آفتاب عدالت

آفتاب عدالت0%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 455
مشاہدے: 172760
ڈاؤنلوڈ: 4763

تبصرے:

آفتاب عدالت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 172760 / ڈاؤنلوڈ: 4763
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ظاہر ہے ایسا پروگرام لوگوں کیلئے بالکل نیا ہوگا _

حضرت امام صادق فرماتے ہیں :

''ظہور کرنے کے بعد قائم سیرت رسول خدا کے مطابق عمل کریں گے لیکن آثار محمد کی تفسیر کریں گے '' _(۱)

فضیل بن بسیار کہتے ہیں : میں نے حضرت امام محمد (ع) باقر کو فرماتے سنا:

''جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگ آپ (ع) کی راہ میں مشکلیں اور رکاوٹیںایجاد کریں گے کہ زمانہ جاہلیت میں اتنی ہی پیغمبر اکرم (ص) کی راہ میں ایجاد کی گئی تھیں'' میں نے عرض کی کیسے ؟ فرمایا: '' جب پیغمبر (ص) مبعوث بہ رسالت ہوئے تو اس وقت لوگ پتھر اور لکڑی کے بتوں کو پرستش کرتے تھے لیکن جب ہمارا قائم قیام کریگا تو اس وقت لوگ احکام خدا کی ، اس کے مخالف تفسیر وتاویل کریں کے اور قرآن کے ذریعہ آپ (ع) پر احتجاج کریں گے _ اس کے بعد فرمایا : خدا کی قسم قائم کی عداوت انکے گھروں کے اندر ایسے ہی داخل ہوگی جیسے سردی و گرمی داخل ہوتی ہے ''(۲)

توضیح

جن لوگوں نے اسلام کے ارکان و مسلم اصولوں سے چشم پوشی اور قرآن کے ظواہر پر اکتفا کرلی ہے ، نماز ، روزہ اور نجاسات سے اجتناب کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتے

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۴۷ ۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۸۶

۴۲۱

ان میں سے بعض نے دین کو مسجد میں محصور کردیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اسلام ان کے اعمال و حرکات میں داخل نہیں ہے _ ان کے بازار ،گلی کوچے ، راستوں اور گھروں میں اسلام کا نام و نشان نہیں ہے اخلاقیات اور اجتماعی دستورات کو اسلام سے جدا سمجھتے ہیں _ بری صفات کی ان کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور واجبات و محرمات سے یہ کہکر الگ ہوجاتے ہیں یہ تو اختلافی ہیں ، خدا کی حرام کردہ چیزوں کو تاویلات کے ذریعہ جائز قرار دیتے ہیں _ واجب حقوق کو پورا کرنے سے پرہیز کرتے ہیں _ حسب منشا احکام دین کی تاویل کرتے ہیں _ صوری طور پر قرآن کا احترام کرتے ہیں اگر امام زمانہ ظاہر ہوجائیں اور ان سے فرمائیں حقیقت دین کو تم نے گم کردیاہے _ آیات قرآن و احادیث رسول کی تم خلاف واقع تاویل کرتے ہو _ حقیقت اسلام کو تم نے کیوں چھوڑدیا اور اس کے بعض ظواہر پر کیوں اکتفا کرلی ؟ اپنے اعمال و رفتار کی تم نے دین سے مطابقت نہ کی بلکہ احکام دین کی اپنی دنیا سے توجیہ کی تجوید و قرائت میں زحمت اٹھانے کی بجائے تم احکام قرآن پر عمل کرو_ میرے جد صرف رو لینے کیلئے شہید نہیں ہوئے ہیں ، میرے جد کے مقصد کو کیوں فراموش کردیا؟

اخلاقی و اجتماعی احکام کو ارکان اسلام سے لو اور انھیں اپنے عملی پروگرام میں شامل کرلو اخلاقی محرمات سے پرہیز کرو ، اپنے مالی حقوق ادا کرو _ بے جا بہانہ بازی سے مغرور نہ بنو _ واضح رہے فضائل و مصائب پڑھنے اور سننے سے خمس و زکوة اور قرض ادا نہیں ہوتا ہے اور اس سے گناہ ، سود خوری ، رشوت ستانی ، دھوکہ دھی کا جرم معاف نہیں ہوتا ہے _ مختلف بہانوں سے واجبات کو ترک نہ کرو _ تقوی و طہارت کو

۴۲۲

مسجدوں میں محصور نہ کرو ، اجتماع میں شرکت کرو اور امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کو انجام دو اور بدعتوں کو اسلام سے نکال دو _

ظاہر ہے ایسا دین اور اس کا پروگرام مسلمانوں کیلئے نیا ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں بلکہ اسے اسلام ہی نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ اسلام کو انہوں نے دوسری طرح

تصور کرلیا تھا وہ یہ سمجھتے تھے اسلام کی ترقی و عظمت صرف مسجدوں کی زینت اور ان کے بڑے بڑے مینار بنانے میں منحصر ہے _ اگر امام فرمائیں عظمت اسلام عمل صالح ، سچائی ، امانت داری عہد پورا کرنے اور حرام سے اجتناب میں ہے تو یہ چیز انھیں نئی معلوم ہوگی کیونکہ وہ سوچتے تھے کہ جب امام زمانہ ظہور فرمائیں گے تمام مسلمانوں کے اعمال کی اصلاح فرمائیں گے اور ان کے ساتھ گوشہ مسجد میں مشغول عبادت ہوجائیں گے _ اگر وہ امام زمانہ کی تلوار سے خون ٹپکتا ہوا دیکھیں گے اور یہ مشاہدہ کریں گے کہ آپ لوگوں کو امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور جہاد کی طرف دعوت دے رہے ہیںاور ستم کیش نمازگزاروں کو قتل کررہے ہیں اور ظلم و تعدی اور رشوت کے ذریعہ جمع کئے ہوئے اموال کو ان کے وارثوں میں تقسیم کررہے ہیں ، زکوة نہ دینے والوں کی گردن ماررہے ہیں تو یہ پروگرام ان کیلئے نیاہے _

جب امام صادق (ع) نے فرمایا : جب ہمارا قائم قیام کریں گے اس وقت لوگوں کو از سر نو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور جس چیز سے علم لوگ دور ہوگئے ہیں اسکی طرف لوگوں کی ہدایت کریں گے _ آپ کو مہدی اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ اس چیز کی طرف ہدایت کریں گے جس سے وہ دورہوگئے تھے اور قائم اس لئے کہا گیا ہے کہ حق کے ساتھ قیام کریں گے _(۱)

____________________

۱_ کشف الغمہ ج ۳ ص ۲۵۴ ارشاد مفید ص ۳۴۳

۴۲۳

خلاصہ :

جعلی مہدیوں اور ان کے پروگراموں اور حقیقی مہدی اور ان کے پروگرام میں زمین آسمان کا فرق ہے چونکہ لوگوں کو ان کا پروگرام پسند نہیں آتا ہے _ اس لئے ابتداء ہی میں متفرق ہوجاتے ہیں لیکن کوئی راہ فرار نہیں ملتی ہے اس لئے ان کے سامنے سراپا تسلیم ہوجاتے ہیں _

امام صادق فرماتے ہیں : گویا میں قائم کو دیکھ رہاہوں ، قباہٹائی ہیں اور پیغمبر کا عہد نامہ طلائی مہر لگا ہوا جیب سے نکالا، اس کی مہر کو توڑا اور لوگوں کے سامنے پڑھا تو لوگ ان کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے چنانچہ گیارہ نقیب کے علاوہ کوئی باقی نہ بچا پس لوگ مصلح کی جستجو میں ہر جگہ جاتے ہیں لیکن کوئی چارہ ساز نہیں ملتا اس لئے پھر آپ ہی کی طرف لوٹ آتے ہیں _ قسم خدا کی میں جانتا ہوں قائم ان سے کیا کہتے ہیں _(۱)

مہدی اور نسخ احکام

فہیمی : آپ نے اس سے قبل فرمایا تھا کہ امام زمانہ مشرع نہیں ہیں احکام کو منسوخ نہیں کرتے ہیں ، بات درج ذیل روایات کے منافی ہے _

حضرت اما م صادق فرماتے ہیں :'' اسلام میں دو خون حلال ہیں اور کوئی بھی اس کا حکم نہیں دیتاہے _ یہاں تک خدائے متعال قائم آل محمد کو بھیجے گا اور آپ گواہ کے بغیر ان کے قتل کا حکم جاری کریں گے _ ان میں سے ایک زنائے محصنہ

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۶

۴۲۴

کا مرتکب ہے کہ آپ اسے سنگسار کریں گے دوسرے زکوة کا انکار کرنے والا ہے کہ آپ اس کی گردن ماریںگے _(۱)

آپ ہی کاارشاد ہے : جب قائم آل محمد ظہور کریں گے تو داؤد و سلیمان کی طرح گواہ کے بغیر لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں گے _(۲)

ایسی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام زمانہ اسلام کے احکام کو منسوخ کردیں گے اور نئے احکام نافذ کریں گے _ آپ ایسے عقائد کے ذریعہ مہدی کی نبوت کا اثبات کرتے ہیں اگر چہ انھیں پیغمبر نہیں کہتے ہیں

ہوشیار: اول تو اس بات کا مدرک خبر واحد ہے جو کہ مفید یقین نہیں ہے _ دوسرے اس میں کیا حرج ہے کہ خدا اپنے پیغمبر (ص) پر ایک حکم کیلئے وحی نازل کرے اور فرمائے : اس وقت سے ظہور امام زمانہ تک آپ (ص) اور سارے مسلمان اس پر عمل کریں لیکن آپ(ص) کے بارہویں جانشین اور ان کا اتباع کرنے والے دوسرے حکم پر عمل کریں گے _ رسول اپنے خلفا کے ذریعہ بارہویں امام کو اس کی اطلاع دیدیں _ اس صورت میں نہ حکم منسوخ ہوا اور نہ امام زمانہ پر نئے حکم کی وحی ہوئی ہے بلکہ پہلا حکم ابتداہی سے مقید تھا اور دوسرے حکم کی پیغمبر اسلام کی خبر تھی _

مثلاً معاشرہ کی بھلائی اس میں ہے کہ قاضی لوگوں کے درمیان ظاہری ثبوت و گواہ اور قسم کے تحت فیصلہ کرے پیغمبر اکرم اور ائمہ بھی اسی پر مامور تھے لیکن جب مہدی ظہور کریں گے اور اسلامی حکومت تشکیل دیں گے تو آپ اپنے علم کے مطابق فیصلہ کریں گے پس ایسے احکام ابتدا ہی سے اسلام کا جزء رہے ہیں لیکن ان کے اجراء کا زمانہ مہدی کے ظہور کا زمانہ ہے _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۲۰_

۴۲۵

کیا دلیل ہے کہ مہدی نے قیام نہیں کیا ہے ؟

ڈاکٹر : ہم اصل مہدویت والی آپ کی بات تسلیم کرتے ہیں لیکن اس بات پر کیا دلیل ہے کہ مہدی موعود نے ابھی تک ظہور نہیں کیا ہے ؟ صدر اسلام سے آج تک قرشی و غیر قرشی بہت سے افراد نے مختلف شہروں میں خروج کیا اور مہدویت کا دعوی کیا ہے ، ان میں سے بعض کے عقیدت مند ہوئے اور مذہب بھی بنایا ہے اور بعض نے چھوٹی چھوٹی حکومتیں بھی بنائی ہیں _ ہم مہدی موعود کے انتظار میں بیٹھے ہیں ممکن ہے ان میں سے کوئی حقیقی مہدی رہا ہو اور ہمیں اس کی خبر نہ ہوئی ہو _

ہوشیار: جیسا کہ گزشتہ بیان سے معلوم ہوچکا ہے ہم ایک بے نام و نشان اور مجہول الہویت مہدی کے معتقد نہیں ہیں کہ جس کی مطابقت میں اشتباہ ہوجائے بلکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار کہ جنہوں نے وجود مہدی کی خبر دی ہے ، انہوں نے مکمل تعریف و توصیف بیان کی ہے اور ہر اجمال و ابہام کو برطرف کردیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے :

نام : مہدی ، کنیت ، ابوالقاسم ہے والدہ : نرجس ، صیقل و سوسن نام کی کنیز تھیں _بنی ہاشم میں سے اولاد فاطمہ زہراء ، نسل امام حسین (ع) سے امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند ہیں سنہ ۲۵۵ یا سنہ ۲۵۶ ھ میں شہر سامرہ میں ولادت پائی ہے ، دو غیبت اختیار کریں گے _ ایک صغری دوسری کبری _ دوسری اتنی طویل ہوگی کہ بہت سے

۴۲۶

لوگ آپ کے اصل وجود ہی میں شک کرنے لگیں گے _ آپ(ع) کی عمر بہت طویل ہوگی ظہور و دعوت کی مکہ سہ ابتداء کریں گے ، تلوا رو جنگ سے تحریک چلائیں گے اور سارے ظالم و مشرکین کو تہ تیغ کریں گے _ تمام اہل کتاب اور مسلمان ان کے سراپا تسلیم ہوجائیں گے ایک عالمی و اسلامی حکومت تشکیل دیں گے _ ظلم و بیدادگری کا قلع و قمع کرکے عالمی عدل و انصاف کی داغ بیل ڈالیں گے _ اسلام کو سرکاری دین قرار دیں گے اور اس کی ترویج و توسیع میں کوشاں رہیں گے مسلمان ایسے مہدی کے ظہور کے منتظر ہیں _

سید علی محمد شیرازی

ڈاکٹر صاحب اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جن لوگوں نے مہدویت کا دعوی کیا ہے _ کیا ان میں سے کسی میں آپ نے یہ اوصاف و علامات دیکھے ہیں تا کہ اس دعوے کے صدق کا احتمال ہو؟

مثلاً ایران کے ایک شہر میں ایک شخص نے مہدویت کا دعوی کیا لیکن وہ امام حسن عسکری کے فرزندہ نہ تھے، غیبت کبری میں نہیں رہے تھے ، طویل العمر بھی نہیں تھے پوری عمر میں کوئی جنگ نہیں کی تھی _ ظالموں کا خون نہیں بہایا تھا ، عالمی اور اسلامی حکومت بھی نہیں بنائی تھی _ زمین کو صرف عدل و انصاف سے پرہی نہیں کیا تھا بلکہ چھوٹے سے ظلم سے بھی لوگوں کو نہیں بچا سکے تھے ، دین اسلام کو دنیا بھر میں تو کیا پھیلاتے اس کے برعکس اسلام کے احکام و قوانین کو منسوخ کردیا تھا اور اس کی جگہ نیا آئین پیش کیا تھا ، کوئی خاص پڑھے لکھے نہ تھے ، خارق العادت کام بھی انجام نہیں دیا تھا ، با وجود اس کے کہ اپنے کئے پر پشیمان تھے ، شرمندگی کا اظہار

۴۲۷

کرتے تھے اور تختہ دار پر چڑھائے گئے _(۱) کیا کوئی عاقل و باشعور یہ سوچ سکتا ہے کہ ایسا شخص مہدی موعود ہوگا؟

عجب بات یہ ہے کہ سید علی محمد شیرازی نے جس وقت اپنے قائم و مہدی ہونے کا دعوی نہیں کیا تھا اس وقت '' تفسیر سورہ کوثر'' نامی کتاب لکھی تھی اور اس میں مہدی موعود سے متعلق احادیث جمع کی تھیں کہ جن میں سے ایک اس کے مدی ہونے کو ثابت نہیں کرتی _ بعدمیں یہ کتاب اس کے اور اس کے ماننے والوں کیلئے دردسر بن گئی تھی اور بہت سے اعتراضات کھڑے ہوگئے تھے _

اس کتاب میں لکھتے ہیں : موسی بن جعفر بغدادی روایت کرتے ہیں کہ میں امام حسن (ع) عسکری سے سنا کہ آپ (ع) نے فرمایا: گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کروگے لیکن جان لو کہ جو شخص رسول کے تمام ائمہ کی امامت کا قائل ہوگا اور صرف میرے بیٹے کا منکر ہوگا تو اس کی اس شخص کی سی حالت ہوگی جو تمام انبیاء کو تسلیم کرتا ہے لیکن حضرت محمد کی نبوت کا منکر ہے اور جو شخص رسول خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے سارے انبیاء کا انکار کردیا ہے ، کیونکہ ہمارے آخری فرد کی اطاعت بالکل ایسی ہی ہے جیسے پہلے فرد کی اطاعت کی اور ہمارے آخری فرد کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہمارے اولین فرد کا انکار کرے جان لو میرا بیٹا اتنی طویل غیبت اختیار کرے گا کہ تمام لوگوں میں وہی شک میں نہیں پڑے گا جس کی خدا حفاظت کرے گا _(۲)

____________________

۱_ تلخیص تاریخ نبیل زرندی ص ۱۳۵ تا ص ۱۳۸

۲_ تفسیر سورہ کوثر

۴۲۸

امام رضا (ع) نے دعبل سے فرمایا : '' میرے بعد میرا بیٹا محمد امام ہے اور محمد کے بعد ان کے بیٹے علی (ع) امام ہیں اور علی کے بعد ان کے بیٹے حسن امام ہیں اور حسن کے بعد ان کے بیٹے حجت و قائم امام ہیں کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا منتظر رہنا اور ظہور کے وقت انکی اطاعت کرنا چاہئے اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اسے اتنا طولانی کردے گا کہ قائم ظہور کرکے دنیا کو عدل وانصاف سے پر کریں جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر حکی تھی _ لیکن وہ کب خروج کریں گے _ اس سلسلہ میں میرے آباء و اجداد نے روایت کی ہے کہ رسول سے عرض کیا گیا _ اے اللہ کے رسول (ص) آپ کے بیٹے کب خروج کریں گے ؟ فرمایا: خروج قائم قیامت کے مثل ہے کہ جس کے وقت کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں بتا سکتا کیونکہ وہ زمین میں بہت گران ہے اچانک آجائے گی _(۱)

ان دونوں حدیثوں کو آپ نے ملاحظہ فرمایا: چند چیزوں کی تصریح کی گئی ہے اول یہ کہ قائم و مہدی موعود امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند ہیں دوسرے غیبت کبری ہے تیسرے ظاہر ہوکر زمین کو عدل و انصاف سے پر کرنا ہے چو تھے _ آپ کے ظہور کا وقت معین نہیں کیا جا سکتا _

امام غائب کے وجود کا اعتراف

سید علی محمد نے اپنی کتاب تفسیر سورہ کوثر میں متعدد جگہوں پر امام غائب کے وجود کا اعتراف کیا ہے اور اس کے آثار و علامات قلم بند کئے ہیں _

____________________

۱_ تفسیر کوثر

۴۲۹

ایک جگہ لکھتے ہیں : امام غائب کے وجود میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ اگر ان کا وجود نہ ہوگا تو پھر کسی چیز کا وجود نہ ہوگا _ آپ کا وجود روز روشن کی طرح واضح ہے کیونکہ ان کے وجود میں شک کا لازمہ قدرت خدا کا انکار ہے اور اس کا منکر کا فر ہے _ یہاں تک لکھتے ہیں _ ہم فرقہ اثنا عشری مسلمانوں و مومنوں کے نزدیک ان کی ولادت ثابت ہوچکی ہے _ میری اور اس شخص کی روح آپ (ع) پر فدا جو ملکوت امر و خلق میں موجود ہے _ غیبت صغری ، اس زمانہ کے معجزات اور آپ کے نائبوں کے علامات بھی ثابت ہوچکے ہیں _

دوسری جگہ لکھتے ہیں : وہ خلف صالح ہیں _ ان کی کنیت ابوالقاسم ہے ، وہ قائم بامر اللہ ہیں _ وہ دنیا پر خدا کی حجت ہیں _ وہ بقیة اللہ ہیں _ آپ (ع) مہدی ہیں جو کہ خفیہ طور پر لوگوں کی ہدایت فرماتے ہیں _ لیکن میں ان کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا لیکن اس طرح لونگا جس طرح امام نے لیا ہے یعنی م _ ح _ م _ د اس سلسلہ میں آپ (ع) نے نص فرمایا ہے : خود امام نے توقیع شریف میں فرمایا ہے جو شخص بھی مجمع عام میں میرا نام لے اس پر خدا کی لعنت_

اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں : ولی عصر کی دو غیبتیں ہیں ، غیبت صغری میں آپ کی معتمد مقرب وکیل و نائب ہوئے ہیں ، غیبت صغری کی مدت ۷۴ سال ہے _ آپ کے نواب عثمان بن سعید عمری ، ان کے بیٹے محمد بن عثمان ، حسین بن روح اور علی بن محمد سمری ہیں _

دوسری جگہ رقم طراز ہیں ، ایک روز میں مسجد الحرام میں رکن یمانی کے پاس نماز میں مشغول تھا کہ ایک فربہ اور حسین و جمیل جوان دیکھا کہ جو نہایت ہی خضوع سے طواف میں مشغول تھا _ سرپر سفید عمامہ اوردوش پراونی عباڈالے تھے _ ایسا لگتا تھا جیسے فارس کا کوئی تاجر ہو _ میرے او ران کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ

۴۳۰

نہ تھا _ اچانک میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شائد یہ صاحب الامر ہیں _ لیکن ان کے پاس جاتے ہوئے شرم محسوس کررہا تھا _ نماز سے فارغ ہوا تو وہ جا چکے تھے لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ صاحب الامر تھے _

سید علی محمد اوراحادیث توقیت

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی قربان جاؤن قائم کب خروج کریں گے ؟ فرمایا: اے ابومحمد اہل بیت ظہور کا وقت معین نہیں کرسکتے محمد نے فرمایا: ظہور کا وقت معین کرنے والا جھوٹا ہے _(۱)

اس اور ایسی ہی دو سری احادیث کا اقتضا یہ ہے کہ ائمہ اطہار (ع) نے ہرگز ظہور کا وقت معین نہیں کیا ہے بلکہ معین کرنے والوں کی تکذیب کی ہے لیکن سید علی محمد کے پیروکاروں نے اپنے پیشوا کی نص صریح کے خلاف ابو سبید مخزومی کی ضعیف حدیث تلاش کی اور فضول تاویلات سید علی محمد کے سنہ ظہور کا اس سے استنباط کیا ہے _

اس فرقہ کی رد میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں ابوالبید کی حدیث پر بہت سے اشکالات وارد کئے گئے ہیں _ ابو بصیر کی حدیث کے مطابق جسے خود علی محمد نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے اور اپنی کتاب میں نقل کیا ، ہر وہ حدیث ناقابل اعتبار ہے جو ظہور قائم کا سنہ معین کرتی ہے اور ایسی حدیث سے تمسک جائز نہیں ہے خواہ وہ ابو سید

____________________

۱_تفسیر سورہ کوثر

۴۳۱

کی ہو یا کسی اور کی _

حدیث ذیل بھی تفسیر سورہ کوثر میں نقل ہوئی ہے :

ایک طول حدیث کے ضمن میں امام صادق (ع) نے فرمایا: امت ہمارے قائم کا بھی انکار کرے گی _ ایک بغیر علم کے کہے گا : امام پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں _ دوسرا کہے گا : گیارہویں امام کے یہاں کوئی اولاد ہی نہیں تھی _ تیسرا اپنی باتوں سے تفرقہ ڈالے گا اور وہ بارہ ائمہ سے بھی آگے بڑھ جائے گا اور ان کی تیرہ یا دس سے زیادہ تعداد بتائیگا دوسرا خدا کا عصیان کرے گا اور کہے گا روح قائم دوسرے شخص کے بدن سے ہم کلام ہوتی ہے _(۱)

اس کے پیروکارکیا کہتے ہیں؟

ان صریح باتوں کے باوجود جو کہ سید علی محمد نے اپنی کتاب تفسیر سورہ کوثر میں تحریر کی ہیں ، جن میں سے بعض ہم نے بھی قلم بند کی ہیں _ میں نہیں جانتا کہ اس کے پیروکاروں کا عقید کیا ہے _ اگر اسے مہدی موعود و قائم سمجھتے ہیں تو علاوہ اس کے کہ یہ موضوع اہل بیت (ع) کی احادیث کے منافی ہے _ خود موصوف کی تصریحات کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس نے امام زمانہ کو امام حسن عسکری کا بلافصل فرزند لکھا ہے اور نام م _ ح _ م _ د اور کنیت ابوالقاسم لکھی ہے اور غیبت صغری و کبری کو آپ کیلئے ضروری قرار دیا ہے _ آپ کے چاروں نائبوں کے نام بھی تحریر کئے ہیں اور مسجد الحرام کا وقاعہ بھی لکھا ہے _

اگر یہ کہتے ہیں کہ روح امام زمانہ سید علی محمد میں حلول کرگئی تھی اور وہ مظہر امام ہیں تو یہ عقیدہ بھی باطل ہے کیونکہ اول تو یہ تناسخ و حلول ہے اور تناسخ و حلول کو علم کے

۴۳۲

ذریعہ باطل کیا جا چکا ہے _ دوسرے یہ عقیدہ ان احادیث کے منافی ہے جن کو خود سید علی محمد نے امام صادق سے نقل کیا ہے کیونکہ امام صادق (ع) نے فرمایا تھا : _ ایک گروہ عصیان کرے گا اور کہے گا روح قائم دوسرے شخص کے بدن سے کلام کرتی ہے _

اپنے پیغمبر ہونے کا انکار کیا

اگر اسے پیغمبر یاباب سمجھتے ہیں تو وہ اس کیلئے راضی نہیں تھے بلکہ اس کے قائلین کو کافر کہا ہے _ اپنی کتاب '' تفسیر سورہ کوثر'' میں لکھتے ہیں : ذکر اسم ربّک _ خودہی_ جو وحی اور قرآن کا دعوی کرتے ہیں وہ کافر ہیں ، جو ذکر اسم ربک کہتے ہیں وہ حضرت بقیة اللہ کی بابیت کے قائل ہیں کافر ہیں _ اے خدا گواہ رہنا کہ جو شخص بھی خدائی یا ولایت کا دعوی کرے یا قرآن ووحی کا مدعی ہو یا تیرے دین میں کم یا زیادتی کرے وہ کافر ہے اور میں اس سے بیزار ہوں _ تو جانتا ہے کہ میں نے ہرگز بابیت کا دعوی نہیں کیا ہے _(۱)

جب سید علی محمد تفسیر سورہ کوثر لکھ رہے تھے ، اس وقت ان کے دماغ میں دعوے کا خناس نہیں تھا ، بس خود کو بہترین دانشور سمجھتے تھے _ جب انہوں نے خود کو خانہ نشین کرلیا اور علما کو کام میں مشغول دیکھتے تو افسوس کرتے تھے _

ایک جگہ لکھتے ہیں : خدا نے میرے اوپر احسان کیا ، میرے قلب کوروشن کردیا میں چاہتا ہوں کہ دین خدا کو اسی طرح پہچنوا ؤں جس طرح قرآن میں نازل ہوا اور جس پر

____________________

۱_ تفسیر سورہ کوثر

۴۳۳

اہل بیت (ع) کی احادیث دلالت کررہی ہیں _

اس کی طرف جن چیزوں کی نسبت دی جاتی تھی وہ اس سے رنجیدہ تھے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے _ لیکن بعد میں ان پر یہ واضح ہوا کہ لوگوں کی حماقت حدسے بڑھ گئی ہے وہ صرف میری تمام باتوں ہی کو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی کردیتے تھے _ اس وقت ان کے دماغ میں اپنے قائم ہونے کی ہوس پیدا ہوئی اور اپنے قائم ہونے کا کھلم کھلا دعوی کردیا _

جھوٹا دعوی

انجینئر: ان افراد کا دعوی جھوٹا تھا تو ان کے اتنے عقیدت مند و فداکار کیسے پیدا ہوئے ؟

ہوشیار: ایک گروہ کا کسی شخص کا عقیدت مند و گرویدہ ہونا اس کی حقانیت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ باطل مذاہب اور عقائد ہمیشہ دنیا میں تھے اور ہیں اور ان کے بھی سچے عقیدت مند تھے _ نادان گروہ کی استقامت و فداکاری کو ان کے پیشوا کی حقانیت کی دلیل نہیں قرار دیا جا سکتا _ آپ تاریخ کا مطالعہ کیجئے تا کہ حقیقت روشن ہوجائے _ مثلاً اس زمانہ میں بھی ، کہ جس کو علم و ارتقاء کا زمانہ کہا جاتا ہے ، ہندستان میں ملینوں انسان ہیں جو حیوانات کی پرستش کرتے ہیں اور

گائے کو عظیم المرتبت سمجھتے ہیں _ اس کا ذبخ کرنے یااس کے گوشت کھانے کو حرام سمجھتے ہیں _ اس کی بے حرمتی کو گناہ سمجھتے ہیں چنانچہ ہندو مسلم اختلافات کے اسباب میں سے ایک گاؤکشی بھی ہے _ اسی طرح ہندو بندروں کا بھی احترام کرتے ہیں اور بندر آزادی

۴۳۴

کے ساتھ لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اور کوئی انھیں کچھ نہیں کہہ سکتا _ چنانچہ حکومت کے آدمی انھیں احترام کے ساتھ شہر سے پکڑتے ہیں اور جنگلوں میں چھوڑ آتے ہیں _ میں سمجھتا ہوں کہ جو اہم مسائل بحث کے محتاج تھے ان کی تحقیق و تجزیہ ہوچکا ہے کوئی اہم مسئلہ باقی نہیں رہا ہے اگر آپ مناسب سمجھیں جلسوں کا سلسلہ ختم کردیا جائے _

جلالی : میرا بھی خیال ہے کہ کوئی اہم مسئلہ نہیں بچا ہے _

ڈاکٹر: ان جلسوں سے میں بہت مستفیض ہو اہوں ، میں سمجھتا ہوں کہ اسی طرح تمام احباب مستفیض ہوئے ہیں _ ہم سب کی خواہش تھی کہ جلسوں کا سسلہ جاری رہے اور ہم مستفید ہوتے رہیں لیکن جناب ہوشیار صاحب کی مشغولیتوں کے پیش نظر میں اس سلسلہ کے اختتام کا موافق ہوں ، انشاء اللہ دوسرے اوقات میں آپ سے مستفید ہوں گے _

آخرمیں انکی مہربانی کا شکریہ ادا کردینا ضروری ہے ، خدا بقیة اللہ الاعظم (ع) کے ظہور و فرج کو نزدیک کردے اور ہم سب کو اسلام کے خدمت گار اور انصار امام زمانہ میں قرار دے _

(آمین) والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

۴۳۵

مدارک و مآخذ کتاب

۱_ قرآن کریم

۲_ نہج البلاغہ

۳_ اصول کافی --محمد بن یعقوب کلینی

۴_ بحار الانوار -- مجلسی

۵_ اثبات الہداة -- محمد بن حسن حر عاملی

۶_ صحیح مسلم -- مسلم بن حجاج نیشابوری

۷_ سنن ابی داود -- ابو داود سلیمان بن اشعر سجستانی

۸_ سننن ابن ماجہ -- ابو عبداللہ محمد بن یزید بن عبداللہ بن ماجہ

۹_ صحیح ترمذی --ابو عیسی محمد بن سورہ

۱۰_ صحیح بخاری -- محمد بن اسماعیل بخاری

۱۱_ مسند احمد -- احمد بن محمد بن حنبل

۱۲_ مجمع الزوائد --علی بن ابی بکر ہیثمی

۱۳_ الحاوی للفتاوی -- جلال الدین سیوطی

۱۴_ البیان -- محمد بن یوسف شافعی

۱۵_ نور الابصار -- سید مؤمن شبلنجی

۱۶_ مشکوة المصابیح -- محمد بن عبداللہ خطیب

۱۷_ ینابیع المودة -- شیخ سلیمان

۴۳۶

۱۸_ کفایة الطالب -- محمد بن یوسف کنجی شافعی

۱۹_ اسعاف الراغبین -- محمد بن علی الصبان

۲۰_ فصول المہمہ -- علی بن محمد بن احمد بن الصباع المالکی

۲۱_ ذخائر العقبی -- محب الدین طبری

۲۲_ تذکرة خواص الامة -- سبط بن جوزی

۲۳_ نظم درر السمطین -- محمد بن یوسف

۲۴_ کنز العمال -- علی بن حسام الدین

۲۵_ مطالب السؤل --محمد بن طلحہ شافعی

۲۶_ الصواعق المحرقہ -- احمد بن حجر ہیثمی

۲۷_ مقدمہ --ابن خلدون

۲۸_ الامامة و السیاسہ -- ابن قتیبہ

۲۹_ الطبقات الکبیر -- محمد بن سعد

۴۳۷

۳۰_ ملل و نحل -- شہرستانی

۳۱_ فرق الشیعہ -- حسن بن موسی نوبختی

۳۲_ المقالات و الفرق -- سعد بن عبد اللہ اشعر

۳۳_ مقاتل الطالبین -- ابوالفرج اصفہانی

۳۴_ اغانی -- ابوالفرج اصفہانی

۳۵_ وفیات الاعیان -- احمد بن محمد بن ابکر بن خلکان

۳۶_ تاریخ الرسل و الملوک -- محمد بن جریر طبری

۳۷_ البدایة و النہایة -- اسماعیل بن عمر بن کثیر

۳۸_ مروج الذہب -- علی بن حسین مسعودی

۳۹_ تاریخ یعقوبی -- احمد بن ابی یعقوب

۴۰_ صفہ الصفوة -- ابوالفرج

۴۱_ روضہ الصفا -- میرآخوند

۴۲_ اثبات الوصیہ -- مسعودی

۴۳_ تاریخ بغداد -- احمد بن علی خطیب بغدادی

۴۴_ تاریخ ابن عساکر -- علی بن حسن شافعی

۴۵_ الکامل فی التاریخ -- ابن اثیر

۴۶_ تاریخ منصوری -- محمد بن علی حمودی

۴۷_ شذرات الذہب --ابوالفلاج حنبلی

۴۸_ العبرفی خبر من غیر-- ذہبی

۴۹_ فتوحات الاسلامیة -- سید احمد

۴۳۸

۵۰_ لسان المیزان -- احمد بن حجر عسقلانی

۵۱_ نزہة النظر -- احمد بن حجر عسقلانی

۵۲_ میزان الاعتدال -- ذہبی

۵۳_ رجال بوعلی -- بوعلی

۵۴_ رجال -- مامقانی مامقانی

۵۵_ منہج المقال -- علامہ بہبہانی

۵۶_ مناقب آل ابیطالب -- محمد بن علی بن شہر آشوب

۵۷_ اعیان الشیعہ -- سید محسن امین شامی

۵۸_ تبصرة الولی -- سید ہاشم بحرانی

۵۹_ الارشاد -- محمد بن نعمان مفید

۶۰_ اعلام الوری -- طبرسی

۶۱_ منتخب الاثر -- لطف اللہ صافی

۶۲_ کمال الدین -- شیخ صدوق

۶۳_ کتاب الغیبة -- محمد بن ابراہیم نعمانی

۶۴_الیواقیت و الجواہر -- شعرانی

۴۳۹

۶۵_ سبائک الذہب -- محمد بن امین بغدادی

۶۶_ کفایة الموحدین -- اسماعیل بن احمد طبرسی

۶۷_کتاب الغیبة -- محمد بن حسن طوسی

۶۸_ الملاحم و الفتن -- علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن طاوس

۶۹_ الذریعة -- شیخ آغا بزرگ تہرانی

۷۰_ علی و فرزندانش -- دکتر طہ حسین ترجمہ خلیلیان

۷۱_ عبداللہ بن سبا -- سید مرتضی عسکری

۷۲_ نقش وعاظ در اسلام --دکتر علی الوردی ترجمہ خلیلیان

۷۳_ جامع احادیث الشیعہ

۷۴_ المہدی -- السید صدر الدین صدر

۷۵_ کشف الاستار -- حاج میرزا حسن محدث نوری

۷۶_ النصایح الکافیہ -- سید محمد بن عقیل

۷۷_ سفینة البحار -- شیخ عباس قمی

۷۸_ اضواء علی الستة -- محمد ابوریہ

۷۹_ ہدیة الاحباب قمی -- محدث قمی

۸۰_ مہدی از صدر اسلام تا قرن ۱۳ --استاد خاورشناسی دارمستتر

۸۱_ الیزیدیة --صدوق دملوجی

۸۲_ تنبیہات الجلیہ -- محمد کریم خراسانی

۸۳_ رجال نجاشی

۸۴_ تفسیر المیزان -- علامہ طباطبائی

۴۴۰