آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181811 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

سائنسداں میوہ جات کے کیٹروں کی عمرکو اس نوع کے دیگر کیٹروں کی طبیعی عمر سے نو سو گنا بنا نے میں کا میاب ہوگئے ہیں _ یہ کا میابی انھیں اس لئے میسر آئی ہے کے انہوں نے اس جاندار کو ز ہر اور دشمنوں سے محفوظ رکھا اور اس کے لئے مناسب ما حول فراہم کیا تھا(۱)

انجینئر : میں نے بھی اپنے مطالعات کے در میان چند علمی اور دلچسپ مقا لے دیکھے ہیں کہ جن میں سائنسد انوں نے طول عمر کے راز ، ضعیفی و موت کے علل اور ان سے مبارزہ کے متعلق بحث کی ہے _ لیکن وقت ختم ہوگیا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ان کا تجزیہ آیندہ جلسہ پر موقوف کیا جائے _

ہفتہ کی شب میں جناب فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا ، ہوشیار صاحب نے انجینئر صاحب سے خواہش کی کہ اپنے مطالب بیان کریں _

انجینئر : بہتر ہے کہ ان مقالات کامتن ہی آپ حضرات کے سامنے پیش کروں شاید مشکل حل ہو سکے _

طول عمر کے بارے میں

موت کے کارشناس و ماہر پروفسیر متالینکف لکتھے ہیں : انسان کا بدن تیس ٹر یلین مختلف خلیوں سے تشکیل پایا ہے وہ سب یکبار گی نہیں مر سکتے_ اس بنا پر موت موت اس وقت مسلّم ہوگی جب انسان کے مغز میں ایسے کیمیائی تغیرات واقع

____________________

۱ _ منتخب الاثر ص ۲۷۸ منقول از مجلہ الھلال _

۲۴۱

ہوجائیں کہ جن کی مرمت ممکن نہ ہو ۳۰ اگست ۱۹۵۹ء کو ڈاکٹر ہانس سیلی نے کنیڈا کے شہر مونٹرال میں اخباری نمائندوں کو ایک خلیئےی ساخت و بافت دکھائی اور بتا یا کہ یہ زندہ خلیہ حرکت میں ہے اور ہر گز نہیں مرے گا _ موصوف نے مزید دعوی کیا کہ یہ خلیہ ازلی ہے اور کہا : اگر انسان کے بافت خلیہ بھی اسی شکل میں لے آئیں تو انسان ایک ہزار سال تک زندہ رہے گا _

پر وفیسر سیلی کا خیال ہے کہ موت تھیوری کے نقطہ نگاہ سے ایک تدریجی بیماری ہے _موصوف ہی کا نظریہ ہے کہ کوئی شخص بڑھا پے کی وجہ سے نہیں مرتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص ضعیفی کی وجہ سے مرے تو اس کے بدن کے خلیوں کو فرسودہ اور بیکار ہوجانا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ بہت سے بوڑھوں کے مختلف اعضاء اور ان کے بدن کے خلئے سالم رہتے ہیں ان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا _ بعض لوگوں کا انتقال اس لئے اچانک ہوجاتا ہے کہ یک بیک ان کے بدن کا کوئی عضو بیکار ہوجاتا ہے اور چونکہ بدن کے تمام اعضاء ایک مشین کے پرزوں کی طرح مربوط و متصل ہیں اس لئے ایک کے بے کار ہوجانے سے سارے بیکار ہوجاتے ہیں _ پروفیسر سیلی نے اعلان کیا علم طب و میڈیکل سائنس ایک دن اتنی ترقی کرے گا کہ فرسودہ خلئے کی جگہ انجکشن کے ذریعہ نیا خلیہ انسان کے بدن میں رکھدیا جائے گا اور اس طرح انسان جب تک چاہے گا زندہ رہے گا _(۱)

ای ای مچنیکف کے نقطہ نظر سے فیزیولوجی بڑھاپے جو کہ طبیعی پیش رفت کا

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۷

۲۴۲

نتیجہ ہے اور اس ضعیفی کو جو کہ ارگانزم کی اساس پر مختلف تاثیرات _ زہر ، امراض اور دوسرے مخصوص عوامل _ کا نتیجہ ہے ، کو معین کر سکتا ہے _ اس کے نظریات کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کا بڑھا پا ایک بیماری ہے لہذا تمام بیماریوں کی طرح اس کا بھی علاج ہونا چاہئے اس کا نظریہ تھا کہ انسان کی زندگی موجودہ زندگی سے زیادہ ہوسکتی ہے اور مزید آگے بڑھ سکتی ہے _ انسان کی زندگی درمیان را ہ گم ہوتی ہے ، اپنی اصل منزل تک نہیں پہنچتی ، لیکن میرے لحاظ سے تمام کوشش کرنا چاہئے تا کہ بشر بڑھاپے ، انحطاط کے بغیر اپنی فیزیولوجی کی عادی ضعیفی تک پہنچ جائے _(۱)

طول عمر

پروفیسر سلیہ اور اس کا عملہ ایک طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کیلشم( calcium ) کا نقل و انتقال ضعیفی اور اس کی تغیرات کا عامل ہے _ کیا بڑھا پے کے عوارض کے علاج کے لئے کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے یا نہیں؟ سلیہ نے مکرر تجربوں کے بعد ، ایرون ڈکٹر ان کے مادہ کا انکشاف کیا ہے جو کیلیشیم کو اجزاء ترکیبی سے روکتا ہے _ اس بناپر کہاجاتا ہے کہ ضعیفی کی علامتیں اور عوارض حیوانات پر کئے جانے والے تجربوں کے ذریعہ انسان کی دست رس میں آچکے ہیں اور اس سے تحفظ کا وسیلہ مل گیا ہے _ پروفیسر سلیہ کا نظریہ ہے کہ اس بات کا تو احتمال بھی نہیں دیا جا سکتا کہ نوے سالہ انسان کو ساٹھ سالہ انسان کی زندگی کی حالت کی طرف پلٹا یا جا سکتا ہے لیکن ساٹھ

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۵ ۱۳۴۲ ھ ش _

۲۴۳

سالہ انسان کی زندگی کو عوارض سے بچا کر نوے سالہ عمر میں بھی ساٹھ سالہ عمر کی حالت میں رکھا جا سکتا ہے _(۱)

پروفیسر اتینگر نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا:'' جوان نسل ایک دن انسان کی جاویدانی اور ابدی حیات کو اسی طرح قبول کرے گی جیسا کہ آج لوگوں نے فضائل سفر کو تسلیم کر لیا ہے _ میرا نظریہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس تحقیق سے جس کا ہم نے آغاز کیا ہے کم از کم آئندہ صدی کا انسان ہزاروں سال کی زندگی بسر کرے گا _(۲)

ایک روسی کتاب کا خلاصہ

روس کا مشہور سائنسدان مچنیکوف طویل العمری کو انسان کی قدیم ترین امیدوں میں سے اسک کہتا ہے _ لیکن ابھی تک عمر میں اضافہ کے لئے کوئی عملی طریقہ کشف نہیں ہوسکا ہے _ واضح ہے کہ طبیعی زندگی کے خاتمہ کا نام موت ہے اور کسی جاندار کو اس سے مضر نہیں ہے _

۱_ ضعیفی کی علّت انسان کا بدن تقریباً ساٹھ تریلین خلیوں سے تشکیل پایا ہے _ یہ خلئے ایک منزل پر پہنچ کربوڑھے ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں اپنی زندگی کی ضرورت کو بڑی مشکل سے پورا کرتے ہیں _ ان کی تولید مثل میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد انسان مرجاتا

____________________

۱_ دانشمند شمارہ۵ ۳۴۲۱ ہ ش

۲_ دانشمند شمارہ ۶ سال ششم

۲۴۴

ہے _ عصبی خلئے اور مرجانے والے عضلات کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھ جاتی ہے اور ایک کپڑے کی شکل میں سخت ہوجاتے ہیں _ اس سخت ہونے سے ماہیچے اور اعصاب ، مرجانے اور بڑھنے والے خلیوں ، جن کو اسکلروز soclerose کہتے ہیں جیسے قلب کے اسکلروز ، رگوں کے اسکلروز ، اعصاب کے اسکلروز و غیرہ _

روس کے مشہور ڈاکٹر اور فیزیولوجسٹ ایلیا مچنیکوف کا خیال تھا کہ یہ وقوعہ ٹرکشین کے زہر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے _ حیوان کے بدن میں جراثیم جاگزین ہوجاتے ہیں اور اس زہر کو انسان اندرونی اعضا میں پیدا کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ زندہ خلیوں کے تعمیر کو مسموم کردیتے ہیں _ پالوف کا نظریہ تھا کہ اعصاب کا سلسلہ خصوصاً مغز کا خارجی دباؤ ضعیفی میں بنیادی اثر رکھتا ہے ، نفسیاتی تاثرات ، غصہ ، دل تنگی ، یاس اور وحشت سے بدن کے امراض پیدا ہوتے ہیں کہ جس سے بڑھا پا اور اس کے بعد موت آجاتی ہے _ دائمی زندگی کا خواب ایک سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں ہے _ لیکن انسان کی عمر بڑھانا اور ضعیفی پر غلبہ پاناممکن عمل ہے _

۲_ ضعیفی شناسی اور موت شناسی

تقریباً تین سو سال قبل علم الحیات کی ایک نئی شاخ ضعیفی شناسی ( cetmotologei ) وجود میں آئی _ اس علم کا مقصد بڑھا پے پر غلبہ پانے کیلئے عملی قوانین کی معرفت و شناخت ہے _ اس اور موت شناسی کے علم کے درمیان لطیف رابطہ ہے ، موت سے مربوط قوانین کا مطالعہ اور ممکن حد تک اسے پیچھے ہٹانا اس علم کے مسائل ہیں جو کہ اسی لم کے قلم روکا جز ہیں ، سائنسدانوں کے نقطہ نظر کے مطابق موت ہمیشہ اختلال کی وجہ سے آتی ہے جبکہ زندگی کے خاتمہ پر آنے والی موت کو فیزیالوجی کہتے ہیں_

۲۴۵

اب سائنسدان عمر بڑھانے کیلئے کوئی منطقی اور طبیعی راہ کی تلاش میں منہمک ہیں زندگی کی حد کے سلسلے میں دانشوروں کے درمیان اختلاف ہے _ پاؤلوف انسان کی طبیعی حیات کی حد سو سال قرار دیتا تھا _مچنیکوف نے یک سو چالیس سے ایک سو پچاس تک تحریر کی ہے _ جرمنی کے مشہور سائنسدان گو فلانڈ کا خیال تھا کہ انسان کی عام عمر ۲۰۰ سال ہے _ انیسویں صدی کے مشہور فیزیولوجسٹ فلوگرنے ۶۰۰ سال اور برطانوی ورد جربیکن نے ۱۰۰۰ سال تحریر کی ہے _ لیکن کوئی سائنسدان بھی اپنے مدعا پر اطمینان بخش دلیل پیش نہیں کرسکا _

۳_فرانسوی بوفوںکا فریضہ

فرانس کے مشہور طبیعی داں بوفون کا نظریہ تھا کہ ہر جاندار کی مدت عمر اس کے رشد کے زمانہ کے پانچ گناہوتی ہے _مثلاً شتر مرغ کے نمو کی عمر آٹھ سال ہے تو اس کی عمر کا اوسط چالیس سال ہے _ گھوڑے کے رشد کا زمانہ ۳ سال ہے تو اس کی عمر ۱۵_ ۲۰ سال ہوتی ہے _ بوفون نے اس طرخ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان کے نمو کی مدت ۲۰ سال ہے لہذا اس کی عمر کا اوسط ۱۰۰ سال ہے _ لیکن بوفون کے فارمولہ میں بے پناہ استثنائی موارد ہیں اسی لئے اسے اہمیت نہیں دی گئی ہے کیونکہ گوسفند کے رشد کی عمر پانچ سال ہے اور اس کی کل عمر ۱۰_ ۱۵ سال ہوتی ہے _ طوطے کی رشد کا زمانہ ۱۲ سال ہے لیکن سو سال تک زندہ رہتا ہے _ با وجودیکہ شتر مرغ کے رشد کی عمر تین سال میں ختم ہوجاتی ہے لیکن ۳۰_۴۰ سال تک زندہ رہتا ہے _ سائنسدان ابھی انسان کی طبیعی زندگی کی یقینی سر حد معین نہیںکر سکے ہیں _ لیکن ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ عمر گھٹا نے والے اختلال اور بیماریوں کو رفع کرکے انسان کی عمر کو ۲۰۰ سال تک بڑھایا

۲۴۶

جا سکتا ہے _ یہ نظریہ بھی ابھی تک تھیوری ہی کی صورت میں موجود ہے مگر اسے موہوم اور غیر حقیقی نہیںقرار دیا جا سکتا _

۴_ انسان کی متوسط عمر

قدیم یونان میں انسان کی متوسط عمر ۲۹ سال اور قدیم روم میں اسے کچھ زیادہ تھی سولھویں صدی میں یورپ میں انسان کی عمر ۲۱ سال ، ستر ہویں صدی میں ۲۶ سال اور انیسویں صدی میں متوسط عمر ۳۴ سال تھی _ لیکن بیسویں صدی کی ابتداء میں یہ شرح یکبارگی ۴۵_۵۰ تک پہنچ گئی _ مذکورہ شرح یورپ سے متعلق ہے _ آج کے دنیا میں طویل العمری اور موت کے کم ہونے کی بہترین دلیل بچے ہیں _ لیکن پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک میں اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے _ مثلاً روس میں متوسط عمر ۷۱ سال اور ہندوستان میں ۳۰ سا ل ہے _

حیوانات کے درمیان انسان کی عمر اوسط کوئی زیادہ نہیں ہے انسان کی عمر کے نسبی اوسط (۶۰_۸۰) کا ذیل میں موازنہ ملاحظہ فرمائیں:

بطخ ۳۰۰سال گول مچھلی ۱۵۰سال

کچھوا ۱۷۰سال مینڈک ۱۶سال

چھپکلی ۳۶سال طوطا ۹۰ سال

کوّا ۷۰سال جنگلی مرغی ۸۰ سال

شتر مرغ ۴۰ - ۳۵ سال جالاقان ۱۱۸سال

عقاب ۱۰۴ سال شاہین ۱۶۲ سال

گھوڑا گائے ۲۵ - ۳۰ سال گوسفند ۱۴_۱۲ سال

۲۴۷

بکری ۲۷_۱۸ سال کتّا ۲۲_۱۶ سال بلّی ۱۲_ ۱۰ سال

۵_ روسی سائنسدان مچنیکوف کا نظریہ

اگر ایلیا مچنیکوف کے نظریہ میں غور کیا جائے تو انسان کے نسبی سن کا چند جانوروں سے اختلاف واضح ہوجائے گا _ مچنیکوف مرگ مفاجات اور بڑھاپے کی علت خلیوں کی مسمومیت اور بیکیڑیا کے جسم کے اندر زہر پھیلانے کو قرار دیتا ہے _ یا درہے بدن کے دیگر حصّوں سے زیادہ : Rotrotic ، بیکٹیریا کا محبوب حصّہ ہے _

تخمینہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں روزانہ ۱۳۰ ٹریلین جراثیم پیدا ہوتے ہیں Rotrotic کے بہت سے جراثیم بدن کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن ان میں سے بعض زہریلے ہوتے ہیں _ یہ بدن کو اندر سے اپنے زہر کے وسیلہ سے قتل کی طرح مسموم کرتے ہیں _ احتمال ہے کہ بدن کے خلئے اور اس کا نظام ( بافتہا) اس زہر کی وجہ سے جلد بوڑھا ہوجاتا ہے _ مذکورہ جدول سے علوم ہوتا ہے کہ پیٹ کے بل چلنے والی مچھلیاں اور پرندے پستان دار جانوروں سے زیادہ زندہ رہتے ہیں _ کیونکہ ان جانوروں کے اندر فراخ Rotrotic نہیں ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو ایسی میں رشد بہت کم ہوتا ہے _ پرندوں میں صرف شتر مرغ فراخ Rotrotic ہوتا ہے ، اور جیسا کہ جدول سے سمجھ میں آتا ہے اس کی عمر بھی ۳۰_ ۴۰ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے _ ان حیوانات میں کچھ جگالی کرنے والے ہیں کہ انکی زندگی سب سے کم ہوتی ہے _ اس کی وجہ شاید ان کے اندر فراخ کی نمو ہے _ جمگادڑ کے اندر بھی ایک چھوٹا Rotrotic ہوتا ہے چنانچہ حشرہ خوار جانوروں میں چمگاڈر کے ہم بدن سے زیادہ اس کی عمر ہوتی ہے _ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں rotrotic کے فراخ و طویل ہونا بھی دخیل ہے _ لیکن اسے زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ جس کا مچنیک نے اظہار کیا ہے _ بعض افراد نے آپریشن کے ذریعہ فراخ Rotrotic کو انکلوادیا تو

۲۴۸

مدتوں زندہ رہے _ یہ بات مسلّم ہے کہ بدن کیلئے اس عضو کا وجود ضروری نہیں ہے لیکن ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے فراخ Rotrotic کے باوجود طویل عمر بسر کی ہے _ ضعیفی شناسی کے دانشوروں نے ایسے افراد کی تحقیقی کی ہے _

۶_ مستقبل کا انسان طویل عمر پائے گا

جن لوگوں نے دنیا میں ایک سو پچاس سال سے زیادہ زندگی گزاری ہے وہ انگشت شمار ہیں ، ان میں سے جن کے نام کتابوں میں مرقوم ہیں وہ درج ذیل ہیں:

سنہ ۱۷۲۴ ء میں ایک دہقان مجار ۱۸۵ سال کی عمر میں مرا ، جو کہ اپنی آخری عمر تک جوانوں کی طرح کام کرتا تھا _

ایک اور شخص جان راول کیعمر مرتے دم ۱۷۰ سال تھی اور اس کی زوجہ کی ۱۶۴ سال تھی _ ۱۳۰ سال انہوں نے ازدواجی زندگی بسر کی _

ایک آلبانوی باشندہ ، خودہ ۱۷۰ سال تک زندہ رہا _ مرتے دم اس کے پوتے ، پوتیوں نواسے نواسیوں اور ان کی اولاد کی تعداد ۲۰۰ تھی _

چند سال قبل اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ جنوبی امریکہ میں ایک شخص مرا ہے جس کی عمر ۲۰۷ سال تھی _

روس میں ایسے تیس ہزار افراد ہیں جو کہ اپنی زندگی کی دوسری صدی گزار رہے ہیں _ اب روس کے سائنسدان بڑھاپے کی علت اور طول عمر کے راز کے انکشاف کرنے میں مشغول ہیں _ یقینا مستقبل میں علم انسان ضعیفی پر قابو پالے گا اور نتیجہ میں انسان اپنے آبا و اجداد سے زیادہ عمر پائے گا _(۱)

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۱ ، سال ششم

۲۴۹

موت کی علّت کے سلسلہ میں غیر معروف فرضیہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدن سے روح کے جدا ہونے کا نام موت ہے ، لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا روح کی مفارقت کی علت بدن اور اس کے عوارض ہیں؟کیا جسم ہی موت کے اسباب فراہم کرتا ہے؟

اکثر علماء اور اطبّاء نے پہلے نظریہ کو تسلیم کیا ہے وہ کہتے ہیں: جب بدن کی غریزی حرارت ختم ہوجاتی ہے تو بدن کا عام نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے اور اس کے آلات و قوا بیکار ہوجاتے ہیں ، بدن کے اعضاء رئیسہ فرسودہ ہوجاتے ہیں ، بقا کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور چونکہ روح اس فرسودہ جسم کی حیات کو جاری رکھنے اور اسے چلانے سے عاجز ہوجاتی ہے اس لئے اس سے جدا ہوجاتی ہے اور موت واقع ہوتی ہے _

لیکن اس گروہ کے مقابل میں بڑے اسلامی فلاسفر مرحوم ملاّ صدرا دوسرے نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں ،وہ اپنی کتاب ''اسفار'' میں لکھتی ہیں :'' جسم کی حفاظت اور اسے چلانے کی ذمہ داری روح پر ہے _ جب تک اسے بدن کی زیادہ ضرورت رہتی ہے اس وقت تک وہ بدن کی حفاظت و نگہبانی میں کوشاں رہتی ہے ، ہر طرح سے اس کا تحفظ کرتی ہے _ لیکن جب وہ مستقل اور بدن سے مستغنی ہوجاتی ہے تو پھر بدن کی طرف توجہ نہیں دیتی جس کے نتیجہ میں ضعف ، سستی اور اختلال پیدا ہونے لگتا ہے اور فرسودگی و ضعیفی آجاتی ہے یہاں تک کہ روح بدن کے امور کو بالکل نظر انداز کردیتی ہے اور طبیعی موت واقع ہوجاتی ہے ''_

احباب جانتے ہیں کہ اگر دوسرا نظریہ ثابت ہوجائے اور موت کا اختیار روح کے ہاتھ میں ہوتو صاحب الامر کی طول عمر کے موضوع کی راہ ہموار ہوجائے گی _ یہ کہا

۲۵۰

جا سکتا ہے کہ : چونکہ آپ (ع) کی روح کو دنیائے انسانیت اور عالم کی اصلاح کے لئے آپ کے وجود کی ضرورت ہے _ اس لئے بدن کی حفاظت و نگہبانی میں مستقل کوشش کرتے ہے اور اپنی جوانی و شادابی کو محفوظ رکھتی ہے _

آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ میں اس وقت اس مدعا کی صحت کو ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں اور نہ اس سے دفاع کی خواہش ہے _ سردست میں نے دوستوں کے سامنے غیر معروف فرضیہ کے عنوان سے پیش کیا ہے _ مجھے اس با ت کا اعتراف ہے کہ یہ غیر مانوس اور نئی بات ہے لیکن بغیر غور و فکر کے اسے باطل نہیں سمجھنا چاہئے _ قطعی فیصلہ اس وقت کیا جا سکتا ہے جب حقیقت نفس ، بدن پر اسکی تاثیر کی مقدار اور اس کی ارتباط کی کیفیت و تاثیر بخوبی پہچان لی جائے اور یہ بہت دشوار ہے کہ اس میں فلسفی و نفسیاتی اور بیالوجی کے ایک طویل سلسلہ کے تجربہ کی ضرورت ہے _ ابھی انسان کا علم اس حد تک نہیں پہنچاہے کہ حقیقت نفس اور اس کے بدن سے ارتباط کے بارے میں فیصلہ کرلے بلکہ ابھی وہ اپنے نفس و نفسیات کے ابتدائی مراحل طے کررہا ہے _ اگر علم آدمی کی روح و تن کی طرف متوجہ ہوگیا ہوتا تو یقینا ہماری دنیا کی حالت کچھ اور ہی ہوتی _

ڈاکٹر اکلسیس کارل اپنی کتاب '' انسان موجود ناشناختہ ، میں لکھتا ہے ، ہمیں بھی اپنی وجودی تعمیر کے بارے میں کافی علم حاصل نہیں ہوا ہے ،اگر نیوٹن ، گالیلہ اور لاوازیہ اپنی فکری صلاحیت انسان کے بدن و نفسیات کے مطالعہ پر صرف کرتے تو ہماری دنیا کی حالت ہی بدل گئی ہوتی _

۲۵۱

نتیجہ

ہوشیار: مذکورہ مطالب سے چند چیز یں سمجھ میں آتی ہیں:

۱_ انسا ن کی عمر کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوزنا ممکن ہو _ کسی بھی سائنسدان نے ابھی تک یہ نہیں کہا ہے کہ انسان کی عمر کا فلاں سال اس کے کاردان حیات کی آخری منزل ہے اس پر قدم رکھتے ہی موت آجائے گی _ بلکہ مشرق و مغرب کے جدی و قدیم سائنسدانوں کے ایک گروہ نے تصریح کی ہے کہ انسا ن کی عمر کی کوئی حد نہیں ہے _ ممکن ہے انسان آئندہ موت پر قابو پالے یا اسے کافی حد تک پیچھے ہٹادے کہ جس سے طولانے عمر پائے _ اس علمی امید کی کامیابی نے سائنسدانوں کو شب و روز کی کوشش اور تحقیق و تجربہ پر مجبور کیا ہے چنانچہ ابھی تک اس سلسلہ میں جو تجربات ہوئے ہیں وہ کامیاب رہے ہیں _

ان تجربات نے یہ ثابت کردیا کے موت بھی تمام بیماریوں کی طرح کچھ طبیعی علل و عوامل کا نتیجہ ہے اگر ان عوامل کو پہنچان لیا جائے اور ان کے اثرات کو روک دیا جائے تو موت کو پیچھے ہٹا یا جا سکتا ہے اور انسان کو اس خوفناک ہیولے سے نجات دلائی جا سکتی ہے _ جس طرح علم نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و عوامل کو کشف کرلیا ہے اوراس کی تاثیر کا سد باب کردیا ہے _ اسی طرح مستقبل قریب میں موت کے اسباب و علل کو پہچاننے اور اس کے اثرات کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائے گا _

۲_ نباتات ، حیوانات اور انسانوں کے درمیان ایسے افراد موجود ہیں کو جو اپنی نوع کے دیگر افراد سے ممتاز ہیں اور ان سے زیادہ طویل عمر پائی ہے _ ایسے استثنائی افراد کا وجود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نوع کے افراد کی عمر کی ایسی کوئی حد نہیں ہے کہ جس سے آگے بڑھنا محال ہو _ یہ صحیح ہے کہ اکثر انسان سو سال

۲۵۲

کی عمر سے پہلے ہی مرجاتے ہیں لیکن عمر کی اس مقدار سے مانوس ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ سوسال سے زیادہ عمر کا امکان ہی نہیں ہے _ کیونکہ ایسے بہت سے افراد گزرے ہیں جنہوں نے سو سال سے زیادہ عمر بسر کی ہے _ ایک سو پچاس سالہ ، ایک سو اسی سالہ اور دو سو پچاس سالہ انسان کاوجود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عمر انسان کی کوئی حد معین نہیں ہے _ دو سو پچاس سال اور دو ہزار سال زندگی گزارنے میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں غیر مانوس ہیں _

۳_ ضعیفی کوئی ایسا عارضہ نہیں ہے کہ جس کا کوئی علاج نہ ہو بلکہ یہ قابل علاج بیماری ہے جیسا کہ علم طب نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و اسباب کشف کرلئے ہیں اور انسان کو ان کے علاج کا طریقہ بتادیا ہے اسی طرح مستقبل میں ضعیفی و بڑھاپے کے عوامل کشف کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گا اور ان کا علاج انسان کے اختیار میں دیدے گا _ سائنسدانوں کا ایک گروہ اکسیر جوانی کی تلاش میں ہے اور انتھک کوشش و تحقیق اور تجربات میں مشغول ہے ، ان کے تجربات کامیاب رہے ہیں کہ جن کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں انسان ضعیفی اور فرسودگی کے عوامل پر قابو پالیگا اور ان عام بیماریوں کے علاج کا طریقہ تلاش کرے گا _ اس صورت میں انسان عرصہ دراز تک اپنی جوانی و شادابی کو ملحوظ رکھے گا _

مذکورہ مطالب اور سائنسدانوں کی تصدیق کی مدنظر رکھتے ہوئے آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اگر کوئی انسان جسمانی ساخت و ترکیب کے لحاظ سے نہایت ہی معتدل ہو ، اس کے اعضاء رئیسہ ، قلب ، اعصاب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور معدہ سب قوی اور سالم ہوں _ وہ حفظان صحت کے تمام اصولوں سے واقف ہو اور ان پر

۲۵۳

کاربند ہو _ مشروبات و ماکولات کے خواص و فوائد جانتا ہو ، ان میں سے مفید کو استعمال اور مضر سے پرہیز کرتا ہو ، جراثیم اور ان کی پیدا دار کے عوامل کو پہچانتا ہو ، امراض اور خصوصاً ضعیفی کے علاج سے آگاہ ہو _ زہر و مہلکات سے باخبر ہو ، ان سے اجتناب کرتا ہو ، بدن کی ضروری احتیاج کو غذا اور وٹامن و غیرہ سے پورا کرتا ہو ، والدین اور اجداد سے کوئی بیماری میراث میں نہ پائی ہو ، برے اخلاق ، پریشان خیالی ، جو کہ اعصاب و مغز کی فرسودگی اور دیگر بیماریوں کا باعث ہوتی ہے ، سے محفوظ ہو ، اس میں ایسے تمام نیک اخلاق موجود ہوں جو روح و جسم کے سکون کا باعث ہیں اور ان تمام چیزوں کے علاوہ اس کے جسم کا حاکم و مدیر انسانی کمال کے اعلی درجہ پر ہو تو ایسے انسان میں ہزاروں سال زندگی گزارنے کی صلاحیت ہوگی _ ایسی طویل عمر کو عمل و دانش نہ صرف یہ محال قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے امکان کا اثبات کرتے ہیں _

اس بناپر امام زمانہ کی طویل عمر کو محال اور لا ینحل مشکل نہیں قراردینا چاہئے _ کہ علم بہت طویل عمر کو جوانی و شادابی کی طاقت کی حفاظت کے ساتھ ممکن قراردیتا ہے _ اگر کسی شخص کا وجود عالم کیلئے ضروری ہو اور طویل عمر در کار ہو تو قادر مطلق خدا دنیا کے علل و معلولات اور خلقت کی مشینری کو اس طرح منظم کرے گا کہ جو ایسا کامل انسان پیدا کرے گی جو ضروری علم و اطلاعات کاحامل ہوگا _

ڈاکٹر:مذکورہ مطالب صرف ایسے ممتاز انسان کے وجود کو ثابت کرتے ہیں لیکن یہ بات کہاں سے ثابت ہوئی کہ ایسا انسان موجود بھی ہے؟

ہوشیار: عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نوع کی بقا کیلئے

۲۵۴

امام کا وجود ضروری ہے اور بہت سی احادیث کا اقتضا ہے کہ امام صرف بارہ ہوں گے اور یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ بارہویں امام ،امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند مہدی موعود ہیں جو کہ پیدا ہوچکے ہیں اور اب پردہ غیب میں ہیں _ اس سلسلہ میں سیکڑوں حدیثیں نقل ہوئی ہیں _ مذکورہ مطالب اور دانشوروں کی تائید کے بعد ہم نے ایسے غیرمتعارف عمر کے امکان کو ثابت کیا ہے _

تاریخ کے درازعمر

انجینئر : یہ کیسے ممکن ہے کہ خلقت کی مشنری نے صرف امام زمانہ ہی کو اتنی طویل عمر عطا کی ہے جسکی مثال نہیں ملتی ؟

ہوشیار: دنیا میں ایسے افراد کمیاب تھے اور ہیں _ منجملہ ان کے حضرت نوح (ع) ہیں _ بعض مورخین نے آپ(ع) کی عمر ۲۵۰۰ سال تحریر کی ہے _ توریت میں ۹۵۰ سال مرقوم ہے _

قرآن مجید صریح طور پر کہتا ہے کہ حضرت نوح (ع) نے ۹۵۰ سال تک اپنی قوم کو تبلیغ کی چنانچہ سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے کہ :

اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان نو سو پچاس سال رہے پھر قوم کو طوفان نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ وہ ظالم لوگ تھے _(۱)

____________________

۱_ عنکبوت/۱۴_

۲۵۵

اگر ہم مورخین کے قول کی تکذیب بھی کردیں تو قرآن مجید میں کسی قسم کے شک گنجائشے ہی نہیں ہے کہ جس نے حضرت نوح کی تبلیغ کا زمانہ ۹۵۰ سال بتا یا ہے جبکہ یہی عمر غیر معمولی ہے _

انجینئر : میں نے سنا ہے کہ یہ آیت متشابہات میں سے ہے؟

ہوشیار : متشابہات میں سے سے کیسے ہوسکتی ہے _ کیا مفہوم و معنی کے لحاظ سے مجمل و مبہم ہے ؟ عربی زبان سے جو شخص معمولی شد و بد بھی رکھتا ہے وہ اس آیت کے معنی کو بخوبی سمجھ سکتا ہے _ اگر یہ آیت متشابہات میں سے ہے تو قرآن میں کوئی محکم آیت نہیں ملے گی میں ایسے افراد کی بات کے بے معنی سمجھتا ہوں یا انھیں قرآن کا منکر کہا جائے کہ جن کے اظہار کی جرات نہیں رکھتے تھے _

مسعودی نے اپنی کتاب میں کچھ طویل العمر لوگوں کے نام مع ان کی عمروں کے درج کئے ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہیں :

حضرت آدم کی عمر : ۹۳۰ سال ، حضرت شیث : ۹۱۲ سال ، انوشّ : ۹۶۰ سال قینان : ۹۲۰ سال _ مہلائل : ۷۰۰ سال ، لوط : ۷۳۲ سال ، ادریس : ۳۰۰ سال

متو شلخ : ۹۶۰ سال ، لمک : ۷۹۰ سال ، نوح : ۹۵۰ سال ، ابراہیم : ۱۹۵ سال کیو مرث : ۱۰۰۰ سال ، جمشید : ۶۰۰ یا ۹۰۰ سال ، عمربن عامر : ۸۰۰ سال عاد : ۱۲۰۰ سال _ ۱

اگر آپ تاریخ وحدیث اور توریت کا مطالعہ فرمائیں گے تو ایسے بہت سے

____________________

۱_ مروج الذہب ج ۱ و ۲

۲۵۶

لوگ میلں گے _ لیکن واضح رہے کہ ان عمروں کا مدارک توریت یا اس کی تواریخ ہیں اور اہل تحقیق پر ان کی حالت پوشیدہ نہیں ہے یا خبر واحد مدرک ہے جس سے یقین حاصل نہیں ہوتا یا غیر معتبر تواریخ مدرک ہیں _ بہر حال مبالغہ سے خالی نہیں ہیں اور چونکہ ان کی صحت مجھ پر واضح نہیں ہے اس لئے ان سے استدلال و بحث سے چشم پوشی کرتا ہوں اور صرف حضرت نوح کی طویل العمری ہی کو ثبوت میں پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہمں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو المعمروں و الوصایا مولفہ ابی حاتم سجتانی اور ابوریحان بیرونی کی الآ ثار الباقیہ اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

۲۵۷

امام زمانہ عج کا مسکن

فھیمی : زمانہء غیب میں امام زمانہ کا مسکن کہاں ہے ؟

ہوشیار : آپ (ع) کے مسکن کی تعین نہیں ہوئی ہے _ شاید کوئی مخصوص نہ ہو بلکہ اجنبی کی طرح لوگوں کے در میان زندگی بسر کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے دور افتادہ علاقوں کورہا ئشے کیلئے منتخب کیا ہو _ احادیث میں دارد ہوا ہے کہ حج کے زمانہ میں آپ تشریف لاتے اور اعمال و مناسک حج میں شریک ہوتے ہیں لوگوں کوپہچانتے ہیں لیکن لوگ انھیں نہیں پہنچان پاتے _(۱)

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام زمانہ اسی سرداب میں ،جو کہ آپ سے منسوب ہے اور زیارت گاہ بنا ہوا ہے ، غائب ہوئے ہیں _ اس میں زندگی گزارتے ہیں اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے _ اگر اس سرداب میں موجود ہیں تو دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟ ان کیلئے کھانا پانی کون لے جاتاہے ؟ وہاں سے نکلتے کیوں نہیں؟ عرب کے شاعر نے اس مضمون پر مشتمل کچھ اشعار کہے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے : کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ جس میں سرداب اس شخص کو

____________________

۱_ بحارالانوارج۲ص۱۵۲

۲۵۸

باہرنکالے جسم تم انسان کہتے ہو؟ تمہاری عقلوں پر پتھر پڑگئے ہیں کہ عنقا اور خیالی چڑیا کے علاوہ ایک تیسرا موجود بھی ایجاد کرلیا _

ہوشیار: یہ محض جھوٹ ہے اور عناد کی بناپر اس کی نسبت ہماری طرف دی گئی ہے _ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے _ کسی روایت میں بیان نہیں ہوا کہ بارہویں امام سرداب میں زندگی گزاتے ہیں اور وہیں سے ظاہر ہوں گے _ کسی شیعہ دانشور نے بھی ایسی بات نہیں کی ہے _ بلکہ احادیت میں تو یہ ہے کہ امام زمانہ (ع) لوگوں کے درمیان ہی زندگی گزارتے ہیں اور ان کے درمیان آمد ورفت رکھتے ہیں _

سدیر صیرفی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے آپ(ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر اس لحاظ سے حضرت یوسف سے مشابہہ ہیں کہ برادران یوسف بھی آپ (ع) کو نہیں پہچان سکے تھے جبکہ عاقل بھی تھے اور یوسف کے ساتھ زندگی بھی گزارچکے تھے _ لیکن جب یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو جب تک یوسف (ع) نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا اس وقت تک آپ کو نہیں پہچان سکے اور باوجودیکہ یوسف حضرت یعقوب سے اٹھارہ روز کے فاصلہ پر تھے لیکن یعقوب کو آپ کی کوئی اطلاع نہیں تھی _ خدا حضرت حجّت کیلئے بھی ایسا ہی کرے گا _ لوگوں کو اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے _ آپ (عج) لوگوں کے درمیان آتے جاتے ہیں ان کے بازار میں تشریف لے جاتے ہیں ، ان کے فرش پر قدم رنجا ہوتے ہیں لیکن انھیں نہیں پہچان پاتا _ اسی طرح زندگی گزارتے رہیں گے _ یہاں تک خدا ظہور کاحکم فرمائے گا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۵۴_

۲۵۹

اما م کی اولاد کے ممالک

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام زمانہ کی بہت سے فرزندہیں جو کہ وسیع و عریض ممالک ظاہرہ ، رائقہ ، صافیہ ، ظلوم اور عناطیس میں زندگی گزارتے ہیں اور آپ کی اولاد میں سے لائق و شائستہ پانچ افراد ، طاہر ، قاسم ، ابراہیم ، عبدالرحمن اور ہاشم ان ممالک پر حکومت کرتے ہیں _ ان ملکو ں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں کی آب و ہوا اور نعمتیں بہشت برین کا نمونہ ہیں _ وہاں مکمل امن و امان ہے ، بھیڑیا اور بکری ایک جگہ رہتے ہیں _

درندے انسانوں کو کچھ نہیں کہتے _ ان ممالک کے باشندے مکتب امام کے تربیت یافتہ شیعہ اور صالح افراد ہیں ، فتنہ و فساد کا وہاں گزر نہیں ہے _ کبھی کبھی امام زمانہ بھی ان نمونہ ممالک کے معائنہ کے لئے تشریف لاتے ہیں ، ایسی ہی اور سیکڑوں دلچسپ باتیں ہیں

ہوشیار : ان مجہول ممالک کی داستان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ نہیں ہے _ ان کا مدرک وہ حکایت ہے جو حدیقة الشیعہ ، انور نعمانیہ اور جنة الماوی میں نقل ہوئی ہے مدعا کی وضاحت کی لئے ہم اس کے سند بیان کرتے ہیں :

داستان اس طرح نقل ہوئی ہے : علی بن فتح اللہ کاشانی کہتے ہیں : محمد بن حسین علوی نے اپنی کتاب میں سیعد بن احمد سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا : حمزہ بن مسیب نے شعبان کی ۸ تاریخ سنہ ۵۴۴ ھ میں مجھ سے بیان کیا کہ عثمان بن عبدالباقی نے جمادی الثانی کی ۷ تاریخ سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد بن یحیی انباری نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں بتایا کہ : میں اور دوسرے چند اشخاص عون الدین یحیی بن ہبیرہ وزیر

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

بشیر کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : لوگ کہتے ہیں کہ جب مہدی قیام کریں گے تو اس وقت ان کے امور طبیعی طور پر روبرو و ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر بھی خونریزی نہیں ہوگی ؟ آپ (ع) نے فرمایا :

'' خدا کی قسم حقیقت یہ نہیں ہے _ اگر یہ چیز ممکن ہوتی تو رسول خدا کیلئے ہوتی _

میدان جنگ میں آپ کے دانت شہید ہوئے اور پیشانی اقدس زخمی ہوئی _ خدا کی قسم صاحب الامر کا انقلاب اس وقت تک برباد نہ ہوگا _ جب تک میدان جنگ میں خونریزی نہیں ہوگی _ اس کے بعد آپ نے پیشانی مبارک پر ہاتھ ملا _ ''(۱)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہدی موعود کو صرف الہی تائید اور غیبی مدد کے ذریہ کامیابی نہیں ہوگی اور یہ طے نہیں ہے کہ ظاہری طاقت سے مدد لئے بغیرہ معجزہ کے طور پر اپنے اصلاحی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں ، بلکہ تائید الہی کے علاوہ آپ(ص) جنگی اسلحہ اور فوج کو استعمال کریں گے _ علوم و صنعت اور

خوفناک جنگی اسلحہ کی اختراع کو بھی مد نظر رکھیں گے _

مذکورہ دونوں مقدموں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ مہدی موعود کے ظہور کے شرائط کیا ہیں؟ آپ(ع) کے انقلاب و تحریک کے سلسلہ میں مسلمانوں کاکیا فریضہ ہے اور کس صورت میں کہا جا سکتاہے کہ مسلمان آپ(ع) کے عالمی اور دشوار قیام کے لئے تیار ہیں اور خدا کی قوی حکومت کی تشکیل اور ظہور کے انتظار میں دن گن رہے ہیں؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۳۲۱

اہل بیت کی احادیث سے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ پہلے وہ سنجیدگی اور کوشش سے اپنے نفسوں کی اصلاح کریں ، اسلام کے نیک اخلاق آراستہ ہوں ، اپنے فردی فرائض کو انجام دیں قرآن کے احکام پر عمل کریں ، دوسرے اسلام کے اجتماعی پروگرام کا استخراج کریں اورمکمل طور سے اپنے درمیان نافذ کریں اور اسلام کے اقتصادی پروگرام سے اپنی اقتصادی مشکلوں کو حل کریں ، فقر و ناداری اور ناجائز طریقوں سے مال جمع کرنے والوں سے جنگ کریں اوراسلام کے نورانی قوانین پر عمل پیرا ہو کر ظلم و ستم کا سد باب کریں _ مختصر یہ کہ سیاسی اجتماعی ، اقتصادی ، قانونی اور اسلام کے عبادی پروگراموں کو مکمل طور پر اپنے درمیان جاری کریں اوردنیا والوں کے سامنے اس کے عملی نتائج پیش کریں _

تحصیل علم و صنعت میں سنجیدگی سے کوشش کریں اور اپنی گزشتہ غفلت و سستی اور پسماندگی کی تلافی کریں _ بشری تمدن کے کاروان تک یہنچنا کافی نہیں ہے بلکہ ہر طریقہ سے دنیا والوں سے باز جیت لینا ضروری ہے _ دنیا والوں کو عملی طریقے سے یہ بتائیں کہ اسلام کے نورانی احکام و قوانین ہی ان کی مشکلوں کو حل کر سکتے ہیں اور انکی دو جہان کی کامیابی کی ضمانت لے سکتے ہیں _ اسلام کے واضح اور روشن قوانین پر عمل کرکے ایک قوی اور مقتدر حکومت کی تشکیل کریں اور روئے زمین پر ایک طاقت ور و متمدن اور مستقل اسلامی ملت کے عنوان سے ابھر یں _

مشرق و مغرب کی سینہ زور یوں کوروکیں اور دنیا والوں کی قیادت کی زمام خو سنبھالیں _ جہاں تک ہو سکے دفاعی طاقت کو مضبوط اور نظامی طاقت کو محکم بنائیں اور جنگی اسلحہ کی فراہمی کے لئے کوشش کریں _ تیسرے :اسلام کے اجتماعی ، اقتصادی

۳۲۲

اور سیاسی منصوبوں کا استخراج کریں اور دنیا والوں کے گوش گزار کردیں _ خدائی منصوبوں کی قدر و قیمت سے لوگوں کو آگاہ کریں _ قوانین الہی کو قبول کرنے کیلئے دنیا والوں کے افکار کو آمادہ کریں _ اسلام کی عالمی حکومت اور ظلم و بیدادگری سے جنگ کے مقدمات و اسباب فراہم کریں _

جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں اور امام زمانہ کے مقصد کی تکمیل او رآپ کے انقلاب کیلئے اسباب فراہم کرتے ہیں ، انہی کو فرج کا منتظر کہا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود کو امام زمانہ کے قیام کیلئے تیارکررہے ہیں _ ایسے فداکار اور کوشاں افراد کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ انکی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو میدان جنگ میں اپنے خون میں غلطان ہوتے ہیں _

لیکن جو لوگ اپنی مشکلوں کو انسان کے وضع کردہ قوانین سے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کواہمیت نہیں دیتے ، احکام اسلام کو صرف مسجدوں اور عبادت گاہوں میں محدود سمجھتے ہیں ، جن کے بازار اور معاشروں میں اسلام کا نشان نہیں ہے ، جو فساد و بیدادگری کا مشاہدہ کرتے ہیں اور صر ف یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ اے اللہ فرج امام زمانہ میں تعجیل فرما _ علوم و فنون میں دوسرے آگے ہیں ، ہمارے درمیان اختلافات و پراکندگی کی حکمرانی ہے _ غیروں سے روابط ہیں ، اپنوں سے دشمنی ہے ایسی قوم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ فرج آل محمد اور انقلاب مہدی کی منتظر ہے _ ایسے افراد اسلام کی عالمی حکومت کے لئے تیار نہیں ہیں اگر چہ وہ دن میں سیکڑوں بار اللہم عجل فرجہ الشریف کہتے ہوں _

اہل بیت (ع) کی احادیث سے میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں _ اس کے علاوہ دوسری

۳۲۳

روایات میں بھی اس موضوع کی طراف اشارہ ہوا ہے مثلاً: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: '' ہمارے قائم ک ے ظہور اور انقلاب کیلئے تم خود کو آمادہ کرو اگر چہ ایک تیر ہی ذخیرہ کرو''(۱) عبد الحمید واسطی کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : ہم نے اس امر کے انتظار میں خرید و فروخت بھی چھوڑدی ہے فرمایا:

'' اے عبد الحمید کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ جس نے اپنے جان راہ خدا میں وقف کردی ہے _ خدا اس کی فراخی کیلئے کوئی انتظام نہیں کرے گا ؟ خدا کی قسم اس کے لئے راستے کھل جائیں گے اور امور آسان ہوجائیں گے خدا رحم کرے اس شخص پر جو ہمارے امر کو اہمیت دیتا ہے '' _ عبدالحمید نے کہا: اگر انقلاب قائم سے پہلے مجھے موت آگئی تو کیا ہوگا؟ فرمایا: '' تم میں سے جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اگر قائم آل محمد کا میری حیات میں ظہور ہوگا تو میں آپ کی مدد کروں گا _ اس کی مثال اس شخص کی ہے جسن نے امام زمانہ کی رکاب میں تلوار سے جہاد کیا ہے بلکہ آپ (ع) کی مدد کرتے ہوئے شہادت پائی ہو ''(۲) _

ابوبصیر کہتے ہیں : ایک روز امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

'' کیا میں تمہیں وہ چیز بتاؤں کہ جس کے بغیر خدا بندوں کے اعمال قبول نہیں کرتا ہے ؟'' ابوبصیر نے عرض کی : (مولا) ضرور بتایئے فرمایا:'' وہ ایک خدا اور محمد (ص) کی نبوت کی گواہی دینا ، خدا کے دستوارت کااعتراف کرنا ، ہماری محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا ، ائمہ کے سامنے

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۶۶_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۲۴

سراپا تسلیم ہونا ، پرہیزگاری ، جد و جہد اور قائم کا منتظر رہنا ہے _

اس کے بعد فرمایا: ہماری حکومت مسلّم ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گی جو شخص ہمارے قائم کے اصحا ب و انصار میں شامل ہونا چاہتا ہے _ اسے چاہئے کہ انتظار فرج میں زندگی بسر کرے _ پرہیزگاری کو اپنا شعار بنائے ، اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو اور اسی طرح ہمارے قائم کے انتظار میں زندگی بسر کرتا رہے اگر وہ اسی حال میں رہا اور ظہور قائم آل محمد سے پہلے موت آگئی ، تو اسے اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا کہ جتنا امام زمانہ کے ساتھ رہنے والے کو ملیگا _

شیعہ کوشش کرو اور امام مہدی کے منتظر رہو _ اے خدا کی رحمت و لطف کے مستحقو کامیابی مبارک ہو _(۱)

____________________

۱_ غیبت نعمانی ص ۱۰۶_

۳۲۵

قیام کے خلاف احادیث کی تحقیق

انجینئر: ہوشیار صاحب آپ کی گزشتہ باتوں '' انتظار فرج'' کی بحث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ (ع) کی غیبت میں شیعوں کا فریضہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کے اجراء کیلئے کوشش کریں اور اس طرح امام زمانہ کے عالمی انقلاب اور ظہور کے اسباب فراہم کریں میرے خیال میں آپ کی باتیں بعض احادیث کے منافی ہیں _ جیسا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جو کہ قیام و ظہور مہدی سے قبل کسی بھی تحریک و انقلاب کی ممانعت کرتی ہیں _ اگر آپ تجزیہ کریں تو مفید ہوگا _

ہوشیار: آپ کی یاد ، دہاتی کا شکریہ _ ایسی احادیث ، دو طریقوں سے تجزیہ و تحقیق کی جا سکتی ہے _ پہلے تو سند کے اعتبار سے تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ صحیح و معتبر ہیں یا نہیں _ دوسرے دلالت کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ کسی بھی انقلاب و تحریک ممانعت کیلئے دلیل بن سکتی ہیں یا نہیں لیکن احادیث کی تحقیق و تحلیل سے قبل مقدمہ کے طور پر میں ایک اور بات عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں _ اس طرح ہم مذکورہ مسئلہ سے دو حصوں میں بحث کریں گے _

۱_ اسلام میں حکومت

۳۲۶

۲_ احادیث کی تحقیق

اسلام میں حکومت

اسلام کے احکام و قوانین کے مطالعہ یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ دین اسلام صرف ایک عقیدتی اور عبادی دین نہیں ہے بلکہ عقیدہ ، عبادت ، اخلاق ، سیاست اور معاشرہ کا ایک مکمل نظام ہے _ کلی طور پر اسلام کے احکام و قوانین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱_ فردی احکام جیسے نماز ، روزہ ، طہارت ، نجاست ، حج ، کھانا ، پینا و غیرہ ان چیزوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں انسان کو حکومت اور اجتماعی تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ تن تنہا اپنا فریضہ پورا کرسکتا ہے _

۲_ اجتماعی احکام ، جیسے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، فیصلے ، اختلافات کا حل ، قصاص ، حدود ، دیات ، تعزیرات ، شہری حقوق ، مسلمانوں کے آپس اور کفار سے روابط اور خمس و زکوة ، یہ چیزیں انسان کی اجتماعی و سیاسی زندگی سے مربوط ہیں _ انسان چونکہ اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے ، اور اجتماعی زندگی میں تزاحمات پیش آئیں گے لہذا اسے اسے قوانین کی ضرورت ہے ، جو ظلم و تجاوز کا سد باب کریں اور افراد کے حقوق کا لحاظ رکھیں _ اسلام کے بانی نے اس اہم اور حیات بخش امر سے چشم پوش نہیں کی ہے بکلہ اس کیلئے حقوقی جزائی اور شہری قوانین مرتب کئے ہیں اور اختلافات کے حل اور قوانین کے مکمل اجراء کیلئے عدالتی احکام پیش کئے ہیں _ ان قوانین کی تدوین اور وضع سے یہ بات بخوبی سمجھ

۳۲۷

میں آجاتی ہے کہ عدلیہ کا تعلق دین اسلام کے متن سے ہے اور شارع اسلام نے اس کی تشکیلات پر خاص توجہ دی ہے _ اسی طرح اسلام کے احکام و قوانین کا معتد بہ حصہ راہ خدا میں جہاد اور اسلام و مسلمین سے دفاع سے متعلق ہے _ اس سلسلہ میں دسیوں آیتیں اور سیکڑوں حدیثیں وارد ہوئی ہیں _ مثلاً : خداوند عالم مومنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے :

جاهدوا فی سبیل الله حق جهاد (۱) (حج/ ۷۸)

راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کرو _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین لله (۲) (بقرہ /۱۲)

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوجائے اور صرف دین خدا باقی رہے

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم لعلهم ینتهون (توبہ/ ۱۲)

پس تم کفر کے سرغنہ لوگوں سے جنگ کرتے رہو کہ ان کے عہد کا کوئی اعتبار نہیں ہے تا کہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں _

ایسی آیتوں سے کہ جن کے بہت سے نمونے موجود ہیں ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعات ، کفر و استکبار اور ظلم و ستم سے جنگ مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بلکہ بعض آیتوں میں تو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی طاقت کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں اور دشمن کے مقابلہ کے لئے مسلح رہیں _ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

واعدوا لهم ماستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم و آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم _ (انفال / ۶۰)

اور جہاں تک ہوسکے جنگی توانائی اور بندھے ہوئے گھوڑے فراہم کرو اور اس سے

۳۲۸

دشمنان خدا اور اپنے دشمنوں اور دوسرے لوگوں پر دھاک بٹھا ور تم انھیں نہیں جانتے نگر خدا انھیں جانتا ہے _

مذکورہ آیتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلحہ کی فراہمی اور فوجی توانائی اسلام کا جز ہے _ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہمیشہ دفاعی طاقت کے استحکام اور دشمنوں کے حملوں کو روکنے کیلئے مختلف قسم کا اسلحہ بنائیں کہ جس سے دشمنان اسلام ہمیشہ مرعوب ووحشت زدہ رہیں اور تعدی و تجاوز کی فکر ان کے ذہن میں خطور نہ کرے _

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ہے اور یہ سب پرواجب ہے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ظلم و فساد ، استکبار ، تعدی و تجاوز اور معصیت کاری سے مبارزہ کریں ، اسی طرح توحید ، خداپرستی کی اشاعت اور لوگوں کو خیر و صلاح کی طرف بلانے کی کوشش کرنا بھی واجب ہے اس اہم اور حساس فریضہ کی تاکید کے سلسلہ میں دسیوں آیتیں او رسیکڑوں احادیث وارد ہوتی ہیں _ مثلاً:

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر (آل عمران /۱۰۴)

''تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو لوگوں کو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کریں'' _

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون

۳۲۹

عن المنکر و تومنون بالله ( آل عمران/ ۱۱۰)

تم بہترین امت ہو کر لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو _

مختصر یہ کہ اسلام کا سیاسی و اجتماعی پروگرام اوراحکام و قوانین جیسے جہاد، دفاع قضاوت ، حقوقی ، شہری و جزائی ، قوانین ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، فساد و بیدادگری سے مبارز ہ ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ان سب کیلئے نظم و ضبط اور اداری تشکیلات کی ضرورت ہے اور ایک اسلامی حکومت کی تاسیس کے بغیر ان احکام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومت کی تاسیس ، جو کہ اسلام کے قوانین کے نفاذ اور اس کے سیاسی ، اجتماعی ، اقتصادی فوجی اور انتظامی و حقوقی پروگرام کے اجراء کی ضامن ہے ، اسلام کا اصل نصب العین ہے _ اگر شارع نے ایسے قوانین و پروگرام وضع کئے ہیں تو ان کے نفاذ کیلئے حاکم اسلام کی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھا ہے _ کیا جنگ و دفاع فوجی نظم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟ کیا ظلم و بیدادگری ، دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ، احقاق حق اور ہرج و مرج کا سد باب عدلیہ اور انتظامی نظلم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟

چونکہ اسلام نے قوانین و پروگرام کئے ہیں اس لئے ان کے اجراء و نفاذ کا بھی منصوبہ بنایا ہے _ اور یہی اسلامی حکومت کے معنی ہیں کہ حاکم اسلام یعنی ایک شخص ایک وسیع اداری امور کی زمام اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور قوانین الہی کو نافذ کرکے لوگوں میں امن وامام برقرار کرتا ہے _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں واقع ہوتی ہے اس سے جدا نہیں کیاجا سکتا _

۳۳۰

رسول (ص) خدا مسلمانوں کے زمامدار

رسول خدا (ص) اپنی حیات طیبہ میں عملی طور پر حکومت اسلامی کے زمامدار تھے مسلمانوں کے امور کے نگراں تھے _ اور اس اہم ذمہ داری کی انجام وہی کی خاطر خدا کی طرف سے آپ کو بہت سے اختیارات دیئےئے تھے _ قرآن فرماتا ہے :

النّبی اولی بالمومنین من انفسهم ( احزاب /۶۰)

نبی کو مومنین کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے _ دوسری جگہ ارشاد ہے :

فاحکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم ( مائدہ / ۴۸)

جو احکام و قوانین ہم نے آپ (ص) پر نائل کئے ہیں ان کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان حکومت کیجئے اور ان کی خواہش کا اتباع نہ کیجئے _

اس بنا پر رسول (ص) دو منصبوں کے حامل تھے ایک طرف وحی کے ذریعہ خدا سے رابط تھا اور ادھر سے شریعت کے احکام و قوانین لیتے تھے اور لوگوں تک پہنچاتے تھے اور دوسری طرف امت اسلامیہ کے زمام دار و حکمران بھی تھے اور مسلمانوں کے سیاسی و اجتماعی پروگرام کا اجراء آپ ہی فرماتے تھے _

رسول (ص) خدا کی سیرت کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی روشن ہوجاتی ہے کہ آپ(ص) عملی طور پر مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور اپنے دست مبارک میں رکھتے اور ان پر حکومت کرتے تھے_ حاکم و فرمانروا مقرر کرتے ، قاضی معین کرتے ، جہاد و دفاع کا حکم صادر فرماتے مختصر یہ کہ آپ (ص) ان تمام کاموں کو انجام دیتے تھے جو ایک امت کیلئے

۳۳۱

لازم ہوتے تھے _(۱)

اس کام پر آپ خدا کی جانب سے مامور تھے _ آپ (ص) کو یہ ذمہ داری سپردکی گئی تھی کہ اسلام کے سیاسی اور اجتماعی قوانین کو نافذ کریں _ مسلمان جہاد پر مامور تھے لیکن رسول خدا کو یہ حکم تھا کہ وہ انھیں جہاد و دفاع کیلئے ، آمادہ کریں _ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

'' یا ایها النبی حرّض المومنین علی القتال'' ( انعام / ۲۵)

اے نبی (ص) مومنین کو جہاد کی ترغیب دلاہیئے

دوسری جگہ ارشاد ہے :

یا ایها النبی جاهد الکفار و المنافقین و اغلظ علیهم (توبہ /۷۳)

اے نبی (ص) کفار و منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے _

رسول (ص) لوگوں کے درمیان حکومت و قضاوت کرنے پر مامور تھے ، قرآن کہتا ہے :

انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بمااراک الله و لا تکن للخائنین خصیما'' _ (نساء/ ۱۰۵)

ہم نے آپ پر بر حق کتاب نازل کی ہے تا کہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان حکم کریں جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے اور خیانت کاروں کے حق میں عداوت نہ کیجئے _

ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول خدا نبی ہونے ، وحی لینے اور

____________________

۱_ الترتیب الاداریہ اور کتاب الاموال مولفہ حافظ ابو عبید ملا حظہ فرمائیں _

۳۳۲

اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ مسلمانوں کی حکومت اور زمامداری پر بھی مامور تھی اور اس بات پر مقرر تھے کہ سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام کو نافذ کرکے مسلمانوں پر حکومت کریں چنانچہ اس سلسلہ میں آنحضرت کو مخصوص اختیارات دیئے گئے تھے اور مسلمانوں پر آنحضرت کی حکومتی احکام کی اطاعت کرنا واجب تھا _

قرآن مجید میں ارشاد ہے :

اطیعوا لله و اطعیواالرسوال و اولی الامر منکم (نساء/ ۵۹)

اللہ کی اطاعت کرو اور سول (ص) کی اطاعت کرو اور اپنے صاحبان امر کی اطاعت کرو _ نیز ارشاد ہے :

و اطیعوا الله و رسوله و لا تنازعو فتفشلوا '' ( انفال / ۴۶)

اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو نزاع و اختلاف سے پرہیز کرو کہ کمزور پڑجاؤ گے _

و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله (نساء/ ۶۴)

اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا خدا کے حکم سے اس کی اطاعت ہوتی _

ان آیتوں میں رسول (ص) کی اطاعت خدا کی اطاعت کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کے ساتھ اس کے رسول (ص) کی

بھی اطاعت خدا کی اطاعت اس طرح ہوگی کہ لوگ اس کے احکام کو قبول کریں جو کہ رسول کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں _ اس کے علاوہ مسلمانوں پر یہ واجب کیا گیا تھا کہ وہ رسول کے مخصوص احکام کی بھی اطاعت کریں _ رسول (ص) خدا کے مخصوص فرمان عبارت ہیں : وہ حکم و دستورات جو آپ مسلمانوں کے حاکم ہونے کی حیثیت سے صادر فرماتے تھے_ اس لحاظ سے وہ

۳۳۳

بھی واجب ہیں _ مختصر یہ کہ حکم خدا سے رسول (ص) کی اطاعت واجب ہے _

اس بناپر ابتدائے اسلام ہی سے حکومت دین کا جزو تھی اور عملی طور پر پیغمبر اس کے عہدہ دار تھے _

اسلامی حکومت رسول (ص) کے بعد

رسول کی وفات کے بعد نبوت اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا _ لیکن دین کے احکام و قوانین اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام مسلمانوں کے درمیان باقی رہے _ یہاں یہ سوال اٹھتاہے کیا رسول اکرم کی رحلت کے بعد آپ(ص) کی حاکمیت کا منصب بھی نبوت کی طرح ختم ہوگیا ؟ اور اپنے بعد رسول خدا نے کسی کو حاکم و زمام دار مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اس ذمہ داری کو مسلمانوں پر چھوڑدیا ہے _ یا اس اہم و حساس موضوع سے آپ(ص) غافل نہیں تھے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے کسی شخص کو منتخب فرمایا تھا؟

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام خود مسلمانوں کے حاکم اور اسلام کے قوانین و پروگرام کو نافذ کرنے والے تھے ، آپ اسلامی حکومت کے دوام کی ضرورت کو بخوبی محسوس کرتے تھے _ آنحضرت(ص) اچھی طرح جانتے تھے کہ بغیر حکومت کے مسلمان زندہ نہیں رہ سکتے اور اسلامی حکومت اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب اس کو چلانے کیذمہ داری اسلام شناس ، عالم ، پرہیزگار ، امین اور عادل انسان کے دوش پر ڈالی جائے ، تا کہ وہ دین کے احکام و قوانین کو نافذ کرکے اسلامی کومت کو دوام بخشے _ اسی لئے رسول اکرم نے ابتداء تبلیغ رسالت ہی سے خداوند عالم کے حکم کے مطابق مناسب موقعوں پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو مسلمانوں کے امام و خلیفہ کے عنوان سے پہچنوایا ہے اس سلسلہ میں

۳۳۴

احادیث شیعہ و اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں _منجملہ ان کے یہ ہے کہ حجة الوداع کے سفر میں غدیر خم کے مقام پر قافلہ روک کر ہزاروں صحابہ کے سامنے فرمایا:

الست اولی بالمومنین من انفسهم ؟ قالوا بلی یا رسول الله فقال من کنت مولاه فعلی مولاه ، ثم قال: اللهم وال من والاه و عاد من عاداه _ فلقیه عمر بن الخطاب فقال : هنیئاً لک یا بن ابی طالب _ اصبحت مولای و مولا کل مومن و مومنه _(۱)

رسول (ص) نے لوگوں سے فرمایا: کیا میں مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ اصحاب نے عرض کی : بے شک ، اللہ کے رسول ، اس وقت آپ (ع) نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں _ پھر فرمایا : با ر الہا علی کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن _ پس عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ملاقت کی اور کہا : فرزند ابوطالب مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے ''_

ایسی احادیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رسول (ص) نے اپنی حاکمیت کو دائمی بناکر اسے علی بن ابی طالب کے سپرد کردیا ہے _ اس سے پہلے اس منصب کیلئے آپ کو آمادہ کیا اور ضروری علوم و اطلاع آپ کے اختیار میں دیں _ آنحضرت جانتے تھے کہ علی ذاتی علم و عصمت کے حامل ہیں اور منصب امامت کے لائق ہیں _ اسی لئے آپ (ص) نے

____________________

۱_ ینابیع المودة / ۲۹۷_

۳۳۵

خدا کے حکم سے حضرت علی کو اس منصب کیلئے منتخب کیا اور اس حیثیت سے پہچنوایا _ حضرت علی اسلام کے احکام و قوانین کے حافظ بھی تھے اور حاکم اسلام و مجری قوانین بھی تھے رسول نے غدیر میں حضرت علی کے اختیار میں اپنا اولی بالتصرف کا منصب دیا _ اور عمر بن خطاب کے ذہن میں بھی ان ہی معنی نے خطور کیا اورانہوں نے علی سے کہا : اے ابوطالب کے بیٹے مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے _

مسلمان بھی یہی سمجھتے چنانچہ انہوں نے امیرالمومنین کی بیعت کی وفاداری کااظہار کیا اگر ان معنی میں علی کو مولا نہ بنایا گیا ہوتا تو تو بیعت کی ضرورت نہ ہوتی _

علی (ع) جانشین رسول (ص)

رسول خدا نے خدا کے حکم سے حضرت علی (ع) کو مسلمانوں کا امام و زمام دار منصوب فرمایا اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کی امامت کو دائمی بنادیا _ لیکن آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے اختلاف کیا ، لوگوں کی کمزوری اور جاہلیت سے غلط فائدہ اٹھایا اور حضرت علی کے شرعی حق کو غصب کرلیا اور اسلامی حکومت کو اس کے حقیقی وارث سے جدا کردیا _ حضرت علی (ع) کے بیعت نہ کرنے ، خطبے دینے ، احتجاج کرنے اور شکوہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کی حاکمیت و زمام داری کو غصب کرلیا گیا تھا _ خلفا نے دین کے احکام و معارف کو حضرت علی (ع) سے نہیں لیا تھا _ اگر چہ آپ کے علمی تبحر و مرتبہ کے معترف تھے یہاں تک کہ مشکل مسائل میں آپ(ع) سے رجوع کرتے تھے _

جس وقت خلافت حضرت علی (ع) کے ہاتھ میں آئی اور آپ(ع) نے خلافت کے تمام امور جیسے حاکم و فرمانروا کا تقرر ، قضات کا انتخاب ، زکوة و خمس کی وصولیابی کی

۳۳۶

ذمہ داری کا سپرد کرنا ، جہاد ودفاع کاحکم صادر کرنا اور سپہ سالاروں کے تقرر کو اپنے اختیار میں لے لیا تو طلحہ و زبیر نے آپ (ع) کے مخالفت کی اور جنگ جمل برپاکردی وہ آپ کی حکومت کے مخالف تھے آپ (ع) کے علمی مرتبہ اور احکام و معارف کے بیان کے مخالف نہیں تھے _ احکام کے بیان میں معاویہ کو بھی آپ سے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ اس نے حکومت او رتخت خلافت کے سلسلہ میں آپ (ع) سے جنگ کی تھی _

اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول اکرم کی وفات سے اسلامی حکومت ختم نہیں ہوئی بکلہ حضرت علی بن ابی طالب کے خلیفہ منصوب ہونے سے اسلامی حکومت کے باقی رکھنے کی تصریح ہوگئی اور اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ شارع اسلام نے سیاسی و اجتماعی قوانین کے نافذ کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا ہے _ یعنی اسلامی حکومت کو ہمیشہ باقی رہنا چاہئے _

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بعد امام و خلیفہ اور حاکم منتخب کیا اور امام حسن (ع) نے اپنے بعد اپنے بھائی امام حسین اور امام حسین (ع) نے اپنے بیٹے امام زین العابدین کو منصوب کیا اور اس طرح بارہویں امام حضرت حجة بن الحسن تک ہر امام نے اپنے بعد والے امام کا تعارف کرایا _ خداداد علم و عصمت اور طہارت اور اپنے ذاتی کمال و صلاحیت کے علاوہ مسلمانوں کے امام و حاکم بھی منصوب ہوئے _ اس بناپر مسلمانوں کی امامت اور معصوم حکمرانوں کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا اگر چہ حضرت علی بن ابی طالب کے علاوہ بظاہر کوئی امام بھی اپنا شرعی حق حاصل نہیں کرسکا اور اسلامی حکومت کو جاری نہ رکھ سکا _

زمانہ غیبت میں اسلامی حکومت

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام

۳۳۷

کی کیا کیفیت ہے؟ جس زمانہ میں معصوم امام و حاکم تک رسائی نہیں ہے کیا اس میں شارع اسلام نے احکام و منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کا کوئی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا اسلام یہ سارے قوانین صرف رسول کی حیات ہی کے مختصر زمانہ کیلئے تھے؟ اور اس وقت سے ظہور امام مہدی تک ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس طویل زمانہ میں جہاد، دفاع ، حدود کے اجراء قصاص و تعزیرات ظلم و بیدادگری سے جنگ، مستضعفین اور محروموں سے دفاع، فساد و سرکشی اور معصیت کاری سے مبارزہ سے دست کشی کرلی ہے اور ان کے نفاذ کو حضرت مہدی کے ظہور پر موقوف کردیا ہے ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں آیات و احادیث صرف کتابوں میں بحث کرنے کیلئے آئی ہیں ؟ میرے خیال میں کوئی با شعور مسلمان ایسی باتوں کو قبول نہیں کرے گا ؟ مسلمان خصوصاً مفکر ین یہی کہیں گے کہ یہ احکام بھی نفاذ ہی کے لئے آئے ہیں _ اگر حقیقت یہی ہے تو تمام زمانوں کو منجملہ اس زمانہ کو قوانین کے اجراء سے کیوں نظر انداز کردیا ہے؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام نے سیاسی و اجتماعی منصوبے بنائے ہیں لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم مقرر نہیں کئے ہیں _

زمانہ غیبت میں مسلمانوں کا فریضہ

یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اور معصوم امام کو خدا کی طرف سے مسلمانوں کا حاکم منصوب کیا گیا ہے اور ان کے امور کی زمام ان ہی کے ہاتھ میں دی گئی ہے _ اور اس سلسلہ میں انھیں کوشش کرنی چاہئے لیکن اصلی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس و استحکام اور پیغمبر و امام کو طاقت فراہم کرنے کے سلسلہ

۳۳۸

میں مخلصانہ کوشش کریں اور ان کے تابع رہیں _ اسی طرح جب معصوم امام تک رسائی ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبوں کے اجراء کیلئے کوشش کریں جو فکر اسلام نے کسی زمانہ میں یہاں تک کہ اس زمانہ میں بھی اپنے احکام کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے _ اکثر احکام و قوانین مسلمانوں کو مخاطب کرکے بیان کئے گئے ہیں مثلاً قرآن مجید فرماتا ہے :

و جاهدوا فی الله حق جهاده ( حج/ ۷۸)

راہ خدا میں حق جہاد ادا کرو _

انفروا خفافا و ثقالا و جاهدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل الله ( توبہ /۴۱)

مسلمانو تم ہلکے ہو یا بھاری راہ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو _

تومنون بالله و رسوله و تجاهدون فی سبیل الله (صف/۱۱)

تم خداو رسول پر ایمان رکھتے ہو راہ خدا میں جہاد کرو _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لا تعتدوا ( بقرہ/ ۱۹۰)

راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو _

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا ( نساء /۶۷)

شیطان کے طرف داروں سے جہاد کرو کہ شیطان کامکر کمزور ہے _

و قاتلوا حتی تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال / ۳۹)

۳۳۹

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا باقی رہے _

و مالکم لا تقاتلون فی سبیل الله (انفال /۳۹)

راہ خدا میں تم جہاد کیوں نہیں کرتے؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم (توبہ/۱۲)

کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو کہ ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة ( توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے سب اسی طرح جنگ کرو جیسا کہ وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں _

واعدوا لهم مااستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

اور جہاں تک تم سے ہوسکے دشمنوں کے لئے جنگی توانائی اور گھوڑوں کی صف کا انتظام کرو کہ اس سے خدا کے دشمن اور تمہارے دشمنوں پر رعب طاری ہوگا _والسارق و السارقة فاقطعوا ایدهما جزاء بما کسبا نکالا من الله و الله عزیز حکیم (مائدہ / ۳۸)

اور چورمرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے ایک بدلہ اور خدا کی طرف سزا ہے اور خدا عزت و حکمت والا ہے _

الزّانیه و الزّانی فاجلدو کل واحد منهما اماة جلدة ولا تاخذ بهما رافة فی دین الله _ ( نور/ ۲)

زناکار عورت اور زناکار مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ اور خبردار

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455