آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181837 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

بات ناگوار ہی کیوں نہ ہو _ مہدی ایک زمانہ تک غیبت میں رہیں گے _ غیبت کے زمانہ میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن کچھ لوگ ثابت قدم رہیں گے اور اس راہ میں مصیبتیں اٹھائیں گے سرزنش کے طور پر ان سے کہا جائے گا ، اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہے تو تمہارا امام موعود کب انقلاب برپا کرے گا؟ لیکن جان لو کہ جوان کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کے طعن و تشنیع کو برداشت کرے گا اس کی مثال اس شخص کی ہے جس نے رسول خدا کے ہمراہ تلوار سے جنگ کی(۱) اس سلسلے میں آپ کی تیرہ حدیثیں اورہیں _

امام زین العابدین (ع) نے مہدی (عج) کی خبردی

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا: لوگوں پر ہمارے قائم کی ولادت آشکار نہیں ہوگی یہاں تک وہ یہ کہنے لگیں گے کہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں _ ان کے مخفی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی تحریک کا آغاز کریں اس وقت کسی کی بیعت میں نہ ہوں(۲) دس حدیثیں اورہیں _

حضرت امام باقر (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام محمد باقر (ع) نے ابان بن تغلب سے فرمایا: خدا کی قسم امامت وہ عہدہ ہے جو رسول خدا سے ہمیں ملا ہے _ پیغمبر کے بارہ امام ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۳۳ ، ص ۳۹۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۶۱

کے اولاد سے ہوں گے _ مہدی بھی ہم ہی میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں دین کی حفاظت کرے گا(۱) ۶۲ حدیثیں اور ہیں _

امام صادق (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام صادق (ع) نے فرمایا : جو شخص وجود مہدی کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہ تمام انبیاء کا معتقد ہے لیکن رسول (ص) خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے _ عرض کیا گیا : فرزند رسول (ع) مہدی کس کی اولاد سے ہوں گے ؟ فرمایا : ساتویں امام موسی بن جعفر کی پانچویں پشت میں ہوں گے ، لیکن غائب ہوجائیں گے اور تمہارے لئے ان کا نام لینا جائز نہیں ہے _۲_ ۱۲۳ حدیثیں اور ہیں _

امام موسی کاظم (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام موسی کاظم (ع) سے یونس بن عبدالرحمن نے سوال کیا : کیا آپ مہدی بر حق ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: میں قائم برحق ہوں لیکن جو قائم زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کرے گا اور اس عدل و انصاف سے بھرے گا وہ میری پانچویں پشت میں ہے _ وہ دشمنوں کے خوف سے مدت دراز تک غیبت میں رہے گا _ زمانہ غیبت میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن ایک جماعت اپنے عقیدہ پر ثابت و قائم رہے _ اس کے بعد فرمایا : خوش نصیب

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص۵۵۹_

۲_ بحارالانوار ج۵۱ ص ۱۴۳ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۰۴_

۶۲

ہیں وہ شیعہ جو امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں ہماری ولایت سے وابستہ اور ہمار ی محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری میں ثابت قدم رہیں گے وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں وہ ہماری امامت سے راضی اور ہم ا ن کے شیعہ ہونے سے راضی ہیں یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، خدا کی قسم وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(۱) پانچ حدیثیں اورہیں _

امام رضا(ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت اما م رضا (ع) سے ریان بن صلت نے دریافت کیا تھا : کیا آپ (ع) ہی صاحب الامر ہیں ؟ فرمایا : میں صاحب الامر ہوں لیکن میں وہ صاحب الامر نہیں ہوں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _ میری اس ناتوانی کے باوجود جسے تم مشاہدہ کررہے ہو کیسے ممکن ہے کہ میں وہی صاحب الامر ہوں ؟ قائم وہ ہے جو بڑھاپے کی منزل میں ہے لیکن جوان کی صورت میں ظاہر ہوگا وہ اتنا طاقتور اور قوی ہے کہ اگر روئے زمین کے بڑے سے بڑے درخت کو ہاتھ لگا دے تو اکھڑجائے _ اور اگر پہاڑوں کے درمیان نعرہ بلند کرے تو بڑے بڑے پتھر چورچور ہوکر بکھر جائیں ، اس کے پاس موسی کا عصا اورجناب سلیمان کی انگوٹھی ہے ، وہ میری چوتھی پشت میں ہے ،جب تک خدا چاہے گا اسے غیبت میں رکھے گا _ اس کے بعد ظہور کا حکم دے گا اور اس کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی(۲) ۱۸ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۵۱ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۲۲ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۹_

۶۳

امام محمد تقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام محمد تقی (ع) نے عبدالعظیم حسنی سے فرمایا : قائم ہی مہدی موعود ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا انتظار اور ظہور کے زمانہ میں ان کی اطاعت کرنی چاہئے اور وہ میری تیسری پشت میں ہے _ قسم اس خدا کی جس نے محمد (ص) کو رسالت او رہمیں امامت سے سرفراز کیا ہے _ اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ جس میں مہدی ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گاجیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہوگی _ خداوند عالم ایک رات میں ان کی کامیابی کے اسباب فراہم کریگا جیسا کہ اپنے کلیم موسی کی کامیابی کے اسباب ایک ہی رات میں فراہم کئے تھے_ موسی (ع) بیوی کے لئے آگ لینے گئے تھے لیکن منصب رسالت لیکر پلٹے _ اس کے بعد امام نے فرمایا: فرج کا انتظار ہمارے شیعوں کا بہترین عمل ہے(۱) پانچ حدیثیں اور ہیں _

امام علی نقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام علی نقی نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا حسن (ع) امام ہے اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ روئے زمین پر عدل و انصاف پھیلائیں گے(۲) پانچ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۶ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰ اثبات الہداة ج۶ ص ۴۲۷_

۶۴

اما م حسن عسکری (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام حسن عسکری نے موسی بن جعفر بغدادی سے فرمایا: گویا میںدیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کررہے ہو لیکن یادرہے جو شخص پیغمبر کے بعد تمام ائمہ پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے اور صرف میرے بیٹے کی امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تمام انبیاء پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے لیکن محمد (ص) کی رسالت کا منکرہے کیونکہ ہم سے آخری امام کی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے اولی کی _ پس جو شخص ہمارے آخری امام کا انکار کریگا گویا اس نے پہلے کا بھی انکار کردیا _ جان لو میرے بیٹے کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگ شک میں پڑجائیں گے مگر یہ کہ خدا ان کے ایمان کو محفوظ رکھے(۱) ۲۱ حدیثیں اورہیں _

کیا احادیث مہدی صحیح ہیں؟

انجینئر : ہم ان حدیثوں کو اسی وقت قبول کرسکتے ہیں جب وہ صحیح اور معتبر ہوں کیا مہدی کے متعلق یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں؟

ہوشیار: میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ مہدی سے متعلق تمام حدیثیں صحیح اور ان کے تمام راوی ثقہ و عادل ہیں _ لیکن اچھی خاصی تعداد صحیح احادیث کی ہے _ البتہ تمام احادیث کی طرح ان میں بھی بعض صحیح ، کچھ حسن ، موثق اور چند ضعیف ہیں _ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق اور ان کے راویوں کے حالات کی چھان بین کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۶۵

ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جو بھی غیر جانب دارانہ اور انصاف کیساتھ ان سے رجوع کرے گا اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجائے گا کہ ان سب کی دلالت اس بات پر ہے کہ وجود مہدی اسلام کے ان مسلّم عقائد و موضوعات میں سے ہے کہ جن کا بیج خودسرور کائنات نے بویا اور ائمہ نے اس کی آبیاری کی ہے _ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وجود مہدی کے بارے میں اسلام میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور موضوع کے لئے وارد نہیں ہوئی ہوں گی _

واضح رہے کہ ابتدائے بعثت سے حجة الوداع تک پیغمبر اکرم (ص) نے سیکڑوں بارمہدی کے بارے میں گفتگو کی ہے _ علی بن ابی طالب نے ان کی خبر دی ، فاطمہ زہراء نے خبر دی ہے اور رسول کے اہل بیت اور نبوت کے رازداروں نے امام حسن (ع) ، اما م حسین (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق (ع) ، امام موسی کاظم (ع) ، امام رضا (ع) ، امام محمد تقی (ع) ، امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے ان کی خبر دی ہے _ عہد رسول (ص) کے لوگ ان کے انتظار میں دن گنتے تھے یہاں تک کہ کبھی تو بعض لوگ کسی کو اس کا حقیقی سمجھ بیٹھے تھے_ ان سے متعلق شیعہ اور اہل سنت نے احادیث نقل کی ہیں ۷اشعری اور معتزلیہ نے قلم بند کی ہیں _ ان کے راویوں میں عرب ، عجم ، مکی ،مدنی ، کوفی ، بغدادی ، بصری، قمی، کرخی ، خراسانی نیشاپوری و غیرہ شامل ہیں _ کیا ان ہزاروں سے زائد احادیث کے باوجود کوئی منصف مزاج وجود مہدی کے بارے میں شک کرے گا اور یہ کہے گا کہ یہ احادیث متعصب شیعوں نے جعل کرکے پیغمبر کی طرف منسوب کردی ہیں؟

رات کافی گز رچکی تھی اورمذاکرات کا وقت ختم ہوچکا تھا لہذا مزید گفتگو کو آئندہ ہفتہ کی شب میں ہونے والے جلسہ پر موقوف کردیا _

۶۶

تصوّر مہدی"

احباب یکے بعد دیگرے فہیمی صاحب کے مکان پر جمع ہوئے جب سابق مختصرضیافت کے بعد ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _ انجینئر صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا :

انجینئر: مجھے یاد آتا ہے کہ کسی نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرہ میں مہدویت اور غیبی مصلح کا تصوّر یہود اور قدیم ایرانیوں سے سرایت کرآیا ہے _ ایرانیوں کا خیال تھا کہ زردتشت کی نسل سے '' سالوشیانت'' نام کا ایک شخص ظاہر ہوگا جو اہریمن کو قتل کرکے پوری دنیا کو برائیوں سے پاک کرے گا _ لیکن چونکہ یہودیوں کا ملک دوسروں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی آزادی سلب ہوگئی تھی ، زنجیروں میں جکڑگئے تھے ، لہذا ان کے علماء میں سے ایک نے یہ خوش خبری دی کہ مستقبل میں دنیا میں ایک بادشاہ ہوگا وہی زردشتیوں کو آزادی دلائے گا _

چونکہ مہدویت کی اصل یہود و زردشتیوں میں ملتی ہے _ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ان سے مسلمانوں میں آیا ہے ورنہ اس کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے _

ہوشیار : یہ بات صحیح ہے کہ دوسری اقوام و ملل میں بھی یہ عقیدہ تھا اور ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عقیدہ خرافات میں سے ہے

۶۷

کیا یہ ضروری ہے کہ اسلام کے تمام احکام و عقائد اسی وقت صحیح ہوسکتے ہیں جب وہ گزشتہ احکام وعقائد کے خلاف ہوں ؟ جو شخص اسلام کے موضوعات میں سے کسی موضوع کی تحقیق کرناچاہتا ہے تو اسے اس موضوع کے اصلی مدارک و ماخذ سے رجوع کرنا چاہئے تا کہ اس موضوع کا سقم و صحت واضح ہوجائے _ اصلی مدارک کی تحقیق اورگزشتہ لوگوں کے احکام و عقائدکی چھان بین کے بغیر یہ شور بر پا نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے اس باطل عقیدہ کی اصلی کا سراغ لگالیا ہے _

کیا یہ کہا جا سکتا ہے چونکہ زمانہ قدیم کے ایرانی یزدان کا عقیدہ رکھتے تھے اور حقیقت کو دوست رکھتے تھے _ لہذا خدا پرستی بھی ایک افسانہ ہے اور حقیقت و صداقت کبھی مستحسن نہیں ہے ؟

لہذا صرف یہ کہکر کہ دوسرے مذاہب و ملل بھی مصلح غیبی اور نجات دینے والے کے منتظر تھے _ مہدویت کے عقیدہ کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اتنی بات سے اس کی صحت ثابت کی جا سکتی ہے _

رجحان مہدویت کی پیدائشے کے اسباب

فہیمی : ایک صاحب قلم نے عقیدہ مہدویت کے وجود میں آنے کی بہترین توجیہ کی ہے ، اگر اجازت ہو تو میں اس کا لب لباب بیان کروں؟

حاضرین : بسم اللہ :

فہیمی : عقیدہ مہدویت شیعوں نے دوسرے مذاہب سے لیا اور اس میں کچھ چیزوں کااضافہ کردیا ہے چنانچہ آج مخصوص شکل میں آپ کے سامنے ہے _ اس عقیدہ کی ترقی

۶۸

اور وسعت کے دو اسباب ہیں:

الف: غیبی نجات دینے والے کا ظہور اوراس کا پیدائشے کا عقیدہ یہودیوں میں مشہور تھا اور ہے _ ان کا خیال تھا کہ جناب الیاس آسمان پرچلے گئے ہیں اور آخری زمانہ میں بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے زمین پر لوٹ آئیں گے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ملک صیدق'' اور فنحاس بن العاذار'' آج تک زندہ ہے _

صدر اسلام میں ''مادی فوائد کے حصول'' اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا بنانے کی غرض سے یہودیوں کی ایک جماعت نے اسلام کا لباس پہن لیاتھا اور اپنے مخصوص حیلہ و فریب سے مسلمانوں کے درمیان حیثیت پیدا کرلی تھی اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، اپنے عقائد کی اشاعت اور استحصال کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ، ان ہی میں سے ایک عبداللہ ابن سبا ہے جس کو ان کی نمایان فرد تصور کرنا چاہئے _

ب: رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) کے اہل بیت (ع) وقر ابتدار منجملہ علی بن ابیطالب خود کو سب سے زیادہ خلافت کا حق دار سمجھتے تھے _ چند اصحاب بھی ان کے ہم خیال تھے _ لیکن ان کی توقع کے برخلاف حکومت خاندان رسالت سے چھن گئی ، جس سے انھیں بہت رنج وصدمہ پہنچا _ یہاں تک کہ جب حضرت علی (ع) کے ہاتھوں میں زمام خلافت آئی تو وہ مسرور ہوئے اوریہ سمجھنے لگے کہ اب خلافت اس خاندان سے باہر نہ جائے گی _ لیکن علی (ع) داخلی جنگوں کی وجہ سے اسے کوئی ترقی نہ دے سکے نتیجہ میں ابن ملجم نے شہید کردیا پھر ان کے فرزند حسن (ع) بھی کامیاب نہ ہوسکے ، آخر کار خلافت بنی امیہ کے سپردکردی _ رسول (ص) خدا کے دو فرزند حسن و حسین خانہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے اور اسلام کی حکومت و اقتدا ر دوسروں کے ہاتھ میں تھا رسول(ص) کے اہل بیت اور ان کے ہمنوا

۶۹

فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار تے اور مال غنیمت ، مسلمانوں کا بیت المال بنی امیہ اور بنی عباس کی ہوس رانی پر خرچ ہوتا تھا _ ان تمام چیزوں کی وجہ سے روز بروز اہل بیت کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا گیا اور گوشہ و کنار سے اعتراضات اٹھائے جانے لگے دوسری طرف عہد داروں نے دل جوئی اور مصالحت کی جگہ سختی سے کام لیا اور انھیں دار پر چڑھایا ، کسی کو جلا وطن کیا اور باقی قید خانوں میں ڈالدیا _

مختصر یہ کہ رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ کے اہل بیت اور ان کے طرفداروں کو بڑی مصیبتیں اٹھنا پریں ، فاطمہ زہرا کو باپ کی میراث سے محروم کردیا گیا _ علی (ع) کو خلافت سے دور رکھا گیا ، حسن بن علی (ع) کو زہر کے ذریعہ شہید کردیا گیا _ حسین بن علی (ع) کو اولاد و اصحاب سمیت کربلا میں شہید کردیا گیا اور ان کے ناموس کو قیدی بنالیا گیا ، مسلم بن عقیل اور ہانی کو امان کے بعد قتل کرڈالا ، ابوذر کو ربذہ میں جلا وطن کردیا گیا اور حجر بن عدی ، عمروبن حمق ، میثم تمار، سعید بن جبیر ،کمیل بن زیاد اور ایسے ہی سیکڑوں افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا _ یزید کے حکم سے مدینہ کو تاراج کیا گیا ایسے ہی اور بہت سے ننگین واقعات کے وجود میں آئے کہ جن سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں _ ایسے تلخ زمانہ کو بھی شیعیان اہل بیت نے استقامت کے ساتھ گزارا اور مہدی کے منتظر رہے _ کبھی غاصبوں سے حق لینے اور ان سے مبارزہ کیلئے علویوں میں سے کسی نے قیام کیا _ لیکن کامیابی نہ مل سکی اور قتل کردیا گیا _ ان ناگوار حوادث سے اہل بیت کے قلیل ہمنوا ہر طرف سے مایوس ہوگئے اور اپنی کامیابی کا انھیں کوئی راستہ نظر نہ آیا ، تو وہ ایک امید دلانے والا منصوبہ بنانے کے لئے تیار ہوئے _ ظاہر ہے کہ مذکورہ حالات و حوادث نے ایک غیبی نجات دینے والے اور مہدویت کے عقیدہ کو قبول کرنے کیلئے مکمل طور پر زمین ہموار کردی تھی _

۷۰

اس موقع سے نو مسلم یہودیوں اور ابن الوقت قسم کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے عقیدہ کی ترویج کی یعنی غیبی نجات دینے والے کے معتقد ہوگئے _ ہرجگہ سے مایوس شیعوں نے اسے اپنے درددل کی تسکین اور ظاہری شکست کی تلافی کے لئے مناسب سمجھا اور دل و جان سے قبول کرلیا لیکن اس میں کچھ رد وبدل کرکے کہنے لگے : وہ عالمی مصلح یقینا اہل بیت سے ہوگا _ رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف مائل ہوئے اور اس عقیدہ نے موجودہ صورت اختیا رکرلی _(۱)

توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے

ہوشیار: اہل بیت (ع) اور ان شیعوں سے متعلق آپ نے جو مشکلیں اور مصیبتیں بیان کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں لیکن تحلیل و توضیح کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب ہمیں مہدویت کے اصلی سرچشمہ کا علم نہ ہوتا _ لیکن جیسا کہ آپ کو یا دہے _ ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ خود پیغمبر اکرم(ص) نے اس عقیدہ کو مسلمانوں میں رواج دیا اور ایسے مصلح کی پیدائشے کی بشارت دی ہے چنانچہ اس سلسلے میں آپ (ص) کی احادیث کو شیعوں ہی نے نہیں ، بلکہ اہل سنّت نے بھی اپنی صحاح میںدرج کیا ہے _ اس مطلب کے اثبات کے لئے کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے _

اپنی تقریر کی ابتداء میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ عقیدہ یہودیوں کے درمیان مشہور تھا _ یہ بھی صحیح ہے لیکن آ پ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اس عقیدہ کو ابن سبا جیسے

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام ص ۴۸_۶۸

۷۱

یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان فروغ دیا ہے کیونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ عالمی مصلح کی پیدائشے کی بشارت دینے والے خود نبی اکرم (ص) ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ مسلمان ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہو _

عبداللہ بن سبا

اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن سبا تاریخ کے مسلّمات میں سے نہیں ہے _ بعض علماء نے اس کے وجود کو شیعوں کے دشمنوں کی ایجاد قراردیا ہے اور اگر واقعی ایسا کوئی شخص تھا تو ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے جن کو اسکی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ کوئی عقلمند اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک نو مسلم یہودی نے ایسی غیر معمولی صلاحیت و سیاست پیدا کرلی تھی کہ وہ اس گھٹن کے زمانہ میں بھی کہ جب کوئی فضائل اہل بیت کے سلسلے میں ایک بات بھی کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا اس وقت ابن سبا نے ایسے بنیادی اقدامات کئی اور مستقل تبلیغات اور وسائل کی فراہمی سے لوگوں کو اہل بیت کی طرف دعوت دی اور خلیفہ کے خلاف شورش کرنے اور ایسا ہنگامہ برپاکرنے پر آمادہ کیا کہ لوگ خلیفہ کو قتل کردیں اور خلیفہ کے کارندوں اور جاسوسوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو _ آپ کے کہنے کے مطابق ایک مسلم یہودی نے ان کے عقیدہ کی بنیادیں اکھاڑدیں اور کسی شخص میں ہمت دم زدن نہیں ہوئی ایسے کارناموں کے حامل انسان کا وجود صرف تصورات کی دنیا میں تو ممکن ہے _(۱)

____________________

۱_ محققین '' نقش وعاظ در اسلام '' مولفہ ڈاکٹر علی الوردی ترجمہ خلیلیان ص ۱۱۱_۱۳۷_ عبداللہ بن سبا مولفہ سید مرتضی عسکری اور '' علی و فرزندانش '' مولفہ ڈاکٹر طہ حسین ترجمہ خلیلی ص ۱۳۹ _۱۴۳ سے رجوع فرمائیں _

۷۲

مہدی تمام مذاہب میں

انجینئر مہدی موعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یا یہ عقیدہ تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے ؟

ہوشیار: مذکورہ عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں یہ عقیدہ موجود ہے _ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ تاریک و بحرانی زمانہ میں، جب ہرجگہ فساد و ظلم اور بے دینی پھیل جائے گی ، ایک دنیا کو نجات دلانے والا ظہور کرے گا اور بے پناہ غیبی طاقت کے ذریعہ دنیا کے آشفتہ حالات کی اصلاح کرے گا اور بے دینی و مادی رجحان کو ختم کرکے خداپرستی کو فروغ دے گا اور یہ بشارت ان تمام کتابوں میں موجود ہے جو کہ آسمانی کتاب کے عنوان سے باقی ہیں جیسے زردشتیوں کی مقدس کتاب '' زندوپازند'' ''جاماسنامہ'' یہودیوں کی مقدس کتاب توریت اور اس کے ملحقات میں عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل میں بھی اس کو تلاش کیا جا سکتا ہے نیز برہمنوں اور بودھ مذہب کی کتاب میں بھی کم و بیش اس کا تذکرہ ہے _

یہ عقیدہ سارے مذاہب و ملتوں میں موجود ہے اور وہ ایسے طاقتور غیبی موعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں _ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سے پہچانتے ہیں زردشتی سوشیانس _ دنیا کو نجات دلانے والا _ یہودی سرور میکائیلی _ عیسائی

۷۳

مسیح موعود اور مسلمان مہدی موعود کے نام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا _ زردشتی کہتے ہیں وہ ایرانی اور مذہب زردشت کا پیروکار ہوگا یہودی کہتے ہیں وہ بنی اسرائیل سے ہوگا اور موسی کا پیروہوگا ، عیسائی اپنے میں شمار کرتے ہیں اور مسلمان بنی ہاشم اور رسول (ص) کے اہل بیت میں شمار کرتے ہیں _ اسلام میں اس کی بھر پور طریقہ سے شناخت موجود ہے جبکہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل معرفت نہیں کرائی ہے _

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگرمذاہب میں بیان ہوئے ہیں وہ اسلام کے مہدی موعود یعنی امام حسن عسکری کے فرزند پر بھی منطبق ہوتے ہیں ، انھیں ایرانی ناد بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ کے جد امام زین العابدین کی والدہ شہر بانو ساسانی بادشاہ یزدجرکی بیٹی تھیں اور بنی اسرائیل جناب اسحق (ع) کی اولاد ہیں _ اس لحاظ سے بنی ہاشم و بنی اسرائیل کو ایک خاندان کہا جاتا ہے _ عیسائیوں سے بھی ایک نسبت ہے کیونکہ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روم کی شہزادی جناب نرجس کے بطن سے ہوں گے _

اصولی طور پر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم دنیا کے نجات دلانے والے کو کسی ایک قوم سے مخصوص کردیںکہ جس سے قومی اختلاف پیدا ہو ، اس قوم سے ہیں اس سے نہیں ، اس ملک کا باشندہ ہے اس کا نہیں ہے، اس مذہب سے تعلق رکھتا ہے دوسروں سے نہیں _ اس بناپر مہدی موعود کو عالمی کہنا چاہئے _ وہ ساری دنیا کے خداپرستوں کو نجات دلائیں گے _ ان کی کامیابی ، تمام انبیاء اور صالح انسانوں کی

۷۴

کامیابی ہے _ ترقی یافتہ دین ، دین اسلام ، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور تمام آسمانی مذاہب کی حمایت کرتا ہے اور موسی و عیسی کے حقیقی دین و مذہب ، کہ جنہوں نے محمد (ص) کی آمد کی بشارت دی ہے کا حامی ہے _

واضح رہے مہدی موعود کی بشارتوں کے ثابت کرنے کے لئے ہم قدیم کتابوں سے استدلال نہیں کرتے ہیں _ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے _ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان و مذاہب کا مشترک عقیدہ ہے جس کا سرچشمہ وحی ہے اور تمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظار میں ہیں لیکن اس کی مطابقت میں اختلاف ہے _

۷۵

قرآن اور مہدویت

فھیمی : اگر مہدویت کا عقیدہ صحیح ہوتا تو قرآن میں بھی اس کا ذکر ہوتا جبکہ اس آسمانی کتاب میں لفظ مہدی بھی کہیں نظر نہیں آتا _

ھوشیار : اول تویہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صحیح موضوع اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قرآن میں بیان ہو _ ایسی بہت سی صحیح چیزیں ہیں کہ جن کا آسمانی کتاب میں نام و نشان بھی نہیں ملتا _ دوسرے اس مقدس کتاب میں چند آیتیں ہیں جو اجمالی طور پر ایک ایسے دن کی بشارت دیتی ہیں کہ جس میں حق پرست ، اللہ والے ، دین کے حامی اور نیک و شائستہ افراد زمین کے وارث ہوں گے اور دین اسلام تمام مذاہب پر غالب ہوگا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

سورہ انبیاء میں ارشاد ہے :

ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھد یا ہے کہ ہمار ے شائستہ اور شریف بند ے زمین کے وارث ہوں گے ۱_

سورہ ء نور میں ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے

____________________

۱ _ انبیاء / ۱۰۵

۷۶

وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین میں سی طرح خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا یا تھا ، تا کہ اپنے پسندیدہ دین کو استوار کردے اور خوف کے بعد انھیں مطمئن بنادے تا کہ وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک قرار نہ دیں(۱)

سورہ ء قصص میں ارشاد ہے :

ہمارا ارادہ ہے کہ ان گوں پر احسان کریں ، جنھیں روئے زمین پر کمزور بناد یا گیا ہے اور ، انھین زمین کا وارث قرار دیں(۲)

سورہ ء صف میں ارشاد ہے :

خداوہی ہے جس نے اپنے رسول(ع) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ دین حق تمام ادیان و مذاہب ، پر غالت ہو جائے اگر چہ مشر کوں کو یہ نا گوار ہی کیوں نہ ہو(۳)

ان آیتوں سے اجمالی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا پر ایک دن ایسا آئے گا جس میں زمین کی حکومت کی زمام مومنوں اور صالح لوگوں کے ہا تھوں میں ہوگی اور وہی تمدن بشریت کے میر کارواں ہوں گے _ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے گا اور شرک کی جگہ خدا پرستی ہوگی _ یہی درخشاں زمانہ مصلح غیبی منجی بشریت مہدی موعود کے انقلاب کادن ہے اور یہ عالمی انقلاب صالح مسلمانوں کے ذریعہ آئے گا _

____________________

۱_ نور / ۵۵۰

۲_ قصص / ۴

۳ _صف / ۹

۷۷

نبوّت عامہ اور امامت

فھیمی : میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ شیعہ ایک امام کے وجودکوثابت کرنے پر کیوں مصر ہیں ؟ اپنے عقیدہ کے سلسے میں آپ اتنی جد و جہد کرتے ہیں کہ : اگر امام ظاہر نہیں ہے تو پردہ غیبت میں ہے _ اس بات کے پیش نظر کہ انبیاء نے احکام خدا کو لوگوں کے سامنے مکمل طور پر پیش کرہے _ اب خدا کو کسی امام کے وجود کی کیا ضرورت ہے ؟

ہوشیار: جو دلیل نبوت عامہ کے اثبات پر قائم کی جاتی ہے اور جس سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ خدا پر احکام بھیجنا واجب ہے اس دلیل سے امام ، حجت خدا اور محافظ احکام کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے _ اپنا مدعا ثابت کرنے کیلئے پہلے میں اجمالی طور پر نبوت عامہ کے برہان کو بیان کرتا ہوں _ اس کے بعد مقصد کا اثبات کروں گا _

اگر آپ ان مقدمات اور ابتدائی مسائل میں صحیح طریقہ سے غور کریں جو کہ اپنی جگہ ثابت ہوچکے ہیں تو ثبوت عاملہ والا موضوع آپ پرواضح ہوجائے گا _

۱_ انسان اس زاویہ پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ تن تنہا زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ دوسرے انسانوں کے تعاون کامحتاج ہے _ یعنی انسان مدنی الطبع خلق کیا گیا ہے _

۷۸

اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے _ واضح ہے کہ اجتماعی زندگی میں منافع کے حصول میں اختلاف ناگزیر ہے _ کیونکہ معاشرہ کے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مادہ کے محدود و منافع سے مالامال ہوجائے اور اپنے مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو راہ سے ہٹادے جبکہ دوسرے بھی اسی مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں _ اس اعتبار سے منافع کے حصول میں جھگڑا اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدی کا باب کھلتا ہے لہذا معاشرہ کو چلانے کیلئے قانون کا وجود ناگزیر ہے تا کہ قانون کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور ظلم و تعدی کرنے والوں کی روک تھام کی جائے اور اختلاف کا خاتمہ ہوجائے _ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بشریت نے آج تک جو بہترین خزانہ حاصل کیا ہے وہ قانون ہے اور اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے ابتدائی زمانہ سے ہی کم و بیش قانون کا حامل تھا اور ہمیشہ سے قانون کا احترام کرتا چلا آرہا ہے _

۲_ انسان کمال کا متلاشی ہے اور کمال و کامیابی کی طرف بڑھنا اس کی فطرت ہے _ وہ اپنی سعی مبہم کو حقیق مقصد تک رسائی اور کمالات کے حصول کیلئے صرف کرتا ہے ، اس کے افعال ، حرکات اور انتھک کوششیں اسی محور کے گرد گھومتی ہیں _

۳_ انسان چونکہ ارتقاء پسند ہے اور حقیقی کمالات کی طرف بڑھنا اس کی سرشت میں ودیعت کیا گیا ہے اس لئے اس مقصد تک رسائی کا کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے کیونکہ خالق کوئی عبث و لغو کام انجام نہیں دیتا ہے _

۴_ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ انسان جسم و روح سے مرکب ہے جسم کے اعتبار سے مادی ہے _ لیکن روح کے ذریعہ ، جو بدن سے سخت ارتباط و اتصال رکھتی ہے ، وہ

۷۹

ترقی یافتہ ہے اور روح مجرّد ہے _

۵_ انسان چونکہ روح و بدن سے مرکب ہے اس لئے اس کی زندگی بھی لامحالہ دوقسم کی ہوگی : ایک دنیوی حیات کہ جس کا تعلق اس کے بدن سے ہے _ دوسرے معنوی حیات کہ جس کا ربط ا س کی روح اور نفسیات سے ہے _ نتیجہ میں ان میں سے ہر ایک زندگی کے لئے سعادت و بدبختی بھی ہوگی _

۶_ جیسا کہ روح اور بدن کے درمیان سخت قسم کا اتصال و ارتباط اور اتحاد برقرار ہے ایسا ہی دنیوی زندگی اور معنوی زندگی میں بھی ارتباط و اتصال موجود ہے _

یعنی دنیوی زندگی کی کیفیت ، انسان کے بدن کے افعال و حرکات اس کی روح پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جب کہ نفسانی صفات و کمالات بھی ظاہر افعال کے بجالانے پر اثر انداز ہوتے ہیں _

۷_ چونکہ انسان کمال کی راہ پر گامزن ہے اور کمال کی طرف راغب ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے ، خدا کی خلقت بھی عبث نہیں ہے _ اس لئے انسانی کمالات کے حصول اور مقصد تک رسائی کے لئے ایسا ذریعہ ہونا چاہئے کہ جس سے وہ مقصد تک پہنچ جائے اور کج رویوں کو پہچان لے _

۸_ طبعی طور پر انسان خودخواہ اور منفعت پرست واقع ہوا ہے ، صرف اپنی ہی مصلحت و فوائد کو مد نظر رکھتا ہے _ بلکہ دوسرے انسانوں کے مال کو بھی ہڑپ کرلینا چاہتا ہے اور ان کی جانفشانی کے نتیجہ کا بھی خودہی مالک بن جانا چاہتا ہے _

۹_ باوجودیکہ انسان ہمیشہ اپنے حقیقی کمالات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس حقیقت کی تلاش میں ہر دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے لیکن اکثر اس کی تشخیص سے معذور رہتا ہے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

عجیب و غریب بات نہیں ہے بلکہ اس زمانہ کے وحشت ناک حالات ، کنیزوں کی کثرت اور اختفا میں شدت یہی اقتضا تھا اور امام حسن عسکری کی میراث کے سلسلے میں آپ کی والدہ اور جعفر کذاب کے در میان جو شدید اختلاف رونما ہو اتھا بعید نہیں ہے کہ اس میں خلیفہ کا ہا تھ ہو اور اس طرح امام حسن عسکری کے بیٹے کاپتہ لگا نا چا ہتا ہو _

کمال الدین میں صدوق لکھتے ہیں : جب امام حسن عسکری کی میرات کے سلسلہ میں آپ کی والدہ سے جعفر سے نزاع ہوئی ااور قضیہ خلیفہ تک پہنچا تو اس وقت امام حسن عسکری کی ایک کنیز صیقل نے حاملہ ہو نے کا دعوی کیا چنا نچہ اس کنیز کو خلیفہ معتمد کے گھر لے جا یا گیا اور خلیفہ کی عورتون ، خدمت گارون ، ماہر عورتون اور قاضی کی عورتو ں کی نگرانی میں رکھی گئیں تا کہ ان کے حاملہ ہونے کا مسئلہ واضح ہو جائے _ لیکن اس زمانے میں عبداللہ بن یحیی اور صاحب زنج کے خروج کا مسئلہ اٹھ کھٹرا ہوا _ اور حکومت کے افراد کو سامرہ سے نکلنا پڑا ، اور اپنے مسائل میں الجھ گئے اور صیقل کی نگرانی سے دست بردار ہو گئے(۱)

نام اور تعدد کے اختلاف میں دوسرا احتمال بھی ہے _ ممکن ہے کوئی یہ کہے : یہ سب نام ایک ہی کنیز کے تھے _ یعنی جس کنیز کے بطن سے صاحب الامر تھے ان کے کئی نام تھے ، یہ بھی بعید نہیں ہے کیونکہ عربوں میں رواج تھا کہ وہ ایک ہی شخص کو متعدد ناموں سے پکار تے تھے _

اس احتمال کا ثبوت وہ حدیث ہے جو کہ ، کمال الدین ، میں موجود ہے

____________________

۱_کما الدین ج۲ ص ۱۴۹

۱۴۱

صدوق نے اپنی سند سے غیاث سے روایت کی ہے کہ انہوں کہا : امام حسن عسکری کے جانشین جمعہ کے دن پیدا ہوئے ہیں _ ان کی مادر گرامی ریحانہ ہیں کہ جنھیں نرجس صیقل اور سوسن بھی کہا جاتا ہے چونکہ حمل کے زمانہ میں مخصوص نورانیت و جلاکی حامل تھیں اس لئے ان کانام صیقل پڑ گیا تھا(۱)

آخرمیں اس بات کی وضاحت کردینا ضروری سمجھتا ہوں کہ صاحب الامر کی مادر گرامی کے نام کی تعیین میں اگرچہ مختصر ابہام ہے لیکن اس ابہام سے آپ کے اصل وجود پر کوئی صرف نہیں آتاہے کیونکہ ، جیساکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا ، ائمہ اطہار اور امام حسن عسکری نے اپنے بیٹے کے وجود کی خبردی ہے اور حکیمہ خاتون بنت امام محمد تقی ، جو کہ قابل اعتماد و وثوق عورتیں ، انہیں نے آپ کی ولادت کی وضاحت کی ہے_ اس کے علاوہ امام حسن عسکری کے گھر کے خدام اور بعض ثقہ افراد نے اس کو دیکھا ہے اور اس کے و جود کی گواہی دی ہے _ والدہ کانام خواہ کچھ بھی ہو _

۱۴۲

ولادت مہدی اور علما ئے اہل سنت

فہیمی : اگر امام حسن عسکری کے یہا ں کو ئی بیٹا ہو تا تو اہل سنت کے علماء و مور خین بھی اپنی کتابوں میں ان کا ذکر کرتے _

ہوشیار : علمائے اہل سنت کی جماعت تے بھی امام حسن عسکری کی ولادت آپ اور آپ کی پدر بزرگواکی تاریخ لکھی ہے اور ولادت کا ا عتراف کیا ہے _

ا _ محمد بن طلحہ شافعی نے لکھا ہے :

(( ابولقاسم محمد بن حسن ( عسکری ) نے ۲۵۸ ھ کو سامرہ میں ولادت پائی آپ کے والد کانام خالص حسن ہے _ حجت ، خلف صالح اور منتظر آپ کے القاب ہیں _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کرنے کے بعد فرما تے ہیںان کا مصداق امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں جو کہ پردہ غیب میں ہیں بعد میں ظا ہر ہوں گے(۱)

(ع) ۲ _ محمد بن یوسف نے امام حسن عسکری کی وفات کا ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے : محمد جو کہ امام منتظر ہیں ، کے علاوہ آپ کے یہاں کوئی بیٹا نہیں تھا _ )) ( ۲ )

____________________

۱_ مطالب السئول طبع ۱۲۸۷ _ ص ۸۹

۲ _ کفا یة الطالب ص ۳۱۲

۱۴۳

۳ _ ابن صباغ مالکی لکھتے ہیں :

(( بارہویں فصل ابولقاسم ، محمد ، حجت ، خلف صالح بن ابو محمد ، حسن خالص کے حالات کے سلسلہ میں ہے _ یہ شیعوں کے بار ہو یں امام ہیں _ اس کے بعد امام کی تاریخ تحریر کی ہے اور مہدی کے بارے میں کچھ حدثیں بیان کی ہیں(۱)

۴ _ یوسف بن قزاو غلی نے امام حسن عسکری کے حالات قلم بند کرنے کے بعد لکھا ، ہے : (( آپ کے بیٹے کانام محمد اور کنیت ابو عبد اللہ و ابوالقاسم ہے _ و ہی حجت ، صاحب الزمان ، قائم اور منتظر ہیں _ امامت کا سلسلہ ان پرخم ہو گیا _ اس کے بعد مہدی سے متعلق کچھ احادیث لکھی ہیں _ ( ۲ )

۵ _ شیلنجی نے اپنی کتاب نور الا بصار میں تحریر کیا ہے کہ : (( محمد ، حسن عسکری کے بیٹے ہیں _ ان کی والدہ ام دلا ، نرجس یا صیقل یا سوسن ہیں _آپ کی کنیت ابوالقاسم ہے _ امامیہ انھیںحجت ، مہدی خلف صالح ، قائم ، منتظر اور صاحب الزمان کہتے ہیں ( ۳ )

۶ _ ابن حجر صواعق محرقہ میں امام حسن عسکری کے حالات لکھنے کے بعد لکھتے ہیں : آپ نے ابوالقاسم ، کہ جنھیں محمد ، حجت کہا جا تا ہے ، کہ علاوہ کوئی اولاد نہیں چھوڑی _ اس بچہ کی عمر باپ کے انتقال کے وقت پانچ سال

____________________

۱_ فصول المہمہ ص ۲۷۳ و ص ۳۸۶

۲ _ تذکر ة الخواص الامة ص ۲۰۴

۳ _ نور الا بصار طبع مصر ص ۱۶۸

۱۴۴

تھی(۱)

۷ _ محمد امین بغداد ی نے اپنے کتاب سباٹک الذہب میں لکھا ہے :

(( محمد ، حسن کو مہدی بھی کہا جاتا ہے ، والد کے انتقال کے وقت پانچ سال کے تھے _( ۲ )

۸ _ ابن خلکان نے اپنی کتاب (وفیات الا عیان) میں لکھا ہے کہ : ابوالقاسم محمد بن الحسن العسکری امامیہ کے بار ہویں امام ہیں _ شیعوں کے عقیدہ کے مطابق وہی منتظر ، قائم اور مہدی ہیں ( ۳ )

۹ _ صاحب روضة الصفالکھتے ہیں :

محمد ، حسن ( عسکری ) کے بیٹے ہیں اور آ پ کی کنیت ابوالقاسم ہے امامیہ انہیں حجت ، قائم اور مہدی سمجھتے ہیں ( ۴ )

۱۰ _ شعرانی نے اپنی کتاب الیواقیت و الجو اھیر میں لکھا ہے کہ :

مہدی ، امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں آپ نے پندرہ شعبان ۲۵۵ ھ میں ولادت پائی _ اور حضرت عیسی کے ظہور تک زندہ و باقی رہیں گے _ اب ۹۵۸ ھ ہے _ اس لحاظ سے آپ کی عمر ۷۰۳ سال ہو چکی ہے ( ۵ )

____________________

۱_ الصواعق المحرقہ

۲_سبائک الذہب ص۷۸

۳_روضةالصفا ج۳

۴_وفیات الاعیان ج۲ص ۲۴

۵_الیوقیت و الجواہیر مولفہ شعران طبع ۱۳۵۱ ج ۲ ص۲۳

۱۴۵

۱۱ _ شعرانی ہی نے فتوحات مکیہ کے باب ۳۶۶ وین سے نقل کیا ہے : جب زمیں ظلم و جورسے بھر جائے گی اس و قت مہدی ظہور فرمائیں کے اور اسے عدل و انصاف سے پر کریں گے آپ رسول کی اولاد اور جناب فاطمہ کی نسل سے ہیں _ ان کے جد حسین اور باپ عسکری بن امام علی نقی بن امام محمد تقی بن امام موسی کاظم بن امام جعفر صادق بن امام محمد باقربن زین العابدین بن امام حسین بن ابی طالب ہیں(۱)

۱۲ _ خواجہ پارسانے اپنی کتاب فصل الخطاب میں تحریر کیا ہے کہ : محمد بن حسن عسکری ۵ا شعبان ۲۵۵ میں پیدا ہوئے _ آپ کی والدہ کا نام نرجس ہے _ پانچ سال کی عمر میں باپ کا سایہ اٹھ گیا اور اس وقت سے آج تک غائب ہیں _ وہی شیعوں کے امام منتظر ہیں _ ان کے اصحاب خاص اور اہل بیت کے نزدیک ان کا وجود ثابت ہو چکا ہے _ خداوند عالم الیاس (ع) و خضر(ع) کی مانند ان کی عمر کو طولانی بنادے گا(۲)

۱۳ _ ابولفلاح حنبلی نے اپنی کتاب شذرات الذہب اور ذہبی نے العبر فی خبر من غیرمیں لکھا ہے کہ :

محمد بن حسن عسکری ، بن علی نقی ، بن جواد بن علی رضا بن موسی کاظم بن جعفر صادق علوی اور حسینی ہیں _ آپ کی کنیت ابو القاسم ہے ، شیعہ انھیں

____________________

۱_ الیواقیت و الجواہر ص ۱۴۳

۲ _ منقول از ینابیع المودة ج ۲ و ص ۱۲۶

۱۴۶

خلف صالح ، حجت ، مہدی ، منتظر اور صاحب الزمان کہتے ہیں(۱)

۱۴ _ محمد بن علی حموی لکھتے ہیں :

ابوالقاسم محمد منتظر ۲۵۹ ھ کو شہر سامرہ میں پیدا ہو ئے(۲)

مذکور ہ علماء کے علاوہ اہل سنت کے دوسرے علمانے بھی امام حسن عسکری کے بیٹے کی ولادت کا قضیہ اپنی کتابوں میں درج کیا ہے ( ۳ )

اس وقت جلسہ ختم ہو گیا اور یہ طے پایا کہ آئندہ جلسہ ہفتہ کی شب میں جلالی صاحب کے مکان پر منعقد ہو گا _

____________________

۱_ شذرات الذہب ج ۲ ص ۱۴۱ و کتا ب العیر فی خیر من غبر طبع کویت ج ۲ ص ۳۱

۲ _ تاریخ منصوری ص ۱۱۴ ، ص ۹۴ ( ماسکو سے فوٹو کا پی لی گئی )

۳ _ تفصیل کے شائقیں کشف الا سرار مؤلفہ حسین بن محمد تقی نور اور کفایہ الموحدین ج ۲ ، مولفہ طبرسی کا مطالعہ فرمائیں _

۱۴۷

کیا پانچ سال کا بچہ امام ہوتا ہے؟

جلسہ شروع ہونے کے بعد فہیمی صاحب نے اس طرح سوال اٹھایا :

فھیمی : بالفرض امام حسن عسکری کے یہاں بیٹا تھا لیکن اس بات کو کیونکر قبول کیا جاسکتا ہے کہ، پانچ سال کا بچہ منصب امامت و ولایت پرمتمکن ہوتاہے ؟ اور احکام خدا کی حفاظت وتحمل کے لئے اس کا انتخاب ہوتا ہے اور کمسنی میں ہی علم وعمل کی اعتبار سے لوگوں کا امام اور ان پر خدا کی حجت قرار پاتا ہے؟

ھوشیار : آپ نے نبوت اور امامت کو ایک ظاہری اور معمولی چیز تصوّ رکرلیا ہے اور یہ سمجھ لیا ہے کہ اس کے لئے کسی قید وشرط کی ضرورت نہیں ہے_ جو شخص احکام کے حفظ وتحمل کی صلاحیت رکھتا ہے اسی کو منتخب کر لیا جا تا ہے ، اس کے علاوہ کسی اور چیز کی ضرورت نہیں ہے _ گویا محمد بن عبداللہ(ص) کی جگہ ابوسفیان کا نبوت کے لئے انتخاب ہو سکتا ہے اور علی بن ابیطالب کے بجائے طلحہ وزبیر امام بن سکتے ہیں لیکن اگر آپ غور کریں گے اور اہل بیت کی احادیث کا مطالعہ فرمائیں گے تو اس بات کی تصدیق فرمائیں گے کہ یہ بات اتنی آسان نہیں ہے _ کیونکہ نبوت بہت عظیم مقام ہے اس مقام پر فائز انسان کا خدا سے ارتباط واتصال رہتا ہے اور وہ عالم غیبی کے افاضات سے مستفید ہوتا ہے خدا کے احکام وقوانین وحی اور الہام کی صورت میں اس کے قلب پر نازل ہوتے ہیں

۱۴۸

اور انھیں حاصل کرنے میں اس سے کوئی اشتباہ و خطا واقع نہیں ہوتی _ اسی طرح امامت بھی ایک عظیم منصب ہے _ اس عہدہ کا حامل خد ا کے احکام اور نبوت کے علوم کو اس طرح حفظ و ضبط کرتا ہے کہ جس میں خطا و نسیان اور معصیت کا امکان نہیں ہے _ اس کا بھی عالم غیبت سے رابطہ رہتا ہے اور خدا کے افاضات و اشراقات سے بہرہ مند رہتا ہے _ علم و عمل کے سبب لوگوں کا امام اور دین خدا کا نمونہ و مظہر قرار پاتا ہے _

واضح ہے کہ ہر شخص میں اس منصب پر پہنچنے کی صلاحیت نہیں ہے بلکہ اس کیلئے روح کے اعتبار سے انسانیت کے اعلی درجہ پر فائز ہونا چاہئے تا کہ عوالم غیبی سے ارتباط اور علوم کے حفظ و حصول کی اس میں لیاقت پیدا ہو سکے اور اس کی جسمانی ترکیب اور دماغی قوتوں میں نہایت ہی اعتدال پایا جاتا ہو کہ جس سے عام ہستی کے حقائق اور غیبی افاضات کو بغیر کسی خطا و اشتباہ کے الفاظ و معانی کے قالب میں ڈھال سکے اور لوگوں تک پہنچا سکے _

پس خلقت کے اعتبار سے رسول اور امام ممتاز ہیں اور اسی ذاتی استعداد و امتیاز کی بنا پر خداوند عالم انھیں نبوت و امامت کے عظیم و منصب کے لئے منتخب کرتا ہے اگر چہ یہ امتیازات عہد طفولیت ہی سے ان میں موجود ہوتے ہیں _ لیکن جب صلاح ہوتی ہے ، کوئی مانع نہیں ہوتا اور حالات سازگار ہوتے ہیں تو ان ہی نمایان افراد کا منصب نبوت وامامت کے حامل کے عنوان سے سرکاری طور پر تعارف کرایا جاتا ہے اور وہ احکام کے حفظ و تحمل کے لئے مامور ہوتے ہیں _

یہ انتخاب کبھی بلوغ کے بعد یا بزرگی کے زمانہ میں ہوتا ہے اور کبھی عہد طفولیت میں ہوتا ہے _ جیسا کہ حضرت عیسی علیہ السلام نے گہوارہ میں لوگوں سے گفتگو کی

۱۴۹

اور کہا : میں نبی ہوں اور کتاب لے کر آیا ہوں _ سورہ مریم میں خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ حضرت عیسی نے فرمایا :'' میں خدا کا بندہ ہوں مجھے اس نے کتاب اور نبوت عطا کی ہے ، میں جہاں بھی رہوں با برکت ہوں اور تا حیات مجھے نماز و زکوة کی وصیت کی ہے ''_

اس اور دوسری آیتوں سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت عیسی بچینے ہی سے نبی اور صاحب کتاب تھے _

اس لئے ہم کہتے ہیں کہ پانچ سال کے بچہ کا عوالم غیبی سے ارتباط رکھنے اور تبلیغ احکام کی ایسی عظیم ذمہ داری کے لئے منصوب کئے جانے میں کوئی حرج نہیں ہے کیونکہ وہ اس امانت کی ادائیگی اوراپنی ذمہ داری کو پورا کرنے کی طاقت رکھتا ہے _

چنانچہ امام علی نقی بھی والد کے انتقال کے وقت نو یا سات سال کے تھے اور کم سنی کی بناپر بعض شیعہ ان کی امامت کے بارے میں مستردد تھے_ اس مسئلہ کے حل کرنے کی غرض سے کچھ شیعہ آپ(ع) کی خدمت میں شرفیاب ہوئے اور آپ(ع) سے سیکڑوں مشکل ترین سوالات معلوم کئے اور مکمل جواب حاصل کئے اور ایسی کرامات کو مشاہدہ کیا کہ جن سے ان کا شک برطرف ہوگیا _(۱)

امام رضا (ع) نے انھیں اپنے جانشین اور امام کے عنوان سے پیش کیا تھا اور مخاطبین کے تعجب پر فرمایا تھا: '' حضرت عیسی بھی بچپنے میں نبی اور حجت خدا ہوئے تھے ''(۲) _

____________________

۱_ اثبات الوصیہ ص ۱۲۶_

۲_ اثبات الوصیہ ص ۱۶۶_

۱۵۰

حضرت امام علی نقی (ع) بھی چھ سال اور پانچ ماہ کی عمر میں شفقت پدری سے محروم ہوگئے تھے اور امامت آپ کی طرف منتقل ہوگئی تھی_(۱)

جناب فہیمی صاحب ، انبیاء و ائمہ کی خلقت کچھ اس زاویہ سے ہوئی ہے کہ جس کا عام افراد سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا _

نابغہ بچّے

کبھی عام بچوں کے درمیان بھی نادر افراد مشاہدہ کئے جاتے ہیں جو کہ استعداد او حافظہ کے اعتبار سے اپنے زمانہ کے نابغہ ہوتے ہیں اور ان کے ادراکات و دماغی صلاحیت چالیس سال کے بوڑھوں سے کہیں اچھی ہوتی ہے _

ان ہی میں سے ایک ابو علی سینا بھی ہیں _ ان سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے بتا یا : '' جب میں اچھے برے کو سمجھنے لگا تو مجھے معلم قرآن کے سپرد کیا گیا _ اس کے بعد ادب کے استاد کے حوالے کیا _ ادب کے استاد کو شاگرجو بھی سنا تے تھے اسے میں حفظ کرلیتا تھا _ اس کے علاوہ استاد نے مجھے حکم دیا تھا کہ : تم '' الصفات '' ، ''غریب المصنف ، '' ادب الکاتب'' ، '' اصلاح المنطق'' ، ''العین'' ، ''شعر و حماسہ'' ، ''دیوان ابن رومی'' ، '' تصریف'' ''مازنی'' اور سیبویہ کی نحو بھی سنایا کرو _ چنانچہ انھیں بھی میں نے ایک سال چھ ماہ میں ختم کڑدالا ، اگر استاد تعویق سے کام نہ لیتے تو اس سے کم مدت میں تمام کرلیتا اور جب دس سال کو ہو ا تو اہل بخارا کو انگشت بدندان کردیا _ اس کے بعد فقہ کی تعلیم

____________________

۱_ مناقب ابن شہر آشوب ج ۴ ص ۴۰۱، اثبات الوصیہ ص ۱۷۴_

۱۵۱

کا سلسلہ شروع کیا اور بارہ سال کی عمر میں ابو حنفیہ کی فقہ کے مطابق فتوی دینے لگا تھا اس کے بعد علم طب کی طرف متوجہ ہو اور سولہ سال کی عمر میں'' قانون'' کی تصنیف کی اور چوبیس سال کی عمر میں خود کو تمام علوم کا ماہر سمجھتا تھا _(۱)

فاضل ہندی کے بارے میں منقول ہے کہ تیرہ سال کی عمر سے پہلے ہی انہوں نے تمام معقول و منقول علوم کو مکمل کرلیا تھا اور بارہ سال کی عمر ے پہلے ہی کتاب کی تصنیف میں مشغول ہوئے تھے _(۲)

'' ٹوماس ینگ'' کو برطانیہ کے عظیم دانشوروں میں شمار کرنا چاہئے ، وہ بچپنے ہی سے ایک عجوبہ تھا _ دو سال کی عمر سے پڑھنا جانتا تھا ، آٹھ سال کی عمر میںخود ہی ریاضیات کا مطالعہ شروع کیا ، نو سے چودہ سال کا زمانہ اپنی کلاسوں کے درمیان کے مختصر وقفوں میں فرانسیسی ، اطالوی ، عبری ، عربی اورفارسی کی تعلیم کا دورہ گزارا اور مذکورہ زبانوں کو اچھی طرح سیکھ لیا _ بیس سال کی عمر میں رویت کی تھیوری پر ایک مقالہ لکھ کر دربارشاہی میں پیش کیا اور اس میں اس بات کی تشریح کی کہ آنکھ عینک کے لینز کی خمیدگی میں ردو بدل کے ذریعہ کیسے واضح تصویر دیکھی جا سکتی ہے _(۳)

اگر آپ مشرق و مغرب کی تاریخ کا مطالعہ کریں گے تو ایسے بہت سے نابغہ

____________________

۱_ ہدیةالاحباب طبع تہران ص ۷۶_

۲_ ہدیة الاحباب ص ۲۸۸_

۳_ تاریخ علوم مؤلفہ بی برروسو ترجمہ صفاری طبع سوم ص ۴۳۲_

۱۵۲

ملیں گے _

جناب فہیمی صاحب ، نابغہ بچے ایسے دماغ اور صلاحیت کے حامل ہوتے ہیں کہ کمسنی میں ہزاروں قسم کی چیزیں یادکرلیتے ہیں اور علوم کی مشکلوں اور کتھیوں کو حل کرتے ہیں ،اور ان کی محیر العقول صلاحیت لوگوں کو انگشت بدندان کردیتی ہے تو اگر خدا ، حضرت بقیةاللہ ، حجت حق ، علت مبقیہ انسانیت حضرت مہدی کو پانچ سال عمر میں ولی و امام منصوب کردے اور احکام کی حفاظت و تحمل کو ان کے سپرد کردے تو اس میں تعجب کی کیا بات ہے ؟ ائمہ اطہار نے بھی آپ کی کمسنی کے بارے میں پیشین گوئی کی ہے _

حضرت امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:

صاحب الامرکی عمر مبارک ہم میں سب سے زیادہ ہوگی اور زیادہ گمنام رہیں گے_

حضرت قائم کے نام پر کھڑا ہونا

جلالی کہ آپ کو معلوم ہے لوگوں کے در میان یہ رسم ہے کہ وہ لفظ قائم سن کر کھڑے ہوجائے ہیں اس عمل کا کوئی مدرک ہے یا نہیں ؟

ہوشیار: یہ طریقہ دنیا کے تمام شیعوں میں رائج تھا اور ہے _ منقول ہے کہ خراسان کی ایک مجلس میں امام رضا(ع) تشریف فرماتھے کہ لفظ قائم زبان پر آیا تو آپ کھڑے ہوئے اپنے دست مبارک کو سر پر رکھا اور فرمایا :

____________________

۱_ بحارالانوار

۱۵۳

اللہم عجّل فرجہ و سحّل مخرجہ(۱)

امام جعفر صادق (ع) کے زمانہ میں بھی یہ طریقہ رائج تھا عرض کیا گیا قائم سن کر کھڑے ہونے کی کیا تکلیف ہونے کی کیا علّت ہے ؟فرمایا :

صاحب الامر مدت در از تک غیبت میں رہیں گے اوران کے دوستدار محبت کی شدّت کی بناپر آپ کو قائم کے لفت سے یاد کرتے ہیں جو کہ آپ (ع) کی حکوت و غریب کو بتا تا ہے _

چونکہ اس وقت امام زمانہ ان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں لہذا احترام کے لئے کھڑا ہوناچا ہئے اور خدا سے آپ کے لئے تعجیل فرج کی دعا کرنا چاہئے _ ( ۲ )

شیعوں کے اس عمل میں مذہبی اور اظہار ادب کا ایک پہلو موجود ہے اگر چہ اس کا واجب ہونا معلوم نہیں ہے _

____________________

۱_ الزام الناصب ص ۸۱

۲_ الزام الناصب ص ۸۱

۱۵۴

داستان غیبت کی ابتدا کب ہوئی ؟

ڈاکٹر : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری دنیا سے لا ولد ا ٹھے ہیں لیکن عثمان بن سعید جیسے فائدہ اٹھا نے والوں نے اپنی عزت و بزرگی باقی رکھنے کی عرض سے مہدی کی غیبت کی داستان گھڑ لی اور خوب اس کی نشر و اشاعت کی _

ہوشیار : پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام نے غیبت مہدی کے بارے میں اس سے پہلے پیشیں گوئی کی تھی اور لوگوں کو اس کی خبر دیدی تھی چند نمونے ملا حظہ فرمائیں _

پیغمبر اکرم نے فرمایا :

قسم اس خدا کی جس نے مجھے بشارت دینے کے لئے مبعوث کیا ہے قائم میرا بیٹا ہے اور وہ اس عہد کے مطابق غیبت اختیار کرے گا جو اس تک پہنچےے گا غیبت اتنی طو لانی ہوگی کہ لوگ یہاں تک کہنے لگیں گے کہ خدا کو آل محمد کی کوئی ضرورت نہیں ہے _ کچھ لوگ اس کی ولادت ہی میں شک کریں گے _ پس جو بھی غیبت کا زمانہ درک کرے اسے اپنے دین کی حفاظت کرناچاہئے اور شک کے راستہ سے شیطان کو اپنے اندر راہ نہیں دینا چا ہئے ، کہیں ایسانہ ہو کہ اسے وہ دین و ملت سے خارج

۱۵۵

کردے _ جیسا کہ اس سے پہلے تمہارے ماں ، باپ ( آدم و ہواء ) کو جنت سے نکال دیا تھا بے شک خدا شیطان کو کافروں کافرما نروا اور دوست قرار دیتا ہے(۱)

اصبغ بن نباتہ نقل کرتے ہیں کہ حضرت علی نے حضرت قائم کا ذکر کیااور فرمایا : جان لو ان کی غیبت ایسی ہوگی کہ جاہل کہے گا : خدا آل محمد کا محتاج نہیں ہے ))

امام صادق فرماتے ہیں :

اگر تم امام کی غیبت کی خبر سنو تو انکار نہ کرنا _ ۸۸ حدیثیں اور ہیں ان احادیث کی بنا پر مسلمان قائم کے لئے غیبت ضروری سمجھتے ہیں اور ان کے خصائص میں شمار کرتے ہیں یہاں تک کہ جس کو وہ مہدی سمجھتے تھے اسے بھی غیبت کی ترغیب د لا تے تھے _ ابو الفرج اصفہانی لکھتے میں :

عیسی بن عبداللہ نے نقل کیا ہے کہ محمد بن عبد اللہ بن حسن(ع) بچین ہی ہے غیبت کی زندگی بسر کرتے تھے اور مہدی کر لقب سے یاد کئے جاتے تھے

سید محمد حمیری کہتے ہیں :

میں محمد بن حنیفہ کے بارے میں غلو کرتا تھا اور میرا عقیدہ تھا کہ وہ غائب ہیں

____________________

۱_ اثبات الھداة ج ، ص ۳۸۶

۲ _ اثبات الھداة ج ۶ ص ۳۹۳

۳ _ اثبات الھداة ج ۶ ص ۳۵۰

۴ _ مقاتل الطالبین ص ۱۶۵

۱۵۶

ایک زمانہ تک اسی عقیدہ کا معتقد ر ہا بہاں بک کہ خدانے مجھ پر احسان کیا اور جعفر بن محمد امام صادق کے ذریعہ مجھے آتش ( جہنّم ) سے نجات عطا کی اور سید ھے راستہ کی ہدایت کی _ واقعہ یہ تھا کہ جب جعفر بن محمد(ص) کی امامت دلیل و برہان سے ثابت ہوگئی ، تو ایک روز میں نے آپ سے عرض کی : فرزند رسول غیبت کے سلسلہ میں آپ کے آبا واجداد سے کچھ حدیثیں ہم تک پہنچی ، ہیں کہ جن میں غیبت کے و قوع پذیر ہو نے کو یقینی قرار دیا گیا ہے _ میری خواہش ہے کہ آپ مجھے اس سے خبردار فرمائیں کہ کون غیبت اختیار کریگا ؟ امام صادق نے جواب دیا : میرا چھٹا بیٹا غیبت اختیار کرے گا اور وہ رسول کے بعد ہونے والے ائمہ میں سے بار ہواں ہے کہ ان میں سے پہلے علی اور آخری قائم برحق ، بقیہ اللہ اور صاحب الزمان ہیں قسم خدا کی اگر وہ نوح کی عمر کے برابر بھی غیبت میں رہیں گے تو بھی دنیا سے نہ جائیں گے یہاں تک ظاہر ہو کر دنیا کو عدل و انصاف سے پر کریں گے _

سید حمیری کہتے ہیں : جب میں نے اپنے مولا جعفر بن محمد سے یہ سنا تو حق مجھ پر آشکار ہوگیا اور پہلے عقیدہ سے تو بہ کی اور اس سلسلہ میں کچھ اشعار بھی کہے(۱)

غبیت مہدی کی داستان عثمان بن سعید نے نہیں گھڑی ہے بلکہ خدا نے ان کے لئے غیبت مقرر کی اور رسول خدا و ائمہ اطہار علیہم السلام نے آپکی ولادت سے قبل

____________________

۱_ کمال الدین مؤلفہ شیخ صدوق طبع ۱۳۷۸ ھ ج ۱ ص ۱۱۲ تا ص ۱۱۵

۱۵۷

لوگوں کو اس کی خبردی ہے _

طبرسی لکھتے ہیں :

ولی عصر کی غیبت کے بارے میں آپ اور آپ کے والد کی ولادت سے پہلے حدیثیں صادر ہوئی ہیں اور شیعہ محمد ثین نے انھیں اصول اور ان کتا بوں میں قلم بند کیا ہے جو کہ امام محمد باقر کے زمانہ میں تا لیف ہوئی ہیں ، منجملہ ثقہ محمد ثین میں سے ایک حسن بن محبوب ہیں ، انہوں نے غیبت سے تقریبا سو سال قبل کتاب (( مشیخہ )) تالیف کی اور اس میں غیبت سے متعلق احادیث جمع کیں _ اس میں ایک حدیث یہ ہے کہ :

ابو بصیر کہتا ہے : ہیں نے امام نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی : حضرت ابوجعفر ( امام باقر ) فرماتے تھے : قائم آل محمد کی دو غیبتین ہوں گی یک غیبت صغری دوسری غیبت کبری _ اس کے بعد لکھتے ہیں کہ ملا حظہ فرما یئےہ امام حسن عسکری کے بیٹے کے لئے دو غیبتوں کا پیش آنا اس طرح ثابت ہوا ))

غیبت صغری کے زمانہ کی عمر اسی سال سے زیادہ گز ر چکی تھی وہ اپنی مذکورہ کتاب کے صفحہ ۶ پر لکھتے ہیں : ائمہ نے امام زمانہ کی غیبت کی پہلے ہی خبر دیدی تھی ، اگر امام کی غیبت واقع نہ ہوتی تویہ امامیہ کے عقیدہ کے باطل ہونے کا ثبوت ہوتا _ لیکن خدا نے آپ(ع) کو غیبت میں بلا کر ائمہ کی احادیث کی صحت کی آشکار کردیا

____________________

۱_ اعلام الوری مولفہ طبرسی طبع تہران ص ۴۱۶

۱۵۸

امام زمانہ کی ولادت سے پہلے غیبت سے متعلق کتابیں

بارہویں امام حضرت مہدی موعود کی غیبت کو پیغمبر اکرم ، علی بن ابیطالب اور دیگر ائمہ نے مسلمانوں کے گوش گزار کیا ہے اور بات صدر اسلام ہی سے مسلمانوں کے در میان مشہور تھی کہ علماء ، روات احادیث ، ائمہ کے اصحاب نے آپ اور آپ کے باپ داداکی ولادت سے قبل مخصوص غیبت کے موضوع پر کتا بیں تالیف کی ہیں اوران میں مہدی موعود اور آپ کی غیبت سے متعلق احادیث جمع کی ہیں رجال کی کتابوں میں آپ ان مؤلفیں کے نام تلاش کرسکتے ہیں _ از باب نمونہ ملاحظہ فرمائیں :

ا_ موسی بن جعفر کے صحابی ، علی بن حسن بن محمد طائی طاطری نے غیبت کے موضوع پرا یک کتاب تالیف کی ہے یہ فقیہ اور معتمد تھے(۱)

۲_موسی بن جعفر کے صحابی علی بن عمراعرج کوفی نے غیبت سے متعلق ایک کتاب تالیف کی ہے_(۲)

۳ _ موسی بن جعفر کے صحابی ابراہیم بن صالح انماطی نے غیبت کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے(۳)

(ص) ۴ _ امام رضا(ع) کے ہمعصر حسن بن علی بن ابی حمزہ نے غیبت کے سلسلہ میں ایک

____________________

۱_ رجال نجاشی ص ۱۹۳ ، رجال شیخ طوسی ص ۳۵۷ ، فہرست طوسی ص ۱۱۸

۲ _ رجال نجاشی ص ۱۹۴

۳ _ رجال نجاشی ص ۲۸ ، فہرست شیخ طوسی ص ۷۵

۱۵۹

کتاب لکھی ہے(۱)

۵ _ امام رضا کے جلیل القدر اور مؤثق صحابی عباس بن ہشام ناشری رسدی متوفی ۲۲۰ ھ نے غیبت پر ایک کتاب تحریر کی ہے(۲)

۶ _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے صحابی ، عالم و ثقہ انسان علی بن حسن بن فضال نے غیبت سے متعلق ایک کتاب لکھی ہے(۳)

۷ _ امام علی نقی اور امام حسن عسکری کے صحابی فقیہ و متکلم ، فضل بن شاذان نیشا پوری متوفی ۲۶۰ ھ نے قائم آل محمد اور آپ کی غیبت کے موضوع پر ایک کتاب تالیف کی ہے _(۴)

اگر آپ گزشتہ مطالب پر توجہ فرمائیں گے تویہ بات واضح ہوجائے گی کہ امام زمانہ کی داستان غیبت کوئی نئی چیز نہیں ہے بلکہ اس کا ایک دینی عمیق سلسلہ ہے جو کہ رسول کے زمانہ سے آج تک موضوع بحث بنا ہوا ہے اس بنا پر یہ احتمال دینا کہ مہدی کی غیبت کی داستان کو عثمان بن سعید نے گھڑی ہو گی ، بے بنیاد ہے اور یہ بات مغرض انسان ہی کہہ سکتے ہیں _

اس کے علاوہ اگر ہم تیں مطالب کو ایک دوسرے سے ضمیمہ کر دیں تو غیبت امام زمانہ قطعی ہو جائے گی :

____________________

۱_ رجائی نجاشی ص ۲۸ ، فہرست شیخ طوسی ص ۷۵

۲_ رجائی نجاشی ص ۲۱۵ رجائی شیخ طوسی ص ۳۸۴ ، فہرست شیخ طوسی ص ۱۴۷

۳ _ رجائی نجاشی ص ۱۹۵ رجائی نجاشی طوسی ص ۴۱۹

۴ _ رجائی نجاشی ص ۳۳۵ رجائی نجاشی طوسی ص ۴۲۰ و ص ۴۳۴ ، فہرست شیخ طوسی ص ۱۵۰

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455