آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181597 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

دین خدا کے سلسلہ میں کسی مروت کا شکار نہ ہوجانا _

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر و یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر ( آل عمران / ۱۰۴)

اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی طرف دعوت دے نیکیوں کا حکم دے ، برائیوں سے منع کرے _

یا ایها الذین امنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء لله (نساء/ ۱۲۵)

ایمان لانے والو تم عدل قائم کرنے والے اور خدا کیلئے گواہ بن جاؤ_

ایسی ہی بے شمار آیتیں ہیں جن میں ھام مسلمانوں کو مخاطب کیا گیا ہے اور ان سے ان اجتماعی فرائض کی انجام وہی کی خواہش کی گئی ہے جو اسلامی حکومت کی مصلحت کے مطابق ہوں _ مثلاً دشمنوں سے جنگ اور را ہ خدا میں جہاد کرنے کا حکم دیا گیا ہے ، مستکبرین اور کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو، دنیا کے لوگوں کو خیر و صلاح کی دعوت دو ، فساد ، معصیت اور ستمگری سے مبارزہ کرو_ عدل و انصاف قائم کرو اور حدود خدا کو جاری کرو _

معمولی غور و فکر سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ ایسے اجتماعی اہم امور کا اجراء حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے اور چونکہ مسلمانوں سے اس امر کا مطالبہ کیا گیا ہے اس لئے اس کے مقدمات فراہم کرنا ، یعنی اسلامی حکومت کی تاسیس میں کوشش کرنا مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بعبارت دیگر ہر شعبہ میں دین کے قوانین کا نفاذ اسلامی حکومت کے بغیر ممکن نہیں ہے جبکہ دینی احکام کا نفاذ مسلمانوں کا فریضہ ہے قرآن مجید میں خداوند عالم کا ارشاد ہے _

۳۴۱

خدا نے تمہارے لئے دین کے وہ احکام مقرر کئے ہیں جن کی نوح کو وصیت کی اور پیغمبر ان ہی کی تمہاری طرف بھی وحی کی اور جس چیز کی ہم نے ابراہیم و موسی اور عیسی کو وصیت کی تھی وہ یہی تھی کہ دین کو قائم کرو اور اس میں تفرقہ پیدا کرنے سے اجتناب کرو ''(۱) _

قرآن مجید کے عام خطابات اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی احکام کے استمرار سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ جس زمانہ میں معصوم امام تک رسائی نہ ہو _ اس میں اسلامی حکومت کی تاسیس خود مسلمانوں کا فریضہ ہے تا کہ اس کے ذریعہ ہر شعبہ میں دینی احکام کو نافذ کریں اور اس کے تمام منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں _

اگر ہم اس عقلی بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہرج و مرج میں حکومت کے بغیر زندگی گزارنا ممکن نہیں ہے ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ شارع اسلام نے بھی ہرج و مرج کو پسند نہیں کیا ہے ، اور انسان کی دنیوی و اخروی سعادت و کامیابی کے لئے خاص حکومت کا نظریہ پیش کیا ہے اور اسی لئے سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام مقررکئے ہیں ، اگر ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اسلامی حکومت کی تشکیل کا وجوب اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین اور منصوبوں کاا جراء و رسول (ص) خدا کی مختصر حیات ہی میں محدود نہیں ہے _ بلکہ انھیں ہر زمانہ میں جاری رہنا چاہئے ، اگر اس بات کے معتقد ہیں کہ ہر زمانہ اور ہر شعبہ میں دین کو قائم کرنا مسلمانوں پر واجب کیا گیا ہے تو اس کا لازمہ یہ ہے کہ امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تشکیل میں کوشاں رہیںاورپیغمبر اسلام کی حکومت کو استمرار بخشیں تاکہ اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبے اور احکام کے پرتو

____________________

۱_ شوری/ ۱۳

۳۴۲

میں امن و امان اور سالمیت کا ماحول پیدا ہوجائے اور خدائے متعال کی عبادت و اطاعت تزکیہ نفس اور سیر الی اللہ کیلئے زمین ہموار ہوجائے _

نبوّت

حکومت کی تشکیل کی ضرورت اور اس کے استمرار میں کوشاں رہنا ایک عقلی بات ہے اسے سارے عقلا تسلیم کرتے ہیں _ اسلام نہ صرف اس عقلی بات کو رد نہیں کیا ہے بلکہ اس کی تائید کی ہے چنانچہ جب جنگ احد میں رسول خدا کے شہید ہوجانے کی جھوٹی خبر گشت کرنے لگی تو اس جھوٹی خبر سے ان اسلامی جانبازوں کے حوصلہ ماند پڑگئے جو جنگ میں مشغول تھے تو یہ آیت نازل ہوئی _

اور محمد (ص) بھی ایک رسول(ص) ہیں ان سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں _ اگر وہ مرجائیں یا قتل ہوجائیں تو کیا تم پچھلے پاؤن اپنی سابقہ حالت کی طرف پلٹ جاؤگے ؟(۱) یعنی ان کے مرجانے یا تقل ہوجانے سے تم اپنے اجتماعی نظم و ضبط سے ہاتھ دھو بیٹھوگے اور جہاد کو ترک کردوگے ؟ جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں مذکورہ آیت اسلامی و اجتماعی نظام کے استمرار و تحفظ کو عقل سلیم رکھنے والے مسلمانوں پر چھوڑاہے اور اس بات کی تاکید کی ہے کہ مسلمان لمحہ بھر کیلئے بھی یہاں تک پیغمبر کے قتل ہوجانے یا مرجانے سے بھی جہاد اور اسلامی و اجتماعی نظام سے دست کش نہ ہوں _

سقیفہ بنی ساعد ہ میں جو انجمن تشکیل پائی تھی اس کے سبھی ارکان پیغمبر (ص) کی

____________________

۱_ آل عمران / ۱۴۴_

۳۴۳

اسلامی حکومت کے استمرار و ضرورت پر اتفاق نظر رکھتے تھے ، کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا تھا کہ ہمیں حاکم و خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے ، ہاں اس کے مصداق کی تعیین کے بارے میں اختلاف تھا _ انصار کہتے تھے_ امیر و خلیفہ ہم میں سے ہوگا _ مہاجرین کہتے تھے اس منصب کے مستحق ہم ہیں _ بعض کہتے تھے _ ہم امیر ہوں گے اور تم ہمارے وزیر ، ایک گروہ کہہ رہا تھا ایک شخص ہم مییں سے اور ایک تم میں سے امیر ہوگا _ لیکن یہ بات ایک آدمی نے بھی نہیں کہی کہ ہمیں امیر و خلیفہ کی ضرورت نہیں ہے اور زمامدار کے بغیر بھی ہم اجتماعی زندگی گزارسکتے ہیں _

یہاں تک حضرت علی نے بھی کہ جنھیں رسول خدا نے خلیفہ منصوب کیا تھا جو اپنے الہی حق کو برباد ہوتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور سقیفہ بنی ساعدہ کی کاروائی کے مخالف تھے ، اس سلسلہ میں بعض صحابہ بھی آپ کی حمایت کرتے تھے ، رسول (ص) کی اسلامی حکومت کے استمرار و ضرورت کی مخالفت نہیں کی اور کبھی نہ فرمایاکہ : خلیفہ کی تعیین کی ضرورت ہی کیا تھی کہ جس کیلئے انہوں نے عجلت سے کام لیا ہے ؟ بلکہ فرمایا: خلافت و امامت کا میں زیادہ مستحق ہوں ، کیونکہ اس منصب کے لئے رسول خدا نے مجھ منتخب کیا ہے اور ذاتی علم و عصمت اور لیاقت کا بھی حامل ہوں _ با وجودیکہ حضرت علی اپنے ضائع شدہ حق اور اسلامی خلافت کو اصلی محور سے منحرف سمجھتے تھے لیکن چونکہ اصل حکومت کی ضرورت کو تسلیم کرتے تھے اس لئے کبھی بھی خلفاء کو کمزور بنانے کی کوشش نہ کی بلکہ نظام اسلام کی بقاء کی خاطر ضروری موقعوں پر ان کی مدد کی اور فکر تعاون سے بھی دریغ نہ کیا _ اگر آپ(ع) کے اعزاء یا اصحاب با وفا میں سے خلفا کسی کو کسی کام پر مامور کرتے اور وہ اسے قبول کرلیتے تھے تو حضرت علی

۳۴۴

(ع) انھیں اس سے منع نہیں فرماتے تھے ، آپ کی روش سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ آپ (ص) حکومت کے وجود کو ہر حال میں ضروری سمجھتے تھے چنانچہ جب خوارج یہ کہہ رہے تھے لا حکم الا اللہ تو آپ (ص) نے فرمایا تھا: کلمة حق یراد بہا الباطل _ یعنی بات صحیح ہے مراد غلط ہے ہاں اصلی حاکم خدا ہی ہے لیکن خوارج یہ کہہ رہے ہیں کہ حکومت و امارت بھی خدا ہی سے مختص ہے _ جب کہ لوگوں کو حاکم و امیر کی ضرورت ہے خواہ وہ نیک ہو یا بد تا کہ صالح افراد کی حکومت میں مومن اعمال صالح انجام دے گا اور کافر آرام کی نعمتوں سے فائدہ اٹھائے گا اور اللہ اس نظام حکومت میں ہر چیز کو اس کی آخری حد تک پہنچا دے گا اسی حاکم کی وجہ سے مال جمع ہوتا ہے ، دشمن سے لڑاجاتا ہے ، راستے پر امن رہتے ہیں اور قوی سے کمزور کا حق دلایا جاتا ہے یہاں تک کہ حاکم حکومت سے الگ ہوجائے اور برے حاکم کے علیحدہ ہونے سے دوسروں کو آرام ملے _ اس بناپر اسلامی حکومت کی تشکیل اور ضرورت و استمرار میں شک نہیں کرنا چاہئے _ اور یہ حساس و سنگین ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے کہ جس زمانہ میں ان کی دست رس پیغمبر یا معصوم امام تک نہ ہو اس میں انھیں حکومت کی تشکیل و استحکام کیلئے کوشش کرنا چاہئے _ اور جس زمانہ میں امام تک رسائی نہ ہو اس میں انھیں علماء و فقہا میں سے اس فقیہ کو قیادت و امامت کے لئے منتخب کرنا چاہئے جو کہ اسلامی مسائل خصوصاً سیاسی و اجتماعی مسائل سے کما حقہ واقف ہو اور تقوی، انتظامی صلاحیت اور سیاسی سوجھ بوجھ کامل ہو _ کیونکہ ایسے شخص کی رہبری و امامت کو ائمہ معصومین علیہم السلام نے بھی قبول کیا ہے اور اس کی وصیت کی ہے _ ایسا ہی آدمی ملت اسلامیہ کی قیادت کرسکتا ہے اور اسلام کے اجتماعی وسیاسی منصوبوں کو عملی صورت میں پیش کر سکتا ہے _

۳۴۵

اس بات کی وضات کردینا ضروری ہے کہ حکومت اسلامی اور ولایت فقیہ کا مسئلہ اتنا نازک اور طویل ہے کہ اس کیلئے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے _ اس مختصر کتاب میں ہم اس کے وسیع اور متنوع پہلوؤں سے بحث نہیں کرسکتے _ لہذایہاں اشارہ ہی پر اکتفا کرتے ہیں اور اپنی بحث کو یہی ختم کرتے ہیں _ اس مقدمہ کو بیان کرنے کا مقصد جو کہ کچھ طولانی ہوگیا ، یہ ہے کہ جو احادیث امام مہدی کے انقلاب و تحریک سے قبل رونما ہونے والے انقلاب کی مخالف ہیں ، ان کی تحقیق کریں اور اس نکتہ پر توجہ رکھیں کہ جہاد ، دفاع ، حدود ، قصاص ، تعزیرات ، قضاوت ، شہادت ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ ، محروم و مستضعفین سے دفاع اور دوسرے اجتماعی و سیاسی مسائل ہیں جو اسلام کے ضروری اور اہم مسائل ہیں انکی تردید نہیں کی جا سکتی ، بلکہ ان پر عمل کرنا اور کرانا ضروری ہے اور اس کام کیلئے اسلامی حکومت کی ضرورت ہے اور اسلامی حکومت کی تشکیل اور دین کے احکام و قوانین کے اجراء کیلئے بھی جہاد و انقلاب کی ضرورت ہے _ اس بناپر انقلاب کی مخالف احادیث کی تجزیہ و تحقیق کرنا چاہئے کسی مناسب موقع پر اس موضوع پر تفصیلی بحث کریں گے تا کہ بہتر نتیجہ حاصل ہوسکے چونکہ جلسہ کا وقت ختم ہوچکا ہے لہذا اس زیادہ وضاحت ممکن نہیں ہے _

ڈاکٹر : احباب سے گزارش ہے کہ آئندہ ہفتہ جلسہ ہمارے گھر منعقد ہوگا _

۳۴۶

احادیث کی تحقیق و تجزیہ

ڈاکٹر : ہوشیار صاحب گزشتہ بحث ہی کو آگے بڑھایئے

ہوشیار: گزشتہ جلسہ میں ، میں نے مقدمہ کے عنوان سے ایک بحث شروع کی تھی اور چونکہ وہ کچھ طویل اور تھکا دینے والی تھی اس لئے معذرت خواہ ہوں اب ہم قیام و تحریک کی مخالف احادیث کی تحقیق کی بحث شروع کرتے ہیں _ سابقہ جلسہ میں ، ہم نے آپ کے سامنے یہ بات پیش کی تھی کہ سیاسی و اجتماعی احکام اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں کہ جس کا تعلق دین کے متن سے ہے _ راہ خدا میں جہاد اسلام اور مسلمانوں سے دفاع ، ظلم و تعدی سے مبارزہ ، محروم و مستضعفین سے دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور کلی طور پر اقامہ دین مسلمانوں کے قطعی اور ضروری فرائض میں سے ہے لیکن ممکن ہے بعض اشخاص چند احادیث کو ثبوت میں پیش کرکے اس عظیم فریضہ سے سبک دوش ہونا چاہیں اور و ئوء بعض مذہبی مراسم کو انجام دے کر خوش ہولیں _ اسی لئے ضروری ہے کہ ہم احادیث کی مکمل طور پر تحقیق و تجزیہ کرائیں _ مذکورہ احادیث کو کلی طور پر چند حصوں میںتقسیم کیا جا سکتا ہے _(۱)

____________________

۱_ ان احادیث کو وسائل الشیعہ ج ۱ ص ۳۵ تا ۴۱ اور بحار الانوار ج ۵۲ میں ملاحظہ کیا جا سکتا ہے _

۳۴۷

جن روایات میں شیعوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم ہر اس قیام کرنے والے کی دعوت کو جو تمہیں مسلح ہو کر خروج کی دعوت دیتا ہے ، آنکھیں بند کرکے قبول نہ کرو بلکہ اس کی شخصیت اور اس کے مقصد کو پہنچا نو اور اس کی تحقیق کرو _ اگر اس میں قیادت کی شرائط مفقود ہوں یا باطل مقصد کیلئے اس نے قیام کیا ہو تو اس کی دعوت کو قبول نہ کرو اگر چہ وہ خاندان رسول ہی سے کیوں نہ ہو _ جیسے یہ حدیث ہے :

'' عیسی بن قاسم کہتے ہیں میں نے امام صادق علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرما رہا تھے: تقوی اختیار کرو اور ہمیشہ اپنے نفسوں کی حفاظت کرو _ خدا کی قسم اگر کوئی شخص اپنی گوسفند چرانے کیلئے کسی چروا ہے کو منتخب کرتا ہے اور بعد میں اسے پہلے چروا ہے سے بہتر اور عاقل چرواہا مل جاتا ہے تو وہ پہلے کو معزول کردیتا ہے اور دوسرے سے کام لیتا ہے _ خدا کی قسم تمہارے پاس دو نفس ہوتے کہ پہلے سے تحقق تجربہ حاصل کرتے دوسرا تمہارے پاس باقی رہتا جو پہلے کے تجربہ سے فائدہ اٹھاتا تو کوئی حرج نہ تھا _ لیکن ایسا نہیں ہے ہر انسان کے پاس ایک ہی نفس ہے اگر وہ ہلاک ہوجائے تو پھر توبہ اور بازگشت کا امکان نہیں ہے _ اس بناپر تمہارے لئے ضروری ہے کہ اچھی طرح غور و فکر کرو اور بہترین راستہ اختیار کرو پس اگر رسو ل کے خاندان سے شخص تمہیں قیام و خروج کی دعوت دیتا ہے تو تم اس کی تحقیق کرو کہ اس نے کس چیز کیلئے قیام کیا ہے اور یہ نہ کہو کہ اس سے قبل زید بن علی نے بھی تو قیام کیا تھا کیونکہ زید دانشور اور سچے انسان تھے اور تمہیں اپنی امامت کی طرف نہیں بلا رہے تھے بلکہ اس انسان کی طرف دعوت دے رہے تھے جس سے اہل بیت (ع) خوش تھے _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوئے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے اور حکومت

۳۴۸

کو اس کہ اہل کے سپرد کردیتے _زید نے حکومت کے خلاف قیام کیا تا کہ اسے سرنگوں کرے _ لیکن جس ثخص نے اس زمانہ میں قیام کیا ہے وہ تمہیں کس چیز کی طرف بلا رہا ہے؟ کیا تمہیں اس آدمی کی طرف دعوت دیتا ہے جس پر اہل بیت کا اتفاق ہے ؟ نہیں ، ایسا نہیں ہے ، ہم تمہیں گواہ قرار دے کرکہتے ہیں کہ ہم اس قیام سے راضی نہیں ہیں _ اس کے ہاتھ میں ابھی حکومت نہیں آئی ہے اس کے باوجود وہ ہماری مخالفت کرتا ہے تو جب اس کے ہاتھ میں حکومت آجائے گی اور پرچم لہرادے گا تو اس وقت تو بدرجہ اولی وہ ہماری اطاعت نہیں کرے گا _ تم صرف اس شخص کی دعوت قبول کرو کہ جس کی قیادت پر سارے بنو فاطمہ کا اتفاق ہے وہی تمہارا امام و قائد ہے ، ماہ رجب میں تم خدا کی نصرت کی طرف بڑھو اور بہتر سمجھو تو شعبان تک تاخیر کرو اور اگر پسند ہو تو ماہ رمضان کا روزہ اپنے اہل خانہ کے درمیان رکھو شاید یہ تمہارے لئے بہتر ہو _ اگر علامت چاہتے ہو تو سفیانی کا خروج تمہارے لئے کافی ہے _(۱)

اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کے راوی ثقہ ہیں _

حدیث کا مفہوم

اس حدیث میں امام صادق (ع) یہ فرماتے ہیں : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہوانھیں عبث ہلاکت میں نہ ڈالو تم ہر قیام کرنے والے اور مدد طلب کرنے والے

____________________

۱_ وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۵ ، بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۰۱_

۳۴۹

کی آواز پر لبیک نہ کہو _ اگر دعوت دینے والا اپنی امامت و قیادت کا دعویدار ہے جبکہ امت کے درمیان اس سے زیادہ با علم و با صلاحیت شخص موجود ہے ، تو اس کی دعوت کو قبول نہ کرو _ جیسا ائمہ معصومین علیہم السلام کی حیات میں ایسا ہی ہوتا تھا _ خود قیام کرنے والے کی شخصیت اور اس کے مقصد کی تحقیق کرو _ اگر وہ لائق اعتماد نہ ہو یا اس کا مقصد صحیح نہ ہو تو اس کی دعوت قبول نہ کرو اور اس شخص _ بظاہر محمد بن عبد اللہ بن حسن _ کے قیام کا زید بن علی کے قیام سے موازنہ نہ کرو و اور یہ نہ کہو چونکہ زید نے قیام کیا تھا لہذا اس کا قیام بھی جائز ہے _ کیونکہ زید امامت کے دعویدار نہیں تھے اور نہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہے تھے _ بلکہ ان کا مقصد باطل حکومت کو سرنگوں کرکے اس کے اہل تک پہنچانا تھا یعنی جس شخص کے سلسلے میں آل محمد کا اتفاق ہے ، اس تک پہنچانا مقصد تھا _ اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورکرتے _ زید عالم اور سچے آدم تھے ، قیادت و قیام کی صلاحیت کے حامل تھے _ لیکن جس شخص نے آج قیام کیا ہے وہ لوگوں کو اپنی طرف دعوت دے رہا ہے اور ابھی سے ہماری مخالفت کررہا ہے جبکہ حکومت اس کے ہاتھ میں نہیں آئی ہے اگر وہ اس انقلاب میں کامیاب ہوگیا تو بدرجہ اولی ہماری اطاعت نہیں کرے گا _ اس حدیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس زمانہ میں اس شخص نے قیام کیا جو اپنے کو منصب امامت کے لائق سمجھتا تھا اور اس منصب کو حاصل کرنے کیلئے لوگوں سے مددمانگتا تھا _ بظاہر یہ محمد بن عبداللہ بن حسن تھے کہ جنہوں نے مہدی موعود کے نام سے قیام کیا تھا _ ابوالفرج اصفہانی لکھتے ہیں کہ ، محمد کے اہل بیت انھیں مہدی کہتے تھے اور ان کا عقیدہ تھا کہ وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی ہیں _(۱)

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ۱۵۷_

۳۵۰

اصفہانی ہی لکھتے ہیں : محمد بن عبداللہ کے مہدی موعود ہونے میں کسی کو شک نہیں تھا لوگوں میں یہ بات شہرت پاچکی تھی ، اسی لئے بنی ہاشم آل ابوطالب اور آل عباس میں سے بعض لوگوں نے ان کی بیعت کرلی تھی _(۱)

اصفہانی ہی لکھتے ہیں : محمد لوگوں سے کہتے تھے : تم مجھے مہدی موعود سمجھتے ہو اور حقیقت بھی یہی ہے _(۲)

محمد بن عبداللہ بن حسن نے امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں مہدی موعود کے عنوان سے قیام کیا تھا اور لوگوں کو اپنی طرف آنے کی دعوت دیتے تھے _ صرف اس موقع پر امام صادق (ع) نے عیسی بن قاسم اور تمام شیعوں سے فرمایا تھا کہ : اپنے نفسوں کے سلسلے میں محتاط رہو عبث ہلاکت میں نہ ڈالو اور اس شخص کے قیام کا زید کے قیام سے موازنہ نہ کرو _ کیونکہ زید امامت کے مدعی نہیں تھے بلکہ لوگوں کو اس شخص کی طرف بلا رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _

گزشتہ بیان سے یہ بات بخوبی واضح ہوگئی کہ امام جعفر صادق (ع) نے بطور مطلق قیام سے منع نہیں فرمایا ہے بلکہ قیام کو دو حصوں تقسیم کیا ہے _ ایک باطل انقلابات و قیام ہے جیسے محمد بن عبداللہ بن حسن کا قیام ہے _ چنانچہ مسلمانوں کوایسے لوگوں کی دعوت قبول نہیں کرنا چاہئے اور اپنے نفوس کو ہلاکت سے بچانا چاہئے _ دوسرے صحیح انقلابا ت و قیام ہے جو موازین عقل و شرع کے مطابق ہوتے ہیں جیسے زید بن علی

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ۱۵۸

۲_ مقاتل الطالبین / ۱۶۳

۳۵۱

بن حسین (ع) کا قیام کہان کا مقصد بھی صحیح تھا اور ان میں قیادت کی شرائط بھی موجود تھیں _ امام صادق (ع) نے نہ صرف ایسے قیام کی نفی نہیں کی ہے بظاہر ان کی تائید کی ہے _ حدیث سے واضح ہوتا ہے کہ جو قیام زید کے قیام کے مانند ہو ائمہ معصومین اس کی تائید فرماتے ہیں _ زید کی شخصیت ، ان کے مقاصد اور ان کے قیام کے محرکات کے بیان و تحقیق کیلئے طویل بحث درکار ہے ، جس کی اس مختصر میں گنجائشے نہیں لیکن ایک سرسری جائزہ پیش کرتے ہیں _

۱_ انقلاب کے قائد یعنی زید عالم و متقی ، صادق اور قیادت کی صلاحیت کے حامل تھے ان سے متعلق امام صادق فرماتے ہیں : میرے چچا زید ہماری دنیا و آخرت کیلئے مفید تھے _ خدا کی قسم وہ راہ خدا میں شہید ہوئے ہیں _ آپ کی مثال ان شہداء کی سی ہے جو رسول (ص) علی (ع) ، حسن اور امام حسین (ع) کے ہمراہ شہید ہوئے تھے _(۱)

حضرت علی (ع) نے فرمایا ہے : کوفہ میںایک عظمت و جلال والا انسان قیام کرے گا جس کا نام زید ہوگا _ اولین و آخرین میں اس کی مثال نہیں ہے _ مگر یہ کہ کوئی اس کی سیرت و رفتار پر عمل پیرا ہوجائے _ زید اور ان کے اصحاب قیامت میں ایک صحیفہ کے ساتھ ظاہر ہوں گے _ فرشتے ان کے استقبال کو بڑھیں گے اور کہیں گے یہ بہترین باقی رہنے والے اور حق کی طرف دعوت دینے والے ہیں _ رسول خدا بھی ان کا استقبال کریں گے اور فرمائیں گے بیٹا تم نے اپنا فرض پورا کیا اور اب بغیر حساب کے جنت میں داخل _ ہوجاؤ(۲)

____________________

۱_ عیون الاخبار باب ۲۵_

۲_ مقاتل الطالبین ص ۸۸_

۳۵۲

رسول خدا نے امام حسین (ع) سے فرمایا : تمہاری نسل سے ایک فرزند ہوگا کہ جس کا نام زید ہوگا وہ اور ان کے اصحاب قیامت میں حسین و سفید چہروں کے ساتھ محشور ہوں گے اور جنّت میں داخل ہوں گے _(۱)

۲_ انقلاب میں زید کا مقصد صحیح تھا _ وہ امامت کے مدعی نہیں تھے بلکہ وہ طاغوت کی حکومت کا تختہ الٹنا چاہتے تھے اور اسے اس کے حق دار

کے سپرد کرنا چاہتے تھے یعنی اسے معصوم امام کے سپردکرنا چاہتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اور اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو اپنا وعدہ ضرور پورا کرتے ، امام صادق (ع) نے فرمایا ہے ، خدا میرے چچا زید پر رحم کرے اگر وہ کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ پورا کرتے _ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دے رہے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق ہے ، وہ میں ہوں _(۲)

یحی بن زید کہتے ہیں : خدا میرے والد پر رحم کرے _ خدا کی قسم وہ بہت بڑے عابد تھے ، وہ راتوں کو عبادت میں اور دنوں کو روزہ کی حالت میں گزارتے تھے _ انہوں نے راہ خدا میں جہاد کیا ہے _ راوی کہتا ہے : میں نے یحیی سے پوچھا : فرزند رسول (ص) امام کو ایسا ہی ہونا چاہئے؟ یحیی نے کہا : میرے والد امام نہیں تھے _ بلکہ وہ بعظمت سادات اور راہ خدا میں جہاد کرنے والوں میں سے ایک تھے _ راوی نے کہا : فرزند رسول (ص) آپ کے والد بزرگوار امامت کے مدعی تھے اور راہ خدا میں جہاد کے لئے انہوں نے قیام کیا تھا با وجودیکہ رسول (ص) سے امامت کے جھوٹے دعویدار ہونے کے بارے میں

____________________

۱_ مقاتل الطالبین / ص ۸۸

۲_ بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۹۹

۳۵۳

حدیث وارد ہوئی ہے _ یحیی نے جواب دیا : خدا کے بند ے ایسی بات نہ کہو ۰ بات میرے والد اس سے بلند تھے کہ وہ اس چیز کا دعوی کریں جوان کا حق نہیں ہے _ بلکہ میر ے والد لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کی طرف دعوت دیتا ہوں _ کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے اور ان کی مراد میرے چچا جعفر (ع) تھے _ راوی نے کہا پس جعفر بن محمد (ع) امام ہیں ؟

یحیی نے جی ہاں وہ بنی ہاشم کے فقیہ ترین فرد ہیں _(۱)

جناب زید بھی امام جعفر صادق (ع) کے علم و تقوے کے معترف تھے _ ایک جگہ قرماتے ہیں : جو جہاد کرنا چاہتا ہے وہ میرے ساتھ آجائے اور جو علم حاصل کرنا چاہتا ہے اسے میرے بھتیجے جعفر کی خدمت میں جانا چا ہئے _(۲)

زید کے اصحاب و سپاہی بھی حضرت صادق کی امامت و افضلت کے معترف تھے _ عمار سا با طی کہتے ہیں ; ایک شخص نے سلیمان بن خالد ، کہ جس نے زید کی فوج کے ہمراہ خروج کیا تھا _ سے پو چھا : زید کے بارے میں تمہار ا کیا عقیدہ ہے ؟ زید افضل ہیں یا جعفر بن محمد ؟ سلیمان نے جواب دیا ، خدا کی قسم جعفر بن محمد کی ایک دن کی زندگی زید کی تمام عمر سے زیادہ قیمتی ہے ، اس وقت اس نے سر کو جھٹکا اور زید کے پاس سے اٹھ گیا اور یہ واقعہ ان سے نقل کیا _ عمار کہتے ہیں : میں بھی زید کے پاس گیا اور را نحصیں یہ کہتے ہوئے سنا جعفر بن محمد ہما ر ے حلال و حرام مسائل کے امام ہیں _(۳)

____________________

۱ _ بحارالانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۹

۲_ بحارالانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۹

۳ _ بحار الانوار ج ۶ ۴ ص ۱۹۶

۳۵۴

زید کا انقلاب ایک جذ باتی اتفاقی اور منصو بہ سازی کے بغیر نہیں بر پا ہوا تھا بلکہ ہر طریقہ سے سو چا سمجھا تھا _ ان کے انقلاب کا محر ک امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور طا غوت کی حکومت سے مبارزہ تھا _ ان کا ارادہ تھا کہ مسلحانہ جنگ کے ذریعہ غاصبوں کی حکومت کو سرنگوں کردیں اور حکومت اس کے اہل ، یعنی اس شخص کے سپرد کردیں جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ اسی لئے بہت سے لوگوں نے ان کی دعوت کو قبول کیا اور جہاد کیلئے تیار ہوگئے ۰ ابو الفرج اصفہانی لکھتے ہیں

: کوفہ سے پندرہ ہزار لوگوں نے زید کی بیعت کی تھی _ اس کے علاوہ مدائن ، بصرہ ، واسطہ ، موصل ، خراسان اور گرگان کے اہالی نے دعوت قبول کی تھی _(۱)

زید کا قیام اتنا ہی مستحسن اور ضروری تھا کہ بہت سے اہل سنّت کے فقہا نے بھی انکی دعوت کو قبول کیا اور آپ کی مدد کی _ یہاں تک کہ اہل سنت کے سب سے بڑ ے امام ابوحنیفہ نے بھی زید کی تائید کی _ فضل ابن زبیر کہتے ہیں : ابو حنیفہ نے مجھ سے کہا : زید کی آواز پر کتنے لوگوں نے لبیک کہا ہے ؟ سلیمہ بن کہیل ، یزید بن ابی زیاد، ہارون بن سعد ، ہاشم بن برید ، ابو ہاشم سریانی ، حجاج بن دینار اور چند دو سرے لوگوں نے ان کی دعوت قبول کی ہے ابوحنیفہ نے مجھے کچھ پیسہ دیا اور کہا یہ پیسہ زیدکو دیدینا اور کہنا کہ اس پیسہ کا اسلحہ خرید یں اور مجاہد ین کے او پر خرچ کریں _ میں نے پیسہ لیا اور زید کی تحویل میں دیدیا _(۲)

____________________

۱ _ مقاتل الطالبین ص ۹۱

۲ _ مقاتل الطالبین ص ۹۹

۳۵۵

دلچسپ بات یہ ہے کہ زید نے اپنے انقلاب کے موضوع کو پہلے ہی امام صادق سے بیان کیا تھا اور امام نے فرمایا تھا : چچاجان اگر اس بات کوپسند کرتے ہیں کہ قتل کئے جائیں اور کوفہ کے کنا سہ میں آپ کے بدن کو دار پر چڑ ھا یا جا ئے تو اس راہ کو اختیار کریں ۱ _ با د جو دیکہ زید نے امام سے یہ خبر سن لی تھی لیکن آپ کو اپنے فریضہ کی انجام دہی کا اتنا زیادہ احساس تھا کہ شہادت کی خبر بھی انھیں اس عظیم اقدام سے بازنہ ر کھ سکی _ راہ خدا میں جہاد کیا اور درجہ شہادت پر فائز ہوئے _

ان کے بارے میں امام رضا فرما تے ہیں : زید علما ئے آل محمد میں سے ایک تھے _ وہ خدا کے لئے غضبناک ہوئے اور دشمنان خدا سے جنگ کی یہاں تک کہ شہادت پائی _(۲)

امام جعفر صادق (ع) فرما تے ہیں :

خدا میرے چچا زید پر رحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دتیے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا اگر کا میاب ہو جا تے تو ضرور اپناہ وعدہ وفا کرتے _(۳)

اب ہم اصل بحث کی طرف پلٹتے ہیں جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ عیسی بن قاسم کی روایت کو اسلامی تحریک اور انقلابات کی مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا بلکہ اسے صحیح اسلامی تحریکوں مؤید قرار دیا جا سکتا ہے _ یہاں تک اس حدیث کے

____________________

۱_بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۲_ بحار الانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۳_ بحارالانوار ج ۴۶ ص ۱۷۴

۳۵۶

ذریعہ دوسری ان احادیث کی توجیہ کی جاسکتی ہے جو ایسے انقلاب سے منع کرتی ہیں جنکے قائدہ ضروری شرائط مفقود ہوں یا اسباب ومقدمات کی فراہمی سے قبل انقلاب کا آغاز کرتے ہیں یا غلط مقصد کیلئے قیام کرتے ہیں لیکن صحیح اسلامی اور زید بن علی کے قیام کی مانند قیام سے نہ صرف منع نہیں کرتی ہے بلکہ ائمہ معصومیں نے اس کی تائید کی ہے اس بیان سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ وسائل کے اسی بات کی گیار ہویں حدیث کو بھی انقلاب کی مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا _ وہ حدیث یہ ہے :

احمد بن یحیی المکتب عن محمد بن یحیی الصولی عن محمد بن زید انحوی عن ابن ابی عبدون عن ابیه عن الرضا علیه السلام (فی حدیث) انه قال للمامون : لا تقس اخی زیدا الی زید بن علی فانه کان من علماء آل محمد صلی الله علیه و آله _ غضب لله فجاهد اعدائیه حتی قتل فی سبیله و لقد حدثنی ابو موسی بن جعفر انه سمع اباه جعفر بن محمد یقول : رحم الله عمی زیدا انه دعا الی ال ضا من آل محمد و لو ظفر لو فی بماد عا الیه _ لقد استشار نی فی خروجه فقلت ان رضیت ان تکون المقتول المطوب بالکنا سه فشانک (الی ان قال) فقال الر ضا علیه السلام ان زید بن علی لم یدع ما لیس له بحق و انه کان تقی لله من ذالک _ انه قال : ادعوکم الی الر ضا من آل محمد _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

۳۵۷

امام رضا (ع) نے مامون سے فرمایا : میرے بھائی زید کا زید بن علی سے موازنہ نہ کرو _ زید بن علی علمائے آل محمد میں سے تھے _ وہ خدا کیلئے غضبناک ہوئے اور خدا کے دشمنوں سے لڑے یہاں تک راہ خدا میں شہادت پائی _ میرے والد موسی بن جعفر (ع) نے فرمایا ہے کہ میں نے اپنے والد جعفر بن محمد سے سنا کہ انہوں نے فرمایا : خدا میرے چچا زید پررحمت نازل کرے کہ وہ لوگوں کو اس شخص کی طرف دعوت دیتے تھے جس پر آل محمد کا اتفاق تھا _ اگر کامیاب ہوگئے ہوتے تو ضرور اپنا وعدہ وفا کرتے _ نیز فرماتے تھے : زید نے اپنے انقلاب کے بارے میں مجھ سے مشورہ کیا تھا میں نے اس سے کہا تھا : اگر قتل ہونے اور اپنے بدن کو کناسہ کوفہ میں دار پر چڑھائے جانے پر راضی ہیں تو اقدام کریں _ اس کے بعد امام رضا (ع) نے فرمایا: زید بن علی اس چیز کے مدعی نہ تھے جوان کا حق نہ تھا _ وہ اس سے کہیں بلند تھے کہ ناحق کسی چیز کا دعوی کریں بلکہ آپ لوگوں سے کہتے تھے : میں تمہیں اس شخص کی طرف دعوت دیتا ہوں کہ جس پر آل محمد کا اتفاق ہے _ ''

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے رجال کی کتابوں میں اس کے راویوں کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اس لحاظسے اس کے مفہوم کو بھی قیام کے مخالف احادیث میں شما رنہیں کیا جا سکتا _ کیونکہ اس میں زید بن علی جیسے قیام کی تائید کی گئی لیکن زید بن موسی پر تنقید کی گئی ہے _ زید بن موسی نے بصرہ میں خروج کیا تھا اور لوگوں کو اپنی طرف دعوت دیتا اور لوگوں کے گھروں میں آگ لگا دیتا تھا ، لوگوں کا مال زبردستی لوٹ لیتا تھا ، آخر کار اس کی فوج نے شکست کھائی خود بھی گرفتار ہوا ، مامون نے اسے معاف کردیا

۳۵۸

اور امام رضا (ع) کی خدمت میں بھیجدیا _ امام نے اسے آزاد کرنے کا حکم دیدیا لیکن یہ قسم کھائی کہ کبھی اس سے کلام نہیں کروں گا _(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: اس حدیث میں زید بن موسی کے قیام و انقلاب پر تنقید کی گئی ہے لیکن ہر قیام و تحریک سے ممانعت نہیں کی گئی ہے بلکہ زید بن علی جیسے قیام کی تائید کی گئی ہے _

دوسرا حصّہ

جن احادیث کی اس بات پردلالت ہے کہ جو انقلاب و قیام بھی امام مہدی کے انقلاب سے قبل رونما ہوجائے ، اسے کچل دیا جائے گا _

حدیث اول :

علی بن ابراهیم عن ابیه عن حماد بن عیسی عن ربعی رفعه عن علی بن الحسین علیه السلام قال: والله لا یخرج احد منّا قبل الخروج القائم ا لا کان مثله کمل فرخ طار من وکره قبل ان یستوی جناحاه فاخذه الصبیان فعبثوبه _(۲)

(مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام زین العابدین نے فرمایا: خدا کی قسم انقلاب مہدی سے قبل ہم میں سے جوبھی قیام کرے گا وہ اس پرندہ کی مانند ہے جو بال و پر نکلے سے پہلے

____________________

۱_ بحارالانوار ج۴۸ص۳۱۵

۳۵۹

ہی آشیانہ سے نکل پڑتا ہے جسے بچے پکڑلیتے ہیں اور کھلونا بنا لیتے ہیں'' _

مذکورہ حدیث کو اہل حدیث کی اصطلاح میں مرفوع کہتے ہیں _ اس میں چند راویوں کو حذف کردیا گیا ہے جن کے بارے میں یہ معلوم نہیں ہے کہ وہ کون تھے_ بہر حال یہ قابل قبول نہیں ہے _

حدیث دوم:

جابر عن ابی جعفر محمد بن علی علیه السلام قال: مثل خروج القائم منّا کخروج رسول الله صلی الله علیه و آل و مثل من خرج منّا اهل البیت قبل قیام القائم مثل فرخ طار من وکره فتلاعب به الصبیان _

(مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۳۴۸)

امام محمد باقر نے فرمایا: انقلاب مہدی ، رسول (ص) کے قیام کی مانند ہوگا اور ہم اہل بیت میں انقلاب مہدی سے قبل خروج کرنے والوں کی مثال پرندے کے اس بچہ کی سی ہے جو آشیانہ سے نکل کر بچوں کا کھلونہ بن جاتا ہے ''

حدیث سوم:

ابوالجارود قال سمعت ابا جعفر علیه السلام یقول : لیس منّا اهل البیت احدید فع ضبما ولا یدعوا ا لی حق الاّصرعته البلیة حتی تقوم عصابة شهدت بدراً ، لا یواری قتیلها و لا یداوی جریحها ، قلت ، من عنی ابوجعفر علیه السلام؟قال : الملائکة

(مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر(ع) نے فرمایا : ہم اہل بیت میں سے جو بھی ظلم کو مٹائے اور احقاق حق

۳۶۰

کیلئے قیام کرے گا وہ مشکلوں میں گرفتار اور شکست سے دوچار ہوگا _ اوریہ اس وقت تک ہوگا جب تک ایسے افراد قیام نہ کریں گے جیسے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور مجاہدوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ، ان میں سے کوئی شہید نہیں ہوا کہ دفن کیا جاتا ، کوئی مجرو ح نہیں ہوا جس کا علاج کیا جاتا ، راوی کہتا ہے : اما م کی مراد کون لوگ ہیں ؟ فرمایا: وہ ملائگہ ہیں جو جنگ بدر میں اسلامی لشکر کی مدد کیلئے نازل ہوئے تھے''_

حدیث چہارم:

ابوالجارود عن ابی جعفر علیه السلام قال قلت له اوصنی فقال اوصیک بتقوی الله و ان تلزم بیت و تقعد فی دهمک هؤلاء الناس وايّاک و الخوارج منّا فانهم لیسوا علی شیئی (الی ان قال) و اعلم انه لا تقوم عصابة تدفع ضیماً او تعزّدینا الاّ صرعتهم البلیة حتی تقوم عصابة شهدوا بدراً مع رسول الله صلی الله علیه و آله لا یواری قتیلهم و لا یرفع صریعهم و لا یداوی جریحهم ، فقلت : من هم ؟ قال : الملائکة _

(مستدرک ج ۲ ص ۲۴۸)

ابوجارود کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : مجھے کچھ وصیت فرمایئے فرمایا : میں تمہیں خدا کا تقوی اختیار کرنے اوراپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور خفیہ طریقے سے ان ہی لوگوں میں زندگی گزارو اور ہم میں سے قیام کرنے والوں سے اجتناب کرو _

۳۶۱

کیونکہ وہ حق پر نہیں ہیں اور ان کا مقصد صحیح نہیں ہے ( یہاں تک کہ فرمایا:) جان لو جو گروہ بھی ظلم مٹانے اور اسلام کی سربلندی اور اقتدار کیلئے قیام کرے گا اسی کو بلائیں اور مصیبتیں گھر لیں گی ، یہاں تک وہ لوگ قیام کریں گے جو کہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے _ ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا تھاکہ دفن کیا جاتا ، زمین پر نہیں گرا تھا کہ اٹھایا جاتا ، مجروح نہیں ہوا تھا کہ علاج کیاجاتا ، راوی نے عرض کی یہ کون لوگ ہیں ؟فرمایا : ملائکہ '' _

سند حدیث

مذکور ہ تینوں حدیثیں سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہیں کیونکہ ان کا راوی ابوالجارود ہے جو کہ زید ی المسلک تھا اور خود فرقہ جارودیہ کا بانی ہے _ رجال کی کتابوں میں اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

ان احادیث میں امام نے ان شیعوں کو ایک خارجی حقیقت سے خبردار کیا ہے جو کہ قیام کرنے کا اصرار کرتے تھے _ آپ نے فرمایا ہے ہم ائمہ میں سے جو بھی مہدی موعود کے قیام سے پہلے قیام کرے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا اور شہید کردیا جائے گا او راس کی شکست اسلام کے حق میں نہیں ہے _ ہم اہل بیت میں سے صرف انقلاب مہدی کامیاب ہوگا کہ جن کی مدد کیلئے خدا کے فرشتے نازل ہوں گے _ یہ احادیث ائمہ کے قیام کی خبر دے رہی ہیں اور ان کے قیام نہ کرنے

کی علت بیان کررہی ہیں ، دیگر انقلابات سے ان کا تعلق نہیں ہے _

۳۶۲

اگر حدیث میں وارد لفظ ''منّا'' سے امام کی مراد علوی سادات ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جو انقلاب بھی علویوں میں سے کسی کی قیادت میں آئے گا وہ پامال ہوگا اور قائد قتل ہوگا تو بھی اس کی دلالت قیام و انقلاب سے ممانعت پر نہیں ہے بالفرض اگر یہی حقیقت ہے _ تو احادیث ایک خارجی حقیقت کو بیان کررہی ہیں اور وہ یہ کہ انقلاب مہدی سے پہلے جو انقلاب رونما ہوں گے وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوں گے اور اس کا سردار قتل ہوگا لیکن یہ احادیث راہ خدا میں جہاد جیسے قطعی و مسلم فریضہ ، اسلام اور مسلمانوں سے دفاع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظلم و بیدادگری اور استکبار سے مبارزہ کو ساقط نہیں کرتی ہیں _ قتل ہوجانے کی خبر اور شیء ہے اور فرض کرنا دوسری چیز ہے _ امام حسین (ع) کو بھی اپنی شہادت کا علم تھا لیکن اس کے باوجود نظام اسلام سے دفاع کی خاطر یزید کی طاغوتی حککومت کے خلاف قیام کیا _ اپنا فرض پورا کیا اور جام شہادت نوش فرمایا _ اسی طرح زیدبن علی بن الحسین اگر چہ اپنی شہادت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سن چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے شرعی فریضہ پر عمل کیا اور اسلام و قرآن سے دفاع کیلئے قیام کیا اور شہادت سے ہمکنار ہوئے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ راہ خدا میں جہاد ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور محروم و مستضعفین سے دفاع کریں خواہ اس سلسلے میں ان کے بہت سے آدمی شہید ہوجائیں _ کیونکہ شہید ہونا شکست کے مترادف نہیں ہے _ حق تو یہ ہے کہ اسلام نے جو کچھ دنیا میں ترقی کی ہے اور باقی رہا ہے تو یہ امام حسین اور آپ کے اصحاب اور زید بن علی یحیی بن زید و حسین شہید فتح ایسے فداکار انسانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جنہوں نے قطعی طور پر اپنی جان کی پروا نہیں کی تھی _ اس بنا پر مذکورہ احادیث مسلمانوں سے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرعی فریضہ کو ساقط

۳۶۳

نہیں کر سکتی ہیں _

اس پر جلسہ کا اختتام ہوا اور آئندہ شنبہ کی شب میں فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

فہیمی : ہوشیار صاحب اپنی بحث کی تکمیل کیجئے _

ہوشیار: تیسرا حصّہ

جو احادیث ظہور امام مہدی کی علامتوں کے ظاہر ہونے سے قبل کسی بھی قیام و انقلاب سے اجتناب کا حکم دیتی ہیں _

حدیث اوّل :

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عثمان بن عیسی عن بکر بن محمد عن سدیر قال ، قال ابوعبدالله علیه السلام : یا سدیر الزم بیتک و کن حلساً من احلاسه و اسکن ما سکن اللیل و النهار فاذا بلغک ان السفیانی قدخرج فارحل الینا و لو علی رجلک

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام صادق (ع) نے سدیر سے فرمایا: اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور جب تک شب و روز ساکن ہیں تم بھی جنبش نہ کرو جب یہ سنو کہ سفیانی نے خروج کیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آنا خواہ پیادہ ہی آنا پڑے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے قطعی قابل اعتماد نہیں ہے _ کیونکہ سند میں عثمان بن سعید بھی ہیں جو کہ واقفی ہیں _ امام موسی بن جعفر کی حیات میں آپ (ص) کے

۳۶۴

وکیل تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد واقفی ہوگئے تھے اورامام رضا (ع) کے پاس سہم امام نہیں بھیجتے تھے اسی وجہ سے امام رضا (ع) ان سے ناراض ہوگئے تھے _ اگر چہ بعد میں توبہ کرلی اور امام کی خدمت مین اموال بیھیجنے لگے تھے _ اسی طرح سدیر بن حکیم صیرفی کا ثقہ ہونا بھی مسلم نہیں ہے _

حدیث دوم

احمد عن علی بن الحکم عن ابی ایوب الخزاز عن عمر بن حنظله قال سمعت ابا عبدالله علیه السلام یقول: خمس علامات قبل القیام القائم : الصیحة والسفیانی و الخسف و قتل النفس الزکیة و الیمانی ، فقلت جعلت فداک ان خرج احد من اهل بیتک قبل هذاه العلامات انخرج معه؟ قال : لا_

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

''امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں _ قائم کے انقلاب و قیام سے قبل پانچ علامتیں ظاہر ہوں گے ۱_ آسمانی چیخ ۲_ خروج سفیانی ۳_ زمین کے ایک حصہ کا دھنس جانا ۴_ نفس زکیہ کا قتل ۵_ یمانی کا خروج راوی نے عرض کی فرزند رسول (ع) اگر آپ حضرات میں سے کوئی علائم ظہور سے قبل قیام کرے تو ہم بھی اس کے ساتھ خروج کریں ؟ فرمایا نہیں _

سند حدیث

مذکورہ حدیث قطعہ قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ عمر بن حنظلہ کی توثیق ثابت نہیں ہے _

۳۶۵

حدیث سوم :

محمد بن الحسن عن الفضل بن شاذان عن الحسن بن محبوب عن عمرو بن ابی المقدام عن جابر عن ابی جعفر علیه السلام قال : الزم الارض و لا تحرک یداً ولا رجلاً حتی تری علامات اذکرها لک وما اراک تدرکها : اختلاف بنی فلان و منا دینادی من السماء و یجیئکم الصوت من ناحیة دمشق

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۱)

جابر کہتے ہیں کہ : حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: زمین نہ چھوڑو ، اپنے ہاتھ اور پیر کو حرکت نہ دو یہاں تک وہ علامت ظاہر ہوجائے جو میں تمہیں بتاتا ہوں شائد تم درک نہیں کروگے : فلان خاندان _ شائد بنی عباس _ کا اختلاف آسمانی منادی کی ندا اور شام کی طرف سے آنے والی آواز ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث بھی قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ عمر بن ابی المقدام مجہول ہے _ شیخ الطائف نے فضل بن شاذان سے دو طریقوں سے روایت کی ہے اور دونوں کو ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث چہارم :

الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن احمد بن محمد العلوی عن حیدر بن محمد بن نعیم عن محمد بن عمرالکشی عن حمدویه عن محمد بن عیسی عن الحسین بن خالد

۳۶۶

قال: قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ان عبدالله بن بکر یروی حدیثاً و انا احبّ ان اعرضه علیک فقال : ماذا لک الحدیث ؟ قلت : قال ابن بکیر : حدثنی عبید بن زرارة قال : کنت عند ابی عبدالله علیه السلام ایام خرج محمد ( ابراهیم ) بن عبدالله بن الحسن اذ دخل علیه رجل من اصحابنا فقال له : جعلت فداک ان محمد بن عبدالله قد خرج فما تقول فی الخروج معه ؟ فقال : اسکنوا ما سکنت السماء والارض ، فما من قائم و ما من خروج ؟ فقال ابو الحسن علیه السلام : صدق ابو عبدالله علیه السلام و لیس الامر علی ما تأوّله ابن بکیر _ انما عنی ابو عبدالله علیه السلام اسکنوا ما سکنت السماء من النداء و الارض من الخسف بالجیش _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

حسین بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : عبداللہ بن بیکر نے مجھے ایک حدیث سنائی ہے _ میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ سے نقل کروں فرمایا : سناؤ کیا ہے ؟ میں نے عرض کی ابن بکیر نے عبید بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا تھا، اس وقت میں امام صادق کی خدمت میں تھا کہ ای صحابی آیا اور عرض کی : قربان جاؤں محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا ہے ان کے خروج کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا : جب تک رات دن کی گردش یکسال ہے اس وقت تک تم بھی ساکن و ساکت رہو _ اس میں نہ

۳۶۷

کوئی قیام کرے اور نہ خروج _ امام رضا نے فرمایا : امام صادق نے صحیح فرمایا ہے ، لیکن حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے جو ابن بکیر نے سمجھا ہے بلکہ امام کا مقصد ہے کہ جب تک آس۵مان سے ندا نہ آئے اور زمین فوج کہ نہ دھنسائے اس وقت تک تم خاموش رہو'' _

سند حدیث

مذکورہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ رجال کی کتابوں میں احمد بن محمد علوی کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اسی طرح حسین بن خالد نام کے دو اشخاص ہیں _ ایک ابوالعلاء دوسرے صیرفی اور ان دونوں کو موثق نہیں قرار دیا گیا _

حدیث پنجم :

محمد بن همام قال حدثنا جعفر بن مالک الفزاری قال حدثنی محمد بن احمد عن علی بن اسباط عن بعض اصحابه عن ابی عبدالله علیه السلام انه قال : کفّوا السنتکم و الزموا بیوتکم فانه لا یصیبکم امر تخصّون به و لا یصیب العامة و لایزال الزیدیة و قاء لکم ''

( مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام صادق نے فرمایا : اپنی زبان بندرکھو، اور اپنے گھروں میں بیھٹے رہو کیونکہ تمہیں وہ چیز نہیں ملے گی جو عام لوگوں کو نہیں لتی اور زیدیہ ہمیشہ تمہاری لاوں کی سپر رہیں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے مذکورہ حدیث قابل اعتما دنہیں ہے ، کیونکہ علی بن اسباط

۳۶۸

نے بعض ایسے اصحاب سے حدیث نقل کی ہے جو مجہول ہیں _ اس کے علاوہ طریق حدیث میں جعفر بن (محمد بن ) مالک ہیں کہ جنھیں علماء رجال کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث ششم :

علی بن احمد عن عبیدالله بن موسی العلوی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن منخل بن جمیل عن جابر بن یزید عن ابی جعفر الباقرعلیه السلام انه قال : اسکنوا ما سکنت السموات و لا تخرجوا علی احد فانّ امرکم لیسبه خفاء الا انّها آیة من الله عزّ و جل لیست من الناس

( مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام محمد باقر (ع) نے فرمایا : جب تک آسمان ساکن ہے اس وقت تک تم بھی سال رہو اور کسی کے خلاف خروج نہ کرو _ بے شک تمہارا امر مخفی نہیں ہے مگر خدا کی طرف سے ایک نشان ہے او راس کا اختیار لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ''_

سند حدیث

یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہے کیونکہ علم رجال کی کتابوں میں منخل بن جمیل کو ضعیف و فاسد الروایت قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

مذکورہ احادیث کا مفہوم کے تجزیہ سے قبل آپ کی توجہ ایک نکتہ کی طرف

۳۶۹

مبذول کرادینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اور ائمہ اطہار کے اصحاب ہمیشہ انقلاب مہدی موعود اور قائم آل محمد کے قیام کے منتظر رہے ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) سے سنا تھا کہ جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی عدل گستر مہدی ظہور فرمائیں گے اور ظلم و کفر کا قلع و قمع کریں گے _ دنیا میں اسلام کا بول با لاکریں گے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے _ شیعوں نے سنا تھا کہ ایسے انسان کا انقلاب کامیاب ہوگا اور تائید الہی اس کے شامل حال ہوگی _ اسی ل ے صدر اسلام کے بحرانی حالت میں قیام و قائم شیعوں کے درمیان گفتگو کا موضوع تھا _ وہ ائمہ اطہار سے کہتے تھے _ ہر جگہ ظلم و جور کی حکمرانی ہے _ آپ کیوں قیام نہیں کرتے _ کبھی دریافت کرتے تھے _ قائم آل محمد کیسا قیام کریں گے ؟ کبھی قائم آل محمد کے ظہور کی علامت کے بارے میں پوچھتے تھے _ ایسے حالات میں بعض علوی سادات موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور مہدی موعود قائم آل محمد کے نام سے انقلاب بپاکرتے تھے اور طاغوت کی حکومت کو برباد کرنے کے لئے جنگ کرتے تھے لیکن قلیل مدت میں شکست کھاجاتے تھے _

مذکورہ احادیث اسی زمانہ میں صادر ہوئی تھیں _ پس اگر امام اپنے اصحاب میں کسی ایک یا چند اشخاص سے یہ فرماتے ہیں کہ خاموش رہو _ شورش نہ کرو، خروج سفیانی اور آسمانی چیخ کے منتظر رہو، ان چیزوں کا مقصد اس بات کو سمجھانا تھا کہ جس شخص نے اس وقت قیام کیا ہے وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی موعود نہیں ہیں ، مجھے قائم موعود تصور نہ کرو _ قائم آل محمد کے ظہور تک صبر کرو ، اور ان کے قیام و انقلاب کی کچھ مخصوص علامات ہیں _ پس جو شخص بھی قیام و شورش کرے اور تم سے مدد مانگے تو پہلغ تم ان مخصوص علامتوں کو ان کی دعوت میں ملا حظہ کرلو اس کے

۳۷۰

بعد قبول کرلو اگر وہ علامتیں اس کی دعوت میں آشکار نہیں ہیں تو اس کے فریب میں نہ آو _ اسکی آواز پر لبیک نہ کہو اور سمجھ لو کہ وہ مہدی موعود نہیں ہے _ مذکورہ احادیث در حقیقت علوی سادات کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں جو کہ مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرتے تھے _ اور اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مہدویت کے دعویدار مہدی موعود نہیں ہیں _ ان کے

فریب میں نہ آجانا _ یہ احادیث مسلمانوں کے حتمی و ضروری فرائض جیسے وجوب جہاد، اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، ظلم و بیدادگری سے مبارزہ اور محرومین و مستضعفین سے دفاع کو منع نہیں کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ ظلم و ستم ، فحشا و منکرات ، کفر و الحاد یہاں تک کہ اسلام کو نابود کرنے کے سلسلے میں جو سازشیں کی گئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیا رکرو اور امام مہدی کے ظہور کا انتظارکرو کہ وہی دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ ایسی رکیک بات کو ائمہ معصومین کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا _ اگر سکوت واجب تھا تو حضرت علی نے اسلام کے دشمنوں سے کیوں جنگ کی ؟ اور اما م حسین نے یزید کے خلاف کیوں قیام کیا ؟ اور زید کے خونین انقلاب کی ائمہ نے کیون تائید کی ؟ اس بناپر مذکورہ احادیث کو قیام و انقلاب کے مخالف نہیں قرارد یا جاسکتا _

چوتھا حصہ

جو احادیث اس بات سے منع کرتی ہیں کہ انقلاب و تحریک میں عجلت سے کام نہ لو _

حدیث اول

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد عن محمدبن

۳۷۱

علی عن حفص بن عاصم عن سیف التمار عن ابی المرهف عن ابی جعفر علیه السلام قال : الغبرة علی من اثارها ، هلک المحاضیر قلت : جلعت فداک ، و ماالمحاضیر؟ قال المستعجلون اما انهم لن یریدوا الاّ من یعرض علیهم ( الی ان قال) یا ابا المرهف اتری قوماً جسو انفسهم علی الله لا یجعف الله لهم فرجاً؟ بلی والله لیجعلن الله لهم فرجاً _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام محمد باقر نے فرمایا: گردو غبار اس کی آنکھوں میں پڑتا ہے جواڑاتا ہے _ جلد باز ہلاک ہوتے ہیں حکومتیں ان لوگوں کو کچلتی ہیں جوان سے ٹکراتے ہیں _ اے ابو مرہف کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جو لوگ راہ خدا میں اپنی حفاظت کرتے ہیں _ خدا انھیں فراخی نہیںعطا کرے گا ؟ کیوں خدا کی قسم خدا انھیں ضرور کشائشے عطا کرے گا _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے حدیث صحیح نہیں ہے کیون کہ محمد بن علی کوفی ( محمد بن علی بن ابراہیم ) کو رجال کی کتابوں میں ضعیف شمار کیا گیا ہے جبکہ ابومرہف بھی مجہول ہے _

مفہوم حدیث

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس زمانہ میں ایک گروہ نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا تھا اور اس کی شورش کو کچل دیا گیا تھا _ اسی لئی راوی

۳۷۲

حدیث بھی خوف زدہ اور پریشان تھا کہ کہیں شیعوں پر بھی حرف نہ آئے _ اسی لئے اما م نے اسے تسلی دی کہ تم نہ ڈرو ان لوگوں کی چھان بین کی جائے گی جنہوں نے خروج کیا تھا _ تم پر آنچ نہیں آئے گی _ تم ظہور کے وقت تک خاموش رہو _ اس حدیث کو بھی قیام کے مخالف نہیں کیا جا سکتا _

حدیث دوم

'' الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن ابن قولویه عن ابیه عن احمد بن علی بن اسباط عن عمّه یعقوب بن سالم عن ابی الحسن العبیدی عن الصادق علیه السلام قال : ما کان عبد لیحبس نفسه علی الله الا دخله الجنة '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۲۹)

اما م صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے : جو شخص بھی خدا کیلئے صبر و پائیداری سے کام لیتا ہے خدا اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے گا _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

مفہوم حدیث

اس حدیث میں امام صادق نے نفس پر قابو رکھنے اور پائیداری سے کام لینے کا حکم دیا ہے _ لیکن سکوت و صبر کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قیام نہ کیا جائے قیام کے ساتھ صبر و پائیداری زیادہ مناسب ہے _

۳۷۳

حدیث سوم :

قال امیر المؤمین علیه السلام : الزموا الارض واصبروا علی البلاء و لا تحرکوا بایدیکم و سیوفکم فی هوی السنتکم ولا تستعجلوا بما لم یعجل الله لکم فانه من مات منکم علی فراشه و هو علی معرفة حق ربّه و حق رسوله و اهل بیته مات شهیدا ووقع اجره علی الله و استوجب ثواب ما نوی من صالح عمله وقامت النیة مقام اصلاته بسیفه فان لکل شیئی مدة واجلا

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۰)

حضرت امیر المومنین کا ارشاد ہے : زمین پکڑ کر بیٹھے رہو ، بلاؤں پر صبر کرو اور اپنی زبان کی بناپر تلوار اور ہاتھوں کو حرکت نہ دو ، جس کام میں خدا نے عجلت نہین کی ہے تم بھی اس میںتعجیل نہ کرو، بے شک جو بھی تم میں سے اس حال میں اپنے بستر پر مرے گا کہ خدا و رسول اور اہل بیت کی معرفت سے اس کا قلب سرشار ہو تو وہ شہید کی موت مرے گا اور اس کا اجر خدا پرہے _ او راسے اس نیت عمل کا بھی ثواب ملے گا _ جس کی نیت کی تھی تلوار چلانے کی نیت کا بھی ثواب ملیگا _ بے شک ہر چیز کا ایک مخصوص وقت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث نہج البلاغہ سے منقول ہے ، معتبر ہے _

حدیث چہارم :

۳۷۴

محمد بن یحیی عن محمد بن الحسین عن عبدالرحمن بن ابی هاشم عن الفضل الکاتب قال کنت عند ابی عبدالله علیه السلام فاتاه کتاب ابی مسلم فقال : لیس لکتابک و جواب اخرج عنا ( الی ان قال ) قلت : فما العلامة فیما بیننا و بین جعلت فداک؟ قال لا تبرح الارضه یا ف ضیل حتی یخرج السفیانی ، فاذا خرج السفیانی فاجیبوا الینا ، یقولها ثلاثاً ، و هو من المحتوم '' _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

فضل کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ ابو مسلم خراسانی کا خط آپ (ع) کے پاس پہنچا _ اما م نے حامل رقعہ سے فرمایا: تمہارا خط اس لائق نہیں ہے کہ اس کا جواب دیا جائے ، جاؤ ، خدا بندوں کی جلد بازی سے تعجیل نہیں کرتا ہے _ بے شک پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑکر پھینکنا آسان ہے لیکن اس حکومت کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جس کا وقت نہ آیا ہو _ راوی نے عرض کی : پس ہمارے اور آپ (ع) کے درمیان کیا علامت ہے ؟ فرمایا : سفیانی کے خروج تک اپنی جگہ سے حرکت نہ کرو ، اس وقت ہمارے پاس آنا ، اس بات کو آپ (ع) نے تین مرتبہ دھرایا چنانچہ سفیانی کا خروج حتمی علامت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _

حدیث پنجم :

محمد بن علی بن الحسین باسناده عن حماد بن عمرو و انس

۳۷۵

بن محمد عن ابیه عن جعفر بن محمد عن آبا ئ ه علیهم السلام ( فی وصیة النی صلی الله علیه و آله لعی علیه السلام ) قال : یا علی ازالة الجبال الرواسی اهون من ازالة ملک لم تنقض ایامه ''

( وسائل الشیعہ ج۱۱ ص ۳۸)

رسو ل خدا نے حضرت علی سے فرمایا : پہاڑوں کو اکھاڑنا آسان ہے لیکن ان حکومتوں کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جن کا وقت نہ آیا ہو _

سند حدیث

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حماد بن عمرو مجہول ہے چنانچہ انس بن محمد مہمل ہے اور اس کے والد محمد کو رجال کی کتابوں میں اہمیت نہیں دی گئی ہے _

حدیث ششم

حمید بن زیاد عن عبید الله بن احمد الدهقان عن علی بن الحسن الطاهری عن محمد بن زیاد عن ابان عن صباح بن سیابنه ع المعلی بن خنیس قال ذهبت بکتاب عبد السلام بن نعیم و سدیر و کتب غیر واحد الی ابیعبدلله علیه السلام حین ظهر المسودة قبل ان یظهر ولد العباس : انّا قدّرنا ان یؤل هذا الامر الیک فما تری ؟ قال : فضرب بالکتب الارض ، قال : اف اف ما انا لهؤلاء بامام ، اما یعلمون انه انما یقتل السفیانی '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

معلّی کہتے ہیں : میں عبد السلام سدیر اور دوسرے چند افراد کے خطوط

۳۷۶

لیکر امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، بنی عباس کے آشکار ہونے سے قبل کالے لباس والے ظاہر ہوئے _ خطوط کا مضمون یہ تھا _ ہم نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ حکومت و قیادت آپ کی دست اختیا ر میں دی جائے آپ (ع) کیا فرماتے ہیں ؟ امام (ع) نے خطوط کو زمین پر دے مارا اور فرمایا : افسوس ، افسوس ، میں ان کاامام نہیں ہوں _ کیا انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ مہدی موعود وہ ہے جو سفیانی کو قتل کریں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے اس حدیث پر بھی اعتماد نہین کیا جا سکتا کیونکہ صباح بن سیابہ مجہول ہے _

مفہوم حدیث

احادیث کے مفہوم کے تجزیہ سے قبل درج ذیل نکات کو مد نظر رکھئے :

۱_ ائمہ کے زمانہ میں شیعہ ہمیشہ حضرت مہدی کے ظہور و انقلاب کے منتظر رہتے تھے کہ اس کی خبر انہوں نے رسول سے سنی تھی _

۲_ اس زمانہ میں شیعہ بڑی مشکلوں میں مبتلا تھے ، خلفائے جور کی ان پر سخت نگاہ رہتی تھی _ قید میں ڈال دیئےاتے ، جلا وطن کردیئےاتے یا قتل کردیئےاتے تھے _

۳_ ہر چند علوی سادات میں سے ہر ایک ظالم حکومتوں کے خلافت قیام کرتا تھا اور وہ لوگ بھی ان کی مدد کرتے تھے جو زندگی سے عاجز آجاتے اور قیام کرنے والے

۳۷۷

کو مہدی موعود اور منجی بشریت سمجھتے تھے لیکن زیادن دن نہیں گزرتے تھے کہ قتل ہوجاتے تھے _

۴_ خلفائے وقت انقلاب اور قائم کے سلسلہ میں بہت زیادہ حساس تھے ، وہ ہمیشہ خوف و ہارس میں مبتلا اور حالات کے سلسلے میں پریشان رہتے تھے ، وہ علوی سادات خصوصاً ان کے سربرآوردہ افراد پر نظر رکھتے تھے _ مذکورہ احادیث ایسے ہی حالات میں صادر ہوئی ہیں _ جو شیعہ مختلف قسم کی بلاؤں میںمبتلا تھے وہ ائمہ سے قیام کرنے اور مسلمانوں کو غاصب حکومتوں سے نجات دلانے کے سلسلہ میں اصرار کرتے تھے یا علوی سادات میں سے ان لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت مانگتے تھے جو مہدی موعود کے نام سے خروج کرتے تھے _ ائمہ اطہار (ع) فرماتے تھے : مہدی موعود کے قیام کے سلسلے میں عجلت نہ کرو کہ ابھی اس کاوقت نہیں آیا ہے _ خروج کرنے والوں نے مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے خروج کیا ہے جب کہ وہ مہدی موعود ہیں ہیں _ مہدی موعود کے ظہور و قیام کی مخصوص علامات ہیں جو کہ ابھی تک آشکار نہیں ہوئی ہیں _ پھر قیام کرنے والوں نے ہماری امامت کے استحکام کیلئے قیام نہیں کیا ہے _ ان کا انقلاب بھی کامیاب ہونے والا نہیں ہے _ کیونکہ غاصب حکومتوں کی تباہی کے اسباب فراہم نہیں ہوئے ہیں _ حکومت کا تختہ پلٹنا بہت دشوار ہے _ فرماتے تھے : کشائشے حاصل ہونے تک صبر کرو_ اور قیام مہدی کے سلسلہ میں جلد نہ کرو کہ ہلاک ہوجاؤگے _ اور چونکہ تمہاری نیت اصلاح و قیام کی ہے اور اس کے مقدمات فراہم کرنا چاہئے ہو اس لئے تمہیں اس کا ثواب ملیگا _ بہر حال مذکورہ احادیث تعجیل کرنے اور کمزور تحریک سے منع کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ مکمل تحریک کے مقدمات فراہم کرنے کیلئے ظلم و ستم

۳۷۸

اور کفر و بے دینی سے مبارزہ نہ کرو ان احادیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ جہاد، دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کا فریضہ امام زمانہ کی غیبت میں ساقط ہے _ اس زمانہ میں لوگوں کو فساد کا تماشہ دیکھنا چاہئے صرف تعجیل ظہور امام زمانہ کیلئے دعا کریں _ چنانچہ ان احادیث کو انقلاب و تحریک کے مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا ہے _

پانچواں حصّہ

جو روایات حضرت قائم قائم کے ظہور سے قبل ہر پرچم کے بلند کرنے والے کو طاغوت قراردیتی ہیں _

حدیث اول :

محمد بن یحیی عن احمد بن محمد عن الحسین بن سعید عن حماد بن عیسی عن الحسین بن المختار عن ابی بصیر عن ابیعبدالله علیه السلام قال : کل رایة ترفع قبل قیام القائم فصابحها طاغوت یعبد من دون الله _

( وسائل الشیعہ ج ص ۳۷)

امام صادق (ع) کا ارشادہے : جو پرچم بھی قائم کے قیام سے قبل بلند کیا جائے گا اس کابلند کرنے والا شیطان ہے ، جو کہ خدا کے علاوہ اپنی عبادت کراتا ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _ اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

۳۷۹

حدیث دوم :

محمد بن ابراهیم النعمانی عن عبد الواحد بن عبدالله قال حدثنا احمد بن محمد بن ریاح الزهری قال حدثنا محمد بن العباس عن عیسی الحسینی عن الحسن بن علی بن ابی حمزة عن ابیه عن مالک بن اعین الجهنی عن ابی جعفر علیه السام انه قال کل رایة ترفع قبل رایة القائم فصاحبها طاغوت

( مستدر ک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر علیہ السام کا ارشاد ہے : جو پرچم بھی مہدی کے پرچم سے پہلے بلند کیا جائے گا ، اس کا بلند کرنے والا شیطان ہے _

سند حدیث

روایت کے معنی پرچم کے ہیں اور پرچم بلند کرنا کنایہ ہے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے اور صاحب پرچم عبارت ہے ہراس تحریک کے قائد سے جو کہ موجودہ حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے لوگوں سے مدد مانگتا ہے _ طاغوت یعنی ظالم و جابر شخص جو حریم الہی پر تجاوز کرے اور خدا کی حاکمیت کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنی حاکمیت قبول کرنے پر مجبور کرے _ جملہ یعبد من دون اللہ اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ صاحب پرچم حکومت خدا کے مقابلہ میں ایک حکومت بنانا چاہتا ہے اور دینی تمنّا پوری کرنا چاہتا ہے ایسے پرچم کے حامل کو طاغوت و شیطان کہا گیا ہے _ اس بناپر گزشتہ احادیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جو پرچم بھی قیام مہدی سے قبل بلند کیا جائیگا اور اس کا حامل لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا تو ایسے پرچم کا حامل شیطان ہے کہ جس نے

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455