آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181839 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

بشیر کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : لوگ کہتے ہیں کہ جب مہدی قیام کریں گے تو اس وقت ان کے امور طبیعی طور پر روبرو و ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر بھی خونریزی نہیں ہوگی ؟ آپ (ع) نے فرمایا :

'' خدا کی قسم حقیقت یہ نہیں ہے _ اگر یہ چیز ممکن ہوتی تو رسول خدا کیلئے ہوتی _

میدان جنگ میں آپ کے دانت شہید ہوئے اور پیشانی اقدس زخمی ہوئی _ خدا کی قسم صاحب الامر کا انقلاب اس وقت تک برباد نہ ہوگا _ جب تک میدان جنگ میں خونریزی نہیں ہوگی _ اس کے بعد آپ نے پیشانی مبارک پر ہاتھ ملا _ ''(۱)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہدی موعود کو صرف الہی تائید اور غیبی مدد کے ذریہ کامیابی نہیں ہوگی اور یہ طے نہیں ہے کہ ظاہری طاقت سے مدد لئے بغیرہ معجزہ کے طور پر اپنے اصلاحی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں ، بلکہ تائید الہی کے علاوہ آپ(ص) جنگی اسلحہ اور فوج کو استعمال کریں گے _ علوم و صنعت اور

خوفناک جنگی اسلحہ کی اختراع کو بھی مد نظر رکھیں گے _

مذکورہ دونوں مقدموں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ مہدی موعود کے ظہور کے شرائط کیا ہیں؟ آپ(ع) کے انقلاب و تحریک کے سلسلہ میں مسلمانوں کاکیا فریضہ ہے اور کس صورت میں کہا جا سکتاہے کہ مسلمان آپ(ع) کے عالمی اور دشوار قیام کے لئے تیار ہیں اور خدا کی قوی حکومت کی تشکیل اور ظہور کے انتظار میں دن گن رہے ہیں؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۳۲۱

اہل بیت کی احادیث سے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ پہلے وہ سنجیدگی اور کوشش سے اپنے نفسوں کی اصلاح کریں ، اسلام کے نیک اخلاق آراستہ ہوں ، اپنے فردی فرائض کو انجام دیں قرآن کے احکام پر عمل کریں ، دوسرے اسلام کے اجتماعی پروگرام کا استخراج کریں اورمکمل طور سے اپنے درمیان نافذ کریں اور اسلام کے اقتصادی پروگرام سے اپنی اقتصادی مشکلوں کو حل کریں ، فقر و ناداری اور ناجائز طریقوں سے مال جمع کرنے والوں سے جنگ کریں اوراسلام کے نورانی قوانین پر عمل پیرا ہو کر ظلم و ستم کا سد باب کریں _ مختصر یہ کہ سیاسی اجتماعی ، اقتصادی ، قانونی اور اسلام کے عبادی پروگراموں کو مکمل طور پر اپنے درمیان جاری کریں اوردنیا والوں کے سامنے اس کے عملی نتائج پیش کریں _

تحصیل علم و صنعت میں سنجیدگی سے کوشش کریں اور اپنی گزشتہ غفلت و سستی اور پسماندگی کی تلافی کریں _ بشری تمدن کے کاروان تک یہنچنا کافی نہیں ہے بلکہ ہر طریقہ سے دنیا والوں سے باز جیت لینا ضروری ہے _ دنیا والوں کو عملی طریقے سے یہ بتائیں کہ اسلام کے نورانی احکام و قوانین ہی ان کی مشکلوں کو حل کر سکتے ہیں اور انکی دو جہان کی کامیابی کی ضمانت لے سکتے ہیں _ اسلام کے واضح اور روشن قوانین پر عمل کرکے ایک قوی اور مقتدر حکومت کی تشکیل کریں اور روئے زمین پر ایک طاقت ور و متمدن اور مستقل اسلامی ملت کے عنوان سے ابھر یں _

مشرق و مغرب کی سینہ زور یوں کوروکیں اور دنیا والوں کی قیادت کی زمام خو سنبھالیں _ جہاں تک ہو سکے دفاعی طاقت کو مضبوط اور نظامی طاقت کو محکم بنائیں اور جنگی اسلحہ کی فراہمی کے لئے کوشش کریں _ تیسرے :اسلام کے اجتماعی ، اقتصادی

۳۲۲

اور سیاسی منصوبوں کا استخراج کریں اور دنیا والوں کے گوش گزار کردیں _ خدائی منصوبوں کی قدر و قیمت سے لوگوں کو آگاہ کریں _ قوانین الہی کو قبول کرنے کیلئے دنیا والوں کے افکار کو آمادہ کریں _ اسلام کی عالمی حکومت اور ظلم و بیدادگری سے جنگ کے مقدمات و اسباب فراہم کریں _

جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں اور امام زمانہ کے مقصد کی تکمیل او رآپ کے انقلاب کیلئے اسباب فراہم کرتے ہیں ، انہی کو فرج کا منتظر کہا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود کو امام زمانہ کے قیام کیلئے تیارکررہے ہیں _ ایسے فداکار اور کوشاں افراد کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ انکی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو میدان جنگ میں اپنے خون میں غلطان ہوتے ہیں _

لیکن جو لوگ اپنی مشکلوں کو انسان کے وضع کردہ قوانین سے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کواہمیت نہیں دیتے ، احکام اسلام کو صرف مسجدوں اور عبادت گاہوں میں محدود سمجھتے ہیں ، جن کے بازار اور معاشروں میں اسلام کا نشان نہیں ہے ، جو فساد و بیدادگری کا مشاہدہ کرتے ہیں اور صر ف یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ اے اللہ فرج امام زمانہ میں تعجیل فرما _ علوم و فنون میں دوسرے آگے ہیں ، ہمارے درمیان اختلافات و پراکندگی کی حکمرانی ہے _ غیروں سے روابط ہیں ، اپنوں سے دشمنی ہے ایسی قوم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ فرج آل محمد اور انقلاب مہدی کی منتظر ہے _ ایسے افراد اسلام کی عالمی حکومت کے لئے تیار نہیں ہیں اگر چہ وہ دن میں سیکڑوں بار اللہم عجل فرجہ الشریف کہتے ہوں _

اہل بیت (ع) کی احادیث سے میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں _ اس کے علاوہ دوسری

۳۲۳

روایات میں بھی اس موضوع کی طراف اشارہ ہوا ہے مثلاً: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: '' ہمارے قائم ک ے ظہور اور انقلاب کیلئے تم خود کو آمادہ کرو اگر چہ ایک تیر ہی ذخیرہ کرو''(۱) عبد الحمید واسطی کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : ہم نے اس امر کے انتظار میں خرید و فروخت بھی چھوڑدی ہے فرمایا:

'' اے عبد الحمید کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ جس نے اپنے جان راہ خدا میں وقف کردی ہے _ خدا اس کی فراخی کیلئے کوئی انتظام نہیں کرے گا ؟ خدا کی قسم اس کے لئے راستے کھل جائیں گے اور امور آسان ہوجائیں گے خدا رحم کرے اس شخص پر جو ہمارے امر کو اہمیت دیتا ہے '' _ عبدالحمید نے کہا: اگر انقلاب قائم سے پہلے مجھے موت آگئی تو کیا ہوگا؟ فرمایا: '' تم میں سے جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اگر قائم آل محمد کا میری حیات میں ظہور ہوگا تو میں آپ کی مدد کروں گا _ اس کی مثال اس شخص کی ہے جسن نے امام زمانہ کی رکاب میں تلوار سے جہاد کیا ہے بلکہ آپ (ع) کی مدد کرتے ہوئے شہادت پائی ہو ''(۲) _

ابوبصیر کہتے ہیں : ایک روز امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

'' کیا میں تمہیں وہ چیز بتاؤں کہ جس کے بغیر خدا بندوں کے اعمال قبول نہیں کرتا ہے ؟'' ابوبصیر نے عرض کی : (مولا) ضرور بتایئے فرمایا:'' وہ ایک خدا اور محمد (ص) کی نبوت کی گواہی دینا ، خدا کے دستوارت کااعتراف کرنا ، ہماری محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا ، ائمہ کے سامنے

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۶۶_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۲۴

سراپا تسلیم ہونا ، پرہیزگاری ، جد و جہد اور قائم کا منتظر رہنا ہے _

اس کے بعد فرمایا: ہماری حکومت مسلّم ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گی جو شخص ہمارے قائم کے اصحا ب و انصار میں شامل ہونا چاہتا ہے _ اسے چاہئے کہ انتظار فرج میں زندگی بسر کرے _ پرہیزگاری کو اپنا شعار بنائے ، اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو اور اسی طرح ہمارے قائم کے انتظار میں زندگی بسر کرتا رہے اگر وہ اسی حال میں رہا اور ظہور قائم آل محمد سے پہلے موت آگئی ، تو اسے اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا کہ جتنا امام زمانہ کے ساتھ رہنے والے کو ملیگا _

شیعہ کوشش کرو اور امام مہدی کے منتظر رہو _ اے خدا کی رحمت و لطف کے مستحقو کامیابی مبارک ہو _(۱)

____________________

۱_ غیبت نعمانی ص ۱۰۶_

۳۲۵

قیام کے خلاف احادیث کی تحقیق

انجینئر: ہوشیار صاحب آپ کی گزشتہ باتوں '' انتظار فرج'' کی بحث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ (ع) کی غیبت میں شیعوں کا فریضہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کے اجراء کیلئے کوشش کریں اور اس طرح امام زمانہ کے عالمی انقلاب اور ظہور کے اسباب فراہم کریں میرے خیال میں آپ کی باتیں بعض احادیث کے منافی ہیں _ جیسا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جو کہ قیام و ظہور مہدی سے قبل کسی بھی تحریک و انقلاب کی ممانعت کرتی ہیں _ اگر آپ تجزیہ کریں تو مفید ہوگا _

ہوشیار: آپ کی یاد ، دہاتی کا شکریہ _ ایسی احادیث ، دو طریقوں سے تجزیہ و تحقیق کی جا سکتی ہے _ پہلے تو سند کے اعتبار سے تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ صحیح و معتبر ہیں یا نہیں _ دوسرے دلالت کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ کسی بھی انقلاب و تحریک ممانعت کیلئے دلیل بن سکتی ہیں یا نہیں لیکن احادیث کی تحقیق و تحلیل سے قبل مقدمہ کے طور پر میں ایک اور بات عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں _ اس طرح ہم مذکورہ مسئلہ سے دو حصوں میں بحث کریں گے _

۱_ اسلام میں حکومت

۳۲۶

۲_ احادیث کی تحقیق

اسلام میں حکومت

اسلام کے احکام و قوانین کے مطالعہ یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ دین اسلام صرف ایک عقیدتی اور عبادی دین نہیں ہے بلکہ عقیدہ ، عبادت ، اخلاق ، سیاست اور معاشرہ کا ایک مکمل نظام ہے _ کلی طور پر اسلام کے احکام و قوانین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱_ فردی احکام جیسے نماز ، روزہ ، طہارت ، نجاست ، حج ، کھانا ، پینا و غیرہ ان چیزوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں انسان کو حکومت اور اجتماعی تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ تن تنہا اپنا فریضہ پورا کرسکتا ہے _

۲_ اجتماعی احکام ، جیسے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، فیصلے ، اختلافات کا حل ، قصاص ، حدود ، دیات ، تعزیرات ، شہری حقوق ، مسلمانوں کے آپس اور کفار سے روابط اور خمس و زکوة ، یہ چیزیں انسان کی اجتماعی و سیاسی زندگی سے مربوط ہیں _ انسان چونکہ اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے ، اور اجتماعی زندگی میں تزاحمات پیش آئیں گے لہذا اسے اسے قوانین کی ضرورت ہے ، جو ظلم و تجاوز کا سد باب کریں اور افراد کے حقوق کا لحاظ رکھیں _ اسلام کے بانی نے اس اہم اور حیات بخش امر سے چشم پوش نہیں کی ہے بکلہ اس کیلئے حقوقی جزائی اور شہری قوانین مرتب کئے ہیں اور اختلافات کے حل اور قوانین کے مکمل اجراء کیلئے عدالتی احکام پیش کئے ہیں _ ان قوانین کی تدوین اور وضع سے یہ بات بخوبی سمجھ

۳۲۷

میں آجاتی ہے کہ عدلیہ کا تعلق دین اسلام کے متن سے ہے اور شارع اسلام نے اس کی تشکیلات پر خاص توجہ دی ہے _ اسی طرح اسلام کے احکام و قوانین کا معتد بہ حصہ راہ خدا میں جہاد اور اسلام و مسلمین سے دفاع سے متعلق ہے _ اس سلسلہ میں دسیوں آیتیں اور سیکڑوں حدیثیں وارد ہوئی ہیں _ مثلاً : خداوند عالم مومنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے :

جاهدوا فی سبیل الله حق جهاد (۱) (حج/ ۷۸)

راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کرو _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین لله (۲) (بقرہ /۱۲)

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوجائے اور صرف دین خدا باقی رہے

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم لعلهم ینتهون (توبہ/ ۱۲)

پس تم کفر کے سرغنہ لوگوں سے جنگ کرتے رہو کہ ان کے عہد کا کوئی اعتبار نہیں ہے تا کہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں _

ایسی آیتوں سے کہ جن کے بہت سے نمونے موجود ہیں ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعات ، کفر و استکبار اور ظلم و ستم سے جنگ مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بلکہ بعض آیتوں میں تو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی طاقت کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں اور دشمن کے مقابلہ کے لئے مسلح رہیں _ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

واعدوا لهم ماستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم و آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم _ (انفال / ۶۰)

اور جہاں تک ہوسکے جنگی توانائی اور بندھے ہوئے گھوڑے فراہم کرو اور اس سے

۳۲۸

دشمنان خدا اور اپنے دشمنوں اور دوسرے لوگوں پر دھاک بٹھا ور تم انھیں نہیں جانتے نگر خدا انھیں جانتا ہے _

مذکورہ آیتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلحہ کی فراہمی اور فوجی توانائی اسلام کا جز ہے _ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہمیشہ دفاعی طاقت کے استحکام اور دشمنوں کے حملوں کو روکنے کیلئے مختلف قسم کا اسلحہ بنائیں کہ جس سے دشمنان اسلام ہمیشہ مرعوب ووحشت زدہ رہیں اور تعدی و تجاوز کی فکر ان کے ذہن میں خطور نہ کرے _

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ہے اور یہ سب پرواجب ہے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ظلم و فساد ، استکبار ، تعدی و تجاوز اور معصیت کاری سے مبارزہ کریں ، اسی طرح توحید ، خداپرستی کی اشاعت اور لوگوں کو خیر و صلاح کی طرف بلانے کی کوشش کرنا بھی واجب ہے اس اہم اور حساس فریضہ کی تاکید کے سلسلہ میں دسیوں آیتیں او رسیکڑوں احادیث وارد ہوتی ہیں _ مثلاً:

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر (آل عمران /۱۰۴)

''تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو لوگوں کو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کریں'' _

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون

۳۲۹

عن المنکر و تومنون بالله ( آل عمران/ ۱۱۰)

تم بہترین امت ہو کر لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو _

مختصر یہ کہ اسلام کا سیاسی و اجتماعی پروگرام اوراحکام و قوانین جیسے جہاد، دفاع قضاوت ، حقوقی ، شہری و جزائی ، قوانین ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، فساد و بیدادگری سے مبارز ہ ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ان سب کیلئے نظم و ضبط اور اداری تشکیلات کی ضرورت ہے اور ایک اسلامی حکومت کی تاسیس کے بغیر ان احکام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومت کی تاسیس ، جو کہ اسلام کے قوانین کے نفاذ اور اس کے سیاسی ، اجتماعی ، اقتصادی فوجی اور انتظامی و حقوقی پروگرام کے اجراء کی ضامن ہے ، اسلام کا اصل نصب العین ہے _ اگر شارع نے ایسے قوانین و پروگرام وضع کئے ہیں تو ان کے نفاذ کیلئے حاکم اسلام کی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھا ہے _ کیا جنگ و دفاع فوجی نظم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟ کیا ظلم و بیدادگری ، دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ، احقاق حق اور ہرج و مرج کا سد باب عدلیہ اور انتظامی نظلم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟

چونکہ اسلام نے قوانین و پروگرام کئے ہیں اس لئے ان کے اجراء و نفاذ کا بھی منصوبہ بنایا ہے _ اور یہی اسلامی حکومت کے معنی ہیں کہ حاکم اسلام یعنی ایک شخص ایک وسیع اداری امور کی زمام اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور قوانین الہی کو نافذ کرکے لوگوں میں امن وامام برقرار کرتا ہے _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں واقع ہوتی ہے اس سے جدا نہیں کیاجا سکتا _

۳۳۰

رسول (ص) خدا مسلمانوں کے زمامدار

رسول خدا (ص) اپنی حیات طیبہ میں عملی طور پر حکومت اسلامی کے زمامدار تھے مسلمانوں کے امور کے نگراں تھے _ اور اس اہم ذمہ داری کی انجام وہی کی خاطر خدا کی طرف سے آپ کو بہت سے اختیارات دیئےئے تھے _ قرآن فرماتا ہے :

النّبی اولی بالمومنین من انفسهم ( احزاب /۶۰)

نبی کو مومنین کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے _ دوسری جگہ ارشاد ہے :

فاحکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم ( مائدہ / ۴۸)

جو احکام و قوانین ہم نے آپ (ص) پر نائل کئے ہیں ان کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان حکومت کیجئے اور ان کی خواہش کا اتباع نہ کیجئے _

اس بنا پر رسول (ص) دو منصبوں کے حامل تھے ایک طرف وحی کے ذریعہ خدا سے رابط تھا اور ادھر سے شریعت کے احکام و قوانین لیتے تھے اور لوگوں تک پہنچاتے تھے اور دوسری طرف امت اسلامیہ کے زمام دار و حکمران بھی تھے اور مسلمانوں کے سیاسی و اجتماعی پروگرام کا اجراء آپ ہی فرماتے تھے _

رسول (ص) خدا کی سیرت کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی روشن ہوجاتی ہے کہ آپ(ص) عملی طور پر مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور اپنے دست مبارک میں رکھتے اور ان پر حکومت کرتے تھے_ حاکم و فرمانروا مقرر کرتے ، قاضی معین کرتے ، جہاد و دفاع کا حکم صادر فرماتے مختصر یہ کہ آپ (ص) ان تمام کاموں کو انجام دیتے تھے جو ایک امت کیلئے

۳۳۱

لازم ہوتے تھے _(۱)

اس کام پر آپ خدا کی جانب سے مامور تھے _ آپ (ص) کو یہ ذمہ داری سپردکی گئی تھی کہ اسلام کے سیاسی اور اجتماعی قوانین کو نافذ کریں _ مسلمان جہاد پر مامور تھے لیکن رسول خدا کو یہ حکم تھا کہ وہ انھیں جہاد و دفاع کیلئے ، آمادہ کریں _ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

'' یا ایها النبی حرّض المومنین علی القتال'' ( انعام / ۲۵)

اے نبی (ص) مومنین کو جہاد کی ترغیب دلاہیئے

دوسری جگہ ارشاد ہے :

یا ایها النبی جاهد الکفار و المنافقین و اغلظ علیهم (توبہ /۷۳)

اے نبی (ص) کفار و منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے _

رسول (ص) لوگوں کے درمیان حکومت و قضاوت کرنے پر مامور تھے ، قرآن کہتا ہے :

انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بمااراک الله و لا تکن للخائنین خصیما'' _ (نساء/ ۱۰۵)

ہم نے آپ پر بر حق کتاب نازل کی ہے تا کہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان حکم کریں جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے اور خیانت کاروں کے حق میں عداوت نہ کیجئے _

ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول خدا نبی ہونے ، وحی لینے اور

____________________

۱_ الترتیب الاداریہ اور کتاب الاموال مولفہ حافظ ابو عبید ملا حظہ فرمائیں _

۳۳۲

اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ مسلمانوں کی حکومت اور زمامداری پر بھی مامور تھی اور اس بات پر مقرر تھے کہ سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام کو نافذ کرکے مسلمانوں پر حکومت کریں چنانچہ اس سلسلہ میں آنحضرت کو مخصوص اختیارات دیئے گئے تھے اور مسلمانوں پر آنحضرت کی حکومتی احکام کی اطاعت کرنا واجب تھا _

قرآن مجید میں ارشاد ہے :

اطیعوا لله و اطعیواالرسوال و اولی الامر منکم (نساء/ ۵۹)

اللہ کی اطاعت کرو اور سول (ص) کی اطاعت کرو اور اپنے صاحبان امر کی اطاعت کرو _ نیز ارشاد ہے :

و اطیعوا الله و رسوله و لا تنازعو فتفشلوا '' ( انفال / ۴۶)

اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو نزاع و اختلاف سے پرہیز کرو کہ کمزور پڑجاؤ گے _

و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله (نساء/ ۶۴)

اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا خدا کے حکم سے اس کی اطاعت ہوتی _

ان آیتوں میں رسول (ص) کی اطاعت خدا کی اطاعت کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کے ساتھ اس کے رسول (ص) کی

بھی اطاعت خدا کی اطاعت اس طرح ہوگی کہ لوگ اس کے احکام کو قبول کریں جو کہ رسول کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں _ اس کے علاوہ مسلمانوں پر یہ واجب کیا گیا تھا کہ وہ رسول کے مخصوص احکام کی بھی اطاعت کریں _ رسول (ص) خدا کے مخصوص فرمان عبارت ہیں : وہ حکم و دستورات جو آپ مسلمانوں کے حاکم ہونے کی حیثیت سے صادر فرماتے تھے_ اس لحاظ سے وہ

۳۳۳

بھی واجب ہیں _ مختصر یہ کہ حکم خدا سے رسول (ص) کی اطاعت واجب ہے _

اس بناپر ابتدائے اسلام ہی سے حکومت دین کا جزو تھی اور عملی طور پر پیغمبر اس کے عہدہ دار تھے _

اسلامی حکومت رسول (ص) کے بعد

رسول کی وفات کے بعد نبوت اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا _ لیکن دین کے احکام و قوانین اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام مسلمانوں کے درمیان باقی رہے _ یہاں یہ سوال اٹھتاہے کیا رسول اکرم کی رحلت کے بعد آپ(ص) کی حاکمیت کا منصب بھی نبوت کی طرح ختم ہوگیا ؟ اور اپنے بعد رسول خدا نے کسی کو حاکم و زمام دار مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اس ذمہ داری کو مسلمانوں پر چھوڑدیا ہے _ یا اس اہم و حساس موضوع سے آپ(ص) غافل نہیں تھے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے کسی شخص کو منتخب فرمایا تھا؟

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام خود مسلمانوں کے حاکم اور اسلام کے قوانین و پروگرام کو نافذ کرنے والے تھے ، آپ اسلامی حکومت کے دوام کی ضرورت کو بخوبی محسوس کرتے تھے _ آنحضرت(ص) اچھی طرح جانتے تھے کہ بغیر حکومت کے مسلمان زندہ نہیں رہ سکتے اور اسلامی حکومت اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب اس کو چلانے کیذمہ داری اسلام شناس ، عالم ، پرہیزگار ، امین اور عادل انسان کے دوش پر ڈالی جائے ، تا کہ وہ دین کے احکام و قوانین کو نافذ کرکے اسلامی کومت کو دوام بخشے _ اسی لئے رسول اکرم نے ابتداء تبلیغ رسالت ہی سے خداوند عالم کے حکم کے مطابق مناسب موقعوں پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو مسلمانوں کے امام و خلیفہ کے عنوان سے پہچنوایا ہے اس سلسلہ میں

۳۳۴

احادیث شیعہ و اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں _منجملہ ان کے یہ ہے کہ حجة الوداع کے سفر میں غدیر خم کے مقام پر قافلہ روک کر ہزاروں صحابہ کے سامنے فرمایا:

الست اولی بالمومنین من انفسهم ؟ قالوا بلی یا رسول الله فقال من کنت مولاه فعلی مولاه ، ثم قال: اللهم وال من والاه و عاد من عاداه _ فلقیه عمر بن الخطاب فقال : هنیئاً لک یا بن ابی طالب _ اصبحت مولای و مولا کل مومن و مومنه _(۱)

رسول (ص) نے لوگوں سے فرمایا: کیا میں مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ اصحاب نے عرض کی : بے شک ، اللہ کے رسول ، اس وقت آپ (ع) نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں _ پھر فرمایا : با ر الہا علی کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن _ پس عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ملاقت کی اور کہا : فرزند ابوطالب مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے ''_

ایسی احادیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رسول (ص) نے اپنی حاکمیت کو دائمی بناکر اسے علی بن ابی طالب کے سپرد کردیا ہے _ اس سے پہلے اس منصب کیلئے آپ کو آمادہ کیا اور ضروری علوم و اطلاع آپ کے اختیار میں دیں _ آنحضرت جانتے تھے کہ علی ذاتی علم و عصمت کے حامل ہیں اور منصب امامت کے لائق ہیں _ اسی لئے آپ (ص) نے

____________________

۱_ ینابیع المودة / ۲۹۷_

۳۳۵

خدا کے حکم سے حضرت علی کو اس منصب کیلئے منتخب کیا اور اس حیثیت سے پہچنوایا _ حضرت علی اسلام کے احکام و قوانین کے حافظ بھی تھے اور حاکم اسلام و مجری قوانین بھی تھے رسول نے غدیر میں حضرت علی کے اختیار میں اپنا اولی بالتصرف کا منصب دیا _ اور عمر بن خطاب کے ذہن میں بھی ان ہی معنی نے خطور کیا اورانہوں نے علی سے کہا : اے ابوطالب کے بیٹے مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے _

مسلمان بھی یہی سمجھتے چنانچہ انہوں نے امیرالمومنین کی بیعت کی وفاداری کااظہار کیا اگر ان معنی میں علی کو مولا نہ بنایا گیا ہوتا تو تو بیعت کی ضرورت نہ ہوتی _

علی (ع) جانشین رسول (ص)

رسول خدا نے خدا کے حکم سے حضرت علی (ع) کو مسلمانوں کا امام و زمام دار منصوب فرمایا اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کی امامت کو دائمی بنادیا _ لیکن آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے اختلاف کیا ، لوگوں کی کمزوری اور جاہلیت سے غلط فائدہ اٹھایا اور حضرت علی کے شرعی حق کو غصب کرلیا اور اسلامی حکومت کو اس کے حقیقی وارث سے جدا کردیا _ حضرت علی (ع) کے بیعت نہ کرنے ، خطبے دینے ، احتجاج کرنے اور شکوہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کی حاکمیت و زمام داری کو غصب کرلیا گیا تھا _ خلفا نے دین کے احکام و معارف کو حضرت علی (ع) سے نہیں لیا تھا _ اگر چہ آپ کے علمی تبحر و مرتبہ کے معترف تھے یہاں تک کہ مشکل مسائل میں آپ(ع) سے رجوع کرتے تھے _

جس وقت خلافت حضرت علی (ع) کے ہاتھ میں آئی اور آپ(ع) نے خلافت کے تمام امور جیسے حاکم و فرمانروا کا تقرر ، قضات کا انتخاب ، زکوة و خمس کی وصولیابی کی

۳۳۶

ذمہ داری کا سپرد کرنا ، جہاد ودفاع کاحکم صادر کرنا اور سپہ سالاروں کے تقرر کو اپنے اختیار میں لے لیا تو طلحہ و زبیر نے آپ (ع) کے مخالفت کی اور جنگ جمل برپاکردی وہ آپ کی حکومت کے مخالف تھے آپ (ع) کے علمی مرتبہ اور احکام و معارف کے بیان کے مخالف نہیں تھے _ احکام کے بیان میں معاویہ کو بھی آپ سے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ اس نے حکومت او رتخت خلافت کے سلسلہ میں آپ (ع) سے جنگ کی تھی _

اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول اکرم کی وفات سے اسلامی حکومت ختم نہیں ہوئی بکلہ حضرت علی بن ابی طالب کے خلیفہ منصوب ہونے سے اسلامی حکومت کے باقی رکھنے کی تصریح ہوگئی اور اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ شارع اسلام نے سیاسی و اجتماعی قوانین کے نافذ کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا ہے _ یعنی اسلامی حکومت کو ہمیشہ باقی رہنا چاہئے _

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بعد امام و خلیفہ اور حاکم منتخب کیا اور امام حسن (ع) نے اپنے بعد اپنے بھائی امام حسین اور امام حسین (ع) نے اپنے بیٹے امام زین العابدین کو منصوب کیا اور اس طرح بارہویں امام حضرت حجة بن الحسن تک ہر امام نے اپنے بعد والے امام کا تعارف کرایا _ خداداد علم و عصمت اور طہارت اور اپنے ذاتی کمال و صلاحیت کے علاوہ مسلمانوں کے امام و حاکم بھی منصوب ہوئے _ اس بناپر مسلمانوں کی امامت اور معصوم حکمرانوں کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا اگر چہ حضرت علی بن ابی طالب کے علاوہ بظاہر کوئی امام بھی اپنا شرعی حق حاصل نہیں کرسکا اور اسلامی حکومت کو جاری نہ رکھ سکا _

زمانہ غیبت میں اسلامی حکومت

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام

۳۳۷

کی کیا کیفیت ہے؟ جس زمانہ میں معصوم امام و حاکم تک رسائی نہیں ہے کیا اس میں شارع اسلام نے احکام و منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کا کوئی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا اسلام یہ سارے قوانین صرف رسول کی حیات ہی کے مختصر زمانہ کیلئے تھے؟ اور اس وقت سے ظہور امام مہدی تک ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس طویل زمانہ میں جہاد، دفاع ، حدود کے اجراء قصاص و تعزیرات ظلم و بیدادگری سے جنگ، مستضعفین اور محروموں سے دفاع، فساد و سرکشی اور معصیت کاری سے مبارزہ سے دست کشی کرلی ہے اور ان کے نفاذ کو حضرت مہدی کے ظہور پر موقوف کردیا ہے ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں آیات و احادیث صرف کتابوں میں بحث کرنے کیلئے آئی ہیں ؟ میرے خیال میں کوئی با شعور مسلمان ایسی باتوں کو قبول نہیں کرے گا ؟ مسلمان خصوصاً مفکر ین یہی کہیں گے کہ یہ احکام بھی نفاذ ہی کے لئے آئے ہیں _ اگر حقیقت یہی ہے تو تمام زمانوں کو منجملہ اس زمانہ کو قوانین کے اجراء سے کیوں نظر انداز کردیا ہے؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام نے سیاسی و اجتماعی منصوبے بنائے ہیں لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم مقرر نہیں کئے ہیں _

زمانہ غیبت میں مسلمانوں کا فریضہ

یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اور معصوم امام کو خدا کی طرف سے مسلمانوں کا حاکم منصوب کیا گیا ہے اور ان کے امور کی زمام ان ہی کے ہاتھ میں دی گئی ہے _ اور اس سلسلہ میں انھیں کوشش کرنی چاہئے لیکن اصلی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس و استحکام اور پیغمبر و امام کو طاقت فراہم کرنے کے سلسلہ

۳۳۸

میں مخلصانہ کوشش کریں اور ان کے تابع رہیں _ اسی طرح جب معصوم امام تک رسائی ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبوں کے اجراء کیلئے کوشش کریں جو فکر اسلام نے کسی زمانہ میں یہاں تک کہ اس زمانہ میں بھی اپنے احکام کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے _ اکثر احکام و قوانین مسلمانوں کو مخاطب کرکے بیان کئے گئے ہیں مثلاً قرآن مجید فرماتا ہے :

و جاهدوا فی الله حق جهاده ( حج/ ۷۸)

راہ خدا میں حق جہاد ادا کرو _

انفروا خفافا و ثقالا و جاهدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل الله ( توبہ /۴۱)

مسلمانو تم ہلکے ہو یا بھاری راہ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو _

تومنون بالله و رسوله و تجاهدون فی سبیل الله (صف/۱۱)

تم خداو رسول پر ایمان رکھتے ہو راہ خدا میں جہاد کرو _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لا تعتدوا ( بقرہ/ ۱۹۰)

راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو _

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا ( نساء /۶۷)

شیطان کے طرف داروں سے جہاد کرو کہ شیطان کامکر کمزور ہے _

و قاتلوا حتی تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال / ۳۹)

۳۳۹

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا باقی رہے _

و مالکم لا تقاتلون فی سبیل الله (انفال /۳۹)

راہ خدا میں تم جہاد کیوں نہیں کرتے؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم (توبہ/۱۲)

کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو کہ ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة ( توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے سب اسی طرح جنگ کرو جیسا کہ وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں _

واعدوا لهم مااستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

اور جہاں تک تم سے ہوسکے دشمنوں کے لئے جنگی توانائی اور گھوڑوں کی صف کا انتظام کرو کہ اس سے خدا کے دشمن اور تمہارے دشمنوں پر رعب طاری ہوگا _والسارق و السارقة فاقطعوا ایدهما جزاء بما کسبا نکالا من الله و الله عزیز حکیم (مائدہ / ۳۸)

اور چورمرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے ایک بدلہ اور خدا کی طرف سزا ہے اور خدا عزت و حکمت والا ہے _

الزّانیه و الزّانی فاجلدو کل واحد منهما اماة جلدة ولا تاخذ بهما رافة فی دین الله _ ( نور/ ۲)

زناکار عورت اور زناکار مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ اور خبردار

۳۴۰

دین خدا کے سلسلہ میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا _

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر ( آل عمران / ۱۰۴)

اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دے نیکیوں کا حکم دے ، برائیوں سے منع کرے _

یا ایها الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء لله (نساء/ ۱۲۵)

ایمان لانے والو تم عدل قائم کرنے والے اور خدا کیلئے گواہ بن جاؤ_

ایسی ہی بے شمار آیتیں ہیں جن میں ھام مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان سے ان اجتماعی فرائض کی انجام وہی کی خواہش کی گئی ہے جو اسلامی حکومت کی مصلحت کے مطابق ہوں _ مثلاً دشمنوں سے جنگ اور را ہ خدا میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، مستکبرین اور کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو، دنیا کے لوگوں کو خیر و صلاح کی دعوت دو ، فساد ، معصیت اور ستمگری سے مبارزہ کرو_ عدل و انصاف قائم کرو اور حدود خدا کو جاری کرو _

معمولی غور و فکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایسے اجتماعی اہم امور کا اجراء حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور چونکہ مسلمانوں سے اس امر کا مطالبہ کیا گیا ہے اس لئے اس کے مقدمات فراہم کرنا ، یعنی اسلامی حکومت کی تاسیس میں کوشش کرنا مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بعبارت دیگر ہر شعبہ میں دین کے قوانین کا نفاذ اسلامی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے جبکہ دینی احکام کا نفاذ مسلمانوں کا فریضہ ہے قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے _

۳۴۱

خدا نے تمہارے لئے دین کے وہ احکام مقرر کئے ہیں جن کی نوح کو وصیت کی اور پیغمبر ان ہی کی تمہاری طرف بھی وحی کی اور جس چیز کی ہم نے ابراہیم و موسی اور عیسی کو وصیت کی تھی وہ یہی تھی کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ پیدا کرنے سے اجتناب کرو ''(۱) _

قرآن مجید کے عام خطابات اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی احکام کے استمرار سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جس زمانہ میں معصوم امام تک رسائی نہ ہو _ اس میں اسلامی حکومت کی تاسیس خود مسلمانوں کا فریضہ ہے تا کہ اس کے ذریعہ ہر شعبہ میں دینی احکام کو نافذ کریں اور اس کے تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں _

اگر ہم اس عقلی بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہرج و مرج میں حکومت کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ شارع اسلام نے بھی ہرج و مرج کو پسند نہیں کیا ہے ، اور انسان کی دنیوی و اخروی سعادت و کامیابی کے لئے خاص حکومت کا نظریہ پیش کیا ہے اور اسی لئے سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام مقررکئے ہیں ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کا وجوب اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین اور منصوبوں کاا جراء و رسول (ص) خدا کی مختصر حیات ہی میں محدود نہیں ہے _ بلکہ انھیں ہر زمانہ میں جاری رہنا چاہئے ، اگر اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر زمانہ اور ہر شعبہ میں دین کو قائم کرنا مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تشکیل میں کوشاں رہیںاورپیغمبر اسلام کی حکومت کو استمرار بخشیں تاکہ اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبے اور احکام کے پرتو

____________________

۱_ شوری/ ۱۳

۳۴۲

میں امن و امان اور سالمیت کا ماحول پیدا ہوجائے اور خدائے متعال کی عبادت و اطاعت تزکیہ نفس اور سیر الی اللہ کیلئے زمین ہموار ہوجائے _

نبوّت

حکومت کی تشکیل کی ضرورت اور اس کے استمرار میں کوشاں رہنا ایک عقلی بات ہے اسے سارے عقلا تسلیم کرتے ہیں _ اسلام نہ صرف اس عقلی بات کو رد نہیں کیا ہے بلکہ اس کی تائید کی ہے چنانچہ جب جنگ احد میں رسول خدا کے شہید ہوجانے کی جھوٹی خبر گشت کرنے لگی تو اس جھوٹی خبر سے ان اسلامی جانبازوں کے حوصلہ ماند پڑگئے جو جنگ میں مشغول تھے تو یہ آیت نازل ہوئی _

اور محمد (ص) بھی ایک رسول(ص) ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں _ اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم پچھلے پاؤن اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹ جاؤگے ؟(۱) یعنی ان کے مرجانے یا تقل ہوجانے سے تم اپنے اجتماعی نظم و ضبط سے ہاتھ دھو بیٹھوگے اور جہاد کو ترک کردوگے ؟ جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں مذکورہ آیت اسلامی و اجتماعی نظام کے استمرار و تحفظ کو عقل سلیم رکھنے والے مسلمانوں پر چھوڑاہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ مسلمان لمحہ بھر کیلئے بھی یہاں تک پیغمبر کے قتل ہوجانے یا مرجانے سے بھی جہاد اور اسلامی و اجتماعی نظام سے دست کش نہ ہوں _

سقیفہ بنی ساعد ہ میں جو انجمن تشکیل پائی تھی اس کے سبھی ارکان پیغمبر (ص) کی

____________________

۱_ آل عمران / ۱۴۴_

۳۴۳

اسلامی حکومت کے استمرار و ضرورت پر اتفاق نظر رکھتے تھے ، کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہمیں حاکم و خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے ، ہاں اس کے مصداق کی تعیین کے بارے میں اختلاف تھا _ انصار کہتے تھے_ امیر و خلیفہ ہم میں سے ہوگا _ مہاجرین کہتے تھے اس منصب کے مستحق ہم ہیں _ بعض کہتے تھے _ ہم امیر ہوں گے اور تم ہمارے وزیر ، ایک گروہ کہہ رہا تھا ایک شخص ہم مییں سے اور ایک تم میں سے امیر ہوگا _ لیکن یہ بات ایک آدمی نے بھی نہیں کہی کہ ہمیں امیر و خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے اور زمامدار کے بغیر بھی ہم اجتماعی زندگی گزارسکتے ہیں _

یہاں تک حضرت علی نے بھی کہ جنھیں رسول خدا نے خلیفہ منصوب کیا تھا جو اپنے الہی حق کو برباد ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی کے مخالف تھے ، اس سلسلہ میں بعض صحابہ بھی آپ کی حمایت کرتے تھے ، رسول (ص) کی اسلامی حکومت کے استمرار و ضرورت کی مخالفت نہیں کی اور کبھی نہ فرمایاکہ : خلیفہ کی تعیین کی ضرورت ہی کیا تھی کہ جس کیلئے انہوں نے عجلت سے کام لیا ہے ؟ بلکہ فرمایا: خلافت و امامت کا میں زیادہ مستحق ہوں ، کیونکہ اس منصب کے لئے رسول خدا نے مجھ منتخب کیا ہے اور ذاتی علم و عصمت اور لیاقت کا بھی حامل ہوں _ با وجودیکہ حضرت علی اپنے ضائع شدہ حق اور اسلامی خلافت کو اصلی محور سے منحرف سمجھتے تھے لیکن چونکہ اصل حکومت کی ضرورت کو تسلیم کرتے تھے اس لئے کبھی بھی خلفاء کو کمزور بنانے کی کوشش نہ کی بلکہ نظام اسلام کی بقاء کی خاطر ضروری موقعوں پر ان کی مدد کی اور فکر تعاون سے بھی دریغ نہ کیا _ اگر آپ(ع) کے اعزاء یا اصحاب با وفا میں سے خلفا کسی کو کسی کام پر مامور کرتے اور وہ اسے قبول کرلیتے تھے تو حضرت علی

۳۴۴

(ع) انھیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے ، آپ کی روش سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ (ص) حکومت کے وجود کو ہر حال میں ضروری سمجھتے تھے چنانچہ جب خوارج یہ کہہ رہے تھے لا حکم الا اللہ تو آپ (ص) نے فرمایا تھا: کلمة حق یراد بہا الباطل _ یعنی بات صحیح ہے مراد غلط ہے ہاں اصلی حاکم خدا ہی ہے لیکن خوارج یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت و امارت بھی خدا ہی سے مختص ہے _ جب کہ لوگوں کو حاکم و امیر کی ضرورت ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تا کہ صالح افراد کی حکومت میں مومن اعمال صالح انجام دے گا اور کافر آرام کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور اللہ اس نظام حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دے گا اسی حاکم کی وجہ سے مال جمع ہوتا ہے ، دشمن سے لڑاجاتا ہے ، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ حاکم حکومت سے الگ ہوجائے اور برے حاکم کے علیحدہ ہونے سے دوسروں کو آرام ملے _ اس بناپر اسلامی حکومت کی تشکیل اور ضرورت و استمرار میں شک نہیں کرنا چاہئے _ اور یہ حساس و سنگین ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے کہ جس زمانہ میں ان کی دست رس پیغمبر یا معصوم امام تک نہ ہو اس میں انھیں حکومت کی تشکیل و استحکام کیلئے کوشش کرنا چاہئے _ اور جس زمانہ میں امام تک رسائی نہ ہو اس میں انھیں علماء و فقہا میں سے اس فقیہ کو قیادت و امامت کے لئے منتخب کرنا چاہئے جو کہ اسلامی مسائل خصوصاً سیاسی و اجتماعی مسائل سے کما حقہ واقف ہو اور تقوی، انتظامی صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کامل ہو _ کیونکہ ایسے شخص کی رہبری و امامت کو ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی قبول کیا ہے اور اس کی وصیت کی ہے _ ایسا ہی آدمی ملت اسلامیہ کی قیادت کرسکتا ہے اور اسلام کے اجتماعی وسیاسی منصوبوں کو عملی صورت میں پیش کر سکتا ہے _

۳۴۵

اس بات کی وضات کردینا ضروری ہے کہ حکومت اسلامی اور ولایت فقیہ کا مسئلہ اتنا نازک اور طویل ہے کہ اس کیلئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے _ اس مختصر کتاب میں ہم اس کے وسیع اور متنوع پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے _ لہذایہاں اشارہ ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنی بحث کو یہی ختم کرتے ہیں _ اس مقدمہ کو بیان کرنے کا مقصد جو کہ کچھ طولانی ہوگیا ، یہ ہے کہ جو احادیث امام مہدی کے انقلاب و تحریک سے قبل رونما ہونے والے انقلاب کی مخالف ہیں ، ان کی تحقیق کریں اور اس نکتہ پر توجہ رکھیں کہ جہاد ، دفاع ، حدود ، قصاص ، تعزیرات ، قضاوت ، شہادت ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ ، محروم و مستضعفین سے دفاع اور دوسرے اجتماعی و سیاسی مسائل ہیں جو اسلام کے ضروری اور اہم مسائل ہیں انکی تردید نہیں کی جا سکتی ، بلکہ ان پر عمل کرنا اور کرانا ضروری ہے اور اس کام کیلئے اسلامی حکومت کی ضرورت ہے اور اسلامی حکومت کی تشکیل اور دین کے احکام و قوانین کے اجراء کیلئے بھی جہاد و انقلاب کی ضرورت ہے _ اس بناپر انقلاب کی مخالف احادیث کی تجزیہ و تحقیق کرنا چاہئے کسی مناسب موقع پر اس موضوع پر تفصیلی بحث کریں گے تا کہ بہتر نتیجہ حاصل ہوسکے چونکہ جلسہ کا وقت ختم ہوچکا ہے لہذا اس زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے _

ڈاکٹر : احباب سے گزارش ہے کہ آئندہ ہفتہ جلسہ ہمارے گھر منعقد ہوگا _

۳۴۶

احادیث کی تحقیق و تجزیہ

ڈاکٹر : ہوشیار صاحب گزشتہ بحث ہی کو آگے بڑھایئے

ہوشیار: گزشتہ جلسہ میں ، میں نے مقدمہ کے عنوان سے ایک بحث شروع کی تھی اور چونکہ وہ کچھ طویل اور تھکا دینے والی تھی اس لئے معذرت خواہ ہوں اب ہم قیام و تحریک کی مخالف احادیث کی تحقیق کی بحث شروع کرتے ہیں _ سابقہ جلسہ میں ، ہم نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کی تھی کہ سیاسی و اجتماعی احکام اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں کہ جس کا تعلق دین کے متن سے ہے _ راہ خدا میں جہاد اسلام اور مسلمانوں سے دفاع ، ظلم و تعدی سے مبارزہ ، محروم و مستضعفین سے دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور کلی طور پر اقامہ دین مسلمانوں کے قطعی اور ضروری فرائض میں سے ہے لیکن ممکن ہے بعض اشخاص چند احادیث کو ثبوت میں پیش کرکے اس عظیم فریضہ سے سبک دوش ہونا چاہیں اور و ئوء بعض مذہبی مراسم کو انجام دے کر خوش ہولیں _ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم احادیث کی مکمل طور پر تحقیق و تجزیہ کرائیں _ مذکورہ احادیث کو کلی طور پر چند حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے _(۱)

____________________

۱_ ان احادیث کو وسائل الشیعہ ج ۱ ص ۳۵ تا ۴۱ اور بحار الانوار ج ۵۲ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے _

۳۴۷

جن روایات میں شیعوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم ہر اس قیام کرنے والے کی دعوت کو جو تمہیں مسلح ہو کر خروج کی دعوت دیتا ہے ، آنکھیں بند کرکے قبول نہ کرو بلکہ اس کی شخصیت اور اس کے مقصد کو پہنچا نو اور اس کی تحقیق کرو _ اگر اس میں قیادت کی شرائط مفقود ہوں یا باطل مقصد کیلئے اس نے قیام کیا ہو تو اس کی دعوت کو قبول نہ کرو اگر چہ وہ خاندان رسول ہی سے کیوں نہ ہو _ جیسے یہ حدیث ہے :

'' عیسی بن قاسم کہتے ہیں میں نے امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرما رہا تھے: تقوی اختیار کرو اور ہمیشہ اپنے نفسوں کی حفاظت کرو _ خدا کی قسم اگر کوئی شخص اپنی گوسفند چرانے کیلئے کسی چروا ہے کو منتخب کرتا ہے اور بعد میں اسے پہلے چروا ہے سے بہتر اور عاقل چرواہا مل جاتا ہے تو وہ پہلے کو معزول کردیتا ہے اور دوسرے سے کام لیتا ہے _ خدا کی قسم تمہارے پاس دو نفس ہوتے کہ پہلے سے تحقق تجربہ حاصل کرتے دوسرا تمہارے پاس باقی رہتا جو پہلے کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا تو کوئی حرج نہ تھا _ لیکن ایسا نہیں ہے ہر انسان کے پاس ایک ہی نفس ہے اگر وہ ہلاک ہوجائے تو پھر توبہ اور بازگشت کا امکان نہیں ہے _ اس بناپر تمہارے لئے ضروری ہے کہ اچھی طرح غور و فکر کرو اور بہترین راستہ اختیار کرو پس اگر رسو ل کے خاندان سے شخص تمہیں قیام و خروج کی دعوت دیتا ہے تو تم اس کی تحقیق کرو کہ اس نے کس چیز کیلئے قیام کیا ہے اور یہ نہ کہو کہ اس سے قبل زید بن علی نے بھی تو قیام کیا تھا کیونکہ زید دانشور اور سچے انسان تھے اور تمہیں اپنی امامت کی طرف نہیں بلا رہے تھے بلکہ اس انسان کی طرف دعوت دے رہے تھے جس سے اہل بیت (ع) خوش تھے _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوئے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے اور حکومت

۳۴۸

کو اس کہ اہل کے سپرد کردیتے _زید نے حکومت کے خلاف قیام کیا تا کہ اسے سرنگوں کرے _ لیکن جس ثخص نے اس زمانہ میں قیام کیا ہے وہ تمہیں کس چیز کی طرف بلا رہا ہے؟ کیا تمہیں اس آدمی کی طرف دعوت دیتا ہے جس پر اہل بیت کا اتفاق ہے ؟ نہیں ، ایسا نہیں ہے ، ہم تمہیں گواہ قرار دے کرکہتے ہیں کہ ہم اس قیام سے راضی نہیں ہیں _ اس کے ہاتھ میں ابھی حکومت نہیں آئی ہے اس کے باوجود وہ ہماری مخالفت کرتا ہے تو جب اس کے ہاتھ میں حکومت آجائے گی اور پرچم لہرادے گا تو اس وقت تو بدرجہ اولی وہ ہماری اطاعت نہیں کرے گا _ تم صرف اس شخص کی دعوت قبول کرو کہ جس کی قیادت پر سارے بنو فاطمہ کا اتفاق ہے وہی تمہارا امام و قائد ہے ، ماہ رجب میں تم خدا کی نصرت کی طرف بڑھو اور بہتر سمجھو تو شعبان تک تاخیر کرو اور اگر پسند ہو تو ماہ رمضان کا روزہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رکھو شاید یہ تمہارے لئے بہتر ہو _ اگر علامت چاہتے ہو تو سفیانی کا خروج تمہارے لئے کافی ہے _(۱)

اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں _

حدیث کا مفہوم

اس حدیث میں امام صادق (ع) یہ فرماتے ہیں : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہوانھیں عبث ہلاکت میں نہ ڈالو تم ہر قیام کرنے والے اور مدد طلب کرنے والے

____________________

۱_ وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۵ ، بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۰۱_

۳۴۹

کی آواز پر لبیک نہ کہو _ اگر دعوت دینے والا اپنی امامت و قیادت کا دعویدار ہے جبکہ امت کے درمیان اس سے زیادہ با علم و با صلاحیت شخص موجود ہے ، تو اس کی دعوت کو قبول نہ کرو _ جیسا ائمہ معصومین علیہم السلام کی حیات میں ایسا ہی ہوتا تھا _ خود قیام کرنے والے کی شخصیت اور اس کے مقصد کی تحقیق کرو _ اگر وہ لائق اعتماد نہ ہو یا اس کا مقصد صحیح نہ ہو تو اس کی دعوت قبول نہ کرو اور اس شخص _ بظاہر محمد بن عبد اللہ بن حسن _ کے قیام کا زید بن علی کے قیام سے موازنہ نہ کرو و اور یہ نہ کہو چونکہ زید نے قیام کیا تھا لہذا اس کا قیام بھی جائز ہے _ کیونکہ زید امامت کے دعویدار نہیں تھے اور نہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہے تھے _ بلکہ ان کا مقصد باطل حکومت کو سرنگوں کرکے اس کے اہل تک پہنچانا تھا یعنی جس شخص کے سلسلے میں آل محمد کا اتفاق ہے ، اس تک پہنچانا مقصد تھا _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورکرتے _ زید عالم اور سچے آدم تھے ، قیادت و قیام کی صلاحیت کے حامل تھے _ لیکن جس شخص نے آج قیام کیا ہے وہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے اور ابھی سے ہماری مخالفت کررہا ہے جبکہ حکومت اس کے ہاتھ میں نہیں آئی ہے اگر وہ اس انقلاب میں کامیاب ہوگیا تو بدرجہ اولی ہماری اطاعت نہیں کرے گا _ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں اس شخص نے قیام کیا جو اپنے کو منصب امامت کے لائق سمجھتا تھا اور اس منصب کو حاصل کرنے کیلئے لوگوں سے مددمانگتا تھا _ بظاہر یہ محمد بن عبداللہ بن حسن تھے کہ جنہوں نے مہدی موعود کے نام سے قیام کیا تھا _ ابوالفرج اصفہانی لکھتے ہیں کہ ، محمد کے اہل بیت انھیں مہدی کہتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی ہیں _(۱)

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ۱۵۷_

۳۵۰

اصفہانی ہی لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ کے مہدی موعود ہونے میں کسی کو شک نہیں تھا لوگوں میں یہ بات شہرت پاچکی تھی ، اسی لئے بنی ہاشم آل ابوطالب اور آل عباس میں سے بعض لوگوں نے ان کی بیعت کرلی تھی _(۱)

اصفہانی ہی لکھتے ہیں : محمد لوگوں سے کہتے تھے : تم مجھے مہدی موعود سمجھتے ہو اور حقیقت بھی یہی ہے _(۲)

محمد بن عبداللہ بن حسن نے امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں مہدی موعود کے عنوان سے قیام کیا تھا اور لوگوں کو اپنی طرف آنے کی دعوت دیتے تھے _ صرف اس موقع پر امام صادق (ع) نے عیسی بن قاسم اور تمام شیعوں سے فرمایا تھا کہ : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہو عبث ہلاکت میں نہ ڈالو اور اس شخص کے قیام کا زید کے قیام سے موازنہ نہ کرو _ کیونکہ زید امامت کے مدعی نہیں تھے بلکہ لوگوں کو اس شخص کی طرف بلا رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _

گزشتہ بیان سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ امام جعفر صادق (ع) نے بطور مطلق قیام سے منع نہیں فرمایا ہے بلکہ قیام کو دو حصوں تقسیم کیا ہے _ ایک باطل انقلابات و قیام ہے جیسے محمد بن عبداللہ بن حسن کا قیام ہے _ چنانچہ مسلمانوں کوایسے لوگوں کی دعوت قبول نہیں کرنا چاہئے اور اپنے نفوس کو ہلاکت سے بچانا چاہئے _ دوسرے صحیح انقلابا ت و قیام ہے جو موازین عقل و شرع کے مطابق ہوتے ہیں جیسے زید بن علی

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ۱۵۸

۲_ مقاتل الطالبین / ۱۶۳

۳۵۱

بن حسین (ع) کا قیام کہان کا مقصد بھی صحیح تھا اور ان میں قیادت کی شرائط بھی موجود تھیں _ امام صادق (ع) نے نہ صرف ایسے قیام کی نفی نہیں کی ہے بظاہر ان کی تائید کی ہے _ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو قیام زید کے قیام کے مانند ہو ائمہ معصومین اس کی تائید فرماتے ہیں _ زید کی شخصیت ، ان کے مقاصد اور ان کے قیام کے محرکات کے بیان و تحقیق کیلئے طویل بحث درکار ہے ، جس کی اس مختصر میں گنجائشے نہیں لیکن ایک سرسری جائزہ پیش کرتے ہیں _

۱_ انقلاب کے قائد یعنی زید عالم و متقی ، صادق اور قیادت کی صلاحیت کے حامل تھے ان سے متعلق امام صادق فرماتے ہیں : میرے چچا زید ہماری دنیا و آخرت کیلئے مفید تھے _ خدا کی قسم وہ راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں _ آپ کی مثال ان شہداء کی سی ہے جو رسول (ص) علی (ع) ، حسن اور امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہوئے تھے _(۱)

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے : کوفہ میںایک عظمت و جلال والا انسان قیام کرے گا جس کا نام زید ہوگا _ اولین و آخرین میں اس کی مثال نہیں ہے _ مگر یہ کہ کوئی اس کی سیرت و رفتار پر عمل پیرا ہوجائے _ زید اور ان کے اصحاب قیامت میں ایک صحیفہ کے ساتھ ظاہر ہوں گے _ فرشتے ان کے استقبال کو بڑھیں گے اور کہیں گے یہ بہترین باقی رہنے والے اور حق کی طرف دعوت دینے والے ہیں _ رسول خدا بھی ان کا استقبال کریں گے اور فرمائیں گے بیٹا تم نے اپنا فرض پورا کیا اور اب بغیر حساب کے جنت میں داخل _ ہوجاؤ(۲)

____________________

۱_ عیون الاخبار باب ۲۵_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۸۸_

۳۵۲

رسول خدا نے امام حسین (ع) سے فرمایا : تمہاری نسل سے ایک فرزند ہوگا کہ جس کا نام زید ہوگا وہ اور ان کے اصحاب قیامت میں حسین و سفید چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے اور جنّت میں داخل ہوں گے _(۱)

۲_ انقلاب میں زید کا مقصد صحیح تھا _ وہ امامت کے مدعی نہیں تھے بلکہ وہ طاغوت کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے اور اسے اس کے حق دار

کے سپرد کرنا چاہتے تھے یعنی اسے معصوم امام کے سپردکرنا چاہتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اور اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو اپنا وعدہ ضرور پورا کرتے ، امام صادق (ع) نے فرمایا ہے ، خدا میرے چچا زید پر رحم کرے اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے _ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دے رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے ، وہ میں ہوں _(۲)

یحی بن زید کہتے ہیں : خدا میرے والد پر رحم کرے _ خدا کی قسم وہ بہت بڑے عابد تھے ، وہ راتوں کو عبادت میں اور دنوں کو روزہ کی حالت میں گزارتے تھے _ انہوں نے راہ خدا میں جہاد کیا ہے _ راوی کہتا ہے : میں نے یحیی سے پوچھا : فرزند رسول (ص) امام کو ایسا ہی ہونا چاہئے؟ یحیی نے کہا : میرے والد امام نہیں تھے _ بلکہ وہ بعظمت سادات اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں میں سے ایک تھے _ راوی نے کہا : فرزند رسول (ص) آپ کے والد بزرگوار امامت کے مدعی تھے اور راہ خدا میں جہاد کے لئے انہوں نے قیام کیا تھا با وجودیکہ رسول (ص) سے امامت کے جھوٹے دعویدار ہونے کے بارے میں

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ص ۸۸

۲_ بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۹۹

۳۵۳

حدیث وارد ہوئی ہے _ یحیی نے جواب دیا : خدا کے بند ے ایسی بات نہ کہو ۰ بات میرے والد اس سے بلند تھے کہ وہ اس چیز کا دعوی کریں جوان کا حق نہیں ہے _ بلکہ میر ے والد لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کی طرف دعوت دیتا ہوں _ کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے اور ان کی مراد میرے چچا جعفر (ع) تھے _ راوی نے کہا پس جعفر بن محمد (ع) امام ہیں ؟

یحیی نے جی ہاں وہ بنی ہاشم کے فقیہ ترین فرد ہیں _(۱)

جناب زید بھی امام جعفر صادق (ع) کے علم و تقوے کے معترف تھے _ ایک جگہ قرماتے ہیں : جو جہاد کرنا چاہتا ہے وہ میرے ساتھ آجائے اور جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے میرے بھتیجے جعفر کی خدمت میں جانا چا ہئے _(۲)

زید کے اصحاب و سپاہی بھی حضرت صادق کی امامت و افضلت کے معترف تھے _ عمار سا با طی کہتے ہیں ; ایک شخص نے سلیمان بن خالد ، کہ جس نے زید کی فوج کے ہمراہ خروج کیا تھا _ سے پو چھا : زید کے بارے میں تمہار ا کیا عقیدہ ہے ؟ زید افضل ہیں یا جعفر بن محمد ؟ سلیمان نے جواب دیا ، خدا کی قسم جعفر بن محمد کی ایک دن کی زندگی زید کی تمام عمر سے زیادہ قیمتی ہے ، اس وقت اس نے سر کو جھٹکا اور زید کے پاس سے اٹھ گیا اور یہ واقعہ ان سے نقل کیا _ عمار کہتے ہیں : میں بھی زید کے پاس گیا اور را نحصیں یہ کہتے ہوئے سنا جعفر بن محمد ہما ر ے حلال و حرام مسائل کے امام ہیں _(۳)

____________________

۱ _ بحارالانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۹

۲_ بحارالانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۹

۳ _ بحار الانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۶

۳۵۴

زید کا انقلاب ایک جذ باتی اتفاقی اور منصو بہ سازی کے بغیر نہیں بر پا ہوا تھا بلکہ ہر طریقہ سے سو چا سمجھا تھا _ ان کے انقلاب کا محر ک امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور طا غوت کی حکومت سے مبارزہ تھا _ ان کا ارادہ تھا کہ مسلحانہ جنگ کے ذریعہ غاصبوں کی حکومت کو سرنگوں کردیں اور حکومت اس کے اہل ، یعنی اس شخص کے سپرد کردیں جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ اسی لئے بہت سے لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور جہاد کیلئے تیار ہوگئے ۰ ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں

: کوفہ سے پندرہ ہزار لوگوں نے زید کی بیعت کی تھی _ اس کے علاوہ مدائن ، بصرہ ، واسطہ ، موصل ، خراسان اور گرگان کے اہالی نے دعوت قبول کی تھی _(۱)

زید کا قیام اتنا ہی مستحسن اور ضروری تھا کہ بہت سے اہل سنّت کے فقہا نے بھی انکی دعوت کو قبول کیا اور آپ کی مدد کی _ یہاں تک کہ اہل سنت کے سب سے بڑ ے امام ابوحنیفہ نے بھی زید کی تائید کی _ فضل ابن زبیر کہتے ہیں : ابو حنیفہ نے مجھ سے کہا : زید کی آواز پر کتنے لوگوں نے لبیک کہا ہے ؟ سلیمہ بن کہیل ، یزید بن ابی زیاد، ہارون بن سعد ، ہاشم بن برید ، ابو ہاشم سریانی ، حجاج بن دینار اور چند دو سرے لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی ہے ابوحنیفہ نے مجھے کچھ پیسہ دیا اور کہا یہ پیسہ زیدکو دیدینا اور کہنا کہ اس پیسہ کا اسلحہ خرید یں اور مجاہد ین کے او پر خرچ کریں _ میں نے پیسہ لیا اور زید کی تحویل میں دیدیا _(۲)

____________________

۱ _ مقاتل الطالبین ص ۹۱

۲ _ مقاتل الطالبین ص ۹۹

۳۵۵

دلچسپ بات یہ ہے کہ زید نے اپنے انقلاب کے موضوع کو پہلے ہی امام صادق سے بیان کیا تھا اور امام نے فرمایا تھا : چچاجان اگر اس بات کوپسند کرتے ہیں کہ قتل کئے جائیں اور کوفہ کے کنا سہ میں آپ کے بدن کو دار پر چڑ ھا یا جا ئے تو اس راہ کو اختیار کریں ۱ _ با د جو دیکہ زید نے امام سے یہ خبر سن لی تھی لیکن آپ کو اپنے فریضہ کی انجام دہی کا اتنا زیادہ احساس تھا کہ شہادت کی خبر بھی انھیں اس عظیم اقدام سے بازنہ ر کھ سکی _ راہ خدا میں جہاد کیا اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے _

ان کے بارے میں امام رضا فرما تے ہیں : زید علما ئے آل محمد میں سے ایک تھے _ وہ خدا کے لئے غضبناک ہوئے اور دشمنان خدا سے جنگ کی یہاں تک کہ شہادت پائی _(۲)

امام جعفر صادق (ع) فرما تے ہیں :

خدا میرے چچا زید پر رحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دتیے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اگر کا میاب ہو جا تے تو ضرور اپناہ وعدہ وفا کرتے _(۳)

اب ہم اصل بحث کی طرف پلٹتے ہیں جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ عیسی بن قاسم کی روایت کو اسلامی تحریک اور انقلابات کی مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ اسے صحیح اسلامی تحریکوں مؤید قرار دیا جا سکتا ہے _ یہاں تک اس حدیث کے

____________________

۱_بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۲_ بحار الانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۳_ بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۳۵۶

ذریعہ دوسری ان احادیث کی توجیہ کی جاسکتی ہے جو ایسے انقلاب سے منع کرتی ہیں جنکے قائدہ ضروری شرائط مفقود ہوں یا اسباب ومقدمات کی فراہمی سے قبل انقلاب کا آغاز کرتے ہیں یا غلط مقصد کیلئے قیام کرتے ہیں لیکن صحیح اسلامی اور زید بن علی کے قیام کی مانند قیام سے نہ صرف منع نہیں کرتی ہے بلکہ ائمہ معصومیں نے اس کی تائید کی ہے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وسائل کے اسی بات کی گیار ہویں حدیث کو بھی انقلاب کی مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا _ وہ حدیث یہ ہے :

احمد بن یحیی المکتب عن محمد بن یحیی الصولی عن محمد بن زید انحوی عن ابن ابی عبدون عن ابیه عن الرضا علیه السلام (فی حدیث) انه قال للمامون : لا تقس اخی زیدا الی زید بن علی فانه کان من علماء آل محمد صلی الله علیه و آله _ غضب لله فجاهد اعدائیه حتی قتل فی سبیله و لقد حدثنی ابو موسی بن جعفر انه سمع اباه جعفر بن محمد یقول : رحم الله عمی زیدا انه دعا الی ال ضا من آل محمد و لو ظفر لو فی بماد عا الیه _ لقد استشار نی فی خروجه فقلت ان رضیت ان تکون المقتول المطوب بالکنا سه فشانک (الی ان قال) فقال الر ضا علیه السلام ان زید بن علی لم یدع ما لیس له بحق و انه کان تقی لله من ذالک _ انه قال : ادعوکم الی الر ضا من آل محمد _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

۳۵۷

امام رضا (ع) نے مامون سے فرمایا : میرے بھائی زید کا زید بن علی سے موازنہ نہ کرو _ زید بن علی علمائے آل محمد میں سے تھے _ وہ خدا کیلئے غضبناک ہوئے اور خدا کے دشمنوں سے لڑے یہاں تک راہ خدا میں شہادت پائی _ میرے والد موسی بن جعفر (ع) نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے سنا کہ انہوں نے فرمایا : خدا میرے چچا زید پررحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دیتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا _ اگر کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ وفا کرتے _ نیز فرماتے تھے : زید نے اپنے انقلاب کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا تھا میں نے اس سے کہا تھا : اگر قتل ہونے اور اپنے بدن کو کناسہ کوفہ میں دار پر چڑھائے جانے پر راضی ہیں تو اقدام کریں _ اس کے بعد امام رضا (ع) نے فرمایا: زید بن علی اس چیز کے مدعی نہ تھے جوان کا حق نہ تھا _ وہ اس سے کہیں بلند تھے کہ ناحق کسی چیز کا دعوی کریں بلکہ آپ لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ ''

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے رجال کی کتابوں میں اس کے راویوں کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اس لحاظسے اس کے مفہوم کو بھی قیام کے مخالف احادیث میں شما رنہیں کیا جا سکتا _ کیونکہ اس میں زید بن علی جیسے قیام کی تائید کی گئی لیکن زید بن موسی پر تنقید کی گئی ہے _ زید بن موسی نے بصرہ میں خروج کیا تھا اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتا اور لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دیتا تھا ، لوگوں کا مال زبردستی لوٹ لیتا تھا ، آخر کار اس کی فوج نے شکست کھائی خود بھی گرفتار ہوا ، مامون نے اسے معاف کردیا

۳۵۸

اور امام رضا (ع) کی خدمت میں بھیجدیا _ امام نے اسے آزاد کرنے کا حکم دیدیا لیکن یہ قسم کھائی کہ کبھی اس سے کلام نہیں کروں گا _(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: اس حدیث میں زید بن موسی کے قیام و انقلاب پر تنقید کی گئی ہے لیکن ہر قیام و تحریک سے ممانعت نہیں کی گئی ہے بلکہ زید بن علی جیسے قیام کی تائید کی گئی ہے _

دوسرا حصّہ

جن احادیث کی اس بات پردلالت ہے کہ جو انقلاب و قیام بھی امام مہدی کے انقلاب سے قبل رونما ہوجائے ، اسے کچل دیا جائے گا _

حدیث اول :

علی بن ابراهیم عن ابیه عن حماد بن عیسی عن ربعی رفعه عن علی بن الحسین علیه السلام قال: والله لا یخرج احد منّا قبل الخروج القائم ا لا کان مثله کمل فرخ طار من وکره قبل ان یستوی جناحاه فاخذه الصبیان فعبثوبه _(۲)

(مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام زین العابدین نے فرمایا: خدا کی قسم انقلاب مہدی سے قبل ہم میں سے جوبھی قیام کرے گا وہ اس پرندہ کی مانند ہے جو بال و پر نکلے سے پہلے

____________________

۱_ بحارالانوار ج۴۸ص۳۱۵

۳۵۹

ہی آشیانہ سے نکل پڑتا ہے جسے بچے پکڑلیتے ہیں اور کھلونا بنا لیتے ہیں'' _

مذکورہ حدیث کو اہل حدیث کی اصطلاح میں مرفوع کہتے ہیں _ اس میں چند راویوں کو حذف کردیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھے_ بہر حال یہ قابل قبول نہیں ہے _

حدیث دوم:

جابر عن ابی جعفر محمد بن علی علیه السلام قال: مثل خروج القائم منّا کخروج رسول الله صلی الله علیه و آل و مثل من خرج منّا اهل البیت قبل قیام القائم مثل فرخ طار من وکره فتلاعب به الصبیان _

(مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۳۴۸)

امام محمد باقر نے فرمایا: انقلاب مہدی ، رسول (ص) کے قیام کی مانند ہوگا اور ہم اہل بیت میں انقلاب مہدی سے قبل خروج کرنے والوں کی مثال پرندے کے اس بچہ کی سی ہے جو آشیانہ سے نکل کر بچوں کا کھلونہ بن جاتا ہے ''

حدیث سوم:

ابوالجارود قال سمعت ابا جعفر علیه السلام یقول : لیس منّا اهل البیت احدید فع ضبما ولا یدعوا ا لی حق الاّصرعته البلیة حتی تقوم عصابة شهدت بدراً ، لا یواری قتیلها و لا یداوی جریحها ، قلت ، من عنی ابوجعفر علیه السلام؟قال : الملائکة

(مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا : ہم اہل بیت میں سے جو بھی ظلم کو مٹائے اور احقاق حق

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455