آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181820 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

دفاع کیلئے لوگوں کی ایک جماعت کو اس طرح تیز کیا جائے گا جیسے لوہا ر تلوار کی باڑ تیز کرتا ہے ، قرآن سے ان کے باطن کی آنکھوں میں جلا پیدا کی جائیگی اس کے معانی و تفاسیر ان کے گوش گزار جاتی رہیں گی اور علوم و حکمت کے چھلکتے ہوئے ساغر انھیں صبح و شام پلائے جائیں گے _(۱)

اس خطبہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت علی بن ابی طالب کے زمانہ میں بھی لوگ ان حوادث کے واقع ہونے کے منتظر تھے جن کی خبر انہوں نے رسول(ص) سے سنی تھی ، ممکن ہے وہ غیبت کے زمانہ میں نہایت خفیہ طور پر زندگی بسر کریں گے لیکن کامل بصیرت سے مسلمانوں کے ضروری مسائل کو حل اور اسلام کے مرکز سے دفاع میں کوشش کریں گے مسلمانوں کی مشکلکشائی کریں گے ، گرفتاری بندوں کو آزادی دلائیں گے _ اور جو لوگ اسلام کی مسخ کنی کے لئے جمع ہوگئے تھے ان کو متفرق کریں گے اور ہر نقصان وہ تشکیل کو درہم کریں گے ، ضروری اور مفید انجمنوں کی تشکیل کے مقدمات فراہم کریں گے _ امام زمانہ کی برکت سے لوگوں کا ایک گروہ دین سے دفاع کے لئے تیار ہوگا اور اپنے امور میں قرآن کے علوم و معارف سے مددلے گا _

فہیمی: میں چاہتا تھا کہ آپ یہ ثابت کریں کہ ہم اہل سنُت کی احادیث میں وجود مہدی کو _ خصوصا آپ کے دیگر اسما جیسے قائم و صاحب الامر _ اس طرح کیوں بیاں نہیں کیا گیا ہے _ لیکن وقت چونکہ ختم ہونے والا ہے ، اس لئے آئندہ جلسہ میں اس موضوع پر بحث کی جائے تو بہتر ہے _

سب نے اس بات کی تائید کی اور یہ طے پایا کے آئندہ جلسہ ڈاکٹر صاحب کے گھر منعقد ہوگا _

____________________

۱_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۱۴۶_

۲۰۱

خصوصیات مہدی (ع) اہل سنّت کی کتابوں میں

معمولی ضیافت اور گفتگو کے بعد جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور فہیمی صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

شیعوں کی احادیث میں مہدی موعود کا وجود مشخص اور واضح ہے جبکہ اہل سنت کی احادیث میں مجمل و مبہم انداز میں آپ کا تذکرہ ملتا ہے _ مثلاً غیبت مہدی کا واقعہ آپکی اکثر احادیث میں پایا جاتا ہے جبکہ آپکی مسلّم علامتیں اور خصوصیات کا ہماری احادیث میں کہیں نام ونشان بھی نہیں ہے _ اس سلسلہ میں وہ بالکل خاموش ہیں _ آپ حضرات کی احادیث میں مہدی موعود کے دوسرے نام قائم اور صاحب الامر و غیرہ بھی مذکور ہیں لیکن ہماری احادیث میں مہدی کے علاوہ اور کوئی نام بیان نہیں ہوا ہے ، خصوصاً قائم تو ہماری احادیث میں ہے ہی نہیں کیا یہ بات آپ کے نقطہ نظر سے معمولی ہے ، قابل اعتراض نہیں ہے ؟

ہوشیار : ظاہراً قضیہ کی علت یہ ہے کہ بنی امیہ اور بنی عباس کے دور خلافت میں مہدویت کا موضوع مکمل طور پر سیاسی مسئلہ بن چکا تھا چنانچہ تمام مشخصات و علامتوں کے ساتھ مہدی موعود خصوصاً غیبت و قیام سے متعلق احادیث کے نقل کرنے کے لئے آزادی نہیں تھی ، خلفائے وقت احادیث کی تدوین خصوصاً مہدی کی غیبت اور قیام سے متعلق احادیث کے سلسلہ میں بہت حساس رہتے تھے بس اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ غیبت ، قیام اور خروج کے الفاظ بھی برداشت نہیں کرتے تھے _

۲۰۲

آپ بھی اگر تاریخ کا مطالعہ فرمائیں اور بنی امیہ و بنی عباس کی خلافت کے بحرانی حالات اور سیاسی کشمکش کا نقشہ کھینچے تو میرے خیال کی تائید فرمائیں گے _ ہم اس مختصروقت میں اس زمانہ کے اہم حوادث و واقعات کا تجزیہ نہیں کر سکتے لیکن اثبات مدعاکیلئے دو چیزوں کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے _

۱ _ داستان مہدویت میں چونکہ ایکہ دینی پہلو موجود تھا اور پیغمبر(ع) اکرم(ع) نے اسکی خبردی تھی کہ جس زمانہ میں کفرو بے دینی فروغ ہوگا اور ظلم و ستم چھا یا ہوگا اس وقت مہدی موعود انقلاب بر پا کریں گے اور دنیا کی آشفتہ حالی کی اصلاح کریں گے اسی لئے مسلمان اس موضوع کو ایک طاقتو رپناہ گاہ اور تسلّی بخش وقوعہ تصور کرتے تھے اور ہمیشہ اس کے وقوع پذیر ہونے کے منتظر رہتے تھے _ خصوصاً مذکور ہ عقیدہ اس وقت اور زیادہ مشہور اور زندہ ہوجاتا تھا جب لوگ ظلم و ستم کی طغیانیوں اور بحرانی حالات میں ہرجگہ سے مایوس ہوجاتے تھے چنانجہ کبھی اصلاح کے علمبردار اور ابن الوقت افراد بھی اس سے فائدہ اٹھا تے تھے _

عقیدہ محدویت سے سب سے پہلے جناب مختار نے فائدہ اٹھایا تھا _ کربلا کے المناک سانحہ کے بعد جناب مختار قاتلوں سے انتقام لینا اور ان کی حکومت کو بر باد کرنا چاہتے تھے لیکن جب انہوں نے یہ دیکھا کہ بنی ہاشم اور شیعہ حکومت پر قبضہ کرنے کے سلسلے میں مایوس ہوچکے ہیں تو انہوں نے عقیدہ مہدویت سے استفادہ کیا اور اس فکر کے احیاء سے قو م کی امید بندھائی _ چونکہ محمد بن حنفیہ رسول کے ہم نام و ہم کنیت تھے _ یعنی مہدی کی ایک علامت ان میں موجود تھی لہذا مختار نے وقت سے فائدہ اٹھا یا اور محمد بن حنفیہ کو مہدی موعود اور خود کو ان کے وزیر کے عنوان سے پیش کیا اور لوگوں سے کہا محمد بن حنفیہ اسلام کے

۲۰۳

مہدی موعود ہیں ، اس زمانہ میں ظلم و ستم اپنی انتہا کو پہنچ گیا ہے _ حسین بن علی اوران کے اصحاب و جوان تشنہ لب کربلا میں شہید کردیئےئے ہیں ،محمد بن حنفیہ انقلاب لانے کا قصد رکھتے ہیں تا کہ قاتلوں سے انتقام لے سکیں اور دنیا کی اصلاح کرسکیں _ میں ان کا وزیر ہوں _ اس طرح مختار نے قیام کیااور کچھ قاتلوں کو تہ تیغ کیا در حقیقت اس عنوان سے برپاہونے والا یہ پہلا انقلاب اور خلافت کے مقابلہ میں اولین قیام تھا _

دوسرا ابومسلم خراسانی عقیدہ مہدویت سے فائدہ اٹھانا چاہتے تھے_ ابومسلم نے خراسان میں ، امام حسین(ع) اور آپ کے اصحاب و انصار ، ہشام بن عبدالملک کے زمانہ خلافت میں ڈردناک و سنسی خیز انداز میں شہید ہونے والے زید بن علی بن حسین (ع) اور ولید کے زمانہ خلافت میں شہید ہونے والے یحیی بن زید کے انتقام کے عنوان سے بنی امیہ کی خلافت کے خلاف قیام کیا تھا _ ایک جماعت بھی ابومسلم کو مہدی موعود خیال کرتی تھی اور ایک گروہ اسے ظہور مہدی کا مقدمہ تصور کرتا تھا اور مہدی کی علامتوں میں شمار کرتا تھا کہ وہ خراسان کی طرف سے سیاہ پرچموں کے ساتھ آئے گا _ اس جنگ میں علوییں ، بنی عباس اور سارے مسلمان ایک طرف تھے ، چنانچہ انہوں نے بھر پور اتحاد کے ساتھ بنی امیہ اور ان کارندوں کو اسلامی حکومت سے برطرف کردیا _

یہ تحریک اگر چہ رسول کے اہل بیت کے مغصوب حق کے عنوان سے شروع ہوئی تھی اور شاید انقلاب کے بعض چیمپئین افراد بھی خلافت علویین ہی کی تحویل میں دینا چاہتے تھے لیکن بنی عباس اور ان کے کارندوں نے نہایت ہی چال بازی سے انقلاب کو اس کے حقیقی راستہ سے ہٹادیا _ حکومت علویوں کی دہلینر تک پہنچ چکی تھی لیکن بنی عباس نے اپنے کو پیغمبر کے اہل بیت کے عنوان سے پیش کیا اور اسلامی خلافت کی مسند پر متمکن ہوئے _

۲۰۴

اس عظیم تحریک میں ملت کامیاب ہوئی اور بنی امیہ کے ظالم خلفاء سے اسلامی خلافت چھین لی_ لوگوں کو بڑی خوشی تھی کہ انہوں نے ظالم خلفا کے شر سے نجات حاصل کرلی ہے اور اس کے علاوہ حق کو حق دار تک پہنچا دیا اور اسلامی خلافت کو خاندان پیغمبر(ص) میں پلٹادیا ہے _ علویین بھی کسی حد تک خوش تھے اگر چہ انھیں خلافت نہیں ملی تھی لیکن کم از کم بنی امیہ کے ظلم و ستم سے تو مطمئن ہوگئے تھے _ مسلمان اس کامیابی سے بہت خوش تھے اور ملک کے عام حالات کی اصلاح ، اسلام کی ترقی اور اپنی بہبودی کے سنہرے خواب دیکھ رہے تھے اور ایک دوسرے کو خوشخبری دے رہے تھے _ لیکن کچھ ہی روز کے بعد وہ خواب سے بیدار ہوئے تو دیکھا کہ حالات میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور بنی عباس و بنی امیہ کی حکومت میں کوئی فرق نہیں ہے _ سب ریاست طلب اور خوش باش ہیں _ مسلمانوں کا بیت المال تباہ ہورہاہے _ عدل و انصاف ، اصلاحات اور احکام الہی کے نفاذ کا کہیں نام و نشان نہیں ہے _ رفتہ رفتہ لوگوں کی آنکھیں کھلیں اور انہوں نے اپنے غلط فہمی اور بنی عباس کی نیرنگ کو سمجھ لیا _

علوی سادات نے بھی یہ بات محسوس کی کہ اسلام ، مسلمانوں اور خود ان سے بنی عباس کو جو سلوک ہے وہ بنی امیہ کی روش سے مختلف نہیں ہے اور جہاد کی ابتداء اور بنی عباس سے جنگ کے آغاز کے علاوہ کوئی چارہ کار نہیں تھا _ تحریک چلانے کے لئے بہتر افراد جو ممکن تھے وہ علی و فاطمہ(ع) کی اولاد تھے کیونکہ اول تو ان میں شائستہ پاکدامن ، فداکار اور دانش ور پیدا ہوتے تھے جو کہ خلافت کے لئے سب سے زیادہ موزوں تھے _ دوسرے پیغمبر کی حقیقی اولاد تھے اور آپ سے نسبت کی بناپر محبوب تھے _ تیسرے : مظلوم تھے ، ان کا شرعی حق پامال ہوچکا تھا _ لوگ بتدریج اہل بیت

۲۰۵

(ع) رسول کی طرف آئے _ خلفائے بنی عباس کے جیسے جیسے ظلم و ستم اور دکیٹڑ شپ بڑھتی جاتی تھی اسی کے مطابق لوگوں کے درمیان اہل بیت کی محبوبیت بڑھتی جاتی تھی اور ان میں ظلم کے خلاف شورش کا جذبہ پیدا ہوتا تھا _ قوم کی تحریک اور علویوں کا قیام شروع ہوا ، کبھی کبھی ان میں سے کسی کو پکڑتے اور شوروہنگامہ بپاکرتے تھے کبھی اس میں صلاح سمجھتے تھے کہ عقیدہ مہدویت پیغمبر (ص) کے زمانہ سے ابھی تک باقی ہے _ لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہے ، اس سے فائدہ اٹھایا جائے اور قائد انقلاب کو مہدی موعود کے نام سے پہنچنوایا جائے _ یہاں بنی عباس کے خلفاء کا سخت ، دلیر، دانشور اور قوم میں محبوب رقیبوں سے مقابلہ تھا _ خلفائے بنی عباس علوی سادات کو بخوبی پہچانتے تھے، ان کی ذاتی لیاقت ، فداکاری ، قومی عزت اور خاندانی شرافت سے واقف تھے ، اس کے علاوہ مہدی موعود کے بارے میں پیغمبر(ص) کی دی ہوئی بشارتوں سے بھی باخبر تھے _ پیغمبر کی احادیث کے مطابق انھیں معلوم تھا کہ مہدی موعود اولاد فاطمہ (ص) سے ہونگے جو قیام کرکے ستمگروں سے مبارزہ کریں گے اور ان کی کامیابی کو یقینی سمجھتے تھے وہ داستان مہدی اور لوگوں میں اس عقیدہ کے معنوی اثر سے بھی کسی حد تک واقف تھے _ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ بنی عباس کی خلافت کو سب سے بڑا خطرہ علوی سادات سے تھا _ انہوں نے ان کی اور ان کے کارندوں کی نیند حرام کردی تھی _ البتہ خلفانے بھی لوگوں کو علویوں کے پاس جمع نہ ہونے دیا اور ہر قسم کی تحریک و انقلاب کی پیش بندی میں بڑی تندی سے کام لیا _ خصوصاً علویوں کے سربرآوردہ افراد پر سخت نظر رکھتے تھے یعقوبی لکھتے ہیں _ موسی ہادی طالبین کو گرفتار کرنے کی بہت کوشش کرتا تھا _ انھیں خوف زدہ و ہراسان رکھتا تھا تمام شہروں میں یہ حکم نامہ

۲۰۶

بھیجدیا تھا کہ جہاں بھی طالبین کا کوئی آدمی ملے اسے گرفتار کرکے میرے پاس بھیجدو _(۱)

ابوالفرج لکھتے ہیں :

''جب منصور تخت خلافت پر متمکن ہوا تو اس نے ساری کوشش محمد بن عبداللہ بن حسن (ع) کو گرفتار کرنے اور ان کے مقصد سے آگہی حاصل کرنے میں صرف کی _''(۲)

غیبت علویین

اس زمانہ کا ایک بہت ہی نازک اور مرکز توجہ مسئلہ بعض علوی سادات کی غیبت تھا _ ان میں سے جس میں بھی ذاتی شرافت و شائستگی اور قیادت کی صلاحیت پائی جاتی تھی _ قوم اسی کی طرف جھکتی اور ان کے دل اس کی طرف مائل ہوتے تھے خصوصاً یہ رجحان اس وقت اور زیادہ ہوجاتا تھا جب اس میں مہدی موعود کی کوئی علامت بھی ہوتی تھی _ دوسری طرف خلافت کی مشنری جیسے ہی قوم کو کسی ایسے آدمی کی طرف بڑھتی دیکھتی تھی تو اس کے خوف و ہراس میں اضافہ ہوجاتا تھا اور اس کے خفیہ و ظاہری کارندے اس شخص کی نگرانی میں مشغول ہوجاتے تھے_ لہذا وہ اپنی جان بچانے کیلئے خلافت کی مشنری سے روپوش ہوجاتا تھا ، یعنی غیبت و پوشیدگی کی زندگی بسر کرتا تھا ، علوی سادات کا ایک گروہ ایک زمانہ تک غیبت کی زندگی گزارتا تھا _ مثال کے طور پر ہم چند نمونے ، ابوالفرج اصفہانی کی کتاب'' مقاتل الطالبین '' سے نقل کرتے ہیں :

____________________

۱_ تاریخ یعقوبی ج ۳ ص ۱۴۲ طبع نجف سنہ ۱۳۸۴ ھ

۲_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۳

۲۰۷

منصور عباسی کے زمانہ خلافت میں محمد بن عبداللہ بن حسن اور ان کے بھائی ابراہیم غیبت کی زندگی بسر کرتے تھے، منصور بھی انھیں گرفتار کرنے کی بہت کوشش کرتا تھا _ چنانچہ اس مقصد میں کامیابی کے لئے اس نے بنی ہاشم کے بہت سے افراد کو گرفتار کیا اور ان سے کہا : محمد کو حاضر کرو ان ان بے گناہوں کو قید خانہ میں لرزہ بر اندام سزائیں دیں ''(۱) _

''منصور کے زمانہ خلافت میں عیسی بن زید و روپوش تھے منصور نے انھیں گرفتار کرنے کی لاکھ کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکا _ منصور اور اس کے لڑکے نے بھی کوشش کی لیکن ناکام رہے ''(۲)

''معتصم اور واثق کے زمانہ خلافت میں محمد بن قاسم علوی خلافت کی مشنری سے روپوش تھے _ متوکل کے زمانہ میں گرفتارہوئے اور قید خانہ میں وفات پائی ''(۳)

''ر شید کے زمانہ خلافت میں یحیی بن عبداللہ بن حسن غائب تھے ، لیکن رشید کے جاسوسوں نے انھیں تلاش کرلیا _ ابتداء میں امان دی لیکن بعد میں گرفتار کرکے قید خانہ میں ڈالدیا ، اسی قید خانہ میں بھوک اور اذیتوں کی تاب نہ لا کر دم توڑدیا''(۴)

'' ماموں کے زمانہ خلافت میں عبداللہ بن موسی غائب تھے اور اس سے

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۱۴۳ تا ص ۱۵۴_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۲۷۸_

۳_ مقاتل الطالبین ص ۳۹۲_

۴_ مقاتل الطالبین ص ۳۰۸_

۲۰۸

مامون بہت خوف زدہ تھا _(۱)

موسی ہادی نے عمر بن خطاب کی اولاد سے عبد العزیز کو مدینہ کا حاکم مقرر کیا ، عبدالعزیز طالبین سے بہت برے طریق اور سختی سے پیش آتا اور ان کے اعمال و حرکات پر سخت نظر رکھتا تھا _ ایک روز ان سے کہا : تم ہر روز میرے پاس حاضری دیا کرو تا کہ تمہارے روپوش و غائب نہ ہونے کا مجھے علم رہے _ ان سے عہد و پیمان لیا اور ایک کو دوسرے کا ضامن بنادیا _ مثلاً حسین بن علی اور یحی بن عبداللہ کو ، حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن کا ضامن بنایا_ ایک مرتبہ جمعہ کے دن علویین اس کے پاس گئے انھیں واپس لوٹنے کی اجازت نہ دی یہاں تک کہ جب نماز کا وقت آگیا ، تو انھیں وضو کرنے اور نماز میں حاضر کا حکم دیا _ نماز کے بعد اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ ان سب کو قد کرلو_ عصر کے وقت سب کی حاضری لی تو معلوم ہوا کہ حسن بن محمد بن عبداللہ بن حسن نہیں ہیں _ پس ان کے ضامن حسین بن علی اور یحیی سے کہا : اگر حسن بن محمد تین دن تک میری خدمت میں شرف یاب نہ ہوئے یا انھوں نے خروج کیا یا غائب ہوگئے تو میں تمہیں قید خانے میں ڈال دوں گا یحیی نے جواب دیا کہ : یقیناً انھیں کوئی ضروری کام پیش آگیا ہوگا ، اسی لئی نہیں آسکے ہم بھی انھیں حاضر کرنے سے قاصر ہیں _ انصاف سے کام لو _ تم جس طرح ہماری حاضری لیتے ہو اسی طرح عمر بن خطاب کے خاندان والوں کو بھی بلاؤ اس کے بعد ان کی حاضری لو اگر ان کے افراد ہم سے زیادہ غائب ہوئے تو ہمیں کوئی اعتراض

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۴۱۵ _ ۴۱۸_

۲۰۹

نہ ہوگا پھر ہمارے بارے میں جو چا ہے فیصلہ کرنا _ لیکن حاکم ان کے جواب سے مطمئن نہ ہوا اور قسم کھا کرکہا: اگر چو بیس ۲۴گنٹے کے اندر تم نے حسن کو حاضر نہ کیا تو تمہارے گھروں کو منہدم کرادو نگا ، آگ لگوادوں گااور حسین بن علی کو ایک ہزار تا زیانے لگاؤں گا_''

اس قسم کے حوادث سے یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ خلفا ئے بنی عباس کے زمانہ میں بعض علوی سادات غیبت وروپوشی کی زندگی گزارتے تھے اور یہ چیز اس زمانہ میں مرسوم تھی _ چنانچہ جب ان میں سے کو ئی غائب ہوتا تھا تو فریقین کی توجہ اسی کی طرف مبذول ہو جاتی تھی _ ایک طرف قوم کی نگاہیں اس پر مر کوز ہوتی تھیں خصوصاََاس وقت جب غائب ہونے والے میں کوئی مہدی کی علامت ہوتی ، اور وہ غیبت تھی_دوسری طرف خلافت کی مشنری اسے خوف زدہ ، مضطرب اور حساس ہوجاتی خصوصااس میں مہدی کی کوئی علامت دیکھتے اوریہ محسوس کرتے کہ لوگ اس کو احتمالی طور پر مہدی سمجھ رہے ہیں _ ممکن ہے اس کی وجہ سے ایسا انقلاب وشورش بر پاہوجائے کہ جس کے کچلنے میں خلافت کی مشنری کو بہت بڑ انقصان اٹھا نا پڑ ے _

اب آپ بنی عباس کے انقلابی اور بحرانی حالات یعنی نقل احادیث اور کتابوں کی تالیف کے زمانہ کا نقشہ کھینچ سکتے ہیں اور یہ انصاف کر سکتے ہیں کہ مولفین ، علماء اور احادیث کے روات آزاد نہیں تھے کہ مہدی موعود سے متعلق خوصا مہدی کے قیام و غیبت سے مربوط احادیث کو اپنی کتابوں میں تحریر کرتے _ کیا آپ یہ خیال کرتے ہیں کہ

____________________

۱_ مقاتل الطالبین ص ۲۹۴ _۲۹۶

۲۱۰

مہدویت کے مقابلہ میں ، جو کہ اس زمانہ میں سیاسی مسئلہ بن چکا تھا ، نے کوئی مداخلت نہیں کی ہوگی اور احادیث کے روات کو آزاد چھوڑ یا ہوگا کہ وہ مہدی منتظر اور ان کے قیام و غیبت سے مربوط احادیث کو ، جو کہ سراسراکے ضرر میں تھیں ، کتابوں میں در ج کریں ؟

ممکن ہے آپ یہ خیال کریں کہ : خلفائے بنی عباس کم از کم اتناتو جانتے ہی تھے کہ دانشوروں کو محدود رکھتے اور ان کے امور میں مداخلت کرنے میں معاشرہ کی بھلائی نہیں ہے _ روایت احادیث اور علماء کو آزاد چھوڑ دینا چاہئے تا کہ وہ حقائق لکھیں اور بیان کریں اور لوگوں کو بیدار کریں _ اس لئے میں خلفائے بنی عباس بلکہ ان سے پہلے خلفاء کی بے جامد اخلت کے چند نمونے پیش کرنے کیلئے مجبور ہوں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے:

خلفا کے زمانہ میں سلب آزادی

ابن عسا کرنے عبدالرحمان بن عوق سے روایت کی ہے کہ عمر بن خطاب نے اصحاب رسول (ع) ، جیسے عبد اللہ بن خدیفہ ، ابو دردا ، ابوذر غفاری اور عقبہ بن عامر کو اسلامی شہروں سے طلب کیا اور سرزنش کرتے ہوئے کہا :

"پیغمبر (ع) سے تم لوگ کیا کیا حدیثیں نقل کرتے اور لوگوں میں پھیلاتے ہو؟ اصحاب نے جواب دیا یقینا آپ ہمیں حدیثیں بیان کرنے سے منع کرنا چاہتے ہیں ؟

عمر نے کہا : تم لوگ مدینہ سے با ہر نہیں جاسکتے اور جب تک میں زندہ ہوں مجھ سے دور نہیں ہوسکتے میں بہتر جانتا ہوں کہ کس حدیث کو قبول کرنا اور کس کو رد کرناہے _ اصحاب رسول (ع) عمرکی حیات تک ان کے پاس رہنے پر

۲۱۱

مجبور ہو گئے _(۱)

معاویہ نے اپنے فرمانداروں کو حکم دیا کہ جو شخص بھی علی بن ابیطالب اور انکی اولاد کے فضائل کے بارے میں کوئی حدیث نقل کرتا ہے _ اس کے لئے امان نہیں ہے _(۲)

محمد بن سعد اور ابن عسا کرنے محمود بن عبید سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

میں نے عثمان بن عفان سے سنا کہ انہوں نے منبر کے اور پر سے کہا : کسی شخص کو ایسی حدیث نقل کرنے کا حق نہیں ہے جو کہ ابوبکر و عمر کہ زمانہ میں نقل نہ ہوئی ہو(۳) _

معاویہ نے اپنے فرمانداروں کو لکھا : لوگوں کو صحابہ اور خلفا کے فضائل میں حدیثیں نقل کرنے کا حکم دو اور انھیں اس بات پرتیار کرو کہ جو احادیث حضرت علی بن ابیطالب کے فضائل کے سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں ایسی ہی احادیث کو صحابہ کے بارے میں بیان کریں _(۴)

مامون نے ۲۱۸ ہ میں عراق اور دوسرے شہروں کے علماو فقہا کو جمع کیا اور ان کے عقائد کے بارے میں بازپرس کی اور پوچھا کہ قرآن کے بارے میں تمہارا کیا عقیدہ ہے؟ اسے قدیم سمجھتے ہو یا حادث ؟ پس جو لوگ قرآن کو قدیم مانتے تھے انھیں کافر قرار دیا اور شہروں میں لکھ کر بھیجدیا کہ ان کی شہادت قبول نہ کی جائے _ اس لئے تمام علما قرآن کے بارے میں مامون کے عقیدہ کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوگئے لیکن چند افراد نے

____________________

۱_ اضواء علی السنة الحمدیہ ص ۲۹

۲_ نصائح الکافیہ مولفہ سید محمد بن عقیل طبع سوم ص ۸۷_

۳_ اضواء علی السنة المحمدیہ ص ۳۰_

۴_ نصائح الکافیہ ص ۸۸_

۲۱۲

قبول نہیں کیا _(۱)

حجاز کے بڑے فقیہ مالک بن انس نے مدینہ کے گورنر جعفر بن سلیمان کے مزاج کے خلاف ایک فتوی دیدیا_ حاکم نے انھیں بہت ہی رسوائی کے ساتھ طلب کیا اور ستر تازیانے لگانے کا حکم دیاجس سے وہ ایک مدت تک بستر سے نہ اٹھ سکے _

بعد میں منصور نے مالک کو طلب کیا ابتدائے گفتگو میں جعفر بن سلیمان کے تازیانہ لگانے پر اظہار افسوس کیا اور معذرت چاہی اس کے بعد کہا : فقہ و حدیث کے موضوع پر آپ ایک کتاب تالیف کیجئے لیکن اس میں عبد اللہ بن عمر کی دشوار ، عبداللہ بن عباس کی سہل و آسان اور ابن مسعود کی شاذ حدیثیں جمع نہ کیجئے _ صرف ان مطالب کو جمع کیجئے جن پر صحابہ کا اتفاق ہے _ جلد لکھئے تا کہ ہم اسے تمام شہروں میں بھیجدیں اور لوگوں کے لئے اس پر عمل کرنے کو لازم قرار دیدیں _ مالک کہتے ہیں فقہ و علوم کے سلسلے میں عراقیوں کا دوسرا عقیدہ ہے وہ ہماری باتوں کو قبول نہیں کریں گے ، منصور نے کہا: آپ کتاب لکھئے ہم اس پر عراق کے لوگوں سے بھی عمل کرائیں گے اور گر وہ روگردانی کریں گے تو ہ ان کی گردن ماردیں گے اور تازیانوں سے بد ن کو سیاہ کردیں گے _ کتاب کی تالیف میں جلد کیجئے ، سال آئندہ میں اپنے بیٹے مہدی کو کتاب لینے کے لئے آپ کے پاس بھیجوں گا _(۲)

معتصم عباس نے احمد بن حنبل کو بلایا اور قرآن کے مخلوق ہونے کے سلسلے میں ان کا امتحان لیا اور ا--سی کوڑے لگانے کا حکم دیا _(۳)

____________________

۱_ تاریخ یعقوبی ج ۳ ص ۲۰۲_

۲_ الامامہ و السیاسة ج ۲ ص ۱۷۷ و ۱۸۰_

۳_ تاریخ یعقوبی ج۳ ص ۲۰۶_

۲۱۳

منصور نے ابوحنیفہ کو بغداد بلا کر زہر دیا _(۱)

ہاروں رشید نے عباد بن عوام کے گھر کو ویران کردیا اور احادیث نقل کرنے سے منع کردیا _(۲)

خالد بن احمد ''بخارا'' کے گورنر نے محمد بن اسماعیل بخاری ، ایسے عظیم محدث سے کہا : اپنی کتاب مجھ پر ھکر سناؤ_ بخاری نے اس سے انکار کیا اور کہا :اگر یہی بات ہے تو مجھے نقل احادیث سے منع کردو تا کہ خدا کے نزدیک معذور ہوجاؤں _ اس بناپر بخاری ایسے عالم کو جلا وطن کردیا _ وہ سمرقند کے دیہات خزننگ چلے گئے اور آخری عمر تک وہیں اقامت گزیں رہے _ راوی کہتا ہے کہ میں نے بخاری سے سنا کہ وہ نماز تہجد کے بعد خدا سے مناجات کرتے اور کہتے تھے: اے اللہ اگر زمین میرے لئے تنگ ہوگئی ہے تو مجھے موت دیدے چنانچہ اسی مہینے میں ان کا انتقال ہوگیا _(۲)

جب نسائی نے حضر ت علی بن ابیطالب کے فضائل جمع کرکے اپنی کتاب خصائص تالیف کی تو لوگوں نے انھیں دمشق بلایا اور کہا: ایسی ہی ایک کتاب معاویہ کے فضائل کے سلسلے میں تالیف کرو، نسائی نے کہا: مجھے معاویہ کی کسی فضیلت کا علم نہیں ہے ، صرف اتنا جانتا ہوں کے پیغمبر (ص) نے اس کے بارے میںفرمایا ہے کہ: خدا کبھی معاویہ کو شکم سیر نہ کرے _ یہ سنکر لوگوں نے اس عالم کو جوتوں سے مارا اور ان کے خصیوں کو

____________________

۱_ مقاتل ص ۲۴۴_

۲_ مقاتل ص ۲۴۱_

۳_ تاریخ بغداد ج ۲ ص ۳۳_

۲۱۴

اتنا دبایا کہ مرگئے _(۱)

فیصلہ

خلفا کے بحرانی اور انقلابی حالا ت ، مسئلہ مہدویت خصوصاً موضوع غیبت و قیام، جو کہ مکمل طور پر سیاسی بن گیا تھا اور عام لوگ اس کی طرف متوجہ تھے ، اس سے فائدہ اٹھایا جارہا تھا ، روات احادیث اور صاحبان قلم پر پابندیاں عائد تھیں _ ان تما م چیزوں کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کیجئے : کیا صاحبان قلم ، روات احادیث مہدی موعود ، آپ کے علائم و آثار اور غیبت و قیام سے متعلق احادیث نقل کر سکتے تھے؟ کیا خلفائے وقت نے لکھنے والوں کو اتنی آزادی دے رکھی تھی کہ انہوں نے جو کچھ سنا یا پڑھاہے اس کی روایت کریں اور اپنی کتابوں میں لکھیں؟ یہاں تک ان احادیث کو بھی قلم بند کریں جو خلافت کے لئے خطرہ کا باعث اور سیاسی رنگ میں رنگی ہوں

کیا مالک بن انس اور ابو حنیفہ اپنی ان کتابوں میں جو کو منصور عباسی کے حکم سے تالیف ہوئی تھیں مہدویت اور علویین کی غیبت سے متعلق احادیث نقل کر سکتے تھے؟ جبکہ اسی زمانہ میں محمد بن عبداللہ بن حسن اور ان کے بھائی ابراہیم غائب تھے اور بہت سے لوگوں کا عقیدہ تھا کہ محمد ہی مہدی موعود ہیں جو کہ قیام کریں گے ، ظلم و طتم کا قلع و قمع کریں گے او ردنیا کی اصلاح کریں گے : با وجودیکہ غیبت اور محمد کے قیام سے منصور بھی خوف زدہ تھا اور انھیں گرفتار کرنے کے لئے علویوں کے ایک بے گناہ گروہ کو قیدی بنا

____________________

۱_ نصائح الکافیہ ص ۱۰۹_

۲۱۵

رکھا تھا _ کیا اسی منصور نے ابوحنیفہ کو زہر نہیں دیا تھا؟ کیا اس کے گور نر جعفر بن سلیمان نے مالک بن انس کو کوڑے نہیں لگوائے تھے؟

کیا اسی منصور نے جب مالک بن انس کو کتاب تالیف کرنے کا حکم دیا تھا تو ان کے کام میں مداخلت نہیں کی تھی اور صریح طور پر یہ نہیں کہا تھا کہ اس کتاب میں عبداللہ بن عمر، عبداللہ بن عباس اور ابن مسعود کی حدیثیں نقل نہ کرنا؟ اور جب مالک نے یہ کہا: عراق والوں کے پاس بھی علوم و احادیث ہیں ممکن ہے وہ ہماری احادیث کو قبول نہ کریں ، منصور نے کہا: ہم آپ کی کتاب پر نیزوں کی انی اور تازیانوں کے زور سے عمل کرائیں گے ؟ کیا منصور سے کوئی یہ کہہ سکتا تھا کہ لوگوں کے دینی امور می تمہیں مداخلت کا کیا ۳حق ہے ؟ تمہیں کیسے معلوم کہ عراق والوں کے علوم و احادیث باطل ہیں ؟ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر اور ابن مسعود کا کیا جرم ہے جو تم ان کی احادیث قبول نہیں کرتے؟

تدوین احادیث کے سلسلہ میں منصور جیسے لوگوں نے جو بے جا مداخلت کی ہے میں اس کا صحیح محل تلاش نہیں کر سکتا _ بس یہ کہا جا سکتا ہے کہ عبداللہ بن عباس ، عبداللہ بن عمر اور ابن مسعود کی احادیث خلاف کی مشنری کے موافق نہیں تھیں اس لئے ان کے نقل کرنے میں قدغن تھی_ مالک کے بارے میں لکھتے ہیں ایک لاکھ احادیث سنی تھیں لیکن'' موطا'' میں پانچ سوسے زیادہ نہیں ہیں _(۱)

کیامعتصم سے کوڑے کھانے والے احمد بن حنبل ، جلا وطن ہونے والے بخاری اور زدکوب میں جان دینے والے نسائی اپنی کتابوں میں ایسی احادیث لکھ سکے ہیں جو علویوں

____________________

۱_ اضواء ص ۲۷۱

۲۱۶

کے موافق اور دربار خلافت کے مخالف تھیں ؟

نتیجہ

گزشتہ بحث سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے ، چونکہ احادیث مہدویت خصوصاً غیبت و قیام سے متعلق احادیث سیاسی صورت حال اختیار کر چکی تھیں اور خلافت کی مشنری کے ضرر اور اس کے مخالف یعنی علویوں کے حق میں تھیں _ اس لئے علمائے اہل سنّت پابندی کی وجہ سے انھیں اپنی کتابوں میں ڈرج نہیں کر سکے اور اگر لکھی ہوں گی تو انھیں ظالم سیاستمداروں نے محو کردیا ہے _ شاید ابہام و اجمال کی صورت میں وجود مہدی اس لئے حوادث کی دست برد سے محفوظ رہ گیا کہ حکومت کو اس سے کوئی ضرر نہیں تھا _ لیکن مہدی موعود کے مکمل آثار و علائم اور احادیث کو اہل بیت رسول (ص) اور ائمہ اطہار نے ، جو کہ علوم پیغمبر(ص) کے محافظ تھے ، محفوظ رکھا اور وہ آج تک شیعوں کے درمیاں باقی ہیں _

اس کے باوجود اہل سنّت کی کتابیں غیبت کے موضو ع سے خالی نہیں ہیں _ مثلاً ایک روز حذیفہ کے سامنے کہا گیا : مہدی نے خروج کیا ہے _ حذیفہ نے کہا : اگر مہدی نے ظہور کیا ہے تو یہ تمہارے لئے بڑی خوش قسمتی کی بات ہے جبکہ ابھی اصحاب پیغمبر(ص) زندہ ہیں لیکن ایسا نہیںمہدی اس وقت تک خروج نہیں کریں گے جب تک لوگوں کے نزدیک مہدی سے زیادہ کوئی غائب محبوب نہ ہو _(۱)

یہاں حذیف نے موضوع غیبت کی طرف اشارہ کیا ہے _ حذیفہ حوادث زمانہ اور

____________________

۱_ الحادی للفتاوی ج ۲ ص ۱۵۹_

۲۱۷

اسرار پیغمبر(ص) سے واقف و آگاہ ہیں _ و ہ خود کہتے ہیں : میں مستقبل کے حوادث اور فتنوں کو تمام لوگوں سے بہتر جانتا ہوں _ اگر چہ ان چیزوں کو رسول (ص) نے ایک مجلس میں بیان کیا تھا _

لیکن حاضرین میں سے اب میرے سوا کوئی باقی نہیں ہے _(۱)

جلالی : امام غائب کتنے سال زندہ رہیں گے؟

ہوشیار : آپ (ع) کی زندگی اور عمر کی مقدار معین نہیں ہوئی ہے _ لیکن اہل بیت کی احادیث طویل العمر قرار دیتی ہیں مثلاً امام حسن عسکری (ع) نے فرمایا:

''میرے بعد میرا بیٹا قائم ہے اس میں پیغمبروں کی دو خصوصیتیں یہ بھی ہوں گی کہ وہ عمر دراز ہوں گے اور غیبت اختیار کریں گے _ ان کی طولانی غیبت سے دل تاریک اور سخت ہوجائیں گے ، آپ(ع) کے عقیدہ وہی لوگ باقی و قائم رہیں گے کہ خدا جن کے دلوں میں ایمان استوار رکھے گا اور غیبی روح کے ذریعہ ان کے مدد کرے گا _(۲) اس سلسلہ میں ۴۶ حدیثیں اور ہیں _

ڈاکٹر: امام زمانہ سے متعلق ابھی تک آپ نے جو باتین بیان فرمائی ہیں وہ سب مستدل اور قابل توجہ ہیں _ لیکن ایک اہم اعتراض ، کہ جس نے میرے اور تمام احباب کے ذہن کو ماؤف کررکھا ہے اور ابھی تک اما م غائب کے وجود کے سلسلے میں متردد ہیں وہ طول عمر ہے _ علما اور تعلیم یافتہ طبقہ ایسی غیر طبیعی عمر کو قبول نہیں کر سکتا کیونکہ بدن کے خلیوں کی عمر محدود ہے _ بدن کے اعضاء رئیسہ ''قلب'' ''مغز'' پھیپھڑ ے اور ''جگر''

____________________

۱_ تاریخ ابن عساکر ج ۴ ص ۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۲۴_

۲۱۸

کام کرنے کیلئے معین استعداد کے حامل ہیں _ میں اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک طبیعی انسان کا قلب ہزار سال سے زیادہ کام کرسکتا ہے _ صریح طور پر عرض کروں : ایسے موضوعات اس علمی زمانہ میں کہ جس مین فضا کو مسخر کرلیا گیا ہے ،دنیا والوں کے سامنے پیش نہیں کی جا سکتا _

ہوشیار : ڈاکٹر صاحب مجھے بھی اس بات کا اعتراف ہے کہ حضرت ولیعصر کی طولعمر کا مسئلہ مشکل مسائل می ایک ہے _ میں بھی علم طل و علم الحیات سے نا واقف ہوں لیکن حق با ت قبول کرنے کے لئے تیار ہوں ، حضور ہی طول عمر سے متعلق اپنی قیمتی معلومات سے نوازیں _

ڈاکٹر: مجھے بھی اس بات کا اعتراف کرنا چاہئے کہ میری علمی اطلاعات بھی اتنی نہیں ہیں جو کہ ہماری بنیادی مشکل کو حل کر سکیں _ اس بناپر ہمیں کسی سائنسد اں کی معلومات استفادہ کرنا چاہئے _ میں سمجھتا ہوں کہ یہ کام اصفہان کی میڈیکل کالج کے پروفیسر ڈاکٹر نفیسی کے ذمہ کیا جائے اور ان کے علم سے استفادہ کیا جائے ، کیونکہ موصوف کلاسیکی تعلیم کے علاوہ محقق بھی ہیں اور ایسے مطالب سے دل چسپی بھی رکھتے ہیں _

ہوشیار : کوئی حرج نہیں ہے _ میں اس سلسلے میں کچھ سوالات لکھتا ہوں اور بذریعہ خط ڈاکٹر نفیسی صاحب کی خدمت میں ارسال کرتا ہوں اور جواب کا تقاضا کرتا ہوں _ بہتر ہے کہ جلسہ کو ملتوی کردیا جائے ہو سکتا ہے اس مدت میں طول عمر کے موضوع پر ہم تحقیق کرلیں اور کامل بصیرت کے ساتھ بحث میں وارد ہوں ڈاکٹر نفیسی کا جواب موصول ہونے کے بعد جلالی صاحب آپ کا فون کے ذریعہ اطلاع دیں گے _

۲۱۹

طول عمر کے سلسلہ میں تحقیق

ایک ماہ تک تقریباً جلسہ ملتوی رہا یہاں تک جلالی صاحب نے احباب کو فون پر اطلاع دی چنانچہ ہفتہ کی شب میں سب ان کے گھر میں جمع ہوئے _ معمولی ضیافت کے بعد جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _

ہوشیار : خوش قسمتی سے ڈاکٹر نفیسی صاحب کا جواب آگیا ہے انکی ذرہ نوازی کے شکریہ کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے اس خط کے متن کی پڑھنے کی خواہش کرتا ہوں _

ڈاکٹر : کوئی حرج نہیں ہے _

محترم جنا ب خط ملا اظہار محبت اور ذرہ نوازی کا شکریہ جو مطالب آپ نے تحریر کئے ہیں ، اگر میری مشغولیتیں بہت زیادہ ہیں ، لیکن مطالعہ ، خصوصاً طبیعی ، آفاقی و انفسی مسائل میں تحقیق سے مجھے دلچسپی ہے اس لئے فراغت کے اوقات میں جنابعالی کے سوالات کے جواب د ینا ضروری سمجھتا ہوں خواہ مختصر ہی کیوں نہ ہوں _ امید ہے وہ عقیدت مندوں کو پسند آئیں گے _

کیاانسان کی عمر کی حد معین ہے ؟

ہوشیار: کیا علم طب و علم الحیات میں انسان کی حیات کی کوئی حد معین

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

ہوشیار: سفیانی کی احادیث کو عامہ و خاصہ دونوں نے نقل کیا ہے بعید نہیں ہے کہ متواتر ہوں _ صرف احتمال اور ایک مدعی کے وجود سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور جعلی نہیں کہا جا سکتا ہے _ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لوگوں کے درمیان حدیث سفیانی شہرت یافتہ تھی اور لوگ اس کے منتظر تھے بعض لوگوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور خروج کرکے کہنے لگے : ہم ہی سفیانی منتظر ہیں اور اس طرح ایک گروہ کو فریفتہ کرلیا _

۲۸۱

دجال کا واقعہ

جلالی: دجال کے خروج کو بھی ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے ، ایک چشم ہے ، وہ بھی پیشانی کے بیچ میں سے ، ستارہ کی مانند چمکتی ہے _ اس کی پیشانی پر لکھا ہے ''یہ کافر ہے '' اس طرح کہ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے _ کھانے کے ( پہاڑ) ہوٹل اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا _ ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا _ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا ، زمین گلہ اگائے گی _ زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے _ مردوں کو زندہ کرے گا _'' میں تمہارا بڑا خدا ہوں ، میں ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور میں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو '' یہ جملہ اتنی بلند آوازمیں کہے گا کہ سارا جہان سنے گا _

کہتے ہیں رسول کے زمانہ میں بھی تھا ، اس کا نام عبداللہ یا صائدبن صید ہے ، رسول اکرم (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے _ وہ اپنی خدائی کا دعوی کرتا تھا _ عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پیغمبر (ص) نے منع کردیا تھا _ ابھی تک زندہ ہے _ اور آخری زمانہ میں اصفہان کے مضافات میں سے یہودیوں کے گاؤں سے خروج کریگا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۳ ، صحیح مسلم ج ۸ ، ص ۴۶ تا ص ۸۷ ، سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۱۲_

۲۸۲

علما نے تمیم الدا می سے ، جو کہ پہلے نصرانی تھا اورسنہ ۹ ھ میں مسلمان ہوا تھا ، سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے مغرب کے ایک جز یرہ میں دجال کو دیکھا ہے کہ زنجیر و در غل میں تھا(۱)

ھوشیار : انگریزی میں دجال کو انٹی کرایسٹ ( antlchrlst ) کہتے ہیں یعنی مسیح کا دشمن یا مخالف _ دجال کسی مخصوص و معین شخص کا نام نہیں ہے بلکہ لغت عرب میںہر دروغ گو اور حیلہ باز کو دجال کہتے ہیں _ انجیل میں بھی لفظ دجال بہت استعمال ہوا ہے _

یو حنا کے پہلے رسالہ میں لکھا ہے : جو عیسی کے مسیح ہوتے کا انکار کرتا ہے ، دروغگو اور دجال ہے کہ با پ بیٹے کا انکار کرتا ہے(۲)

اسی رسالہ میں لکھا ہے : تم تھ سنا ہے کہ دجال آئے گا ، آج بہت سے دجال پیدا ہوگئے ہیں مذکورہ رسالہ میں پھر لکھتے میں ، وہ ہراس روج کا انکار کرتے ہیں جو عیسی میں مجسم ہوئی تھی اور کہتے ہیں وہ روح خدانہیں تھی _ یہ و ہی روح دجال ہے جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا وہ اب بھی دنیا میں موجود ہے(۳)

یوحنا کے دوسرے رسالہ میں لکھا ہے چونکہ گمراہ کرنے والے دنیا میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ جسم میں ظاہر ہوتے والے عیسی مسیح کا اقرار نہیں کرتے ہیں

____________________

۱_ صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤدج ۳ ص ۳۱۴

۲_ رسالہ یوحنا باب ۲ آیت ۲۲

۳ _ رسالہ اول باب ۲ آیت ۱۸

۲۸۳

یہ ہیں گمراہ کرنے والے دجال_(۱)

انجیل کی آتیوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ دجال کے معنی گمراہ کرنے والے اور دروغگو ہیں _ نیز عیاں ہوتا ہے کہ دجال کا خروج ، اس کا زندہ رہنا اس زمانہ میں بھی نصاری کے در میان مشہور تھا اور وہ اس کے خروج کے منتظر تھے _

ظاہرا حضرت عیسی نے بھی لوگوں کو دجال کے خروج کی خبردی تھی اور اس کے فتنہ سے ڈرایا تھا _ اسی لئے نصاری اس کے منتظر تھے اور قوی احتمال ہے کہ حضرت عیسی نے جس دجال کے بارے میں خبردی تھی ، وہ دجال ودروغگو حضرت عیسی کے پانچ سو سال بعد ظاہر ہواتھا اور اپنی پیغمبر ی کا جھوٹا دعوی کیا تھا _ اسی کو دار پرچڑ ھا یا گیا تھانہ عیسی نبی کو _(۲)

دجال کے وجود سے متعلق مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں پیغمبر اسلام (ع) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے اور فرماتے تھے :

حضرت نوح کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبر اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرا تے تھے(۳)

رسول (ع) کا ارشاد ہے : اسی وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک

____________________

۱ _صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤد ج ۳

۲ _رسالہ دوم یوحنا آیت ۷

۳ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۷

۲۸۴

تیس دجال ، جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ، ظاہر نہیں ہوں گے _(۱)

حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے :

اولاد فاطمہ سے پیدا ہونے والے دو دجالوں سے بچتے رہنا ، ایک دجال وہ جو دجلہ بصرہ سے خروج کرے گاوہ مجھ سے نہیں ہے وہ دجال(۲) کا مقدمہ ہے _

رسول(ع) کا ارشاد ہے :

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک تیس دروغگو دجال ظاہر نہ ہوں گے اور وہ خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ باند ھیں گے(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :

دجال کے خروج سے قبل ستر سے زیادہ و دجال ظاہر ہوں گے(۴)

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دجال کسی معین و مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر دروغگو اور گمراہ کرنے والے کو دجال کہا جا تا ہے _

مختصر یہ کہ دجال کے قصہ کو کتاب مقدس اور نصاری کے در میان تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس کی تفصیل اور احادیث اہل سنت کی کتابوں میں ان ہی طریق سے نقل ہوئی ہیں _

____________________

۱ _ سنن ابی داؤد ج ۲

۲ _ ترجمہ الحلاحم والفتن ص ۱۱۳

۳_ سنن ابی داؤد ج ۲

۴_ مجمع الزواید ج ۷ ص ۳۳۳

۲۸۵

بہرحال اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے لیکن اس کی جو تعریف و توصیف کی گئی ہے _ ان کا کوئی قابل اعتماد مدرک نہیں ہے(۱)

دجال کا اصلی قضیہ اگر چہ صحیح ہے لیکن یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے افسانوں کی آمیزش سے اس کس حقیقی صورت مسخ ہوگئی ہے _ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے وقت آخری زمانہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فریب کار او ر حیلہ سازی میں سب سے آگے ہوگا اور دورغگوئی میں گزشتہ دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے اور رکیک دعوؤں سے غافل رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زمیں و آسمان اس کے ہا تھ میںہیں ، اتنا جھوٹ بولے گا کہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی و نیکی ثابت کرے گا بہشت کو جہنّم اور جہنم کو جنت بنا کرپیش کرے گا لیکن اس کا کفر تعلیم یافتہ اوران پڑ ھہ لوگوں پرواضح ہے _

اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صائد بن صید دجال ، رسول (ص) کے زمانہ سے آج تک زندہ ہے _ کیونکہ حدیث کی سند ضعیف ہے اس کے علاوہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا جبکہ صائد بن صید ان دونوں میں داخل ہوا اور مدینہ میں مرا چنانچہ ایک جماعت اس کی موت کی گواہ ہے _ بالفرض پیغمبر (ص) اکرم نے صائد بن صید کو اگر دجال کہا تھا تو وہ دروغگو کے معنی میں کہا تھا نہ کہ علائم ظہور والا دجال کہا تھا _ بعبارت دیگر پیغمبر اسلام نے صائد بن صید سے ملاقات کی اور اپنے

____________________

۱_ کیونکہ اس کا مدرک وہ حدیث ہے جو بحار الانوار میں نقل ہوی اور اس کی سند میں محمد بن عمر بن عثمان ہے جو کہ مجہول الحال ہے _

۲۸۶

اصحاب میں سے اسے دجال کا مصداق قرار دیا اور چونکہ بعد والے زمانہ میں دجال کے خروج کی خبر دی تھی اس لئے دونوں موضوعات میں اشتباہ ہوگیا اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر (ص) نے صائد کو دجال کہا ہے لہذا یہی آخری زمانہ میں خروج کرے گا اور اسی سے انہوں نے اس کی طول حیات کا نتیجہ بھی اخذ کرلیا ہے _

۲۸۷

دنیا والوں کے افکار

مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو ا ڈاکٹر صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

ڈاکٹر : انسانوں کے درمیان ان تما م رایوں اور عقائد کے اختلاف اور دیگر اختلافی مسائل کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے پور دنیا کا نظم و نسق ایک حکومت کے اختیار میں ہوگا اور روئے زمین پر صرف مہدی کی حکومت ہوگی ؟

ہوشیار: اگر دنیا کے عمومی حالات اور انسان کی عقل و ادراکات کی یہی حالت رہی تو ایک عالمی حکومت کی تشکیل بہت مشکل ہے _ لیکن جیسا کہ گزشتہ زمانہ میں انسان کا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ کے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھی نہیں رکے گا _

بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انسان کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں تعلق و تمدن اور اجتماعی مصالح کے درک میں وہ اور زیادہ ترقی کرے گا _ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ہم گزشتہ زمانے کے انسان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تا کہ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں _

یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ خودخواہی اور منفعت طلبی طبیعی چیز ہے اور اسی کسب کمال سعادت طلبی اور حصول منفعت کے جذبہ نے انسان کو کوشش

۲۸۸

و جانفشانی پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان اپنی طاقت کے طاقت کو شش کرتا ہے اور اس راہ کے موانفع کو برطرف کرتا ہے لیکن دوسروں کے فائد کے بارے میں غور نہیں کرتا _ ہاں جب دوسروں کے منافع سے اپنے مفادات وابستہ دیکھتا ہے تو ان کا بھی لحاظ کرتا ہے اور اپنے کچھ فوائد بھی ان پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے _ شاید اولین بار انسان خودخواہی کے زینہ سے اتر کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے شادی کے وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ مرد و عورت یہ احساس کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اسی احتیاج کے احساس نے مرد و عورت کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم کیا ہے _ چنانچہ دونوں اس کو مستحکم بنانے کے سلسلہ میں خودخواہی کو اعتدال پر لانے اور دوسرں کے فوائد کو ملحوظ رکھنے کے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت کے یک جا ہونے سے خاندان کی تشکیل ہوئی _ حقیقت ہے کہ خاندان کے ہر فرد کا مقصد اپنی سعادت و کمال کی تحصیل ہے لیکن چونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس کی سعادت خاندان کے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان کی سعادت کا بھی متمنی ہوتا ہے اور اس کے اندر تعاون کا جذبہ قوی ہوتا ہے _

انسان نے مدتوں خانوادگی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں کے انکار نے ترقی کی اور انہوں نے اس بات کا احساس کیا کہ سعادت مندی اور دشمنوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بڑے معاشرہ کی تشکیل ضروری ہے _ اس فکر کی ترقی اور ضرورت کے احساس سے طائفے اور قبیلے وجود میں آئے اور قبیلے کے افراد تمام افراد کے منافع کو ملحوظ رکھنے کے لئے تیار ہوگئے

۲۸۹

اور اپنے ذاتی و خاندانی بعض منافع کو قربان کرنے کیلئے بھی آمادہ ہوگئے _ اسی فکر ارتقاء اور ضرورت کے احساس نے انسان کو طول تاریخ میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنی سکونت کیلئے شہر و دیہات آباد کئے تا کہ اپنے شہر والوں کے منافع کا لحاظ رکھیں اور ان کے حقوق سے دفاع کریں _

انسان مدتوں اسی ، نہج سے زندگی گزارتا رہا ، یہاں تک کہ حوادث زمانہ اور خاندانی جھگڑے اور طاقتوروں کے تسلط نے انسان کو چھوٹے سے دیہات کو چھوڑ کر شہر بنانے پر ابھارا کہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسایہ دیہات و شہروں سے ارتباط رکھنے کے لئے بھی ہے تا کہ خطرے اور طاقتور دشمن کے حملہ کے وقت ایک دوسرے سے مدد حاصل کرسکیں _ اس مقصد کے تحت ایک بڑا معاشرہ وجود میں آیا او راس کے وسیع علاقہ کو ملک و سلطنت کے نام سے یاد کیا جانے لگا _

ملک میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی فکر نے اتنی ترقی کی کہ وہ اپنے ملک کی محدود سرزمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس ملک کے باشندوں کو ایک خاندان کے افراد شمار کرتے ہیں اور اس ملک کے اموال و ذخائر کو اس کے باشندوں کا حق سمجھتے ہیں _ اس ملکہ کے ہر گوشہ کی ترقی سے لذت اندوز ہوتے ہیں _ لسانی ، نسلی ، شہری اور دیہاتی اختلافات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ملک کے تمام باشندوں کی سعادت کو اپنی سعادت و کامیابی تصور کرتے ہیں _ واضح ہے کہ اس ملک کے افراد میں جس قدر فکری ہم آہنگی و ارتباط قوی ہوگا اور اختلاف کم ہوگا اسی کے مطابق اس ملک کی ترقیاں زیادہ ہوں گی _ انسان کا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ صدیوں اور ہزاروں حوادث

۲۹۰

اور گوناگون تجربات کے بعد ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _

ہزاروں سال کی طویل مدتوں اور حوادث زمانہ کے بعد انسان کی فکر نے ترقی کی اور کسی حد تک خودخواہی و کوتاہ نظری سے نجات حاصل کی لیکن اب بھی خاصی ترقی نہیں کی ہے اس پر اکتفا نہیں کر سکتا _ آج بھی علمی و صنعتی ترقی کے سلسلہ میں دنیا کے ممالک کے درمیان خاص روابط برقرار ہوتے ہیں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ کے دوران طے کیا ہے اسے آج بھی گھنٹوں اور منٹوں میں طے کررہے ہیں _ دور دراز سے ایک دوسرے کی آواز کو سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں _ ملک کے حوادث و اوضا ع ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں _ آج انسان اس بات کا احساس کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کو محکم طریقہ سے بند نہیں کرسکتا اور تمام ممالک سے قطع تعلق کرکے عزلت گزینی کی زندگی نہیں گزارسکتا _ عالمی حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ایک ملک کے معاشرہ اور اجتماع میں یہ طاقت نہیں ہے کہ لوگوں کی سعادت و ترقی کی راہ فراہم کرسکے اور انھیں حوادث و خطرات سے بچا سکے _ اس لئے ہر ملک اپنے معاشرہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے _

بشر کی یہ درونی خواہش کبھی جمہوریت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کبھی مشرق و مغرب کے بلاؤں کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے کبھی اسلامی ممالک کے اتحادیہ کی شکل میں وجود پذیر ہوتی ہے کبھی سرمایہ داری اور کمیونسٹ نظام کے پیکر میں سامنے آتی ہے _ اس اتحاد کی اور سیکڑوں مثالیں ہیں /و کہ روح انسان کے رشد اور اس وسعت طلبی کی حکایت کرتی ہیں _

آج انسان کی کوشش یہ ہے کہ عمومی معاہدوں اور اتحاد کو وسعت دی جائے

۲۹۱

ممکن ہے اس کے ذریعہ خطرات کا سد باب ہوسکے اور عالمی مشکلات و بحران کو حل کیا جا سکے اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کیلئے آسائشے و رفاہ کے وسائل فراہم ہو سکیں _

دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کی یہ کوشش و فعالیت اور وسعت طلبی ایک عالمی انقلاب کا مقدمہ ہے ، عنقریب دنیائے انسانیت پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ اتحاد بھی محدود ہے لہذا عالمی خطرات و مشکلات کو حل نہیں کرسکتے یہ اتحاد صرف کسی درد کی دوا ہی نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہو کہ مزید مشکلات کھڑی کردیتے ہیں _

انسان ابھی تجربہ کی راہ سے گزرہاہے تا کہ ان اتحادات کے ذریعہ جہاں تک ہوسکے خودخواہی کے احساس کو بھی ختم کرے اور عالمی خطرات و مشکلات کو بھی ختم کرے _ وہ ایک روز اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوگا کہ خودخواہی اور کوتاہ نظری انسان کو سعادت مند نہیں بنا سکتی _ اور لا محالہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ روئے زمیں کا ما حول ایک گھر کے ماحول سے مختلف نہیں ہے _ روئے زمین پر بسنے والے ایک خاندان کے افراد کی مانند ہیں _ جب انسان اس بات کو سمجھ جائے گا کہ غیر خواہی میں خود خواہی ہے تو اس وقت دنیا والوں کے افکار و خیالات سعدی شیرازی کے ہم آواز ہو کر اس بات کا اعتراف کریں گے _

بنی آدم اعضائے ایک دیگرند کہ در آفرینش زیک گوہرند

'' انسان آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ انکی خلقت کا سرچشمہ ایک ہی ہے ''

لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو قوانین و احکام اختلافات انگیز محدود نظام کے مطابق بنائے گئے ہیں وہ دنیا کی اصلاح کیلئے کافی نہیں ہیں _ عالمی اور اقوامی اتحاد کی

۲۹۲

انجمنوں کی تشکیل ، حقوق بشر کی تنظیم کی تاسیس کو اس عظیم فکر کا مقدمہ اور انسانیت کی بیداری اور اس کی عقل کے کمال کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑی طاقتوں کے دباؤں سے ابھی تک کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے اور ابھی تک اختلاف انگیز نظاموں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں لیکن ایسے افکار کے وجود سے انسان کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے _

دنیا کی عام حالت و حوادث کے پیش نظر اس بات کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں انسان ایک حساس ترین دورا ہے پر کھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادی گری یا خالص توحید سے _ یعنی انسان یا تو آنکھیں بند کرکے مادیت کو قبول کرلے اور خدا کے احکام کو ٹھکرادے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کو ٹھکرا دے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لے اور عالمی مشکللات اور بشری کی اصلاح آسمانی قوانین کے ذریعہ کرے اور غیر خد ا قوانین کو ٹھکرادے _ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسان کا خداپرستی اور دین جوئی کا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے اور جیسا کہ آسمانی ادیان خصوصاً اسلام نے پیشین گوئی کی ہے کہ آخر کار خدا پرستوں ہی کاگروہ کامیاب ہوگا اور دنیا کی حکومت کی زمام و اقتدا صالح لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور انسانوں کا بڑا معاشرہ انسانیت کے فضائل ، نیک اخلاق اور صحیح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائیں گے اور سارے انسان ایک خدا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے _ خداپرستوں کا گروہ اور حزب توحید ایمان کے محکم و وسیع حصار میں جاگزین ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرے گا

۲۹۳

قرآن مجید نے دنیا والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ :

'' آؤ ہم سب ایک مشترک پروگرام کو قبول کرلیں اور یہ طے کرلیں کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں گے اور انسانوں میں سے کسی کو واجب الاطاعت نہ سمجھیں گے _''(۱)

قرآن مجید اس عالمی انقلاب کے پروگرام کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے نافذ کرنے کی صلاحیت صرف مسلمانوں میں ہے _ رسول اکرم نے خبر دی ہے کہ جو شائستہ اور غیر معمولی افراد انسان کے گوناگون افکار و عقائد اور متفرق رایوں کو یک جا اور ایک مرکز پر جمع کریں گے اور انسانوں کی عقل کو کامل و بیدار کریں گے اور دشمنی کے اسباب و عوامل کا قلع و قمع کریں گے _ صلح و صفائی برقرار کریں گے _ وہ مہدی موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگی _ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

''جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو بندوں کے سرپرہاتھ رکھ کر ان کے پراگندہ عقل و فکر کو ایک جگہ کرے گا اور ایک مقصد کی طرف متوجہ کرے گا اور ان کے

اخلاق کو کمال تک پہنچادے گا '' _(۲)

حضرت علی (ع) بن ابیطالب فرماتے ہیں :'' جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگوں کے دلوں سے عداوت و دشمنی کی جڑیں کٹ جائیں گی اور عالمی امن کا دور ہوگا ''(۳)

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :'' ہمارے قائم کے ظہور کے بعد عمومی اموال اور زمین کے معاون و ذخائر آپ(ص) اختیار میں آئیں گے _(۴)

____________________

۱_ آل عمران /۹۴_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۶_

۳_ بحارالانوار جلد ۵۲ ص ۳۱۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۱_

۲۹۴

مستضعفین کی کامیابی

جلالی : آپ دنیا کی حالت کو جانتے ہیں کہ زمین کے ہر گوشہ میں مستضعفین و کمزورلوگوں پر ظالم و ستمگر و مستکبرین حکومت کررہے ہیں ، ان کی تمام چیزوں پر مسلط ہوگئے ہیں اور انھیں اپنی طاقت سے مرعوب کررکھا ہے _ ان حالات کے پیش نظر حضرت مہدی کیسے انقلاب لائیں گے اور کیونکر کامیاب ہوں گے ؟

ہوشیار: مستکبرین پر امام مہدی (ع) کی کامیابی دنیا کے مستضعفین کی کامیابی ہے _ جو کہ اکثریت میں ہیں اور ساری قدرت انھیں کی ہے _ مستکبرین کی تعدا د بہت ہی کم ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے _ اسی لئے امام مہدی کی کامیابی کا امکان ہے یہاں میں ایک بات کی تشریح کردوں تا کہ مدعا روشن ہوجائے _

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا بھر کے مستضعفین آخر کار اس عالمی انقلاب میں مستکبرین پر کامیاب ہوں گے کہ جس کے قائد امام مہدی ہونگے اور طاغوتی نظام کو ہمیشہ کیلئے نابود کرکے دنیا کی حکومت کی زمام سنبھالیں گے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ دنیا کے مستضعفین پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں اور زمین کی قدرت و تمکن

۲۹۵

ان کے دست اختیار میں دیدیں ''_(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ آیت اس بات کی حتمی نوید دے رہی ہے کہ دنیا کی طاقت اور جہان کا نظام مستضعفین کے ہاتھوں میں آئے گا _ اس بناپر امام مہدی کی کامیابی مستکبرین پر مستضعفین کی کامیابی ہوگی موضوع کی وضاحت کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں :

استضعاف کے کیا معنی ہیں اور مستضعفین کون لوگ ہیں ؟

مستکبرین کی کیا علامتیں ہیں؟

مستضعفین مستکبرین پر کیسے کامیاب ہوں گے ؟

اس عالمی انقلاب کی قیادت کوں کرے گا ؟

قرآن مجید میں مستضعفین کو مستکبرین و طاغوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے ان دونوں کی ایک ساتھ تحقیق کرنا چاہئے _ قرآن مجید میں مستکبرین کی کچھ علامتیں اورخصوصیات ذکر ہوئے ہیں ایک جگہ فرعون جیسے مستکبرین کے لئے فرماتا ہے :

'' بے شک فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھا یا تھا اور لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کیا تھا ایک گروہ کو کمزور بنادیا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا کیونکہ وہ مفسدوں میں سے تھا _(۲)

____________________

۱_ قصص/۵

۲_ قصص /۴

۲۹۶

مذکورہ آیت میں فرعوں کیلئے جو کہ مستکبرین میں سے ہے ، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں : اول بڑا بننا اور برتری چاہنا _ دوسرے لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا تیسرے فساد پھیلانا _ دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ :

'' فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھایا تھا کہ وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا''_(۱)

اس آیت میں اسراف اور سر اٹھانے کو بھی مستکبرین کی صفات قرار دیا گیا ہے دوسری آیت میں ارشاد ہے:

'' فرعون نے موسی کی تحقیر کی اور لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ لوگ فاسق تھے''(۲)

اس آیت میں لوگوں کی تو ہین کرنے کو مستکبرین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے اور یہی معنا لوگوں کی اطاعت کے ہیں _

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

''موسی نے قارون ، فرعون اور ہامان کے سامنے واضح دلیلیں پیش کیں لیکن انہوں نے روئے زمین پر سر اٹھایا اور تکبّر کیا ''( ۲)

مذکورہ آیت میں حق قبول نہ کرنے کو استکبار و سرکشی کی علامت قرار دیا

____________________

۱_ یونس /۸۳

۲_ زخرف /۵۴

۳_ عنکبوت/۳۹

۲۹۷

گیا ہے _ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

''قوم صالح کے مستکبرین مومن مستضعفین سے کہتے تھے: کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ صالح خدا کے رسول ہیں ؟ مومنین جواب دیتے تھے ہم صالح کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں _ مستکبرین کہتے تھے جس چیز پر تمہارا ایمان ہے ہم اس کے منکر ہیں ''(۱)

دوسری آیت میں کفر و شرک کی ترویج کو مستکبرین کی علامت شمار کیا گیا ہے : ''مستضعفین مستکبرین سے کہتے ہیں تمہاری رات ، دن کی فریب کاریاں تھیں کہ تم ہمیں خدا سے کفر اختیار کرنے اور اس کا شریک ٹھرانے کا حکم دیتے تھے''(۲)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں مستکبرین کی چند علامتیں بیان ہوئی ہیں :

۱_ بڑا بننا اور برتری چاہنا

۲_ تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا_

۳_ اسراف

۴_ لوگوں کو کمزور بنانا_

۵_ فساد پھیلانا

۶_ حق قبول کرنے سے منع کرنا _

۷_ کفر و شرک کی ترویج و اشاعت_

مذکورہ تمام آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستکبرین ان لوگوں کا

____________________

۱_ اعراف/۷۶

۲_ سبا/۳۳

۲۹۸

گروہ ہے جو خواہ مخواہ خود کو دوسرں سے برتر بناکر پیش کرتے ہیں _ لوگوں سے کہتے ہیں : ہم سیاست داںں ، عاقل اور ماہرہیں _ ہم تمہارے مصالح کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں تمہاری عقل تمہارے مصالح کے ادراک کیلئے کافی نہیں ہے _ تمہیں ہماری اطاعت کرنا چاہئے تا کہ کامیاب ہوجاؤ استکبار کا اہم کام اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا ہے _ کالے گئے مذہبی ، نسلی ، لسانی ، قومی ، ملی ، ملکی ، شہری ، صوبائی اور دوسرے سیکڑوں اختلاف انگیز عوامل کے ذریعہ لوگوں میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں _ صرف اس لئے تاکہ لوگوں پر حکومت کریں ، کفر و شرک کی ترویج کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ان کے سارے منافع ہڑپ کر لیتے ہیں _ ان کے سارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ عمومی اموال پر قابض ہوجاتے ہیں _ اپنی مرض سے جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں _ ملک سے دفاع کے نام پر اسلحہ اور ایٹمی توانائی خریدتے ہیں عمومی ضرورتوں کو پورا کرنے او رامن و امان برقرار رکھنے کے نام پر قضاوت اور دیگر دفاتر کی تشکیل سے ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں ، بیت المال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ، اپنے ہمنواؤں کے دریچے بھرتے ہیں _ ان کا مقصد صرف حکمرانی اور خودہواہی ہے _ مستکبرین بڑے نہیں ہیں ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ فریب کاری سے لوگوں کی عظیم طاقت'' کو اپنی بتاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھتے ہیں _

یہاں سے مستضعفین کے معنی بھی روشن ہوجاتے ہیں _ مستضعف کے معنی ضعیف و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستضعف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستکبرین کے غلط پروپیگنڈے اور حیلہ بازیوں سے اپنی طاقت کو گنوا دیا ہے اور غلامی و ذلت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،حقیقی طاقت عام لوگوں کی ہے _ زمین ، پانی ، قدرتی خزانے ، پبلک

۲۹۹

دالشور اور موجد سب ہی تو عام لوگ ہیں ، مزدور ، موجد ، پولیس و فوج ، انتظامیہ ، عدلیہ اور ادارے سب ہی ملّت کے افراد سے تشکیل پاتے ہیں _ صاحبان علم و اختراع اور صنعت بھی ملت ہی کے افراد ہوتے ہیں _ اس بناپر قدرتی خزانے پوری قوم کے ہوتے ہیں نہ کہ مستکبرین کے _ اگر لو گ مدد و تعاون نہ کریں تو مستکبرین کی کوئی طاقت بن سکتی ہے؟ لیکن مستکبرین نے حیلے و فریب او رغلط پروپیگنڈے سے لوگوں کو اپنے سے بیگانہ اور مستضعف بنادیا ہے وہ خود ہی اپنے کو کچلتے ہیں اور استعماری طاقتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں _ مستکبرین اقلیت میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے اور انھیں کمزور بناکر ان پر حکومت کی ہے _

لیکن خدا کے پیغمبر اس بات پر مامور تھے کہ ان لوگوں کو بیدار کریں جنھیں کمزور و مستضعف بنادیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی عظیم طاقت و توانائی سے آگاہ ہوجائیں اور مستکبرین کے چنگل سے نجات حاصل کریں پیغمبروں نے ہمیشہ مستکبرین کے حقیقت کا پردہ چاک کرنے اور ان کی جھوٹی طاقت اور جلال کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مستضعفین کو مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ان کے استعماری پھندوں سے نجات حاصل کرنے کی جرات دلائی ہے _

حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کیا _ حضرت موسی (ع) نے فرعون کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور حضرت عیسی (ع) اپنے زمانہ کے ظلم و سمتگروں کے خلاف اٹھے اور محروموں کونجات دلانے کے لئے قیام کیا _ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ابو جہل ، ابولہب ، ابوسفیان اور قیصر و کسری کے خلاف قیام کیا او ردنیا کے مستضعف و محروم لوگوں کی نجات کے لئے اٹھے _ پیغمبر

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455