آفتاب عدالت

آفتاب عدالت17%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181561 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

احادیث مہدی (عج) اہلسنّت کی کتابوں میں

فہیمی: ہوشیار صاحب احباب جانتے ہیں لیکن آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا تعلق اہل سنّت سے ہے اور شیعوں کی احادیث کے بارے میں آپ کی طرح حسن ظن نہیں رکھتا ہوں میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جب کچھ اسباب کی بناپر شیعہ مہدویت کی داستان کے معتقد ہوگئے تھے اس وقت انہوں نے اپنے عقیدہ کے اثبات کے لئے کچھ حدیثیں گڑھی تھیں اور انھیں پیغمبر (ص) کی طرف منسوب کردیا تھا اور اس احتمال کا ثبوت یہ ہے کہ مہدی سے متعلق حدیثیں صرف شیعوں کی کتابوں میں مرقوم ہیں _ ہماری صحاح میں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ہے _ ہاں ہماری غیر معتبر کتابوں میں مہدی سے متعلق چند حدیثیں مرقوم ہیں _(۱) ہوشیار: اگر چہ بنی امیہ و بنی عباس کے زمانہء حکومت میں عام طور پر ایک مارشل لانافذ تھا، حکومت کی طاقت و سیاست اور مذہبی تعصب کی نباپر اہل بیت کی امامت و ولایت سے متعلق احادیث نہ بیان ہوسکتی تھیں اور نہ کتابوں میں درج ہوسکتی تھیں _ لیکن اس کے باوجود آپ کی احادیث کی کتابوں میں مہدی سے متعلق حدیثیں درج ہیں _ اگر تھکے نہ ہوں تو ان میں سے چند حدیثیں آپ کے سامنے پیش کروں ؟

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام تالیف سعد محمدحسن ، ط مصر سال ۱۳۷۳ ص ۶۹ _ مقدمہ ابن خلدون ط مصر مط محمد ص ۳۱۱_

۲۱

اینجنئر : ہوشیار صاحب آپ سلسلہ جاری رکھیں _

ہوشیار: فہیمی صاحب آپ کی صحاح میں مہدی کے نام سے ایک باب منعقد ہواہے اور اس میں پیغمبر(ص) کی حدیثیں نقل ہوئی ہیں ، بطور مثال:

عبداللہ نے پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: '' دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک عرب کا مالک میرے اہل بیت میں سے وہ شخص نہ ہوگا جس کا نام میرا نام ہے ''(۱)

اس حدیث کو ترمذی اپنی صحیح میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:'' یہ حدیث صحیح ہے اور مہدی کے بارے میں ابو سعید، ام سلمہ اور ابوہریرہ نے بھی روایت کی ہے_''

علی (ع) بن ابی طالب نے روایت کی ہے کہ رسول (ص) نے فرمایا: '' اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی رہے گا تو بھی خداوند عالم اہل بیت میں سے اس شخص کو بھیجے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ''_(۲)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول (ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میری عترت اور فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہوگا ''(۳)

____________________

۱_ صحیح ترمذی ج ۴ باب ماجاء فی المہدی ص ۵۱۵ _ کتاب ینابیع المودة تالیف شیخ سلیمان ط سال ۱۳۰۸ ج۲ ص ۱۸۰_کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف محمد بن یوسف شافعی ط نجف ص ۵۷_ کتاب نور الابصار ص ۱۷۱ _ مشکوة المصابیح ص ۲۷۰_

۲_ صحیح ابی داود ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷ _ البیان ص ۵۹_ کتاب نور الابصار تالیف شبلنجی ص ۱۵۶ _ الصواعق المحرقہ تالیف ابن حجر ط قاہرہ ص ۱۶۱ _ کتاب فصول المہمہ تالیف ابن صباغ ط نجف ص ۲۷۵ _ کتاب اسعاف الراغبین تالیف محمد الصبان _

۳_ صحیح ابی داؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷_ ابوداؤد در این باب ۱۱ حدیث نقل کردہ است _ صحیح ابن ماجہ باب خروج المہدی ج ۲ ص ۵۱۹_الصواعق ص ۱۶۱_ البیان ص ۶۴ _ مشکوة المصابیح تالیف محمد بن عبداللہ خطیب ط دہلی ص ۲۷۰_

۲۲

ابو سعید کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: '' ہمارا کشادہ پیشانی اور اونچی ناک والا مہدی زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی اور سات سال حکومت کرے گا _'' (۱)

حضرت علی (ع) بن ابی طالب نے رسول (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میرے اہل بیت سے ہے ، خداوند عالم ان کے انقلاب کے اسباب ایک رات میں فراہم کردے گا '' _(۲)

ابوسعید نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: ''جب زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی اس وقت میرے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور کرے گا اور ۷ یا ۹ سال حکومت کرے گا اور زمین کو عد ل و انصاف سے پر کرے گا ''_(۳)

ابوسعید نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:'' آخری زمانہ میں میری امت کے سرپر بادشاہ بلائیں اور مصیبتیں لائے گا _ ایسی بلائیں اور ظلم کو جو کبھی سنانہ گیا ہوگا _ میری امت پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوجائے گی اور ظلم وجور سے بھر جائے گی _ مسلمانوں کا کوئی فریاد رس و پناہ دینے والا نہ ہوگا _ اس وقت خداوند عالم میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی _ زمین و آسمان کے مکین اس سے راضی ہوں گے _ اس کے لئے زمین اپنے خزانے اگل دے گی اور آسمان پے درپے بارش برسائے گا _ ۷ یا ۹ سال لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرے گا _ اور زمین والوں پر جو خدا کی رحمتیں اور لطف ہوگا اس کے

____________________

۱_ صحیح ابی داوؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۸ _ فصول المہمہ ص ۲۷۵_ نور الابصار ط مصرص ۱۷۰ _ ینابیع المودة ج ، ص ۱۶۱

۲_ صحیح ابن ماجہ ج ۲ باب خروج المہدی ص ۵۱۹ _ اس باب میں ۷ حدیثیں ذکر ہوئی ہیں _ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱

۳_ مسند احمد ج ۳ ص ۲۸ باب مسند ات ابی سعید الخدری میں مہدی کے بارے ایک حدیث ذکر ہوئی ہے _ ینابع المودة ج ۲ ص ۲۲۷

۲۳

پیش نظر مرد ے زندگی کی آرزو کریں گے(۱)

ایسی ہی اور احادیث بھی کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن اثبات مدعا کیلئے اتنی ہی کافی ہیں _

ایک صاحب قلم کا اعتراض

فھیمی : المہدیہ فی الاسلام کے مؤلف نے تحریر کیا ہے : محمد بن اسماعیل بخاری اور مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی صحاح میںمہدی سے متعلق احادیث درج نہیں کی ہیں جبکہ صحاح میں معتبر ترین ، نہایت احتیاط و تحقیق کے ساتھ ان میں احادیث جمع کی گئی ہیں ، ہاں سنن ابی داؤد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ایسی احادیث جن کے منقولات میں زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیا گیا ہے _ چنانچہ منجملہ دوسرے علما کے ابن خلدون نے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۲_

ابن خلدون اور احادیث مہدی (عج)

ہوشیار: موضوع کی وضاحت کے لئے بہتر ہے کہ میں آپ کے سامنے ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ پیش کروں _ ابن خلدون اپنے مقدمہ لکھتے ہیں:سارے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانے میں پیغمبر اسلام کے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور

____________________

۱_ من خیرہ البیان ص ۷۲_ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱ _ ینابیع ج ۲ ص ۱۷۷_

۲_ کتاب المہدیہ فی الاسلام ص ۶۹_

۲۴

کرے گا ، دین کی حمایت کرے گا اور عدل و انصاف کو فروغ دیگا اور سارے اسلامی ممالک اس کے تسلّط آجائیں گے _ ان (مسلمانوں) کا مدرک وہ احادیث ہیں جو کہ علماء کی ایک جماعت ، جیسے ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، حاکم ، طبرانی اور ابویعلی موصلی کی کتابوں میں موجود ہیں _ لیکن مہدی (عج) کے منکروں نے ان احادیث کے صحیح ہونے میں شک کا اظہار کیا ہے پس ہمیں مہدی سے متعلق احادیث اور ان سے متعلق منکرین کے اعتراضات و طعن کو بیان کرنا چاہئے تا کہ حقیقت روشن ہوجائے_ لیکن اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ، اگر ان احادیث کے راویوں کے بارے میں کوئی جرح و قدح ہو تو اصل حدیث ہی غیر معتبر ہوجاتی لیکن ان کے راویوں کے بارے میں عدالت و وثاقت بھی وارد ہوئی ہے تو مشہور ہے کہ ان کا ضعیف ہونا اور ان کی بدگوئی عدالت پر مقدم ہے _ اگر کوئی شخص ہمارے اوپر یہ اعتراض کر ے کہ یہی عیب بعض ان لوگوں کے بارے میں بھی سامنے آتا ہے جن سے بخاری و مسلم میں روایات لی گئی ہیں وہ طعن و تضعیف سے سالم نہ رہ سکیں تو ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ ان دو کتابوں کی احادیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں علماء کا اجماع ہے اور یہ مقبولیت ان کے ضعف کاجبران کرتی ہے لیکن دوسری کتابیں ان کے پایہ کی نہیں ہیں '' (۱)

یہ تھا ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ ، اس کے بعد انہوں نے احادیث کے راویوں کی توثیق و تضعیف سے بحث کی ہے _

تواتر احادیث

ہمارا جواب : اول تو اہل سنّت کے بہت سے علما نے ، مہدی (عج) سے متعلق احادیث کو

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۱_

۲۵

متواتر جانا ہے _ یا ان کے تواتر کو دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان پر اعتراض نہیں کیا ہے ، مثلاً : ابن حجر ہیثمی نے '' صواعق محرقہ میں'' شبلنجی نے '' نور الابصار '' میں ، ابن صباغ مالکی نے ''فصول المہمہ'' میں، محمد الصبان نے '' اسعاف الراغبین'' میں ،کجی شافعی نے '' البیان'' میں ، شیخ منصور علی نے '' غایة المامول'' میں ، سویدی نے '' سبائک الذہب'' میں ا ور دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو متواتر قرار دیا ہے اور یہی تواتر ان کی سند کے ضعف کا جبران کرتا ہے _

عسقلانی لکھتے ہیں:'' خبر متواتر سے یقین حاصل ہوجاتا ہے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی ہے '' _(۱)

شافعی فرقہ کے مفتی سید احمد شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ : جو احادیث مہدی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ معتبر ہیں ، ان میں سے بعض احادیث صحیح ، بعض حسن اور کچھ ضعیف ہیں ،اگر چہ ان میں اکثر ضعیف ہیں لیکن چونکہ بہت زیادہ ہیں اور ان کے راوی اور لکھنے والے بھی زیادہ ہیں اس لئے بعض احادیث بعض کی تقویت کرتی ہیں اور انھیں مفید یقین بنادیتی ہیں _(۲)

مختصر یہ کہ عظیم صحابہ کی ایک جماعت ، عبدالرحمن بن عوف، ابو سعید خدری ، قیس بن صابر ، ابن عباس ، جابر ، ابن مسعود ، علی بن ابی طالب ، ابوہریرہ ، ثوبان ، سلمان فارسی ، ابوامامہ ، حذیفہ ، انس بن مالک اور ام سلمہ اور دوسرے گروہ نے بھی مہد ی سے

____________________

۱_ نزہتہ النظر مؤلفہ احمد بن حجر عسقلانی طبع کراچی ص ۱۲_

۲_ فتوحات الاسلامیہ طبع مکہ ج ۲ ص ۲۵۰_

۲۶

متعلق احادیث کو نقل کیا ہے اور ان حدیثوں کو علماء اہل سنّت نے لکھا ہے _

مثلاً ، ابوداؤد احمد بن حنبل ، ترمذی ، ابن ماجہ ، حاکم نسائی ، روبانی ، ابو نعیم ، جکرانی ، اصفہانی ، دیلمی، بیہقی ، ثعلبی ، حموینی ، منادی ، ابن مغازلی ، ابن جوزی ، محمد الصبان مارودی ، کنجی شافعی ، سمعانی ،خوارزمی ، شعرانی ،دار قطنی ، ابن صباغ مالکی ، شبلنجی ، محب الدین طبری ، ابن حجر ہیثمی ، شیخ منصور علی ناصف ، محمد بن طلحہ ، جلال الدین سیوطی ، سلیمان حنفی ، قرطبی ، بغوی اور دوسرے لوگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے _(۱)

ہر جگہ تضعیف مقدم نہیں ہے _

دوسرے جن افراد کو ضعیف قرار دیا گیا ہے اور ابن خلدون نے ان کے نام تحریر کئے ہیں _ ان کے بارے میں بعض توثیقات بھی وارد ہوئی ہیں کہ جن سے بعض کو خود ابن خلدون نے نقل کیا ہے اور پھر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہر جگہ بطور مطلق تضعیف کو تعدیل پر مقدم کیا جائے ، ممکن ہے ضعیف قراردینے والے کے نزدیک کوئی مخصوص صفت ضعف کا سبب ہو لیکن دوسرے اس صفت کو ضعف کا سبب نہ سمجھتے ہوں _ پس کسی راوی کو ضعیف قراردینے والے کا قول اس وقت معتبر ہوگا جب اس کے ضعف کی وجہ بیان کرے _

عسقلانی اپنی کتاب ، لسان المیزان میں لکھتی ہیں :'' تضعیف تعدیل پر اسی صورت میں مقدم ہوسکتی ہے کہ جب اس کے ضعف کی علت معین ہو اس کے علاوہ ضعیف قراردینے

____________________

۱_ یہ تھے اہل سنّت کے ان علما کے نام جنہوں نے مہدی سے متعلق احادیث کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور ان کی کتابیں رائج تھیں لیکن ان سب کی کتابیں دست رس میں نہیں تھیں ، لہذا دوسری کتابوں سے نقل کیا ہے _ مہدی خراسانی نے کتاب البیان پر بہترین مقدمہ لکھا ہے اس میں علمائے اہل سنّت کے ۷۲ نام لکھے ہیں _

۲۷

والے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بغدادی کہتے ہیں کہ:'' جن احادیث سے بخاری ، مسلم اور ابوداؤد نے تمسک کیا ہے _ باوجودیکہ اان میں سے بعض راویوں کو ضعیف اور مطعون قرار دیا گیا ہے ان کے بارے میں یہ کہنا چاہئے کہ ان حضرات کے نزدیک ان (راویوں کا ) ضعیف و مطعون ہونا ثابت نہیں تھا '' _(۱)

خطیب لکھتے ہیں کہ :'' اگر تضعیف و تعدیل دونوں برابر ہوں تو تضعیف مقدم ہے _ لیکن اگر تضعیف تعدیل سے کم ہو تو اس سلسلے میں کئی قول ہیں _ بہترین قول یہ ہے کہ تفصیل کے ساتھ یہ کہا جائے کہ اگر ضعف کا سبب بیان ہوا ہے تو ہماری نظر میں مؤثر ہے اور تعدیل پر مقدم ہے لیکن سبب بیان نہ ہونے کی صورت میں تعدیل مقدم ہے ''(۲)

مختصر یہ کہ ہر جگہ تعدیل کو بطور مطلق تضعیف پر مقدم نہیں کیا جا سکتا _ اگر یہ مسلم ہو کہ ہر قسم کی تضعیف موثر ہے تو طعن وقدح سے بہت ہی مختصر حدیثیں محفوظ رہیں گی _ اس سلسلے میں نہایت احتیاط اور کوشش و سعی کرنا چاہئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے _

شیعہ ہونا تضعیف کا سبب

راوی کے ضعیف ہونے کے اسباب میں سے ایک اس کا شیعہ ہونا بھی شمار کیا گیا ہے مثلاً ابن خلدون نے قطن بن خلیفہ جو کہ مہدی سے متعلق احادیث کا ایک راوی ہے ، کو شیعہ ہونے کے جرم میں غیر معتبر قراردیا ہے اور اس کے بارے میں تحریر کیا ہے :

____________________

۱_ لسان المیزان مؤلفہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی طبع اول ج ۱ ص ۲۵_

۲_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۵_

۲۸

''عجلی کہتا ہے : قطن حدیث کے اعتبار سے بہت اچھا ہے لیکن تھوڑا سا شیعیت کی طرف نائل ہے '' _

احمد بن عبداللہ بن یونس لکھتا ہے :'' میں نے قطن کو دیکھا لیکن اسے کتّے کی طرح چھوڑکر نکل آیا ''_ ابوبکر بن عیاش لکھتا ہے : میں نے قطن کی احادیث کو صرف اس کے مذہب کے فاسد ہونے کی بناپر چھوڑدیا ہے''_

جبکہ احمد ، یحیی بن قطاف ، ابن معین ، نسائی اور دوسرے لوگوں نے اسکی توثیق کی ہے _(۱)

اس کے بعد ابن خلدن ان احادیث کے راوی ہارون کے بارے میں لکھتا ہے : ''ہاروں شیعہ اولاد سے تھا''_(۲) ایک گروہ نے ان احادیث کے راوی یزید بن ابی زیاد کو مجمل انداز میں ضعیف قراردیا ہے اور بعض نے ان کے ضعف کی وضاحت کی ہے چنانچہ محمد بن فضیل ان کے متعلق لکھتا ہے :'' وہ سربرآوردہ شیعوں میں سے ایک تھے اور ابن عدی کہتے ہیں :'' وہ کوفہ کے شیعوں میں سے تھے''(۲)

ابن خلدون عمار ذہبی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :'' اگر چہ احمد ، ابن معین ، ابوحاتم ، نسائی اور بعض دوسرے افراد نے عمار کی توثیق کی ہے لیکن بشر بن مروان نے شیعہ ہونے کی بناپر انھیں قبول نہیں کیا ہے''_(۴)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۳_

۲_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۴_

۳_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۸_

۴_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۹_

۲۹

عبدالرزاق بن ہمام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : '' انہوں نے فضائل اہل بیت میں حدیثیں نقل کی ہیں اور شیعہ مشہور ہیں '' _(۱)

عقیدہ کا اختلاف

ایک اور چیز جو اکثر راوی کی تضعیف کا سبب ہوتی ہے اور جس سے وہ نیک اور سچے کو بھی متہم کردیتے ہیں اور ان کی حدیثوں کو رد کردیتے ہیں وہ عقیدہ کا اختلاف ہے _ مثلاً اس زمانہ میں ایک حساس اور قابل تفتیش و متنازع موضوع خلق قرآن کا شاخسانہ تھا ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ قرآن مخلوق نہیں ہے بلکہ قدیم ہے دوسرا کہتا تھا قرآن مخلوق وحادث ہے _ ان دونوں گروہوں کی بحث و کشمکش اور جھگڑے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک نے دوسرے کو کافر تک کہنا شروع کردیا _ چنانچہ احادیث کے راویوں کی ایک بڑی جماعت کو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کے جرم میں ضعیف وکافر قراردیدیاگیا _

صاحب ''اضواء علی السنة المحمدیہ '' لکھتے ہیں : علما نے راویان احادیث کی ایک جماعت ،جیسے ابن الحصیعہ ، کو کافر قراردیدیا _ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ قران کو مخلوق کہتا تھا _ اس سے بھی بڑھ کر محاسبی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :'' انہوں نے اپنے باپ کی میراث سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا: دو متفرق مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے ، مجھے والد کی میراث نہیں چاہئے _ میراث سے انکار کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد واقفی تھے یعنی قرآن کے مخلوق ہونے یا مخلوق نہ ہونے کے سلسلے میں متردد تھے _(۲)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۰_

۲_ اضواء علی سنة المحمدیہ طبع اول ص ۳۱۶_

۳۰

جیسا کہ شدید مذہبی تعصب اور عقیدوں کا اختلاف اس بات کا سبب ہوا کہ وہ لوگوں کی سچائی اور امانت داری کو نظر انداز کردیں اور ان کی احادیث کو مسترد کردیں _ اسی طرح مذہب و عقیدے کے اتحاد کی وجہ سے لوگ اپنے ہم مسلک افراد کے جرائم اور برائیوں سے چشم پوشی کرنے اور ان کی تعدیل و توثیق کا باعث ہوا مثلا عجلی ، عمر و بن سعد کے بارے میں کہتا ہے : وہ موثق تابعین میں سے تھے اور لوگ ان سے روایت کرتے تھے _ جبکہ عمرو بن سعد حسین بن علی یعنی جوانان جنت کے سردار رسول خدا کے پارہ دل کا قاتل تھا''_ (۱)

اسی طرح بسر بن ارطاة ایسے _ کہ جس نے معاویہ کے حکم سے ہزاروں بے گناہ شیعوں کو قتل کیا تھا اور جانشین رسول خدا حضرت علی بن ابی طالب کو کھلم کھلا برا بھلا کہتا تھا _ نجس انسان کو اس ننگ وعارکے باوجود مجتہد اور قابل درگزر قراردیتے ہی _(۲)

عتبہ بن سعید کے بارے میں یحیی بن معین کہتا ہے وہ ثقہ ہیں ،نسائی ، ابوداؤد اور دارقطنی نے بھی اسے ثقہ جانا ہے جبکہ عتبہ حجاج بن یوسف جیسے ظالم شخص کا مددگار تھا _ بخاری نے اپنی صحیح میں مروان بن حکم سے روایات نقل کی ہیں اور اس پر اعتماد کیا ہے _ حالانکہ جنگ جمل کے شعلے بھڑ کانے والوں میں سے ایک مروان بھی تھا اور حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے کیلئے طلحہ کو برا نگیختہ کیا تھا _ اور پھر اثنائے جنگ میں انھیں قتل کرد یا تھا _(۳)

____________________

۱_ اضواء علی سنة ص ۳۱۹

۲_ اضواء علی سنة ص ۳۲۱

۳_ اضواء علی سنة ص ۳۱۷

۳۱

یہ باتیں مثال کے طور پر لکھی گئی ہیں تا کہ قارئین مصنفّین کے طرز فکر ، فیصلہ کے طریقے اور عقیدہ کے اظہار سے آگاہ ہو جائیں اور یہ جان لیا کہ محبت و بغض اور تعصب نے انھیں کس منزل تک پہنچادیا ہے _

اضواء کے مولف لکتھے ہیں کہع ذرا ان علما کے فیصلہ کو ملا حظہ فرمائیں اور غور کریں کہ اس نے اس شخص کی توثیق کردی جو علی(ع) کی شہادت پر راضی ، طلحہ کا قاتل اور حسین بن علی (ع) کی شہادت کاذمہ دارتھا _ لیکن اس کے بر خلاف بخاری اور مسلم جیسے لوگوں نے امت کے علماء و حافظوں جیسے حماد بن مسلمہ اور مکحول ایسے عابد وزاہد کورد کردیا ہے _(۱)

مختصر یہ کہ جو شخص اہل بیت اور حضرت علی(ع) کے فضائل میں یا شیعوں کے عقیدہ کے مطابق کوئی حدیث بیان کرتا تھا تو متعصب لوگ اس کی حدیث کی صحت کو مخدوش بنادتیے تھے اور سر کاری طور پر اس کی حدیثوں کے مردود ہونے کا اعلان کردیا جاتا تھا اور اگر کسی شخص کا شیعہ ہونا ثابت ہو جاتا تھا تو اس کے لئے بغض دعناد اور اس کی حدیث کو ٹھکرانے کیلئے اتنا ہی کافی ہوتا تھا _ اگر آپ جریر کے کلام میں غور کریں تو عامة المسلمین کے تعصب کا اندازہ ہوجائے گا ، جریر کہتے ہیں : میں نے جابر جعفی سے ملاقات کی لیکن ان سے حدیثیں نہیں لی ہیں کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے _(۲)

بے جا تعصّب

غرض مندی اور بے جا تعصب تحقیق کے منافی ہے _ جو شخص حقائق کی تحقیق کرنا

____________________

۱_ اضواء ص ۳۱۹_

۲_ صحیح مسلم ج ۱ ص ۱۰۱_

۳۲

چاہتا ہے اسے تحقیق سے پہلے خود کو بغض و عناد اور بے جا تعصب سے آزاد کرلینا چاہئے ، اور اس کے بعد غیر جانبدار ہو کر مطالعہ کرنا چاہئے _ اگر تحقیق کے دوران کوئی چیز حدیث کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے تو اس حدیث کے راویوں کی وثاقت سے بحث کرے ، اگر ثقہ ہیں تو ان کی روایتوں پر اعتماد کرے ، خواہ سنّی ہوں یا شیعہ ، یہ بات طریقہ تحقیق کے خلاف ہے کہ ثقہ راویوں کی احادیث کو شیعہ ہونے کے الزام میں رد کردیا جائے _ عامة المسلمین سے منصف مزاج حضرات اس بات کی طرف متوجہ رہے ہیں _

عسقلانی لکھتے ہیں : جن مقامات پر تضعیف کرنے والے قول پر توقف کرنا چاہئے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تضعیف کرنے والے اور جس کی تضعیف کی گئی ہے ان کے درمیان عقیدہ کا اختلاف اور عدالت و دشمنی ہو مثلاً ابو اسحاق جوزجانی ، ناصبی تھا اور کوفے والے شیعہ مشہور تھے _ اس لئے اس نے ان کی تضعیف میں توقف نہیں کیا اور سخت الفاظ میں انھیں ضعیف قراردیتا تھا _ یہاں تک کہ اعمش ، ابو نعیم اور عبیداللہ ایسے احادیث کے ارکان کو ضعیف قراردیدیا ہے _ قشیری کہتے ہیں :'' لوگوں کی اغراض و خواہشیں آگ کے گڑھے ہیں _ اگر ایسے موارد میں راوی کی توثیق وارد نہ ہوتی ہو تو تضعیف مقدم ہے '' _(۱)

ابان بن تغلب کے حالات لکھنے کے بعد محمد بن احمد بن عثمان ذہبی لکھتے ہیں اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ بدعتی ہونے کے باوجود تم ابان کی توثیق کیوں کرتے ہو تو ہم جواب دیں گے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ، ایک چھوٹی بدعت ہے جیسے تشیع میں غلو ،

____________________

۱_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۶_

۳۳

یا تشیع بغیر انحراف _ البتہ تابعین اور تبع تابعین میں ایسی بدعت رہی ہے اس کے باوجود ان کی سچائی ، دیانت داری اور پرہیزگاری باقی رہی اگر ایسے افراد کی احادیث رد کرنا ہی مسلم ہے تو نبی (ص) کی بے شمار حدیثیں رد ہوجائیں گی اوراس بات میں قباحت ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے _ دوسری قسم بدعت کبری ہے یعنی مکمل رافضی _ رافضیت میں غلو اورابوبکر و عمر کی بدگوئی _ البتہ ایسے راویوں کی حدیثوں کو رد کردینا چاہئے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے _ (۱)

مختصر یہ کہ ان تضعیفات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے بلکہ بھر پور کوشش اور چھان بین سے راوی کی صلاحیت اور عدم صلاحیت کا سراغ لگانا چاہئے _

بخاری و مسلم اور احادیث مہدی (عج)

چوتھے یہ کہ اگر کوئی حدیث بخاری و مسلم میں نہ ہو تو یہ اس کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ بخاری و مسلم کے مؤلفوں کا مقصد تمام حدیثوں کو جمع کرنا نہیں تھا _

دار قطنی لکھتے ہیں ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جنھیں بخاری و مسلم نے اپنی صحاح میں نقل نہیں کیا ہے جبکہ ان کی سند بالکل ایسی ہے جیسی ان احادیث کی ہے جو انھوں نے نقل کی ہیں _

بیہقی لکھتے ہیں : مسلم و بخاری کا ارادہ تمام حدیثوں کو جمع کرنے کا نہیں تھا _ اس بات کی دلیل وہ احادیث ہیں جو کہ بخاری میں موجود ہیں لیکن مسلم نہیں اور مسلم میں ہیں بخاری میں نہیں ہیں _(۲)

____________________

۱_ میزان الاعتدال ج ۱ ص ۵_

۲_ صحیح مسلم بشرح امام نووی ج ۱ ص ۲۴_

۳۴

اور جیسا کہ مسلم نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صرف صحیح حدیثوں کو نقل کیا ہے تو ابوداؤد بھی اسی کے مدعی ہیں _

ابوبکر بن داسہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ : میں نے اپنی کتاب میں چارہزار آٹھ سو حدیثیں لکھی ہیں جو کہ سب صحیح یا صحیح کے مشابہ ہیں _

ابوالصباح کہتے ہیں کہ ابوداؤد سے نقل ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے صرف صحیح یا صحیح سے مشابہ احادیث نقل کی ہیں اور اگر کوئی حدیث ضعیف تھی تو میں نے اس کے ضعف کا بھی ذکر کردیا ہے پس جس حدیث کے بارے میں ، میں نے خاموشی اختیار کی ہے اسے معتبر سمجھنا چاہئے _

خطابی کہتے ہیں : سنن ابی داؤد ایک گراں بہا کتا ب ہے ، اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جو کہ مسلمانوں میں مقبول ہو جسے عراق ، مصر ، مغرب اور دوسرے علاقے کے علما میں مقبولیت حاصل ہوئی ہو _(۱) مختصر یہ کہ بخاری اور مسلم اور دوسری کتابوں کی احادیث اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ ان کی صحت و ضعف سے باخبر ہونے کیلئے ان کے راویوں کی تحقیق کی جائے _

پانچویں یہ کہ بخاری و مسلم ، جن کی احادیث کی صحیح ہونے کا آپ کو اعتراف ہے ، میں بھی مہدی سے متعلق احادیث موجود ہیں اگر چہ ان میں لفظ مہدی نہیں آیا ہے ، منجملہ ان کے یہ حدیث ہے:

پیغمبر :(ص) نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسی بن مریم نازل ہوں گے

____________________

۱_ مقدمہ سنن ابی داؤد

۳۵

جبکہ تمہارا امام خود تم ہی سے ہوگا _

ضروری وضاحت

ابن خلدون کے بارے میں یہ بات کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ مہدی (ع) سے متعلق احادیث کو کلی طور پر قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں قابل رد سمجھتے ہیں کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اس عالم نے یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانہ میں پیغمبر (ص) کے اہل بیت میں سے ایک شخص اٹھے گا اور عدل و انصاف قائم کرے گا _ اجمالی طور پر یہاں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مہدی (ع) موعود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا _ دوسرے یہ کہ راویوں کے بارے میں رد وقدح اور جرج و تعدیل کے بعد لکھتے ہیں :

''مہدی موعود کے بارے میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان میں سے بعض کے علاوہ سب مخدوش ہیں '' _ یہاں بھی ابن خلدون نے کلی طور پر مہدی سے متعلق احادیث کو قابل رد ہیں جانا ہے بلکہ ان میں سے بعض کی صحت کا اعتراف کیا ہے _

تیسرے یہ کہ مہدی موعود سے متعلق احادیث انھیں روایتوں میں منحصر نہیں ہیں جن پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں جرح و تعدیل کی ہے بلکہ شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں اور بھی بہت سی متواتر و یقین آور احادیث موجود ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ابن خلدون کی دست رس میں ہوتیں تو وہ مہدی موعود کے عقیدہ جو کہ مذہبی بنیادوں پر استوار ہے ، جس کا سرچشمہ وحی ہے ، کے بارے میں کبھی شک نہ کرتے مذکورہ مطالب سے اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ ابن خلدون نے مہدی سے متعلق احادیث

۳۶

کو قطعی قبول نہیں کیا ہے _ ایسا نظریہ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ''دیگ سے زیادہ چمچا گرم ہے _

ابن خلدون اس بحث کے خاتمہ پر لکھتے ہیں :'' ہم نے پہلے ہی یہ بات ثابت کردی ہے کہ جو شخص انقلاب لانا چاہتا ہے اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتا ہے اور طاقت جمع کرکے حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے مقصد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب اس کے قوم قبیلے والوں کی اکثریت ہو اور خلوص کے ساتھ اس کی حمایت کرتے ہوں اور مقصد کے حصول کے سلسلے میں اس کے مددگار ہوں دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خاندانی تعصب کی بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں _ اس کے علاوہ کامیابی ممکن نہیں ہے _ مہدی موعود کے عقیدہ کے سلسلے میں بھی یہ مشکل پیدا ہوتی ہے کیونکہ فاطمیین بلکہ طائفہ قریش ہی پراگندہ اور منتشر ہوگیا ہے اور اب ان میں خاندانی تعصب باقی نہیں رہا ہے بلکہ اس کی جگہ دوسرے تعصبات نے لے لی ہے ، ہاں حجاز و ینبع میں حسن (ع) و حسین(ع) کی اولاد میں سے کچھ لوگ آباد ہیں جن کے پاس طاقت ور سوخ ہے البتہ وہ بھی صحرا نشین ہیں جو کہ مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے ہیں، پھر ان کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں ہے _ لیکن اگر ہم مہدی موعود کے عقیدہ کو صحیح مان لیں تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ مہدی انھیں میں سے ظاہر ہوں گے اور ان لوگوں میں بھی اتفاق و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور وہ قومی تعصب کی بناپر ان کی حمایت کریں گے اور مقصد کے حصول کی وجہ سے ان کی مدد کریں گے ، اس لحاظ سے تو ہم مہدی (ع) کے ظہور اور ان کے انقلاب و تحریک کا تصور کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ممکن نہیں ہے _(۱)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۷_

۳۷

جواب

اس بات کے جواب میں کہنا چاہئے کہ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی انقلاب برپا کرنا چاہتاہے _ طاقت جمع کرنا چاہتا ہے ، حکومت تشکیل دینا چاہتا ہے تووہ اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے ایک گروہ سنجیدگی سے اس کی مدد وحمایت کرے ، مہدی موعود اور ان کے عالمی انقلاب کیلئے بھی یہی شرط ہے _ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ان کی حمایت کرنے والے صرف علوی سادات اور قریش ہوں گے _ کیونکہ اگر ان کی حکومت قوم و قبیلے کی حدتک محدود ہوتی تو ان کے طرف دار قوم و قبیلے کے لحاظ سے ان کی مدد کرتے جیسا کہ طوائف الملوکی کے زمانہ میں اسی نہج سے حکومتیں قائم ہوتی تھیں ، بلکہ یہ عام بات ہے کہ جو حکومت محدود اور خاص عنوان کے تحت قائم ہوتی ہے تو اس کے حمایت کرنے والے بھی محدود ہوتے ہیں خواہ وہ حکومت قومی ملکی ، اقلیمی یا مکتبی و مقصدی ناقص ہے _

لیکن اگر کوئی کسی خاص مقصد اور منصوبہ کے تحت حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس اس منصوبہ اور مقصد کے ہمنواؤں کا ہونا ضروری ہے _ اس کی کا میابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک گروہ اس منصوبہ کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اور اسے عملی جامہ پہنا نے کیلئے سنجیدگی سے جدو جہد کرتا ہو اور مقصد کے حصول کے سلسے میں اپنے قائد کی حمایت کرتا ہو اور قربانی دینے سے دریغ نہ کرتا ہو _ مہدی موعود کی عالمی حکومت بھی ایسی ہی ہے _ ان کا منصوبہ بھی عالمی ہے وہ بشریت کو جو کہ تیزی کے ساتھ مادیت کی طرف بڑ ھ رہی ہے اور الہی قوانین سے رو گرداں ہے _ آپ اسے

۳۸

الہی احکام اور منصوبہ کی طرف متوجہ کریں گے اور اس دقیق منصوبہ کونا فذ کر کے اس کی مشکلیں حل کریں گے _ بشریت کے ذہن سے موہوم سرحدوں کو ، جو کہ اختلاف و کشمکش کا سر چشمہ ہیں باہر نکال کراسے توحید کے قومی پرچم کے نیچے جمع کریں گے _ آپ دین اسلام اور خدا پرستی کو عالمی بنائیں گے _ اسلام کے حقیقی قوانین نافذ کر کے ظلم و بیداد گری کا قلع قمع کریں گے _ اور پوری کائنات میں عدل و انصاف اور صلح و صفا پھیلائیں گے _

ایسی عظیم تحریک اور عالمی انقلاب کی کامیابی کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حجاز اور مدینہ کے اطراف میں بکھر ے ہوئے علوی سادات کافی ہیں _ بلکہ اس کیلئے تو عالمی تیاری ضروری ہے _ مہدی موعود کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب غیبی تائید کے علاوہ ایک طاقت ور گروہ وجود میں آئے جو کہ خداکے قوانین اور منصوبہ کودرک کر ے _ اور دل و جان سے اس کے نفاذکی کوشش کرے _ ایسے عالمی انقلاب کے اسباب فراہم کرے اور انسانی مقاصدکی تکمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے _اس صورت میں اگر انہیں معصوم اور قوی و جری قائد مل جائے ، کہ جس کے ہا تھ میں الہی قوانین و احکام ہوں اور تائید غیبی اس کے شامل حال ہو ، تو وہ لوگ اس کی حمایت کریں گے اور عدل و انصاف کی حکومت کی تشکیل میں فدا کاری کا ثبوت دیں گے _

عقیدہ مہدی مسلم تھا

مہدی موعود سے متعلق رسول(ع) خدا کی بہت سی حدیثیں شیعہ اور اہل سنت نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں _ ان میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مہدی اور قائم کا موضوع پیغمبر اسلام کے زمانہ میں مسلم تھا چنانچہ لوگ ایسے شخص کے

۳۹

منتظر تھے جو حق ، خدا پرستی کی ترویج ، اصلاح کائنات اور عدل کیلئے قیام کرے یہ عقیدہ لوگوں میں اتنا شہرت یافتہ تھا کہ وہ اس کی اصل کو مسلّم سمجھتے تھے اور اس کی فروع سے بحث کرتے تھے _ کبھی وہ یہ سوچتے تھے کہ مہدی موعود کس کی نسل سے ہوں گے ؟ کبھی آپ (ع) کی کنیت و نام کے بارے میں استفسار کرتے تھے ؟ کبھی یہ سوال کرتے تھے آپ (ع) کا نامہدی کیوں ہے ؟ کبھی آپ (ع) کے انقلاب اور ظہور کے زمانے اور اس کی علامتوں کے بارے میں سوال کرتے تھے _ کبھی غیبت کی وجہ اور غیبت کے زمانہ میں اپنے فرائض دریافت کرتے تھے کبھی پوچھتے تھے ، کیا مہدی قائم ایک ہی شخص ہے یا د و اشخاص ہیں؟ پیغمبر اسلام بھی گاہ بگاہ آپ (ع) کے متعلق خبردیا کرتے تھے ، فرماتے تھے: مہدی میری نسل اور فاطمہ (ع) کے فرزند حسین(ع) کی اولاد سے ہوگا _ کبھی آپ کے نام اور کنیت سے آگاہ کرتے تھے اور کبھی آپ کی علامتیں اور خصوصیات بیان فرماتے تھے_

صحابہ اور تابعین کی بحث و گفتگو

رسول اکرم کی وفات کے بعد بھی صحابہ اور تابعین کے درمیان مہدی موعود کا عقیدہ مسلّم تھا اور اس سلسلے میں وہ بحث و گفتگو کیا کرتے تھے_ اس گروہ کے چند افراد یہ ہیں:

ابوہریرہ کہتے ہیں : رکن و مقام کے درمیان مہدی کی بیعت ہوگی _(۱)

ابن عباس معاویہ سے کہا کرتے تھے: آخری زمانہ میں ہمارے خاندان میں سے ایک شخص چالیس سال خلیفہ رہے گا _(۲)

____________________

۱_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص ۴۶_

۲_ الملاحم و الفتن ص ۶۳_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

دین خدا کے سلسلہ میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا _

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر ( آل عمران / ۱۰۴)

اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دے نیکیوں کا حکم دے ، برائیوں سے منع کرے _

یا ایها الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء لله (نساء/ ۱۲۵)

ایمان لانے والو تم عدل قائم کرنے والے اور خدا کیلئے گواہ بن جاؤ_

ایسی ہی بے شمار آیتیں ہیں جن میں ھام مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان سے ان اجتماعی فرائض کی انجام وہی کی خواہش کی گئی ہے جو اسلامی حکومت کی مصلحت کے مطابق ہوں _ مثلاً دشمنوں سے جنگ اور را ہ خدا میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، مستکبرین اور کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو، دنیا کے لوگوں کو خیر و صلاح کی دعوت دو ، فساد ، معصیت اور ستمگری سے مبارزہ کرو_ عدل و انصاف قائم کرو اور حدود خدا کو جاری کرو _

معمولی غور و فکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایسے اجتماعی اہم امور کا اجراء حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور چونکہ مسلمانوں سے اس امر کا مطالبہ کیا گیا ہے اس لئے اس کے مقدمات فراہم کرنا ، یعنی اسلامی حکومت کی تاسیس میں کوشش کرنا مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بعبارت دیگر ہر شعبہ میں دین کے قوانین کا نفاذ اسلامی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے جبکہ دینی احکام کا نفاذ مسلمانوں کا فریضہ ہے قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے _

۳۴۱

خدا نے تمہارے لئے دین کے وہ احکام مقرر کئے ہیں جن کی نوح کو وصیت کی اور پیغمبر ان ہی کی تمہاری طرف بھی وحی کی اور جس چیز کی ہم نے ابراہیم و موسی اور عیسی کو وصیت کی تھی وہ یہی تھی کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ پیدا کرنے سے اجتناب کرو ''(۱) _

قرآن مجید کے عام خطابات اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی احکام کے استمرار سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جس زمانہ میں معصوم امام تک رسائی نہ ہو _ اس میں اسلامی حکومت کی تاسیس خود مسلمانوں کا فریضہ ہے تا کہ اس کے ذریعہ ہر شعبہ میں دینی احکام کو نافذ کریں اور اس کے تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں _

اگر ہم اس عقلی بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہرج و مرج میں حکومت کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ شارع اسلام نے بھی ہرج و مرج کو پسند نہیں کیا ہے ، اور انسان کی دنیوی و اخروی سعادت و کامیابی کے لئے خاص حکومت کا نظریہ پیش کیا ہے اور اسی لئے سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام مقررکئے ہیں ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کا وجوب اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین اور منصوبوں کاا جراء و رسول (ص) خدا کی مختصر حیات ہی میں محدود نہیں ہے _ بلکہ انھیں ہر زمانہ میں جاری رہنا چاہئے ، اگر اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر زمانہ اور ہر شعبہ میں دین کو قائم کرنا مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تشکیل میں کوشاں رہیںاورپیغمبر اسلام کی حکومت کو استمرار بخشیں تاکہ اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبے اور احکام کے پرتو

____________________

۱_ شوری/ ۱۳

۳۴۲

میں امن و امان اور سالمیت کا ماحول پیدا ہوجائے اور خدائے متعال کی عبادت و اطاعت تزکیہ نفس اور سیر الی اللہ کیلئے زمین ہموار ہوجائے _

نبوّت

حکومت کی تشکیل کی ضرورت اور اس کے استمرار میں کوشاں رہنا ایک عقلی بات ہے اسے سارے عقلا تسلیم کرتے ہیں _ اسلام نہ صرف اس عقلی بات کو رد نہیں کیا ہے بلکہ اس کی تائید کی ہے چنانچہ جب جنگ احد میں رسول خدا کے شہید ہوجانے کی جھوٹی خبر گشت کرنے لگی تو اس جھوٹی خبر سے ان اسلامی جانبازوں کے حوصلہ ماند پڑگئے جو جنگ میں مشغول تھے تو یہ آیت نازل ہوئی _

اور محمد (ص) بھی ایک رسول(ص) ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں _ اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم پچھلے پاؤن اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹ جاؤگے ؟(۱) یعنی ان کے مرجانے یا تقل ہوجانے سے تم اپنے اجتماعی نظم و ضبط سے ہاتھ دھو بیٹھوگے اور جہاد کو ترک کردوگے ؟ جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں مذکورہ آیت اسلامی و اجتماعی نظام کے استمرار و تحفظ کو عقل سلیم رکھنے والے مسلمانوں پر چھوڑاہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ مسلمان لمحہ بھر کیلئے بھی یہاں تک پیغمبر کے قتل ہوجانے یا مرجانے سے بھی جہاد اور اسلامی و اجتماعی نظام سے دست کش نہ ہوں _

سقیفہ بنی ساعد ہ میں جو انجمن تشکیل پائی تھی اس کے سبھی ارکان پیغمبر (ص) کی

____________________

۱_ آل عمران / ۱۴۴_

۳۴۳

اسلامی حکومت کے استمرار و ضرورت پر اتفاق نظر رکھتے تھے ، کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہمیں حاکم و خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے ، ہاں اس کے مصداق کی تعیین کے بارے میں اختلاف تھا _ انصار کہتے تھے_ امیر و خلیفہ ہم میں سے ہوگا _ مہاجرین کہتے تھے اس منصب کے مستحق ہم ہیں _ بعض کہتے تھے _ ہم امیر ہوں گے اور تم ہمارے وزیر ، ایک گروہ کہہ رہا تھا ایک شخص ہم مییں سے اور ایک تم میں سے امیر ہوگا _ لیکن یہ بات ایک آدمی نے بھی نہیں کہی کہ ہمیں امیر و خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے اور زمامدار کے بغیر بھی ہم اجتماعی زندگی گزارسکتے ہیں _

یہاں تک حضرت علی نے بھی کہ جنھیں رسول خدا نے خلیفہ منصوب کیا تھا جو اپنے الہی حق کو برباد ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی کے مخالف تھے ، اس سلسلہ میں بعض صحابہ بھی آپ کی حمایت کرتے تھے ، رسول (ص) کی اسلامی حکومت کے استمرار و ضرورت کی مخالفت نہیں کی اور کبھی نہ فرمایاکہ : خلیفہ کی تعیین کی ضرورت ہی کیا تھی کہ جس کیلئے انہوں نے عجلت سے کام لیا ہے ؟ بلکہ فرمایا: خلافت و امامت کا میں زیادہ مستحق ہوں ، کیونکہ اس منصب کے لئے رسول خدا نے مجھ منتخب کیا ہے اور ذاتی علم و عصمت اور لیاقت کا بھی حامل ہوں _ با وجودیکہ حضرت علی اپنے ضائع شدہ حق اور اسلامی خلافت کو اصلی محور سے منحرف سمجھتے تھے لیکن چونکہ اصل حکومت کی ضرورت کو تسلیم کرتے تھے اس لئے کبھی بھی خلفاء کو کمزور بنانے کی کوشش نہ کی بلکہ نظام اسلام کی بقاء کی خاطر ضروری موقعوں پر ان کی مدد کی اور فکر تعاون سے بھی دریغ نہ کیا _ اگر آپ(ع) کے اعزاء یا اصحاب با وفا میں سے خلفا کسی کو کسی کام پر مامور کرتے اور وہ اسے قبول کرلیتے تھے تو حضرت علی

۳۴۴

(ع) انھیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے ، آپ کی روش سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ (ص) حکومت کے وجود کو ہر حال میں ضروری سمجھتے تھے چنانچہ جب خوارج یہ کہہ رہے تھے لا حکم الا اللہ تو آپ (ص) نے فرمایا تھا: کلمة حق یراد بہا الباطل _ یعنی بات صحیح ہے مراد غلط ہے ہاں اصلی حاکم خدا ہی ہے لیکن خوارج یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت و امارت بھی خدا ہی سے مختص ہے _ جب کہ لوگوں کو حاکم و امیر کی ضرورت ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تا کہ صالح افراد کی حکومت میں مومن اعمال صالح انجام دے گا اور کافر آرام کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور اللہ اس نظام حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دے گا اسی حاکم کی وجہ سے مال جمع ہوتا ہے ، دشمن سے لڑاجاتا ہے ، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ حاکم حکومت سے الگ ہوجائے اور برے حاکم کے علیحدہ ہونے سے دوسروں کو آرام ملے _ اس بناپر اسلامی حکومت کی تشکیل اور ضرورت و استمرار میں شک نہیں کرنا چاہئے _ اور یہ حساس و سنگین ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے کہ جس زمانہ میں ان کی دست رس پیغمبر یا معصوم امام تک نہ ہو اس میں انھیں حکومت کی تشکیل و استحکام کیلئے کوشش کرنا چاہئے _ اور جس زمانہ میں امام تک رسائی نہ ہو اس میں انھیں علماء و فقہا میں سے اس فقیہ کو قیادت و امامت کے لئے منتخب کرنا چاہئے جو کہ اسلامی مسائل خصوصاً سیاسی و اجتماعی مسائل سے کما حقہ واقف ہو اور تقوی، انتظامی صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کامل ہو _ کیونکہ ایسے شخص کی رہبری و امامت کو ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی قبول کیا ہے اور اس کی وصیت کی ہے _ ایسا ہی آدمی ملت اسلامیہ کی قیادت کرسکتا ہے اور اسلام کے اجتماعی وسیاسی منصوبوں کو عملی صورت میں پیش کر سکتا ہے _

۳۴۵

اس بات کی وضات کردینا ضروری ہے کہ حکومت اسلامی اور ولایت فقیہ کا مسئلہ اتنا نازک اور طویل ہے کہ اس کیلئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے _ اس مختصر کتاب میں ہم اس کے وسیع اور متنوع پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے _ لہذایہاں اشارہ ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنی بحث کو یہی ختم کرتے ہیں _ اس مقدمہ کو بیان کرنے کا مقصد جو کہ کچھ طولانی ہوگیا ، یہ ہے کہ جو احادیث امام مہدی کے انقلاب و تحریک سے قبل رونما ہونے والے انقلاب کی مخالف ہیں ، ان کی تحقیق کریں اور اس نکتہ پر توجہ رکھیں کہ جہاد ، دفاع ، حدود ، قصاص ، تعزیرات ، قضاوت ، شہادت ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ ، محروم و مستضعفین سے دفاع اور دوسرے اجتماعی و سیاسی مسائل ہیں جو اسلام کے ضروری اور اہم مسائل ہیں انکی تردید نہیں کی جا سکتی ، بلکہ ان پر عمل کرنا اور کرانا ضروری ہے اور اس کام کیلئے اسلامی حکومت کی ضرورت ہے اور اسلامی حکومت کی تشکیل اور دین کے احکام و قوانین کے اجراء کیلئے بھی جہاد و انقلاب کی ضرورت ہے _ اس بناپر انقلاب کی مخالف احادیث کی تجزیہ و تحقیق کرنا چاہئے کسی مناسب موقع پر اس موضوع پر تفصیلی بحث کریں گے تا کہ بہتر نتیجہ حاصل ہوسکے چونکہ جلسہ کا وقت ختم ہوچکا ہے لہذا اس زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے _

ڈاکٹر : احباب سے گزارش ہے کہ آئندہ ہفتہ جلسہ ہمارے گھر منعقد ہوگا _

۳۴۶

احادیث کی تحقیق و تجزیہ

ڈاکٹر : ہوشیار صاحب گزشتہ بحث ہی کو آگے بڑھایئے

ہوشیار: گزشتہ جلسہ میں ، میں نے مقدمہ کے عنوان سے ایک بحث شروع کی تھی اور چونکہ وہ کچھ طویل اور تھکا دینے والی تھی اس لئے معذرت خواہ ہوں اب ہم قیام و تحریک کی مخالف احادیث کی تحقیق کی بحث شروع کرتے ہیں _ سابقہ جلسہ میں ، ہم نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کی تھی کہ سیاسی و اجتماعی احکام اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں کہ جس کا تعلق دین کے متن سے ہے _ راہ خدا میں جہاد اسلام اور مسلمانوں سے دفاع ، ظلم و تعدی سے مبارزہ ، محروم و مستضعفین سے دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور کلی طور پر اقامہ دین مسلمانوں کے قطعی اور ضروری فرائض میں سے ہے لیکن ممکن ہے بعض اشخاص چند احادیث کو ثبوت میں پیش کرکے اس عظیم فریضہ سے سبک دوش ہونا چاہیں اور و ئوء بعض مذہبی مراسم کو انجام دے کر خوش ہولیں _ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم احادیث کی مکمل طور پر تحقیق و تجزیہ کرائیں _ مذکورہ احادیث کو کلی طور پر چند حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے _(۱)

____________________

۱_ ان احادیث کو وسائل الشیعہ ج ۱ ص ۳۵ تا ۴۱ اور بحار الانوار ج ۵۲ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے _

۳۴۷

جن روایات میں شیعوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم ہر اس قیام کرنے والے کی دعوت کو جو تمہیں مسلح ہو کر خروج کی دعوت دیتا ہے ، آنکھیں بند کرکے قبول نہ کرو بلکہ اس کی شخصیت اور اس کے مقصد کو پہنچا نو اور اس کی تحقیق کرو _ اگر اس میں قیادت کی شرائط مفقود ہوں یا باطل مقصد کیلئے اس نے قیام کیا ہو تو اس کی دعوت کو قبول نہ کرو اگر چہ وہ خاندان رسول ہی سے کیوں نہ ہو _ جیسے یہ حدیث ہے :

'' عیسی بن قاسم کہتے ہیں میں نے امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرما رہا تھے: تقوی اختیار کرو اور ہمیشہ اپنے نفسوں کی حفاظت کرو _ خدا کی قسم اگر کوئی شخص اپنی گوسفند چرانے کیلئے کسی چروا ہے کو منتخب کرتا ہے اور بعد میں اسے پہلے چروا ہے سے بہتر اور عاقل چرواہا مل جاتا ہے تو وہ پہلے کو معزول کردیتا ہے اور دوسرے سے کام لیتا ہے _ خدا کی قسم تمہارے پاس دو نفس ہوتے کہ پہلے سے تحقق تجربہ حاصل کرتے دوسرا تمہارے پاس باقی رہتا جو پہلے کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا تو کوئی حرج نہ تھا _ لیکن ایسا نہیں ہے ہر انسان کے پاس ایک ہی نفس ہے اگر وہ ہلاک ہوجائے تو پھر توبہ اور بازگشت کا امکان نہیں ہے _ اس بناپر تمہارے لئے ضروری ہے کہ اچھی طرح غور و فکر کرو اور بہترین راستہ اختیار کرو پس اگر رسو ل کے خاندان سے شخص تمہیں قیام و خروج کی دعوت دیتا ہے تو تم اس کی تحقیق کرو کہ اس نے کس چیز کیلئے قیام کیا ہے اور یہ نہ کہو کہ اس سے قبل زید بن علی نے بھی تو قیام کیا تھا کیونکہ زید دانشور اور سچے انسان تھے اور تمہیں اپنی امامت کی طرف نہیں بلا رہے تھے بلکہ اس انسان کی طرف دعوت دے رہے تھے جس سے اہل بیت (ع) خوش تھے _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوئے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے اور حکومت

۳۴۸

کو اس کہ اہل کے سپرد کردیتے _زید نے حکومت کے خلاف قیام کیا تا کہ اسے سرنگوں کرے _ لیکن جس ثخص نے اس زمانہ میں قیام کیا ہے وہ تمہیں کس چیز کی طرف بلا رہا ہے؟ کیا تمہیں اس آدمی کی طرف دعوت دیتا ہے جس پر اہل بیت کا اتفاق ہے ؟ نہیں ، ایسا نہیں ہے ، ہم تمہیں گواہ قرار دے کرکہتے ہیں کہ ہم اس قیام سے راضی نہیں ہیں _ اس کے ہاتھ میں ابھی حکومت نہیں آئی ہے اس کے باوجود وہ ہماری مخالفت کرتا ہے تو جب اس کے ہاتھ میں حکومت آجائے گی اور پرچم لہرادے گا تو اس وقت تو بدرجہ اولی وہ ہماری اطاعت نہیں کرے گا _ تم صرف اس شخص کی دعوت قبول کرو کہ جس کی قیادت پر سارے بنو فاطمہ کا اتفاق ہے وہی تمہارا امام و قائد ہے ، ماہ رجب میں تم خدا کی نصرت کی طرف بڑھو اور بہتر سمجھو تو شعبان تک تاخیر کرو اور اگر پسند ہو تو ماہ رمضان کا روزہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رکھو شاید یہ تمہارے لئے بہتر ہو _ اگر علامت چاہتے ہو تو سفیانی کا خروج تمہارے لئے کافی ہے _(۱)

اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں _

حدیث کا مفہوم

اس حدیث میں امام صادق (ع) یہ فرماتے ہیں : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہوانھیں عبث ہلاکت میں نہ ڈالو تم ہر قیام کرنے والے اور مدد طلب کرنے والے

____________________

۱_ وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۵ ، بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۰۱_

۳۴۹

کی آواز پر لبیک نہ کہو _ اگر دعوت دینے والا اپنی امامت و قیادت کا دعویدار ہے جبکہ امت کے درمیان اس سے زیادہ با علم و با صلاحیت شخص موجود ہے ، تو اس کی دعوت کو قبول نہ کرو _ جیسا ائمہ معصومین علیہم السلام کی حیات میں ایسا ہی ہوتا تھا _ خود قیام کرنے والے کی شخصیت اور اس کے مقصد کی تحقیق کرو _ اگر وہ لائق اعتماد نہ ہو یا اس کا مقصد صحیح نہ ہو تو اس کی دعوت قبول نہ کرو اور اس شخص _ بظاہر محمد بن عبد اللہ بن حسن _ کے قیام کا زید بن علی کے قیام سے موازنہ نہ کرو و اور یہ نہ کہو چونکہ زید نے قیام کیا تھا لہذا اس کا قیام بھی جائز ہے _ کیونکہ زید امامت کے دعویدار نہیں تھے اور نہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہے تھے _ بلکہ ان کا مقصد باطل حکومت کو سرنگوں کرکے اس کے اہل تک پہنچانا تھا یعنی جس شخص کے سلسلے میں آل محمد کا اتفاق ہے ، اس تک پہنچانا مقصد تھا _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورکرتے _ زید عالم اور سچے آدم تھے ، قیادت و قیام کی صلاحیت کے حامل تھے _ لیکن جس شخص نے آج قیام کیا ہے وہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے اور ابھی سے ہماری مخالفت کررہا ہے جبکہ حکومت اس کے ہاتھ میں نہیں آئی ہے اگر وہ اس انقلاب میں کامیاب ہوگیا تو بدرجہ اولی ہماری اطاعت نہیں کرے گا _ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں اس شخص نے قیام کیا جو اپنے کو منصب امامت کے لائق سمجھتا تھا اور اس منصب کو حاصل کرنے کیلئے لوگوں سے مددمانگتا تھا _ بظاہر یہ محمد بن عبداللہ بن حسن تھے کہ جنہوں نے مہدی موعود کے نام سے قیام کیا تھا _ ابوالفرج اصفہانی لکھتے ہیں کہ ، محمد کے اہل بیت انھیں مہدی کہتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی ہیں _(۱)

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ۱۵۷_

۳۵۰

اصفہانی ہی لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ کے مہدی موعود ہونے میں کسی کو شک نہیں تھا لوگوں میں یہ بات شہرت پاچکی تھی ، اسی لئے بنی ہاشم آل ابوطالب اور آل عباس میں سے بعض لوگوں نے ان کی بیعت کرلی تھی _(۱)

اصفہانی ہی لکھتے ہیں : محمد لوگوں سے کہتے تھے : تم مجھے مہدی موعود سمجھتے ہو اور حقیقت بھی یہی ہے _(۲)

محمد بن عبداللہ بن حسن نے امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں مہدی موعود کے عنوان سے قیام کیا تھا اور لوگوں کو اپنی طرف آنے کی دعوت دیتے تھے _ صرف اس موقع پر امام صادق (ع) نے عیسی بن قاسم اور تمام شیعوں سے فرمایا تھا کہ : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہو عبث ہلاکت میں نہ ڈالو اور اس شخص کے قیام کا زید کے قیام سے موازنہ نہ کرو _ کیونکہ زید امامت کے مدعی نہیں تھے بلکہ لوگوں کو اس شخص کی طرف بلا رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _

گزشتہ بیان سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ امام جعفر صادق (ع) نے بطور مطلق قیام سے منع نہیں فرمایا ہے بلکہ قیام کو دو حصوں تقسیم کیا ہے _ ایک باطل انقلابات و قیام ہے جیسے محمد بن عبداللہ بن حسن کا قیام ہے _ چنانچہ مسلمانوں کوایسے لوگوں کی دعوت قبول نہیں کرنا چاہئے اور اپنے نفوس کو ہلاکت سے بچانا چاہئے _ دوسرے صحیح انقلابا ت و قیام ہے جو موازین عقل و شرع کے مطابق ہوتے ہیں جیسے زید بن علی

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ۱۵۸

۲_ مقاتل الطالبین / ۱۶۳

۳۵۱

بن حسین (ع) کا قیام کہان کا مقصد بھی صحیح تھا اور ان میں قیادت کی شرائط بھی موجود تھیں _ امام صادق (ع) نے نہ صرف ایسے قیام کی نفی نہیں کی ہے بظاہر ان کی تائید کی ہے _ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو قیام زید کے قیام کے مانند ہو ائمہ معصومین اس کی تائید فرماتے ہیں _ زید کی شخصیت ، ان کے مقاصد اور ان کے قیام کے محرکات کے بیان و تحقیق کیلئے طویل بحث درکار ہے ، جس کی اس مختصر میں گنجائشے نہیں لیکن ایک سرسری جائزہ پیش کرتے ہیں _

۱_ انقلاب کے قائد یعنی زید عالم و متقی ، صادق اور قیادت کی صلاحیت کے حامل تھے ان سے متعلق امام صادق فرماتے ہیں : میرے چچا زید ہماری دنیا و آخرت کیلئے مفید تھے _ خدا کی قسم وہ راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں _ آپ کی مثال ان شہداء کی سی ہے جو رسول (ص) علی (ع) ، حسن اور امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہوئے تھے _(۱)

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے : کوفہ میںایک عظمت و جلال والا انسان قیام کرے گا جس کا نام زید ہوگا _ اولین و آخرین میں اس کی مثال نہیں ہے _ مگر یہ کہ کوئی اس کی سیرت و رفتار پر عمل پیرا ہوجائے _ زید اور ان کے اصحاب قیامت میں ایک صحیفہ کے ساتھ ظاہر ہوں گے _ فرشتے ان کے استقبال کو بڑھیں گے اور کہیں گے یہ بہترین باقی رہنے والے اور حق کی طرف دعوت دینے والے ہیں _ رسول خدا بھی ان کا استقبال کریں گے اور فرمائیں گے بیٹا تم نے اپنا فرض پورا کیا اور اب بغیر حساب کے جنت میں داخل _ ہوجاؤ(۲)

____________________

۱_ عیون الاخبار باب ۲۵_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۸۸_

۳۵۲

رسول خدا نے امام حسین (ع) سے فرمایا : تمہاری نسل سے ایک فرزند ہوگا کہ جس کا نام زید ہوگا وہ اور ان کے اصحاب قیامت میں حسین و سفید چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے اور جنّت میں داخل ہوں گے _(۱)

۲_ انقلاب میں زید کا مقصد صحیح تھا _ وہ امامت کے مدعی نہیں تھے بلکہ وہ طاغوت کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے اور اسے اس کے حق دار

کے سپرد کرنا چاہتے تھے یعنی اسے معصوم امام کے سپردکرنا چاہتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اور اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو اپنا وعدہ ضرور پورا کرتے ، امام صادق (ع) نے فرمایا ہے ، خدا میرے چچا زید پر رحم کرے اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے _ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دے رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے ، وہ میں ہوں _(۲)

یحی بن زید کہتے ہیں : خدا میرے والد پر رحم کرے _ خدا کی قسم وہ بہت بڑے عابد تھے ، وہ راتوں کو عبادت میں اور دنوں کو روزہ کی حالت میں گزارتے تھے _ انہوں نے راہ خدا میں جہاد کیا ہے _ راوی کہتا ہے : میں نے یحیی سے پوچھا : فرزند رسول (ص) امام کو ایسا ہی ہونا چاہئے؟ یحیی نے کہا : میرے والد امام نہیں تھے _ بلکہ وہ بعظمت سادات اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں میں سے ایک تھے _ راوی نے کہا : فرزند رسول (ص) آپ کے والد بزرگوار امامت کے مدعی تھے اور راہ خدا میں جہاد کے لئے انہوں نے قیام کیا تھا با وجودیکہ رسول (ص) سے امامت کے جھوٹے دعویدار ہونے کے بارے میں

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ص ۸۸

۲_ بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۹۹

۳۵۳

حدیث وارد ہوئی ہے _ یحیی نے جواب دیا : خدا کے بند ے ایسی بات نہ کہو ۰ بات میرے والد اس سے بلند تھے کہ وہ اس چیز کا دعوی کریں جوان کا حق نہیں ہے _ بلکہ میر ے والد لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کی طرف دعوت دیتا ہوں _ کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے اور ان کی مراد میرے چچا جعفر (ع) تھے _ راوی نے کہا پس جعفر بن محمد (ع) امام ہیں ؟

یحیی نے جی ہاں وہ بنی ہاشم کے فقیہ ترین فرد ہیں _(۱)

جناب زید بھی امام جعفر صادق (ع) کے علم و تقوے کے معترف تھے _ ایک جگہ قرماتے ہیں : جو جہاد کرنا چاہتا ہے وہ میرے ساتھ آجائے اور جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے میرے بھتیجے جعفر کی خدمت میں جانا چا ہئے _(۲)

زید کے اصحاب و سپاہی بھی حضرت صادق کی امامت و افضلت کے معترف تھے _ عمار سا با طی کہتے ہیں ; ایک شخص نے سلیمان بن خالد ، کہ جس نے زید کی فوج کے ہمراہ خروج کیا تھا _ سے پو چھا : زید کے بارے میں تمہار ا کیا عقیدہ ہے ؟ زید افضل ہیں یا جعفر بن محمد ؟ سلیمان نے جواب دیا ، خدا کی قسم جعفر بن محمد کی ایک دن کی زندگی زید کی تمام عمر سے زیادہ قیمتی ہے ، اس وقت اس نے سر کو جھٹکا اور زید کے پاس سے اٹھ گیا اور یہ واقعہ ان سے نقل کیا _ عمار کہتے ہیں : میں بھی زید کے پاس گیا اور را نحصیں یہ کہتے ہوئے سنا جعفر بن محمد ہما ر ے حلال و حرام مسائل کے امام ہیں _(۳)

____________________

۱ _ بحارالانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۹

۲_ بحارالانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۹

۳ _ بحار الانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۶

۳۵۴

زید کا انقلاب ایک جذ باتی اتفاقی اور منصو بہ سازی کے بغیر نہیں بر پا ہوا تھا بلکہ ہر طریقہ سے سو چا سمجھا تھا _ ان کے انقلاب کا محر ک امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور طا غوت کی حکومت سے مبارزہ تھا _ ان کا ارادہ تھا کہ مسلحانہ جنگ کے ذریعہ غاصبوں کی حکومت کو سرنگوں کردیں اور حکومت اس کے اہل ، یعنی اس شخص کے سپرد کردیں جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ اسی لئے بہت سے لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور جہاد کیلئے تیار ہوگئے ۰ ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں

: کوفہ سے پندرہ ہزار لوگوں نے زید کی بیعت کی تھی _ اس کے علاوہ مدائن ، بصرہ ، واسطہ ، موصل ، خراسان اور گرگان کے اہالی نے دعوت قبول کی تھی _(۱)

زید کا قیام اتنا ہی مستحسن اور ضروری تھا کہ بہت سے اہل سنّت کے فقہا نے بھی انکی دعوت کو قبول کیا اور آپ کی مدد کی _ یہاں تک کہ اہل سنت کے سب سے بڑ ے امام ابوحنیفہ نے بھی زید کی تائید کی _ فضل ابن زبیر کہتے ہیں : ابو حنیفہ نے مجھ سے کہا : زید کی آواز پر کتنے لوگوں نے لبیک کہا ہے ؟ سلیمہ بن کہیل ، یزید بن ابی زیاد، ہارون بن سعد ، ہاشم بن برید ، ابو ہاشم سریانی ، حجاج بن دینار اور چند دو سرے لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی ہے ابوحنیفہ نے مجھے کچھ پیسہ دیا اور کہا یہ پیسہ زیدکو دیدینا اور کہنا کہ اس پیسہ کا اسلحہ خرید یں اور مجاہد ین کے او پر خرچ کریں _ میں نے پیسہ لیا اور زید کی تحویل میں دیدیا _(۲)

____________________

۱ _ مقاتل الطالبین ص ۹۱

۲ _ مقاتل الطالبین ص ۹۹

۳۵۵

دلچسپ بات یہ ہے کہ زید نے اپنے انقلاب کے موضوع کو پہلے ہی امام صادق سے بیان کیا تھا اور امام نے فرمایا تھا : چچاجان اگر اس بات کوپسند کرتے ہیں کہ قتل کئے جائیں اور کوفہ کے کنا سہ میں آپ کے بدن کو دار پر چڑ ھا یا جا ئے تو اس راہ کو اختیار کریں ۱ _ با د جو دیکہ زید نے امام سے یہ خبر سن لی تھی لیکن آپ کو اپنے فریضہ کی انجام دہی کا اتنا زیادہ احساس تھا کہ شہادت کی خبر بھی انھیں اس عظیم اقدام سے بازنہ ر کھ سکی _ راہ خدا میں جہاد کیا اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے _

ان کے بارے میں امام رضا فرما تے ہیں : زید علما ئے آل محمد میں سے ایک تھے _ وہ خدا کے لئے غضبناک ہوئے اور دشمنان خدا سے جنگ کی یہاں تک کہ شہادت پائی _(۲)

امام جعفر صادق (ع) فرما تے ہیں :

خدا میرے چچا زید پر رحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دتیے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اگر کا میاب ہو جا تے تو ضرور اپناہ وعدہ وفا کرتے _(۳)

اب ہم اصل بحث کی طرف پلٹتے ہیں جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ عیسی بن قاسم کی روایت کو اسلامی تحریک اور انقلابات کی مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ اسے صحیح اسلامی تحریکوں مؤید قرار دیا جا سکتا ہے _ یہاں تک اس حدیث کے

____________________

۱_بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۲_ بحار الانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۳_ بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۳۵۶

ذریعہ دوسری ان احادیث کی توجیہ کی جاسکتی ہے جو ایسے انقلاب سے منع کرتی ہیں جنکے قائدہ ضروری شرائط مفقود ہوں یا اسباب ومقدمات کی فراہمی سے قبل انقلاب کا آغاز کرتے ہیں یا غلط مقصد کیلئے قیام کرتے ہیں لیکن صحیح اسلامی اور زید بن علی کے قیام کی مانند قیام سے نہ صرف منع نہیں کرتی ہے بلکہ ائمہ معصومیں نے اس کی تائید کی ہے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وسائل کے اسی بات کی گیار ہویں حدیث کو بھی انقلاب کی مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا _ وہ حدیث یہ ہے :

احمد بن یحیی المکتب عن محمد بن یحیی الصولی عن محمد بن زید انحوی عن ابن ابی عبدون عن ابیه عن الرضا علیه السلام (فی حدیث) انه قال للمامون : لا تقس اخی زیدا الی زید بن علی فانه کان من علماء آل محمد صلی الله علیه و آله _ غضب لله فجاهد اعدائیه حتی قتل فی سبیله و لقد حدثنی ابو موسی بن جعفر انه سمع اباه جعفر بن محمد یقول : رحم الله عمی زیدا انه دعا الی ال ضا من آل محمد و لو ظفر لو فی بماد عا الیه _ لقد استشار نی فی خروجه فقلت ان رضیت ان تکون المقتول المطوب بالکنا سه فشانک (الی ان قال) فقال الر ضا علیه السلام ان زید بن علی لم یدع ما لیس له بحق و انه کان تقی لله من ذالک _ انه قال : ادعوکم الی الر ضا من آل محمد _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

۳۵۷

امام رضا (ع) نے مامون سے فرمایا : میرے بھائی زید کا زید بن علی سے موازنہ نہ کرو _ زید بن علی علمائے آل محمد میں سے تھے _ وہ خدا کیلئے غضبناک ہوئے اور خدا کے دشمنوں سے لڑے یہاں تک راہ خدا میں شہادت پائی _ میرے والد موسی بن جعفر (ع) نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے سنا کہ انہوں نے فرمایا : خدا میرے چچا زید پررحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دیتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا _ اگر کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ وفا کرتے _ نیز فرماتے تھے : زید نے اپنے انقلاب کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا تھا میں نے اس سے کہا تھا : اگر قتل ہونے اور اپنے بدن کو کناسہ کوفہ میں دار پر چڑھائے جانے پر راضی ہیں تو اقدام کریں _ اس کے بعد امام رضا (ع) نے فرمایا: زید بن علی اس چیز کے مدعی نہ تھے جوان کا حق نہ تھا _ وہ اس سے کہیں بلند تھے کہ ناحق کسی چیز کا دعوی کریں بلکہ آپ لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ ''

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے رجال کی کتابوں میں اس کے راویوں کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اس لحاظسے اس کے مفہوم کو بھی قیام کے مخالف احادیث میں شما رنہیں کیا جا سکتا _ کیونکہ اس میں زید بن علی جیسے قیام کی تائید کی گئی لیکن زید بن موسی پر تنقید کی گئی ہے _ زید بن موسی نے بصرہ میں خروج کیا تھا اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتا اور لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دیتا تھا ، لوگوں کا مال زبردستی لوٹ لیتا تھا ، آخر کار اس کی فوج نے شکست کھائی خود بھی گرفتار ہوا ، مامون نے اسے معاف کردیا

۳۵۸

اور امام رضا (ع) کی خدمت میں بھیجدیا _ امام نے اسے آزاد کرنے کا حکم دیدیا لیکن یہ قسم کھائی کہ کبھی اس سے کلام نہیں کروں گا _(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: اس حدیث میں زید بن موسی کے قیام و انقلاب پر تنقید کی گئی ہے لیکن ہر قیام و تحریک سے ممانعت نہیں کی گئی ہے بلکہ زید بن علی جیسے قیام کی تائید کی گئی ہے _

دوسرا حصّہ

جن احادیث کی اس بات پردلالت ہے کہ جو انقلاب و قیام بھی امام مہدی کے انقلاب سے قبل رونما ہوجائے ، اسے کچل دیا جائے گا _

حدیث اول :

علی بن ابراهیم عن ابیه عن حماد بن عیسی عن ربعی رفعه عن علی بن الحسین علیه السلام قال: والله لا یخرج احد منّا قبل الخروج القائم ا لا کان مثله کمل فرخ طار من وکره قبل ان یستوی جناحاه فاخذه الصبیان فعبثوبه _(۲)

(مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام زین العابدین نے فرمایا: خدا کی قسم انقلاب مہدی سے قبل ہم میں سے جوبھی قیام کرے گا وہ اس پرندہ کی مانند ہے جو بال و پر نکلے سے پہلے

____________________

۱_ بحارالانوار ج۴۸ص۳۱۵

۳۵۹

ہی آشیانہ سے نکل پڑتا ہے جسے بچے پکڑلیتے ہیں اور کھلونا بنا لیتے ہیں'' _

مذکورہ حدیث کو اہل حدیث کی اصطلاح میں مرفوع کہتے ہیں _ اس میں چند راویوں کو حذف کردیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھے_ بہر حال یہ قابل قبول نہیں ہے _

حدیث دوم:

جابر عن ابی جعفر محمد بن علی علیه السلام قال: مثل خروج القائم منّا کخروج رسول الله صلی الله علیه و آل و مثل من خرج منّا اهل البیت قبل قیام القائم مثل فرخ طار من وکره فتلاعب به الصبیان _

(مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۳۴۸)

امام محمد باقر نے فرمایا: انقلاب مہدی ، رسول (ص) کے قیام کی مانند ہوگا اور ہم اہل بیت میں انقلاب مہدی سے قبل خروج کرنے والوں کی مثال پرندے کے اس بچہ کی سی ہے جو آشیانہ سے نکل کر بچوں کا کھلونہ بن جاتا ہے ''

حدیث سوم:

ابوالجارود قال سمعت ابا جعفر علیه السلام یقول : لیس منّا اهل البیت احدید فع ضبما ولا یدعوا ا لی حق الاّصرعته البلیة حتی تقوم عصابة شهدت بدراً ، لا یواری قتیلها و لا یداوی جریحها ، قلت ، من عنی ابوجعفر علیه السلام؟قال : الملائکة

(مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا : ہم اہل بیت میں سے جو بھی ظلم کو مٹائے اور احقاق حق

۳۶۰

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455