آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181842 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کی خدمت میں پہنچے _ اسی مجلس میں ایک محترم اور اجنبی شخص بھی موجود تھا _ اس اجنبی نے کہا : چند سال قبل میں نے کشتی کا سفر کیا تھا ، اتفاقاً ملاح راستہ بھٹک گیا اور ہمیں ایک سربستہ راز جزیرہ پر پہنچا دیا کہ جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم و اطلاع نہیں تھی _ ناچار کشتی سے اترے اور اس سرزمین میں داخل ہوئے _ یہاں احمد بن محمد ان ممالک کی حیرت انگیز داستان اس اجنبی سے تفصیلا نقل کرتے ہیں اور داستان شروع کرتے ہیں _ اس داستان کو سننے کے بعد وزیر مخصوص کمرہ میں داخل ہوا اور اس کے بعد ہم سب کو بلایا اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک تمہیں کسی سے یہ داستان نقل کرنے کی اجازت نہیں ہے _ جب تک وزیر زندہ تھا ہم نے کسی سے بھی یہ داستان بیان نہ کی _(۱)

اجمالی طور پر داستان کی سند بیان کردی ہے تا کہ قارئین داستان کے ضعف کا اندازہ لگالیں تفصیل کے شائقین مذکورہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسی حکایتوں سے ایسے ممالک کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا _ اول تو اس داستان کا راوی ایک مجہول آدمی ہے کہ جس کی باتوں کا کوئی اعتبارنہیں ہے _ ثانیاً یہ ممکن نہیں ہے کہ روئے زمین پر ایسے ممالک آباد ہوں اور ان کی کسی کو خبر نہ ہو خصوصاً دور حاضر میں کہ تمام زمین کی نقشہ کشی کردی گئی ہے جو دانشوروں کی توجہ کا مرکز ہے اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس داستان سے ایسے خم ٹھوک کر دفاع کیا ہے جیسے اسلام کے مسلم ارکان سے کرتے ہیں _

____________________

۱_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج ۳ ص ۵۸_

۲۶۱

کہتے ہیں : ممکن ہے وہ ممالک ابھی تک موجود ہوں اور خدا اغیار و نامحرموں سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہو _ لیکن میرے نقطہ نظر سے اس کے جواب کی ضرورت نہیں ہے _ میں نہیں جانتا کہ انھیں ایسے بے مدرک اور ضعیف موضوع کو ثابت کرنے کیلئے کس چیز نے مجبور کیا ہے کہتے ہیں بالفرض ایسے ممالک آج اگر موجود نہ ہوں تو بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ زمانوں میں تھے بعد میں نیست و نابود ہوگئے اور ان کے باشندے متفرق ہوگئے ہیں _ یہ احتمال بھی بے بنیاد ہے _ کیونکہ اگر ایسے وسیع اور شیعہ نشین ممالک آباد ہو تے تو بہت سے لوگون کو ان کی اطلاع ہوتی اور ان کے حالات و کوائف اجمالی طور پر سہی تاریخ میں ثبت ہوتے _ یہ بات محال معلوم ہوتی ہے کہ چند بڑے ممالک موجود ہوں اور کسی کو ان کی خبر نہ ہو اور یہ سعادت صرف ایک مجہول شخص کو نصیب ہونے کے بعد ان کے آثار صفحہ روزگار سے اس طرح مٹا دیئے جائیں کہ تاریخ اور آثار قدیمہ کی تحقیق میں بھی ان کا نام و نشان نہ ملے _

علامہ ، محقق شیخ آقا بزرگ تہرانی مذکورہ داستان کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے اور لکھتے ہیں _ یہ داستان محمد بن علی علوی کی کتاب تغازی کے آر میں نقل ہوئی ہے _ اس سے علی بن فتح اللہ کاشانی یہ سمجھ بیٹھے کہ مرقومہ داستان کتاب ہی کا جز ہے _ جبکہ یہ اشتباہ ہے _ ممکن نہیں ہے کہ داستان کتاب کا جز ہوکیونکہ یحیی بن ہبیر کہ جس کے گھر یہ قضیہ پیش آیا وہ سنہ۵۶۰ ھ میں مر چکا تھا اور کتاب تغازی کے مولف اس سے دوسو سال پہلے گزرے ہیں _ اس کے علاوہ داستان کے متن میں بھی تناقض ہے کیونکہ داستان کے ناقل احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ وزیر نے ہم سے عہد لیا کہ مذکورہ داستان کو تم میں سے کوئی بیان نہ کرے اور ہم نے

۲۶۲

اپنے عہد کو پورا کیا چنانچہ جب تک وہ زندہ رہا اس وقت تک کسی سے بیان نہیں کی _ اس بناپر اس داستان کی حکایت وزیر کی تاریخ وفات ۵۶۰ کے بعد ہوئی جبکہ داستان کے متن میں عثمان بن عبد الباقی کہتے ہیں : احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ یہ داستان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے نقل کی گئی _(۱)

دوسری جگہ کہتے ہیں : عثمان بن عبد الباقی نے سات جمادی الثانی سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے بتایا : آپ جانتے ہیں کہ جمادی الثانی کے دو ماہ بعدرمضان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ حادثہ کے رونما ہونے سے دو ماہ قبل ہے یعنی جمادی الثانی میں اسے کسی سے بیان کیا جائے _

ہم امام زمانہ کے محل سکونت کے موضوع میں مجبور نہیں ہیں کہ زبر دستی پوچ دلیلوں سے ''جزائر خضرائ'' جابلقا اور جابرصا کو ثابت کریں یا کہیں : آپ(ع) نے اپنی سکونت کیلئے اقلیم ثامن کا انتخاب کیا ہے _

فہیمی : تو جزیرہ خضراء کی داستان کیا ہے ؟

ہوشیار : چونکہ وقت ختم ہونے والا ہے اس لئے بقیہ مطالب آئندہ جلسہ میں بیان کروں گا اور احباب رضامندہوں تو آئندہ میرے غریب خانہ ہی پر جلسہ منعقد ہوجائے _

____________________

۱_ الذریعہ ج ۵ ص ۱۰۶_

۲۶۳

جزیرہ خضراء

مقررہ وقت پر ہوشیار صاحب کے گھر جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _

جلالی : گزشتہ جلسہ میں شاید فہیمی صاحب نے جزیرہ خضراء کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا تھا

فہیمی: میں نے سنا بلکہ امام زمانہ اور آپ کی اولاد جزیرہ خضراء میں زندگی بسر کرتے ہیں اس سلسلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان کی حیثیت بھی افسانہ سے زیادہ نہیں ہے مرحوم مجلسی نے بحار الانوار میں اس داستان کو تفصیل سے نقل کیا ہے _ اجمال یہ ہے : میں نے نجف اشرف میں امیر المومنین (ع) کے کتب خانہ میں ،ایک رسالہ دیکھا تھا کہ نام جزیرہ خضراء کی داستان تھا _ اس قلمی رسالہ کے مؤلف فضل بن یحیی طبیبی ہیں _ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ جزیرہ خضراء کی داستان میں نے ۱۵ / شعبان سنہ ۶۹۹ ھ کو اباعبداللہ علیہ السلام کے حرم میں شیخ شمس الدین اور شیخ جلال الدین سے سنی تھی _ انہوں نے زین الدین علی بن فاضل مازندرانی سے داستان نقل کی تھی _ مجھے شوق پیدا ہوا کہ خود ان سے داستان سنوں _

خوش قسمتی سے اسی سال شوال کے اوائل میں زین الدین شہر حلّہ تشریف لائے تو میں نے سید فخر الدین کے گھر ان سے ملاقات کی _ میں نے ان سے خواہش کی کہ جو داستا ن آپ نے شیخ شمس الدین و شیخ جلال الدین کو سنائی تھی وہ مجھے بھی سنا دیجئے انہوں نے فرمایا: میں دمشق میں شیخ عبد الرحیم حنفی اور شیخ زین الدین علی اندلسی

۲۶۴

سے تعلیم حاصل کرتا تھا _ شیخ زین الدین خوش طبع شیعہ اور علمائے امامیہ کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا اوران کا احترام کرتا تھا_ ایک مدت تک میں نے ان سے علم حاصل کیا اتفاقاً وہ مصر تشریف لے جانے کیلئے تیار ہوئے چونکہ ہمیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ عقیدت و محبت تھی اس لئے انہوں نے مجھے بھی اپنی ہمراہ مصر لے جانے کا فیصلہ کیا _ ہم دونوں مصر پہنچے اور قاہرہ میں اقامت گزینی کا قصد کیا _ تقریباً نو ماہ تک ہم نے وہاں بہترین زندگی گزاری _ ایک روز انھیں ان کے والد کا خط موصول ہوا ، خط میں تحریر تھا: میں شدید بیمارہوں ، میرا دل چاہتا ہے کہ مرنے سے قبل تمہیں دیکھ لوں _ استا د خط پڑھ کر رونے لگے اور اندلس کے سفر کا ارادہ کرلیا _ میں بھی اس سفر میں ان کے ساتھ تھا _ جب ہم جزیرہ کے اولین قریہ میں پہنچے تو مجھے شدید بیماری لا حق ہوگئی ، یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا _ میری کیفیت سے استاد بھی رنجیدہ تھے ،انہوں نے مجھے اس قریہ کے پیش نماز کے سپرد کیا تا کہ میری دیکھ بھال کرے اور خود اپنے وطن چلے گئے _ تین روز کی بیماری کے بعد میری حالت ٹھیک ہوگئی _ چنانچہ میں گھر سے نکل کر دیہات کی گلیوں میں ٹہلنے لگا _ وہاں میں نے کوہستان سے آئے ہوئے ایک قافلہ کو دیکھا جو کہ کچھ چیزیں لائے تھے _ میں نے ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں تو معلوم ہوا کہ یہ بربر کی سرزمین سے آئے ہیں جو کہ رافضیوں کے جزیرہ سے قریب ہے ، جب میں نے رافضیوں کے جزیرہ کا نام سنا تو اسے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ، انہوں نے بتایا کہ یہاں سے پچیس روز کے فاصلے پر واقع ہے _ جس میں دو روز کی مسافت میں کہیں آبادی اور پانی نہیں ہے _ اس دو دن کی مسافت کو طے کرنے کے لئے میں نے گدھا کرایہ پر لیا اور اپنے سفر کا آغاز کیا یہاں تک کہ رافضیوں کے جزیرہ

۲۶۵

تک پہنچ گیا ، جزیرہ کے چاروں طرف دیواریں تھیں اور محکم و بلند گنبد بنے ہوئے تھے مسجد میں داخل ہوا _ مسجد بہت بڑی تھی، موذن کی آواز سنی ، اس نے شیعون کی اذان دی اور اس کے بعد امام زمانہ کے تعجیل کیلئے دعا کی _ خوشی سے میرے آنسو جاری ہوگئے _ لوگ مسجد میں آئے _ شیعوں کے طریقہ سے وضو کیا اور فقہ شیعہ کے مطابق نماز جماعت قائم ہوئی _ نماز اور تعقیبات کے بعد لوگوں نے مزاج و احوال پرسی کی _ میں نے اپنی روداد سنائی اور بتایا کہ میں عراقی الاصل ہوں _ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں شیعہ ہوں تو میرا بہت احترام کیا اور میرے قیام کے لئے مسجد کا حجرہ معین کیا _ پیش نماز صاحب بھی میرا احترام کرتے تھے اور شب و روز میرے پاس رہتے تھے _ ایک دن میں نے ان سے پوچھا اہل شہر کی ضرورت کی چیزیں اور خوراک کہاں سے آتی ہیں؟ مجھے یہاں کاشتکاری کی زمین نظر نہیں آتی ہے _ اس نے کہا: ان کا کھانا جزیرہ سے آتا ہے ، یہ جزیرہ بحرا بیض کے بیچ واقع ہے _ ان کے کھانے کی اشیاء سال میں دو مرتبہ جزیرہ سے کشتیوں کے ذریعہ آتی ہیں _ میں نے پوچھا کشتی آنے میں کتنا وقت باقی ہے؟ اس نے کہا : چارماہ _ طویل مدت کی وجہ سے مجھے افسوس ہوا لیکن خوش قسمتی سے چالیس دن کے بدن کشتیاں آگئیں اور یکے بعد دیگرے سات کشتیاں وارد ہوئیں _ ایک کشتی سے ایک وجیہہ آدمی اترا ، مسجد میں آیا ، فقہ شیعہ کے مطابق وضو کیا اور نماز ظہر و عصر ادا کی _ نماز کے بعد میری طرف متوجہ ہوا ، سلام کیا اور گفتگو کے دوران میرے اور میرے والدین کا نام لیا _ اس سے مجھے تعجب ہوا _ کیا آپ شام سے مصر اور مصر سے اندلس تک کے سفر میں میرے نام سے واقف ہوئے ہیں ؟ کہا: نہیں ، بلکہ تمہارا اور تمہارے والدین کے نام ، شکل و صورت اور صفات مجھ تک پہنچے ہیں _

۲۶۶

میں تمھیں اپنے ساتھ جزیرہ خضراء لے جاؤنگا _ ایک ہفتہ انہوں نے وہیں قیام کیا اور ضروری امور کی انجام دہی کے بعد سفر کا آغاز کیا _ سولہ دن سمندر کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے بحرا بیض نظر آیا _ اس شیخ نے کہ جس کا نام محمد تھا ، مجھ سے پوچھا کس چیز کا نظارہ کررہے ہو؟ اس علاقہ کے پانی کا دوسرا رنگ ہے _ اس نے کہا: یہ بحرا بیض ہے اور یہ جزیرہ خضراء ہے ، پانی نے اسے دیواروں کی طرح چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور خدا کی حکمت ہے کہ جب ہمارے دشمنوں کی کشتیاں ادھر آنا چاہتی ہیں تو وہ صاحب الزمان کی برکت سے غرق ہوجاتی ہیں _ اس علاقہ کہ میں نے تھوڑا ساپانی پیا ، فرات کے پانی کی طرح شیرین و خوشگوارتھا _ بحرا بیض کا کچھ سفر طے کرنے کے بعد جزیرہ خضراء پہنچے کشتی سے اتر کر شہر میں داخل ہوئے _شہر بارونق تھا ، اس میں میوہ سے لدے ہوئے درخت اور چیزوں سے بھرے ہوئے بازار بہت زیادہ تھے اور اہل شہر بہترین زندگی گزار رہے تھے _ اس پر کیف منظر سے میرا دل باغ باغ ہوگیا _ میرا دوست محمد اپنے گھر لے گیا _ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جامع مسجد گئے _ مسجد میں بہت سی جماعتیں تھیں اور ان کے درمیان ایک شخص تھا کہ جس کے جلال و عظمت کو میں بیان نہیں کرسکتا _ اس کا نام سید شمس الدین محمد تھا _ وہ لوگوں کو عربی ، قرآن ، فقہ اوراصول دین کی تعلیم دیتا تھا _ میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا: اپنے پاس بٹھایا ، مزاج پرستی کی اور کہا میں نے شیخ محمد کو تمہارے پاس بھیجا تھا _ اس کے بعد انہوں نے میرے قیام کے لئے مسجد کا ایک کمرہ معین کرنے کا حکم دیا _ ہم آرام کرتے اور شمس الدین اور ان کے اصحاب کے ساتھ کھانا کھاتے تھے _ اسی طرح اٹھارہ روز گزر گئے جب میں وہاں پہلے جمعہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ

۲۶۷

سید شمس الدین نے نماز جمعہ واجب کی نیت سے ادا کی _ میں نے کہا : کیا امام زمانہ حاضر ہیں کہ واجب کی نیت سے نماز پڑھی ؟ کہا : امام حاضر نہیں ہیں لیکن میں ان کا خاص نائب ہوں ، میں نے کہا : کیا کبھی آپ نے امام زمانہ کو دیکھا ہے ؟ نہیں ، لیکن والد صاحب کہتے تھے کہ وہ امام کی آواز سنتے تھے مگر دیکھتے نہیں تھے ، ہاں دادا آواز بھی سنتے تھے اور دیکھتے بھی تھے_ میں نے کہا: میرے سید و سردار : کیا وجہ ہے کہ امام (ع) کو بعض لوگ دیکھتے ہیں اور بعض نہیں ؟ فرمایا: یہ بعض بندوں پر خدا کا لطف ہے _

اس کے بعد سید نے میرا ہاتھ پکڑا اور شہر سے باہر لے گئے _ وہاں میں نے ایسے باغات ، چمن زاروں ، نہروں اور بہت سے درختوں کا مشاہدہ کیا کہ جن کی نظیر عراق میں نہیں تھی _ واپسی کی وقت ایک حسین و جمیل آدمی سے ہماری ملاقات ہوئی _ میں نے سید سے پوچھا کہ یہ شخص کو ن تھا ؟ کہا: کیا اس بلند پہاڑ کو دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ، کہا: اس پہاڑ کے درمیاں ایک خوبصورت جگہ ہے اور درختوں کے نیچے ایک خوشگوار پانی کا سرچشمہ ہے وہاں اینٹوں کا بنا ہوا ایک گنبد ہے یہ شخص اس قبہ کا نگہبان و خدمت گار ہے _ میں ہر جمعہ کی صبح کو وہاں جاتا ہوں اور امام زمانہ کی زیارت کرتاہوں اور دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد ایک کاغذ ملتا ہے کہ جس میں میری ضرورت کے تمام مسائل مرقوم ہوتے ہیں _ تمہارے لئے بھی ضروری ہے وہاں جاؤ اور اس قبہ میں امام زمانہ کی زیارت کرو _

میں اس پہاڑ کی جانب روانہ ہوا _ قبہ کو میں نے ایسا ہی پایا جیسا کہ مجھے بتایا گیا تھا _ وہاں وہ خادم بھی ملا _ میں نے ان سے امام زمانہ سے ملاقات کی خواہش کی انہوں نے کہا: ناممکن ہے اور ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے _ میں نے کہامیرے لئے دعا کرو ،

۲۶۸

انہوں نے میرے لئے دعا کی ، اس کے بعد میں پہاڑ سے اتر آیا اور سید شمس الدین کے گھر کی طرف روانہ ہوا ان سے راستہ میں کہیں ملاقات نہ ہوئی _ میں اپنی کشتی کے ساتھ شیخ محمد کے گھر پہنچا اور پہاڑ کا ماجرا انھیں سنایا اور بتایا کہ ان خادموں نے مجھے ملاقات کی اجازت نہیں دی ہے _ شیخ محمد نے بتایا کہ وہاں سید شمس الدین کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے _ وہ امام زمانہ کی اولاد سے ہیں _ ان کے اور امام زمانہ کے درمیان پانچ پشتیں ہیں وہ امام زمانہ کے خاص نائب ہیں _

اس کے بعد میں نے سید شمس الدین سے خواہس کی کہ میں اپنی بعض دینی مشکلیں آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے سامنے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے صحیح قرائت بتادیں _ فرمایا: کوئی حرج نہیں _ پہلے میں نے قرآن شروع کیا _ تلاوت کے درمیان قاریوں کا اختلاف بیان کیا تو سید نے کہا : ہم ان قرائتوں کو نہیں جانتے ہماری قرائت تو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے قرآن کے مطابق ہے _ اس وقت انہوں نے حضرت علی (ع) کے جمع کردہ قرآن کا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ ابوبکر نے اسے قبول نہیں کیا تھا _ بعد میں ابوبکر کے حکم سے قرآن جمع کیا گیا اور اس سے بعض چیزیں حذف کردی گئی ہیں _ چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آیت کے قبل و بعد میں ربط نہیں ہے _ سید کی اجازت کے بعد تقریباً میں نے نوے مسائل ان سے نقل کئے خاص کے علاوہ کسی کو ان کے نقل کی اجازت نہیں دیتا ہوں _

اس کے بعد اپنی مشاہدہ کردہ دوسری داستان نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میں نے سید سے عرض کی : امام زمانہ سے ہمارے پاس کچھ احادیث پہنچی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص زمانہ غیبت میں رویت کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے _ جبکہ آپ

۲۶۹

کہتے ہیں ہم سے بعض کی امام سے ملاقات ہوتی ہے ، اس حدیث اور آپ کے بیان میں کیسے توافق ہوسکتا ہے ؟ فرمایا: یہ احادیث صحیح ہیں ، لیکن اس وقت کے لئے تھیں جب بنی عباس میں سے آپ(ع) کے بہت سے دشمن تھے _ مگر اس زمانہ میں دشمن آپ سے مایوس ہوچکے ہیں اور ہمارے شہر بھی ان سے دور ہیں کسی کی دست رسی اس میں نہیں ہے ، لہذا اب ملاقات میں کوئی خطرہ نہیں ہے _

میں نے کہا: سید شیعہ امام سے کچھ احادیث نقل کرتے ہیں کہ خمس آپ نے شیعوں کے لئے مباح کیاہے _ کیا آپ نے اما م سے یہ حدیث سنی ہے کہ امام نے خمس کو شیعوں کیلئے مباح کیا ہے _ اس کے بعد وہ سید سے کچھ اور مسائل نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: تم نے بھی ابھی تک امام کو دو مرتبہ دیکھا ہے لیکن پہچان نہیں سکے _

خاتمہ میں کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: مغربی ممالک میں قیام نہ کرو، جتنی جلد ہوسکے عراق پلٹ جاؤ_ چنانچہ میں نے ان کے حکم کے مطابق عمل کیا _

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان ایسی ہی ہے جیسا کہ میں نے اس کا خلاصہ آپ کے سامنے بیان کیا ہے _ آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری ہے کہ مذکورہ داستان کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ افسانہ کی حیثیت ہے کیونکہ :

اولاً: اس کی سند معتبر و قابل اعتماد نہیں ہے _ یہ داستان ایک مجہول قلمی نسخے سے نقل کی گئی ہے چنانچہ اس کے متعلق خود مجلسی لکھتے ہیں : چونکہ مجھے یہ داستان معتبر کتابوں میں نہیں ملی ہے اس لئے میں نے اس کو الگ باب میں نقل کیا ہے ( تا کہ کتاب کے مطالب سے مخلوط نہ ہوجائے )

ثانیاً: داستان کے مطالب کے درمیان تناقض پایاجاتا ہے جیسا کہ آپ نے

۲۷۰

ملاحظہ فرمایا: سید شمس الدین ایک جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں : '' میں امام زمانہ کا خاص نائب ہوں اور ابھی تک امام زمانہ کو نہیں دیکھا ہے _ میرے والد نے بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ان کی آواز سنتے تھے جبکہ میرے دادا دیکھتے اور آواز سنتے تھے '' _ لیکن یہی سید شمس الدین دوسری جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں :'' میں ہر جمعہ کی صبح کو امام کی زیارت کے لئے جاتا ہوں ، بہتر ہے تم بھی جاؤ'' ، داستان کے راوی سے شیخ محمد نے بھی یہی کہا تھا کہ صرف سید شمس الدین اور انہی جیسے لوگ امام کی خدمت میں مشرف ہو سکتے ہیں _ ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ فرما رہے ہیں کہ ان مطالب میں کتنا تناقض ہے _ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سید شمس الدین جانتے تھے کہ اپنے علاوہ کسی کو زیارت کے لئے نہیں لے جاتے تو پھر داستان کے راوی سے یہ تجویز کیسے پیش کی کہ ملاقات کے لئے پہاڑ پر جاؤ_

ثالثاً : مذکورہ داستان میں تحریف قرآن کی تصریح ہوئی ہے جو کہ قابل قبول نہیں ہے اور علمائے اسلام شدت کے ساتھ اس کا انکار کرتے ہیں _

رابعاً: خمس کے مباح ہونے والا موضوع بھی کہ جس کی تائید کی گئی ہے فقہا کی نظر میں صحیح نہیں ہے _

بہر حال داستان رومانٹک انداز میں بنائی گئی ہے ، لہذا بہت ہی عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے _ زین الدین نامی ایک شخص عراق سے تحصیل علم کے لئے شام جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتاہے ، طویل سفر طے کرتا

۲۷۱

ہے _ وہاں بیمار پڑتا ہے _ اس کا استاد اسے چھوڑدیتا ہے _ افاقہ کے بعد ، رافضیوں کے جزیرہ کا نام سن کر اس جزیرہ کو دیکھنے کا ایسا اشتیاق پیدا ہوتا ہے کہ اپنے استاد کو بھول جاتا ہے _ خطرناک اور طویل سفر طے کرکے رافضیوں کے جزیرہ پہنچتا ہے _ جزیرہ میں زراعت نہیں ہوتی لہذا پوچھتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی غذ ا کہاں سے آتی ہے ؟ جواب ملتا ہے کہ ان کی غذا جزیرہ خضراء سے آتی ہے ، باوجودیکہ لوگوں نے بتا یا تھا کہ چار ماہ کے بعد کشتیاں آئیں گی لیکن اچانک چالیس ہی دن کے بعد آجاتی ہیں ، ساحل پر لنگر انداز ہوتی ہیں اور ایک ہفتہ کے بعد اسے (راوی کو) اپنے ساتھ لے جاتے ہیں _ بحر ابیض کے وسط میں سفید پانی دیکھتا ہے جو کہ شیرین و گوارا بھی ہے اس کے بعد ناقابل عبور جگہ سے گزر کر جزیرہ خضراء میں داخل ہوتا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک عراقی طویل سفر طے کرنے کے بعد مختلف ممالک کے لوگوں سے گفتگو کرتا ہے اور ان سب کی زبان جانتا ہے ، کیا اندلس کے باشندے بھی عربی بولتے تھے؟

دوسری قابل توجہ بات بحر ابیض کی داستان ہے _ آپ جانتے ہیں کہ بحر ابیض روس کی جمہوریاؤں کے شمال میں واقع ہے _ وہاں یہ واقعہ نہیں پیش آسکتا تھا _ البتہ بحر متوسط کو بھی بحر ابیض کہتے ہیں _ ممکن ہے یہ داستان وہاں کی ہو لیکن اس پورے سمندر کو بحر ابیض کہا جا تا ہے نہ کہ اس مخصوص علاقہ کو جسے داستان کے راوی نے سفید محسوس کیا تھا _ اگر کوئی مذکورہ داستان میں مزید غور کرے گا تو اس کا جعلی ہونا واضح ہوجائے گا _

خاتمہ پر اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے _ جیسا کہ اس سے قبل آپ

۲۷۲

ملاحظہ فرما چکے ہیں _ ہماری احادیث میں بیان ہوا ہے کہ امام زمانہ اجنبی کی طرح لوگوں کے درمیاں رہتے ہیں _ عام مجموع اور حج میں شرکت کرتے ہیں اور بعض مشکلات کے حل میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں _

اس مطلب کے پیش نظر امام زمانہ ، مستضعفین اور حاجت مندوں کی امید کا دور افتادہ علاقہ ، سمندر کے بیچ میں اقامت گزیں ہونا نہایت ہی نا انصافی ہے _ آخر میں معذرت خواہ ہوں کہ ایسی غیر معتبر داستان کی تشریح کیلئے آپ کا قیمتی وقت لیا _

جلالی : امام زمانہ کی اولا ہیں یا نہیں ؟

ہوشیار: ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو شادی اور اولاد کا قطعی و یقینی طور پر اثبات و نفی کرتی ہو _ البتہ ممکن ہے خفیہ طور پر شادی کی ہو اور ایسے ہی اولا د کا بھی کسی کو علم نہ ہو اور جیسے مناسب سمجھتے ہوں عمل کرتے ہوں اگر چہ بعض دعاؤں کی دلالت اس بات پر ہے کہ امام زمانہ کی اولاد ہے یااس کے بعد پیدا ہوگی _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۱۷_

۲۷۳

ظہور کب ہوگا؟

ڈاکٹر : مہدی موعو د کب ظہور فرمائیں گے ؟

ہوشیار: ظہور کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں ہوئی ہے بلکہ وقت کی تعیین کرنے والے کو ائمہ اطہار علیہم السلام نے جھوٹا قرار دیا ہے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :

فضل کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : کیا مہدی کے ظہور کا وقت معین ہے ؟ امام (ع) نے جواب میں تین مرتبہ فرمایا:

''جو شخص ظہور کے وقت کی تعیین کرتا ہے وہ جھوٹا ہے ''(۱)

عبد الرحمن بن کثیر کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ مہزم اسدی آئے اور عرض کی : میں آپ(ع) کے قربان ، قائم آل محمد (ص) کا ظہور اور حکومت حق کی تشکیل ، کہ جس کے آپ منتظر ہیں ، کب ہوگا ؟ آپ (ع) نے جواب دیا :

'' ظہور کے وقت کی تعیین کرنے والا جھوٹا ہے ، تعجیل کرنے والے ہلاک ہوتے ہیں اور سراپا تسلیم لوگ نجات پاتے ہیں اور

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲۷۴

ان کی بازگشت ہماری طرف ہوتی ہے ''(۱)

محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا :

''جو شخص وقت ظہور کی تعیین کرتاہے _ اس کی تکذیب کرنے میں خوف محسوس نہ کرو کیونکہ ہم ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کرتے '' _ اس سلسلہ میں دس احادیث اور ہیں _(۲)

ا ن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) نے ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کی ہے اور ہر غلط فائدہ اٹھائے والے کا راستہ بند کردیا ہے _ پس اگر امام کی طرف کسی ایسی حدیث کی نسبت دی جائے کہ جس میں وقت کی تعیین کی گئی ہو تو اسکی تاویل کی جائے اگر قابل تاویل ہے یا اس کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے یا اسکی تکذیب کرنا چاہئے جیسے ابولبید مخزومی کی ضعیف و مجمل حدیث میں امام کی طرف بعض مطالب کی طرف نسبت دی گئی ہے او ران کے ضمن میں کہا ہے کہ ہمارا قائم '' الر'' میں قیام کرے گا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۴_

۳_ بحاراالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۶_

۲۷۵

ظہور کی علامتیں

انجینئر: ظہور کی علامتیں کہاں تک صحیح ہیں؟

ہوشیار: صاحب الامر (ع) کے ظہور کی بہت سی علامتیں احادیث کی کتابوں میں بیان ہوئی ہیں لیکن اگر ہم ان سب کو بیان کریں تو بحث طولانی ہوجائیگی اور کئی جلسے اس میں گزر جائیں گے لیکن یہاں چند ضروری باتوں کی وضاحت کردینا ضروری ہے :

الف: بعض علامتوں کا مدرک ، خبر واحد ہے کہ جس کی سند و طریق میں غیر موثق اور مجہول الحال اشخاص ہیں لہذا مفید یقین نہیں ہے _

ب: اہل بیت کی احادیث میں ظہور کی علامتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے _ ان میں سے ایک حتمی و ضروری ہے ، اس میں :وئی قید و شرط نہیں ہے ان کا ظہور سے قبل واقع ہونا ضروری ہے _ دوسری قسم حتمی نہیں ہے یہ وہ حوادث ہیں جو ظہور کی حتمی علامت نہیںہیں بلکہ شرط سے مشروط ہیں اگر شرط واقع ہوگی تو یہ بھی ہوں گے اور اگر شرط نہ ہوگی تو یہ بھی نہ ہوں گے _ لہذا انھیں اجمالی طور پر ظہور کی علامتوں میں شمار کرنے میں مصلحت تھی _

ج _ جو چیزیں ظہور کی علامت ہیں وہ جب تک واقع نہ ہونگی اس وقت تک

۲۷۶

صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا اور ان کا وقوع اس بات کی دلیل ہے کہ فرج کا زمانہ ایک حد تک قریب آگیا ہے _ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان علامتوں کے واقع ہوتے ہی بلا فصل امام زانہ کا ظہور ہوجائے گا _ لیکن ان میں سے بعض کی تصریح ہوئی ہے کہ وہ امام کے ظہور سے نزدیک واقع ہونگی _

د_ ظہور کی بعض علامتیں معجزانہ اور خارق العادت کے طور پر واقع ہونگی تا کہ مہدی موعود کے دعوے کے صحیح ہونے کی تائید کریں اور دنیا کے غیر معمولی حالات کو بیان کریں _ یہ علامتیں ایسی ہی ہیں جیسے دیگر معجزات اور صرف اس لئے انھیں رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ معمولی حالات کے موافق نہیں ہیں _

ھ_ ظہور کی علامتوں کی ایک قسم کتابوں میں ہمیں نظر آتی ہیں کہ جن کا واقع ہونا محال معلوم ہوتا ہے جیسا کہ یہ کہا گیا ہے ظہور کے وقت مغرب سے سورج نکلے گا اور نصف ماہ رمضان میں سورج گہن لگے گا اور پھر اسی مہینہ کے نصف آخر میں گہن لگے گا _ دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسے حوادث کے واقع ہونے سے کائنیات کا نظام درہم و برہم ہوجائے گا _ اور شمسی نظام کی گردش میں تبدیلی آجائے گی _ لیکن واضح رہے ان علامتوں کا مدرک بھی خبر واحد ہے جو کہ مفید یقین نہیں ہے _ ان کی سند میں خدشہ وارد کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ بنی امیہ و بنی عباس کے خلفا کی جعل کی ہوئی ہیں _ کیونکہ اس زمانہ میں بعض لوگ حکومت وقت کے خلاف مہدی موعود کے عنوان سے قیام کرتے تھے اور اس طرح بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنالیتے تھے _ خلفائے وقت نے جب یہ محسوس کیا کہ مہدی سے متعلق اصل احادیث کا انکار ممکن نہیں ہے تب انہوں نے دوسرا طریقہ سوچا تا کہ علویوں

۲۷۷

کی نہضت و تحریک کو مختل کیا جا سکے اور لوگوں کو اس سے بازر کھا جا سکے _ اس لئے انہوں نے محال علامتیں جعل کیں تا کہ لوگ ان علامتوں کے منتظر رہیں اور علویوں کی بات نہ مانیں _ اگر صحیح احادیث ہوتیں تو کوئی بات نہ تھی ایسی علامتیں معجزانہ طور پروجود میں آئیں گی تا کہ کائنات کے غیر معمولی حالات کا اعلان کریں اور حکومت حق کی ترقی کے اسباب فراہم کریں _

۲۷۸

سفیانی کا خروج

انجینئر: ظہور کی علامتوں میں سے ایک سفیانی ہے _ یہ کون ہے اور اس کا قصہ کیا ہے؟

ہوشیار: بہت سی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صاحب الامر (عج) کے ظہور سے پہلے ابو سفیان کی نسل سے ایک شخص خروج کرے گا _ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ظاہراً اچھا آدمی ہے ہمیشہ اس کی زبان پر ذکر خدا ہے _ لیکن بدترین و خبیث ترین انسان ہے _ بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالے گے ، اپنے ہمراہ لے کر چلے گا ، پانچ علاقوں ، شام ، حمص ، فلسطین ، اردن ، اور قنسرین پر قابض ہوجائے گا اور بنی عباس کی حکومت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا _ بے شمار شیعوں کو قتل کریگا اس کے بعد صاحب الامر (عج) کا ظہور ہوگا تو وہ امام زمانہ سے جنگ کے لئے اپنا لشکر بھیجے گا لیکن مکہ و مدینہ کے درمیان اس کا لشکر زمین میں دھنس جائے گا _

جلالی : آپ جانتے ہیں کہ بنی عباس کی حکومت مدتوں پہلے ختم ہوچکی ہے اس کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں ہے کہ جسے سفیانی نابود کرے :

ہوشیار: امام موسی کاظم علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ:

'' بنی عباس کی حکومت فریب و نیرنگ سے وجود میں آئی ہے لہذا یہ اس طرح

۲۷۹

تباہ ہوگی کہ اس کا کہیں نشان بھی نہیں ملے گا ، لیکن پھر وجود میں آئے گی اور اس طرح اوج پر پہنچے گی گویا اسے کوئی دھچکاہی نہیں لگاتھا _''(۱)

اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بنی عباس کی دوبارہ حکومت ہوگی اور آخری مرتبہ سفیانی کے ہاتھوں تباہ ہوگی _ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ سفیانی کے خروج کو ضروری کہا گیا ہے لیکن اس کے خروج کا زمانہ اور کیفیت معلوم نہیں ہے یعنی ممکن ہے بنی عباس کی حکومت کی تباہی سفیانی کے ہاتھوں نہ ہو بلکہ دوسروں کے توسط سے ہو _

فہیمی: میں نے سنا ہے : چونکہ خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے دل میں خلافت کی آرزو تھی اور وہ بنی مروان کے ہاتھوں میں خلافت کی زمام دیکھتا تھا اس لئے اس نے بنی امیہ کی حوصلہ افزائی کیلئے خروج سفیانی کی داستان گھڑی خالد کے بارے میں صاحب اغانی لکھتے ہیں :

''وہ عالم و شاعر تھا ، کہا جاتاہے کہ سفیانی کی حدیث کو اسی نے جعل کیا ہے ''(۲)

طبری لکھتے ہیں :'' علی بن عبداللہ بن خالد بن یزید بن معاویہ نے شام میں سنہ ۱۵۹ میں خروج کیا تھا وہ کہتا تھا _ میں سفیانی منتظر ہوں ، اس طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا _(۲) ان تاریخی شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ سفیانی کا خروج جعلی چیز ہے _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۵۰ _

۲_ اغانی ج ۱۶ ص ۱۷۱ _

۳_ طبری ج ۷ ص ۲۵_

۲۸۰

ہوشیار: سفیانی کی احادیث کو عامہ و خاصہ دونوں نے نقل کیا ہے بعید نہیں ہے کہ متواتر ہوں _ صرف احتمال اور ایک مدعی کے وجود سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور جعلی نہیں کہا جا سکتا ہے _ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لوگوں کے درمیان حدیث سفیانی شہرت یافتہ تھی اور لوگ اس کے منتظر تھے بعض لوگوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور خروج کرکے کہنے لگے : ہم ہی سفیانی منتظر ہیں اور اس طرح ایک گروہ کو فریفتہ کرلیا _

۲۸۱

دجال کا واقعہ

جلالی: دجال کے خروج کو بھی ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے ، ایک چشم ہے ، وہ بھی پیشانی کے بیچ میں سے ، ستارہ کی مانند چمکتی ہے _ اس کی پیشانی پر لکھا ہے ''یہ کافر ہے '' اس طرح کہ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے _ کھانے کے ( پہاڑ) ہوٹل اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا _ ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا _ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا ، زمین گلہ اگائے گی _ زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے _ مردوں کو زندہ کرے گا _'' میں تمہارا بڑا خدا ہوں ، میں ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور میں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو '' یہ جملہ اتنی بلند آوازمیں کہے گا کہ سارا جہان سنے گا _

کہتے ہیں رسول کے زمانہ میں بھی تھا ، اس کا نام عبداللہ یا صائدبن صید ہے ، رسول اکرم (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے _ وہ اپنی خدائی کا دعوی کرتا تھا _ عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پیغمبر (ص) نے منع کردیا تھا _ ابھی تک زندہ ہے _ اور آخری زمانہ میں اصفہان کے مضافات میں سے یہودیوں کے گاؤں سے خروج کریگا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۳ ، صحیح مسلم ج ۸ ، ص ۴۶ تا ص ۸۷ ، سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۱۲_

۲۸۲

علما نے تمیم الدا می سے ، جو کہ پہلے نصرانی تھا اورسنہ ۹ ھ میں مسلمان ہوا تھا ، سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے مغرب کے ایک جز یرہ میں دجال کو دیکھا ہے کہ زنجیر و در غل میں تھا(۱)

ھوشیار : انگریزی میں دجال کو انٹی کرایسٹ ( antlchrlst ) کہتے ہیں یعنی مسیح کا دشمن یا مخالف _ دجال کسی مخصوص و معین شخص کا نام نہیں ہے بلکہ لغت عرب میںہر دروغ گو اور حیلہ باز کو دجال کہتے ہیں _ انجیل میں بھی لفظ دجال بہت استعمال ہوا ہے _

یو حنا کے پہلے رسالہ میں لکھا ہے : جو عیسی کے مسیح ہوتے کا انکار کرتا ہے ، دروغگو اور دجال ہے کہ با پ بیٹے کا انکار کرتا ہے(۲)

اسی رسالہ میں لکھا ہے : تم تھ سنا ہے کہ دجال آئے گا ، آج بہت سے دجال پیدا ہوگئے ہیں مذکورہ رسالہ میں پھر لکھتے میں ، وہ ہراس روج کا انکار کرتے ہیں جو عیسی میں مجسم ہوئی تھی اور کہتے ہیں وہ روح خدانہیں تھی _ یہ و ہی روح دجال ہے جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا وہ اب بھی دنیا میں موجود ہے(۳)

یوحنا کے دوسرے رسالہ میں لکھا ہے چونکہ گمراہ کرنے والے دنیا میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ جسم میں ظاہر ہوتے والے عیسی مسیح کا اقرار نہیں کرتے ہیں

____________________

۱_ صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤدج ۳ ص ۳۱۴

۲_ رسالہ یوحنا باب ۲ آیت ۲۲

۳ _ رسالہ اول باب ۲ آیت ۱۸

۲۸۳

یہ ہیں گمراہ کرنے والے دجال_(۱)

انجیل کی آتیوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ دجال کے معنی گمراہ کرنے والے اور دروغگو ہیں _ نیز عیاں ہوتا ہے کہ دجال کا خروج ، اس کا زندہ رہنا اس زمانہ میں بھی نصاری کے در میان مشہور تھا اور وہ اس کے خروج کے منتظر تھے _

ظاہرا حضرت عیسی نے بھی لوگوں کو دجال کے خروج کی خبردی تھی اور اس کے فتنہ سے ڈرایا تھا _ اسی لئے نصاری اس کے منتظر تھے اور قوی احتمال ہے کہ حضرت عیسی نے جس دجال کے بارے میں خبردی تھی ، وہ دجال ودروغگو حضرت عیسی کے پانچ سو سال بعد ظاہر ہواتھا اور اپنی پیغمبر ی کا جھوٹا دعوی کیا تھا _ اسی کو دار پرچڑ ھا یا گیا تھانہ عیسی نبی کو _(۲)

دجال کے وجود سے متعلق مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں پیغمبر اسلام (ع) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے اور فرماتے تھے :

حضرت نوح کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبر اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرا تے تھے(۳)

رسول (ع) کا ارشاد ہے : اسی وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک

____________________

۱ _صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤد ج ۳

۲ _رسالہ دوم یوحنا آیت ۷

۳ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۷

۲۸۴

تیس دجال ، جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ، ظاہر نہیں ہوں گے _(۱)

حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے :

اولاد فاطمہ سے پیدا ہونے والے دو دجالوں سے بچتے رہنا ، ایک دجال وہ جو دجلہ بصرہ سے خروج کرے گاوہ مجھ سے نہیں ہے وہ دجال(۲) کا مقدمہ ہے _

رسول(ع) کا ارشاد ہے :

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک تیس دروغگو دجال ظاہر نہ ہوں گے اور وہ خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ باند ھیں گے(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :

دجال کے خروج سے قبل ستر سے زیادہ و دجال ظاہر ہوں گے(۴)

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دجال کسی معین و مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر دروغگو اور گمراہ کرنے والے کو دجال کہا جا تا ہے _

مختصر یہ کہ دجال کے قصہ کو کتاب مقدس اور نصاری کے در میان تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس کی تفصیل اور احادیث اہل سنت کی کتابوں میں ان ہی طریق سے نقل ہوئی ہیں _

____________________

۱ _ سنن ابی داؤد ج ۲

۲ _ ترجمہ الحلاحم والفتن ص ۱۱۳

۳_ سنن ابی داؤد ج ۲

۴_ مجمع الزواید ج ۷ ص ۳۳۳

۲۸۵

بہرحال اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے لیکن اس کی جو تعریف و توصیف کی گئی ہے _ ان کا کوئی قابل اعتماد مدرک نہیں ہے(۱)

دجال کا اصلی قضیہ اگر چہ صحیح ہے لیکن یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے افسانوں کی آمیزش سے اس کس حقیقی صورت مسخ ہوگئی ہے _ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے وقت آخری زمانہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فریب کار او ر حیلہ سازی میں سب سے آگے ہوگا اور دورغگوئی میں گزشتہ دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے اور رکیک دعوؤں سے غافل رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زمیں و آسمان اس کے ہا تھ میںہیں ، اتنا جھوٹ بولے گا کہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی و نیکی ثابت کرے گا بہشت کو جہنّم اور جہنم کو جنت بنا کرپیش کرے گا لیکن اس کا کفر تعلیم یافتہ اوران پڑ ھہ لوگوں پرواضح ہے _

اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صائد بن صید دجال ، رسول (ص) کے زمانہ سے آج تک زندہ ہے _ کیونکہ حدیث کی سند ضعیف ہے اس کے علاوہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا جبکہ صائد بن صید ان دونوں میں داخل ہوا اور مدینہ میں مرا چنانچہ ایک جماعت اس کی موت کی گواہ ہے _ بالفرض پیغمبر (ص) اکرم نے صائد بن صید کو اگر دجال کہا تھا تو وہ دروغگو کے معنی میں کہا تھا نہ کہ علائم ظہور والا دجال کہا تھا _ بعبارت دیگر پیغمبر اسلام نے صائد بن صید سے ملاقات کی اور اپنے

____________________

۱_ کیونکہ اس کا مدرک وہ حدیث ہے جو بحار الانوار میں نقل ہوی اور اس کی سند میں محمد بن عمر بن عثمان ہے جو کہ مجہول الحال ہے _

۲۸۶

اصحاب میں سے اسے دجال کا مصداق قرار دیا اور چونکہ بعد والے زمانہ میں دجال کے خروج کی خبر دی تھی اس لئے دونوں موضوعات میں اشتباہ ہوگیا اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر (ص) نے صائد کو دجال کہا ہے لہذا یہی آخری زمانہ میں خروج کرے گا اور اسی سے انہوں نے اس کی طول حیات کا نتیجہ بھی اخذ کرلیا ہے _

۲۸۷

دنیا والوں کے افکار

مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو ا ڈاکٹر صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

ڈاکٹر : انسانوں کے درمیان ان تما م رایوں اور عقائد کے اختلاف اور دیگر اختلافی مسائل کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے پور دنیا کا نظم و نسق ایک حکومت کے اختیار میں ہوگا اور روئے زمین پر صرف مہدی کی حکومت ہوگی ؟

ہوشیار: اگر دنیا کے عمومی حالات اور انسان کی عقل و ادراکات کی یہی حالت رہی تو ایک عالمی حکومت کی تشکیل بہت مشکل ہے _ لیکن جیسا کہ گزشتہ زمانہ میں انسان کا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ کے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھی نہیں رکے گا _

بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انسان کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں تعلق و تمدن اور اجتماعی مصالح کے درک میں وہ اور زیادہ ترقی کرے گا _ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ہم گزشتہ زمانے کے انسان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تا کہ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں _

یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ خودخواہی اور منفعت طلبی طبیعی چیز ہے اور اسی کسب کمال سعادت طلبی اور حصول منفعت کے جذبہ نے انسان کو کوشش

۲۸۸

و جانفشانی پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان اپنی طاقت کے طاقت کو شش کرتا ہے اور اس راہ کے موانفع کو برطرف کرتا ہے لیکن دوسروں کے فائد کے بارے میں غور نہیں کرتا _ ہاں جب دوسروں کے منافع سے اپنے مفادات وابستہ دیکھتا ہے تو ان کا بھی لحاظ کرتا ہے اور اپنے کچھ فوائد بھی ان پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے _ شاید اولین بار انسان خودخواہی کے زینہ سے اتر کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے شادی کے وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ مرد و عورت یہ احساس کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اسی احتیاج کے احساس نے مرد و عورت کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم کیا ہے _ چنانچہ دونوں اس کو مستحکم بنانے کے سلسلہ میں خودخواہی کو اعتدال پر لانے اور دوسرں کے فوائد کو ملحوظ رکھنے کے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت کے یک جا ہونے سے خاندان کی تشکیل ہوئی _ حقیقت ہے کہ خاندان کے ہر فرد کا مقصد اپنی سعادت و کمال کی تحصیل ہے لیکن چونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس کی سعادت خاندان کے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان کی سعادت کا بھی متمنی ہوتا ہے اور اس کے اندر تعاون کا جذبہ قوی ہوتا ہے _

انسان نے مدتوں خانوادگی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں کے انکار نے ترقی کی اور انہوں نے اس بات کا احساس کیا کہ سعادت مندی اور دشمنوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بڑے معاشرہ کی تشکیل ضروری ہے _ اس فکر کی ترقی اور ضرورت کے احساس سے طائفے اور قبیلے وجود میں آئے اور قبیلے کے افراد تمام افراد کے منافع کو ملحوظ رکھنے کے لئے تیار ہوگئے

۲۸۹

اور اپنے ذاتی و خاندانی بعض منافع کو قربان کرنے کیلئے بھی آمادہ ہوگئے _ اسی فکر ارتقاء اور ضرورت کے احساس نے انسان کو طول تاریخ میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنی سکونت کیلئے شہر و دیہات آباد کئے تا کہ اپنے شہر والوں کے منافع کا لحاظ رکھیں اور ان کے حقوق سے دفاع کریں _

انسان مدتوں اسی ، نہج سے زندگی گزارتا رہا ، یہاں تک کہ حوادث زمانہ اور خاندانی جھگڑے اور طاقتوروں کے تسلط نے انسان کو چھوٹے سے دیہات کو چھوڑ کر شہر بنانے پر ابھارا کہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسایہ دیہات و شہروں سے ارتباط رکھنے کے لئے بھی ہے تا کہ خطرے اور طاقتور دشمن کے حملہ کے وقت ایک دوسرے سے مدد حاصل کرسکیں _ اس مقصد کے تحت ایک بڑا معاشرہ وجود میں آیا او راس کے وسیع علاقہ کو ملک و سلطنت کے نام سے یاد کیا جانے لگا _

ملک میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی فکر نے اتنی ترقی کی کہ وہ اپنے ملک کی محدود سرزمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس ملک کے باشندوں کو ایک خاندان کے افراد شمار کرتے ہیں اور اس ملک کے اموال و ذخائر کو اس کے باشندوں کا حق سمجھتے ہیں _ اس ملکہ کے ہر گوشہ کی ترقی سے لذت اندوز ہوتے ہیں _ لسانی ، نسلی ، شہری اور دیہاتی اختلافات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ملک کے تمام باشندوں کی سعادت کو اپنی سعادت و کامیابی تصور کرتے ہیں _ واضح ہے کہ اس ملک کے افراد میں جس قدر فکری ہم آہنگی و ارتباط قوی ہوگا اور اختلاف کم ہوگا اسی کے مطابق اس ملک کی ترقیاں زیادہ ہوں گی _ انسان کا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ صدیوں اور ہزاروں حوادث

۲۹۰

اور گوناگون تجربات کے بعد ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _

ہزاروں سال کی طویل مدتوں اور حوادث زمانہ کے بعد انسان کی فکر نے ترقی کی اور کسی حد تک خودخواہی و کوتاہ نظری سے نجات حاصل کی لیکن اب بھی خاصی ترقی نہیں کی ہے اس پر اکتفا نہیں کر سکتا _ آج بھی علمی و صنعتی ترقی کے سلسلہ میں دنیا کے ممالک کے درمیان خاص روابط برقرار ہوتے ہیں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ کے دوران طے کیا ہے اسے آج بھی گھنٹوں اور منٹوں میں طے کررہے ہیں _ دور دراز سے ایک دوسرے کی آواز کو سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں _ ملک کے حوادث و اوضا ع ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں _ آج انسان اس بات کا احساس کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کو محکم طریقہ سے بند نہیں کرسکتا اور تمام ممالک سے قطع تعلق کرکے عزلت گزینی کی زندگی نہیں گزارسکتا _ عالمی حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ایک ملک کے معاشرہ اور اجتماع میں یہ طاقت نہیں ہے کہ لوگوں کی سعادت و ترقی کی راہ فراہم کرسکے اور انھیں حوادث و خطرات سے بچا سکے _ اس لئے ہر ملک اپنے معاشرہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے _

بشر کی یہ درونی خواہش کبھی جمہوریت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کبھی مشرق و مغرب کے بلاؤں کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے کبھی اسلامی ممالک کے اتحادیہ کی شکل میں وجود پذیر ہوتی ہے کبھی سرمایہ داری اور کمیونسٹ نظام کے پیکر میں سامنے آتی ہے _ اس اتحاد کی اور سیکڑوں مثالیں ہیں /و کہ روح انسان کے رشد اور اس وسعت طلبی کی حکایت کرتی ہیں _

آج انسان کی کوشش یہ ہے کہ عمومی معاہدوں اور اتحاد کو وسعت دی جائے

۲۹۱

ممکن ہے اس کے ذریعہ خطرات کا سد باب ہوسکے اور عالمی مشکلات و بحران کو حل کیا جا سکے اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کیلئے آسائشے و رفاہ کے وسائل فراہم ہو سکیں _

دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کی یہ کوشش و فعالیت اور وسعت طلبی ایک عالمی انقلاب کا مقدمہ ہے ، عنقریب دنیائے انسانیت پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ اتحاد بھی محدود ہے لہذا عالمی خطرات و مشکلات کو حل نہیں کرسکتے یہ اتحاد صرف کسی درد کی دوا ہی نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہو کہ مزید مشکلات کھڑی کردیتے ہیں _

انسان ابھی تجربہ کی راہ سے گزرہاہے تا کہ ان اتحادات کے ذریعہ جہاں تک ہوسکے خودخواہی کے احساس کو بھی ختم کرے اور عالمی خطرات و مشکلات کو بھی ختم کرے _ وہ ایک روز اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوگا کہ خودخواہی اور کوتاہ نظری انسان کو سعادت مند نہیں بنا سکتی _ اور لا محالہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ روئے زمیں کا ما حول ایک گھر کے ماحول سے مختلف نہیں ہے _ روئے زمین پر بسنے والے ایک خاندان کے افراد کی مانند ہیں _ جب انسان اس بات کو سمجھ جائے گا کہ غیر خواہی میں خود خواہی ہے تو اس وقت دنیا والوں کے افکار و خیالات سعدی شیرازی کے ہم آواز ہو کر اس بات کا اعتراف کریں گے _

بنی آدم اعضائے ایک دیگرند کہ در آفرینش زیک گوہرند

'' انسان آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ انکی خلقت کا سرچشمہ ایک ہی ہے ''

لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو قوانین و احکام اختلافات انگیز محدود نظام کے مطابق بنائے گئے ہیں وہ دنیا کی اصلاح کیلئے کافی نہیں ہیں _ عالمی اور اقوامی اتحاد کی

۲۹۲

انجمنوں کی تشکیل ، حقوق بشر کی تنظیم کی تاسیس کو اس عظیم فکر کا مقدمہ اور انسانیت کی بیداری اور اس کی عقل کے کمال کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑی طاقتوں کے دباؤں سے ابھی تک کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے اور ابھی تک اختلاف انگیز نظاموں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں لیکن ایسے افکار کے وجود سے انسان کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے _

دنیا کی عام حالت و حوادث کے پیش نظر اس بات کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں انسان ایک حساس ترین دورا ہے پر کھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادی گری یا خالص توحید سے _ یعنی انسان یا تو آنکھیں بند کرکے مادیت کو قبول کرلے اور خدا کے احکام کو ٹھکرادے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کو ٹھکرا دے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لے اور عالمی مشکللات اور بشری کی اصلاح آسمانی قوانین کے ذریعہ کرے اور غیر خد ا قوانین کو ٹھکرادے _ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسان کا خداپرستی اور دین جوئی کا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے اور جیسا کہ آسمانی ادیان خصوصاً اسلام نے پیشین گوئی کی ہے کہ آخر کار خدا پرستوں ہی کاگروہ کامیاب ہوگا اور دنیا کی حکومت کی زمام و اقتدا صالح لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور انسانوں کا بڑا معاشرہ انسانیت کے فضائل ، نیک اخلاق اور صحیح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائیں گے اور سارے انسان ایک خدا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے _ خداپرستوں کا گروہ اور حزب توحید ایمان کے محکم و وسیع حصار میں جاگزین ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرے گا

۲۹۳

قرآن مجید نے دنیا والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ :

'' آؤ ہم سب ایک مشترک پروگرام کو قبول کرلیں اور یہ طے کرلیں کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں گے اور انسانوں میں سے کسی کو واجب الاطاعت نہ سمجھیں گے _''(۱)

قرآن مجید اس عالمی انقلاب کے پروگرام کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے نافذ کرنے کی صلاحیت صرف مسلمانوں میں ہے _ رسول اکرم نے خبر دی ہے کہ جو شائستہ اور غیر معمولی افراد انسان کے گوناگون افکار و عقائد اور متفرق رایوں کو یک جا اور ایک مرکز پر جمع کریں گے اور انسانوں کی عقل کو کامل و بیدار کریں گے اور دشمنی کے اسباب و عوامل کا قلع و قمع کریں گے _ صلح و صفائی برقرار کریں گے _ وہ مہدی موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگی _ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

''جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو بندوں کے سرپرہاتھ رکھ کر ان کے پراگندہ عقل و فکر کو ایک جگہ کرے گا اور ایک مقصد کی طرف متوجہ کرے گا اور ان کے

اخلاق کو کمال تک پہنچادے گا '' _(۲)

حضرت علی (ع) بن ابیطالب فرماتے ہیں :'' جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگوں کے دلوں سے عداوت و دشمنی کی جڑیں کٹ جائیں گی اور عالمی امن کا دور ہوگا ''(۳)

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :'' ہمارے قائم کے ظہور کے بعد عمومی اموال اور زمین کے معاون و ذخائر آپ(ص) اختیار میں آئیں گے _(۴)

____________________

۱_ آل عمران /۹۴_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۶_

۳_ بحارالانوار جلد ۵۲ ص ۳۱۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۱_

۲۹۴

مستضعفین کی کامیابی

جلالی : آپ دنیا کی حالت کو جانتے ہیں کہ زمین کے ہر گوشہ میں مستضعفین و کمزورلوگوں پر ظالم و ستمگر و مستکبرین حکومت کررہے ہیں ، ان کی تمام چیزوں پر مسلط ہوگئے ہیں اور انھیں اپنی طاقت سے مرعوب کررکھا ہے _ ان حالات کے پیش نظر حضرت مہدی کیسے انقلاب لائیں گے اور کیونکر کامیاب ہوں گے ؟

ہوشیار: مستکبرین پر امام مہدی (ع) کی کامیابی دنیا کے مستضعفین کی کامیابی ہے _ جو کہ اکثریت میں ہیں اور ساری قدرت انھیں کی ہے _ مستکبرین کی تعدا د بہت ہی کم ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے _ اسی لئے امام مہدی کی کامیابی کا امکان ہے یہاں میں ایک بات کی تشریح کردوں تا کہ مدعا روشن ہوجائے _

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا بھر کے مستضعفین آخر کار اس عالمی انقلاب میں مستکبرین پر کامیاب ہوں گے کہ جس کے قائد امام مہدی ہونگے اور طاغوتی نظام کو ہمیشہ کیلئے نابود کرکے دنیا کی حکومت کی زمام سنبھالیں گے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ دنیا کے مستضعفین پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں اور زمین کی قدرت و تمکن

۲۹۵

ان کے دست اختیار میں دیدیں ''_(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ آیت اس بات کی حتمی نوید دے رہی ہے کہ دنیا کی طاقت اور جہان کا نظام مستضعفین کے ہاتھوں میں آئے گا _ اس بناپر امام مہدی کی کامیابی مستکبرین پر مستضعفین کی کامیابی ہوگی موضوع کی وضاحت کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں :

استضعاف کے کیا معنی ہیں اور مستضعفین کون لوگ ہیں ؟

مستکبرین کی کیا علامتیں ہیں؟

مستضعفین مستکبرین پر کیسے کامیاب ہوں گے ؟

اس عالمی انقلاب کی قیادت کوں کرے گا ؟

قرآن مجید میں مستضعفین کو مستکبرین و طاغوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے ان دونوں کی ایک ساتھ تحقیق کرنا چاہئے _ قرآن مجید میں مستکبرین کی کچھ علامتیں اورخصوصیات ذکر ہوئے ہیں ایک جگہ فرعون جیسے مستکبرین کے لئے فرماتا ہے :

'' بے شک فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھا یا تھا اور لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کیا تھا ایک گروہ کو کمزور بنادیا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا کیونکہ وہ مفسدوں میں سے تھا _(۲)

____________________

۱_ قصص/۵

۲_ قصص /۴

۲۹۶

مذکورہ آیت میں فرعوں کیلئے جو کہ مستکبرین میں سے ہے ، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں : اول بڑا بننا اور برتری چاہنا _ دوسرے لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا تیسرے فساد پھیلانا _ دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ :

'' فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھایا تھا کہ وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا''_(۱)

اس آیت میں اسراف اور سر اٹھانے کو بھی مستکبرین کی صفات قرار دیا گیا ہے دوسری آیت میں ارشاد ہے:

'' فرعون نے موسی کی تحقیر کی اور لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ لوگ فاسق تھے''(۲)

اس آیت میں لوگوں کی تو ہین کرنے کو مستکبرین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے اور یہی معنا لوگوں کی اطاعت کے ہیں _

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

''موسی نے قارون ، فرعون اور ہامان کے سامنے واضح دلیلیں پیش کیں لیکن انہوں نے روئے زمین پر سر اٹھایا اور تکبّر کیا ''( ۲)

مذکورہ آیت میں حق قبول نہ کرنے کو استکبار و سرکشی کی علامت قرار دیا

____________________

۱_ یونس /۸۳

۲_ زخرف /۵۴

۳_ عنکبوت/۳۹

۲۹۷

گیا ہے _ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

''قوم صالح کے مستکبرین مومن مستضعفین سے کہتے تھے: کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ صالح خدا کے رسول ہیں ؟ مومنین جواب دیتے تھے ہم صالح کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں _ مستکبرین کہتے تھے جس چیز پر تمہارا ایمان ہے ہم اس کے منکر ہیں ''(۱)

دوسری آیت میں کفر و شرک کی ترویج کو مستکبرین کی علامت شمار کیا گیا ہے : ''مستضعفین مستکبرین سے کہتے ہیں تمہاری رات ، دن کی فریب کاریاں تھیں کہ تم ہمیں خدا سے کفر اختیار کرنے اور اس کا شریک ٹھرانے کا حکم دیتے تھے''(۲)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں مستکبرین کی چند علامتیں بیان ہوئی ہیں :

۱_ بڑا بننا اور برتری چاہنا

۲_ تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا_

۳_ اسراف

۴_ لوگوں کو کمزور بنانا_

۵_ فساد پھیلانا

۶_ حق قبول کرنے سے منع کرنا _

۷_ کفر و شرک کی ترویج و اشاعت_

مذکورہ تمام آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستکبرین ان لوگوں کا

____________________

۱_ اعراف/۷۶

۲_ سبا/۳۳

۲۹۸

گروہ ہے جو خواہ مخواہ خود کو دوسرں سے برتر بناکر پیش کرتے ہیں _ لوگوں سے کہتے ہیں : ہم سیاست داںں ، عاقل اور ماہرہیں _ ہم تمہارے مصالح کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں تمہاری عقل تمہارے مصالح کے ادراک کیلئے کافی نہیں ہے _ تمہیں ہماری اطاعت کرنا چاہئے تا کہ کامیاب ہوجاؤ استکبار کا اہم کام اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا ہے _ کالے گئے مذہبی ، نسلی ، لسانی ، قومی ، ملی ، ملکی ، شہری ، صوبائی اور دوسرے سیکڑوں اختلاف انگیز عوامل کے ذریعہ لوگوں میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں _ صرف اس لئے تاکہ لوگوں پر حکومت کریں ، کفر و شرک کی ترویج کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ان کے سارے منافع ہڑپ کر لیتے ہیں _ ان کے سارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ عمومی اموال پر قابض ہوجاتے ہیں _ اپنی مرض سے جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں _ ملک سے دفاع کے نام پر اسلحہ اور ایٹمی توانائی خریدتے ہیں عمومی ضرورتوں کو پورا کرنے او رامن و امان برقرار رکھنے کے نام پر قضاوت اور دیگر دفاتر کی تشکیل سے ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں ، بیت المال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ، اپنے ہمنواؤں کے دریچے بھرتے ہیں _ ان کا مقصد صرف حکمرانی اور خودہواہی ہے _ مستکبرین بڑے نہیں ہیں ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ فریب کاری سے لوگوں کی عظیم طاقت'' کو اپنی بتاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھتے ہیں _

یہاں سے مستضعفین کے معنی بھی روشن ہوجاتے ہیں _ مستضعف کے معنی ضعیف و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستضعف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستکبرین کے غلط پروپیگنڈے اور حیلہ بازیوں سے اپنی طاقت کو گنوا دیا ہے اور غلامی و ذلت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،حقیقی طاقت عام لوگوں کی ہے _ زمین ، پانی ، قدرتی خزانے ، پبلک

۲۹۹

دالشور اور موجد سب ہی تو عام لوگ ہیں ، مزدور ، موجد ، پولیس و فوج ، انتظامیہ ، عدلیہ اور ادارے سب ہی ملّت کے افراد سے تشکیل پاتے ہیں _ صاحبان علم و اختراع اور صنعت بھی ملت ہی کے افراد ہوتے ہیں _ اس بناپر قدرتی خزانے پوری قوم کے ہوتے ہیں نہ کہ مستکبرین کے _ اگر لو گ مدد و تعاون نہ کریں تو مستکبرین کی کوئی طاقت بن سکتی ہے؟ لیکن مستکبرین نے حیلے و فریب او رغلط پروپیگنڈے سے لوگوں کو اپنے سے بیگانہ اور مستضعف بنادیا ہے وہ خود ہی اپنے کو کچلتے ہیں اور استعماری طاقتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں _ مستکبرین اقلیت میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے اور انھیں کمزور بناکر ان پر حکومت کی ہے _

لیکن خدا کے پیغمبر اس بات پر مامور تھے کہ ان لوگوں کو بیدار کریں جنھیں کمزور و مستضعف بنادیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی عظیم طاقت و توانائی سے آگاہ ہوجائیں اور مستکبرین کے چنگل سے نجات حاصل کریں پیغمبروں نے ہمیشہ مستکبرین کے حقیقت کا پردہ چاک کرنے اور ان کی جھوٹی طاقت اور جلال کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مستضعفین کو مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ان کے استعماری پھندوں سے نجات حاصل کرنے کی جرات دلائی ہے _

حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کیا _ حضرت موسی (ع) نے فرعون کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور حضرت عیسی (ع) اپنے زمانہ کے ظلم و سمتگروں کے خلاف اٹھے اور محروموں کونجات دلانے کے لئے قیام کیا _ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ابو جہل ، ابولہب ، ابوسفیان اور قیصر و کسری کے خلاف قیام کیا او ردنیا کے مستضعف و محروم لوگوں کی نجات کے لئے اٹھے _ پیغمبر

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455