آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181817 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

بات ناگوار ہی کیوں نہ ہو _ مہدی ایک زمانہ تک غیبت میں رہیں گے _ غیبت کے زمانہ میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن کچھ لوگ ثابت قدم رہیں گے اور اس راہ میں مصیبتیں اٹھائیں گے سرزنش کے طور پر ان سے کہا جائے گا ، اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہے تو تمہارا امام موعود کب انقلاب برپا کرے گا؟ لیکن جان لو کہ جوان کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کے طعن و تشنیع کو برداشت کرے گا اس کی مثال اس شخص کی ہے جس نے رسول خدا کے ہمراہ تلوار سے جنگ کی(۱) اس سلسلے میں آپ کی تیرہ حدیثیں اورہیں _

امام زین العابدین (ع) نے مہدی (عج) کی خبردی

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا: لوگوں پر ہمارے قائم کی ولادت آشکار نہیں ہوگی یہاں تک وہ یہ کہنے لگیں گے کہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں _ ان کے مخفی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی تحریک کا آغاز کریں اس وقت کسی کی بیعت میں نہ ہوں(۲) دس حدیثیں اورہیں _

حضرت امام باقر (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام محمد باقر (ع) نے ابان بن تغلب سے فرمایا: خدا کی قسم امامت وہ عہدہ ہے جو رسول خدا سے ہمیں ملا ہے _ پیغمبر کے بارہ امام ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۳۳ ، ص ۳۹۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۶۱

کے اولاد سے ہوں گے _ مہدی بھی ہم ہی میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں دین کی حفاظت کرے گا(۱) ۶۲ حدیثیں اور ہیں _

امام صادق (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام صادق (ع) نے فرمایا : جو شخص وجود مہدی کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہ تمام انبیاء کا معتقد ہے لیکن رسول (ص) خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے _ عرض کیا گیا : فرزند رسول (ع) مہدی کس کی اولاد سے ہوں گے ؟ فرمایا : ساتویں امام موسی بن جعفر کی پانچویں پشت میں ہوں گے ، لیکن غائب ہوجائیں گے اور تمہارے لئے ان کا نام لینا جائز نہیں ہے _۲_ ۱۲۳ حدیثیں اور ہیں _

امام موسی کاظم (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام موسی کاظم (ع) سے یونس بن عبدالرحمن نے سوال کیا : کیا آپ مہدی بر حق ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: میں قائم برحق ہوں لیکن جو قائم زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کرے گا اور اس عدل و انصاف سے بھرے گا وہ میری پانچویں پشت میں ہے _ وہ دشمنوں کے خوف سے مدت دراز تک غیبت میں رہے گا _ زمانہ غیبت میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن ایک جماعت اپنے عقیدہ پر ثابت و قائم رہے _ اس کے بعد فرمایا : خوش نصیب

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص۵۵۹_

۲_ بحارالانوار ج۵۱ ص ۱۴۳ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۰۴_

۶۲

ہیں وہ شیعہ جو امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں ہماری ولایت سے وابستہ اور ہمار ی محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری میں ثابت قدم رہیں گے وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں وہ ہماری امامت سے راضی اور ہم ا ن کے شیعہ ہونے سے راضی ہیں یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، خدا کی قسم وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(۱) پانچ حدیثیں اورہیں _

امام رضا(ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت اما م رضا (ع) سے ریان بن صلت نے دریافت کیا تھا : کیا آپ (ع) ہی صاحب الامر ہیں ؟ فرمایا : میں صاحب الامر ہوں لیکن میں وہ صاحب الامر نہیں ہوں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _ میری اس ناتوانی کے باوجود جسے تم مشاہدہ کررہے ہو کیسے ممکن ہے کہ میں وہی صاحب الامر ہوں ؟ قائم وہ ہے جو بڑھاپے کی منزل میں ہے لیکن جوان کی صورت میں ظاہر ہوگا وہ اتنا طاقتور اور قوی ہے کہ اگر روئے زمین کے بڑے سے بڑے درخت کو ہاتھ لگا دے تو اکھڑجائے _ اور اگر پہاڑوں کے درمیان نعرہ بلند کرے تو بڑے بڑے پتھر چورچور ہوکر بکھر جائیں ، اس کے پاس موسی کا عصا اورجناب سلیمان کی انگوٹھی ہے ، وہ میری چوتھی پشت میں ہے ،جب تک خدا چاہے گا اسے غیبت میں رکھے گا _ اس کے بعد ظہور کا حکم دے گا اور اس کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی(۲) ۱۸ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۵۱ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۲۲ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۹_

۶۳

امام محمد تقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام محمد تقی (ع) نے عبدالعظیم حسنی سے فرمایا : قائم ہی مہدی موعود ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا انتظار اور ظہور کے زمانہ میں ان کی اطاعت کرنی چاہئے اور وہ میری تیسری پشت میں ہے _ قسم اس خدا کی جس نے محمد (ص) کو رسالت او رہمیں امامت سے سرفراز کیا ہے _ اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ جس میں مہدی ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گاجیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہوگی _ خداوند عالم ایک رات میں ان کی کامیابی کے اسباب فراہم کریگا جیسا کہ اپنے کلیم موسی کی کامیابی کے اسباب ایک ہی رات میں فراہم کئے تھے_ موسی (ع) بیوی کے لئے آگ لینے گئے تھے لیکن منصب رسالت لیکر پلٹے _ اس کے بعد امام نے فرمایا: فرج کا انتظار ہمارے شیعوں کا بہترین عمل ہے(۱) پانچ حدیثیں اور ہیں _

امام علی نقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام علی نقی نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا حسن (ع) امام ہے اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ روئے زمین پر عدل و انصاف پھیلائیں گے(۲) پانچ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۶ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰ اثبات الہداة ج۶ ص ۴۲۷_

۶۴

اما م حسن عسکری (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام حسن عسکری نے موسی بن جعفر بغدادی سے فرمایا: گویا میںدیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کررہے ہو لیکن یادرہے جو شخص پیغمبر کے بعد تمام ائمہ پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے اور صرف میرے بیٹے کی امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تمام انبیاء پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے لیکن محمد (ص) کی رسالت کا منکرہے کیونکہ ہم سے آخری امام کی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے اولی کی _ پس جو شخص ہمارے آخری امام کا انکار کریگا گویا اس نے پہلے کا بھی انکار کردیا _ جان لو میرے بیٹے کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگ شک میں پڑجائیں گے مگر یہ کہ خدا ان کے ایمان کو محفوظ رکھے(۱) ۲۱ حدیثیں اورہیں _

کیا احادیث مہدی صحیح ہیں؟

انجینئر : ہم ان حدیثوں کو اسی وقت قبول کرسکتے ہیں جب وہ صحیح اور معتبر ہوں کیا مہدی کے متعلق یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں؟

ہوشیار: میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ مہدی سے متعلق تمام حدیثیں صحیح اور ان کے تمام راوی ثقہ و عادل ہیں _ لیکن اچھی خاصی تعداد صحیح احادیث کی ہے _ البتہ تمام احادیث کی طرح ان میں بھی بعض صحیح ، کچھ حسن ، موثق اور چند ضعیف ہیں _ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق اور ان کے راویوں کے حالات کی چھان بین کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۶۵

ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جو بھی غیر جانب دارانہ اور انصاف کیساتھ ان سے رجوع کرے گا اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجائے گا کہ ان سب کی دلالت اس بات پر ہے کہ وجود مہدی اسلام کے ان مسلّم عقائد و موضوعات میں سے ہے کہ جن کا بیج خودسرور کائنات نے بویا اور ائمہ نے اس کی آبیاری کی ہے _ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وجود مہدی کے بارے میں اسلام میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور موضوع کے لئے وارد نہیں ہوئی ہوں گی _

واضح رہے کہ ابتدائے بعثت سے حجة الوداع تک پیغمبر اکرم (ص) نے سیکڑوں بارمہدی کے بارے میں گفتگو کی ہے _ علی بن ابی طالب نے ان کی خبر دی ، فاطمہ زہراء نے خبر دی ہے اور رسول کے اہل بیت اور نبوت کے رازداروں نے امام حسن (ع) ، اما م حسین (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق (ع) ، امام موسی کاظم (ع) ، امام رضا (ع) ، امام محمد تقی (ع) ، امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے ان کی خبر دی ہے _ عہد رسول (ص) کے لوگ ان کے انتظار میں دن گنتے تھے یہاں تک کہ کبھی تو بعض لوگ کسی کو اس کا حقیقی سمجھ بیٹھے تھے_ ان سے متعلق شیعہ اور اہل سنت نے احادیث نقل کی ہیں ۷اشعری اور معتزلیہ نے قلم بند کی ہیں _ ان کے راویوں میں عرب ، عجم ، مکی ،مدنی ، کوفی ، بغدادی ، بصری، قمی، کرخی ، خراسانی نیشاپوری و غیرہ شامل ہیں _ کیا ان ہزاروں سے زائد احادیث کے باوجود کوئی منصف مزاج وجود مہدی کے بارے میں شک کرے گا اور یہ کہے گا کہ یہ احادیث متعصب شیعوں نے جعل کرکے پیغمبر کی طرف منسوب کردی ہیں؟

رات کافی گز رچکی تھی اورمذاکرات کا وقت ختم ہوچکا تھا لہذا مزید گفتگو کو آئندہ ہفتہ کی شب میں ہونے والے جلسہ پر موقوف کردیا _

۶۶

تصوّر مہدی"

احباب یکے بعد دیگرے فہیمی صاحب کے مکان پر جمع ہوئے جب سابق مختصرضیافت کے بعد ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _ انجینئر صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا :

انجینئر: مجھے یاد آتا ہے کہ کسی نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرہ میں مہدویت اور غیبی مصلح کا تصوّر یہود اور قدیم ایرانیوں سے سرایت کرآیا ہے _ ایرانیوں کا خیال تھا کہ زردتشت کی نسل سے '' سالوشیانت'' نام کا ایک شخص ظاہر ہوگا جو اہریمن کو قتل کرکے پوری دنیا کو برائیوں سے پاک کرے گا _ لیکن چونکہ یہودیوں کا ملک دوسروں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی آزادی سلب ہوگئی تھی ، زنجیروں میں جکڑگئے تھے ، لہذا ان کے علماء میں سے ایک نے یہ خوش خبری دی کہ مستقبل میں دنیا میں ایک بادشاہ ہوگا وہی زردشتیوں کو آزادی دلائے گا _

چونکہ مہدویت کی اصل یہود و زردشتیوں میں ملتی ہے _ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ان سے مسلمانوں میں آیا ہے ورنہ اس کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے _

ہوشیار : یہ بات صحیح ہے کہ دوسری اقوام و ملل میں بھی یہ عقیدہ تھا اور ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عقیدہ خرافات میں سے ہے

۶۷

کیا یہ ضروری ہے کہ اسلام کے تمام احکام و عقائد اسی وقت صحیح ہوسکتے ہیں جب وہ گزشتہ احکام وعقائد کے خلاف ہوں ؟ جو شخص اسلام کے موضوعات میں سے کسی موضوع کی تحقیق کرناچاہتا ہے تو اسے اس موضوع کے اصلی مدارک و ماخذ سے رجوع کرنا چاہئے تا کہ اس موضوع کا سقم و صحت واضح ہوجائے _ اصلی مدارک کی تحقیق اورگزشتہ لوگوں کے احکام و عقائدکی چھان بین کے بغیر یہ شور بر پا نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے اس باطل عقیدہ کی اصلی کا سراغ لگالیا ہے _

کیا یہ کہا جا سکتا ہے چونکہ زمانہ قدیم کے ایرانی یزدان کا عقیدہ رکھتے تھے اور حقیقت کو دوست رکھتے تھے _ لہذا خدا پرستی بھی ایک افسانہ ہے اور حقیقت و صداقت کبھی مستحسن نہیں ہے ؟

لہذا صرف یہ کہکر کہ دوسرے مذاہب و ملل بھی مصلح غیبی اور نجات دینے والے کے منتظر تھے _ مہدویت کے عقیدہ کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اتنی بات سے اس کی صحت ثابت کی جا سکتی ہے _

رجحان مہدویت کی پیدائشے کے اسباب

فہیمی : ایک صاحب قلم نے عقیدہ مہدویت کے وجود میں آنے کی بہترین توجیہ کی ہے ، اگر اجازت ہو تو میں اس کا لب لباب بیان کروں؟

حاضرین : بسم اللہ :

فہیمی : عقیدہ مہدویت شیعوں نے دوسرے مذاہب سے لیا اور اس میں کچھ چیزوں کااضافہ کردیا ہے چنانچہ آج مخصوص شکل میں آپ کے سامنے ہے _ اس عقیدہ کی ترقی

۶۸

اور وسعت کے دو اسباب ہیں:

الف: غیبی نجات دینے والے کا ظہور اوراس کا پیدائشے کا عقیدہ یہودیوں میں مشہور تھا اور ہے _ ان کا خیال تھا کہ جناب الیاس آسمان پرچلے گئے ہیں اور آخری زمانہ میں بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے زمین پر لوٹ آئیں گے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ملک صیدق'' اور فنحاس بن العاذار'' آج تک زندہ ہے _

صدر اسلام میں ''مادی فوائد کے حصول'' اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا بنانے کی غرض سے یہودیوں کی ایک جماعت نے اسلام کا لباس پہن لیاتھا اور اپنے مخصوص حیلہ و فریب سے مسلمانوں کے درمیان حیثیت پیدا کرلی تھی اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، اپنے عقائد کی اشاعت اور استحصال کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ، ان ہی میں سے ایک عبداللہ ابن سبا ہے جس کو ان کی نمایان فرد تصور کرنا چاہئے _

ب: رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) کے اہل بیت (ع) وقر ابتدار منجملہ علی بن ابیطالب خود کو سب سے زیادہ خلافت کا حق دار سمجھتے تھے _ چند اصحاب بھی ان کے ہم خیال تھے _ لیکن ان کی توقع کے برخلاف حکومت خاندان رسالت سے چھن گئی ، جس سے انھیں بہت رنج وصدمہ پہنچا _ یہاں تک کہ جب حضرت علی (ع) کے ہاتھوں میں زمام خلافت آئی تو وہ مسرور ہوئے اوریہ سمجھنے لگے کہ اب خلافت اس خاندان سے باہر نہ جائے گی _ لیکن علی (ع) داخلی جنگوں کی وجہ سے اسے کوئی ترقی نہ دے سکے نتیجہ میں ابن ملجم نے شہید کردیا پھر ان کے فرزند حسن (ع) بھی کامیاب نہ ہوسکے ، آخر کار خلافت بنی امیہ کے سپردکردی _ رسول (ص) خدا کے دو فرزند حسن و حسین خانہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے اور اسلام کی حکومت و اقتدا ر دوسروں کے ہاتھ میں تھا رسول(ص) کے اہل بیت اور ان کے ہمنوا

۶۹

فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار تے اور مال غنیمت ، مسلمانوں کا بیت المال بنی امیہ اور بنی عباس کی ہوس رانی پر خرچ ہوتا تھا _ ان تمام چیزوں کی وجہ سے روز بروز اہل بیت کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا گیا اور گوشہ و کنار سے اعتراضات اٹھائے جانے لگے دوسری طرف عہد داروں نے دل جوئی اور مصالحت کی جگہ سختی سے کام لیا اور انھیں دار پر چڑھایا ، کسی کو جلا وطن کیا اور باقی قید خانوں میں ڈالدیا _

مختصر یہ کہ رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ کے اہل بیت اور ان کے طرفداروں کو بڑی مصیبتیں اٹھنا پریں ، فاطمہ زہرا کو باپ کی میراث سے محروم کردیا گیا _ علی (ع) کو خلافت سے دور رکھا گیا ، حسن بن علی (ع) کو زہر کے ذریعہ شہید کردیا گیا _ حسین بن علی (ع) کو اولاد و اصحاب سمیت کربلا میں شہید کردیا گیا اور ان کے ناموس کو قیدی بنالیا گیا ، مسلم بن عقیل اور ہانی کو امان کے بعد قتل کرڈالا ، ابوذر کو ربذہ میں جلا وطن کردیا گیا اور حجر بن عدی ، عمروبن حمق ، میثم تمار، سعید بن جبیر ،کمیل بن زیاد اور ایسے ہی سیکڑوں افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا _ یزید کے حکم سے مدینہ کو تاراج کیا گیا ایسے ہی اور بہت سے ننگین واقعات کے وجود میں آئے کہ جن سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں _ ایسے تلخ زمانہ کو بھی شیعیان اہل بیت نے استقامت کے ساتھ گزارا اور مہدی کے منتظر رہے _ کبھی غاصبوں سے حق لینے اور ان سے مبارزہ کیلئے علویوں میں سے کسی نے قیام کیا _ لیکن کامیابی نہ مل سکی اور قتل کردیا گیا _ ان ناگوار حوادث سے اہل بیت کے قلیل ہمنوا ہر طرف سے مایوس ہوگئے اور اپنی کامیابی کا انھیں کوئی راستہ نظر نہ آیا ، تو وہ ایک امید دلانے والا منصوبہ بنانے کے لئے تیار ہوئے _ ظاہر ہے کہ مذکورہ حالات و حوادث نے ایک غیبی نجات دینے والے اور مہدویت کے عقیدہ کو قبول کرنے کیلئے مکمل طور پر زمین ہموار کردی تھی _

۷۰

اس موقع سے نو مسلم یہودیوں اور ابن الوقت قسم کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے عقیدہ کی ترویج کی یعنی غیبی نجات دینے والے کے معتقد ہوگئے _ ہرجگہ سے مایوس شیعوں نے اسے اپنے درددل کی تسکین اور ظاہری شکست کی تلافی کے لئے مناسب سمجھا اور دل و جان سے قبول کرلیا لیکن اس میں کچھ رد وبدل کرکے کہنے لگے : وہ عالمی مصلح یقینا اہل بیت سے ہوگا _ رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف مائل ہوئے اور اس عقیدہ نے موجودہ صورت اختیا رکرلی _(۱)

توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے

ہوشیار: اہل بیت (ع) اور ان شیعوں سے متعلق آپ نے جو مشکلیں اور مصیبتیں بیان کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں لیکن تحلیل و توضیح کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب ہمیں مہدویت کے اصلی سرچشمہ کا علم نہ ہوتا _ لیکن جیسا کہ آپ کو یا دہے _ ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ خود پیغمبر اکرم(ص) نے اس عقیدہ کو مسلمانوں میں رواج دیا اور ایسے مصلح کی پیدائشے کی بشارت دی ہے چنانچہ اس سلسلے میں آپ (ص) کی احادیث کو شیعوں ہی نے نہیں ، بلکہ اہل سنّت نے بھی اپنی صحاح میںدرج کیا ہے _ اس مطلب کے اثبات کے لئے کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے _

اپنی تقریر کی ابتداء میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ عقیدہ یہودیوں کے درمیان مشہور تھا _ یہ بھی صحیح ہے لیکن آ پ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اس عقیدہ کو ابن سبا جیسے

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام ص ۴۸_۶۸

۷۱

یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان فروغ دیا ہے کیونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ عالمی مصلح کی پیدائشے کی بشارت دینے والے خود نبی اکرم (ص) ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ مسلمان ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہو _

عبداللہ بن سبا

اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن سبا تاریخ کے مسلّمات میں سے نہیں ہے _ بعض علماء نے اس کے وجود کو شیعوں کے دشمنوں کی ایجاد قراردیا ہے اور اگر واقعی ایسا کوئی شخص تھا تو ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے جن کو اسکی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ کوئی عقلمند اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک نو مسلم یہودی نے ایسی غیر معمولی صلاحیت و سیاست پیدا کرلی تھی کہ وہ اس گھٹن کے زمانہ میں بھی کہ جب کوئی فضائل اہل بیت کے سلسلے میں ایک بات بھی کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا اس وقت ابن سبا نے ایسے بنیادی اقدامات کئی اور مستقل تبلیغات اور وسائل کی فراہمی سے لوگوں کو اہل بیت کی طرف دعوت دی اور خلیفہ کے خلاف شورش کرنے اور ایسا ہنگامہ برپاکرنے پر آمادہ کیا کہ لوگ خلیفہ کو قتل کردیں اور خلیفہ کے کارندوں اور جاسوسوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو _ آپ کے کہنے کے مطابق ایک مسلم یہودی نے ان کے عقیدہ کی بنیادیں اکھاڑدیں اور کسی شخص میں ہمت دم زدن نہیں ہوئی ایسے کارناموں کے حامل انسان کا وجود صرف تصورات کی دنیا میں تو ممکن ہے _(۱)

____________________

۱_ محققین '' نقش وعاظ در اسلام '' مولفہ ڈاکٹر علی الوردی ترجمہ خلیلیان ص ۱۱۱_۱۳۷_ عبداللہ بن سبا مولفہ سید مرتضی عسکری اور '' علی و فرزندانش '' مولفہ ڈاکٹر طہ حسین ترجمہ خلیلی ص ۱۳۹ _۱۴۳ سے رجوع فرمائیں _

۷۲

مہدی تمام مذاہب میں

انجینئر مہدی موعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یا یہ عقیدہ تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے ؟

ہوشیار: مذکورہ عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں یہ عقیدہ موجود ہے _ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ تاریک و بحرانی زمانہ میں، جب ہرجگہ فساد و ظلم اور بے دینی پھیل جائے گی ، ایک دنیا کو نجات دلانے والا ظہور کرے گا اور بے پناہ غیبی طاقت کے ذریعہ دنیا کے آشفتہ حالات کی اصلاح کرے گا اور بے دینی و مادی رجحان کو ختم کرکے خداپرستی کو فروغ دے گا اور یہ بشارت ان تمام کتابوں میں موجود ہے جو کہ آسمانی کتاب کے عنوان سے باقی ہیں جیسے زردشتیوں کی مقدس کتاب '' زندوپازند'' ''جاماسنامہ'' یہودیوں کی مقدس کتاب توریت اور اس کے ملحقات میں عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل میں بھی اس کو تلاش کیا جا سکتا ہے نیز برہمنوں اور بودھ مذہب کی کتاب میں بھی کم و بیش اس کا تذکرہ ہے _

یہ عقیدہ سارے مذاہب و ملتوں میں موجود ہے اور وہ ایسے طاقتور غیبی موعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں _ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سے پہچانتے ہیں زردشتی سوشیانس _ دنیا کو نجات دلانے والا _ یہودی سرور میکائیلی _ عیسائی

۷۳

مسیح موعود اور مسلمان مہدی موعود کے نام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا _ زردشتی کہتے ہیں وہ ایرانی اور مذہب زردشت کا پیروکار ہوگا یہودی کہتے ہیں وہ بنی اسرائیل سے ہوگا اور موسی کا پیروہوگا ، عیسائی اپنے میں شمار کرتے ہیں اور مسلمان بنی ہاشم اور رسول (ص) کے اہل بیت میں شمار کرتے ہیں _ اسلام میں اس کی بھر پور طریقہ سے شناخت موجود ہے جبکہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل معرفت نہیں کرائی ہے _

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگرمذاہب میں بیان ہوئے ہیں وہ اسلام کے مہدی موعود یعنی امام حسن عسکری کے فرزند پر بھی منطبق ہوتے ہیں ، انھیں ایرانی ناد بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ کے جد امام زین العابدین کی والدہ شہر بانو ساسانی بادشاہ یزدجرکی بیٹی تھیں اور بنی اسرائیل جناب اسحق (ع) کی اولاد ہیں _ اس لحاظ سے بنی ہاشم و بنی اسرائیل کو ایک خاندان کہا جاتا ہے _ عیسائیوں سے بھی ایک نسبت ہے کیونکہ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روم کی شہزادی جناب نرجس کے بطن سے ہوں گے _

اصولی طور پر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم دنیا کے نجات دلانے والے کو کسی ایک قوم سے مخصوص کردیںکہ جس سے قومی اختلاف پیدا ہو ، اس قوم سے ہیں اس سے نہیں ، اس ملک کا باشندہ ہے اس کا نہیں ہے، اس مذہب سے تعلق رکھتا ہے دوسروں سے نہیں _ اس بناپر مہدی موعود کو عالمی کہنا چاہئے _ وہ ساری دنیا کے خداپرستوں کو نجات دلائیں گے _ ان کی کامیابی ، تمام انبیاء اور صالح انسانوں کی

۷۴

کامیابی ہے _ ترقی یافتہ دین ، دین اسلام ، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور تمام آسمانی مذاہب کی حمایت کرتا ہے اور موسی و عیسی کے حقیقی دین و مذہب ، کہ جنہوں نے محمد (ص) کی آمد کی بشارت دی ہے کا حامی ہے _

واضح رہے مہدی موعود کی بشارتوں کے ثابت کرنے کے لئے ہم قدیم کتابوں سے استدلال نہیں کرتے ہیں _ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے _ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان و مذاہب کا مشترک عقیدہ ہے جس کا سرچشمہ وحی ہے اور تمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظار میں ہیں لیکن اس کی مطابقت میں اختلاف ہے _

۷۵

قرآن اور مہدویت

فھیمی : اگر مہدویت کا عقیدہ صحیح ہوتا تو قرآن میں بھی اس کا ذکر ہوتا جبکہ اس آسمانی کتاب میں لفظ مہدی بھی کہیں نظر نہیں آتا _

ھوشیار : اول تویہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صحیح موضوع اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قرآن میں بیان ہو _ ایسی بہت سی صحیح چیزیں ہیں کہ جن کا آسمانی کتاب میں نام و نشان بھی نہیں ملتا _ دوسرے اس مقدس کتاب میں چند آیتیں ہیں جو اجمالی طور پر ایک ایسے دن کی بشارت دیتی ہیں کہ جس میں حق پرست ، اللہ والے ، دین کے حامی اور نیک و شائستہ افراد زمین کے وارث ہوں گے اور دین اسلام تمام مذاہب پر غالب ہوگا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

سورہ انبیاء میں ارشاد ہے :

ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھد یا ہے کہ ہمار ے شائستہ اور شریف بند ے زمین کے وارث ہوں گے ۱_

سورہ ء نور میں ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے

____________________

۱ _ انبیاء / ۱۰۵

۷۶

وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین میں سی طرح خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا یا تھا ، تا کہ اپنے پسندیدہ دین کو استوار کردے اور خوف کے بعد انھیں مطمئن بنادے تا کہ وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک قرار نہ دیں(۱)

سورہ ء قصص میں ارشاد ہے :

ہمارا ارادہ ہے کہ ان گوں پر احسان کریں ، جنھیں روئے زمین پر کمزور بناد یا گیا ہے اور ، انھین زمین کا وارث قرار دیں(۲)

سورہ ء صف میں ارشاد ہے :

خداوہی ہے جس نے اپنے رسول(ع) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ دین حق تمام ادیان و مذاہب ، پر غالت ہو جائے اگر چہ مشر کوں کو یہ نا گوار ہی کیوں نہ ہو(۳)

ان آیتوں سے اجمالی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا پر ایک دن ایسا آئے گا جس میں زمین کی حکومت کی زمام مومنوں اور صالح لوگوں کے ہا تھوں میں ہوگی اور وہی تمدن بشریت کے میر کارواں ہوں گے _ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے گا اور شرک کی جگہ خدا پرستی ہوگی _ یہی درخشاں زمانہ مصلح غیبی منجی بشریت مہدی موعود کے انقلاب کادن ہے اور یہ عالمی انقلاب صالح مسلمانوں کے ذریعہ آئے گا _

____________________

۱_ نور / ۵۵۰

۲_ قصص / ۴

۳ _صف / ۹

۷۷

نبوّت عامہ اور امامت

فھیمی : میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ شیعہ ایک امام کے وجودکوثابت کرنے پر کیوں مصر ہیں ؟ اپنے عقیدہ کے سلسے میں آپ اتنی جد و جہد کرتے ہیں کہ : اگر امام ظاہر نہیں ہے تو پردہ غیبت میں ہے _ اس بات کے پیش نظر کہ انبیاء نے احکام خدا کو لوگوں کے سامنے مکمل طور پر پیش کرہے _ اب خدا کو کسی امام کے وجود کی کیا ضرورت ہے ؟

ہوشیار: جو دلیل نبوت عامہ کے اثبات پر قائم کی جاتی ہے اور جس سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ خدا پر احکام بھیجنا واجب ہے اس دلیل سے امام ، حجت خدا اور محافظ احکام کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے _ اپنا مدعا ثابت کرنے کیلئے پہلے میں اجمالی طور پر نبوت عامہ کے برہان کو بیان کرتا ہوں _ اس کے بعد مقصد کا اثبات کروں گا _

اگر آپ ان مقدمات اور ابتدائی مسائل میں صحیح طریقہ سے غور کریں جو کہ اپنی جگہ ثابت ہوچکے ہیں تو ثبوت عاملہ والا موضوع آپ پرواضح ہوجائے گا _

۱_ انسان اس زاویہ پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ تن تنہا زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ دوسرے انسانوں کے تعاون کامحتاج ہے _ یعنی انسان مدنی الطبع خلق کیا گیا ہے _

۷۸

اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے _ واضح ہے کہ اجتماعی زندگی میں منافع کے حصول میں اختلاف ناگزیر ہے _ کیونکہ معاشرہ کے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مادہ کے محدود و منافع سے مالامال ہوجائے اور اپنے مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو راہ سے ہٹادے جبکہ دوسرے بھی اسی مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں _ اس اعتبار سے منافع کے حصول میں جھگڑا اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدی کا باب کھلتا ہے لہذا معاشرہ کو چلانے کیلئے قانون کا وجود ناگزیر ہے تا کہ قانون کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور ظلم و تعدی کرنے والوں کی روک تھام کی جائے اور اختلاف کا خاتمہ ہوجائے _ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بشریت نے آج تک جو بہترین خزانہ حاصل کیا ہے وہ قانون ہے اور اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے ابتدائی زمانہ سے ہی کم و بیش قانون کا حامل تھا اور ہمیشہ سے قانون کا احترام کرتا چلا آرہا ہے _

۲_ انسان کمال کا متلاشی ہے اور کمال و کامیابی کی طرف بڑھنا اس کی فطرت ہے _ وہ اپنی سعی مبہم کو حقیق مقصد تک رسائی اور کمالات کے حصول کیلئے صرف کرتا ہے ، اس کے افعال ، حرکات اور انتھک کوششیں اسی محور کے گرد گھومتی ہیں _

۳_ انسان چونکہ ارتقاء پسند ہے اور حقیقی کمالات کی طرف بڑھنا اس کی سرشت میں ودیعت کیا گیا ہے اس لئے اس مقصد تک رسائی کا کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے کیونکہ خالق کوئی عبث و لغو کام انجام نہیں دیتا ہے _

۴_ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ انسان جسم و روح سے مرکب ہے جسم کے اعتبار سے مادی ہے _ لیکن روح کے ذریعہ ، جو بدن سے سخت ارتباط و اتصال رکھتی ہے ، وہ

۷۹

ترقی یافتہ ہے اور روح مجرّد ہے _

۵_ انسان چونکہ روح و بدن سے مرکب ہے اس لئے اس کی زندگی بھی لامحالہ دوقسم کی ہوگی : ایک دنیوی حیات کہ جس کا تعلق اس کے بدن سے ہے _ دوسرے معنوی حیات کہ جس کا ربط ا س کی روح اور نفسیات سے ہے _ نتیجہ میں ان میں سے ہر ایک زندگی کے لئے سعادت و بدبختی بھی ہوگی _

۶_ جیسا کہ روح اور بدن کے درمیان سخت قسم کا اتصال و ارتباط اور اتحاد برقرار ہے ایسا ہی دنیوی زندگی اور معنوی زندگی میں بھی ارتباط و اتصال موجود ہے _

یعنی دنیوی زندگی کی کیفیت ، انسان کے بدن کے افعال و حرکات اس کی روح پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جب کہ نفسانی صفات و کمالات بھی ظاہر افعال کے بجالانے پر اثر انداز ہوتے ہیں _

۷_ چونکہ انسان کمال کی راہ پر گامزن ہے اور کمال کی طرف راغب ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے ، خدا کی خلقت بھی عبث نہیں ہے _ اس لئے انسانی کمالات کے حصول اور مقصد تک رسائی کے لئے ایسا ذریعہ ہونا چاہئے کہ جس سے وہ مقصد تک پہنچ جائے اور کج رویوں کو پہچان لے _

۸_ طبعی طور پر انسان خودخواہ اور منفعت پرست واقع ہوا ہے ، صرف اپنی ہی مصلحت و فوائد کو مد نظر رکھتا ہے _ بلکہ دوسرے انسانوں کے مال کو بھی ہڑپ کرلینا چاہتا ہے اور ان کی جانفشانی کے نتیجہ کا بھی خودہی مالک بن جانا چاہتا ہے _

۹_ باوجودیکہ انسان ہمیشہ اپنے حقیقی کمالات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس حقیقت کی تلاش میں ہر دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے لیکن اکثر اس کی تشخیص سے معذور رہتا ہے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

حریم الہی پر تجاوز کیا ہے اور لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دی ہے _ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ غیر اسلامی تحریکیں قابل قبول نہیں ہیں _ لیکن اگر کوئی تحریک دین حاکمیت اور قرآن کے قوانین سے دفاع کے عنوان سے وجود میں آتی ہے تو وہ قابل قبول ہے _ کیونکہ یہاں پرچم دین کے مقابلہ میں علم بلند نہیں کیا گیا ہے چنانچہ ایسی تحریک کا قائد بھی طاغوت نہیں ہے بلکہ وہ طاغوت کا مخالف ہے _ ایسا قائد ورہبر لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت نہیں دیتا ہے بلکہ رب العالمین کی عبادت کی دعوت دیتا ہے _ ایسا پرچم قائم آل محمد کےعلم کے مقابلہ میں بلند ہیں کیا جاتا ہے بلکہ امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے زمین ہموار کرے گا _ کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ظہور امام زمانہ سے قبل ہر بلند کئے جانے والے پرچم کا حامل شیطان ہے ؟ کیا معاویہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف علی (ع) نے قیام نہیں کیا تھا؟ کیا امام حسن (ع) نے معاویہ سے اعلان جنگ نہیں کیا تھا ؟ کیا امام حسین (ع) نے اسلام سے دفاع کی خاطر یزید (لعن) سے جنگ نہیں کی تھی ؟ کیا زید بن علی (ع) بن حسین نے قرآن سے دفاع کیلئے ظلم و ستم کے خلاف انقلاب برپا نہیں کیا تھا؟

خلاصہ

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس حصہ کی اکثر احادیث ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ان سے تمسک نہیں کیا جا سکتا _ مذکورہ احادیث کا لب لباب یہ ہے _

۱_ جو شخص بھی قیام کرے اور تم سے مدد طلب کرے تو تم سوچے سمجھے بغیر اس کی آواز پر لبیک نہ کہو بلکہ آواز دینے والے اور اس کے مقصد کی تحقیق کرو _ اگر اس نے مہدی موعود کے عنوان سے قیام کیا ہے یا اس کا مقصد باطل ہے تو اس کی آواز

۳۸۱

پر لبیک نہ کہو _ کیونکہ امام زمانہ کے ظہور اور قیام کا وقت نہیں آیا ہے _

۲_ یہ احادیث ان شیعوں کو جو کہ ائمہ سے قیام کرنے کااصرار کرتے تھے ، اس خارجی حقیقت کی خبر دیتی ہے کہ قائم آل محمد کے قیام سے قبل ہم ائمہ میں سے جو بھی قیام کرے گا اس کا قیام ناکام ہوگا اور شہید کردیا جائے گا _ کیونکہ حضرت مہدی کے عالمی انقلاب کے مقدمات فراہم نہیں ہوئے ہیں _

۳_ حضرت مہدی کے ظہور کے مخصوص علامات ہیں چنانچہ ان علائم کے ظاہر ہونے سے قبل جو شخص بھی مہدی موعود کے عنوان سے قیام کرے اس کی دعوت قبول نہ کرو _

۴_ کسی بھی حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے اسباب و مقدمات کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے مقدمات و اسباب کی فراہمی سے قبل تحریک و انقلاب میں عجلت سے کام نہ لو ورنہ ناکام ہوگا _

۵_ قائم آل محمد کے قیام سے قبل حاکمیت خدا کے مقابلہ میں جو پرچم بلند ہوگا اس کا حاکم شیطان ہے کہ جس نے عظمت خدا کو چینج کیا ہے لہذا اس کی آواز پر لبیک نہین کہنا چاہئے _

مذکورہ احادیث صرف ان انقلابات کی تردید کرتی ہیں کہ جن کا رہبر مہدویت کا مدعی ہو اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرے یا باطل اس کا مقصدہو یا ضروری اسباب کے فراہم ہونے سے قبل قیام کرے _ لیکن اگر انقلاب کا رہبر مہدویت کے عنوان سے قیام نہ کرے ، اور حاکمیت خدا کے مقابلہ میں حکومت کی تشکیل کیلئے انقلاب برپا نہ کرے بلکہ اس کا مقصد اسلام و قرآ ن سے دفاع، ظلم و استکبار سے جنگ ، حکومت الہی کی تشکیل اور آسمانی قوانین کا نفاذ ہو اور اس کے اسباب فراہم کر لیئےوں اور ان تمام چیزوں کے بعد وہ لوگوں سے مدد طلب کرلے تو مذکورہ روایات ایسے انقلاب و قیام

۳۸۲

کی مخالفت نہیں کرتی ہیں _ ایسی تحریک کا پرچم شیطان کا پرچم نہیں ہے بلکہ یہ علم طاغوت کے خلاف ہے _ ایسی حکومت کی تشکیل خدا کی حکومت کے مقابلہ میں نہیں ہے بلکہ یہ تو حاکمیت خدا اور امام مہدی کی عالمی حکومت کیلئے زمین ساز ہے _ اس بناپر مذکورہ احادیث ایسے انقلاب و تحریک کی مخالفت نہیں کرتی ہیں _

نتیجہ بحث

چونکہ ہماری بحث بہت طویل ہوگئی ہے اس لئے دو حصوں کے خلاصہ کو بھی اشارتاً بیان کرنا ضروری ہے _ اس کے بعد نتیجہ بیان کریں گے _ پہلے حصہ میں درج ذیل مطالب کا اثبات ہوا ہے :

۱_ قوانین اور سیاسی و اجتماعی منصوبے اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں جیسے ، جہاد ، دفاع ، ظلم و بیدادگری سے جنگ ، عدل و انصاف کی ترویج ،جزاء و سزا کے قوانین ، شہری حقوق ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور مسلمانوں کے آپسی و کفار سے روابط و غیرہ _

۲_ اسلام کے احکام و قوانین نفاذ و اجراء کیلئے آئے نہ کہ پڑھنے اور لکھنے کے لئے _

۳_ اسلام کے قوانین کامکمل اجراء حکومت کی تاسیس اور اداری تشکیلات کا محتاج ہے مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ ایسے افراد کا وجود ضروری ہے کہ جو آسمانی قوانین کے اجراء کی ذمہ داری قبول کریں اور اس طرح مسلمانوں کے معاشر ہ کو چلائیں _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں شامل ہے اور اس کے بغیر کامل طور پر اسلام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

۴_ مسلمانوں کے امور کی زمام اور قوانین اسلام کے اجراء کی ذمہ داری عملی طور پر

۳۸۳

پیغمبر اسلام کے دست مبارک میں تھی _

۵_ اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کا مکمل اجراء رسول خدا کے زمانہ ہی میں واجب نہیں تھا بلکہ تا قیامت واجب رہے گا _

۶_ جب پیغمبر اکرم بقید حیات ہوں یا مسلمانوں کی معصوم امام تک رسائی ہو تو اس زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ حکومت کی تاسیس اور پیغمبر یا امام کی طاقت کے استحکام کی کوشش کریں اور اس کے فرمان کی اطاعت کی اطاعت کریں _ اوراگر مسلمانوں کے درمیان میں ایسا کوئی معصوم نہ ہو تو بھی مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ پرہیزگار فقیہ کو اپنا مدار الہام بنائیں اور اس کی ولایت و حکومت کے استحکام کی کوشش کریں اور اس کے فرمان کی اطاعت کریں _ یعنی ایسی

حکومت تشکیل دیں جو اسلام کے پروگراموں کو نافذ کرسکے اور اسلامی حکومت کے یہی معنی ہیں _

اس بحث کے دوسرے حصہ میں آپ نے مخالف احادیث اور ان کے مفہوم کو ملاحظہ فرمایا ہے _

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ مذکورہ احادیث اپنی سند و دلالت کے باوجود مسلمانوں سے ایسی قطعی و حتمی فریضہ ، یعنی قوانین اسلام کے نفاذ ، کو ساقط کرسکتی ہیں؟

کیا ان احادیث کو ان آیات و روایات کے مقابل میں لایاجا سکتاہے جو کہ جہاد دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ اور مستضعفین سے دفاع کو واجب قرار دیتی ہیں ؟ کیا غیبت امام زمانہ میں اس فرضہ کو مسلمانوں سے ساقط کیاجا سکتا ہے ؟ کیا ایسی احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شارع اسلا م نے اس زمانہ میں اپنے سیاسی و اجتماعی احکام سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور ان کے اجراء کو امام مہدی کے زمانہ پر موقوف

۳۸۴

کردیا ہے ؟ کیا ایسی احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام سے دفاع کرنا واجب نہیں ہے حتی اس کی اساس ہی کیوں نہ خطرہ میں ہو ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں پر خاموش رہنا واجب ہے خواہ کفار و مشرکین ان کی تمام چیزوں پر قابض ہوجائیں ، ان کے جان و مال اور ناموس پر مسلط ہوجائیں ، انھیں ظہور امام تک صبر کرنا چاہئے ؟ کیا مذکورہ احادیث اس سند و مفہوم کے باوجود درج ذیل آیات کے مقابل میں آسکتی ہیں؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم ( توبہ/ ۱۲)

کفر کے سر غناؤ سے جنگ کرو کہ ان کی کسی قسم کا اعتبا رنہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة (توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے تم سب ہی جنگ کرو جیسا کہ وہ تم سے جنگ کرتے ہیں _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال/ ۲۹)

اور ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا ہی باقی رہے

و ما لکم لا تقاتلون فی سبیل الله والمستضعین ( نسائ/ ۷۵)

اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ راہ خدا اور مستضعفین کی نجات کیلئے جہاد نہیں کرتے؟

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کا ن ضعیفا ( نساء / ۷۵)

پس شیطان کااتباع کرنے والوں سے جنگ کرو بے شک شیطان کا مکر بہت ہی کمزور ہے _

و جاهد فی الله حق جهاده ( حج / ۷۸)

اور راہ خدا میں اس طرح جہاد کرو جو اس کاحق ہے _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لاتعتدوا ( بقرہ / ۱۹۰)

اور راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں پس حد سے نہ گزر جاؤ _

۳۸۵

و لتکن منکم امة یدعون الی الخیر و یأمرون بالمعروف و ینهون عن المنکر _ (آل عمران / ۱۰۴)

اور تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے جو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں _

یا ایها الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء لله ( نسائ/ ۱۳۵)

ایمان لانے والو عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کیلئے گواہ بنو_

واعدّوا لهم مااستعطتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدوالله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

او ر تم جہاں تک ہوسکے طاقت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو کہ جس سے تم اپنے دشمن اور اللہ کے دشمنوں کو ڈرا سکو _

ایسی ہی دسیوں آیت اور سیکڑوں احادیث ہیں _ مذکورہ احادیث ہرگز مسلمانوں سے اسلام کے قطعی و حتمی فریضہ کو ساقط نہیں کرسکتی ہیں بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ دین کی اشاعت ، اسلام ومسلمانوں سے دفاع اور قرآن کے حیات بخش پروگراموں کے اجراء میں کوشش کریں خواہ اس سلسلہ میں سب کو جہاد کرنا پڑے _

اس اہم امر کو انجام دینے کے سلسلہ میں فقہائے اسلام اور علمائے دین کی سخت ذمہ اری ہے _ کیونکہ وہ انبیاء کے وارث ، دین کے نگہبان اور لوگوں کی پناہ گاہ ہیں _ کیا علما و فقہا کو یہ حق حا صل ہے کہ وہ انکفار مستکبرین اور طاغوت کے مقابلہ میں خاموش رہیں کہ جنہوں نے ملت اسلامیہ کو بدبخت بنا دیا ہے ؟ اور مستضعفین و محرومین کو ایک عظیم انقلاب کی تشویق نہ دلائیں ؟ کیا حضرت امیر المؤمنین (ع) نے نہیں

۳۸۶

فرمایا؟

'' قسم اس خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور انسانوں کو پیدا کیا ، اگر میری بیعت کیلئے اتنا مجمع نہ آتا اور اس طرح مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اگر خدا نے علی سے یہ عہد نہ لیا ہو تا کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے تو میں شنر خلافت کی رسی کو اس کی پشت پر ڈالدیتا کہ وہ جہاں چاہے چلا جائے ''_(۱)

کیا امام حسین (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) سے یہ نقل نہیں کیا ہے ؟:

من را ی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم ناکثاً لعهد الله مخالفاًلسنة رسول الله صلی الله علیه و آله یعمل فی عبادالله بالاثم و العدوان فلم یغيّر علیه بفعل و لا قول کان حقاً علی الله ان یدخله مدخله '' (۲)

'' جو شخص ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے حرام خدا کو حلال کردیا ہے اور حدود خدا کو توڑدیا ہے ، پیغمبر (ص) کی سنت کو پامال کررہا اور خدا کے بندوں کے درمیان گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اس کے باوجود (دیکھنے والا) اپنے قول و عمل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو خدا کو حق ہے کہ اسے ظالم کے ساتھ جہنّم میں ڈالد ے '' _

____________________

۱_ نہج البلاغہ خطبہ /۲_

۲_ الکامل فی التاریخ ج ۴ ص ۴۸ چھاپ بیروت _

۳۸۷

دوسری جگہ امام حسین (ع) فرماتے ہیں :

ذالک بان مجاری الامور والاحکام علی ایدی العلماء بالله الامناء علی حلاله و حرامه ، فانتم المسلموبوت تلک المنزلة و ما سلبتم ذالک الاّ بتفرقکم ع الحق و اختلافکم فی السنة بعد البيّنة الواضعة و لو صبرتم علی الاذی و تحملتم المؤونة فی ذات الله کانت امور الله علیکم تردو عنکم تصدر والیکم ترجع و لکنکم مکنتم الظلمة من منزلتکم و استسلمتم امور الله فی ایدیهم یعمولن بالشبهات و یسیرون فی الشهوات سلّطهم علی ذالک فرارکم من الموت و اعجابکم بالحیاة التی هی مفارقتکم فاسلمتم الضعفاء فی ایدیهم فمن بین مستعبد مقهور و بین مستضعف علی معیشتهم مغلوب ، یتقلبون فی الملک بآرائهم و یستشعرون الخز ی باهوائهم اقتداء بالاشرار و جراة علی الجبار _(۱)

یہ اس لئے ہے کہ امور و احکام علماء کے ہاتھ میں ہیں وہ خدا کے حلال و حرام میں اس کے امین ہیں اور تم نے اس عظمت و منزلت کو گنوادیا ہے اور یہ عظمت تم سے اس لئے سلب ہوئی ہے کہ تم نے حق کے سلسلہ میںافتراق کیا اور واضح دلیلوں کے باوجود سنت پیغمبر کے بارے میں اختلاف

____________________

۱_ تحف العقول ص ۲۴۲_

۳۸۸

کیا _ اگر تم نے صبر کیا ہوتا اور راہ خدا میں سختیاں برداشت کی ہوتیں تو امور خدا تم پر وارد ہوتے اور تم ہی سے صادر ہوتے اور تم ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن تم نے اپنے فریضہ کی انجام وہی میں کوتاہی کرکے اپنی جگہ پر دشمن کو بٹھادیا ہے اور امور خدا کو اس کے سپردکردیا تا کہ وہ جیسا چاہیں کریں _ تمہارے موت سے فرار کرنے اور دنیا سے دل لگانے کی وجہ سے وہ تم پر مسلط ہوگئے کمزور و محروم لوگوں کو تم ہی نے ظالموں کے ہاتھ میں دیا ہ تا کہ وہ ان میں سے بعض کو غلام بنالیں اور بعض کونان شبینہ کا محتاج بنادیں اور ظلم اپنی خواہش کے مطابق حکومت کریں اور اپنی ملت کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کریں اور اس میں وہ اشرار کی پیروی کریں اور خدا کی مخالفت میں جری ہوجائیں _

علماء و فقہا پر اسلام میں اتنی ہی سنگین ذمہ داری ہے _ اگر وہ اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تو قیامت میں ان سے بازپرس ہوگی _ صرف درس دینا بحث و مباحثہ ، تقریرات نویسی ، نماز پڑھنا اور مسائل بیان کرنا ہی نہیں ہے بکلہ ان کا سب سے بڑا فریضہ دین اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، کفر و الحاد سے جنگ اور اسلام کے احکام و قوانین کے اجراء میں کوشش کرنا ہے _ اگر اس سلسلے میں کوتاہی کریں گے تو خدا کے سامنے وہ کوئی عذر پیش نہیں کر سکیں گے اوراس اہم ذمہ داری کو چند ضعیف حدیثوں سے تمسک کرکے وہ سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں _

کیا خدا و رسول (ص) ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم دشمنوں کی خطرناک سازشوں اور اسلامی ممالک سے ان کی افسوس ناک رقابت پر خاموش رہیں اور ماضی کی طرح بحث و مباحث اور اقامہ نماز پر اکتفا کریں؟ ہرگز نہیں _

۳۸۹

ظہورکی کیفیت

حسب سابق ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور اولین سوال ڈاکٹر صاحب نے اٹھایا :

ڈاکٹر: اجمالی طور پر امام زمانہ کے ظہور کی کیفیت بیان کیجئے _

ہوشیار : اہل بیت کی احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب دنیا کے حالات سازگار ہوجائیں گے اور حکومت حق کو قبول کرنے کیئے دنیا والوں کے قلب آمادہ ہوجائیں گے اس وقت خداوند عالم امام مہدی کوانقلاب کی اجازت دے گا چنانچہ آپ یکایک مکہ میں ظاہر ہوں گے اور منادی حق دنیا والوں کے کانوں تک آپ (ع) کے ظہور کی بشارت پہنچائے گا _ دنیا کے برگزیدہ افراد ، کہ بعض روایات میں جن کی تعداد تین سو نیرہ بیان ہوئی ہے _ ندائے حق پر سب سے پہلے لبیک کہیں گے اور لمحوں میں ولی خدا کی طرف کھینچ آئیں گے _

امام صادق کا ارشاد ہے : جب صاحب الامر ظہور فرمائیں گے کچھ شیعہ جوان پہلے سے کسی وعدہ کے بغیر شب میں مکہ یہنچ جائیں گے _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۷۰_

۳۹۰

اس کے بعدآپ اپنی دعوت عام کا سلسلہ شروع کریں گے _ مظلوم و مایوس لوگ آپ کے پاس جمع ہوجائیں گے _ بیعت کریں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے شجاع ، فداکار اور اصلاح طلب لوگوں فوج تیار ہوجائے گی _ امام زمانہ کے انصار کی توصیف میں امام محمد باقر و امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب پر قابض ہوجائیں گے دنیا کی ہر چیز کو مسخر کرلیں گے، ان میں سے ہر ایک میں چالیس مردوں کی قوت ہوگی ، ان کے دل فولاد کے ہیں ، مقصد کے حصول میں اگر پہاڑ بھی سامنے آئے گا تو اسے بھی ریزہ ریزہ کردیں گے ، اس وقت تک جنگ سے دست بردار نہ ہوں گے جب تک خدا راضی نہ ہوگا _(۱)

اس زمانہ میں ظالم و خود سر حاکمان خطرہ محسوس کریں گے ، دفاع کیلئے اٹھیں گے اور اپنے ہم مسلکوں کو امام زمانہ کی مخالفت کی دعوت دیں گے ، لیکن عدل دوست و اصلاح پسند سپاہی جو کہ ظلم و جور سے عاجز آچکے ہیں ، متحد ہوکر ان پر حملہ کریں گے ، خدا کی مدد سے ان کا قلع قمع کریں گے اور تہ تیغ کریں گے ، ہر

جگہ خوف و ہراس طاری ہوگا اور ساری دنیا حکومت حق کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائے گی _

بہت سے کفار صدق و حقیقت کی علامتیں دیکھ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے اور جو اپنے کفر و ظلم پر اٹل رہیں گے انھیں امام زمانہ کے سپاہی قتل کریں گے ، پوری دنیا میں اسلام کی مقتدر و طاقتور حکومت تشکیل پائے گی اور لوگ دل و جان سے اسکی حفاظت و نگہبانی کی کوشش کریں گے(۲) اور ہر جگہ ، اسلام کا بول بالا ہوگا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۷

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۷۹ تا ص ۳۸۰

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۵۵ ،اثبات الہداة ج ۷ ص ۵۰

۳۹۱

کفار کی سرنوشت

ڈاکٹر : امام زمانہ کی حکومت کے دوران کفار و مشرکین کی سرنوشت کیا ہوگی ؟

ہوشیار : آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں غیر کتابی کفار اور ملحدین سے زمین کی طاقت و قدرت چھین لی جائے گی اور اس پر مسلمانوں کا تسلط ہوگا مثال کے طور پر چند آیات پیش کرتا ہوں _

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے توریت کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہمارے صالح بندے زمین کے وارث ہوں گے ''( ۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

'' خدا وہ ہے جس نے دین حق کے ساتھ اپنے رسول (ص) کو مبعوث کیا تا کہ وہ تمام ادیان پر غالب ہوجائے _ اگرچہ مشرکوں کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو _(۲)

____________________

۱_ انبیاء / ۱۰۵

۲_ صف / ۹۰

۳۹۲

نیز ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو خلیفہ بنایا تھا اورانھیں یہ بشارت دی ہے کہ جو دین ان کیلئے پسند کیا ہے وہ اسے غلبہ عطا کرے گا اور ان کے خوف کو اطمینان و سکون سے بدل دے گا تا کہ و ہ میرے عبادت کریں اور کسی کو شریک نہ قرار دیں _(۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

اور ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو روئے زمین پرکمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں او رانھیں زمین کا وارث قرا ردیں اور طاقت عطا کریں _(۲)

مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ جس میں شائستہ و صالح مومنون اور مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور نور اسلام کے سامنے تمام ادیان ماند پڑجائیں گے اور اسلام ہی کا بول بالا ہوگا _ احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ کے زمانہ حکومت میں روئے زمین سے کفر و

شرک کی طاقت کاخاتمہ ہوجائے گا اور موحد و کلمہ توحید کے پڑھنے والوں کے علاہ کوئی باقی نہ رہے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں پیغمبر(ص) اسلام کا ارشادہے :

اگر دنیا کی عمر کا صرف ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس شخص کو مبعوث

____________________

۱_ نور / ۵۴

۲_ قصص/ ۴

۳۹۳

کرے گا جس کا نام میرا نام ہے ، جس کا اخلاق میرا اخلاق ہے اور جس کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور ان کے ذریعہ دین کو عظمت رفتہ عطا کرے گا ، انھیں فتح عطا کرے گا اور روئے زمین پر کلمہ توحید کے پڑھنے والوں کے علاوہ کسی کا وجود نہ ہوگا ، عرض کیا گیا : یہ شخص آپ (ص) کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنا دست مبارک حسین کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس سے _(۱)

حضرت ابو جعفر نے فرمایا:

'' قائم اور ان کے اصحاب اس وقت تک جنگ کریں گے کہ جب تک مشرکوں کا خاتمہ نہ ہوگا _(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۱۵ و ص ۲۴۷

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۴۵

۳۹۴

یہود و نصاری کی سرنوشت

ڈاکٹر : یہود و نصاری تو آسمانی مذہب کے ماننے والے ہیں ان کے سرنوشت کیا ہوگی ؟

ہوشیار: بعض آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تا قیامت باقی رہیں گے _ خداوند عالم کا ارشادہے :

'' ہم نے نصرانیت کا دعوی کرنے والوں سے عہد لیا _ لیکن انہوں نے ہماری بعض نصیحتوں کو فراموش کردیا تو ہم نے بھی قیامت تک کیلئے ان کے درمیان کینہ و عداوت ڈال دی '' _(۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

'' خدا نے عیسی سے فرمایا: ہم تمہاری دنیوی عمر تمام کرنے والے اور تمہیں اپنی طرف پلٹانے والے اور تمہیں کفار سے نجات دلانے والے اور تمہارا اتباع کرنے والوں کو قیامت کیلئے کفار پر تسلط عطا کرنے والے ہیں '' _(۲)

____________________

۱_ مائدہ / ۱۴

۲_ آل عمران / ۵۵

۳۹۵

پہلی آیت میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے : ہم ان کے درمیان قیامت کیلئے کینہ توزی و عداوت ڈالدیں گے _ دوسری آیت میں فرماتا ہے : نصاری قیامت تک کفار سے بلند رہیں گے _ ان دو آیتوں کے ظاہر کا مقتضی یہ ہے کہ نصاری کا مذہب قیامت تک اور امام مہدی کے زمانہ (ع) حکومت میں بھی باقی رہے گا _

سورہ مائدہ میں ارشاد ہے:

'' یہود کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں _ حقیقت یہ ہے کہ ان ہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہ اپنے قول کی بناپر ملعوں ہیں اور خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ آپ (ص) کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اس کا انکار ان میں سے بہت سول کے کفر اور ان کی سرکشی کو اور بڑھادے گا اور ہم قیامت کیلئے ان کے درمیان بغض و عداوت پیدا کردیں گے _(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: ان آیتوں کے ظاہر کی دلالت اس بات پر ہے کہ نصاری و یہود کامسلک قیامت تک باقی رہے گا _

بعض احادیث سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے ، مثلاً:

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : اہل ذمہ _ یہود و نصاری _ کے ساتھ صاحب الامر کا کیا سلوک ہوگا ؟ فرمایا : پیغمبر کی مانند ان سے مصالحت کریں گے اور وہ بھی نہایت ہی انکسار کے ساتھ جزیہ

____________________

۱_ مائدہ -۶۴

۳۹۶

دیں گے _(۱)

حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں : مہدی (عج) کو صاحب الامر اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ توریت اور تمام آسمانی کتابوں کو اس غار سے نکالیں گے جو کہ انطاکیہ میں واقع ہے _ توریت والوں کے درمیان توریت سے ، انجیل والوں کے درمیان انجیل سے اور زبور والوں کے درمیان زبور سے قضاوت کریں گے _(۲)

ان احادیث و آیات کے مقابلہ میں جو مخالف احادیث بھی موجود ہیں کہ جنکی دلالت اس بات پر ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں روئے زمین پر مسلمانوں کے علاوہ کسی کا وجود نہ ہوگا _ آپ یہود و نصار ی کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے جو قبول کریگا وہ نجات پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ قتل کیا جائے گا _ مثلاً:

ابن بکیر کہتے ہیں : میں نے حضرت ابو الحسن سے آیہ '' ولہ اسلم من فی السموات و الارض طوعاً و کرہاً و الیہ یرجعون'' کی تفسیر دریفات کی تو فرمایا:

یہ حضرت قائم کی شان میں نازل ہوئی ہے _ ظہور کے بعد آپ یہود ، نصاری ، صائبین اور مشرق و مغرب کے کافروں کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے ، پس جو شخص راضی برضا اسلام قبول کرے گا ، اسے نماز پڑھنے اور زکوة کی ادائیگی اور دیگر واجبات کا حکم دیں گے اور جو قبول کرنے سے روگردانی کریگا اسکی گردن ماریں گے _ یہاں تک کہ روئے زمین پر موحدین کے علاوہ

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۸۱و ص ۳۷۶_

۲_ غیبت نعمانی ص ۱۳۵_

۳۹۷

کوئی باقی نہ رہے گا _ ابن بکیر کہتے ہیں : میں نے عرض کی قربان جاؤں _کیا دنیا کے اتنے لوگوں کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ فرمایا : جب خدا کسی کام کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس وقت کم و زیادہ اور زیادہ کم کردیتا ہے _(۱)

حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں : خدا دنیا کے مشرق و مغرب میں صاحب الامر کو فتح عطا کرے گا آپ اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک دین محمد پور ی دنیا میں نافذ ہوگا _(۲)

ابوجعفر (ع) ہی آیہ لیظہرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون کی تفسیر بیان فرماتے ہیں دنیا میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچے گا جو محمد کا کلمہ نہیں پڑھے گا _(۳)

جیسا کہ آپ (ع) نے ملاحظہ فرمایا : احادیث کے دو حصے ہیں _ ان میں سے ایک قرآن کے موافق اور دوسرا مخالف ہے ، علما پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ قرآن کے موافق والا حصہ مقدم ہے اور مخالف قرآن کا کوئی اعتبار نہیں ہے _ اس بناپر ، حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں یہود و نصاری باقی رہیں گے لیکن تثلیث و

شرک کا عقیدہ ترک کردیں گے صرف خدا کی عبادت کریں گے اور اسلامی حکومت کی پناہ میں زندگی بسر کریں گے _ باطل حکومتوں کاتختہ الٹ جائے گا اور دنیا کی حکومت با صلاحیت مسلمانوں کے دست اختیار میں آجائے گی اور دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوگا اور ہرجگہ کلمہ توحید کا ہمہمہ ہوگا امام صادق (ع) فرماتے ہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۴۰

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۹۰

۳_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۶_

۳۹۸

جب امام مہدی ظہور فرمائیں گے اس وقت زمین کے گوشہ گوشہ سے اشہد ان لا الہ الا اللہ و ان محمداً رسول اللہ کی آواز بلند ہوگی _(۱)

حضرت ابوجعفر (ع) کاارشاد ہے : ظہور قائم کے بعد باطل حکومت ہمیشہ کیلئے نیست و نابود ہوجائے گی _(۲)

حضرت ابو جعفر نے فرمایا : خدا ائمہ اور مہدی (عج) کو مشرق و مغرب کا حاکم قرار دے گا _ ان کے ذریعہ دین کو مضبوط کرےگا _ بدعتوں کو ختم کرے گا _ اس وقت ظلم مٹ جائیگا وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں گے _(۳)

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی فرزند رسول آپ اہل بیت کے قائم کوں ہیں ؟ فرمایا : ابوبصیر میرے بیٹے موسی کے پانچویں فرزند ہیں _ یہ بہترین کنیز کے بطن سے ہوں گے _ ان کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ اس کے بعد خداظاہر ہونے کا حکم دے گا اور مشرق و مغرب پر انھیں فتح عطا کرے گا _ عیسی بن مریم نازل ہوں گے اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے _ زمین اس وقت نور خدا سے چمک اٹھے گی اور جہاں جہاں بھی غیر خدا کی عبادت ہوتی تھی وہاں خدا کی عبادت ہوگی _ صرف دین خداہوگا اگر چہ مشرکوں کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو _(۴)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۴۰

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۶۲

۳_بحار الانوار ج ۵۱ ص ۴۷

۴_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۴۶

۳۹۹

پیغمبر اسلام نے حضرت علی سے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہونگے ، ان میں سے پہلے تم اور آخری قائم ہے کہ جن کے ہاتھوں پر خدا مشرق و مغرب کو فتح کرے گا _(۱)

انجینئر : اس سلسلہ میں ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے لیکن وقت ختم ہوچکا ہے اس سے زیادہ ڈاکٹر صاحب اوردیگر احباب کا وقت نہ لیا جائے اگر اجازت ہو تو آئندہ جلسہ میں اسے پیش کروں _

* * *

جلسہ ختم ہوگیا اور یہ طے پایا کہ اگلے ہفتہ احباب جناب جلالی صاحب کے گھر تشریف لائیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۷۸_

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455