آفتاب عدالت

آفتاب عدالت0%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 455
مشاہدے: 172796
ڈاؤنلوڈ: 4763

تبصرے:

آفتاب عدالت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172796 / ڈاؤنلوڈ: 4763
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مستکبرین کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے _ شرک و بت پرستی اور فساد سے مبارزہ کرتے تھے_ لوگوں کو وحدانیت ، خداپرستی اور وحدت کی دعوت دیتے تے ، ظلم و ستم اور استکبار کی مخالفت کرتے تھے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

یقینا ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا کہ وہ خدا کی عبادت کریں اور طاغوت سے اجتناب کریں ''(۱)

فرماتا ہے '' جو بھی طاغوت سے اجتناب کرتا ہے اور خدا پر ایمان لاتا ہے وہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے ''(۲)

قرآن مجید مستضعفین کی نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کرنے کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' مستضعفین کی نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کیوں نہیں کرتے ؟ مرد عورتیں اور بچے فریاد کررہے ہیں _ ہمارے خدا ہمیں اس ظالموں کے قریہ سے نکال لے اور اپنی طرف سے ہمارا سرپرست مقررکردے اور ہمارا مددگار معین فرما _ مومنین راہ خدا میں اور کفار راہ طاغوت میں جنگ کرتے ہیں _ لہذا شیطان کے طرف داروں سے جنگ کرو کہ شیطان کا مکر چلنے والا نہیں ہے ''(۳)

____________________

۱_ سورہ نحل / آیت ۳۶_

۲_ سورہ بقرہ / آیت ۲۵۶_

۳_ سورہ نساء / آیت ۷۶_

۳۰۱

مذکورہ بحث سے چند چیزوں کا اثبات ہوتا ہے:

۱_ جو مستکبرین لوگوں پر حکومت کرتے ہیں وہ اقلیت میں ہیں ، ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستضعفین کی طاقت و قدرت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انھیں قید و بند میں ڈال کر کمزور بناتے ہیں _

۲_ مستضعفین اکثریت میں ہیں حقیقی قدرت و توانائی ان ہی کی ہے ، وہ کمزور و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستکبرین کے پروپیگنڈوں سے خود کمزور سمجھتے ہیں _

۳_ مستضعفین کی ناکامی اور بدبختی کا اہم ترین عامل ان کا احساس کمتری و کمزوری ہے ، چونکہ وہ خود کو ناتوان اور مستکبرین کو قوی و طاقتور سمجھتے ہیں لہذا ان کے ہاتھوں کی کٹھپلتی بن جاتے ہیں اور ان کے اشاروں پر کام کرتے ہیں اور ہر قسم کی ذلت و محرومیت کو قبول کرلیتے ہیں _ ان میں مخالفت کی جرات نہیں ہے _ محروم و مستضعف لوگوں کی لا علاج بیماری یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عظیم طاقت کو فراموش کردیا ہے اور مستکبرین کی جھوٹی طاقت کے رعب میں آگئے ہیں اور طاغوتیوں کیلئے ظلم و تعدی کا راستہ اپنے ہاتھوں سے کھول دیا ہے _

۴_ پسماندہ اور مستضعف طبقہ کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی عظیم وقوی گم شدہ شخصیت کو حاصل کریں ایک عالمی انقلاب و حملہ سے ساری بندشین توڑڈالیں ، اور مستکبریں و طاغوتیوں کی حکومت کو ہمیشہ کیلئے نابود کردیں اور خود دنیا کی حکومت اور اس کے نظم و نسق کی زمام سنبھالیں کہ یہ کام بہت مشکل نہیں ہے _ کیونکہ اصلی قدرت و توانائی عوامل کے ہاتھ میں ہے ، ان ہی کی اکثریت ہے ، اگر دانشور ، موجد ، ملازمین ، ٹھیکیدار ، پولیس ، کسان اور صنعت گر سب ہی ہوش میں

۳۰۲

آجائیں اور اپنی عظیم توانائی کو مستکبرین کے اختیار میں نہ دیں تو ان کی جھوٹی حکومت لمحوں میں ڈھیر ہوجائے گی _ اگر ساری توانائیاں ، دفاع ، پولیس اور اسلحہ کو مستضعفین کی حمایت میں استعمال کیا جائے اور اس سلسلہ میں سب متحد ہوجائیں تو پھر مستکبرین کی کوئی طاقت باقی رہے گی؟

یہ کام اگر چہ بہت دشوار ہے لیکن ممکن ہے اور قرآن ایسے تابناک زمانہ کی خوش خبری دے رہا ہے _ ارشاد ہے :

''ہم چاہتے ہیں کہ مستضعفین پر احسان کریں ، انھیں امام بنائیں اور انھیں زمین کا وارث بنائیں اور روئے زمین پر انھیں قوی بنائیں''(۱)

یہ عالمی انقلاب ، حضرت مہدی اور آپ کے اصحاب و انصار کے ذریعہ کامیاب ہوگا _ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے :

''جب ہمارا قائم قیام کرے گا اس وقت خداوند عالم ان کا ہاتھ بندوں کے سرپررکھے گا اور اس طرح ان کے حواس جمع اور عقل کامل کرے گا ''(۲)

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ عالمی اور عظیم انقلاب دین اور قوانین الہی کے عنوان کے تحت آئے گا _ امام مہدی اس کی قیادت کریں گے اور شائستہ و فداکار مومنین آپ کی رکاب میں جہاد کریں گے _

خدا نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا

____________________

۱_ قصص/۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ص ۳۳۶_

۳۰۳

ہے کہ انھیں زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور یہ خوش خبری دی ہے کہ جس دین کو ان کے لئے منتخب کیا ہے اس پر انھیں ضروری قدرت عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن و امان سے بدل دے گا کہ وہ خدا ہی کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے _(۱)

احادیث میں آیا ہے کہ اس آیت سے حضرت مہدی اور ان کے انصار و اصحاب مراد ہیں اور ان ہی کے ذریعہ پوری دنیا میں اسلام پھیلے گا اور تمام ادیان پر غالب ہوگا _

قرآن مجید و احادیث ایسے دن کی خوش خبری دے رہی ہیں کہ جس میں دنیا کے مستضعفین خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور اپنی عظیم توانائی اور مستکبرین و طاغوتیوں کی ناتوانی کو سمجھیں گے اور مہدی کی قیادت میں توحید کے پرچم کے نیچے جمع ہونگے ایمان کی طاقت پر اعتماد کرکے ایک صف میں مستکبرین کے مقابلہ کھڑے ہوں گے اور ایک اتفاقی حملہ سے استکبار کے نظام کو درہم و برہم کردیں گے _ اسی تابناک زمانہ کفر و شرک اور مادہ پرستی کا قلع و قمع ہوگا ، لوگوں کے درمیان سے اختلاف و تفرقہ بازی ختم ہوجائے گی _ موہوم و اختلاف انگیز سرحدوں کا اعتبار نہیں ہرے گا اور ساری دنیا کے انسان صلح و صفائی اور آسائشے و آرام کے ساتھ زندگی بسر کریں گے _

____________________

۱_ نور/ ۵۵_

۳۰۴

مہدی ظہور کیوں نہیں کرتے ؟

جلالی : دنیا ظلم و جور اور کفرو الحاد سے بھر چکی ہے تو دنیا کی آشفتہ حالی کو ختم کرنے کے لئے مہدی ظہور کیوں نہیں کرتے؟

ہوشیار: کوئی بھی تحریک و انقلاب اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جب اس کیلئے ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوتی ہے _ کامیابی کی اہم ترین راہ یہ ے کہ سارے انسان اس انقلاب کے خواہاں ہوں اور سب اس کی تائید و پشت پاہی کیلئے تیارہوں _ اس صورت کے علاوہ انقلاب ناکام رہے گا _ اس قاعدہ کلی سے انقلاب مہدی موعود بھی مستثنی نہیں ہے _ یہ انقلاب بھی اس وقت کامیاب ہوگا جب ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوگی _ آپ کا انقلاب معمولی نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور عالمی ہے _ اس کا بہت عمیق و مشکل پروگرام ہے _ آپ تمام نسلی ، ملکی ، لسانی ، مقصدی اور دینی اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ روئے زمین پر صرف ایک قوی نظام کی حکمرانی ہو کہ جس سے صلح و صفائی کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کریں _ آپ جانتے ہیں کہ منبع ہی سے پانی کی اصلاح کی جا سکتی ہے لہذا آپ اختلافی عوامل کو جڑے ختم کردینا چاہتے ہیں تا کہ درندہ خصلت انسانوں سے درندگی کی عادت ختم ہوجائے اور شیر و شکر کی طرح ایک ساتھ زندگی گزاریں _ امام مہدی دنیا سے

۳۰۵

کفر و الحا دکو نابود کرکے لوگوں کو خدائی قوانین کی طرف متوجہ کرکے دین اسلام کو عالمی آئین بنانا چاہتے ہیں _

افکار و خیالات کے اختلاف کو ختم کرکے ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتے ہیں اور جھوٹے خداؤں ، جیسے سرحدی ، لسانی ، ملکی ، گروہی ، علاقائی اور جھوٹی شخصیتوں کو ذہن انسان سے نکال کر پھینک دینا چاہتے ہیں _ مختصر یہ کہ نوع انسان اور معاشرہ انسانی کو حقیقی کمال و سعادت سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں اور انسانی اخلاق و فضائل کے پایوں پر ایک معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں _

اگر چہ ایسی باتوں کا لکھنا مشکل نہیں لیکن محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایک ایسے عالمی و عمیق انقلاب کا آنا آسان نہیں ہے _ ایسا انقلاب مقدمات ، اسباب ، عام ذہنوں کی آمادگی اور زمین ہموار ہونے کے بغیر نہیں آسکتا _ ایسے عمیقانقلاب کا سرچشمہ دلوں کی گہرائی کو ہونا چاہئے _ خصوصاً مسلمانوں کو اس کا علم بردار ہونا چاہئے ، قرآن مجید بھی صلاحیت و شائستگی کو اس کی شرط قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' ہم نے زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہم اپنے شائستہ بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے''(۱) _

اس بناپر جب تک نوع انسان رشد و کمال کی منزل تک نہیں پہنچے گی اور امام مہدی کی حکومت حق کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوگی ، مہدی ظہور نہ فرمائیں گے _ واضح

____________________

۱_ انبیائ/۱۰۵_

۳۰۶

ہے کہ افکار کی آمادگی لمحوں میں نہیں ہوتی ہے بلکہ حوادث کے پیش آنے کے ساتھ طویل زمانہ میں ہوتی ہے اور تب لوگ کمال کی طرف مائل ہوتے ہیں لوگوں کو اس اور اس ملک کے بارے میںاس قدر بحث و مباحثہ کرنا پڑے گا اور موہوم سرحدوں کے اوپر اتنی جنگ و خونریزی کرنا پڑے گی کہ لوگ ایسی باتوں سے عاجز آجائیں گے اور سمجھ لیں گے کہ یہ سرحدیں تنگ نظر لوگوں کی ایجاد ہے _ اس صور ت میں وہ اعتباری اور اختلاف انگیز حدود سے ڈریں گے اور ساری دنیا کو ایک ملک اور سارے انسانوں کو ہم وطن اور نفع و ضرر اور سعادت و بدبختی میں شریک سمجھیں گے _ اس زمانہ میں کالے گورے ، سرخ و پیلے ، ایشائی ، افریقی ، امریکی ، یورپی ، شہری ، دیہاتی اور عرب و عجم کو ایک نظرسے دیکھیں گے _

انسان کی اصلاح ، سعادت اور آسائشے کے لئے دانشور ایسے قوانین مرتب کرتے رہیں اور پھر ان پر تبصرہ کریں اور ایک زمانہ کے بعد انھیں لغو قراردیں اور ان کی بجائے دوسرے قوانین لائیں یہاں تک اس سے لوگ اکتا جائیں اور دنیا والے بشر کے قوانین کے نقصان اور قانون بنانے والی کی کم عقلی و کوتاہ فکری کا اندازہ لگالیں اور ان قوانین کے سایہ میں ہونے والی اصلاح سے مایوس ہوجائیں اور اس بات کا اعتراف کرلیں کہ انسان کی اصلاح صرف پیغمبروں کی اطاعت اور قوانین الہی کے نفوذ سے ہوسکتی ہے _

بشر ابھی خدائی پروگرام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ علوم و اختراعات کے ذریعہ انسان کی سعادت کے اسباب فراہم کئے جا سکتے ہیں _ لہذا وہ الہی اور معنوی پروگرام کو چھوڑ کر مادیات کی طرف دوڑتا

۳۰۷

ہے اور اسے اتنا دوڑنا چاہئے کہ وہ عاجز آجائے اور سخت دھچکا لگے تو اس وقت اس بات کااعتراف کرے گا کہ علوم و اختراعات اگر چہ انسان کو فضا کے دوش پر سوار کرسکتے ہیں ، اس کے لئے آسمان کروں کو مسخر کرسکتے ہیں ، اور مہلک ہتھیار اس کے اختیار میں دے سکتے ہیں لیکن عالمی مشکلوں کو حل نہیں کر سکتے اور استعمار و بیدادگری کا قلع و قمع کرکے انسانوں کو روحانی سکون فراہم نہیں کر سکتے _

جس وقت سے انسان نے حاکم و فرمانروا کو تلاش کیا ہے اور اس کی حکومت کو قبول کیا ہے اس وقت سے آج تک ان سے اس بات کو توقع رہی ہے اور ہے کہ وہ طاقتور اور ذہین افراد ظلم و تعدی کا سد باب کریں اور سب کی آسائشے و آرام کا ساماں کریں _ لیکن ان کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی ہے اور ان کے حسب منشا

حکومت نہیں بنی ہے _ لیکن جب بارہا اس کا مشاہدہ ہوچکاکہ حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے _ دنیا میں بھانت بھانت کی حکومتوں کی تاسیس ہو فریب کار اور رنگ رنگ پارٹیاں تشکیل پائیں اور ان کی نااہلی ثابت ہوتا کہ انسان ان کی اصلاحات سے مایوس ہوجاتے اور اسے خدائی اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو اور وہ توحید کی حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوجائے _ ہشام بن سالم نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

''جب تکہر قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئے گی اس وقت تک صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا _ تا کہ جب وہ اپنی حکومت کی تشکیل دیں تو کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملی ہوئی تو ہم بھی اسی طرح عدل قائم کرتے ''(۲) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۴_

۳۰۸

امام محمد باقر(ع) کا ارشاد ہے :

''ہماری حکومت آخری ہے _ جس خاندان میں بھی حکومت کی صلاحیت ہوگی وہ ہم سے حکومت کرلے گا _ تاکہ جب ہماری حکومت تشکیل پائے تو اس وقت کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملتی تو م بھی آل محمد (ص) کی طرح عمل کرتے اور آیہ ''والعاقبة للمتقین'' کے یہی معنی ہیں ''(۱)

گزشتہ بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی طبیعت ابھی توحید کی حکومت قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اس نعمت سے ہمیشہ محروم رہے گا _ بلکہ جو خدا ہر موجود کو مطلوبہ کمال تک پہنچاتا ہے وہ نوع انسان کو بھی مطلوبہ کمال سے محروم نہیں رکھے گا _ انسان نے جس روز سے کرہ زمین پر قدم رکھا ہے اس ی دن سے وہ ایک سعادت مند و کامیاب اجتماعی زندگی کا خواہشمند رہا ہے اور ا س کے حصول کی کوشش کرتا رہا ہے _ وہ ہمیشہ ایک تابناک زمانہ اور ایسے نیک معاشرہ کا متمنی رہا ہے کہ جس میں ظلم و تعدی کا نام و نشان نہ ہو انسان کی یہ دلی خواہش فضول نہیں ہے اور خداوند عالم ایسے مقصد تک پہنچنے سے نوع انسان کو محروم نہیں کرے گا _ ایک دن ایساضرور آئے گا کہ جس میں انسان کا ضمیر و دماغ پورے طریقے سے بیدار ہوگا _ گوناگوں قسم کے احکام و قوانین سے مایوس اورحکام و فرمانروائی سے ناامید ہوجائے گا ، اپنے ہاتھ سے کھڑی کی ہوئی مشکلوں سے عاجز آجائے گا اور پورے طریقہ سے خدائی قوانین کی طرف متوجہ ہوگا _ اور لا ینحل

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۳۲_

۳۰۹

اجتماعی مشکلات کا حل صرف پیغمبروں کی تاسی میں محدود سمجھے گا _ اسے یہ محسوس ہوگا کہ اسے دو گرانقدر چیزوں کی ضرورت ہے _ ۱_ خدا کے قوانین اور اصلاحات کیلئے الہی منصوبہ ۲_ معصوم و غیر معمولی زمام دار کہ جو خدائی احکام و قوانین کے نفاذ و اجراء میں سہو و نسیان سے دوچار نہ ہو اور سارے انسانوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہو _ خداوند عالم نے مہدی موعود کو ایسے ہی حساس و نازک زمانہ کیلئے محفوظ رکھا ہے اوراسلام کے قوانین و پروگرام آپ کو ودیعت کئے ہیں _

دوسری وجہ

ظہور میں تاخیر کے سلسلہ میں اہل بیت کی روایات میں ایک اور علت بیان ہوئی ہے _ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''خداوند عالم نے کافروں اور منافقوں کے اصلاب میں با ایمان افراد کے نطفے ودیعت کئے ہیں اسی لئے حضرت علی (ع) ان کافروں کو قتل نہیں کرتے تھے جن سے کوئی مؤمن بچہ پیدا ہونے والا ہوتا تھا تا کہ وہ پیدا ہوجائے اور اس کی پیدائشے کے بعد جو کافر ہاتھ آجاتا تھا اسے قتل کردیتے تھے _ اسی طرح ہمارے قائم بھی اس وقت ظاہر نہ ہوں گے جب تک کافروں کے اصلاب سے خدائی امانت خارج ہوگی _ اس کے بعد آپ(ع) ظہور فرمائیں گے اور کافروں کو قتل کریں گے '' _(۱)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۰۵_

۳۱۰

امام زمانہ خداپرستی اور دین اسلام کو کافروں کے سامنے پیش کریں گے جو ایمان لے آئے گا وہ قتل پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ تہ تیغ کیا جائے گا اور اہل مطالعہ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ طول تاریخ میں کافر منافقوں کی نسل سے مومن و خداپرست بچے پیدا ہوئے ہیں _ کیا صدر اسلام کے مسلمان کافروں کی اولاد نہ تھی؟ اگر فتح مکہ میں رسول خدا کافر مکہ کا قتل عام کردیتے تو ان کی نسل سے اتنے مسلمان وجود میں نہ آتے _ خدا کے لطف و فیض کا یہ تقاضا ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پرچھوڑدے تا کہ مرور ایام میں ان کی نسل سے مومن پیدا ہوں اور وہ خدا کے لطف و فیض کا مرکز بن جائیں _ جب تک نوع سے مومن و خداپرست لوگ وجود میں آتے رہیں گے اس وقت تک وہ باقی رہے گی اور اسی صورت میں اپنا سفر طے کرتی رہے گی _ یہاں تک کہ عمومی افکار توحید و خداپرستی کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں گے اور اس وقت امام زمانہ ظہور فرمائیں گے _ بہت سے کفار آپ کے ہاتھ پر ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ کفر و الحاد ہی میں غرق رہیں گے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن سے کوئی مومن پیدا نہ ہوگا _

اس کے بعد جلسہ ختم ہوگیا اور طے پایا کہ آئندہ جلسہ ڈاکٹر صاحب کے گھر منعقد ہوگا _

۳۱۱

ظہور کے وقت کو کیسے سمجھیں گے؟

جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور جناب جلالی صاحب نے یہ سوال اٹھایا :

امام زمانہ کو کیسے معلوم ہوگا کہ ظہور کا وقت آگیا ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت انھیں خدا کی طرف سے اطلاع دی جائے گی تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ پیغمبروں کی طرح آپ(ص) پر وحی ہوگی اور نتیجہ میں نبی و امام میں کوئی فرق نہیں رہے گا _

ہوشیار: اول تو دلیل اور ان روایات سے جو کہ امامت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ امام کا بھی عالم غیب سے ارتباط رہتا ہے اور ضرورت کے وقت امام بھی حقائق سے آگاہ ہوتا ہے _ بعض روایات میں آیا ہے کہ امام فرشتہ کی آواز سنتا ہے لیکن اسے مشاہدہ نہیں کرتا ہے _(۱)

اس بنا پر ممکن ہے کہ خدا کے ذریعہ امام کو ظہور کے وقت کی اطلاع دے _

حضرت امام صادق آیہ فاذا نقر فی النّاقور کی تفسیر کے ذیل میں فرمایا: ''ہم میں سے ایک امام کامیاب ہوگا جو طویل مدت تک غیبت میں رہے گا اور جب خدا اپنے امر کو ظاہر کرنا چاہئے گا اس وقت ان کے قلب میں

____________________

۱_ کافی ج ۱ ص ۲۷۱_

۳۱۲

ایک نکتہ ایجاد کرے گا اور آپ(ع) ظاہر ہوجائیں گے اور خدا کے حکم سے،قیام کریں گے(۱)

ابو جارود کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی ہیں آپ کے قربان ، مجھے صاحب الامر کے حالات سے آگاہ کیجئے ، فرما یا :

شب میں آپ نہایت ہی خوف زدہ ہوں گے لیکن صبح ہوتے ہی مطمئن و پر سکون ہو جائیں گے آپ کے پرو گرام شب وروز میں وحی کے ذریعہ آپ کے پاس پہنچتے ہیں _ میں نے دریافت کیا : کیا امام پر بھی و حی ہوتی ہے ؟

فرمایا : وحی ہوتی ہے لیکن نبوت والی وحی نہیں ہوتی بلکہ ایسی وحی ہوتی ہے جیسی وحی کی مریم بنت عمران اور مادر موسی کی طرف نسبت دی گوی ہے _ اے ابو جارود قائم آل محمد خدا کے نزدیک مریم ، مادر موسی اور شہد کی مکھی سے کہیں زیادہ معزز ہیں''(۲)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام کے اوپر بھی وحی و الہام ہوتا ہے جبکہ امام اور نبی میں فرق بھی رہتا ہے _ کیونکہ نبی پر شریعت کے احکام و قوانین کی وحی ہوتی ہے اس کے برخلاف امام پر احکام و قوانین کی وحی نہیں ہوتی بلکہ وہ اسکی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے _

ثانیاً یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ظہور کے وقت رسول (ص) اسلام نے ائمہ کے توسط سے امام مہدی کو خبردی ہو _ اگر چہ کسی خاص حادیث کے رونما ہونے ہی کو ظہور کی

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۶۴_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۷۲ و بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۸۹_

۳۱۳

علامت قرارد یا ہو اور امام زمانہ اس علامت کے ظہور کے منتظر ہوں _

پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے :

''جب مہدی کے ظہور کا وقت آجائے گا تو اس وقت خدا آپ کی تلوار اور پرچم کو گویائی عطا کرے گا اور وہ کہیں گے : اے محبوب خدا اٹھئے اور دشمنان خدا سے انتقام لیجئے '' _(۱)

مذکورہ احتمال کے شواہد میں سے وہ روایات بھی ہیں کہ جن کی دلالت اس بات پر ہے کہ تمام ائمہ کا دستور العمل خدا کی جانب سے رسول اکرم پر نازل ہوا تھا اور آپ (ص) نے اسے حضرت علی بن ابی طالب کی تحویل میں دیدیا تھا _ حضرت علی (ع) نے اپنے زمانہ خلافت میں اس صحیفہ کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا اور اس کے بعد امام حسن (ع) کی تحویل میں آپ کا صحیفہ دیدیا _ اسی طرح ہر امام تک اس کا سر بمہر دستور العمل پہنچا اور انہوں نے اس کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا _ آج

بھی امام زمانہ کے پاس آپ(ص) کا دستور العمل موجود ہے _(۲)

قیام کے اسباب

اس کے علاوہ اہل بیت (ع) کی احادیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ظہور امام زمانہ کے وقت دنیا میں کچھ حوادث رونما ہوں گے جو آپ کی کامیابی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۱۱

۲_ کافی ج ۱ ص ۲۷۹

۳۱۴

اور ترقی کے اسباب فراہم کریں گے چنانچہ ایک ہی رات میں آپ(ع) کے انقلاب کے اسباب فراہم ہوجائیں گے ملاحظہ فرمائیں _

عبدالعظیم حسنی نقل کرتے ہیں کہ حضرت جواد (ع) نے ایک حدیث میں فرمایا:

''قائم ہی مہدی ہے کہ جن کی غیبت کے زمانہ میں ان کا منتظر اور ظہور کے وقت ان کا اطاعت گزاررہنا چاہئے وہ میرے تیسرے بیٹے ہیں_ قسم اس خدا کی کہ جس نے محمد کومبعوث بہ رسالت کیا اور ہمیں امامت سے سرفراز کیا اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس د ن کو اتنا طولانی کردے گا کہ وہ ظاہر ہوکر زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی _ خداوند عالم ایک رات میں آپ کے اسباب فراہم کرے گا جیسا کہ اپنے کلیم حضرت موسی کے امور کی بھی ایک ہی شب میں اصلاح کی تھی _ موسی گئے تھے تا کہ اپنی زوجہ کے لئے آگ لائیں لیکن وہاں تاج نبوت و رسالت سے بھی سرفراز ہوئے ''(۱)

پیغمبر اکرم نے فرمایا:

''مہدی موعود ہم سے ہے خدا ان کے امور کی ایک رات میں اصلاح کرے گا ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ کتاب الحاوی الفتاوی ، جلال الدین سیوطی طبع سوم ج ۲ ص ۱۲۴_

۳۱۵

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' صاحب الامر کی ولادت لوگوں سے مخفی رکھی جائے گی تاکہ ظہور کے وقت آپ(ع) کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو _ خداوند عالم ایک رات میں آپ کے امور کی اصلاح کرے گا '' _(۱)

امام حسین (ع) نے فرمایا:

'' میرے نویں بیٹے میں کچھ جناب یوسف کی اور کچھ جناب موسی کی سرت و روش ہوگی _ وہی قائم آل محمد ہیں _ خداوند عالم ایک رات میں ان کے امور کی اصلاح کرے گا_''(۲)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۹۶_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳_

۳۱۶

انتظار فرج

جلالی: امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا فریضہ کیا ہے؟

ہوشیار: دانشوروں نے کچھ فرائض معین کرکے کتابوں میں رقم کئے ہیں _ جیسے امام زمانہ کیلئے دعا کرنا ، آپ(ع) کی طرف سے صدقہ دینا ، آپ(ع) کی طرف سے حج کرنا یا کرانا ، آپ سے استعانت و استغاثہ کرنا _ یہ چیزیں سب نیک کام ہیں اور ان میں بحث کی ضرورت نہیں ہے لیکن روایات میں جو اہم ترین فریضہ بیان ہواہے اور جس کی وضاحت کی ضروت ہے ، وہ انتظار فرج کی فضیلت کے بارے میں ائمہ اطہار کی بہت زیادہ احادیث حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں مثلاً:

حضرت امام جعفر صاق کا ارشاد ہے :

''جو شخص ہم اہل بیت کی محبت پر مرتا ہے جبکہ وہ منتظر فرج بھی ہو تو ایسا ہی ہے جیسے حضرت قائم کے خیمہ میں ہو''_(۱)

حضرت امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے واسطہ سے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۱۷

''میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے ''(۱)

حضرت علی بن ابی طالب کا ارشاد ہے :

''جو شخص ہماری حکومت کا انتظار کرتا ہے اس کی مثال راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہونے والے کی ہے ''(۲) _

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں :

''صبر اور انتظار فرج کتنے بہترین چیز ہے؟ کیا لوگوں نے نہیں سنا ہے کہ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے : تم انتظار کرو میں بھی منتظر ہوں پس صبر کرو کیونکہ ناامیدی کے بعد فرج نصیب ہوگا _ تم سے پہلے والے زیادہ بردبار تھے''(۳)

ایسی احادیث بہت زیادہ ہیں ، ائمہ اطہار (ع) نے شیعوں کو انتظار فرج کے سلسلہ میں تاکید کی ہے _ فرماتے تھے: انتظار بجائے خود ایک فرج و خوشحالی ہے ، جو شخص فرج کا منتظر رہے گا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو میدان جنگ میں کفار سے جہاد کرے اور اپنے خون میں غلطان ہوجائے _ اس اعتبار سے زمانہ غیبت میں انتظار فرج بھی مسلمانوں کا عظیم فریضہ ہے _ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظار فرج کے معنی کیا ہیں؟ اور انسان فرج کا منتظر کیسے ہوسکتا ہے کہ جس سے مذکورہ ثواب حاصل ہوسکے ؟ کیا انتظار فرج کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان زبان سے یہ کہدے کہ میں امام زمانہ کے ظہور کامنتظر ہوں ؟ یا کبھی کبھی فریاد و آہ کے ساتھ یہ بھی کہے :

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۸۸_

۳_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۸_

۳۱۸

اے اللہ امام زمانہ کے فرج میں تعجیل فرمایا یا نماز پنجگانہ کے بعد اور متبرک مقامات پر ظہور تعجیل کی دعا کرے یا ذکر و صلوات کے بعد اللہم عجل فرجہ الشریف کہے : یا جمعہ ، جمعہ با گریہ وز اری دعائے ندبہ پڑھے؟

اگر چہ یہ تمام چیزیں بجائے خود بہت اچھی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انسان ایسے امور کی انجام وہی سے حقیقی فج کے منتظر کا مصداق نہیں بن سکے گا کیونکہ ائمہ کی زبانی اسکی اتنی زیادہ فضیلیتیں بیان ہوئی ہیں _ انتظار فرج کرنے والے کو میدان جہاد میں اپنے خون میں غلطان انسان کے برابر قرار دیا ہے _

جو لوگ ہر قسم کی اجتماعی ذمہ داریوں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکز کے فریضہ سے پہلو تہی کرتے ہیں ، فساد و بیدادگری پر خاموش بیٹھے رہتے ہیں ،ظلم و ستم و کفر و الحاد اور فساد کو تماش بینوں کی طرح دیکھتے ہیں اور ان حوادث پر صرف اتناہی کہتے ہیں : خدا فرج امام زمانہ میں تعجیل فرماتا کہ ان مفاسد کو ختم کریں _ میرے خیال میں آپ کا ضمیر اتنی سی باتوں سے مطمئن نہیں ہوگا اور انھیں آپ ان لوگوں کی صف میں کھڑا نہیں کریں گے جنہوں نے دین سے دفاع کی خاطر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت سے ہاتھ دھولیئےیں اور میدان جہاد میں اپنی جان کو سپر قرار دیکر جام شہادت نوش کیا ہے _

اس بناپر انتظار فرج کے دقیق اور بلند معنی ہونا چاہئیں_ اس مدعا کی مزید وضاحت کیلئے پہلے میں دو موضوعوں کو مقدمہ کے عنوان سے پیش کرتا ہوں _ اس کے بعد اصل مقصد کا اثبات کروں _

مقدمہ اول : احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ کے امور کا منصوبہ بہت وسیع اور دشوار ہے _ کیونکہ آپ کو پوری دنیا کی اصلاح کرنی ہے _ ظلم و ستم کا

۳۱۹

نام و نشان مٹانا ہے ، کفر و الحاد اور بے دینی کے نشانات کو محو کرنا ہے _ سارے انسانوں کو خداپرست بنانا ہے _ دین اسلام کو دنیا والوں کیلئے سرکاری دین قرار دینا ہے _ روئے زمین پر عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہے _ موہومی سرحدوں کو انسان کے ذہن سے نکالنا ہے تا کہ وہ سب صلح و صفائی کے ساتھ پرچم توحید کے سایہ میں زندگی بسر کریں _ نوع انسان کی تمام اقوام و ملل اور نسلوں کو توحید کے علم کے سایہ میں لانا ہے اور اسلام کی عالمی حکومت کی تشکیل کرنا ہے _ محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایسے قوانین کا نفاذ بہت مشکل کام ہے اور اتنا ہی دشوار ہے کہ ایک گروہ اسے ناممکن سمجھتا ہے _ اس بناپر یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب بشریت کا مزاج ایسے پروگرام کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوجائے اور عام افکار اتنی ترقی کرلیں کہ ایسے خدائی دستور العمل کی خواہش کرنے لگیں اور امام زمانہ آفتاب عدالت کے انقلاب کے اسباب ہر طرح سے فراہم ہوجائیں _

دوسرا مقدمہ :

اہل بیت کی احادیث سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ اور آپ کے اصحاب وانصار جنگ و جہاد کے ذریعہ کفر و الحاد پر کامیاب ہوں گے اور جنگی توانائی سے دشمن کی فوج اور ظلم و ستم و بے دینی کے طرف داروں کو مغلوب کریں گے _ اس سلسلہ کی احادیث میں سے چند یہ ہیں :

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

''مہدی اپنے جد محمد (ص) سے اس لحاظ سے مشابہ ہیں کہ شمشیر کے ساتھ قیام کریں گے اور خدا و رسول (ص) کے دشمنوں ، ستمگروں اور گمراہ کرنے والوں کو نہ تیغ کریں گے تلوار کے ذریعہ کامیاب ہوں گے آپ کے لشکر میں سے کسی کو بھی ہزیمت نہیں ہوگی _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۱۸

۳۲۰