آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181577 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

سائنسداں میوہ جات کے کیٹروں کی عمرکو اس نوع کے دیگر کیٹروں کی طبیعی عمر سے نو سو گنا بنا نے میں کا میاب ہوگئے ہیں _ یہ کا میابی انھیں اس لئے میسر آئی ہے کے انہوں نے اس جاندار کو ز ہر اور دشمنوں سے محفوظ رکھا اور اس کے لئے مناسب ما حول فراہم کیا تھا(۱)

انجینئر : میں نے بھی اپنے مطالعات کے در میان چند علمی اور دلچسپ مقا لے دیکھے ہیں کہ جن میں سائنسد انوں نے طول عمر کے راز ، ضعیفی و موت کے علل اور ان سے مبارزہ کے متعلق بحث کی ہے _ لیکن وقت ختم ہوگیا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ان کا تجزیہ آیندہ جلسہ پر موقوف کیا جائے _

ہفتہ کی شب میں جناب فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا ، ہوشیار صاحب نے انجینئر صاحب سے خواہش کی کہ اپنے مطالب بیان کریں _

انجینئر : بہتر ہے کہ ان مقالات کامتن ہی آپ حضرات کے سامنے پیش کروں شاید مشکل حل ہو سکے _

طول عمر کے بارے میں

موت کے کارشناس و ماہر پروفسیر متالینکف لکتھے ہیں : انسان کا بدن تیس ٹر یلین مختلف خلیوں سے تشکیل پایا ہے وہ سب یکبار گی نہیں مر سکتے_ اس بنا پر موت موت اس وقت مسلّم ہوگی جب انسان کے مغز میں ایسے کیمیائی تغیرات واقع

____________________

۱ _ منتخب الاثر ص ۲۷۸ منقول از مجلہ الھلال _

۲۴۱

ہوجائیں کہ جن کی مرمت ممکن نہ ہو ۳۰ اگست ۱۹۵۹ء کو ڈاکٹر ہانس سیلی نے کنیڈا کے شہر مونٹرال میں اخباری نمائندوں کو ایک خلیئےی ساخت و بافت دکھائی اور بتا یا کہ یہ زندہ خلیہ حرکت میں ہے اور ہر گز نہیں مرے گا _ موصوف نے مزید دعوی کیا کہ یہ خلیہ ازلی ہے اور کہا : اگر انسان کے بافت خلیہ بھی اسی شکل میں لے آئیں تو انسان ایک ہزار سال تک زندہ رہے گا _

پر وفیسر سیلی کا خیال ہے کہ موت تھیوری کے نقطہ نگاہ سے ایک تدریجی بیماری ہے _موصوف ہی کا نظریہ ہے کہ کوئی شخص بڑھا پے کی وجہ سے نہیں مرتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص ضعیفی کی وجہ سے مرے تو اس کے بدن کے خلیوں کو فرسودہ اور بیکار ہوجانا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ بہت سے بوڑھوں کے مختلف اعضاء اور ان کے بدن کے خلئے سالم رہتے ہیں ان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا _ بعض لوگوں کا انتقال اس لئے اچانک ہوجاتا ہے کہ یک بیک ان کے بدن کا کوئی عضو بیکار ہوجاتا ہے اور چونکہ بدن کے تمام اعضاء ایک مشین کے پرزوں کی طرح مربوط و متصل ہیں اس لئے ایک کے بے کار ہوجانے سے سارے بیکار ہوجاتے ہیں _ پروفیسر سیلی نے اعلان کیا علم طب و میڈیکل سائنس ایک دن اتنی ترقی کرے گا کہ فرسودہ خلئے کی جگہ انجکشن کے ذریعہ نیا خلیہ انسان کے بدن میں رکھدیا جائے گا اور اس طرح انسان جب تک چاہے گا زندہ رہے گا _(۱)

ای ای مچنیکف کے نقطہ نظر سے فیزیولوجی بڑھاپے جو کہ طبیعی پیش رفت کا

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۷

۲۴۲

نتیجہ ہے اور اس ضعیفی کو جو کہ ارگانزم کی اساس پر مختلف تاثیرات _ زہر ، امراض اور دوسرے مخصوص عوامل _ کا نتیجہ ہے ، کو معین کر سکتا ہے _ اس کے نظریات کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کا بڑھا پا ایک بیماری ہے لہذا تمام بیماریوں کی طرح اس کا بھی علاج ہونا چاہئے اس کا نظریہ تھا کہ انسان کی زندگی موجودہ زندگی سے زیادہ ہوسکتی ہے اور مزید آگے بڑھ سکتی ہے _ انسان کی زندگی درمیان را ہ گم ہوتی ہے ، اپنی اصل منزل تک نہیں پہنچتی ، لیکن میرے لحاظ سے تمام کوشش کرنا چاہئے تا کہ بشر بڑھاپے ، انحطاط کے بغیر اپنی فیزیولوجی کی عادی ضعیفی تک پہنچ جائے _(۱)

طول عمر

پروفیسر سلیہ اور اس کا عملہ ایک طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کیلشم( calcium ) کا نقل و انتقال ضعیفی اور اس کی تغیرات کا عامل ہے _ کیا بڑھا پے کے عوارض کے علاج کے لئے کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے یا نہیں؟ سلیہ نے مکرر تجربوں کے بعد ، ایرون ڈکٹر ان کے مادہ کا انکشاف کیا ہے جو کیلیشیم کو اجزاء ترکیبی سے روکتا ہے _ اس بناپر کہاجاتا ہے کہ ضعیفی کی علامتیں اور عوارض حیوانات پر کئے جانے والے تجربوں کے ذریعہ انسان کی دست رس میں آچکے ہیں اور اس سے تحفظ کا وسیلہ مل گیا ہے _ پروفیسر سلیہ کا نظریہ ہے کہ اس بات کا تو احتمال بھی نہیں دیا جا سکتا کہ نوے سالہ انسان کو ساٹھ سالہ انسان کی زندگی کی حالت کی طرف پلٹا یا جا سکتا ہے لیکن ساٹھ

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۵ ۱۳۴۲ ھ ش _

۲۴۳

سالہ انسان کی زندگی کو عوارض سے بچا کر نوے سالہ عمر میں بھی ساٹھ سالہ عمر کی حالت میں رکھا جا سکتا ہے _(۱)

پروفیسر اتینگر نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا:'' جوان نسل ایک دن انسان کی جاویدانی اور ابدی حیات کو اسی طرح قبول کرے گی جیسا کہ آج لوگوں نے فضائل سفر کو تسلیم کر لیا ہے _ میرا نظریہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس تحقیق سے جس کا ہم نے آغاز کیا ہے کم از کم آئندہ صدی کا انسان ہزاروں سال کی زندگی بسر کرے گا _(۲)

ایک روسی کتاب کا خلاصہ

روس کا مشہور سائنسدان مچنیکوف طویل العمری کو انسان کی قدیم ترین امیدوں میں سے اسک کہتا ہے _ لیکن ابھی تک عمر میں اضافہ کے لئے کوئی عملی طریقہ کشف نہیں ہوسکا ہے _ واضح ہے کہ طبیعی زندگی کے خاتمہ کا نام موت ہے اور کسی جاندار کو اس سے مضر نہیں ہے _

۱_ ضعیفی کی علّت انسان کا بدن تقریباً ساٹھ تریلین خلیوں سے تشکیل پایا ہے _ یہ خلئے ایک منزل پر پہنچ کربوڑھے ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں اپنی زندگی کی ضرورت کو بڑی مشکل سے پورا کرتے ہیں _ ان کی تولید مثل میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد انسان مرجاتا

____________________

۱_ دانشمند شمارہ۵ ۳۴۲۱ ہ ش

۲_ دانشمند شمارہ ۶ سال ششم

۲۴۴

ہے _ عصبی خلئے اور مرجانے والے عضلات کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھ جاتی ہے اور ایک کپڑے کی شکل میں سخت ہوجاتے ہیں _ اس سخت ہونے سے ماہیچے اور اعصاب ، مرجانے اور بڑھنے والے خلیوں ، جن کو اسکلروز soclerose کہتے ہیں جیسے قلب کے اسکلروز ، رگوں کے اسکلروز ، اعصاب کے اسکلروز و غیرہ _

روس کے مشہور ڈاکٹر اور فیزیولوجسٹ ایلیا مچنیکوف کا خیال تھا کہ یہ وقوعہ ٹرکشین کے زہر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے _ حیوان کے بدن میں جراثیم جاگزین ہوجاتے ہیں اور اس زہر کو انسان اندرونی اعضا میں پیدا کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ زندہ خلیوں کے تعمیر کو مسموم کردیتے ہیں _ پالوف کا نظریہ تھا کہ اعصاب کا سلسلہ خصوصاً مغز کا خارجی دباؤ ضعیفی میں بنیادی اثر رکھتا ہے ، نفسیاتی تاثرات ، غصہ ، دل تنگی ، یاس اور وحشت سے بدن کے امراض پیدا ہوتے ہیں کہ جس سے بڑھا پا اور اس کے بعد موت آجاتی ہے _ دائمی زندگی کا خواب ایک سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں ہے _ لیکن انسان کی عمر بڑھانا اور ضعیفی پر غلبہ پاناممکن عمل ہے _

۲_ ضعیفی شناسی اور موت شناسی

تقریباً تین سو سال قبل علم الحیات کی ایک نئی شاخ ضعیفی شناسی ( cetmotologei ) وجود میں آئی _ اس علم کا مقصد بڑھا پے پر غلبہ پانے کیلئے عملی قوانین کی معرفت و شناخت ہے _ اس اور موت شناسی کے علم کے درمیان لطیف رابطہ ہے ، موت سے مربوط قوانین کا مطالعہ اور ممکن حد تک اسے پیچھے ہٹانا اس علم کے مسائل ہیں جو کہ اسی لم کے قلم روکا جز ہیں ، سائنسدانوں کے نقطہ نظر کے مطابق موت ہمیشہ اختلال کی وجہ سے آتی ہے جبکہ زندگی کے خاتمہ پر آنے والی موت کو فیزیالوجی کہتے ہیں_

۲۴۵

اب سائنسدان عمر بڑھانے کیلئے کوئی منطقی اور طبیعی راہ کی تلاش میں منہمک ہیں زندگی کی حد کے سلسلے میں دانشوروں کے درمیان اختلاف ہے _ پاؤلوف انسان کی طبیعی حیات کی حد سو سال قرار دیتا تھا _مچنیکوف نے یک سو چالیس سے ایک سو پچاس تک تحریر کی ہے _ جرمنی کے مشہور سائنسدان گو فلانڈ کا خیال تھا کہ انسان کی عام عمر ۲۰۰ سال ہے _ انیسویں صدی کے مشہور فیزیولوجسٹ فلوگرنے ۶۰۰ سال اور برطانوی ورد جربیکن نے ۱۰۰۰ سال تحریر کی ہے _ لیکن کوئی سائنسدان بھی اپنے مدعا پر اطمینان بخش دلیل پیش نہیں کرسکا _

۳_فرانسوی بوفوںکا فریضہ

فرانس کے مشہور طبیعی داں بوفون کا نظریہ تھا کہ ہر جاندار کی مدت عمر اس کے رشد کے زمانہ کے پانچ گناہوتی ہے _مثلاً شتر مرغ کے نمو کی عمر آٹھ سال ہے تو اس کی عمر کا اوسط چالیس سال ہے _ گھوڑے کے رشد کا زمانہ ۳ سال ہے تو اس کی عمر ۱۵_ ۲۰ سال ہوتی ہے _ بوفون نے اس طرخ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان کے نمو کی مدت ۲۰ سال ہے لہذا اس کی عمر کا اوسط ۱۰۰ سال ہے _ لیکن بوفون کے فارمولہ میں بے پناہ استثنائی موارد ہیں اسی لئے اسے اہمیت نہیں دی گئی ہے کیونکہ گوسفند کے رشد کی عمر پانچ سال ہے اور اس کی کل عمر ۱۰_ ۱۵ سال ہوتی ہے _ طوطے کی رشد کا زمانہ ۱۲ سال ہے لیکن سو سال تک زندہ رہتا ہے _ با وجودیکہ شتر مرغ کے رشد کی عمر تین سال میں ختم ہوجاتی ہے لیکن ۳۰_۴۰ سال تک زندہ رہتا ہے _ سائنسدان ابھی انسان کی طبیعی زندگی کی یقینی سر حد معین نہیںکر سکے ہیں _ لیکن ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ عمر گھٹا نے والے اختلال اور بیماریوں کو رفع کرکے انسان کی عمر کو ۲۰۰ سال تک بڑھایا

۲۴۶

جا سکتا ہے _ یہ نظریہ بھی ابھی تک تھیوری ہی کی صورت میں موجود ہے مگر اسے موہوم اور غیر حقیقی نہیںقرار دیا جا سکتا _

۴_ انسان کی متوسط عمر

قدیم یونان میں انسان کی متوسط عمر ۲۹ سال اور قدیم روم میں اسے کچھ زیادہ تھی سولھویں صدی میں یورپ میں انسان کی عمر ۲۱ سال ، ستر ہویں صدی میں ۲۶ سال اور انیسویں صدی میں متوسط عمر ۳۴ سال تھی _ لیکن بیسویں صدی کی ابتداء میں یہ شرح یکبارگی ۴۵_۵۰ تک پہنچ گئی _ مذکورہ شرح یورپ سے متعلق ہے _ آج کے دنیا میں طویل العمری اور موت کے کم ہونے کی بہترین دلیل بچے ہیں _ لیکن پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک میں اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے _ مثلاً روس میں متوسط عمر ۷۱ سال اور ہندوستان میں ۳۰ سا ل ہے _

حیوانات کے درمیان انسان کی عمر اوسط کوئی زیادہ نہیں ہے انسان کی عمر کے نسبی اوسط (۶۰_۸۰) کا ذیل میں موازنہ ملاحظہ فرمائیں:

بطخ ۳۰۰سال گول مچھلی ۱۵۰سال

کچھوا ۱۷۰سال مینڈک ۱۶سال

چھپکلی ۳۶سال طوطا ۹۰ سال

کوّا ۷۰سال جنگلی مرغی ۸۰ سال

شتر مرغ ۴۰ - ۳۵ سال جالاقان ۱۱۸سال

عقاب ۱۰۴ سال شاہین ۱۶۲ سال

گھوڑا گائے ۲۵ - ۳۰ سال گوسفند ۱۴_۱۲ سال

۲۴۷

بکری ۲۷_۱۸ سال کتّا ۲۲_۱۶ سال بلّی ۱۲_ ۱۰ سال

۵_ روسی سائنسدان مچنیکوف کا نظریہ

اگر ایلیا مچنیکوف کے نظریہ میں غور کیا جائے تو انسان کے نسبی سن کا چند جانوروں سے اختلاف واضح ہوجائے گا _ مچنیکوف مرگ مفاجات اور بڑھاپے کی علت خلیوں کی مسمومیت اور بیکیڑیا کے جسم کے اندر زہر پھیلانے کو قرار دیتا ہے _ یا درہے بدن کے دیگر حصّوں سے زیادہ : Rotrotic ، بیکٹیریا کا محبوب حصّہ ہے _

تخمینہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں روزانہ ۱۳۰ ٹریلین جراثیم پیدا ہوتے ہیں Rotrotic کے بہت سے جراثیم بدن کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن ان میں سے بعض زہریلے ہوتے ہیں _ یہ بدن کو اندر سے اپنے زہر کے وسیلہ سے قتل کی طرح مسموم کرتے ہیں _ احتمال ہے کہ بدن کے خلئے اور اس کا نظام ( بافتہا) اس زہر کی وجہ سے جلد بوڑھا ہوجاتا ہے _ مذکورہ جدول سے علوم ہوتا ہے کہ پیٹ کے بل چلنے والی مچھلیاں اور پرندے پستان دار جانوروں سے زیادہ زندہ رہتے ہیں _ کیونکہ ان جانوروں کے اندر فراخ Rotrotic نہیں ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو ایسی میں رشد بہت کم ہوتا ہے _ پرندوں میں صرف شتر مرغ فراخ Rotrotic ہوتا ہے ، اور جیسا کہ جدول سے سمجھ میں آتا ہے اس کی عمر بھی ۳۰_ ۴۰ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے _ ان حیوانات میں کچھ جگالی کرنے والے ہیں کہ انکی زندگی سب سے کم ہوتی ہے _ اس کی وجہ شاید ان کے اندر فراخ کی نمو ہے _ جمگادڑ کے اندر بھی ایک چھوٹا Rotrotic ہوتا ہے چنانچہ حشرہ خوار جانوروں میں چمگاڈر کے ہم بدن سے زیادہ اس کی عمر ہوتی ہے _ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں rotrotic کے فراخ و طویل ہونا بھی دخیل ہے _ لیکن اسے زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ جس کا مچنیک نے اظہار کیا ہے _ بعض افراد نے آپریشن کے ذریعہ فراخ Rotrotic کو انکلوادیا تو

۲۴۸

مدتوں زندہ رہے _ یہ بات مسلّم ہے کہ بدن کیلئے اس عضو کا وجود ضروری نہیں ہے لیکن ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے فراخ Rotrotic کے باوجود طویل عمر بسر کی ہے _ ضعیفی شناسی کے دانشوروں نے ایسے افراد کی تحقیقی کی ہے _

۶_ مستقبل کا انسان طویل عمر پائے گا

جن لوگوں نے دنیا میں ایک سو پچاس سال سے زیادہ زندگی گزاری ہے وہ انگشت شمار ہیں ، ان میں سے جن کے نام کتابوں میں مرقوم ہیں وہ درج ذیل ہیں:

سنہ ۱۷۲۴ ء میں ایک دہقان مجار ۱۸۵ سال کی عمر میں مرا ، جو کہ اپنی آخری عمر تک جوانوں کی طرح کام کرتا تھا _

ایک اور شخص جان راول کیعمر مرتے دم ۱۷۰ سال تھی اور اس کی زوجہ کی ۱۶۴ سال تھی _ ۱۳۰ سال انہوں نے ازدواجی زندگی بسر کی _

ایک آلبانوی باشندہ ، خودہ ۱۷۰ سال تک زندہ رہا _ مرتے دم اس کے پوتے ، پوتیوں نواسے نواسیوں اور ان کی اولاد کی تعداد ۲۰۰ تھی _

چند سال قبل اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ جنوبی امریکہ میں ایک شخص مرا ہے جس کی عمر ۲۰۷ سال تھی _

روس میں ایسے تیس ہزار افراد ہیں جو کہ اپنی زندگی کی دوسری صدی گزار رہے ہیں _ اب روس کے سائنسدان بڑھاپے کی علت اور طول عمر کے راز کے انکشاف کرنے میں مشغول ہیں _ یقینا مستقبل میں علم انسان ضعیفی پر قابو پالے گا اور نتیجہ میں انسان اپنے آبا و اجداد سے زیادہ عمر پائے گا _(۱)

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۱ ، سال ششم

۲۴۹

موت کی علّت کے سلسلہ میں غیر معروف فرضیہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدن سے روح کے جدا ہونے کا نام موت ہے ، لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا روح کی مفارقت کی علت بدن اور اس کے عوارض ہیں؟کیا جسم ہی موت کے اسباب فراہم کرتا ہے؟

اکثر علماء اور اطبّاء نے پہلے نظریہ کو تسلیم کیا ہے وہ کہتے ہیں: جب بدن کی غریزی حرارت ختم ہوجاتی ہے تو بدن کا عام نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے اور اس کے آلات و قوا بیکار ہوجاتے ہیں ، بدن کے اعضاء رئیسہ فرسودہ ہوجاتے ہیں ، بقا کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور چونکہ روح اس فرسودہ جسم کی حیات کو جاری رکھنے اور اسے چلانے سے عاجز ہوجاتی ہے اس لئے اس سے جدا ہوجاتی ہے اور موت واقع ہوتی ہے _

لیکن اس گروہ کے مقابل میں بڑے اسلامی فلاسفر مرحوم ملاّ صدرا دوسرے نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں ،وہ اپنی کتاب ''اسفار'' میں لکھتی ہیں :'' جسم کی حفاظت اور اسے چلانے کی ذمہ داری روح پر ہے _ جب تک اسے بدن کی زیادہ ضرورت رہتی ہے اس وقت تک وہ بدن کی حفاظت و نگہبانی میں کوشاں رہتی ہے ، ہر طرح سے اس کا تحفظ کرتی ہے _ لیکن جب وہ مستقل اور بدن سے مستغنی ہوجاتی ہے تو پھر بدن کی طرف توجہ نہیں دیتی جس کے نتیجہ میں ضعف ، سستی اور اختلال پیدا ہونے لگتا ہے اور فرسودگی و ضعیفی آجاتی ہے یہاں تک کہ روح بدن کے امور کو بالکل نظر انداز کردیتی ہے اور طبیعی موت واقع ہوجاتی ہے ''_

احباب جانتے ہیں کہ اگر دوسرا نظریہ ثابت ہوجائے اور موت کا اختیار روح کے ہاتھ میں ہوتو صاحب الامر کی طول عمر کے موضوع کی راہ ہموار ہوجائے گی _ یہ کہا

۲۵۰

جا سکتا ہے کہ : چونکہ آپ (ع) کی روح کو دنیائے انسانیت اور عالم کی اصلاح کے لئے آپ کے وجود کی ضرورت ہے _ اس لئے بدن کی حفاظت و نگہبانی میں مستقل کوشش کرتے ہے اور اپنی جوانی و شادابی کو محفوظ رکھتی ہے _

آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ میں اس وقت اس مدعا کی صحت کو ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں اور نہ اس سے دفاع کی خواہش ہے _ سردست میں نے دوستوں کے سامنے غیر معروف فرضیہ کے عنوان سے پیش کیا ہے _ مجھے اس با ت کا اعتراف ہے کہ یہ غیر مانوس اور نئی بات ہے لیکن بغیر غور و فکر کے اسے باطل نہیں سمجھنا چاہئے _ قطعی فیصلہ اس وقت کیا جا سکتا ہے جب حقیقت نفس ، بدن پر اسکی تاثیر کی مقدار اور اس کی ارتباط کی کیفیت و تاثیر بخوبی پہچان لی جائے اور یہ بہت دشوار ہے کہ اس میں فلسفی و نفسیاتی اور بیالوجی کے ایک طویل سلسلہ کے تجربہ کی ضرورت ہے _ ابھی انسان کا علم اس حد تک نہیں پہنچاہے کہ حقیقت نفس اور اس کے بدن سے ارتباط کے بارے میں فیصلہ کرلے بلکہ ابھی وہ اپنے نفس و نفسیات کے ابتدائی مراحل طے کررہا ہے _ اگر علم آدمی کی روح و تن کی طرف متوجہ ہوگیا ہوتا تو یقینا ہماری دنیا کی حالت کچھ اور ہی ہوتی _

ڈاکٹر اکلسیس کارل اپنی کتاب '' انسان موجود ناشناختہ ، میں لکھتا ہے ، ہمیں بھی اپنی وجودی تعمیر کے بارے میں کافی علم حاصل نہیں ہوا ہے ،اگر نیوٹن ، گالیلہ اور لاوازیہ اپنی فکری صلاحیت انسان کے بدن و نفسیات کے مطالعہ پر صرف کرتے تو ہماری دنیا کی حالت ہی بدل گئی ہوتی _

۲۵۱

نتیجہ

ہوشیار: مذکورہ مطالب سے چند چیز یں سمجھ میں آتی ہیں:

۱_ انسا ن کی عمر کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوزنا ممکن ہو _ کسی بھی سائنسدان نے ابھی تک یہ نہیں کہا ہے کہ انسان کی عمر کا فلاں سال اس کے کاردان حیات کی آخری منزل ہے اس پر قدم رکھتے ہی موت آجائے گی _ بلکہ مشرق و مغرب کے جدی و قدیم سائنسدانوں کے ایک گروہ نے تصریح کی ہے کہ انسا ن کی عمر کی کوئی حد نہیں ہے _ ممکن ہے انسان آئندہ موت پر قابو پالے یا اسے کافی حد تک پیچھے ہٹادے کہ جس سے طولانے عمر پائے _ اس علمی امید کی کامیابی نے سائنسدانوں کو شب و روز کی کوشش اور تحقیق و تجربہ پر مجبور کیا ہے چنانچہ ابھی تک اس سلسلہ میں جو تجربات ہوئے ہیں وہ کامیاب رہے ہیں _

ان تجربات نے یہ ثابت کردیا کے موت بھی تمام بیماریوں کی طرح کچھ طبیعی علل و عوامل کا نتیجہ ہے اگر ان عوامل کو پہنچان لیا جائے اور ان کے اثرات کو روک دیا جائے تو موت کو پیچھے ہٹا یا جا سکتا ہے اور انسان کو اس خوفناک ہیولے سے نجات دلائی جا سکتی ہے _ جس طرح علم نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و عوامل کو کشف کرلیا ہے اوراس کی تاثیر کا سد باب کردیا ہے _ اسی طرح مستقبل قریب میں موت کے اسباب و علل کو پہچاننے اور اس کے اثرات کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائے گا _

۲_ نباتات ، حیوانات اور انسانوں کے درمیان ایسے افراد موجود ہیں کو جو اپنی نوع کے دیگر افراد سے ممتاز ہیں اور ان سے زیادہ طویل عمر پائی ہے _ ایسے استثنائی افراد کا وجود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نوع کے افراد کی عمر کی ایسی کوئی حد نہیں ہے کہ جس سے آگے بڑھنا محال ہو _ یہ صحیح ہے کہ اکثر انسان سو سال

۲۵۲

کی عمر سے پہلے ہی مرجاتے ہیں لیکن عمر کی اس مقدار سے مانوس ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ سوسال سے زیادہ عمر کا امکان ہی نہیں ہے _ کیونکہ ایسے بہت سے افراد گزرے ہیں جنہوں نے سو سال سے زیادہ عمر بسر کی ہے _ ایک سو پچاس سالہ ، ایک سو اسی سالہ اور دو سو پچاس سالہ انسان کاوجود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عمر انسان کی کوئی حد معین نہیں ہے _ دو سو پچاس سال اور دو ہزار سال زندگی گزارنے میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں غیر مانوس ہیں _

۳_ ضعیفی کوئی ایسا عارضہ نہیں ہے کہ جس کا کوئی علاج نہ ہو بلکہ یہ قابل علاج بیماری ہے جیسا کہ علم طب نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و اسباب کشف کرلئے ہیں اور انسان کو ان کے علاج کا طریقہ بتادیا ہے اسی طرح مستقبل میں ضعیفی و بڑھاپے کے عوامل کشف کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گا اور ان کا علاج انسان کے اختیار میں دیدے گا _ سائنسدانوں کا ایک گروہ اکسیر جوانی کی تلاش میں ہے اور انتھک کوشش و تحقیق اور تجربات میں مشغول ہے ، ان کے تجربات کامیاب رہے ہیں کہ جن کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں انسان ضعیفی اور فرسودگی کے عوامل پر قابو پالیگا اور ان عام بیماریوں کے علاج کا طریقہ تلاش کرے گا _ اس صورت میں انسان عرصہ دراز تک اپنی جوانی و شادابی کو ملحوظ رکھے گا _

مذکورہ مطالب اور سائنسدانوں کی تصدیق کی مدنظر رکھتے ہوئے آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اگر کوئی انسان جسمانی ساخت و ترکیب کے لحاظ سے نہایت ہی معتدل ہو ، اس کے اعضاء رئیسہ ، قلب ، اعصاب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور معدہ سب قوی اور سالم ہوں _ وہ حفظان صحت کے تمام اصولوں سے واقف ہو اور ان پر

۲۵۳

کاربند ہو _ مشروبات و ماکولات کے خواص و فوائد جانتا ہو ، ان میں سے مفید کو استعمال اور مضر سے پرہیز کرتا ہو ، جراثیم اور ان کی پیدا دار کے عوامل کو پہچانتا ہو ، امراض اور خصوصاً ضعیفی کے علاج سے آگاہ ہو _ زہر و مہلکات سے باخبر ہو ، ان سے اجتناب کرتا ہو ، بدن کی ضروری احتیاج کو غذا اور وٹامن و غیرہ سے پورا کرتا ہو ، والدین اور اجداد سے کوئی بیماری میراث میں نہ پائی ہو ، برے اخلاق ، پریشان خیالی ، جو کہ اعصاب و مغز کی فرسودگی اور دیگر بیماریوں کا باعث ہوتی ہے ، سے محفوظ ہو ، اس میں ایسے تمام نیک اخلاق موجود ہوں جو روح و جسم کے سکون کا باعث ہیں اور ان تمام چیزوں کے علاوہ اس کے جسم کا حاکم و مدیر انسانی کمال کے اعلی درجہ پر ہو تو ایسے انسان میں ہزاروں سال زندگی گزارنے کی صلاحیت ہوگی _ ایسی طویل عمر کو عمل و دانش نہ صرف یہ محال قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے امکان کا اثبات کرتے ہیں _

اس بناپر امام زمانہ کی طویل عمر کو محال اور لا ینحل مشکل نہیں قراردینا چاہئے _ کہ علم بہت طویل عمر کو جوانی و شادابی کی طاقت کی حفاظت کے ساتھ ممکن قراردیتا ہے _ اگر کسی شخص کا وجود عالم کیلئے ضروری ہو اور طویل عمر در کار ہو تو قادر مطلق خدا دنیا کے علل و معلولات اور خلقت کی مشینری کو اس طرح منظم کرے گا کہ جو ایسا کامل انسان پیدا کرے گی جو ضروری علم و اطلاعات کاحامل ہوگا _

ڈاکٹر:مذکورہ مطالب صرف ایسے ممتاز انسان کے وجود کو ثابت کرتے ہیں لیکن یہ بات کہاں سے ثابت ہوئی کہ ایسا انسان موجود بھی ہے؟

ہوشیار: عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نوع کی بقا کیلئے

۲۵۴

امام کا وجود ضروری ہے اور بہت سی احادیث کا اقتضا ہے کہ امام صرف بارہ ہوں گے اور یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ بارہویں امام ،امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند مہدی موعود ہیں جو کہ پیدا ہوچکے ہیں اور اب پردہ غیب میں ہیں _ اس سلسلہ میں سیکڑوں حدیثیں نقل ہوئی ہیں _ مذکورہ مطالب اور دانشوروں کی تائید کے بعد ہم نے ایسے غیرمتعارف عمر کے امکان کو ثابت کیا ہے _

تاریخ کے درازعمر

انجینئر : یہ کیسے ممکن ہے کہ خلقت کی مشنری نے صرف امام زمانہ ہی کو اتنی طویل عمر عطا کی ہے جسکی مثال نہیں ملتی ؟

ہوشیار: دنیا میں ایسے افراد کمیاب تھے اور ہیں _ منجملہ ان کے حضرت نوح (ع) ہیں _ بعض مورخین نے آپ(ع) کی عمر ۲۵۰۰ سال تحریر کی ہے _ توریت میں ۹۵۰ سال مرقوم ہے _

قرآن مجید صریح طور پر کہتا ہے کہ حضرت نوح (ع) نے ۹۵۰ سال تک اپنی قوم کو تبلیغ کی چنانچہ سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے کہ :

اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان نو سو پچاس سال رہے پھر قوم کو طوفان نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ وہ ظالم لوگ تھے _(۱)

____________________

۱_ عنکبوت/۱۴_

۲۵۵

اگر ہم مورخین کے قول کی تکذیب بھی کردیں تو قرآن مجید میں کسی قسم کے شک گنجائشے ہی نہیں ہے کہ جس نے حضرت نوح کی تبلیغ کا زمانہ ۹۵۰ سال بتا یا ہے جبکہ یہی عمر غیر معمولی ہے _

انجینئر : میں نے سنا ہے کہ یہ آیت متشابہات میں سے ہے؟

ہوشیار : متشابہات میں سے سے کیسے ہوسکتی ہے _ کیا مفہوم و معنی کے لحاظ سے مجمل و مبہم ہے ؟ عربی زبان سے جو شخص معمولی شد و بد بھی رکھتا ہے وہ اس آیت کے معنی کو بخوبی سمجھ سکتا ہے _ اگر یہ آیت متشابہات میں سے ہے تو قرآن میں کوئی محکم آیت نہیں ملے گی میں ایسے افراد کی بات کے بے معنی سمجھتا ہوں یا انھیں قرآن کا منکر کہا جائے کہ جن کے اظہار کی جرات نہیں رکھتے تھے _

مسعودی نے اپنی کتاب میں کچھ طویل العمر لوگوں کے نام مع ان کی عمروں کے درج کئے ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہیں :

حضرت آدم کی عمر : ۹۳۰ سال ، حضرت شیث : ۹۱۲ سال ، انوشّ : ۹۶۰ سال قینان : ۹۲۰ سال _ مہلائل : ۷۰۰ سال ، لوط : ۷۳۲ سال ، ادریس : ۳۰۰ سال

متو شلخ : ۹۶۰ سال ، لمک : ۷۹۰ سال ، نوح : ۹۵۰ سال ، ابراہیم : ۱۹۵ سال کیو مرث : ۱۰۰۰ سال ، جمشید : ۶۰۰ یا ۹۰۰ سال ، عمربن عامر : ۸۰۰ سال عاد : ۱۲۰۰ سال _ ۱

اگر آپ تاریخ وحدیث اور توریت کا مطالعہ فرمائیں گے تو ایسے بہت سے

____________________

۱_ مروج الذہب ج ۱ و ۲

۲۵۶

لوگ میلں گے _ لیکن واضح رہے کہ ان عمروں کا مدارک توریت یا اس کی تواریخ ہیں اور اہل تحقیق پر ان کی حالت پوشیدہ نہیں ہے یا خبر واحد مدرک ہے جس سے یقین حاصل نہیں ہوتا یا غیر معتبر تواریخ مدرک ہیں _ بہر حال مبالغہ سے خالی نہیں ہیں اور چونکہ ان کی صحت مجھ پر واضح نہیں ہے اس لئے ان سے استدلال و بحث سے چشم پوشی کرتا ہوں اور صرف حضرت نوح کی طویل العمری ہی کو ثبوت میں پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہمں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو المعمروں و الوصایا مولفہ ابی حاتم سجتانی اور ابوریحان بیرونی کی الآ ثار الباقیہ اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

۲۵۷

امام زمانہ عج کا مسکن

فھیمی : زمانہء غیب میں امام زمانہ کا مسکن کہاں ہے ؟

ہوشیار : آپ (ع) کے مسکن کی تعین نہیں ہوئی ہے _ شاید کوئی مخصوص نہ ہو بلکہ اجنبی کی طرح لوگوں کے در میان زندگی بسر کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے دور افتادہ علاقوں کورہا ئشے کیلئے منتخب کیا ہو _ احادیث میں دارد ہوا ہے کہ حج کے زمانہ میں آپ تشریف لاتے اور اعمال و مناسک حج میں شریک ہوتے ہیں لوگوں کوپہچانتے ہیں لیکن لوگ انھیں نہیں پہنچان پاتے _(۱)

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام زمانہ اسی سرداب میں ،جو کہ آپ سے منسوب ہے اور زیارت گاہ بنا ہوا ہے ، غائب ہوئے ہیں _ اس میں زندگی گزارتے ہیں اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے _ اگر اس سرداب میں موجود ہیں تو دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟ ان کیلئے کھانا پانی کون لے جاتاہے ؟ وہاں سے نکلتے کیوں نہیں؟ عرب کے شاعر نے اس مضمون پر مشتمل کچھ اشعار کہے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے : کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ جس میں سرداب اس شخص کو

____________________

۱_ بحارالانوارج۲ص۱۵۲

۲۵۸

باہرنکالے جسم تم انسان کہتے ہو؟ تمہاری عقلوں پر پتھر پڑگئے ہیں کہ عنقا اور خیالی چڑیا کے علاوہ ایک تیسرا موجود بھی ایجاد کرلیا _

ہوشیار: یہ محض جھوٹ ہے اور عناد کی بناپر اس کی نسبت ہماری طرف دی گئی ہے _ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے _ کسی روایت میں بیان نہیں ہوا کہ بارہویں امام سرداب میں زندگی گزاتے ہیں اور وہیں سے ظاہر ہوں گے _ کسی شیعہ دانشور نے بھی ایسی بات نہیں کی ہے _ بلکہ احادیت میں تو یہ ہے کہ امام زمانہ (ع) لوگوں کے درمیان ہی زندگی گزارتے ہیں اور ان کے درمیان آمد ورفت رکھتے ہیں _

سدیر صیرفی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے آپ(ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر اس لحاظ سے حضرت یوسف سے مشابہہ ہیں کہ برادران یوسف بھی آپ (ع) کو نہیں پہچان سکے تھے جبکہ عاقل بھی تھے اور یوسف کے ساتھ زندگی بھی گزارچکے تھے _ لیکن جب یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو جب تک یوسف (ع) نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا اس وقت تک آپ کو نہیں پہچان سکے اور باوجودیکہ یوسف حضرت یعقوب سے اٹھارہ روز کے فاصلہ پر تھے لیکن یعقوب کو آپ کی کوئی اطلاع نہیں تھی _ خدا حضرت حجّت کیلئے بھی ایسا ہی کرے گا _ لوگوں کو اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے _ آپ (عج) لوگوں کے درمیان آتے جاتے ہیں ان کے بازار میں تشریف لے جاتے ہیں ، ان کے فرش پر قدم رنجا ہوتے ہیں لیکن انھیں نہیں پہچان پاتا _ اسی طرح زندگی گزارتے رہیں گے _ یہاں تک خدا ظہور کاحکم فرمائے گا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۵۴_

۲۵۹

اما م کی اولاد کے ممالک

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام زمانہ کی بہت سے فرزندہیں جو کہ وسیع و عریض ممالک ظاہرہ ، رائقہ ، صافیہ ، ظلوم اور عناطیس میں زندگی گزارتے ہیں اور آپ کی اولاد میں سے لائق و شائستہ پانچ افراد ، طاہر ، قاسم ، ابراہیم ، عبدالرحمن اور ہاشم ان ممالک پر حکومت کرتے ہیں _ ان ملکو ں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں کی آب و ہوا اور نعمتیں بہشت برین کا نمونہ ہیں _ وہاں مکمل امن و امان ہے ، بھیڑیا اور بکری ایک جگہ رہتے ہیں _

درندے انسانوں کو کچھ نہیں کہتے _ ان ممالک کے باشندے مکتب امام کے تربیت یافتہ شیعہ اور صالح افراد ہیں ، فتنہ و فساد کا وہاں گزر نہیں ہے _ کبھی کبھی امام زمانہ بھی ان نمونہ ممالک کے معائنہ کے لئے تشریف لاتے ہیں ، ایسی ہی اور سیکڑوں دلچسپ باتیں ہیں

ہوشیار : ان مجہول ممالک کی داستان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ نہیں ہے _ ان کا مدرک وہ حکایت ہے جو حدیقة الشیعہ ، انور نعمانیہ اور جنة الماوی میں نقل ہوئی ہے مدعا کی وضاحت کی لئے ہم اس کے سند بیان کرتے ہیں :

داستان اس طرح نقل ہوئی ہے : علی بن فتح اللہ کاشانی کہتے ہیں : محمد بن حسین علوی نے اپنی کتاب میں سیعد بن احمد سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا : حمزہ بن مسیب نے شعبان کی ۸ تاریخ سنہ ۵۴۴ ھ میں مجھ سے بیان کیا کہ عثمان بن عبدالباقی نے جمادی الثانی کی ۷ تاریخ سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد بن یحیی انباری نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں بتایا کہ : میں اور دوسرے چند اشخاص عون الدین یحیی بن ہبیرہ وزیر

۲۶۰

کی خدمت میں پہنچے _ اسی مجلس میں ایک محترم اور اجنبی شخص بھی موجود تھا _ اس اجنبی نے کہا : چند سال قبل میں نے کشتی کا سفر کیا تھا ، اتفاقاً ملاح راستہ بھٹک گیا اور ہمیں ایک سربستہ راز جزیرہ پر پہنچا دیا کہ جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم و اطلاع نہیں تھی _ ناچار کشتی سے اترے اور اس سرزمین میں داخل ہوئے _ یہاں احمد بن محمد ان ممالک کی حیرت انگیز داستان اس اجنبی سے تفصیلا نقل کرتے ہیں اور داستان شروع کرتے ہیں _ اس داستان کو سننے کے بعد وزیر مخصوص کمرہ میں داخل ہوا اور اس کے بعد ہم سب کو بلایا اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک تمہیں کسی سے یہ داستان نقل کرنے کی اجازت نہیں ہے _ جب تک وزیر زندہ تھا ہم نے کسی سے بھی یہ داستان بیان نہ کی _(۱)

اجمالی طور پر داستان کی سند بیان کردی ہے تا کہ قارئین داستان کے ضعف کا اندازہ لگالیں تفصیل کے شائقین مذکورہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسی حکایتوں سے ایسے ممالک کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا _ اول تو اس داستان کا راوی ایک مجہول آدمی ہے کہ جس کی باتوں کا کوئی اعتبارنہیں ہے _ ثانیاً یہ ممکن نہیں ہے کہ روئے زمین پر ایسے ممالک آباد ہوں اور ان کی کسی کو خبر نہ ہو خصوصاً دور حاضر میں کہ تمام زمین کی نقشہ کشی کردی گئی ہے جو دانشوروں کی توجہ کا مرکز ہے اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس داستان سے ایسے خم ٹھوک کر دفاع کیا ہے جیسے اسلام کے مسلم ارکان سے کرتے ہیں _

____________________

۱_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج ۳ ص ۵۸_

۲۶۱

کہتے ہیں : ممکن ہے وہ ممالک ابھی تک موجود ہوں اور خدا اغیار و نامحرموں سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہو _ لیکن میرے نقطہ نظر سے اس کے جواب کی ضرورت نہیں ہے _ میں نہیں جانتا کہ انھیں ایسے بے مدرک اور ضعیف موضوع کو ثابت کرنے کیلئے کس چیز نے مجبور کیا ہے کہتے ہیں بالفرض ایسے ممالک آج اگر موجود نہ ہوں تو بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ زمانوں میں تھے بعد میں نیست و نابود ہوگئے اور ان کے باشندے متفرق ہوگئے ہیں _ یہ احتمال بھی بے بنیاد ہے _ کیونکہ اگر ایسے وسیع اور شیعہ نشین ممالک آباد ہو تے تو بہت سے لوگون کو ان کی اطلاع ہوتی اور ان کے حالات و کوائف اجمالی طور پر سہی تاریخ میں ثبت ہوتے _ یہ بات محال معلوم ہوتی ہے کہ چند بڑے ممالک موجود ہوں اور کسی کو ان کی خبر نہ ہو اور یہ سعادت صرف ایک مجہول شخص کو نصیب ہونے کے بعد ان کے آثار صفحہ روزگار سے اس طرح مٹا دیئے جائیں کہ تاریخ اور آثار قدیمہ کی تحقیق میں بھی ان کا نام و نشان نہ ملے _

علامہ ، محقق شیخ آقا بزرگ تہرانی مذکورہ داستان کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے اور لکھتے ہیں _ یہ داستان محمد بن علی علوی کی کتاب تغازی کے آر میں نقل ہوئی ہے _ اس سے علی بن فتح اللہ کاشانی یہ سمجھ بیٹھے کہ مرقومہ داستان کتاب ہی کا جز ہے _ جبکہ یہ اشتباہ ہے _ ممکن نہیں ہے کہ داستان کتاب کا جز ہوکیونکہ یحیی بن ہبیر کہ جس کے گھر یہ قضیہ پیش آیا وہ سنہ۵۶۰ ھ میں مر چکا تھا اور کتاب تغازی کے مولف اس سے دوسو سال پہلے گزرے ہیں _ اس کے علاوہ داستان کے متن میں بھی تناقض ہے کیونکہ داستان کے ناقل احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ وزیر نے ہم سے عہد لیا کہ مذکورہ داستان کو تم میں سے کوئی بیان نہ کرے اور ہم نے

۲۶۲

اپنے عہد کو پورا کیا چنانچہ جب تک وہ زندہ رہا اس وقت تک کسی سے بیان نہیں کی _ اس بناپر اس داستان کی حکایت وزیر کی تاریخ وفات ۵۶۰ کے بعد ہوئی جبکہ داستان کے متن میں عثمان بن عبد الباقی کہتے ہیں : احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ یہ داستان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے نقل کی گئی _(۱)

دوسری جگہ کہتے ہیں : عثمان بن عبد الباقی نے سات جمادی الثانی سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے بتایا : آپ جانتے ہیں کہ جمادی الثانی کے دو ماہ بعدرمضان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ حادثہ کے رونما ہونے سے دو ماہ قبل ہے یعنی جمادی الثانی میں اسے کسی سے بیان کیا جائے _

ہم امام زمانہ کے محل سکونت کے موضوع میں مجبور نہیں ہیں کہ زبر دستی پوچ دلیلوں سے ''جزائر خضرائ'' جابلقا اور جابرصا کو ثابت کریں یا کہیں : آپ(ع) نے اپنی سکونت کیلئے اقلیم ثامن کا انتخاب کیا ہے _

فہیمی : تو جزیرہ خضراء کی داستان کیا ہے ؟

ہوشیار : چونکہ وقت ختم ہونے والا ہے اس لئے بقیہ مطالب آئندہ جلسہ میں بیان کروں گا اور احباب رضامندہوں تو آئندہ میرے غریب خانہ ہی پر جلسہ منعقد ہوجائے _

____________________

۱_ الذریعہ ج ۵ ص ۱۰۶_

۲۶۳

جزیرہ خضراء

مقررہ وقت پر ہوشیار صاحب کے گھر جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _

جلالی : گزشتہ جلسہ میں شاید فہیمی صاحب نے جزیرہ خضراء کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا تھا

فہیمی: میں نے سنا بلکہ امام زمانہ اور آپ کی اولاد جزیرہ خضراء میں زندگی بسر کرتے ہیں اس سلسلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان کی حیثیت بھی افسانہ سے زیادہ نہیں ہے مرحوم مجلسی نے بحار الانوار میں اس داستان کو تفصیل سے نقل کیا ہے _ اجمال یہ ہے : میں نے نجف اشرف میں امیر المومنین (ع) کے کتب خانہ میں ،ایک رسالہ دیکھا تھا کہ نام جزیرہ خضراء کی داستان تھا _ اس قلمی رسالہ کے مؤلف فضل بن یحیی طبیبی ہیں _ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ جزیرہ خضراء کی داستان میں نے ۱۵ / شعبان سنہ ۶۹۹ ھ کو اباعبداللہ علیہ السلام کے حرم میں شیخ شمس الدین اور شیخ جلال الدین سے سنی تھی _ انہوں نے زین الدین علی بن فاضل مازندرانی سے داستان نقل کی تھی _ مجھے شوق پیدا ہوا کہ خود ان سے داستان سنوں _

خوش قسمتی سے اسی سال شوال کے اوائل میں زین الدین شہر حلّہ تشریف لائے تو میں نے سید فخر الدین کے گھر ان سے ملاقات کی _ میں نے ان سے خواہش کی کہ جو داستا ن آپ نے شیخ شمس الدین و شیخ جلال الدین کو سنائی تھی وہ مجھے بھی سنا دیجئے انہوں نے فرمایا: میں دمشق میں شیخ عبد الرحیم حنفی اور شیخ زین الدین علی اندلسی

۲۶۴

سے تعلیم حاصل کرتا تھا _ شیخ زین الدین خوش طبع شیعہ اور علمائے امامیہ کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا اوران کا احترام کرتا تھا_ ایک مدت تک میں نے ان سے علم حاصل کیا اتفاقاً وہ مصر تشریف لے جانے کیلئے تیار ہوئے چونکہ ہمیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ عقیدت و محبت تھی اس لئے انہوں نے مجھے بھی اپنی ہمراہ مصر لے جانے کا فیصلہ کیا _ ہم دونوں مصر پہنچے اور قاہرہ میں اقامت گزینی کا قصد کیا _ تقریباً نو ماہ تک ہم نے وہاں بہترین زندگی گزاری _ ایک روز انھیں ان کے والد کا خط موصول ہوا ، خط میں تحریر تھا: میں شدید بیمارہوں ، میرا دل چاہتا ہے کہ مرنے سے قبل تمہیں دیکھ لوں _ استا د خط پڑھ کر رونے لگے اور اندلس کے سفر کا ارادہ کرلیا _ میں بھی اس سفر میں ان کے ساتھ تھا _ جب ہم جزیرہ کے اولین قریہ میں پہنچے تو مجھے شدید بیماری لا حق ہوگئی ، یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا _ میری کیفیت سے استاد بھی رنجیدہ تھے ،انہوں نے مجھے اس قریہ کے پیش نماز کے سپرد کیا تا کہ میری دیکھ بھال کرے اور خود اپنے وطن چلے گئے _ تین روز کی بیماری کے بعد میری حالت ٹھیک ہوگئی _ چنانچہ میں گھر سے نکل کر دیہات کی گلیوں میں ٹہلنے لگا _ وہاں میں نے کوہستان سے آئے ہوئے ایک قافلہ کو دیکھا جو کہ کچھ چیزیں لائے تھے _ میں نے ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں تو معلوم ہوا کہ یہ بربر کی سرزمین سے آئے ہیں جو کہ رافضیوں کے جزیرہ سے قریب ہے ، جب میں نے رافضیوں کے جزیرہ کا نام سنا تو اسے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ، انہوں نے بتایا کہ یہاں سے پچیس روز کے فاصلے پر واقع ہے _ جس میں دو روز کی مسافت میں کہیں آبادی اور پانی نہیں ہے _ اس دو دن کی مسافت کو طے کرنے کے لئے میں نے گدھا کرایہ پر لیا اور اپنے سفر کا آغاز کیا یہاں تک کہ رافضیوں کے جزیرہ

۲۶۵

تک پہنچ گیا ، جزیرہ کے چاروں طرف دیواریں تھیں اور محکم و بلند گنبد بنے ہوئے تھے مسجد میں داخل ہوا _ مسجد بہت بڑی تھی، موذن کی آواز سنی ، اس نے شیعون کی اذان دی اور اس کے بعد امام زمانہ کے تعجیل کیلئے دعا کی _ خوشی سے میرے آنسو جاری ہوگئے _ لوگ مسجد میں آئے _ شیعوں کے طریقہ سے وضو کیا اور فقہ شیعہ کے مطابق نماز جماعت قائم ہوئی _ نماز اور تعقیبات کے بعد لوگوں نے مزاج و احوال پرسی کی _ میں نے اپنی روداد سنائی اور بتایا کہ میں عراقی الاصل ہوں _ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں شیعہ ہوں تو میرا بہت احترام کیا اور میرے قیام کے لئے مسجد کا حجرہ معین کیا _ پیش نماز صاحب بھی میرا احترام کرتے تھے اور شب و روز میرے پاس رہتے تھے _ ایک دن میں نے ان سے پوچھا اہل شہر کی ضرورت کی چیزیں اور خوراک کہاں سے آتی ہیں؟ مجھے یہاں کاشتکاری کی زمین نظر نہیں آتی ہے _ اس نے کہا: ان کا کھانا جزیرہ سے آتا ہے ، یہ جزیرہ بحرا بیض کے بیچ واقع ہے _ ان کے کھانے کی اشیاء سال میں دو مرتبہ جزیرہ سے کشتیوں کے ذریعہ آتی ہیں _ میں نے پوچھا کشتی آنے میں کتنا وقت باقی ہے؟ اس نے کہا : چارماہ _ طویل مدت کی وجہ سے مجھے افسوس ہوا لیکن خوش قسمتی سے چالیس دن کے بدن کشتیاں آگئیں اور یکے بعد دیگرے سات کشتیاں وارد ہوئیں _ ایک کشتی سے ایک وجیہہ آدمی اترا ، مسجد میں آیا ، فقہ شیعہ کے مطابق وضو کیا اور نماز ظہر و عصر ادا کی _ نماز کے بعد میری طرف متوجہ ہوا ، سلام کیا اور گفتگو کے دوران میرے اور میرے والدین کا نام لیا _ اس سے مجھے تعجب ہوا _ کیا آپ شام سے مصر اور مصر سے اندلس تک کے سفر میں میرے نام سے واقف ہوئے ہیں ؟ کہا: نہیں ، بلکہ تمہارا اور تمہارے والدین کے نام ، شکل و صورت اور صفات مجھ تک پہنچے ہیں _

۲۶۶

میں تمھیں اپنے ساتھ جزیرہ خضراء لے جاؤنگا _ ایک ہفتہ انہوں نے وہیں قیام کیا اور ضروری امور کی انجام دہی کے بعد سفر کا آغاز کیا _ سولہ دن سمندر کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے بحرا بیض نظر آیا _ اس شیخ نے کہ جس کا نام محمد تھا ، مجھ سے پوچھا کس چیز کا نظارہ کررہے ہو؟ اس علاقہ کے پانی کا دوسرا رنگ ہے _ اس نے کہا: یہ بحرا بیض ہے اور یہ جزیرہ خضراء ہے ، پانی نے اسے دیواروں کی طرح چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور خدا کی حکمت ہے کہ جب ہمارے دشمنوں کی کشتیاں ادھر آنا چاہتی ہیں تو وہ صاحب الزمان کی برکت سے غرق ہوجاتی ہیں _ اس علاقہ کہ میں نے تھوڑا ساپانی پیا ، فرات کے پانی کی طرح شیرین و خوشگوارتھا _ بحرا بیض کا کچھ سفر طے کرنے کے بعد جزیرہ خضراء پہنچے کشتی سے اتر کر شہر میں داخل ہوئے _شہر بارونق تھا ، اس میں میوہ سے لدے ہوئے درخت اور چیزوں سے بھرے ہوئے بازار بہت زیادہ تھے اور اہل شہر بہترین زندگی گزار رہے تھے _ اس پر کیف منظر سے میرا دل باغ باغ ہوگیا _ میرا دوست محمد اپنے گھر لے گیا _ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جامع مسجد گئے _ مسجد میں بہت سی جماعتیں تھیں اور ان کے درمیان ایک شخص تھا کہ جس کے جلال و عظمت کو میں بیان نہیں کرسکتا _ اس کا نام سید شمس الدین محمد تھا _ وہ لوگوں کو عربی ، قرآن ، فقہ اوراصول دین کی تعلیم دیتا تھا _ میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا: اپنے پاس بٹھایا ، مزاج پرستی کی اور کہا میں نے شیخ محمد کو تمہارے پاس بھیجا تھا _ اس کے بعد انہوں نے میرے قیام کے لئے مسجد کا ایک کمرہ معین کرنے کا حکم دیا _ ہم آرام کرتے اور شمس الدین اور ان کے اصحاب کے ساتھ کھانا کھاتے تھے _ اسی طرح اٹھارہ روز گزر گئے جب میں وہاں پہلے جمعہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ

۲۶۷

سید شمس الدین نے نماز جمعہ واجب کی نیت سے ادا کی _ میں نے کہا : کیا امام زمانہ حاضر ہیں کہ واجب کی نیت سے نماز پڑھی ؟ کہا : امام حاضر نہیں ہیں لیکن میں ان کا خاص نائب ہوں ، میں نے کہا : کیا کبھی آپ نے امام زمانہ کو دیکھا ہے ؟ نہیں ، لیکن والد صاحب کہتے تھے کہ وہ امام کی آواز سنتے تھے مگر دیکھتے نہیں تھے ، ہاں دادا آواز بھی سنتے تھے اور دیکھتے بھی تھے_ میں نے کہا: میرے سید و سردار : کیا وجہ ہے کہ امام (ع) کو بعض لوگ دیکھتے ہیں اور بعض نہیں ؟ فرمایا: یہ بعض بندوں پر خدا کا لطف ہے _

اس کے بعد سید نے میرا ہاتھ پکڑا اور شہر سے باہر لے گئے _ وہاں میں نے ایسے باغات ، چمن زاروں ، نہروں اور بہت سے درختوں کا مشاہدہ کیا کہ جن کی نظیر عراق میں نہیں تھی _ واپسی کی وقت ایک حسین و جمیل آدمی سے ہماری ملاقات ہوئی _ میں نے سید سے پوچھا کہ یہ شخص کو ن تھا ؟ کہا: کیا اس بلند پہاڑ کو دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ، کہا: اس پہاڑ کے درمیاں ایک خوبصورت جگہ ہے اور درختوں کے نیچے ایک خوشگوار پانی کا سرچشمہ ہے وہاں اینٹوں کا بنا ہوا ایک گنبد ہے یہ شخص اس قبہ کا نگہبان و خدمت گار ہے _ میں ہر جمعہ کی صبح کو وہاں جاتا ہوں اور امام زمانہ کی زیارت کرتاہوں اور دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد ایک کاغذ ملتا ہے کہ جس میں میری ضرورت کے تمام مسائل مرقوم ہوتے ہیں _ تمہارے لئے بھی ضروری ہے وہاں جاؤ اور اس قبہ میں امام زمانہ کی زیارت کرو _

میں اس پہاڑ کی جانب روانہ ہوا _ قبہ کو میں نے ایسا ہی پایا جیسا کہ مجھے بتایا گیا تھا _ وہاں وہ خادم بھی ملا _ میں نے ان سے امام زمانہ سے ملاقات کی خواہش کی انہوں نے کہا: ناممکن ہے اور ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے _ میں نے کہامیرے لئے دعا کرو ،

۲۶۸

انہوں نے میرے لئے دعا کی ، اس کے بعد میں پہاڑ سے اتر آیا اور سید شمس الدین کے گھر کی طرف روانہ ہوا ان سے راستہ میں کہیں ملاقات نہ ہوئی _ میں اپنی کشتی کے ساتھ شیخ محمد کے گھر پہنچا اور پہاڑ کا ماجرا انھیں سنایا اور بتایا کہ ان خادموں نے مجھے ملاقات کی اجازت نہیں دی ہے _ شیخ محمد نے بتایا کہ وہاں سید شمس الدین کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے _ وہ امام زمانہ کی اولاد سے ہیں _ ان کے اور امام زمانہ کے درمیان پانچ پشتیں ہیں وہ امام زمانہ کے خاص نائب ہیں _

اس کے بعد میں نے سید شمس الدین سے خواہس کی کہ میں اپنی بعض دینی مشکلیں آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے سامنے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے صحیح قرائت بتادیں _ فرمایا: کوئی حرج نہیں _ پہلے میں نے قرآن شروع کیا _ تلاوت کے درمیان قاریوں کا اختلاف بیان کیا تو سید نے کہا : ہم ان قرائتوں کو نہیں جانتے ہماری قرائت تو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے قرآن کے مطابق ہے _ اس وقت انہوں نے حضرت علی (ع) کے جمع کردہ قرآن کا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ ابوبکر نے اسے قبول نہیں کیا تھا _ بعد میں ابوبکر کے حکم سے قرآن جمع کیا گیا اور اس سے بعض چیزیں حذف کردی گئی ہیں _ چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آیت کے قبل و بعد میں ربط نہیں ہے _ سید کی اجازت کے بعد تقریباً میں نے نوے مسائل ان سے نقل کئے خاص کے علاوہ کسی کو ان کے نقل کی اجازت نہیں دیتا ہوں _

اس کے بعد اپنی مشاہدہ کردہ دوسری داستان نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میں نے سید سے عرض کی : امام زمانہ سے ہمارے پاس کچھ احادیث پہنچی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص زمانہ غیبت میں رویت کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے _ جبکہ آپ

۲۶۹

کہتے ہیں ہم سے بعض کی امام سے ملاقات ہوتی ہے ، اس حدیث اور آپ کے بیان میں کیسے توافق ہوسکتا ہے ؟ فرمایا: یہ احادیث صحیح ہیں ، لیکن اس وقت کے لئے تھیں جب بنی عباس میں سے آپ(ع) کے بہت سے دشمن تھے _ مگر اس زمانہ میں دشمن آپ سے مایوس ہوچکے ہیں اور ہمارے شہر بھی ان سے دور ہیں کسی کی دست رسی اس میں نہیں ہے ، لہذا اب ملاقات میں کوئی خطرہ نہیں ہے _

میں نے کہا: سید شیعہ امام سے کچھ احادیث نقل کرتے ہیں کہ خمس آپ نے شیعوں کے لئے مباح کیاہے _ کیا آپ نے اما م سے یہ حدیث سنی ہے کہ امام نے خمس کو شیعوں کیلئے مباح کیا ہے _ اس کے بعد وہ سید سے کچھ اور مسائل نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: تم نے بھی ابھی تک امام کو دو مرتبہ دیکھا ہے لیکن پہچان نہیں سکے _

خاتمہ میں کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: مغربی ممالک میں قیام نہ کرو، جتنی جلد ہوسکے عراق پلٹ جاؤ_ چنانچہ میں نے ان کے حکم کے مطابق عمل کیا _

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان ایسی ہی ہے جیسا کہ میں نے اس کا خلاصہ آپ کے سامنے بیان کیا ہے _ آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری ہے کہ مذکورہ داستان کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ افسانہ کی حیثیت ہے کیونکہ :

اولاً: اس کی سند معتبر و قابل اعتماد نہیں ہے _ یہ داستان ایک مجہول قلمی نسخے سے نقل کی گئی ہے چنانچہ اس کے متعلق خود مجلسی لکھتے ہیں : چونکہ مجھے یہ داستان معتبر کتابوں میں نہیں ملی ہے اس لئے میں نے اس کو الگ باب میں نقل کیا ہے ( تا کہ کتاب کے مطالب سے مخلوط نہ ہوجائے )

ثانیاً: داستان کے مطالب کے درمیان تناقض پایاجاتا ہے جیسا کہ آپ نے

۲۷۰

ملاحظہ فرمایا: سید شمس الدین ایک جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں : '' میں امام زمانہ کا خاص نائب ہوں اور ابھی تک امام زمانہ کو نہیں دیکھا ہے _ میرے والد نے بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ان کی آواز سنتے تھے جبکہ میرے دادا دیکھتے اور آواز سنتے تھے '' _ لیکن یہی سید شمس الدین دوسری جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں :'' میں ہر جمعہ کی صبح کو امام کی زیارت کے لئے جاتا ہوں ، بہتر ہے تم بھی جاؤ'' ، داستان کے راوی سے شیخ محمد نے بھی یہی کہا تھا کہ صرف سید شمس الدین اور انہی جیسے لوگ امام کی خدمت میں مشرف ہو سکتے ہیں _ ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ فرما رہے ہیں کہ ان مطالب میں کتنا تناقض ہے _ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سید شمس الدین جانتے تھے کہ اپنے علاوہ کسی کو زیارت کے لئے نہیں لے جاتے تو پھر داستان کے راوی سے یہ تجویز کیسے پیش کی کہ ملاقات کے لئے پہاڑ پر جاؤ_

ثالثاً : مذکورہ داستان میں تحریف قرآن کی تصریح ہوئی ہے جو کہ قابل قبول نہیں ہے اور علمائے اسلام شدت کے ساتھ اس کا انکار کرتے ہیں _

رابعاً: خمس کے مباح ہونے والا موضوع بھی کہ جس کی تائید کی گئی ہے فقہا کی نظر میں صحیح نہیں ہے _

بہر حال داستان رومانٹک انداز میں بنائی گئی ہے ، لہذا بہت ہی عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے _ زین الدین نامی ایک شخص عراق سے تحصیل علم کے لئے شام جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتاہے ، طویل سفر طے کرتا

۲۷۱

ہے _ وہاں بیمار پڑتا ہے _ اس کا استاد اسے چھوڑدیتا ہے _ افاقہ کے بعد ، رافضیوں کے جزیرہ کا نام سن کر اس جزیرہ کو دیکھنے کا ایسا اشتیاق پیدا ہوتا ہے کہ اپنے استاد کو بھول جاتا ہے _ خطرناک اور طویل سفر طے کرکے رافضیوں کے جزیرہ پہنچتا ہے _ جزیرہ میں زراعت نہیں ہوتی لہذا پوچھتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی غذ ا کہاں سے آتی ہے ؟ جواب ملتا ہے کہ ان کی غذا جزیرہ خضراء سے آتی ہے ، باوجودیکہ لوگوں نے بتا یا تھا کہ چار ماہ کے بعد کشتیاں آئیں گی لیکن اچانک چالیس ہی دن کے بعد آجاتی ہیں ، ساحل پر لنگر انداز ہوتی ہیں اور ایک ہفتہ کے بعد اسے (راوی کو) اپنے ساتھ لے جاتے ہیں _ بحر ابیض کے وسط میں سفید پانی دیکھتا ہے جو کہ شیرین و گوارا بھی ہے اس کے بعد ناقابل عبور جگہ سے گزر کر جزیرہ خضراء میں داخل ہوتا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک عراقی طویل سفر طے کرنے کے بعد مختلف ممالک کے لوگوں سے گفتگو کرتا ہے اور ان سب کی زبان جانتا ہے ، کیا اندلس کے باشندے بھی عربی بولتے تھے؟

دوسری قابل توجہ بات بحر ابیض کی داستان ہے _ آپ جانتے ہیں کہ بحر ابیض روس کی جمہوریاؤں کے شمال میں واقع ہے _ وہاں یہ واقعہ نہیں پیش آسکتا تھا _ البتہ بحر متوسط کو بھی بحر ابیض کہتے ہیں _ ممکن ہے یہ داستان وہاں کی ہو لیکن اس پورے سمندر کو بحر ابیض کہا جا تا ہے نہ کہ اس مخصوص علاقہ کو جسے داستان کے راوی نے سفید محسوس کیا تھا _ اگر کوئی مذکورہ داستان میں مزید غور کرے گا تو اس کا جعلی ہونا واضح ہوجائے گا _

خاتمہ پر اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے _ جیسا کہ اس سے قبل آپ

۲۷۲

ملاحظہ فرما چکے ہیں _ ہماری احادیث میں بیان ہوا ہے کہ امام زمانہ اجنبی کی طرح لوگوں کے درمیاں رہتے ہیں _ عام مجموع اور حج میں شرکت کرتے ہیں اور بعض مشکلات کے حل میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں _

اس مطلب کے پیش نظر امام زمانہ ، مستضعفین اور حاجت مندوں کی امید کا دور افتادہ علاقہ ، سمندر کے بیچ میں اقامت گزیں ہونا نہایت ہی نا انصافی ہے _ آخر میں معذرت خواہ ہوں کہ ایسی غیر معتبر داستان کی تشریح کیلئے آپ کا قیمتی وقت لیا _

جلالی : امام زمانہ کی اولا ہیں یا نہیں ؟

ہوشیار: ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو شادی اور اولاد کا قطعی و یقینی طور پر اثبات و نفی کرتی ہو _ البتہ ممکن ہے خفیہ طور پر شادی کی ہو اور ایسے ہی اولا د کا بھی کسی کو علم نہ ہو اور جیسے مناسب سمجھتے ہوں عمل کرتے ہوں اگر چہ بعض دعاؤں کی دلالت اس بات پر ہے کہ امام زمانہ کی اولاد ہے یااس کے بعد پیدا ہوگی _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۱۷_

۲۷۳

ظہور کب ہوگا؟

ڈاکٹر : مہدی موعو د کب ظہور فرمائیں گے ؟

ہوشیار: ظہور کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں ہوئی ہے بلکہ وقت کی تعیین کرنے والے کو ائمہ اطہار علیہم السلام نے جھوٹا قرار دیا ہے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :

فضل کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : کیا مہدی کے ظہور کا وقت معین ہے ؟ امام (ع) نے جواب میں تین مرتبہ فرمایا:

''جو شخص ظہور کے وقت کی تعیین کرتا ہے وہ جھوٹا ہے ''(۱)

عبد الرحمن بن کثیر کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ مہزم اسدی آئے اور عرض کی : میں آپ(ع) کے قربان ، قائم آل محمد (ص) کا ظہور اور حکومت حق کی تشکیل ، کہ جس کے آپ منتظر ہیں ، کب ہوگا ؟ آپ (ع) نے جواب دیا :

'' ظہور کے وقت کی تعیین کرنے والا جھوٹا ہے ، تعجیل کرنے والے ہلاک ہوتے ہیں اور سراپا تسلیم لوگ نجات پاتے ہیں اور

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲۷۴

ان کی بازگشت ہماری طرف ہوتی ہے ''(۱)

محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا :

''جو شخص وقت ظہور کی تعیین کرتاہے _ اس کی تکذیب کرنے میں خوف محسوس نہ کرو کیونکہ ہم ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کرتے '' _ اس سلسلہ میں دس احادیث اور ہیں _(۲)

ا ن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) نے ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کی ہے اور ہر غلط فائدہ اٹھائے والے کا راستہ بند کردیا ہے _ پس اگر امام کی طرف کسی ایسی حدیث کی نسبت دی جائے کہ جس میں وقت کی تعیین کی گئی ہو تو اسکی تاویل کی جائے اگر قابل تاویل ہے یا اس کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے یا اسکی تکذیب کرنا چاہئے جیسے ابولبید مخزومی کی ضعیف و مجمل حدیث میں امام کی طرف بعض مطالب کی طرف نسبت دی گئی ہے او ران کے ضمن میں کہا ہے کہ ہمارا قائم '' الر'' میں قیام کرے گا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۴_

۳_ بحاراالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۶_

۲۷۵

ظہور کی علامتیں

انجینئر: ظہور کی علامتیں کہاں تک صحیح ہیں؟

ہوشیار: صاحب الامر (ع) کے ظہور کی بہت سی علامتیں احادیث کی کتابوں میں بیان ہوئی ہیں لیکن اگر ہم ان سب کو بیان کریں تو بحث طولانی ہوجائیگی اور کئی جلسے اس میں گزر جائیں گے لیکن یہاں چند ضروری باتوں کی وضاحت کردینا ضروری ہے :

الف: بعض علامتوں کا مدرک ، خبر واحد ہے کہ جس کی سند و طریق میں غیر موثق اور مجہول الحال اشخاص ہیں لہذا مفید یقین نہیں ہے _

ب: اہل بیت کی احادیث میں ظہور کی علامتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے _ ان میں سے ایک حتمی و ضروری ہے ، اس میں :وئی قید و شرط نہیں ہے ان کا ظہور سے قبل واقع ہونا ضروری ہے _ دوسری قسم حتمی نہیں ہے یہ وہ حوادث ہیں جو ظہور کی حتمی علامت نہیںہیں بلکہ شرط سے مشروط ہیں اگر شرط واقع ہوگی تو یہ بھی ہوں گے اور اگر شرط نہ ہوگی تو یہ بھی نہ ہوں گے _ لہذا انھیں اجمالی طور پر ظہور کی علامتوں میں شمار کرنے میں مصلحت تھی _

ج _ جو چیزیں ظہور کی علامت ہیں وہ جب تک واقع نہ ہونگی اس وقت تک

۲۷۶

صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا اور ان کا وقوع اس بات کی دلیل ہے کہ فرج کا زمانہ ایک حد تک قریب آگیا ہے _ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان علامتوں کے واقع ہوتے ہی بلا فصل امام زانہ کا ظہور ہوجائے گا _ لیکن ان میں سے بعض کی تصریح ہوئی ہے کہ وہ امام کے ظہور سے نزدیک واقع ہونگی _

د_ ظہور کی بعض علامتیں معجزانہ اور خارق العادت کے طور پر واقع ہونگی تا کہ مہدی موعود کے دعوے کے صحیح ہونے کی تائید کریں اور دنیا کے غیر معمولی حالات کو بیان کریں _ یہ علامتیں ایسی ہی ہیں جیسے دیگر معجزات اور صرف اس لئے انھیں رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ معمولی حالات کے موافق نہیں ہیں _

ھ_ ظہور کی علامتوں کی ایک قسم کتابوں میں ہمیں نظر آتی ہیں کہ جن کا واقع ہونا محال معلوم ہوتا ہے جیسا کہ یہ کہا گیا ہے ظہور کے وقت مغرب سے سورج نکلے گا اور نصف ماہ رمضان میں سورج گہن لگے گا اور پھر اسی مہینہ کے نصف آخر میں گہن لگے گا _ دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسے حوادث کے واقع ہونے سے کائنیات کا نظام درہم و برہم ہوجائے گا _ اور شمسی نظام کی گردش میں تبدیلی آجائے گی _ لیکن واضح رہے ان علامتوں کا مدرک بھی خبر واحد ہے جو کہ مفید یقین نہیں ہے _ ان کی سند میں خدشہ وارد کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ بنی امیہ و بنی عباس کے خلفا کی جعل کی ہوئی ہیں _ کیونکہ اس زمانہ میں بعض لوگ حکومت وقت کے خلاف مہدی موعود کے عنوان سے قیام کرتے تھے اور اس طرح بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنالیتے تھے _ خلفائے وقت نے جب یہ محسوس کیا کہ مہدی سے متعلق اصل احادیث کا انکار ممکن نہیں ہے تب انہوں نے دوسرا طریقہ سوچا تا کہ علویوں

۲۷۷

کی نہضت و تحریک کو مختل کیا جا سکے اور لوگوں کو اس سے بازر کھا جا سکے _ اس لئے انہوں نے محال علامتیں جعل کیں تا کہ لوگ ان علامتوں کے منتظر رہیں اور علویوں کی بات نہ مانیں _ اگر صحیح احادیث ہوتیں تو کوئی بات نہ تھی ایسی علامتیں معجزانہ طور پروجود میں آئیں گی تا کہ کائنات کے غیر معمولی حالات کا اعلان کریں اور حکومت حق کی ترقی کے اسباب فراہم کریں _

۲۷۸

سفیانی کا خروج

انجینئر: ظہور کی علامتوں میں سے ایک سفیانی ہے _ یہ کون ہے اور اس کا قصہ کیا ہے؟

ہوشیار: بہت سی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صاحب الامر (عج) کے ظہور سے پہلے ابو سفیان کی نسل سے ایک شخص خروج کرے گا _ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ظاہراً اچھا آدمی ہے ہمیشہ اس کی زبان پر ذکر خدا ہے _ لیکن بدترین و خبیث ترین انسان ہے _ بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالے گے ، اپنے ہمراہ لے کر چلے گا ، پانچ علاقوں ، شام ، حمص ، فلسطین ، اردن ، اور قنسرین پر قابض ہوجائے گا اور بنی عباس کی حکومت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا _ بے شمار شیعوں کو قتل کریگا اس کے بعد صاحب الامر (عج) کا ظہور ہوگا تو وہ امام زمانہ سے جنگ کے لئے اپنا لشکر بھیجے گا لیکن مکہ و مدینہ کے درمیان اس کا لشکر زمین میں دھنس جائے گا _

جلالی : آپ جانتے ہیں کہ بنی عباس کی حکومت مدتوں پہلے ختم ہوچکی ہے اس کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں ہے کہ جسے سفیانی نابود کرے :

ہوشیار: امام موسی کاظم علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ:

'' بنی عباس کی حکومت فریب و نیرنگ سے وجود میں آئی ہے لہذا یہ اس طرح

۲۷۹

تباہ ہوگی کہ اس کا کہیں نشان بھی نہیں ملے گا ، لیکن پھر وجود میں آئے گی اور اس طرح اوج پر پہنچے گی گویا اسے کوئی دھچکاہی نہیں لگاتھا _''(۱)

اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بنی عباس کی دوبارہ حکومت ہوگی اور آخری مرتبہ سفیانی کے ہاتھوں تباہ ہوگی _ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ سفیانی کے خروج کو ضروری کہا گیا ہے لیکن اس کے خروج کا زمانہ اور کیفیت معلوم نہیں ہے یعنی ممکن ہے بنی عباس کی حکومت کی تباہی سفیانی کے ہاتھوں نہ ہو بلکہ دوسروں کے توسط سے ہو _

فہیمی: میں نے سنا ہے : چونکہ خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے دل میں خلافت کی آرزو تھی اور وہ بنی مروان کے ہاتھوں میں خلافت کی زمام دیکھتا تھا اس لئے اس نے بنی امیہ کی حوصلہ افزائی کیلئے خروج سفیانی کی داستان گھڑی خالد کے بارے میں صاحب اغانی لکھتے ہیں :

''وہ عالم و شاعر تھا ، کہا جاتاہے کہ سفیانی کی حدیث کو اسی نے جعل کیا ہے ''(۲)

طبری لکھتے ہیں :'' علی بن عبداللہ بن خالد بن یزید بن معاویہ نے شام میں سنہ ۱۵۹ میں خروج کیا تھا وہ کہتا تھا _ میں سفیانی منتظر ہوں ، اس طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا _(۲) ان تاریخی شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ سفیانی کا خروج جعلی چیز ہے _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۵۰ _

۲_ اغانی ج ۱۶ ص ۱۷۱ _

۳_ طبری ج ۷ ص ۲۵_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455