آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181585 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

کیلئے قیام کرے گا وہ مشکلوں میں گرفتار اور شکست سے دوچار ہوگا _ اوریہ اس وقت تک ہوگا جب تک ایسے افراد قیام نہ کریں گے جیسے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور مجاہدوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ، ان میں سے کوئی شہید نہیں ہوا کہ دفن کیا جاتا ، کوئی مجرو ح نہیں ہوا جس کا علاج کیا جاتا ، راوی کہتا ہے : اما م کی مراد کون لوگ ہیں ؟ فرمایا: وہ ملائگہ ہیں جو جنگ بدر میں اسلامی لشکر کی مدد کیلئے نازل ہوئے تھے''_

حدیث چہارم:

ابوالجارود عن ابی جعفر علیه السلام قال قلت له اوصنی فقال اوصیک بتقوی الله و ان تلزم بیت و تقعد فی دهمک هؤلاء الناس وايّاک و الخوارج منّا فانهم لیسوا علی شیئی (الی ان قال) و اعلم انه لا تقوم عصابة تدفع ضیماً او تعزّدینا الاّ صرعتهم البلیة حتی تقوم عصابة شهدوا بدراً مع رسول الله صلی الله علیه و آله لا یواری قتیلهم و لا یرفع صریعهم و لا یداوی جریحهم ، فقلت : من هم ؟ قال : الملائکة _

(مستدرک ج ۲ ص ۲۴۸)

ابوجارود کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : مجھے کچھ وصیت فرمایئے فرمایا : میں تمہیں خدا کا تقوی اختیار کرنے اوراپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور خفیہ طریقے سے ان ہی لوگوں میں زندگی گزارو اور ہم میں سے قیام کرنے والوں سے اجتناب کرو _

۳۶۱

کیونکہ وہ حق پر نہیں ہیں اور ان کا مقصد صحیح نہیں ہے ( یہاں تک کہ فرمایا:) جان لو جو گروہ بھی ظلم مٹانے اور اسلام کی سربلندی اور اقتدار کیلئے قیام کرے گا اسی کو بلائیں اور مصیبتیں گھر لیں گی ، یہاں تک وہ لوگ قیام کریں گے جو کہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے _ ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا تھاکہ دفن کیا جاتا ، زمین پر نہیں گرا تھا کہ اٹھایا جاتا ، مجروح نہیں ہوا تھا کہ علاج کیاجاتا ، راوی نے عرض کی یہ کون لوگ ہیں ؟فرمایا : ملائکہ '' _

سند حدیث

مذکور ہ تینوں حدیثیں سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہیں کیونکہ ان کا راوی ابوالجارود ہے جو کہ زید ی المسلک تھا اور خود فرقہ جارودیہ کا بانی ہے _ رجال کی کتابوں میں اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

ان احادیث میں امام نے ان شیعوں کو ایک خارجی حقیقت سے خبردار کیا ہے جو کہ قیام کرنے کا اصرار کرتے تھے _ آپ نے فرمایا ہے ہم ائمہ میں سے جو بھی مہدی موعود کے قیام سے پہلے قیام کرے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا اور شہید کردیا جائے گا او راس کی شکست اسلام کے حق میں نہیں ہے _ ہم اہل بیت میں سے صرف انقلاب مہدی کامیاب ہوگا کہ جن کی مدد کیلئے خدا کے فرشتے نازل ہوں گے _ یہ احادیث ائمہ کے قیام کی خبر دے رہی ہیں اور ان کے قیام نہ کرنے

کی علت بیان کررہی ہیں ، دیگر انقلابات سے ان کا تعلق نہیں ہے _

۳۶۲

اگر حدیث میں وارد لفظ ''منّا'' سے امام کی مراد علوی سادات ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جو انقلاب بھی علویوں میں سے کسی کی قیادت میں آئے گا وہ پامال ہوگا اور قائد قتل ہوگا تو بھی اس کی دلالت قیام و انقلاب سے ممانعت پر نہیں ہے بالفرض اگر یہی حقیقت ہے _ تو احادیث ایک خارجی حقیقت کو بیان کررہی ہیں اور وہ یہ کہ انقلاب مہدی سے پہلے جو انقلاب رونما ہوں گے وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوں گے اور اس کا سردار قتل ہوگا لیکن یہ احادیث راہ خدا میں جہاد جیسے قطعی و مسلم فریضہ ، اسلام اور مسلمانوں سے دفاع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظلم و بیدادگری اور استکبار سے مبارزہ کو ساقط نہیں کرتی ہیں _ قتل ہوجانے کی خبر اور شیء ہے اور فرض کرنا دوسری چیز ہے _ امام حسین (ع) کو بھی اپنی شہادت کا علم تھا لیکن اس کے باوجود نظام اسلام سے دفاع کی خاطر یزید کی طاغوتی حککومت کے خلاف قیام کیا _ اپنا فرض پورا کیا اور جام شہادت نوش فرمایا _ اسی طرح زیدبن علی بن الحسین اگر چہ اپنی شہادت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سن چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے شرعی فریضہ پر عمل کیا اور اسلام و قرآن سے دفاع کیلئے قیام کیا اور شہادت سے ہمکنار ہوئے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ راہ خدا میں جہاد ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور محروم و مستضعفین سے دفاع کریں خواہ اس سلسلے میں ان کے بہت سے آدمی شہید ہوجائیں _ کیونکہ شہید ہونا شکست کے مترادف نہیں ہے _ حق تو یہ ہے کہ اسلام نے جو کچھ دنیا میں ترقی کی ہے اور باقی رہا ہے تو یہ امام حسین اور آپ کے اصحاب اور زید بن علی یحیی بن زید و حسین شہید فتح ایسے فداکار انسانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جنہوں نے قطعی طور پر اپنی جان کی پروا نہیں کی تھی _ اس بنا پر مذکورہ احادیث مسلمانوں سے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرعی فریضہ کو ساقط

۳۶۳

نہیں کر سکتی ہیں _

اس پر جلسہ کا اختتام ہوا اور آئندہ شنبہ کی شب میں فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

فہیمی : ہوشیار صاحب اپنی بحث کی تکمیل کیجئے _

ہوشیار: تیسرا حصّہ

جو احادیث ظہور امام مہدی کی علامتوں کے ظاہر ہونے سے قبل کسی بھی قیام و انقلاب سے اجتناب کا حکم دیتی ہیں _

حدیث اوّل :

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عثمان بن عیسی عن بکر بن محمد عن سدیر قال ، قال ابوعبدالله علیه السلام : یا سدیر الزم بیتک و کن حلساً من احلاسه و اسکن ما سکن اللیل و النهار فاذا بلغک ان السفیانی قدخرج فارحل الینا و لو علی رجلک

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام صادق (ع) نے سدیر سے فرمایا: اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور جب تک شب و روز ساکن ہیں تم بھی جنبش نہ کرو جب یہ سنو کہ سفیانی نے خروج کیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آنا خواہ پیادہ ہی آنا پڑے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے قطعی قابل اعتماد نہیں ہے _ کیونکہ سند میں عثمان بن سعید بھی ہیں جو کہ واقفی ہیں _ امام موسی بن جعفر کی حیات میں آپ (ص) کے

۳۶۴

وکیل تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد واقفی ہوگئے تھے اورامام رضا (ع) کے پاس سہم امام نہیں بھیجتے تھے اسی وجہ سے امام رضا (ع) ان سے ناراض ہوگئے تھے _ اگر چہ بعد میں توبہ کرلی اور امام کی خدمت مین اموال بیھیجنے لگے تھے _ اسی طرح سدیر بن حکیم صیرفی کا ثقہ ہونا بھی مسلم نہیں ہے _

حدیث دوم

احمد عن علی بن الحکم عن ابی ایوب الخزاز عن عمر بن حنظله قال سمعت ابا عبدالله علیه السلام یقول: خمس علامات قبل القیام القائم : الصیحة والسفیانی و الخسف و قتل النفس الزکیة و الیمانی ، فقلت جعلت فداک ان خرج احد من اهل بیتک قبل هذاه العلامات انخرج معه؟ قال : لا_

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

''امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں _ قائم کے انقلاب و قیام سے قبل پانچ علامتیں ظاہر ہوں گے ۱_ آسمانی چیخ ۲_ خروج سفیانی ۳_ زمین کے ایک حصہ کا دھنس جانا ۴_ نفس زکیہ کا قتل ۵_ یمانی کا خروج راوی نے عرض کی فرزند رسول (ع) اگر آپ حضرات میں سے کوئی علائم ظہور سے قبل قیام کرے تو ہم بھی اس کے ساتھ خروج کریں ؟ فرمایا نہیں _

سند حدیث

مذکورہ حدیث قطعہ قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ عمر بن حنظلہ کی توثیق ثابت نہیں ہے _

۳۶۵

حدیث سوم :

محمد بن الحسن عن الفضل بن شاذان عن الحسن بن محبوب عن عمرو بن ابی المقدام عن جابر عن ابی جعفر علیه السلام قال : الزم الارض و لا تحرک یداً ولا رجلاً حتی تری علامات اذکرها لک وما اراک تدرکها : اختلاف بنی فلان و منا دینادی من السماء و یجیئکم الصوت من ناحیة دمشق

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۱)

جابر کہتے ہیں کہ : حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: زمین نہ چھوڑو ، اپنے ہاتھ اور پیر کو حرکت نہ دو یہاں تک وہ علامت ظاہر ہوجائے جو میں تمہیں بتاتا ہوں شائد تم درک نہیں کروگے : فلان خاندان _ شائد بنی عباس _ کا اختلاف آسمانی منادی کی ندا اور شام کی طرف سے آنے والی آواز ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث بھی قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ عمر بن ابی المقدام مجہول ہے _ شیخ الطائف نے فضل بن شاذان سے دو طریقوں سے روایت کی ہے اور دونوں کو ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث چہارم :

الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن احمد بن محمد العلوی عن حیدر بن محمد بن نعیم عن محمد بن عمرالکشی عن حمدویه عن محمد بن عیسی عن الحسین بن خالد

۳۶۶

قال: قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ان عبدالله بن بکر یروی حدیثاً و انا احبّ ان اعرضه علیک فقال : ماذا لک الحدیث ؟ قلت : قال ابن بکیر : حدثنی عبید بن زرارة قال : کنت عند ابی عبدالله علیه السلام ایام خرج محمد ( ابراهیم ) بن عبدالله بن الحسن اذ دخل علیه رجل من اصحابنا فقال له : جعلت فداک ان محمد بن عبدالله قد خرج فما تقول فی الخروج معه ؟ فقال : اسکنوا ما سکنت السماء والارض ، فما من قائم و ما من خروج ؟ فقال ابو الحسن علیه السلام : صدق ابو عبدالله علیه السلام و لیس الامر علی ما تأوّله ابن بکیر _ انما عنی ابو عبدالله علیه السلام اسکنوا ما سکنت السماء من النداء و الارض من الخسف بالجیش _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

حسین بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : عبداللہ بن بیکر نے مجھے ایک حدیث سنائی ہے _ میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ سے نقل کروں فرمایا : سناؤ کیا ہے ؟ میں نے عرض کی ابن بکیر نے عبید بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا تھا، اس وقت میں امام صادق کی خدمت میں تھا کہ ای صحابی آیا اور عرض کی : قربان جاؤں محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا ہے ان کے خروج کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا : جب تک رات دن کی گردش یکسال ہے اس وقت تک تم بھی ساکن و ساکت رہو _ اس میں نہ

۳۶۷

کوئی قیام کرے اور نہ خروج _ امام رضا نے فرمایا : امام صادق نے صحیح فرمایا ہے ، لیکن حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے جو ابن بکیر نے سمجھا ہے بلکہ امام کا مقصد ہے کہ جب تک آس۵مان سے ندا نہ آئے اور زمین فوج کہ نہ دھنسائے اس وقت تک تم خاموش رہو'' _

سند حدیث

مذکورہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ رجال کی کتابوں میں احمد بن محمد علوی کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اسی طرح حسین بن خالد نام کے دو اشخاص ہیں _ ایک ابوالعلاء دوسرے صیرفی اور ان دونوں کو موثق نہیں قرار دیا گیا _

حدیث پنجم :

محمد بن همام قال حدثنا جعفر بن مالک الفزاری قال حدثنی محمد بن احمد عن علی بن اسباط عن بعض اصحابه عن ابی عبدالله علیه السلام انه قال : کفّوا السنتکم و الزموا بیوتکم فانه لا یصیبکم امر تخصّون به و لا یصیب العامة و لایزال الزیدیة و قاء لکم ''

( مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام صادق نے فرمایا : اپنی زبان بندرکھو، اور اپنے گھروں میں بیھٹے رہو کیونکہ تمہیں وہ چیز نہیں ملے گی جو عام لوگوں کو نہیں لتی اور زیدیہ ہمیشہ تمہاری لاوں کی سپر رہیں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے مذکورہ حدیث قابل اعتما دنہیں ہے ، کیونکہ علی بن اسباط

۳۶۸

نے بعض ایسے اصحاب سے حدیث نقل کی ہے جو مجہول ہیں _ اس کے علاوہ طریق حدیث میں جعفر بن (محمد بن ) مالک ہیں کہ جنھیں علماء رجال کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث ششم :

علی بن احمد عن عبیدالله بن موسی العلوی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن منخل بن جمیل عن جابر بن یزید عن ابی جعفر الباقرعلیه السلام انه قال : اسکنوا ما سکنت السموات و لا تخرجوا علی احد فانّ امرکم لیسبه خفاء الا انّها آیة من الله عزّ و جل لیست من الناس

( مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام محمد باقر (ع) نے فرمایا : جب تک آسمان ساکن ہے اس وقت تک تم بھی سال رہو اور کسی کے خلاف خروج نہ کرو _ بے شک تمہارا امر مخفی نہیں ہے مگر خدا کی طرف سے ایک نشان ہے او راس کا اختیار لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ''_

سند حدیث

یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہے کیونکہ علم رجال کی کتابوں میں منخل بن جمیل کو ضعیف و فاسد الروایت قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

مذکورہ احادیث کا مفہوم کے تجزیہ سے قبل آپ کی توجہ ایک نکتہ کی طرف

۳۶۹

مبذول کرادینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اور ائمہ اطہار کے اصحاب ہمیشہ انقلاب مہدی موعود اور قائم آل محمد کے قیام کے منتظر رہے ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) سے سنا تھا کہ جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی عدل گستر مہدی ظہور فرمائیں گے اور ظلم و کفر کا قلع و قمع کریں گے _ دنیا میں اسلام کا بول با لاکریں گے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے _ شیعوں نے سنا تھا کہ ایسے انسان کا انقلاب کامیاب ہوگا اور تائید الہی اس کے شامل حال ہوگی _ اسی ل ے صدر اسلام کے بحرانی حالت میں قیام و قائم شیعوں کے درمیان گفتگو کا موضوع تھا _ وہ ائمہ اطہار سے کہتے تھے _ ہر جگہ ظلم و جور کی حکمرانی ہے _ آپ کیوں قیام نہیں کرتے _ کبھی دریافت کرتے تھے _ قائم آل محمد کیسا قیام کریں گے ؟ کبھی قائم آل محمد کے ظہور کی علامت کے بارے میں پوچھتے تھے _ ایسے حالات میں بعض علوی سادات موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور مہدی موعود قائم آل محمد کے نام سے انقلاب بپاکرتے تھے اور طاغوت کی حکومت کو برباد کرنے کے لئے جنگ کرتے تھے لیکن قلیل مدت میں شکست کھاجاتے تھے _

مذکورہ احادیث اسی زمانہ میں صادر ہوئی تھیں _ پس اگر امام اپنے اصحاب میں کسی ایک یا چند اشخاص سے یہ فرماتے ہیں کہ خاموش رہو _ شورش نہ کرو، خروج سفیانی اور آسمانی چیخ کے منتظر رہو، ان چیزوں کا مقصد اس بات کو سمجھانا تھا کہ جس شخص نے اس وقت قیام کیا ہے وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی موعود نہیں ہیں ، مجھے قائم موعود تصور نہ کرو _ قائم آل محمد کے ظہور تک صبر کرو ، اور ان کے قیام و انقلاب کی کچھ مخصوص علامات ہیں _ پس جو شخص بھی قیام و شورش کرے اور تم سے مدد مانگے تو پہلغ تم ان مخصوص علامتوں کو ان کی دعوت میں ملا حظہ کرلو اس کے

۳۷۰

بعد قبول کرلو اگر وہ علامتیں اس کی دعوت میں آشکار نہیں ہیں تو اس کے فریب میں نہ آو _ اسکی آواز پر لبیک نہ کہو اور سمجھ لو کہ وہ مہدی موعود نہیں ہے _ مذکورہ احادیث در حقیقت علوی سادات کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں جو کہ مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرتے تھے _ اور اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مہدویت کے دعویدار مہدی موعود نہیں ہیں _ ان کے

فریب میں نہ آجانا _ یہ احادیث مسلمانوں کے حتمی و ضروری فرائض جیسے وجوب جہاد، اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، ظلم و بیدادگری سے مبارزہ اور محرومین و مستضعفین سے دفاع کو منع نہیں کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ ظلم و ستم ، فحشا و منکرات ، کفر و الحاد یہاں تک کہ اسلام کو نابود کرنے کے سلسلے میں جو سازشیں کی گئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیا رکرو اور امام مہدی کے ظہور کا انتظارکرو کہ وہی دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ ایسی رکیک بات کو ائمہ معصومین کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا _ اگر سکوت واجب تھا تو حضرت علی نے اسلام کے دشمنوں سے کیوں جنگ کی ؟ اور اما م حسین نے یزید کے خلاف کیوں قیام کیا ؟ اور زید کے خونین انقلاب کی ائمہ نے کیون تائید کی ؟ اس بناپر مذکورہ احادیث کو قیام و انقلاب کے مخالف نہیں قرارد یا جاسکتا _

چوتھا حصہ

جو احادیث اس بات سے منع کرتی ہیں کہ انقلاب و تحریک میں عجلت سے کام نہ لو _

حدیث اول

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد عن محمدبن

۳۷۱

علی عن حفص بن عاصم عن سیف التمار عن ابی المرهف عن ابی جعفر علیه السلام قال : الغبرة علی من اثارها ، هلک المحاضیر قلت : جلعت فداک ، و ماالمحاضیر؟ قال المستعجلون اما انهم لن یریدوا الاّ من یعرض علیهم ( الی ان قال) یا ابا المرهف اتری قوماً جسو انفسهم علی الله لا یجعف الله لهم فرجاً؟ بلی والله لیجعلن الله لهم فرجاً _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام محمد باقر نے فرمایا: گردو غبار اس کی آنکھوں میں پڑتا ہے جواڑاتا ہے _ جلد باز ہلاک ہوتے ہیں حکومتیں ان لوگوں کو کچلتی ہیں جوان سے ٹکراتے ہیں _ اے ابو مرہف کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جو لوگ راہ خدا میں اپنی حفاظت کرتے ہیں _ خدا انھیں فراخی نہیںعطا کرے گا ؟ کیوں خدا کی قسم خدا انھیں ضرور کشائشے عطا کرے گا _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے حدیث صحیح نہیں ہے کیون کہ محمد بن علی کوفی ( محمد بن علی بن ابراہیم ) کو رجال کی کتابوں میں ضعیف شمار کیا گیا ہے جبکہ ابومرہف بھی مجہول ہے _

مفہوم حدیث

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس زمانہ میں ایک گروہ نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا تھا اور اس کی شورش کو کچل دیا گیا تھا _ اسی لئی راوی

۳۷۲

حدیث بھی خوف زدہ اور پریشان تھا کہ کہیں شیعوں پر بھی حرف نہ آئے _ اسی لئے اما م نے اسے تسلی دی کہ تم نہ ڈرو ان لوگوں کی چھان بین کی جائے گی جنہوں نے خروج کیا تھا _ تم پر آنچ نہیں آئے گی _ تم ظہور کے وقت تک خاموش رہو _ اس حدیث کو بھی قیام کے مخالف نہیں کیا جا سکتا _

حدیث دوم

'' الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن ابن قولویه عن ابیه عن احمد بن علی بن اسباط عن عمّه یعقوب بن سالم عن ابی الحسن العبیدی عن الصادق علیه السلام قال : ما کان عبد لیحبس نفسه علی الله الا دخله الجنة '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۲۹)

اما م صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے : جو شخص بھی خدا کیلئے صبر و پائیداری سے کام لیتا ہے خدا اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے گا _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

مفہوم حدیث

اس حدیث میں امام صادق نے نفس پر قابو رکھنے اور پائیداری سے کام لینے کا حکم دیا ہے _ لیکن سکوت و صبر کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قیام نہ کیا جائے قیام کے ساتھ صبر و پائیداری زیادہ مناسب ہے _

۳۷۳

حدیث سوم :

قال امیر المؤمین علیه السلام : الزموا الارض واصبروا علی البلاء و لا تحرکوا بایدیکم و سیوفکم فی هوی السنتکم ولا تستعجلوا بما لم یعجل الله لکم فانه من مات منکم علی فراشه و هو علی معرفة حق ربّه و حق رسوله و اهل بیته مات شهیدا ووقع اجره علی الله و استوجب ثواب ما نوی من صالح عمله وقامت النیة مقام اصلاته بسیفه فان لکل شیئی مدة واجلا

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۰)

حضرت امیر المومنین کا ارشاد ہے : زمین پکڑ کر بیٹھے رہو ، بلاؤں پر صبر کرو اور اپنی زبان کی بناپر تلوار اور ہاتھوں کو حرکت نہ دو ، جس کام میں خدا نے عجلت نہین کی ہے تم بھی اس میںتعجیل نہ کرو، بے شک جو بھی تم میں سے اس حال میں اپنے بستر پر مرے گا کہ خدا و رسول اور اہل بیت کی معرفت سے اس کا قلب سرشار ہو تو وہ شہید کی موت مرے گا اور اس کا اجر خدا پرہے _ او راسے اس نیت عمل کا بھی ثواب ملے گا _ جس کی نیت کی تھی تلوار چلانے کی نیت کا بھی ثواب ملیگا _ بے شک ہر چیز کا ایک مخصوص وقت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث نہج البلاغہ سے منقول ہے ، معتبر ہے _

حدیث چہارم :

۳۷۴

محمد بن یحیی عن محمد بن الحسین عن عبدالرحمن بن ابی هاشم عن الفضل الکاتب قال کنت عند ابی عبدالله علیه السلام فاتاه کتاب ابی مسلم فقال : لیس لکتابک و جواب اخرج عنا ( الی ان قال ) قلت : فما العلامة فیما بیننا و بین جعلت فداک؟ قال لا تبرح الارضه یا ف ضیل حتی یخرج السفیانی ، فاذا خرج السفیانی فاجیبوا الینا ، یقولها ثلاثاً ، و هو من المحتوم '' _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

فضل کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ ابو مسلم خراسانی کا خط آپ (ع) کے پاس پہنچا _ اما م نے حامل رقعہ سے فرمایا: تمہارا خط اس لائق نہیں ہے کہ اس کا جواب دیا جائے ، جاؤ ، خدا بندوں کی جلد بازی سے تعجیل نہیں کرتا ہے _ بے شک پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑکر پھینکنا آسان ہے لیکن اس حکومت کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جس کا وقت نہ آیا ہو _ راوی نے عرض کی : پس ہمارے اور آپ (ع) کے درمیان کیا علامت ہے ؟ فرمایا : سفیانی کے خروج تک اپنی جگہ سے حرکت نہ کرو ، اس وقت ہمارے پاس آنا ، اس بات کو آپ (ع) نے تین مرتبہ دھرایا چنانچہ سفیانی کا خروج حتمی علامت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _

حدیث پنجم :

محمد بن علی بن الحسین باسناده عن حماد بن عمرو و انس

۳۷۵

بن محمد عن ابیه عن جعفر بن محمد عن آبا ئ ه علیهم السلام ( فی وصیة النی صلی الله علیه و آله لعی علیه السلام ) قال : یا علی ازالة الجبال الرواسی اهون من ازالة ملک لم تنقض ایامه ''

( وسائل الشیعہ ج۱۱ ص ۳۸)

رسو ل خدا نے حضرت علی سے فرمایا : پہاڑوں کو اکھاڑنا آسان ہے لیکن ان حکومتوں کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جن کا وقت نہ آیا ہو _

سند حدیث

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حماد بن عمرو مجہول ہے چنانچہ انس بن محمد مہمل ہے اور اس کے والد محمد کو رجال کی کتابوں میں اہمیت نہیں دی گئی ہے _

حدیث ششم

حمید بن زیاد عن عبید الله بن احمد الدهقان عن علی بن الحسن الطاهری عن محمد بن زیاد عن ابان عن صباح بن سیابنه ع المعلی بن خنیس قال ذهبت بکتاب عبد السلام بن نعیم و سدیر و کتب غیر واحد الی ابیعبدلله علیه السلام حین ظهر المسودة قبل ان یظهر ولد العباس : انّا قدّرنا ان یؤل هذا الامر الیک فما تری ؟ قال : فضرب بالکتب الارض ، قال : اف اف ما انا لهؤلاء بامام ، اما یعلمون انه انما یقتل السفیانی '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

معلّی کہتے ہیں : میں عبد السلام سدیر اور دوسرے چند افراد کے خطوط

۳۷۶

لیکر امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، بنی عباس کے آشکار ہونے سے قبل کالے لباس والے ظاہر ہوئے _ خطوط کا مضمون یہ تھا _ ہم نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ حکومت و قیادت آپ کی دست اختیا ر میں دی جائے آپ (ع) کیا فرماتے ہیں ؟ امام (ع) نے خطوط کو زمین پر دے مارا اور فرمایا : افسوس ، افسوس ، میں ان کاامام نہیں ہوں _ کیا انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ مہدی موعود وہ ہے جو سفیانی کو قتل کریں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے اس حدیث پر بھی اعتماد نہین کیا جا سکتا کیونکہ صباح بن سیابہ مجہول ہے _

مفہوم حدیث

احادیث کے مفہوم کے تجزیہ سے قبل درج ذیل نکات کو مد نظر رکھئے :

۱_ ائمہ کے زمانہ میں شیعہ ہمیشہ حضرت مہدی کے ظہور و انقلاب کے منتظر رہتے تھے کہ اس کی خبر انہوں نے رسول سے سنی تھی _

۲_ اس زمانہ میں شیعہ بڑی مشکلوں میں مبتلا تھے ، خلفائے جور کی ان پر سخت نگاہ رہتی تھی _ قید میں ڈال دیئےاتے ، جلا وطن کردیئےاتے یا قتل کردیئےاتے تھے _

۳_ ہر چند علوی سادات میں سے ہر ایک ظالم حکومتوں کے خلافت قیام کرتا تھا اور وہ لوگ بھی ان کی مدد کرتے تھے جو زندگی سے عاجز آجاتے اور قیام کرنے والے

۳۷۷

کو مہدی موعود اور منجی بشریت سمجھتے تھے لیکن زیادن دن نہیں گزرتے تھے کہ قتل ہوجاتے تھے _

۴_ خلفائے وقت انقلاب اور قائم کے سلسلہ میں بہت زیادہ حساس تھے ، وہ ہمیشہ خوف و ہارس میں مبتلا اور حالات کے سلسلے میں پریشان رہتے تھے ، وہ علوی سادات خصوصاً ان کے سربرآوردہ افراد پر نظر رکھتے تھے _ مذکورہ احادیث ایسے ہی حالات میں صادر ہوئی ہیں _ جو شیعہ مختلف قسم کی بلاؤں میںمبتلا تھے وہ ائمہ سے قیام کرنے اور مسلمانوں کو غاصب حکومتوں سے نجات دلانے کے سلسلہ میں اصرار کرتے تھے یا علوی سادات میں سے ان لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت مانگتے تھے جو مہدی موعود کے نام سے خروج کرتے تھے _ ائمہ اطہار (ع) فرماتے تھے : مہدی موعود کے قیام کے سلسلے میں عجلت نہ کرو کہ ابھی اس کاوقت نہیں آیا ہے _ خروج کرنے والوں نے مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے خروج کیا ہے جب کہ وہ مہدی موعود ہیں ہیں _ مہدی موعود کے ظہور و قیام کی مخصوص علامات ہیں جو کہ ابھی تک آشکار نہیں ہوئی ہیں _ پھر قیام کرنے والوں نے ہماری امامت کے استحکام کیلئے قیام نہیں کیا ہے _ ان کا انقلاب بھی کامیاب ہونے والا نہیں ہے _ کیونکہ غاصب حکومتوں کی تباہی کے اسباب فراہم نہیں ہوئے ہیں _ حکومت کا تختہ پلٹنا بہت دشوار ہے _ فرماتے تھے : کشائشے حاصل ہونے تک صبر کرو_ اور قیام مہدی کے سلسلہ میں جلد نہ کرو کہ ہلاک ہوجاؤگے _ اور چونکہ تمہاری نیت اصلاح و قیام کی ہے اور اس کے مقدمات فراہم کرنا چاہئے ہو اس لئے تمہیں اس کا ثواب ملیگا _ بہر حال مذکورہ احادیث تعجیل کرنے اور کمزور تحریک سے منع کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ مکمل تحریک کے مقدمات فراہم کرنے کیلئے ظلم و ستم

۳۷۸

اور کفر و بے دینی سے مبارزہ نہ کرو ان احادیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ جہاد، دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کا فریضہ امام زمانہ کی غیبت میں ساقط ہے _ اس زمانہ میں لوگوں کو فساد کا تماشہ دیکھنا چاہئے صرف تعجیل ظہور امام زمانہ کیلئے دعا کریں _ چنانچہ ان احادیث کو انقلاب و تحریک کے مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا ہے _

پانچواں حصّہ

جو روایات حضرت قائم قائم کے ظہور سے قبل ہر پرچم کے بلند کرنے والے کو طاغوت قراردیتی ہیں _

حدیث اول :

محمد بن یحیی عن احمد بن محمد عن الحسین بن سعید عن حماد بن عیسی عن الحسین بن المختار عن ابی بصیر عن ابیعبدالله علیه السلام قال : کل رایة ترفع قبل قیام القائم فصابحها طاغوت یعبد من دون الله _

( وسائل الشیعہ ج ص ۳۷)

امام صادق (ع) کا ارشادہے : جو پرچم بھی قائم کے قیام سے قبل بلند کیا جائے گا اس کابلند کرنے والا شیطان ہے ، جو کہ خدا کے علاوہ اپنی عبادت کراتا ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _ اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

۳۷۹

حدیث دوم :

محمد بن ابراهیم النعمانی عن عبد الواحد بن عبدالله قال حدثنا احمد بن محمد بن ریاح الزهری قال حدثنا محمد بن العباس عن عیسی الحسینی عن الحسن بن علی بن ابی حمزة عن ابیه عن مالک بن اعین الجهنی عن ابی جعفر علیه السام انه قال کل رایة ترفع قبل رایة القائم فصاحبها طاغوت

( مستدر ک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر علیہ السام کا ارشاد ہے : جو پرچم بھی مہدی کے پرچم سے پہلے بلند کیا جائے گا ، اس کا بلند کرنے والا شیطان ہے _

سند حدیث

روایت کے معنی پرچم کے ہیں اور پرچم بلند کرنا کنایہ ہے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے اور صاحب پرچم عبارت ہے ہراس تحریک کے قائد سے جو کہ موجودہ حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے لوگوں سے مدد مانگتا ہے _ طاغوت یعنی ظالم و جابر شخص جو حریم الہی پر تجاوز کرے اور خدا کی حاکمیت کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنی حاکمیت قبول کرنے پر مجبور کرے _ جملہ یعبد من دون اللہ اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ صاحب پرچم حکومت خدا کے مقابلہ میں ایک حکومت بنانا چاہتا ہے اور دینی تمنّا پوری کرنا چاہتا ہے ایسے پرچم کے حامل کو طاغوت و شیطان کہا گیا ہے _ اس بناپر گزشتہ احادیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جو پرچم بھی قیام مہدی سے قبل بلند کیا جائیگا اور اس کا حامل لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا تو ایسے پرچم کا حامل شیطان ہے کہ جس نے

۳۸۰

حریم الہی پر تجاوز کیا ہے اور لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دی ہے _ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ غیر اسلامی تحریکیں قابل قبول نہیں ہیں _ لیکن اگر کوئی تحریک دین حاکمیت اور قرآن کے قوانین سے دفاع کے عنوان سے وجود میں آتی ہے تو وہ قابل قبول ہے _ کیونکہ یہاں پرچم دین کے مقابلہ میں علم بلند نہیں کیا گیا ہے چنانچہ ایسی تحریک کا قائد بھی طاغوت نہیں ہے بلکہ وہ طاغوت کا مخالف ہے _ ایسا قائد ورہبر لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت نہیں دیتا ہے بلکہ رب العالمین کی عبادت کی دعوت دیتا ہے _ ایسا پرچم قائم آل محمد کےعلم کے مقابلہ میں بلند ہیں کیا جاتا ہے بلکہ امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے زمین ہموار کرے گا _ کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ظہور امام زمانہ سے قبل ہر بلند کئے جانے والے پرچم کا حامل شیطان ہے ؟ کیا معاویہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف علی (ع) نے قیام نہیں کیا تھا؟ کیا امام حسن (ع) نے معاویہ سے اعلان جنگ نہیں کیا تھا ؟ کیا امام حسین (ع) نے اسلام سے دفاع کی خاطر یزید (لعن) سے جنگ نہیں کی تھی ؟ کیا زید بن علی (ع) بن حسین نے قرآن سے دفاع کیلئے ظلم و ستم کے خلاف انقلاب برپا نہیں کیا تھا؟

خلاصہ

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس حصہ کی اکثر احادیث ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ان سے تمسک نہیں کیا جا سکتا _ مذکورہ احادیث کا لب لباب یہ ہے _

۱_ جو شخص بھی قیام کرے اور تم سے مدد طلب کرے تو تم سوچے سمجھے بغیر اس کی آواز پر لبیک نہ کہو بلکہ آواز دینے والے اور اس کے مقصد کی تحقیق کرو _ اگر اس نے مہدی موعود کے عنوان سے قیام کیا ہے یا اس کا مقصد باطل ہے تو اس کی آواز

۳۸۱

پر لبیک نہ کہو _ کیونکہ امام زمانہ کے ظہور اور قیام کا وقت نہیں آیا ہے _

۲_ یہ احادیث ان شیعوں کو جو کہ ائمہ سے قیام کرنے کااصرار کرتے تھے ، اس خارجی حقیقت کی خبر دیتی ہے کہ قائم آل محمد کے قیام سے قبل ہم ائمہ میں سے جو بھی قیام کرے گا اس کا قیام ناکام ہوگا اور شہید کردیا جائے گا _ کیونکہ حضرت مہدی کے عالمی انقلاب کے مقدمات فراہم نہیں ہوئے ہیں _

۳_ حضرت مہدی کے ظہور کے مخصوص علامات ہیں چنانچہ ان علائم کے ظاہر ہونے سے قبل جو شخص بھی مہدی موعود کے عنوان سے قیام کرے اس کی دعوت قبول نہ کرو _

۴_ کسی بھی حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے اسباب و مقدمات کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے مقدمات و اسباب کی فراہمی سے قبل تحریک و انقلاب میں عجلت سے کام نہ لو ورنہ ناکام ہوگا _

۵_ قائم آل محمد کے قیام سے قبل حاکمیت خدا کے مقابلہ میں جو پرچم بلند ہوگا اس کا حاکم شیطان ہے کہ جس نے عظمت خدا کو چینج کیا ہے لہذا اس کی آواز پر لبیک نہین کہنا چاہئے _

مذکورہ احادیث صرف ان انقلابات کی تردید کرتی ہیں کہ جن کا رہبر مہدویت کا مدعی ہو اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرے یا باطل اس کا مقصدہو یا ضروری اسباب کے فراہم ہونے سے قبل قیام کرے _ لیکن اگر انقلاب کا رہبر مہدویت کے عنوان سے قیام نہ کرے ، اور حاکمیت خدا کے مقابلہ میں حکومت کی تشکیل کیلئے انقلاب برپا نہ کرے بلکہ اس کا مقصد اسلام و قرآ ن سے دفاع، ظلم و استکبار سے جنگ ، حکومت الہی کی تشکیل اور آسمانی قوانین کا نفاذ ہو اور اس کے اسباب فراہم کر لیئےوں اور ان تمام چیزوں کے بعد وہ لوگوں سے مدد طلب کرلے تو مذکورہ روایات ایسے انقلاب و قیام

۳۸۲

کی مخالفت نہیں کرتی ہیں _ ایسی تحریک کا پرچم شیطان کا پرچم نہیں ہے بلکہ یہ علم طاغوت کے خلاف ہے _ ایسی حکومت کی تشکیل خدا کی حکومت کے مقابلہ میں نہیں ہے بلکہ یہ تو حاکمیت خدا اور امام مہدی کی عالمی حکومت کیلئے زمین ساز ہے _ اس بناپر مذکورہ احادیث ایسے انقلاب و تحریک کی مخالفت نہیں کرتی ہیں _

نتیجہ بحث

چونکہ ہماری بحث بہت طویل ہوگئی ہے اس لئے دو حصوں کے خلاصہ کو بھی اشارتاً بیان کرنا ضروری ہے _ اس کے بعد نتیجہ بیان کریں گے _ پہلے حصہ میں درج ذیل مطالب کا اثبات ہوا ہے :

۱_ قوانین اور سیاسی و اجتماعی منصوبے اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں جیسے ، جہاد ، دفاع ، ظلم و بیدادگری سے جنگ ، عدل و انصاف کی ترویج ،جزاء و سزا کے قوانین ، شہری حقوق ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور مسلمانوں کے آپسی و کفار سے روابط و غیرہ _

۲_ اسلام کے احکام و قوانین نفاذ و اجراء کیلئے آئے نہ کہ پڑھنے اور لکھنے کے لئے _

۳_ اسلام کے قوانین کامکمل اجراء حکومت کی تاسیس اور اداری تشکیلات کا محتاج ہے مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ ایسے افراد کا وجود ضروری ہے کہ جو آسمانی قوانین کے اجراء کی ذمہ داری قبول کریں اور اس طرح مسلمانوں کے معاشر ہ کو چلائیں _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں شامل ہے اور اس کے بغیر کامل طور پر اسلام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

۴_ مسلمانوں کے امور کی زمام اور قوانین اسلام کے اجراء کی ذمہ داری عملی طور پر

۳۸۳

پیغمبر اسلام کے دست مبارک میں تھی _

۵_ اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کا مکمل اجراء رسول خدا کے زمانہ ہی میں واجب نہیں تھا بلکہ تا قیامت واجب رہے گا _

۶_ جب پیغمبر اکرم بقید حیات ہوں یا مسلمانوں کی معصوم امام تک رسائی ہو تو اس زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ حکومت کی تاسیس اور پیغمبر یا امام کی طاقت کے استحکام کی کوشش کریں اور اس کے فرمان کی اطاعت کی اطاعت کریں _ اوراگر مسلمانوں کے درمیان میں ایسا کوئی معصوم نہ ہو تو بھی مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ پرہیزگار فقیہ کو اپنا مدار الہام بنائیں اور اس کی ولایت و حکومت کے استحکام کی کوشش کریں اور اس کے فرمان کی اطاعت کریں _ یعنی ایسی

حکومت تشکیل دیں جو اسلام کے پروگراموں کو نافذ کرسکے اور اسلامی حکومت کے یہی معنی ہیں _

اس بحث کے دوسرے حصہ میں آپ نے مخالف احادیث اور ان کے مفہوم کو ملاحظہ فرمایا ہے _

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ مذکورہ احادیث اپنی سند و دلالت کے باوجود مسلمانوں سے ایسی قطعی و حتمی فریضہ ، یعنی قوانین اسلام کے نفاذ ، کو ساقط کرسکتی ہیں؟

کیا ان احادیث کو ان آیات و روایات کے مقابل میں لایاجا سکتاہے جو کہ جہاد دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ اور مستضعفین سے دفاع کو واجب قرار دیتی ہیں ؟ کیا غیبت امام زمانہ میں اس فرضہ کو مسلمانوں سے ساقط کیاجا سکتا ہے ؟ کیا ایسی احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شارع اسلا م نے اس زمانہ میں اپنے سیاسی و اجتماعی احکام سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور ان کے اجراء کو امام مہدی کے زمانہ پر موقوف

۳۸۴

کردیا ہے ؟ کیا ایسی احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام سے دفاع کرنا واجب نہیں ہے حتی اس کی اساس ہی کیوں نہ خطرہ میں ہو ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں پر خاموش رہنا واجب ہے خواہ کفار و مشرکین ان کی تمام چیزوں پر قابض ہوجائیں ، ان کے جان و مال اور ناموس پر مسلط ہوجائیں ، انھیں ظہور امام تک صبر کرنا چاہئے ؟ کیا مذکورہ احادیث اس سند و مفہوم کے باوجود درج ذیل آیات کے مقابل میں آسکتی ہیں؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم ( توبہ/ ۱۲)

کفر کے سر غناؤ سے جنگ کرو کہ ان کی کسی قسم کا اعتبا رنہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة (توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے تم سب ہی جنگ کرو جیسا کہ وہ تم سے جنگ کرتے ہیں _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال/ ۲۹)

اور ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا ہی باقی رہے

و ما لکم لا تقاتلون فی سبیل الله والمستضعین ( نسائ/ ۷۵)

اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ راہ خدا اور مستضعفین کی نجات کیلئے جہاد نہیں کرتے؟

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کا ن ضعیفا ( نساء / ۷۵)

پس شیطان کااتباع کرنے والوں سے جنگ کرو بے شک شیطان کا مکر بہت ہی کمزور ہے _

و جاهد فی الله حق جهاده ( حج / ۷۸)

اور راہ خدا میں اس طرح جہاد کرو جو اس کاحق ہے _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لاتعتدوا ( بقرہ / ۱۹۰)

اور راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں پس حد سے نہ گزر جاؤ _

۳۸۵

و لتکن منکم امة یدعون الی الخیر و یأمرون بالمعروف و ینهون عن المنکر _ (آل عمران / ۱۰۴)

اور تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے جو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں _

یا ایها الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء لله ( نسائ/ ۱۳۵)

ایمان لانے والو عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کیلئے گواہ بنو_

واعدّوا لهم مااستعطتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدوالله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

او ر تم جہاں تک ہوسکے طاقت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو کہ جس سے تم اپنے دشمن اور اللہ کے دشمنوں کو ڈرا سکو _

ایسی ہی دسیوں آیت اور سیکڑوں احادیث ہیں _ مذکورہ احادیث ہرگز مسلمانوں سے اسلام کے قطعی و حتمی فریضہ کو ساقط نہیں کرسکتی ہیں بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ دین کی اشاعت ، اسلام ومسلمانوں سے دفاع اور قرآن کے حیات بخش پروگراموں کے اجراء میں کوشش کریں خواہ اس سلسلہ میں سب کو جہاد کرنا پڑے _

اس اہم امر کو انجام دینے کے سلسلہ میں فقہائے اسلام اور علمائے دین کی سخت ذمہ اری ہے _ کیونکہ وہ انبیاء کے وارث ، دین کے نگہبان اور لوگوں کی پناہ گاہ ہیں _ کیا علما و فقہا کو یہ حق حا صل ہے کہ وہ انکفار مستکبرین اور طاغوت کے مقابلہ میں خاموش رہیں کہ جنہوں نے ملت اسلامیہ کو بدبخت بنا دیا ہے ؟ اور مستضعفین و محرومین کو ایک عظیم انقلاب کی تشویق نہ دلائیں ؟ کیا حضرت امیر المؤمنین (ع) نے نہیں

۳۸۶

فرمایا؟

'' قسم اس خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور انسانوں کو پیدا کیا ، اگر میری بیعت کیلئے اتنا مجمع نہ آتا اور اس طرح مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اگر خدا نے علی سے یہ عہد نہ لیا ہو تا کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے تو میں شنر خلافت کی رسی کو اس کی پشت پر ڈالدیتا کہ وہ جہاں چاہے چلا جائے ''_(۱)

کیا امام حسین (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) سے یہ نقل نہیں کیا ہے ؟:

من را ی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم ناکثاً لعهد الله مخالفاًلسنة رسول الله صلی الله علیه و آله یعمل فی عبادالله بالاثم و العدوان فلم یغيّر علیه بفعل و لا قول کان حقاً علی الله ان یدخله مدخله '' (۲)

'' جو شخص ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے حرام خدا کو حلال کردیا ہے اور حدود خدا کو توڑدیا ہے ، پیغمبر (ص) کی سنت کو پامال کررہا اور خدا کے بندوں کے درمیان گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اس کے باوجود (دیکھنے والا) اپنے قول و عمل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو خدا کو حق ہے کہ اسے ظالم کے ساتھ جہنّم میں ڈالد ے '' _

____________________

۱_ نہج البلاغہ خطبہ /۲_

۲_ الکامل فی التاریخ ج ۴ ص ۴۸ چھاپ بیروت _

۳۸۷

دوسری جگہ امام حسین (ع) فرماتے ہیں :

ذالک بان مجاری الامور والاحکام علی ایدی العلماء بالله الامناء علی حلاله و حرامه ، فانتم المسلموبوت تلک المنزلة و ما سلبتم ذالک الاّ بتفرقکم ع الحق و اختلافکم فی السنة بعد البيّنة الواضعة و لو صبرتم علی الاذی و تحملتم المؤونة فی ذات الله کانت امور الله علیکم تردو عنکم تصدر والیکم ترجع و لکنکم مکنتم الظلمة من منزلتکم و استسلمتم امور الله فی ایدیهم یعمولن بالشبهات و یسیرون فی الشهوات سلّطهم علی ذالک فرارکم من الموت و اعجابکم بالحیاة التی هی مفارقتکم فاسلمتم الضعفاء فی ایدیهم فمن بین مستعبد مقهور و بین مستضعف علی معیشتهم مغلوب ، یتقلبون فی الملک بآرائهم و یستشعرون الخز ی باهوائهم اقتداء بالاشرار و جراة علی الجبار _(۱)

یہ اس لئے ہے کہ امور و احکام علماء کے ہاتھ میں ہیں وہ خدا کے حلال و حرام میں اس کے امین ہیں اور تم نے اس عظمت و منزلت کو گنوادیا ہے اور یہ عظمت تم سے اس لئے سلب ہوئی ہے کہ تم نے حق کے سلسلہ میںافتراق کیا اور واضح دلیلوں کے باوجود سنت پیغمبر کے بارے میں اختلاف

____________________

۱_ تحف العقول ص ۲۴۲_

۳۸۸

کیا _ اگر تم نے صبر کیا ہوتا اور راہ خدا میں سختیاں برداشت کی ہوتیں تو امور خدا تم پر وارد ہوتے اور تم ہی سے صادر ہوتے اور تم ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن تم نے اپنے فریضہ کی انجام وہی میں کوتاہی کرکے اپنی جگہ پر دشمن کو بٹھادیا ہے اور امور خدا کو اس کے سپردکردیا تا کہ وہ جیسا چاہیں کریں _ تمہارے موت سے فرار کرنے اور دنیا سے دل لگانے کی وجہ سے وہ تم پر مسلط ہوگئے کمزور و محروم لوگوں کو تم ہی نے ظالموں کے ہاتھ میں دیا ہ تا کہ وہ ان میں سے بعض کو غلام بنالیں اور بعض کونان شبینہ کا محتاج بنادیں اور ظلم اپنی خواہش کے مطابق حکومت کریں اور اپنی ملت کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کریں اور اس میں وہ اشرار کی پیروی کریں اور خدا کی مخالفت میں جری ہوجائیں _

علماء و فقہا پر اسلام میں اتنی ہی سنگین ذمہ داری ہے _ اگر وہ اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تو قیامت میں ان سے بازپرس ہوگی _ صرف درس دینا بحث و مباحثہ ، تقریرات نویسی ، نماز پڑھنا اور مسائل بیان کرنا ہی نہیں ہے بکلہ ان کا سب سے بڑا فریضہ دین اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، کفر و الحاد سے جنگ اور اسلام کے احکام و قوانین کے اجراء میں کوشش کرنا ہے _ اگر اس سلسلے میں کوتاہی کریں گے تو خدا کے سامنے وہ کوئی عذر پیش نہیں کر سکیں گے اوراس اہم ذمہ داری کو چند ضعیف حدیثوں سے تمسک کرکے وہ سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں _

کیا خدا و رسول (ص) ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم دشمنوں کی خطرناک سازشوں اور اسلامی ممالک سے ان کی افسوس ناک رقابت پر خاموش رہیں اور ماضی کی طرح بحث و مباحث اور اقامہ نماز پر اکتفا کریں؟ ہرگز نہیں _

۳۸۹

ظہورکی کیفیت

حسب سابق ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور اولین سوال ڈاکٹر صاحب نے اٹھایا :

ڈاکٹر: اجمالی طور پر امام زمانہ کے ظہور کی کیفیت بیان کیجئے _

ہوشیار : اہل بیت کی احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب دنیا کے حالات سازگار ہوجائیں گے اور حکومت حق کو قبول کرنے کیئے دنیا والوں کے قلب آمادہ ہوجائیں گے اس وقت خداوند عالم امام مہدی کوانقلاب کی اجازت دے گا چنانچہ آپ یکایک مکہ میں ظاہر ہوں گے اور منادی حق دنیا والوں کے کانوں تک آپ (ع) کے ظہور کی بشارت پہنچائے گا _ دنیا کے برگزیدہ افراد ، کہ بعض روایات میں جن کی تعداد تین سو نیرہ بیان ہوئی ہے _ ندائے حق پر سب سے پہلے لبیک کہیں گے اور لمحوں میں ولی خدا کی طرف کھینچ آئیں گے _

امام صادق کا ارشاد ہے : جب صاحب الامر ظہور فرمائیں گے کچھ شیعہ جوان پہلے سے کسی وعدہ کے بغیر شب میں مکہ یہنچ جائیں گے _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۷۰_

۳۹۰

اس کے بعدآپ اپنی دعوت عام کا سلسلہ شروع کریں گے _ مظلوم و مایوس لوگ آپ کے پاس جمع ہوجائیں گے _ بیعت کریں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے شجاع ، فداکار اور اصلاح طلب لوگوں فوج تیار ہوجائے گی _ امام زمانہ کے انصار کی توصیف میں امام محمد باقر و امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب پر قابض ہوجائیں گے دنیا کی ہر چیز کو مسخر کرلیں گے، ان میں سے ہر ایک میں چالیس مردوں کی قوت ہوگی ، ان کے دل فولاد کے ہیں ، مقصد کے حصول میں اگر پہاڑ بھی سامنے آئے گا تو اسے بھی ریزہ ریزہ کردیں گے ، اس وقت تک جنگ سے دست بردار نہ ہوں گے جب تک خدا راضی نہ ہوگا _(۱)

اس زمانہ میں ظالم و خود سر حاکمان خطرہ محسوس کریں گے ، دفاع کیلئے اٹھیں گے اور اپنے ہم مسلکوں کو امام زمانہ کی مخالفت کی دعوت دیں گے ، لیکن عدل دوست و اصلاح پسند سپاہی جو کہ ظلم و جور سے عاجز آچکے ہیں ، متحد ہوکر ان پر حملہ کریں گے ، خدا کی مدد سے ان کا قلع قمع کریں گے اور تہ تیغ کریں گے ، ہر

جگہ خوف و ہراس طاری ہوگا اور ساری دنیا حکومت حق کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائے گی _

بہت سے کفار صدق و حقیقت کی علامتیں دیکھ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے اور جو اپنے کفر و ظلم پر اٹل رہیں گے انھیں امام زمانہ کے سپاہی قتل کریں گے ، پوری دنیا میں اسلام کی مقتدر و طاقتور حکومت تشکیل پائے گی اور لوگ دل و جان سے اسکی حفاظت و نگہبانی کی کوشش کریں گے(۲) اور ہر جگہ ، اسلام کا بول بالا ہوگا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۷

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۷۹ تا ص ۳۸۰

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۵۵ ،اثبات الہداة ج ۷ ص ۵۰

۳۹۱

کفار کی سرنوشت

ڈاکٹر : امام زمانہ کی حکومت کے دوران کفار و مشرکین کی سرنوشت کیا ہوگی ؟

ہوشیار : آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں غیر کتابی کفار اور ملحدین سے زمین کی طاقت و قدرت چھین لی جائے گی اور اس پر مسلمانوں کا تسلط ہوگا مثال کے طور پر چند آیات پیش کرتا ہوں _

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے توریت کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہمارے صالح بندے زمین کے وارث ہوں گے ''( ۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

'' خدا وہ ہے جس نے دین حق کے ساتھ اپنے رسول (ص) کو مبعوث کیا تا کہ وہ تمام ادیان پر غالب ہوجائے _ اگرچہ مشرکوں کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو _(۲)

____________________

۱_ انبیاء / ۱۰۵

۲_ صف / ۹۰

۳۹۲

نیز ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو خلیفہ بنایا تھا اورانھیں یہ بشارت دی ہے کہ جو دین ان کیلئے پسند کیا ہے وہ اسے غلبہ عطا کرے گا اور ان کے خوف کو اطمینان و سکون سے بدل دے گا تا کہ و ہ میرے عبادت کریں اور کسی کو شریک نہ قرار دیں _(۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

اور ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو روئے زمین پرکمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں او رانھیں زمین کا وارث قرا ردیں اور طاقت عطا کریں _(۲)

مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ جس میں شائستہ و صالح مومنون اور مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور نور اسلام کے سامنے تمام ادیان ماند پڑجائیں گے اور اسلام ہی کا بول بالا ہوگا _ احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ کے زمانہ حکومت میں روئے زمین سے کفر و

شرک کی طاقت کاخاتمہ ہوجائے گا اور موحد و کلمہ توحید کے پڑھنے والوں کے علاہ کوئی باقی نہ رہے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں پیغمبر(ص) اسلام کا ارشادہے :

اگر دنیا کی عمر کا صرف ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس شخص کو مبعوث

____________________

۱_ نور / ۵۴

۲_ قصص/ ۴

۳۹۳

کرے گا جس کا نام میرا نام ہے ، جس کا اخلاق میرا اخلاق ہے اور جس کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور ان کے ذریعہ دین کو عظمت رفتہ عطا کرے گا ، انھیں فتح عطا کرے گا اور روئے زمین پر کلمہ توحید کے پڑھنے والوں کے علاوہ کسی کا وجود نہ ہوگا ، عرض کیا گیا : یہ شخص آپ (ص) کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنا دست مبارک حسین کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس سے _(۱)

حضرت ابو جعفر نے فرمایا:

'' قائم اور ان کے اصحاب اس وقت تک جنگ کریں گے کہ جب تک مشرکوں کا خاتمہ نہ ہوگا _(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۱۵ و ص ۲۴۷

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۴۵

۳۹۴

یہود و نصاری کی سرنوشت

ڈاکٹر : یہود و نصاری تو آسمانی مذہب کے ماننے والے ہیں ان کے سرنوشت کیا ہوگی ؟

ہوشیار: بعض آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تا قیامت باقی رہیں گے _ خداوند عالم کا ارشادہے :

'' ہم نے نصرانیت کا دعوی کرنے والوں سے عہد لیا _ لیکن انہوں نے ہماری بعض نصیحتوں کو فراموش کردیا تو ہم نے بھی قیامت تک کیلئے ان کے درمیان کینہ و عداوت ڈال دی '' _(۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

'' خدا نے عیسی سے فرمایا: ہم تمہاری دنیوی عمر تمام کرنے والے اور تمہیں اپنی طرف پلٹانے والے اور تمہیں کفار سے نجات دلانے والے اور تمہارا اتباع کرنے والوں کو قیامت کیلئے کفار پر تسلط عطا کرنے والے ہیں '' _(۲)

____________________

۱_ مائدہ / ۱۴

۲_ آل عمران / ۵۵

۳۹۵

پہلی آیت میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے : ہم ان کے درمیان قیامت کیلئے کینہ توزی و عداوت ڈالدیں گے _ دوسری آیت میں فرماتا ہے : نصاری قیامت تک کفار سے بلند رہیں گے _ ان دو آیتوں کے ظاہر کا مقتضی یہ ہے کہ نصاری کا مذہب قیامت تک اور امام مہدی کے زمانہ (ع) حکومت میں بھی باقی رہے گا _

سورہ مائدہ میں ارشاد ہے:

'' یہود کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں _ حقیقت یہ ہے کہ ان ہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہ اپنے قول کی بناپر ملعوں ہیں اور خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ آپ (ص) کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اس کا انکار ان میں سے بہت سول کے کفر اور ان کی سرکشی کو اور بڑھادے گا اور ہم قیامت کیلئے ان کے درمیان بغض و عداوت پیدا کردیں گے _(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: ان آیتوں کے ظاہر کی دلالت اس بات پر ہے کہ نصاری و یہود کامسلک قیامت تک باقی رہے گا _

بعض احادیث سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے ، مثلاً:

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : اہل ذمہ _ یہود و نصاری _ کے ساتھ صاحب الامر کا کیا سلوک ہوگا ؟ فرمایا : پیغمبر کی مانند ان سے مصالحت کریں گے اور وہ بھی نہایت ہی انکسار کے ساتھ جزیہ

____________________

۱_ مائدہ -۶۴

۳۹۶

دیں گے _(۱)

حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں : مہدی (عج) کو صاحب الامر اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ توریت اور تمام آسمانی کتابوں کو اس غار سے نکالیں گے جو کہ انطاکیہ میں واقع ہے _ توریت والوں کے درمیان توریت سے ، انجیل والوں کے درمیان انجیل سے اور زبور والوں کے درمیان زبور سے قضاوت کریں گے _(۲)

ان احادیث و آیات کے مقابلہ میں جو مخالف احادیث بھی موجود ہیں کہ جنکی دلالت اس بات پر ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں روئے زمین پر مسلمانوں کے علاوہ کسی کا وجود نہ ہوگا _ آپ یہود و نصار ی کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے جو قبول کریگا وہ نجات پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ قتل کیا جائے گا _ مثلاً:

ابن بکیر کہتے ہیں : میں نے حضرت ابو الحسن سے آیہ '' ولہ اسلم من فی السموات و الارض طوعاً و کرہاً و الیہ یرجعون'' کی تفسیر دریفات کی تو فرمایا:

یہ حضرت قائم کی شان میں نازل ہوئی ہے _ ظہور کے بعد آپ یہود ، نصاری ، صائبین اور مشرق و مغرب کے کافروں کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے ، پس جو شخص راضی برضا اسلام قبول کرے گا ، اسے نماز پڑھنے اور زکوة کی ادائیگی اور دیگر واجبات کا حکم دیں گے اور جو قبول کرنے سے روگردانی کریگا اسکی گردن ماریں گے _ یہاں تک کہ روئے زمین پر موحدین کے علاوہ

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۸۱و ص ۳۷۶_

۲_ غیبت نعمانی ص ۱۳۵_

۳۹۷

کوئی باقی نہ رہے گا _ ابن بکیر کہتے ہیں : میں نے عرض کی قربان جاؤں _کیا دنیا کے اتنے لوگوں کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ فرمایا : جب خدا کسی کام کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس وقت کم و زیادہ اور زیادہ کم کردیتا ہے _(۱)

حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں : خدا دنیا کے مشرق و مغرب میں صاحب الامر کو فتح عطا کرے گا آپ اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک دین محمد پور ی دنیا میں نافذ ہوگا _(۲)

ابوجعفر (ع) ہی آیہ لیظہرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون کی تفسیر بیان فرماتے ہیں دنیا میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچے گا جو محمد کا کلمہ نہیں پڑھے گا _(۳)

جیسا کہ آپ (ع) نے ملاحظہ فرمایا : احادیث کے دو حصے ہیں _ ان میں سے ایک قرآن کے موافق اور دوسرا مخالف ہے ، علما پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ قرآن کے موافق والا حصہ مقدم ہے اور مخالف قرآن کا کوئی اعتبار نہیں ہے _ اس بناپر ، حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں یہود و نصاری باقی رہیں گے لیکن تثلیث و

شرک کا عقیدہ ترک کردیں گے صرف خدا کی عبادت کریں گے اور اسلامی حکومت کی پناہ میں زندگی بسر کریں گے _ باطل حکومتوں کاتختہ الٹ جائے گا اور دنیا کی حکومت با صلاحیت مسلمانوں کے دست اختیار میں آجائے گی اور دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوگا اور ہرجگہ کلمہ توحید کا ہمہمہ ہوگا امام صادق (ع) فرماتے ہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۴۰

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۹۰

۳_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۶_

۳۹۸

جب امام مہدی ظہور فرمائیں گے اس وقت زمین کے گوشہ گوشہ سے اشہد ان لا الہ الا اللہ و ان محمداً رسول اللہ کی آواز بلند ہوگی _(۱)

حضرت ابوجعفر (ع) کاارشاد ہے : ظہور قائم کے بعد باطل حکومت ہمیشہ کیلئے نیست و نابود ہوجائے گی _(۲)

حضرت ابو جعفر نے فرمایا : خدا ائمہ اور مہدی (عج) کو مشرق و مغرب کا حاکم قرار دے گا _ ان کے ذریعہ دین کو مضبوط کرےگا _ بدعتوں کو ختم کرے گا _ اس وقت ظلم مٹ جائیگا وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں گے _(۳)

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی فرزند رسول آپ اہل بیت کے قائم کوں ہیں ؟ فرمایا : ابوبصیر میرے بیٹے موسی کے پانچویں فرزند ہیں _ یہ بہترین کنیز کے بطن سے ہوں گے _ ان کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ اس کے بعد خداظاہر ہونے کا حکم دے گا اور مشرق و مغرب پر انھیں فتح عطا کرے گا _ عیسی بن مریم نازل ہوں گے اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے _ زمین اس وقت نور خدا سے چمک اٹھے گی اور جہاں جہاں بھی غیر خدا کی عبادت ہوتی تھی وہاں خدا کی عبادت ہوگی _ صرف دین خداہوگا اگر چہ مشرکوں کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو _(۴)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۴۰

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۶۲

۳_بحار الانوار ج ۵۱ ص ۴۷

۴_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۴۶

۳۹۹

پیغمبر اسلام نے حضرت علی سے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہونگے ، ان میں سے پہلے تم اور آخری قائم ہے کہ جن کے ہاتھوں پر خدا مشرق و مغرب کو فتح کرے گا _(۱)

انجینئر : اس سلسلہ میں ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے لیکن وقت ختم ہوچکا ہے اس سے زیادہ ڈاکٹر صاحب اوردیگر احباب کا وقت نہ لیا جائے اگر اجازت ہو تو آئندہ جلسہ میں اسے پیش کروں _

* * *

جلسہ ختم ہوگیا اور یہ طے پایا کہ اگلے ہفتہ احباب جناب جلالی صاحب کے گھر تشریف لائیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۷۸_

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455