آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181861 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

بشیر کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : لوگ کہتے ہیں کہ جب مہدی قیام کریں گے تو اس وقت ان کے امور طبیعی طور پر روبرو و ہوجائیں گے اور فصد کھلوانے کے برابر بھی خونریزی نہیں ہوگی ؟ آپ (ع) نے فرمایا :

'' خدا کی قسم حقیقت یہ نہیں ہے _ اگر یہ چیز ممکن ہوتی تو رسول خدا کیلئے ہوتی _

میدان جنگ میں آپ کے دانت شہید ہوئے اور پیشانی اقدس زخمی ہوئی _ خدا کی قسم صاحب الامر کا انقلاب اس وقت تک برباد نہ ہوگا _ جب تک میدان جنگ میں خونریزی نہیں ہوگی _ اس کے بعد آپ نے پیشانی مبارک پر ہاتھ ملا _ ''(۱)

ایسی احادیث سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مہدی موعود کو صرف الہی تائید اور غیبی مدد کے ذریہ کامیابی نہیں ہوگی اور یہ طے نہیں ہے کہ ظاہری طاقت سے مدد لئے بغیرہ معجزہ کے طور پر اپنے اصلاحی منصوبوں کو عملی جامہ پہنائیں ، بلکہ تائید الہی کے علاوہ آپ(ص) جنگی اسلحہ اور فوج کو استعمال کریں گے _ علوم و صنعت اور

خوفناک جنگی اسلحہ کی اختراع کو بھی مد نظر رکھیں گے _

مذکورہ دونوں مقدموں کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہ دیکھنا چاہئے کہ مہدی موعود کے ظہور کے شرائط کیا ہیں؟ آپ(ع) کے انقلاب و تحریک کے سلسلہ میں مسلمانوں کاکیا فریضہ ہے اور کس صورت میں کہا جا سکتاہے کہ مسلمان آپ(ع) کے عالمی اور دشوار قیام کے لئے تیار ہیں اور خدا کی قوی حکومت کی تشکیل اور ظہور کے انتظار میں دن گن رہے ہیں؟

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۵۸_

۳۲۱

اہل بیت کی احادیث سے میری سمجھ میں یہ بات آتی ہے کہ غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کا اہم ترین فریضہ یہ ہے کہ پہلے وہ سنجیدگی اور کوشش سے اپنے نفسوں کی اصلاح کریں ، اسلام کے نیک اخلاق آراستہ ہوں ، اپنے فردی فرائض کو انجام دیں قرآن کے احکام پر عمل کریں ، دوسرے اسلام کے اجتماعی پروگرام کا استخراج کریں اورمکمل طور سے اپنے درمیان نافذ کریں اور اسلام کے اقتصادی پروگرام سے اپنی اقتصادی مشکلوں کو حل کریں ، فقر و ناداری اور ناجائز طریقوں سے مال جمع کرنے والوں سے جنگ کریں اوراسلام کے نورانی قوانین پر عمل پیرا ہو کر ظلم و ستم کا سد باب کریں _ مختصر یہ کہ سیاسی اجتماعی ، اقتصادی ، قانونی اور اسلام کے عبادی پروگراموں کو مکمل طور پر اپنے درمیان جاری کریں اوردنیا والوں کے سامنے اس کے عملی نتائج پیش کریں _

تحصیل علم و صنعت میں سنجیدگی سے کوشش کریں اور اپنی گزشتہ غفلت و سستی اور پسماندگی کی تلافی کریں _ بشری تمدن کے کاروان تک یہنچنا کافی نہیں ہے بلکہ ہر طریقہ سے دنیا والوں سے باز جیت لینا ضروری ہے _ دنیا والوں کو عملی طریقے سے یہ بتائیں کہ اسلام کے نورانی احکام و قوانین ہی ان کی مشکلوں کو حل کر سکتے ہیں اور انکی دو جہان کی کامیابی کی ضمانت لے سکتے ہیں _ اسلام کے واضح اور روشن قوانین پر عمل کرکے ایک قوی اور مقتدر حکومت کی تشکیل کریں اور روئے زمین پر ایک طاقت ور و متمدن اور مستقل اسلامی ملت کے عنوان سے ابھر یں _

مشرق و مغرب کی سینہ زور یوں کوروکیں اور دنیا والوں کی قیادت کی زمام خو سنبھالیں _ جہاں تک ہو سکے دفاعی طاقت کو مضبوط اور نظامی طاقت کو محکم بنائیں اور جنگی اسلحہ کی فراہمی کے لئے کوشش کریں _ تیسرے :اسلام کے اجتماعی ، اقتصادی

۳۲۲

اور سیاسی منصوبوں کا استخراج کریں اور دنیا والوں کے گوش گزار کردیں _ خدائی منصوبوں کی قدر و قیمت سے لوگوں کو آگاہ کریں _ قوانین الہی کو قبول کرنے کیلئے دنیا والوں کے افکار کو آمادہ کریں _ اسلام کی عالمی حکومت اور ظلم و بیدادگری سے جنگ کے مقدمات و اسباب فراہم کریں _

جو لوگ اس راہ میں کوشش کرتے ہیں اور امام زمانہ کے مقصد کی تکمیل او رآپ کے انقلاب کیلئے اسباب فراہم کرتے ہیں ، انہی کو فرج کا منتظر کہا جا سکتا ہے اور ان کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ خود کو امام زمانہ کے قیام کیلئے تیارکررہے ہیں _ ایسے فداکار اور کوشاں افراد کے سلسلہ میں کہا جا سکتا ہے کہ انکی مثال ان لوگوں کی سی ہے جو میدان جنگ میں اپنے خون میں غلطان ہوتے ہیں _

لیکن جو لوگ اپنی مشکلوں کو انسان کے وضع کردہ قوانین سے حل کرنا چاہتے ہیں اور اسلام کے اجتماعی و سیاسی قوانین کواہمیت نہیں دیتے ، احکام اسلام کو صرف مسجدوں اور عبادت گاہوں میں محدود سمجھتے ہیں ، جن کے بازار اور معاشروں میں اسلام کا نشان نہیں ہے ، جو فساد و بیدادگری کا مشاہدہ کرتے ہیں اور صر ف یہ کہہ کر خاموش ہوجاتے ہیں کہ اے اللہ فرج امام زمانہ میں تعجیل فرما _ علوم و فنون میں دوسرے آگے ہیں ، ہمارے درمیان اختلافات و پراکندگی کی حکمرانی ہے _ غیروں سے روابط ہیں ، اپنوں سے دشمنی ہے ایسی قوم کے بارے میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ فرج آل محمد اور انقلاب مہدی کی منتظر ہے _ ایسے افراد اسلام کی عالمی حکومت کے لئے تیار نہیں ہیں اگر چہ وہ دن میں سیکڑوں بار اللہم عجل فرجہ الشریف کہتے ہوں _

اہل بیت (ع) کی احادیث سے میں اس بات کو اچھی طرح سمجھتا ہوں _ اس کے علاوہ دوسری

۳۲۳

روایات میں بھی اس موضوع کی طراف اشارہ ہوا ہے مثلاً: امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا: '' ہمارے قائم ک ے ظہور اور انقلاب کیلئے تم خود کو آمادہ کرو اگر چہ ایک تیر ہی ذخیرہ کرو''(۱) عبد الحمید واسطی کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر (ع) کی خدمت میں عرض کی : ہم نے اس امر کے انتظار میں خرید و فروخت بھی چھوڑدی ہے فرمایا:

'' اے عبد الحمید کیا تم یہ گمان کرتے ہو کہ جس نے اپنے جان راہ خدا میں وقف کردی ہے _ خدا اس کی فراخی کیلئے کوئی انتظام نہیں کرے گا ؟ خدا کی قسم اس کے لئے راستے کھل جائیں گے اور امور آسان ہوجائیں گے خدا رحم کرے اس شخص پر جو ہمارے امر کو اہمیت دیتا ہے '' _ عبدالحمید نے کہا: اگر انقلاب قائم سے پہلے مجھے موت آگئی تو کیا ہوگا؟ فرمایا: '' تم میں سے جو شخص بھی یہ کہتا ہے کہ اگر قائم آل محمد کا میری حیات میں ظہور ہوگا تو میں آپ کی مدد کروں گا _ اس کی مثال اس شخص کی ہے جسن نے امام زمانہ کی رکاب میں تلوار سے جہاد کیا ہے بلکہ آپ (ع) کی مدد کرتے ہوئے شہادت پائی ہو ''(۲) _

ابوبصیر کہتے ہیں : ایک روز امام صادق (ع) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

'' کیا میں تمہیں وہ چیز بتاؤں کہ جس کے بغیر خدا بندوں کے اعمال قبول نہیں کرتا ہے ؟'' ابوبصیر نے عرض کی : (مولا) ضرور بتایئے فرمایا:'' وہ ایک خدا اور محمد (ص) کی نبوت کی گواہی دینا ، خدا کے دستوارت کااعتراف کرنا ، ہماری محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری اختیار کرنا ، ائمہ کے سامنے

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۶۶_

۲_ کمال الدین ج ۲ ص ۳۵۷_

۳۲۴

سراپا تسلیم ہونا ، پرہیزگاری ، جد و جہد اور قائم کا منتظر رہنا ہے _

اس کے بعد فرمایا: ہماری حکومت مسلّم ہے جب خدا چاہے گا تشکیل پائے گی جو شخص ہمارے قائم کے اصحا ب و انصار میں شامل ہونا چاہتا ہے _ اسے چاہئے کہ انتظار فرج میں زندگی بسر کرے _ پرہیزگاری کو اپنا شعار بنائے ، اخلاق حسنہ سے آراستہ ہو اور اسی طرح ہمارے قائم کے انتظار میں زندگی بسر کرتا رہے اگر وہ اسی حال میں رہا اور ظہور قائم آل محمد سے پہلے موت آگئی ، تو اسے اتنا ہی اجر و ثواب ملے گا کہ جتنا امام زمانہ کے ساتھ رہنے والے کو ملیگا _

شیعہ کوشش کرو اور امام مہدی کے منتظر رہو _ اے خدا کی رحمت و لطف کے مستحقو کامیابی مبارک ہو _(۱)

____________________

۱_ غیبت نعمانی ص ۱۰۶_

۳۲۵

قیام کے خلاف احادیث کی تحقیق

انجینئر: ہوشیار صاحب آپ کی گزشتہ باتوں '' انتظار فرج'' کی بحث سے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ امام زمانہ (ع) کی غیبت میں شیعوں کا فریضہ ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کے اجراء کیلئے کوشش کریں اور اس طرح امام زمانہ کے عالمی انقلاب اور ظہور کے اسباب فراہم کریں میرے خیال میں آپ کی باتیں بعض احادیث کے منافی ہیں _ جیسا کہ آپ کو بھی معلوم ہے کہ بعض ایسی احادیث بھی موجود ہیں جو کہ قیام و ظہور مہدی سے قبل کسی بھی تحریک و انقلاب کی ممانعت کرتی ہیں _ اگر آپ تجزیہ کریں تو مفید ہوگا _

ہوشیار: آپ کی یاد ، دہاتی کا شکریہ _ ایسی احادیث ، دو طریقوں سے تجزیہ و تحقیق کی جا سکتی ہے _ پہلے تو سند کے اعتبار سے تحقیق ہونی چاہئے کہ وہ صحیح و معتبر ہیں یا نہیں _ دوسرے دلالت کے لحاظ سے دیکھنا چاہئے کہ کیا وہ کسی بھی انقلاب و تحریک ممانعت کیلئے دلیل بن سکتی ہیں یا نہیں لیکن احادیث کی تحقیق و تحلیل سے قبل مقدمہ کے طور پر میں ایک اور بات عرض کردینا مناسب سمجھتا ہوں _ اس طرح ہم مذکورہ مسئلہ سے دو حصوں میں بحث کریں گے _

۱_ اسلام میں حکومت

۳۲۶

۲_ احادیث کی تحقیق

اسلام میں حکومت

اسلام کے احکام و قوانین کے مطالعہ یہ بات بخوبی سمجھ میں آتی ہے کہ دین اسلام صرف ایک عقیدتی اور عبادی دین نہیں ہے بلکہ عقیدہ ، عبادت ، اخلاق ، سیاست اور معاشرہ کا ایک مکمل نظام ہے _ کلی طور پر اسلام کے احکام و قوانین کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے :

۱_ فردی احکام جیسے نماز ، روزہ ، طہارت ، نجاست ، حج ، کھانا ، پینا و غیرہ ان چیزوں پر عمل کرنے کے سلسلے میں انسان کو حکومت اور اجتماعی تعاون کی ضرورت نہیں ہوتی ہے بلکہ وہ تن تنہا اپنا فریضہ پورا کرسکتا ہے _

۲_ اجتماعی احکام ، جیسے جہاد، دفاع ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، فیصلے ، اختلافات کا حل ، قصاص ، حدود ، دیات ، تعزیرات ، شہری حقوق ، مسلمانوں کے آپس اور کفار سے روابط اور خمس و زکوة ، یہ چیزیں انسان کی اجتماعی و سیاسی زندگی سے مربوط ہیں _ انسان چونکہ اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے ، اور اجتماعی زندگی میں تزاحمات پیش آئیں گے لہذا اسے اسے قوانین کی ضرورت ہے ، جو ظلم و تجاوز کا سد باب کریں اور افراد کے حقوق کا لحاظ رکھیں _ اسلام کے بانی نے اس اہم اور حیات بخش امر سے چشم پوش نہیں کی ہے بکلہ اس کیلئے حقوقی جزائی اور شہری قوانین مرتب کئے ہیں اور اختلافات کے حل اور قوانین کے مکمل اجراء کیلئے عدالتی احکام پیش کئے ہیں _ ان قوانین کی تدوین اور وضع سے یہ بات بخوبی سمجھ

۳۲۷

میں آجاتی ہے کہ عدلیہ کا تعلق دین اسلام کے متن سے ہے اور شارع اسلام نے اس کی تشکیلات پر خاص توجہ دی ہے _ اسی طرح اسلام کے احکام و قوانین کا معتد بہ حصہ راہ خدا میں جہاد اور اسلام و مسلمین سے دفاع سے متعلق ہے _ اس سلسلہ میں دسیوں آیتیں اور سیکڑوں حدیثیں وارد ہوئی ہیں _ مثلاً : خداوند عالم مومنوں کو مخاطب کرکے فرماتا ہے :

جاهدوا فی سبیل الله حق جهاد (۱) (حج/ ۷۸)

راہ خدا میں جہاد کا حق ادا کرو _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین لله (۲) (بقرہ /۱۲)

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ و فساد کا خاتمہ ہوجائے اور صرف دین خدا باقی رہے

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم لعلهم ینتهون (توبہ/ ۱۲)

پس تم کفر کے سرغنہ لوگوں سے جنگ کرتے رہو کہ ان کے عہد کا کوئی اعتبار نہیں ہے تا کہ یہ اپنی شرارتوں سے باز آجائیں _

ایسی آیتوں سے کہ جن کے بہت سے نمونے موجود ہیں ، یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اسلام کی نشر و اشاعات ، کفر و استکبار اور ظلم و ستم سے جنگ مسلمانوں کا فریضہ ہے _ بلکہ بعض آیتوں میں تو یہ حکم بھی دیا گیا ہے کہ مسلمان اپنی دفاعی طاقت کو مضبوط بنانے کی کوشش کریں اور دشمن کے مقابلہ کے لئے مسلح رہیں _ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

واعدوا لهم ماستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم و آخرین من دونهم لا تعلمونهم الله یعلمهم _ (انفال / ۶۰)

اور جہاں تک ہوسکے جنگی توانائی اور بندھے ہوئے گھوڑے فراہم کرو اور اس سے

۳۲۸

دشمنان خدا اور اپنے دشمنوں اور دوسرے لوگوں پر دھاک بٹھا ور تم انھیں نہیں جانتے نگر خدا انھیں جانتا ہے _

مذکورہ آیتوں سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ اسلحہ کی فراہمی اور فوجی توانائی اسلام کا جز ہے _ مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ ہمیشہ دفاعی طاقت کے استحکام اور دشمنوں کے حملوں کو روکنے کیلئے مختلف قسم کا اسلحہ بنائیں کہ جس سے دشمنان اسلام ہمیشہ مرعوب ووحشت زدہ رہیں اور تعدی و تجاوز کی فکر ان کے ذہن میں خطور نہ کرے _

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر

امر بالمعروف اور نہی عن المنکر بھی اسلام کے اہم ترین احکام میں سے ہے اور یہ سب پرواجب ہے _ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ ظلم و فساد ، استکبار ، تعدی و تجاوز اور معصیت کاری سے مبارزہ کریں ، اسی طرح توحید ، خداپرستی کی اشاعت اور لوگوں کو خیر و صلاح کی طرف بلانے کی کوشش کرنا بھی واجب ہے اس اہم اور حساس فریضہ کی تاکید کے سلسلہ میں دسیوں آیتیں او رسیکڑوں احادیث وارد ہوتی ہیں _ مثلاً:

ولتکن منکم امة یدعون الی الخیر یامرون بالمعروف و ینهون عن المنکر (آل عمران /۱۰۴)

''تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو لوگوں کو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کریں'' _

دوسری جگہ ارشاد فرماتا ہے :

کنتم خیر امة اخرجت للناس تامرون بالمعروف و تنهون

۳۲۹

عن المنکر و تومنون بالله ( آل عمران/ ۱۱۰)

تم بہترین امت ہو کر لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے اور برائیوں سے روکتے ہو اور خدا پر ایمان رکھتے ہو _

مختصر یہ کہ اسلام کا سیاسی و اجتماعی پروگرام اوراحکام و قوانین جیسے جہاد، دفاع قضاوت ، حقوقی ، شہری و جزائی ، قوانین ، امر بالمعروف و نہی عن المنکر ، فساد و بیدادگری سے مبارز ہ ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ان سب کیلئے نظم و ضبط اور اداری تشکیلات کی ضرورت ہے اور ایک اسلامی حکومت کی تاسیس کے بغیر ان احکام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

اس بحث سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی حکومت کی تاسیس ، جو کہ اسلام کے قوانین کے نفاذ اور اس کے سیاسی ، اجتماعی ، اقتصادی فوجی اور انتظامی و حقوقی پروگرام کے اجراء کی ضامن ہے ، اسلام کا اصل نصب العین ہے _ اگر شارع نے ایسے قوانین و پروگرام وضع کئے ہیں تو ان کے نفاذ کیلئے حاکم اسلام کی ضرورت کو بھی ملحوظ رکھا ہے _ کیا جنگ و دفاع فوجی نظم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟ کیا ظلم و بیدادگری ، دوسروں کے حقوق کو غصب کرنے ، اجتماعی عدالت کا نفاذ ، احقاق حق اور ہرج و مرج کا سد باب عدلیہ اور انتظامی نظلم و نسق کے بغیر ممکن ہے؟

چونکہ اسلام نے قوانین و پروگرام کئے ہیں اس لئے ان کے اجراء و نفاذ کا بھی منصوبہ بنایا ہے _ اور یہی اسلامی حکومت کے معنی ہیں کہ حاکم اسلام یعنی ایک شخص ایک وسیع اداری امور کی زمام اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے اور قوانین الہی کو نافذ کرکے لوگوں میں امن وامام برقرار کرتا ہے _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں واقع ہوتی ہے اس سے جدا نہیں کیاجا سکتا _

۳۳۰

رسول (ص) خدا مسلمانوں کے زمامدار

رسول خدا (ص) اپنی حیات طیبہ میں عملی طور پر حکومت اسلامی کے زمامدار تھے مسلمانوں کے امور کے نگراں تھے _ اور اس اہم ذمہ داری کی انجام وہی کی خاطر خدا کی طرف سے آپ کو بہت سے اختیارات دیئےئے تھے _ قرآن فرماتا ہے :

النّبی اولی بالمومنین من انفسهم ( احزاب /۶۰)

نبی کو مومنین کے امور میں خود ان سے زیادہ تصرف کا حق حاصل ہے _ دوسری جگہ ارشاد ہے :

فاحکم بینهم بما انزل الله ولا تتبع اهوائهم ( مائدہ / ۴۸)

جو احکام و قوانین ہم نے آپ (ص) پر نائل کئے ہیں ان کے ذریعہ مسلمانوں کے درمیان حکومت کیجئے اور ان کی خواہش کا اتباع نہ کیجئے _

اس بنا پر رسول (ص) دو منصبوں کے حامل تھے ایک طرف وحی کے ذریعہ خدا سے رابط تھا اور ادھر سے شریعت کے احکام و قوانین لیتے تھے اور لوگوں تک پہنچاتے تھے اور دوسری طرف امت اسلامیہ کے زمام دار و حکمران بھی تھے اور مسلمانوں کے سیاسی و اجتماعی پروگرام کا اجراء آپ ہی فرماتے تھے _

رسول (ص) خدا کی سیرت کے مطالعہ سے یہ بات بخوبی روشن ہوجاتی ہے کہ آپ(ص) عملی طور پر مسلمانوں کے امور کی باگ ڈور اپنے دست مبارک میں رکھتے اور ان پر حکومت کرتے تھے_ حاکم و فرمانروا مقرر کرتے ، قاضی معین کرتے ، جہاد و دفاع کا حکم صادر فرماتے مختصر یہ کہ آپ (ص) ان تمام کاموں کو انجام دیتے تھے جو ایک امت کیلئے

۳۳۱

لازم ہوتے تھے _(۱)

اس کام پر آپ خدا کی جانب سے مامور تھے _ آپ (ص) کو یہ ذمہ داری سپردکی گئی تھی کہ اسلام کے سیاسی اور اجتماعی قوانین کو نافذ کریں _ مسلمان جہاد پر مامور تھے لیکن رسول خدا کو یہ حکم تھا کہ وہ انھیں جہاد و دفاع کیلئے ، آمادہ کریں _ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

'' یا ایها النبی حرّض المومنین علی القتال'' ( انعام / ۲۵)

اے نبی (ص) مومنین کو جہاد کی ترغیب دلاہیئے

دوسری جگہ ارشاد ہے :

یا ایها النبی جاهد الکفار و المنافقین و اغلظ علیهم (توبہ /۷۳)

اے نبی (ص) کفار و منافقین سے جہاد کیجئے اور ان پر سختی کیجئے _

رسول (ص) لوگوں کے درمیان حکومت و قضاوت کرنے پر مامور تھے ، قرآن کہتا ہے :

انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بمااراک الله و لا تکن للخائنین خصیما'' _ (نساء/ ۱۰۵)

ہم نے آپ پر بر حق کتاب نازل کی ہے تا کہ اس کے مطابق لوگوں کے درمیان حکم کریں جو خدا نے آپ کو دکھایا ہے اور خیانت کاروں کے حق میں عداوت نہ کیجئے _

ان آیتوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسول خدا نبی ہونے ، وحی لینے اور

____________________

۱_ الترتیب الاداریہ اور کتاب الاموال مولفہ حافظ ابو عبید ملا حظہ فرمائیں _

۳۳۲

اسے لوگوں تک پہنچانے کے علاوہ مسلمانوں کی حکومت اور زمامداری پر بھی مامور تھی اور اس بات پر مقرر تھے کہ سیاسی و اجتماعی احکام و پروگرام کو نافذ کرکے مسلمانوں پر حکومت کریں چنانچہ اس سلسلہ میں آنحضرت کو مخصوص اختیارات دیئے گئے تھے اور مسلمانوں پر آنحضرت کی حکومتی احکام کی اطاعت کرنا واجب تھا _

قرآن مجید میں ارشاد ہے :

اطیعوا لله و اطعیواالرسوال و اولی الامر منکم (نساء/ ۵۹)

اللہ کی اطاعت کرو اور سول (ص) کی اطاعت کرو اور اپنے صاحبان امر کی اطاعت کرو _ نیز ارشاد ہے :

و اطیعوا الله و رسوله و لا تنازعو فتفشلوا '' ( انفال / ۴۶)

اور خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کرو نزاع و اختلاف سے پرہیز کرو کہ کمزور پڑجاؤ گے _

و ما ارسلنا من رسول الا لیطاع باذن الله (نساء/ ۶۴)

اور ہم نے جس رسول کو بھی بھیجا خدا کے حکم سے اس کی اطاعت ہوتی _

ان آیتوں میں رسول (ص) کی اطاعت خدا کی اطاعت کے ساتھ بیان ہوئی ہے اور مسلمانوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ خدا کی اطاعت کے ساتھ اس کے رسول (ص) کی

بھی اطاعت خدا کی اطاعت اس طرح ہوگی کہ لوگ اس کے احکام کو قبول کریں جو کہ رسول کے ذریعہ بھیجے گئے ہیں _ اس کے علاوہ مسلمانوں پر یہ واجب کیا گیا تھا کہ وہ رسول کے مخصوص احکام کی بھی اطاعت کریں _ رسول (ص) خدا کے مخصوص فرمان عبارت ہیں : وہ حکم و دستورات جو آپ مسلمانوں کے حاکم ہونے کی حیثیت سے صادر فرماتے تھے_ اس لحاظ سے وہ

۳۳۳

بھی واجب ہیں _ مختصر یہ کہ حکم خدا سے رسول (ص) کی اطاعت واجب ہے _

اس بناپر ابتدائے اسلام ہی سے حکومت دین کا جزو تھی اور عملی طور پر پیغمبر اس کے عہدہ دار تھے _

اسلامی حکومت رسول (ص) کے بعد

رسول کی وفات کے بعد نبوت اور وحی کا سلسلہ ختم ہوگیا _ لیکن دین کے احکام و قوانین اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام مسلمانوں کے درمیان باقی رہے _ یہاں یہ سوال اٹھتاہے کیا رسول اکرم کی رحلت کے بعد آپ(ص) کی حاکمیت کا منصب بھی نبوت کی طرح ختم ہوگیا ؟ اور اپنے بعد رسول خدا نے کسی کو حاکم و زمام دار مقرر نہیں کیا ہے بلکہ اس ذمہ داری کو مسلمانوں پر چھوڑدیا ہے _ یا اس اہم و حساس موضوع سے آپ(ص) غافل نہیں تھے اور اس ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے کسی شخص کو منتخب فرمایا تھا؟

شیعوں کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر اسلام خود مسلمانوں کے حاکم اور اسلام کے قوانین و پروگرام کو نافذ کرنے والے تھے ، آپ اسلامی حکومت کے دوام کی ضرورت کو بخوبی محسوس کرتے تھے _ آنحضرت(ص) اچھی طرح جانتے تھے کہ بغیر حکومت کے مسلمان زندہ نہیں رہ سکتے اور اسلامی حکومت اسی صورت میں ہوسکتی ہے کہ جب اس کو چلانے کیذمہ داری اسلام شناس ، عالم ، پرہیزگار ، امین اور عادل انسان کے دوش پر ڈالی جائے ، تا کہ وہ دین کے احکام و قوانین کو نافذ کرکے اسلامی کومت کو دوام بخشے _ اسی لئے رسول اکرم نے ابتداء تبلیغ رسالت ہی سے خداوند عالم کے حکم کے مطابق مناسب موقعوں پر حضرت علی بن ابی طالب علیہ السلام کو مسلمانوں کے امام و خلیفہ کے عنوان سے پہچنوایا ہے اس سلسلہ میں

۳۳۴

احادیث شیعہ و اہل سنت کی کتابوں میں موجود ہیں _منجملہ ان کے یہ ہے کہ حجة الوداع کے سفر میں غدیر خم کے مقام پر قافلہ روک کر ہزاروں صحابہ کے سامنے فرمایا:

الست اولی بالمومنین من انفسهم ؟ قالوا بلی یا رسول الله فقال من کنت مولاه فعلی مولاه ، ثم قال: اللهم وال من والاه و عاد من عاداه _ فلقیه عمر بن الخطاب فقال : هنیئاً لک یا بن ابی طالب _ اصبحت مولای و مولا کل مومن و مومنه _(۱)

رسول (ص) نے لوگوں سے فرمایا: کیا میں مومنین کے نفسوں پر ان سے زیادہ حق نہیں رکھتا ہوں؟ اصحاب نے عرض کی : بے شک ، اللہ کے رسول ، اس وقت آپ (ع) نے فرمایا: جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں _ پھر فرمایا : با ر الہا علی کے دوست کو دوست اور ان کے دشمن کو دشمن _ پس عمر بن خطاب نے حضرت علی سے ملاقت کی اور کہا : فرزند ابوطالب مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے ''_

ایسی احادیث سے یہ بات عیاں ہوتی ہے کہ رسول (ص) نے اپنی حاکمیت کو دائمی بناکر اسے علی بن ابی طالب کے سپرد کردیا ہے _ اس سے پہلے اس منصب کیلئے آپ کو آمادہ کیا اور ضروری علوم و اطلاع آپ کے اختیار میں دیں _ آنحضرت جانتے تھے کہ علی ذاتی علم و عصمت کے حامل ہیں اور منصب امامت کے لائق ہیں _ اسی لئے آپ (ص) نے

____________________

۱_ ینابیع المودة / ۲۹۷_

۳۳۵

خدا کے حکم سے حضرت علی کو اس منصب کیلئے منتخب کیا اور اس حیثیت سے پہچنوایا _ حضرت علی اسلام کے احکام و قوانین کے حافظ بھی تھے اور حاکم اسلام و مجری قوانین بھی تھے رسول نے غدیر میں حضرت علی کے اختیار میں اپنا اولی بالتصرف کا منصب دیا _ اور عمر بن خطاب کے ذہن میں بھی ان ہی معنی نے خطور کیا اورانہوں نے علی سے کہا : اے ابوطالب کے بیٹے مبارک ہو کہ آپ میرے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا بن گئے _

مسلمان بھی یہی سمجھتے چنانچہ انہوں نے امیرالمومنین کی بیعت کی وفاداری کااظہار کیا اگر ان معنی میں علی کو مولا نہ بنایا گیا ہوتا تو تو بیعت کی ضرورت نہ ہوتی _

علی (ع) جانشین رسول (ص)

رسول خدا نے خدا کے حکم سے حضرت علی (ع) کو مسلمانوں کا امام و زمام دار منصوب فرمایا اور اس طرح آپ نے مسلمانوں کی امامت کو دائمی بنادیا _ لیکن آپ کی وفات کے بعد بعض صحابہ نے اختلاف کیا ، لوگوں کی کمزوری اور جاہلیت سے غلط فائدہ اٹھایا اور حضرت علی کے شرعی حق کو غصب کرلیا اور اسلامی حکومت کو اس کے حقیقی وارث سے جدا کردیا _ حضرت علی (ع) کے بیعت نہ کرنے ، خطبے دینے ، احتجاج کرنے اور شکوہ کرنے کی وجہ یہی تھی کہ مسلمانوں کی حاکمیت و زمام داری کو غصب کرلیا گیا تھا _ خلفا نے دین کے احکام و معارف کو حضرت علی (ع) سے نہیں لیا تھا _ اگر چہ آپ کے علمی تبحر و مرتبہ کے معترف تھے یہاں تک کہ مشکل مسائل میں آپ(ع) سے رجوع کرتے تھے _

جس وقت خلافت حضرت علی (ع) کے ہاتھ میں آئی اور آپ(ع) نے خلافت کے تمام امور جیسے حاکم و فرمانروا کا تقرر ، قضات کا انتخاب ، زکوة و خمس کی وصولیابی کی

۳۳۶

ذمہ داری کا سپرد کرنا ، جہاد ودفاع کاحکم صادر کرنا اور سپہ سالاروں کے تقرر کو اپنے اختیار میں لے لیا تو طلحہ و زبیر نے آپ (ع) کے مخالفت کی اور جنگ جمل برپاکردی وہ آپ کی حکومت کے مخالف تھے آپ (ع) کے علمی مرتبہ اور احکام و معارف کے بیان کے مخالف نہیں تھے _ احکام کے بیان میں معاویہ کو بھی آپ سے کوئی اختلاف نہیں تھا بلکہ اس نے حکومت او رتخت خلافت کے سلسلہ میں آپ (ع) سے جنگ کی تھی _

اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ رسول اکرم کی وفات سے اسلامی حکومت ختم نہیں ہوئی بکلہ حضرت علی بن ابی طالب کے خلیفہ منصوب ہونے سے اسلامی حکومت کے باقی رکھنے کی تصریح ہوگئی اور اس بات کی وضاحت ہوگئی کہ شارع اسلام نے سیاسی و اجتماعی قوانین کے نافذ کرنے میں کبھی دریغ نہیں کیا ہے _ یعنی اسلامی حکومت کو ہمیشہ باقی رہنا چاہئے _

امیر المومنین علیہ السلام نے اپنے بعد امام و خلیفہ اور حاکم منتخب کیا اور امام حسن (ع) نے اپنے بعد اپنے بھائی امام حسین اور امام حسین (ع) نے اپنے بیٹے امام زین العابدین کو منصوب کیا اور اس طرح بارہویں امام حضرت حجة بن الحسن تک ہر امام نے اپنے بعد والے امام کا تعارف کرایا _ خداداد علم و عصمت اور طہارت اور اپنے ذاتی کمال و صلاحیت کے علاوہ مسلمانوں کے امام و حاکم بھی منصوب ہوئے _ اس بناپر مسلمانوں کی امامت اور معصوم حکمرانوں کو اسلام سے جدا نہیں کیا جا سکتا اگر چہ حضرت علی بن ابی طالب کے علاوہ بظاہر کوئی امام بھی اپنا شرعی حق حاصل نہیں کرسکا اور اسلامی حکومت کو جاری نہ رکھ سکا _

زمانہ غیبت میں اسلامی حکومت

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس زمانہ میں اسلام کے سیاسی اور اجتماعی پروگرام

۳۳۷

کی کیا کیفیت ہے؟ جس زمانہ میں معصوم امام و حاکم تک رسائی نہیں ہے کیا اس میں شارع اسلام نے احکام و منصوبوں سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کا کوئی فریضہ نہیں ہے ؟ کیا اسلام یہ سارے قوانین صرف رسول کی حیات ہی کے مختصر زمانہ کیلئے تھے؟ اور اس وقت سے ظہور امام مہدی تک ان کی کوئی ضرورت نہیں ہے؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام نے اس طویل زمانہ میں جہاد، دفاع ، حدود کے اجراء قصاص و تعزیرات ظلم و بیدادگری سے جنگ، مستضعفین اور محروموں سے دفاع، فساد و سرکشی اور معصیت کاری سے مبارزہ سے دست کشی کرلی ہے اور ان کے نفاذ کو حضرت مہدی کے ظہور پر موقوف کردیا ہے ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس زمانہ میں آیات و احادیث صرف کتابوں میں بحث کرنے کیلئے آئی ہیں ؟ میرے خیال میں کوئی با شعور مسلمان ایسی باتوں کو قبول نہیں کرے گا ؟ مسلمان خصوصاً مفکر ین یہی کہیں گے کہ یہ احکام بھی نفاذ ہی کے لئے آئے ہیں _ اگر حقیقت یہی ہے تو تمام زمانوں کو منجملہ اس زمانہ کو قوانین کے اجراء سے کیوں نظر انداز کردیا ہے؟ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اسلام نے سیاسی و اجتماعی منصوبے بنائے ہیں لیکن انھیں عملی جامہ پہنانے کیلئے حاکم مقرر نہیں کئے ہیں _

زمانہ غیبت میں مسلمانوں کا فریضہ

یہ بات صحیح ہے کہ پیغمبر اور معصوم امام کو خدا کی طرف سے مسلمانوں کا حاکم منصوب کیا گیا ہے اور ان کے امور کی زمام ان ہی کے ہاتھ میں دی گئی ہے _ اور اس سلسلہ میں انھیں کوشش کرنی چاہئے لیکن اصلی ذمہ داری مسلمانوں پر عائد کی گئی ہے اور وہ یہ کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس و استحکام اور پیغمبر و امام کو طاقت فراہم کرنے کے سلسلہ

۳۳۸

میں مخلصانہ کوشش کریں اور ان کے تابع رہیں _ اسی طرح جب معصوم امام تک رسائی ممکن نہ ہو تو مسلمانوں کا فرض ہے کہ وہ اسلامی حکومت کی تاسیس اور اسلام کے سیاسی و اجتماعی منصوبوں کے اجراء کیلئے کوشش کریں جو فکر اسلام نے کسی زمانہ میں یہاں تک کہ اس زمانہ میں بھی اپنے احکام کو نظر انداز نہیں کیا ہے اور مسلمانوں کو ان پر عمل کرنے کی دعوت دی ہے _ اکثر احکام و قوانین مسلمانوں کو مخاطب کرکے بیان کئے گئے ہیں مثلاً قرآن مجید فرماتا ہے :

و جاهدوا فی الله حق جهاده ( حج/ ۷۸)

راہ خدا میں حق جہاد ادا کرو _

انفروا خفافا و ثقالا و جاهدوا باموالکم و انفسکم فی سبیل الله ( توبہ /۴۱)

مسلمانو تم ہلکے ہو یا بھاری راہ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو _

تومنون بالله و رسوله و تجاهدون فی سبیل الله (صف/۱۱)

تم خداو رسول پر ایمان رکھتے ہو راہ خدا میں جہاد کرو _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لا تعتدوا ( بقرہ/ ۱۹۰)

راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے لڑتے ہیں لیکن زیادتی نہ کرو _

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کان ضعیفا ( نساء /۶۷)

شیطان کے طرف داروں سے جہاد کرو کہ شیطان کامکر کمزور ہے _

و قاتلوا حتی تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال / ۳۹)

۳۳۹

ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا باقی رہے _

و مالکم لا تقاتلون فی سبیل الله (انفال /۳۹)

راہ خدا میں تم جہاد کیوں نہیں کرتے؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم (توبہ/۱۲)

کفار کے سر غناؤں سے جنگ کرو کہ ان کی قسم کا کوئی اعتبار نہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة ( توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے سب اسی طرح جنگ کرو جیسا کہ وہ سب تم سے جنگ کرتے ہیں _

واعدوا لهم مااستطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدو الله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

اور جہاں تک تم سے ہوسکے دشمنوں کے لئے جنگی توانائی اور گھوڑوں کی صف کا انتظام کرو کہ اس سے خدا کے دشمن اور تمہارے دشمنوں پر رعب طاری ہوگا _والسارق و السارقة فاقطعوا ایدهما جزاء بما کسبا نکالا من الله و الله عزیز حکیم (مائدہ / ۳۸)

اور چورمرد اور چور عورت دونوں کے ہاتھ کاٹ دو کہ یہ ان کے لئے ایک بدلہ اور خدا کی طرف سزا ہے اور خدا عزت و حکمت والا ہے _

الزّانیه و الزّانی فاجلدو کل واحد منهما اماة جلدة ولا تاخذ بهما رافة فی دین الله _ ( نور/ ۲)

زناکار عورت اور زناکار مرد دونوں کو سوسو کوڑے لگاؤ اور خبردار

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

ظاہر ہے ایسا پروگرام لوگوں کیلئے بالکل نیا ہوگا _

حضرت امام صادق فرماتے ہیں :

''ظہور کرنے کے بعد قائم سیرت رسول خدا کے مطابق عمل کریں گے لیکن آثار محمد کی تفسیر کریں گے '' _(۱)

فضیل بن بسیار کہتے ہیں : میں نے حضرت امام محمد (ع) باقر کو فرماتے سنا:

''جب ہمارا قائم قیام کرے گا تو لوگ آپ (ع) کی راہ میں مشکلیں اور رکاوٹیںایجاد کریں گے کہ زمانہ جاہلیت میں اتنی ہی پیغمبر اکرم (ص) کی راہ میں ایجاد کی گئی تھیں'' میں نے عرض کی کیسے ؟ فرمایا: '' جب پیغمبر (ص) مبعوث بہ رسالت ہوئے تو اس وقت لوگ پتھر اور لکڑی کے بتوں کو پرستش کرتے تھے لیکن جب ہمارا قائم قیام کریگا تو اس وقت لوگ احکام خدا کی ، اس کے مخالف تفسیر وتاویل کریں کے اور قرآن کے ذریعہ آپ (ع) پر احتجاج کریں گے _ اس کے بعد فرمایا : خدا کی قسم قائم کی عداوت انکے گھروں کے اندر ایسے ہی داخل ہوگی جیسے سردی و گرمی داخل ہوتی ہے ''(۲)

توضیح

جن لوگوں نے اسلام کے ارکان و مسلم اصولوں سے چشم پوشی اور قرآن کے ظواہر پر اکتفا کرلی ہے ، نماز ، روزہ اور نجاسات سے اجتناب کے علاوہ کچھ بھی نہیں جانتے

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۴۷ ۲_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۸۶

۴۲۱

ان میں سے بعض نے دین کو مسجد میں محصور کردیا ہے حقیقت یہ ہے کہ اسلام ان کے اعمال و حرکات میں داخل نہیں ہے _ ان کے بازار ،گلی کوچے ، راستوں اور گھروں میں اسلام کا نام و نشان نہیں ہے اخلاقیات اور اجتماعی دستورات کو اسلام سے جدا سمجھتے ہیں _ بری صفات کی ان کی نظروں میں کوئی اہمیت نہیں ہے اور واجبات و محرمات سے یہ کہکر الگ ہوجاتے ہیں یہ تو اختلافی ہیں ، خدا کی حرام کردہ چیزوں کو تاویلات کے ذریعہ جائز قرار دیتے ہیں _ واجب حقوق کو پورا کرنے سے پرہیز کرتے ہیں _ حسب منشا احکام دین کی تاویل کرتے ہیں _ صوری طور پر قرآن کا احترام کرتے ہیں اگر امام زمانہ ظاہر ہوجائیں اور ان سے فرمائیں حقیقت دین کو تم نے گم کردیاہے _ آیات قرآن و احادیث رسول کی تم خلاف واقع تاویل کرتے ہو _ حقیقت اسلام کو تم نے کیوں چھوڑدیا اور اس کے بعض ظواہر پر کیوں اکتفا کرلی ؟ اپنے اعمال و رفتار کی تم نے دین سے مطابقت نہ کی بلکہ احکام دین کی اپنی دنیا سے توجیہ کی تجوید و قرائت میں زحمت اٹھانے کی بجائے تم احکام قرآن پر عمل کرو_ میرے جد صرف رو لینے کیلئے شہید نہیں ہوئے ہیں ، میرے جد کے مقصد کو کیوں فراموش کردیا؟

اخلاقی و اجتماعی احکام کو ارکان اسلام سے لو اور انھیں اپنے عملی پروگرام میں شامل کرلو اخلاقی محرمات سے پرہیز کرو ، اپنے مالی حقوق ادا کرو _ بے جا بہانہ بازی سے مغرور نہ بنو _ واضح رہے فضائل و مصائب پڑھنے اور سننے سے خمس و زکوة اور قرض ادا نہیں ہوتا ہے اور اس سے گناہ ، سود خوری ، رشوت ستانی ، دھوکہ دھی کا جرم معاف نہیں ہوتا ہے _ مختلف بہانوں سے واجبات کو ترک نہ کرو _ تقوی و طہارت کو

۴۲۲

مسجدوں میں محصور نہ کرو ، اجتماع میں شرکت کرو اور امر بالمعروف ، نہی عن المنکر کو انجام دو اور بدعتوں کو اسلام سے نکال دو _

ظاہر ہے ایسا دین اور اس کا پروگرام مسلمانوں کیلئے نیا ہے وہ اس سے ڈرتے ہیں بلکہ اسے اسلام ہی نہیں سمجھتے ہیں کیونکہ اسلام کو انہوں نے دوسری طرح

تصور کرلیا تھا وہ یہ سمجھتے تھے اسلام کی ترقی و عظمت صرف مسجدوں کی زینت اور ان کے بڑے بڑے مینار بنانے میں منحصر ہے _ اگر امام فرمائیں عظمت اسلام عمل صالح ، سچائی ، امانت داری عہد پورا کرنے اور حرام سے اجتناب میں ہے تو یہ چیز انھیں نئی معلوم ہوگی کیونکہ وہ سوچتے تھے کہ جب امام زمانہ ظہور فرمائیں گے تمام مسلمانوں کے اعمال کی اصلاح فرمائیں گے اور ان کے ساتھ گوشہ مسجد میں مشغول عبادت ہوجائیں گے _ اگر وہ امام زمانہ کی تلوار سے خون ٹپکتا ہوا دیکھیں گے اور یہ مشاہدہ کریں گے کہ آپ لوگوں کو امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور جہاد کی طرف دعوت دے رہے ہیںاور ستم کیش نمازگزاروں کو قتل کررہے ہیں اور ظلم و تعدی اور رشوت کے ذریعہ جمع کئے ہوئے اموال کو ان کے وارثوں میں تقسیم کررہے ہیں ، زکوة نہ دینے والوں کی گردن ماررہے ہیں تو یہ پروگرام ان کیلئے نیاہے _

جب امام صادق (ع) نے فرمایا : جب ہمارا قائم قیام کریں گے اس وقت لوگوں کو از سر نو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور جس چیز سے علم لوگ دور ہوگئے ہیں اسکی طرف لوگوں کی ہدایت کریں گے _ آپ کو مہدی اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ اس چیز کی طرف ہدایت کریں گے جس سے وہ دورہوگئے تھے اور قائم اس لئے کہا گیا ہے کہ حق کے ساتھ قیام کریں گے _(۱)

____________________

۱_ کشف الغمہ ج ۳ ص ۲۵۴ ارشاد مفید ص ۳۴۳

۴۲۳

خلاصہ :

جعلی مہدیوں اور ان کے پروگراموں اور حقیقی مہدی اور ان کے پروگرام میں زمین آسمان کا فرق ہے چونکہ لوگوں کو ان کا پروگرام پسند نہیں آتا ہے _ اس لئے ابتداء ہی میں متفرق ہوجاتے ہیں لیکن کوئی راہ فرار نہیں ملتی ہے اس لئے ان کے سامنے سراپا تسلیم ہوجاتے ہیں _

امام صادق فرماتے ہیں : گویا میں قائم کو دیکھ رہاہوں ، قباہٹائی ہیں اور پیغمبر کا عہد نامہ طلائی مہر لگا ہوا جیب سے نکالا، اس کی مہر کو توڑا اور لوگوں کے سامنے پڑھا تو لوگ ان کے پاس سے بھاگ کھڑے ہوئے چنانچہ گیارہ نقیب کے علاوہ کوئی باقی نہ بچا پس لوگ مصلح کی جستجو میں ہر جگہ جاتے ہیں لیکن کوئی چارہ ساز نہیں ملتا اس لئے پھر آپ ہی کی طرف لوٹ آتے ہیں _ قسم خدا کی میں جانتا ہوں قائم ان سے کیا کہتے ہیں _(۱)

مہدی اور نسخ احکام

فہیمی : آپ نے اس سے قبل فرمایا تھا کہ امام زمانہ مشرع نہیں ہیں احکام کو منسوخ نہیں کرتے ہیں ، بات درج ذیل روایات کے منافی ہے _

حضرت اما م صادق فرماتے ہیں :'' اسلام میں دو خون حلال ہیں اور کوئی بھی اس کا حکم نہیں دیتاہے _ یہاں تک خدائے متعال قائم آل محمد کو بھیجے گا اور آپ گواہ کے بغیر ان کے قتل کا حکم جاری کریں گے _ ان میں سے ایک زنائے محصنہ

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۶

۴۲۴

کا مرتکب ہے کہ آپ اسے سنگسار کریں گے دوسرے زکوة کا انکار کرنے والا ہے کہ آپ اس کی گردن ماریںگے _(۱)

آپ ہی کاارشاد ہے : جب قائم آل محمد ظہور کریں گے تو داؤد و سلیمان کی طرح گواہ کے بغیر لوگوں کے درمیان فیصلہ کریں گے _(۲)

ایسی احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ امام زمانہ اسلام کے احکام کو منسوخ کردیں گے اور نئے احکام نافذ کریں گے _ آپ ایسے عقائد کے ذریعہ مہدی کی نبوت کا اثبات کرتے ہیں اگر چہ انھیں پیغمبر نہیں کہتے ہیں

ہوشیار: اول تو اس بات کا مدرک خبر واحد ہے جو کہ مفید یقین نہیں ہے _ دوسرے اس میں کیا حرج ہے کہ خدا اپنے پیغمبر (ص) پر ایک حکم کیلئے وحی نازل کرے اور فرمائے : اس وقت سے ظہور امام زمانہ تک آپ (ص) اور سارے مسلمان اس پر عمل کریں لیکن آپ(ص) کے بارہویں جانشین اور ان کا اتباع کرنے والے دوسرے حکم پر عمل کریں گے _ رسول اپنے خلفا کے ذریعہ بارہویں امام کو اس کی اطلاع دیدیں _ اس صورت میں نہ حکم منسوخ ہوا اور نہ امام زمانہ پر نئے حکم کی وحی ہوئی ہے بلکہ پہلا حکم ابتداہی سے مقید تھا اور دوسرے حکم کی پیغمبر اسلام کی خبر تھی _

مثلاً معاشرہ کی بھلائی اس میں ہے کہ قاضی لوگوں کے درمیان ظاہری ثبوت و گواہ اور قسم کے تحت فیصلہ کرے پیغمبر اکرم اور ائمہ بھی اسی پر مامور تھے لیکن جب مہدی ظہور کریں گے اور اسلامی حکومت تشکیل دیں گے تو آپ اپنے علم کے مطابق فیصلہ کریں گے پس ایسے احکام ابتدا ہی سے اسلام کا جزء رہے ہیں لیکن ان کے اجراء کا زمانہ مہدی کے ظہور کا زمانہ ہے _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۵_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۲۰_

۴۲۵

کیا دلیل ہے کہ مہدی نے قیام نہیں کیا ہے ؟

ڈاکٹر : ہم اصل مہدویت والی آپ کی بات تسلیم کرتے ہیں لیکن اس بات پر کیا دلیل ہے کہ مہدی موعود نے ابھی تک ظہور نہیں کیا ہے ؟ صدر اسلام سے آج تک قرشی و غیر قرشی بہت سے افراد نے مختلف شہروں میں خروج کیا اور مہدویت کا دعوی کیا ہے ، ان میں سے بعض کے عقیدت مند ہوئے اور مذہب بھی بنایا ہے اور بعض نے چھوٹی چھوٹی حکومتیں بھی بنائی ہیں _ ہم مہدی موعود کے انتظار میں بیٹھے ہیں ممکن ہے ان میں سے کوئی حقیقی مہدی رہا ہو اور ہمیں اس کی خبر نہ ہوئی ہو _

ہوشیار: جیسا کہ گزشتہ بیان سے معلوم ہوچکا ہے ہم ایک بے نام و نشان اور مجہول الہویت مہدی کے معتقد نہیں ہیں کہ جس کی مطابقت میں اشتباہ ہوجائے بلکہ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار کہ جنہوں نے وجود مہدی کی خبر دی ہے ، انہوں نے مکمل تعریف و توصیف بیان کی ہے اور ہر اجمال و ابہام کو برطرف کردیا ہے ، جس کا خلاصہ یہ ہے :

نام : مہدی ، کنیت ، ابوالقاسم ہے والدہ : نرجس ، صیقل و سوسن نام کی کنیز تھیں _بنی ہاشم میں سے اولاد فاطمہ زہراء ، نسل امام حسین (ع) سے امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند ہیں سنہ ۲۵۵ یا سنہ ۲۵۶ ھ میں شہر سامرہ میں ولادت پائی ہے ، دو غیبت اختیار کریں گے _ ایک صغری دوسری کبری _ دوسری اتنی طویل ہوگی کہ بہت سے

۴۲۶

لوگ آپ کے اصل وجود ہی میں شک کرنے لگیں گے _ آپ(ع) کی عمر بہت طویل ہوگی ظہور و دعوت کی مکہ سہ ابتداء کریں گے ، تلوا رو جنگ سے تحریک چلائیں گے اور سارے ظالم و مشرکین کو تہ تیغ کریں گے _ تمام اہل کتاب اور مسلمان ان کے سراپا تسلیم ہوجائیں گے ایک عالمی و اسلامی حکومت تشکیل دیں گے _ ظلم و بیدادگری کا قلع و قمع کرکے عالمی عدل و انصاف کی داغ بیل ڈالیں گے _ اسلام کو سرکاری دین قرار دیں گے اور اس کی ترویج و توسیع میں کوشاں رہیں گے مسلمان ایسے مہدی کے ظہور کے منتظر ہیں _

سید علی محمد شیرازی

ڈاکٹر صاحب اب میں آپ سے پوچھتا ہوں کہ جن لوگوں نے مہدویت کا دعوی کیا ہے _ کیا ان میں سے کسی میں آپ نے یہ اوصاف و علامات دیکھے ہیں تا کہ اس دعوے کے صدق کا احتمال ہو؟

مثلاً ایران کے ایک شہر میں ایک شخص نے مہدویت کا دعوی کیا لیکن وہ امام حسن عسکری کے فرزندہ نہ تھے، غیبت کبری میں نہیں رہے تھے ، طویل العمر بھی نہیں تھے پوری عمر میں کوئی جنگ نہیں کی تھی _ ظالموں کا خون نہیں بہایا تھا ، عالمی اور اسلامی حکومت بھی نہیں بنائی تھی _ زمین کو صرف عدل و انصاف سے پرہی نہیں کیا تھا بلکہ چھوٹے سے ظلم سے بھی لوگوں کو نہیں بچا سکے تھے ، دین اسلام کو دنیا بھر میں تو کیا پھیلاتے اس کے برعکس اسلام کے احکام و قوانین کو منسوخ کردیا تھا اور اس کی جگہ نیا آئین پیش کیا تھا ، کوئی خاص پڑھے لکھے نہ تھے ، خارق العادت کام بھی انجام نہیں دیا تھا ، با وجود اس کے کہ اپنے کئے پر پشیمان تھے ، شرمندگی کا اظہار

۴۲۷

کرتے تھے اور تختہ دار پر چڑھائے گئے _(۱) کیا کوئی عاقل و باشعور یہ سوچ سکتا ہے کہ ایسا شخص مہدی موعود ہوگا؟

عجب بات یہ ہے کہ سید علی محمد شیرازی نے جس وقت اپنے قائم و مہدی ہونے کا دعوی نہیں کیا تھا اس وقت '' تفسیر سورہ کوثر'' نامی کتاب لکھی تھی اور اس میں مہدی موعود سے متعلق احادیث جمع کی تھیں کہ جن میں سے ایک اس کے مدی ہونے کو ثابت نہیں کرتی _ بعدمیں یہ کتاب اس کے اور اس کے ماننے والوں کیلئے دردسر بن گئی تھی اور بہت سے اعتراضات کھڑے ہوگئے تھے _

اس کتاب میں لکھتے ہیں : موسی بن جعفر بغدادی روایت کرتے ہیں کہ میں امام حسن (ع) عسکری سے سنا کہ آپ (ع) نے فرمایا: گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ تم میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کروگے لیکن جان لو کہ جو شخص رسول کے تمام ائمہ کی امامت کا قائل ہوگا اور صرف میرے بیٹے کا منکر ہوگا تو اس کی اس شخص کی سی حالت ہوگی جو تمام انبیاء کو تسلیم کرتا ہے لیکن حضرت محمد کی نبوت کا منکر ہے اور جو شخص رسول خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے سارے انبیاء کا انکار کردیا ہے ، کیونکہ ہمارے آخری فرد کی اطاعت بالکل ایسی ہی ہے جیسے پہلے فرد کی اطاعت کی اور ہمارے آخری فرد کا انکار کرنا ایسا ہی ہے جیسے ہمارے اولین فرد کا انکار کرے جان لو میرا بیٹا اتنی طویل غیبت اختیار کرے گا کہ تمام لوگوں میں وہی شک میں نہیں پڑے گا جس کی خدا حفاظت کرے گا _(۲)

____________________

۱_ تلخیص تاریخ نبیل زرندی ص ۱۳۵ تا ص ۱۳۸

۲_ تفسیر سورہ کوثر

۴۲۸

امام رضا (ع) نے دعبل سے فرمایا : '' میرے بعد میرا بیٹا محمد امام ہے اور محمد کے بعد ان کے بیٹے علی (ع) امام ہیں اور علی کے بعد ان کے بیٹے حسن امام ہیں اور حسن کے بعد ان کے بیٹے حجت و قائم امام ہیں کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا منتظر رہنا اور ظہور کے وقت انکی اطاعت کرنا چاہئے اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اسے اتنا طولانی کردے گا کہ قائم ظہور کرکے دنیا کو عدل وانصاف سے پر کریں جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر حکی تھی _ لیکن وہ کب خروج کریں گے _ اس سلسلہ میں میرے آباء و اجداد نے روایت کی ہے کہ رسول سے عرض کیا گیا _ اے اللہ کے رسول (ص) آپ کے بیٹے کب خروج کریں گے ؟ فرمایا: خروج قائم قیامت کے مثل ہے کہ جس کے وقت کو خدا کے علاوہ کوئی نہیں بتا سکتا کیونکہ وہ زمین میں بہت گران ہے اچانک آجائے گی _(۱)

ان دونوں حدیثوں کو آپ نے ملاحظہ فرمایا: چند چیزوں کی تصریح کی گئی ہے اول یہ کہ قائم و مہدی موعود امام حسن عسکری کے بلا فصل فرزند ہیں دوسرے غیبت کبری ہے تیسرے ظاہر ہوکر زمین کو عدل و انصاف سے پر کرنا ہے چو تھے _ آپ کے ظہور کا وقت معین نہیں کیا جا سکتا _

امام غائب کے وجود کا اعتراف

سید علی محمد نے اپنی کتاب تفسیر سورہ کوثر میں متعدد جگہوں پر امام غائب کے وجود کا اعتراف کیا ہے اور اس کے آثار و علامات قلم بند کئے ہیں _

____________________

۱_ تفسیر کوثر

۴۲۹

ایک جگہ لکھتے ہیں : امام غائب کے وجود میں کوئی شک نہیں ہے کیونکہ اگر ان کا وجود نہ ہوگا تو پھر کسی چیز کا وجود نہ ہوگا _ آپ کا وجود روز روشن کی طرح واضح ہے کیونکہ ان کے وجود میں شک کا لازمہ قدرت خدا کا انکار ہے اور اس کا منکر کا فر ہے _ یہاں تک لکھتے ہیں _ ہم فرقہ اثنا عشری مسلمانوں و مومنوں کے نزدیک ان کی ولادت ثابت ہوچکی ہے _ میری اور اس شخص کی روح آپ (ع) پر فدا جو ملکوت امر و خلق میں موجود ہے _ غیبت صغری ، اس زمانہ کے معجزات اور آپ کے نائبوں کے علامات بھی ثابت ہوچکے ہیں _

دوسری جگہ لکھتے ہیں : وہ خلف صالح ہیں _ ان کی کنیت ابوالقاسم ہے ، وہ قائم بامر اللہ ہیں _ وہ دنیا پر خدا کی حجت ہیں _ وہ بقیة اللہ ہیں _ آپ (ع) مہدی ہیں جو کہ خفیہ طور پر لوگوں کی ہدایت فرماتے ہیں _ لیکن میں ان کا نام لینا مناسب نہیں سمجھتا لیکن اس طرح لونگا جس طرح امام نے لیا ہے یعنی م _ ح _ م _ د اس سلسلہ میں آپ (ع) نے نص فرمایا ہے : خود امام نے توقیع شریف میں فرمایا ہے جو شخص بھی مجمع عام میں میرا نام لے اس پر خدا کی لعنت_

اسی کتاب میں دوسری جگہ لکھتے ہیں : ولی عصر کی دو غیبتیں ہیں ، غیبت صغری میں آپ کی معتمد مقرب وکیل و نائب ہوئے ہیں ، غیبت صغری کی مدت ۷۴ سال ہے _ آپ کے نواب عثمان بن سعید عمری ، ان کے بیٹے محمد بن عثمان ، حسین بن روح اور علی بن محمد سمری ہیں _

دوسری جگہ رقم طراز ہیں ، ایک روز میں مسجد الحرام میں رکن یمانی کے پاس نماز میں مشغول تھا کہ ایک فربہ اور حسین و جمیل جوان دیکھا کہ جو نہایت ہی خضوع سے طواف میں مشغول تھا _ سرپر سفید عمامہ اوردوش پراونی عباڈالے تھے _ ایسا لگتا تھا جیسے فارس کا کوئی تاجر ہو _ میرے او ران کے درمیان چند قدم سے زیادہ فاصلہ

۴۳۰

نہ تھا _ اچانک میرے ذہن میں یہ خیال پیدا ہوا کہ شائد یہ صاحب الامر ہیں _ لیکن ان کے پاس جاتے ہوئے شرم محسوس کررہا تھا _ نماز سے فارغ ہوا تو وہ جا چکے تھے لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ صاحب الامر تھے _

سید علی محمد اوراحادیث توقیت

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی قربان جاؤن قائم کب خروج کریں گے ؟ فرمایا: اے ابومحمد اہل بیت ظہور کا وقت معین نہیں کرسکتے محمد نے فرمایا: ظہور کا وقت معین کرنے والا جھوٹا ہے _(۱)

اس اور ایسی ہی دو سری احادیث کا اقتضا یہ ہے کہ ائمہ اطہار (ع) نے ہرگز ظہور کا وقت معین نہیں کیا ہے بلکہ معین کرنے والوں کی تکذیب کی ہے لیکن سید علی محمد کے پیروکاروں نے اپنے پیشوا کی نص صریح کے خلاف ابو سبید مخزومی کی ضعیف حدیث تلاش کی اور فضول تاویلات سید علی محمد کے سنہ ظہور کا اس سے استنباط کیا ہے _

اس فرقہ کی رد میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان میں ابوالبید کی حدیث پر بہت سے اشکالات وارد کئے گئے ہیں _ ابو بصیر کی حدیث کے مطابق جسے خود علی محمد نے بھی صحیح تسلیم کیا ہے اور اپنی کتاب میں نقل کیا ، ہر وہ حدیث ناقابل اعتبار ہے جو ظہور قائم کا سنہ معین کرتی ہے اور ایسی حدیث سے تمسک جائز نہیں ہے خواہ وہ ابو سید

____________________

۱_تفسیر سورہ کوثر

۴۳۱

کی ہو یا کسی اور کی _

حدیث ذیل بھی تفسیر سورہ کوثر میں نقل ہوئی ہے :

ایک طول حدیث کے ضمن میں امام صادق (ع) نے فرمایا: امت ہمارے قائم کا بھی انکار کرے گی _ ایک بغیر علم کے کہے گا : امام پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں _ دوسرا کہے گا : گیارہویں امام کے یہاں کوئی اولاد ہی نہیں تھی _ تیسرا اپنی باتوں سے تفرقہ ڈالے گا اور وہ بارہ ائمہ سے بھی آگے بڑھ جائے گا اور ان کی تیرہ یا دس سے زیادہ تعداد بتائیگا دوسرا خدا کا عصیان کرے گا اور کہے گا روح قائم دوسرے شخص کے بدن سے ہم کلام ہوتی ہے _(۱)

اس کے پیروکارکیا کہتے ہیں؟

ان صریح باتوں کے باوجود جو کہ سید علی محمد نے اپنی کتاب تفسیر سورہ کوثر میں تحریر کی ہیں ، جن میں سے بعض ہم نے بھی قلم بند کی ہیں _ میں نہیں جانتا کہ اس کے پیروکاروں کا عقید کیا ہے _ اگر اسے مہدی موعود و قائم سمجھتے ہیں تو علاوہ اس کے کہ یہ موضوع اہل بیت (ع) کی احادیث کے منافی ہے _ خود موصوف کی تصریحات کے بھی خلاف ہے کیونکہ اس نے امام زمانہ کو امام حسن عسکری کا بلافصل فرزند لکھا ہے اور نام م _ ح _ م _ د اور کنیت ابوالقاسم لکھی ہے اور غیبت صغری و کبری کو آپ کیلئے ضروری قرار دیا ہے _ آپ کے چاروں نائبوں کے نام بھی تحریر کئے ہیں اور مسجد الحرام کا وقاعہ بھی لکھا ہے _

اگر یہ کہتے ہیں کہ روح امام زمانہ سید علی محمد میں حلول کرگئی تھی اور وہ مظہر امام ہیں تو یہ عقیدہ بھی باطل ہے کیونکہ اول تو یہ تناسخ و حلول ہے اور تناسخ و حلول کو علم کے

۴۳۲

ذریعہ باطل کیا جا چکا ہے _ دوسرے یہ عقیدہ ان احادیث کے منافی ہے جن کو خود سید علی محمد نے امام صادق سے نقل کیا ہے کیونکہ امام صادق (ع) نے فرمایا تھا : _ ایک گروہ عصیان کرے گا اور کہے گا روح قائم دوسرے شخص کے بدن سے کلام کرتی ہے _

اپنے پیغمبر ہونے کا انکار کیا

اگر اسے پیغمبر یاباب سمجھتے ہیں تو وہ اس کیلئے راضی نہیں تھے بلکہ اس کے قائلین کو کافر کہا ہے _ اپنی کتاب '' تفسیر سورہ کوثر'' میں لکھتے ہیں : ذکر اسم ربّک _ خودہی_ جو وحی اور قرآن کا دعوی کرتے ہیں وہ کافر ہیں ، جو ذکر اسم ربک کہتے ہیں وہ حضرت بقیة اللہ کی بابیت کے قائل ہیں کافر ہیں _ اے خدا گواہ رہنا کہ جو شخص بھی خدائی یا ولایت کا دعوی کرے یا قرآن ووحی کا مدعی ہو یا تیرے دین میں کم یا زیادتی کرے وہ کافر ہے اور میں اس سے بیزار ہوں _ تو جانتا ہے کہ میں نے ہرگز بابیت کا دعوی نہیں کیا ہے _(۱)

جب سید علی محمد تفسیر سورہ کوثر لکھ رہے تھے ، اس وقت ان کے دماغ میں دعوے کا خناس نہیں تھا ، بس خود کو بہترین دانشور سمجھتے تھے _ جب انہوں نے خود کو خانہ نشین کرلیا اور علما کو کام میں مشغول دیکھتے تو افسوس کرتے تھے _

ایک جگہ لکھتے ہیں : خدا نے میرے اوپر احسان کیا ، میرے قلب کوروشن کردیا میں چاہتا ہوں کہ دین خدا کو اسی طرح پہچنوا ؤں جس طرح قرآن میں نازل ہوا اور جس پر

____________________

۱_ تفسیر سورہ کوثر

۴۳۳

اہل بیت (ع) کی احادیث دلالت کررہی ہیں _

اس کی طرف جن چیزوں کی نسبت دی جاتی تھی وہ اس سے رنجیدہ تھے اور ان سے بیزاری کا اظہار کرتے تھے _ لیکن بعد میں ان پر یہ واضح ہوا کہ لوگوں کی حماقت حدسے بڑھ گئی ہے وہ صرف میری تمام باتوں ہی کو قبول نہیں کرتے ہیں بلکہ ان میں اضافہ بھی کردیتے تھے _ اس وقت ان کے دماغ میں اپنے قائم ہونے کی ہوس پیدا ہوئی اور اپنے قائم ہونے کا کھلم کھلا دعوی کردیا _

جھوٹا دعوی

انجینئر: ان افراد کا دعوی جھوٹا تھا تو ان کے اتنے عقیدت مند و فداکار کیسے پیدا ہوئے ؟

ہوشیار: ایک گروہ کا کسی شخص کا عقیدت مند و گرویدہ ہونا اس کی حقانیت کی دلیل نہیں ہے کیونکہ باطل مذاہب اور عقائد ہمیشہ دنیا میں تھے اور ہیں اور ان کے بھی سچے عقیدت مند تھے _ نادان گروہ کی استقامت و فداکاری کو ان کے پیشوا کی حقانیت کی دلیل نہیں قرار دیا جا سکتا _ آپ تاریخ کا مطالعہ کیجئے تا کہ حقیقت روشن ہوجائے _ مثلاً اس زمانہ میں بھی ، کہ جس کو علم و ارتقاء کا زمانہ کہا جاتا ہے ، ہندستان میں ملینوں انسان ہیں جو حیوانات کی پرستش کرتے ہیں اور

گائے کو عظیم المرتبت سمجھتے ہیں _ اس کا ذبخ کرنے یااس کے گوشت کھانے کو حرام سمجھتے ہیں _ اس کی بے حرمتی کو گناہ سمجھتے ہیں چنانچہ ہندو مسلم اختلافات کے اسباب میں سے ایک گاؤکشی بھی ہے _ اسی طرح ہندو بندروں کا بھی احترام کرتے ہیں اور بندر آزادی

۴۳۴

کے ساتھ لوگوں کو پریشان کرتے ہیں اور کوئی انھیں کچھ نہیں کہہ سکتا _ چنانچہ حکومت کے آدمی انھیں احترام کے ساتھ شہر سے پکڑتے ہیں اور جنگلوں میں چھوڑ آتے ہیں _ میں سمجھتا ہوں کہ جو اہم مسائل بحث کے محتاج تھے ان کی تحقیق و تجزیہ ہوچکا ہے کوئی اہم مسئلہ باقی نہیں رہا ہے اگر آپ مناسب سمجھیں جلسوں کا سلسلہ ختم کردیا جائے _

جلالی : میرا بھی خیال ہے کہ کوئی اہم مسئلہ نہیں بچا ہے _

ڈاکٹر: ان جلسوں سے میں بہت مستفیض ہو اہوں ، میں سمجھتا ہوں کہ اسی طرح تمام احباب مستفیض ہوئے ہیں _ ہم سب کی خواہش تھی کہ جلسوں کا سسلہ جاری رہے اور ہم مستفید ہوتے رہیں لیکن جناب ہوشیار صاحب کی مشغولیتوں کے پیش نظر میں اس سلسلہ کے اختتام کا موافق ہوں ، انشاء اللہ دوسرے اوقات میں آپ سے مستفید ہوں گے _

آخرمیں انکی مہربانی کا شکریہ ادا کردینا ضروری ہے ، خدا بقیة اللہ الاعظم (ع) کے ظہور و فرج کو نزدیک کردے اور ہم سب کو اسلام کے خدمت گار اور انصار امام زمانہ میں قرار دے _

(آمین) والسلام علیکم و رحمة اللہ و برکاتہ

۴۳۵

مدارک و مآخذ کتاب

۱_ قرآن کریم

۲_ نہج البلاغہ

۳_ اصول کافی --محمد بن یعقوب کلینی

۴_ بحار الانوار -- مجلسی

۵_ اثبات الہداة -- محمد بن حسن حر عاملی

۶_ صحیح مسلم -- مسلم بن حجاج نیشابوری

۷_ سنن ابی داود -- ابو داود سلیمان بن اشعر سجستانی

۸_ سننن ابن ماجہ -- ابو عبداللہ محمد بن یزید بن عبداللہ بن ماجہ

۹_ صحیح ترمذی --ابو عیسی محمد بن سورہ

۱۰_ صحیح بخاری -- محمد بن اسماعیل بخاری

۱۱_ مسند احمد -- احمد بن محمد بن حنبل

۱۲_ مجمع الزوائد --علی بن ابی بکر ہیثمی

۱۳_ الحاوی للفتاوی -- جلال الدین سیوطی

۱۴_ البیان -- محمد بن یوسف شافعی

۱۵_ نور الابصار -- سید مؤمن شبلنجی

۱۶_ مشکوة المصابیح -- محمد بن عبداللہ خطیب

۱۷_ ینابیع المودة -- شیخ سلیمان

۴۳۶

۱۸_ کفایة الطالب -- محمد بن یوسف کنجی شافعی

۱۹_ اسعاف الراغبین -- محمد بن علی الصبان

۲۰_ فصول المہمہ -- علی بن محمد بن احمد بن الصباع المالکی

۲۱_ ذخائر العقبی -- محب الدین طبری

۲۲_ تذکرة خواص الامة -- سبط بن جوزی

۲۳_ نظم درر السمطین -- محمد بن یوسف

۲۴_ کنز العمال -- علی بن حسام الدین

۲۵_ مطالب السؤل --محمد بن طلحہ شافعی

۲۶_ الصواعق المحرقہ -- احمد بن حجر ہیثمی

۲۷_ مقدمہ --ابن خلدون

۲۸_ الامامة و السیاسہ -- ابن قتیبہ

۲۹_ الطبقات الکبیر -- محمد بن سعد

۴۳۷

۳۰_ ملل و نحل -- شہرستانی

۳۱_ فرق الشیعہ -- حسن بن موسی نوبختی

۳۲_ المقالات و الفرق -- سعد بن عبد اللہ اشعر

۳۳_ مقاتل الطالبین -- ابوالفرج اصفہانی

۳۴_ اغانی -- ابوالفرج اصفہانی

۳۵_ وفیات الاعیان -- احمد بن محمد بن ابکر بن خلکان

۳۶_ تاریخ الرسل و الملوک -- محمد بن جریر طبری

۳۷_ البدایة و النہایة -- اسماعیل بن عمر بن کثیر

۳۸_ مروج الذہب -- علی بن حسین مسعودی

۳۹_ تاریخ یعقوبی -- احمد بن ابی یعقوب

۴۰_ صفہ الصفوة -- ابوالفرج

۴۱_ روضہ الصفا -- میرآخوند

۴۲_ اثبات الوصیہ -- مسعودی

۴۳_ تاریخ بغداد -- احمد بن علی خطیب بغدادی

۴۴_ تاریخ ابن عساکر -- علی بن حسن شافعی

۴۵_ الکامل فی التاریخ -- ابن اثیر

۴۶_ تاریخ منصوری -- محمد بن علی حمودی

۴۷_ شذرات الذہب --ابوالفلاج حنبلی

۴۸_ العبرفی خبر من غیر-- ذہبی

۴۹_ فتوحات الاسلامیة -- سید احمد

۴۳۸

۵۰_ لسان المیزان -- احمد بن حجر عسقلانی

۵۱_ نزہة النظر -- احمد بن حجر عسقلانی

۵۲_ میزان الاعتدال -- ذہبی

۵۳_ رجال بوعلی -- بوعلی

۵۴_ رجال -- مامقانی مامقانی

۵۵_ منہج المقال -- علامہ بہبہانی

۵۶_ مناقب آل ابیطالب -- محمد بن علی بن شہر آشوب

۵۷_ اعیان الشیعہ -- سید محسن امین شامی

۵۸_ تبصرة الولی -- سید ہاشم بحرانی

۵۹_ الارشاد -- محمد بن نعمان مفید

۶۰_ اعلام الوری -- طبرسی

۶۱_ منتخب الاثر -- لطف اللہ صافی

۶۲_ کمال الدین -- شیخ صدوق

۶۳_ کتاب الغیبة -- محمد بن ابراہیم نعمانی

۶۴_الیواقیت و الجواہر -- شعرانی

۴۳۹

۶۵_ سبائک الذہب -- محمد بن امین بغدادی

۶۶_ کفایة الموحدین -- اسماعیل بن احمد طبرسی

۶۷_کتاب الغیبة -- محمد بن حسن طوسی

۶۸_ الملاحم و الفتن -- علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن طاوس

۶۹_ الذریعة -- شیخ آغا بزرگ تہرانی

۷۰_ علی و فرزندانش -- دکتر طہ حسین ترجمہ خلیلیان

۷۱_ عبداللہ بن سبا -- سید مرتضی عسکری

۷۲_ نقش وعاظ در اسلام --دکتر علی الوردی ترجمہ خلیلیان

۷۳_ جامع احادیث الشیعہ

۷۴_ المہدی -- السید صدر الدین صدر

۷۵_ کشف الاستار -- حاج میرزا حسن محدث نوری

۷۶_ النصایح الکافیہ -- سید محمد بن عقیل

۷۷_ سفینة البحار -- شیخ عباس قمی

۷۸_ اضواء علی الستة -- محمد ابوریہ

۷۹_ ہدیة الاحباب قمی -- محدث قمی

۸۰_ مہدی از صدر اسلام تا قرن ۱۳ --استاد خاورشناسی دارمستتر

۸۱_ الیزیدیة --صدوق دملوجی

۸۲_ تنبیہات الجلیہ -- محمد کریم خراسانی

۸۳_ رجال نجاشی

۸۴_ تفسیر المیزان -- علامہ طباطبائی

۴۴۰

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455