے اور جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے میرے بھتیجے جعفر کی خدمت میں جانا چا ہئے _(۲)

زید کے اصحاب و سپاہی بھی حضرت صادق کی امامت و افضلت کے معترف تھے _ عمار سا با طی کہتے ہیں ; ایک شخص نے سلیمان بن خالد ، کہ جس نے زید کی فوج کے ہمراہ خروج کیا تھا _ سے پو چھا : زید کے بارے میں تمہار ا کیا عقیدہ ہے ؟ زید افضل ہیں یا جعفر بن محمد ؟ سلیمان نے جواب دیا ، خدا کی قسم جعفر بن محمد کی ایک دن کی زندگی زید کی تمام عمر سے زیادہ قیمتی ہے ، اس وقت اس نے سر کو جھٹکا اور زید کے پاس سے اٹھ گیا اور یہ واقعہ ان سے نقل کیا _ عمار کہتے ہیں : میں بھی زید کے پاس گیا اور را نحصیں یہ کہتے ہوئے سنا جعفر بن محمد ہما ر ے حلال و حرام مسائل کے امام ہیں _(۳)

____________________

۱ _ بحارالانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۹

۲_ بحارالانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۹

۳ _ بحار الانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۶

۳۵۴

زید کا انقلاب ایک جذ باتی اتفاقی اور منصو بہ سازی کے بغیر نہیں بر پا ہوا تھا بلکہ ہر طریقہ سے سو چا سمجھا تھا _ ان کے انقلاب کا محر ک امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور طا غوت کی حکومت سے مبارزہ تھا _ ان کا ارادہ تھا کہ مسلحانہ جنگ کے ذریعہ غاصبوں کی حکومت کو سرنگوں کردیں اور حکومت اس کے اہل ، یعنی اس شخص کے سپرد کردیں جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ اسی لئے بہت سے لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور جہاد کیلئے تیار ہوگئے ۰ ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں

: کوفہ سے پندرہ ہزار لوگوں نے زید کی بیعت کی تھی _ اس کے علاوہ مدائن ، بصرہ ، واسطہ ، موصل ، خراسان اور گرگان کے اہالی نے دعوت قبول کی تھی _(۱)

زید کا قیام اتنا ہی مستحسن اور ضروری تھا کہ بہت سے اہل سنّت کے فقہا نے بھی انکی دعوت کو قبول کیا اور آپ کی مدد کی _ یہاں تک کہ اہل سنت کے سب سے بڑ ے امام ابوحنیفہ نے بھی زید کی تائید کی _ فضل ابن زبیر کہتے ہیں : ابو حنیفہ نے مجھ سے کہا : زید کی آواز پر کتنے لوگوں نے لبیک کہا ہے ؟ سلیمہ بن کہیل ، یزید بن ابی زیاد، ہارون بن سعد ، ہاشم بن برید ، ابو ہاشم سریانی ، حجاج بن دینار اور چند دو سرے لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی ہے ابوحنیفہ نے مجھے کچھ پیسہ دیا اور کہا یہ پیسہ زیدکو دیدینا اور کہنا کہ اس پیسہ کا اسلحہ خرید یں اور مجاہد ین کے او پر خرچ کریں _ میں نے پیسہ لیا اور زید کی تحویل میں دیدیا _(۲)

____________________

۱ _ مقاتل الطالبین ص ۹۱

۲ _ مقاتل الطالبین ص ۹۹

۳۵۵

دلچسپ بات یہ ہے کہ زید نے اپنے انقلاب کے موضوع کو پہلے ہی امام صادق سے بیان کیا تھا اور امام نے فرمایا تھا : چچاجان اگر اس بات کوپسند کرتے ہیں کہ قتل کئے جائیں اور کوفہ کے کنا سہ میں آپ کے بدن کو دار پر چڑ ھا یا جا ئے تو اس راہ کو اختیار کریں ۱ _ با د جو دیکہ زید نے امام سے یہ خبر سن لی تھی لیکن آپ کو اپنے فریضہ کی انجام دہی کا اتنا زیادہ احساس تھا کہ شہادت کی خبر بھی انھیں اس عظیم اقدام سے بازنہ ر کھ سکی _ راہ خدا میں جہاد کیا اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے _

ان کے بارے میں امام رضا فرما تے ہیں : زید علما ئے آل محمد میں سے ایک تھے _ وہ خدا کے لئے غضبناک ہوئے اور دشمنان خدا سے جنگ کی یہاں تک کہ شہادت پائی _(۲)

امام جعفر صادق (ع) فرما تے ہیں :

خدا میرے چچا زید پر رحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دتیے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اگر کا میاب ہو جا تے تو ضرور اپناہ وعدہ وفا کرتے _(۳)

اب ہم اصل بحث کی طرف پلٹتے ہیں جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ عیسی بن قاسم کی روایت کو اسلامی تحریک اور انقلابات کی مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ اسے صحیح اسلامی تحریکوں مؤید قرار دیا جا سکتا ہے _ یہاں تک اس حدیث کے

____________________

۱_بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۲_ بحار الانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۳_ بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۳۵۶

ذریعہ دوسری ان احادیث کی توجیہ کی جاسکتی ہے جو ایسے انقلاب سے منع کرتی ہیں جنکے قائدہ ضروری شرائط مفقود ہوں یا اسباب ومقدمات کی فراہمی سے قبل انقلاب کا آغاز کرتے ہیں یا غلط مقصد کیلئے قیام کرتے ہیں لیکن صحیح اسلامی اور زید بن علی کے قیام کی مانند قیام سے نہ صرف منع نہیں کرتی ہے بلکہ ائمہ معصومیں نے اس کی تائید کی ہے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وسائل کے اسی بات کی گیار ہویں حدیث کو بھی انقلاب کی مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا _ وہ حدیث یہ ہے :

احمد بن یحیی المکتب عن محمد بن یحیی الصولی عن محمد بن زید انحوی عن ابن ابی عبدون عن ابیه عن الرضا علیه السلام (فی حدیث) انه قال للمامون : لا تقس اخی زیدا الی زید بن علی فانه کان من علماء آل محمد صلی الله علیه و آله _ غضب لله فجاهد اعدائیه حتی قتل فی سبیله و لقد حدثنی ابو موسی بن جعفر انه سمع اباه جعفر بن محمد یقول : رحم الله عمی زیدا انه دعا الی ال ضا من آل محمد و لو ظفر لو فی بماد عا الیه _ لقد استشار نی فی خروجه فقلت ان رضیت ان تکون المقتول المطوب بالکنا سه فشانک (الی ان قال) فقال الر ضا علیه السلام ان زید بن علی لم یدع ما لیس له بحق و انه کان تقی لله من ذالک _ انه قال : ادعوکم الی الر ضا من آل محمد _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

۳۵۷

امام رضا (ع) نے مامون سے فرمایا : میرے بھائی زید کا زید بن علی سے موازنہ نہ کرو _ زید بن علی علمائے آل محمد میں سے تھے _ وہ خدا کیلئے غضبناک ہوئے اور خدا کے دشمنوں سے لڑے یہاں تک راہ خدا میں شہادت پائی _ میرے والد موسی بن جعفر (ع) نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے سنا کہ انہوں نے فرمایا : خدا میرے چچا زید پررحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دیتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا _ اگر کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ وفا کرتے _ نیز فرماتے تھے : زید نے اپنے انقلاب کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا تھا میں نے اس سے کہا تھا : اگر قتل ہونے اور اپنے بدن کو کناسہ کوفہ میں دار پر چڑھائے جانے پر راضی ہیں تو اقدام کریں _ اس کے بعد امام رضا (ع) نے فرمایا: زید بن علی اس چیز کے مدعی نہ تھے جوان کا حق نہ تھا _ وہ اس سے کہیں بلند تھے کہ ناحق کسی چیز کا دعوی کریں بلکہ آپ لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ ''

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے رجال کی کتابوں میں اس کے راویوں کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اس لحاظسے اس کے مفہوم کو بھی قیام کے مخالف احادیث میں شما رنہیں کیا جا سکتا _ کیونکہ اس میں زید بن علی جیسے قیام کی تائید کی گئی لیکن زید بن موسی پر تنقید کی گئی ہے _ زید بن موسی نے بصرہ میں خروج کیا تھا اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتا اور لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دیتا تھا ، لوگوں کا مال زبردستی لوٹ لیتا تھا ، آخر کار اس کی فوج نے شکست کھائی خود بھی گرفتار ہوا ، مامون نے اسے معاف کردیا

۳۵۸

اور امام رضا (ع) کی خدمت میں بھیجدیا _ امام نے اسے آزاد کرنے کا حکم دیدیا لیکن یہ قسم کھائی کہ کبھی اس سے کلام نہیں کروں گا _(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: اس حدیث میں زید بن موسی کے قیام و انقلاب پر تنقید کی گئی ہے لیکن ہر قیام و تحریک سے ممانعت نہیں کی گئی ہے بلکہ زید بن علی جیسے قیام کی تائید کی گئی ہے _

دوسرا حصّہ

جن احادیث کی اس بات پردلالت ہے کہ جو انقلاب و قیام بھی امام مہدی کے انقلاب سے قبل رونما ہوجائے ، اسے کچل دیا جائے گا _

حدیث اول :

علی بن ابراهیم عن ابیه عن حماد بن عیسی عن ربعی رفعه عن علی بن الحسین علیه السلام قال: والله لا یخرج احد منّا قبل الخروج القائم ا لا کان مثله کمل فرخ طار من وکره قبل ان یستوی جناحاه فاخذه الصبیان فعبثوبه _(۲)

(مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام زین العابدین نے فرمایا: خدا کی قسم انقلاب مہدی سے قبل ہم میں سے جوبھی قیام کرے گا وہ اس پرندہ کی مانند ہے جو بال و پر نکلے سے پہلے

____________________

۱_ بحارالانوار ج۴۸ص۳۱۵

۳۵۹

ہی آشیانہ سے نکل پڑتا ہے جسے بچے پکڑلیتے ہیں اور کھلونا بنا لیتے ہیں'' _

مذکورہ حدیث کو اہل حدیث کی اصطلاح میں مرفوع کہتے ہیں _ اس میں چند راویوں کو حذف کردیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھے_ بہر حال یہ قابل قبول نہیں ہے _

حدیث دوم:

جابر عن ابی جعفر محمد بن علی علیه السلام قال: مثل خروج القائم منّا کخروج رسول الله صلی الله علیه و آل و مثل من خرج منّا اهل البیت قبل قیام القائم مثل فرخ طار من وکره فتلاعب به الصبیان _

(مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۳۴۸)

امام محمد باقر نے فرمایا: انقلاب مہدی ، رسول (ص) کے قیام کی مانند ہوگا اور ہم اہل بیت میں انقلاب مہدی سے قبل خروج کرنے والوں کی مثال پرندے کے اس بچہ کی سی ہے جو آشیانہ سے نکل کر بچوں کا کھلونہ بن جاتا ہے ''

حدیث سوم:

ابوالجارود قال سمعت ابا جعفر علیه السلام یقول : لیس منّا اهل البیت احدید فع ضبما ولا یدعوا ا لی حق الاّصرعته البلیة حتی تقوم عصابة شهدت بدراً ، لا یواری قتیلها و لا یداوی جریحها ، قلت ، من عنی ابوجعفر علیه السلام؟قال : الملائکة

(مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا : ہم اہل بیت میں سے جو بھی ظلم کو مٹائے اور احقاق حق

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455