آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181885 / ڈاؤنلوڈ: 5476
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

سائنسداں میوہ جات کے کیٹروں کی عمرکو اس نوع کے دیگر کیٹروں کی طبیعی عمر سے نو سو گنا بنا نے میں کا میاب ہوگئے ہیں _ یہ کا میابی انھیں اس لئے میسر آئی ہے کے انہوں نے اس جاندار کو ز ہر اور دشمنوں سے محفوظ رکھا اور اس کے لئے مناسب ما حول فراہم کیا تھا(۱)

انجینئر : میں نے بھی اپنے مطالعات کے در میان چند علمی اور دلچسپ مقا لے دیکھے ہیں کہ جن میں سائنسد انوں نے طول عمر کے راز ، ضعیفی و موت کے علل اور ان سے مبارزہ کے متعلق بحث کی ہے _ لیکن وقت ختم ہوگیا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ان کا تجزیہ آیندہ جلسہ پر موقوف کیا جائے _

ہفتہ کی شب میں جناب فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا ، ہوشیار صاحب نے انجینئر صاحب سے خواہش کی کہ اپنے مطالب بیان کریں _

انجینئر : بہتر ہے کہ ان مقالات کامتن ہی آپ حضرات کے سامنے پیش کروں شاید مشکل حل ہو سکے _

طول عمر کے بارے میں

موت کے کارشناس و ماہر پروفسیر متالینکف لکتھے ہیں : انسان کا بدن تیس ٹر یلین مختلف خلیوں سے تشکیل پایا ہے وہ سب یکبار گی نہیں مر سکتے_ اس بنا پر موت موت اس وقت مسلّم ہوگی جب انسان کے مغز میں ایسے کیمیائی تغیرات واقع

____________________

۱ _ منتخب الاثر ص ۲۷۸ منقول از مجلہ الھلال _

۲۴۱

ہوجائیں کہ جن کی مرمت ممکن نہ ہو ۳۰ اگست ۱۹۵۹ء کو ڈاکٹر ہانس سیلی نے کنیڈا کے شہر مونٹرال میں اخباری نمائندوں کو ایک خلیئےی ساخت و بافت دکھائی اور بتا یا کہ یہ زندہ خلیہ حرکت میں ہے اور ہر گز نہیں مرے گا _ موصوف نے مزید دعوی کیا کہ یہ خلیہ ازلی ہے اور کہا : اگر انسان کے بافت خلیہ بھی اسی شکل میں لے آئیں تو انسان ایک ہزار سال تک زندہ رہے گا _

پر وفیسر سیلی کا خیال ہے کہ موت تھیوری کے نقطہ نگاہ سے ایک تدریجی بیماری ہے _موصوف ہی کا نظریہ ہے کہ کوئی شخص بڑھا پے کی وجہ سے نہیں مرتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص ضعیفی کی وجہ سے مرے تو اس کے بدن کے خلیوں کو فرسودہ اور بیکار ہوجانا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ بہت سے بوڑھوں کے مختلف اعضاء اور ان کے بدن کے خلئے سالم رہتے ہیں ان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا _ بعض لوگوں کا انتقال اس لئے اچانک ہوجاتا ہے کہ یک بیک ان کے بدن کا کوئی عضو بیکار ہوجاتا ہے اور چونکہ بدن کے تمام اعضاء ایک مشین کے پرزوں کی طرح مربوط و متصل ہیں اس لئے ایک کے بے کار ہوجانے سے سارے بیکار ہوجاتے ہیں _ پروفیسر سیلی نے اعلان کیا علم طب و میڈیکل سائنس ایک دن اتنی ترقی کرے گا کہ فرسودہ خلئے کی جگہ انجکشن کے ذریعہ نیا خلیہ انسان کے بدن میں رکھدیا جائے گا اور اس طرح انسان جب تک چاہے گا زندہ رہے گا _(۱)

ای ای مچنیکف کے نقطہ نظر سے فیزیولوجی بڑھاپے جو کہ طبیعی پیش رفت کا

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۷

۲۴۲

نتیجہ ہے اور اس ضعیفی کو جو کہ ارگانزم کی اساس پر مختلف تاثیرات _ زہر ، امراض اور دوسرے مخصوص عوامل _ کا نتیجہ ہے ، کو معین کر سکتا ہے _ اس کے نظریات کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کا بڑھا پا ایک بیماری ہے لہذا تمام بیماریوں کی طرح اس کا بھی علاج ہونا چاہئے اس کا نظریہ تھا کہ انسان کی زندگی موجودہ زندگی سے زیادہ ہوسکتی ہے اور مزید آگے بڑھ سکتی ہے _ انسان کی زندگی درمیان را ہ گم ہوتی ہے ، اپنی اصل منزل تک نہیں پہنچتی ، لیکن میرے لحاظ سے تمام کوشش کرنا چاہئے تا کہ بشر بڑھاپے ، انحطاط کے بغیر اپنی فیزیولوجی کی عادی ضعیفی تک پہنچ جائے _(۱)

طول عمر

پروفیسر سلیہ اور اس کا عملہ ایک طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کیلشم( calcium ) کا نقل و انتقال ضعیفی اور اس کی تغیرات کا عامل ہے _ کیا بڑھا پے کے عوارض کے علاج کے لئے کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے یا نہیں؟ سلیہ نے مکرر تجربوں کے بعد ، ایرون ڈکٹر ان کے مادہ کا انکشاف کیا ہے جو کیلیشیم کو اجزاء ترکیبی سے روکتا ہے _ اس بناپر کہاجاتا ہے کہ ضعیفی کی علامتیں اور عوارض حیوانات پر کئے جانے والے تجربوں کے ذریعہ انسان کی دست رس میں آچکے ہیں اور اس سے تحفظ کا وسیلہ مل گیا ہے _ پروفیسر سلیہ کا نظریہ ہے کہ اس بات کا تو احتمال بھی نہیں دیا جا سکتا کہ نوے سالہ انسان کو ساٹھ سالہ انسان کی زندگی کی حالت کی طرف پلٹا یا جا سکتا ہے لیکن ساٹھ

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۵ ۱۳۴۲ ھ ش _

۲۴۳

سالہ انسان کی زندگی کو عوارض سے بچا کر نوے سالہ عمر میں بھی ساٹھ سالہ عمر کی حالت میں رکھا جا سکتا ہے _(۱)

پروفیسر اتینگر نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا:'' جوان نسل ایک دن انسان کی جاویدانی اور ابدی حیات کو اسی طرح قبول کرے گی جیسا کہ آج لوگوں نے فضائل سفر کو تسلیم کر لیا ہے _ میرا نظریہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس تحقیق سے جس کا ہم نے آغاز کیا ہے کم از کم آئندہ صدی کا انسان ہزاروں سال کی زندگی بسر کرے گا _(۲)

ایک روسی کتاب کا خلاصہ

روس کا مشہور سائنسدان مچنیکوف طویل العمری کو انسان کی قدیم ترین امیدوں میں سے اسک کہتا ہے _ لیکن ابھی تک عمر میں اضافہ کے لئے کوئی عملی طریقہ کشف نہیں ہوسکا ہے _ واضح ہے کہ طبیعی زندگی کے خاتمہ کا نام موت ہے اور کسی جاندار کو اس سے مضر نہیں ہے _

۱_ ضعیفی کی علّت انسان کا بدن تقریباً ساٹھ تریلین خلیوں سے تشکیل پایا ہے _ یہ خلئے ایک منزل پر پہنچ کربوڑھے ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں اپنی زندگی کی ضرورت کو بڑی مشکل سے پورا کرتے ہیں _ ان کی تولید مثل میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد انسان مرجاتا

____________________

۱_ دانشمند شمارہ۵ ۳۴۲۱ ہ ش

۲_ دانشمند شمارہ ۶ سال ششم

۲۴۴

ہے _ عصبی خلئے اور مرجانے والے عضلات کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھ جاتی ہے اور ایک کپڑے کی شکل میں سخت ہوجاتے ہیں _ اس سخت ہونے سے ماہیچے اور اعصاب ، مرجانے اور بڑھنے والے خلیوں ، جن کو اسکلروز soclerose کہتے ہیں جیسے قلب کے اسکلروز ، رگوں کے اسکلروز ، اعصاب کے اسکلروز و غیرہ _

روس کے مشہور ڈاکٹر اور فیزیولوجسٹ ایلیا مچنیکوف کا خیال تھا کہ یہ وقوعہ ٹرکشین کے زہر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے _ حیوان کے بدن میں جراثیم جاگزین ہوجاتے ہیں اور اس زہر کو انسان اندرونی اعضا میں پیدا کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ زندہ خلیوں کے تعمیر کو مسموم کردیتے ہیں _ پالوف کا نظریہ تھا کہ اعصاب کا سلسلہ خصوصاً مغز کا خارجی دباؤ ضعیفی میں بنیادی اثر رکھتا ہے ، نفسیاتی تاثرات ، غصہ ، دل تنگی ، یاس اور وحشت سے بدن کے امراض پیدا ہوتے ہیں کہ جس سے بڑھا پا اور اس کے بعد موت آجاتی ہے _ دائمی زندگی کا خواب ایک سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں ہے _ لیکن انسان کی عمر بڑھانا اور ضعیفی پر غلبہ پاناممکن عمل ہے _

۲_ ضعیفی شناسی اور موت شناسی

تقریباً تین سو سال قبل علم الحیات کی ایک نئی شاخ ضعیفی شناسی ( cetmotologei ) وجود میں آئی _ اس علم کا مقصد بڑھا پے پر غلبہ پانے کیلئے عملی قوانین کی معرفت و شناخت ہے _ اس اور موت شناسی کے علم کے درمیان لطیف رابطہ ہے ، موت سے مربوط قوانین کا مطالعہ اور ممکن حد تک اسے پیچھے ہٹانا اس علم کے مسائل ہیں جو کہ اسی لم کے قلم روکا جز ہیں ، سائنسدانوں کے نقطہ نظر کے مطابق موت ہمیشہ اختلال کی وجہ سے آتی ہے جبکہ زندگی کے خاتمہ پر آنے والی موت کو فیزیالوجی کہتے ہیں_

۲۴۵

اب سائنسدان عمر بڑھانے کیلئے کوئی منطقی اور طبیعی راہ کی تلاش میں منہمک ہیں زندگی کی حد کے سلسلے میں دانشوروں کے درمیان اختلاف ہے _ پاؤلوف انسان کی طبیعی حیات کی حد سو سال قرار دیتا تھا _مچنیکوف نے یک سو چالیس سے ایک سو پچاس تک تحریر کی ہے _ جرمنی کے مشہور سائنسدان گو فلانڈ کا خیال تھا کہ انسان کی عام عمر ۲۰۰ سال ہے _ انیسویں صدی کے مشہور فیزیولوجسٹ فلوگرنے ۶۰۰ سال اور برطانوی ورد جربیکن نے ۱۰۰۰ سال تحریر کی ہے _ لیکن کوئی سائنسدان بھی اپنے مدعا پر اطمینان بخش دلیل پیش نہیں کرسکا _

۳_فرانسوی بوفوںکا فریضہ

فرانس کے مشہور طبیعی داں بوفون کا نظریہ تھا کہ ہر جاندار کی مدت عمر اس کے رشد کے زمانہ کے پانچ گناہوتی ہے _مثلاً شتر مرغ کے نمو کی عمر آٹھ سال ہے تو اس کی عمر کا اوسط چالیس سال ہے _ گھوڑے کے رشد کا زمانہ ۳ سال ہے تو اس کی عمر ۱۵_ ۲۰ سال ہوتی ہے _ بوفون نے اس طرخ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان کے نمو کی مدت ۲۰ سال ہے لہذا اس کی عمر کا اوسط ۱۰۰ سال ہے _ لیکن بوفون کے فارمولہ میں بے پناہ استثنائی موارد ہیں اسی لئے اسے اہمیت نہیں دی گئی ہے کیونکہ گوسفند کے رشد کی عمر پانچ سال ہے اور اس کی کل عمر ۱۰_ ۱۵ سال ہوتی ہے _ طوطے کی رشد کا زمانہ ۱۲ سال ہے لیکن سو سال تک زندہ رہتا ہے _ با وجودیکہ شتر مرغ کے رشد کی عمر تین سال میں ختم ہوجاتی ہے لیکن ۳۰_۴۰ سال تک زندہ رہتا ہے _ سائنسدان ابھی انسان کی طبیعی زندگی کی یقینی سر حد معین نہیںکر سکے ہیں _ لیکن ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ عمر گھٹا نے والے اختلال اور بیماریوں کو رفع کرکے انسان کی عمر کو ۲۰۰ سال تک بڑھایا

۲۴۶

جا سکتا ہے _ یہ نظریہ بھی ابھی تک تھیوری ہی کی صورت میں موجود ہے مگر اسے موہوم اور غیر حقیقی نہیںقرار دیا جا سکتا _

۴_ انسان کی متوسط عمر

قدیم یونان میں انسان کی متوسط عمر ۲۹ سال اور قدیم روم میں اسے کچھ زیادہ تھی سولھویں صدی میں یورپ میں انسان کی عمر ۲۱ سال ، ستر ہویں صدی میں ۲۶ سال اور انیسویں صدی میں متوسط عمر ۳۴ سال تھی _ لیکن بیسویں صدی کی ابتداء میں یہ شرح یکبارگی ۴۵_۵۰ تک پہنچ گئی _ مذکورہ شرح یورپ سے متعلق ہے _ آج کے دنیا میں طویل العمری اور موت کے کم ہونے کی بہترین دلیل بچے ہیں _ لیکن پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک میں اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے _ مثلاً روس میں متوسط عمر ۷۱ سال اور ہندوستان میں ۳۰ سا ل ہے _

حیوانات کے درمیان انسان کی عمر اوسط کوئی زیادہ نہیں ہے انسان کی عمر کے نسبی اوسط (۶۰_۸۰) کا ذیل میں موازنہ ملاحظہ فرمائیں:

بطخ ۳۰۰سال گول مچھلی ۱۵۰سال

کچھوا ۱۷۰سال مینڈک ۱۶سال

چھپکلی ۳۶سال طوطا ۹۰ سال

کوّا ۷۰سال جنگلی مرغی ۸۰ سال

شتر مرغ ۴۰ - ۳۵ سال جالاقان ۱۱۸سال

عقاب ۱۰۴ سال شاہین ۱۶۲ سال

گھوڑا گائے ۲۵ - ۳۰ سال گوسفند ۱۴_۱۲ سال

۲۴۷

بکری ۲۷_۱۸ سال کتّا ۲۲_۱۶ سال بلّی ۱۲_ ۱۰ سال

۵_ روسی سائنسدان مچنیکوف کا نظریہ

اگر ایلیا مچنیکوف کے نظریہ میں غور کیا جائے تو انسان کے نسبی سن کا چند جانوروں سے اختلاف واضح ہوجائے گا _ مچنیکوف مرگ مفاجات اور بڑھاپے کی علت خلیوں کی مسمومیت اور بیکیڑیا کے جسم کے اندر زہر پھیلانے کو قرار دیتا ہے _ یا درہے بدن کے دیگر حصّوں سے زیادہ : Rotrotic ، بیکٹیریا کا محبوب حصّہ ہے _

تخمینہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں روزانہ ۱۳۰ ٹریلین جراثیم پیدا ہوتے ہیں Rotrotic کے بہت سے جراثیم بدن کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن ان میں سے بعض زہریلے ہوتے ہیں _ یہ بدن کو اندر سے اپنے زہر کے وسیلہ سے قتل کی طرح مسموم کرتے ہیں _ احتمال ہے کہ بدن کے خلئے اور اس کا نظام ( بافتہا) اس زہر کی وجہ سے جلد بوڑھا ہوجاتا ہے _ مذکورہ جدول سے علوم ہوتا ہے کہ پیٹ کے بل چلنے والی مچھلیاں اور پرندے پستان دار جانوروں سے زیادہ زندہ رہتے ہیں _ کیونکہ ان جانوروں کے اندر فراخ Rotrotic نہیں ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو ایسی میں رشد بہت کم ہوتا ہے _ پرندوں میں صرف شتر مرغ فراخ Rotrotic ہوتا ہے ، اور جیسا کہ جدول سے سمجھ میں آتا ہے اس کی عمر بھی ۳۰_ ۴۰ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے _ ان حیوانات میں کچھ جگالی کرنے والے ہیں کہ انکی زندگی سب سے کم ہوتی ہے _ اس کی وجہ شاید ان کے اندر فراخ کی نمو ہے _ جمگادڑ کے اندر بھی ایک چھوٹا Rotrotic ہوتا ہے چنانچہ حشرہ خوار جانوروں میں چمگاڈر کے ہم بدن سے زیادہ اس کی عمر ہوتی ہے _ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں rotrotic کے فراخ و طویل ہونا بھی دخیل ہے _ لیکن اسے زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ جس کا مچنیک نے اظہار کیا ہے _ بعض افراد نے آپریشن کے ذریعہ فراخ Rotrotic کو انکلوادیا تو

۲۴۸

مدتوں زندہ رہے _ یہ بات مسلّم ہے کہ بدن کیلئے اس عضو کا وجود ضروری نہیں ہے لیکن ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے فراخ Rotrotic کے باوجود طویل عمر بسر کی ہے _ ضعیفی شناسی کے دانشوروں نے ایسے افراد کی تحقیقی کی ہے _

۶_ مستقبل کا انسان طویل عمر پائے گا

جن لوگوں نے دنیا میں ایک سو پچاس سال سے زیادہ زندگی گزاری ہے وہ انگشت شمار ہیں ، ان میں سے جن کے نام کتابوں میں مرقوم ہیں وہ درج ذیل ہیں:

سنہ ۱۷۲۴ ء میں ایک دہقان مجار ۱۸۵ سال کی عمر میں مرا ، جو کہ اپنی آخری عمر تک جوانوں کی طرح کام کرتا تھا _

ایک اور شخص جان راول کیعمر مرتے دم ۱۷۰ سال تھی اور اس کی زوجہ کی ۱۶۴ سال تھی _ ۱۳۰ سال انہوں نے ازدواجی زندگی بسر کی _

ایک آلبانوی باشندہ ، خودہ ۱۷۰ سال تک زندہ رہا _ مرتے دم اس کے پوتے ، پوتیوں نواسے نواسیوں اور ان کی اولاد کی تعداد ۲۰۰ تھی _

چند سال قبل اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ جنوبی امریکہ میں ایک شخص مرا ہے جس کی عمر ۲۰۷ سال تھی _

روس میں ایسے تیس ہزار افراد ہیں جو کہ اپنی زندگی کی دوسری صدی گزار رہے ہیں _ اب روس کے سائنسدان بڑھاپے کی علت اور طول عمر کے راز کے انکشاف کرنے میں مشغول ہیں _ یقینا مستقبل میں علم انسان ضعیفی پر قابو پالے گا اور نتیجہ میں انسان اپنے آبا و اجداد سے زیادہ عمر پائے گا _(۱)

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۱ ، سال ششم

۲۴۹

موت کی علّت کے سلسلہ میں غیر معروف فرضیہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدن سے روح کے جدا ہونے کا نام موت ہے ، لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا روح کی مفارقت کی علت بدن اور اس کے عوارض ہیں؟کیا جسم ہی موت کے اسباب فراہم کرتا ہے؟

اکثر علماء اور اطبّاء نے پہلے نظریہ کو تسلیم کیا ہے وہ کہتے ہیں: جب بدن کی غریزی حرارت ختم ہوجاتی ہے تو بدن کا عام نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے اور اس کے آلات و قوا بیکار ہوجاتے ہیں ، بدن کے اعضاء رئیسہ فرسودہ ہوجاتے ہیں ، بقا کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور چونکہ روح اس فرسودہ جسم کی حیات کو جاری رکھنے اور اسے چلانے سے عاجز ہوجاتی ہے اس لئے اس سے جدا ہوجاتی ہے اور موت واقع ہوتی ہے _

لیکن اس گروہ کے مقابل میں بڑے اسلامی فلاسفر مرحوم ملاّ صدرا دوسرے نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں ،وہ اپنی کتاب ''اسفار'' میں لکھتی ہیں :'' جسم کی حفاظت اور اسے چلانے کی ذمہ داری روح پر ہے _ جب تک اسے بدن کی زیادہ ضرورت رہتی ہے اس وقت تک وہ بدن کی حفاظت و نگہبانی میں کوشاں رہتی ہے ، ہر طرح سے اس کا تحفظ کرتی ہے _ لیکن جب وہ مستقل اور بدن سے مستغنی ہوجاتی ہے تو پھر بدن کی طرف توجہ نہیں دیتی جس کے نتیجہ میں ضعف ، سستی اور اختلال پیدا ہونے لگتا ہے اور فرسودگی و ضعیفی آجاتی ہے یہاں تک کہ روح بدن کے امور کو بالکل نظر انداز کردیتی ہے اور طبیعی موت واقع ہوجاتی ہے ''_

احباب جانتے ہیں کہ اگر دوسرا نظریہ ثابت ہوجائے اور موت کا اختیار روح کے ہاتھ میں ہوتو صاحب الامر کی طول عمر کے موضوع کی راہ ہموار ہوجائے گی _ یہ کہا

۲۵۰

جا سکتا ہے کہ : چونکہ آپ (ع) کی روح کو دنیائے انسانیت اور عالم کی اصلاح کے لئے آپ کے وجود کی ضرورت ہے _ اس لئے بدن کی حفاظت و نگہبانی میں مستقل کوشش کرتے ہے اور اپنی جوانی و شادابی کو محفوظ رکھتی ہے _

آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ میں اس وقت اس مدعا کی صحت کو ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں اور نہ اس سے دفاع کی خواہش ہے _ سردست میں نے دوستوں کے سامنے غیر معروف فرضیہ کے عنوان سے پیش کیا ہے _ مجھے اس با ت کا اعتراف ہے کہ یہ غیر مانوس اور نئی بات ہے لیکن بغیر غور و فکر کے اسے باطل نہیں سمجھنا چاہئے _ قطعی فیصلہ اس وقت کیا جا سکتا ہے جب حقیقت نفس ، بدن پر اسکی تاثیر کی مقدار اور اس کی ارتباط کی کیفیت و تاثیر بخوبی پہچان لی جائے اور یہ بہت دشوار ہے کہ اس میں فلسفی و نفسیاتی اور بیالوجی کے ایک طویل سلسلہ کے تجربہ کی ضرورت ہے _ ابھی انسان کا علم اس حد تک نہیں پہنچاہے کہ حقیقت نفس اور اس کے بدن سے ارتباط کے بارے میں فیصلہ کرلے بلکہ ابھی وہ اپنے نفس و نفسیات کے ابتدائی مراحل طے کررہا ہے _ اگر علم آدمی کی روح و تن کی طرف متوجہ ہوگیا ہوتا تو یقینا ہماری دنیا کی حالت کچھ اور ہی ہوتی _

ڈاکٹر اکلسیس کارل اپنی کتاب '' انسان موجود ناشناختہ ، میں لکھتا ہے ، ہمیں بھی اپنی وجودی تعمیر کے بارے میں کافی علم حاصل نہیں ہوا ہے ،اگر نیوٹن ، گالیلہ اور لاوازیہ اپنی فکری صلاحیت انسان کے بدن و نفسیات کے مطالعہ پر صرف کرتے تو ہماری دنیا کی حالت ہی بدل گئی ہوتی _

۲۵۱

نتیجہ

ہوشیار: مذکورہ مطالب سے چند چیز یں سمجھ میں آتی ہیں:

۱_ انسا ن کی عمر کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوزنا ممکن ہو _ کسی بھی سائنسدان نے ابھی تک یہ نہیں کہا ہے کہ انسان کی عمر کا فلاں سال اس کے کاردان حیات کی آخری منزل ہے اس پر قدم رکھتے ہی موت آجائے گی _ بلکہ مشرق و مغرب کے جدی و قدیم سائنسدانوں کے ایک گروہ نے تصریح کی ہے کہ انسا ن کی عمر کی کوئی حد نہیں ہے _ ممکن ہے انسان آئندہ موت پر قابو پالے یا اسے کافی حد تک پیچھے ہٹادے کہ جس سے طولانے عمر پائے _ اس علمی امید کی کامیابی نے سائنسدانوں کو شب و روز کی کوشش اور تحقیق و تجربہ پر مجبور کیا ہے چنانچہ ابھی تک اس سلسلہ میں جو تجربات ہوئے ہیں وہ کامیاب رہے ہیں _

ان تجربات نے یہ ثابت کردیا کے موت بھی تمام بیماریوں کی طرح کچھ طبیعی علل و عوامل کا نتیجہ ہے اگر ان عوامل کو پہنچان لیا جائے اور ان کے اثرات کو روک دیا جائے تو موت کو پیچھے ہٹا یا جا سکتا ہے اور انسان کو اس خوفناک ہیولے سے نجات دلائی جا سکتی ہے _ جس طرح علم نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و عوامل کو کشف کرلیا ہے اوراس کی تاثیر کا سد باب کردیا ہے _ اسی طرح مستقبل قریب میں موت کے اسباب و علل کو پہچاننے اور اس کے اثرات کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائے گا _

۲_ نباتات ، حیوانات اور انسانوں کے درمیان ایسے افراد موجود ہیں کو جو اپنی نوع کے دیگر افراد سے ممتاز ہیں اور ان سے زیادہ طویل عمر پائی ہے _ ایسے استثنائی افراد کا وجود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نوع کے افراد کی عمر کی ایسی کوئی حد نہیں ہے کہ جس سے آگے بڑھنا محال ہو _ یہ صحیح ہے کہ اکثر انسان سو سال

۲۵۲

کی عمر سے پہلے ہی مرجاتے ہیں لیکن عمر کی اس مقدار سے مانوس ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ سوسال سے زیادہ عمر کا امکان ہی نہیں ہے _ کیونکہ ایسے بہت سے افراد گزرے ہیں جنہوں نے سو سال سے زیادہ عمر بسر کی ہے _ ایک سو پچاس سالہ ، ایک سو اسی سالہ اور دو سو پچاس سالہ انسان کاوجود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عمر انسان کی کوئی حد معین نہیں ہے _ دو سو پچاس سال اور دو ہزار سال زندگی گزارنے میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں غیر مانوس ہیں _

۳_ ضعیفی کوئی ایسا عارضہ نہیں ہے کہ جس کا کوئی علاج نہ ہو بلکہ یہ قابل علاج بیماری ہے جیسا کہ علم طب نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و اسباب کشف کرلئے ہیں اور انسان کو ان کے علاج کا طریقہ بتادیا ہے اسی طرح مستقبل میں ضعیفی و بڑھاپے کے عوامل کشف کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گا اور ان کا علاج انسان کے اختیار میں دیدے گا _ سائنسدانوں کا ایک گروہ اکسیر جوانی کی تلاش میں ہے اور انتھک کوشش و تحقیق اور تجربات میں مشغول ہے ، ان کے تجربات کامیاب رہے ہیں کہ جن کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں انسان ضعیفی اور فرسودگی کے عوامل پر قابو پالیگا اور ان عام بیماریوں کے علاج کا طریقہ تلاش کرے گا _ اس صورت میں انسان عرصہ دراز تک اپنی جوانی و شادابی کو ملحوظ رکھے گا _

مذکورہ مطالب اور سائنسدانوں کی تصدیق کی مدنظر رکھتے ہوئے آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اگر کوئی انسان جسمانی ساخت و ترکیب کے لحاظ سے نہایت ہی معتدل ہو ، اس کے اعضاء رئیسہ ، قلب ، اعصاب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور معدہ سب قوی اور سالم ہوں _ وہ حفظان صحت کے تمام اصولوں سے واقف ہو اور ان پر

۲۵۳

کاربند ہو _ مشروبات و ماکولات کے خواص و فوائد جانتا ہو ، ان میں سے مفید کو استعمال اور مضر سے پرہیز کرتا ہو ، جراثیم اور ان کی پیدا دار کے عوامل کو پہچانتا ہو ، امراض اور خصوصاً ضعیفی کے علاج سے آگاہ ہو _ زہر و مہلکات سے باخبر ہو ، ان سے اجتناب کرتا ہو ، بدن کی ضروری احتیاج کو غذا اور وٹامن و غیرہ سے پورا کرتا ہو ، والدین اور اجداد سے کوئی بیماری میراث میں نہ پائی ہو ، برے اخلاق ، پریشان خیالی ، جو کہ اعصاب و مغز کی فرسودگی اور دیگر بیماریوں کا باعث ہوتی ہے ، سے محفوظ ہو ، اس میں ایسے تمام نیک اخلاق موجود ہوں جو روح و جسم کے سکون کا باعث ہیں اور ان تمام چیزوں کے علاوہ اس کے جسم کا حاکم و مدیر انسانی کمال کے اعلی درجہ پر ہو تو ایسے انسان میں ہزاروں سال زندگی گزارنے کی صلاحیت ہوگی _ ایسی طویل عمر کو عمل و دانش نہ صرف یہ محال قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے امکان کا اثبات کرتے ہیں _

اس بناپر امام زمانہ کی طویل عمر کو محال اور لا ینحل مشکل نہیں قراردینا چاہئے _ کہ علم بہت طویل عمر کو جوانی و شادابی کی طاقت کی حفاظت کے ساتھ ممکن قراردیتا ہے _ اگر کسی شخص کا وجود عالم کیلئے ضروری ہو اور طویل عمر در کار ہو تو قادر مطلق خدا دنیا کے علل و معلولات اور خلقت کی مشینری کو اس طرح منظم کرے گا کہ جو ایسا کامل انسان پیدا کرے گی جو ضروری علم و اطلاعات کاحامل ہوگا _

ڈاکٹر:مذکورہ مطالب صرف ایسے ممتاز انسان کے وجود کو ثابت کرتے ہیں لیکن یہ بات کہاں سے ثابت ہوئی کہ ایسا انسان موجود بھی ہے؟

ہوشیار: عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نوع کی بقا کیلئے

۲۵۴

امام کا وجود ضروری ہے اور بہت سی احادیث کا اقتضا ہے کہ امام صرف بارہ ہوں گے اور یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ بارہویں امام ،امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند مہدی موعود ہیں جو کہ پیدا ہوچکے ہیں اور اب پردہ غیب میں ہیں _ اس سلسلہ میں سیکڑوں حدیثیں نقل ہوئی ہیں _ مذکورہ مطالب اور دانشوروں کی تائید کے بعد ہم نے ایسے غیرمتعارف عمر کے امکان کو ثابت کیا ہے _

تاریخ کے درازعمر

انجینئر : یہ کیسے ممکن ہے کہ خلقت کی مشنری نے صرف امام زمانہ ہی کو اتنی طویل عمر عطا کی ہے جسکی مثال نہیں ملتی ؟

ہوشیار: دنیا میں ایسے افراد کمیاب تھے اور ہیں _ منجملہ ان کے حضرت نوح (ع) ہیں _ بعض مورخین نے آپ(ع) کی عمر ۲۵۰۰ سال تحریر کی ہے _ توریت میں ۹۵۰ سال مرقوم ہے _

قرآن مجید صریح طور پر کہتا ہے کہ حضرت نوح (ع) نے ۹۵۰ سال تک اپنی قوم کو تبلیغ کی چنانچہ سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے کہ :

اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان نو سو پچاس سال رہے پھر قوم کو طوفان نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ وہ ظالم لوگ تھے _(۱)

____________________

۱_ عنکبوت/۱۴_

۲۵۵

اگر ہم مورخین کے قول کی تکذیب بھی کردیں تو قرآن مجید میں کسی قسم کے شک گنجائشے ہی نہیں ہے کہ جس نے حضرت نوح کی تبلیغ کا زمانہ ۹۵۰ سال بتا یا ہے جبکہ یہی عمر غیر معمولی ہے _

انجینئر : میں نے سنا ہے کہ یہ آیت متشابہات میں سے ہے؟

ہوشیار : متشابہات میں سے سے کیسے ہوسکتی ہے _ کیا مفہوم و معنی کے لحاظ سے مجمل و مبہم ہے ؟ عربی زبان سے جو شخص معمولی شد و بد بھی رکھتا ہے وہ اس آیت کے معنی کو بخوبی سمجھ سکتا ہے _ اگر یہ آیت متشابہات میں سے ہے تو قرآن میں کوئی محکم آیت نہیں ملے گی میں ایسے افراد کی بات کے بے معنی سمجھتا ہوں یا انھیں قرآن کا منکر کہا جائے کہ جن کے اظہار کی جرات نہیں رکھتے تھے _

مسعودی نے اپنی کتاب میں کچھ طویل العمر لوگوں کے نام مع ان کی عمروں کے درج کئے ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہیں :

حضرت آدم کی عمر : ۹۳۰ سال ، حضرت شیث : ۹۱۲ سال ، انوشّ : ۹۶۰ سال قینان : ۹۲۰ سال _ مہلائل : ۷۰۰ سال ، لوط : ۷۳۲ سال ، ادریس : ۳۰۰ سال

متو شلخ : ۹۶۰ سال ، لمک : ۷۹۰ سال ، نوح : ۹۵۰ سال ، ابراہیم : ۱۹۵ سال کیو مرث : ۱۰۰۰ سال ، جمشید : ۶۰۰ یا ۹۰۰ سال ، عمربن عامر : ۸۰۰ سال عاد : ۱۲۰۰ سال _ ۱

اگر آپ تاریخ وحدیث اور توریت کا مطالعہ فرمائیں گے تو ایسے بہت سے

____________________

۱_ مروج الذہب ج ۱ و ۲

۲۵۶

لوگ میلں گے _ لیکن واضح رہے کہ ان عمروں کا مدارک توریت یا اس کی تواریخ ہیں اور اہل تحقیق پر ان کی حالت پوشیدہ نہیں ہے یا خبر واحد مدرک ہے جس سے یقین حاصل نہیں ہوتا یا غیر معتبر تواریخ مدرک ہیں _ بہر حال مبالغہ سے خالی نہیں ہیں اور چونکہ ان کی صحت مجھ پر واضح نہیں ہے اس لئے ان سے استدلال و بحث سے چشم پوشی کرتا ہوں اور صرف حضرت نوح کی طویل العمری ہی کو ثبوت میں پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہمں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو المعمروں و الوصایا مولفہ ابی حاتم سجتانی اور ابوریحان بیرونی کی الآ ثار الباقیہ اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

۲۵۷

امام زمانہ عج کا مسکن

فھیمی : زمانہء غیب میں امام زمانہ کا مسکن کہاں ہے ؟

ہوشیار : آپ (ع) کے مسکن کی تعین نہیں ہوئی ہے _ شاید کوئی مخصوص نہ ہو بلکہ اجنبی کی طرح لوگوں کے در میان زندگی بسر کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے دور افتادہ علاقوں کورہا ئشے کیلئے منتخب کیا ہو _ احادیث میں دارد ہوا ہے کہ حج کے زمانہ میں آپ تشریف لاتے اور اعمال و مناسک حج میں شریک ہوتے ہیں لوگوں کوپہچانتے ہیں لیکن لوگ انھیں نہیں پہنچان پاتے _(۱)

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام زمانہ اسی سرداب میں ،جو کہ آپ سے منسوب ہے اور زیارت گاہ بنا ہوا ہے ، غائب ہوئے ہیں _ اس میں زندگی گزارتے ہیں اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے _ اگر اس سرداب میں موجود ہیں تو دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟ ان کیلئے کھانا پانی کون لے جاتاہے ؟ وہاں سے نکلتے کیوں نہیں؟ عرب کے شاعر نے اس مضمون پر مشتمل کچھ اشعار کہے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے : کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ جس میں سرداب اس شخص کو

____________________

۱_ بحارالانوارج۲ص۱۵۲

۲۵۸

باہرنکالے جسم تم انسان کہتے ہو؟ تمہاری عقلوں پر پتھر پڑگئے ہیں کہ عنقا اور خیالی چڑیا کے علاوہ ایک تیسرا موجود بھی ایجاد کرلیا _

ہوشیار: یہ محض جھوٹ ہے اور عناد کی بناپر اس کی نسبت ہماری طرف دی گئی ہے _ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے _ کسی روایت میں بیان نہیں ہوا کہ بارہویں امام سرداب میں زندگی گزاتے ہیں اور وہیں سے ظاہر ہوں گے _ کسی شیعہ دانشور نے بھی ایسی بات نہیں کی ہے _ بلکہ احادیت میں تو یہ ہے کہ امام زمانہ (ع) لوگوں کے درمیان ہی زندگی گزارتے ہیں اور ان کے درمیان آمد ورفت رکھتے ہیں _

سدیر صیرفی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے آپ(ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر اس لحاظ سے حضرت یوسف سے مشابہہ ہیں کہ برادران یوسف بھی آپ (ع) کو نہیں پہچان سکے تھے جبکہ عاقل بھی تھے اور یوسف کے ساتھ زندگی بھی گزارچکے تھے _ لیکن جب یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو جب تک یوسف (ع) نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا اس وقت تک آپ کو نہیں پہچان سکے اور باوجودیکہ یوسف حضرت یعقوب سے اٹھارہ روز کے فاصلہ پر تھے لیکن یعقوب کو آپ کی کوئی اطلاع نہیں تھی _ خدا حضرت حجّت کیلئے بھی ایسا ہی کرے گا _ لوگوں کو اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے _ آپ (عج) لوگوں کے درمیان آتے جاتے ہیں ان کے بازار میں تشریف لے جاتے ہیں ، ان کے فرش پر قدم رنجا ہوتے ہیں لیکن انھیں نہیں پہچان پاتا _ اسی طرح زندگی گزارتے رہیں گے _ یہاں تک خدا ظہور کاحکم فرمائے گا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۵۴_

۲۵۹

اما م کی اولاد کے ممالک

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام زمانہ کی بہت سے فرزندہیں جو کہ وسیع و عریض ممالک ظاہرہ ، رائقہ ، صافیہ ، ظلوم اور عناطیس میں زندگی گزارتے ہیں اور آپ کی اولاد میں سے لائق و شائستہ پانچ افراد ، طاہر ، قاسم ، ابراہیم ، عبدالرحمن اور ہاشم ان ممالک پر حکومت کرتے ہیں _ ان ملکو ں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں کی آب و ہوا اور نعمتیں بہشت برین کا نمونہ ہیں _ وہاں مکمل امن و امان ہے ، بھیڑیا اور بکری ایک جگہ رہتے ہیں _

درندے انسانوں کو کچھ نہیں کہتے _ ان ممالک کے باشندے مکتب امام کے تربیت یافتہ شیعہ اور صالح افراد ہیں ، فتنہ و فساد کا وہاں گزر نہیں ہے _ کبھی کبھی امام زمانہ بھی ان نمونہ ممالک کے معائنہ کے لئے تشریف لاتے ہیں ، ایسی ہی اور سیکڑوں دلچسپ باتیں ہیں

ہوشیار : ان مجہول ممالک کی داستان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ نہیں ہے _ ان کا مدرک وہ حکایت ہے جو حدیقة الشیعہ ، انور نعمانیہ اور جنة الماوی میں نقل ہوئی ہے مدعا کی وضاحت کی لئے ہم اس کے سند بیان کرتے ہیں :

داستان اس طرح نقل ہوئی ہے : علی بن فتح اللہ کاشانی کہتے ہیں : محمد بن حسین علوی نے اپنی کتاب میں سیعد بن احمد سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا : حمزہ بن مسیب نے شعبان کی ۸ تاریخ سنہ ۵۴۴ ھ میں مجھ سے بیان کیا کہ عثمان بن عبدالباقی نے جمادی الثانی کی ۷ تاریخ سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد بن یحیی انباری نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں بتایا کہ : میں اور دوسرے چند اشخاص عون الدین یحیی بن ہبیرہ وزیر

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

کیا اکثریت قتل کردی جائیگی ؟

جلالی صاحب کے مکان پر حسب سابق جلسہ شروع ہوا ، ہوشیاری صاحب نے ایک مختصر تمہید کے بعد کہا: الحمد للہ جلسے کامیاب و مفید رہے ، میرا خیال ہے کہ وہ بہت سے مسائل کسی نہ کسی حد تک حل ہوگئے ہوں گے جو کہ احباب کو لا ینحل معلوم ہوتے تھے لہذا احباب کی نظر میں اگر کوئی اہم مسئلہ ہو تو اسے پیش کریں _

انجینئر: علماء پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ آج دنیا کے مسلمان دوسرے مذاہب کی بہ نسبت اقلیت میں ہیں _ زمین پر بسنے والوں میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے _ اسی طرح تمام مسلمانوں کی بہ نسبت شیعہ بھی اقلیت میں ہیں ، ظلم بہت ہیں ، یہ ہے آج دنیا کی جمعیت _ چنانچہ ہمیشہ کی طرح آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا _ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظہور حضرت مہدی کے وقت بھی شیعہ اقلیت میں ہوں گے _ اس موازنہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں _ کیا یہ بات معقول ہے کہ دنیا کی اکثریت تھوڑے سے شیعوں کے ہاتھوں قتل ہوجائے گی اور مقابلہ نہ کریں گے ؟ اس کے علاوہ اگر زیادہ تر لوگ قتل ہوجائیں گے تو زمین قبرستان بن جائے گی اقلیت باقی رہے گی لہذا وہ قبرستان پر حکمرانی کریں گے اور ایسے عمل کو نہ اصلاح کا نام دیا جا سکتا ہے نہ اسے عالمی حکومت کہا جا سکتا ہے

۴۰۱

ہوشیار: اینجنئر صاحب ہمیں مستقبل کا معتد بہ علم نہیں ہے اور ماضی پر اسے قیاس نہیں کیا جا سکتا _ یہ بات قدر مسلَّم ہے کہ آئندہ لوگوں کے افکار و استعداد میں ترقی ہوگی اور وہ حق کو قبول کرنے کیلئے زیادہ آمادہ ہوں گے _ آج یہ بات سنی جاتی ہے کہ مغرب و مشرق کے بہت روشن فکر اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ ان کے مذاہب و ادیان انھیں مطمئن نہیں کر سکتے _ دوسرے طرف خدا پرستی اور خدا جوئی کی فطرت آرام سے نہیں بیٹھتی ہے _ لہذا وہ ایسے آئین کی جستجو میں ہیں جو فاسد عقائد اور خرافات سے پاک و پاکیزہ ہو اور معنویت کا حامل ہوتا کہ ان کی اندرونی خواہشوں کو پورا کرسکے اور روحانی غذا فراہم کرے _ اس نہج سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل قرب میں معاشرہ انسانی ، اسلامی کے احکام و معارف کی متانت و حقانیت کا سراغ لگائے گا اور اس پر یہ واضح ہوجائے گا کہ اس کی اندرونی خواہش اور اس کی جسمانی و روحانی سعادت کا ضامن صرف دین اسلام ہی ہے _

افسوس کہ ہمارے پاس اتنا بلند حوصلہ اور وسیلہ نہیں ہے کہ جس سے ہم دنیا کے لوگوں کو اسلام کے پاکیزہ معارف اور اس کے نور انی حقائق سے آگاہ کرسکیں لیکن ایک طرف لوگوں کی حقیقت کااحساس اور دوسری طرف اسلام کے متین احکام و معارف اس مشکل کو ایک روز ضرور حل کریں گے _ اور اس دقت دنیا والے گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوں گے اور مسلمانوں کی اکثریت ہوگی _

اس کے علاوہ زمانہ ظہور کے عام حالات کے پیش نظر بھی یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ جب حضرت مہدی ظہور فرمائیں گے اور لوگوں کے سامنے حقائق اسلام پیش کریں گے اور اسلام کے اصلاحی و انقلابی پروگرام سے انھیں مطلع کریں گے تو بہت سے

۴۰۲

لوگ اس کے حلقہ بہ گوش ہوجائیں گے کیونکہ ایک طرف تو لوگوں کی درک حقائق والی استعدادکمال کو پہنچ جائے گی اور دوسری طرف وہ امام زمانہ کے معجزات کو مشاہدہ کریں گے دنیا کے حالات کو غیر معمولی پائیں گے اور رہبر انقلاب کی طرف سے انھیں خطرہ سے آگاہ کیا جائے گا _ ان حالات کی بناپر لوگ حضرت مہدی کے ہاتھوں فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے اور قتل سے نجات پائیں گے _

لیکن جو لوگ ان تمام چیزوں کے باوجود اسلام قبول نہیں کریں گے ، یہود و نصاری تو قتل نہیں کئے جائیں گے بلکہ وہ حکومت اسلام کی حمایت میں زندگی گزاریں گے صرف کفار ، ستمگر اور جھگڑالو ہیں جو کہ مہدی (عج) کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کئے جائیں گے اور ان کی تعداد بہت زیادہ نہ ہوگی _

قم سے معارف اسلام کی اشاعت ہوگی

اہل بیت کی احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستقبل قریب میں علمائے شیعہ ماضی سے زیادہ مذہبتشيّع کے احکام و عقائد کو اہمیت دیں گے اور اپنے

حالات کو سنواریں گے ، نظم و ضبط پیدا کریں گے _ رائج الوقت تبلیغی وسائل سے آراستہ ہوں گے اور قرآن مجید کے حقائق و احکام سے جو کہ انسان کی سعادت کے ضامن ہیں لوگوں کو روشناس کرائیں گے _ اور اسلام کی ترقی و عظمت اور حضرت ولی عصر کے ظہور کے اسباب فراہم کریں _

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

'' بہت جلد کوفہ مومنوں سے خالی ہوجائے گا _ علم اس شہرے ایسے

۴۰۳

ناپید ہوجائے گا جیسے سانپ اپنے بل میں چھپ جاتا ہے وہاں اس کا کوئی اثر بھی نہ ملیگا ، علم کا مرکز قم ہوگا ، قم علم و فضل کا محور ہوگا ، وہیں سے علم تمام شہروں میں پھیلے گا یہاں تک کہ روئے زمین پر کوئی جاہل باقی نہیں رہے گا ، یہاں تک عورتیں بھی _

اب ہمارے قائم کا ظہور قریب ہوگا اور خدا قم اور اس کے باشندوں کو حجت قرار دے گا اور اگر ایسا نہ ہو تا تو زمین اپنے ساکنوں سمیت دھنس جاتی اور حجت باقی نہ رہتی _ علم و دانش قم سے تمام مغرب و مشرق کے شہروں میں پھیلے گا اور دنیا والوں پر حجت تمام ہوجائے گی یہاں تک کہ روئے زمین پر ایک شخص بھی ایسا نہیں ملیگا جس تک علم و دین نہ پہنچا ہو _ اس کے بعد ہمارے قائم ظہور فرمائیں گے اور خدا کے عذاب و قہر کے اسباب فراہم ہوجائیں گے کیونکہ خدا اپنے بندوں سے اس وقت انتقام لیتا ہے جب وہ اس کی حجت کا انکار کرتے ہیں ''_(۱)

امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

خدا نے کوفہ اور اس کے باشندوں کو تمام شہروں اور ان کے ساکنوں پر حجت قرار دیا تھا ، قسم کو بھی دوسرے شہروں پر حجت قرار دے گا اور اس کے باشندوں کے ذریعہ مشرق و مغرب میں رہنے والوں _ جن و انس پر حجت قائم کرے گا ، خدا قم والوں کو ذلیل نہیں کرے گا بلکہ خدا کی

____________________

۱_ سفینة البحار ، قم _

۴۰۴

توفیق و نصرت ہمیشہ ان کے شامل حال رہے گی _ اس کے بعد فرمایا : قسم کے دین داروں کی کم اہمیت تھی ، اس لئے انھیں زیادہ اہمیت نہیں دی جائیگی اگر ایسا نہ ہو تو تا تو قم اور اس کے باشندوں کو برباد کردیا جاتا اور تمام شہروں پرحجت باقی نہ رہتی _ آسمان اپنی جگہ رہتا ، زمین والوں کو لمحہ بھر کی مہلت نہ ملتی _ قم اور اس کے بسنے والے تمام ناگوار حوادث سے محفوظ رہیں گے ایک زمانہ آئے گا کہ قم اور اس کے ساکن تمام لوگوں پر حجت قرار پائیں گے اور ہمارے قائم کی غیبت سے ظہور تک ایسا ہی رہے گا _ خدا کے فرشتے قم اور اس کے رہنے والوں سے تمام بلاؤں کو دور کریں گے اور جو ستمگر اس شہر پر حملہ کرنا چاہے گا ، ستمگروں کو ہلاک کرنے والا اس کی کمر توڑ دے گا اور اسے سخت مصیبت میں مبتلا کردے گا یا اس پر اسی سے قوی دشمن کو مسلط کردے گا خداوند عالم ظالموں کے دلوں سے قسم اور اس کے ساکنوں کی یاد محو کردے گا _ جیسا کہ انہوں نے ذکر خدا کو فراموش کردیا ہے _(۱)

امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے :

'' قم والوں میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف بلائے گا _ ایک گروہ اسکی آواز پر لبیک کہے گا ، اس کے پاس جمع ہوجائیں گے جو کہ فولاد کی مانند ہوں گے انھیں کوئی متزلزل نہیں کر سکے گا _ وہ جنگ سے نہیں اکتائیں گے ، وہ صرف خدا پر توکل کریں گے ، آخر کار متیقن کامیاب ہوں گے '' _(۲)

____________________

۱_ سفینة البحار

۲_ بحار الانوار ج ۶۰ ص ۲۱۶_

۴۰۵

جلالی : آپ نے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی _ آپکی پیشین گوئی بعض احادیث کے منافی ہے مثلاً:

رسول اکرم کا ارشاد ہے :

'' ایک زمانہ آئے گا کہ جس میں قرآن کا خط ہی بچے گا اور اسلام برائے نام رہے گا لوگوں کو مسلمان کہا جائے گا لیکن وہ اس سے بہت دور ہوں گے ان کی مسجد یں آراستہ ہوں گی لیکن ہدایت سے ان کے دل خالی ہوں گے ''(۱)

ہوشیار: رسول (ص) اکرم نے ایسی احادیث میں صرف یہ فرمایا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ جب حقیقت و معنویت اسلام سے مٹ جائے گی صرف اس کی شکل باقی رہے گی اور مسلمان ہونے کے باوجود حقیقت سے کو سوں دور ہوں گے لیکن یہ بات مسلمانوں کی اکثریت کے منافی ہیں ہے ممکن ہے مسلمان ہونے کے باوجود وہ اسلام کی نورانیت سے کم فائدہ اٹھاتے ہوں اور پیکر اسلام پر کہنہ گی کی گردپڑگئی ہواور وہ امام زمانہ اس گرد کو صاف کریں اور دین کی تجدید ہوجائے _ جیسا کہ رسول کا ارشاد بھی ہے : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مسلمانوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوگا اور شرک و مشرکین کی تعداد میں ہمیشہ کمی واقع ہوگی'' _ اس کے بعد فرمایا :'' قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جہاں رات ہوتی ہے وہاں یہ دین پہنچے گا _(۲)

مختصر یہ کہ اولاً یہ کہا گیا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور سے قبل مسلمانوں کی اکثریت

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۰

۲_ تاریخ ابن عساکر ج ۱ ص ۸۷

۴۰۶

ہوگی ثانیاً یہ کہا گیا ہے _ آپ کے ظہور کے بعد بہت سے لوگ مسلمان ہوجائیں گے کیونکہ علوم و استعداد کی سطح بلند ہوجائے گی اور حق قبول کرنے کیلئے تیار ہوجائیں گے جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے _

حضرت محمد باقر (ع) کا ارشاد ہے کہ:

''جب ہمار قائم ظہور کریں گے اس وقت خدا اپنے بندوں پرکرم کرے گا ان کے حواس ٹھکانے لگائے گا اور ان کی عقلوں کو کامل کرے گا '' _(۱)

حضرت علی (ع) کا ارشاد ہے :

''آخری زمانہ میںاور جہالت کے زمانہ میں خداوند عالم ایک شخص کو مبعوث کرے گا اور اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مدد کرے گا ، اس کے چاہنے والوں کی حفاظت کرے گا ، نشانیوں کے ذریعہ اس کی مدد کرے گا اور تمام اہل زمین پر اسے کامیابی عطا کرے گا تا کہ وہ زبردستی یا راضی برضا دین حق کو قبول کرلیں _ زمین کو عدل و انصاف اور نورسے پر کرے گا _ شہروں کے طول و عرض اس کے تابع ہوں گے ہر ایک کافر ایمان لے آئے گا اور ہربد کردار صالح بن جائے گا '' _(۲)

آپ کے دشمن بھی کمزور نہیں ہیں

انجینئر صاحب کے اعتراضات کو یہ چیز بھی تقویت دیتی ہے کہ دنیا کے عام

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۸

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۴۹

۴۰۷

حالات خطرناک ایجادات کی ترقی ، اسلحہ سازی کے میدان میں مشرق و مغرب کا مقابلے اور انسانیت کے اخلاقی تنزل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بڑی حکومتیں بلکہ یہود و نصاری متحد ہوجائیں گے اور خطرناک اسلحوں سے بہت سے لوگوں کو اپنی انانیت کا نشانہ بنائیں گے _ اور بہت سے خطرناک بیماری کے پیدا ہوجانے سے مرجائیں گے _

عبدالملک کہتا ہے کہ میں حضرت امام محمد باقر کی مجلس سے اٹھا اور دونوں ہاتھ ٹیک کر رونے لگا اور عرض کی : مجھے یہ توقع تھی کہ میں حضرت قائم کو اس حال میں دیکھوں گا کہ مجھ میں طاقت ہوگی _ امام نے فرمایا :'' کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہارے دشمن جنگ میں مشغول رہیں او رتمہارے گھر محفوظ رہیں ؟ جب ہمارے قائم ظہور کریں گے اس وقت میں سے ہر ایک کو چالیس مردوں کی قوت ملیگی _ تمہارے دل فولاد کی مانند ہوجائیں گے کہ اگر پہاڑ کوبھی لگادو گے تو اسے بھی شگافتہ کردو گے اور نتیجہ میں پوری دنیا پر تمہاری حکومت ہوگی ''_(۱)

امام صادق (ع) کا ارشاد ہے :

''قائم آل محمد کے ظہور سے قبل دو وبائیں آئیں گی ، ایک سرخ موت دوسری سفید یہاں تک کہ ہر سات آدمیوں والے خاندان میں سے پانچ ہلاک ہوجائیں گے _ سرخ موت میں قتل ہوں گے اور سفید میں طاعون سے مریں گے ''(۲)

زرارہ کہتے ہیں : میں نے امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی : ندائے آسمانی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۵

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۴۰۱

۴۰۸

حق ہے ؟ فرمایا :

''بالکل ، خدا کی قسم خدا کی ہر قوم اسے اپنی زبان میں سنے گی '' _ اس کے بعد فرمایا : قائم اس وقت تک ظہور نہ فرمائیں گے جب تک دس اشخاص سے نوہلاک نہ ہوجائیں گے ''(۱)

جنگ ناگزیر ہے

فہیمی : کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ مہدی موعود کے ظہور کے لئے اس طرح زمین ہموار کی جائے کی جس سے کوئی خونریزی نہ ہو اور آپ کی حکومت تشکیل پا جائے ؟

ہوشیار: عادت کے پیش نظر یہ چیز بعید نظر آتی ہے کیونکہ انسان کی فکر خواہ کتنی ہی ترقی کرلے اور خیرخواہ افراد کی تعداد میں کتنا ہی اضافہ ہوجائے پھر بھی ان کے درمیان ظالم و خود سر لوگ باقی رہیں گے جو حق و عدل پروری کے دشمن ہوتے ہیں اور وہ کسی طرح اپنا نظر یہ نہیں بدلتے ایسے لوگ اپنے ذاتی مفاد و منافع سے دفاع کیلئے حضرت مہدی (ع) کے خلاف اٹھیں گے اور جہاں تک ہوسکیگا تخریب کاری کریں گے _ ان لوگوں کو کچلنے کیلئے جنگ ضروری ہے _ اس لئے اہل بیت کی احادیث میں جنگ کو حتمی قراردیا گیا ہے _

بشیر کہتے ہیں : میں نے ابو جعفر کی خدمت میں عرض کی : لوگ کہتے ہیں جس وقت امام زمانہ ظہور فرمائیں گے اس وقت ان کے کام ساینٹفک طریقہ سے روبراہ ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر خونریزی نہ ہوگی؟ آپ (ع) نے فرمایا:

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۴_

۴۰۹

'' خدا کی قسم ایسا نہیں ہے یہ ممکن ہوتا تو رسول خدا کیلئے ہوتا ، جبکہ دشمن سے جہاد میں رسول (ص) کے دندان مبارک شہید ہوئے ہیں ، خدا کی قسم حضرت صاحب الامر کا انقلاب بھی اس وقت تک کامیاب نہ ہوگا جب تک میدان جنگ میں خون نہ بہایا جائے گا _ اس کے بعد آپ نے دست مبارک پیشانی پر ملا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۴۱۰

حضرت مہدی (عج) کا اسلحہ

جلالی : سنا ہے کہ امام زمانہ تلوار کے ساتھ ظہور فرمائیں گے لیکن میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ہوں کیونکہ بشر نے آج تک سیکڑوں قسم کے اسلحہ ایجاد کرلیتے ہیں ، ایٹم بم ، ہا ڈرو جن بم بنالیتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کئی کلومیٹر کی شعاع کو ویران کرنے کیلئے کافی ہے چنانچہ اسلحہ سازی کے میدان میں ترقی نے انسان کی نیند حرام کردی ہے _ ان تمام جنگی وسائل کے باوجود جو کہ انسان کے اختیار میں ہیں ، اوراسلحہ سازی کے فن میں آئندہ وہ اور ترقی کرلے گا اس کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مہدی موعود اور ان کے سپاہی تلوار سے جنگ کریں گے اور کامیاب ہوجائیں گے؟

ہوشیار: مہدی موعود کا تلوار کے ساتھ ظہور کرنا احادیث سے ثابت ہے مثلاً: امام محمد باقر نے فرمایا:

'' مہدی (ع) اپنے جد حضرت محمد (ص) سے اس ، نہج سے مشابہت رکھتے ہیں کہ وہ تلوار کے ساتھ قیام کریں گے اور ظالموں ، گمراہ کرنے والوں ، اور خدا و رسول کے دشمنوں کو تہ تیغ کریں گے تلوار کے ذریعہ کامیاب ہوں گے اور ان کا کوئی پرچم (دار) بھی شکست کھاکر نہیں آئے گا _ ''(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۴۱۱

لیکن تلوار کے ساتھ خروج کرنا جنگ سے کنایہ ہے یعنی جنگ مہدی موعود کے سرکاری پروگرام کا جزء ہے ، آپ (ع) دین اسلام کو دنیا بھی میں پھیلانے اور ظلم و تعدی کا قلع کرنے پر مامور ہیں خواہ ا س سلسلہ میں تلوار ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے _ اس کے برخلاف ان کے آباء و اجداد کو اس اہم ذمہ داری پر مامور نہیں کیا گیا تھا _لہذا وہ وعظ و نصیحت پر عمل کرتے تھے اس بناپر تلوار کے ساتھ خروج کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ کا جنگی اسلحہ فقط تلوار ہی ہے اور دوسرے اسلحہ کو استعمال ہی نہیں کر سکتی بلکہ ممکن ہے کہ آپ بھی دور حاضر کے اسلحہ سے جنگ کریں یہ بھی ممکن ہے کہ نیا اسلحہ بنائیں کہ جو اس وقت کے تمام اسلحہ پر غالب آجائے _

حقیقت یہ ہے کہ ہم آئندہ حالات و حوادث سے بے خبرہیں اور انسان کی سرنوشت و صنعت کی ہم کو اطلاع نہیں ہے اس لئے بغیر مدرک کے مستقبل کو ماضی پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں صنعت و علوم اور تمدن میں کونسی قوم فوقیت لے جائیگی ہوسکتا ہے آئندہ مختلف اسلامی قومیں خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں ، جزئی اختلافات سے چشم پوشی کرلیں ، اور سب پرچم توحید کے نیچے جمع ہوجائیں _ قرآں کے علوم و دستورات کو اپنا لائحہ بنالیں اور اسلام کے اصلاحی پروگرام اجراء کریں ، اپنی خداداد ثروت سے فائدہ اٹھائیں _ سستی اور گوشہ نشینی کی زندگی ترک کریں اور علوم و صنعت اور اخلاق میں تمدن بشریت کے علم بردار ہوجائیں مشرق و مغرب کی سرکش طاقت کو لگام چڑھائیں اور مصلح غیبی حضرت مہدی موعود کے قیام کیلئے زمین ہموار کریں _ پس امام ظہور فرمائیں گے اور اپنی اس طاقت کے ذریعہ جو آپ کے دست اختیار میں ہے اور خدا کی تائید و نصرت کے توسط سے سرکش و ظالم حکومتوں کا تختہ الٹ دیں گے اور پوری دنیا میں توحید و عدل کی حکومت قائم کریں گے _ اس وقت دنیا کے سائنس داں اور موجد اپنی آنکھوں

۴۱۲

سے دیکھیں گے کہ انکی کوشش و زحمتوں کے نتیجہ کو صلح و صفا اور لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں صرف ہونا چاہئے جبکہ وہ استعمار اور لوگوں کو فریب دینے کیلئے استعمال ہوتا ہے ، اس سے انھیں

تکلیف ہوگی _ لیکن کوئی چارہ کار نہ ہوگا _ بے شک وہ مہدی اسلام کی عدل خواہی کی آواز پر لبیک کہیں گے اور اس کے مقصد کی تکمیل کیلئے کوشش کریں گے _

ہم کیا جانتے ہیں ، ممکن ہے انسان مستقبل میں جہالت و عداوت ، عصبیت و خود پرستی سے دست کش ہوجائے اور اسلحہ سازی و ایٹم بم سازی کو ممنوع قرار دیدیا جائے اور اسلحہ کی فراہمی پر خرچ ہونے والے بے پناہ پیسے کو ثقافتی ، عمرانی اور انسان کی رفاہ کیلئے خرچ کرے _

۴۱۳

دنیا مہدی (عج) کے زمانہ میں

انجینئر : میری خواہش ہے کہ آپ حضرت مہدی (عج) کے زمانہ حکومت میں دنیا کے عام حالت بیان فرمائیں _

ہوشیار : احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ جب مہدی موعود ظہور فرمائیں گے اور جنگ میں کامیاب ہوجائیں ، مشرق و مغرب پر تسلط پالیں گے تو اس وقت پوری دنیا میں ایک ہی حکومت ہوگی _ تمام شہروں او رصوبوں میں لائق حکام ضروری احکام کے ساتھ منصوب کئے جائیں گے _(۱) ان کی کوشش سے تمام زمین آباد ہوجائے گی _ حضرت مہدی بھی پوری زمین کے ممالک کے حوادث و حالات پر نظر رکھیں گے ، زمین گا گوشہ گوشہ ان کیلئے ایسا ہی ہے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی _ آپ کے اصحاب و انصار بھی دور سے آپ کو دیکھیں گے اور گفتگو کریں گے _

ہر جگہ عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا _ لوگ آپس میں مہربان ہوجائیں گے اور صدق و صداقت کے ساتھ زندگی بسر کریں گے _ ہر جگہ امن و امان ہوگا _ کوئی کسی کو آزار پہنچانے کی کوشش نہیں کرے گا _ لوگوں کے اقتصادی حالات بہت اچھے ہوجائیں گے یہاں تک کہ کوئی زکوة کا مستحق نہیں ملیگا _ منافع کی مسلسل بارش ہوگی _ ساری زمین سر سبز ہوجائے گی _ زمین کی پیدا وار میں اضافہ ہوگا _ کاشتکاری کے امور کی

____________________

۱_ دلائل الامامہ مولفہ محمد بن جریر طبری ص ۲۴۹

۴۱۴

ضروری اصلاحات ہونگی _ لوگ خدا کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے ، گناہ چھوڑدیں گے دین اسلام دنیا کا سرکاری دین ہوگا _ ہرجگہ اللہ اکبر کی آواز بلندہوگی _ اصلی راستہ کو ساٹھ گزچوڑاکیا جائے گا ، راہ سازی پر اتنی توجہ دی جائے گی کہ راستوں میں مساجد کی بھی رعایت نہ کی جائے گی ، پیدل چلنے والوں کیلئے راستہ بنائے جائیں گے اور انھیں ، اسی پر چلنے کی تاکید کی جائے گی اور سواری والوں کو روڈ کے درمیان سے گزرنے کا حکم ہوگا _

راستوں میں کھلنے والی کھڑکیاں بندکردی جائیں گی _ گلی کو چوں میں پرنالے لگانے سے منع کردیا جائے گا ، مناروں کو توڑدیا جائے گا _

امام مہدی کے زمانہ میں عقلیں کامل ہوجائیں گی ، معلومات عامہ کی سطح بلند ہوجائے گی یہاں تک حجلہ نشین عورتیں بھی فیصلہ کرسکیں گی _

حضرت امام صادق (ع) کا ارشاد ہے :

''علم کو ۲۷ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس کے دو حصوں تک ہی انسان کی رسائی ہوئی ہے _ جب ہمارا قائم ظہور کرے گا اس کے پچیس حصوں کو بھی آشکار کریں گے '' _(۱)

لوگوں کا ایمان کامل ہوجائے گا، کینہ سے دل پاک ہوجائیں گے _ آخر میں اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے کہ مذکورہ مطالب کو روایت سے لیا گیا ہے _ اگر چہ ان کا مدرک خبر واحد ہے _ تفصیل کیلئے بحار الانوار ج ۵۱ و ۵۲ ، اثبات الہداة ج ۶ و ۷ اور غیبت نعمانی کا مطالعہ فرمائیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۶_

۴۱۵

انبیاء کی کامیابی

جلالی: روایات میں مہدی موعود (عج) کی جو تعریف و توصیف وارد ہوئی ہیں ان کے اعتبار سے تو آپ(ع) تمام انبیاء یہاں تک رسول اسلام (ع) سے بھی افضل و اکمل ہیں کیونکہ معاشرہ انسانی کی اصلاح کرنے ، توحید کی عالمی حکومت کی تاسیس کرنے اور انسانوں کے درمیان خدا کے احکام و قوانین کو جاری کرنے عدالت عمومی کے قائم کرنے اور ظلم و ستم کو مٹانے میں ان میں سے کوئی بھی کامیباب نہیں ہوا ہے _ اس سلسلہ میں صرف مہدی موعود ہی کامیاب ہوں گے بس_

ہوشیار: اصلاح بشر اور خدا کے قوانین کا مکمل اجراء تمام انبیاء کا مقصد تھا ان خدائی نمائندوں میں سے ہر ایک نے اپنے زمانہ کی فکری استعداد کے مطابق اس مقصد کے حصول کیلئے کوشش کی اور انسان کو اس مقصد سے قریب کیا _ اگر ان کی فداکاری و کوشش نہ ہوتی تو حکومت توحید کیلئے ہرگز زمین ہموار نہ ہوتی پس اس عظیم مقصد میں سارے انبیاء شریک ہیں ، مہدی موعود کی کامیابی کو تمام خدا پرستوں اور انبیاء کی کامیابی تصور کرنا چاہئے _ آ پ کی کامیابی کوئی فردی کامیابی نہیں ہے بلکہ آپ کی محیر العقول طاقت کے ذریعہ حق باطل پر کامیاب ہوگا _ دین داری بے دینی پر چھا جائے گی اور گزشتہ انبیاء کے و عدول کو عملی جامہ پہنایا جائے گا اور ان کا مقصد پورا ہوگا _

۴۱۶

مہدی موعود کی کامیابی در حقیقت آدم و شیث ، نوح و ابراہیم ، موسی و عیسی اور حضرت محمد (ص) اور تمام انبیاء کی کامیابی ہے _ انہوں نے اپنی فداکاری سے راستہ ہموار کیا ہے اور انسان کے مزاج کو کسی حد تک آمادہ کیا ہے _ منصوبہ سازی اور مبارزہ کا آغاز انبیاء ہی سے ہواہے اور اپنی نوبت میں ان میں سے ہر ایک نے بشر کے دینی افکار کی سطح کو بلند کیا ہے یہاں تک پیغمبر اسلام کی نوبت آئی تو آپ نے اس عالمی انقلاب کا مکمل نقشہ اور پروگرام مرتب کیا اور ائمہ اطہار کی تحویل میں دیدیا _ اس سلسلہ میں آپ نے اور آپ کے جانشینوں نے بہت کوششیں کی ہیں اور بہت سی مشکلیں برداشت کی ہیں _ سالہا سال گزرتے جائیں اور دنیا میں بہت سے انقلابات رونما ہوجائیں تب جاکر انسان کے مزاج میں توحید کی حکومت قبول کرنے کی استعداد و لیاقت پیدا ہوگی _ اور اس وقت کفر و بے دینی کا محاذ مہدی موعود کی سپاہ کے ذریعہ فتح ہوگا اور بشریت کی امید برآئے گی _

اس بناپر مہدی موعود پیغمبر اسلام بلکہ تمام انبیاء کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے ہیں اور آپ کی کامیابی سارے آسمانی مذاہب کی کامیابی ہے _ خدا نے زبور میں حضرت داؤد سے کامیابی عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور حضرت مہدی کا شان میں نازل ہونے والی آیتوٹ میں سے ایک میں فرماتا ہے _ ہم نے زبور میں لکھدیا ہے کہ ہم اپنے صالح وشائستہ بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے _(۱)

____________________

۱_ انبیاء/۲۰۵_

۴۱۷

مہدی او رنیا آئین

ڈاکٹر : میں نے سنا ہے کہ امام زمانہ لوگوں کے لئے نیا دین و قانون لائیں گے اور اسلام کے احکام کو منسوخ قراردیں گے کیا یہ بات صحیح ہے ؟

ہوشیار: اس چیز کا سرچشمہ وہ احادیث ہیں جو اسی سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں _ لہذا ان میں سے چند حدیثیں پیش کرنا ضروری ہے _

عبداللہ بن عطا کہتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق کی خدمت میں عرض کی مہدی کی سیرت کیا ہے ؟ فرمایا:

'' جو کام رسول خدا (ص) انجام دیتے تھے ان ہی کو مہدی بھی انجام دیں گے _ بدعتوں کو مٹائیں گے جیسا کہ رسول خدا نے جاہلیت کی بیخ کنی کی تھی اور از سر نو اسلام کی بنیاد رکھی تھی ''_

ابو خدیجہ نے امام صادق (ع) سے روایت کی ہے آپ (ع) نے فرمایا:

''جب حضرت قائم ظہور کریں گے اس وقت جدید آئین آئے گا جیسا کہ ابتدائے اسلام میں رسول خدا نے لوگوں کو نئے آئین کی دعوت دی تھی ''(۲)

____________________

۱_ بحار ج ۵۲ ص ۳۵۲

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۱۰

۴۱۸

حضرت امام صادق کا ارشاد ہے : جب حضرت قائم ظہور کریں گے تو اس وقت نیا آئین و کتاب اور نئی سیرت و قضاوت پیش کریں گے جو کہ عربوں کیلئے دشوار ہے ، ان کاکام کشتار ہے کسی بھی کافر و ظالم کو زندہ نہیں چھوڑیں گے _ فریضہ کی انجام دہی ہیں کسی وقت لائم کی پروا نہیں کریں گے '' _(۱)

سیرت مہدی (عج)

لیکن بہت سے احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت مہدی کی وہی سیرت ہے جو رسول خدا کی تھی آپ اس قرآن و دین سے دفاع کریں گے جو کہ آپ کے جد پر نازل ہوا تھا _ چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں :

رسول (ص) کا ارشاد ہے :''میرے اہل بیت میں ایک شخص قیام کرے گا اور میری سنت و سیرت پر عمل کر ے گا ''(۲)

نیز فرمایا: قائم میرا ہی بیٹا ہے _ وہ میرا ہمنام و ہم کنیت ہے _ اس کی عادت میری عادت ہے وہ لوگوں کو میری طاعت اور دین کی طرف دعوت دے گا اور قرآن کی طرف بلائے گا _(۲)

آپ کا ارشاد ہے :

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۸۳ ۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۸۲ ۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۵۲

۴۱۹

''میرے بیٹوں میں بارہواں ایسے غائب ہوگا کہ دیکھنے میں نہیں آئے گا _ ایک زمانہ آئے گا کہ جس میں اسلام کا صرف نام اور قرآن کا رسم الخط باقی رہے گا _ اس وقت خدا انھیں کی اجازت مرحمت کرے گا اور ان کے ذریعہ اسلام تجدید و تقویت پائے گا '' _(۱)

نیز فرمایا:

'' مہدی موعود (عج) وہ مرد ہے جو میری عترت سے ہوگا اور میری سنت کیلئے جنگ کرے گا جیسا کہ میں نے قرآن کیلئے جنگ کی ہے'' _(۲)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ مذکورہ احادیث کی صریح دلالت اس بات پر ہے کہ امام زمانہ کا پروگرام اور سیرت ترویج اسلام اور تجدید عظمت قرآن ہے اور پیغمبر اکرم کی سنّت کے اجراء کیلئے جنگ کریں گے _

اس بناپر اگر احادیث کے پہلے حصہ میں کوئی اجمال ہے بھی تو وہ اسے ان احادیث کے ذریعہ برطرف کرنا چاہئے _ زمانہ غیبت میں ، دین میں بدعتیں داخل کردی جاتی ہیں اور اسلام و قرآن کے احکام کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال لیا جا تا ہے _ بہت سے حدود و احکام کو ایسے فراموش کردیا جاتا ہے جیسے ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہ تھا _ ظہور کے بعد حضرت مہدی بدعتوں کا قلع قمع کریں گے اور احکام خدا کو ایسے ہی نافذ کریں گے جیسا کہ وہ صادر ہوتے تھے _ اسلامی حدود کو سہل انگاری کے بغیر جاری کریں گے

____________________

۱_ منتخب الاثر ص ۹۸ ۲_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۱۷۹

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455