آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181612 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

احادیث مہدی (عج) اہلسنّت کی کتابوں میں

فہیمی: ہوشیار صاحب احباب جانتے ہیں لیکن آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ میرا تعلق اہل سنّت سے ہے اور شیعوں کی احادیث کے بارے میں آپ کی طرح حسن ظن نہیں رکھتا ہوں میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ جب کچھ اسباب کی بناپر شیعہ مہدویت کی داستان کے معتقد ہوگئے تھے اس وقت انہوں نے اپنے عقیدہ کے اثبات کے لئے کچھ حدیثیں گڑھی تھیں اور انھیں پیغمبر (ص) کی طرف منسوب کردیا تھا اور اس احتمال کا ثبوت یہ ہے کہ مہدی سے متعلق حدیثیں صرف شیعوں کی کتابوں میں مرقوم ہیں _ ہماری صحاح میں ان کا کہیں نام و نشان نہیں ہے _ ہاں ہماری غیر معتبر کتابوں میں مہدی سے متعلق چند حدیثیں مرقوم ہیں _(۱) ہوشیار: اگر چہ بنی امیہ و بنی عباس کے زمانہء حکومت میں عام طور پر ایک مارشل لانافذ تھا، حکومت کی طاقت و سیاست اور مذہبی تعصب کی نباپر اہل بیت کی امامت و ولایت سے متعلق احادیث نہ بیان ہوسکتی تھیں اور نہ کتابوں میں درج ہوسکتی تھیں _ لیکن اس کے باوجود آپ کی احادیث کی کتابوں میں مہدی سے متعلق حدیثیں درج ہیں _ اگر تھکے نہ ہوں تو ان میں سے چند حدیثیں آپ کے سامنے پیش کروں ؟

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام تالیف سعد محمدحسن ، ط مصر سال ۱۳۷۳ ص ۶۹ _ مقدمہ ابن خلدون ط مصر مط محمد ص ۳۱۱_

۲۱

اینجنئر : ہوشیار صاحب آپ سلسلہ جاری رکھیں _

ہوشیار: فہیمی صاحب آپ کی صحاح میں مہدی کے نام سے ایک باب منعقد ہواہے اور اس میں پیغمبر(ص) کی حدیثیں نقل ہوئی ہیں ، بطور مثال:

عبداللہ نے پیغمبر(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: '' دنیا اس وقت تک فنا نہیں ہوگی جب تک عرب کا مالک میرے اہل بیت میں سے وہ شخص نہ ہوگا جس کا نام میرا نام ہے ''(۱)

اس حدیث کو ترمذی اپنی صحیح میں نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:'' یہ حدیث صحیح ہے اور مہدی کے بارے میں ابو سعید، ام سلمہ اور ابوہریرہ نے بھی روایت کی ہے_''

علی (ع) بن ابی طالب نے روایت کی ہے کہ رسول (ص) نے فرمایا: '' اگر دنیا کا ایک دن بھی باقی رہے گا تو بھی خداوند عالم اہل بیت میں سے اس شخص کو بھیجے گا جو زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی ''_(۲)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول (ص) سے سنا کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میری عترت اور فاطمہ (ع) کی اولاد سے ہوگا ''(۳)

____________________

۱_ صحیح ترمذی ج ۴ باب ماجاء فی المہدی ص ۵۱۵ _ کتاب ینابیع المودة تالیف شیخ سلیمان ط سال ۱۳۰۸ ج۲ ص ۱۸۰_کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان تالیف محمد بن یوسف شافعی ط نجف ص ۵۷_ کتاب نور الابصار ص ۱۷۱ _ مشکوة المصابیح ص ۲۷۰_

۲_ صحیح ابی داود ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷ _ البیان ص ۵۹_ کتاب نور الابصار تالیف شبلنجی ص ۱۵۶ _ الصواعق المحرقہ تالیف ابن حجر ط قاہرہ ص ۱۶۱ _ کتاب فصول المہمہ تالیف ابن صباغ ط نجف ص ۲۷۵ _ کتاب اسعاف الراغبین تالیف محمد الصبان _

۳_ صحیح ابی داؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۷_ ابوداؤد در این باب ۱۱ حدیث نقل کردہ است _ صحیح ابن ماجہ باب خروج المہدی ج ۲ ص ۵۱۹_الصواعق ص ۱۶۱_ البیان ص ۶۴ _ مشکوة المصابیح تالیف محمد بن عبداللہ خطیب ط دہلی ص ۲۷۰_

۲۲

ابو سعید کہتے ہیں کہ پیغمبر (ص) نے فرمایا: '' ہمارا کشادہ پیشانی اور اونچی ناک والا مہدی زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی اور سات سال حکومت کرے گا _'' (۱)

حضرت علی (ع) بن ابی طالب نے رسول (ص) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:'' مہدی میرے اہل بیت سے ہے ، خداوند عالم ان کے انقلاب کے اسباب ایک رات میں فراہم کردے گا '' _(۲)

ابوسعید نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: ''جب زمین ظلم و جور سے بھر جائے گی اس وقت میرے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور کرے گا اور ۷ یا ۹ سال حکومت کرے گا اور زمین کو عد ل و انصاف سے پر کرے گا ''_(۳)

ابوسعید نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:'' آخری زمانہ میں میری امت کے سرپر بادشاہ بلائیں اور مصیبتیں لائے گا _ ایسی بلائیں اور ظلم کو جو کبھی سنانہ گیا ہوگا _ میری امت پر زمین اپنی وسعت کے باوجود تنگ ہوجائے گی اور ظلم وجور سے بھر جائے گی _ مسلمانوں کا کوئی فریاد رس و پناہ دینے والا نہ ہوگا _ اس وقت خداوند عالم میرے اہل بیت میں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھر چکی تھی _ زمین و آسمان کے مکین اس سے راضی ہوں گے _ اس کے لئے زمین اپنے خزانے اگل دے گی اور آسمان پے درپے بارش برسائے گا _ ۷ یا ۹ سال لوگوں کے درمیان زندگی بسر کرے گا _ اور زمین والوں پر جو خدا کی رحمتیں اور لطف ہوگا اس کے

____________________

۱_ صحیح ابی داوؤد ج ۲ کتاب المہدی ص ۲۰۸ _ فصول المہمہ ص ۲۷۵_ نور الابصار ط مصرص ۱۷۰ _ ینابیع المودة ج ، ص ۱۶۱

۲_ صحیح ابن ماجہ ج ۲ باب خروج المہدی ص ۵۱۹ _ اس باب میں ۷ حدیثیں ذکر ہوئی ہیں _ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱

۳_ مسند احمد ج ۳ ص ۲۸ باب مسند ات ابی سعید الخدری میں مہدی کے بارے ایک حدیث ذکر ہوئی ہے _ ینابع المودة ج ۲ ص ۲۲۷

۲۳

پیش نظر مرد ے زندگی کی آرزو کریں گے(۱)

ایسی ہی اور احادیث بھی کی کتابوں میں موجود ہیں لیکن اثبات مدعا کیلئے اتنی ہی کافی ہیں _

ایک صاحب قلم کا اعتراض

فھیمی : المہدیہ فی الاسلام کے مؤلف نے تحریر کیا ہے : محمد بن اسماعیل بخاری اور مسلم بن حجاج نیشاپوری نے اپنی صحاح میںمہدی سے متعلق احادیث درج نہیں کی ہیں جبکہ صحاح میں معتبر ترین ، نہایت احتیاط و تحقیق کے ساتھ ان میں احادیث جمع کی گئی ہیں ، ہاں سنن ابی داؤد ، ابن ماجہ ، ترمذی ، نسائی اور مسند احمد میں ایسی احادیث جن کے منقولات میں زیادہ احتیاط سے کام نہیں لیا گیا ہے _ چنانچہ منجملہ دوسرے علما کے ابن خلدون نے ان احادیث کو ضعیف قرار دیا ہے ۲_

ابن خلدون اور احادیث مہدی (عج)

ہوشیار: موضوع کی وضاحت کے لئے بہتر ہے کہ میں آپ کے سامنے ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ پیش کروں _ ابن خلدون اپنے مقدمہ لکھتے ہیں:سارے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانے میں پیغمبر اسلام کے اہل بیت میں سے ایک شخص ظہور

____________________

۱_ من خیرہ البیان ص ۷۲_ الصواعق المحرقہ ص ۱۶۱ _ ینابیع ج ۲ ص ۱۷۷_

۲_ کتاب المہدیہ فی الاسلام ص ۶۹_

۲۴

کرے گا ، دین کی حمایت کرے گا اور عدل و انصاف کو فروغ دیگا اور سارے اسلامی ممالک اس کے تسلّط آجائیں گے _ ان (مسلمانوں) کا مدرک وہ احادیث ہیں جو کہ علماء کی ایک جماعت ، جیسے ترمذی ، ابوداؤد ، ابن ماجہ ، حاکم ، طبرانی اور ابویعلی موصلی کی کتابوں میں موجود ہیں _ لیکن مہدی (عج) کے منکروں نے ان احادیث کے صحیح ہونے میں شک کا اظہار کیا ہے پس ہمیں مہدی سے متعلق احادیث اور ان سے متعلق منکرین کے اعتراضات و طعن کو بیان کرنا چاہئے تا کہ حقیقت روشن ہوجائے_ لیکن اس بات کو ملحوظ رکھنا چاہئے کہ ، اگر ان احادیث کے راویوں کے بارے میں کوئی جرح و قدح ہو تو اصل حدیث ہی غیر معتبر ہوجاتی لیکن ان کے راویوں کے بارے میں عدالت و وثاقت بھی وارد ہوئی ہے تو مشہور ہے کہ ان کا ضعیف ہونا اور ان کی بدگوئی عدالت پر مقدم ہے _ اگر کوئی شخص ہمارے اوپر یہ اعتراض کر ے کہ یہی عیب بعض ان لوگوں کے بارے میں بھی سامنے آتا ہے جن سے بخاری و مسلم میں روایات لی گئی ہیں وہ طعن و تضعیف سے سالم نہ رہ سکیں تو ان کے لئے ہمارا جواب یہ ہے کہ ان دو کتابوں کی احادیث پر عمل کرنے کے سلسلے میں علماء کا اجماع ہے اور یہ مقبولیت ان کے ضعف کاجبران کرتی ہے لیکن دوسری کتابیں ان کے پایہ کی نہیں ہیں '' (۱)

یہ تھا ابن خلدون کی عبارت کا خلاصہ ، اس کے بعد انہوں نے احادیث کے راویوں کی توثیق و تضعیف سے بحث کی ہے _

تواتر احادیث

ہمارا جواب : اول تو اہل سنّت کے بہت سے علما نے ، مہدی (عج) سے متعلق احادیث کو

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۱_

۲۵

متواتر جانا ہے _ یا ان کے تواتر کو دوسروں سے نقل کیا ہے اور ان پر اعتراض نہیں کیا ہے ، مثلاً : ابن حجر ہیثمی نے '' صواعق محرقہ میں'' شبلنجی نے '' نور الابصار '' میں ، ابن صباغ مالکی نے ''فصول المہمہ'' میں، محمد الصبان نے '' اسعاف الراغبین'' میں ،کجی شافعی نے '' البیان'' میں ، شیخ منصور علی نے '' غایة المامول'' میں ، سویدی نے '' سبائک الذہب'' میں ا ور دوسرے علماء نے اپنی کتابوں میں ان احادیث کو متواتر قرار دیا ہے اور یہی تواتر ان کی سند کے ضعف کا جبران کرتا ہے _

عسقلانی لکھتے ہیں:'' خبر متواتر سے یقین حاصل ہوجاتا ہے اور اس پر عمل کرنے کے سلسلے میں کسی بحث کی ضرورت نہیں رہتی ہے '' _(۱)

شافعی فرقہ کے مفتی سید احمد شیخ الاسلام لکھتے ہیں کہ : جو احادیث مہدی کے بارے میں وارد ہوئی ہیں ، ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور وہ معتبر ہیں ، ان میں سے بعض احادیث صحیح ، بعض حسن اور کچھ ضعیف ہیں ،اگر چہ ان میں اکثر ضعیف ہیں لیکن چونکہ بہت زیادہ ہیں اور ان کے راوی اور لکھنے والے بھی زیادہ ہیں اس لئے بعض احادیث بعض کی تقویت کرتی ہیں اور انھیں مفید یقین بنادیتی ہیں _(۲)

مختصر یہ کہ عظیم صحابہ کی ایک جماعت ، عبدالرحمن بن عوف، ابو سعید خدری ، قیس بن صابر ، ابن عباس ، جابر ، ابن مسعود ، علی بن ابی طالب ، ابوہریرہ ، ثوبان ، سلمان فارسی ، ابوامامہ ، حذیفہ ، انس بن مالک اور ام سلمہ اور دوسرے گروہ نے بھی مہد ی سے

____________________

۱_ نزہتہ النظر مؤلفہ احمد بن حجر عسقلانی طبع کراچی ص ۱۲_

۲_ فتوحات الاسلامیہ طبع مکہ ج ۲ ص ۲۵۰_

۲۶

متعلق احادیث کو نقل کیا ہے اور ان حدیثوں کو علماء اہل سنّت نے لکھا ہے _

مثلاً ، ابوداؤد احمد بن حنبل ، ترمذی ، ابن ماجہ ، حاکم نسائی ، روبانی ، ابو نعیم ، جکرانی ، اصفہانی ، دیلمی، بیہقی ، ثعلبی ، حموینی ، منادی ، ابن مغازلی ، ابن جوزی ، محمد الصبان مارودی ، کنجی شافعی ، سمعانی ،خوارزمی ، شعرانی ،دار قطنی ، ابن صباغ مالکی ، شبلنجی ، محب الدین طبری ، ابن حجر ہیثمی ، شیخ منصور علی ناصف ، محمد بن طلحہ ، جلال الدین سیوطی ، سلیمان حنفی ، قرطبی ، بغوی اور دوسرے لوگوں نے اپنی اپنی کتابوں میں لکھا ہے _(۱)

ہر جگہ تضعیف مقدم نہیں ہے _

دوسرے جن افراد کو ضعیف قرار دیا گیا ہے اور ابن خلدون نے ان کے نام تحریر کئے ہیں _ ان کے بارے میں بعض توثیقات بھی وارد ہوئی ہیں کہ جن سے بعض کو خود ابن خلدون نے نقل کیا ہے اور پھر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہر جگہ بطور مطلق تضعیف کو تعدیل پر مقدم کیا جائے ، ممکن ہے ضعیف قراردینے والے کے نزدیک کوئی مخصوص صفت ضعف کا سبب ہو لیکن دوسرے اس صفت کو ضعف کا سبب نہ سمجھتے ہوں _ پس کسی راوی کو ضعیف قراردینے والے کا قول اس وقت معتبر ہوگا جب اس کے ضعف کی وجہ بیان کرے _

عسقلانی اپنی کتاب ، لسان المیزان میں لکھتی ہیں :'' تضعیف تعدیل پر اسی صورت میں مقدم ہوسکتی ہے کہ جب اس کے ضعف کی علت معین ہو اس کے علاوہ ضعیف قراردینے

____________________

۱_ یہ تھے اہل سنّت کے ان علما کے نام جنہوں نے مہدی سے متعلق احادیث کو اپنی کتابوں میں لکھا ہے اور ان کی کتابیں رائج تھیں لیکن ان سب کی کتابیں دست رس میں نہیں تھیں ، لہذا دوسری کتابوں سے نقل کیا ہے _ مہدی خراسانی نے کتاب البیان پر بہترین مقدمہ لکھا ہے اس میں علمائے اہل سنّت کے ۷۲ نام لکھے ہیں _

۲۷

والے کے قول کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

ابوبکر احمد بن علی بن ثابت بغدادی کہتے ہیں کہ:'' جن احادیث سے بخاری ، مسلم اور ابوداؤد نے تمسک کیا ہے _ باوجودیکہ اان میں سے بعض راویوں کو ضعیف اور مطعون قرار دیا گیا ہے ان کے بارے میں یہ کہنا چاہئے کہ ان حضرات کے نزدیک ان (راویوں کا ) ضعیف و مطعون ہونا ثابت نہیں تھا '' _(۱)

خطیب لکھتے ہیں کہ :'' اگر تضعیف و تعدیل دونوں برابر ہوں تو تضعیف مقدم ہے _ لیکن اگر تضعیف تعدیل سے کم ہو تو اس سلسلے میں کئی قول ہیں _ بہترین قول یہ ہے کہ تفصیل کے ساتھ یہ کہا جائے کہ اگر ضعف کا سبب بیان ہوا ہے تو ہماری نظر میں مؤثر ہے اور تعدیل پر مقدم ہے لیکن سبب بیان نہ ہونے کی صورت میں تعدیل مقدم ہے ''(۲)

مختصر یہ کہ ہر جگہ تعدیل کو بطور مطلق تضعیف پر مقدم نہیں کیا جا سکتا _ اگر یہ مسلم ہو کہ ہر قسم کی تضعیف موثر ہے تو طعن وقدح سے بہت ہی مختصر حدیثیں محفوظ رہیں گی _ اس سلسلے میں نہایت احتیاط اور کوشش و سعی کرنا چاہئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے _

شیعہ ہونا تضعیف کا سبب

راوی کے ضعیف ہونے کے اسباب میں سے ایک اس کا شیعہ ہونا بھی شمار کیا گیا ہے مثلاً ابن خلدون نے قطن بن خلیفہ جو کہ مہدی سے متعلق احادیث کا ایک راوی ہے ، کو شیعہ ہونے کے جرم میں غیر معتبر قراردیا ہے اور اس کے بارے میں تحریر کیا ہے :

____________________

۱_ لسان المیزان مؤلفہ احمد بن علی بن حجر عسقلانی طبع اول ج ۱ ص ۲۵_

۲_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۵_

۲۸

''عجلی کہتا ہے : قطن حدیث کے اعتبار سے بہت اچھا ہے لیکن تھوڑا سا شیعیت کی طرف نائل ہے '' _

احمد بن عبداللہ بن یونس لکھتا ہے :'' میں نے قطن کو دیکھا لیکن اسے کتّے کی طرح چھوڑکر نکل آیا ''_ ابوبکر بن عیاش لکھتا ہے : میں نے قطن کی احادیث کو صرف اس کے مذہب کے فاسد ہونے کی بناپر چھوڑدیا ہے''_

جبکہ احمد ، یحیی بن قطاف ، ابن معین ، نسائی اور دوسرے لوگوں نے اسکی توثیق کی ہے _(۱)

اس کے بعد ابن خلدن ان احادیث کے راوی ہارون کے بارے میں لکھتا ہے : ''ہاروں شیعہ اولاد سے تھا''_(۲) ایک گروہ نے ان احادیث کے راوی یزید بن ابی زیاد کو مجمل انداز میں ضعیف قراردیا ہے اور بعض نے ان کے ضعف کی وضاحت کی ہے چنانچہ محمد بن فضیل ان کے متعلق لکھتا ہے :'' وہ سربرآوردہ شیعوں میں سے ایک تھے اور ابن عدی کہتے ہیں :'' وہ کوفہ کے شیعوں میں سے تھے''(۲)

ابن خلدون عمار ذہبی کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :'' اگر چہ احمد ، ابن معین ، ابوحاتم ، نسائی اور بعض دوسرے افراد نے عمار کی توثیق کی ہے لیکن بشر بن مروان نے شیعہ ہونے کی بناپر انھیں قبول نہیں کیا ہے''_(۴)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۳_

۲_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۴_

۳_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۸_

۴_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۱۹_

۲۹

عبدالرزاق بن ہمام کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : '' انہوں نے فضائل اہل بیت میں حدیثیں نقل کی ہیں اور شیعہ مشہور ہیں '' _(۱)

عقیدہ کا اختلاف

ایک اور چیز جو اکثر راوی کی تضعیف کا سبب ہوتی ہے اور جس سے وہ نیک اور سچے کو بھی متہم کردیتے ہیں اور ان کی حدیثوں کو رد کردیتے ہیں وہ عقیدہ کا اختلاف ہے _ مثلاً اس زمانہ میں ایک حساس اور قابل تفتیش و متنازع موضوع خلق قرآن کا شاخسانہ تھا ایک گروہ کا عقیدہ تھا کہ قرآن مخلوق نہیں ہے بلکہ قدیم ہے دوسرا کہتا تھا قرآن مخلوق وحادث ہے _ ان دونوں گروہوں کی بحث و کشمکش اور جھگڑے اس حد تک پہنچ گئے کہ ایک نے دوسرے کو کافر تک کہنا شروع کردیا _ چنانچہ احادیث کے راویوں کی ایک بڑی جماعت کو قرآن کے مخلوق ہونے کے عقیدہ کے جرم میں ضعیف وکافر قراردیدیاگیا _

صاحب ''اضواء علی السنة المحمدیہ '' لکھتے ہیں : علما نے راویان احادیث کی ایک جماعت ،جیسے ابن الحصیعہ ، کو کافر قراردیدیا _ اس کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ قران کو مخلوق کہتا تھا _ اس سے بھی بڑھ کر محاسبی کے بارے میں کہا گیا ہے کہ :'' انہوں نے اپنے باپ کی میراث سے انکار کردیا تھا اور کہا تھا: دو متفرق مذاہب کے ماننے والے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوتے ، مجھے والد کی میراث نہیں چاہئے _ میراث سے انکار کی وجہ یہ تھی کہ ان کے والد واقفی تھے یعنی قرآن کے مخلوق ہونے یا مخلوق نہ ہونے کے سلسلے میں متردد تھے _(۲)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۰_

۲_ اضواء علی سنة المحمدیہ طبع اول ص ۳۱۶_

۳۰

جیسا کہ شدید مذہبی تعصب اور عقیدوں کا اختلاف اس بات کا سبب ہوا کہ وہ لوگوں کی سچائی اور امانت داری کو نظر انداز کردیں اور ان کی احادیث کو مسترد کردیں _ اسی طرح مذہب و عقیدے کے اتحاد کی وجہ سے لوگ اپنے ہم مسلک افراد کے جرائم اور برائیوں سے چشم پوشی کرنے اور ان کی تعدیل و توثیق کا باعث ہوا مثلا عجلی ، عمر و بن سعد کے بارے میں کہتا ہے : وہ موثق تابعین میں سے تھے اور لوگ ان سے روایت کرتے تھے _ جبکہ عمرو بن سعد حسین بن علی یعنی جوانان جنت کے سردار رسول خدا کے پارہ دل کا قاتل تھا''_ (۱)

اسی طرح بسر بن ارطاة ایسے _ کہ جس نے معاویہ کے حکم سے ہزاروں بے گناہ شیعوں کو قتل کیا تھا اور جانشین رسول خدا حضرت علی بن ابی طالب کو کھلم کھلا برا بھلا کہتا تھا _ نجس انسان کو اس ننگ وعارکے باوجود مجتہد اور قابل درگزر قراردیتے ہی _(۲)

عتبہ بن سعید کے بارے میں یحیی بن معین کہتا ہے وہ ثقہ ہیں ،نسائی ، ابوداؤد اور دارقطنی نے بھی اسے ثقہ جانا ہے جبکہ عتبہ حجاج بن یوسف جیسے ظالم شخص کا مددگار تھا _ بخاری نے اپنی صحیح میں مروان بن حکم سے روایات نقل کی ہیں اور اس پر اعتماد کیا ہے _ حالانکہ جنگ جمل کے شعلے بھڑ کانے والوں میں سے ایک مروان بھی تھا اور حضرت علی(ع) سے جنگ کرنے کیلئے طلحہ کو برا نگیختہ کیا تھا _ اور پھر اثنائے جنگ میں انھیں قتل کرد یا تھا _(۳)

____________________

۱_ اضواء علی سنة ص ۳۱۹

۲_ اضواء علی سنة ص ۳۲۱

۳_ اضواء علی سنة ص ۳۱۷

۳۱

یہ باتیں مثال کے طور پر لکھی گئی ہیں تا کہ قارئین مصنفّین کے طرز فکر ، فیصلہ کے طریقے اور عقیدہ کے اظہار سے آگاہ ہو جائیں اور یہ جان لیا کہ محبت و بغض اور تعصب نے انھیں کس منزل تک پہنچادیا ہے _

اضواء کے مولف لکتھے ہیں کہع ذرا ان علما کے فیصلہ کو ملا حظہ فرمائیں اور غور کریں کہ اس نے اس شخص کی توثیق کردی جو علی(ع) کی شہادت پر راضی ، طلحہ کا قاتل اور حسین بن علی (ع) کی شہادت کاذمہ دارتھا _ لیکن اس کے بر خلاف بخاری اور مسلم جیسے لوگوں نے امت کے علماء و حافظوں جیسے حماد بن مسلمہ اور مکحول ایسے عابد وزاہد کورد کردیا ہے _(۱)

مختصر یہ کہ جو شخص اہل بیت اور حضرت علی(ع) کے فضائل میں یا شیعوں کے عقیدہ کے مطابق کوئی حدیث بیان کرتا تھا تو متعصب لوگ اس کی حدیث کی صحت کو مخدوش بنادتیے تھے اور سر کاری طور پر اس کی حدیثوں کے مردود ہونے کا اعلان کردیا جاتا تھا اور اگر کسی شخص کا شیعہ ہونا ثابت ہو جاتا تھا تو اس کے لئے بغض دعناد اور اس کی حدیث کو ٹھکرانے کیلئے اتنا ہی کافی ہوتا تھا _ اگر آپ جریر کے کلام میں غور کریں تو عامة المسلمین کے تعصب کا اندازہ ہوجائے گا ، جریر کہتے ہیں : میں نے جابر جعفی سے ملاقات کی لیکن ان سے حدیثیں نہیں لی ہیں کیونکہ وہ رجعت کا عقیدہ رکھتے تھے _(۲)

بے جا تعصّب

غرض مندی اور بے جا تعصب تحقیق کے منافی ہے _ جو شخص حقائق کی تحقیق کرنا

____________________

۱_ اضواء ص ۳۱۹_

۲_ صحیح مسلم ج ۱ ص ۱۰۱_

۳۲

چاہتا ہے اسے تحقیق سے پہلے خود کو بغض و عناد اور بے جا تعصب سے آزاد کرلینا چاہئے ، اور اس کے بعد غیر جانبدار ہو کر مطالعہ کرنا چاہئے _ اگر تحقیق کے دوران کوئی چیز حدیث کے ذریعہ ثابت ہوتی ہے تو اس حدیث کے راویوں کی وثاقت سے بحث کرے ، اگر ثقہ ہیں تو ان کی روایتوں پر اعتماد کرے ، خواہ سنّی ہوں یا شیعہ ، یہ بات طریقہ تحقیق کے خلاف ہے کہ ثقہ راویوں کی احادیث کو شیعہ ہونے کے الزام میں رد کردیا جائے _ عامة المسلمین سے منصف مزاج حضرات اس بات کی طرف متوجہ رہے ہیں _

عسقلانی لکھتے ہیں : جن مقامات پر تضعیف کرنے والے قول پر توقف کرنا چاہئے ، ان میں سے ایک یہ ہے کہ تضعیف کرنے والے اور جس کی تضعیف کی گئی ہے ان کے درمیان عقیدہ کا اختلاف اور عدالت و دشمنی ہو مثلاً ابو اسحاق جوزجانی ، ناصبی تھا اور کوفے والے شیعہ مشہور تھے _ اس لئے اس نے ان کی تضعیف میں توقف نہیں کیا اور سخت الفاظ میں انھیں ضعیف قراردیتا تھا _ یہاں تک کہ اعمش ، ابو نعیم اور عبیداللہ ایسے احادیث کے ارکان کو ضعیف قراردیدیا ہے _ قشیری کہتے ہیں :'' لوگوں کی اغراض و خواہشیں آگ کے گڑھے ہیں _ اگر ایسے موارد میں راوی کی توثیق وارد نہ ہوتی ہو تو تضعیف مقدم ہے '' _(۱)

ابان بن تغلب کے حالات لکھنے کے بعد محمد بن احمد بن عثمان ذہبی لکھتے ہیں اگر ہم سے یہ پوچھا جائے کہ بدعتی ہونے کے باوجود تم ابان کی توثیق کیوں کرتے ہو تو ہم جواب دیں گے کہ بدعت کی دو قسمیں ہیں ، ایک چھوٹی بدعت ہے جیسے تشیع میں غلو ،

____________________

۱_ لسان المیزان ج ۱ ص ۱۶_

۳۳

یا تشیع بغیر انحراف _ البتہ تابعین اور تبع تابعین میں ایسی بدعت رہی ہے اس کے باوجود ان کی سچائی ، دیانت داری اور پرہیزگاری باقی رہی اگر ایسے افراد کی احادیث رد کرنا ہی مسلم ہے تو نبی (ص) کی بے شمار حدیثیں رد ہوجائیں گی اوراس بات میں قباحت ہے وہ کسی پر مخفی نہیں ہے _ دوسری قسم بدعت کبری ہے یعنی مکمل رافضی _ رافضیت میں غلو اورابوبکر و عمر کی بدگوئی _ البتہ ایسے راویوں کی حدیثوں کو رد کردینا چاہئے اور ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے _ (۱)

مختصر یہ کہ ان تضعیفات پر اعتماد نہیں کرنا چاہئے بلکہ بھر پور کوشش اور چھان بین سے راوی کی صلاحیت اور عدم صلاحیت کا سراغ لگانا چاہئے _

بخاری و مسلم اور احادیث مہدی (عج)

چوتھے یہ کہ اگر کوئی حدیث بخاری و مسلم میں نہ ہو تو یہ اس کے ضعیف ہونے کی دلیل نہیں ہے کیونکہ بخاری و مسلم کے مؤلفوں کا مقصد تمام حدیثوں کو جمع کرنا نہیں تھا _

دار قطنی لکھتے ہیں ایسی بہت سی حدیثیں موجود ہیں جنھیں بخاری و مسلم نے اپنی صحاح میں نقل نہیں کیا ہے جبکہ ان کی سند بالکل ایسی ہے جیسی ان احادیث کی ہے جو انھوں نے نقل کی ہیں _

بیہقی لکھتے ہیں : مسلم و بخاری کا ارادہ تمام حدیثوں کو جمع کرنے کا نہیں تھا _ اس بات کی دلیل وہ احادیث ہیں جو کہ بخاری میں موجود ہیں لیکن مسلم نہیں اور مسلم میں ہیں بخاری میں نہیں ہیں _(۲)

____________________

۱_ میزان الاعتدال ج ۱ ص ۵_

۲_ صحیح مسلم بشرح امام نووی ج ۱ ص ۲۴_

۳۴

اور جیسا کہ مسلم نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب میں صرف صحیح حدیثوں کو نقل کیا ہے تو ابوداؤد بھی اسی کے مدعی ہیں _

ابوبکر بن داسہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو داؤد کو کہتے ہوئے سنا کہ : میں نے اپنی کتاب میں چارہزار آٹھ سو حدیثیں لکھی ہیں جو کہ سب صحیح یا صحیح کے مشابہ ہیں _

ابوالصباح کہتے ہیں کہ ابوداؤد سے نقل ہے کہ انہوں نے کہا : میں نے صرف صحیح یا صحیح سے مشابہ احادیث نقل کی ہیں اور اگر کوئی حدیث ضعیف تھی تو میں نے اس کے ضعف کا بھی ذکر کردیا ہے پس جس حدیث کے بارے میں ، میں نے خاموشی اختیار کی ہے اسے معتبر سمجھنا چاہئے _

خطابی کہتے ہیں : سنن ابی داؤد ایک گراں بہا کتا ب ہے ، اس جیسی کوئی کتاب نہیں لکھی گئی جو کہ مسلمانوں میں مقبول ہو جسے عراق ، مصر ، مغرب اور دوسرے علاقے کے علما میں مقبولیت حاصل ہوئی ہو _(۱) مختصر یہ کہ بخاری اور مسلم اور دوسری کتابوں کی احادیث اس لحاظ سے یکساں ہیں کہ ان کی صحت و ضعف سے باخبر ہونے کیلئے ان کے راویوں کی تحقیق کی جائے _

پانچویں یہ کہ بخاری و مسلم ، جن کی احادیث کی صحیح ہونے کا آپ کو اعتراف ہے ، میں بھی مہدی سے متعلق احادیث موجود ہیں اگر چہ ان میں لفظ مہدی نہیں آیا ہے ، منجملہ ان کے یہ حدیث ہے:

پیغمبر :(ص) نے ارشاد فرمایا: اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب عیسی بن مریم نازل ہوں گے

____________________

۱_ مقدمہ سنن ابی داؤد

۳۵

جبکہ تمہارا امام خود تم ہی سے ہوگا _

ضروری وضاحت

ابن خلدون کے بارے میں یہ بات کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ مہدی (ع) سے متعلق احادیث کو کلی طور پر قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ انھیں قابل رد سمجھتے ہیں کیونکہ جیسا کہ پہلے بھی آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ اس عالم نے یہ لکھا ہے کہ مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہور تھی اور ہے کہ آخری زمانہ میں پیغمبر (ص) کے اہل بیت میں سے ایک شخص اٹھے گا اور عدل و انصاف قائم کرے گا _ اجمالی طور پر یہاں انہوں نے اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ مہدی (ع) موعود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا _ دوسرے یہ کہ راویوں کے بارے میں رد وقدح اور جرج و تعدیل کے بعد لکھتے ہیں :

''مہدی موعود کے بارے میں جو حدیثیں وارد ہوئی ہیں اور کتابوں میں درج ہیں ان میں سے بعض کے علاوہ سب مخدوش ہیں '' _ یہاں بھی ابن خلدون نے کلی طور پر مہدی سے متعلق احادیث کو قابل رد ہیں جانا ہے بلکہ ان میں سے بعض کی صحت کا اعتراف کیا ہے _

تیسرے یہ کہ مہدی موعود سے متعلق احادیث انھیں روایتوں میں منحصر نہیں ہیں جن پر ابن خلدون نے اپنے مقدمہ میں جرح و تعدیل کی ہے بلکہ شیعہ اور اہل سنت کی کتابوں میں اور بھی بہت سی متواتر و یقین آور احادیث موجود ہیں کہ جن کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر وہ ابن خلدون کی دست رس میں ہوتیں تو وہ مہدی موعود کے عقیدہ جو کہ مذہبی بنیادوں پر استوار ہے ، جس کا سرچشمہ وحی ہے ، کے بارے میں کبھی شک نہ کرتے مذکورہ مطالب سے اس غلط فہمی کا ازالہ ہوجاتا ہے کہ ابن خلدون نے مہدی سے متعلق احادیث

۳۶

کو قطعی قبول نہیں کیا ہے _ ایسا نظریہ رکھنے والے لوگوں کے بارے میں یہ کہا جائے کہ''دیگ سے زیادہ چمچا گرم ہے _

ابن خلدون اس بحث کے خاتمہ پر لکھتے ہیں :'' ہم نے پہلے ہی یہ بات ثابت کردی ہے کہ جو شخص انقلاب لانا چاہتا ہے اور لوگوں کو اپنا ہمنوا بنانا چاہتا ہے اور طاقت جمع کرکے حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے مقصد میں اسی وقت کامیاب ہوسکتا ہے جب اس کے قوم قبیلے والوں کی اکثریت ہو اور خلوص کے ساتھ اس کی حمایت کرتے ہوں اور مقصد کے حصول کے سلسلے میں اس کے مددگار ہوں دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ خاندانی تعصب کی بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں _ اس کے علاوہ کامیابی ممکن نہیں ہے _ مہدی موعود کے عقیدہ کے سلسلے میں بھی یہ مشکل پیدا ہوتی ہے کیونکہ فاطمیین بلکہ طائفہ قریش ہی پراگندہ اور منتشر ہوگیا ہے اور اب ان میں خاندانی تعصب باقی نہیں رہا ہے بلکہ اس کی جگہ دوسرے تعصبات نے لے لی ہے ، ہاں حجاز و ینبع میں حسن (ع) و حسین(ع) کی اولاد میں سے کچھ لوگ آباد ہیں جن کے پاس طاقت ور سوخ ہے البتہ وہ بھی صحرا نشین ہیں جو کہ مختلف مقامات میں بکھرے ہوئے ہیں، پھر ان کے درمیان اتحاد و اتفاق نہیں ہے _ لیکن اگر ہم مہدی موعود کے عقیدہ کو صحیح مان لیں تو ہمیں یہ کہنا چاہئے کہ مہدی انھیں میں سے ظاہر ہوں گے اور ان لوگوں میں بھی اتفاق و اتحاد پیدا ہوجائے گا اور وہ قومی تعصب کی بناپر ان کی حمایت کریں گے اور مقصد کے حصول کی وجہ سے ان کی مدد کریں گے ، اس لحاظ سے تو ہم مہدی (ع) کے ظہور اور ان کے انقلاب و تحریک کا تصور کر سکتے ہیں اس کے علاوہ ممکن نہیں ہے _(۱)

____________________

۱_ مقدمہ ابن خلدون ص ۳۲۷_

۳۷

جواب

اس بات کے جواب میں کہنا چاہئے کہ اس میںکوئی شک نہیں ہے کہ اگر کوئی شخص کوئی انقلاب برپا کرنا چاہتاہے _ طاقت جمع کرنا چاہتا ہے ، حکومت تشکیل دینا چاہتا ہے تووہ اسی صورت میں کامیاب ہوسکتا ہے ایک گروہ سنجیدگی سے اس کی مدد وحمایت کرے ، مہدی موعود اور ان کے عالمی انقلاب کیلئے بھی یہی شرط ہے _ لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ان کی حمایت کرنے والے صرف علوی سادات اور قریش ہوں گے _ کیونکہ اگر ان کی حکومت قوم و قبیلے کی حدتک محدود ہوتی تو ان کے طرف دار قوم و قبیلے کے لحاظ سے ان کی مدد کرتے جیسا کہ طوائف الملوکی کے زمانہ میں اسی نہج سے حکومتیں قائم ہوتی تھیں ، بلکہ یہ عام بات ہے کہ جو حکومت محدود اور خاص عنوان کے تحت قائم ہوتی ہے تو اس کے حمایت کرنے والے بھی محدود ہوتے ہیں خواہ وہ حکومت قومی ملکی ، اقلیمی یا مکتبی و مقصدی ناقص ہے _

لیکن اگر کوئی کسی خاص مقصد اور منصوبہ کے تحت حکومت قائم کرنا چاہتا ہے تو اس کے پاس اس منصوبہ اور مقصد کے ہمنواؤں کا ہونا ضروری ہے _ اس کی کا میابی اسی صورت میں ممکن ہے کہ ایک گروہ اس منصوبہ کو صحیح طریقہ سے جانتا ہو اور اسے عملی جامہ پہنا نے کیلئے سنجیدگی سے جدو جہد کرتا ہو اور مقصد کے حصول کے سلسے میں اپنے قائد کی حمایت کرتا ہو اور قربانی دینے سے دریغ نہ کرتا ہو _ مہدی موعود کی عالمی حکومت بھی ایسی ہی ہے _ ان کا منصوبہ بھی عالمی ہے وہ بشریت کو جو کہ تیزی کے ساتھ مادیت کی طرف بڑ ھ رہی ہے اور الہی قوانین سے رو گرداں ہے _ آپ اسے

۳۸

الہی احکام اور منصوبہ کی طرف متوجہ کریں گے اور اس دقیق منصوبہ کونا فذ کر کے اس کی مشکلیں حل کریں گے _ بشریت کے ذہن سے موہوم سرحدوں کو ، جو کہ اختلاف و کشمکش کا سر چشمہ ہیں باہر نکال کراسے توحید کے قومی پرچم کے نیچے جمع کریں گے _ آپ دین اسلام اور خدا پرستی کو عالمی بنائیں گے _ اسلام کے حقیقی قوانین نافذ کر کے ظلم و بیداد گری کا قلع قمع کریں گے _ اور پوری کائنات میں عدل و انصاف اور صلح و صفا پھیلائیں گے _

ایسی عظیم تحریک اور عالمی انقلاب کی کامیابی کیلئے یہ نہیں کہا جا سکتا ہے کہ حجاز اور مدینہ کے اطراف میں بکھر ے ہوئے علوی سادات کافی ہیں _ بلکہ اس کیلئے تو عالمی تیاری ضروری ہے _ مہدی موعود کی کامیابی اسی وقت ممکن ہے جب غیبی تائید کے علاوہ ایک طاقت ور گروہ وجود میں آئے جو کہ خداکے قوانین اور منصوبہ کودرک کر ے _ اور دل و جان سے اس کے نفاذکی کوشش کرے _ ایسے عالمی انقلاب کے اسباب فراہم کرے اور انسانی مقاصدکی تکمیل میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے _اس صورت میں اگر انہیں معصوم اور قوی و جری قائد مل جائے ، کہ جس کے ہا تھ میں الہی قوانین و احکام ہوں اور تائید غیبی اس کے شامل حال ہو ، تو وہ لوگ اس کی حمایت کریں گے اور عدل و انصاف کی حکومت کی تشکیل میں فدا کاری کا ثبوت دیں گے _

عقیدہ مہدی مسلم تھا

مہدی موعود سے متعلق رسول(ع) خدا کی بہت سی حدیثیں شیعہ اور اہل سنت نے اپنی اپنی کتابوں میں نقل کی ہیں _ ان میں غور کرنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مہدی اور قائم کا موضوع پیغمبر اسلام کے زمانہ میں مسلم تھا چنانچہ لوگ ایسے شخص کے

۳۹

منتظر تھے جو حق ، خدا پرستی کی ترویج ، اصلاح کائنات اور عدل کیلئے قیام کرے یہ عقیدہ لوگوں میں اتنا شہرت یافتہ تھا کہ وہ اس کی اصل کو مسلّم سمجھتے تھے اور اس کی فروع سے بحث کرتے تھے _ کبھی وہ یہ سوچتے تھے کہ مہدی موعود کس کی نسل سے ہوں گے ؟ کبھی آپ (ع) کی کنیت و نام کے بارے میں استفسار کرتے تھے ؟ کبھی یہ سوال کرتے تھے آپ (ع) کا نامہدی کیوں ہے ؟ کبھی آپ (ع) کے انقلاب اور ظہور کے زمانے اور اس کی علامتوں کے بارے میں سوال کرتے تھے _ کبھی غیبت کی وجہ اور غیبت کے زمانہ میں اپنے فرائض دریافت کرتے تھے کبھی پوچھتے تھے ، کیا مہدی قائم ایک ہی شخص ہے یا د و اشخاص ہیں؟ پیغمبر اسلام بھی گاہ بگاہ آپ (ع) کے متعلق خبردیا کرتے تھے ، فرماتے تھے: مہدی میری نسل اور فاطمہ (ع) کے فرزند حسین(ع) کی اولاد سے ہوگا _ کبھی آپ کے نام اور کنیت سے آگاہ کرتے تھے اور کبھی آپ کی علامتیں اور خصوصیات بیان فرماتے تھے_

صحابہ اور تابعین کی بحث و گفتگو

رسول اکرم کی وفات کے بعد بھی صحابہ اور تابعین کے درمیان مہدی موعود کا عقیدہ مسلّم تھا اور اس سلسلے میں وہ بحث و گفتگو کیا کرتے تھے_ اس گروہ کے چند افراد یہ ہیں:

ابوہریرہ کہتے ہیں : رکن و مقام کے درمیان مہدی کی بیعت ہوگی _(۱)

ابن عباس معاویہ سے کہا کرتے تھے: آخری زمانہ میں ہمارے خاندان میں سے ایک شخص چالیس سال خلیفہ رہے گا _(۲)

____________________

۱_ الملاحم و الفتن مولفہ ابن طاؤس ص ۴۶_

۲_ الملاحم و الفتن ص ۶۳_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

بات ناگوار ہی کیوں نہ ہو _ مہدی ایک زمانہ تک غیبت میں رہیں گے _ غیبت کے زمانہ میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن کچھ لوگ ثابت قدم رہیں گے اور اس راہ میں مصیبتیں اٹھائیں گے سرزنش کے طور پر ان سے کہا جائے گا ، اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہے تو تمہارا امام موعود کب انقلاب برپا کرے گا؟ لیکن جان لو کہ جوان کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کے طعن و تشنیع کو برداشت کرے گا اس کی مثال اس شخص کی ہے جس نے رسول خدا کے ہمراہ تلوار سے جنگ کی(۱) اس سلسلے میں آپ کی تیرہ حدیثیں اورہیں _

امام زین العابدین (ع) نے مہدی (عج) کی خبردی

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا: لوگوں پر ہمارے قائم کی ولادت آشکار نہیں ہوگی یہاں تک وہ یہ کہنے لگیں گے کہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں _ ان کے مخفی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی تحریک کا آغاز کریں اس وقت کسی کی بیعت میں نہ ہوں(۲) دس حدیثیں اورہیں _

حضرت امام باقر (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام محمد باقر (ع) نے ابان بن تغلب سے فرمایا: خدا کی قسم امامت وہ عہدہ ہے جو رسول خدا سے ہمیں ملا ہے _ پیغمبر کے بارہ امام ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۳۳ ، ص ۳۹۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۶۱

کے اولاد سے ہوں گے _ مہدی بھی ہم ہی میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں دین کی حفاظت کرے گا(۱) ۶۲ حدیثیں اور ہیں _

امام صادق (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام صادق (ع) نے فرمایا : جو شخص وجود مہدی کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہ تمام انبیاء کا معتقد ہے لیکن رسول (ص) خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے _ عرض کیا گیا : فرزند رسول (ع) مہدی کس کی اولاد سے ہوں گے ؟ فرمایا : ساتویں امام موسی بن جعفر کی پانچویں پشت میں ہوں گے ، لیکن غائب ہوجائیں گے اور تمہارے لئے ان کا نام لینا جائز نہیں ہے _۲_ ۱۲۳ حدیثیں اور ہیں _

امام موسی کاظم (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام موسی کاظم (ع) سے یونس بن عبدالرحمن نے سوال کیا : کیا آپ مہدی بر حق ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: میں قائم برحق ہوں لیکن جو قائم زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کرے گا اور اس عدل و انصاف سے بھرے گا وہ میری پانچویں پشت میں ہے _ وہ دشمنوں کے خوف سے مدت دراز تک غیبت میں رہے گا _ زمانہ غیبت میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن ایک جماعت اپنے عقیدہ پر ثابت و قائم رہے _ اس کے بعد فرمایا : خوش نصیب

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص۵۵۹_

۲_ بحارالانوار ج۵۱ ص ۱۴۳ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۰۴_

۶۲

ہیں وہ شیعہ جو امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں ہماری ولایت سے وابستہ اور ہمار ی محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری میں ثابت قدم رہیں گے وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں وہ ہماری امامت سے راضی اور ہم ا ن کے شیعہ ہونے سے راضی ہیں یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، خدا کی قسم وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(۱) پانچ حدیثیں اورہیں _

امام رضا(ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت اما م رضا (ع) سے ریان بن صلت نے دریافت کیا تھا : کیا آپ (ع) ہی صاحب الامر ہیں ؟ فرمایا : میں صاحب الامر ہوں لیکن میں وہ صاحب الامر نہیں ہوں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _ میری اس ناتوانی کے باوجود جسے تم مشاہدہ کررہے ہو کیسے ممکن ہے کہ میں وہی صاحب الامر ہوں ؟ قائم وہ ہے جو بڑھاپے کی منزل میں ہے لیکن جوان کی صورت میں ظاہر ہوگا وہ اتنا طاقتور اور قوی ہے کہ اگر روئے زمین کے بڑے سے بڑے درخت کو ہاتھ لگا دے تو اکھڑجائے _ اور اگر پہاڑوں کے درمیان نعرہ بلند کرے تو بڑے بڑے پتھر چورچور ہوکر بکھر جائیں ، اس کے پاس موسی کا عصا اورجناب سلیمان کی انگوٹھی ہے ، وہ میری چوتھی پشت میں ہے ،جب تک خدا چاہے گا اسے غیبت میں رکھے گا _ اس کے بعد ظہور کا حکم دے گا اور اس کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی(۲) ۱۸ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۵۱ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۲۲ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۹_

۶۳

امام محمد تقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام محمد تقی (ع) نے عبدالعظیم حسنی سے فرمایا : قائم ہی مہدی موعود ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا انتظار اور ظہور کے زمانہ میں ان کی اطاعت کرنی چاہئے اور وہ میری تیسری پشت میں ہے _ قسم اس خدا کی جس نے محمد (ص) کو رسالت او رہمیں امامت سے سرفراز کیا ہے _ اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ جس میں مہدی ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گاجیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہوگی _ خداوند عالم ایک رات میں ان کی کامیابی کے اسباب فراہم کریگا جیسا کہ اپنے کلیم موسی کی کامیابی کے اسباب ایک ہی رات میں فراہم کئے تھے_ موسی (ع) بیوی کے لئے آگ لینے گئے تھے لیکن منصب رسالت لیکر پلٹے _ اس کے بعد امام نے فرمایا: فرج کا انتظار ہمارے شیعوں کا بہترین عمل ہے(۱) پانچ حدیثیں اور ہیں _

امام علی نقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام علی نقی نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا حسن (ع) امام ہے اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ روئے زمین پر عدل و انصاف پھیلائیں گے(۲) پانچ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۶ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰ اثبات الہداة ج۶ ص ۴۲۷_

۶۴

اما م حسن عسکری (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام حسن عسکری نے موسی بن جعفر بغدادی سے فرمایا: گویا میںدیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کررہے ہو لیکن یادرہے جو شخص پیغمبر کے بعد تمام ائمہ پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے اور صرف میرے بیٹے کی امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تمام انبیاء پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے لیکن محمد (ص) کی رسالت کا منکرہے کیونکہ ہم سے آخری امام کی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے اولی کی _ پس جو شخص ہمارے آخری امام کا انکار کریگا گویا اس نے پہلے کا بھی انکار کردیا _ جان لو میرے بیٹے کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگ شک میں پڑجائیں گے مگر یہ کہ خدا ان کے ایمان کو محفوظ رکھے(۱) ۲۱ حدیثیں اورہیں _

کیا احادیث مہدی صحیح ہیں؟

انجینئر : ہم ان حدیثوں کو اسی وقت قبول کرسکتے ہیں جب وہ صحیح اور معتبر ہوں کیا مہدی کے متعلق یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں؟

ہوشیار: میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ مہدی سے متعلق تمام حدیثیں صحیح اور ان کے تمام راوی ثقہ و عادل ہیں _ لیکن اچھی خاصی تعداد صحیح احادیث کی ہے _ البتہ تمام احادیث کی طرح ان میں بھی بعض صحیح ، کچھ حسن ، موثق اور چند ضعیف ہیں _ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق اور ان کے راویوں کے حالات کی چھان بین کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۶۵

ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جو بھی غیر جانب دارانہ اور انصاف کیساتھ ان سے رجوع کرے گا اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجائے گا کہ ان سب کی دلالت اس بات پر ہے کہ وجود مہدی اسلام کے ان مسلّم عقائد و موضوعات میں سے ہے کہ جن کا بیج خودسرور کائنات نے بویا اور ائمہ نے اس کی آبیاری کی ہے _ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وجود مہدی کے بارے میں اسلام میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور موضوع کے لئے وارد نہیں ہوئی ہوں گی _

واضح رہے کہ ابتدائے بعثت سے حجة الوداع تک پیغمبر اکرم (ص) نے سیکڑوں بارمہدی کے بارے میں گفتگو کی ہے _ علی بن ابی طالب نے ان کی خبر دی ، فاطمہ زہراء نے خبر دی ہے اور رسول کے اہل بیت اور نبوت کے رازداروں نے امام حسن (ع) ، اما م حسین (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق (ع) ، امام موسی کاظم (ع) ، امام رضا (ع) ، امام محمد تقی (ع) ، امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے ان کی خبر دی ہے _ عہد رسول (ص) کے لوگ ان کے انتظار میں دن گنتے تھے یہاں تک کہ کبھی تو بعض لوگ کسی کو اس کا حقیقی سمجھ بیٹھے تھے_ ان سے متعلق شیعہ اور اہل سنت نے احادیث نقل کی ہیں ۷اشعری اور معتزلیہ نے قلم بند کی ہیں _ ان کے راویوں میں عرب ، عجم ، مکی ،مدنی ، کوفی ، بغدادی ، بصری، قمی، کرخی ، خراسانی نیشاپوری و غیرہ شامل ہیں _ کیا ان ہزاروں سے زائد احادیث کے باوجود کوئی منصف مزاج وجود مہدی کے بارے میں شک کرے گا اور یہ کہے گا کہ یہ احادیث متعصب شیعوں نے جعل کرکے پیغمبر کی طرف منسوب کردی ہیں؟

رات کافی گز رچکی تھی اورمذاکرات کا وقت ختم ہوچکا تھا لہذا مزید گفتگو کو آئندہ ہفتہ کی شب میں ہونے والے جلسہ پر موقوف کردیا _

۶۶

تصوّر مہدی"

احباب یکے بعد دیگرے فہیمی صاحب کے مکان پر جمع ہوئے جب سابق مختصرضیافت کے بعد ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _ انجینئر صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا :

انجینئر: مجھے یاد آتا ہے کہ کسی نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرہ میں مہدویت اور غیبی مصلح کا تصوّر یہود اور قدیم ایرانیوں سے سرایت کرآیا ہے _ ایرانیوں کا خیال تھا کہ زردتشت کی نسل سے '' سالوشیانت'' نام کا ایک شخص ظاہر ہوگا جو اہریمن کو قتل کرکے پوری دنیا کو برائیوں سے پاک کرے گا _ لیکن چونکہ یہودیوں کا ملک دوسروں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی آزادی سلب ہوگئی تھی ، زنجیروں میں جکڑگئے تھے ، لہذا ان کے علماء میں سے ایک نے یہ خوش خبری دی کہ مستقبل میں دنیا میں ایک بادشاہ ہوگا وہی زردشتیوں کو آزادی دلائے گا _

چونکہ مہدویت کی اصل یہود و زردشتیوں میں ملتی ہے _ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ان سے مسلمانوں میں آیا ہے ورنہ اس کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے _

ہوشیار : یہ بات صحیح ہے کہ دوسری اقوام و ملل میں بھی یہ عقیدہ تھا اور ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عقیدہ خرافات میں سے ہے

۶۷

کیا یہ ضروری ہے کہ اسلام کے تمام احکام و عقائد اسی وقت صحیح ہوسکتے ہیں جب وہ گزشتہ احکام وعقائد کے خلاف ہوں ؟ جو شخص اسلام کے موضوعات میں سے کسی موضوع کی تحقیق کرناچاہتا ہے تو اسے اس موضوع کے اصلی مدارک و ماخذ سے رجوع کرنا چاہئے تا کہ اس موضوع کا سقم و صحت واضح ہوجائے _ اصلی مدارک کی تحقیق اورگزشتہ لوگوں کے احکام و عقائدکی چھان بین کے بغیر یہ شور بر پا نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے اس باطل عقیدہ کی اصلی کا سراغ لگالیا ہے _

کیا یہ کہا جا سکتا ہے چونکہ زمانہ قدیم کے ایرانی یزدان کا عقیدہ رکھتے تھے اور حقیقت کو دوست رکھتے تھے _ لہذا خدا پرستی بھی ایک افسانہ ہے اور حقیقت و صداقت کبھی مستحسن نہیں ہے ؟

لہذا صرف یہ کہکر کہ دوسرے مذاہب و ملل بھی مصلح غیبی اور نجات دینے والے کے منتظر تھے _ مہدویت کے عقیدہ کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اتنی بات سے اس کی صحت ثابت کی جا سکتی ہے _

رجحان مہدویت کی پیدائشے کے اسباب

فہیمی : ایک صاحب قلم نے عقیدہ مہدویت کے وجود میں آنے کی بہترین توجیہ کی ہے ، اگر اجازت ہو تو میں اس کا لب لباب بیان کروں؟

حاضرین : بسم اللہ :

فہیمی : عقیدہ مہدویت شیعوں نے دوسرے مذاہب سے لیا اور اس میں کچھ چیزوں کااضافہ کردیا ہے چنانچہ آج مخصوص شکل میں آپ کے سامنے ہے _ اس عقیدہ کی ترقی

۶۸

اور وسعت کے دو اسباب ہیں:

الف: غیبی نجات دینے والے کا ظہور اوراس کا پیدائشے کا عقیدہ یہودیوں میں مشہور تھا اور ہے _ ان کا خیال تھا کہ جناب الیاس آسمان پرچلے گئے ہیں اور آخری زمانہ میں بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے زمین پر لوٹ آئیں گے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ملک صیدق'' اور فنحاس بن العاذار'' آج تک زندہ ہے _

صدر اسلام میں ''مادی فوائد کے حصول'' اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا بنانے کی غرض سے یہودیوں کی ایک جماعت نے اسلام کا لباس پہن لیاتھا اور اپنے مخصوص حیلہ و فریب سے مسلمانوں کے درمیان حیثیت پیدا کرلی تھی اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، اپنے عقائد کی اشاعت اور استحصال کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ، ان ہی میں سے ایک عبداللہ ابن سبا ہے جس کو ان کی نمایان فرد تصور کرنا چاہئے _

ب: رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) کے اہل بیت (ع) وقر ابتدار منجملہ علی بن ابیطالب خود کو سب سے زیادہ خلافت کا حق دار سمجھتے تھے _ چند اصحاب بھی ان کے ہم خیال تھے _ لیکن ان کی توقع کے برخلاف حکومت خاندان رسالت سے چھن گئی ، جس سے انھیں بہت رنج وصدمہ پہنچا _ یہاں تک کہ جب حضرت علی (ع) کے ہاتھوں میں زمام خلافت آئی تو وہ مسرور ہوئے اوریہ سمجھنے لگے کہ اب خلافت اس خاندان سے باہر نہ جائے گی _ لیکن علی (ع) داخلی جنگوں کی وجہ سے اسے کوئی ترقی نہ دے سکے نتیجہ میں ابن ملجم نے شہید کردیا پھر ان کے فرزند حسن (ع) بھی کامیاب نہ ہوسکے ، آخر کار خلافت بنی امیہ کے سپردکردی _ رسول (ص) خدا کے دو فرزند حسن و حسین خانہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے اور اسلام کی حکومت و اقتدا ر دوسروں کے ہاتھ میں تھا رسول(ص) کے اہل بیت اور ان کے ہمنوا

۶۹

فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار تے اور مال غنیمت ، مسلمانوں کا بیت المال بنی امیہ اور بنی عباس کی ہوس رانی پر خرچ ہوتا تھا _ ان تمام چیزوں کی وجہ سے روز بروز اہل بیت کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا گیا اور گوشہ و کنار سے اعتراضات اٹھائے جانے لگے دوسری طرف عہد داروں نے دل جوئی اور مصالحت کی جگہ سختی سے کام لیا اور انھیں دار پر چڑھایا ، کسی کو جلا وطن کیا اور باقی قید خانوں میں ڈالدیا _

مختصر یہ کہ رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ کے اہل بیت اور ان کے طرفداروں کو بڑی مصیبتیں اٹھنا پریں ، فاطمہ زہرا کو باپ کی میراث سے محروم کردیا گیا _ علی (ع) کو خلافت سے دور رکھا گیا ، حسن بن علی (ع) کو زہر کے ذریعہ شہید کردیا گیا _ حسین بن علی (ع) کو اولاد و اصحاب سمیت کربلا میں شہید کردیا گیا اور ان کے ناموس کو قیدی بنالیا گیا ، مسلم بن عقیل اور ہانی کو امان کے بعد قتل کرڈالا ، ابوذر کو ربذہ میں جلا وطن کردیا گیا اور حجر بن عدی ، عمروبن حمق ، میثم تمار، سعید بن جبیر ،کمیل بن زیاد اور ایسے ہی سیکڑوں افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا _ یزید کے حکم سے مدینہ کو تاراج کیا گیا ایسے ہی اور بہت سے ننگین واقعات کے وجود میں آئے کہ جن سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں _ ایسے تلخ زمانہ کو بھی شیعیان اہل بیت نے استقامت کے ساتھ گزارا اور مہدی کے منتظر رہے _ کبھی غاصبوں سے حق لینے اور ان سے مبارزہ کیلئے علویوں میں سے کسی نے قیام کیا _ لیکن کامیابی نہ مل سکی اور قتل کردیا گیا _ ان ناگوار حوادث سے اہل بیت کے قلیل ہمنوا ہر طرف سے مایوس ہوگئے اور اپنی کامیابی کا انھیں کوئی راستہ نظر نہ آیا ، تو وہ ایک امید دلانے والا منصوبہ بنانے کے لئے تیار ہوئے _ ظاہر ہے کہ مذکورہ حالات و حوادث نے ایک غیبی نجات دینے والے اور مہدویت کے عقیدہ کو قبول کرنے کیلئے مکمل طور پر زمین ہموار کردی تھی _

۷۰

اس موقع سے نو مسلم یہودیوں اور ابن الوقت قسم کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے عقیدہ کی ترویج کی یعنی غیبی نجات دینے والے کے معتقد ہوگئے _ ہرجگہ سے مایوس شیعوں نے اسے اپنے درددل کی تسکین اور ظاہری شکست کی تلافی کے لئے مناسب سمجھا اور دل و جان سے قبول کرلیا لیکن اس میں کچھ رد وبدل کرکے کہنے لگے : وہ عالمی مصلح یقینا اہل بیت سے ہوگا _ رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف مائل ہوئے اور اس عقیدہ نے موجودہ صورت اختیا رکرلی _(۱)

توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے

ہوشیار: اہل بیت (ع) اور ان شیعوں سے متعلق آپ نے جو مشکلیں اور مصیبتیں بیان کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں لیکن تحلیل و توضیح کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب ہمیں مہدویت کے اصلی سرچشمہ کا علم نہ ہوتا _ لیکن جیسا کہ آپ کو یا دہے _ ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ خود پیغمبر اکرم(ص) نے اس عقیدہ کو مسلمانوں میں رواج دیا اور ایسے مصلح کی پیدائشے کی بشارت دی ہے چنانچہ اس سلسلے میں آپ (ص) کی احادیث کو شیعوں ہی نے نہیں ، بلکہ اہل سنّت نے بھی اپنی صحاح میںدرج کیا ہے _ اس مطلب کے اثبات کے لئے کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے _

اپنی تقریر کی ابتداء میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ عقیدہ یہودیوں کے درمیان مشہور تھا _ یہ بھی صحیح ہے لیکن آ پ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اس عقیدہ کو ابن سبا جیسے

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام ص ۴۸_۶۸

۷۱

یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان فروغ دیا ہے کیونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ عالمی مصلح کی پیدائشے کی بشارت دینے والے خود نبی اکرم (ص) ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ مسلمان ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہو _

عبداللہ بن سبا

اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن سبا تاریخ کے مسلّمات میں سے نہیں ہے _ بعض علماء نے اس کے وجود کو شیعوں کے دشمنوں کی ایجاد قراردیا ہے اور اگر واقعی ایسا کوئی شخص تھا تو ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے جن کو اسکی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ کوئی عقلمند اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک نو مسلم یہودی نے ایسی غیر معمولی صلاحیت و سیاست پیدا کرلی تھی کہ وہ اس گھٹن کے زمانہ میں بھی کہ جب کوئی فضائل اہل بیت کے سلسلے میں ایک بات بھی کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا اس وقت ابن سبا نے ایسے بنیادی اقدامات کئی اور مستقل تبلیغات اور وسائل کی فراہمی سے لوگوں کو اہل بیت کی طرف دعوت دی اور خلیفہ کے خلاف شورش کرنے اور ایسا ہنگامہ برپاکرنے پر آمادہ کیا کہ لوگ خلیفہ کو قتل کردیں اور خلیفہ کے کارندوں اور جاسوسوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو _ آپ کے کہنے کے مطابق ایک مسلم یہودی نے ان کے عقیدہ کی بنیادیں اکھاڑدیں اور کسی شخص میں ہمت دم زدن نہیں ہوئی ایسے کارناموں کے حامل انسان کا وجود صرف تصورات کی دنیا میں تو ممکن ہے _(۱)

____________________

۱_ محققین '' نقش وعاظ در اسلام '' مولفہ ڈاکٹر علی الوردی ترجمہ خلیلیان ص ۱۱۱_۱۳۷_ عبداللہ بن سبا مولفہ سید مرتضی عسکری اور '' علی و فرزندانش '' مولفہ ڈاکٹر طہ حسین ترجمہ خلیلی ص ۱۳۹ _۱۴۳ سے رجوع فرمائیں _

۷۲

مہدی تمام مذاہب میں

انجینئر مہدی موعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یا یہ عقیدہ تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے ؟

ہوشیار: مذکورہ عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں یہ عقیدہ موجود ہے _ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ تاریک و بحرانی زمانہ میں، جب ہرجگہ فساد و ظلم اور بے دینی پھیل جائے گی ، ایک دنیا کو نجات دلانے والا ظہور کرے گا اور بے پناہ غیبی طاقت کے ذریعہ دنیا کے آشفتہ حالات کی اصلاح کرے گا اور بے دینی و مادی رجحان کو ختم کرکے خداپرستی کو فروغ دے گا اور یہ بشارت ان تمام کتابوں میں موجود ہے جو کہ آسمانی کتاب کے عنوان سے باقی ہیں جیسے زردشتیوں کی مقدس کتاب '' زندوپازند'' ''جاماسنامہ'' یہودیوں کی مقدس کتاب توریت اور اس کے ملحقات میں عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل میں بھی اس کو تلاش کیا جا سکتا ہے نیز برہمنوں اور بودھ مذہب کی کتاب میں بھی کم و بیش اس کا تذکرہ ہے _

یہ عقیدہ سارے مذاہب و ملتوں میں موجود ہے اور وہ ایسے طاقتور غیبی موعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں _ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سے پہچانتے ہیں زردشتی سوشیانس _ دنیا کو نجات دلانے والا _ یہودی سرور میکائیلی _ عیسائی

۷۳

مسیح موعود اور مسلمان مہدی موعود کے نام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا _ زردشتی کہتے ہیں وہ ایرانی اور مذہب زردشت کا پیروکار ہوگا یہودی کہتے ہیں وہ بنی اسرائیل سے ہوگا اور موسی کا پیروہوگا ، عیسائی اپنے میں شمار کرتے ہیں اور مسلمان بنی ہاشم اور رسول (ص) کے اہل بیت میں شمار کرتے ہیں _ اسلام میں اس کی بھر پور طریقہ سے شناخت موجود ہے جبکہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل معرفت نہیں کرائی ہے _

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگرمذاہب میں بیان ہوئے ہیں وہ اسلام کے مہدی موعود یعنی امام حسن عسکری کے فرزند پر بھی منطبق ہوتے ہیں ، انھیں ایرانی ناد بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ کے جد امام زین العابدین کی والدہ شہر بانو ساسانی بادشاہ یزدجرکی بیٹی تھیں اور بنی اسرائیل جناب اسحق (ع) کی اولاد ہیں _ اس لحاظ سے بنی ہاشم و بنی اسرائیل کو ایک خاندان کہا جاتا ہے _ عیسائیوں سے بھی ایک نسبت ہے کیونکہ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روم کی شہزادی جناب نرجس کے بطن سے ہوں گے _

اصولی طور پر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم دنیا کے نجات دلانے والے کو کسی ایک قوم سے مخصوص کردیںکہ جس سے قومی اختلاف پیدا ہو ، اس قوم سے ہیں اس سے نہیں ، اس ملک کا باشندہ ہے اس کا نہیں ہے، اس مذہب سے تعلق رکھتا ہے دوسروں سے نہیں _ اس بناپر مہدی موعود کو عالمی کہنا چاہئے _ وہ ساری دنیا کے خداپرستوں کو نجات دلائیں گے _ ان کی کامیابی ، تمام انبیاء اور صالح انسانوں کی

۷۴

کامیابی ہے _ ترقی یافتہ دین ، دین اسلام ، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور تمام آسمانی مذاہب کی حمایت کرتا ہے اور موسی و عیسی کے حقیقی دین و مذہب ، کہ جنہوں نے محمد (ص) کی آمد کی بشارت دی ہے کا حامی ہے _

واضح رہے مہدی موعود کی بشارتوں کے ثابت کرنے کے لئے ہم قدیم کتابوں سے استدلال نہیں کرتے ہیں _ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے _ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان و مذاہب کا مشترک عقیدہ ہے جس کا سرچشمہ وحی ہے اور تمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظار میں ہیں لیکن اس کی مطابقت میں اختلاف ہے _

۷۵

قرآن اور مہدویت

فھیمی : اگر مہدویت کا عقیدہ صحیح ہوتا تو قرآن میں بھی اس کا ذکر ہوتا جبکہ اس آسمانی کتاب میں لفظ مہدی بھی کہیں نظر نہیں آتا _

ھوشیار : اول تویہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صحیح موضوع اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قرآن میں بیان ہو _ ایسی بہت سی صحیح چیزیں ہیں کہ جن کا آسمانی کتاب میں نام و نشان بھی نہیں ملتا _ دوسرے اس مقدس کتاب میں چند آیتیں ہیں جو اجمالی طور پر ایک ایسے دن کی بشارت دیتی ہیں کہ جس میں حق پرست ، اللہ والے ، دین کے حامی اور نیک و شائستہ افراد زمین کے وارث ہوں گے اور دین اسلام تمام مذاہب پر غالب ہوگا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

سورہ انبیاء میں ارشاد ہے :

ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھد یا ہے کہ ہمار ے شائستہ اور شریف بند ے زمین کے وارث ہوں گے ۱_

سورہ ء نور میں ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے

____________________

۱ _ انبیاء / ۱۰۵

۷۶

وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین میں سی طرح خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا یا تھا ، تا کہ اپنے پسندیدہ دین کو استوار کردے اور خوف کے بعد انھیں مطمئن بنادے تا کہ وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک قرار نہ دیں(۱)

سورہ ء قصص میں ارشاد ہے :

ہمارا ارادہ ہے کہ ان گوں پر احسان کریں ، جنھیں روئے زمین پر کمزور بناد یا گیا ہے اور ، انھین زمین کا وارث قرار دیں(۲)

سورہ ء صف میں ارشاد ہے :

خداوہی ہے جس نے اپنے رسول(ع) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ دین حق تمام ادیان و مذاہب ، پر غالت ہو جائے اگر چہ مشر کوں کو یہ نا گوار ہی کیوں نہ ہو(۳)

ان آیتوں سے اجمالی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا پر ایک دن ایسا آئے گا جس میں زمین کی حکومت کی زمام مومنوں اور صالح لوگوں کے ہا تھوں میں ہوگی اور وہی تمدن بشریت کے میر کارواں ہوں گے _ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے گا اور شرک کی جگہ خدا پرستی ہوگی _ یہی درخشاں زمانہ مصلح غیبی منجی بشریت مہدی موعود کے انقلاب کادن ہے اور یہ عالمی انقلاب صالح مسلمانوں کے ذریعہ آئے گا _

____________________

۱_ نور / ۵۵۰

۲_ قصص / ۴

۳ _صف / ۹

۷۷

نبوّت عامہ اور امامت

فھیمی : میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ شیعہ ایک امام کے وجودکوثابت کرنے پر کیوں مصر ہیں ؟ اپنے عقیدہ کے سلسے میں آپ اتنی جد و جہد کرتے ہیں کہ : اگر امام ظاہر نہیں ہے تو پردہ غیبت میں ہے _ اس بات کے پیش نظر کہ انبیاء نے احکام خدا کو لوگوں کے سامنے مکمل طور پر پیش کرہے _ اب خدا کو کسی امام کے وجود کی کیا ضرورت ہے ؟

ہوشیار: جو دلیل نبوت عامہ کے اثبات پر قائم کی جاتی ہے اور جس سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ خدا پر احکام بھیجنا واجب ہے اس دلیل سے امام ، حجت خدا اور محافظ احکام کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے _ اپنا مدعا ثابت کرنے کیلئے پہلے میں اجمالی طور پر نبوت عامہ کے برہان کو بیان کرتا ہوں _ اس کے بعد مقصد کا اثبات کروں گا _

اگر آپ ان مقدمات اور ابتدائی مسائل میں صحیح طریقہ سے غور کریں جو کہ اپنی جگہ ثابت ہوچکے ہیں تو ثبوت عاملہ والا موضوع آپ پرواضح ہوجائے گا _

۱_ انسان اس زاویہ پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ تن تنہا زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ دوسرے انسانوں کے تعاون کامحتاج ہے _ یعنی انسان مدنی الطبع خلق کیا گیا ہے _

۷۸

اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے _ واضح ہے کہ اجتماعی زندگی میں منافع کے حصول میں اختلاف ناگزیر ہے _ کیونکہ معاشرہ کے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مادہ کے محدود و منافع سے مالامال ہوجائے اور اپنے مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو راہ سے ہٹادے جبکہ دوسرے بھی اسی مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں _ اس اعتبار سے منافع کے حصول میں جھگڑا اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدی کا باب کھلتا ہے لہذا معاشرہ کو چلانے کیلئے قانون کا وجود ناگزیر ہے تا کہ قانون کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور ظلم و تعدی کرنے والوں کی روک تھام کی جائے اور اختلاف کا خاتمہ ہوجائے _ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بشریت نے آج تک جو بہترین خزانہ حاصل کیا ہے وہ قانون ہے اور اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے ابتدائی زمانہ سے ہی کم و بیش قانون کا حامل تھا اور ہمیشہ سے قانون کا احترام کرتا چلا آرہا ہے _

۲_ انسان کمال کا متلاشی ہے اور کمال و کامیابی کی طرف بڑھنا اس کی فطرت ہے _ وہ اپنی سعی مبہم کو حقیق مقصد تک رسائی اور کمالات کے حصول کیلئے صرف کرتا ہے ، اس کے افعال ، حرکات اور انتھک کوششیں اسی محور کے گرد گھومتی ہیں _

۳_ انسان چونکہ ارتقاء پسند ہے اور حقیقی کمالات کی طرف بڑھنا اس کی سرشت میں ودیعت کیا گیا ہے اس لئے اس مقصد تک رسائی کا کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے کیونکہ خالق کوئی عبث و لغو کام انجام نہیں دیتا ہے _

۴_ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ انسان جسم و روح سے مرکب ہے جسم کے اعتبار سے مادی ہے _ لیکن روح کے ذریعہ ، جو بدن سے سخت ارتباط و اتصال رکھتی ہے ، وہ

۷۹

ترقی یافتہ ہے اور روح مجرّد ہے _

۵_ انسان چونکہ روح و بدن سے مرکب ہے اس لئے اس کی زندگی بھی لامحالہ دوقسم کی ہوگی : ایک دنیوی حیات کہ جس کا تعلق اس کے بدن سے ہے _ دوسرے معنوی حیات کہ جس کا ربط ا س کی روح اور نفسیات سے ہے _ نتیجہ میں ان میں سے ہر ایک زندگی کے لئے سعادت و بدبختی بھی ہوگی _

۶_ جیسا کہ روح اور بدن کے درمیان سخت قسم کا اتصال و ارتباط اور اتحاد برقرار ہے ایسا ہی دنیوی زندگی اور معنوی زندگی میں بھی ارتباط و اتصال موجود ہے _

یعنی دنیوی زندگی کی کیفیت ، انسان کے بدن کے افعال و حرکات اس کی روح پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جب کہ نفسانی صفات و کمالات بھی ظاہر افعال کے بجالانے پر اثر انداز ہوتے ہیں _

۷_ چونکہ انسان کمال کی راہ پر گامزن ہے اور کمال کی طرف راغب ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے ، خدا کی خلقت بھی عبث نہیں ہے _ اس لئے انسانی کمالات کے حصول اور مقصد تک رسائی کے لئے ایسا ذریعہ ہونا چاہئے کہ جس سے وہ مقصد تک پہنچ جائے اور کج رویوں کو پہچان لے _

۸_ طبعی طور پر انسان خودخواہ اور منفعت پرست واقع ہوا ہے ، صرف اپنی ہی مصلحت و فوائد کو مد نظر رکھتا ہے _ بلکہ دوسرے انسانوں کے مال کو بھی ہڑپ کرلینا چاہتا ہے اور ان کی جانفشانی کے نتیجہ کا بھی خودہی مالک بن جانا چاہتا ہے _

۹_ باوجودیکہ انسان ہمیشہ اپنے حقیقی کمالات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس حقیقت کی تلاش میں ہر دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے لیکن اکثر اس کی تشخیص سے معذور رہتا ہے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455