آفتاب عدالت

آفتاب عدالت0%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 455
مشاہدے: 173001
ڈاؤنلوڈ: 4769

تبصرے:

آفتاب عدالت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173001 / ڈاؤنلوڈ: 4769
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

سائنسداں میوہ جات کے کیٹروں کی عمرکو اس نوع کے دیگر کیٹروں کی طبیعی عمر سے نو سو گنا بنا نے میں کا میاب ہوگئے ہیں _ یہ کا میابی انھیں اس لئے میسر آئی ہے کے انہوں نے اس جاندار کو ز ہر اور دشمنوں سے محفوظ رکھا اور اس کے لئے مناسب ما حول فراہم کیا تھا(۱)

انجینئر : میں نے بھی اپنے مطالعات کے در میان چند علمی اور دلچسپ مقا لے دیکھے ہیں کہ جن میں سائنسد انوں نے طول عمر کے راز ، ضعیفی و موت کے علل اور ان سے مبارزہ کے متعلق بحث کی ہے _ لیکن وقت ختم ہوگیا ہے اس لئے بہتر ہے کہ ان کا تجزیہ آیندہ جلسہ پر موقوف کیا جائے _

ہفتہ کی شب میں جناب فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا ، ہوشیار صاحب نے انجینئر صاحب سے خواہش کی کہ اپنے مطالب بیان کریں _

انجینئر : بہتر ہے کہ ان مقالات کامتن ہی آپ حضرات کے سامنے پیش کروں شاید مشکل حل ہو سکے _

طول عمر کے بارے میں

موت کے کارشناس و ماہر پروفسیر متالینکف لکتھے ہیں : انسان کا بدن تیس ٹر یلین مختلف خلیوں سے تشکیل پایا ہے وہ سب یکبار گی نہیں مر سکتے_ اس بنا پر موت موت اس وقت مسلّم ہوگی جب انسان کے مغز میں ایسے کیمیائی تغیرات واقع

____________________

۱ _ منتخب الاثر ص ۲۷۸ منقول از مجلہ الھلال _

۲۴۱

ہوجائیں کہ جن کی مرمت ممکن نہ ہو ۳۰ اگست ۱۹۵۹ء کو ڈاکٹر ہانس سیلی نے کنیڈا کے شہر مونٹرال میں اخباری نمائندوں کو ایک خلیئےی ساخت و بافت دکھائی اور بتا یا کہ یہ زندہ خلیہ حرکت میں ہے اور ہر گز نہیں مرے گا _ موصوف نے مزید دعوی کیا کہ یہ خلیہ ازلی ہے اور کہا : اگر انسان کے بافت خلیہ بھی اسی شکل میں لے آئیں تو انسان ایک ہزار سال تک زندہ رہے گا _

پر وفیسر سیلی کا خیال ہے کہ موت تھیوری کے نقطہ نگاہ سے ایک تدریجی بیماری ہے _موصوف ہی کا نظریہ ہے کہ کوئی شخص بڑھا پے کی وجہ سے نہیں مرتا ہے کیونکہ اگر کوئی شخص ضعیفی کی وجہ سے مرے تو اس کے بدن کے خلیوں کو فرسودہ اور بیکار ہوجانا چاہئے جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ بہت سے بوڑھوں کے مختلف اعضاء اور ان کے بدن کے خلئے سالم رہتے ہیں ان میں کوئی نقص واقع نہیں ہوتا _ بعض لوگوں کا انتقال اس لئے اچانک ہوجاتا ہے کہ یک بیک ان کے بدن کا کوئی عضو بیکار ہوجاتا ہے اور چونکہ بدن کے تمام اعضاء ایک مشین کے پرزوں کی طرح مربوط و متصل ہیں اس لئے ایک کے بے کار ہوجانے سے سارے بیکار ہوجاتے ہیں _ پروفیسر سیلی نے اعلان کیا علم طب و میڈیکل سائنس ایک دن اتنی ترقی کرے گا کہ فرسودہ خلئے کی جگہ انجکشن کے ذریعہ نیا خلیہ انسان کے بدن میں رکھدیا جائے گا اور اس طرح انسان جب تک چاہے گا زندہ رہے گا _(۱)

ای ای مچنیکف کے نقطہ نظر سے فیزیولوجی بڑھاپے جو کہ طبیعی پیش رفت کا

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۷

۲۴۲

نتیجہ ہے اور اس ضعیفی کو جو کہ ارگانزم کی اساس پر مختلف تاثیرات _ زہر ، امراض اور دوسرے مخصوص عوامل _ کا نتیجہ ہے ، کو معین کر سکتا ہے _ اس کے نظریات کی بنیاد یہ ہے کہ انسان کا بڑھا پا ایک بیماری ہے لہذا تمام بیماریوں کی طرح اس کا بھی علاج ہونا چاہئے اس کا نظریہ تھا کہ انسان کی زندگی موجودہ زندگی سے زیادہ ہوسکتی ہے اور مزید آگے بڑھ سکتی ہے _ انسان کی زندگی درمیان را ہ گم ہوتی ہے ، اپنی اصل منزل تک نہیں پہنچتی ، لیکن میرے لحاظ سے تمام کوشش کرنا چاہئے تا کہ بشر بڑھاپے ، انحطاط کے بغیر اپنی فیزیولوجی کی عادی ضعیفی تک پہنچ جائے _(۱)

طول عمر

پروفیسر سلیہ اور اس کا عملہ ایک طویل تجربہ کے بعد اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ کیلشم( calcium ) کا نقل و انتقال ضعیفی اور اس کی تغیرات کا عامل ہے _ کیا بڑھا پے کے عوارض کے علاج کے لئے کوئی چیز ایجاد ہوتی ہے یا نہیں؟ سلیہ نے مکرر تجربوں کے بعد ، ایرون ڈکٹر ان کے مادہ کا انکشاف کیا ہے جو کیلیشیم کو اجزاء ترکیبی سے روکتا ہے _ اس بناپر کہاجاتا ہے کہ ضعیفی کی علامتیں اور عوارض حیوانات پر کئے جانے والے تجربوں کے ذریعہ انسان کی دست رس میں آچکے ہیں اور اس سے تحفظ کا وسیلہ مل گیا ہے _ پروفیسر سلیہ کا نظریہ ہے کہ اس بات کا تو احتمال بھی نہیں دیا جا سکتا کہ نوے سالہ انسان کو ساٹھ سالہ انسان کی زندگی کی حالت کی طرف پلٹا یا جا سکتا ہے لیکن ساٹھ

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۵ ۱۳۴۲ ھ ش _

۲۴۳

سالہ انسان کی زندگی کو عوارض سے بچا کر نوے سالہ عمر میں بھی ساٹھ سالہ عمر کی حالت میں رکھا جا سکتا ہے _(۱)

پروفیسر اتینگر نے اپنی ایک تقریر کے دوران کہا:'' جوان نسل ایک دن انسان کی جاویدانی اور ابدی حیات کو اسی طرح قبول کرے گی جیسا کہ آج لوگوں نے فضائل سفر کو تسلیم کر لیا ہے _ میرا نظریہ ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور اس تحقیق سے جس کا ہم نے آغاز کیا ہے کم از کم آئندہ صدی کا انسان ہزاروں سال کی زندگی بسر کرے گا _(۲)

ایک روسی کتاب کا خلاصہ

روس کا مشہور سائنسدان مچنیکوف طویل العمری کو انسان کی قدیم ترین امیدوں میں سے اسک کہتا ہے _ لیکن ابھی تک عمر میں اضافہ کے لئے کوئی عملی طریقہ کشف نہیں ہوسکا ہے _ واضح ہے کہ طبیعی زندگی کے خاتمہ کا نام موت ہے اور کسی جاندار کو اس سے مضر نہیں ہے _

۱_ ضعیفی کی علّت انسان کا بدن تقریباً ساٹھ تریلین خلیوں سے تشکیل پایا ہے _ یہ خلئے ایک منزل پر پہنچ کربوڑھے ہوجاتے ہیں اور اس صورت میں اپنی زندگی کی ضرورت کو بڑی مشکل سے پورا کرتے ہیں _ ان کی تولید مثل میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے اور اس کے بعد انسان مرجاتا

____________________

۱_ دانشمند شمارہ۵ ۳۴۲۱ ہ ش

۲_ دانشمند شمارہ ۶ سال ششم

۲۴۴

ہے _ عصبی خلئے اور مرجانے والے عضلات کی تعداد رفتہ رفتہ بڑھ جاتی ہے اور ایک کپڑے کی شکل میں سخت ہوجاتے ہیں _ اس سخت ہونے سے ماہیچے اور اعصاب ، مرجانے اور بڑھنے والے خلیوں ، جن کو اسکلروز soclerose کہتے ہیں جیسے قلب کے اسکلروز ، رگوں کے اسکلروز ، اعصاب کے اسکلروز و غیرہ _

روس کے مشہور ڈاکٹر اور فیزیولوجسٹ ایلیا مچنیکوف کا خیال تھا کہ یہ وقوعہ ٹرکشین کے زہر کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے _ حیوان کے بدن میں جراثیم جاگزین ہوجاتے ہیں اور اس زہر کو انسان اندرونی اعضا میں پیدا کرتے ہیں اور رفتہ رفتہ زندہ خلیوں کے تعمیر کو مسموم کردیتے ہیں _ پالوف کا نظریہ تھا کہ اعصاب کا سلسلہ خصوصاً مغز کا خارجی دباؤ ضعیفی میں بنیادی اثر رکھتا ہے ، نفسیاتی تاثرات ، غصہ ، دل تنگی ، یاس اور وحشت سے بدن کے امراض پیدا ہوتے ہیں کہ جس سے بڑھا پا اور اس کے بعد موت آجاتی ہے _ دائمی زندگی کا خواب ایک سے زیادہ حیثیت کا حامل نہیں ہے _ لیکن انسان کی عمر بڑھانا اور ضعیفی پر غلبہ پاناممکن عمل ہے _

۲_ ضعیفی شناسی اور موت شناسی

تقریباً تین سو سال قبل علم الحیات کی ایک نئی شاخ ضعیفی شناسی ( cetmotologei ) وجود میں آئی _ اس علم کا مقصد بڑھا پے پر غلبہ پانے کیلئے عملی قوانین کی معرفت و شناخت ہے _ اس اور موت شناسی کے علم کے درمیان لطیف رابطہ ہے ، موت سے مربوط قوانین کا مطالعہ اور ممکن حد تک اسے پیچھے ہٹانا اس علم کے مسائل ہیں جو کہ اسی لم کے قلم روکا جز ہیں ، سائنسدانوں کے نقطہ نظر کے مطابق موت ہمیشہ اختلال کی وجہ سے آتی ہے جبکہ زندگی کے خاتمہ پر آنے والی موت کو فیزیالوجی کہتے ہیں_

۲۴۵

اب سائنسدان عمر بڑھانے کیلئے کوئی منطقی اور طبیعی راہ کی تلاش میں منہمک ہیں زندگی کی حد کے سلسلے میں دانشوروں کے درمیان اختلاف ہے _ پاؤلوف انسان کی طبیعی حیات کی حد سو سال قرار دیتا تھا _مچنیکوف نے یک سو چالیس سے ایک سو پچاس تک تحریر کی ہے _ جرمنی کے مشہور سائنسدان گو فلانڈ کا خیال تھا کہ انسان کی عام عمر ۲۰۰ سال ہے _ انیسویں صدی کے مشہور فیزیولوجسٹ فلوگرنے ۶۰۰ سال اور برطانوی ورد جربیکن نے ۱۰۰۰ سال تحریر کی ہے _ لیکن کوئی سائنسدان بھی اپنے مدعا پر اطمینان بخش دلیل پیش نہیں کرسکا _

۳_فرانسوی بوفوںکا فریضہ

فرانس کے مشہور طبیعی داں بوفون کا نظریہ تھا کہ ہر جاندار کی مدت عمر اس کے رشد کے زمانہ کے پانچ گناہوتی ہے _مثلاً شتر مرغ کے نمو کی عمر آٹھ سال ہے تو اس کی عمر کا اوسط چالیس سال ہے _ گھوڑے کے رشد کا زمانہ ۳ سال ہے تو اس کی عمر ۱۵_ ۲۰ سال ہوتی ہے _ بوفون نے اس طرخ نتیجہ نکالا ہے کہ انسان کے نمو کی مدت ۲۰ سال ہے لہذا اس کی عمر کا اوسط ۱۰۰ سال ہے _ لیکن بوفون کے فارمولہ میں بے پناہ استثنائی موارد ہیں اسی لئے اسے اہمیت نہیں دی گئی ہے کیونکہ گوسفند کے رشد کی عمر پانچ سال ہے اور اس کی کل عمر ۱۰_ ۱۵ سال ہوتی ہے _ طوطے کی رشد کا زمانہ ۱۲ سال ہے لیکن سو سال تک زندہ رہتا ہے _ با وجودیکہ شتر مرغ کے رشد کی عمر تین سال میں ختم ہوجاتی ہے لیکن ۳۰_۴۰ سال تک زندہ رہتا ہے _ سائنسدان ابھی انسان کی طبیعی زندگی کی یقینی سر حد معین نہیںکر سکے ہیں _ لیکن ان میں سے اکثر کا نظریہ ہے کہ عمر گھٹا نے والے اختلال اور بیماریوں کو رفع کرکے انسان کی عمر کو ۲۰۰ سال تک بڑھایا

۲۴۶

جا سکتا ہے _ یہ نظریہ بھی ابھی تک تھیوری ہی کی صورت میں موجود ہے مگر اسے موہوم اور غیر حقیقی نہیںقرار دیا جا سکتا _

۴_ انسان کی متوسط عمر

قدیم یونان میں انسان کی متوسط عمر ۲۹ سال اور قدیم روم میں اسے کچھ زیادہ تھی سولھویں صدی میں یورپ میں انسان کی عمر ۲۱ سال ، ستر ہویں صدی میں ۲۶ سال اور انیسویں صدی میں متوسط عمر ۳۴ سال تھی _ لیکن بیسویں صدی کی ابتداء میں یہ شرح یکبارگی ۴۵_۵۰ تک پہنچ گئی _ مذکورہ شرح یورپ سے متعلق ہے _ آج کے دنیا میں طویل العمری اور موت کے کم ہونے کی بہترین دلیل بچے ہیں _ لیکن پسماندہ اور ترقی یافتہ ممالک میں اس سلسلے میں بہت زیادہ اختلاف ہے _ مثلاً روس میں متوسط عمر ۷۱ سال اور ہندوستان میں ۳۰ سا ل ہے _

حیوانات کے درمیان انسان کی عمر اوسط کوئی زیادہ نہیں ہے انسان کی عمر کے نسبی اوسط (۶۰_۸۰) کا ذیل میں موازنہ ملاحظہ فرمائیں:

بطخ ۳۰۰سال گول مچھلی ۱۵۰سال

کچھوا ۱۷۰سال مینڈک ۱۶سال

چھپکلی ۳۶سال طوطا ۹۰ سال

کوّا ۷۰سال جنگلی مرغی ۸۰ سال

شتر مرغ ۴۰ - ۳۵ سال جالاقان ۱۱۸سال

عقاب ۱۰۴ سال شاہین ۱۶۲ سال

گھوڑا گائے ۲۵ - ۳۰ سال گوسفند ۱۴_۱۲ سال

۲۴۷

بکری ۲۷_۱۸ سال کتّا ۲۲_۱۶ سال بلّی ۱۲_ ۱۰ سال

۵_ روسی سائنسدان مچنیکوف کا نظریہ

اگر ایلیا مچنیکوف کے نظریہ میں غور کیا جائے تو انسان کے نسبی سن کا چند جانوروں سے اختلاف واضح ہوجائے گا _ مچنیکوف مرگ مفاجات اور بڑھاپے کی علت خلیوں کی مسمومیت اور بیکیڑیا کے جسم کے اندر زہر پھیلانے کو قرار دیتا ہے _ یا درہے بدن کے دیگر حصّوں سے زیادہ : Rotrotic ، بیکٹیریا کا محبوب حصّہ ہے _

تخمینہ کے طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہاں روزانہ ۱۳۰ ٹریلین جراثیم پیدا ہوتے ہیں Rotrotic کے بہت سے جراثیم بدن کو نقصان نہیں پہنچاتے لیکن ان میں سے بعض زہریلے ہوتے ہیں _ یہ بدن کو اندر سے اپنے زہر کے وسیلہ سے قتل کی طرح مسموم کرتے ہیں _ احتمال ہے کہ بدن کے خلئے اور اس کا نظام ( بافتہا) اس زہر کی وجہ سے جلد بوڑھا ہوجاتا ہے _ مذکورہ جدول سے علوم ہوتا ہے کہ پیٹ کے بل چلنے والی مچھلیاں اور پرندے پستان دار جانوروں سے زیادہ زندہ رہتے ہیں _ کیونکہ ان جانوروں کے اندر فراخ Rotrotic نہیں ہوتا ہے اور اگر ہوتا ہے تو ایسی میں رشد بہت کم ہوتا ہے _ پرندوں میں صرف شتر مرغ فراخ Rotrotic ہوتا ہے ، اور جیسا کہ جدول سے سمجھ میں آتا ہے اس کی عمر بھی ۳۰_ ۴۰ سے زیادہ نہیں ہوتی ہے _ ان حیوانات میں کچھ جگالی کرنے والے ہیں کہ انکی زندگی سب سے کم ہوتی ہے _ اس کی وجہ شاید ان کے اندر فراخ کی نمو ہے _ جمگادڑ کے اندر بھی ایک چھوٹا Rotrotic ہوتا ہے چنانچہ حشرہ خوار جانوروں میں چمگاڈر کے ہم بدن سے زیادہ اس کی عمر ہوتی ہے _ خیال کیا جاتا ہے کہ انسان کی زندگی میں rotrotic کے فراخ و طویل ہونا بھی دخیل ہے _ لیکن اسے زیادہ اہمیت نہیں ہے کہ جس کا مچنیک نے اظہار کیا ہے _ بعض افراد نے آپریشن کے ذریعہ فراخ Rotrotic کو انکلوادیا تو

۲۴۸

مدتوں زندہ رہے _ یہ بات مسلّم ہے کہ بدن کیلئے اس عضو کا وجود ضروری نہیں ہے لیکن ایسے افراد بھی موجود ہیں جنہوں نے فراخ Rotrotic کے باوجود طویل عمر بسر کی ہے _ ضعیفی شناسی کے دانشوروں نے ایسے افراد کی تحقیقی کی ہے _

۶_ مستقبل کا انسان طویل عمر پائے گا

جن لوگوں نے دنیا میں ایک سو پچاس سال سے زیادہ زندگی گزاری ہے وہ انگشت شمار ہیں ، ان میں سے جن کے نام کتابوں میں مرقوم ہیں وہ درج ذیل ہیں:

سنہ ۱۷۲۴ ء میں ایک دہقان مجار ۱۸۵ سال کی عمر میں مرا ، جو کہ اپنی آخری عمر تک جوانوں کی طرح کام کرتا تھا _

ایک اور شخص جان راول کیعمر مرتے دم ۱۷۰ سال تھی اور اس کی زوجہ کی ۱۶۴ سال تھی _ ۱۳۰ سال انہوں نے ازدواجی زندگی بسر کی _

ایک آلبانوی باشندہ ، خودہ ۱۷۰ سال تک زندہ رہا _ مرتے دم اس کے پوتے ، پوتیوں نواسے نواسیوں اور ان کی اولاد کی تعداد ۲۰۰ تھی _

چند سال قبل اخباروں میں شائع ہوا تھا کہ جنوبی امریکہ میں ایک شخص مرا ہے جس کی عمر ۲۰۷ سال تھی _

روس میں ایسے تیس ہزار افراد ہیں جو کہ اپنی زندگی کی دوسری صدی گزار رہے ہیں _ اب روس کے سائنسدان بڑھاپے کی علت اور طول عمر کے راز کے انکشاف کرنے میں مشغول ہیں _ یقینا مستقبل میں علم انسان ضعیفی پر قابو پالے گا اور نتیجہ میں انسان اپنے آبا و اجداد سے زیادہ عمر پائے گا _(۱)

____________________

۱_ مجلہ دانشمند شمارہ ۱ ، سال ششم

۲۴۹

موت کی علّت کے سلسلہ میں غیر معروف فرضیہ

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بدن سے روح کے جدا ہونے کا نام موت ہے ، لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا روح کی مفارقت کی علت بدن اور اس کے عوارض ہیں؟کیا جسم ہی موت کے اسباب فراہم کرتا ہے؟

اکثر علماء اور اطبّاء نے پہلے نظریہ کو تسلیم کیا ہے وہ کہتے ہیں: جب بدن کی غریزی حرارت ختم ہوجاتی ہے تو بدن کا عام نظام درہم و برہم ہوجاتا ہے اور اس کے آلات و قوا بیکار ہوجاتے ہیں ، بدن کے اعضاء رئیسہ فرسودہ ہوجاتے ہیں ، بقا کی صلاحیت سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں اور چونکہ روح اس فرسودہ جسم کی حیات کو جاری رکھنے اور اسے چلانے سے عاجز ہوجاتی ہے اس لئے اس سے جدا ہوجاتی ہے اور موت واقع ہوتی ہے _

لیکن اس گروہ کے مقابل میں بڑے اسلامی فلاسفر مرحوم ملاّ صدرا دوسرے نظریہ کو تسلیم کرتے ہیں ،وہ اپنی کتاب ''اسفار'' میں لکھتی ہیں :'' جسم کی حفاظت اور اسے چلانے کی ذمہ داری روح پر ہے _ جب تک اسے بدن کی زیادہ ضرورت رہتی ہے اس وقت تک وہ بدن کی حفاظت و نگہبانی میں کوشاں رہتی ہے ، ہر طرح سے اس کا تحفظ کرتی ہے _ لیکن جب وہ مستقل اور بدن سے مستغنی ہوجاتی ہے تو پھر بدن کی طرف توجہ نہیں دیتی جس کے نتیجہ میں ضعف ، سستی اور اختلال پیدا ہونے لگتا ہے اور فرسودگی و ضعیفی آجاتی ہے یہاں تک کہ روح بدن کے امور کو بالکل نظر انداز کردیتی ہے اور طبیعی موت واقع ہوجاتی ہے ''_

احباب جانتے ہیں کہ اگر دوسرا نظریہ ثابت ہوجائے اور موت کا اختیار روح کے ہاتھ میں ہوتو صاحب الامر کی طول عمر کے موضوع کی راہ ہموار ہوجائے گی _ یہ کہا

۲۵۰

جا سکتا ہے کہ : چونکہ آپ (ع) کی روح کو دنیائے انسانیت اور عالم کی اصلاح کے لئے آپ کے وجود کی ضرورت ہے _ اس لئے بدن کی حفاظت و نگہبانی میں مستقل کوشش کرتے ہے اور اپنی جوانی و شادابی کو محفوظ رکھتی ہے _

آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری ہے کہ میں اس وقت اس مدعا کی صحت کو ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں اور نہ اس سے دفاع کی خواہش ہے _ سردست میں نے دوستوں کے سامنے غیر معروف فرضیہ کے عنوان سے پیش کیا ہے _ مجھے اس با ت کا اعتراف ہے کہ یہ غیر مانوس اور نئی بات ہے لیکن بغیر غور و فکر کے اسے باطل نہیں سمجھنا چاہئے _ قطعی فیصلہ اس وقت کیا جا سکتا ہے جب حقیقت نفس ، بدن پر اسکی تاثیر کی مقدار اور اس کی ارتباط کی کیفیت و تاثیر بخوبی پہچان لی جائے اور یہ بہت دشوار ہے کہ اس میں فلسفی و نفسیاتی اور بیالوجی کے ایک طویل سلسلہ کے تجربہ کی ضرورت ہے _ ابھی انسان کا علم اس حد تک نہیں پہنچاہے کہ حقیقت نفس اور اس کے بدن سے ارتباط کے بارے میں فیصلہ کرلے بلکہ ابھی وہ اپنے نفس و نفسیات کے ابتدائی مراحل طے کررہا ہے _ اگر علم آدمی کی روح و تن کی طرف متوجہ ہوگیا ہوتا تو یقینا ہماری دنیا کی حالت کچھ اور ہی ہوتی _

ڈاکٹر اکلسیس کارل اپنی کتاب '' انسان موجود ناشناختہ ، میں لکھتا ہے ، ہمیں بھی اپنی وجودی تعمیر کے بارے میں کافی علم حاصل نہیں ہوا ہے ،اگر نیوٹن ، گالیلہ اور لاوازیہ اپنی فکری صلاحیت انسان کے بدن و نفسیات کے مطالعہ پر صرف کرتے تو ہماری دنیا کی حالت ہی بدل گئی ہوتی _

۲۵۱

نتیجہ

ہوشیار: مذکورہ مطالب سے چند چیز یں سمجھ میں آتی ہیں:

۱_ انسا ن کی عمر کوئی حد معین نہیں ہے کہ جس سے تجاوزنا ممکن ہو _ کسی بھی سائنسدان نے ابھی تک یہ نہیں کہا ہے کہ انسان کی عمر کا فلاں سال اس کے کاردان حیات کی آخری منزل ہے اس پر قدم رکھتے ہی موت آجائے گی _ بلکہ مشرق و مغرب کے جدی و قدیم سائنسدانوں کے ایک گروہ نے تصریح کی ہے کہ انسا ن کی عمر کی کوئی حد نہیں ہے _ ممکن ہے انسان آئندہ موت پر قابو پالے یا اسے کافی حد تک پیچھے ہٹادے کہ جس سے طولانے عمر پائے _ اس علمی امید کی کامیابی نے سائنسدانوں کو شب و روز کی کوشش اور تحقیق و تجربہ پر مجبور کیا ہے چنانچہ ابھی تک اس سلسلہ میں جو تجربات ہوئے ہیں وہ کامیاب رہے ہیں _

ان تجربات نے یہ ثابت کردیا کے موت بھی تمام بیماریوں کی طرح کچھ طبیعی علل و عوامل کا نتیجہ ہے اگر ان عوامل کو پہنچان لیا جائے اور ان کے اثرات کو روک دیا جائے تو موت کو پیچھے ہٹا یا جا سکتا ہے اور انسان کو اس خوفناک ہیولے سے نجات دلائی جا سکتی ہے _ جس طرح علم نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و عوامل کو کشف کرلیا ہے اوراس کی تاثیر کا سد باب کردیا ہے _ اسی طرح مستقبل قریب میں موت کے اسباب و علل کو پہچاننے اور اس کے اثرات کو ناکام بنانے میں کامیاب ہوجائے گا _

۲_ نباتات ، حیوانات اور انسانوں کے درمیان ایسے افراد موجود ہیں کو جو اپنی نوع کے دیگر افراد سے ممتاز ہیں اور ان سے زیادہ طویل عمر پائی ہے _ ایسے استثنائی افراد کا وجود اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ اس نوع کے افراد کی عمر کی ایسی کوئی حد نہیں ہے کہ جس سے آگے بڑھنا محال ہو _ یہ صحیح ہے کہ اکثر انسان سو سال

۲۵۲

کی عمر سے پہلے ہی مرجاتے ہیں لیکن عمر کی اس مقدار سے مانوس ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ سوسال سے زیادہ عمر کا امکان ہی نہیں ہے _ کیونکہ ایسے بہت سے افراد گزرے ہیں جنہوں نے سو سال سے زیادہ عمر بسر کی ہے _ ایک سو پچاس سالہ ، ایک سو اسی سالہ اور دو سو پچاس سالہ انسان کاوجود اس بات کی واضح دلیل ہے کہ عمر انسان کی کوئی حد معین نہیں ہے _ دو سو پچاس سال اور دو ہزار سال زندگی گزارنے میں کوئی فرق نہیں ہے دونوں غیر مانوس ہیں _

۳_ ضعیفی کوئی ایسا عارضہ نہیں ہے کہ جس کا کوئی علاج نہ ہو بلکہ یہ قابل علاج بیماری ہے جیسا کہ علم طب نے آج تک بہت سی بیماریوں کے علل و اسباب کشف کرلئے ہیں اور انسان کو ان کے علاج کا طریقہ بتادیا ہے اسی طرح مستقبل میں ضعیفی و بڑھاپے کے عوامل کشف کرنے میں بھی کامیاب ہوجائے گا اور ان کا علاج انسان کے اختیار میں دیدے گا _ سائنسدانوں کا ایک گروہ اکسیر جوانی کی تلاش میں ہے اور انتھک کوشش و تحقیق اور تجربات میں مشغول ہے ، ان کے تجربات کامیاب رہے ہیں کہ جن کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ مستقبل قریب میں انسان ضعیفی اور فرسودگی کے عوامل پر قابو پالیگا اور ان عام بیماریوں کے علاج کا طریقہ تلاش کرے گا _ اس صورت میں انسان عرصہ دراز تک اپنی جوانی و شادابی کو ملحوظ رکھے گا _

مذکورہ مطالب اور سائنسدانوں کی تصدیق کی مدنظر رکھتے ہوئے آپ ہی فیصلہ کیجئے کہ اگر کوئی انسان جسمانی ساخت و ترکیب کے لحاظ سے نہایت ہی معتدل ہو ، اس کے اعضاء رئیسہ ، قلب ، اعصاب ، پھیپھڑے ، جگر ، مغز اور معدہ سب قوی اور سالم ہوں _ وہ حفظان صحت کے تمام اصولوں سے واقف ہو اور ان پر

۲۵۳

کاربند ہو _ مشروبات و ماکولات کے خواص و فوائد جانتا ہو ، ان میں سے مفید کو استعمال اور مضر سے پرہیز کرتا ہو ، جراثیم اور ان کی پیدا دار کے عوامل کو پہچانتا ہو ، امراض اور خصوصاً ضعیفی کے علاج سے آگاہ ہو _ زہر و مہلکات سے باخبر ہو ، ان سے اجتناب کرتا ہو ، بدن کی ضروری احتیاج کو غذا اور وٹامن و غیرہ سے پورا کرتا ہو ، والدین اور اجداد سے کوئی بیماری میراث میں نہ پائی ہو ، برے اخلاق ، پریشان خیالی ، جو کہ اعصاب و مغز کی فرسودگی اور دیگر بیماریوں کا باعث ہوتی ہے ، سے محفوظ ہو ، اس میں ایسے تمام نیک اخلاق موجود ہوں جو روح و جسم کے سکون کا باعث ہیں اور ان تمام چیزوں کے علاوہ اس کے جسم کا حاکم و مدیر انسانی کمال کے اعلی درجہ پر ہو تو ایسے انسان میں ہزاروں سال زندگی گزارنے کی صلاحیت ہوگی _ ایسی طویل عمر کو عمل و دانش نہ صرف یہ محال قرار نہیں دیتے بلکہ اس کے امکان کا اثبات کرتے ہیں _

اس بناپر امام زمانہ کی طویل عمر کو محال اور لا ینحل مشکل نہیں قراردینا چاہئے _ کہ علم بہت طویل عمر کو جوانی و شادابی کی طاقت کی حفاظت کے ساتھ ممکن قراردیتا ہے _ اگر کسی شخص کا وجود عالم کیلئے ضروری ہو اور طویل عمر در کار ہو تو قادر مطلق خدا دنیا کے علل و معلولات اور خلقت کی مشینری کو اس طرح منظم کرے گا کہ جو ایسا کامل انسان پیدا کرے گی جو ضروری علم و اطلاعات کاحامل ہوگا _

ڈاکٹر:مذکورہ مطالب صرف ایسے ممتاز انسان کے وجود کو ثابت کرتے ہیں لیکن یہ بات کہاں سے ثابت ہوئی کہ ایسا انسان موجود بھی ہے؟

ہوشیار: عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ نوع کی بقا کیلئے

۲۵۴

امام کا وجود ضروری ہے اور بہت سی احادیث کا اقتضا ہے کہ امام صرف بارہ ہوں گے اور یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ بارہویں امام ،امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند مہدی موعود ہیں جو کہ پیدا ہوچکے ہیں اور اب پردہ غیب میں ہیں _ اس سلسلہ میں سیکڑوں حدیثیں نقل ہوئی ہیں _ مذکورہ مطالب اور دانشوروں کی تائید کے بعد ہم نے ایسے غیرمتعارف عمر کے امکان کو ثابت کیا ہے _

تاریخ کے درازعمر

انجینئر : یہ کیسے ممکن ہے کہ خلقت کی مشنری نے صرف امام زمانہ ہی کو اتنی طویل عمر عطا کی ہے جسکی مثال نہیں ملتی ؟

ہوشیار: دنیا میں ایسے افراد کمیاب تھے اور ہیں _ منجملہ ان کے حضرت نوح (ع) ہیں _ بعض مورخین نے آپ(ع) کی عمر ۲۵۰۰ سال تحریر کی ہے _ توریت میں ۹۵۰ سال مرقوم ہے _

قرآن مجید صریح طور پر کہتا ہے کہ حضرت نوح (ع) نے ۹۵۰ سال تک اپنی قوم کو تبلیغ کی چنانچہ سورہ عنکبوت میں ارشاد ہے کہ :

اور ہم نے نوح کو ان کی قوم کی طرف بھیجا اور وہ ان کے درمیان نو سو پچاس سال رہے پھر قوم کو طوفان نے اپنی گرفت میں لے لیا کہ وہ ظالم لوگ تھے _(۱)

____________________

۱_ عنکبوت/۱۴_

۲۵۵

اگر ہم مورخین کے قول کی تکذیب بھی کردیں تو قرآن مجید میں کسی قسم کے شک گنجائشے ہی نہیں ہے کہ جس نے حضرت نوح کی تبلیغ کا زمانہ ۹۵۰ سال بتا یا ہے جبکہ یہی عمر غیر معمولی ہے _

انجینئر : میں نے سنا ہے کہ یہ آیت متشابہات میں سے ہے؟

ہوشیار : متشابہات میں سے سے کیسے ہوسکتی ہے _ کیا مفہوم و معنی کے لحاظ سے مجمل و مبہم ہے ؟ عربی زبان سے جو شخص معمولی شد و بد بھی رکھتا ہے وہ اس آیت کے معنی کو بخوبی سمجھ سکتا ہے _ اگر یہ آیت متشابہات میں سے ہے تو قرآن میں کوئی محکم آیت نہیں ملے گی میں ایسے افراد کی بات کے بے معنی سمجھتا ہوں یا انھیں قرآن کا منکر کہا جائے کہ جن کے اظہار کی جرات نہیں رکھتے تھے _

مسعودی نے اپنی کتاب میں کچھ طویل العمر لوگوں کے نام مع ان کی عمروں کے درج کئے ہیں ، منجملہ ان کے یہ ہیں :

حضرت آدم کی عمر : ۹۳۰ سال ، حضرت شیث : ۹۱۲ سال ، انوشّ : ۹۶۰ سال قینان : ۹۲۰ سال _ مہلائل : ۷۰۰ سال ، لوط : ۷۳۲ سال ، ادریس : ۳۰۰ سال

متو شلخ : ۹۶۰ سال ، لمک : ۷۹۰ سال ، نوح : ۹۵۰ سال ، ابراہیم : ۱۹۵ سال کیو مرث : ۱۰۰۰ سال ، جمشید : ۶۰۰ یا ۹۰۰ سال ، عمربن عامر : ۸۰۰ سال عاد : ۱۲۰۰ سال _ ۱

اگر آپ تاریخ وحدیث اور توریت کا مطالعہ فرمائیں گے تو ایسے بہت سے

____________________

۱_ مروج الذہب ج ۱ و ۲

۲۵۶

لوگ میلں گے _ لیکن واضح رہے کہ ان عمروں کا مدارک توریت یا اس کی تواریخ ہیں اور اہل تحقیق پر ان کی حالت پوشیدہ نہیں ہے یا خبر واحد مدرک ہے جس سے یقین حاصل نہیں ہوتا یا غیر معتبر تواریخ مدرک ہیں _ بہر حال مبالغہ سے خالی نہیں ہیں اور چونکہ ان کی صحت مجھ پر واضح نہیں ہے اس لئے ان سے استدلال و بحث سے چشم پوشی کرتا ہوں اور صرف حضرت نوح کی طویل العمری ہی کو ثبوت میں پیش کرنے پر اکتفا کرتا ہمں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو المعمروں و الوصایا مولفہ ابی حاتم سجتانی اور ابوریحان بیرونی کی الآ ثار الباقیہ اور تاریخ کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

۲۵۷

امام زمانہ عج کا مسکن

فھیمی : زمانہء غیب میں امام زمانہ کا مسکن کہاں ہے ؟

ہوشیار : آپ (ع) کے مسکن کی تعین نہیں ہوئی ہے _ شاید کوئی مخصوص نہ ہو بلکہ اجنبی کی طرح لوگوں کے در میان زندگی بسر کرتے ہوں اور یہ بھی ممکن ہے دور افتادہ علاقوں کورہا ئشے کیلئے منتخب کیا ہو _ احادیث میں دارد ہوا ہے کہ حج کے زمانہ میں آپ تشریف لاتے اور اعمال و مناسک حج میں شریک ہوتے ہیں لوگوں کوپہچانتے ہیں لیکن لوگ انھیں نہیں پہنچان پاتے _(۱)

فہیمی: میں نے سنا ہے کہ شیعوں کا عقیدہ ہے کہ امام زمانہ اسی سرداب میں ،جو کہ آپ سے منسوب ہے اور زیارت گاہ بنا ہوا ہے ، غائب ہوئے ہیں _ اس میں زندگی گزارتے ہیں اور وہیں سے ظہور فرمائیں گے _ اگر اس سرداب میں موجود ہیں تو دکھائی کیوں نہیں دیتے ؟ ان کیلئے کھانا پانی کون لے جاتاہے ؟ وہاں سے نکلتے کیوں نہیں؟ عرب کے شاعر نے اس مضمون پر مشتمل کچھ اشعار کہے ہیں جن کا مفہوم یہ ہے : کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ جس میں سرداب اس شخص کو

____________________

۱_ بحارالانوارج۲ص۱۵۲

۲۵۸

باہرنکالے جسم تم انسان کہتے ہو؟ تمہاری عقلوں پر پتھر پڑگئے ہیں کہ عنقا اور خیالی چڑیا کے علاوہ ایک تیسرا موجود بھی ایجاد کرلیا _

ہوشیار: یہ محض جھوٹ ہے اور عناد کی بناپر اس کی نسبت ہماری طرف دی گئی ہے _ شیعوں کا یہ عقیدہ نہیں ہے _ کسی روایت میں بیان نہیں ہوا کہ بارہویں امام سرداب میں زندگی گزاتے ہیں اور وہیں سے ظاہر ہوں گے _ کسی شیعہ دانشور نے بھی ایسی بات نہیں کی ہے _ بلکہ احادیت میں تو یہ ہے کہ امام زمانہ (ع) لوگوں کے درمیان ہی زندگی گزارتے ہیں اور ان کے درمیان آمد ورفت رکھتے ہیں _

سدیر صیرفی نے امام جعفر صادق سے روایت کی ہے آپ(ع) نے فرمایا:

''صاحب الامر اس لحاظ سے حضرت یوسف سے مشابہہ ہیں کہ برادران یوسف بھی آپ (ع) کو نہیں پہچان سکے تھے جبکہ عاقل بھی تھے اور یوسف کے ساتھ زندگی بھی گزارچکے تھے _ لیکن جب یوسف (ع) کے پاس پہنچے تو جب تک یوسف (ع) نے خود اپنا تعارف نہیں کرایا اس وقت تک آپ کو نہیں پہچان سکے اور باوجودیکہ یوسف حضرت یعقوب سے اٹھارہ روز کے فاصلہ پر تھے لیکن یعقوب کو آپ کی کوئی اطلاع نہیں تھی _ خدا حضرت حجّت کیلئے بھی ایسا ہی کرے گا _ لوگوں کو اس کا انکار نہیں کرنا چاہئے _ آپ (عج) لوگوں کے درمیان آتے جاتے ہیں ان کے بازار میں تشریف لے جاتے ہیں ، ان کے فرش پر قدم رنجا ہوتے ہیں لیکن انھیں نہیں پہچان پاتا _ اسی طرح زندگی گزارتے رہیں گے _ یہاں تک خدا ظہور کاحکم فرمائے گا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۵۴_

۲۵۹

اما م کی اولاد کے ممالک

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام زمانہ کی بہت سے فرزندہیں جو کہ وسیع و عریض ممالک ظاہرہ ، رائقہ ، صافیہ ، ظلوم اور عناطیس میں زندگی گزارتے ہیں اور آپ کی اولاد میں سے لائق و شائستہ پانچ افراد ، طاہر ، قاسم ، ابراہیم ، عبدالرحمن اور ہاشم ان ممالک پر حکومت کرتے ہیں _ ان ملکو ں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ وہاں کی آب و ہوا اور نعمتیں بہشت برین کا نمونہ ہیں _ وہاں مکمل امن و امان ہے ، بھیڑیا اور بکری ایک جگہ رہتے ہیں _

درندے انسانوں کو کچھ نہیں کہتے _ ان ممالک کے باشندے مکتب امام کے تربیت یافتہ شیعہ اور صالح افراد ہیں ، فتنہ و فساد کا وہاں گزر نہیں ہے _ کبھی کبھی امام زمانہ بھی ان نمونہ ممالک کے معائنہ کے لئے تشریف لاتے ہیں ، ایسی ہی اور سیکڑوں دلچسپ باتیں ہیں

ہوشیار : ان مجہول ممالک کی داستان کی حیثیت افسانہ سے زیادہ نہیں ہے _ ان کا مدرک وہ حکایت ہے جو حدیقة الشیعہ ، انور نعمانیہ اور جنة الماوی میں نقل ہوئی ہے مدعا کی وضاحت کی لئے ہم اس کے سند بیان کرتے ہیں :

داستان اس طرح نقل ہوئی ہے : علی بن فتح اللہ کاشانی کہتے ہیں : محمد بن حسین علوی نے اپنی کتاب میں سیعد بن احمد سے نقل کیاہے کہ انہوں نے کہا : حمزہ بن مسیب نے شعبان کی ۸ تاریخ سنہ ۵۴۴ ھ میں مجھ سے بیان کیا کہ عثمان بن عبدالباقی نے جمادی الثانی کی ۷ تاریخ سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد بن یحیی انباری نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں بتایا کہ : میں اور دوسرے چند اشخاص عون الدین یحیی بن ہبیرہ وزیر

۲۶۰