آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181596 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

مستکبرین کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے _ شرک و بت پرستی اور فساد سے مبارزہ کرتے تھے_ لوگوں کو وحدانیت ، خداپرستی اور وحدت کی دعوت دیتے تے ، ظلم و ستم اور استکبار کی مخالفت کرتے تھے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

یقینا ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا کہ وہ خدا کی عبادت کریں اور طاغوت سے اجتناب کریں ''(۱)

فرماتا ہے '' جو بھی طاغوت سے اجتناب کرتا ہے اور خدا پر ایمان لاتا ہے وہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے ''(۲)

قرآن مجید مستضعفین کی نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کرنے کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' مستضعفین کی نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کیوں نہیں کرتے ؟ مرد عورتیں اور بچے فریاد کررہے ہیں _ ہمارے خدا ہمیں اس ظالموں کے قریہ سے نکال لے اور اپنی طرف سے ہمارا سرپرست مقررکردے اور ہمارا مددگار معین فرما _ مومنین راہ خدا میں اور کفار راہ طاغوت میں جنگ کرتے ہیں _ لہذا شیطان کے طرف داروں سے جنگ کرو کہ شیطان کا مکر چلنے والا نہیں ہے ''(۳)

____________________

۱_ سورہ نحل / آیت ۳۶_

۲_ سورہ بقرہ / آیت ۲۵۶_

۳_ سورہ نساء / آیت ۷۶_

۳۰۱

مذکورہ بحث سے چند چیزوں کا اثبات ہوتا ہے:

۱_ جو مستکبرین لوگوں پر حکومت کرتے ہیں وہ اقلیت میں ہیں ، ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستضعفین کی طاقت و قدرت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انھیں قید و بند میں ڈال کر کمزور بناتے ہیں _

۲_ مستضعفین اکثریت میں ہیں حقیقی قدرت و توانائی ان ہی کی ہے ، وہ کمزور و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستکبرین کے پروپیگنڈوں سے خود کمزور سمجھتے ہیں _

۳_ مستضعفین کی ناکامی اور بدبختی کا اہم ترین عامل ان کا احساس کمتری و کمزوری ہے ، چونکہ وہ خود کو ناتوان اور مستکبرین کو قوی و طاقتور سمجھتے ہیں لہذا ان کے ہاتھوں کی کٹھپلتی بن جاتے ہیں اور ان کے اشاروں پر کام کرتے ہیں اور ہر قسم کی ذلت و محرومیت کو قبول کرلیتے ہیں _ ان میں مخالفت کی جرات نہیں ہے _ محروم و مستضعف لوگوں کی لا علاج بیماری یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عظیم طاقت کو فراموش کردیا ہے اور مستکبرین کی جھوٹی طاقت کے رعب میں آگئے ہیں اور طاغوتیوں کیلئے ظلم و تعدی کا راستہ اپنے ہاتھوں سے کھول دیا ہے _

۴_ پسماندہ اور مستضعف طبقہ کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی عظیم وقوی گم شدہ شخصیت کو حاصل کریں ایک عالمی انقلاب و حملہ سے ساری بندشین توڑڈالیں ، اور مستکبریں و طاغوتیوں کی حکومت کو ہمیشہ کیلئے نابود کردیں اور خود دنیا کی حکومت اور اس کے نظم و نسق کی زمام سنبھالیں کہ یہ کام بہت مشکل نہیں ہے _ کیونکہ اصلی قدرت و توانائی عوامل کے ہاتھ میں ہے ، ان ہی کی اکثریت ہے ، اگر دانشور ، موجد ، ملازمین ، ٹھیکیدار ، پولیس ، کسان اور صنعت گر سب ہی ہوش میں

۳۰۲

آجائیں اور اپنی عظیم توانائی کو مستکبرین کے اختیار میں نہ دیں تو ان کی جھوٹی حکومت لمحوں میں ڈھیر ہوجائے گی _ اگر ساری توانائیاں ، دفاع ، پولیس اور اسلحہ کو مستضعفین کی حمایت میں استعمال کیا جائے اور اس سلسلہ میں سب متحد ہوجائیں تو پھر مستکبرین کی کوئی طاقت باقی رہے گی؟

یہ کام اگر چہ بہت دشوار ہے لیکن ممکن ہے اور قرآن ایسے تابناک زمانہ کی خوش خبری دے رہا ہے _ ارشاد ہے :

''ہم چاہتے ہیں کہ مستضعفین پر احسان کریں ، انھیں امام بنائیں اور انھیں زمین کا وارث بنائیں اور روئے زمین پر انھیں قوی بنائیں''(۱)

یہ عالمی انقلاب ، حضرت مہدی اور آپ کے اصحاب و انصار کے ذریعہ کامیاب ہوگا _ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے :

''جب ہمارا قائم قیام کرے گا اس وقت خداوند عالم ان کا ہاتھ بندوں کے سرپررکھے گا اور اس طرح ان کے حواس جمع اور عقل کامل کرے گا ''(۲)

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ عالمی اور عظیم انقلاب دین اور قوانین الہی کے عنوان کے تحت آئے گا _ امام مہدی اس کی قیادت کریں گے اور شائستہ و فداکار مومنین آپ کی رکاب میں جہاد کریں گے _

خدا نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا

____________________

۱_ قصص/۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ص ۳۳۶_

۳۰۳

ہے کہ انھیں زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور یہ خوش خبری دی ہے کہ جس دین کو ان کے لئے منتخب کیا ہے اس پر انھیں ضروری قدرت عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن و امان سے بدل دے گا کہ وہ خدا ہی کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے _(۱)

احادیث میں آیا ہے کہ اس آیت سے حضرت مہدی اور ان کے انصار و اصحاب مراد ہیں اور ان ہی کے ذریعہ پوری دنیا میں اسلام پھیلے گا اور تمام ادیان پر غالب ہوگا _

قرآن مجید و احادیث ایسے دن کی خوش خبری دے رہی ہیں کہ جس میں دنیا کے مستضعفین خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور اپنی عظیم توانائی اور مستکبرین و طاغوتیوں کی ناتوانی کو سمجھیں گے اور مہدی کی قیادت میں توحید کے پرچم کے نیچے جمع ہونگے ایمان کی طاقت پر اعتماد کرکے ایک صف میں مستکبرین کے مقابلہ کھڑے ہوں گے اور ایک اتفاقی حملہ سے استکبار کے نظام کو درہم و برہم کردیں گے _ اسی تابناک زمانہ کفر و شرک اور مادہ پرستی کا قلع و قمع ہوگا ، لوگوں کے درمیان سے اختلاف و تفرقہ بازی ختم ہوجائے گی _ موہوم و اختلاف انگیز سرحدوں کا اعتبار نہیں ہرے گا اور ساری دنیا کے انسان صلح و صفائی اور آسائشے و آرام کے ساتھ زندگی بسر کریں گے _

____________________

۱_ نور/ ۵۵_

۳۰۴

مہدی ظہور کیوں نہیں کرتے ؟

جلالی : دنیا ظلم و جور اور کفرو الحاد سے بھر چکی ہے تو دنیا کی آشفتہ حالی کو ختم کرنے کے لئے مہدی ظہور کیوں نہیں کرتے؟

ہوشیار: کوئی بھی تحریک و انقلاب اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جب اس کیلئے ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوتی ہے _ کامیابی کی اہم ترین راہ یہ ے کہ سارے انسان اس انقلاب کے خواہاں ہوں اور سب اس کی تائید و پشت پاہی کیلئے تیارہوں _ اس صورت کے علاوہ انقلاب ناکام رہے گا _ اس قاعدہ کلی سے انقلاب مہدی موعود بھی مستثنی نہیں ہے _ یہ انقلاب بھی اس وقت کامیاب ہوگا جب ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوگی _ آپ کا انقلاب معمولی نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور عالمی ہے _ اس کا بہت عمیق و مشکل پروگرام ہے _ آپ تمام نسلی ، ملکی ، لسانی ، مقصدی اور دینی اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ روئے زمین پر صرف ایک قوی نظام کی حکمرانی ہو کہ جس سے صلح و صفائی کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کریں _ آپ جانتے ہیں کہ منبع ہی سے پانی کی اصلاح کی جا سکتی ہے لہذا آپ اختلافی عوامل کو جڑے ختم کردینا چاہتے ہیں تا کہ درندہ خصلت انسانوں سے درندگی کی عادت ختم ہوجائے اور شیر و شکر کی طرح ایک ساتھ زندگی گزاریں _ امام مہدی دنیا سے

۳۰۵

کفر و الحا دکو نابود کرکے لوگوں کو خدائی قوانین کی طرف متوجہ کرکے دین اسلام کو عالمی آئین بنانا چاہتے ہیں _

افکار و خیالات کے اختلاف کو ختم کرکے ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتے ہیں اور جھوٹے خداؤں ، جیسے سرحدی ، لسانی ، ملکی ، گروہی ، علاقائی اور جھوٹی شخصیتوں کو ذہن انسان سے نکال کر پھینک دینا چاہتے ہیں _ مختصر یہ کہ نوع انسان اور معاشرہ انسانی کو حقیقی کمال و سعادت سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں اور انسانی اخلاق و فضائل کے پایوں پر ایک معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں _

اگر چہ ایسی باتوں کا لکھنا مشکل نہیں لیکن محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایک ایسے عالمی و عمیق انقلاب کا آنا آسان نہیں ہے _ ایسا انقلاب مقدمات ، اسباب ، عام ذہنوں کی آمادگی اور زمین ہموار ہونے کے بغیر نہیں آسکتا _ ایسے عمیقانقلاب کا سرچشمہ دلوں کی گہرائی کو ہونا چاہئے _ خصوصاً مسلمانوں کو اس کا علم بردار ہونا چاہئے ، قرآن مجید بھی صلاحیت و شائستگی کو اس کی شرط قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' ہم نے زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہم اپنے شائستہ بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے''(۱) _

اس بناپر جب تک نوع انسان رشد و کمال کی منزل تک نہیں پہنچے گی اور امام مہدی کی حکومت حق کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوگی ، مہدی ظہور نہ فرمائیں گے _ واضح

____________________

۱_ انبیائ/۱۰۵_

۳۰۶

ہے کہ افکار کی آمادگی لمحوں میں نہیں ہوتی ہے بلکہ حوادث کے پیش آنے کے ساتھ طویل زمانہ میں ہوتی ہے اور تب لوگ کمال کی طرف مائل ہوتے ہیں لوگوں کو اس اور اس ملک کے بارے میںاس قدر بحث و مباحثہ کرنا پڑے گا اور موہوم سرحدوں کے اوپر اتنی جنگ و خونریزی کرنا پڑے گی کہ لوگ ایسی باتوں سے عاجز آجائیں گے اور سمجھ لیں گے کہ یہ سرحدیں تنگ نظر لوگوں کی ایجاد ہے _ اس صور ت میں وہ اعتباری اور اختلاف انگیز حدود سے ڈریں گے اور ساری دنیا کو ایک ملک اور سارے انسانوں کو ہم وطن اور نفع و ضرر اور سعادت و بدبختی میں شریک سمجھیں گے _ اس زمانہ میں کالے گورے ، سرخ و پیلے ، ایشائی ، افریقی ، امریکی ، یورپی ، شہری ، دیہاتی اور عرب و عجم کو ایک نظرسے دیکھیں گے _

انسان کی اصلاح ، سعادت اور آسائشے کے لئے دانشور ایسے قوانین مرتب کرتے رہیں اور پھر ان پر تبصرہ کریں اور ایک زمانہ کے بعد انھیں لغو قراردیں اور ان کی بجائے دوسرے قوانین لائیں یہاں تک اس سے لوگ اکتا جائیں اور دنیا والے بشر کے قوانین کے نقصان اور قانون بنانے والی کی کم عقلی و کوتاہ فکری کا اندازہ لگالیں اور ان قوانین کے سایہ میں ہونے والی اصلاح سے مایوس ہوجائیں اور اس بات کا اعتراف کرلیں کہ انسان کی اصلاح صرف پیغمبروں کی اطاعت اور قوانین الہی کے نفوذ سے ہوسکتی ہے _

بشر ابھی خدائی پروگرام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ علوم و اختراعات کے ذریعہ انسان کی سعادت کے اسباب فراہم کئے جا سکتے ہیں _ لہذا وہ الہی اور معنوی پروگرام کو چھوڑ کر مادیات کی طرف دوڑتا

۳۰۷

ہے اور اسے اتنا دوڑنا چاہئے کہ وہ عاجز آجائے اور سخت دھچکا لگے تو اس وقت اس بات کااعتراف کرے گا کہ علوم و اختراعات اگر چہ انسان کو فضا کے دوش پر سوار کرسکتے ہیں ، اس کے لئے آسمان کروں کو مسخر کرسکتے ہیں ، اور مہلک ہتھیار اس کے اختیار میں دے سکتے ہیں لیکن عالمی مشکلوں کو حل نہیں کر سکتے اور استعمار و بیدادگری کا قلع و قمع کرکے انسانوں کو روحانی سکون فراہم نہیں کر سکتے _

جس وقت سے انسان نے حاکم و فرمانروا کو تلاش کیا ہے اور اس کی حکومت کو قبول کیا ہے اس وقت سے آج تک ان سے اس بات کو توقع رہی ہے اور ہے کہ وہ طاقتور اور ذہین افراد ظلم و تعدی کا سد باب کریں اور سب کی آسائشے و آرام کا ساماں کریں _ لیکن ان کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی ہے اور ان کے حسب منشا

حکومت نہیں بنی ہے _ لیکن جب بارہا اس کا مشاہدہ ہوچکاکہ حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے _ دنیا میں بھانت بھانت کی حکومتوں کی تاسیس ہو فریب کار اور رنگ رنگ پارٹیاں تشکیل پائیں اور ان کی نااہلی ثابت ہوتا کہ انسان ان کی اصلاحات سے مایوس ہوجاتے اور اسے خدائی اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو اور وہ توحید کی حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوجائے _ ہشام بن سالم نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

''جب تکہر قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئے گی اس وقت تک صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا _ تا کہ جب وہ اپنی حکومت کی تشکیل دیں تو کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملی ہوئی تو ہم بھی اسی طرح عدل قائم کرتے ''(۲) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۴_

۳۰۸

امام محمد باقر(ع) کا ارشاد ہے :

''ہماری حکومت آخری ہے _ جس خاندان میں بھی حکومت کی صلاحیت ہوگی وہ ہم سے حکومت کرلے گا _ تاکہ جب ہماری حکومت تشکیل پائے تو اس وقت کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملتی تو م بھی آل محمد (ص) کی طرح عمل کرتے اور آیہ ''والعاقبة للمتقین'' کے یہی معنی ہیں ''(۱)

گزشتہ بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی طبیعت ابھی توحید کی حکومت قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اس نعمت سے ہمیشہ محروم رہے گا _ بلکہ جو خدا ہر موجود کو مطلوبہ کمال تک پہنچاتا ہے وہ نوع انسان کو بھی مطلوبہ کمال سے محروم نہیں رکھے گا _ انسان نے جس روز سے کرہ زمین پر قدم رکھا ہے اس ی دن سے وہ ایک سعادت مند و کامیاب اجتماعی زندگی کا خواہشمند رہا ہے اور ا س کے حصول کی کوشش کرتا رہا ہے _ وہ ہمیشہ ایک تابناک زمانہ اور ایسے نیک معاشرہ کا متمنی رہا ہے کہ جس میں ظلم و تعدی کا نام و نشان نہ ہو انسان کی یہ دلی خواہش فضول نہیں ہے اور خداوند عالم ایسے مقصد تک پہنچنے سے نوع انسان کو محروم نہیں کرے گا _ ایک دن ایساضرور آئے گا کہ جس میں انسان کا ضمیر و دماغ پورے طریقے سے بیدار ہوگا _ گوناگوں قسم کے احکام و قوانین سے مایوس اورحکام و فرمانروائی سے ناامید ہوجائے گا ، اپنے ہاتھ سے کھڑی کی ہوئی مشکلوں سے عاجز آجائے گا اور پورے طریقہ سے خدائی قوانین کی طرف متوجہ ہوگا _ اور لا ینحل

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۳۲_

۳۰۹

اجتماعی مشکلات کا حل صرف پیغمبروں کی تاسی میں محدود سمجھے گا _ اسے یہ محسوس ہوگا کہ اسے دو گرانقدر چیزوں کی ضرورت ہے _ ۱_ خدا کے قوانین اور اصلاحات کیلئے الہی منصوبہ ۲_ معصوم و غیر معمولی زمام دار کہ جو خدائی احکام و قوانین کے نفاذ و اجراء میں سہو و نسیان سے دوچار نہ ہو اور سارے انسانوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہو _ خداوند عالم نے مہدی موعود کو ایسے ہی حساس و نازک زمانہ کیلئے محفوظ رکھا ہے اوراسلام کے قوانین و پروگرام آپ کو ودیعت کئے ہیں _

دوسری وجہ

ظہور میں تاخیر کے سلسلہ میں اہل بیت کی روایات میں ایک اور علت بیان ہوئی ہے _ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''خداوند عالم نے کافروں اور منافقوں کے اصلاب میں با ایمان افراد کے نطفے ودیعت کئے ہیں اسی لئے حضرت علی (ع) ان کافروں کو قتل نہیں کرتے تھے جن سے کوئی مؤمن بچہ پیدا ہونے والا ہوتا تھا تا کہ وہ پیدا ہوجائے اور اس کی پیدائشے کے بعد جو کافر ہاتھ آجاتا تھا اسے قتل کردیتے تھے _ اسی طرح ہمارے قائم بھی اس وقت ظاہر نہ ہوں گے جب تک کافروں کے اصلاب سے خدائی امانت خارج ہوگی _ اس کے بعد آپ(ع) ظہور فرمائیں گے اور کافروں کو قتل کریں گے '' _(۱)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۰۵_

۳۱۰

امام زمانہ خداپرستی اور دین اسلام کو کافروں کے سامنے پیش کریں گے جو ایمان لے آئے گا وہ قتل پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ تہ تیغ کیا جائے گا اور اہل مطالعہ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ طول تاریخ میں کافر منافقوں کی نسل سے مومن و خداپرست بچے پیدا ہوئے ہیں _ کیا صدر اسلام کے مسلمان کافروں کی اولاد نہ تھی؟ اگر فتح مکہ میں رسول خدا کافر مکہ کا قتل عام کردیتے تو ان کی نسل سے اتنے مسلمان وجود میں نہ آتے _ خدا کے لطف و فیض کا یہ تقاضا ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پرچھوڑدے تا کہ مرور ایام میں ان کی نسل سے مومن پیدا ہوں اور وہ خدا کے لطف و فیض کا مرکز بن جائیں _ جب تک نوع سے مومن و خداپرست لوگ وجود میں آتے رہیں گے اس وقت تک وہ باقی رہے گی اور اسی صورت میں اپنا سفر طے کرتی رہے گی _ یہاں تک کہ عمومی افکار توحید و خداپرستی کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں گے اور اس وقت امام زمانہ ظہور فرمائیں گے _ بہت سے کفار آپ کے ہاتھ پر ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ کفر و الحاد ہی میں غرق رہیں گے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن سے کوئی مومن پیدا نہ ہوگا _

اس کے بعد جلسہ ختم ہوگیا اور طے پایا کہ آئندہ جلسہ ڈاکٹر صاحب کے گھر منعقد ہوگا _

۳۱۱

ظہور کے وقت کو کیسے سمجھیں گے؟

جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور جناب جلالی صاحب نے یہ سوال اٹھایا :

امام زمانہ کو کیسے معلوم ہوگا کہ ظہور کا وقت آگیا ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت انھیں خدا کی طرف سے اطلاع دی جائے گی تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ پیغمبروں کی طرح آپ(ص) پر وحی ہوگی اور نتیجہ میں نبی و امام میں کوئی فرق نہیں رہے گا _

ہوشیار: اول تو دلیل اور ان روایات سے جو کہ امامت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ امام کا بھی عالم غیب سے ارتباط رہتا ہے اور ضرورت کے وقت امام بھی حقائق سے آگاہ ہوتا ہے _ بعض روایات میں آیا ہے کہ امام فرشتہ کی آواز سنتا ہے لیکن اسے مشاہدہ نہیں کرتا ہے _(۱)

اس بنا پر ممکن ہے کہ خدا کے ذریعہ امام کو ظہور کے وقت کی اطلاع دے _

حضرت امام صادق آیہ فاذا نقر فی النّاقور کی تفسیر کے ذیل میں فرمایا: ''ہم میں سے ایک امام کامیاب ہوگا جو طویل مدت تک غیبت میں رہے گا اور جب خدا اپنے امر کو ظاہر کرنا چاہئے گا اس وقت ان کے قلب میں

____________________

۱_ کافی ج ۱ ص ۲۷۱_

۳۱۲

ایک نکتہ ایجاد کرے گا اور آپ(ع) ظاہر ہوجائیں گے اور خدا کے حکم سے،قیام کریں گے(۱)

ابو جارود کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی ہیں آپ کے قربان ، مجھے صاحب الامر کے حالات سے آگاہ کیجئے ، فرما یا :

شب میں آپ نہایت ہی خوف زدہ ہوں گے لیکن صبح ہوتے ہی مطمئن و پر سکون ہو جائیں گے آپ کے پرو گرام شب وروز میں وحی کے ذریعہ آپ کے پاس پہنچتے ہیں _ میں نے دریافت کیا : کیا امام پر بھی و حی ہوتی ہے ؟

فرمایا : وحی ہوتی ہے لیکن نبوت والی وحی نہیں ہوتی بلکہ ایسی وحی ہوتی ہے جیسی وحی کی مریم بنت عمران اور مادر موسی کی طرف نسبت دی گوی ہے _ اے ابو جارود قائم آل محمد خدا کے نزدیک مریم ، مادر موسی اور شہد کی مکھی سے کہیں زیادہ معزز ہیں''(۲)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام کے اوپر بھی وحی و الہام ہوتا ہے جبکہ امام اور نبی میں فرق بھی رہتا ہے _ کیونکہ نبی پر شریعت کے احکام و قوانین کی وحی ہوتی ہے اس کے برخلاف امام پر احکام و قوانین کی وحی نہیں ہوتی بلکہ وہ اسکی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے _

ثانیاً یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ظہور کے وقت رسول (ص) اسلام نے ائمہ کے توسط سے امام مہدی کو خبردی ہو _ اگر چہ کسی خاص حادیث کے رونما ہونے ہی کو ظہور کی

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۶۴_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۷۲ و بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۸۹_

۳۱۳

علامت قرارد یا ہو اور امام زمانہ اس علامت کے ظہور کے منتظر ہوں _

پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے :

''جب مہدی کے ظہور کا وقت آجائے گا تو اس وقت خدا آپ کی تلوار اور پرچم کو گویائی عطا کرے گا اور وہ کہیں گے : اے محبوب خدا اٹھئے اور دشمنان خدا سے انتقام لیجئے '' _(۱)

مذکورہ احتمال کے شواہد میں سے وہ روایات بھی ہیں کہ جن کی دلالت اس بات پر ہے کہ تمام ائمہ کا دستور العمل خدا کی جانب سے رسول اکرم پر نازل ہوا تھا اور آپ (ص) نے اسے حضرت علی بن ابی طالب کی تحویل میں دیدیا تھا _ حضرت علی (ع) نے اپنے زمانہ خلافت میں اس صحیفہ کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا اور اس کے بعد امام حسن (ع) کی تحویل میں آپ کا صحیفہ دیدیا _ اسی طرح ہر امام تک اس کا سر بمہر دستور العمل پہنچا اور انہوں نے اس کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا _ آج

بھی امام زمانہ کے پاس آپ(ص) کا دستور العمل موجود ہے _(۲)

قیام کے اسباب

اس کے علاوہ اہل بیت (ع) کی احادیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ظہور امام زمانہ کے وقت دنیا میں کچھ حوادث رونما ہوں گے جو آپ کی کامیابی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۱۱

۲_ کافی ج ۱ ص ۲۷۹

۳۱۴

اور ترقی کے اسباب فراہم کریں گے چنانچہ ایک ہی رات میں آپ(ع) کے انقلاب کے اسباب فراہم ہوجائیں گے ملاحظہ فرمائیں _

عبدالعظیم حسنی نقل کرتے ہیں کہ حضرت جواد (ع) نے ایک حدیث میں فرمایا:

''قائم ہی مہدی ہے کہ جن کی غیبت کے زمانہ میں ان کا منتظر اور ظہور کے وقت ان کا اطاعت گزاررہنا چاہئے وہ میرے تیسرے بیٹے ہیں_ قسم اس خدا کی کہ جس نے محمد کومبعوث بہ رسالت کیا اور ہمیں امامت سے سرفراز کیا اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس د ن کو اتنا طولانی کردے گا کہ وہ ظاہر ہوکر زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی _ خداوند عالم ایک رات میں آپ کے اسباب فراہم کرے گا جیسا کہ اپنے کلیم حضرت موسی کے امور کی بھی ایک ہی شب میں اصلاح کی تھی _ موسی گئے تھے تا کہ اپنی زوجہ کے لئے آگ لائیں لیکن وہاں تاج نبوت و رسالت سے بھی سرفراز ہوئے ''(۱)

پیغمبر اکرم نے فرمایا:

''مہدی موعود ہم سے ہے خدا ان کے امور کی ایک رات میں اصلاح کرے گا ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ کتاب الحاوی الفتاوی ، جلال الدین سیوطی طبع سوم ج ۲ ص ۱۲۴_

۳۱۵

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' صاحب الامر کی ولادت لوگوں سے مخفی رکھی جائے گی تاکہ ظہور کے وقت آپ(ع) کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو _ خداوند عالم ایک رات میں آپ کے امور کی اصلاح کرے گا '' _(۱)

امام حسین (ع) نے فرمایا:

'' میرے نویں بیٹے میں کچھ جناب یوسف کی اور کچھ جناب موسی کی سرت و روش ہوگی _ وہی قائم آل محمد ہیں _ خداوند عالم ایک رات میں ان کے امور کی اصلاح کرے گا_''(۲)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۹۶_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳_

۳۱۶

انتظار فرج

جلالی: امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا فریضہ کیا ہے؟

ہوشیار: دانشوروں نے کچھ فرائض معین کرکے کتابوں میں رقم کئے ہیں _ جیسے امام زمانہ کیلئے دعا کرنا ، آپ(ع) کی طرف سے صدقہ دینا ، آپ(ع) کی طرف سے حج کرنا یا کرانا ، آپ سے استعانت و استغاثہ کرنا _ یہ چیزیں سب نیک کام ہیں اور ان میں بحث کی ضرورت نہیں ہے لیکن روایات میں جو اہم ترین فریضہ بیان ہواہے اور جس کی وضاحت کی ضروت ہے ، وہ انتظار فرج کی فضیلت کے بارے میں ائمہ اطہار کی بہت زیادہ احادیث حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں مثلاً:

حضرت امام جعفر صاق کا ارشاد ہے :

''جو شخص ہم اہل بیت کی محبت پر مرتا ہے جبکہ وہ منتظر فرج بھی ہو تو ایسا ہی ہے جیسے حضرت قائم کے خیمہ میں ہو''_(۱)

حضرت امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے واسطہ سے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۱۷

''میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے ''(۱)

حضرت علی بن ابی طالب کا ارشاد ہے :

''جو شخص ہماری حکومت کا انتظار کرتا ہے اس کی مثال راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہونے والے کی ہے ''(۲) _

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں :

''صبر اور انتظار فرج کتنے بہترین چیز ہے؟ کیا لوگوں نے نہیں سنا ہے کہ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے : تم انتظار کرو میں بھی منتظر ہوں پس صبر کرو کیونکہ ناامیدی کے بعد فرج نصیب ہوگا _ تم سے پہلے والے زیادہ بردبار تھے''(۳)

ایسی احادیث بہت زیادہ ہیں ، ائمہ اطہار (ع) نے شیعوں کو انتظار فرج کے سلسلہ میں تاکید کی ہے _ فرماتے تھے: انتظار بجائے خود ایک فرج و خوشحالی ہے ، جو شخص فرج کا منتظر رہے گا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو میدان جنگ میں کفار سے جہاد کرے اور اپنے خون میں غلطان ہوجائے _ اس اعتبار سے زمانہ غیبت میں انتظار فرج بھی مسلمانوں کا عظیم فریضہ ہے _ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظار فرج کے معنی کیا ہیں؟ اور انسان فرج کا منتظر کیسے ہوسکتا ہے کہ جس سے مذکورہ ثواب حاصل ہوسکے ؟ کیا انتظار فرج کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان زبان سے یہ کہدے کہ میں امام زمانہ کے ظہور کامنتظر ہوں ؟ یا کبھی کبھی فریاد و آہ کے ساتھ یہ بھی کہے :

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۸۸_

۳_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۸_

۳۱۸

اے اللہ امام زمانہ کے فرج میں تعجیل فرمایا یا نماز پنجگانہ کے بعد اور متبرک مقامات پر ظہور تعجیل کی دعا کرے یا ذکر و صلوات کے بعد اللہم عجل فرجہ الشریف کہے : یا جمعہ ، جمعہ با گریہ وز اری دعائے ندبہ پڑھے؟

اگر چہ یہ تمام چیزیں بجائے خود بہت اچھی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انسان ایسے امور کی انجام وہی سے حقیقی فج کے منتظر کا مصداق نہیں بن سکے گا کیونکہ ائمہ کی زبانی اسکی اتنی زیادہ فضیلیتیں بیان ہوئی ہیں _ انتظار فرج کرنے والے کو میدان جہاد میں اپنے خون میں غلطان انسان کے برابر قرار دیا ہے _

جو لوگ ہر قسم کی اجتماعی ذمہ داریوں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکز کے فریضہ سے پہلو تہی کرتے ہیں ، فساد و بیدادگری پر خاموش بیٹھے رہتے ہیں ،ظلم و ستم و کفر و الحاد اور فساد کو تماش بینوں کی طرح دیکھتے ہیں اور ان حوادث پر صرف اتناہی کہتے ہیں : خدا فرج امام زمانہ میں تعجیل فرماتا کہ ان مفاسد کو ختم کریں _ میرے خیال میں آپ کا ضمیر اتنی سی باتوں سے مطمئن نہیں ہوگا اور انھیں آپ ان لوگوں کی صف میں کھڑا نہیں کریں گے جنہوں نے دین سے دفاع کی خاطر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت سے ہاتھ دھولیئےیں اور میدان جہاد میں اپنی جان کو سپر قرار دیکر جام شہادت نوش کیا ہے _

اس بناپر انتظار فرج کے دقیق اور بلند معنی ہونا چاہئیں_ اس مدعا کی مزید وضاحت کیلئے پہلے میں دو موضوعوں کو مقدمہ کے عنوان سے پیش کرتا ہوں _ اس کے بعد اصل مقصد کا اثبات کروں _

مقدمہ اول : احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ کے امور کا منصوبہ بہت وسیع اور دشوار ہے _ کیونکہ آپ کو پوری دنیا کی اصلاح کرنی ہے _ ظلم و ستم کا

۳۱۹

نام و نشان مٹانا ہے ، کفر و الحاد اور بے دینی کے نشانات کو محو کرنا ہے _ سارے انسانوں کو خداپرست بنانا ہے _ دین اسلام کو دنیا والوں کیلئے سرکاری دین قرار دینا ہے _ روئے زمین پر عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہے _ موہومی سرحدوں کو انسان کے ذہن سے نکالنا ہے تا کہ وہ سب صلح و صفائی کے ساتھ پرچم توحید کے سایہ میں زندگی بسر کریں _ نوع انسان کی تمام اقوام و ملل اور نسلوں کو توحید کے علم کے سایہ میں لانا ہے اور اسلام کی عالمی حکومت کی تشکیل کرنا ہے _ محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایسے قوانین کا نفاذ بہت مشکل کام ہے اور اتنا ہی دشوار ہے کہ ایک گروہ اسے ناممکن سمجھتا ہے _ اس بناپر یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب بشریت کا مزاج ایسے پروگرام کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوجائے اور عام افکار اتنی ترقی کرلیں کہ ایسے خدائی دستور العمل کی خواہش کرنے لگیں اور امام زمانہ آفتاب عدالت کے انقلاب کے اسباب ہر طرح سے فراہم ہوجائیں _

دوسرا مقدمہ :

اہل بیت کی احادیث سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ اور آپ کے اصحاب وانصار جنگ و جہاد کے ذریعہ کفر و الحاد پر کامیاب ہوں گے اور جنگی توانائی سے دشمن کی فوج اور ظلم و ستم و بے دینی کے طرف داروں کو مغلوب کریں گے _ اس سلسلہ کی احادیث میں سے چند یہ ہیں :

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

''مہدی اپنے جد محمد (ص) سے اس لحاظ سے مشابہ ہیں کہ شمشیر کے ساتھ قیام کریں گے اور خدا و رسول (ص) کے دشمنوں ، ستمگروں اور گمراہ کرنے والوں کو نہ تیغ کریں گے تلوار کے ذریعہ کامیاب ہوں گے آپ کے لشکر میں سے کسی کو بھی ہزیمت نہیں ہوگی _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۱۸

۳۲۰

بشیر کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : لوگ کہتے ہیں کہ جب مہدی قیام کریں گے تو اس وقت ان کے امور طبیعی طور پر روبرو و ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر بھی خونریزی نہیں ہوگی ؟ آپ (ع) نے فرمایا :

'' خدا کی قسم حقیقت یہ نہیں ہے _ اگر یہ چیز ممکن ہوتی تو رسول خدا کیلئے ہوتی _

میدان جنگ میں آپ کے دانت شہید ہوئے اور پیشانی اقدس زخمی ہوئی _ خدا کی قسم صاحب الامر کا انقلاب اس وقت تک برباد نہ ہوگا _ جب تک میدان جنگ میں خونریزی نہیں ہوگی _ اس کے بعد آپ نے پیشانی مبارک پر ہاتھ ملا _ ''(۱)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہدی موعود کو صرف الہی تائید اور غیبی مدد کے ذریہ کامیابی نہیں ہوگی اور یہ طے نہیں ہے کہ ظاہری طاقت سے مدد لئے بغیرہ معجزہ کے طور پر اپنے اصلاحی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں ، بلکہ تائید الہی کے علاوہ آپ(ص) جنگی اسلحہ اور فوج کو استعمال کریں گے _ علوم و صنعت اور

خوفناک جنگی اسلحہ کی اختراع کو بھی مد نظر رکھیں گے _

مذکورہ دونوں مقدموں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ مہدی موعود کے ظہور کے شرائط کیا ہیں؟ آپ(ع) کے انقلاب و تحریک کے سلسلہ میں مسلمانوں کاکیا فریضہ ہے اور کس صورت میں کہا جا سکتاہے کہ مسلمان آپ(ع) کے عالمی اور دشوار قیام کے لئے تیار ہیں اور خدا کی قوی حکومت کی تشکیل اور ظہور کے انتظار میں دن گن رہے ہیں؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۳۲۱

اہل بیت کی احادیث سے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ پہلے وہ سنجیدگی اور کوشش سے اپنے نفسوں کی اصلاح کریں ، اسلام کے نیک اخلاق آراستہ ہوں ، اپنے فردی فرائض کو انجام دیں قرآن کے احکام پر عمل کریں ، دوسرے اسلام کے اجتماعی پروگرام کا استخراج کریں اورمکمل طور سے اپنے درمیان نافذ کریں اور اسلام کے اقتصادی پروگرام سے اپنی اقتصادی مشکلوں کو حل کریں ، فقر و ناداری اور ناجائز طریقوں سے مال جمع کرنے والوں سے جنگ کریں اوراسلام کے نورانی قوانین پر عمل پیرا ہو کر ظلم و ستم کا سد باب کریں _ مختصر یہ کہ سیاسی اجتماعی ، اقتصادی ، قانونی اور اسلام کے عبادی پروگراموں کو مکمل طور پر اپنے درمیان جاری کریں اوردنیا والوں کے سامنے اس کے عملی نتائج پیش کریں _

تحصیل علم و صنعت میں سنجیدگی سے کوشش کریں اور اپنی گزشتہ غفلت و سستی اور پسماندگی کی تلافی کریں _ بشری تمدن کے کاروان تک یہنچنا کافی نہیں ہے بلکہ ہر طریقہ سے دنیا والوں سے باز جیت لینا ضروری ہے _ دنیا والوں کو عملی طریقے سے یہ بتائیں کہ اسلام کے نورانی احکام و قوانین ہی ان کی مشکلوں کو حل کر سکتے ہیں اور انکی دو جہان کی کامیابی کی ضمانت لے سکتے ہیں _ اسلام کے واضح اور روشن قوانین پر عمل کرکے ایک قوی اور مقتدر حکومت کی تشکیل کریں اور روئے زمین پر ایک طاقت ور و متمدن اور مستقل اسلامی ملت کے عنوان سے ابھر یں _

مشرق و مغرب کی سینہ زور یوں کوروکیں اور دنیا والوں کی قیادت کی زمام خو سنبھالیں _ جہاں تک ہو سکے دفاعی طاقت کو مضبوط اور نظامی طاقت کو محکم بنائیں اور جنگی اسلحہ کی فراہمی کے لئے کوشش کریں _ تیسرے :اسلام کے اجتماعی ، اقتصادی

۳۲۲

اور سیاسی منصوبوں کا استخراج کریں اور دنیا والوں کے گوش گزار کردیں _ خدائی منصوبوں کی قدر و قیمت سے لوگوں کو آگاہ کریں _ قوانین الہی کو قبول کرنے کیلئے دنیا والوں کے افکار کو آمادہ کریں _ اسلام کی عالمی حکومت اور ظلم و بیدادگری سے جنگ کے مقدمات و اسباب فراہم کریں _

جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں اور امام زمانہ کے مقصد کی تکمیل او رآپ کے انقلاب کیلئے اسباب فراہم کرتے ہیں ، انہی کو فرج کا منتظر کہا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود کو امام زمانہ کے قیام کیلئے تیارکررہے ہیں _ ایسے فداکار اور کوشاں افراد کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ انکی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو میدان جنگ میں اپنے خون میں غلطان ہوتے ہیں _

لیکن جو لوگ اپنی مشکلوں کو انسان کے وضع کردہ قوانین سے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کواہمیت نہیں دیتے ، احکام اسلام کو صرف مسجدوں اور عبادت گاہوں میں محدود سمجھتے ہیں ، جن کے بازار اور معاشروں میں اسلام کا نشان نہیں ہے ، جو فساد و بیدادگری کا مشاہدہ کرتے ہیں اور صر ف یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ اے اللہ فرج امام زمانہ میں تعجیل فرما _ علوم و فنون میں دوسرے آگے ہیں ، ہمارے درمیان اختلافات و پراکندگی کی حکمرانی ہے _ غیروں سے روابط ہیں ، اپنوں سے دشمنی ہے ایسی قوم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ فرج آل محمد اور انقلاب مہدی کی منتظر ہے _ ایسے افراد اسلام کی عالمی حکومت کے لئے تیار نہیں ہیں اگر چہ وہ دن میں سیکڑوں بار اللہم عجل فرجہ الشریف کہتے ہوں _

اہل بیت (ع) کی احادیث سے میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں _ اس کے علاوہ دوسری

۳۲۳

روایات میں بھی اس موضوع کی طراف اشارہ ہوا ہے مثلاً: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: '' ہمارے قائم ک ے ظہور اور انقلاب کیلئے تم خود کو آمادہ کرو اگر چہ ایک تیر ہی ذخیرہ کرو''(۱) عبد الحمید واسطی کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : ہم نے اس امر کے انتظار میں خرید و فروخت بھی چھوڑدی ہے فرمایا:

'' اے عبد الحمید کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ جس نے اپنے جان راہ خدا میں وقف کردی ہے _ خدا اس کی فراخی کیلئے کوئی انتظام نہیں کرے گا ؟ خدا کی قسم اس کے لئے راستے کھل جائیں گے اور امور آسان ہوجائیں گے خدا رحم کرے اس شخص پر جو ہمارے امر کو اہمیت دیتا ہے '' _ عبدالحمید نے کہا: اگر انقلاب قائم سے پہلے مجھے موت آگئی تو کیا ہوگا؟ فرمایا: '' تم میں سے جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اگر قائم آل محمد کا میری حیات میں ظہور ہوگا تو میں آپ کی مدد کروں گا _ اس کی مثال اس شخص کی ہے جسن نے امام زمانہ کی رکاب میں تلوار سے جہاد کیا ہے بلکہ آپ (ع) کی مدد کرتے ہوئے شہادت پائی ہو ''(۲) _

ابوبصیر کہتے ہیں : ایک روز امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

'' کیا میں تمہیں وہ چیز بتاؤں کہ جس کے بغیر خدا بندوں کے اعمال قبول نہیں کرتا ہے ؟'' ابوبصیر نے عرض کی : (مولا) ضرور بتایئے فرمایا:'' وہ ایک خدا اور محمد (ص) کی نبوت کی گواہی دینا ، خدا کے دستوارت کااعتراف کرنا ، ہماری محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا ، ائمہ کے سامنے

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۶۶_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۲۴

سراپا تسلیم ہونا ، پرہیزگاری ، جد و جہد اور قائم کا منتظر رہنا ہے _

اس کے بعد فرمایا: ہماری حکومت مسلّم ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گی جو شخص ہمارے قائم کے اصحا ب و انصار میں شامل ہونا چاہتا ہے _ اسے چاہئے کہ انتظار فرج میں زندگی بسر کرے _ پرہیزگاری کو اپنا شعار بنائے ، اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو اور اسی طرح ہمارے قائم کے انتظار میں زندگی بسر کرتا رہے اگر وہ اسی حال میں رہا اور ظہور قائم آل محمد سے پہلے موت آگئی ، تو اسے اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا کہ جتنا امام زمانہ کے ساتھ رہنے والے کو ملیگا _

شیعہ کوشش کرو اور امام مہدی کے منتظر رہو _ اے خدا کی رحمت و لطف کے مستحقو کامیابی مبارک ہو _(۱)

____________________

۱_ غیبت نعمانی ص ۱۰۶_

۳۲۵

قیام کے خلاف احادیث کی تحقیق

انجینئر: ہوشیار صاحب آپ کی گزشتہ باتوں '' انتظار فرج'' کی بحث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ (ع) کی غیبت میں شیعوں کا فریضہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کے اجراء کیلئے کوشش کریں اور اس طرح امام زمانہ کے عالمی انقلاب اور ظہور کے اسباب فراہم کریں میرے خیال میں آپ کی باتیں بعض احادیث کے منافی ہیں _ جیسا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جو کہ قیام و ظہور مہدی سے قبل کسی بھی تحریک و انقلاب کی ممانعت کرتی ہیں _ اگر آپ تجزیہ کریں تو مفید ہوگا _

ہوشیار: آپ کی یاد ، دہاتی کا شکریہ _ ایسی احادیث ، دو طریقوں سے تجزیہ و تحقیق کی جا سکتی ہے _ پہلے تو سند کے اعتبار سے تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ صحیح و معتبر ہیں یا نہیں _ دوسرے دلالت کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ کسی بھی انقلاب و تحریک ممانعت کیلئے دلیل بن سکتی ہیں یا نہیں لیکن احادیث کی تحقیق و تحلیل سے قبل مقدمہ کے طور پر میں ایک اور بات عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں _ اس طرح ہم مذکورہ مسئلہ سے دو حصوں میں بحث کریں گے _

۱_ اسلام میں حکومت

۳۲۶

۲_ احادیث کی تحقیق

اسلام میں حکومت

اسلام کے احکام و قوانین کے مطالعہ یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ دین اسلام صرف ایک عقیدتی اور عبادی دین نہیں ہے بلکہ عقیدہ ، عبادت ، اخلاق ، سیاست اور معاشرہ کا ایک مکمل نظام ہے _ کلی طور پر اسلام کے احکام و قوانین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱_ فردی احکام جیسے نماز ، روزہ ، طہارت ، نجاست ، حج ، کھانا ، پینا و غیرہ ان چیزوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں انسان کو حکومت اور اجتماعی تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ تن تنہا اپنا فریضہ پورا کرسکتا ہے _

۲_ اجتماعی احکام ، جیسے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، فیصلے ، اختلافات کا حل ، قصاص ، حدود ، دیات ، تعزیرات ، شہری حقوق ، مسلمانوں کے آپس اور کفار سے روابط اور خمس و زکوة ، یہ چیزیں انسان کی اجتماعی و سیاسی زندگی سے مربوط ہیں _ انسان چونکہ اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے ، اور اجتماعی زندگی میں تزاحمات پیش آئیں گے لہذا اسے اسے قوانین کی ضرورت ہے ، جو ظلم و تجاوز کا سد باب کریں اور افراد کے حقوق کا لحاظ رکھیں _ اسلام کے بانی نے اس اہم اور حیات بخش امر سے چشم پوش نہیں کی ہے بکلہ اس کیلئے حقوقی جزائی اور شہری قوانین مرتب کئے ہیں اور اختلافات کے حل اور قوانین کے مکمل اجراء کیلئے عدالتی احکام پیش کئے ہیں _ ان قوانین کی تدوین اور وضع سے یہ بات بخوبی سمجھ

۳۲۷

میں آجاتی ہے کہ عدلیہ کا تعلق دین اسلام کے متن سے ہے اور شارع اسلام نے اس کی تشکیلات پر خاص توجہ دی ہے _ اسی طرح اسلام کے احکام و قوانین کا معتد بہ حصہ راہ خدا میں جہاد اور اسلام و مسلمین سے دفاع سے متعلق ہے _ اس سلسلہ میں دسیوں آیتیں اور سیکڑوں حدیثیں وارد ہوئی ہیں _ مثلاً : خداوند عالم مومنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے :

جاهدوا فی سبیل الله حق جهاد (۱) (حج/ ۷۸)

راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کرو _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین لله (۲) (بقرہ /۱۲)

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوجائے اور صرف دین خدا باقی رہے

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم لعلهم ینتهون (توبہ/ ۱۲)

پس تم کفر کے سرغنہ لوگوں سے جنگ کرتے رہو کہ ان کے عہد کا کوئی اعتبار نہیں ہے تا کہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں _

ایسی آیتوں سے کہ جن کے بہت سے نمونے موجود ہیں ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعات ، کفر و استکبار اور ظلم و ستم سے جنگ مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بلکہ بعض آیتوں میں تو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی طاقت کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں اور دشمن کے مقابلہ کے لئے مسلح رہیں _ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

واعدوا لهم ماستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم و آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم _ (انفال / ۶۰)

اور جہاں تک ہوسکے جنگی توانائی اور بندھے ہوئے گھوڑے فراہم کرو اور اس سے

۳۲۸

دشمنان خدا اور اپنے دشمنوں اور دوسرے لوگوں پر دھاک بٹھا ور تم انھیں نہیں جانتے نگر خدا انھیں جانتا ہے _

مذکورہ آیتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلحہ کی فراہمی اور فوجی توانائی اسلام کا جز ہے _ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہمیشہ دفاعی طاقت کے استحکام اور دشمنوں کے حملوں کو روکنے کیلئے مختلف قسم کا اسلحہ بنائیں کہ جس سے دشمنان اسلام ہمیشہ مرعوب ووحشت زدہ رہیں اور تعدی و تجاوز کی فکر ان کے ذہن میں خطور نہ کرے _

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ہے اور یہ سب پرواجب ہے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ظلم و فساد ، استکبار ، تعدی و تجاوز اور معصیت کاری سے مبارزہ کریں ، اسی طرح توحید ، خداپرستی کی اشاعت اور لوگوں کو خیر و صلاح کی طرف بلانے کی کوشش کرنا بھی واجب ہے اس اہم اور حساس فریضہ کی تاکید کے سلسلہ میں دسیوں آیتیں او رسیکڑوں احادیث وارد ہوتی ہیں _ مثلاً:

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر (آل عمران /۱۰۴)

''تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو لوگوں کو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کریں'' _

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون

۳۲۹

عن المنکر و تومنون بالله ( آل عمران/ ۱۱۰)

تم بہترین امت ہو کر لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو _

مختصر یہ کہ اسلام کا سیاسی و اجتماعی پروگرام اوراحکام و قوانین جیسے جہاد، دفاع قضاوت ، حقوقی ، شہری و جزائی ، قوانین ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، فساد و بیدادگری سے مبارز ہ ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ان سب کیلئے نظم و ضبط اور اداری تشکیلات کی ضرورت ہے اور ایک اسلامی حکومت کی تاسیس کے بغیر ان احکام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومت کی تاسیس ، جو کہ اسلام کے قوانین کے نفاذ اور اس کے سیاسی ، اجتماعی ، اقتصادی فوجی اور انتظامی و حقوقی پروگرام کے اجراء کی ضامن ہے ، اسلام کا اصل نصب العین ہے _ اگر شارع نے ایسے قوانین و پروگرام وضع کئے ہیں تو ان کے نفاذ کیلئے حاکم اسلام کی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھا ہے _ کیا جنگ و دفاع فوجی نظم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟ کیا ظلم و بیدادگری ، دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ، احقاق حق اور ہرج و مرج کا سد باب عدلیہ اور انتظامی نظلم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟

چونکہ اسلام نے قوانین و پروگرام کئے ہیں اس لئے ان کے اجراء و نفاذ کا بھی منصوبہ بنایا ہے _ اور یہی اسلامی حکومت کے معنی ہیں کہ حاکم اسلام یعنی ایک شخص ایک وسیع اداری امور کی زمام اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور قوانین الہی کو نافذ کرکے لوگوں میں امن وامام برقرار کرتا ہے _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں واقع ہوتی ہے اس سے جدا نہیں کیاجا سکتا _

۳۳۰

رسول (ص) خدا مسلمانوں کے زمامدار

رسول خدا (ص) اپنی حیات طیبہ میں عملی طور پر حکومت اسلامی کے زمامدار تھے مسلمانوں کے امور کے نگراں تھے _ اور اس اہم ذمہ داری کی انجام وہی کی خاطر خدا کی طرف سے آپ کو بہت سے اختیارات دیئےئے تھے _ قرآن فرماتا ہے :

النّبی اولی بالمومنین من انفسهم ( احزاب /۶۰)

نبی کو مومنین کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے _ دوسری جگہ ارشاد ہے :

فاحکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم ( مائدہ / ۴۸)

جو احکام و قوانین ہم نے آپ (ص) پر نائل کئے ہیں ان کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان حکومت کیجئے اور ان کی خواہش کا اتباع نہ کیجئے _

اس بنا پر رسول (ص) دو منصبوں کے حامل تھے ایک طرف وحی کے ذریعہ خدا سے رابط تھا اور ادھر سے شریعت کے احکام و قوانین لیتے تھے اور لوگوں تک پہنچاتے تھے اور دوسری طرف امت اسلامیہ کے زمام دار و حکمران بھی تھے اور مسلمانوں کے سیاسی و اجتماعی پروگرام کا اجراء آپ ہی فرماتے تھے _

رسول (ص) خدا کی سیرت کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی روشن ہوجاتی ہے کہ آپ(ص) عملی طور پر مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور اپنے دست مبارک میں رکھتے اور ان پر حکومت کرتے تھے_ حاکم و فرمانروا مقرر کرتے ، قاضی معین کرتے ، جہاد و دفاع کا حکم صادر فرماتے مختصر یہ کہ آپ (ص) ان تمام کاموں کو انجام دیتے تھے جو ایک امت کیلئے

۳۳۱

لازم ہوتے تھے _(۱)

اس کام پر آپ خدا کی جانب سے مامور تھے _ آپ (ص) کو یہ ذمہ داری سپردکی گئی تھی کہ اسلام کے سیاسی اور اجتماعی قوانین کو نافذ کریں _ مسلمان جہاد پر مامور تھے لیکن رسول خدا کو یہ حکم تھا کہ وہ انھیں جہاد و دفاع کیلئے ، آمادہ کریں _ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

'' یا ایها النبی حرّض المومنین علی القتال'' ( انعام / ۲۵)

اے نبی (ص) مومنین کو جہاد کی ترغیب دلاہیئے

دوسری جگہ ارشاد ہے :

یا ایها النبی جاهد الکفار و المنافقین و اغلظ علیهم (توبہ /۷۳)

اے نبی (ص) کفار و منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے _

رسول (ص) لوگوں کے درمیان حکومت و قضاوت کرنے پر مامور تھے ، قرآن کہتا ہے :

انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بمااراک الله و لا تکن للخائنین خصیما'' _ (نساء/ ۱۰۵)

ہم نے آپ پر بر حق کتاب نازل کی ہے تا کہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان حکم کریں جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے اور خیانت کاروں کے حق میں عداوت نہ کیجئے _

ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول خدا نبی ہونے ، وحی لینے اور

____________________

۱_ الترتیب الاداریہ اور کتاب الاموال مولفہ حافظ ابو عبید ملا حظہ فرمائیں _

۳۳۲

اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ مسلمانوں کی حکومت اور زمامداری پر بھی مامور تھی اور اس بات پر مقرر تھے کہ سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام کو نافذ کرکے مسلمانوں پر حکومت کریں چنانچہ اس سلسلہ میں آنحضرت کو مخصوص اختیارات دیئے گئے تھے اور مسلمانوں پر آنحضرت کی حکومتی احکام کی اطاعت کرنا واجب تھا _

قرآن مجید میں ارشاد ہے :

اطیعوا لله و اطعیواالرسوال و اولی الامر منکم (نساء/ ۵۹)

اللہ کی اطاعت کرو اور سول (ص) کی اطاعت کرو اور اپنے صاحبان امر کی اطاعت کرو _ نیز ارشاد ہے :

و اطیعوا الله و رسوله و لا تنازعو فتفشلوا '' ( انفال / ۴۶)

اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو نزاع و اختلاف سے پرہیز کرو کہ کمزور پڑجاؤ گے _

و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله (نساء/ ۶۴)

اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا خدا کے حکم سے اس کی اطاعت ہوتی _

ان آیتوں میں رسول (ص) کی اطاعت خدا کی اطاعت کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کے ساتھ اس کے رسول (ص) کی

بھی اطاعت خدا کی اطاعت اس طرح ہوگی کہ لوگ اس کے احکام کو قبول کریں جو کہ رسول کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں _ اس کے علاوہ مسلمانوں پر یہ واجب کیا گیا تھا کہ وہ رسول کے مخصوص احکام کی بھی اطاعت کریں _ رسول (ص) خدا کے مخصوص فرمان عبارت ہیں : وہ حکم و دستورات جو آپ مسلمانوں کے حاکم ہونے کی حیثیت سے صادر فرماتے تھے_ اس لحاظ سے وہ

۳۳۳

بھی واجب ہیں _ مختصر یہ کہ حکم خدا سے رسول (ص) کی اطاعت واجب ہے _

اس بناپر ابتدائے اسلام ہی سے حکومت دین کا جزو تھی اور عملی طور پر پیغمبر اس کے عہدہ دار تھے _

اسلامی حکومت رسول (ص) کے بعد

رسول کی وفات کے بعد نبوت اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا _ لیکن دین کے احکام و قوانین اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام مسلمانوں کے درمیان باقی رہے _ یہاں یہ سوال اٹھتاہے کیا رسول اکرم کی رحلت کے بعد آپ(ص) کی حاکمیت کا منصب بھی نبوت کی طرح ختم ہوگیا ؟ اور اپنے بعد رسول خدا نے کسی کو حاکم و زمام دار مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اس ذمہ داری کو مسلمانوں پر چھوڑدیا ہے _ یا اس اہم و حساس موضوع سے آپ(ص) غافل نہیں تھے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے کسی شخص کو منتخب فرمایا تھا؟

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام خود مسلمانوں کے حاکم اور اسلام کے قوانین و پروگرام کو نافذ کرنے والے تھے ، آپ اسلامی حکومت کے دوام کی ضرورت کو بخوبی محسوس کرتے تھے _ آنحضرت(ص) اچھی طرح جانتے تھے کہ بغیر حکومت کے مسلمان زندہ نہیں رہ سکتے اور اسلامی حکومت اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب اس کو چلانے کیذمہ داری اسلام شناس ، عالم ، پرہیزگار ، امین اور عادل انسان کے دوش پر ڈالی جائے ، تا کہ وہ دین کے احکام و قوانین کو نافذ کرکے اسلامی کومت کو دوام بخشے _ اسی لئے رسول اکرم نے ابتداء تبلیغ رسالت ہی سے خداوند عالم کے حکم کے مطابق مناسب موقعوں پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو مسلمانوں کے امام و خلیفہ کے عنوان سے پہچنوایا ہے اس سلسلہ میں

۳۳۴

احادیث شیعہ و اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں _منجملہ ان کے یہ ہے کہ حجة الوداع کے سفر میں غدیر خم کے مقام پر قافلہ روک کر ہزاروں صحابہ کے سامنے فرمایا:

الست اولی بالمومنین من انفسهم ؟ قالوا بلی یا رسول الله فقال من کنت مولاه فعلی مولاه ، ثم قال: اللهم وال من والاه و عاد من عاداه _ فلقیه عمر بن الخطاب فقال : هنیئاً لک یا بن ابی طالب _ اصبحت مولای و مولا کل مومن و مومنه _(۱)

رسول (ص) نے لوگوں سے فرمایا: کیا میں مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ اصحاب نے عرض کی : بے شک ، اللہ کے رسول ، اس وقت آپ (ع) نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں _ پھر فرمایا : با ر الہا علی کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن _ پس عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ملاقت کی اور کہا : فرزند ابوطالب مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے ''_

ایسی احادیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رسول (ص) نے اپنی حاکمیت کو دائمی بناکر اسے علی بن ابی طالب کے سپرد کردیا ہے _ اس سے پہلے اس منصب کیلئے آپ کو آمادہ کیا اور ضروری علوم و اطلاع آپ کے اختیار میں دیں _ آنحضرت جانتے تھے کہ علی ذاتی علم و عصمت کے حامل ہیں اور منصب امامت کے لائق ہیں _ اسی لئے آپ (ص) نے

____________________

۱_ ینابیع المودة / ۲۹۷_

۳۳۵

خدا کے حکم سے حضرت علی کو اس منصب کیلئے منتخب کیا اور اس حیثیت سے پہچنوایا _ حضرت علی اسلام کے احکام و قوانین کے حافظ بھی تھے اور حاکم اسلام و مجری قوانین بھی تھے رسول نے غدیر میں حضرت علی کے اختیار میں اپنا اولی بالتصرف کا منصب دیا _ اور عمر بن خطاب کے ذہن میں بھی ان ہی معنی نے خطور کیا اورانہوں نے علی سے کہا : اے ابوطالب کے بیٹے مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے _

مسلمان بھی یہی سمجھتے چنانچہ انہوں نے امیرالمومنین کی بیعت کی وفاداری کااظہار کیا اگر ان معنی میں علی کو مولا نہ بنایا گیا ہوتا تو تو بیعت کی ضرورت نہ ہوتی _

علی (ع) جانشین رسول (ص)

رسول خدا نے خدا کے حکم سے حضرت علی (ع) کو مسلمانوں کا امام و زمام دار منصوب فرمایا اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کی امامت کو دائمی بنادیا _ لیکن آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے اختلاف کیا ، لوگوں کی کمزوری اور جاہلیت سے غلط فائدہ اٹھایا اور حضرت علی کے شرعی حق کو غصب کرلیا اور اسلامی حکومت کو اس کے حقیقی وارث سے جدا کردیا _ حضرت علی (ع) کے بیعت نہ کرنے ، خطبے دینے ، احتجاج کرنے اور شکوہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کی حاکمیت و زمام داری کو غصب کرلیا گیا تھا _ خلفا نے دین کے احکام و معارف کو حضرت علی (ع) سے نہیں لیا تھا _ اگر چہ آپ کے علمی تبحر و مرتبہ کے معترف تھے یہاں تک کہ مشکل مسائل میں آپ(ع) سے رجوع کرتے تھے _

جس وقت خلافت حضرت علی (ع) کے ہاتھ میں آئی اور آپ(ع) نے خلافت کے تمام امور جیسے حاکم و فرمانروا کا تقرر ، قضات کا انتخاب ، زکوة و خمس کی وصولیابی کی

۳۳۶

ذمہ داری کا سپرد کرنا ، جہاد ودفاع کاحکم صادر کرنا اور سپہ سالاروں کے تقرر کو اپنے اختیار میں لے لیا تو طلحہ و زبیر نے آپ (ع) کے مخالفت کی اور جنگ جمل برپاکردی وہ آپ کی حکومت کے مخالف تھے آپ (ع) کے علمی مرتبہ اور احکام و معارف کے بیان کے مخالف نہیں تھے _ احکام کے بیان میں معاویہ کو بھی آپ سے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ اس نے حکومت او رتخت خلافت کے سلسلہ میں آپ (ع) سے جنگ کی تھی _

اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول اکرم کی وفات سے اسلامی حکومت ختم نہیں ہوئی بکلہ حضرت علی بن ابی طالب کے خلیفہ منصوب ہونے سے اسلامی حکومت کے باقی رکھنے کی تصریح ہوگئی اور اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ شارع اسلام نے سیاسی و اجتماعی قوانین کے نافذ کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا ہے _ یعنی اسلامی حکومت کو ہمیشہ باقی رہنا چاہئے _

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بعد امام و خلیفہ اور حاکم منتخب کیا اور امام حسن (ع) نے اپنے بعد اپنے بھائی امام حسین اور امام حسین (ع) نے اپنے بیٹے امام زین العابدین کو منصوب کیا اور اس طرح بارہویں امام حضرت حجة بن الحسن تک ہر امام نے اپنے بعد والے امام کا تعارف کرایا _ خداداد علم و عصمت اور طہارت اور اپنے ذاتی کمال و صلاحیت کے علاوہ مسلمانوں کے امام و حاکم بھی منصوب ہوئے _ اس بناپر مسلمانوں کی امامت اور معصوم حکمرانوں کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا اگر چہ حضرت علی بن ابی طالب کے علاوہ بظاہر کوئی امام بھی اپنا شرعی حق حاصل نہیں کرسکا اور اسلامی حکومت کو جاری نہ رکھ سکا _

زمانہ غیبت میں اسلامی حکومت

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام

۳۳۷

کی کیا کیفیت ہے؟ جس زمانہ میں معصوم امام و حاکم تک رسائی نہیں ہے کیا اس میں شارع اسلام نے احکام و منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کا کوئی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا اسلام یہ سارے قوانین صرف رسول کی حیات ہی کے مختصر زمانہ کیلئے تھے؟ اور اس وقت سے ظہور امام مہدی تک ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس طویل زمانہ میں جہاد، دفاع ، حدود کے اجراء قصاص و تعزیرات ظلم و بیدادگری سے جنگ، مستضعفین اور محروموں سے دفاع، فساد و سرکشی اور معصیت کاری سے مبارزہ سے دست کشی کرلی ہے اور ان کے نفاذ کو حضرت مہدی کے ظہور پر موقوف کردیا ہے ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں آیات و احادیث صرف کتابوں میں بحث کرنے کیلئے آئی ہیں ؟ میرے خیال میں کوئی با شعور مسلمان ایسی باتوں کو قبول نہیں کرے گا ؟ مسلمان خصوصاً مفکر ین یہی کہیں گے کہ یہ احکام بھی نفاذ ہی کے لئے آئے ہیں _ اگر حقیقت یہی ہے تو تمام زمانوں کو منجملہ اس زمانہ کو قوانین کے اجراء سے کیوں نظر انداز کردیا ہے؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام نے سیاسی و اجتماعی منصوبے بنائے ہیں لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم مقرر نہیں کئے ہیں _

زمانہ غیبت میں مسلمانوں کا فریضہ

یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اور معصوم امام کو خدا کی طرف سے مسلمانوں کا حاکم منصوب کیا گیا ہے اور ان کے امور کی زمام ان ہی کے ہاتھ میں دی گئی ہے _ اور اس سلسلہ میں انھیں کوشش کرنی چاہئے لیکن اصلی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس و استحکام اور پیغمبر و امام کو طاقت فراہم کرنے کے سلسلہ

۳۳۸

میں مخلصانہ کوشش کریں اور ان کے تابع رہیں _ اسی طرح جب معصوم امام تک رسائی ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبوں کے اجراء کیلئے کوشش کریں جو فکر اسلام نے کسی زمانہ میں یہاں تک کہ اس زمانہ میں بھی اپنے احکام کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے _ اکثر احکام و قوانین مسلمانوں کو مخاطب کرکے بیان کئے گئے ہیں مثلاً قرآن مجید فرماتا ہے :

و جاهدوا فی الله حق جهاده ( حج/ ۷۸)

راہ خدا میں حق جہاد ادا کرو _

انفروا خفافا و ثقالا و جاهدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل الله ( توبہ /۴۱)

مسلمانو تم ہلکے ہو یا بھاری راہ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو _

تومنون بالله و رسوله و تجاهدون فی سبیل الله (صف/۱۱)

تم خداو رسول پر ایمان رکھتے ہو راہ خدا میں جہاد کرو _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لا تعتدوا ( بقرہ/ ۱۹۰)

راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو _

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا ( نساء /۶۷)

شیطان کے طرف داروں سے جہاد کرو کہ شیطان کامکر کمزور ہے _

و قاتلوا حتی تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال / ۳۹)

۳۳۹

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا باقی رہے _

و مالکم لا تقاتلون فی سبیل الله (انفال /۳۹)

راہ خدا میں تم جہاد کیوں نہیں کرتے؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم (توبہ/۱۲)

کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو کہ ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة ( توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے سب اسی طرح جنگ کرو جیسا کہ وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں _

واعدوا لهم مااستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

اور جہاں تک تم سے ہوسکے دشمنوں کے لئے جنگی توانائی اور گھوڑوں کی صف کا انتظام کرو کہ اس سے خدا کے دشمن اور تمہارے دشمنوں پر رعب طاری ہوگا _والسارق و السارقة فاقطعوا ایدهما جزاء بما کسبا نکالا من الله و الله عزیز حکیم (مائدہ / ۳۸)

اور چورمرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے ایک بدلہ اور خدا کی طرف سزا ہے اور خدا عزت و حکمت والا ہے _

الزّانیه و الزّانی فاجلدو کل واحد منهما اماة جلدة ولا تاخذ بهما رافة فی دین الله _ ( نور/ ۲)

زناکار عورت اور زناکار مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ اور خبردار

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455