آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181868 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

کی خدمت میں پہنچے _ اسی مجلس میں ایک محترم اور اجنبی شخص بھی موجود تھا _ اس اجنبی نے کہا : چند سال قبل میں نے کشتی کا سفر کیا تھا ، اتفاقاً ملاح راستہ بھٹک گیا اور ہمیں ایک سربستہ راز جزیرہ پر پہنچا دیا کہ جس کے بارے میں ہمیں کوئی علم و اطلاع نہیں تھی _ ناچار کشتی سے اترے اور اس سرزمین میں داخل ہوئے _ یہاں احمد بن محمد ان ممالک کی حیرت انگیز داستان اس اجنبی سے تفصیلا نقل کرتے ہیں اور داستان شروع کرتے ہیں _ اس داستان کو سننے کے بعد وزیر مخصوص کمرہ میں داخل ہوا اور اس کے بعد ہم سب کو بلایا اور کہا: جب تک میں زندہ ہوں اس وقت تک تمہیں کسی سے یہ داستان نقل کرنے کی اجازت نہیں ہے _ جب تک وزیر زندہ تھا ہم نے کسی سے بھی یہ داستان بیان نہ کی _(۱)

اجمالی طور پر داستان کی سند بیان کردی ہے تا کہ قارئین داستان کے ضعف کا اندازہ لگالیں تفصیل کے شائقین مذکورہ کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _

دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسی حکایتوں سے ایسے ممالک کا وجود ثابت نہیں کیا جا سکتا _ اول تو اس داستان کا راوی ایک مجہول آدمی ہے کہ جس کی باتوں کا کوئی اعتبارنہیں ہے _ ثانیاً یہ ممکن نہیں ہے کہ روئے زمین پر ایسے ممالک آباد ہوں اور ان کی کسی کو خبر نہ ہو خصوصاً دور حاضر میں کہ تمام زمین کی نقشہ کشی کردی گئی ہے جو دانشوروں کی توجہ کا مرکز ہے اس کے باوجود بعض لوگوں نے اس داستان سے ایسے خم ٹھوک کر دفاع کیا ہے جیسے اسلام کے مسلم ارکان سے کرتے ہیں _

____________________

۱_ انوار نعمانیہ طبع تبریز ج ۳ ص ۵۸_

۲۶۱

کہتے ہیں : ممکن ہے وہ ممالک ابھی تک موجود ہوں اور خدا اغیار و نامحرموں سے پوشیدہ رکھے ہوئے ہو _ لیکن میرے نقطہ نظر سے اس کے جواب کی ضرورت نہیں ہے _ میں نہیں جانتا کہ انھیں ایسے بے مدرک اور ضعیف موضوع کو ثابت کرنے کیلئے کس چیز نے مجبور کیا ہے کہتے ہیں بالفرض ایسے ممالک آج اگر موجود نہ ہوں تو بھی کہا جا سکتا ہے کہ وہ گزشتہ زمانوں میں تھے بعد میں نیست و نابود ہوگئے اور ان کے باشندے متفرق ہوگئے ہیں _ یہ احتمال بھی بے بنیاد ہے _ کیونکہ اگر ایسے وسیع اور شیعہ نشین ممالک آباد ہو تے تو بہت سے لوگون کو ان کی اطلاع ہوتی اور ان کے حالات و کوائف اجمالی طور پر سہی تاریخ میں ثبت ہوتے _ یہ بات محال معلوم ہوتی ہے کہ چند بڑے ممالک موجود ہوں اور کسی کو ان کی خبر نہ ہو اور یہ سعادت صرف ایک مجہول شخص کو نصیب ہونے کے بعد ان کے آثار صفحہ روزگار سے اس طرح مٹا دیئے جائیں کہ تاریخ اور آثار قدیمہ کی تحقیق میں بھی ان کا نام و نشان نہ ملے _

علامہ ، محقق شیخ آقا بزرگ تہرانی مذکورہ داستان کو صحیح نہیں سمجھتے بلکہ اسے شک کی نگاہ سے دیکھتے اور لکھتے ہیں _ یہ داستان محمد بن علی علوی کی کتاب تغازی کے آر میں نقل ہوئی ہے _ اس سے علی بن فتح اللہ کاشانی یہ سمجھ بیٹھے کہ مرقومہ داستان کتاب ہی کا جز ہے _ جبکہ یہ اشتباہ ہے _ ممکن نہیں ہے کہ داستان کتاب کا جز ہوکیونکہ یحیی بن ہبیر کہ جس کے گھر یہ قضیہ پیش آیا وہ سنہ۵۶۰ ھ میں مر چکا تھا اور کتاب تغازی کے مولف اس سے دوسو سال پہلے گزرے ہیں _ اس کے علاوہ داستان کے متن میں بھی تناقض ہے کیونکہ داستان کے ناقل احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ وزیر نے ہم سے عہد لیا کہ مذکورہ داستان کو تم میں سے کوئی بیان نہ کرے اور ہم نے

۲۶۲

اپنے عہد کو پورا کیا چنانچہ جب تک وہ زندہ رہا اس وقت تک کسی سے بیان نہیں کی _ اس بناپر اس داستان کی حکایت وزیر کی تاریخ وفات ۵۶۰ کے بعد ہوئی جبکہ داستان کے متن میں عثمان بن عبد الباقی کہتے ہیں : احمد بن محمد بن یحیی انباری کہتے ہیں کہ یہ داستان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے نقل کی گئی _(۱)

دوسری جگہ کہتے ہیں : عثمان بن عبد الباقی نے سات جمادی الثانی سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے حکایت کی کہ احمد بن محمد نے دس رمضان سنہ ۵۴۳ ھ میں مجھ سے بتایا : آپ جانتے ہیں کہ جمادی الثانی کے دو ماہ بعدرمضان ہے یہ کیسے ممکن ہے کہ حادثہ کے رونما ہونے سے دو ماہ قبل ہے یعنی جمادی الثانی میں اسے کسی سے بیان کیا جائے _

ہم امام زمانہ کے محل سکونت کے موضوع میں مجبور نہیں ہیں کہ زبر دستی پوچ دلیلوں سے ''جزائر خضرائ'' جابلقا اور جابرصا کو ثابت کریں یا کہیں : آپ(ع) نے اپنی سکونت کیلئے اقلیم ثامن کا انتخاب کیا ہے _

فہیمی : تو جزیرہ خضراء کی داستان کیا ہے ؟

ہوشیار : چونکہ وقت ختم ہونے والا ہے اس لئے بقیہ مطالب آئندہ جلسہ میں بیان کروں گا اور احباب رضامندہوں تو آئندہ میرے غریب خانہ ہی پر جلسہ منعقد ہوجائے _

____________________

۱_ الذریعہ ج ۵ ص ۱۰۶_

۲۶۳

جزیرہ خضراء

مقررہ وقت پر ہوشیار صاحب کے گھر جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _

جلالی : گزشتہ جلسہ میں شاید فہیمی صاحب نے جزیرہ خضراء کے بارے میں کوئی سوال اٹھایا تھا

فہیمی: میں نے سنا بلکہ امام زمانہ اور آپ کی اولاد جزیرہ خضراء میں زندگی بسر کرتے ہیں اس سلسلہ میں آپ کا نظریہ کیا ہے؟

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان کی حیثیت بھی افسانہ سے زیادہ نہیں ہے مرحوم مجلسی نے بحار الانوار میں اس داستان کو تفصیل سے نقل کیا ہے _ اجمال یہ ہے : میں نے نجف اشرف میں امیر المومنین (ع) کے کتب خانہ میں ،ایک رسالہ دیکھا تھا کہ نام جزیرہ خضراء کی داستان تھا _ اس قلمی رسالہ کے مؤلف فضل بن یحیی طبیبی ہیں _ انہوں نے تحریر کیا ہے کہ جزیرہ خضراء کی داستان میں نے ۱۵ / شعبان سنہ ۶۹۹ ھ کو اباعبداللہ علیہ السلام کے حرم میں شیخ شمس الدین اور شیخ جلال الدین سے سنی تھی _ انہوں نے زین الدین علی بن فاضل مازندرانی سے داستان نقل کی تھی _ مجھے شوق پیدا ہوا کہ خود ان سے داستان سنوں _

خوش قسمتی سے اسی سال شوال کے اوائل میں زین الدین شہر حلّہ تشریف لائے تو میں نے سید فخر الدین کے گھر ان سے ملاقات کی _ میں نے ان سے خواہش کی کہ جو داستا ن آپ نے شیخ شمس الدین و شیخ جلال الدین کو سنائی تھی وہ مجھے بھی سنا دیجئے انہوں نے فرمایا: میں دمشق میں شیخ عبد الرحیم حنفی اور شیخ زین الدین علی اندلسی

۲۶۴

سے تعلیم حاصل کرتا تھا _ شیخ زین الدین خوش طبع شیعہ اور علمائے امامیہ کے بارے میں اچھے خیالات رکھتا اوران کا احترام کرتا تھا_ ایک مدت تک میں نے ان سے علم حاصل کیا اتفاقاً وہ مصر تشریف لے جانے کیلئے تیار ہوئے چونکہ ہمیں ایک دوسرے سے بہت زیادہ عقیدت و محبت تھی اس لئے انہوں نے مجھے بھی اپنی ہمراہ مصر لے جانے کا فیصلہ کیا _ ہم دونوں مصر پہنچے اور قاہرہ میں اقامت گزینی کا قصد کیا _ تقریباً نو ماہ تک ہم نے وہاں بہترین زندگی گزاری _ ایک روز انھیں ان کے والد کا خط موصول ہوا ، خط میں تحریر تھا: میں شدید بیمارہوں ، میرا دل چاہتا ہے کہ مرنے سے قبل تمہیں دیکھ لوں _ استا د خط پڑھ کر رونے لگے اور اندلس کے سفر کا ارادہ کرلیا _ میں بھی اس سفر میں ان کے ساتھ تھا _ جب ہم جزیرہ کے اولین قریہ میں پہنچے تو مجھے شدید بیماری لا حق ہوگئی ، یہاں تک کہ چلنے پھرنے سے معذور ہوگیا _ میری کیفیت سے استاد بھی رنجیدہ تھے ،انہوں نے مجھے اس قریہ کے پیش نماز کے سپرد کیا تا کہ میری دیکھ بھال کرے اور خود اپنے وطن چلے گئے _ تین روز کی بیماری کے بعد میری حالت ٹھیک ہوگئی _ چنانچہ میں گھر سے نکل کر دیہات کی گلیوں میں ٹہلنے لگا _ وہاں میں نے کوہستان سے آئے ہوئے ایک قافلہ کو دیکھا جو کہ کچھ چیزیں لائے تھے _ میں نے ان کے بارے میں معلومات فراہم کیں تو معلوم ہوا کہ یہ بربر کی سرزمین سے آئے ہیں جو کہ رافضیوں کے جزیرہ سے قریب ہے ، جب میں نے رافضیوں کے جزیرہ کا نام سنا تو اسے دیکھنے کا شوق پیدا ہوا ، انہوں نے بتایا کہ یہاں سے پچیس روز کے فاصلے پر واقع ہے _ جس میں دو روز کی مسافت میں کہیں آبادی اور پانی نہیں ہے _ اس دو دن کی مسافت کو طے کرنے کے لئے میں نے گدھا کرایہ پر لیا اور اپنے سفر کا آغاز کیا یہاں تک کہ رافضیوں کے جزیرہ

۲۶۵

تک پہنچ گیا ، جزیرہ کے چاروں طرف دیواریں تھیں اور محکم و بلند گنبد بنے ہوئے تھے مسجد میں داخل ہوا _ مسجد بہت بڑی تھی، موذن کی آواز سنی ، اس نے شیعون کی اذان دی اور اس کے بعد امام زمانہ کے تعجیل کیلئے دعا کی _ خوشی سے میرے آنسو جاری ہوگئے _ لوگ مسجد میں آئے _ شیعوں کے طریقہ سے وضو کیا اور فقہ شیعہ کے مطابق نماز جماعت قائم ہوئی _ نماز اور تعقیبات کے بعد لوگوں نے مزاج و احوال پرسی کی _ میں نے اپنی روداد سنائی اور بتایا کہ میں عراقی الاصل ہوں _ جب انھیں یہ معلوم ہوا کہ میں شیعہ ہوں تو میرا بہت احترام کیا اور میرے قیام کے لئے مسجد کا حجرہ معین کیا _ پیش نماز صاحب بھی میرا احترام کرتے تھے اور شب و روز میرے پاس رہتے تھے _ ایک دن میں نے ان سے پوچھا اہل شہر کی ضرورت کی چیزیں اور خوراک کہاں سے آتی ہیں؟ مجھے یہاں کاشتکاری کی زمین نظر نہیں آتی ہے _ اس نے کہا: ان کا کھانا جزیرہ سے آتا ہے ، یہ جزیرہ بحرا بیض کے بیچ واقع ہے _ ان کے کھانے کی اشیاء سال میں دو مرتبہ جزیرہ سے کشتیوں کے ذریعہ آتی ہیں _ میں نے پوچھا کشتی آنے میں کتنا وقت باقی ہے؟ اس نے کہا : چارماہ _ طویل مدت کی وجہ سے مجھے افسوس ہوا لیکن خوش قسمتی سے چالیس دن کے بدن کشتیاں آگئیں اور یکے بعد دیگرے سات کشتیاں وارد ہوئیں _ ایک کشتی سے ایک وجیہہ آدمی اترا ، مسجد میں آیا ، فقہ شیعہ کے مطابق وضو کیا اور نماز ظہر و عصر ادا کی _ نماز کے بعد میری طرف متوجہ ہوا ، سلام کیا اور گفتگو کے دوران میرے اور میرے والدین کا نام لیا _ اس سے مجھے تعجب ہوا _ کیا آپ شام سے مصر اور مصر سے اندلس تک کے سفر میں میرے نام سے واقف ہوئے ہیں ؟ کہا: نہیں ، بلکہ تمہارا اور تمہارے والدین کے نام ، شکل و صورت اور صفات مجھ تک پہنچے ہیں _

۲۶۶

میں تمھیں اپنے ساتھ جزیرہ خضراء لے جاؤنگا _ ایک ہفتہ انہوں نے وہیں قیام کیا اور ضروری امور کی انجام دہی کے بعد سفر کا آغاز کیا _ سولہ دن سمندر کا سفر طے کرنے کے بعد مجھے بحرا بیض نظر آیا _ اس شیخ نے کہ جس کا نام محمد تھا ، مجھ سے پوچھا کس چیز کا نظارہ کررہے ہو؟ اس علاقہ کے پانی کا دوسرا رنگ ہے _ اس نے کہا: یہ بحرا بیض ہے اور یہ جزیرہ خضراء ہے ، پانی نے اسے دیواروں کی طرح چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور خدا کی حکمت ہے کہ جب ہمارے دشمنوں کی کشتیاں ادھر آنا چاہتی ہیں تو وہ صاحب الزمان کی برکت سے غرق ہوجاتی ہیں _ اس علاقہ کہ میں نے تھوڑا ساپانی پیا ، فرات کے پانی کی طرح شیرین و خوشگوارتھا _ بحرا بیض کا کچھ سفر طے کرنے کے بعد جزیرہ خضراء پہنچے کشتی سے اتر کر شہر میں داخل ہوئے _شہر بارونق تھا ، اس میں میوہ سے لدے ہوئے درخت اور چیزوں سے بھرے ہوئے بازار بہت زیادہ تھے اور اہل شہر بہترین زندگی گزار رہے تھے _ اس پر کیف منظر سے میرا دل باغ باغ ہوگیا _ میرا دوست محمد اپنے گھر لے گیا _ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد جامع مسجد گئے _ مسجد میں بہت سی جماعتیں تھیں اور ان کے درمیان ایک شخص تھا کہ جس کے جلال و عظمت کو میں بیان نہیں کرسکتا _ اس کا نام سید شمس الدین محمد تھا _ وہ لوگوں کو عربی ، قرآن ، فقہ اوراصول دین کی تعلیم دیتا تھا _ میں ان کی خدمت میں پہنچا تو انہوں نے مجھے خوش آمدید کہا: اپنے پاس بٹھایا ، مزاج پرستی کی اور کہا میں نے شیخ محمد کو تمہارے پاس بھیجا تھا _ اس کے بعد انہوں نے میرے قیام کے لئے مسجد کا ایک کمرہ معین کرنے کا حکم دیا _ ہم آرام کرتے اور شمس الدین اور ان کے اصحاب کے ساتھ کھانا کھاتے تھے _ اسی طرح اٹھارہ روز گزر گئے جب میں وہاں پہلے جمعہ میں حاضر ہوا تو دیکھا کہ

۲۶۷

سید شمس الدین نے نماز جمعہ واجب کی نیت سے ادا کی _ میں نے کہا : کیا امام زمانہ حاضر ہیں کہ واجب کی نیت سے نماز پڑھی ؟ کہا : امام حاضر نہیں ہیں لیکن میں ان کا خاص نائب ہوں ، میں نے کہا : کیا کبھی آپ نے امام زمانہ کو دیکھا ہے ؟ نہیں ، لیکن والد صاحب کہتے تھے کہ وہ امام کی آواز سنتے تھے مگر دیکھتے نہیں تھے ، ہاں دادا آواز بھی سنتے تھے اور دیکھتے بھی تھے_ میں نے کہا: میرے سید و سردار : کیا وجہ ہے کہ امام (ع) کو بعض لوگ دیکھتے ہیں اور بعض نہیں ؟ فرمایا: یہ بعض بندوں پر خدا کا لطف ہے _

اس کے بعد سید نے میرا ہاتھ پکڑا اور شہر سے باہر لے گئے _ وہاں میں نے ایسے باغات ، چمن زاروں ، نہروں اور بہت سے درختوں کا مشاہدہ کیا کہ جن کی نظیر عراق میں نہیں تھی _ واپسی کی وقت ایک حسین و جمیل آدمی سے ہماری ملاقات ہوئی _ میں نے سید سے پوچھا کہ یہ شخص کو ن تھا ؟ کہا: کیا اس بلند پہاڑ کو دیکھ رہے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں ، کہا: اس پہاڑ کے درمیاں ایک خوبصورت جگہ ہے اور درختوں کے نیچے ایک خوشگوار پانی کا سرچشمہ ہے وہاں اینٹوں کا بنا ہوا ایک گنبد ہے یہ شخص اس قبہ کا نگہبان و خدمت گار ہے _ میں ہر جمعہ کی صبح کو وہاں جاتا ہوں اور امام زمانہ کی زیارت کرتاہوں اور دو رکعت نماز پڑھنے کے بعد ایک کاغذ ملتا ہے کہ جس میں میری ضرورت کے تمام مسائل مرقوم ہوتے ہیں _ تمہارے لئے بھی ضروری ہے وہاں جاؤ اور اس قبہ میں امام زمانہ کی زیارت کرو _

میں اس پہاڑ کی جانب روانہ ہوا _ قبہ کو میں نے ایسا ہی پایا جیسا کہ مجھے بتایا گیا تھا _ وہاں وہ خادم بھی ملا _ میں نے ان سے امام زمانہ سے ملاقات کی خواہش کی انہوں نے کہا: ناممکن ہے اور ہمیں اس کی اجازت نہیں ہے _ میں نے کہامیرے لئے دعا کرو ،

۲۶۸

انہوں نے میرے لئے دعا کی ، اس کے بعد میں پہاڑ سے اتر آیا اور سید شمس الدین کے گھر کی طرف روانہ ہوا ان سے راستہ میں کہیں ملاقات نہ ہوئی _ میں اپنی کشتی کے ساتھ شیخ محمد کے گھر پہنچا اور پہاڑ کا ماجرا انھیں سنایا اور بتایا کہ ان خادموں نے مجھے ملاقات کی اجازت نہیں دی ہے _ شیخ محمد نے بتایا کہ وہاں سید شمس الدین کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہیں ہے _ وہ امام زمانہ کی اولاد سے ہیں _ ان کے اور امام زمانہ کے درمیان پانچ پشتیں ہیں وہ امام زمانہ کے خاص نائب ہیں _

اس کے بعد میں نے سید شمس الدین سے خواہس کی کہ میں اپنی بعض دینی مشکلیں آپ سے بیان کرنا چاہتا ہوں اور آپ کے سامنے قرآن مجید پڑھنا چاہتا ہوں کہ آپ مجھے صحیح قرائت بتادیں _ فرمایا: کوئی حرج نہیں _ پہلے میں نے قرآن شروع کیا _ تلاوت کے درمیان قاریوں کا اختلاف بیان کیا تو سید نے کہا : ہم ان قرائتوں کو نہیں جانتے ہماری قرائت تو حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کے قرآن کے مطابق ہے _ اس وقت انہوں نے حضرت علی (ع) کے جمع کردہ قرآن کا واقعہ بیان کیا اور بتایا کہ ابوبکر نے اسے قبول نہیں کیا تھا _ بعد میں ابوبکر کے حکم سے قرآن جمع کیا گیا اور اس سے بعض چیزیں حذف کردی گئی ہیں _ چنانچہ آپ نے دیکھا ہوگا کہ آیت کے قبل و بعد میں ربط نہیں ہے _ سید کی اجازت کے بعد تقریباً میں نے نوے مسائل ان سے نقل کئے خاص کے علاوہ کسی کو ان کے نقل کی اجازت نہیں دیتا ہوں _

اس کے بعد اپنی مشاہدہ کردہ دوسری داستان نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : میں نے سید سے عرض کی : امام زمانہ سے ہمارے پاس کچھ احادیث پہنچی ہیں جن کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص زمانہ غیبت میں رویت کا دعوی کرے وہ جھوٹا ہے _ جبکہ آپ

۲۶۹

کہتے ہیں ہم سے بعض کی امام سے ملاقات ہوتی ہے ، اس حدیث اور آپ کے بیان میں کیسے توافق ہوسکتا ہے ؟ فرمایا: یہ احادیث صحیح ہیں ، لیکن اس وقت کے لئے تھیں جب بنی عباس میں سے آپ(ع) کے بہت سے دشمن تھے _ مگر اس زمانہ میں دشمن آپ سے مایوس ہوچکے ہیں اور ہمارے شہر بھی ان سے دور ہیں کسی کی دست رسی اس میں نہیں ہے ، لہذا اب ملاقات میں کوئی خطرہ نہیں ہے _

میں نے کہا: سید شیعہ امام سے کچھ احادیث نقل کرتے ہیں کہ خمس آپ نے شیعوں کے لئے مباح کیاہے _ کیا آپ نے اما م سے یہ حدیث سنی ہے کہ امام نے خمس کو شیعوں کیلئے مباح کیا ہے _ اس کے بعد وہ سید سے کچھ اور مسائل نقل کرتے ہیں اور کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: تم نے بھی ابھی تک امام کو دو مرتبہ دیکھا ہے لیکن پہچان نہیں سکے _

خاتمہ میں کہتے ہیں : سید نے مجھ سے کہا: مغربی ممالک میں قیام نہ کرو، جتنی جلد ہوسکے عراق پلٹ جاؤ_ چنانچہ میں نے ان کے حکم کے مطابق عمل کیا _

ہوشیار: جزیرہ خضراء کی داستان ایسی ہی ہے جیسا کہ میں نے اس کا خلاصہ آپ کے سامنے بیان کیا ہے _ آخر میں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری ہے کہ مذکورہ داستان کا کوئی اعتبار نہیں ہے بلکہ افسانہ کی حیثیت ہے کیونکہ :

اولاً: اس کی سند معتبر و قابل اعتماد نہیں ہے _ یہ داستان ایک مجہول قلمی نسخے سے نقل کی گئی ہے چنانچہ اس کے متعلق خود مجلسی لکھتے ہیں : چونکہ مجھے یہ داستان معتبر کتابوں میں نہیں ملی ہے اس لئے میں نے اس کو الگ باب میں نقل کیا ہے ( تا کہ کتاب کے مطالب سے مخلوط نہ ہوجائے )

ثانیاً: داستان کے مطالب کے درمیان تناقض پایاجاتا ہے جیسا کہ آپ نے

۲۷۰

ملاحظہ فرمایا: سید شمس الدین ایک جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں : '' میں امام زمانہ کا خاص نائب ہوں اور ابھی تک امام زمانہ کو نہیں دیکھا ہے _ میرے والد نے بھی نہیں دیکھا تھا لیکن ان کی آواز سنتے تھے جبکہ میرے دادا دیکھتے اور آواز سنتے تھے '' _ لیکن یہی سید شمس الدین دوسری جگہ داستان کے راوی سے کہتے ہیں :'' میں ہر جمعہ کی صبح کو امام کی زیارت کے لئے جاتا ہوں ، بہتر ہے تم بھی جاؤ'' ، داستان کے راوی سے شیخ محمد نے بھی یہی کہا تھا کہ صرف سید شمس الدین اور انہی جیسے لوگ امام کی خدمت میں مشرف ہو سکتے ہیں _ ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ فرما رہے ہیں کہ ان مطالب میں کتنا تناقض ہے _ قابل توجہ بات یہ ہے کہ سید شمس الدین جانتے تھے کہ اپنے علاوہ کسی کو زیارت کے لئے نہیں لے جاتے تو پھر داستان کے راوی سے یہ تجویز کیسے پیش کی کہ ملاقات کے لئے پہاڑ پر جاؤ_

ثالثاً : مذکورہ داستان میں تحریف قرآن کی تصریح ہوئی ہے جو کہ قابل قبول نہیں ہے اور علمائے اسلام شدت کے ساتھ اس کا انکار کرتے ہیں _

رابعاً: خمس کے مباح ہونے والا موضوع بھی کہ جس کی تائید کی گئی ہے فقہا کی نظر میں صحیح نہیں ہے _

بہر حال داستان رومانٹک انداز میں بنائی گئی ہے ، لہذا بہت ہی عجیب و غریب معلوم ہوتی ہے _ زین الدین نامی ایک شخص عراق سے تحصیل علم کے لئے شام جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتا ہے ، وہاں سے اپنے استاد کے ساتھ مصر جاتا ہے اور وہاں سے پھر اپنے استاد ہی کے ہمراہ اندلس جاتاہے ، طویل سفر طے کرتا

۲۷۱

ہے _ وہاں بیمار پڑتا ہے _ اس کا استاد اسے چھوڑدیتا ہے _ افاقہ کے بعد ، رافضیوں کے جزیرہ کا نام سن کر اس جزیرہ کو دیکھنے کا ایسا اشتیاق پیدا ہوتا ہے کہ اپنے استاد کو بھول جاتا ہے _ خطرناک اور طویل سفر طے کرکے رافضیوں کے جزیرہ پہنچتا ہے _ جزیرہ میں زراعت نہیں ہوتی لہذا پوچھتا ہے کہ یہاں کے لوگوں کی غذ ا کہاں سے آتی ہے ؟ جواب ملتا ہے کہ ان کی غذا جزیرہ خضراء سے آتی ہے ، باوجودیکہ لوگوں نے بتا یا تھا کہ چار ماہ کے بعد کشتیاں آئیں گی لیکن اچانک چالیس ہی دن کے بعد آجاتی ہیں ، ساحل پر لنگر انداز ہوتی ہیں اور ایک ہفتہ کے بعد اسے (راوی کو) اپنے ساتھ لے جاتے ہیں _ بحر ابیض کے وسط میں سفید پانی دیکھتا ہے جو کہ شیرین و گوارا بھی ہے اس کے بعد ناقابل عبور جگہ سے گزر کر جزیرہ خضراء میں داخل ہوتا ہے

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک عراقی طویل سفر طے کرنے کے بعد مختلف ممالک کے لوگوں سے گفتگو کرتا ہے اور ان سب کی زبان جانتا ہے ، کیا اندلس کے باشندے بھی عربی بولتے تھے؟

دوسری قابل توجہ بات بحر ابیض کی داستان ہے _ آپ جانتے ہیں کہ بحر ابیض روس کی جمہوریاؤں کے شمال میں واقع ہے _ وہاں یہ واقعہ نہیں پیش آسکتا تھا _ البتہ بحر متوسط کو بھی بحر ابیض کہتے ہیں _ ممکن ہے یہ داستان وہاں کی ہو لیکن اس پورے سمندر کو بحر ابیض کہا جا تا ہے نہ کہ اس مخصوص علاقہ کو جسے داستان کے راوی نے سفید محسوس کیا تھا _ اگر کوئی مذکورہ داستان میں مزید غور کرے گا تو اس کا جعلی ہونا واضح ہوجائے گا _

خاتمہ پر اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے _ جیسا کہ اس سے قبل آپ

۲۷۲

ملاحظہ فرما چکے ہیں _ ہماری احادیث میں بیان ہوا ہے کہ امام زمانہ اجنبی کی طرح لوگوں کے درمیاں رہتے ہیں _ عام مجموع اور حج میں شرکت کرتے ہیں اور بعض مشکلات کے حل میں لوگوں کی مدد کرتے ہیں _

اس مطلب کے پیش نظر امام زمانہ ، مستضعفین اور حاجت مندوں کی امید کا دور افتادہ علاقہ ، سمندر کے بیچ میں اقامت گزیں ہونا نہایت ہی نا انصافی ہے _ آخر میں معذرت خواہ ہوں کہ ایسی غیر معتبر داستان کی تشریح کیلئے آپ کا قیمتی وقت لیا _

جلالی : امام زمانہ کی اولا ہیں یا نہیں ؟

ہوشیار: ایسی کوئی دلیل نہیں ہے کہ جو شادی اور اولاد کا قطعی و یقینی طور پر اثبات و نفی کرتی ہو _ البتہ ممکن ہے خفیہ طور پر شادی کی ہو اور ایسے ہی اولا د کا بھی کسی کو علم نہ ہو اور جیسے مناسب سمجھتے ہوں عمل کرتے ہوں اگر چہ بعض دعاؤں کی دلالت اس بات پر ہے کہ امام زمانہ کی اولاد ہے یااس کے بعد پیدا ہوگی _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۱۷_

۲۷۳

ظہور کب ہوگا؟

ڈاکٹر : مہدی موعو د کب ظہور فرمائیں گے ؟

ہوشیار: ظہور کے لئے کسی وقت کی تعیین نہیں ہوئی ہے بلکہ وقت کی تعیین کرنے والے کو ائمہ اطہار علیہم السلام نے جھوٹا قرار دیا ہے چند احادیث ملاحظہ فرمائیں :

فضل کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : کیا مہدی کے ظہور کا وقت معین ہے ؟ امام (ع) نے جواب میں تین مرتبہ فرمایا:

''جو شخص ظہور کے وقت کی تعیین کرتا ہے وہ جھوٹا ہے ''(۱)

عبد الرحمن بن کثیر کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ مہزم اسدی آئے اور عرض کی : میں آپ(ع) کے قربان ، قائم آل محمد (ص) کا ظہور اور حکومت حق کی تشکیل ، کہ جس کے آپ منتظر ہیں ، کب ہوگا ؟ آپ (ع) نے جواب دیا :

'' ظہور کے وقت کی تعیین کرنے والا جھوٹا ہے ، تعجیل کرنے والے ہلاک ہوتے ہیں اور سراپا تسلیم لوگ نجات پاتے ہیں اور

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲۷۴

ان کی بازگشت ہماری طرف ہوتی ہے ''(۱)

محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام صادق (ع) نے مجھ سے فرمایا :

''جو شخص وقت ظہور کی تعیین کرتاہے _ اس کی تکذیب کرنے میں خوف محسوس نہ کرو کیونکہ ہم ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کرتے '' _ اس سلسلہ میں دس احادیث اور ہیں _(۲)

ا ن احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) نے ظہور کے وقت کی تعیین نہیں کی ہے اور ہر غلط فائدہ اٹھائے والے کا راستہ بند کردیا ہے _ پس اگر امام کی طرف کسی ایسی حدیث کی نسبت دی جائے کہ جس میں وقت کی تعیین کی گئی ہو تو اسکی تاویل کی جائے اگر قابل تاویل ہے یا اس کے بارے میں سکوت کرنا چاہئے یا اسکی تکذیب کرنا چاہئے جیسے ابولبید مخزومی کی ضعیف و مجمل حدیث میں امام کی طرف بعض مطالب کی طرف نسبت دی گئی ہے او ران کے ضمن میں کہا ہے کہ ہمارا قائم '' الر'' میں قیام کرے گا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۱۰۳_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۴_

۳_ بحاراالانوار ج ۵۲ ص ۱۰۶_

۲۷۵

ظہور کی علامتیں

انجینئر: ظہور کی علامتیں کہاں تک صحیح ہیں؟

ہوشیار: صاحب الامر (ع) کے ظہور کی بہت سی علامتیں احادیث کی کتابوں میں بیان ہوئی ہیں لیکن اگر ہم ان سب کو بیان کریں تو بحث طولانی ہوجائیگی اور کئی جلسے اس میں گزر جائیں گے لیکن یہاں چند ضروری باتوں کی وضاحت کردینا ضروری ہے :

الف: بعض علامتوں کا مدرک ، خبر واحد ہے کہ جس کی سند و طریق میں غیر موثق اور مجہول الحال اشخاص ہیں لہذا مفید یقین نہیں ہے _

ب: اہل بیت کی احادیث میں ظہور کی علامتوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے _ ان میں سے ایک حتمی و ضروری ہے ، اس میں :وئی قید و شرط نہیں ہے ان کا ظہور سے قبل واقع ہونا ضروری ہے _ دوسری قسم حتمی نہیں ہے یہ وہ حوادث ہیں جو ظہور کی حتمی علامت نہیںہیں بلکہ شرط سے مشروط ہیں اگر شرط واقع ہوگی تو یہ بھی ہوں گے اور اگر شرط نہ ہوگی تو یہ بھی نہ ہوں گے _ لہذا انھیں اجمالی طور پر ظہور کی علامتوں میں شمار کرنے میں مصلحت تھی _

ج _ جو چیزیں ظہور کی علامت ہیں وہ جب تک واقع نہ ہونگی اس وقت تک

۲۷۶

صاحب الامر کا ظہور نہیں ہوگا اور ان کا وقوع اس بات کی دلیل ہے کہ فرج کا زمانہ ایک حد تک قریب آگیا ہے _ لیکن یہ ضروری نہیں ہے کہ ان علامتوں کے واقع ہوتے ہی بلا فصل امام زانہ کا ظہور ہوجائے گا _ لیکن ان میں سے بعض کی تصریح ہوئی ہے کہ وہ امام کے ظہور سے نزدیک واقع ہونگی _

د_ ظہور کی بعض علامتیں معجزانہ اور خارق العادت کے طور پر واقع ہونگی تا کہ مہدی موعود کے دعوے کے صحیح ہونے کی تائید کریں اور دنیا کے غیر معمولی حالات کو بیان کریں _ یہ علامتیں ایسی ہی ہیں جیسے دیگر معجزات اور صرف اس لئے انھیں رد نہیں کیا جا سکتا کہ وہ معمولی حالات کے موافق نہیں ہیں _

ھ_ ظہور کی علامتوں کی ایک قسم کتابوں میں ہمیں نظر آتی ہیں کہ جن کا واقع ہونا محال معلوم ہوتا ہے جیسا کہ یہ کہا گیا ہے ظہور کے وقت مغرب سے سورج نکلے گا اور نصف ماہ رمضان میں سورج گہن لگے گا اور پھر اسی مہینہ کے نصف آخر میں گہن لگے گا _ دانشوروں پر یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ ایسے حوادث کے واقع ہونے سے کائنیات کا نظام درہم و برہم ہوجائے گا _ اور شمسی نظام کی گردش میں تبدیلی آجائے گی _ لیکن واضح رہے ان علامتوں کا مدرک بھی خبر واحد ہے جو کہ مفید یقین نہیں ہے _ ان کی سند میں خدشہ وارد کرنے والا کہہ سکتا ہے کہ یہ بنی امیہ و بنی عباس کے خلفا کی جعل کی ہوئی ہیں _ کیونکہ اس زمانہ میں بعض لوگ حکومت وقت کے خلاف مہدی موعود کے عنوان سے قیام کرتے تھے اور اس طرح بہت سے لوگوں کو اپنا ہمنوا بنالیتے تھے _ خلفائے وقت نے جب یہ محسوس کیا کہ مہدی سے متعلق اصل احادیث کا انکار ممکن نہیں ہے تب انہوں نے دوسرا طریقہ سوچا تا کہ علویوں

۲۷۷

کی نہضت و تحریک کو مختل کیا جا سکے اور لوگوں کو اس سے بازر کھا جا سکے _ اس لئے انہوں نے محال علامتیں جعل کیں تا کہ لوگ ان علامتوں کے منتظر رہیں اور علویوں کی بات نہ مانیں _ اگر صحیح احادیث ہوتیں تو کوئی بات نہ تھی ایسی علامتیں معجزانہ طور پروجود میں آئیں گی تا کہ کائنات کے غیر معمولی حالات کا اعلان کریں اور حکومت حق کی ترقی کے اسباب فراہم کریں _

۲۷۸

سفیانی کا خروج

انجینئر: ظہور کی علامتوں میں سے ایک سفیانی ہے _ یہ کون ہے اور اس کا قصہ کیا ہے؟

ہوشیار: بہت سی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ صاحب الامر (عج) کے ظہور سے پہلے ابو سفیان کی نسل سے ایک شخص خروج کرے گا _ اس کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ظاہراً اچھا آدمی ہے ہمیشہ اس کی زبان پر ذکر خدا ہے _ لیکن بدترین و خبیث ترین انسان ہے _ بہت سے لوگوں کو اپنا گرویدہ بنالے گے ، اپنے ہمراہ لے کر چلے گا ، پانچ علاقوں ، شام ، حمص ، فلسطین ، اردن ، اور قنسرین پر قابض ہوجائے گا اور بنی عباس کی حکومت کو ہمیشہ کے لئے نابود کردے گا _ بے شمار شیعوں کو قتل کریگا اس کے بعد صاحب الامر (عج) کا ظہور ہوگا تو وہ امام زمانہ سے جنگ کے لئے اپنا لشکر بھیجے گا لیکن مکہ و مدینہ کے درمیان اس کا لشکر زمین میں دھنس جائے گا _

جلالی : آپ جانتے ہیں کہ بنی عباس کی حکومت مدتوں پہلے ختم ہوچکی ہے اس کا کہیں نام و نشان بھی باقی نہیں ہے کہ جسے سفیانی نابود کرے :

ہوشیار: امام موسی کاظم علیہ السلام کا ارشاد ہے کہ:

'' بنی عباس کی حکومت فریب و نیرنگ سے وجود میں آئی ہے لہذا یہ اس طرح

۲۷۹

تباہ ہوگی کہ اس کا کہیں نشان بھی نہیں ملے گا ، لیکن پھر وجود میں آئے گی اور اس طرح اوج پر پہنچے گی گویا اسے کوئی دھچکاہی نہیں لگاتھا _''(۱)

اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بنی عباس کی دوبارہ حکومت ہوگی اور آخری مرتبہ سفیانی کے ہاتھوں تباہ ہوگی _ ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ سفیانی کے خروج کو ضروری کہا گیا ہے لیکن اس کے خروج کا زمانہ اور کیفیت معلوم نہیں ہے یعنی ممکن ہے بنی عباس کی حکومت کی تباہی سفیانی کے ہاتھوں نہ ہو بلکہ دوسروں کے توسط سے ہو _

فہیمی: میں نے سنا ہے : چونکہ خالد بن یزید بن معاویہ بن ابی سفیان کے دل میں خلافت کی آرزو تھی اور وہ بنی مروان کے ہاتھوں میں خلافت کی زمام دیکھتا تھا اس لئے اس نے بنی امیہ کی حوصلہ افزائی کیلئے خروج سفیانی کی داستان گھڑی خالد کے بارے میں صاحب اغانی لکھتے ہیں :

''وہ عالم و شاعر تھا ، کہا جاتاہے کہ سفیانی کی حدیث کو اسی نے جعل کیا ہے ''(۲)

طبری لکھتے ہیں :'' علی بن عبداللہ بن خالد بن یزید بن معاویہ نے شام میں سنہ ۱۵۹ میں خروج کیا تھا وہ کہتا تھا _ میں سفیانی منتظر ہوں ، اس طرح لوگوں کو اپنی طرف کھینچتا تھا _(۲) ان تاریخی شواہد سے واضح ہوتا ہے کہ سفیانی کا خروج جعلی چیز ہے _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۵۰ _

۲_ اغانی ج ۱۶ ص ۱۷۱ _

۳_ طبری ج ۷ ص ۲۵_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

کیلئے قیام کرے گا وہ مشکلوں میں گرفتار اور شکست سے دوچار ہوگا _ اوریہ اس وقت تک ہوگا جب تک ایسے افراد قیام نہ کریں گے جیسے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور مجاہدوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ، ان میں سے کوئی شہید نہیں ہوا کہ دفن کیا جاتا ، کوئی مجرو ح نہیں ہوا جس کا علاج کیا جاتا ، راوی کہتا ہے : اما م کی مراد کون لوگ ہیں ؟ فرمایا: وہ ملائگہ ہیں جو جنگ بدر میں اسلامی لشکر کی مدد کیلئے نازل ہوئے تھے''_

حدیث چہارم:

ابوالجارود عن ابی جعفر علیه السلام قال قلت له اوصنی فقال اوصیک بتقوی الله و ان تلزم بیت و تقعد فی دهمک هؤلاء الناس وايّاک و الخوارج منّا فانهم لیسوا علی شیئی (الی ان قال) و اعلم انه لا تقوم عصابة تدفع ضیماً او تعزّدینا الاّ صرعتهم البلیة حتی تقوم عصابة شهدوا بدراً مع رسول الله صلی الله علیه و آله لا یواری قتیلهم و لا یرفع صریعهم و لا یداوی جریحهم ، فقلت : من هم ؟ قال : الملائکة _

(مستدرک ج ۲ ص ۲۴۸)

ابوجارود کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : مجھے کچھ وصیت فرمایئے فرمایا : میں تمہیں خدا کا تقوی اختیار کرنے اوراپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور خفیہ طریقے سے ان ہی لوگوں میں زندگی گزارو اور ہم میں سے قیام کرنے والوں سے اجتناب کرو _

۳۶۱

کیونکہ وہ حق پر نہیں ہیں اور ان کا مقصد صحیح نہیں ہے ( یہاں تک کہ فرمایا:) جان لو جو گروہ بھی ظلم مٹانے اور اسلام کی سربلندی اور اقتدار کیلئے قیام کرے گا اسی کو بلائیں اور مصیبتیں گھر لیں گی ، یہاں تک وہ لوگ قیام کریں گے جو کہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے _ ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا تھاکہ دفن کیا جاتا ، زمین پر نہیں گرا تھا کہ اٹھایا جاتا ، مجروح نہیں ہوا تھا کہ علاج کیاجاتا ، راوی نے عرض کی یہ کون لوگ ہیں ؟فرمایا : ملائکہ '' _

سند حدیث

مذکور ہ تینوں حدیثیں سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہیں کیونکہ ان کا راوی ابوالجارود ہے جو کہ زید ی المسلک تھا اور خود فرقہ جارودیہ کا بانی ہے _ رجال کی کتابوں میں اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

ان احادیث میں امام نے ان شیعوں کو ایک خارجی حقیقت سے خبردار کیا ہے جو کہ قیام کرنے کا اصرار کرتے تھے _ آپ نے فرمایا ہے ہم ائمہ میں سے جو بھی مہدی موعود کے قیام سے پہلے قیام کرے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا اور شہید کردیا جائے گا او راس کی شکست اسلام کے حق میں نہیں ہے _ ہم اہل بیت میں سے صرف انقلاب مہدی کامیاب ہوگا کہ جن کی مدد کیلئے خدا کے فرشتے نازل ہوں گے _ یہ احادیث ائمہ کے قیام کی خبر دے رہی ہیں اور ان کے قیام نہ کرنے

کی علت بیان کررہی ہیں ، دیگر انقلابات سے ان کا تعلق نہیں ہے _

۳۶۲

اگر حدیث میں وارد لفظ ''منّا'' سے امام کی مراد علوی سادات ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جو انقلاب بھی علویوں میں سے کسی کی قیادت میں آئے گا وہ پامال ہوگا اور قائد قتل ہوگا تو بھی اس کی دلالت قیام و انقلاب سے ممانعت پر نہیں ہے بالفرض اگر یہی حقیقت ہے _ تو احادیث ایک خارجی حقیقت کو بیان کررہی ہیں اور وہ یہ کہ انقلاب مہدی سے پہلے جو انقلاب رونما ہوں گے وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوں گے اور اس کا سردار قتل ہوگا لیکن یہ احادیث راہ خدا میں جہاد جیسے قطعی و مسلم فریضہ ، اسلام اور مسلمانوں سے دفاع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظلم و بیدادگری اور استکبار سے مبارزہ کو ساقط نہیں کرتی ہیں _ قتل ہوجانے کی خبر اور شیء ہے اور فرض کرنا دوسری چیز ہے _ امام حسین (ع) کو بھی اپنی شہادت کا علم تھا لیکن اس کے باوجود نظام اسلام سے دفاع کی خاطر یزید کی طاغوتی حککومت کے خلاف قیام کیا _ اپنا فرض پورا کیا اور جام شہادت نوش فرمایا _ اسی طرح زیدبن علی بن الحسین اگر چہ اپنی شہادت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سن چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے شرعی فریضہ پر عمل کیا اور اسلام و قرآن سے دفاع کیلئے قیام کیا اور شہادت سے ہمکنار ہوئے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ راہ خدا میں جہاد ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور محروم و مستضعفین سے دفاع کریں خواہ اس سلسلے میں ان کے بہت سے آدمی شہید ہوجائیں _ کیونکہ شہید ہونا شکست کے مترادف نہیں ہے _ حق تو یہ ہے کہ اسلام نے جو کچھ دنیا میں ترقی کی ہے اور باقی رہا ہے تو یہ امام حسین اور آپ کے اصحاب اور زید بن علی یحیی بن زید و حسین شہید فتح ایسے فداکار انسانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جنہوں نے قطعی طور پر اپنی جان کی پروا نہیں کی تھی _ اس بنا پر مذکورہ احادیث مسلمانوں سے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرعی فریضہ کو ساقط

۳۶۳

نہیں کر سکتی ہیں _

اس پر جلسہ کا اختتام ہوا اور آئندہ شنبہ کی شب میں فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

فہیمی : ہوشیار صاحب اپنی بحث کی تکمیل کیجئے _

ہوشیار: تیسرا حصّہ

جو احادیث ظہور امام مہدی کی علامتوں کے ظاہر ہونے سے قبل کسی بھی قیام و انقلاب سے اجتناب کا حکم دیتی ہیں _

حدیث اوّل :

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عثمان بن عیسی عن بکر بن محمد عن سدیر قال ، قال ابوعبدالله علیه السلام : یا سدیر الزم بیتک و کن حلساً من احلاسه و اسکن ما سکن اللیل و النهار فاذا بلغک ان السفیانی قدخرج فارحل الینا و لو علی رجلک

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام صادق (ع) نے سدیر سے فرمایا: اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور جب تک شب و روز ساکن ہیں تم بھی جنبش نہ کرو جب یہ سنو کہ سفیانی نے خروج کیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آنا خواہ پیادہ ہی آنا پڑے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے قطعی قابل اعتماد نہیں ہے _ کیونکہ سند میں عثمان بن سعید بھی ہیں جو کہ واقفی ہیں _ امام موسی بن جعفر کی حیات میں آپ (ص) کے

۳۶۴

وکیل تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد واقفی ہوگئے تھے اورامام رضا (ع) کے پاس سہم امام نہیں بھیجتے تھے اسی وجہ سے امام رضا (ع) ان سے ناراض ہوگئے تھے _ اگر چہ بعد میں توبہ کرلی اور امام کی خدمت مین اموال بیھیجنے لگے تھے _ اسی طرح سدیر بن حکیم صیرفی کا ثقہ ہونا بھی مسلم نہیں ہے _

حدیث دوم

احمد عن علی بن الحکم عن ابی ایوب الخزاز عن عمر بن حنظله قال سمعت ابا عبدالله علیه السلام یقول: خمس علامات قبل القیام القائم : الصیحة والسفیانی و الخسف و قتل النفس الزکیة و الیمانی ، فقلت جعلت فداک ان خرج احد من اهل بیتک قبل هذاه العلامات انخرج معه؟ قال : لا_

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

''امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں _ قائم کے انقلاب و قیام سے قبل پانچ علامتیں ظاہر ہوں گے ۱_ آسمانی چیخ ۲_ خروج سفیانی ۳_ زمین کے ایک حصہ کا دھنس جانا ۴_ نفس زکیہ کا قتل ۵_ یمانی کا خروج راوی نے عرض کی فرزند رسول (ع) اگر آپ حضرات میں سے کوئی علائم ظہور سے قبل قیام کرے تو ہم بھی اس کے ساتھ خروج کریں ؟ فرمایا نہیں _

سند حدیث

مذکورہ حدیث قطعہ قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ عمر بن حنظلہ کی توثیق ثابت نہیں ہے _

۳۶۵

حدیث سوم :

محمد بن الحسن عن الفضل بن شاذان عن الحسن بن محبوب عن عمرو بن ابی المقدام عن جابر عن ابی جعفر علیه السلام قال : الزم الارض و لا تحرک یداً ولا رجلاً حتی تری علامات اذکرها لک وما اراک تدرکها : اختلاف بنی فلان و منا دینادی من السماء و یجیئکم الصوت من ناحیة دمشق

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۱)

جابر کہتے ہیں کہ : حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: زمین نہ چھوڑو ، اپنے ہاتھ اور پیر کو حرکت نہ دو یہاں تک وہ علامت ظاہر ہوجائے جو میں تمہیں بتاتا ہوں شائد تم درک نہیں کروگے : فلان خاندان _ شائد بنی عباس _ کا اختلاف آسمانی منادی کی ندا اور شام کی طرف سے آنے والی آواز ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث بھی قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ عمر بن ابی المقدام مجہول ہے _ شیخ الطائف نے فضل بن شاذان سے دو طریقوں سے روایت کی ہے اور دونوں کو ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث چہارم :

الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن احمد بن محمد العلوی عن حیدر بن محمد بن نعیم عن محمد بن عمرالکشی عن حمدویه عن محمد بن عیسی عن الحسین بن خالد

۳۶۶

قال: قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ان عبدالله بن بکر یروی حدیثاً و انا احبّ ان اعرضه علیک فقال : ماذا لک الحدیث ؟ قلت : قال ابن بکیر : حدثنی عبید بن زرارة قال : کنت عند ابی عبدالله علیه السلام ایام خرج محمد ( ابراهیم ) بن عبدالله بن الحسن اذ دخل علیه رجل من اصحابنا فقال له : جعلت فداک ان محمد بن عبدالله قد خرج فما تقول فی الخروج معه ؟ فقال : اسکنوا ما سکنت السماء والارض ، فما من قائم و ما من خروج ؟ فقال ابو الحسن علیه السلام : صدق ابو عبدالله علیه السلام و لیس الامر علی ما تأوّله ابن بکیر _ انما عنی ابو عبدالله علیه السلام اسکنوا ما سکنت السماء من النداء و الارض من الخسف بالجیش _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

حسین بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : عبداللہ بن بیکر نے مجھے ایک حدیث سنائی ہے _ میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ سے نقل کروں فرمایا : سناؤ کیا ہے ؟ میں نے عرض کی ابن بکیر نے عبید بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا تھا، اس وقت میں امام صادق کی خدمت میں تھا کہ ای صحابی آیا اور عرض کی : قربان جاؤں محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا ہے ان کے خروج کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا : جب تک رات دن کی گردش یکسال ہے اس وقت تک تم بھی ساکن و ساکت رہو _ اس میں نہ

۳۶۷

کوئی قیام کرے اور نہ خروج _ امام رضا نے فرمایا : امام صادق نے صحیح فرمایا ہے ، لیکن حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے جو ابن بکیر نے سمجھا ہے بلکہ امام کا مقصد ہے کہ جب تک آس۵مان سے ندا نہ آئے اور زمین فوج کہ نہ دھنسائے اس وقت تک تم خاموش رہو'' _

سند حدیث

مذکورہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ رجال کی کتابوں میں احمد بن محمد علوی کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اسی طرح حسین بن خالد نام کے دو اشخاص ہیں _ ایک ابوالعلاء دوسرے صیرفی اور ان دونوں کو موثق نہیں قرار دیا گیا _

حدیث پنجم :

محمد بن همام قال حدثنا جعفر بن مالک الفزاری قال حدثنی محمد بن احمد عن علی بن اسباط عن بعض اصحابه عن ابی عبدالله علیه السلام انه قال : کفّوا السنتکم و الزموا بیوتکم فانه لا یصیبکم امر تخصّون به و لا یصیب العامة و لایزال الزیدیة و قاء لکم ''

( مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام صادق نے فرمایا : اپنی زبان بندرکھو، اور اپنے گھروں میں بیھٹے رہو کیونکہ تمہیں وہ چیز نہیں ملے گی جو عام لوگوں کو نہیں لتی اور زیدیہ ہمیشہ تمہاری لاوں کی سپر رہیں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے مذکورہ حدیث قابل اعتما دنہیں ہے ، کیونکہ علی بن اسباط

۳۶۸

نے بعض ایسے اصحاب سے حدیث نقل کی ہے جو مجہول ہیں _ اس کے علاوہ طریق حدیث میں جعفر بن (محمد بن ) مالک ہیں کہ جنھیں علماء رجال کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث ششم :

علی بن احمد عن عبیدالله بن موسی العلوی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن منخل بن جمیل عن جابر بن یزید عن ابی جعفر الباقرعلیه السلام انه قال : اسکنوا ما سکنت السموات و لا تخرجوا علی احد فانّ امرکم لیسبه خفاء الا انّها آیة من الله عزّ و جل لیست من الناس

( مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام محمد باقر (ع) نے فرمایا : جب تک آسمان ساکن ہے اس وقت تک تم بھی سال رہو اور کسی کے خلاف خروج نہ کرو _ بے شک تمہارا امر مخفی نہیں ہے مگر خدا کی طرف سے ایک نشان ہے او راس کا اختیار لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ''_

سند حدیث

یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہے کیونکہ علم رجال کی کتابوں میں منخل بن جمیل کو ضعیف و فاسد الروایت قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

مذکورہ احادیث کا مفہوم کے تجزیہ سے قبل آپ کی توجہ ایک نکتہ کی طرف

۳۶۹

مبذول کرادینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اور ائمہ اطہار کے اصحاب ہمیشہ انقلاب مہدی موعود اور قائم آل محمد کے قیام کے منتظر رہے ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) سے سنا تھا کہ جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی عدل گستر مہدی ظہور فرمائیں گے اور ظلم و کفر کا قلع و قمع کریں گے _ دنیا میں اسلام کا بول با لاکریں گے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے _ شیعوں نے سنا تھا کہ ایسے انسان کا انقلاب کامیاب ہوگا اور تائید الہی اس کے شامل حال ہوگی _ اسی ل ے صدر اسلام کے بحرانی حالت میں قیام و قائم شیعوں کے درمیان گفتگو کا موضوع تھا _ وہ ائمہ اطہار سے کہتے تھے _ ہر جگہ ظلم و جور کی حکمرانی ہے _ آپ کیوں قیام نہیں کرتے _ کبھی دریافت کرتے تھے _ قائم آل محمد کیسا قیام کریں گے ؟ کبھی قائم آل محمد کے ظہور کی علامت کے بارے میں پوچھتے تھے _ ایسے حالات میں بعض علوی سادات موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور مہدی موعود قائم آل محمد کے نام سے انقلاب بپاکرتے تھے اور طاغوت کی حکومت کو برباد کرنے کے لئے جنگ کرتے تھے لیکن قلیل مدت میں شکست کھاجاتے تھے _

مذکورہ احادیث اسی زمانہ میں صادر ہوئی تھیں _ پس اگر امام اپنے اصحاب میں کسی ایک یا چند اشخاص سے یہ فرماتے ہیں کہ خاموش رہو _ شورش نہ کرو، خروج سفیانی اور آسمانی چیخ کے منتظر رہو، ان چیزوں کا مقصد اس بات کو سمجھانا تھا کہ جس شخص نے اس وقت قیام کیا ہے وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی موعود نہیں ہیں ، مجھے قائم موعود تصور نہ کرو _ قائم آل محمد کے ظہور تک صبر کرو ، اور ان کے قیام و انقلاب کی کچھ مخصوص علامات ہیں _ پس جو شخص بھی قیام و شورش کرے اور تم سے مدد مانگے تو پہلغ تم ان مخصوص علامتوں کو ان کی دعوت میں ملا حظہ کرلو اس کے

۳۷۰

بعد قبول کرلو اگر وہ علامتیں اس کی دعوت میں آشکار نہیں ہیں تو اس کے فریب میں نہ آو _ اسکی آواز پر لبیک نہ کہو اور سمجھ لو کہ وہ مہدی موعود نہیں ہے _ مذکورہ احادیث در حقیقت علوی سادات کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں جو کہ مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرتے تھے _ اور اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مہدویت کے دعویدار مہدی موعود نہیں ہیں _ ان کے

فریب میں نہ آجانا _ یہ احادیث مسلمانوں کے حتمی و ضروری فرائض جیسے وجوب جہاد، اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، ظلم و بیدادگری سے مبارزہ اور محرومین و مستضعفین سے دفاع کو منع نہیں کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ ظلم و ستم ، فحشا و منکرات ، کفر و الحاد یہاں تک کہ اسلام کو نابود کرنے کے سلسلے میں جو سازشیں کی گئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیا رکرو اور امام مہدی کے ظہور کا انتظارکرو کہ وہی دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ ایسی رکیک بات کو ائمہ معصومین کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا _ اگر سکوت واجب تھا تو حضرت علی نے اسلام کے دشمنوں سے کیوں جنگ کی ؟ اور اما م حسین نے یزید کے خلاف کیوں قیام کیا ؟ اور زید کے خونین انقلاب کی ائمہ نے کیون تائید کی ؟ اس بناپر مذکورہ احادیث کو قیام و انقلاب کے مخالف نہیں قرارد یا جاسکتا _

چوتھا حصہ

جو احادیث اس بات سے منع کرتی ہیں کہ انقلاب و تحریک میں عجلت سے کام نہ لو _

حدیث اول

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد عن محمدبن

۳۷۱

علی عن حفص بن عاصم عن سیف التمار عن ابی المرهف عن ابی جعفر علیه السلام قال : الغبرة علی من اثارها ، هلک المحاضیر قلت : جلعت فداک ، و ماالمحاضیر؟ قال المستعجلون اما انهم لن یریدوا الاّ من یعرض علیهم ( الی ان قال) یا ابا المرهف اتری قوماً جسو انفسهم علی الله لا یجعف الله لهم فرجاً؟ بلی والله لیجعلن الله لهم فرجاً _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام محمد باقر نے فرمایا: گردو غبار اس کی آنکھوں میں پڑتا ہے جواڑاتا ہے _ جلد باز ہلاک ہوتے ہیں حکومتیں ان لوگوں کو کچلتی ہیں جوان سے ٹکراتے ہیں _ اے ابو مرہف کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جو لوگ راہ خدا میں اپنی حفاظت کرتے ہیں _ خدا انھیں فراخی نہیںعطا کرے گا ؟ کیوں خدا کی قسم خدا انھیں ضرور کشائشے عطا کرے گا _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے حدیث صحیح نہیں ہے کیون کہ محمد بن علی کوفی ( محمد بن علی بن ابراہیم ) کو رجال کی کتابوں میں ضعیف شمار کیا گیا ہے جبکہ ابومرہف بھی مجہول ہے _

مفہوم حدیث

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس زمانہ میں ایک گروہ نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا تھا اور اس کی شورش کو کچل دیا گیا تھا _ اسی لئی راوی

۳۷۲

حدیث بھی خوف زدہ اور پریشان تھا کہ کہیں شیعوں پر بھی حرف نہ آئے _ اسی لئے اما م نے اسے تسلی دی کہ تم نہ ڈرو ان لوگوں کی چھان بین کی جائے گی جنہوں نے خروج کیا تھا _ تم پر آنچ نہیں آئے گی _ تم ظہور کے وقت تک خاموش رہو _ اس حدیث کو بھی قیام کے مخالف نہیں کیا جا سکتا _

حدیث دوم

'' الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن ابن قولویه عن ابیه عن احمد بن علی بن اسباط عن عمّه یعقوب بن سالم عن ابی الحسن العبیدی عن الصادق علیه السلام قال : ما کان عبد لیحبس نفسه علی الله الا دخله الجنة '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۲۹)

اما م صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے : جو شخص بھی خدا کیلئے صبر و پائیداری سے کام لیتا ہے خدا اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے گا _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

مفہوم حدیث

اس حدیث میں امام صادق نے نفس پر قابو رکھنے اور پائیداری سے کام لینے کا حکم دیا ہے _ لیکن سکوت و صبر کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قیام نہ کیا جائے قیام کے ساتھ صبر و پائیداری زیادہ مناسب ہے _

۳۷۳

حدیث سوم :

قال امیر المؤمین علیه السلام : الزموا الارض واصبروا علی البلاء و لا تحرکوا بایدیکم و سیوفکم فی هوی السنتکم ولا تستعجلوا بما لم یعجل الله لکم فانه من مات منکم علی فراشه و هو علی معرفة حق ربّه و حق رسوله و اهل بیته مات شهیدا ووقع اجره علی الله و استوجب ثواب ما نوی من صالح عمله وقامت النیة مقام اصلاته بسیفه فان لکل شیئی مدة واجلا

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۰)

حضرت امیر المومنین کا ارشاد ہے : زمین پکڑ کر بیٹھے رہو ، بلاؤں پر صبر کرو اور اپنی زبان کی بناپر تلوار اور ہاتھوں کو حرکت نہ دو ، جس کام میں خدا نے عجلت نہین کی ہے تم بھی اس میںتعجیل نہ کرو، بے شک جو بھی تم میں سے اس حال میں اپنے بستر پر مرے گا کہ خدا و رسول اور اہل بیت کی معرفت سے اس کا قلب سرشار ہو تو وہ شہید کی موت مرے گا اور اس کا اجر خدا پرہے _ او راسے اس نیت عمل کا بھی ثواب ملے گا _ جس کی نیت کی تھی تلوار چلانے کی نیت کا بھی ثواب ملیگا _ بے شک ہر چیز کا ایک مخصوص وقت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث نہج البلاغہ سے منقول ہے ، معتبر ہے _

حدیث چہارم :

۳۷۴

محمد بن یحیی عن محمد بن الحسین عن عبدالرحمن بن ابی هاشم عن الفضل الکاتب قال کنت عند ابی عبدالله علیه السلام فاتاه کتاب ابی مسلم فقال : لیس لکتابک و جواب اخرج عنا ( الی ان قال ) قلت : فما العلامة فیما بیننا و بین جعلت فداک؟ قال لا تبرح الارضه یا ف ضیل حتی یخرج السفیانی ، فاذا خرج السفیانی فاجیبوا الینا ، یقولها ثلاثاً ، و هو من المحتوم '' _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

فضل کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ ابو مسلم خراسانی کا خط آپ (ع) کے پاس پہنچا _ اما م نے حامل رقعہ سے فرمایا: تمہارا خط اس لائق نہیں ہے کہ اس کا جواب دیا جائے ، جاؤ ، خدا بندوں کی جلد بازی سے تعجیل نہیں کرتا ہے _ بے شک پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑکر پھینکنا آسان ہے لیکن اس حکومت کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جس کا وقت نہ آیا ہو _ راوی نے عرض کی : پس ہمارے اور آپ (ع) کے درمیان کیا علامت ہے ؟ فرمایا : سفیانی کے خروج تک اپنی جگہ سے حرکت نہ کرو ، اس وقت ہمارے پاس آنا ، اس بات کو آپ (ع) نے تین مرتبہ دھرایا چنانچہ سفیانی کا خروج حتمی علامت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _

حدیث پنجم :

محمد بن علی بن الحسین باسناده عن حماد بن عمرو و انس

۳۷۵

بن محمد عن ابیه عن جعفر بن محمد عن آبا ئ ه علیهم السلام ( فی وصیة النی صلی الله علیه و آله لعی علیه السلام ) قال : یا علی ازالة الجبال الرواسی اهون من ازالة ملک لم تنقض ایامه ''

( وسائل الشیعہ ج۱۱ ص ۳۸)

رسو ل خدا نے حضرت علی سے فرمایا : پہاڑوں کو اکھاڑنا آسان ہے لیکن ان حکومتوں کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جن کا وقت نہ آیا ہو _

سند حدیث

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حماد بن عمرو مجہول ہے چنانچہ انس بن محمد مہمل ہے اور اس کے والد محمد کو رجال کی کتابوں میں اہمیت نہیں دی گئی ہے _

حدیث ششم

حمید بن زیاد عن عبید الله بن احمد الدهقان عن علی بن الحسن الطاهری عن محمد بن زیاد عن ابان عن صباح بن سیابنه ع المعلی بن خنیس قال ذهبت بکتاب عبد السلام بن نعیم و سدیر و کتب غیر واحد الی ابیعبدلله علیه السلام حین ظهر المسودة قبل ان یظهر ولد العباس : انّا قدّرنا ان یؤل هذا الامر الیک فما تری ؟ قال : فضرب بالکتب الارض ، قال : اف اف ما انا لهؤلاء بامام ، اما یعلمون انه انما یقتل السفیانی '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

معلّی کہتے ہیں : میں عبد السلام سدیر اور دوسرے چند افراد کے خطوط

۳۷۶

لیکر امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، بنی عباس کے آشکار ہونے سے قبل کالے لباس والے ظاہر ہوئے _ خطوط کا مضمون یہ تھا _ ہم نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ حکومت و قیادت آپ کی دست اختیا ر میں دی جائے آپ (ع) کیا فرماتے ہیں ؟ امام (ع) نے خطوط کو زمین پر دے مارا اور فرمایا : افسوس ، افسوس ، میں ان کاامام نہیں ہوں _ کیا انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ مہدی موعود وہ ہے جو سفیانی کو قتل کریں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے اس حدیث پر بھی اعتماد نہین کیا جا سکتا کیونکہ صباح بن سیابہ مجہول ہے _

مفہوم حدیث

احادیث کے مفہوم کے تجزیہ سے قبل درج ذیل نکات کو مد نظر رکھئے :

۱_ ائمہ کے زمانہ میں شیعہ ہمیشہ حضرت مہدی کے ظہور و انقلاب کے منتظر رہتے تھے کہ اس کی خبر انہوں نے رسول سے سنی تھی _

۲_ اس زمانہ میں شیعہ بڑی مشکلوں میں مبتلا تھے ، خلفائے جور کی ان پر سخت نگاہ رہتی تھی _ قید میں ڈال دیئےاتے ، جلا وطن کردیئےاتے یا قتل کردیئےاتے تھے _

۳_ ہر چند علوی سادات میں سے ہر ایک ظالم حکومتوں کے خلافت قیام کرتا تھا اور وہ لوگ بھی ان کی مدد کرتے تھے جو زندگی سے عاجز آجاتے اور قیام کرنے والے

۳۷۷

کو مہدی موعود اور منجی بشریت سمجھتے تھے لیکن زیادن دن نہیں گزرتے تھے کہ قتل ہوجاتے تھے _

۴_ خلفائے وقت انقلاب اور قائم کے سلسلہ میں بہت زیادہ حساس تھے ، وہ ہمیشہ خوف و ہارس میں مبتلا اور حالات کے سلسلے میں پریشان رہتے تھے ، وہ علوی سادات خصوصاً ان کے سربرآوردہ افراد پر نظر رکھتے تھے _ مذکورہ احادیث ایسے ہی حالات میں صادر ہوئی ہیں _ جو شیعہ مختلف قسم کی بلاؤں میںمبتلا تھے وہ ائمہ سے قیام کرنے اور مسلمانوں کو غاصب حکومتوں سے نجات دلانے کے سلسلہ میں اصرار کرتے تھے یا علوی سادات میں سے ان لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت مانگتے تھے جو مہدی موعود کے نام سے خروج کرتے تھے _ ائمہ اطہار (ع) فرماتے تھے : مہدی موعود کے قیام کے سلسلے میں عجلت نہ کرو کہ ابھی اس کاوقت نہیں آیا ہے _ خروج کرنے والوں نے مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے خروج کیا ہے جب کہ وہ مہدی موعود ہیں ہیں _ مہدی موعود کے ظہور و قیام کی مخصوص علامات ہیں جو کہ ابھی تک آشکار نہیں ہوئی ہیں _ پھر قیام کرنے والوں نے ہماری امامت کے استحکام کیلئے قیام نہیں کیا ہے _ ان کا انقلاب بھی کامیاب ہونے والا نہیں ہے _ کیونکہ غاصب حکومتوں کی تباہی کے اسباب فراہم نہیں ہوئے ہیں _ حکومت کا تختہ پلٹنا بہت دشوار ہے _ فرماتے تھے : کشائشے حاصل ہونے تک صبر کرو_ اور قیام مہدی کے سلسلہ میں جلد نہ کرو کہ ہلاک ہوجاؤگے _ اور چونکہ تمہاری نیت اصلاح و قیام کی ہے اور اس کے مقدمات فراہم کرنا چاہئے ہو اس لئے تمہیں اس کا ثواب ملیگا _ بہر حال مذکورہ احادیث تعجیل کرنے اور کمزور تحریک سے منع کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ مکمل تحریک کے مقدمات فراہم کرنے کیلئے ظلم و ستم

۳۷۸

اور کفر و بے دینی سے مبارزہ نہ کرو ان احادیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ جہاد، دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کا فریضہ امام زمانہ کی غیبت میں ساقط ہے _ اس زمانہ میں لوگوں کو فساد کا تماشہ دیکھنا چاہئے صرف تعجیل ظہور امام زمانہ کیلئے دعا کریں _ چنانچہ ان احادیث کو انقلاب و تحریک کے مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا ہے _

پانچواں حصّہ

جو روایات حضرت قائم قائم کے ظہور سے قبل ہر پرچم کے بلند کرنے والے کو طاغوت قراردیتی ہیں _

حدیث اول :

محمد بن یحیی عن احمد بن محمد عن الحسین بن سعید عن حماد بن عیسی عن الحسین بن المختار عن ابی بصیر عن ابیعبدالله علیه السلام قال : کل رایة ترفع قبل قیام القائم فصابحها طاغوت یعبد من دون الله _

( وسائل الشیعہ ج ص ۳۷)

امام صادق (ع) کا ارشادہے : جو پرچم بھی قائم کے قیام سے قبل بلند کیا جائے گا اس کابلند کرنے والا شیطان ہے ، جو کہ خدا کے علاوہ اپنی عبادت کراتا ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _ اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

۳۷۹

حدیث دوم :

محمد بن ابراهیم النعمانی عن عبد الواحد بن عبدالله قال حدثنا احمد بن محمد بن ریاح الزهری قال حدثنا محمد بن العباس عن عیسی الحسینی عن الحسن بن علی بن ابی حمزة عن ابیه عن مالک بن اعین الجهنی عن ابی جعفر علیه السام انه قال کل رایة ترفع قبل رایة القائم فصاحبها طاغوت

( مستدر ک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر علیہ السام کا ارشاد ہے : جو پرچم بھی مہدی کے پرچم سے پہلے بلند کیا جائے گا ، اس کا بلند کرنے والا شیطان ہے _

سند حدیث

روایت کے معنی پرچم کے ہیں اور پرچم بلند کرنا کنایہ ہے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے اور صاحب پرچم عبارت ہے ہراس تحریک کے قائد سے جو کہ موجودہ حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے لوگوں سے مدد مانگتا ہے _ طاغوت یعنی ظالم و جابر شخص جو حریم الہی پر تجاوز کرے اور خدا کی حاکمیت کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنی حاکمیت قبول کرنے پر مجبور کرے _ جملہ یعبد من دون اللہ اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ صاحب پرچم حکومت خدا کے مقابلہ میں ایک حکومت بنانا چاہتا ہے اور دینی تمنّا پوری کرنا چاہتا ہے ایسے پرچم کے حامل کو طاغوت و شیطان کہا گیا ہے _ اس بناپر گزشتہ احادیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جو پرچم بھی قیام مہدی سے قبل بلند کیا جائیگا اور اس کا حامل لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا تو ایسے پرچم کا حامل شیطان ہے کہ جس نے

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455