آفتاب عدالت

آفتاب عدالت0%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 455
مشاہدے: 172771
ڈاؤنلوڈ: 4763

تبصرے:

آفتاب عدالت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172771 / ڈاؤنلوڈ: 4763
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کیلئے قیام کرے گا وہ مشکلوں میں گرفتار اور شکست سے دوچار ہوگا _ اوریہ اس وقت تک ہوگا جب تک ایسے افراد قیام نہ کریں گے جیسے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور مجاہدوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ، ان میں سے کوئی شہید نہیں ہوا کہ دفن کیا جاتا ، کوئی مجرو ح نہیں ہوا جس کا علاج کیا جاتا ، راوی کہتا ہے : اما م کی مراد کون لوگ ہیں ؟ فرمایا: وہ ملائگہ ہیں جو جنگ بدر میں اسلامی لشکر کی مدد کیلئے نازل ہوئے تھے''_

حدیث چہارم:

ابوالجارود عن ابی جعفر علیه السلام قال قلت له اوصنی فقال اوصیک بتقوی الله و ان تلزم بیت و تقعد فی دهمک هؤلاء الناس وايّاک و الخوارج منّا فانهم لیسوا علی شیئی (الی ان قال) و اعلم انه لا تقوم عصابة تدفع ضیماً او تعزّدینا الاّ صرعتهم البلیة حتی تقوم عصابة شهدوا بدراً مع رسول الله صلی الله علیه و آله لا یواری قتیلهم و لا یرفع صریعهم و لا یداوی جریحهم ، فقلت : من هم ؟ قال : الملائکة _

(مستدرک ج ۲ ص ۲۴۸)

ابوجارود کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : مجھے کچھ وصیت فرمایئے فرمایا : میں تمہیں خدا کا تقوی اختیار کرنے اوراپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور خفیہ طریقے سے ان ہی لوگوں میں زندگی گزارو اور ہم میں سے قیام کرنے والوں سے اجتناب کرو _

۳۶۱

کیونکہ وہ حق پر نہیں ہیں اور ان کا مقصد صحیح نہیں ہے ( یہاں تک کہ فرمایا:) جان لو جو گروہ بھی ظلم مٹانے اور اسلام کی سربلندی اور اقتدار کیلئے قیام کرے گا اسی کو بلائیں اور مصیبتیں گھر لیں گی ، یہاں تک وہ لوگ قیام کریں گے جو کہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے _ ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا تھاکہ دفن کیا جاتا ، زمین پر نہیں گرا تھا کہ اٹھایا جاتا ، مجروح نہیں ہوا تھا کہ علاج کیاجاتا ، راوی نے عرض کی یہ کون لوگ ہیں ؟فرمایا : ملائکہ '' _

سند حدیث

مذکور ہ تینوں حدیثیں سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہیں کیونکہ ان کا راوی ابوالجارود ہے جو کہ زید ی المسلک تھا اور خود فرقہ جارودیہ کا بانی ہے _ رجال کی کتابوں میں اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

ان احادیث میں امام نے ان شیعوں کو ایک خارجی حقیقت سے خبردار کیا ہے جو کہ قیام کرنے کا اصرار کرتے تھے _ آپ نے فرمایا ہے ہم ائمہ میں سے جو بھی مہدی موعود کے قیام سے پہلے قیام کرے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا اور شہید کردیا جائے گا او راس کی شکست اسلام کے حق میں نہیں ہے _ ہم اہل بیت میں سے صرف انقلاب مہدی کامیاب ہوگا کہ جن کی مدد کیلئے خدا کے فرشتے نازل ہوں گے _ یہ احادیث ائمہ کے قیام کی خبر دے رہی ہیں اور ان کے قیام نہ کرنے

کی علت بیان کررہی ہیں ، دیگر انقلابات سے ان کا تعلق نہیں ہے _

۳۶۲

اگر حدیث میں وارد لفظ ''منّا'' سے امام کی مراد علوی سادات ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جو انقلاب بھی علویوں میں سے کسی کی قیادت میں آئے گا وہ پامال ہوگا اور قائد قتل ہوگا تو بھی اس کی دلالت قیام و انقلاب سے ممانعت پر نہیں ہے بالفرض اگر یہی حقیقت ہے _ تو احادیث ایک خارجی حقیقت کو بیان کررہی ہیں اور وہ یہ کہ انقلاب مہدی سے پہلے جو انقلاب رونما ہوں گے وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوں گے اور اس کا سردار قتل ہوگا لیکن یہ احادیث راہ خدا میں جہاد جیسے قطعی و مسلم فریضہ ، اسلام اور مسلمانوں سے دفاع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظلم و بیدادگری اور استکبار سے مبارزہ کو ساقط نہیں کرتی ہیں _ قتل ہوجانے کی خبر اور شیء ہے اور فرض کرنا دوسری چیز ہے _ امام حسین (ع) کو بھی اپنی شہادت کا علم تھا لیکن اس کے باوجود نظام اسلام سے دفاع کی خاطر یزید کی طاغوتی حککومت کے خلاف قیام کیا _ اپنا فرض پورا کیا اور جام شہادت نوش فرمایا _ اسی طرح زیدبن علی بن الحسین اگر چہ اپنی شہادت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سن چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے شرعی فریضہ پر عمل کیا اور اسلام و قرآن سے دفاع کیلئے قیام کیا اور شہادت سے ہمکنار ہوئے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ راہ خدا میں جہاد ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور محروم و مستضعفین سے دفاع کریں خواہ اس سلسلے میں ان کے بہت سے آدمی شہید ہوجائیں _ کیونکہ شہید ہونا شکست کے مترادف نہیں ہے _ حق تو یہ ہے کہ اسلام نے جو کچھ دنیا میں ترقی کی ہے اور باقی رہا ہے تو یہ امام حسین اور آپ کے اصحاب اور زید بن علی یحیی بن زید و حسین شہید فتح ایسے فداکار انسانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جنہوں نے قطعی طور پر اپنی جان کی پروا نہیں کی تھی _ اس بنا پر مذکورہ احادیث مسلمانوں سے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرعی فریضہ کو ساقط

۳۶۳

نہیں کر سکتی ہیں _

اس پر جلسہ کا اختتام ہوا اور آئندہ شنبہ کی شب میں فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

فہیمی : ہوشیار صاحب اپنی بحث کی تکمیل کیجئے _

ہوشیار: تیسرا حصّہ

جو احادیث ظہور امام مہدی کی علامتوں کے ظاہر ہونے سے قبل کسی بھی قیام و انقلاب سے اجتناب کا حکم دیتی ہیں _

حدیث اوّل :

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عثمان بن عیسی عن بکر بن محمد عن سدیر قال ، قال ابوعبدالله علیه السلام : یا سدیر الزم بیتک و کن حلساً من احلاسه و اسکن ما سکن اللیل و النهار فاذا بلغک ان السفیانی قدخرج فارحل الینا و لو علی رجلک

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام صادق (ع) نے سدیر سے فرمایا: اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور جب تک شب و روز ساکن ہیں تم بھی جنبش نہ کرو جب یہ سنو کہ سفیانی نے خروج کیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آنا خواہ پیادہ ہی آنا پڑے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے قطعی قابل اعتماد نہیں ہے _ کیونکہ سند میں عثمان بن سعید بھی ہیں جو کہ واقفی ہیں _ امام موسی بن جعفر کی حیات میں آپ (ص) کے

۳۶۴

وکیل تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد واقفی ہوگئے تھے اورامام رضا (ع) کے پاس سہم امام نہیں بھیجتے تھے اسی وجہ سے امام رضا (ع) ان سے ناراض ہوگئے تھے _ اگر چہ بعد میں توبہ کرلی اور امام کی خدمت مین اموال بیھیجنے لگے تھے _ اسی طرح سدیر بن حکیم صیرفی کا ثقہ ہونا بھی مسلم نہیں ہے _

حدیث دوم

احمد عن علی بن الحکم عن ابی ایوب الخزاز عن عمر بن حنظله قال سمعت ابا عبدالله علیه السلام یقول: خمس علامات قبل القیام القائم : الصیحة والسفیانی و الخسف و قتل النفس الزکیة و الیمانی ، فقلت جعلت فداک ان خرج احد من اهل بیتک قبل هذاه العلامات انخرج معه؟ قال : لا_

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

''امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں _ قائم کے انقلاب و قیام سے قبل پانچ علامتیں ظاہر ہوں گے ۱_ آسمانی چیخ ۲_ خروج سفیانی ۳_ زمین کے ایک حصہ کا دھنس جانا ۴_ نفس زکیہ کا قتل ۵_ یمانی کا خروج راوی نے عرض کی فرزند رسول (ع) اگر آپ حضرات میں سے کوئی علائم ظہور سے قبل قیام کرے تو ہم بھی اس کے ساتھ خروج کریں ؟ فرمایا نہیں _

سند حدیث

مذکورہ حدیث قطعہ قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ عمر بن حنظلہ کی توثیق ثابت نہیں ہے _

۳۶۵

حدیث سوم :

محمد بن الحسن عن الفضل بن شاذان عن الحسن بن محبوب عن عمرو بن ابی المقدام عن جابر عن ابی جعفر علیه السلام قال : الزم الارض و لا تحرک یداً ولا رجلاً حتی تری علامات اذکرها لک وما اراک تدرکها : اختلاف بنی فلان و منا دینادی من السماء و یجیئکم الصوت من ناحیة دمشق

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۱)

جابر کہتے ہیں کہ : حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: زمین نہ چھوڑو ، اپنے ہاتھ اور پیر کو حرکت نہ دو یہاں تک وہ علامت ظاہر ہوجائے جو میں تمہیں بتاتا ہوں شائد تم درک نہیں کروگے : فلان خاندان _ شائد بنی عباس _ کا اختلاف آسمانی منادی کی ندا اور شام کی طرف سے آنے والی آواز ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث بھی قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ عمر بن ابی المقدام مجہول ہے _ شیخ الطائف نے فضل بن شاذان سے دو طریقوں سے روایت کی ہے اور دونوں کو ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث چہارم :

الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن احمد بن محمد العلوی عن حیدر بن محمد بن نعیم عن محمد بن عمرالکشی عن حمدویه عن محمد بن عیسی عن الحسین بن خالد

۳۶۶

قال: قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ان عبدالله بن بکر یروی حدیثاً و انا احبّ ان اعرضه علیک فقال : ماذا لک الحدیث ؟ قلت : قال ابن بکیر : حدثنی عبید بن زرارة قال : کنت عند ابی عبدالله علیه السلام ایام خرج محمد ( ابراهیم ) بن عبدالله بن الحسن اذ دخل علیه رجل من اصحابنا فقال له : جعلت فداک ان محمد بن عبدالله قد خرج فما تقول فی الخروج معه ؟ فقال : اسکنوا ما سکنت السماء والارض ، فما من قائم و ما من خروج ؟ فقال ابو الحسن علیه السلام : صدق ابو عبدالله علیه السلام و لیس الامر علی ما تأوّله ابن بکیر _ انما عنی ابو عبدالله علیه السلام اسکنوا ما سکنت السماء من النداء و الارض من الخسف بالجیش _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

حسین بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : عبداللہ بن بیکر نے مجھے ایک حدیث سنائی ہے _ میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ سے نقل کروں فرمایا : سناؤ کیا ہے ؟ میں نے عرض کی ابن بکیر نے عبید بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا تھا، اس وقت میں امام صادق کی خدمت میں تھا کہ ای صحابی آیا اور عرض کی : قربان جاؤں محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا ہے ان کے خروج کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا : جب تک رات دن کی گردش یکسال ہے اس وقت تک تم بھی ساکن و ساکت رہو _ اس میں نہ

۳۶۷

کوئی قیام کرے اور نہ خروج _ امام رضا نے فرمایا : امام صادق نے صحیح فرمایا ہے ، لیکن حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے جو ابن بکیر نے سمجھا ہے بلکہ امام کا مقصد ہے کہ جب تک آس۵مان سے ندا نہ آئے اور زمین فوج کہ نہ دھنسائے اس وقت تک تم خاموش رہو'' _

سند حدیث

مذکورہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ رجال کی کتابوں میں احمد بن محمد علوی کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اسی طرح حسین بن خالد نام کے دو اشخاص ہیں _ ایک ابوالعلاء دوسرے صیرفی اور ان دونوں کو موثق نہیں قرار دیا گیا _

حدیث پنجم :

محمد بن همام قال حدثنا جعفر بن مالک الفزاری قال حدثنی محمد بن احمد عن علی بن اسباط عن بعض اصحابه عن ابی عبدالله علیه السلام انه قال : کفّوا السنتکم و الزموا بیوتکم فانه لا یصیبکم امر تخصّون به و لا یصیب العامة و لایزال الزیدیة و قاء لکم ''

( مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام صادق نے فرمایا : اپنی زبان بندرکھو، اور اپنے گھروں میں بیھٹے رہو کیونکہ تمہیں وہ چیز نہیں ملے گی جو عام لوگوں کو نہیں لتی اور زیدیہ ہمیشہ تمہاری لاوں کی سپر رہیں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے مذکورہ حدیث قابل اعتما دنہیں ہے ، کیونکہ علی بن اسباط

۳۶۸

نے بعض ایسے اصحاب سے حدیث نقل کی ہے جو مجہول ہیں _ اس کے علاوہ طریق حدیث میں جعفر بن (محمد بن ) مالک ہیں کہ جنھیں علماء رجال کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث ششم :

علی بن احمد عن عبیدالله بن موسی العلوی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن منخل بن جمیل عن جابر بن یزید عن ابی جعفر الباقرعلیه السلام انه قال : اسکنوا ما سکنت السموات و لا تخرجوا علی احد فانّ امرکم لیسبه خفاء الا انّها آیة من الله عزّ و جل لیست من الناس

( مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام محمد باقر (ع) نے فرمایا : جب تک آسمان ساکن ہے اس وقت تک تم بھی سال رہو اور کسی کے خلاف خروج نہ کرو _ بے شک تمہارا امر مخفی نہیں ہے مگر خدا کی طرف سے ایک نشان ہے او راس کا اختیار لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ''_

سند حدیث

یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہے کیونکہ علم رجال کی کتابوں میں منخل بن جمیل کو ضعیف و فاسد الروایت قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

مذکورہ احادیث کا مفہوم کے تجزیہ سے قبل آپ کی توجہ ایک نکتہ کی طرف

۳۶۹

مبذول کرادینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اور ائمہ اطہار کے اصحاب ہمیشہ انقلاب مہدی موعود اور قائم آل محمد کے قیام کے منتظر رہے ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) سے سنا تھا کہ جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی عدل گستر مہدی ظہور فرمائیں گے اور ظلم و کفر کا قلع و قمع کریں گے _ دنیا میں اسلام کا بول با لاکریں گے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے _ شیعوں نے سنا تھا کہ ایسے انسان کا انقلاب کامیاب ہوگا اور تائید الہی اس کے شامل حال ہوگی _ اسی ل ے صدر اسلام کے بحرانی حالت میں قیام و قائم شیعوں کے درمیان گفتگو کا موضوع تھا _ وہ ائمہ اطہار سے کہتے تھے _ ہر جگہ ظلم و جور کی حکمرانی ہے _ آپ کیوں قیام نہیں کرتے _ کبھی دریافت کرتے تھے _ قائم آل محمد کیسا قیام کریں گے ؟ کبھی قائم آل محمد کے ظہور کی علامت کے بارے میں پوچھتے تھے _ ایسے حالات میں بعض علوی سادات موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور مہدی موعود قائم آل محمد کے نام سے انقلاب بپاکرتے تھے اور طاغوت کی حکومت کو برباد کرنے کے لئے جنگ کرتے تھے لیکن قلیل مدت میں شکست کھاجاتے تھے _

مذکورہ احادیث اسی زمانہ میں صادر ہوئی تھیں _ پس اگر امام اپنے اصحاب میں کسی ایک یا چند اشخاص سے یہ فرماتے ہیں کہ خاموش رہو _ شورش نہ کرو، خروج سفیانی اور آسمانی چیخ کے منتظر رہو، ان چیزوں کا مقصد اس بات کو سمجھانا تھا کہ جس شخص نے اس وقت قیام کیا ہے وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی موعود نہیں ہیں ، مجھے قائم موعود تصور نہ کرو _ قائم آل محمد کے ظہور تک صبر کرو ، اور ان کے قیام و انقلاب کی کچھ مخصوص علامات ہیں _ پس جو شخص بھی قیام و شورش کرے اور تم سے مدد مانگے تو پہلغ تم ان مخصوص علامتوں کو ان کی دعوت میں ملا حظہ کرلو اس کے

۳۷۰

بعد قبول کرلو اگر وہ علامتیں اس کی دعوت میں آشکار نہیں ہیں تو اس کے فریب میں نہ آو _ اسکی آواز پر لبیک نہ کہو اور سمجھ لو کہ وہ مہدی موعود نہیں ہے _ مذکورہ احادیث در حقیقت علوی سادات کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں جو کہ مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرتے تھے _ اور اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مہدویت کے دعویدار مہدی موعود نہیں ہیں _ ان کے

فریب میں نہ آجانا _ یہ احادیث مسلمانوں کے حتمی و ضروری فرائض جیسے وجوب جہاد، اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، ظلم و بیدادگری سے مبارزہ اور محرومین و مستضعفین سے دفاع کو منع نہیں کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ ظلم و ستم ، فحشا و منکرات ، کفر و الحاد یہاں تک کہ اسلام کو نابود کرنے کے سلسلے میں جو سازشیں کی گئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیا رکرو اور امام مہدی کے ظہور کا انتظارکرو کہ وہی دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ ایسی رکیک بات کو ائمہ معصومین کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا _ اگر سکوت واجب تھا تو حضرت علی نے اسلام کے دشمنوں سے کیوں جنگ کی ؟ اور اما م حسین نے یزید کے خلاف کیوں قیام کیا ؟ اور زید کے خونین انقلاب کی ائمہ نے کیون تائید کی ؟ اس بناپر مذکورہ احادیث کو قیام و انقلاب کے مخالف نہیں قرارد یا جاسکتا _

چوتھا حصہ

جو احادیث اس بات سے منع کرتی ہیں کہ انقلاب و تحریک میں عجلت سے کام نہ لو _

حدیث اول

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد عن محمدبن

۳۷۱

علی عن حفص بن عاصم عن سیف التمار عن ابی المرهف عن ابی جعفر علیه السلام قال : الغبرة علی من اثارها ، هلک المحاضیر قلت : جلعت فداک ، و ماالمحاضیر؟ قال المستعجلون اما انهم لن یریدوا الاّ من یعرض علیهم ( الی ان قال) یا ابا المرهف اتری قوماً جسو انفسهم علی الله لا یجعف الله لهم فرجاً؟ بلی والله لیجعلن الله لهم فرجاً _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام محمد باقر نے فرمایا: گردو غبار اس کی آنکھوں میں پڑتا ہے جواڑاتا ہے _ جلد باز ہلاک ہوتے ہیں حکومتیں ان لوگوں کو کچلتی ہیں جوان سے ٹکراتے ہیں _ اے ابو مرہف کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جو لوگ راہ خدا میں اپنی حفاظت کرتے ہیں _ خدا انھیں فراخی نہیںعطا کرے گا ؟ کیوں خدا کی قسم خدا انھیں ضرور کشائشے عطا کرے گا _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے حدیث صحیح نہیں ہے کیون کہ محمد بن علی کوفی ( محمد بن علی بن ابراہیم ) کو رجال کی کتابوں میں ضعیف شمار کیا گیا ہے جبکہ ابومرہف بھی مجہول ہے _

مفہوم حدیث

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس زمانہ میں ایک گروہ نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا تھا اور اس کی شورش کو کچل دیا گیا تھا _ اسی لئی راوی

۳۷۲

حدیث بھی خوف زدہ اور پریشان تھا کہ کہیں شیعوں پر بھی حرف نہ آئے _ اسی لئے اما م نے اسے تسلی دی کہ تم نہ ڈرو ان لوگوں کی چھان بین کی جائے گی جنہوں نے خروج کیا تھا _ تم پر آنچ نہیں آئے گی _ تم ظہور کے وقت تک خاموش رہو _ اس حدیث کو بھی قیام کے مخالف نہیں کیا جا سکتا _

حدیث دوم

'' الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن ابن قولویه عن ابیه عن احمد بن علی بن اسباط عن عمّه یعقوب بن سالم عن ابی الحسن العبیدی عن الصادق علیه السلام قال : ما کان عبد لیحبس نفسه علی الله الا دخله الجنة '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۲۹)

اما م صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے : جو شخص بھی خدا کیلئے صبر و پائیداری سے کام لیتا ہے خدا اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے گا _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

مفہوم حدیث

اس حدیث میں امام صادق نے نفس پر قابو رکھنے اور پائیداری سے کام لینے کا حکم دیا ہے _ لیکن سکوت و صبر کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قیام نہ کیا جائے قیام کے ساتھ صبر و پائیداری زیادہ مناسب ہے _

۳۷۳

حدیث سوم :

قال امیر المؤمین علیه السلام : الزموا الارض واصبروا علی البلاء و لا تحرکوا بایدیکم و سیوفکم فی هوی السنتکم ولا تستعجلوا بما لم یعجل الله لکم فانه من مات منکم علی فراشه و هو علی معرفة حق ربّه و حق رسوله و اهل بیته مات شهیدا ووقع اجره علی الله و استوجب ثواب ما نوی من صالح عمله وقامت النیة مقام اصلاته بسیفه فان لکل شیئی مدة واجلا

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۰)

حضرت امیر المومنین کا ارشاد ہے : زمین پکڑ کر بیٹھے رہو ، بلاؤں پر صبر کرو اور اپنی زبان کی بناپر تلوار اور ہاتھوں کو حرکت نہ دو ، جس کام میں خدا نے عجلت نہین کی ہے تم بھی اس میںتعجیل نہ کرو، بے شک جو بھی تم میں سے اس حال میں اپنے بستر پر مرے گا کہ خدا و رسول اور اہل بیت کی معرفت سے اس کا قلب سرشار ہو تو وہ شہید کی موت مرے گا اور اس کا اجر خدا پرہے _ او راسے اس نیت عمل کا بھی ثواب ملے گا _ جس کی نیت کی تھی تلوار چلانے کی نیت کا بھی ثواب ملیگا _ بے شک ہر چیز کا ایک مخصوص وقت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث نہج البلاغہ سے منقول ہے ، معتبر ہے _

حدیث چہارم :

۳۷۴

محمد بن یحیی عن محمد بن الحسین عن عبدالرحمن بن ابی هاشم عن الفضل الکاتب قال کنت عند ابی عبدالله علیه السلام فاتاه کتاب ابی مسلم فقال : لیس لکتابک و جواب اخرج عنا ( الی ان قال ) قلت : فما العلامة فیما بیننا و بین جعلت فداک؟ قال لا تبرح الارضه یا ف ضیل حتی یخرج السفیانی ، فاذا خرج السفیانی فاجیبوا الینا ، یقولها ثلاثاً ، و هو من المحتوم '' _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

فضل کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ ابو مسلم خراسانی کا خط آپ (ع) کے پاس پہنچا _ اما م نے حامل رقعہ سے فرمایا: تمہارا خط اس لائق نہیں ہے کہ اس کا جواب دیا جائے ، جاؤ ، خدا بندوں کی جلد بازی سے تعجیل نہیں کرتا ہے _ بے شک پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑکر پھینکنا آسان ہے لیکن اس حکومت کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جس کا وقت نہ آیا ہو _ راوی نے عرض کی : پس ہمارے اور آپ (ع) کے درمیان کیا علامت ہے ؟ فرمایا : سفیانی کے خروج تک اپنی جگہ سے حرکت نہ کرو ، اس وقت ہمارے پاس آنا ، اس بات کو آپ (ع) نے تین مرتبہ دھرایا چنانچہ سفیانی کا خروج حتمی علامت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _

حدیث پنجم :

محمد بن علی بن الحسین باسناده عن حماد بن عمرو و انس

۳۷۵

بن محمد عن ابیه عن جعفر بن محمد عن آبا ئ ه علیهم السلام ( فی وصیة النی صلی الله علیه و آله لعی علیه السلام ) قال : یا علی ازالة الجبال الرواسی اهون من ازالة ملک لم تنقض ایامه ''

( وسائل الشیعہ ج۱۱ ص ۳۸)

رسو ل خدا نے حضرت علی سے فرمایا : پہاڑوں کو اکھاڑنا آسان ہے لیکن ان حکومتوں کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جن کا وقت نہ آیا ہو _

سند حدیث

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حماد بن عمرو مجہول ہے چنانچہ انس بن محمد مہمل ہے اور اس کے والد محمد کو رجال کی کتابوں میں اہمیت نہیں دی گئی ہے _

حدیث ششم

حمید بن زیاد عن عبید الله بن احمد الدهقان عن علی بن الحسن الطاهری عن محمد بن زیاد عن ابان عن صباح بن سیابنه ع المعلی بن خنیس قال ذهبت بکتاب عبد السلام بن نعیم و سدیر و کتب غیر واحد الی ابیعبدلله علیه السلام حین ظهر المسودة قبل ان یظهر ولد العباس : انّا قدّرنا ان یؤل هذا الامر الیک فما تری ؟ قال : فضرب بالکتب الارض ، قال : اف اف ما انا لهؤلاء بامام ، اما یعلمون انه انما یقتل السفیانی '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

معلّی کہتے ہیں : میں عبد السلام سدیر اور دوسرے چند افراد کے خطوط

۳۷۶

لیکر امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، بنی عباس کے آشکار ہونے سے قبل کالے لباس والے ظاہر ہوئے _ خطوط کا مضمون یہ تھا _ ہم نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ حکومت و قیادت آپ کی دست اختیا ر میں دی جائے آپ (ع) کیا فرماتے ہیں ؟ امام (ع) نے خطوط کو زمین پر دے مارا اور فرمایا : افسوس ، افسوس ، میں ان کاامام نہیں ہوں _ کیا انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ مہدی موعود وہ ہے جو سفیانی کو قتل کریں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے اس حدیث پر بھی اعتماد نہین کیا جا سکتا کیونکہ صباح بن سیابہ مجہول ہے _

مفہوم حدیث

احادیث کے مفہوم کے تجزیہ سے قبل درج ذیل نکات کو مد نظر رکھئے :

۱_ ائمہ کے زمانہ میں شیعہ ہمیشہ حضرت مہدی کے ظہور و انقلاب کے منتظر رہتے تھے کہ اس کی خبر انہوں نے رسول سے سنی تھی _

۲_ اس زمانہ میں شیعہ بڑی مشکلوں میں مبتلا تھے ، خلفائے جور کی ان پر سخت نگاہ رہتی تھی _ قید میں ڈال دیئےاتے ، جلا وطن کردیئےاتے یا قتل کردیئےاتے تھے _

۳_ ہر چند علوی سادات میں سے ہر ایک ظالم حکومتوں کے خلافت قیام کرتا تھا اور وہ لوگ بھی ان کی مدد کرتے تھے جو زندگی سے عاجز آجاتے اور قیام کرنے والے

۳۷۷

کو مہدی موعود اور منجی بشریت سمجھتے تھے لیکن زیادن دن نہیں گزرتے تھے کہ قتل ہوجاتے تھے _

۴_ خلفائے وقت انقلاب اور قائم کے سلسلہ میں بہت زیادہ حساس تھے ، وہ ہمیشہ خوف و ہارس میں مبتلا اور حالات کے سلسلے میں پریشان رہتے تھے ، وہ علوی سادات خصوصاً ان کے سربرآوردہ افراد پر نظر رکھتے تھے _ مذکورہ احادیث ایسے ہی حالات میں صادر ہوئی ہیں _ جو شیعہ مختلف قسم کی بلاؤں میںمبتلا تھے وہ ائمہ سے قیام کرنے اور مسلمانوں کو غاصب حکومتوں سے نجات دلانے کے سلسلہ میں اصرار کرتے تھے یا علوی سادات میں سے ان لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت مانگتے تھے جو مہدی موعود کے نام سے خروج کرتے تھے _ ائمہ اطہار (ع) فرماتے تھے : مہدی موعود کے قیام کے سلسلے میں عجلت نہ کرو کہ ابھی اس کاوقت نہیں آیا ہے _ خروج کرنے والوں نے مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے خروج کیا ہے جب کہ وہ مہدی موعود ہیں ہیں _ مہدی موعود کے ظہور و قیام کی مخصوص علامات ہیں جو کہ ابھی تک آشکار نہیں ہوئی ہیں _ پھر قیام کرنے والوں نے ہماری امامت کے استحکام کیلئے قیام نہیں کیا ہے _ ان کا انقلاب بھی کامیاب ہونے والا نہیں ہے _ کیونکہ غاصب حکومتوں کی تباہی کے اسباب فراہم نہیں ہوئے ہیں _ حکومت کا تختہ پلٹنا بہت دشوار ہے _ فرماتے تھے : کشائشے حاصل ہونے تک صبر کرو_ اور قیام مہدی کے سلسلہ میں جلد نہ کرو کہ ہلاک ہوجاؤگے _ اور چونکہ تمہاری نیت اصلاح و قیام کی ہے اور اس کے مقدمات فراہم کرنا چاہئے ہو اس لئے تمہیں اس کا ثواب ملیگا _ بہر حال مذکورہ احادیث تعجیل کرنے اور کمزور تحریک سے منع کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ مکمل تحریک کے مقدمات فراہم کرنے کیلئے ظلم و ستم

۳۷۸

اور کفر و بے دینی سے مبارزہ نہ کرو ان احادیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ جہاد، دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کا فریضہ امام زمانہ کی غیبت میں ساقط ہے _ اس زمانہ میں لوگوں کو فساد کا تماشہ دیکھنا چاہئے صرف تعجیل ظہور امام زمانہ کیلئے دعا کریں _ چنانچہ ان احادیث کو انقلاب و تحریک کے مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا ہے _

پانچواں حصّہ

جو روایات حضرت قائم قائم کے ظہور سے قبل ہر پرچم کے بلند کرنے والے کو طاغوت قراردیتی ہیں _

حدیث اول :

محمد بن یحیی عن احمد بن محمد عن الحسین بن سعید عن حماد بن عیسی عن الحسین بن المختار عن ابی بصیر عن ابیعبدالله علیه السلام قال : کل رایة ترفع قبل قیام القائم فصابحها طاغوت یعبد من دون الله _

( وسائل الشیعہ ج ص ۳۷)

امام صادق (ع) کا ارشادہے : جو پرچم بھی قائم کے قیام سے قبل بلند کیا جائے گا اس کابلند کرنے والا شیطان ہے ، جو کہ خدا کے علاوہ اپنی عبادت کراتا ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _ اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

۳۷۹

حدیث دوم :

محمد بن ابراهیم النعمانی عن عبد الواحد بن عبدالله قال حدثنا احمد بن محمد بن ریاح الزهری قال حدثنا محمد بن العباس عن عیسی الحسینی عن الحسن بن علی بن ابی حمزة عن ابیه عن مالک بن اعین الجهنی عن ابی جعفر علیه السام انه قال کل رایة ترفع قبل رایة القائم فصاحبها طاغوت

( مستدر ک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر علیہ السام کا ارشاد ہے : جو پرچم بھی مہدی کے پرچم سے پہلے بلند کیا جائے گا ، اس کا بلند کرنے والا شیطان ہے _

سند حدیث

روایت کے معنی پرچم کے ہیں اور پرچم بلند کرنا کنایہ ہے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے اور صاحب پرچم عبارت ہے ہراس تحریک کے قائد سے جو کہ موجودہ حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے لوگوں سے مدد مانگتا ہے _ طاغوت یعنی ظالم و جابر شخص جو حریم الہی پر تجاوز کرے اور خدا کی حاکمیت کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنی حاکمیت قبول کرنے پر مجبور کرے _ جملہ یعبد من دون اللہ اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ صاحب پرچم حکومت خدا کے مقابلہ میں ایک حکومت بنانا چاہتا ہے اور دینی تمنّا پوری کرنا چاہتا ہے ایسے پرچم کے حامل کو طاغوت و شیطان کہا گیا ہے _ اس بناپر گزشتہ احادیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جو پرچم بھی قیام مہدی سے قبل بلند کیا جائیگا اور اس کا حامل لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا تو ایسے پرچم کا حامل شیطان ہے کہ جس نے

۳۸۰