آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181875 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

کیلئے قیام کرے گا وہ مشکلوں میں گرفتار اور شکست سے دوچار ہوگا _ اوریہ اس وقت تک ہوگا جب تک ایسے افراد قیام نہ کریں گے جیسے جنگ بدر میں شریک ہوئے اور مجاہدوں کی مدد کے لئے دوڑ پڑے ، ان میں سے کوئی شہید نہیں ہوا کہ دفن کیا جاتا ، کوئی مجرو ح نہیں ہوا جس کا علاج کیا جاتا ، راوی کہتا ہے : اما م کی مراد کون لوگ ہیں ؟ فرمایا: وہ ملائگہ ہیں جو جنگ بدر میں اسلامی لشکر کی مدد کیلئے نازل ہوئے تھے''_

حدیث چہارم:

ابوالجارود عن ابی جعفر علیه السلام قال قلت له اوصنی فقال اوصیک بتقوی الله و ان تلزم بیت و تقعد فی دهمک هؤلاء الناس وايّاک و الخوارج منّا فانهم لیسوا علی شیئی (الی ان قال) و اعلم انه لا تقوم عصابة تدفع ضیماً او تعزّدینا الاّ صرعتهم البلیة حتی تقوم عصابة شهدوا بدراً مع رسول الله صلی الله علیه و آله لا یواری قتیلهم و لا یرفع صریعهم و لا یداوی جریحهم ، فقلت : من هم ؟ قال : الملائکة _

(مستدرک ج ۲ ص ۲۴۸)

ابوجارود کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : مجھے کچھ وصیت فرمایئے فرمایا : میں تمہیں خدا کا تقوی اختیار کرنے اوراپنے گھر میں بیٹھے رہنے کی وصیت کرتا ہوں اور خفیہ طریقے سے ان ہی لوگوں میں زندگی گزارو اور ہم میں سے قیام کرنے والوں سے اجتناب کرو _

۳۶۱

کیونکہ وہ حق پر نہیں ہیں اور ان کا مقصد صحیح نہیں ہے ( یہاں تک کہ فرمایا:) جان لو جو گروہ بھی ظلم مٹانے اور اسلام کی سربلندی اور اقتدار کیلئے قیام کرے گا اسی کو بلائیں اور مصیبتیں گھر لیں گی ، یہاں تک وہ لوگ قیام کریں گے جو کہ جنگ بدر میں شریک ہوئے تھے _ ان میں سے کوئی بھی قتل نہیں ہوا تھاکہ دفن کیا جاتا ، زمین پر نہیں گرا تھا کہ اٹھایا جاتا ، مجروح نہیں ہوا تھا کہ علاج کیاجاتا ، راوی نے عرض کی یہ کون لوگ ہیں ؟فرمایا : ملائکہ '' _

سند حدیث

مذکور ہ تینوں حدیثیں سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہیں کیونکہ ان کا راوی ابوالجارود ہے جو کہ زید ی المسلک تھا اور خود فرقہ جارودیہ کا بانی ہے _ رجال کی کتابوں میں اسے ضعیف قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

ان احادیث میں امام نے ان شیعوں کو ایک خارجی حقیقت سے خبردار کیا ہے جو کہ قیام کرنے کا اصرار کرتے تھے _ آپ نے فرمایا ہے ہم ائمہ میں سے جو بھی مہدی موعود کے قیام سے پہلے قیام کرے گا وہ کامیاب نہیں ہوگا اور شہید کردیا جائے گا او راس کی شکست اسلام کے حق میں نہیں ہے _ ہم اہل بیت میں سے صرف انقلاب مہدی کامیاب ہوگا کہ جن کی مدد کیلئے خدا کے فرشتے نازل ہوں گے _ یہ احادیث ائمہ کے قیام کی خبر دے رہی ہیں اور ان کے قیام نہ کرنے

کی علت بیان کررہی ہیں ، دیگر انقلابات سے ان کا تعلق نہیں ہے _

۳۶۲

اگر حدیث میں وارد لفظ ''منّا'' سے امام کی مراد علوی سادات ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ جو انقلاب بھی علویوں میں سے کسی کی قیادت میں آئے گا وہ پامال ہوگا اور قائد قتل ہوگا تو بھی اس کی دلالت قیام و انقلاب سے ممانعت پر نہیں ہے بالفرض اگر یہی حقیقت ہے _ تو احادیث ایک خارجی حقیقت کو بیان کررہی ہیں اور وہ یہ کہ انقلاب مہدی سے پہلے جو انقلاب رونما ہوں گے وہ مکمل طور پر کامیاب نہیں ہوں گے اور اس کا سردار قتل ہوگا لیکن یہ احادیث راہ خدا میں جہاد جیسے قطعی و مسلم فریضہ ، اسلام اور مسلمانوں سے دفاع امر بالمعروف اور نہی عن المنکر اور ظلم و بیدادگری اور استکبار سے مبارزہ کو ساقط نہیں کرتی ہیں _ قتل ہوجانے کی خبر اور شیء ہے اور فرض کرنا دوسری چیز ہے _ امام حسین (ع) کو بھی اپنی شہادت کا علم تھا لیکن اس کے باوجود نظام اسلام سے دفاع کی خاطر یزید کی طاغوتی حککومت کے خلاف قیام کیا _ اپنا فرض پورا کیا اور جام شہادت نوش فرمایا _ اسی طرح زیدبن علی بن الحسین اگر چہ اپنی شہادت کے بارے میں امام صادق (ع) سے سن چکے تھے لیکن انہوں نے اپنے شرعی فریضہ پر عمل کیا اور اسلام و قرآن سے دفاع کیلئے قیام کیا اور شہادت سے ہمکنار ہوئے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ راہ خدا میں جہاد ، امر بالمعروف نہی عن المنکر اور محروم و مستضعفین سے دفاع کریں خواہ اس سلسلے میں ان کے بہت سے آدمی شہید ہوجائیں _ کیونکہ شہید ہونا شکست کے مترادف نہیں ہے _ حق تو یہ ہے کہ اسلام نے جو کچھ دنیا میں ترقی کی ہے اور باقی رہا ہے تو یہ امام حسین اور آپ کے اصحاب اور زید بن علی یحیی بن زید و حسین شہید فتح ایسے فداکار انسانوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ جنہوں نے قطعی طور پر اپنی جان کی پروا نہیں کی تھی _ اس بنا پر مذکورہ احادیث مسلمانوں سے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے شرعی فریضہ کو ساقط

۳۶۳

نہیں کر سکتی ہیں _

اس پر جلسہ کا اختتام ہوا اور آئندہ شنبہ کی شب میں فہیمی صاحب کے گھر جلسہ منعقد ہوا _

فہیمی : ہوشیار صاحب اپنی بحث کی تکمیل کیجئے _

ہوشیار: تیسرا حصّہ

جو احادیث ظہور امام مہدی کی علامتوں کے ظاہر ہونے سے قبل کسی بھی قیام و انقلاب سے اجتناب کا حکم دیتی ہیں _

حدیث اوّل :

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عثمان بن عیسی عن بکر بن محمد عن سدیر قال ، قال ابوعبدالله علیه السلام : یا سدیر الزم بیتک و کن حلساً من احلاسه و اسکن ما سکن اللیل و النهار فاذا بلغک ان السفیانی قدخرج فارحل الینا و لو علی رجلک

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام صادق (ع) نے سدیر سے فرمایا: اپنے گھر میں بیٹھے رہو اور جب تک شب و روز ساکن ہیں تم بھی جنبش نہ کرو جب یہ سنو کہ سفیانی نے خروج کیا ہے تو اس وقت تم ہمارے پاس آنا خواہ پیادہ ہی آنا پڑے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے قطعی قابل اعتماد نہیں ہے _ کیونکہ سند میں عثمان بن سعید بھی ہیں جو کہ واقفی ہیں _ امام موسی بن جعفر کی حیات میں آپ (ص) کے

۳۶۴

وکیل تھے لیکن آپ کی وفات کے بعد واقفی ہوگئے تھے اورامام رضا (ع) کے پاس سہم امام نہیں بھیجتے تھے اسی وجہ سے امام رضا (ع) ان سے ناراض ہوگئے تھے _ اگر چہ بعد میں توبہ کرلی اور امام کی خدمت مین اموال بیھیجنے لگے تھے _ اسی طرح سدیر بن حکیم صیرفی کا ثقہ ہونا بھی مسلم نہیں ہے _

حدیث دوم

احمد عن علی بن الحکم عن ابی ایوب الخزاز عن عمر بن حنظله قال سمعت ابا عبدالله علیه السلام یقول: خمس علامات قبل القیام القائم : الصیحة والسفیانی و الخسف و قتل النفس الزکیة و الیمانی ، فقلت جعلت فداک ان خرج احد من اهل بیتک قبل هذاه العلامات انخرج معه؟ قال : لا_

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

''امام جعفر صادق (ع) فرماتے ہیں _ قائم کے انقلاب و قیام سے قبل پانچ علامتیں ظاہر ہوں گے ۱_ آسمانی چیخ ۲_ خروج سفیانی ۳_ زمین کے ایک حصہ کا دھنس جانا ۴_ نفس زکیہ کا قتل ۵_ یمانی کا خروج راوی نے عرض کی فرزند رسول (ع) اگر آپ حضرات میں سے کوئی علائم ظہور سے قبل قیام کرے تو ہم بھی اس کے ساتھ خروج کریں ؟ فرمایا نہیں _

سند حدیث

مذکورہ حدیث قطعہ قابل اعتبار نہیں ہے کیونکہ عمر بن حنظلہ کی توثیق ثابت نہیں ہے _

۳۶۵

حدیث سوم :

محمد بن الحسن عن الفضل بن شاذان عن الحسن بن محبوب عن عمرو بن ابی المقدام عن جابر عن ابی جعفر علیه السلام قال : الزم الارض و لا تحرک یداً ولا رجلاً حتی تری علامات اذکرها لک وما اراک تدرکها : اختلاف بنی فلان و منا دینادی من السماء و یجیئکم الصوت من ناحیة دمشق

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۱)

جابر کہتے ہیں کہ : حضرت امام محمد باقر (ع) نے فرمایا: زمین نہ چھوڑو ، اپنے ہاتھ اور پیر کو حرکت نہ دو یہاں تک وہ علامت ظاہر ہوجائے جو میں تمہیں بتاتا ہوں شائد تم درک نہیں کروگے : فلان خاندان _ شائد بنی عباس _ کا اختلاف آسمانی منادی کی ندا اور شام کی طرف سے آنے والی آواز ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث بھی قابل اعتماد نہیں ہے کیونکہ عمر بن ابی المقدام مجہول ہے _ شیخ الطائف نے فضل بن شاذان سے دو طریقوں سے روایت کی ہے اور دونوں کو ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث چہارم :

الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن احمد بن محمد العلوی عن حیدر بن محمد بن نعیم عن محمد بن عمرالکشی عن حمدویه عن محمد بن عیسی عن الحسین بن خالد

۳۶۶

قال: قلت لابی الحسن الرضا علیه السلام ان عبدالله بن بکر یروی حدیثاً و انا احبّ ان اعرضه علیک فقال : ماذا لک الحدیث ؟ قلت : قال ابن بکیر : حدثنی عبید بن زرارة قال : کنت عند ابی عبدالله علیه السلام ایام خرج محمد ( ابراهیم ) بن عبدالله بن الحسن اذ دخل علیه رجل من اصحابنا فقال له : جعلت فداک ان محمد بن عبدالله قد خرج فما تقول فی الخروج معه ؟ فقال : اسکنوا ما سکنت السماء والارض ، فما من قائم و ما من خروج ؟ فقال ابو الحسن علیه السلام : صدق ابو عبدالله علیه السلام و لیس الامر علی ما تأوّله ابن بکیر _ انما عنی ابو عبدالله علیه السلام اسکنوا ما سکنت السماء من النداء و الارض من الخسف بالجیش _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۹)

حسین بن خالد کہتے ہیں کہ میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : عبداللہ بن بیکر نے مجھے ایک حدیث سنائی ہے _ میں چاہتا ہوں کہ اس کو آپ سے نقل کروں فرمایا : سناؤ کیا ہے ؟ میں نے عرض کی ابن بکیر نے عبید بن زرارہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جب محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا تھا، اس وقت میں امام صادق کی خدمت میں تھا کہ ای صحابی آیا اور عرض کی : قربان جاؤں محمد بن عبداللہ بن حسن نے خروج کیا ہے ان کے خروج کے متعلق آپ کی کیا رائے ہے ؟ فرمایا : جب تک رات دن کی گردش یکسال ہے اس وقت تک تم بھی ساکن و ساکت رہو _ اس میں نہ

۳۶۷

کوئی قیام کرے اور نہ خروج _ امام رضا نے فرمایا : امام صادق نے صحیح فرمایا ہے ، لیکن حدیث کا یہ مفہوم نہیں ہے جو ابن بکیر نے سمجھا ہے بلکہ امام کا مقصد ہے کہ جب تک آس۵مان سے ندا نہ آئے اور زمین فوج کہ نہ دھنسائے اس وقت تک تم خاموش رہو'' _

سند حدیث

مذکورہ حدیث صحیح نہیں ہے کیونکہ رجال کی کتابوں میں احمد بن محمد علوی کو مہمل قرار دیا گیا ہے _ اسی طرح حسین بن خالد نام کے دو اشخاص ہیں _ ایک ابوالعلاء دوسرے صیرفی اور ان دونوں کو موثق نہیں قرار دیا گیا _

حدیث پنجم :

محمد بن همام قال حدثنا جعفر بن مالک الفزاری قال حدثنی محمد بن احمد عن علی بن اسباط عن بعض اصحابه عن ابی عبدالله علیه السلام انه قال : کفّوا السنتکم و الزموا بیوتکم فانه لا یصیبکم امر تخصّون به و لا یصیب العامة و لایزال الزیدیة و قاء لکم ''

( مستدرک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام صادق نے فرمایا : اپنی زبان بندرکھو، اور اپنے گھروں میں بیھٹے رہو کیونکہ تمہیں وہ چیز نہیں ملے گی جو عام لوگوں کو نہیں لتی اور زیدیہ ہمیشہ تمہاری لاوں کی سپر رہیں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے مذکورہ حدیث قابل اعتما دنہیں ہے ، کیونکہ علی بن اسباط

۳۶۸

نے بعض ایسے اصحاب سے حدیث نقل کی ہے جو مجہول ہیں _ اس کے علاوہ طریق حدیث میں جعفر بن (محمد بن ) مالک ہیں کہ جنھیں علماء رجال کی ایک جماعت نے ضعیف قرار دیا ہے _

حدیث ششم :

علی بن احمد عن عبیدالله بن موسی العلوی عن محمد بن الحسین عن محمد بن سنان عن عمار بن مروان عن منخل بن جمیل عن جابر بن یزید عن ابی جعفر الباقرعلیه السلام انه قال : اسکنوا ما سکنت السموات و لا تخرجوا علی احد فانّ امرکم لیسبه خفاء الا انّها آیة من الله عزّ و جل لیست من الناس

( مستدرک السوائل ج ۲ ص ۲۴۸)

یعنی امام محمد باقر (ع) نے فرمایا : جب تک آسمان ساکن ہے اس وقت تک تم بھی سال رہو اور کسی کے خلاف خروج نہ کرو _ بے شک تمہارا امر مخفی نہیں ہے مگر خدا کی طرف سے ایک نشان ہے او راس کا اختیار لوگوں کے ہاتھ میں نہیں ہے ''_

سند حدیث

یہ حدیث بھی سند کے اعتبار سے معتبر نہیں ہے کیونکہ علم رجال کی کتابوں میں منخل بن جمیل کو ضعیف و فاسد الروایت قرار دیا گیا ہے _

احادیث کا مفہوم

مذکورہ احادیث کا مفہوم کے تجزیہ سے قبل آپ کی توجہ ایک نکتہ کی طرف

۳۶۹

مبذول کرادینا ضروری ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اور ائمہ اطہار کے اصحاب ہمیشہ انقلاب مہدی موعود اور قائم آل محمد کے قیام کے منتظر رہے ہیں کیونکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار (ع) سے سنا تھا کہ جب دنیا ظلم و جور سے بھر جائے گی عدل گستر مہدی ظہور فرمائیں گے اور ظلم و کفر کا قلع و قمع کریں گے _ دنیا میں اسلام کا بول با لاکریں گے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے _ شیعوں نے سنا تھا کہ ایسے انسان کا انقلاب کامیاب ہوگا اور تائید الہی اس کے شامل حال ہوگی _ اسی ل ے صدر اسلام کے بحرانی حالت میں قیام و قائم شیعوں کے درمیان گفتگو کا موضوع تھا _ وہ ائمہ اطہار سے کہتے تھے _ ہر جگہ ظلم و جور کی حکمرانی ہے _ آپ کیوں قیام نہیں کرتے _ کبھی دریافت کرتے تھے _ قائم آل محمد کیسا قیام کریں گے ؟ کبھی قائم آل محمد کے ظہور کی علامت کے بارے میں پوچھتے تھے _ ایسے حالات میں بعض علوی سادات موقع سے فائدہ اٹھاتے تھے اور مہدی موعود قائم آل محمد کے نام سے انقلاب بپاکرتے تھے اور طاغوت کی حکومت کو برباد کرنے کے لئے جنگ کرتے تھے لیکن قلیل مدت میں شکست کھاجاتے تھے _

مذکورہ احادیث اسی زمانہ میں صادر ہوئی تھیں _ پس اگر امام اپنے اصحاب میں کسی ایک یا چند اشخاص سے یہ فرماتے ہیں کہ خاموش رہو _ شورش نہ کرو، خروج سفیانی اور آسمانی چیخ کے منتظر رہو، ان چیزوں کا مقصد اس بات کو سمجھانا تھا کہ جس شخص نے اس وقت قیام کیا ہے وہ روایات میں بیان ہونے والے مہدی موعود نہیں ہیں ، مجھے قائم موعود تصور نہ کرو _ قائم آل محمد کے ظہور تک صبر کرو ، اور ان کے قیام و انقلاب کی کچھ مخصوص علامات ہیں _ پس جو شخص بھی قیام و شورش کرے اور تم سے مدد مانگے تو پہلغ تم ان مخصوص علامتوں کو ان کی دعوت میں ملا حظہ کرلو اس کے

۳۷۰

بعد قبول کرلو اگر وہ علامتیں اس کی دعوت میں آشکار نہیں ہیں تو اس کے فریب میں نہ آو _ اسکی آواز پر لبیک نہ کہو اور سمجھ لو کہ وہ مہدی موعود نہیں ہے _ مذکورہ احادیث در حقیقت علوی سادات کی حقیقت کو واضح کرتی ہیں جو کہ مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرتے تھے _ اور اس بات کی وضاحت کرتی ہیں کہ مہدویت کے دعویدار مہدی موعود نہیں ہیں _ ان کے

فریب میں نہ آجانا _ یہ احادیث مسلمانوں کے حتمی و ضروری فرائض جیسے وجوب جہاد، اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، ظلم و بیدادگری سے مبارزہ اور محرومین و مستضعفین سے دفاع کو منع نہیں کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ ظلم و ستم ، فحشا و منکرات ، کفر و الحاد یہاں تک کہ اسلام کو نابود کرنے کے سلسلے میں جو سازشیں کی گئی ہیں ، ان پر خاموشی اختیا رکرو اور امام مہدی کے ظہور کا انتظارکرو کہ وہی دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _ ایسی رکیک بات کو ائمہ معصومین کی طرف منسوب نہیں کیا جا سکتا _ اگر سکوت واجب تھا تو حضرت علی نے اسلام کے دشمنوں سے کیوں جنگ کی ؟ اور اما م حسین نے یزید کے خلاف کیوں قیام کیا ؟ اور زید کے خونین انقلاب کی ائمہ نے کیون تائید کی ؟ اس بناپر مذکورہ احادیث کو قیام و انقلاب کے مخالف نہیں قرارد یا جاسکتا _

چوتھا حصہ

جو احادیث اس بات سے منع کرتی ہیں کہ انقلاب و تحریک میں عجلت سے کام نہ لو _

حدیث اول

عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد عن محمدبن

۳۷۱

علی عن حفص بن عاصم عن سیف التمار عن ابی المرهف عن ابی جعفر علیه السلام قال : الغبرة علی من اثارها ، هلک المحاضیر قلت : جلعت فداک ، و ماالمحاضیر؟ قال المستعجلون اما انهم لن یریدوا الاّ من یعرض علیهم ( الی ان قال) یا ابا المرهف اتری قوماً جسو انفسهم علی الله لا یجعف الله لهم فرجاً؟ بلی والله لیجعلن الله لهم فرجاً _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۶)

امام محمد باقر نے فرمایا: گردو غبار اس کی آنکھوں میں پڑتا ہے جواڑاتا ہے _ جلد باز ہلاک ہوتے ہیں حکومتیں ان لوگوں کو کچلتی ہیں جوان سے ٹکراتے ہیں _ اے ابو مرہف کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ جو لوگ راہ خدا میں اپنی حفاظت کرتے ہیں _ خدا انھیں فراخی نہیںعطا کرے گا ؟ کیوں خدا کی قسم خدا انھیں ضرور کشائشے عطا کرے گا _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے حدیث صحیح نہیں ہے کیون کہ محمد بن علی کوفی ( محمد بن علی بن ابراہیم ) کو رجال کی کتابوں میں ضعیف شمار کیا گیا ہے جبکہ ابومرہف بھی مجہول ہے _

مفہوم حدیث

مذکورہ حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اس زمانہ میں ایک گروہ نے خلیفہ وقت کے خلاف خروج کیا تھا اور اس کی شورش کو کچل دیا گیا تھا _ اسی لئی راوی

۳۷۲

حدیث بھی خوف زدہ اور پریشان تھا کہ کہیں شیعوں پر بھی حرف نہ آئے _ اسی لئے اما م نے اسے تسلی دی کہ تم نہ ڈرو ان لوگوں کی چھان بین کی جائے گی جنہوں نے خروج کیا تھا _ تم پر آنچ نہیں آئے گی _ تم ظہور کے وقت تک خاموش رہو _ اس حدیث کو بھی قیام کے مخالف نہیں کیا جا سکتا _

حدیث دوم

'' الحسن بن محمد الطوسی عن ابیه عن المفید عن ابن قولویه عن ابیه عن احمد بن علی بن اسباط عن عمّه یعقوب بن سالم عن ابی الحسن العبیدی عن الصادق علیه السلام قال : ما کان عبد لیحبس نفسه علی الله الا دخله الجنة '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۲۹)

اما م صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے : جو شخص بھی خدا کیلئے صبر و پائیداری سے کام لیتا ہے خدا اسے جنت میں جگہ عطا فرمائے گا _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح ہے اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

مفہوم حدیث

اس حدیث میں امام صادق نے نفس پر قابو رکھنے اور پائیداری سے کام لینے کا حکم دیا ہے _ لیکن سکوت و صبر کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قیام نہ کیا جائے قیام کے ساتھ صبر و پائیداری زیادہ مناسب ہے _

۳۷۳

حدیث سوم :

قال امیر المؤمین علیه السلام : الزموا الارض واصبروا علی البلاء و لا تحرکوا بایدیکم و سیوفکم فی هوی السنتکم ولا تستعجلوا بما لم یعجل الله لکم فانه من مات منکم علی فراشه و هو علی معرفة حق ربّه و حق رسوله و اهل بیته مات شهیدا ووقع اجره علی الله و استوجب ثواب ما نوی من صالح عمله وقامت النیة مقام اصلاته بسیفه فان لکل شیئی مدة واجلا

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۴۰)

حضرت امیر المومنین کا ارشاد ہے : زمین پکڑ کر بیٹھے رہو ، بلاؤں پر صبر کرو اور اپنی زبان کی بناپر تلوار اور ہاتھوں کو حرکت نہ دو ، جس کام میں خدا نے عجلت نہین کی ہے تم بھی اس میںتعجیل نہ کرو، بے شک جو بھی تم میں سے اس حال میں اپنے بستر پر مرے گا کہ خدا و رسول اور اہل بیت کی معرفت سے اس کا قلب سرشار ہو تو وہ شہید کی موت مرے گا اور اس کا اجر خدا پرہے _ او راسے اس نیت عمل کا بھی ثواب ملے گا _ جس کی نیت کی تھی تلوار چلانے کی نیت کا بھی ثواب ملیگا _ بے شک ہر چیز کا ایک مخصوص وقت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث نہج البلاغہ سے منقول ہے ، معتبر ہے _

حدیث چہارم :

۳۷۴

محمد بن یحیی عن محمد بن الحسین عن عبدالرحمن بن ابی هاشم عن الفضل الکاتب قال کنت عند ابی عبدالله علیه السلام فاتاه کتاب ابی مسلم فقال : لیس لکتابک و جواب اخرج عنا ( الی ان قال ) قلت : فما العلامة فیما بیننا و بین جعلت فداک؟ قال لا تبرح الارضه یا ف ضیل حتی یخرج السفیانی ، فاذا خرج السفیانی فاجیبوا الینا ، یقولها ثلاثاً ، و هو من المحتوم '' _

(وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

فضل کہتے ہیں : میں امام صادق (ع) کی خدمت میں تھا کہ ابو مسلم خراسانی کا خط آپ (ع) کے پاس پہنچا _ اما م نے حامل رقعہ سے فرمایا: تمہارا خط اس لائق نہیں ہے کہ اس کا جواب دیا جائے ، جاؤ ، خدا بندوں کی جلد بازی سے تعجیل نہیں کرتا ہے _ بے شک پہاڑ کو اپنی جگہ سے اکھاڑکر پھینکنا آسان ہے لیکن اس حکومت کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جس کا وقت نہ آیا ہو _ راوی نے عرض کی : پس ہمارے اور آپ (ع) کے درمیان کیا علامت ہے ؟ فرمایا : سفیانی کے خروج تک اپنی جگہ سے حرکت نہ کرو ، اس وقت ہمارے پاس آنا ، اس بات کو آپ (ع) نے تین مرتبہ دھرایا چنانچہ سفیانی کا خروج حتمی علامت ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _

حدیث پنجم :

محمد بن علی بن الحسین باسناده عن حماد بن عمرو و انس

۳۷۵

بن محمد عن ابیه عن جعفر بن محمد عن آبا ئ ه علیهم السلام ( فی وصیة النی صلی الله علیه و آله لعی علیه السلام ) قال : یا علی ازالة الجبال الرواسی اهون من ازالة ملک لم تنقض ایامه ''

( وسائل الشیعہ ج۱۱ ص ۳۸)

رسو ل خدا نے حضرت علی سے فرمایا : پہاڑوں کو اکھاڑنا آسان ہے لیکن ان حکومتوں کا تختہ پلٹنا آسان نہیں ہے جن کا وقت نہ آیا ہو _

سند حدیث

یہ حدیث سند کے اعتبار سے صحیح نہیں ہے کیونکہ حماد بن عمرو مجہول ہے چنانچہ انس بن محمد مہمل ہے اور اس کے والد محمد کو رجال کی کتابوں میں اہمیت نہیں دی گئی ہے _

حدیث ششم

حمید بن زیاد عن عبید الله بن احمد الدهقان عن علی بن الحسن الطاهری عن محمد بن زیاد عن ابان عن صباح بن سیابنه ع المعلی بن خنیس قال ذهبت بکتاب عبد السلام بن نعیم و سدیر و کتب غیر واحد الی ابیعبدلله علیه السلام حین ظهر المسودة قبل ان یظهر ولد العباس : انّا قدّرنا ان یؤل هذا الامر الیک فما تری ؟ قال : فضرب بالکتب الارض ، قال : اف اف ما انا لهؤلاء بامام ، اما یعلمون انه انما یقتل السفیانی '' _

( وسائل الشیعہ ج ۱۱ ص ۳۷)

معلّی کہتے ہیں : میں عبد السلام سدیر اور دوسرے چند افراد کے خطوط

۳۷۶

لیکر امام صادق کی خدمت میں حاضر ہوا ، بنی عباس کے آشکار ہونے سے قبل کالے لباس والے ظاہر ہوئے _ خطوط کا مضمون یہ تھا _ ہم نے یہ ارادہ کرلیا ہے کہ حکومت و قیادت آپ کی دست اختیا ر میں دی جائے آپ (ع) کیا فرماتے ہیں ؟ امام (ع) نے خطوط کو زمین پر دے مارا اور فرمایا : افسوس ، افسوس ، میں ان کاامام نہیں ہوں _ کیا انھیں یہ معلوم نہیں ہے کہ مہدی موعود وہ ہے جو سفیانی کو قتل کریں گے _

سند حدیث

سند کے اعتبار سے اس حدیث پر بھی اعتماد نہین کیا جا سکتا کیونکہ صباح بن سیابہ مجہول ہے _

مفہوم حدیث

احادیث کے مفہوم کے تجزیہ سے قبل درج ذیل نکات کو مد نظر رکھئے :

۱_ ائمہ کے زمانہ میں شیعہ ہمیشہ حضرت مہدی کے ظہور و انقلاب کے منتظر رہتے تھے کہ اس کی خبر انہوں نے رسول سے سنی تھی _

۲_ اس زمانہ میں شیعہ بڑی مشکلوں میں مبتلا تھے ، خلفائے جور کی ان پر سخت نگاہ رہتی تھی _ قید میں ڈال دیئےاتے ، جلا وطن کردیئےاتے یا قتل کردیئےاتے تھے _

۳_ ہر چند علوی سادات میں سے ہر ایک ظالم حکومتوں کے خلافت قیام کرتا تھا اور وہ لوگ بھی ان کی مدد کرتے تھے جو زندگی سے عاجز آجاتے اور قیام کرنے والے

۳۷۷

کو مہدی موعود اور منجی بشریت سمجھتے تھے لیکن زیادن دن نہیں گزرتے تھے کہ قتل ہوجاتے تھے _

۴_ خلفائے وقت انقلاب اور قائم کے سلسلہ میں بہت زیادہ حساس تھے ، وہ ہمیشہ خوف و ہارس میں مبتلا اور حالات کے سلسلے میں پریشان رہتے تھے ، وہ علوی سادات خصوصاً ان کے سربرآوردہ افراد پر نظر رکھتے تھے _ مذکورہ احادیث ایسے ہی حالات میں صادر ہوئی ہیں _ جو شیعہ مختلف قسم کی بلاؤں میںمبتلا تھے وہ ائمہ سے قیام کرنے اور مسلمانوں کو غاصب حکومتوں سے نجات دلانے کے سلسلہ میں اصرار کرتے تھے یا علوی سادات میں سے ان لوگوں کی مدد کرنے کی اجازت مانگتے تھے جو مہدی موعود کے نام سے خروج کرتے تھے _ ائمہ اطہار (ع) فرماتے تھے : مہدی موعود کے قیام کے سلسلے میں عجلت نہ کرو کہ ابھی اس کاوقت نہیں آیا ہے _ خروج کرنے والوں نے مہدی موعود اور قائم آل محمد کے نام سے خروج کیا ہے جب کہ وہ مہدی موعود ہیں ہیں _ مہدی موعود کے ظہور و قیام کی مخصوص علامات ہیں جو کہ ابھی تک آشکار نہیں ہوئی ہیں _ پھر قیام کرنے والوں نے ہماری امامت کے استحکام کیلئے قیام نہیں کیا ہے _ ان کا انقلاب بھی کامیاب ہونے والا نہیں ہے _ کیونکہ غاصب حکومتوں کی تباہی کے اسباب فراہم نہیں ہوئے ہیں _ حکومت کا تختہ پلٹنا بہت دشوار ہے _ فرماتے تھے : کشائشے حاصل ہونے تک صبر کرو_ اور قیام مہدی کے سلسلہ میں جلد نہ کرو کہ ہلاک ہوجاؤگے _ اور چونکہ تمہاری نیت اصلاح و قیام کی ہے اور اس کے مقدمات فراہم کرنا چاہئے ہو اس لئے تمہیں اس کا ثواب ملیگا _ بہر حال مذکورہ احادیث تعجیل کرنے اور کمزور تحریک سے منع کرتی ہیں _ یہ نہیں کہتی ہیں کہ مکمل تحریک کے مقدمات فراہم کرنے کیلئے ظلم و ستم

۳۷۸

اور کفر و بے دینی سے مبارزہ نہ کرو ان احادیث کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ جہاد، دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کا فریضہ امام زمانہ کی غیبت میں ساقط ہے _ اس زمانہ میں لوگوں کو فساد کا تماشہ دیکھنا چاہئے صرف تعجیل ظہور امام زمانہ کیلئے دعا کریں _ چنانچہ ان احادیث کو انقلاب و تحریک کے مخالف نہیں قرار دیا جا سکتا ہے _

پانچواں حصّہ

جو روایات حضرت قائم قائم کے ظہور سے قبل ہر پرچم کے بلند کرنے والے کو طاغوت قراردیتی ہیں _

حدیث اول :

محمد بن یحیی عن احمد بن محمد عن الحسین بن سعید عن حماد بن عیسی عن الحسین بن المختار عن ابی بصیر عن ابیعبدالله علیه السلام قال : کل رایة ترفع قبل قیام القائم فصابحها طاغوت یعبد من دون الله _

( وسائل الشیعہ ج ص ۳۷)

امام صادق (ع) کا ارشادہے : جو پرچم بھی قائم کے قیام سے قبل بلند کیا جائے گا اس کابلند کرنے والا شیطان ہے ، جو کہ خدا کے علاوہ اپنی عبادت کراتا ہے _

سند حدیث

مذکورہ حدیث سند کے لحاظ سے صحیح ہے _ اس کے راویوں کو موثق قرار دیا گیا ہے _

۳۷۹

حدیث دوم :

محمد بن ابراهیم النعمانی عن عبد الواحد بن عبدالله قال حدثنا احمد بن محمد بن ریاح الزهری قال حدثنا محمد بن العباس عن عیسی الحسینی عن الحسن بن علی بن ابی حمزة عن ابیه عن مالک بن اعین الجهنی عن ابی جعفر علیه السام انه قال کل رایة ترفع قبل رایة القائم فصاحبها طاغوت

( مستدر ک الوسائل ج ۲ ص ۲۴۸)

امام محمد باقر علیہ السام کا ارشاد ہے : جو پرچم بھی مہدی کے پرچم سے پہلے بلند کیا جائے گا ، اس کا بلند کرنے والا شیطان ہے _

سند حدیث

روایت کے معنی پرچم کے ہیں اور پرچم بلند کرنا کنایہ ہے حکومت کے خلاف اعلان جنگ کرنے سے اور صاحب پرچم عبارت ہے ہراس تحریک کے قائد سے جو کہ موجودہ حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے لوگوں سے مدد مانگتا ہے _ طاغوت یعنی ظالم و جابر شخص جو حریم الہی پر تجاوز کرے اور خدا کی حاکمیت کے مقابلہ میں لوگوں کو اپنی حاکمیت قبول کرنے پر مجبور کرے _ جملہ یعبد من دون اللہ اس بات کا بہترین ثبوت ہے کہ صاحب پرچم حکومت خدا کے مقابلہ میں ایک حکومت بنانا چاہتا ہے اور دینی تمنّا پوری کرنا چاہتا ہے ایسے پرچم کے حامل کو طاغوت و شیطان کہا گیا ہے _ اس بناپر گزشتہ احادیث کے معنی یہ ہوں گے کہ جو پرچم بھی قیام مہدی سے قبل بلند کیا جائیگا اور اس کا حامل لوگوں کو اپنی طرف بلائے گا تو ایسے پرچم کا حامل شیطان ہے کہ جس نے

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

کیا اکثریت قتل کردی جائیگی ؟

جلالی صاحب کے مکان پر حسب سابق جلسہ شروع ہوا ، ہوشیاری صاحب نے ایک مختصر تمہید کے بعد کہا: الحمد للہ جلسے کامیاب و مفید رہے ، میرا خیال ہے کہ وہ بہت سے مسائل کسی نہ کسی حد تک حل ہوگئے ہوں گے جو کہ احباب کو لا ینحل معلوم ہوتے تھے لہذا احباب کی نظر میں اگر کوئی اہم مسئلہ ہو تو اسے پیش کریں _

انجینئر: علماء پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ آج دنیا کے مسلمان دوسرے مذاہب کی بہ نسبت اقلیت میں ہیں _ زمین پر بسنے والوں میں اکثریت غیر مسلموں کی ہے _ اسی طرح تمام مسلمانوں کی بہ نسبت شیعہ بھی اقلیت میں ہیں ، ظلم بہت ہیں ، یہ ہے آج دنیا کی جمعیت _ چنانچہ ہمیشہ کی طرح آئندہ بھی ایسا ہی ہوگا _ اس بناپر یہ کہا جا سکتا ہے کہ ظہور حضرت مہدی کے وقت بھی شیعہ اقلیت میں ہوں گے _ اس موازنہ کو ملحوظ رکھتے ہوئے ، میں آپ سے یہ سوال کرتا ہوں _ کیا یہ بات معقول ہے کہ دنیا کی اکثریت تھوڑے سے شیعوں کے ہاتھوں قتل ہوجائے گی اور مقابلہ نہ کریں گے ؟ اس کے علاوہ اگر زیادہ تر لوگ قتل ہوجائیں گے تو زمین قبرستان بن جائے گی اقلیت باقی رہے گی لہذا وہ قبرستان پر حکمرانی کریں گے اور ایسے عمل کو نہ اصلاح کا نام دیا جا سکتا ہے نہ اسے عالمی حکومت کہا جا سکتا ہے

۴۰۱

ہوشیار: اینجنئر صاحب ہمیں مستقبل کا معتد بہ علم نہیں ہے اور ماضی پر اسے قیاس نہیں کیا جا سکتا _ یہ بات قدر مسلَّم ہے کہ آئندہ لوگوں کے افکار و استعداد میں ترقی ہوگی اور وہ حق کو قبول کرنے کیلئے زیادہ آمادہ ہوں گے _ آج یہ بات سنی جاتی ہے کہ مغرب و مشرق کے بہت روشن فکر اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں کہ ان کے مذاہب و ادیان انھیں مطمئن نہیں کر سکتے _ دوسرے طرف خدا پرستی اور خدا جوئی کی فطرت آرام سے نہیں بیٹھتی ہے _ لہذا وہ ایسے آئین کی جستجو میں ہیں جو فاسد عقائد اور خرافات سے پاک و پاکیزہ ہو اور معنویت کا حامل ہوتا کہ ان کی اندرونی خواہشوں کو پورا کرسکے اور روحانی غذا فراہم کرے _ اس نہج سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مستقبل قرب میں معاشرہ انسانی ، اسلامی کے احکام و معارف کی متانت و حقانیت کا سراغ لگائے گا اور اس پر یہ واضح ہوجائے گا کہ اس کی اندرونی خواہش اور اس کی جسمانی و روحانی سعادت کا ضامن صرف دین اسلام ہی ہے _

افسوس کہ ہمارے پاس اتنا بلند حوصلہ اور وسیلہ نہیں ہے کہ جس سے ہم دنیا کے لوگوں کو اسلام کے پاکیزہ معارف اور اس کے نور انی حقائق سے آگاہ کرسکیں لیکن ایک طرف لوگوں کی حقیقت کااحساس اور دوسری طرف اسلام کے متین احکام و معارف اس مشکل کو ایک روز ضرور حل کریں گے _ اور اس دقت دنیا والے گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوں گے اور مسلمانوں کی اکثریت ہوگی _

اس کے علاوہ زمانہ ظہور کے عام حالات کے پیش نظر بھی یہ پیشین گوئی کی جا سکتی ہے کہ جب حضرت مہدی ظہور فرمائیں گے اور لوگوں کے سامنے حقائق اسلام پیش کریں گے اور اسلام کے اصلاحی و انقلابی پروگرام سے انھیں مطلع کریں گے تو بہت سے

۴۰۲

لوگ اس کے حلقہ بہ گوش ہوجائیں گے کیونکہ ایک طرف تو لوگوں کی درک حقائق والی استعدادکمال کو پہنچ جائے گی اور دوسری طرف وہ امام زمانہ کے معجزات کو مشاہدہ کریں گے دنیا کے حالات کو غیر معمولی پائیں گے اور رہبر انقلاب کی طرف سے انھیں خطرہ سے آگاہ کیا جائے گا _ ان حالات کی بناپر لوگ حضرت مہدی کے ہاتھوں فوج در فوج اسلام میں داخل ہوں گے اور قتل سے نجات پائیں گے _

لیکن جو لوگ ان تمام چیزوں کے باوجود اسلام قبول نہیں کریں گے ، یہود و نصاری تو قتل نہیں کئے جائیں گے بلکہ وہ حکومت اسلام کی حمایت میں زندگی گزاریں گے صرف کفار ، ستمگر اور جھگڑالو ہیں جو کہ مہدی (عج) کے سپاہیوں کے ہاتھوں قتل کئے جائیں گے اور ان کی تعداد بہت زیادہ نہ ہوگی _

قم سے معارف اسلام کی اشاعت ہوگی

اہل بیت کی احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مستقبل قریب میں علمائے شیعہ ماضی سے زیادہ مذہبتشيّع کے احکام و عقائد کو اہمیت دیں گے اور اپنے

حالات کو سنواریں گے ، نظم و ضبط پیدا کریں گے _ رائج الوقت تبلیغی وسائل سے آراستہ ہوں گے اور قرآن مجید کے حقائق و احکام سے جو کہ انسان کی سعادت کے ضامن ہیں لوگوں کو روشناس کرائیں گے _ اور اسلام کی ترقی و عظمت اور حضرت ولی عصر کے ظہور کے اسباب فراہم کریں _

حضرت امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

'' بہت جلد کوفہ مومنوں سے خالی ہوجائے گا _ علم اس شہرے ایسے

۴۰۳

ناپید ہوجائے گا جیسے سانپ اپنے بل میں چھپ جاتا ہے وہاں اس کا کوئی اثر بھی نہ ملیگا ، علم کا مرکز قم ہوگا ، قم علم و فضل کا محور ہوگا ، وہیں سے علم تمام شہروں میں پھیلے گا یہاں تک کہ روئے زمین پر کوئی جاہل باقی نہیں رہے گا ، یہاں تک عورتیں بھی _

اب ہمارے قائم کا ظہور قریب ہوگا اور خدا قم اور اس کے باشندوں کو حجت قرار دے گا اور اگر ایسا نہ ہو تا تو زمین اپنے ساکنوں سمیت دھنس جاتی اور حجت باقی نہ رہتی _ علم و دانش قم سے تمام مغرب و مشرق کے شہروں میں پھیلے گا اور دنیا والوں پر حجت تمام ہوجائے گی یہاں تک کہ روئے زمین پر ایک شخص بھی ایسا نہیں ملیگا جس تک علم و دین نہ پہنچا ہو _ اس کے بعد ہمارے قائم ظہور فرمائیں گے اور خدا کے عذاب و قہر کے اسباب فراہم ہوجائیں گے کیونکہ خدا اپنے بندوں سے اس وقت انتقام لیتا ہے جب وہ اس کی حجت کا انکار کرتے ہیں ''_(۱)

امام صادق (ع) فرماتے ہیں :

خدا نے کوفہ اور اس کے باشندوں کو تمام شہروں اور ان کے ساکنوں پر حجت قرار دیا تھا ، قسم کو بھی دوسرے شہروں پر حجت قرار دے گا اور اس کے باشندوں کے ذریعہ مشرق و مغرب میں رہنے والوں _ جن و انس پر حجت قائم کرے گا ، خدا قم والوں کو ذلیل نہیں کرے گا بلکہ خدا کی

____________________

۱_ سفینة البحار ، قم _

۴۰۴

توفیق و نصرت ہمیشہ ان کے شامل حال رہے گی _ اس کے بعد فرمایا : قسم کے دین داروں کی کم اہمیت تھی ، اس لئے انھیں زیادہ اہمیت نہیں دی جائیگی اگر ایسا نہ ہو تو تا تو قم اور اس کے باشندوں کو برباد کردیا جاتا اور تمام شہروں پرحجت باقی نہ رہتی _ آسمان اپنی جگہ رہتا ، زمین والوں کو لمحہ بھر کی مہلت نہ ملتی _ قم اور اس کے بسنے والے تمام ناگوار حوادث سے محفوظ رہیں گے ایک زمانہ آئے گا کہ قم اور اس کے ساکن تمام لوگوں پر حجت قرار پائیں گے اور ہمارے قائم کی غیبت سے ظہور تک ایسا ہی رہے گا _ خدا کے فرشتے قم اور اس کے رہنے والوں سے تمام بلاؤں کو دور کریں گے اور جو ستمگر اس شہر پر حملہ کرنا چاہے گا ، ستمگروں کو ہلاک کرنے والا اس کی کمر توڑ دے گا اور اسے سخت مصیبت میں مبتلا کردے گا یا اس پر اسی سے قوی دشمن کو مسلط کردے گا خداوند عالم ظالموں کے دلوں سے قسم اور اس کے ساکنوں کی یاد محو کردے گا _ جیسا کہ انہوں نے ذکر خدا کو فراموش کردیا ہے _(۱)

امیر المؤمنین (ع) کا ارشاد ہے :

'' قم والوں میں سے ایک شخص لوگوں کو حق کی طرف بلائے گا _ ایک گروہ اسکی آواز پر لبیک کہے گا ، اس کے پاس جمع ہوجائیں گے جو کہ فولاد کی مانند ہوں گے انھیں کوئی متزلزل نہیں کر سکے گا _ وہ جنگ سے نہیں اکتائیں گے ، وہ صرف خدا پر توکل کریں گے ، آخر کار متیقن کامیاب ہوں گے '' _(۲)

____________________

۱_ سفینة البحار

۲_ بحار الانوار ج ۶۰ ص ۲۱۶_

۴۰۵

جلالی : آپ نے یہ پیشین گوئی کی ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں کی اکثریت ہوگی _ آپکی پیشین گوئی بعض احادیث کے منافی ہے مثلاً:

رسول اکرم کا ارشاد ہے :

'' ایک زمانہ آئے گا کہ جس میں قرآن کا خط ہی بچے گا اور اسلام برائے نام رہے گا لوگوں کو مسلمان کہا جائے گا لیکن وہ اس سے بہت دور ہوں گے ان کی مسجد یں آراستہ ہوں گی لیکن ہدایت سے ان کے دل خالی ہوں گے ''(۱)

ہوشیار: رسول (ص) اکرم نے ایسی احادیث میں صرف یہ فرمایا ہے کہ ایک دن آئے گا کہ جب حقیقت و معنویت اسلام سے مٹ جائے گی صرف اس کی شکل باقی رہے گی اور مسلمان ہونے کے باوجود حقیقت سے کو سوں دور ہوں گے لیکن یہ بات مسلمانوں کی اکثریت کے منافی ہیں ہے ممکن ہے مسلمان ہونے کے باوجود وہ اسلام کی نورانیت سے کم فائدہ اٹھاتے ہوں اور پیکر اسلام پر کہنہ گی کی گردپڑگئی ہواور وہ امام زمانہ اس گرد کو صاف کریں اور دین کی تجدید ہوجائے _ جیسا کہ رسول کا ارشاد بھی ہے : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے مسلمانوں کی تعداد میں ہمیشہ اضافہ ہوگا اور شرک و مشرکین کی تعداد میں ہمیشہ کمی واقع ہوگی'' _ اس کے بعد فرمایا :'' قسم اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے جہاں رات ہوتی ہے وہاں یہ دین پہنچے گا _(۲)

مختصر یہ کہ اولاً یہ کہا گیا ہے کہ امام زمانہ کے ظہور سے قبل مسلمانوں کی اکثریت

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۱۹۰

۲_ تاریخ ابن عساکر ج ۱ ص ۸۷

۴۰۶

ہوگی ثانیاً یہ کہا گیا ہے _ آپ کے ظہور کے بعد بہت سے لوگ مسلمان ہوجائیں گے کیونکہ علوم و استعداد کی سطح بلند ہوجائے گی اور حق قبول کرنے کیلئے تیار ہوجائیں گے جیسا کہ روایات میں وارد ہوا ہے _

حضرت محمد باقر (ع) کا ارشاد ہے کہ:

''جب ہمار قائم ظہور کریں گے اس وقت خدا اپنے بندوں پرکرم کرے گا ان کے حواس ٹھکانے لگائے گا اور ان کی عقلوں کو کامل کرے گا '' _(۱)

حضرت علی (ع) کا ارشاد ہے :

''آخری زمانہ میںاور جہالت کے زمانہ میں خداوند عالم ایک شخص کو مبعوث کرے گا اور اپنے ملائکہ کے ذریعہ اس کی مدد کرے گا ، اس کے چاہنے والوں کی حفاظت کرے گا ، نشانیوں کے ذریعہ اس کی مدد کرے گا اور تمام اہل زمین پر اسے کامیابی عطا کرے گا تا کہ وہ زبردستی یا راضی برضا دین حق کو قبول کرلیں _ زمین کو عدل و انصاف اور نورسے پر کرے گا _ شہروں کے طول و عرض اس کے تابع ہوں گے ہر ایک کافر ایمان لے آئے گا اور ہربد کردار صالح بن جائے گا '' _(۲)

آپ کے دشمن بھی کمزور نہیں ہیں

انجینئر صاحب کے اعتراضات کو یہ چیز بھی تقویت دیتی ہے کہ دنیا کے عام

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۸

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۴۹

۴۰۷

حالات خطرناک ایجادات کی ترقی ، اسلحہ سازی کے میدان میں مشرق و مغرب کا مقابلے اور انسانیت کے اخلاقی تنزل سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ بڑی حکومتیں بلکہ یہود و نصاری متحد ہوجائیں گے اور خطرناک اسلحوں سے بہت سے لوگوں کو اپنی انانیت کا نشانہ بنائیں گے _ اور بہت سے خطرناک بیماری کے پیدا ہوجانے سے مرجائیں گے _

عبدالملک کہتا ہے کہ میں حضرت امام محمد باقر کی مجلس سے اٹھا اور دونوں ہاتھ ٹیک کر رونے لگا اور عرض کی : مجھے یہ توقع تھی کہ میں حضرت قائم کو اس حال میں دیکھوں گا کہ مجھ میں طاقت ہوگی _ امام نے فرمایا :'' کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ تمہارے دشمن جنگ میں مشغول رہیں او رتمہارے گھر محفوظ رہیں ؟ جب ہمارے قائم ظہور کریں گے اس وقت میں سے ہر ایک کو چالیس مردوں کی قوت ملیگی _ تمہارے دل فولاد کی مانند ہوجائیں گے کہ اگر پہاڑ کوبھی لگادو گے تو اسے بھی شگافتہ کردو گے اور نتیجہ میں پوری دنیا پر تمہاری حکومت ہوگی ''_(۱)

امام صادق (ع) کا ارشاد ہے :

''قائم آل محمد کے ظہور سے قبل دو وبائیں آئیں گی ، ایک سرخ موت دوسری سفید یہاں تک کہ ہر سات آدمیوں والے خاندان میں سے پانچ ہلاک ہوجائیں گے _ سرخ موت میں قتل ہوں گے اور سفید میں طاعون سے مریں گے ''(۲)

زرارہ کہتے ہیں : میں نے امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی : ندائے آسمانی

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۳۵

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۴۰۱

۴۰۸

حق ہے ؟ فرمایا :

''بالکل ، خدا کی قسم خدا کی ہر قوم اسے اپنی زبان میں سنے گی '' _ اس کے بعد فرمایا : قائم اس وقت تک ظہور نہ فرمائیں گے جب تک دس اشخاص سے نوہلاک نہ ہوجائیں گے ''(۱)

جنگ ناگزیر ہے

فہیمی : کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ مہدی موعود کے ظہور کے لئے اس طرح زمین ہموار کی جائے کی جس سے کوئی خونریزی نہ ہو اور آپ کی حکومت تشکیل پا جائے ؟

ہوشیار: عادت کے پیش نظر یہ چیز بعید نظر آتی ہے کیونکہ انسان کی فکر خواہ کتنی ہی ترقی کرلے اور خیرخواہ افراد کی تعداد میں کتنا ہی اضافہ ہوجائے پھر بھی ان کے درمیان ظالم و خود سر لوگ باقی رہیں گے جو حق و عدل پروری کے دشمن ہوتے ہیں اور وہ کسی طرح اپنا نظر یہ نہیں بدلتے ایسے لوگ اپنے ذاتی مفاد و منافع سے دفاع کیلئے حضرت مہدی (ع) کے خلاف اٹھیں گے اور جہاں تک ہوسکیگا تخریب کاری کریں گے _ ان لوگوں کو کچلنے کیلئے جنگ ضروری ہے _ اس لئے اہل بیت کی احادیث میں جنگ کو حتمی قراردیا گیا ہے _

بشیر کہتے ہیں : میں نے ابو جعفر کی خدمت میں عرض کی : لوگ کہتے ہیں جس وقت امام زمانہ ظہور فرمائیں گے اس وقت ان کے کام ساینٹفک طریقہ سے روبراہ ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر خونریزی نہ ہوگی؟ آپ (ع) نے فرمایا:

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۴_

۴۰۹

'' خدا کی قسم ایسا نہیں ہے یہ ممکن ہوتا تو رسول خدا کیلئے ہوتا ، جبکہ دشمن سے جہاد میں رسول (ص) کے دندان مبارک شہید ہوئے ہیں ، خدا کی قسم حضرت صاحب الامر کا انقلاب بھی اس وقت تک کامیاب نہ ہوگا جب تک میدان جنگ میں خون نہ بہایا جائے گا _ اس کے بعد آپ نے دست مبارک پیشانی پر ملا _(۱)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۴۱۰

حضرت مہدی (عج) کا اسلحہ

جلالی : سنا ہے کہ امام زمانہ تلوار کے ساتھ ظہور فرمائیں گے لیکن میں اس بات کو تسلیم نہیں کرتا ہوں کیونکہ بشر نے آج تک سیکڑوں قسم کے اسلحہ ایجاد کرلیتے ہیں ، ایٹم بم ، ہا ڈرو جن بم بنالیتے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک کئی کلومیٹر کی شعاع کو ویران کرنے کیلئے کافی ہے چنانچہ اسلحہ سازی کے میدان میں ترقی نے انسان کی نیند حرام کردی ہے _ ان تمام جنگی وسائل کے باوجود جو کہ انسان کے اختیار میں ہیں ، اوراسلحہ سازی کے فن میں آئندہ وہ اور ترقی کرلے گا اس کے باوجود یہ کیسے تصور کیا جا سکتا ہے کہ مہدی موعود اور ان کے سپاہی تلوار سے جنگ کریں گے اور کامیاب ہوجائیں گے؟

ہوشیار: مہدی موعود کا تلوار کے ساتھ ظہور کرنا احادیث سے ثابت ہے مثلاً: امام محمد باقر نے فرمایا:

'' مہدی (ع) اپنے جد حضرت محمد (ص) سے اس ، نہج سے مشابہت رکھتے ہیں کہ وہ تلوار کے ساتھ قیام کریں گے اور ظالموں ، گمراہ کرنے والوں ، اور خدا و رسول کے دشمنوں کو تہ تیغ کریں گے تلوار کے ذریعہ کامیاب ہوں گے اور ان کا کوئی پرچم (دار) بھی شکست کھاکر نہیں آئے گا _ ''(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۴۱۱

لیکن تلوار کے ساتھ خروج کرنا جنگ سے کنایہ ہے یعنی جنگ مہدی موعود کے سرکاری پروگرام کا جزء ہے ، آپ (ع) دین اسلام کو دنیا بھی میں پھیلانے اور ظلم و تعدی کا قلع کرنے پر مامور ہیں خواہ ا س سلسلہ میں تلوار ہی کیوں نہ اٹھانی پڑے _ اس کے برخلاف ان کے آباء و اجداد کو اس اہم ذمہ داری پر مامور نہیں کیا گیا تھا _لہذا وہ وعظ و نصیحت پر عمل کرتے تھے اس بناپر تلوار کے ساتھ خروج کرنے کے معنی یہ نہیں ہیں کہ آپ کا جنگی اسلحہ فقط تلوار ہی ہے اور دوسرے اسلحہ کو استعمال ہی نہیں کر سکتی بلکہ ممکن ہے کہ آپ بھی دور حاضر کے اسلحہ سے جنگ کریں یہ بھی ممکن ہے کہ نیا اسلحہ بنائیں کہ جو اس وقت کے تمام اسلحہ پر غالب آجائے _

حقیقت یہ ہے کہ ہم آئندہ حالات و حوادث سے بے خبرہیں اور انسان کی سرنوشت و صنعت کی ہم کو اطلاع نہیں ہے اس لئے بغیر مدرک کے مستقبل کو ماضی پر قیاس کرنا صحیح نہیں ہے ہم نہیں جانتے کہ مستقبل میں صنعت و علوم اور تمدن میں کونسی قوم فوقیت لے جائیگی ہوسکتا ہے آئندہ مختلف اسلامی قومیں خواب غفلت سے بیدار ہوجائیں ، جزئی اختلافات سے چشم پوشی کرلیں ، اور سب پرچم توحید کے نیچے جمع ہوجائیں _ قرآں کے علوم و دستورات کو اپنا لائحہ بنالیں اور اسلام کے اصلاحی پروگرام اجراء کریں ، اپنی خداداد ثروت سے فائدہ اٹھائیں _ سستی اور گوشہ نشینی کی زندگی ترک کریں اور علوم و صنعت اور اخلاق میں تمدن بشریت کے علم بردار ہوجائیں مشرق و مغرب کی سرکش طاقت کو لگام چڑھائیں اور مصلح غیبی حضرت مہدی موعود کے قیام کیلئے زمین ہموار کریں _ پس امام ظہور فرمائیں گے اور اپنی اس طاقت کے ذریعہ جو آپ کے دست اختیار میں ہے اور خدا کی تائید و نصرت کے توسط سے سرکش و ظالم حکومتوں کا تختہ الٹ دیں گے اور پوری دنیا میں توحید و عدل کی حکومت قائم کریں گے _ اس وقت دنیا کے سائنس داں اور موجد اپنی آنکھوں

۴۱۲

سے دیکھیں گے کہ انکی کوشش و زحمتوں کے نتیجہ کو صلح و صفا اور لوگوں کی زندگی کو بہتر بنانے کے سلسلہ میں صرف ہونا چاہئے جبکہ وہ استعمار اور لوگوں کو فریب دینے کیلئے استعمال ہوتا ہے ، اس سے انھیں

تکلیف ہوگی _ لیکن کوئی چارہ کار نہ ہوگا _ بے شک وہ مہدی اسلام کی عدل خواہی کی آواز پر لبیک کہیں گے اور اس کے مقصد کی تکمیل کیلئے کوشش کریں گے _

ہم کیا جانتے ہیں ، ممکن ہے انسان مستقبل میں جہالت و عداوت ، عصبیت و خود پرستی سے دست کش ہوجائے اور اسلحہ سازی و ایٹم بم سازی کو ممنوع قرار دیدیا جائے اور اسلحہ کی فراہمی پر خرچ ہونے والے بے پناہ پیسے کو ثقافتی ، عمرانی اور انسان کی رفاہ کیلئے خرچ کرے _

۴۱۳

دنیا مہدی (عج) کے زمانہ میں

انجینئر : میری خواہش ہے کہ آپ حضرت مہدی (عج) کے زمانہ حکومت میں دنیا کے عام حالت بیان فرمائیں _

ہوشیار : احادیث سے واضح ہوتا ہے کہ جب مہدی موعود ظہور فرمائیں گے اور جنگ میں کامیاب ہوجائیں ، مشرق و مغرب پر تسلط پالیں گے تو اس وقت پوری دنیا میں ایک ہی حکومت ہوگی _ تمام شہروں او رصوبوں میں لائق حکام ضروری احکام کے ساتھ منصوب کئے جائیں گے _(۱) ان کی کوشش سے تمام زمین آباد ہوجائے گی _ حضرت مہدی بھی پوری زمین کے ممالک کے حوادث و حالات پر نظر رکھیں گے ، زمین گا گوشہ گوشہ ان کیلئے ایسا ہی ہے جیسے ہاتھ کی ہتھیلی _ آپ کے اصحاب و انصار بھی دور سے آپ کو دیکھیں گے اور گفتگو کریں گے _

ہر جگہ عدل و انصاف کا بول بالا ہوگا _ لوگ آپس میں مہربان ہوجائیں گے اور صدق و صداقت کے ساتھ زندگی بسر کریں گے _ ہر جگہ امن و امان ہوگا _ کوئی کسی کو آزار پہنچانے کی کوشش نہیں کرے گا _ لوگوں کے اقتصادی حالات بہت اچھے ہوجائیں گے یہاں تک کہ کوئی زکوة کا مستحق نہیں ملیگا _ منافع کی مسلسل بارش ہوگی _ ساری زمین سر سبز ہوجائے گی _ زمین کی پیدا وار میں اضافہ ہوگا _ کاشتکاری کے امور کی

____________________

۱_ دلائل الامامہ مولفہ محمد بن جریر طبری ص ۲۴۹

۴۱۴

ضروری اصلاحات ہونگی _ لوگ خدا کی طرف زیادہ متوجہ ہوں گے ، گناہ چھوڑدیں گے دین اسلام دنیا کا سرکاری دین ہوگا _ ہرجگہ اللہ اکبر کی آواز بلندہوگی _ اصلی راستہ کو ساٹھ گزچوڑاکیا جائے گا ، راہ سازی پر اتنی توجہ دی جائے گی کہ راستوں میں مساجد کی بھی رعایت نہ کی جائے گی ، پیدل چلنے والوں کیلئے راستہ بنائے جائیں گے اور انھیں ، اسی پر چلنے کی تاکید کی جائے گی اور سواری والوں کو روڈ کے درمیان سے گزرنے کا حکم ہوگا _

راستوں میں کھلنے والی کھڑکیاں بندکردی جائیں گی _ گلی کو چوں میں پرنالے لگانے سے منع کردیا جائے گا ، مناروں کو توڑدیا جائے گا _

امام مہدی کے زمانہ میں عقلیں کامل ہوجائیں گی ، معلومات عامہ کی سطح بلند ہوجائے گی یہاں تک حجلہ نشین عورتیں بھی فیصلہ کرسکیں گی _

حضرت امام صادق (ع) کا ارشاد ہے :

''علم کو ۲۷ حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے لیکن ابھی تک اس کے دو حصوں تک ہی انسان کی رسائی ہوئی ہے _ جب ہمارا قائم ظہور کرے گا اس کے پچیس حصوں کو بھی آشکار کریں گے '' _(۱)

لوگوں کا ایمان کامل ہوجائے گا، کینہ سے دل پاک ہوجائیں گے _ آخر میں اس بات کا ذکر کردینا ضروری ہے کہ مذکورہ مطالب کو روایت سے لیا گیا ہے _ اگر چہ ان کا مدرک خبر واحد ہے _ تفصیل کیلئے بحار الانوار ج ۵۱ و ۵۲ ، اثبات الہداة ج ۶ و ۷ اور غیبت نعمانی کا مطالعہ فرمائیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۶_

۴۱۵

انبیاء کی کامیابی

جلالی: روایات میں مہدی موعود (عج) کی جو تعریف و توصیف وارد ہوئی ہیں ان کے اعتبار سے تو آپ(ع) تمام انبیاء یہاں تک رسول اسلام (ع) سے بھی افضل و اکمل ہیں کیونکہ معاشرہ انسانی کی اصلاح کرنے ، توحید کی عالمی حکومت کی تاسیس کرنے اور انسانوں کے درمیان خدا کے احکام و قوانین کو جاری کرنے عدالت عمومی کے قائم کرنے اور ظلم و ستم کو مٹانے میں ان میں سے کوئی بھی کامیباب نہیں ہوا ہے _ اس سلسلہ میں صرف مہدی موعود ہی کامیاب ہوں گے بس_

ہوشیار: اصلاح بشر اور خدا کے قوانین کا مکمل اجراء تمام انبیاء کا مقصد تھا ان خدائی نمائندوں میں سے ہر ایک نے اپنے زمانہ کی فکری استعداد کے مطابق اس مقصد کے حصول کیلئے کوشش کی اور انسان کو اس مقصد سے قریب کیا _ اگر ان کی فداکاری و کوشش نہ ہوتی تو حکومت توحید کیلئے ہرگز زمین ہموار نہ ہوتی پس اس عظیم مقصد میں سارے انبیاء شریک ہیں ، مہدی موعود کی کامیابی کو تمام خدا پرستوں اور انبیاء کی کامیابی تصور کرنا چاہئے _ آ پ کی کامیابی کوئی فردی کامیابی نہیں ہے بلکہ آپ کی محیر العقول طاقت کے ذریعہ حق باطل پر کامیاب ہوگا _ دین داری بے دینی پر چھا جائے گی اور گزشتہ انبیاء کے و عدول کو عملی جامہ پہنایا جائے گا اور ان کا مقصد پورا ہوگا _

۴۱۶

مہدی موعود کی کامیابی در حقیقت آدم و شیث ، نوح و ابراہیم ، موسی و عیسی اور حضرت محمد (ص) اور تمام انبیاء کی کامیابی ہے _ انہوں نے اپنی فداکاری سے راستہ ہموار کیا ہے اور انسان کے مزاج کو کسی حد تک آمادہ کیا ہے _ منصوبہ سازی اور مبارزہ کا آغاز انبیاء ہی سے ہواہے اور اپنی نوبت میں ان میں سے ہر ایک نے بشر کے دینی افکار کی سطح کو بلند کیا ہے یہاں تک پیغمبر اسلام کی نوبت آئی تو آپ نے اس عالمی انقلاب کا مکمل نقشہ اور پروگرام مرتب کیا اور ائمہ اطہار کی تحویل میں دیدیا _ اس سلسلہ میں آپ نے اور آپ کے جانشینوں نے بہت کوششیں کی ہیں اور بہت سی مشکلیں برداشت کی ہیں _ سالہا سال گزرتے جائیں اور دنیا میں بہت سے انقلابات رونما ہوجائیں تب جاکر انسان کے مزاج میں توحید کی حکومت قبول کرنے کی استعداد و لیاقت پیدا ہوگی _ اور اس وقت کفر و بے دینی کا محاذ مہدی موعود کی سپاہ کے ذریعہ فتح ہوگا اور بشریت کی امید برآئے گی _

اس بناپر مہدی موعود پیغمبر اسلام بلکہ تمام انبیاء کے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے والے ہیں اور آپ کی کامیابی سارے آسمانی مذاہب کی کامیابی ہے _ خدا نے زبور میں حضرت داؤد سے کامیابی عطا کرنے کا وعدہ کیا ہے اور حضرت مہدی کا شان میں نازل ہونے والی آیتوٹ میں سے ایک میں فرماتا ہے _ ہم نے زبور میں لکھدیا ہے کہ ہم اپنے صالح وشائستہ بندوں کو زمین کا وارث بنائیں گے _(۱)

____________________

۱_ انبیاء/۲۰۵_

۴۱۷

مہدی او رنیا آئین

ڈاکٹر : میں نے سنا ہے کہ امام زمانہ لوگوں کے لئے نیا دین و قانون لائیں گے اور اسلام کے احکام کو منسوخ قراردیں گے کیا یہ بات صحیح ہے ؟

ہوشیار: اس چیز کا سرچشمہ وہ احادیث ہیں جو اسی سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں _ لہذا ان میں سے چند حدیثیں پیش کرنا ضروری ہے _

عبداللہ بن عطا کہتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق کی خدمت میں عرض کی مہدی کی سیرت کیا ہے ؟ فرمایا:

'' جو کام رسول خدا (ص) انجام دیتے تھے ان ہی کو مہدی بھی انجام دیں گے _ بدعتوں کو مٹائیں گے جیسا کہ رسول خدا نے جاہلیت کی بیخ کنی کی تھی اور از سر نو اسلام کی بنیاد رکھی تھی ''_

ابو خدیجہ نے امام صادق (ع) سے روایت کی ہے آپ (ع) نے فرمایا:

''جب حضرت قائم ظہور کریں گے اس وقت جدید آئین آئے گا جیسا کہ ابتدائے اسلام میں رسول خدا نے لوگوں کو نئے آئین کی دعوت دی تھی ''(۲)

____________________

۱_ بحار ج ۵۲ ص ۳۵۲

۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۱۰

۴۱۸

حضرت امام صادق کا ارشاد ہے : جب حضرت قائم ظہور کریں گے تو اس وقت نیا آئین و کتاب اور نئی سیرت و قضاوت پیش کریں گے جو کہ عربوں کیلئے دشوار ہے ، ان کاکام کشتار ہے کسی بھی کافر و ظالم کو زندہ نہیں چھوڑیں گے _ فریضہ کی انجام دہی ہیں کسی وقت لائم کی پروا نہیں کریں گے '' _(۱)

سیرت مہدی (عج)

لیکن بہت سے احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حضرت مہدی کی وہی سیرت ہے جو رسول خدا کی تھی آپ اس قرآن و دین سے دفاع کریں گے جو کہ آپ کے جد پر نازل ہوا تھا _ چند حدیثیں ملاحظہ فرمائیں :

رسول (ص) کا ارشاد ہے :''میرے اہل بیت میں ایک شخص قیام کرے گا اور میری سنت و سیرت پر عمل کر ے گا ''(۲)

نیز فرمایا: قائم میرا ہی بیٹا ہے _ وہ میرا ہمنام و ہم کنیت ہے _ اس کی عادت میری عادت ہے وہ لوگوں کو میری طاعت اور دین کی طرف دعوت دے گا اور قرآن کی طرف بلائے گا _(۲)

آپ کا ارشاد ہے :

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۸۳ ۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۸۲ ۳_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۵۲

۴۱۹

''میرے بیٹوں میں بارہواں ایسے غائب ہوگا کہ دیکھنے میں نہیں آئے گا _ ایک زمانہ آئے گا کہ جس میں اسلام کا صرف نام اور قرآن کا رسم الخط باقی رہے گا _ اس وقت خدا انھیں کی اجازت مرحمت کرے گا اور ان کے ذریعہ اسلام تجدید و تقویت پائے گا '' _(۱)

نیز فرمایا:

'' مہدی موعود (عج) وہ مرد ہے جو میری عترت سے ہوگا اور میری سنت کیلئے جنگ کرے گا جیسا کہ میں نے قرآن کیلئے جنگ کی ہے'' _(۲)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ مذکورہ احادیث کی صریح دلالت اس بات پر ہے کہ امام زمانہ کا پروگرام اور سیرت ترویج اسلام اور تجدید عظمت قرآن ہے اور پیغمبر اکرم کی سنّت کے اجراء کیلئے جنگ کریں گے _

اس بناپر اگر احادیث کے پہلے حصہ میں کوئی اجمال ہے بھی تو وہ اسے ان احادیث کے ذریعہ برطرف کرنا چاہئے _ زمانہ غیبت میں ، دین میں بدعتیں داخل کردی جاتی ہیں اور اسلام و قرآن کے احکام کو اپنی خواہش کے مطابق ڈھال لیا جا تا ہے _ بہت سے حدود و احکام کو ایسے فراموش کردیا جاتا ہے جیسے ان کا اسلام سے کوئی تعلق ہی نہ تھا _ ظہور کے بعد حضرت مہدی بدعتوں کا قلع قمع کریں گے اور احکام خدا کو ایسے ہی نافذ کریں گے جیسا کہ وہ صادر ہوتے تھے _ اسلامی حدود کو سہل انگاری کے بغیر جاری کریں گے

____________________

۱_ منتخب الاثر ص ۹۸ ۲_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۱۷۹

۴۲۰

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455