آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181568 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدی (عج) میری اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کی بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کی غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی _(۱)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اس سے کسی قسم کے شک کی گنجائشے باقی نہیں رہتی _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہی شخص میں اپنے نام اور اپنی کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _(۲)

چنانچہ اسی ممانعت کی بناپر جب حضرت علی بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصی اجازت لی ہے _ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی حضرت علی (ع) کی بات کی تائید کی _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدی کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدی کی علامت

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۷۲_

۲_ الطبقات الکبری طبع لندن جلد ۱ ص ۶۷_

۱۰۱

بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسی بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدی ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدی ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میری کنیت رسول (ص) خدا کی کنیت ہے _(۱)

مہدی امام حسین (ع) کی اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدی کو حسن (ع) کی اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابی داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : علی (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کی نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _(۲)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطی کی وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہی حدیث اسی متن و سند کے ساتھ دوسری کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _(۳)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدی کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے

____________________

۱_ الطبقات الکبری ج ۵ ص ۶۶_

۲_ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۸_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۲۰۸_

۱۰۲

طور پر اہل سنّت کی کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طولانی بنادے گا کہ میری اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کی : اے اللہ کی رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کی پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے ''(۱)

ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدی ، کہ جن کی اقتداء میں جناب عیسی نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہوگا ''_(۲)

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کی خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _(۳)

____________________

۱_ ذخائر العقبی ص ۱۳۶_

۲_ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان باب ۹_

۳_ ینابیع المودة ج۱ ص ۱۴۵_

۱۰۳

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدی کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہی ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کی پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدی کو نسل حسن (ع) سے قراردیتی ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھی ہو تو پہلی حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہی امام زمانہ کے جد ہیں ۷ اس لئے امام محمد باقر کی مادر گرامی امام حسن کی بیٹی تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کی قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدی تمہارے ان ہی دونوں بیٹوں کی اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگی ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸۳_

۱۰۴

اگر مہدی مشہور ہوتے ؟

جلالی : اگر مہدی موعود کی شخصیت اتنی ہی مشہور ہوتی اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنی ہوتیں تو اصولی طور پر اشتباہ اور کج فہمی کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکی بعض اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی ، پس جعلی و جھوٹے مہدی جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدی کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابی حاصل کی ؟ اگر مسلمان مہدی کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسری علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسی کا ظم (ع) کو کیسے مہدی سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدی کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسی کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالی صفات ، توحید و عدالت کی حکومت کی تشکیل ، ظلم و ستم کی بیخ کنی ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کی اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدی کی حقیقی خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسی حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہی سے بیان کرتے تھے _

۱۰۵

رسول اسلام نے مہدی کی حقیقی علامتوں کو علی بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالی طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھی اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدی کی حقیقی و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کی بعض اولاد بھی اس کی تفصیل نہیں جانتی تھی _

اس اجمالی گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدی موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسی طریقہ سے انہوں نے مہدی کو نجات دی ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدی کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینی طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کی ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس ہر احتمالی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گری سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسی کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہی ہوتا ، اپنی کرسی کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے _ بنی امیہ اور بنی عباس کو مہدی کی علامتوں اور خصوصیات کی کامل اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے احتمالی خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو

۱۰۶

تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدی قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنی امیہ و بنی عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے اسی وقت سے وہ ہماری دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لی اور اس امید پر کہ وہ مہدی کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقی واقعات کی اطلاع ہی نہ ہونے دی ''_(۱)

ائمہ اطہار(ع) مہدی کی خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھی حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلی کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کی مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدی کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(۲)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت علی (ع) پاکیزہ

____________________

۱_ کمال الدین جلد ۲ ص ۲۳_

۲_ غیبت شیخ ص ۳۰۲_

۱۰۷

زندگی اور ان کی عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کی بشارتیں سنی تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھی ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامی معاشرہ کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنے ، ان کی امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہی مہدی موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدی موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمی سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسی وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدی کی حقیقی علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادی جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدی کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقی ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھی حاصل نہ ہوتا _ اسی اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے علی بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں

۱۰۸

ہوئی ہیں وہ تو پوری ہوتی ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں؟ علی بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہی ہے لیکن چونکہ آپ کی حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پوری ہورہی ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کی حکومت کا زمانہ ابھی نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کی حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگی تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کی حکومت کی تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _(۱)

____________________

۱_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۲۰۷_

۱۰۹

احادیث اہل بیت (ع) تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں

فہیمی :انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپ کی احادیث نے مہدی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کی قدر و قیمت نہیں ہے _

ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنی احادیث میں جو کہ قطعی ہیں اور شیعہ ، سنی دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمی مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:

رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :

'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان

۱۱۰

واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو''(۱)

اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبی اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکی روایت کی ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کی ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسی پر ان کے بارے میں تاکید کی _

ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ''(۲)

رسول (ص) کاارشاد ہے :

'' جو چاہتا میری زندگی جئے او رمیری موت مرے اورجنت میں درخت طوبی کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد

____________________

۱_ ذخائر العقبی طبع قاہرہ ص ۱۶ ، صواعق محرقہ ص ۱۴۷ ، فصول المہمہ ص ۲۲ _ البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۲۰۹_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص ۱۵۳و ۱۶۷ ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص ۲۳۲ ، تذکرة الخواص ص ۱۸۲

۲_ صواعق محرقہ ص ۱۵۰ و ص ۱۸۴_ تذکرة الخواص ص ۱۸۲ _ذخائر العقبی ص ۲۰ _ دررالسمطین ص ۲۳۵_

۱۱۱

علی کو اپنا ولی قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستی کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میری عترت ہیں ، میری ہی طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہی ہے ، انھیں ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ''(۱)

رسول خد ا نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

'' اے علی آپ اور آپ کی اولاد سے ہونے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا آپکی مثال ستاروں جیسی ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا _(۲)

جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

'' علی (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، علی ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہیں _ میری امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کی پیروی کرنے والے آتش جہنّم سے بری ہیں _ ان کی اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کی محبت خدا اسی کو نصیب کرتا ہے جو جنتی ہے ''(۳)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۱۵۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۲۴_

۳_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۵۴_

۱۱۲

حضرت علی بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:

'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کی حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا علی ہیں اور علی (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کی اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کی حجت ہیں _ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی معصیت و نافرمانی کی _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہی دیتے ہیں رسول خدا نے یہی فرمایا تھا ''_(۱)

اس قسم کی احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنی کتابیں بھری پڑی ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

____________________

۱_ جامع احادیث الشیع ج ۱ مقدمہ _

۱۱۳

الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقی رہے گا اسی طرح اہل بیت رسول بھی قیامت تک باقی رہیں گے _ ایسی احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _

ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_

ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنی اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کی ہے _

د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کی ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابی عطا کرتا ہے _ اسی طرح امام سے بھی راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتی ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _

علی(ع) علم نبی (ص) کا خزانہ ہیں

رسول (ص) کی احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کی کہ تمام صحابہ علم نبی (ص) کے برداشت کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھی سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہوگی تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت علی (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے

۱۱۴

مخصوص کیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :

''علی (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے''(۱)

پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کی تعلیم دوں تم بھی ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہاری مدد کرنا ضروری ہے ''(۲)

''حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا''(۴)

حضرت علی (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کی احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:

'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہی گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _(۵)

____________________

۱_ اعیان الشیعہ ج ۳ ص ۱۱_

۲_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۰۴_

۳_ اعیان الشیعہ ج ۳_

۴_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۷_

۵_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۳۶_ طبقات بن سعد ج ۲ ص ۱۰۱_

۱۱۵

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:

'' میری باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کی ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنی اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کی برکت سے بارش ہوتی ہے _ لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتی ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کی اولاد سے نو امام ہونگے ''(۱) _

کتاب علی(ع)

حضرت علی (ع) نے اپنی ذاتی صلاحیت ، توفیق الہی اور رسول خدا کی کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کی تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _

اہل بیت کی احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۷_

۱۱۶

ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے ''(۱) _

حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :

'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضی سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہی حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسی طرح ذخیرہ کی ہے جیسے لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں ''(۲) _

عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :

''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبی ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کا خط ہے ، لوگوں کی تمام علمی ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والی خراش بھی مرقوم ہے ''(۳)

علم نبوّت کے وارث

فہیمی صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کی احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسی طرح عترت رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کو بھی حجت سمجھئے بالفرض

____________________

۱_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۳_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱_

۱۱۷

اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کی اہمیت ایک معمولی راوی سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھی ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (۱)

ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :

'' میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین (ع) کی حدیث ہے ، حسین (ع) کی حدیث حسن (ع) کی حدیث ہے اور حسن (ع) کی حدیث امیر المؤمنین کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے ''(۲)

فہیمی صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقی اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کی احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کی حدیثوں کے برابر بھی نہیں ہیں ؟

پیغمبر اسلا م نے علی (ع) اور ان کی اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کی طرف لوگوں کی راہنمائی

____________________

۱_ روضة الصفا ج۳ ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۱۱۸

کی ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقی راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کی پسماندگی کا سبب ہوا _

جلالی : ابھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقی ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _

انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _

۱۱۹

کیا امام حسن عسکری (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کی رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالی صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن علی محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانی غیبت کے بعد لوگوں کی اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدی حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ، مہدی حضرت صادق کی چھٹی اولاد ہیں ، مہدی موسی کاظم (ع) کی پانچویں اولاد ہیں ، مہدی امام رضا (ع) کی چوتھی اولاد ہیں مہدی امام محمد تقی کی تیسری اولاد ہیں _

ب _ بہت سی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مہدی موعود گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

ہوئی ہے کہ جس سے آگے بڑھنا ممکن نہیں ہے؟

ڈاکٹر نفیسی : انسان کی زندگی کیلئے ایسی کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوز محال ہو لیکن نوع انسان کی طویل ترین عمر حسب معمول سو سال سے زیادہ ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ ان زمانوں سے بہت زیادہ مختلف نہیں سے جو مدون تاریخ میں وجود ہیں _ لیکن ، ممالک ، آب و ہوا ، نسل و میراث اور زندگی کی نوعیت کے لحاظ سے عمر کا اوسط مختلف ہے اور زمانہ میں متفاوت ہوتا ہے _ جیسا کہ آخری صدی میں عمر کے اوسط میں نمایان فرق آیا ہے _ مثلاً برطانیہ میں ۱۸۲۳ء مردوں کی عمر کا اوسط ۹۱/۲۹ اور عورتوں کی عمر کا اوسط ۸۵/ ۴۱ تھا لیکن ۱۹۳۷ ء میں مردوں کی عمر کا ۱۸/ ۶۰ اور عورتوں کی عمر کا اوسط ۴۰/۶۴ تھا _

۱۹۰۱ ء میں امریکہ میں مردوں کی عمر کا اوسط ۲۳/ ۴۸ اور عورتوں کا ۸۰/۵۱ سال تھا جبکہ ۱۹۴۴ ء میں مردوں کی عمر کے اوسط میں ۵۰/ ۶۳ اور عورتو ں کی عمر کے اوسط میں ۹۵/۶۸ تک اضافہ ہوا ہے _ یہ اضافہ بچوں کو شامل ہے اور یہ طبی حالت کی بہتر اور بیماریوں کی خصوصاً متعدی بیماریوں کے سد باب کا مرہون منت ہے لیکن بڑھاپے کی بیماریوں میں ، کہ جن کو استحالہ بھی کہتے ہیں ، جیسے شرایین کا سخت ہونے کے ، علاج و دو ا میںکوئی بہتری نہیں ہوتی ہے _

ہوشیار: کیا زندہ موجودات کی حیات کی تعیین کیلئے کوئی قاعدہ اور معیار ہے؟

ڈاکٹر نفیسی : عام خیال یہ ہے کہ بدن کے حجم اور مدت عمر کے درمیان ایک نسبت برقرار ہے _ مثلاً جلد ختم ہونے والی عمر ، پروانہ ، پشہ اور کچھولے کی زندگی قابل توجہ

۲۲۱

ہے لیکن یادرہے یہ نسبت ہمیشہ ثابت نہیں رہتی ہے کیونکہ طولا ، کوّا اور غاز اکثر اپنے سے بڑے پرندوں یہاں تک کہ اکثر دودھ پلانے والے جانوروں سے بھی زیادہ طویل زندگی گزارتے ہیں _

بعض مچھلیاں جیسے ''سالموں '' سوسال ، کریپ ایک سو پچاس اور پیک دو سو سال تک زندہ رہتی ہیں ان کے مقابلہ میں گھوڑے کو دیکھئے کہ تیس سال سے زیادہ زندہ نہیں رہتے ارسطو کے زمانہ میں لوگوں کا عقیدہ تھا کہ ہر موجود کی زندگی کی مدت کو اسی کے رشد و تمو کے زمانہ کی ضرب سے نکالا جا سکتا ہے _ اس ضرب کی شکل کو '' فرانسیس بیکن'' نے حیوانات میں چالیس گنا اور '' فلورنس'' نے پانچ گنا کو اس حیوان کے بلوغ کے لئے لازمی قرار دیا ہے _

''بوفن'' اور'' فلورانس'' نے انسان کی طبیعی عمر سو سال قرار دی ہے اور اب بھی عام خیال یہی ہے جبکہ داؤد پیغمبر نے عمر طبیعی ستّر سال قرارد دی ہے _

اس کے دوران بہت سے ایسی سن رسیدہ اور طویل العمر افراد کے بارے میں رپورٹ دی ہے کہ جن کی عمر سو سال سے زائد تھی اگر چہ عمر کی تعیین اور تخمینہ میں مبالغہ اور اغراق کا امکان ہے _

منجملہ ان معمرین کے ہانرے چنکنیز ۱۶۹ ، تماس پارس ، ۲۰۷ سال ، کاترین کنتس ڈسمونڈ ۱۴۰ سال کے تھے اس کے علاوہ بھی ایران اور دیگر ممالک کے اخباروں میںدوسرے افراد کے نام ملتے ہیں _

طول عمر کے اسباب

ہوشیار: طول عمر میں کونسے عوامل مؤثر ہیں؟

۲۲۲

ڈاکٹر: طول عمر کے عوامل درج ذیل ہیں

موروتی عامل: طول عمر میں موروثی عامل کی اہمیت واثر واضح ہے _ ایسے خاندان بھی پائے جاتے ہیں کہ جس کے افراد کی عمر کا اوسط عام طور پر زیادہ ہے مگر یہ کہ ان میں سے کوئی حادثاتی طور پر مرجائے _

اس سلسلے میں جو دلچسپ اور تحقیقی مطالعات ہوئے ہیں ان میں سے ایک '' ریمونڈ'' پیرل کا مطالعہ ہے _ اس نے اپنی بیٹی کے تعاون سے ایک کتاب تالیف کی اور اس میں ایک خاندان کی طویل العمری ، جس میں ایک فرد کی سات پشتوں ، دادا، پر دادا، نواسہ ، نواسہ کی اولاد اور موخر الذکر کی اولاد کی اولاد _ کی مجموعی عمر ۶۹۹ سا ل ہوتی ہے جبکہ اس خاندان کے دو اشخاص حادثہ میں مرگئے تھے _ بیمہ کمپنیوں کی تحقیق سے جو نئی شرح ''لوئی دوبلین'' اور ''ہربرٹ مارکس'' نے پیش کی میں انہوں نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ اسلاف کی درازی عمر اخلاف کی عمر پر اثر انداز ہوتی ہے _

ممکن ہے یہ عامل کبھی دیگر عوامل جیسے ماحول اور بری عادت و غیرہ کے اثر کو ختم کردے _ چنانچہ اس بناپر کہا جا سکتا ہے کہ نامسا عد حالات میں بعض افراد کی طور عمر کا یہی راز ہے _ مثلاً ممکن ہے ایک شخص الکحل پیتا ہے لیکن موروثی عامل کی بناپر طویل عمر پاتا ہے _

اولاد، ماں، باپ سے اعضاء سالم و طاقت ور قوامیراث میں پاتے ہیں جو کہ طول عمر میں موثر ہیں اور میراث ملنے والی درجہ اول کی چیزوں میں اعصاب کی مشنری اور خون کی گردش کا نام پیش کیا جا سکتا ہے _ انسان کی عمر اس کے شرائی کی رد سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے یعنی بعض لوگوں کی سرخ رگین بڑھاپے کی عمر سے پہلے ہی سخت

۲۲۳

ہوجاتی ہیں _ واضح ہے کہ اس سکتہ کی وجہ شرائین کی سختی اور ان چھلنی ہوجاتی ہے _

دوسرا عامل ما حول ہے : جس ماحول کی ہوا معتدل ، صاف ، حراثیم اور زہر سے پاک ، شور و ہنگامہ سے خالی ، سکون سے مالا مال اور سورج کی شعاعوں کا مر کز ہوگی اس کے باشند وں کی عمر وراز ہو گی _

تیسرا عامل ، شغل کی نوعیت اور کام کی مقدارہے _ کام میں جدو جہد خصوصا روحی و عصبی فعالیت درازی عمرمیں بہت موثر ہے ، جب بدن سالم اور ذہن آزاد ہوتو

بدن اور روح کوبے کاری سے جورنگ لگتا ہے وہ بدن وروح کی پر کاری کے نتیجہ کی فر سودگی سے زیادہ ہوتا ہے اور اس سے عمرمیں کمی واقع ہوتی ہے _ اسی لئے طویل عمر لوگوں کی ، وزیرا عظیم اور پادر یوں کی عمر معمولی افراد سے زیادہ ہے _ یہ عمر طویل ان کی سعی پیہم کا نتیجہ ہے اور اس بناپر یہ کہا جاسکتا ہے کہ جوانی کےعالم میں رٹائر ڈمنٹ لے لینے اور جلد بیکار بیٹھنے سے بہت سے خطرات پیدا ہوجاتے ، میں اور اس سے عمر کم ہوتی ہے _

چوتھا عامل : غذا کی کیفیت ہے _ غذا بھی مقدار اور نوعیت کے اعتبار سے درازی عمر پر گہر ا اثر چھوڑی ہے_ جن لوگوں کی عمر سو سال سے زیادہ ہوئی ہے ان میں سے اکثر کم خوراک تھے ، خشک خوراکی کیلئے بہت سی ضرب المثل کہی گئی میں ، مونتین کہتا ہے : انسان مرتا نہیں بلکہ خود کشی کرتا ہے _ دوسّری ضرب المثل کہتا ہے :

تم اپنے دانتوں سے اپنی قبر کھودتے ہو _ زیادہ کھا نے سے جہاں بدن کی مختلف مشنریوں کی فعالیت بڑ ھ جاتی ہے وہاں بہت سی بیماریاں جیسے شکر کی بیماری ، رگوں ، قلب اور

۲۲۴

پھیھپڑوں کی بیماری لاحق ہوجاتی ہے افسوس ہے کہ ایسے افرادکی بدنی طاقت بیماری کے ظاہر ہونے سے قبل بہت زیادہ ہوتی ہے اور وہ اس جھوٹی طاقت پر فنحر بھی کرتے ہیں پہلی جنگ عظیم کے دوران اس بات کا مشاہدہ کیا گیا کہ بعض ممالک میں شکرکے مرض میں مرنے والوں کی تعداد میں کافی کمی واقع ہوئی _ اس کی علت جنگ کے زمانہ میں غذا کی کمیابی کو سمجھنا چاہئے _ اس بناپر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ وہ فقر ابہت بڑا عطیہ ہے جو غذا کو معتدل اور اس میں کمی واقع کردے _ اور زیادہ گوشت کھانا ، خوصوصا چالیس سال کی عمر کے بعد بہت نقصاندہ ہے _

کورفل نیویارک یونیورسٹی میں ڈاکٹر mccay نے چوہوں پر ریسرچ کی ہے اس میں ا س بات کو ثابت کیا ہے کہ لاغر چوہے موٹے چوہو ں کو قبر میں پہنچاتے ہیں _ عام طور پر چوہے چار ماہ میں کامل و بالغ اور دو سال میں بوڑھے ہوجاتے ہیں اور تین سال سے پہلے مرجاتے ہیں _ ڈاکٹر mccay نے کچھ چوہے لئے اور انھیں کم کیلری والی غذا میں پالا لیکن ویٹامن اور معدنی مواد کے لحاظ سے یہ غذا قوی تھی _ اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ ان چوہوں کا رشد چار ماہ کے علاوہ ہزار دن تک جاری رہ سکتا ہے _ ان تجربوں میں اس نے مشاہدہ کیا کہ جن چوہوں نے معمولی غذا میں زندگی گزاری ہے وہ ۹۶۵ دن کے بعد مرے ہیں لیکن جن چوہوں کو کم کیلری والے غذا میں پالا تھا وہ اس کے بعد تک جو ان و زندہ رہے اگر ہم کم غذا کھانے والے چوہوں کا انسان سے موازن کریں تو انہوں نے نوع انسانی کی اس فرد کی ، جو کہ سو سے ایک سو پچاس سال تک زندہ رہتا ہے ، زندگی گزاری ہے _ اس کے: علاوہ یہ چوہے بہت کم بیمار ہوئے اور معمولی غذا میں زندہ رہنے والے چوہوں سے زیادہ چالاک تھے ایسے

۲۲۵

ہی تجربے کچھ مچھلیوں اور دیگر حیوانات پر RMPHIBIEN نے کئے ہیں اور اسی نتیجہ پر پہنچا ہے جیسا کہ پر خوری سے عمر کم ہوتی ہے اسی طرح غذا کی کمی بھی مرض کے پیدا ہونے اور عمر گھٹانے کے سلسلے میں گہر اثر رکھتی ہے یعنی اگر غذائی نظام میں ضروری مواد نہیں ہوگا تو امراض کو وجود میں لائے گی _

ضعیفی اور اس کے اسباب

ہوشیار: ضعیفی کیا ہے ؟

ڈاکٹر: جس وقت بدن کے اعضاء رئیسہ ، جیسے قلب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور داخلی غدود فرسودہ ہوکر اپنے فرائض کی انجام دی ، سے معذور ہوجاتے ہیں _ خون کے تصفیہ اور ضروری ترشحات سے عاجز ہوجاتے ہیں تو بدن پر ضعف و ناتوانی کے آثار ظاہر ہونے لگتے ہیں اور بڑھا پا آجاتا ہے _

ہوشیار: بڑھاپے کے بنیادی اسباب کیا ہیں؟

ڈاکٹر: بڑھاپے کی علامتیں عام طور پر کسی بھی شخص میں معین وقت پر ظاہر ہوتی ہیں _ لیکن یہ بھی مسلّم نہیں ہے کہ بڑھا پے کی اصل وجہ عمر کی یہی مقدار نہیں ہے کہ بدن کے اعضاء پر اتنی مدت گزرجائے تو بڑھاپا آجاتا ہے بلکہ ضعیفی کی بنیادی علت اختلال کی پیدائشے کو قرار دیا جا سکتا ہے اور یہ اختلال عام طور پر اسی عمر میں پیدا ہوتا ہے اس بنا پر ضعیفی کی علت مرور زمان نہیں ہے بلکہ اس کی اصل علت اختلال ہے جو کہ اسی عمر میں اعضاء بدن میں پیدا ہوتا ہے _ اور اسی عمر میں بدن کی مختلف مشنریوں کی فعالیت میں کمی واقع ہوتی ہے اور تشریح الاعضاء کے نقطہ نظر سے ان کی مختلف

۲۲۶

صنعتیں سکڑجاتی ہیں_ ان کی رگوں کی تعداد بھی کم ہوجاتی ہے ، نظام ہا ضمہ بیکار اور ضروری غذائیں فراہم کرنے سے عاجر ہوجاتا ہے اور نتیجہ میں پورے بدن پر ضعف طاری ہوجاتاہے ، طاقت تناسل کم اور مغز کی حرکت مدہم پڑجاتی ہے _ بعض اشخاص کا حافظہ خصوصاً اسماء کے سلسلہ میں بے کار ہوجاتا ہے ، نیز قوت ارادی متاثر ہوجاتی ہے _ لیکن یہ ممکن ہے کہ بدنی قوت کے کم ہونے سے روحانی طاقت میں اضافہ ہوجائے _ ممکن ہے تمام اعضاء بدن کی طرح داخلی مترشح غدود بھی چھوٹے اور ضروری ترشحات سے معذور ہوجائیں _ لیکن مذکورہ حوادث اور ناتوانیاں بدن میں واقع ہونے والے اختلال کی پیدا وارہیں _ پس یہ کہنا چاہئے کہ ضعیفی علت نہیں ہے بلکہ معلول ہے یہاںتک کہ اگر کوئی شخص ایسا پایا جائے کہ جس کے اعضاء بدن میں طویل عمر کے باوجود اختلال پیدا نہیں ہوا ہے تو وہ سالم و شاداب بدن کے ساتھ عرصہ دراز تک زندہ رہ سکتا ہے جیسا کہ ایسے افراد بھی مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ جو کم عمری کے باوجود طبیعی حالات کے تحت جلد فرسودہ ہوجاتے ہیں اور جلد ان پر برھاپا طاری ہوجاتا ہے _

ہوشیار: بدنی ضرورتوں کو منظم کرنے والی مشنریوں کی فرسودگی اور ناتوانی کا سرچشمہ کیا ہے؟

ڈاکٹر: پیدائشے کے وقت ہر شخص کے اعضاء بدن کام کرنے کی صلاحیت واستعداد سے مالامال ہوتے ہیں اور یہ خود والدین کے جسم ، غذا کی کیفیت ، ان کی زندگی کے ماحول اور آب و ہوا کی پیداوار ہوتے ہیں _ اس کے بعد یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب تک ان کے اعضاء میں کوئی اختلال پیدا نہ ہوگا تو وہ اپنی طبیعی استعداد کے اختتام تک اپنا کام جاری رکھیں گے اور انسان زندہ رہے گا _ لیکن جب تمام اعضاء یا

۲۲۷

ان میں سے ایک میں کوئی خلل پیدا ہوجائے گا تو وہ بے کار ہوجائے گا اور بدن کا کارخانہ نصف کام انجام دے گا اور ضعیفی کے آثار آشکار ہوجائیں گے _

مختصر یہ کہ انسان کا بدن مستقل مختلف اقسام کے دائر س ، بیکٹیریا ، جراثیم اور زہریلی چیزوں کی زدمیں رہتا ہے جو مختلف طریقوں سے اس پر حملہ آور ہوتے ہیں اور بدن کے اندر زیریلا مواد ترشح کرتے ہیں اور بے گناہ خلیوں کو نقصان پہنچاتے ہوئے ان گی زندگی کا خاتمہ کردیتے ہیں _

اس وقت انسان کے بدن پر اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے _ ایک طرف اسے غذائی ضرورت کو پورا کرتا ہے ، اور دوسری طرف متعدی بیماریوں اور ضرر رساں جراثیموں کو نابود کرنے کی کوشش کرتا ہے _ خراب اعضاء کو مدد دیتا ہے ، لیکن ابھی اس دشمن کے حملہ کو ناکام نہیں بنا پاتا کہ دوسرا دشمن حملہ آور ہوتا ہے _ اس لحاظ سے بدن کی داخلی طاقت کو ہمیشہ آمادہ _ اٹینشن _ اور جنگ کے لئے تیار ، رکھتا ہے _

انسان کا بدن مبارزہ کے وسائل اور رزق فراہم کرنے کے لئے مجبور ہے _ باہر سے وارد ہونے والی غذائی طاقت سے مدد حاصل کرتا ہے _ افسوس ہے کہ ہمیں وجودی تعمیر اور اپنی درونی احتیاجات کے بارے میں کافی معلومات نہیں ہیں _ اور اس مقدس جہاد میں صرف اس کی مدد ہی نہیں کرتے بلکہ جہالت و نادانی کی بناپر اس کے دشمن کی مدد کرتے ہیں اور مضر غذا کھاکر دشمن کے لئے راستہ کھولتے اور اپنے حیات کی جڑیں کاٹتے ہیں _ واضح ہے کہ جب اپنی ضرورت کی چیزوں کو باہر سے حاصل نہیں کیا جائے گا ، تو جراثیموں کے حملہ کے مقابلہ میں مقاومت نہیں کرسکیں گے اور اپنے فرائض کی انجام وہی ہے

۲۲۸

عاجز ہوجائیں گے ، سرزمین بدن کو دشمنوں کے حملہ سے بچانے کیلئے کوئی طاقت نہ ہوگی اور اس میں ضعف و ناتوانی کے آثار نمایاں ہوجائیں گے _

جیسا کہ کبھی بدن زیاد ہ محنت و مشقت کی وجہ سے ضعیف ہوجاتا ہے ، کبھی غیر معمولی حوادث کی وجہ سے طبیعی عمر سے پہلے ہی بلاء میں مبتلا ہوجاتا ہے اور اس پر بہت جلد بڑھاپا طاری ہوجاتا ہے _ بعض سائندانوں کا خیال ہے کہ بعض بیماریوں اور بری عادتوں سے انسان پر جلد بڑھا پا طاری ہوجاتا ہے _'' مچنیکوف'' کا نظریہ ہے ROTRTIK اور خشکی کے خمیر سے جو زہر یلے جراثم وجود میں آتے ہیں وہ بھی انسان کے ضعف و بڑھاپے کا باعث ہوتے ہیں اگر ان کو ختم کردیا جائے تو اس کی عمر میں اضافہ ہوجائے گا _

اس نظریہ کی بنیاد اس تجربہ پر استوار تھی چونکہ ، بالکان خصوصاً بلغارستان ترکی اور قفقاز میں سو سال سے زیادہ بوڑھوں کی تعداد اچھی خاصی ہے ، لہذا اس عمر درازی کی علت دھی کے استعمال کو قرار دیا ، اس کا نظریہ تھا کہ دھی میں چونکہ کھٹاس ہوتا ہے جو کہ ROTROTK کو ختم کردیتا ہے اور طول عمر میں معاون ہوتا ہے _ لیکن واضح ہے کہ ان کوہ نشین لوگوں کی طول عمر کا راز ان کی غذا ہی نہیں ہے بلکہ آب و ہوا ، پر سکون زندگی ، مستقل جد و جہد او رموروثی عوامل کم و بیش سب ہی اس میں دخیل ہیں _ ان مشاہدات کی نظیر ایران کے کوہ نشین انسانوں میں بھی موجود ہے _

ہوشیار: کیا موت اور کارخانہ بدن کے بیکار ونے کی اصل علت طول عمر اور اعضاء کے کام کی کثرت ہے کہ جس سے بڑھاپے میں موت یقینی ہے یا موت کی بنیادی علت کوئی اور چیز ہے ؟

ڈاکٹر: موت کی اصلی علت بدن کے تمام اعضاء رئیسہ یا ان میں سے

۲۲۹

ایک میں خلل کا پیدا ہونا ہے جب تک خلل پیدا نہیں ہوگا اس وقت تک موت واقع نہیں ہوگی _ یہ خلل اگر ضعیفی کے زمانہ سے قبل پیدا ہوجاتا ہے تو جوان انسان بھی مرجاتا ہے لیکن اگر حوادث کی گزند سے محفوظ رہے کہ عام طور پر ضعیفی کے زمانہ میں ان حوادث کا پیدا ہونا ضروری ہے _لیکن اگر کوئی ممتاز انسان پایا جائے جس نے طویل عمر پائی ہو تو اپنے جسم کی مخصوص ترکیب اور تمام شرائط کی موجود گی کی بناپر اس کے کسی بھی عضو میں خلل پیدا ہوا ہو تو طول عمر اس کی موت کا باعث نہ ہوگی _

ہوشیار : کیا مستقبل میں انسان ایسی دو کے انکشاف میں کامیاب ہو سکتا ہے کہ جس سے وہ اپنے بدن کی استعداد میں اضافہ کر سکے اور ضعیفی اور جسمانی خلل کو روک سکے ؟

ڈاکٹر: یہ ایسا موضوع ہے جو ممکن ہے اسے آج ناقص علم سے اور قیاس کی روسے غلط نہیں کہا جا سکتا _ اس سلسلے میں سائنسداں امید اور سنجیدگی کے ساتھ تحقیق میں مشغول تھے اور ہیں ، امید ہے کہ طو ل عمر کا راز جلد ہی کشف ہوجائے گا اور انسان ضعیفی اور کم عمرپر غلبہ پائے گا _

صاحب الامر کی طویل عمر

ہوشیار: جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ شیعہ ، مہدی موعود بن حسن عسکری کہ ، جو کہ ۲۵۵ یا ۲۵۶ ھ میں پیدا ہوئے تھے ، ابھی تک با حیات سمجھتے ہیں ، ان کا عقیدہ ہے کہ آپ غیبت کی زندگی بسرکررہے ہیں اور شائد اسی طرح سیکڑوں سال تک زندہ رہیں گے _ کیا علم حیات و طب ایسی غیر معمولی عمر کو محال قرار دیتا ہے ؟

ڈاکٹر : اس سلسلے میں ابھی تک میں نے جو کچھ کتابوں میں پڑھاہے اس سے

۲۳۰

معلوم ہوتا ہے کہ قائم آل محمد کی طول عمر کا راز کسی پر عیان نہیں ہوا ہے _ لیکن ایسا لگتا ہے کہ علوم کی جو ترقی ہوئی ہے اور ہورہی ہے اور خدا کی مدد سے یہ مشکل بہت جلد حل ہوجائیگی اور عقیدت مندوں کے اختیار میں پہنچ جائے گی _

سردست جو کچھ جانتا ہوں اسے بیان کرتا ہوں : آج کے ناقص علم اور قیاس کی بناپر اسے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا کیونکہ اصل امکان کے علاوہ ہمارے پاس غیر معمولی طول عمر کے چند نمونے موجود ہیں جن کے ثبوت میں کسی قسم کی شک و تردید نہیں ہے :

الف: نباتات کے درمیان ایسے طویل العمر درخت موجود ہیں جنھیں روئے زمین پر قدیم ترین موجودات کہا جاتا ہے ، منجملہ ان کے SEQUOIA ہے یہ کالیفورنیا میں موجود ہے _ ان میں سے بعض ۳۰۰ فٹ لمبے اور ۱۱۰ فٹ موٹے ہیں _ ان میں سے بعض کی عمر پانچ ہزار سال سے زیادہ ہے _ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ جب فرعون اول ، KHORFU نے مصر کے بڑے ہرم کی تعمیر شروع کی تھی اس وقت یہ درخت شاداب و جوان تھا اور حضرت عیسی کی ولادت کے وقت اس کی چھال کی ضخامت ۴۰/۳ سنٹی میٹر تھی _ مثلاً( sequeiagentea ) ، قسم کے ایک درخت کے تنے _ جو کہ ( s: kensington ، کنسنگٹن جنوبی کے میوزیم میں موجود ہے _ میں ۱۳۳۵ حلقے ہیں یعنی اس کی عمر اتنے ہی سال(۱)

سن رسیدہ ترین زندہ موجود جو کہ آج بھی زندہ ہے جس کی عمر تقریباً ۴۳۰۰ سال ہے وہ ایک قسم کی کاجی ہے جس کا نام ( pinus aristata ) ہے اور یہ کالیفورنیا کے مشرقی مرکز میں موجود ہے _ حیوانات میں سب سے زیادہ طویل العمر ایک قسم کا زندہ کچھواہے جو کہ گالاگوش جزیرہ میں موجودہے _ اس کی عمر ایک سو ستّر (۱۷۰) سال

____________________

۱_ دائرة المعارف بریٹانیائی ج ۱۴ ص ۳۷۶_

۲۳۱

ہے _ وزن تقریباً ۴۵۰ پونڈ ہے اور طول چار فٹ ہے _(۱)

ب: قدیم مصر میں کھدائی ہوئی تو مصر کے جوان مرگ فرعون کے مقبرہ میں گیہوں نکلے ، میں نے خود مذکورہ مقبرہ میںوہ گیہوں دیکھے ہیں اور اخباروں میں پڑھاہے کہ بعض علاقوں میں انھیں بویا گیا تو وہ کامل طور پر سر سبز و شاداب ہوئے اور فصل دی _ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے گندم کا حیاتی نقطہ تقریباً تین یا چار ہزار سال تک زندہ رہا ہے _

ج: متعدی بیماری کے جراثیم کو قدیم ترین زندہ موجود قرار دیا جا سکتا ہے _ یہ ایسے زندہ موجودات ہیں کہ ممکن ہے جن کی زندگی کا مطالعہ حیات کے راز کو آشکار کردے _ ان ہی سے بعض نباتی ، حیوانی اور انسانی بیماریاں جیسے زکام انفلوانزا، خصرہ ، چیچک، پیدا ہوتی ہیں _ آثار قدیمہ کے ماہروں نے ان جراثیم کا وجود ما قبل تاریخ بتایا ہے _ یعنی یہ موجودات ایک لاکھ سال کے بعد بھی زندہ ہیں ، اور ان کی زندگی کے آثار ختم نہیں ہوئے ہیں _ اگر چہ اس دوران انہوں نے خفتہ و نہفتہ زندگی بسر کی ہے اور اس وقت بظاہر مردہ موجودات سے مختلف نہیں تھے _(۲)

د: چند سال قبل میں نے اخباروں میں پڑھا تھا کہ '' سائبیریا'' کے نواح کے کھدائی میں اکی بڑا جانور نکلا ہے جو کہ برف کی وجہ سے منجمد تھا _ چنانچہ جب اسے سورج کی دھوپ میں رکھا گیا تو اس میں زندگی کے آثار نمایان ہوگئے _

ھ: جن طریقوں سے ایک زندہ موجود کی عمر کو طولانی بنایا جا سکتا ہے اور اسے نیم جاں

____________________

۱_ دائرة المعارف امریکائی ج ۱۷ ص ۴۶۳

۲_ روزنامہ اطلاعات

۲۳۲

کرکے قابل مطالعہ قرار دیا جا سکتا ہے _ ان میں سے ایک ہایبرنیشن _ سردی کی نیند ہے یہ نیند بعض حیوانات پر سردی بصر طاری رہتی ہے اور بعض پرگرمی کے موسم میں طاری رہتی ہے _ جب حیوانات پر یہ نیند طاری ہوجاتی ہے تو اس وقت ان کی غذا کی احتیاج ختم ہوجاتی ہے اور بدن کی ما یحتاج چیزوں میں ۳۰ سے سوتک کمی واقع ہوتی ہے اس کی حرارت کو منظم رکھنے والی مشنری وقتی طور پر بند ہوجاتی ہے اور فضا کی حرارت کم ہوجانے سے اس کی کھال اور بال ٹھٹھر کر سخت نہیں بن جاتے ، اس کے بدن پر لرزہ طاری نہیں ہوتا ، بلکہ اس کے بدن کی حرارت فضا و ماحول کی مانند ہوجاتی ہے کہ ممکن ہے درجہ حرارت نقطہ انجماد ہے ۳۹_ ۴۱ f سے بھی اوپر پہنچ جائے کہ جس سے سانس کی رفتار کم اور نامنظم ہوجاتی ہے اور حرکت قلب کبھی کبھی ہوتی ہے _ (زمین کے سنجاب کے دل کی حرکت فی منٹ ۷ سے ۱۰ ہوتی ہے جبکہ عام طور پر فی منٹ تین سو مرتبہ ہونی چاہئے ) اعصاب کے مختلف رفلکس رک جاتے ہیں اور ۵۲ سے ۶۶ فارن ہائٹ درجہ حرارت سے نیچے مغز کی برقی امواج کا مشاہدہ نہیں ہوتا ہے _

بعض حیوانات عرصہ دراز تک غیر معمولی سردسیال چیزوں میں زندہ رہ سکتے ہیں _ چنانچہ ناروے کے علاقوں میں مچھلیاں اسی طرح زندہ رہتی ہیں _ بہت سے زندہ خلئے جیسے انسان اور حیوان کے نطفہ کو پیوند کے لئے اور خون کے r.b.c کو ٹرانسفوجن کے لئے انجماد کی صورت میں محفوظ رکھا جا سکتا ہے _ اسی طرح بہت سے چھوٹے چھوٹے جانداروں کو باربار برف میں منجمد اور گرم کیا جا سکتا ہے جبکہ اس سے ان کے بدن کو کوئی آنچ نہیں آتی _

۲۳۳

سردی کی نیند اس لحاظ سے قابل توجہ ہے کہ شاید اس کے ذریعہ طول عمر کا راز منکشف ہوجائے اور انسان کو طول عمر نصیب ہوجائے _

طویل العمر درختوں کا مطالعہ ، نباتات کے نطفہ حیاتی کاکئی ہزار سال تک زندہ رہتا ، متعدی بیماری کے جراثیم کی زندگی سردی ، گرمی کی حیرت انگیز نیند نے اور علم طب و علم حیات کی محیر العقول ترقی و غیرہ نے عمر طویل بنانے اور ضعیفی پر غلبہ پانے کے سلسلے میں انسان کی امید بندھائی ہے اور اسے تحقیق و کوشش پر ابھارا ہے امید ہے کہ دانشور بشریت کے اس مقدس آرزو میں کامیاب ہوں گے اور نتیجہ میں قائم آل محمد کی طول عمر کے راز کو آشکار کریں گے _

اس دن کی آمد کی امید کے ساتھ

ڈاکٹر ابو تراب نفیسی

پروفیسر ہیڈ آف دی ڈیپارٹمنٹ میڈیکل کالج اصفہان

ہوشیار: اس مدت کے دوران ایک دلچسپ مقالہ میری نظروں سے گزراہے جس کا ایک فرانسیسی مجلہ سے ترجمہ کیاگیا ہے _ چونکہ ہماری بحث سے مربوط ہے اس لئے میں نے اس کے متن کو لکھ لیا تھا _ اگر احباب کی اجازت ہو تو پڑھ لوں ،

وستین گلاس کا مقالہ

علم الحیات کے ماہروں نے زندہ موجودات کی عمر چند گھنٹوں سے لے کر سیکڑوں سال تک بتائی ہے _ بعض حشرات الارض کی عمر ایک دن اور بعض کی ایک سال ہوتی ہے لیکن ہر نوع میں بعض افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں کہ جن کی عمر اپنے ہم جنس کی طبیعی عمر کے

۲۳۴

دو تین گناہوتی ہے _ جرمنی میں ایک سرخ پھول کا درخت ہے کہ جس کی عمر اس کے ہم جنس درختوں سے سیکڑوں سال زیادہ ہے _ میکسکو میں سرد کا ایک درخت ہے کہ جس کی عمر ۲۰۰۰ سال ہے _ بعض ایسے نہنگ پائے گئے ہیں جن کی عمر ۱۷۰۰ سال ہے _

سولھویں صدی میں لندن میں تماس پار نام کا ایک شخص تھا جس کی عمر ۲۰۷ سال تھی _ آجی بھی ایران کے شمالی علاقہ میں ایک شخص سید علی نام کا ہے کہ جس کی عمر ۱۹۰ سال اور اس کے بیٹے کی عمر ۱۲۰ سال ہے _ روس میں لوئی یوف پواک نامی شخص کی عمر ۱۳۰ سال ہے _ میکو خوپولوف قفقازی کی عمر ۱۴۰ سال ہے _

علم الحیات کے ماہروں کا خیال ہے کہ یہ غیر معمولی عمریں کسی ایے درونی عامل سے مربوط ہیں جو کہ کسی شخص کی عمر کو حد سے زیادہ بڑھانے کا باعث ہوا ہے _

علم الحیات کے ماہروں کے نظریہ کے مطابق ہر نوع کے زندہ موجود کی عمر طبیعی کو اس فرد کی نوع کے سات یا ۱۴ گنا ہونا چاہئے اور چونکہ انسان کے رشد کی عمر پچیس سال ہے اس لحاظ سے انسان کی عمر ۲۸۰ سال ہونا چاہئے _

مناسب و موزوں غذاؤںکے استعمال سے بھی عمر طبیعی کے قاعدہ کو باطل کیا جا سکتا ہے _ اس کی مثال شہد کی مکھیاں ہیں _ عام طور پر ان کی عمر چار پانچ ماہ ہوتی ہے _ جبکہ ان کی ملکہ کی عمر ۸ سال ہوتی ہے در آن حالیکہ وہ بھی تخم و تولید میں ان ہی کی مانند ہے لیکن و ہ شاہا نہ غذا میوہ کھاتی ہے _

البتہ انسان کے بارے میں ایسا نہیں ہے_ ہم شہد کی مکھیوں کی ملکہ کی طرح مخصوص جگہ زندگی نہیں گزار سکتے کہ جہاں گرمی بھی قابو میں ہو ، غذا محدود اور مخصوص قسم کی ہوا اور سیکڑوں محافظ و نگہبان ہوں _ ہمارے سامنے بہت سے خطرات ہیں _ علم الحیات

۲۳۵

کے ماہروں کے نقطہ نظر سے بعض یہ ہیں : خود بخود پیدا ہونے والا زہر ، وٹامن کی کمی اور شرایین کا سخت ہوجانا _ لیکن لندن کا ایک اسپیشلسٹ کہتا ہے : فولاد ، میگنشیم اور بدن کے پوٹاسیم ذخیرہ میں تعادل کے بگڑجانے سے جب ایک دوسرے پر غالب آجاتا ہے تو موت واقع ہوجاتی ہے _ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ تمام خطرات کے درمیان ، خصوصاً ضعیفی کا نام نہیں ہے _ موت کی علت بڑھاپا نہیں ہے _

ڈاکٹر سوئڈی ( امریکہ کی دراز عمر علمی انجمن کے صدر) کا نظریہ ہے کہ بڑھاپا طاری ہونے کی وجہ یہ ہے کہ : '' پروٹین کے مالکولی بدن کے خلیوں میں گرہ لگاتے ہیں اور آہستہ آہستہ انھیں ان کے کام سے روکتے اور موت کا باعث ہوتے ہیں _ اسی ڈاکٹر نے تحقیق و تلاش کے دوران ایک مادہ کشف کیا ہے جو اس گرہ کو کھولتا اور بدن کی مشنری ک از سر نو حرکت میں لاتا ہے _ اس ترتیب سے بڑھا پے کے زمانہ کو ختم کرتا ہے _ لیبارٹریوں میں محققین اس تجربہ میں کامیاب ہوئے ہیں کہ بعض تجرباتی حیوانات جیسے ہندوستان کے خوک کی مدت عمر کو ، اس کی خوراک میں وٹامن '' b '' نو کلیک اسیڈ اور پانتونکسیک اسیڈ ۴/۴۶ فیصد بڑھانے سے بڑھایا جا سکتا ہے _

''فیلاتف'' روس کے حیات شناس نے توقع ظاہری کی ہے کہ ضعیفی کے زمانہ کو غلط پیوند کاری کے ذریعہ ختم کیا جا سکتا ہے اس اجزاء ترکیبی فاسد میں کتنی عجیب طاقت ہے کہ کھاد کی مانند ہمارے بدن کے مزرعہ کو زر خیز بناتا ہے _ اس کے علاوہ کچھ ایسے اصول بھی ہیں کہ جن کی رعایت سے عمر بڑھتی ہے یہ اصول عبارت ہیں غذائی دستورات اور بیوکمسٹری ، سانس لینے کے قواعد ، استرخا کے طریقے ، غذا کے بعض ماہروں کا خیال ہے کہ صرف طبی اصول کے مطابق غذا کے ذریعہ سو سال سے زیادہ زندہ رہ جا سکتا

۲۳۶

ہے ہم جو کچھ کھاتے ہیں اسی کے بنے ہوئے ہیں _

طول عمر سے متعلق تحقیقات

میں نے ایک عربی مجلہ میں ، ایک مقالہ پڑھاہے چونکہ ہماری بحث سے مربوط ہے _ اس لئے آپ کی خدمت میں اس کا ترجمہ پیش کرتاہوں _

قابل اعتماد سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ حیوان کے بدن کے اعضاء رئیسہ میں سے ہر ایک میں لا محدود مدت تک زندہ رہنے کی صلاحیت موجود ہے _ اگر انسان کے سامنے ایسے عوارض و حوادث پیش نہ آئیں جو کہ اس کی حیا ت کا سلسلہ منقطع کردیں تو وہ ہزاروں سال تک زندہ رہ سکتا ہے _ ان سائنس دانوں کا قول کوئی خیال و تخمینہ نہیں ہے بلکہ ان کے تجربوں کا نتیجہ ہے _

ایک جرّاح ایک جاندار کے کٹے ہوئے جز کو اس حیوان کی معمولی زندگی سے زیادہ دنوں تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوگیا ہے اور اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کٹے ہوئے جز کی حیات کا دارومدار اس کے لئے فراہم کی جانے والی غذا سے پر ہے جب تک اسے کافی غذا ملتی رہے گی اس وقت وہ زندہ رہے گا _

اس جراح کا نام ڈاکٹر '' الکسیس کارل'' تھا جو کہ راکفلر کے علمی ادارہ نیویارک میں ملازم تھا _ یہ تجربہ اس نے ایک چوزہ کے کٹّے ہوئے جز پر کیا تھا ، یہ مقطوع جز آٹھ سال سے زائد زندہ رہا اور رشد کرتا رہا _ موصوف اور دیگرا افراد نے یہی تجربہ انسان کے مقطوع اجزاء جیسے عضلات قلب اور پھپڑے پر بھی کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے تھے کہ جب تک اجزاء کو ضروری غذا ملتی رہے گی اس وقت تک وہ اپنی حیات و نمو کا

۲۳۷

سلسلہ جاری رکھیں گے _ یہاں تک کو جونس ہبکس یونیورسٹی کے پروفیسر ''ریمونڈ'' اور ''برل'' کہتے ہیں انسان کے جسم کے اعضاء رئیسہ میں دائمی قابلیت و استعداد موجود ہے _ یہ بات تجربات سے ثابت ہوچکی ہے کم از کم احتمال کو ترجیح ہے کیونکہ اجزاء کی حیات کے سلسلہ میں ابھی تک تجربات ہورہے ہیں _ مذکورہ نظریہ نہایت ہی واضح اور اہم اور علمی غور و فکر کے بعد صادر ہوا ہے _

جسم حیوان کے اجزاء پر بظاہر مذکورہ تجربہ سب سے پہلے ڈاکٹر ''جاک لوب'' نے کہا تھا وہ بھی علمی ادارہ راکفلر میں ملازم تھا ، جس وقت وہ مینڈک کو تلقیح نہ شدہ تخم سے پیدا کرنے والے موضوع پر تحقیق میں مشغول تھا اس وقت اچانک اس بات کی طرف متوجہ ہوا کہ بعض انڈوں کو مدت دراز تک زندہ رکھا جا سکتا ہے اس کے برعکس بہت سے کم عمر میں مرجاتے ہیں _ یہ قضیہ باعث ہوا کہ وہ مینڈک کے جسم کے اجزاء پر تجربہ کرے چنانچہ اس تجربہ میں انھیں مدت دراز تک زندہ رکھنے میں کامیاب ہوا _ اس کے بعد ڈاکٹر ''ورن لویس'' نے اپنی زوجہ کے تعاون سے یہ ثابت کیا کہ : پرندے کے جنین کے اجزاء کو نمکین پانی میں زندہ رکھا جا سکتا ہے ، اس طرح کہ جب بھی اس میں آبی مواد کا ضمیمہ کیا جائے گا اسی وقت ان کے رشد و نمو کی تجدید ہوگی _ ایسے تجربہ مسلسل ہوتے رہے اور اس بات کو ثابت کرتے رہے کہ حیوان کے زندہ خلیے ایسی سیال چیز میں اپنی حیات کے سلسلہ کو جاری رکھ سکتے ہیں کہ جس میں ضروری غذائی مواد موجود ہوتا ہے _ لیکن اسی وقت تک ان کے پاس ایسی کوئی نہیں تھی جس سے وہ موت کی نفی کرتے _

ڈاکٹر کارل نے اپنے پے درپے تجربوں سے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ اجزاء ضعیف نہیں ہوتے جن پر تجربہ کیا جاتا ہے اور پھر جو انوں کی زندگی بھی طویل ہوتی ہے _

۲۳۸

اس نے جنوری ۱۹۱۲ ء میں اپنے کام آغاز کیا ، اس سلسلے میں مشکلات پیش آئے ، لیکن اس اور اس کے عملہ نے ان پر غلبہ پالیا اور درج ذیل موضوعات کا انکشاف کیا _

الف: جب تک تجربہ کئے جانے والے زندہ خلیوں پر کوئی ایسا عارضہ نہ ہو جو ان کی موت کا باعث ہو ، جیسے جراثیم کا داخل ہونا یا غذائی مواد کا کم ہونا ، تو وہ زندہ رہیں گے _

ب : مذکورہ اجزاء صرف حیات ہی نہیں رکھتے بلکہ ان میں رشد و کثرت بھی پائی جاتی ہے _ بالکل ایسے ہی جیسے یہ اس وقت رشد و کثرت اختیار کرتے جب حیوان کے بدن کا جز ہوتے _

ج: ان کے نمو اور تکاثر کا ان کے لئے فراہم کی جانے والی غذا سے موازنہ کیا جاسکتا ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے _

د: ان پرمرور زمان کا اثر نہیں ہوتا ہے ، ضعیف و بوڑھے نہیں ہوتے بلکہ ان میں ضعیفی کا معمولی اثر بھی مشاہدہ نہیں کیا جاتا _ وہ ہر سال ٹھیک گزشتہ سال کی نمو پاتے اور بڑھتے ہیں _ ان موضوعات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب تجربہ کرنے والے ان اجزاء کی دیکھ بھال کریں گے ، انھیں ضروری و کافی غذا دیں گے اس وقت وہ اپنی حیات اور رشد کو جاری رکھیں گے _

یہاں سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ بڑھاپا علت نہیں ہے بلکہ معلول و نتیجہ ہے _ پھر انسان کیوں مرتا ہے ؟ اس کی حیات کی مدت محدود کیوں ہے ، معدود افراد کی عمر ہی سو سال سے آگے کیوں بڑھتی ہے اور عام طور پر اس کی عمر ستّر یا اسی سال ہوتی ہے؟ ان سوالوں کا جواب یہ ہے کہ حیوان کے جسم کے اعضائ

۲۳۹

زیادہ اور مختلف ہیں اوران کے در میان کمال کا ارتباط و اتصال ہے _ ان میں سے بعض کی حیات دوسرے کی زندگی پر موقوف ہے _ اگر ان میں سے کوئی کسی وجہ سے نا تواں ہو جائے اور مرجائے تو اس کی موت کی وجہ سے دوسرے اعضاء کی بھی موت آجاتی ہے ، اس کے ثبوت کے لئے وہ موت کافی ہے جو کہ جراثیم کے حملہ سے اچانک واقع ہوجاتی ہے ، یہی چیز اس بات کا سبب ہوئی کہ عمر کا اوسط ستر ، اسی سال سے بھی کم قرار پائے بہت سے بچپنے ہی مرجا تے ہیں _

یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ستر ، اسی سویا اس سے زیادہ سال کی عمر ، موت کی علت نہیں ہے بلکہ اس کی اصلی علت : اعضا ہیں سے کسی ایک پر عوارض ، امراض کا حملہ کر کے اسے بیکار بنانا ہے چنانچہ اعضاء کی موت واقع ہو جاتی ہے _پس جب علم عوارض کا علاج تلاش کرنے یا ان کے اثر کو بیکار بنا نے میں کا میاب ہوجائے گا تو پھر سیکڑوں سالہ زندگی کے لئے کوئی چیز مانع ہوگی _ جیسا کہ بعض درختوں کی بہت طولانی عمر ہے ، لیکن اس بات کی توقع نہیں ہے کہ علم طب و حفظان صحت اتنی جلد اس عالی مقصد تک پہنچ جائیں گے _ لیکن اس مقصد سے نزدیک ہونے اور موجود عمر کی بہ نسبت دویا تیں گنا عمر تک پہنچنا بعید نہیں ہے _ ۱_

پھر طول عمر

بر طانیہ کے ایک ڈاکٹر نے اپنے تفصیلی مقالہ کے ضمن میں لکھا ہے : بعض

____________________

۱ _ المہدی تالیف آیت اللہ صدر منقول از مجلہ ء المقتطف شمارہ ۳

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455