آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181886 / ڈاؤنلوڈ: 5476
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کی خدمت میں پہنچے _ اسی مجلس میں ایک محترم اور اجنبی شخص بھی موجود تھا _ اس اجنبی نے کہا : چند سال قبل میں نے کشتی کا سفر کیا تھا ، اتفاقاً ملاح راستہ بھٹک گیا اور ہمیں ایک سربستہ راز جزیرہ پر پہنچا دیا کہ جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم و اطلاع نہیں تھی _ ناچار کشتی سے اترے اور اس سرزمین میں داخل ہوئے _ یہاں احمد بن محمد ان ممالک کی حیرت انگیز داستان اس اجنبی سے تفصیلا نقل کرتے ہیں اور داستان شروع کرتے ہیں _ اس داستان کو سننے کے بعد وزیر مخصوص کمرہ میں داخل ہوا اور اس کے بعد ہم سب کو بلایا اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک تمہیں کسی سے یہ داستان نقل کرنے کی اجازت نہیں ہے _ جب تک وزیر زندہ تھا ہم نے کسی سے بھی یہ داستان بیان نہ کی _(۱)

اجمالی طور پر داستان کی سند بیان کردی ہے تا کہ قارئین داستان کے ضعف کا اندازہ لگالیں تفصیل کے شائقین مذکورہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسی حکایتوں سے ایسے ممالک کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا _ اول تو اس داستان کا راوی ایک مجہول آدمی ہے کہ جس کی باتوں کا کوئی اعتبارنہیں ہے _ ثانیاً یہ ممکن نہیں ہے کہ روئے زمین پر ایسے ممالک آباد ہوں اور ان کی کسی کو خبر نہ ہو خصوصاً دور حاضر میں کہ تمام زمین کی نقشہ کشی کردی گئی ہے جو دانشوروں کی توجہ کا مرکز ہے اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس داستان سے ایسے خم ٹھوک کر دفاع کیا ہے جیسے اسلام کے مسلم ارکان سے کرتے ہیں _

____________________

۱_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج ۳ ص ۵۸_

۲۶۱

کہتے ہیں : ممکن ہے وہ ممالک ابھی تک موجود ہوں اور خدا اغیار و نامحرموں سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہو _ لیکن میرے نقطہ نظر سے اس کے جواب کی ضرورت نہیں ہے _ میں نہیں جانتا کہ انھیں ایسے بے مدرک اور ضعیف موضوع کو ثابت کرنے کیلئے کس چیز نے مجبور کیا ہے کہتے ہیں بالفرض ایسے ممالک آج اگر موجود نہ ہوں تو بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ زمانوں میں تھے بعد میں نیست و نابود ہوگئے اور ان کے باشندے متفرق ہوگئے ہیں _ یہ احتمال بھی بے بنیاد ہے _ کیونکہ اگر ایسے وسیع اور شیعہ نشین ممالک آباد ہو تے تو بہت سے لوگون کو ان کی اطلاع ہوتی اور ان کے حالات و کوائف اجمالی طور پر سہی تاریخ میں ثبت ہوتے _ یہ بات محال معلوم ہوتی ہے کہ چند بڑے ممالک موجود ہوں اور کسی کو ان کی خبر نہ ہو اور یہ سعادت صرف ایک مجہول شخص کو نصیب ہونے کے بعد ان کے آثار صفحہ روزگار سے اس طرح مٹا دیئے جائیں کہ تاریخ اور آثار قدیمہ کی تحقیق میں بھی ان کا نام و نشان نہ ملے _

علامہ ، محقق شیخ آقا بزرگ تہرانی مذکورہ داستان کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے اور لکھتے ہیں _ یہ داستان محمد بن علی علوی کی کتاب تغازی کے آر میں نقل ہوئی ہے _ اس سے علی بن فتح اللہ کاشانی یہ سمجھ بیٹھے کہ مرقومہ داستان کتاب ہی کا جز ہے _ جبکہ یہ اشتباہ ہے _ ممکن نہیں ہے کہ داستان کتاب کا جز ہوکیونکہ یحیی بن ہبیر کہ جس کے گھر یہ قضیہ پیش آیا وہ سنہ۵۶۰ ھ میں مر چکا تھا اور کتاب تغازی کے مولف اس سے دوسو سال پہلے گزرے ہیں _ اس کے علاوہ داستان کے متن میں بھی تناقض ہے کیونکہ داستان کے ناقل احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ وزیر نے ہم سے عہد لیا کہ مذکورہ داستان کو تم میں سے کوئی بیان نہ کرے اور ہم نے

۲۶۲

اپنے عہد کو پورا کیا چنانچہ جب تک وہ زندہ رہا اس وقت تک کسی سے بیان نہیں کی _ اس بناپر اس داستان کی حکایت وزیر کی تاریخ وفات ۵۶۰ کے بعد ہوئی جبکہ داستان کے متن میں عثمان بن عبد الباقی کہتے ہیں : احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ یہ داستان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے نقل کی گئی _(۱)

دوسری جگہ کہتے ہیں : عثمان بن عبد الباقی نے سات جمادی الثانی سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے بتایا : آپ جانتے ہیں کہ جمادی الثانی کے دو ماہ بعدرمضان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ حادثہ کے رونما ہونے سے دو ماہ قبل ہے یعنی جمادی الثانی میں اسے کسی سے بیان کیا جائے _

ہم امام زمانہ کے محل سکونت کے موضوع میں مجبور نہیں ہیں کہ زبر دستی پوچ دلیلوں سے ''جزائر خضرائ'' جابلقا اور جابرصا کو ثابت کریں یا کہیں : آپ(ع) نے اپنی سکونت کیلئے اقلیم ثامن کا انتخاب کیا ہے _

فہیمی : تو جزیرہ خضراء کی داستان کیا ہے ؟

ہوشیار : چونکہ وقت ختم ہونے والا ہے اس لئے بقیہ مطالب آئندہ جلسہ میں بیان کروں گا اور احباب رضامندہوں تو آئندہ میرے غریب خانہ ہی پر جلسہ منعقد ہوجائے _

____________________

۱_ الذریعہ ج ۵ ص ۱۰۶_

۲۶۳

جزیرہ خضراء

مقررہ وقت پر ہوشیار صاحب کے گھر جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _

جلالی : گزشتہ جلسہ میں شاید فہیمی صاحب نے جزیرہ خضراء کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا تھا

فہیمی: میں نے سنا بلکہ امام زمانہ اور آپ کی اولاد جزیرہ خضراء میں زندگی بسر کرتے ہیں اس سلسلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان کی حیثیت بھی افسانہ سے زیادہ نہیں ہے مرحوم مجلسی نے بحار الانوار میں اس داستان کو تفصیل سے نقل کیا ہے _ اجمال یہ ہے : میں نے نجف اشرف میں امیر المومنین (ع) کے کتب خانہ میں ،ایک رسالہ دیکھا تھا کہ نام جزیرہ خضراء کی داستان تھا _ اس قلمی رسالہ کے مؤلف فضل بن یحیی طبیبی ہیں _ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ جزیرہ خضراء کی داستان میں نے ۱۵ / شعبان سنہ ۶۹۹ ھ کو اباعبداللہ علیہ السلام کے حرم میں شیخ شمس الدین اور شیخ جلال الدین سے سنی تھی _ انہوں نے زین الدین علی بن فاضل مازندرانی سے داستان نقل کی تھی _ مجھے شوق پیدا ہوا کہ خود ان سے داستان سنوں _

خوش قسمتی سے اسی سال شوال کے اوائل میں زین الدین شہر حلّہ تشریف لائے تو میں نے سید فخر الدین کے گھر ان سے ملاقات کی _ میں نے ان سے خواہش کی کہ جو داستا ن آپ نے شیخ شمس الدین و شیخ جلال الدین کو سنائی تھی وہ مجھے بھی سنا دیجئے انہوں نے فرمایا: میں دمشق میں شیخ عبد الرحیم حنفی اور شیخ زین الدین علی اندلسی

۲۶۴

سے تعلیم حاصل کرتا تھا _ شیخ زین الدین خوش طبع شیعہ اور علمائے امامیہ کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا اوران کا احترام کرتا تھا_ ایک مدت تک میں نے ان سے علم حاصل کیا اتفاقاً وہ مصر تشریف لے جانے کیلئے تیار ہوئے چونکہ ہمیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ عقیدت و محبت تھی اس لئے انہوں نے مجھے بھی اپنی ہمراہ مصر لے جانے کا فیصلہ کیا _ ہم دونوں مصر پہنچے اور قاہرہ میں اقامت گزینی کا قصد کیا _ تقریباً نو ماہ تک ہم نے وہاں بہترین زندگی گزاری _ ایک روز انھیں ان کے والد کا خط موصول ہوا ، خط میں تحریر تھا: میں شدید بیمارہوں ، میرا دل چاہتا ہے کہ مرنے سے قبل تمہیں دیکھ لوں _ استا د خط پڑھ کر رونے لگے اور اندلس کے سفر کا ارادہ کرلیا _ میں بھی اس سفر میں ان کے ساتھ تھا _ جب ہم جزیرہ کے اولین قریہ میں پہنچے تو مجھے شدید بیماری لا حق ہوگئی ، یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا _ میری کیفیت سے استاد بھی رنجیدہ تھے ،انہوں نے مجھے اس قریہ کے پیش نماز کے سپرد کیا تا کہ میری دیکھ بھال کرے اور خود اپنے وطن چلے گئے _ تین روز کی بیماری کے بعد میری حالت ٹھیک ہوگئی _ چنانچہ میں گھر سے نکل کر دیہات کی گلیوں میں ٹہلنے لگا _ وہاں میں نے کوہستان سے آئے ہوئے ایک قافلہ کو دیکھا جو کہ کچھ چیزیں لائے تھے _ میں نے ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں تو معلوم ہوا کہ یہ بربر کی سرزمین سے آئے ہیں جو کہ رافضیوں کے جزیرہ سے قریب ہے ، جب میں نے رافضیوں کے جزیرہ کا نام سنا تو اسے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ، انہوں نے بتایا کہ یہاں سے پچیس روز کے فاصلے پر واقع ہے _ جس میں دو روز کی مسافت میں کہیں آبادی اور پانی نہیں ہے _ اس دو دن کی مسافت کو طے کرنے کے لئے میں نے گدھا کرایہ پر لیا اور اپنے سفر کا آغاز کیا یہاں تک کہ رافضیوں کے جزیرہ

۲۶۵

تک پہنچ گیا ، جزیرہ کے چاروں طرف دیواریں تھیں اور محکم و بلند گنبد بنے ہوئے تھے مسجد میں داخل ہوا _ مسجد بہت بڑی تھی، موذن کی آواز سنی ، اس نے شیعون کی اذان دی اور اس کے بعد امام زمانہ کے تعجیل کیلئے دعا کی _ خوشی سے میرے آنسو جاری ہوگئے _ لوگ مسجد میں آئے _ شیعوں کے طریقہ سے وضو کیا اور فقہ شیعہ کے مطابق نماز جماعت قائم ہوئی _ نماز اور تعقیبات کے بعد لوگوں نے مزاج و احوال پرسی کی _ میں نے اپنی روداد سنائی اور بتایا کہ میں عراقی الاصل ہوں _ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں شیعہ ہوں تو میرا بہت احترام کیا اور میرے قیام کے لئے مسجد کا حجرہ معین کیا _ پیش نماز صاحب بھی میرا احترام کرتے تھے اور شب و روز میرے پاس رہتے تھے _ ایک دن میں نے ان سے پوچھا اہل شہر کی ضرورت کی چیزیں اور خوراک کہاں سے آتی ہیں؟ مجھے یہاں کاشتکاری کی زمین نظر نہیں آتی ہے _ اس نے کہا: ان کا کھانا جزیرہ سے آتا ہے ، یہ جزیرہ بحرا بیض کے بیچ واقع ہے _ ان کے کھانے کی اشیاء سال میں دو مرتبہ جزیرہ سے کشتیوں کے ذریعہ آتی ہیں _ میں نے پوچھا کشتی آنے میں کتنا وقت باقی ہے؟ اس نے کہا : چارماہ _ طویل مدت کی وجہ سے مجھے افسوس ہوا لیکن خوش قسمتی سے چالیس دن کے بدن کشتیاں آگئیں اور یکے بعد دیگرے سات کشتیاں وارد ہوئیں _ ایک کشتی سے ایک وجیہہ آدمی اترا ، مسجد میں آیا ، فقہ شیعہ کے مطابق وضو کیا اور نماز ظہر و عصر ادا کی _ نماز کے بعد میری طرف متوجہ ہوا ، سلام کیا اور گفتگو کے دوران میرے اور میرے والدین کا نام لیا _ اس سے مجھے تعجب ہوا _ کیا آپ شام سے مصر اور مصر سے اندلس تک کے سفر میں میرے نام سے واقف ہوئے ہیں ؟ کہا: نہیں ، بلکہ تمہارا اور تمہارے والدین کے نام ، شکل و صورت اور صفات مجھ تک پہنچے ہیں _

۲۶۶

میں تمھیں اپنے ساتھ جزیرہ خضراء لے جاؤنگا _ ایک ہفتہ انہوں نے وہیں قیام کیا اور ضروری امور کی انجام دہی کے بعد سفر کا آغاز کیا _ سولہ دن سمندر کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے بحرا بیض نظر آیا _ اس شیخ نے کہ جس کا نام محمد تھا ، مجھ سے پوچھا کس چیز کا نظارہ کررہے ہو؟ اس علاقہ کے پانی کا دوسرا رنگ ہے _ اس نے کہا: یہ بحرا بیض ہے اور یہ جزیرہ خضراء ہے ، پانی نے اسے دیواروں کی طرح چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور خدا کی حکمت ہے کہ جب ہمارے دشمنوں کی کشتیاں ادھر آنا چاہتی ہیں تو وہ صاحب الزمان کی برکت سے غرق ہوجاتی ہیں _ اس علاقہ کہ میں نے تھوڑا ساپانی پیا ، فرات کے پانی کی طرح شیرین و خوشگوارتھا _ بحرا بیض کا کچھ سفر طے کرنے کے بعد جزیرہ خضراء پہنچے کشتی سے اتر کر شہر میں داخل ہوئے _شہر بارونق تھا ، اس میں میوہ سے لدے ہوئے درخت اور چیزوں سے بھرے ہوئے بازار بہت زیادہ تھے اور اہل شہر بہترین زندگی گزار رہے تھے _ اس پر کیف منظر سے میرا دل باغ باغ ہوگیا _ میرا دوست محمد اپنے گھر لے گیا _ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جامع مسجد گئے _ مسجد میں بہت سی جماعتیں تھیں اور ان کے درمیان ایک شخص تھا کہ جس کے جلال و عظمت کو میں بیان نہیں کرسکتا _ اس کا نام سید شمس الدین محمد تھا _ وہ لوگوں کو عربی ، قرآن ، فقہ اوراصول دین کی تعلیم دیتا تھا _ میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا: اپنے پاس بٹھایا ، مزاج پرستی کی اور کہا میں نے شیخ محمد کو تمہارے پاس بھیجا تھا _ اس کے بعد انہوں نے میرے قیام کے لئے مسجد کا ایک کمرہ معین کرنے کا حکم دیا _ ہم آرام کرتے اور شمس الدین اور ان کے اصحاب کے ساتھ کھانا کھاتے تھے _ اسی طرح اٹھارہ روز گزر گئے جب میں وہاں پہلے جمعہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ

۲۶۷

سید شمس الدین نے نماز جمعہ واجب کی نیت سے ادا کی _ میں نے کہا : کیا امام زمانہ حاضر ہیں کہ واجب کی نیت سے نماز پڑھی ؟ کہا : امام حاضر نہیں ہیں لیکن میں ان کا خاص نائب ہوں ، میں نے کہا : کیا کبھی آپ نے امام زمانہ کو دیکھا ہے ؟ نہیں ، لیکن والد صاحب کہتے تھے کہ وہ امام کی آواز سنتے تھے مگر دیکھتے نہیں تھے ، ہاں دادا آواز بھی سنتے تھے اور دیکھتے بھی تھے_ میں نے کہا: میرے سید و سردار : کیا وجہ ہے کہ امام (ع) کو بعض لوگ دیکھتے ہیں اور بعض نہیں ؟ فرمایا: یہ بعض بندوں پر خدا کا لطف ہے _

اس کے بعد سید نے میرا ہاتھ پکڑا اور شہر سے باہر لے گئے _ وہاں میں نے ایسے باغات ، چمن زاروں ، نہروں اور بہت سے درختوں کا مشاہدہ کیا کہ جن کی نظیر عراق میں نہیں تھی _ واپسی کی وقت ایک حسین و جمیل آدمی سے ہماری ملاقات ہوئی _ میں نے سید سے پوچھا کہ یہ شخص کو ن تھا ؟ کہا: کیا اس بلند پہاڑ کو دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ، کہا: اس پہاڑ کے درمیاں ایک خوبصورت جگہ ہے اور درختوں کے نیچے ایک خوشگوار پانی کا سرچشمہ ہے وہاں اینٹوں کا بنا ہوا ایک گنبد ہے یہ شخص اس قبہ کا نگہبان و خدمت گار ہے _ میں ہر جمعہ کی صبح کو وہاں جاتا ہوں اور امام زمانہ کی زیارت کرتاہوں اور دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد ایک کاغذ ملتا ہے کہ جس میں میری ضرورت کے تمام مسائل مرقوم ہوتے ہیں _ تمہارے لئے بھی ضروری ہے وہاں جاؤ اور اس قبہ میں امام زمانہ کی زیارت کرو _

میں اس پہاڑ کی جانب روانہ ہوا _ قبہ کو میں نے ایسا ہی پایا جیسا کہ مجھے بتایا گیا تھا _ وہاں وہ خادم بھی ملا _ میں نے ان سے امام زمانہ سے ملاقات کی خواہش کی انہوں نے کہا: ناممکن ہے اور ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے _ میں نے کہامیرے لئے دعا کرو ،

۲۶۸

انہوں نے میرے لئے دعا کی ، اس کے بعد میں پہاڑ سے اتر آیا اور سید شمس الدین کے گھر کی طرف روانہ ہوا ان سے راستہ میں کہیں ملاقات نہ ہوئی _ میں اپنی کشتی کے ساتھ شیخ محمد کے گھر پہنچا اور پہاڑ کا ماجرا انھیں سنایا اور بتایا کہ ان خادموں نے مجھے ملاقات کی اجازت نہیں دی ہے _ شیخ محمد نے بتایا کہ وہاں سید شمس الدین کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے _ وہ امام زمانہ کی اولاد سے ہیں _ ان کے اور امام زمانہ کے درمیان پانچ پشتیں ہیں وہ امام زمانہ کے خاص نائب ہیں _

اس کے بعد میں نے سید شمس الدین سے خواہس کی کہ میں اپنی بعض دینی مشکلیں آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے سامنے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے صحیح قرائت بتادیں _ فرمایا: کوئی حرج نہیں _ پہلے میں نے قرآن شروع کیا _ تلاوت کے درمیان قاریوں کا اختلاف بیان کیا تو سید نے کہا : ہم ان قرائتوں کو نہیں جانتے ہماری قرائت تو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے قرآن کے مطابق ہے _ اس وقت انہوں نے حضرت علی (ع) کے جمع کردہ قرآن کا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ ابوبکر نے اسے قبول نہیں کیا تھا _ بعد میں ابوبکر کے حکم سے قرآن جمع کیا گیا اور اس سے بعض چیزیں حذف کردی گئی ہیں _ چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آیت کے قبل و بعد میں ربط نہیں ہے _ سید کی اجازت کے بعد تقریباً میں نے نوے مسائل ان سے نقل کئے خاص کے علاوہ کسی کو ان کے نقل کی اجازت نہیں دیتا ہوں _

اس کے بعد اپنی مشاہدہ کردہ دوسری داستان نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میں نے سید سے عرض کی : امام زمانہ سے ہمارے پاس کچھ احادیث پہنچی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص زمانہ غیبت میں رویت کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے _ جبکہ آپ

۲۶۹

کہتے ہیں ہم سے بعض کی امام سے ملاقات ہوتی ہے ، اس حدیث اور آپ کے بیان میں کیسے توافق ہوسکتا ہے ؟ فرمایا: یہ احادیث صحیح ہیں ، لیکن اس وقت کے لئے تھیں جب بنی عباس میں سے آپ(ع) کے بہت سے دشمن تھے _ مگر اس زمانہ میں دشمن آپ سے مایوس ہوچکے ہیں اور ہمارے شہر بھی ان سے دور ہیں کسی کی دست رسی اس میں نہیں ہے ، لہذا اب ملاقات میں کوئی خطرہ نہیں ہے _

میں نے کہا: سید شیعہ امام سے کچھ احادیث نقل کرتے ہیں کہ خمس آپ نے شیعوں کے لئے مباح کیاہے _ کیا آپ نے اما م سے یہ حدیث سنی ہے کہ امام نے خمس کو شیعوں کیلئے مباح کیا ہے _ اس کے بعد وہ سید سے کچھ اور مسائل نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: تم نے بھی ابھی تک امام کو دو مرتبہ دیکھا ہے لیکن پہچان نہیں سکے _

خاتمہ میں کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: مغربی ممالک میں قیام نہ کرو، جتنی جلد ہوسکے عراق پلٹ جاؤ_ چنانچہ میں نے ان کے حکم کے مطابق عمل کیا _

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان ایسی ہی ہے جیسا کہ میں نے اس کا خلاصہ آپ کے سامنے بیان کیا ہے _ آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری ہے کہ مذکورہ داستان کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ افسانہ کی حیثیت ہے کیونکہ :

اولاً: اس کی سند معتبر و قابل اعتماد نہیں ہے _ یہ داستان ایک مجہول قلمی نسخے سے نقل کی گئی ہے چنانچہ اس کے متعلق خود مجلسی لکھتے ہیں : چونکہ مجھے یہ داستان معتبر کتابوں میں نہیں ملی ہے اس لئے میں نے اس کو الگ باب میں نقل کیا ہے ( تا کہ کتاب کے مطالب سے مخلوط نہ ہوجائے )

ثانیاً: داستان کے مطالب کے درمیان تناقض پایاجاتا ہے جیسا کہ آپ نے

۲۷۰

ملاحظہ فرمایا: سید شمس الدین ایک جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں : '' میں امام زمانہ کا خاص نائب ہوں اور ابھی تک امام زمانہ کو نہیں دیکھا ہے _ میرے والد نے بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ان کی آواز سنتے تھے جبکہ میرے دادا دیکھتے اور آواز سنتے تھے '' _ لیکن یہی سید شمس الدین دوسری جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں :'' میں ہر جمعہ کی صبح کو امام کی زیارت کے لئے جاتا ہوں ، بہتر ہے تم بھی جاؤ'' ، داستان کے راوی سے شیخ محمد نے بھی یہی کہا تھا کہ صرف سید شمس الدین اور انہی جیسے لوگ امام کی خدمت میں مشرف ہو سکتے ہیں _ ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ فرما رہے ہیں کہ ان مطالب میں کتنا تناقض ہے _ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سید شمس الدین جانتے تھے کہ اپنے علاوہ کسی کو زیارت کے لئے نہیں لے جاتے تو پھر داستان کے راوی سے یہ تجویز کیسے پیش کی کہ ملاقات کے لئے پہاڑ پر جاؤ_

ثالثاً : مذکورہ داستان میں تحریف قرآن کی تصریح ہوئی ہے جو کہ قابل قبول نہیں ہے اور علمائے اسلام شدت کے ساتھ اس کا انکار کرتے ہیں _

رابعاً: خمس کے مباح ہونے والا موضوع بھی کہ جس کی تائید کی گئی ہے فقہا کی نظر میں صحیح نہیں ہے _

بہر حال داستان رومانٹک انداز میں بنائی گئی ہے ، لہذا بہت ہی عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے _ زین الدین نامی ایک شخص عراق سے تحصیل علم کے لئے شام جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتاہے ، طویل سفر طے کرتا

۲۷۱

ہے _ وہاں بیمار پڑتا ہے _ اس کا استاد اسے چھوڑدیتا ہے _ افاقہ کے بعد ، رافضیوں کے جزیرہ کا نام سن کر اس جزیرہ کو دیکھنے کا ایسا اشتیاق پیدا ہوتا ہے کہ اپنے استاد کو بھول جاتا ہے _ خطرناک اور طویل سفر طے کرکے رافضیوں کے جزیرہ پہنچتا ہے _ جزیرہ میں زراعت نہیں ہوتی لہذا پوچھتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی غذ ا کہاں سے آتی ہے ؟ جواب ملتا ہے کہ ان کی غذا جزیرہ خضراء سے آتی ہے ، باوجودیکہ لوگوں نے بتا یا تھا کہ چار ماہ کے بعد کشتیاں آئیں گی لیکن اچانک چالیس ہی دن کے بعد آجاتی ہیں ، ساحل پر لنگر انداز ہوتی ہیں اور ایک ہفتہ کے بعد اسے (راوی کو) اپنے ساتھ لے جاتے ہیں _ بحر ابیض کے وسط میں سفید پانی دیکھتا ہے جو کہ شیرین و گوارا بھی ہے اس کے بعد ناقابل عبور جگہ سے گزر کر جزیرہ خضراء میں داخل ہوتا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک عراقی طویل سفر طے کرنے کے بعد مختلف ممالک کے لوگوں سے گفتگو کرتا ہے اور ان سب کی زبان جانتا ہے ، کیا اندلس کے باشندے بھی عربی بولتے تھے؟

دوسری قابل توجہ بات بحر ابیض کی داستان ہے _ آپ جانتے ہیں کہ بحر ابیض روس کی جمہوریاؤں کے شمال میں واقع ہے _ وہاں یہ واقعہ نہیں پیش آسکتا تھا _ البتہ بحر متوسط کو بھی بحر ابیض کہتے ہیں _ ممکن ہے یہ داستان وہاں کی ہو لیکن اس پورے سمندر کو بحر ابیض کہا جا تا ہے نہ کہ اس مخصوص علاقہ کو جسے داستان کے راوی نے سفید محسوس کیا تھا _ اگر کوئی مذکورہ داستان میں مزید غور کرے گا تو اس کا جعلی ہونا واضح ہوجائے گا _

خاتمہ پر اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے _ جیسا کہ اس سے قبل آپ

۲۷۲

ملاحظہ فرما چکے ہیں _ ہماری احادیث میں بیان ہوا ہے کہ امام زمانہ اجنبی کی طرح لوگوں کے درمیاں رہتے ہیں _ عام مجموع اور حج میں شرکت کرتے ہیں اور بعض مشکلات کے حل میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں _

اس مطلب کے پیش نظر امام زمانہ ، مستضعفین اور حاجت مندوں کی امید کا دور افتادہ علاقہ ، سمندر کے بیچ میں اقامت گزیں ہونا نہایت ہی نا انصافی ہے _ آخر میں معذرت خواہ ہوں کہ ایسی غیر معتبر داستان کی تشریح کیلئے آپ کا قیمتی وقت لیا _

جلالی : امام زمانہ کی اولا ہیں یا نہیں ؟

ہوشیار: ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو شادی اور اولاد کا قطعی و یقینی طور پر اثبات و نفی کرتی ہو _ البتہ ممکن ہے خفیہ طور پر شادی کی ہو اور ایسے ہی اولا د کا بھی کسی کو علم نہ ہو اور جیسے مناسب سمجھتے ہوں عمل کرتے ہوں اگر چہ بعض دعاؤں کی دلالت اس بات پر ہے کہ امام زمانہ کی اولاد ہے یااس کے بعد پیدا ہوگی _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۱۷_

۲۷۳

ظہور کب ہوگا؟

ڈاکٹر : مہدی موعو د کب ظہور فرمائیں گے ؟

ہوشیار: ظہور کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں ہوئی ہے بلکہ وقت کی تعیین کرنے والے کو ائمہ اطہار علیہم السلام نے جھوٹا قرار دیا ہے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :

فضل کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : کیا مہدی کے ظہور کا وقت معین ہے ؟ امام (ع) نے جواب میں تین مرتبہ فرمایا:

''جو شخص ظہور کے وقت کی تعیین کرتا ہے وہ جھوٹا ہے ''(۱)

عبد الرحمن بن کثیر کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ مہزم اسدی آئے اور عرض کی : میں آپ(ع) کے قربان ، قائم آل محمد (ص) کا ظہور اور حکومت حق کی تشکیل ، کہ جس کے آپ منتظر ہیں ، کب ہوگا ؟ آپ (ع) نے جواب دیا :

'' ظہور کے وقت کی تعیین کرنے والا جھوٹا ہے ، تعجیل کرنے والے ہلاک ہوتے ہیں اور سراپا تسلیم لوگ نجات پاتے ہیں اور

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲۷۴

ان کی بازگشت ہماری طرف ہوتی ہے ''(۱)

محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا :

''جو شخص وقت ظہور کی تعیین کرتاہے _ اس کی تکذیب کرنے میں خوف محسوس نہ کرو کیونکہ ہم ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کرتے '' _ اس سلسلہ میں دس احادیث اور ہیں _(۲)

ا ن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) نے ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کی ہے اور ہر غلط فائدہ اٹھائے والے کا راستہ بند کردیا ہے _ پس اگر امام کی طرف کسی ایسی حدیث کی نسبت دی جائے کہ جس میں وقت کی تعیین کی گئی ہو تو اسکی تاویل کی جائے اگر قابل تاویل ہے یا اس کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے یا اسکی تکذیب کرنا چاہئے جیسے ابولبید مخزومی کی ضعیف و مجمل حدیث میں امام کی طرف بعض مطالب کی طرف نسبت دی گئی ہے او ران کے ضمن میں کہا ہے کہ ہمارا قائم '' الر'' میں قیام کرے گا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۴_

۳_ بحاراالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۶_

۲۷۵

ظہور کی علامتیں

انجینئر: ظہور کی علامتیں کہاں تک صحیح ہیں؟

ہوشیار: صاحب الامر (ع) کے ظہور کی بہت سی علامتیں احادیث کی کتابوں میں بیان ہوئی ہیں لیکن اگر ہم ان سب کو بیان کریں تو بحث طولانی ہوجائیگی اور کئی جلسے اس میں گزر جائیں گے لیکن یہاں چند ضروری باتوں کی وضاحت کردینا ضروری ہے :

الف: بعض علامتوں کا مدرک ، خبر واحد ہے کہ جس کی سند و طریق میں غیر موثق اور مجہول الحال اشخاص ہیں لہذا مفید یقین نہیں ہے _

ب: اہل بیت کی احادیث میں ظہور کی علامتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے _ ان میں سے ایک حتمی و ضروری ہے ، اس میں :وئی قید و شرط نہیں ہے ان کا ظہور سے قبل واقع ہونا ضروری ہے _ دوسری قسم حتمی نہیں ہے یہ وہ حوادث ہیں جو ظہور کی حتمی علامت نہیںہیں بلکہ شرط سے مشروط ہیں اگر شرط واقع ہوگی تو یہ بھی ہوں گے اور اگر شرط نہ ہوگی تو یہ بھی نہ ہوں گے _ لہذا انھیں اجمالی طور پر ظہور کی علامتوں میں شمار کرنے میں مصلحت تھی _

ج _ جو چیزیں ظہور کی علامت ہیں وہ جب تک واقع نہ ہونگی اس وقت تک

۲۷۶

صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا اور ان کا وقوع اس بات کی دلیل ہے کہ فرج کا زمانہ ایک حد تک قریب آگیا ہے _ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان علامتوں کے واقع ہوتے ہی بلا فصل امام زانہ کا ظہور ہوجائے گا _ لیکن ان میں سے بعض کی تصریح ہوئی ہے کہ وہ امام کے ظہور سے نزدیک واقع ہونگی _

د_ ظہور کی بعض علامتیں معجزانہ اور خارق العادت کے طور پر واقع ہونگی تا کہ مہدی موعود کے دعوے کے صحیح ہونے کی تائید کریں اور دنیا کے غیر معمولی حالات کو بیان کریں _ یہ علامتیں ایسی ہی ہیں جیسے دیگر معجزات اور صرف اس لئے انھیں رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ معمولی حالات کے موافق نہیں ہیں _

ھ_ ظہور کی علامتوں کی ایک قسم کتابوں میں ہمیں نظر آتی ہیں کہ جن کا واقع ہونا محال معلوم ہوتا ہے جیسا کہ یہ کہا گیا ہے ظہور کے وقت مغرب سے سورج نکلے گا اور نصف ماہ رمضان میں سورج گہن لگے گا اور پھر اسی مہینہ کے نصف آخر میں گہن لگے گا _ دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسے حوادث کے واقع ہونے سے کائنیات کا نظام درہم و برہم ہوجائے گا _ اور شمسی نظام کی گردش میں تبدیلی آجائے گی _ لیکن واضح رہے ان علامتوں کا مدرک بھی خبر واحد ہے جو کہ مفید یقین نہیں ہے _ ان کی سند میں خدشہ وارد کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ بنی امیہ و بنی عباس کے خلفا کی جعل کی ہوئی ہیں _ کیونکہ اس زمانہ میں بعض لوگ حکومت وقت کے خلاف مہدی موعود کے عنوان سے قیام کرتے تھے اور اس طرح بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنالیتے تھے _ خلفائے وقت نے جب یہ محسوس کیا کہ مہدی سے متعلق اصل احادیث کا انکار ممکن نہیں ہے تب انہوں نے دوسرا طریقہ سوچا تا کہ علویوں

۲۷۷

کی نہضت و تحریک کو مختل کیا جا سکے اور لوگوں کو اس سے بازر کھا جا سکے _ اس لئے انہوں نے محال علامتیں جعل کیں تا کہ لوگ ان علامتوں کے منتظر رہیں اور علویوں کی بات نہ مانیں _ اگر صحیح احادیث ہوتیں تو کوئی بات نہ تھی ایسی علامتیں معجزانہ طور پروجود میں آئیں گی تا کہ کائنات کے غیر معمولی حالات کا اعلان کریں اور حکومت حق کی ترقی کے اسباب فراہم کریں _

۲۷۸

سفیانی کا خروج

انجینئر: ظہور کی علامتوں میں سے ایک سفیانی ہے _ یہ کون ہے اور اس کا قصہ کیا ہے؟

ہوشیار: بہت سی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صاحب الامر (عج) کے ظہور سے پہلے ابو سفیان کی نسل سے ایک شخص خروج کرے گا _ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ظاہراً اچھا آدمی ہے ہمیشہ اس کی زبان پر ذکر خدا ہے _ لیکن بدترین و خبیث ترین انسان ہے _ بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالے گے ، اپنے ہمراہ لے کر چلے گا ، پانچ علاقوں ، شام ، حمص ، فلسطین ، اردن ، اور قنسرین پر قابض ہوجائے گا اور بنی عباس کی حکومت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا _ بے شمار شیعوں کو قتل کریگا اس کے بعد صاحب الامر (عج) کا ظہور ہوگا تو وہ امام زمانہ سے جنگ کے لئے اپنا لشکر بھیجے گا لیکن مکہ و مدینہ کے درمیان اس کا لشکر زمین میں دھنس جائے گا _

جلالی : آپ جانتے ہیں کہ بنی عباس کی حکومت مدتوں پہلے ختم ہوچکی ہے اس کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں ہے کہ جسے سفیانی نابود کرے :

ہوشیار: امام موسی کاظم علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ:

'' بنی عباس کی حکومت فریب و نیرنگ سے وجود میں آئی ہے لہذا یہ اس طرح

۲۷۹

تباہ ہوگی کہ اس کا کہیں نشان بھی نہیں ملے گا ، لیکن پھر وجود میں آئے گی اور اس طرح اوج پر پہنچے گی گویا اسے کوئی دھچکاہی نہیں لگاتھا _''(۱)

اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بنی عباس کی دوبارہ حکومت ہوگی اور آخری مرتبہ سفیانی کے ہاتھوں تباہ ہوگی _ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ سفیانی کے خروج کو ضروری کہا گیا ہے لیکن اس کے خروج کا زمانہ اور کیفیت معلوم نہیں ہے یعنی ممکن ہے بنی عباس کی حکومت کی تباہی سفیانی کے ہاتھوں نہ ہو بلکہ دوسروں کے توسط سے ہو _

فہیمی: میں نے سنا ہے : چونکہ خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے دل میں خلافت کی آرزو تھی اور وہ بنی مروان کے ہاتھوں میں خلافت کی زمام دیکھتا تھا اس لئے اس نے بنی امیہ کی حوصلہ افزائی کیلئے خروج سفیانی کی داستان گھڑی خالد کے بارے میں صاحب اغانی لکھتے ہیں :

''وہ عالم و شاعر تھا ، کہا جاتاہے کہ سفیانی کی حدیث کو اسی نے جعل کیا ہے ''(۲)

طبری لکھتے ہیں :'' علی بن عبداللہ بن خالد بن یزید بن معاویہ نے شام میں سنہ ۱۵۹ میں خروج کیا تھا وہ کہتا تھا _ میں سفیانی منتظر ہوں ، اس طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا _(۲) ان تاریخی شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ سفیانی کا خروج جعلی چیز ہے _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۵۰ _

۲_ اغانی ج ۱۶ ص ۱۷۱ _

۳_ طبری ج ۷ ص ۲۵_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

کیا اکثریت قتل کردی جائیگی ؟

جلالی صاحب کے مکان پر حسب سابق جلسہ شروع ہوا ، ہوشیاری صاحب نے ایک مختصر تمہید کے بعد کہا: الحمد للہ جلسے کامیاب و مفید رہے ، میرا خیال ہے کہ وہ بہت سے مسائل کسی نہ کسی حد تک حل ہوگئے ہوں گے جو کہ احباب کو لا ینحل معلوم ہوتے تھے لہذا احباب کی نظر میں اگر کوئی اہم مسئلہ ہو تو اسے پیش کریں _

انجینئر: علماء پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ آج دنیا کے مسلمان دوسرے مذاہب کی بہ نسبت اقلیت میں ہیں _ زمین پر بسنے والوں میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے _ اسی طرح تمام مسلمانوں کی بہ نسبت شیعہ بھی اقلیت میں ہیں ، ظلم بہت ہیں ، یہ ہے آج دنیا کی جمعیت _ چنانچہ ہمیشہ کی طرح آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا _ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظہور حضرت مہدی کے وقت بھی شیعہ اقلیت میں ہوں گے _ اس موازنہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں _ کیا یہ بات معقول ہے کہ دنیا کی اکثریت تھوڑے سے شیعوں کے ہاتھوں قتل ہوجائے گی اور مقابلہ نہ کریں گے ؟ اس کے علاوہ اگر زیادہ تر لوگ قتل ہوجائیں گے تو زمین قبرستان بن جائے گی اقلیت باقی رہے گی لہذا وہ قبرستان پر حکمرانی کریں گے اور ایسے عمل کو نہ اصلاح کا نام دیا جا سکتا ہے نہ اسے عالمی حکومت کہا جا سکتا ہے

۴۰۱

ہوشیار: اینجنئر صاحب ہمیں مستقبل کا معتد بہ علم نہیں ہے اور ماضی پر اسے قیاس نہیں کیا جا سکتا _ یہ بات قدر مسلَّم ہے کہ آئندہ لوگوں کے افکار و استعداد میں ترقی ہوگی اور وہ حق کو قبول کرنے کیلئے زیادہ آمادہ ہوں گے _ آج یہ بات سنی جاتی ہے کہ مغرب و مشرق کے بہت روشن فکر اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ ان کے مذاہب و ادیان انھیں مطمئن نہیں کر سکتے _ دوسرے طرف خدا پرستی اور خدا جوئی کی فطرت آرام سے نہیں بیٹھتی ہے _ لہذا وہ ایسے آئین کی جستجو میں ہیں جو فاسد عقائد اور خرافات سے پاک و پاکیزہ ہو اور معنویت کا حامل ہوتا کہ ان کی اندرونی خواہشوں کو پورا کرسکے اور روحانی غذا فراہم کرے _ اس نہج سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل قرب میں معاشرہ انسانی ، اسلامی کے احکام و معارف کی متانت و حقانیت کا سراغ لگائے گا اور اس پر یہ واضح ہوجائے گا کہ اس کی اندرونی خواہش اور اس کی جسمانی و روحانی سعادت کا ضامن صرف دین اسلام ہی ہے _

افسوس کہ ہمارے پاس اتنا بلند حوصلہ اور وسیلہ نہیں ہے کہ جس سے ہم دنیا کے لوگوں کو اسلام کے پاکیزہ معارف اور اس کے نور انی حقائق سے آگاہ کرسکیں لیکن ایک طرف لوگوں کی حقیقت کااحساس اور دوسری طرف اسلام کے متین احکام و معارف اس مشکل کو ایک روز ضرور حل کریں گے _ اور اس دقت دنیا والے گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوں گے اور مسلمانوں کی اکثریت ہوگی _

اس کے علاوہ زمانہ ظہور کے عام حالات کے پیش نظر بھی یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ جب حضرت مہدی ظہور فرمائیں گے اور لوگوں کے سامنے حقائق اسلام پیش کریں گے اور اسلام کے اصلاحی و انقلابی پروگرام سے انھیں مطلع کریں گے تو بہت سے

۴۰۲

لوگ اس کے حلقہ بہ گوش ہوجائیں گے کیونکہ ایک طرف تو لوگوں کی درک حقائق والی استعدادکمال کو پہنچ جائے گی اور دوسری طرف وہ امام زمانہ کے معجزات کو مشاہدہ کریں گے دنیا کے حالات کو غیر معمولی پائیں گے اور رہبر انقلاب کی طرف سے انھیں خطرہ سے آگاہ کیا جائے گا _ ان حالات کی بناپر لوگ حضرت مہدی کے ہاتھوں فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے اور قتل سے نجات پائیں گے _

لیکن جو لوگ ان تمام چیزوں کے باوجود اسلام قبول نہیں کریں گے ، یہود و نصاری تو قتل نہیں کئے جائیں گے بلکہ وہ حکومت اسلام کی حمایت میں زندگی گزاریں گے صرف کفار ، ستمگر اور جھگڑالو ہیں جو کہ مہدی (عج) کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کئے جائیں گے اور ان کی تعداد بہت زیادہ نہ ہوگی _

قم سے معارف اسلام کی اشاعت ہوگی

اہل بیت کی احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستقبل قریب میں علمائے شیعہ ماضی سے زیادہ مذہبتشيّع کے احکام و عقائد کو اہمیت دیں گے اور اپنے

حالات کو سنواریں گے ، نظم و ضبط پیدا کریں گے _ رائج الوقت تبلیغی وسائل سے آراستہ ہوں گے اور قرآن مجید کے حقائق و احکام سے جو کہ انسان کی سعادت کے ضامن ہیں لوگوں کو روشناس کرائیں گے _ اور اسلام کی ترقی و عظمت اور حضرت ولی عصر کے ظہور کے اسباب فراہم کریں _

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

'' بہت جلد کوفہ مومنوں سے خالی ہوجائے گا _ علم اس شہرے ایسے

۴۰۳

ناپید ہوجائے گا جیسے سانپ اپنے بل میں چھپ جاتا ہے وہاں اس کا کوئی اثر بھی نہ ملیگا ، علم کا مرکز قم ہوگا ، قم علم و فضل کا محور ہوگا ، وہیں سے علم تمام شہروں میں پھیلے گا یہاں تک کہ روئے زمین پر کوئی جاہل باقی نہیں رہے گا ، یہاں تک عورتیں بھی _

اب ہمارے قائم کا ظہور قریب ہوگا اور خدا قم اور اس کے باشندوں کو حجت قرار دے گا اور اگر ایسا نہ ہو تا تو زمین اپنے ساکنوں سمیت دھنس جاتی اور حجت باقی نہ رہتی _ علم و دانش قم سے تمام مغرب و مشرق کے شہروں میں پھیلے گا اور دنیا والوں پر حجت تمام ہوجائے گی یہاں تک کہ روئے زمین پر ایک شخص بھی ایسا نہیں ملیگا جس تک علم و دین نہ پہنچا ہو _ اس کے بعد ہمارے قائم ظہور فرمائیں گے اور خدا کے عذاب و قہر کے اسباب فراہم ہوجائیں گے کیونکہ خدا اپنے بندوں سے اس وقت انتقام لیتا ہے جب وہ اس کی حجت کا انکار کرتے ہیں ''_(۱)

امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

خدا نے کوفہ اور اس کے باشندوں کو تمام شہروں اور ان کے ساکنوں پر حجت قرار دیا تھا ، قسم کو بھی دوسرے شہروں پر حجت قرار دے گا اور اس کے باشندوں کے ذریعہ مشرق و مغرب میں رہنے والوں _ جن و انس پر حجت قائم کرے گا ، خدا قم والوں کو ذلیل نہیں کرے گا بلکہ خدا کی

____________________

۱_ سفینة البحار ، قم _

۴۰۴

توفیق و نصرت ہمیشہ ان کے شامل حال رہے گی _ اس کے بعد فرمایا : قسم کے دین داروں کی کم اہمیت تھی ، اس لئے انھیں زیادہ اہمیت نہیں دی جائیگی اگر ایسا نہ ہو تو تا تو قم اور اس کے باشندوں کو برباد کردیا جاتا اور تمام شہروں پرحجت باقی نہ رہتی _ آسمان اپنی جگہ رہتا ، زمین والوں کو لمحہ بھر کی مہلت نہ ملتی _ قم اور اس کے بسنے والے تمام ناگوار حوادث سے محفوظ رہیں گے ایک زمانہ آئے گا کہ قم اور اس کے ساکن تمام لوگوں پر حجت قرار پائیں گے اور ہمارے قائم کی غیبت سے ظہور تک ایسا ہی رہے گا _ خدا کے فرشتے قم اور اس کے رہنے والوں سے تمام بلاؤں کو دور کریں گے اور جو ستمگر اس شہر پر حملہ کرنا چاہے گا ، ستمگروں کو ہلاک کرنے والا اس کی کمر توڑ دے گا اور اسے سخت مصیبت میں مبتلا کردے گا یا اس پر اسی سے قوی دشمن کو مسلط کردے گا خداوند عالم ظالموں کے دلوں سے قسم اور اس کے ساکنوں کی یاد محو کردے گا _ جیسا کہ انہوں نے ذکر خدا کو فراموش کردیا ہے _(۱)

امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے :

'' قم والوں میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف بلائے گا _ ایک گروہ اسکی آواز پر لبیک کہے گا ، اس کے پاس جمع ہوجائیں گے جو کہ فولاد کی مانند ہوں گے انھیں کوئی متزلزل نہیں کر سکے گا _ وہ جنگ سے نہیں اکتائیں گے ، وہ صرف خدا پر توکل کریں گے ، آخر کار متیقن کامیاب ہوں گے '' _(۲)

____________________

۱_ سفینة البحار

۲_ بحار الانوار ج ۶۰ ص ۲۱۶_

۴۰۵

جلالی : آپ نے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی _ آپکی پیشین گوئی بعض احادیث کے منافی ہے مثلاً:

رسول اکرم کا ارشاد ہے :

'' ایک زمانہ آئے گا کہ جس میں قرآن کا خط ہی بچے گا اور اسلام برائے نام رہے گا لوگوں کو مسلمان کہا جائے گا لیکن وہ اس سے بہت دور ہوں گے ان کی مسجد یں آراستہ ہوں گی لیکن ہدایت سے ان کے دل خالی ہوں گے ''(۱)

ہوشیار: رسول (ص) اکرم نے ایسی احادیث میں صرف یہ فرمایا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ جب حقیقت و معنویت اسلام سے مٹ جائے گی صرف اس کی شکل باقی رہے گی اور مسلمان ہونے کے باوجود حقیقت سے کو سوں دور ہوں گے لیکن یہ بات مسلمانوں کی اکثریت کے منافی ہیں ہے ممکن ہے مسلمان ہونے کے باوجود وہ اسلام کی نورانیت سے کم فائدہ اٹھاتے ہوں اور پیکر اسلام پر کہنہ گی کی گردپڑگئی ہواور وہ امام زمانہ اس گرد کو صاف کریں اور دین کی تجدید ہوجائے _ جیسا کہ رسول کا ارشاد بھی ہے : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مسلمانوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوگا اور شرک و مشرکین کی تعداد میں ہمیشہ کمی واقع ہوگی'' _ اس کے بعد فرمایا :'' قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جہاں رات ہوتی ہے وہاں یہ دین پہنچے گا _(۲)

مختصر یہ کہ اولاً یہ کہا گیا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور سے قبل مسلمانوں کی اکثریت

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۰

۲_ تاریخ ابن عساکر ج ۱ ص ۸۷

۴۰۶

ہوگی ثانیاً یہ کہا گیا ہے _ آپ کے ظہور کے بعد بہت سے لوگ مسلمان ہوجائیں گے کیونکہ علوم و استعداد کی سطح بلند ہوجائے گی اور حق قبول کرنے کیلئے تیار ہوجائیں گے جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے _

حضرت محمد باقر (ع) کا ارشاد ہے کہ:

''جب ہمار قائم ظہور کریں گے اس وقت خدا اپنے بندوں پرکرم کرے گا ان کے حواس ٹھکانے لگائے گا اور ان کی عقلوں کو کامل کرے گا '' _(۱)

حضرت علی (ع) کا ارشاد ہے :

''آخری زمانہ میںاور جہالت کے زمانہ میں خداوند عالم ایک شخص کو مبعوث کرے گا اور اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مدد کرے گا ، اس کے چاہنے والوں کی حفاظت کرے گا ، نشانیوں کے ذریعہ اس کی مدد کرے گا اور تمام اہل زمین پر اسے کامیابی عطا کرے گا تا کہ وہ زبردستی یا راضی برضا دین حق کو قبول کرلیں _ زمین کو عدل و انصاف اور نورسے پر کرے گا _ شہروں کے طول و عرض اس کے تابع ہوں گے ہر ایک کافر ایمان لے آئے گا اور ہربد کردار صالح بن جائے گا '' _(۲)

آپ کے دشمن بھی کمزور نہیں ہیں

انجینئر صاحب کے اعتراضات کو یہ چیز بھی تقویت دیتی ہے کہ دنیا کے عام

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۸

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۴۹

۴۰۷

حالات خطرناک ایجادات کی ترقی ، اسلحہ سازی کے میدان میں مشرق و مغرب کا مقابلے اور انسانیت کے اخلاقی تنزل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بڑی حکومتیں بلکہ یہود و نصاری متحد ہوجائیں گے اور خطرناک اسلحوں سے بہت سے لوگوں کو اپنی انانیت کا نشانہ بنائیں گے _ اور بہت سے خطرناک بیماری کے پیدا ہوجانے سے مرجائیں گے _

عبدالملک کہتا ہے کہ میں حضرت امام محمد باقر کی مجلس سے اٹھا اور دونوں ہاتھ ٹیک کر رونے لگا اور عرض کی : مجھے یہ توقع تھی کہ میں حضرت قائم کو اس حال میں دیکھوں گا کہ مجھ میں طاقت ہوگی _ امام نے فرمایا :'' کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہارے دشمن جنگ میں مشغول رہیں او رتمہارے گھر محفوظ رہیں ؟ جب ہمارے قائم ظہور کریں گے اس وقت میں سے ہر ایک کو چالیس مردوں کی قوت ملیگی _ تمہارے دل فولاد کی مانند ہوجائیں گے کہ اگر پہاڑ کوبھی لگادو گے تو اسے بھی شگافتہ کردو گے اور نتیجہ میں پوری دنیا پر تمہاری حکومت ہوگی ''_(۱)

امام صادق (ع) کا ارشاد ہے :

''قائم آل محمد کے ظہور سے قبل دو وبائیں آئیں گی ، ایک سرخ موت دوسری سفید یہاں تک کہ ہر سات آدمیوں والے خاندان میں سے پانچ ہلاک ہوجائیں گے _ سرخ موت میں قتل ہوں گے اور سفید میں طاعون سے مریں گے ''(۲)

زرارہ کہتے ہیں : میں نے امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی : ندائے آسمانی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۵

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۴۰۱

۴۰۸

حق ہے ؟ فرمایا :

''بالکل ، خدا کی قسم خدا کی ہر قوم اسے اپنی زبان میں سنے گی '' _ اس کے بعد فرمایا : قائم اس وقت تک ظہور نہ فرمائیں گے جب تک دس اشخاص سے نوہلاک نہ ہوجائیں گے ''(۱)

جنگ ناگزیر ہے

فہیمی : کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ مہدی موعود کے ظہور کے لئے اس طرح زمین ہموار کی جائے کی جس سے کوئی خونریزی نہ ہو اور آپ کی حکومت تشکیل پا جائے ؟

ہوشیار: عادت کے پیش نظر یہ چیز بعید نظر آتی ہے کیونکہ انسان کی فکر خواہ کتنی ہی ترقی کرلے اور خیرخواہ افراد کی تعداد میں کتنا ہی اضافہ ہوجائے پھر بھی ان کے درمیان ظالم و خود سر لوگ باقی رہیں گے جو حق و عدل پروری کے دشمن ہوتے ہیں اور وہ کسی طرح اپنا نظر یہ نہیں بدلتے ایسے لوگ اپنے ذاتی مفاد و منافع سے دفاع کیلئے حضرت مہدی (ع) کے خلاف اٹھیں گے اور جہاں تک ہوسکیگا تخریب کاری کریں گے _ ان لوگوں کو کچلنے کیلئے جنگ ضروری ہے _ اس لئے اہل بیت کی احادیث میں جنگ کو حتمی قراردیا گیا ہے _

بشیر کہتے ہیں : میں نے ابو جعفر کی خدمت میں عرض کی : لوگ کہتے ہیں جس وقت امام زمانہ ظہور فرمائیں گے اس وقت ان کے کام ساینٹفک طریقہ سے روبراہ ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر خونریزی نہ ہوگی؟ آپ (ع) نے فرمایا:

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۴_

۴۰۹

'' خدا کی قسم ایسا نہیں ہے یہ ممکن ہوتا تو رسول خدا کیلئے ہوتا ، جبکہ دشمن سے جہاد میں رسول (ص) کے دندان مبارک شہید ہوئے ہیں ، خدا کی قسم حضرت صاحب الامر کا انقلاب بھی اس وقت تک کامیاب نہ ہوگا جب تک میدان جنگ میں خون نہ بہایا جائے گا _ اس کے بعد آپ نے دست مبارک پیشانی پر ملا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۴۱۰

حضرت مہدی (عج) کا اسلحہ

جلالی : سنا ہے کہ امام زمانہ تلوار کے ساتھ ظہور فرمائیں گے لیکن میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ہوں کیونکہ بشر نے آج تک سیکڑوں قسم کے اسلحہ ایجاد کرلیتے ہیں ، ایٹم بم ، ہا ڈرو جن بم بنالیتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کئی کلومیٹر کی شعاع کو ویران کرنے کیلئے کافی ہے چنانچہ اسلحہ سازی کے میدان میں ترقی نے انسان کی نیند حرام کردی ہے _ ان تمام جنگی وسائل کے باوجود جو کہ انسان کے اختیار میں ہیں ، اوراسلحہ سازی کے فن میں آئندہ وہ اور ترقی کرلے گا اس کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مہدی موعود اور ان کے سپاہی تلوار سے جنگ کریں گے اور کامیاب ہوجائیں گے؟

ہوشیار: مہدی موعود کا تلوار کے ساتھ ظہور کرنا احادیث سے ثابت ہے مثلاً: امام محمد باقر نے فرمایا:

'' مہدی (ع) اپنے جد حضرت محمد (ص) سے اس ، نہج سے مشابہت رکھتے ہیں کہ وہ تلوار کے ساتھ قیام کریں گے اور ظالموں ، گمراہ کرنے والوں ، اور خدا و رسول کے دشمنوں کو تہ تیغ کریں گے تلوار کے ذریعہ کامیاب ہوں گے اور ان کا کوئی پرچم (دار) بھی شکست کھاکر نہیں آئے گا _ ''(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۴۱۱

لیکن تلوار کے ساتھ خروج کرنا جنگ سے کنایہ ہے یعنی جنگ مہدی موعود کے سرکاری پروگرام کا جزء ہے ، آپ (ع) دین اسلام کو دنیا بھی میں پھیلانے اور ظلم و تعدی کا قلع کرنے پر مامور ہیں خواہ ا س سلسلہ میں تلوار ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے _ اس کے برخلاف ان کے آباء و اجداد کو اس اہم ذمہ داری پر مامور نہیں کیا گیا تھا _لہذا وہ وعظ و نصیحت پر عمل کرتے تھے اس بناپر تلوار کے ساتھ خروج کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ کا جنگی اسلحہ فقط تلوار ہی ہے اور دوسرے اسلحہ کو استعمال ہی نہیں کر سکتی بلکہ ممکن ہے کہ آپ بھی دور حاضر کے اسلحہ سے جنگ کریں یہ بھی ممکن ہے کہ نیا اسلحہ بنائیں کہ جو اس وقت کے تمام اسلحہ پر غالب آجائے _

حقیقت یہ ہے کہ ہم آئندہ حالات و حوادث سے بے خبرہیں اور انسان کی سرنوشت و صنعت کی ہم کو اطلاع نہیں ہے اس لئے بغیر مدرک کے مستقبل کو ماضی پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں صنعت و علوم اور تمدن میں کونسی قوم فوقیت لے جائیگی ہوسکتا ہے آئندہ مختلف اسلامی قومیں خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں ، جزئی اختلافات سے چشم پوشی کرلیں ، اور سب پرچم توحید کے نیچے جمع ہوجائیں _ قرآں کے علوم و دستورات کو اپنا لائحہ بنالیں اور اسلام کے اصلاحی پروگرام اجراء کریں ، اپنی خداداد ثروت سے فائدہ اٹھائیں _ سستی اور گوشہ نشینی کی زندگی ترک کریں اور علوم و صنعت اور اخلاق میں تمدن بشریت کے علم بردار ہوجائیں مشرق و مغرب کی سرکش طاقت کو لگام چڑھائیں اور مصلح غیبی حضرت مہدی موعود کے قیام کیلئے زمین ہموار کریں _ پس امام ظہور فرمائیں گے اور اپنی اس طاقت کے ذریعہ جو آپ کے دست اختیار میں ہے اور خدا کی تائید و نصرت کے توسط سے سرکش و ظالم حکومتوں کا تختہ الٹ دیں گے اور پوری دنیا میں توحید و عدل کی حکومت قائم کریں گے _ اس وقت دنیا کے سائنس داں اور موجد اپنی آنکھوں

۴۱۲

سے دیکھیں گے کہ انکی کوشش و زحمتوں کے نتیجہ کو صلح و صفا اور لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں صرف ہونا چاہئے جبکہ وہ استعمار اور لوگوں کو فریب دینے کیلئے استعمال ہوتا ہے ، اس سے انھیں

تکلیف ہوگی _ لیکن کوئی چارہ کار نہ ہوگا _ بے شک وہ مہدی اسلام کی عدل خواہی کی آواز پر لبیک کہیں گے اور اس کے مقصد کی تکمیل کیلئے کوشش کریں گے _

ہم کیا جانتے ہیں ، ممکن ہے انسان مستقبل میں جہالت و عداوت ، عصبیت و خود پرستی سے دست کش ہوجائے اور اسلحہ سازی و ایٹم بم سازی کو ممنوع قرار دیدیا جائے اور اسلحہ کی فراہمی پر خرچ ہونے والے بے پناہ پیسے کو ثقافتی ، عمرانی اور انسان کی رفاہ کیلئے خرچ کرے _

۴۱۳

دنیا مہدی (عج) کے زمانہ میں

انجینئر : میری خواہش ہے کہ آپ حضرت مہدی (عج) کے زمانہ حکومت میں دنیا کے عام حالت بیان فرمائیں _

ہوشیار : احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ جب مہدی موعود ظہور فرمائیں گے اور جنگ میں کامیاب ہوجائیں ، مشرق و مغرب پر تسلط پالیں گے تو اس وقت پوری دنیا میں ایک ہی حکومت ہوگی _ تمام شہروں او رصوبوں میں لائق حکام ضروری احکام کے ساتھ منصوب کئے جائیں گے _(۱) ان کی کوشش سے تمام زمین آباد ہوجائے گی _ حضرت مہدی بھی پوری زمین کے ممالک کے حوادث و حالات پر نظر رکھیں گے ، زمین گا گوشہ گوشہ ان کیلئے ایسا ہی ہے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی _ آپ کے اصحاب و انصار بھی دور سے آپ کو دیکھیں گے اور گفتگو کریں گے _

ہر جگہ عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا _ لوگ آپس میں مہربان ہوجائیں گے اور صدق و صداقت کے ساتھ زندگی بسر کریں گے _ ہر جگہ امن و امان ہوگا _ کوئی کسی کو آزار پہنچانے کی کوشش نہیں کرے گا _ لوگوں کے اقتصادی حالات بہت اچھے ہوجائیں گے یہاں تک کہ کوئی زکوة کا مستحق نہیں ملیگا _ منافع کی مسلسل بارش ہوگی _ ساری زمین سر سبز ہوجائے گی _ زمین کی پیدا وار میں اضافہ ہوگا _ کاشتکاری کے امور کی

____________________

۱_ دلائل الامامہ مولفہ محمد بن جریر طبری ص ۲۴۹

۴۱۴

ضروری اصلاحات ہونگی _ لوگ خدا کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے ، گناہ چھوڑدیں گے دین اسلام دنیا کا سرکاری دین ہوگا _ ہرجگہ اللہ اکبر کی آواز بلندہوگی _ اصلی راستہ کو ساٹھ گزچوڑاکیا جائے گا ، راہ سازی پر اتنی توجہ دی جائے گی کہ راستوں میں مساجد کی بھی رعایت نہ کی جائے گی ، پیدل چلنے والوں کیلئے راستہ بنائے جائیں گے اور انھیں ، اسی پر چلنے کی تاکید کی جائے گی اور سواری والوں کو روڈ کے درمیان سے گزرنے کا حکم ہوگا _

راستوں میں کھلنے والی کھڑکیاں بندکردی جائیں گی _ گلی کو چوں میں پرنالے لگانے سے منع کردیا جائے گا ، مناروں کو توڑدیا جائے گا _

امام مہدی کے زمانہ میں عقلیں کامل ہوجائیں گی ، معلومات عامہ کی سطح بلند ہوجائے گی یہاں تک حجلہ نشین عورتیں بھی فیصلہ کرسکیں گی _

حضرت امام صادق (ع) کا ارشاد ہے :

''علم کو ۲۷ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس کے دو حصوں تک ہی انسان کی رسائی ہوئی ہے _ جب ہمارا قائم ظہور کرے گا اس کے پچیس حصوں کو بھی آشکار کریں گے '' _(۱)

لوگوں کا ایمان کامل ہوجائے گا، کینہ سے دل پاک ہوجائیں گے _ آخر میں اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے کہ مذکورہ مطالب کو روایت سے لیا گیا ہے _ اگر چہ ان کا مدرک خبر واحد ہے _ تفصیل کیلئے بحار الانوار ج ۵۱ و ۵۲ ، اثبات الہداة ج ۶ و ۷ اور غیبت نعمانی کا مطالعہ فرمائیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۶_

۴۱۵

انبیاء کی کامیابی

جلالی: روایات میں مہدی موعود (عج) کی جو تعریف و توصیف وارد ہوئی ہیں ان کے اعتبار سے تو آپ(ع) تمام انبیاء یہاں تک رسول اسلام (ع) سے بھی افضل و اکمل ہیں کیونکہ معاشرہ انسانی کی اصلاح کرنے ، توحید کی عالمی حکومت کی تاسیس کرنے اور انسانوں کے درمیان خدا کے احکام و قوانین کو جاری کرنے عدالت عمومی کے قائم کرنے اور ظلم و ستم کو مٹانے میں ان میں سے کوئی بھی کامیباب نہیں ہوا ہے _ اس سلسلہ میں صرف مہدی موعود ہی کامیاب ہوں گے بس_

ہوشیار: اصلاح بشر اور خدا کے قوانین کا مکمل اجراء تمام انبیاء کا مقصد تھا ان خدائی نمائندوں میں سے ہر ایک نے اپنے زمانہ کی فکری استعداد کے مطابق اس مقصد کے حصول کیلئے کوشش کی اور انسان کو اس مقصد سے قریب کیا _ اگر ان کی فداکاری و کوشش نہ ہوتی تو حکومت توحید کیلئے ہرگز زمین ہموار نہ ہوتی پس اس عظیم مقصد میں سارے انبیاء شریک ہیں ، مہدی موعود کی کامیابی کو تمام خدا پرستوں اور انبیاء کی کامیابی تصور کرنا چاہئے _ آ پ کی کامیابی کوئی فردی کامیابی نہیں ہے بلکہ آپ کی محیر العقول طاقت کے ذریعہ حق باطل پر کامیاب ہوگا _ دین داری بے دینی پر چھا جائے گی اور گزشتہ انبیاء کے و عدول کو عملی جامہ پہنایا جائے گا اور ان کا مقصد پورا ہوگا _

۴۱۶

مہدی موعود کی کامیابی در حقیقت آدم و شیث ، نوح و ابراہیم ، موسی و عیسی اور حضرت محمد (ص) اور تمام انبیاء کی کامیابی ہے _ انہوں نے اپنی فداکاری سے راستہ ہموار کیا ہے اور انسان کے مزاج کو کسی حد تک آمادہ کیا ہے _ منصوبہ سازی اور مبارزہ کا آغاز انبیاء ہی سے ہواہے اور اپنی نوبت میں ان میں سے ہر ایک نے بشر کے دینی افکار کی سطح کو بلند کیا ہے یہاں تک پیغمبر اسلام کی نوبت آئی تو آپ نے اس عالمی انقلاب کا مکمل نقشہ اور پروگرام مرتب کیا اور ائمہ اطہار کی تحویل میں دیدیا _ اس سلسلہ میں آپ نے اور آپ کے جانشینوں نے بہت کوششیں کی ہیں اور بہت سی مشکلیں برداشت کی ہیں _ سالہا سال گزرتے جائیں اور دنیا میں بہت سے انقلابات رونما ہوجائیں تب جاکر انسان کے مزاج میں توحید کی حکومت قبول کرنے کی استعداد و لیاقت پیدا ہوگی _ اور اس وقت کفر و بے دینی کا محاذ مہدی موعود کی سپاہ کے ذریعہ فتح ہوگا اور بشریت کی امید برآئے گی _

اس بناپر مہدی موعود پیغمبر اسلام بلکہ تمام انبیاء کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے ہیں اور آپ کی کامیابی سارے آسمانی مذاہب کی کامیابی ہے _ خدا نے زبور میں حضرت داؤد سے کامیابی عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور حضرت مہدی کا شان میں نازل ہونے والی آیتوٹ میں سے ایک میں فرماتا ہے _ ہم نے زبور میں لکھدیا ہے کہ ہم اپنے صالح وشائستہ بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے _(۱)

____________________

۱_ انبیاء/۲۰۵_

۴۱۷

مہدی او رنیا آئین

ڈاکٹر : میں نے سنا ہے کہ امام زمانہ لوگوں کے لئے نیا دین و قانون لائیں گے اور اسلام کے احکام کو منسوخ قراردیں گے کیا یہ بات صحیح ہے ؟

ہوشیار: اس چیز کا سرچشمہ وہ احادیث ہیں جو اسی سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں _ لہذا ان میں سے چند حدیثیں پیش کرنا ضروری ہے _

عبداللہ بن عطا کہتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق کی خدمت میں عرض کی مہدی کی سیرت کیا ہے ؟ فرمایا:

'' جو کام رسول خدا (ص) انجام دیتے تھے ان ہی کو مہدی بھی انجام دیں گے _ بدعتوں کو مٹائیں گے جیسا کہ رسول خدا نے جاہلیت کی بیخ کنی کی تھی اور از سر نو اسلام کی بنیاد رکھی تھی ''_

ابو خدیجہ نے امام صادق (ع) سے روایت کی ہے آپ (ع) نے فرمایا:

''جب حضرت قائم ظہور کریں گے اس وقت جدید آئین آئے گا جیسا کہ ابتدائے اسلام میں رسول خدا نے لوگوں کو نئے آئین کی دعوت دی تھی ''(۲)

____________________

۱_ بحار ج ۵۲ ص ۳۵۲

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۱۰

۴۱۸

حضرت امام صادق کا ارشاد ہے : جب حضرت قائم ظہور کریں گے تو اس وقت نیا آئین و کتاب اور نئی سیرت و قضاوت پیش کریں گے جو کہ عربوں کیلئے دشوار ہے ، ان کاکام کشتار ہے کسی بھی کافر و ظالم کو زندہ نہیں چھوڑیں گے _ فریضہ کی انجام دہی ہیں کسی وقت لائم کی پروا نہیں کریں گے '' _(۱)

سیرت مہدی (عج)

لیکن بہت سے احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت مہدی کی وہی سیرت ہے جو رسول خدا کی تھی آپ اس قرآن و دین سے دفاع کریں گے جو کہ آپ کے جد پر نازل ہوا تھا _ چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں :

رسول (ص) کا ارشاد ہے :''میرے اہل بیت میں ایک شخص قیام کرے گا اور میری سنت و سیرت پر عمل کر ے گا ''(۲)

نیز فرمایا: قائم میرا ہی بیٹا ہے _ وہ میرا ہمنام و ہم کنیت ہے _ اس کی عادت میری عادت ہے وہ لوگوں کو میری طاعت اور دین کی طرف دعوت دے گا اور قرآن کی طرف بلائے گا _(۲)

آپ کا ارشاد ہے :

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۸۳ ۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۸۲ ۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۵۲

۴۱۹

''میرے بیٹوں میں بارہواں ایسے غائب ہوگا کہ دیکھنے میں نہیں آئے گا _ ایک زمانہ آئے گا کہ جس میں اسلام کا صرف نام اور قرآن کا رسم الخط باقی رہے گا _ اس وقت خدا انھیں کی اجازت مرحمت کرے گا اور ان کے ذریعہ اسلام تجدید و تقویت پائے گا '' _(۱)

نیز فرمایا:

'' مہدی موعود (عج) وہ مرد ہے جو میری عترت سے ہوگا اور میری سنت کیلئے جنگ کرے گا جیسا کہ میں نے قرآن کیلئے جنگ کی ہے'' _(۲)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ مذکورہ احادیث کی صریح دلالت اس بات پر ہے کہ امام زمانہ کا پروگرام اور سیرت ترویج اسلام اور تجدید عظمت قرآن ہے اور پیغمبر اکرم کی سنّت کے اجراء کیلئے جنگ کریں گے _

اس بناپر اگر احادیث کے پہلے حصہ میں کوئی اجمال ہے بھی تو وہ اسے ان احادیث کے ذریعہ برطرف کرنا چاہئے _ زمانہ غیبت میں ، دین میں بدعتیں داخل کردی جاتی ہیں اور اسلام و قرآن کے احکام کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال لیا جا تا ہے _ بہت سے حدود و احکام کو ایسے فراموش کردیا جاتا ہے جیسے ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہ تھا _ ظہور کے بعد حضرت مہدی بدعتوں کا قلع قمع کریں گے اور احکام خدا کو ایسے ہی نافذ کریں گے جیسا کہ وہ صادر ہوتے تھے _ اسلامی حدود کو سہل انگاری کے بغیر جاری کریں گے

____________________

۱_ منتخب الاثر ص ۹۸ ۲_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۱۷۹

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455