آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181580 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

ہوشیار: سفیانی کی احادیث کو عامہ و خاصہ دونوں نے نقل کیا ہے بعید نہیں ہے کہ متواتر ہوں _ صرف احتمال اور ایک مدعی کے وجود سے باطل نہیں قرار دیا جا سکتا ہے اور جعلی نہیں کہا جا سکتا ہے _ بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ لوگوں کے درمیان حدیث سفیانی شہرت یافتہ تھی اور لوگ اس کے منتظر تھے بعض لوگوں نے اس سے غلط فائدہ اٹھایا اور خروج کرکے کہنے لگے : ہم ہی سفیانی منتظر ہیں اور اس طرح ایک گروہ کو فریفتہ کرلیا _

۲۸۱

دجال کا واقعہ

جلالی: دجال کے خروج کو بھی ظہور کی علامتوں میں شمار کیا جاتا تھا اور اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ کافر ہے ، ایک چشم ہے ، وہ بھی پیشانی کے بیچ میں سے ، ستارہ کی مانند چمکتی ہے _ اس کی پیشانی پر لکھا ہے ''یہ کافر ہے '' اس طرح کہ پڑھا لکھا اور ان پڑھ سب اسے پڑھ سکیں گے _ کھانے کے ( پہاڑ) ہوٹل اور پانی کی نہر ہمیشہ اس کے ساتھ ہوگی ، سفید خچر پر سوار ہوگا _ ہر ایک قدم میں ایک میل کا راستہ طے کرے گا _ اس کے حکم سے آسمان بارش برسائے گا ، زمین گلہ اگائے گی _ زمین کے خزانے اس کے اختیار میں ہوں گے _ مردوں کو زندہ کرے گا _'' میں تمہارا بڑا خدا ہوں ، میں ہی نے تمہیں پیدا کیا ہے اور میں ہی روزی دیتا ہوں ، میری طرف دوڑو '' یہ جملہ اتنی بلند آوازمیں کہے گا کہ سارا جہان سنے گا _

کہتے ہیں رسول کے زمانہ میں بھی تھا ، اس کا نام عبداللہ یا صائدبن صید ہے ، رسول اکرم (ص) اور آپ(ص) کے اصحاب اسے دیکھنے اس کے گھر گئے تھے _ وہ اپنی خدائی کا دعوی کرتا تھا _ عمر اسے قتل کرنا چاہتے تھے لیکن پیغمبر (ص) نے منع کردیا تھا _ ابھی تک زندہ ہے _ اور آخری زمانہ میں اصفہان کے مضافات میں سے یہودیوں کے گاؤں سے خروج کریگا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۳ ، صحیح مسلم ج ۸ ، ص ۴۶ تا ص ۸۷ ، سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۱۲_

۲۸۲

علما نے تمیم الدا می سے ، جو کہ پہلے نصرانی تھا اورسنہ ۹ ھ میں مسلمان ہوا تھا ، سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میں نے مغرب کے ایک جز یرہ میں دجال کو دیکھا ہے کہ زنجیر و در غل میں تھا(۱)

ھوشیار : انگریزی میں دجال کو انٹی کرایسٹ ( antlchrlst ) کہتے ہیں یعنی مسیح کا دشمن یا مخالف _ دجال کسی مخصوص و معین شخص کا نام نہیں ہے بلکہ لغت عرب میںہر دروغ گو اور حیلہ باز کو دجال کہتے ہیں _ انجیل میں بھی لفظ دجال بہت استعمال ہوا ہے _

یو حنا کے پہلے رسالہ میں لکھا ہے : جو عیسی کے مسیح ہوتے کا انکار کرتا ہے ، دروغگو اور دجال ہے کہ با پ بیٹے کا انکار کرتا ہے(۲)

اسی رسالہ میں لکھا ہے : تم تھ سنا ہے کہ دجال آئے گا ، آج بہت سے دجال پیدا ہوگئے ہیں مذکورہ رسالہ میں پھر لکھتے میں ، وہ ہراس روج کا انکار کرتے ہیں جو عیسی میں مجسم ہوئی تھی اور کہتے ہیں وہ روح خدانہیں تھی _ یہ و ہی روح دجال ہے جس کے بارے میں تم نے سنا ہے کہ وہ آئے گا وہ اب بھی دنیا میں موجود ہے(۳)

یوحنا کے دوسرے رسالہ میں لکھا ہے چونکہ گمراہ کرنے والے دنیا میں بہت زیادہ ہوگئے ہیں کہ جسم میں ظاہر ہوتے والے عیسی مسیح کا اقرار نہیں کرتے ہیں

____________________

۱_ صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤدج ۳ ص ۳۱۴

۲_ رسالہ یوحنا باب ۲ آیت ۲۲

۳ _ رسالہ اول باب ۲ آیت ۱۸

۲۸۳

یہ ہیں گمراہ کرنے والے دجال_(۱)

انجیل کی آتیوں سے سمجھ میں آتا ہے کہ دجال کے معنی گمراہ کرنے والے اور دروغگو ہیں _ نیز عیاں ہوتا ہے کہ دجال کا خروج ، اس کا زندہ رہنا اس زمانہ میں بھی نصاری کے در میان مشہور تھا اور وہ اس کے خروج کے منتظر تھے _

ظاہرا حضرت عیسی نے بھی لوگوں کو دجال کے خروج کی خبردی تھی اور اس کے فتنہ سے ڈرایا تھا _ اسی لئے نصاری اس کے منتظر تھے اور قوی احتمال ہے کہ حضرت عیسی نے جس دجال کے بارے میں خبردی تھی ، وہ دجال ودروغگو حضرت عیسی کے پانچ سو سال بعد ظاہر ہواتھا اور اپنی پیغمبر ی کا جھوٹا دعوی کیا تھا _ اسی کو دار پرچڑ ھا یا گیا تھانہ عیسی نبی کو _(۲)

دجال کے وجود سے متعلق مسلمانوں کی احادیث کی کتابوں میں احادیث موجود ہیں پیغمبر اسلام (ع) لوگوں کو دجال سے ڈراتے تھے اور اس کے فتنہ کو گوش گزار کرتے تھے اور فرماتے تھے :

حضرت نوح کے بعد مبعوث ہونے والے تمام پیغمبر اپنی قوم کو دجال کے فتنہ سے ڈرا تے تھے(۳)

رسول (ع) کا ارشاد ہے : اسی وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک

____________________

۱ _صحیح مسلم ج ۱۸ ص ۷۹ ، سنن ابی داؤد ج ۳

۲ _رسالہ دوم یوحنا آیت ۷

۳ _ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۷

۲۸۴

تیس دجال ، جو کہ خود کو پیغمبر سمجھتے ہیں ، ظاہر نہیں ہوں گے _(۱)

حضرت علی(ع) کا ارشاد ہے :

اولاد فاطمہ سے پیدا ہونے والے دو دجالوں سے بچتے رہنا ، ایک دجال وہ جو دجلہ بصرہ سے خروج کرے گاوہ مجھ سے نہیں ہے وہ دجال(۲) کا مقدمہ ہے _

رسول(ع) کا ارشاد ہے :

اس وقت تک قیامت نہیں آئے گی جب تک تیس دروغگو دجال ظاہر نہ ہوں گے اور وہ خدا اور اس کے رسول پر جھوٹ باند ھیں گے(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :

دجال کے خروج سے قبل ستر سے زیادہ و دجال ظاہر ہوں گے(۴)

مذکورہ احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ دجال کسی معین و مخصوص شخص کا نام نہیں ہے بلکہ ہر دروغگو اور گمراہ کرنے والے کو دجال کہا جا تا ہے _

مختصر یہ کہ دجال کے قصہ کو کتاب مقدس اور نصاری کے در میان تلاش کیا جا سکتا ہے اس کے علاوہ اس کی تفصیل اور احادیث اہل سنت کی کتابوں میں ان ہی طریق سے نقل ہوئی ہیں _

____________________

۱ _ سنن ابی داؤد ج ۲

۲ _ ترجمہ الحلاحم والفتن ص ۱۱۳

۳_ سنن ابی داؤد ج ۲

۴_ مجمع الزواید ج ۷ ص ۳۳۳

۲۸۵

بہرحال اجمالی طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس کا صحیح ہونا بعید نہیں ہے لیکن اس کی جو تعریف و توصیف کی گئی ہے _ ان کا کوئی قابل اعتماد مدرک نہیں ہے(۱)

دجال کا اصلی قضیہ اگر چہ صحیح ہے لیکن یہ بات بلا خوف و تردید کہی جا سکتی ہے افسانوں کی آمیزش سے اس کس حقیقی صورت مسخ ہوگئی ہے _ یہ کہا جاسکتا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور کے وقت آخری زمانہ میں ایک شخص پیدا ہوگا جو فریب کار او ر حیلہ سازی میں سب سے آگے ہوگا اور دورغگوئی میں گزشتہ دجالوں سے بازی لے جائے گا ، اپنے جھوٹے اور رکیک دعوؤں سے غافل رہیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ زمیں و آسمان اس کے ہا تھ میںہیں ، اتنا جھوٹ بولے گا کہ اچھائی کو برائی اور برائی کو اچھائی و نیکی ثابت کرے گا بہشت کو جہنّم اور جہنم کو جنت بنا کرپیش کرے گا لیکن اس کا کفر تعلیم یافتہ اوران پڑ ھہ لوگوں پرواضح ہے _

اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ صائد بن صید دجال ، رسول (ص) کے زمانہ سے آج تک زندہ ہے _ کیونکہ حدیث کی سند ضعیف ہے اس کے علاوہ پیغمبر اسلام کا قول ہے کہ دجال مکہ اور مدینہ میں داخل نہیں ہوگا جبکہ صائد بن صید ان دونوں میں داخل ہوا اور مدینہ میں مرا چنانچہ ایک جماعت اس کی موت کی گواہ ہے _ بالفرض پیغمبر (ص) اکرم نے صائد بن صید کو اگر دجال کہا تھا تو وہ دروغگو کے معنی میں کہا تھا نہ کہ علائم ظہور والا دجال کہا تھا _ بعبارت دیگر پیغمبر اسلام نے صائد بن صید سے ملاقات کی اور اپنے

____________________

۱_ کیونکہ اس کا مدرک وہ حدیث ہے جو بحار الانوار میں نقل ہوی اور اس کی سند میں محمد بن عمر بن عثمان ہے جو کہ مجہول الحال ہے _

۲۸۶

اصحاب میں سے اسے دجال کا مصداق قرار دیا اور چونکہ بعد والے زمانہ میں دجال کے خروج کی خبر دی تھی اس لئے دونوں موضوعات میں اشتباہ ہوگیا اور لوگ یہ سمجھ بیٹھے کہ پیغمبر (ص) نے صائد کو دجال کہا ہے لہذا یہی آخری زمانہ میں خروج کرے گا اور اسی سے انہوں نے اس کی طول حیات کا نتیجہ بھی اخذ کرلیا ہے _

۲۸۷

دنیا والوں کے افکار

مقررہ وقت پر جلسہ شروع ہو ا ڈاکٹر صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا:

ڈاکٹر : انسانوں کے درمیان ان تما م رایوں اور عقائد کے اختلاف اور دیگر اختلافی مسائل کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے پور دنیا کا نظم و نسق ایک حکومت کے اختیار میں ہوگا اور روئے زمین پر صرف مہدی کی حکومت ہوگی ؟

ہوشیار: اگر دنیا کے عمومی حالات اور انسان کی عقل و ادراکات کی یہی حالت رہی تو ایک عالمی حکومت کی تشکیل بہت مشکل ہے _ لیکن جیسا کہ گزشتہ زمانہ میں انسان کا تمدن و تعقل اور سطح معلومات وہ نہیں تھی جو آج ہے بلکہ اس منزل پر وہ مرور زمانہ اور حوادث و انقلاب زمانہ کے بعد پہنچا ہے _ لہذا وہ اس سطح پر بھی نہیں رکے گا _

بلکہ یقین کے ساتھ یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ انسان کی معلومات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے اور مستقبل میں تعلق و تمدن اور اجتماعی مصالح کے درک میں وہ اور زیادہ ترقی کرے گا _ اپنے مدعا کے اثبات کے لئے ہم گزشتہ زمانے کے انسان کے حالات کا تجزیہ کرتے ہیں تا کہ مستقبل کے بارے میں فیصلہ کر سکیں _

یہ بات اپنی جگہ ثابت ہو چکی ہے کہ خودخواہی اور منفعت طلبی طبیعی چیز ہے اور اسی کسب کمال سعادت طلبی اور حصول منفعت کے جذبہ نے انسان کو کوشش

۲۸۸

و جانفشانی پر ابھارا ہے _ منفعت حاصل کرنے کے لئے ہر انسان اپنی طاقت کے طاقت کو شش کرتا ہے اور اس راہ کے موانفع کو برطرف کرتا ہے لیکن دوسروں کے فائد کے بارے میں غور نہیں کرتا _ ہاں جب دوسروں کے منافع سے اپنے مفادات وابستہ دیکھتا ہے تو ان کا بھی لحاظ کرتا ہے اور اپنے کچھ فوائد بھی ان پر قربان کرنے کے لئے تیار ہوجاتا ہے _ شاید اولین بار انسان خودخواہی کے زینہ سے اتر کر دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لئے شادی کے وقت تیار ہوتا ہے کیونکہ مرد و عورت یہ احساس کرتے ہیں کہ دونوں کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور اسی احتیاج کے احساس نے مرد و عورت کے درمیان ازدواجی رشتہ قائم کیا ہے _ چنانچہ دونوں اس کو مستحکم بنانے کے سلسلہ میں خودخواہی کو اعتدال پر لانے اور دوسرں کے فوائد کو ملحوظ رکھنے کے لئے مجبور ہوتے _ مردو عورت کے یک جا ہونے سے خاندان کی تشکیل ہوئی _ حقیقت ہے کہ خاندان کے ہر فرد کا مقصد اپنی سعادت و کمال کی تحصیل ہے لیکن چونکہ ان میں سے ہر ایک نے اس بات کو محسوس کرلیا ہے کہ اس کی سعادت خاندان کے تمام افراد سے مربوط ہے اس لئے وہ ان کی سعادت کا بھی متمنی ہوتا ہے اور اس کے اندر تعاون کا جذبہ قوی ہوتا ہے _

انسان نے مدتوں خانوادگی اور خانہ بدوشی کی زندگی بسر کی اور رونما ہونے والے حوادث و جنگ سے مختلف خاندانوں کے انکار نے ترقی کی اور انہوں نے اس بات کا احساس کیا کہ سعادت مندی اور دشمنوں سے نمٹنے کے لئے اس سے بڑے معاشرہ کی تشکیل ضروری ہے _ اس فکر کی ترقی اور ضرورت کے احساس سے طائفے اور قبیلے وجود میں آئے اور قبیلے کے افراد تمام افراد کے منافع کو ملحوظ رکھنے کے لئے تیار ہوگئے

۲۸۹

اور اپنے ذاتی و خاندانی بعض منافع کو قربان کرنے کیلئے بھی آمادہ ہوگئے _ اسی فکر ارتقاء اور ضرورت کے احساس نے انسان کو طول تاریخ میں ایک ساتھ زندگی بسر کرنے پر ابھار جس سے انہوں نے اپنی سکونت کیلئے شہر و دیہات آباد کئے تا کہ اپنے شہر والوں کے منافع کا لحاظ رکھیں اور ان کے حقوق سے دفاع کریں _

انسان مدتوں اسی ، نہج سے زندگی گزارتا رہا ، یہاں تک کہ حوادث زمانہ اور خاندانی جھگڑے اور طاقتوروں کے تسلط نے انسان کو چھوٹے سے دیہات کو چھوڑ کر شہر بنانے پر ابھارا کہ وہ اپنے رفاہ اور آسائشے اور اپنے ہمسایہ دیہات و شہروں سے ارتباط رکھنے کے لئے بھی ہے تا کہ خطرے اور طاقتور دشمن کے حملہ کے وقت ایک دوسرے سے مدد حاصل کرسکیں _ اس مقصد کے تحت ایک بڑا معاشرہ وجود میں آیا او راس کے وسیع علاقہ کو ملک و سلطنت کے نام سے یاد کیا جانے لگا _

ملک میں زندگی بسر کرنے والے انسانوں کی فکر نے اتنی ترقی کی کہ وہ اپنے ملک کی محدود سرزمین کو اپنا گھر سمجھتے ہیں اور اس ملک کے باشندوں کو ایک خاندان کے افراد شمار کرتے ہیں اور اس ملک کے اموال و ذخائر کو اس کے باشندوں کا حق سمجھتے ہیں _ اس ملکہ کے ہر گوشہ کی ترقی سے لذت اندوز ہوتے ہیں _ لسانی ، نسلی ، شہری اور دیہاتی اختلافات سے چشم پوشی کرتے ہیں اور ملک کے تمام باشندوں کی سعادت کو اپنی سعادت و کامیابی تصور کرتے ہیں _ واضح ہے کہ اس ملک کے افراد میں جس قدر فکری ہم آہنگی و ارتباط قوی ہوگا اور اختلاف کم ہوگا اسی کے مطابق اس ملک کی ترقیاں زیادہ ہوں گی _ انسان کا موجودہ تمدن و ارتقاء آسانی سے حاصل نہیں ہوا ہے بلکہ وہ صدیوں اور ہزاروں حوادث

۲۹۰

اور گوناگون تجربات کے بعد ترقی کے اس بلند مقام پر پہنچا ہے _

ہزاروں سال کی طویل مدتوں اور حوادث زمانہ کے بعد انسان کی فکر نے ترقی کی اور کسی حد تک خودخواہی و کوتاہ نظری سے نجات حاصل کی لیکن اب بھی خاصی ترقی نہیں کی ہے اس پر اکتفا نہیں کر سکتا _ آج بھی علمی و صنعتی ترقی کے سلسلہ میں دنیا کے ممالک کے درمیان خاص روابط برقرار ہوتے ہیں _ اس سے پہلے جو سفر انہوں نے چند ماہ کے دوران طے کیا ہے اسے آج بھی گھنٹوں اور منٹوں میں طے کررہے ہیں _ دور دراز سے ایک دوسرے کی آواز کو سنتے ہیں ، دیکھتے ہیں _ ملک کے حوادث و اوضا ع ایک دوسرے سے مربوط ہوگئے ہیں ایک دوسرے میں سرایت کرتے ہیں _ آج انسان اس بات کا احساس کررہا ہے کہ وہ اپنے ملک کی سرحدوں کو محکم طریقہ سے بند نہیں کرسکتا اور تمام ممالک سے قطع تعلق کرکے عزلت گزینی کی زندگی نہیں گزارسکتا _ عالمی حوادث اور انقلابات زمانہ سے وہ اس نتیجہ پر پہنچا ہے کہ ایک ملک کے معاشرہ اور اجتماع میں یہ طاقت نہیں ہے کہ لوگوں کی سعادت و ترقی کی راہ فراہم کرسکے اور انھیں حوادث و خطرات سے بچا سکے _ اس لئے ہر ملک اپنے معاشرہ کو مضبوط بنانے کی کوشش کررہا ہے _

بشر کی یہ درونی خواہش کبھی جمہوریت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے کبھی مشرق و مغرب کے بلاؤں کی صورت میں نمایاں ہوتی ہے کبھی اسلامی ممالک کے اتحادیہ کی شکل میں وجود پذیر ہوتی ہے کبھی سرمایہ داری اور کمیونسٹ نظام کے پیکر میں سامنے آتی ہے _ اس اتحاد کی اور سیکڑوں مثالیں ہیں /و کہ روح انسان کے رشد اور اس وسعت طلبی کی حکایت کرتی ہیں _

آج انسان کی کوشش یہ ہے کہ عمومی معاہدوں اور اتحاد کو وسعت دی جائے

۲۹۱

ممکن ہے اس کے ذریعہ خطرات کا سد باب ہوسکے اور عالمی مشکلات و بحران کو حل کیا جا سکے اور روئے زمین پر بسنے والے انسانوں کیلئے آسائشے و رفاہ کے وسائل فراہم ہو سکیں _

دانشوروں کا خیال ہے کہ انسان کی یہ کوشش و فعالیت اور وسعت طلبی ایک عالمی انقلاب کا مقدمہ ہے ، عنقریب دنیائے انسانیت پر یہ حقیقت واضح ہوجائے گی کہ یہ اتحاد بھی محدود ہے لہذا عالمی خطرات و مشکلات کو حل نہیں کرسکتے یہ اتحاد صرف کسی درد کی دوا ہی نہیں کرتے بلکہ ایک دوسرے کے مقابل میں صف آرا ہو کہ مزید مشکلات کھڑی کردیتے ہیں _

انسان ابھی تجربہ کی راہ سے گزرہاہے تا کہ ان اتحادات کے ذریعہ جہاں تک ہوسکے خودخواہی کے احساس کو بھی ختم کرے اور عالمی خطرات و مشکلات کو بھی ختم کرے _ وہ ایک روز اس حقیقت سے ضرور آگاہ ہوگا کہ خودخواہی اور کوتاہ نظری انسان کو سعادت مند نہیں بنا سکتی _ اور لا محالہ اس بات کا اعتراف کرے گا کہ روئے زمیں کا ما حول ایک گھر کے ماحول سے مختلف نہیں ہے _ روئے زمین پر بسنے والے ایک خاندان کے افراد کی مانند ہیں _ جب انسان اس بات کو سمجھ جائے گا کہ غیر خواہی میں خود خواہی ہے تو اس وقت دنیا والوں کے افکار و خیالات سعدی شیرازی کے ہم آواز ہو کر اس بات کا اعتراف کریں گے _

بنی آدم اعضائے ایک دیگرند کہ در آفرینش زیک گوہرند

'' انسان آپس میں ایک دوسرے کے اعضاء ہیں کیونکہ انکی خلقت کا سرچشمہ ایک ہی ہے ''

لوگ اس بات کو سمجھتے ہیں کہ جو قوانین و احکام اختلافات انگیز محدود نظام کے مطابق بنائے گئے ہیں وہ دنیا کی اصلاح کیلئے کافی نہیں ہیں _ عالمی اور اقوامی اتحاد کی

۲۹۲

انجمنوں کی تشکیل ، حقوق بشر کی تنظیم کی تاسیس کو اس عظیم فکر کا مقدمہ اور انسانیت کی بیداری اور اس کی عقل کے کمال کا پیش خیمہ کہا جا سکتا ہے _ اگر چہ انجمنوں نے بڑی طاقتوں کے دباؤں سے ابھی تک کوئی اہم کام انجام نہیں دیا ہے اور ابھی تک اختلاف انگیز نظاموں پر کامیابی حاصل نہیں کر سکی ہیں لیکن ایسے افکار کے وجود سے انسان کے تابناک مستقبل کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے _

دنیا کی عام حالت و حوادث کے پیش نظر اس بات کی پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ مستقبل میں انسان ایک حساس ترین دورا ہے پر کھڑا ہوگا _ وہ دو راہ عبارت ہے محض مادی گری یا خالص توحید سے _ یعنی انسان یا تو آنکھیں بند کرکے مادیت کو قبول کرلے اور خدا کے احکام کو ٹھکرادے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کو ٹھکرا دے یا خدا کو تخلیق کی مشنری کا حاکم تسلیم کرے اور خدائی احکام کا قلادہ اپنی گردن میں ڈال لے اور عالمی مشکللات اور بشری کی اصلاح آسمانی قوانین کے ذریعہ کرے اور غیر خد ا قوانین کو ٹھکرادے _ لیکن یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ انسان کا خداپرستی اور دین جوئی کا جذبہ ہر گز ٹھنڈا نہیں پڑتا ہے اور جیسا کہ آسمانی ادیان خصوصاً اسلام نے پیشین گوئی کی ہے کہ آخر کار خدا پرستوں ہی کاگروہ کامیاب ہوگا اور دنیا کی حکومت کی زمام و اقتدا صالح لوگوں کے اختیار میں ہوگا اور انسانوں کا بڑا معاشرہ انسانیت کے فضائل ، نیک اخلاق اور صحیح عقائد پر استوار ہوگا _ تمام تعصبات اور جھوٹے خدا نابود ہوجائیں گے اور سارے انسان ایک خدا اور اس کے احکام کے سامنے سر تسلیم خم کردیں گے _ خداپرستوں کا گروہ اور حزب توحید ایمان کے محکم و وسیع حصار میں جاگزین ہوگا اور رسول اسلام اور قرآن مجید کی دعوت کو قبول کرے گا

۲۹۳

قرآن مجید نے دنیا والوں کے سامنے یہ تجویز پیش کی ہے کہ :

'' آؤ ہم سب ایک مشترک پروگرام کو قبول کرلیں اور یہ طے کرلیں کہ خدائے واحد کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھرائیں گے اور انسانوں میں سے کسی کو واجب الاطاعت نہ سمجھیں گے _''(۱)

قرآن مجید اس عالمی انقلاب کے پروگرام کے بارے میں کہتا ہے کہ اسے نافذ کرنے کی صلاحیت صرف مسلمانوں میں ہے _ رسول اکرم نے خبر دی ہے کہ جو شائستہ اور غیر معمولی افراد انسان کے گوناگون افکار و عقائد اور متفرق رایوں کو یک جا اور ایک مرکز پر جمع کریں گے اور انسانوں کی عقل کو کامل و بیدار کریں گے اور دشمنی کے اسباب و عوامل کا قلع و قمع کریں گے _ صلح و صفائی برقرار کریں گے _ وہ مہدی موعود اور اولاد رسول (ص) ہوگی _ امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں کہ :

''جب ہمارا قائم ظہور کرے گا تو بندوں کے سرپرہاتھ رکھ کر ان کے پراگندہ عقل و فکر کو ایک جگہ کرے گا اور ایک مقصد کی طرف متوجہ کرے گا اور ان کے

اخلاق کو کمال تک پہنچادے گا '' _(۲)

حضرت علی (ع) بن ابیطالب فرماتے ہیں :'' جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگوں کے دلوں سے عداوت و دشمنی کی جڑیں کٹ جائیں گی اور عالمی امن کا دور ہوگا ''(۳)

امام محمد باقر (ع) فرماتے ہیں :'' ہمارے قائم کے ظہور کے بعد عمومی اموال اور زمین کے معاون و ذخائر آپ(ص) اختیار میں آئیں گے _(۴)

____________________

۱_ آل عمران /۹۴_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۶_

۳_ بحارالانوار جلد ۵۲ ص ۳۱۶_

۴_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۱_

۲۹۴

مستضعفین کی کامیابی

جلالی : آپ دنیا کی حالت کو جانتے ہیں کہ زمین کے ہر گوشہ میں مستضعفین و کمزورلوگوں پر ظالم و ستمگر و مستکبرین حکومت کررہے ہیں ، ان کی تمام چیزوں پر مسلط ہوگئے ہیں اور انھیں اپنی طاقت سے مرعوب کررکھا ہے _ ان حالات کے پیش نظر حضرت مہدی کیسے انقلاب لائیں گے اور کیونکر کامیاب ہوں گے ؟

ہوشیار: مستکبرین پر امام مہدی (ع) کی کامیابی دنیا کے مستضعفین کی کامیابی ہے _ جو کہ اکثریت میں ہیں اور ساری قدرت انھیں کی ہے _ مستکبرین کی تعدا د بہت ہی کم ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہے _ اسی لئے امام مہدی کی کامیابی کا امکان ہے یہاں میں ایک بات کی تشریح کردوں تا کہ مدعا روشن ہوجائے _

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا بھر کے مستضعفین آخر کار اس عالمی انقلاب میں مستکبرین پر کامیاب ہوں گے کہ جس کے قائد امام مہدی ہونگے اور طاغوتی نظام کو ہمیشہ کیلئے نابود کرکے دنیا کی حکومت کی زمام سنبھالیں گے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے ارادہ کرلیا ہے کہ دنیا کے مستضعفین پر احسان کریں اور انہیں امام بنائیں اور زمین کا وارث قراردیں اور زمین کی قدرت و تمکن

۲۹۵

ان کے دست اختیار میں دیدیں ''_(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مذکورہ آیت اس بات کی حتمی نوید دے رہی ہے کہ دنیا کی طاقت اور جہان کا نظام مستضعفین کے ہاتھوں میں آئے گا _ اس بناپر امام مہدی کی کامیابی مستکبرین پر مستضعفین کی کامیابی ہوگی موضوع کی وضاحت کیلئے درج ذیل نکات پر توجہ فرمائیں :

استضعاف کے کیا معنی ہیں اور مستضعفین کون لوگ ہیں ؟

مستکبرین کی کیا علامتیں ہیں؟

مستضعفین مستکبرین پر کیسے کامیاب ہوں گے ؟

اس عالمی انقلاب کی قیادت کوں کرے گا ؟

قرآن مجید میں مستضعفین کو مستکبرین و طاغوت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس لئے ان دونوں کی ایک ساتھ تحقیق کرنا چاہئے _ قرآن مجید میں مستکبرین کی کچھ علامتیں اورخصوصیات ذکر ہوئے ہیں ایک جگہ فرعون جیسے مستکبرین کے لئے فرماتا ہے :

'' بے شک فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھا یا تھا اور لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کیا تھا ایک گروہ کو کمزور بنادیا تھا ان کے لڑکوں کو قتل کرتا تھا اور لڑکیوں کو زندہ چھوڑ دیتا تھا کیونکہ وہ مفسدوں میں سے تھا _(۲)

____________________

۱_ قصص/۵

۲_ قصص /۴

۲۹۶

مذکورہ آیت میں فرعوں کیلئے جو کہ مستکبرین میں سے ہے ، تین علامتیں بیان ہوئی ہیں : اول بڑا بننا اور برتری چاہنا _ دوسرے لوگوں میں اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا تیسرے فساد پھیلانا _ دوسری آیت میں فرماتا ہے کہ :

'' فرعون نے زمین میں بہت سر اٹھایا تھا کہ وہ اسراف کرنے والوں میں سے تھا''_(۱)

اس آیت میں اسراف اور سر اٹھانے کو بھی مستکبرین کی صفات قرار دیا گیا ہے دوسری آیت میں ارشاد ہے:

'' فرعون نے موسی کی تحقیر کی اور لوگوں نے اس کی اطاعت کی کیونکہ لوگ فاسق تھے''(۲)

اس آیت میں لوگوں کی تو ہین کرنے کو مستکبرین کی صفات میں شمار کیا گیا ہے اور یہی معنا لوگوں کی اطاعت کے ہیں _

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

''موسی نے قارون ، فرعون اور ہامان کے سامنے واضح دلیلیں پیش کیں لیکن انہوں نے روئے زمین پر سر اٹھایا اور تکبّر کیا ''( ۲)

مذکورہ آیت میں حق قبول نہ کرنے کو استکبار و سرکشی کی علامت قرار دیا

____________________

۱_ یونس /۸۳

۲_ زخرف /۵۴

۳_ عنکبوت/۳۹

۲۹۷

گیا ہے _ دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

''قوم صالح کے مستکبرین مومن مستضعفین سے کہتے تھے: کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ صالح خدا کے رسول ہیں ؟ مومنین جواب دیتے تھے ہم صالح کی لائی ہوئی چیزوں پر ایمان رکھتے ہیں _ مستکبرین کہتے تھے جس چیز پر تمہارا ایمان ہے ہم اس کے منکر ہیں ''(۱)

دوسری آیت میں کفر و شرک کی ترویج کو مستکبرین کی علامت شمار کیا گیا ہے : ''مستضعفین مستکبرین سے کہتے ہیں تمہاری رات ، دن کی فریب کاریاں تھیں کہ تم ہمیں خدا سے کفر اختیار کرنے اور اس کا شریک ٹھرانے کا حکم دیتے تھے''(۲)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا مذکورہ آیت میں مستکبرین کی چند علامتیں بیان ہوئی ہیں :

۱_ بڑا بننا اور برتری چاہنا

۲_ تفرقہ و اختلاف پیدا کرنا_

۳_ اسراف

۴_ لوگوں کو کمزور بنانا_

۵_ فساد پھیلانا

۶_ حق قبول کرنے سے منع کرنا _

۷_ کفر و شرک کی ترویج و اشاعت_

مذکورہ تمام آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستکبرین ان لوگوں کا

____________________

۱_ اعراف/۷۶

۲_ سبا/۳۳

۲۹۸

گروہ ہے جو خواہ مخواہ خود کو دوسرں سے برتر بناکر پیش کرتے ہیں _ لوگوں سے کہتے ہیں : ہم سیاست داںں ، عاقل اور ماہرہیں _ ہم تمہارے مصالح کو تم سے بہتر سمجھتے ہیں تمہاری عقل تمہارے مصالح کے ادراک کیلئے کافی نہیں ہے _ تمہیں ہماری اطاعت کرنا چاہئے تا کہ کامیاب ہوجاؤ استکبار کا اہم کام اختلاف و تفرقہ پیدا کرنا ہے _ کالے گئے مذہبی ، نسلی ، لسانی ، قومی ، ملی ، ملکی ، شہری ، صوبائی اور دوسرے سیکڑوں اختلاف انگیز عوامل کے ذریعہ لوگوں میں تفرقہ اندازی کرتے ہیں _ صرف اس لئے تاکہ لوگوں پر حکومت کریں ، کفر و شرک کی ترویج کرتے ہیں اور اس طرح لوگوں کو فریب دیتے ہیں اور ان کے سارے منافع ہڑپ کر لیتے ہیں _ ان کے سارے امور کو اپنے ہاتھ میں لے لیتے ہیں _ عمومی اموال پر قابض ہوجاتے ہیں _ اپنی مرض سے جہاں چاہتے ہیں خرچ کرتے ہیں _ ملک سے دفاع کے نام پر اسلحہ اور ایٹمی توانائی خریدتے ہیں عمومی ضرورتوں کو پورا کرنے او رامن و امان برقرار رکھنے کے نام پر قضاوت اور دیگر دفاتر کی تشکیل سے ذاتی فائدہ اٹھاتے ہیں ، بیت المال کو اپنی مرضی کے مطابق خرچ کرتے ہیں ، اپنے ہمنواؤں کے دریچے بھرتے ہیں _ ان کا مقصد صرف حکمرانی اور خودہواہی ہے _ مستکبرین بڑے نہیں ہیں ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ فریب کاری سے لوگوں کی عظیم طاقت'' کو اپنی بتاتے ہیں اور انھیں حقیر سمجھتے ہیں _

یہاں سے مستضعفین کے معنی بھی روشن ہوجاتے ہیں _ مستضعف کے معنی ضعیف و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستضعف وہ لوگ ہیں جنہوں نے مستکبرین کے غلط پروپیگنڈے اور حیلہ بازیوں سے اپنی طاقت کو گنوا دیا ہے اور غلامی و ذلت میں مبتلا ہوگئے ہیں ،حقیقی طاقت عام لوگوں کی ہے _ زمین ، پانی ، قدرتی خزانے ، پبلک

۲۹۹

دالشور اور موجد سب ہی تو عام لوگ ہیں ، مزدور ، موجد ، پولیس و فوج ، انتظامیہ ، عدلیہ اور ادارے سب ہی ملّت کے افراد سے تشکیل پاتے ہیں _ صاحبان علم و اختراع اور صنعت بھی ملت ہی کے افراد ہوتے ہیں _ اس بناپر قدرتی خزانے پوری قوم کے ہوتے ہیں نہ کہ مستکبرین کے _ اگر لو گ مدد و تعاون نہ کریں تو مستکبرین کی کوئی طاقت بن سکتی ہے؟ لیکن مستکبرین نے حیلے و فریب او رغلط پروپیگنڈے سے لوگوں کو اپنے سے بیگانہ اور مستضعف بنادیا ہے وہ خود ہی اپنے کو کچلتے ہیں اور استعماری طاقتوں کی بھینٹ چڑھتے ہیں _ مستکبرین اقلیت میں ہیں جنہوں نے ہمیشہ لوگوں کو اندھیرے میں رکھنے کی کوشش کی ہے اور انھیں کمزور بناکر ان پر حکومت کی ہے _

لیکن خدا کے پیغمبر اس بات پر مامور تھے کہ ان لوگوں کو بیدار کریں جنھیں کمزور و مستضعف بنادیا گیا ہے تا کہ وہ اپنی عظیم طاقت و توانائی سے آگاہ ہوجائیں اور مستکبرین کے چنگل سے نجات حاصل کریں پیغمبروں نے ہمیشہ مستکبرین کے حقیقت کا پردہ چاک کرنے اور ان کی جھوٹی طاقت اور جلال کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ہے اور مستضعفین کو مستکبرین کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے اور ان کے استعماری پھندوں سے نجات حاصل کرنے کی جرات دلائی ہے _

حضرت ابراہیم (ع) نے نمرود کی طاغوتی حکومت کے خلاف قیام کیا _ حضرت موسی (ع) نے فرعون کی حکومت کے خلاف قیام کیا اور حضرت عیسی (ع) اپنے زمانہ کے ظلم و سمتگروں کے خلاف اٹھے اور محروموں کونجات دلانے کے لئے قیام کیا _ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے ابو جہل ، ابولہب ، ابوسفیان اور قیصر و کسری کے خلاف قیام کیا او ردنیا کے مستضعف و محروم لوگوں کی نجات کے لئے اٹھے _ پیغمبر

۳۰۰

مستکبرین کے خلاف لوگوں کو بیدار کرتے تھے _ شرک و بت پرستی اور فساد سے مبارزہ کرتے تھے_ لوگوں کو وحدانیت ، خداپرستی اور وحدت کی دعوت دیتے تے ، ظلم و ستم اور استکبار کی مخالفت کرتے تھے _ قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

یقینا ہم نے ہر قوم میں رسول بھیجا کہ وہ خدا کی عبادت کریں اور طاغوت سے اجتناب کریں ''(۱)

فرماتا ہے '' جو بھی طاغوت سے اجتناب کرتا ہے اور خدا پر ایمان لاتا ہے وہ خدا کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیتا ہے ''(۲)

قرآن مجید مستضعفین کی نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کرنے کو مسلمانوں کا فریضہ قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' مستضعفین کی نجات کے لئے راہ خدا میں جہاد کیوں نہیں کرتے ؟ مرد عورتیں اور بچے فریاد کررہے ہیں _ ہمارے خدا ہمیں اس ظالموں کے قریہ سے نکال لے اور اپنی طرف سے ہمارا سرپرست مقررکردے اور ہمارا مددگار معین فرما _ مومنین راہ خدا میں اور کفار راہ طاغوت میں جنگ کرتے ہیں _ لہذا شیطان کے طرف داروں سے جنگ کرو کہ شیطان کا مکر چلنے والا نہیں ہے ''(۳)

____________________

۱_ سورہ نحل / آیت ۳۶_

۲_ سورہ بقرہ / آیت ۲۵۶_

۳_ سورہ نساء / آیت ۷۶_

۳۰۱

مذکورہ بحث سے چند چیزوں کا اثبات ہوتا ہے:

۱_ جو مستکبرین لوگوں پر حکومت کرتے ہیں وہ اقلیت میں ہیں ، ان کی اپنی کوئی طاقت نہیں ہے بلکہ وہ مستضعفین کی طاقت و قدرت سے فائدہ اٹھاتے ہیں اور انھیں قید و بند میں ڈال کر کمزور بناتے ہیں _

۲_ مستضعفین اکثریت میں ہیں حقیقی قدرت و توانائی ان ہی کی ہے ، وہ کمزور و ناتوان نہیں ہیں بلکہ مستکبرین کے پروپیگنڈوں سے خود کمزور سمجھتے ہیں _

۳_ مستضعفین کی ناکامی اور بدبختی کا اہم ترین عامل ان کا احساس کمتری و کمزوری ہے ، چونکہ وہ خود کو ناتوان اور مستکبرین کو قوی و طاقتور سمجھتے ہیں لہذا ان کے ہاتھوں کی کٹھپلتی بن جاتے ہیں اور ان کے اشاروں پر کام کرتے ہیں اور ہر قسم کی ذلت و محرومیت کو قبول کرلیتے ہیں _ ان میں مخالفت کی جرات نہیں ہے _ محروم و مستضعف لوگوں کی لا علاج بیماری یہ ہے کہ انہوں نے اپنی عظیم طاقت کو فراموش کردیا ہے اور مستکبرین کی جھوٹی طاقت کے رعب میں آگئے ہیں اور طاغوتیوں کیلئے ظلم و تعدی کا راستہ اپنے ہاتھوں سے کھول دیا ہے _

۴_ پسماندہ اور مستضعف طبقہ کی نجات کا واحد راستہ یہ ہے کہ وہ اپنی عظیم وقوی گم شدہ شخصیت کو حاصل کریں ایک عالمی انقلاب و حملہ سے ساری بندشین توڑڈالیں ، اور مستکبریں و طاغوتیوں کی حکومت کو ہمیشہ کیلئے نابود کردیں اور خود دنیا کی حکومت اور اس کے نظم و نسق کی زمام سنبھالیں کہ یہ کام بہت مشکل نہیں ہے _ کیونکہ اصلی قدرت و توانائی عوامل کے ہاتھ میں ہے ، ان ہی کی اکثریت ہے ، اگر دانشور ، موجد ، ملازمین ، ٹھیکیدار ، پولیس ، کسان اور صنعت گر سب ہی ہوش میں

۳۰۲

آجائیں اور اپنی عظیم توانائی کو مستکبرین کے اختیار میں نہ دیں تو ان کی جھوٹی حکومت لمحوں میں ڈھیر ہوجائے گی _ اگر ساری توانائیاں ، دفاع ، پولیس اور اسلحہ کو مستضعفین کی حمایت میں استعمال کیا جائے اور اس سلسلہ میں سب متحد ہوجائیں تو پھر مستکبرین کی کوئی طاقت باقی رہے گی؟

یہ کام اگر چہ بہت دشوار ہے لیکن ممکن ہے اور قرآن ایسے تابناک زمانہ کی خوش خبری دے رہا ہے _ ارشاد ہے :

''ہم چاہتے ہیں کہ مستضعفین پر احسان کریں ، انھیں امام بنائیں اور انھیں زمین کا وارث بنائیں اور روئے زمین پر انھیں قوی بنائیں''(۱)

یہ عالمی انقلاب ، حضرت مہدی اور آپ کے اصحاب و انصار کے ذریعہ کامیاب ہوگا _ امام محمد باقر علیہ السلام کا ارشاد ہے :

''جب ہمارا قائم قیام کرے گا اس وقت خداوند عالم ان کا ہاتھ بندوں کے سرپررکھے گا اور اس طرح ان کے حواس جمع اور عقل کامل کرے گا ''(۲)

قرآن و احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ یہ عالمی اور عظیم انقلاب دین اور قوانین الہی کے عنوان کے تحت آئے گا _ امام مہدی اس کی قیادت کریں گے اور شائستہ و فداکار مومنین آپ کی رکاب میں جہاد کریں گے _

خدا نے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا

____________________

۱_ قصص/۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ص ۳۳۶_

۳۰۳

ہے کہ انھیں زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا اور یہ خوش خبری دی ہے کہ جس دین کو ان کے لئے منتخب کیا ہے اس پر انھیں ضروری قدرت عطا کرے گا اور ان کے خوف کو امن و امان سے بدل دے گا کہ وہ خدا ہی کی عبادت کریں گے اور کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائیں گے _(۱)

احادیث میں آیا ہے کہ اس آیت سے حضرت مہدی اور ان کے انصار و اصحاب مراد ہیں اور ان ہی کے ذریعہ پوری دنیا میں اسلام پھیلے گا اور تمام ادیان پر غالب ہوگا _

قرآن مجید و احادیث ایسے دن کی خوش خبری دے رہی ہیں کہ جس میں دنیا کے مستضعفین خواب غفلت سے بیدار ہوں گے اور اپنی عظیم توانائی اور مستکبرین و طاغوتیوں کی ناتوانی کو سمجھیں گے اور مہدی کی قیادت میں توحید کے پرچم کے نیچے جمع ہونگے ایمان کی طاقت پر اعتماد کرکے ایک صف میں مستکبرین کے مقابلہ کھڑے ہوں گے اور ایک اتفاقی حملہ سے استکبار کے نظام کو درہم و برہم کردیں گے _ اسی تابناک زمانہ کفر و شرک اور مادہ پرستی کا قلع و قمع ہوگا ، لوگوں کے درمیان سے اختلاف و تفرقہ بازی ختم ہوجائے گی _ موہوم و اختلاف انگیز سرحدوں کا اعتبار نہیں ہرے گا اور ساری دنیا کے انسان صلح و صفائی اور آسائشے و آرام کے ساتھ زندگی بسر کریں گے _

____________________

۱_ نور/ ۵۵_

۳۰۴

مہدی ظہور کیوں نہیں کرتے ؟

جلالی : دنیا ظلم و جور اور کفرو الحاد سے بھر چکی ہے تو دنیا کی آشفتہ حالی کو ختم کرنے کے لئے مہدی ظہور کیوں نہیں کرتے؟

ہوشیار: کوئی بھی تحریک و انقلاب اسی وقت کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جب اس کیلئے ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوتی ہے _ کامیابی کی اہم ترین راہ یہ ے کہ سارے انسان اس انقلاب کے خواہاں ہوں اور سب اس کی تائید و پشت پاہی کیلئے تیارہوں _ اس صورت کے علاوہ انقلاب ناکام رہے گا _ اس قاعدہ کلی سے انقلاب مہدی موعود بھی مستثنی نہیں ہے _ یہ انقلاب بھی اس وقت کامیاب ہوگا جب ہر طرح کے حالات سازگار اور زمین ہموار ہوگی _ آپ کا انقلاب معمولی نہیں ہے بلکہ ہمہ گیر اور عالمی ہے _ اس کا بہت عمیق و مشکل پروگرام ہے _ آپ تمام نسلی ، ملکی ، لسانی ، مقصدی اور دینی اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں تا کہ روئے زمین پر صرف ایک قوی نظام کی حکمرانی ہو کہ جس سے صلح و صفائی کے ساتھ لوگ ایک دوسرے کے ساتھ زندگی بسر کریں _ آپ جانتے ہیں کہ منبع ہی سے پانی کی اصلاح کی جا سکتی ہے لہذا آپ اختلافی عوامل کو جڑے ختم کردینا چاہتے ہیں تا کہ درندہ خصلت انسانوں سے درندگی کی عادت ختم ہوجائے اور شیر و شکر کی طرح ایک ساتھ زندگی گزاریں _ امام مہدی دنیا سے

۳۰۵

کفر و الحا دکو نابود کرکے لوگوں کو خدائی قوانین کی طرف متوجہ کرکے دین اسلام کو عالمی آئین بنانا چاہتے ہیں _

افکار و خیالات کے اختلاف کو ختم کرکے ایک مرکز پر جمع کرنا چاہتے ہیں اور جھوٹے خداؤں ، جیسے سرحدی ، لسانی ، ملکی ، گروہی ، علاقائی اور جھوٹی شخصیتوں کو ذہن انسان سے نکال کر پھینک دینا چاہتے ہیں _ مختصر یہ کہ نوع انسان اور معاشرہ انسانی کو حقیقی کمال و سعادت سے ہمکنار کرنا چاہتے ہیں اور انسانی اخلاق و فضائل کے پایوں پر ایک معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں _

اگر چہ ایسی باتوں کا لکھنا مشکل نہیں لیکن محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایک ایسے عالمی و عمیق انقلاب کا آنا آسان نہیں ہے _ ایسا انقلاب مقدمات ، اسباب ، عام ذہنوں کی آمادگی اور زمین ہموار ہونے کے بغیر نہیں آسکتا _ ایسے عمیقانقلاب کا سرچشمہ دلوں کی گہرائی کو ہونا چاہئے _ خصوصاً مسلمانوں کو اس کا علم بردار ہونا چاہئے ، قرآن مجید بھی صلاحیت و شائستگی کو اس کی شرط قرار دیتا ہے _ چنانچہ ارشاد ہے :

'' ہم نے زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہم اپنے شائستہ بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے''(۱) _

اس بناپر جب تک نوع انسان رشد و کمال کی منزل تک نہیں پہنچے گی اور امام مہدی کی حکومت حق کو قبول کرنے کیلئے تیار نہ ہوگی ، مہدی ظہور نہ فرمائیں گے _ واضح

____________________

۱_ انبیائ/۱۰۵_

۳۰۶

ہے کہ افکار کی آمادگی لمحوں میں نہیں ہوتی ہے بلکہ حوادث کے پیش آنے کے ساتھ طویل زمانہ میں ہوتی ہے اور تب لوگ کمال کی طرف مائل ہوتے ہیں لوگوں کو اس اور اس ملک کے بارے میںاس قدر بحث و مباحثہ کرنا پڑے گا اور موہوم سرحدوں کے اوپر اتنی جنگ و خونریزی کرنا پڑے گی کہ لوگ ایسی باتوں سے عاجز آجائیں گے اور سمجھ لیں گے کہ یہ سرحدیں تنگ نظر لوگوں کی ایجاد ہے _ اس صور ت میں وہ اعتباری اور اختلاف انگیز حدود سے ڈریں گے اور ساری دنیا کو ایک ملک اور سارے انسانوں کو ہم وطن اور نفع و ضرر اور سعادت و بدبختی میں شریک سمجھیں گے _ اس زمانہ میں کالے گورے ، سرخ و پیلے ، ایشائی ، افریقی ، امریکی ، یورپی ، شہری ، دیہاتی اور عرب و عجم کو ایک نظرسے دیکھیں گے _

انسان کی اصلاح ، سعادت اور آسائشے کے لئے دانشور ایسے قوانین مرتب کرتے رہیں اور پھر ان پر تبصرہ کریں اور ایک زمانہ کے بعد انھیں لغو قراردیں اور ان کی بجائے دوسرے قوانین لائیں یہاں تک اس سے لوگ اکتا جائیں اور دنیا والے بشر کے قوانین کے نقصان اور قانون بنانے والی کی کم عقلی و کوتاہ فکری کا اندازہ لگالیں اور ان قوانین کے سایہ میں ہونے والی اصلاح سے مایوس ہوجائیں اور اس بات کا اعتراف کرلیں کہ انسان کی اصلاح صرف پیغمبروں کی اطاعت اور قوانین الہی کے نفوذ سے ہوسکتی ہے _

بشر ابھی خدائی پروگرام کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے لئے تیار نہیں ہے اس کا خیال ہے کہ علوم و اختراعات کے ذریعہ انسان کی سعادت کے اسباب فراہم کئے جا سکتے ہیں _ لہذا وہ الہی اور معنوی پروگرام کو چھوڑ کر مادیات کی طرف دوڑتا

۳۰۷

ہے اور اسے اتنا دوڑنا چاہئے کہ وہ عاجز آجائے اور سخت دھچکا لگے تو اس وقت اس بات کااعتراف کرے گا کہ علوم و اختراعات اگر چہ انسان کو فضا کے دوش پر سوار کرسکتے ہیں ، اس کے لئے آسمان کروں کو مسخر کرسکتے ہیں ، اور مہلک ہتھیار اس کے اختیار میں دے سکتے ہیں لیکن عالمی مشکلوں کو حل نہیں کر سکتے اور استعمار و بیدادگری کا قلع و قمع کرکے انسانوں کو روحانی سکون فراہم نہیں کر سکتے _

جس وقت سے انسان نے حاکم و فرمانروا کو تلاش کیا ہے اور اس کی حکومت کو قبول کیا ہے اس وقت سے آج تک ان سے اس بات کو توقع رہی ہے اور ہے کہ وہ طاقتور اور ذہین افراد ظلم و تعدی کا سد باب کریں اور سب کی آسائشے و آرام کا ساماں کریں _ لیکن ان کی یہ توقع پوری نہیں ہوتی ہے اور ان کے حسب منشا

حکومت نہیں بنی ہے _ لیکن جب بارہا اس کا مشاہدہ ہوچکاکہ حالات میں کوئی فرق نہیں آیا ہے _ دنیا میں بھانت بھانت کی حکومتوں کی تاسیس ہو فریب کار اور رنگ رنگ پارٹیاں تشکیل پائیں اور ان کی نااہلی ثابت ہوتا کہ انسان ان کی اصلاحات سے مایوس ہوجاتے اور اسے خدائی اصلاحات کی ضرورت محسوس ہو اور وہ توحید کی حکومت تسلیم کرنے کیلئے تیار ہوجائے _ ہشام بن سالم نے امام صادق سے روایت کی ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

''جب تکہر قسم کے لوگوں کے ہاتھ میں حکومت نہیں آئے گی اس وقت تک صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا _ تا کہ جب وہ اپنی حکومت کی تشکیل دیں تو کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملی ہوئی تو ہم بھی اسی طرح عدل قائم کرتے ''(۲) _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۴_

۳۰۸

امام محمد باقر(ع) کا ارشاد ہے :

''ہماری حکومت آخری ہے _ جس خاندان میں بھی حکومت کی صلاحیت ہوگی وہ ہم سے حکومت کرلے گا _ تاکہ جب ہماری حکومت تشکیل پائے تو اس وقت کوئی یہ نہ کہے کہ اگر ہمیں حکومت ملتی تو م بھی آل محمد (ص) کی طرح عمل کرتے اور آیہ ''والعاقبة للمتقین'' کے یہی معنی ہیں ''(۱)

گزشتہ بیان سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ انسان کی طبیعت ابھی توحید کی حکومت قبول کرنے کیلئے آمادہ نہیں ہے لیکن ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ اس نعمت سے ہمیشہ محروم رہے گا _ بلکہ جو خدا ہر موجود کو مطلوبہ کمال تک پہنچاتا ہے وہ نوع انسان کو بھی مطلوبہ کمال سے محروم نہیں رکھے گا _ انسان نے جس روز سے کرہ زمین پر قدم رکھا ہے اس ی دن سے وہ ایک سعادت مند و کامیاب اجتماعی زندگی کا خواہشمند رہا ہے اور ا س کے حصول کی کوشش کرتا رہا ہے _ وہ ہمیشہ ایک تابناک زمانہ اور ایسے نیک معاشرہ کا متمنی رہا ہے کہ جس میں ظلم و تعدی کا نام و نشان نہ ہو انسان کی یہ دلی خواہش فضول نہیں ہے اور خداوند عالم ایسے مقصد تک پہنچنے سے نوع انسان کو محروم نہیں کرے گا _ ایک دن ایساضرور آئے گا کہ جس میں انسان کا ضمیر و دماغ پورے طریقے سے بیدار ہوگا _ گوناگوں قسم کے احکام و قوانین سے مایوس اورحکام و فرمانروائی سے ناامید ہوجائے گا ، اپنے ہاتھ سے کھڑی کی ہوئی مشکلوں سے عاجز آجائے گا اور پورے طریقہ سے خدائی قوانین کی طرف متوجہ ہوگا _ اور لا ینحل

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۳۲_

۳۰۹

اجتماعی مشکلات کا حل صرف پیغمبروں کی تاسی میں محدود سمجھے گا _ اسے یہ محسوس ہوگا کہ اسے دو گرانقدر چیزوں کی ضرورت ہے _ ۱_ خدا کے قوانین اور اصلاحات کیلئے الہی منصوبہ ۲_ معصوم و غیر معمولی زمام دار کہ جو خدائی احکام و قوانین کے نفاذ و اجراء میں سہو و نسیان سے دوچار نہ ہو اور سارے انسانوں کو ایک نگاہ سے دیکھتا ہو _ خداوند عالم نے مہدی موعود کو ایسے ہی حساس و نازک زمانہ کیلئے محفوظ رکھا ہے اوراسلام کے قوانین و پروگرام آپ کو ودیعت کئے ہیں _

دوسری وجہ

ظہور میں تاخیر کے سلسلہ میں اہل بیت کی روایات میں ایک اور علت بیان ہوئی ہے _ حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

''خداوند عالم نے کافروں اور منافقوں کے اصلاب میں با ایمان افراد کے نطفے ودیعت کئے ہیں اسی لئے حضرت علی (ع) ان کافروں کو قتل نہیں کرتے تھے جن سے کوئی مؤمن بچہ پیدا ہونے والا ہوتا تھا تا کہ وہ پیدا ہوجائے اور اس کی پیدائشے کے بعد جو کافر ہاتھ آجاتا تھا اسے قتل کردیتے تھے _ اسی طرح ہمارے قائم بھی اس وقت ظاہر نہ ہوں گے جب تک کافروں کے اصلاب سے خدائی امانت خارج ہوگی _ اس کے بعد آپ(ع) ظہور فرمائیں گے اور کافروں کو قتل کریں گے '' _(۱)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۰۵_

۳۱۰

امام زمانہ خداپرستی اور دین اسلام کو کافروں کے سامنے پیش کریں گے جو ایمان لے آئے گا وہ قتل پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ تہ تیغ کیا جائے گا اور اہل مطالعہ سے یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ طول تاریخ میں کافر منافقوں کی نسل سے مومن و خداپرست بچے پیدا ہوئے ہیں _ کیا صدر اسلام کے مسلمان کافروں کی اولاد نہ تھی؟ اگر فتح مکہ میں رسول خدا کافر مکہ کا قتل عام کردیتے تو ان کی نسل سے اتنے مسلمان وجود میں نہ آتے _ خدا کے لطف و فیض کا یہ تقاضا ہے کہ لوگوں کو ان کے حال پرچھوڑدے تا کہ مرور ایام میں ان کی نسل سے مومن پیدا ہوں اور وہ خدا کے لطف و فیض کا مرکز بن جائیں _ جب تک نوع سے مومن و خداپرست لوگ وجود میں آتے رہیں گے اس وقت تک وہ باقی رہے گی اور اسی صورت میں اپنا سفر طے کرتی رہے گی _ یہاں تک کہ عمومی افکار توحید و خداپرستی کو قبول کرنے کیلئے آمادہ ہوجائیں گے اور اس وقت امام زمانہ ظہور فرمائیں گے _ بہت سے کفار آپ کے ہاتھ پر ایمان لائیں گے اور کچھ لوگ کفر و الحاد ہی میں غرق رہیں گے اور کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن سے کوئی مومن پیدا نہ ہوگا _

اس کے بعد جلسہ ختم ہوگیا اور طے پایا کہ آئندہ جلسہ ڈاکٹر صاحب کے گھر منعقد ہوگا _

۳۱۱

ظہور کے وقت کو کیسے سمجھیں گے؟

جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور جناب جلالی صاحب نے یہ سوال اٹھایا :

امام زمانہ کو کیسے معلوم ہوگا کہ ظہور کا وقت آگیا ہے ؟ اگر یہ کہا جائے کہ اس وقت انھیں خدا کی طرف سے اطلاع دی جائے گی تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ پیغمبروں کی طرح آپ(ص) پر وحی ہوگی اور نتیجہ میں نبی و امام میں کوئی فرق نہیں رہے گا _

ہوشیار: اول تو دلیل اور ان روایات سے جو کہ امامت کے بارے میں وارد ہوئی ہیں یہ بات سمجھ آتی ہے کہ امام کا بھی عالم غیب سے ارتباط رہتا ہے اور ضرورت کے وقت امام بھی حقائق سے آگاہ ہوتا ہے _ بعض روایات میں آیا ہے کہ امام فرشتہ کی آواز سنتا ہے لیکن اسے مشاہدہ نہیں کرتا ہے _(۱)

اس بنا پر ممکن ہے کہ خدا کے ذریعہ امام کو ظہور کے وقت کی اطلاع دے _

حضرت امام صادق آیہ فاذا نقر فی النّاقور کی تفسیر کے ذیل میں فرمایا: ''ہم میں سے ایک امام کامیاب ہوگا جو طویل مدت تک غیبت میں رہے گا اور جب خدا اپنے امر کو ظاہر کرنا چاہئے گا اس وقت ان کے قلب میں

____________________

۱_ کافی ج ۱ ص ۲۷۱_

۳۱۲

ایک نکتہ ایجاد کرے گا اور آپ(ع) ظاہر ہوجائیں گے اور خدا کے حکم سے،قیام کریں گے(۱)

ابو جارود کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر علیہ السلام کی خدمت میں عرض کی ہیں آپ کے قربان ، مجھے صاحب الامر کے حالات سے آگاہ کیجئے ، فرما یا :

شب میں آپ نہایت ہی خوف زدہ ہوں گے لیکن صبح ہوتے ہی مطمئن و پر سکون ہو جائیں گے آپ کے پرو گرام شب وروز میں وحی کے ذریعہ آپ کے پاس پہنچتے ہیں _ میں نے دریافت کیا : کیا امام پر بھی و حی ہوتی ہے ؟

فرمایا : وحی ہوتی ہے لیکن نبوت والی وحی نہیں ہوتی بلکہ ایسی وحی ہوتی ہے جیسی وحی کی مریم بنت عمران اور مادر موسی کی طرف نسبت دی گوی ہے _ اے ابو جارود قائم آل محمد خدا کے نزدیک مریم ، مادر موسی اور شہد کی مکھی سے کہیں زیادہ معزز ہیں''(۲)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ امام کے اوپر بھی وحی و الہام ہوتا ہے جبکہ امام اور نبی میں فرق بھی رہتا ہے _ کیونکہ نبی پر شریعت کے احکام و قوانین کی وحی ہوتی ہے اس کے برخلاف امام پر احکام و قوانین کی وحی نہیں ہوتی بلکہ وہ اسکی حفاظت کا ضامن ہوتا ہے _

ثانیاً یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ ظہور کے وقت رسول (ص) اسلام نے ائمہ کے توسط سے امام مہدی کو خبردی ہو _ اگر چہ کسی خاص حادیث کے رونما ہونے ہی کو ظہور کی

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۶۴_

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۷۲ و بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۸۹_

۳۱۳

علامت قرارد یا ہو اور امام زمانہ اس علامت کے ظہور کے منتظر ہوں _

پیغمبر اسلام کا ارشاد ہے :

''جب مہدی کے ظہور کا وقت آجائے گا تو اس وقت خدا آپ کی تلوار اور پرچم کو گویائی عطا کرے گا اور وہ کہیں گے : اے محبوب خدا اٹھئے اور دشمنان خدا سے انتقام لیجئے '' _(۱)

مذکورہ احتمال کے شواہد میں سے وہ روایات بھی ہیں کہ جن کی دلالت اس بات پر ہے کہ تمام ائمہ کا دستور العمل خدا کی جانب سے رسول اکرم پر نازل ہوا تھا اور آپ (ص) نے اسے حضرت علی بن ابی طالب کی تحویل میں دیدیا تھا _ حضرت علی (ع) نے اپنے زمانہ خلافت میں اس صحیفہ کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا اور اس کے بعد امام حسن (ع) کی تحویل میں آپ کا صحیفہ دیدیا _ اسی طرح ہر امام تک اس کا سر بمہر دستور العمل پہنچا اور انہوں نے اس کو کھولا اور اس کے مطابق عمل کیا _ آج

بھی امام زمانہ کے پاس آپ(ص) کا دستور العمل موجود ہے _(۲)

قیام کے اسباب

اس کے علاوہ اہل بیت (ع) کی احادیث سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ ظہور امام زمانہ کے وقت دنیا میں کچھ حوادث رونما ہوں گے جو آپ کی کامیابی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۱۱

۲_ کافی ج ۱ ص ۲۷۹

۳۱۴

اور ترقی کے اسباب فراہم کریں گے چنانچہ ایک ہی رات میں آپ(ع) کے انقلاب کے اسباب فراہم ہوجائیں گے ملاحظہ فرمائیں _

عبدالعظیم حسنی نقل کرتے ہیں کہ حضرت جواد (ع) نے ایک حدیث میں فرمایا:

''قائم ہی مہدی ہے کہ جن کی غیبت کے زمانہ میں ان کا منتظر اور ظہور کے وقت ان کا اطاعت گزاررہنا چاہئے وہ میرے تیسرے بیٹے ہیں_ قسم اس خدا کی کہ جس نے محمد کومبعوث بہ رسالت کیا اور ہمیں امامت سے سرفراز کیا اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس د ن کو اتنا طولانی کردے گا کہ وہ ظاہر ہوکر زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی _ خداوند عالم ایک رات میں آپ کے اسباب فراہم کرے گا جیسا کہ اپنے کلیم حضرت موسی کے امور کی بھی ایک ہی شب میں اصلاح کی تھی _ موسی گئے تھے تا کہ اپنی زوجہ کے لئے آگ لائیں لیکن وہاں تاج نبوت و رسالت سے بھی سرفراز ہوئے ''(۱)

پیغمبر اکرم نے فرمایا:

''مہدی موعود ہم سے ہے خدا ان کے امور کی ایک رات میں اصلاح کرے گا ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ کتاب الحاوی الفتاوی ، جلال الدین سیوطی طبع سوم ج ۲ ص ۱۲۴_

۳۱۵

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' صاحب الامر کی ولادت لوگوں سے مخفی رکھی جائے گی تاکہ ظہور کے وقت آپ(ع) کی گردن پر کسی کی بیعت نہ ہو _ خداوند عالم ایک رات میں آپ کے امور کی اصلاح کرے گا '' _(۱)

امام حسین (ع) نے فرمایا:

'' میرے نویں بیٹے میں کچھ جناب یوسف کی اور کچھ جناب موسی کی سرت و روش ہوگی _ وہی قائم آل محمد ہیں _ خداوند عالم ایک رات میں ان کے امور کی اصلاح کرے گا_''(۲)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۹۶_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳_

۳۱۶

انتظار فرج

جلالی: امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا فریضہ کیا ہے؟

ہوشیار: دانشوروں نے کچھ فرائض معین کرکے کتابوں میں رقم کئے ہیں _ جیسے امام زمانہ کیلئے دعا کرنا ، آپ(ع) کی طرف سے صدقہ دینا ، آپ(ع) کی طرف سے حج کرنا یا کرانا ، آپ سے استعانت و استغاثہ کرنا _ یہ چیزیں سب نیک کام ہیں اور ان میں بحث کی ضرورت نہیں ہے لیکن روایات میں جو اہم ترین فریضہ بیان ہواہے اور جس کی وضاحت کی ضروت ہے ، وہ انتظار فرج کی فضیلت کے بارے میں ائمہ اطہار کی بہت زیادہ احادیث حدیث کی کتابوں میں موجود ہیں مثلاً:

حضرت امام جعفر صاق کا ارشاد ہے :

''جو شخص ہم اہل بیت کی محبت پر مرتا ہے جبکہ وہ منتظر فرج بھی ہو تو ایسا ہی ہے جیسے حضرت قائم کے خیمہ میں ہو''_(۱)

حضرت امام رضا (ع) نے اپنے آباء و اجداد کے واسطہ سے رسول خدا سے نقل کیا ہے کہ آپ(ع) نے فرمایا:

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۱۷

''میری امت کا بہترین عمل انتظار فرج ہے ''(۱)

حضرت علی بن ابی طالب کا ارشاد ہے :

''جو شخص ہماری حکومت کا انتظار کرتا ہے اس کی مثال راہ خدا میں اپنے خون میں غلطان ہونے والے کی ہے ''(۲) _

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں :

''صبر اور انتظار فرج کتنے بہترین چیز ہے؟ کیا لوگوں نے نہیں سنا ہے کہ خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے : تم انتظار کرو میں بھی منتظر ہوں پس صبر کرو کیونکہ ناامیدی کے بعد فرج نصیب ہوگا _ تم سے پہلے والے زیادہ بردبار تھے''(۳)

ایسی احادیث بہت زیادہ ہیں ، ائمہ اطہار (ع) نے شیعوں کو انتظار فرج کے سلسلہ میں تاکید کی ہے _ فرماتے تھے: انتظار بجائے خود ایک فرج و خوشحالی ہے ، جو شخص فرج کا منتظر رہے گا اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو میدان جنگ میں کفار سے جہاد کرے اور اپنے خون میں غلطان ہوجائے _ اس اعتبار سے زمانہ غیبت میں انتظار فرج بھی مسلمانوں کا عظیم فریضہ ہے _ اب دیکھنا یہ ہے کہ انتظار فرج کے معنی کیا ہیں؟ اور انسان فرج کا منتظر کیسے ہوسکتا ہے کہ جس سے مذکورہ ثواب حاصل ہوسکے ؟ کیا انتظار فرج کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ انسان زبان سے یہ کہدے کہ میں امام زمانہ کے ظہور کامنتظر ہوں ؟ یا کبھی کبھی فریاد و آہ کے ساتھ یہ بھی کہے :

____________________

۱_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۸۸_

۳_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۸_

۳۱۸

اے اللہ امام زمانہ کے فرج میں تعجیل فرمایا یا نماز پنجگانہ کے بعد اور متبرک مقامات پر ظہور تعجیل کی دعا کرے یا ذکر و صلوات کے بعد اللہم عجل فرجہ الشریف کہے : یا جمعہ ، جمعہ با گریہ وز اری دعائے ندبہ پڑھے؟

اگر چہ یہ تمام چیزیں بجائے خود بہت اچھی ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ انسان ایسے امور کی انجام وہی سے حقیقی فج کے منتظر کا مصداق نہیں بن سکے گا کیونکہ ائمہ کی زبانی اسکی اتنی زیادہ فضیلیتیں بیان ہوئی ہیں _ انتظار فرج کرنے والے کو میدان جہاد میں اپنے خون میں غلطان انسان کے برابر قرار دیا ہے _

جو لوگ ہر قسم کی اجتماعی ذمہ داریوں اور امر بالمعروف و نہی عن المنکز کے فریضہ سے پہلو تہی کرتے ہیں ، فساد و بیدادگری پر خاموش بیٹھے رہتے ہیں ،ظلم و ستم و کفر و الحاد اور فساد کو تماش بینوں کی طرح دیکھتے ہیں اور ان حوادث پر صرف اتناہی کہتے ہیں : خدا فرج امام زمانہ میں تعجیل فرماتا کہ ان مفاسد کو ختم کریں _ میرے خیال میں آپ کا ضمیر اتنی سی باتوں سے مطمئن نہیں ہوگا اور انھیں آپ ان لوگوں کی صف میں کھڑا نہیں کریں گے جنہوں نے دین سے دفاع کی خاطر اپنے اہل و عیال اور مال و دولت سے ہاتھ دھولیئےیں اور میدان جہاد میں اپنی جان کو سپر قرار دیکر جام شہادت نوش کیا ہے _

اس بناپر انتظار فرج کے دقیق اور بلند معنی ہونا چاہئیں_ اس مدعا کی مزید وضاحت کیلئے پہلے میں دو موضوعوں کو مقدمہ کے عنوان سے پیش کرتا ہوں _ اس کے بعد اصل مقصد کا اثبات کروں _

مقدمہ اول : احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ کے امور کا منصوبہ بہت وسیع اور دشوار ہے _ کیونکہ آپ کو پوری دنیا کی اصلاح کرنی ہے _ ظلم و ستم کا

۳۱۹

نام و نشان مٹانا ہے ، کفر و الحاد اور بے دینی کے نشانات کو محو کرنا ہے _ سارے انسانوں کو خداپرست بنانا ہے _ دین اسلام کو دنیا والوں کیلئے سرکاری دین قرار دینا ہے _ روئے زمین پر عدل و انصاف کو نافذ کرنا ہے _ موہومی سرحدوں کو انسان کے ذہن سے نکالنا ہے تا کہ وہ سب صلح و صفائی کے ساتھ پرچم توحید کے سایہ میں زندگی بسر کریں _ نوع انسان کی تمام اقوام و ملل اور نسلوں کو توحید کے علم کے سایہ میں لانا ہے اور اسلام کی عالمی حکومت کی تشکیل کرنا ہے _ محققین و دانشور جانتے ہیں کہ ایسے قوانین کا نفاذ بہت مشکل کام ہے اور اتنا ہی دشوار ہے کہ ایک گروہ اسے ناممکن سمجھتا ہے _ اس بناپر یہ کام اسی صورت میں ممکن ہے کہ جب بشریت کا مزاج ایسے پروگرام کو قبول کرنے کیلئے تیار ہوجائے اور عام افکار اتنی ترقی کرلیں کہ ایسے خدائی دستور العمل کی خواہش کرنے لگیں اور امام زمانہ آفتاب عدالت کے انقلاب کے اسباب ہر طرح سے فراہم ہوجائیں _

دوسرا مقدمہ :

اہل بیت کی احادیث سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ اور آپ کے اصحاب وانصار جنگ و جہاد کے ذریعہ کفر و الحاد پر کامیاب ہوں گے اور جنگی توانائی سے دشمن کی فوج اور ظلم و ستم و بے دینی کے طرف داروں کو مغلوب کریں گے _ اس سلسلہ کی احادیث میں سے چند یہ ہیں :

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:

''مہدی اپنے جد محمد (ص) سے اس لحاظ سے مشابہ ہیں کہ شمشیر کے ساتھ قیام کریں گے اور خدا و رسول (ص) کے دشمنوں ، ستمگروں اور گمراہ کرنے والوں کو نہ تیغ کریں گے تلوار کے ذریعہ کامیاب ہوں گے آپ کے لشکر میں سے کسی کو بھی ہزیمت نہیں ہوگی _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۲۱۸

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455