آفتاب عدالت

آفتاب عدالت0%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آيت اللہ ابراہيم اميني
زمرہ جات: صفحے: 455
مشاہدے: 173320
ڈاؤنلوڈ: 4811

تبصرے:

آفتاب عدالت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 173320 / ڈاؤنلوڈ: 4811
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

کتاب کانام: آفتاب عدالت

مؤلف : آیت اللہ ابراہیم امینی

ترجمہ : نثار احمد زینپوری

ناشر : انصاریان پبلیکیشنز قم ایران

نظرثانی : حجة الاسلام مولانا نثار احمد صاحب

کتابت : سید قلبی حسین رضوی کشمیری

سال طبع : ذی الحجة الحرام سہ ۱۴۱۵ ھ

تعداد : ۳۰۰۰

پریس کانام بہمن قم

۳

بسم الله الرحمن الرحیم

اللهمّ کن لوليّک الحجة

بن الحسن صواتک علیه

و علی آبائه فی هذه الساعة و

فی کل ساعة ولیاً و حافظاً

و قاعداً و ناصراً و دلیلاً و عینا

حتی تسکنه ارضک طوعاً

و تمتعه فیها طویلاً

۴

پیش گفتار

زندہ اور غائب امام حضرت مہدی موعود کے وجود کا عقیدہ اسلامی عقیدہ ہے جو کہ امامیہ مذہب کے ارکان میں شمار ہوتا ہے _ یہ عقیدہ متواتر اور قطعی الصدور احادیث سے ثابت ہوچکا ہے _ اس میں شک کی گنجائشے نہیں ہے _ لیکن اس سلسلے میں بہت سے مسائل تحقیق کے محتاج ہیں _ جیسے : طول عمر ، طولانی غیبت ، غیبت کی وجہ ، زمانہ غیبت میں امام زمانہ کے فوائد ، غیبت کے زمانہ میں مسلمانوں کے فرائض ، ظہور کی علا متیں ، حضرت مہدی کا عالمی انقلاب ، آپ(ع) کی کامیابی کی کیفیت ، حضرت مہدی کی فوج کا اسلحہ ، ان کے علاوہ اور دسیوں مسئلے ہیں ، کیونکہ مخالفین جوانوں اور تعلیم یافتہ طبقہ کے در میان کتابوں اور تقاریر کی صورت میں ان ہی باتوں کو اعتراضات کا نشانہ بنا تے ہیں _ ان کا جواب دینا ضروری ہے _ با وجودیکہ امام زمانہ روحی فداہ کے بارے میں بہت سی کتا بیں لکھی جا چکی ہیں مگر افسوس کہ لکھنے والے ان اعتراضات کی طرف متوجہ نہیں تھے _ لہذا ان کا جواب بھی نہیں دیا _ مؤلف ان اعتراضات سے واقف تھے چنانچہ ان کا جواب دینے کی غرض سے کتاب لکھنے کا فیصلہ کیا تا کہ امام زمانہ(ع) سے متعلق ایسے صحیح مطالب قارئین کی خدمت میں پیش کئے جائیں جو کہ ان کی ضرورت کو پو را کرسکیں خدا کی توفیق شامل حال ہوئی اور ۱۳۴۶ ق ش میں یہ کتاب طبع ہوکر شائفین کے ہاتھوں میں پہنچ گئی _ لیکن مؤلف ہمیشہ اس کی تکمیل کی فکر میں رہے اور ہیں _ چنانچہ ۱۳۴۷ ق ش میں نظر ثانی اور اضافات کے ساتھ دوسرے ایڈیشن طبع ہو کر شائفیں تک پہنچ گیا ، اس کے بعد

۵

اگر چہ آج تک یہ کتاب مستقل چھپتی رہی لیکن تجدید نظر کے لئے فرصت نہ مل سکی _ یہاں تک کہ اس زمانہ میں توفیق نصیب ہوئی اور نئے مطالب جمع ہوگئے _ لہذا نظر ثانی اور سودمند اضافات کے ساتھ شائقین کی خدمت میں حاضر ہے _ واضح رہے ہمیشہ کی طرح کتاب ہذا کی فائل کھلی رہے گی _ قارئین سے گزارش ہے کہ وہ اپنی تحقیقات اور مشور وں سے نوازیں شکریہ

ابراھیم امینی قم _ مارچ ۱۹۹۵ئ

۶

مقدمہ

دنیا کے آشفتہ اور افسوس ناک حالات نے لوگوں کو خوف زدہ کر رکھا ہے ، اسلحہ کی دوڑ ، سردو گرم جنگ اور مشرق و مغرب کے درمیان صف آرائی اور وحشت ناک بحرانوں نے دنیا والوں کے دل و دماغ کو فرسودہ کردیا ہے _ جنگی اسلحہ کی پیدا وار اور بہتا ت، نسل آدم کو تہدید کررہی ہے ، عالمی دہشت گردوں اور خودسروں نے پسماندہ قوموں کو زندگی کے حق سے بھی محروم کردیا ہے ، پسماندہ طبقے کی روز افزوں محرومیت ، دنیا کے بیماروں اور بھوکے لوگوں کا استغاثہ و امداد طلبی اوربڑھتی ہوئی بیکاری نے حساس و زندہ دل و خیراندیش اشخاص کو پریشانی میں مبتلا کردیا ہے_ اخلاقی تنزل ،دینی امور سے بے پروائی ، احکام الہی سے روگردانی ، مادہ پرستی اور شہوت رانی میں افراط نے دنیا کے روشن خیال افراد کو مضطرب کردیا ہے _

یہ اور ایسے ہی سیکڑوں حالات نے عاقبت اندیشی اور بشر کے خیرخواہ و اصلاح طلب افراد کو تشویش میں مبتلا کردیا ہے اور انسانیت کی تباہی و پستی کے اندیشے کی گھنٹیاں ان کے کانوں میں بج رہی ہیں_ وہ انسان کی مشکلیں حل کرنے اور عالمی بحران کو دفع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس لئے ہر در پردستک دیتے ہیں لیکن جتنی کوششیں کرتے ہیں اتنی ہی مایوسی سے دوچار ہوتے ہیں _ کبھی اس حد تک مایوس ہوجاتے ہیں کہ انسان کی اصلاح کی قابلیت ہی کا انکار کردیتے ہیں اور دنیا کے مستقبل کے بارے میں بد ظن ہوجاتے ہیں اور اس کے بھیانک نتائج سے لرزہ بر اندام رہتے ہیں اور دنیائے انسانیت کی مشکلیں حل

۷

کرنے کے سلسلے میں عاجزی کا اظہار کرتے ہیں _ اس سے بڑھ کر ، کبھی غیظ و غضب کی شدت کی بناپر انسانیت کے ارتقاء کے بھی منکر ہوجاتے ہیں اور اس کے علم و صنعت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جبکہ کبھی عام حالات میں اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ علم و صنعت کی کوئی غلطی نہیں ہے بلکہ سرکش اور خودخواہ انسان اس سے غلط فائدہ اٹھاتا ہے اور اصلاح کی بجائی اس سے فساد کی طرف لے جاتا ہے _

دنیا کا مستقبل شیعوں کی نظر میں

لیکن شیعوں نے یاس و ناامیدی کے دیو کو کبھی اپنے پاس نہیں آنے دیا ہے وہ انسان کی عاقبت اور سرنوشت کے بارے میں نیک توقع رکھتے ہیں _ دنیا کے نیک و شریف انسانوں کو کامیباب تصوّر کرتے ہیں _ وہ کہتے ہیں ( اس بات کو ثابت بھی کردیا ہے) کہ یہ مختلف قسم کے پروگرام اور بشر کے خود ساختہ دل فریب مسلک انسان کو بدبختی کے گرداب سے نہیں نکال سکتے اور عالمی خطرناک بحران کا علاج نہیں کر سکتے ہیں بلکہ وہ صالح بشر کی کامیابی و سعادت کیلئے صرف اسلام کے متین و جامع قوانین ، جن کا سرچشمہ منبع وحی ہے ، کو کافی سمجتھے ہیں _

وہ ایک روشن مستقبل کی پیشین گوئی کرتے ہیں _ جس زمانہ میں انسان حد کمال کو پہنچ جائے گا اور دنیا کی حکومت کی زمام ایسے معصوم امام کے ہاتھ میں ہوگی جو کہ غلطی و اشتباہ اور خود غرضی و خودخواہی سے پاک ہوگا _ کلی طور پر شیعہ امیدوار بنانے والے عطیات کے حال ہیں ، انہوں نے اس تاریک زمانہ میں بھی اپنے ذہن میں حکومت الہی کا نقشہ بنا رکھا ہے اور اس کے انتظار میں زندگی گزاررہے ہیں اور اس عالمی انقلاب کیلئے

۸

تیارہیں _

انتظار فرج اور ظہور میں تاخیر کی وجہ

شیعوں کے دشمن جن چیزوں پر اعتراض کرتے ہیں ان میں سے ایک مہدی موعود پر ایمان اور انتظار فرج ہے _ وہ کہتے ہیں کہ : شیعوں کی پسماندگی کا ایک سبب مصلح غیبی پر ایمان رکھنا ہے _ اس عقیدہ نے شیعوں کو بے پروا اور کاہل بنادیا ہے ، اجتماعی کوشش سے بازر کھا ہے اور ان سے علمی ترقیات و فکری اصلاحات کی صلاحیت سلب کرلی ہے _ چنانچہ وہ دوسروں کے مقابلہ میں ذلیل و رسوا ہیں اور اب اپنے امور کی اصلاح کیلئے امام مہدی کے ظہور کے منتظر ہیں

ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے کہ ہم شیعہ اور مسلمانوں کے انحطاط کے اسباب کی تحقیق کریں لیکن اجمالی طور پر یہ بات مسلّم ہے کہ اسلام کے احکام و عقائد مسلمانوں کے انحطاط و پستی کا باعث نہیں بنے ہیں بلکہ خارجی اسباب و علل نے دنیائے اسلام کو پستی میں ڈھکیلا ہے ، یہ بات یقین کے ساتھ کہی جا سکتی ہے کہ آسمانی مذاہب میں سے اسلام سے زیادہ کسی نے بھی ملت کی ترقی و عظمت اور اس کے اجتماعی امور کی تاکید نہیں کی ہے _ اسلام نے اپنے ماننے والوں کیلئے ظلم و فساد سے جنگ اور نہی عن المنکر کو لازمی قرار دیا ہے اور اجتماعی و سماجی اصلاحات ، عدل پرستی اور امر بالمعروف کو دین کے واجبات میں شامل کیا ہے _ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ یہ سارے مسلمانوں پر واجب ہیں تا کہ ایک گروہ خود آمادہ کرے _

''تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے کہ جو خبرکی دعوت دے ، نیکیوں کاحکم دے برائیوں سے منع کرے اور ایسے ہی لوگ

۹

نجات یافتہ ہیں ''_(۱)

بلکہ ان دو فریضوں کو مسلمانوں کے افتخارات میں شمار کرتا ہے اور فرماتا ہے :

'' تم دنیا میں بہترین امت ہو کیونکہ تم امربالمعروف اور نہی عن المنکر کرتے ہو''(۲)

پیغمبر (ص) مسلمانوں کے امور کی اصلاح کی کوشش کو اسلام کا رکن اور مسلمان ہونے کی علامت قراردیتے ہوئے فرماتے ہیں :'' جو بھی دنیائے اسلام کی طرف سے بے پروائی کرے ، کوشش نہ کرے ، اہمیت نہ دے ، وہ مسلمان نہیں ہے '' _

قرآن مجید دشمنوں کے مقابلہ میں مسلمانوں کو مسلح اور تیار رہنے کا حکم دیتا ہے : ''جہاں تک ہوسکے دشمنوں کے مقابلہ میں خود کو مسلح و آمادہ کرو اور انھیں دہشت زدہ کرنے کیلئے جنگی توانائی کو مضبوط بناؤ''(۳)

اب ہم آپ ہی سے پوچھتے ہیں : ان آیتوں اور اس سلسلے میں وارد ہونے والی سیکڑوں احادیث کے باوجود اسلام نے مسلمانوں سے یہ کب کہا ہے کہ وہ دنیا کی علمی ترقی و صنعت سے آنکھیں بند رکھیں اور اسلام کیلئے جو خطرات ہیں انھیں اہمیت نہ دیں اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر اسلام اور مسلمانوں کی حمایت کیلئے ظہور امام مہدی (ع) کے منتظر رہیں؟ اور دنیائے اسلام پر ہونے والے حملوں کے سلسلے میں خاموش رہیں اور ایک مختصر جملہ _ '' اے اللہ: ظہور مہدی میں تعجیل فرما'' کہکر میدان چھوڑدیں

ہم نے اپنی کتاب میں یہ بات تحریر کی ہے کہ انتظار فرج بجائے خود کامیابی کا راز ہے _ چنانچہ جب کسی قوم و ملت کے دل میں چراغ امید خاموش ہوجاتا ہے اور یاس

____________________

۱_ آل عمران / ۱۰۴

۲_ آل عمران /۱۱۰

۳_ انفال / ۶۰

۱۰

و ناامیدی کا دیواس کے خانہ دل میں جایگزیں ہوجاتا ہے توہ کبھی کامیابی و سعادت کا منھ نہیں دیکھ سکتی ہے جو لوگ اپنی کامیابی کے انتظار میں ہیں انھیں اپنے آخری سانس تک کوشاں رہنا چاہئے اور اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے راستہ ہموار کرنا چاہئے اور مقصد سے بہرہ مند ہونے کیلئے خود کو آمادہ کرنا چاہئے _

امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے کہ : '' ضرور آل محمد (ص) کی حکومت قائم ہوگی لہذا جو شخص امام زمانہ کے انصار میں شامل ہوناچاہتا ہے اسے بھر پور طریقہ سے متقی و پرہیزگار بننا اور نیک اخلاق سے آراستہ ہونا چاہئے اور اس کے بعد قائم آل محمد (ص) کے ظہور کا انتظار کرنا چاہئے _ جو بھی اس طرح ہمارے قائم کے ظہور کا انتظار کرے اور اس کی حیات میں مہدی (ع) کا ظہور نہ ہو بلکہ ظہور سے قبل ہی مرجائے تو اسے زمانہ کے انصار کے برابر اجر و ثواب ملے گا'' _ اس کے بعد آپ نے فرمایا:'' کوشش و جانفشانی سے کام لو اور کامیابی کے منتظر رہو ، اس معاشرہ کو کامیابی مبارک ہو جس پر خدا کی عنایات ہیں ''_(۱)

اسلام نے مسلمانوں کی تیاری کو بہت اہمیت دی ہے، اس کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ امام صادق نے فرمایا:'' ظہور قائم کے لئے تم خود کو تیار رکھو اگر چہ ایک تیر ہی ذخیرہ کرنے کے برابر ہو '' _(۲)

خدا نے مقرر کردیا کہ دنیا کے پراگندہ امور کی مسلمانوں کے ذریعہ اصلاح ہو اور ظلم و ستم کا جنازہ نکل جائے اور کفر و الحاد کی جڑیں کٹ جائیں ، پوری دنیا پر اسلام کا پرچم لہرائے کوئی سوجھ بوجھ رکھنے والا اس میں شک نہیں کرستا کہ ایسا

____________________

۱_ غیبت نعمانی ص ۱۰۶_

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۶۶_

۱۱

عالمی انقلاب مقدمات اور وسائل کی فراہمی کی بغیر ممکن نہیں ہے _

قرآن مجید نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ روئے زمین پرحکومت کیلئے شائستگی ضروری ہے _ خداوند عالم کا ارشاد ہے :'' ہم نے لکھدیا ہے کہ زمین کے وارث ہمارے صالح بندے ہوں گے ''(۱) مذکورہ مطالب کے پیش نظر کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ جس انقلاب کا علم بردار مسلمانوں کو ہونا چاہئے وہ اس کے مقدمات و اسباب فراہم نہ کریں اور اس سلسلے میں ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے ؟ میں نہیں سمجھتا ہوں کہ کوئی عقلمند اس بات کو تسلیم کرے گا _

ایک پیغام

غیرت دار مسلمانو غفلت کا زمانہ ختم ہوچکا ہے ، خواب غفلت سے اٹھو اختلافات سے چشم پوشی کرلو ، پرچم توحید کے نیچے جمع ہوجاؤ ، اپنی زمام مشرق و مغرب کے ہاتھ میں نہ دو ، ہرجگہ تہذیب و تمدن انسانیت کے طلایہ دار بن جاؤ_ اپنی عظمت و استقلال اور تہذیب و تمدن کے محل کو اسلام کے محکم پایوں پر استوار کرو _ روح قرآن سے الہام حاصل کرو ، اسلام کی عزّت و سربلندی کی راہ پر چل کھڑے ہو ، مشرق و مغرب کے غلط اورزہریلے افکار کو لگام چڑھادو بشری تمدن کے قافلے کی قیادت اپنے ہاتھوں میں لے لو ، اپنی عظمت و حریت حاصل کرو ، جہالت و نادانی اورفکری جمود و خرافات سے جنگ کرو _ جوانو اسلام کے حقائق سے واقفیت پیدا کرو تا کہ استعماری دیو تم سے مایوس ہوجائے اور تمہارے مرزوبوم (سرزمین) سے فرار کرجائے _

____________________

۱_ انبیائ/۱۰۵_

۱۲

پیارے مسلمانو عزت و اقتدار شائستہ اور صالح لوگوں سے مخصوص ہے ، تم نے اپنی شائستگی کو ثابت کردیا ہے _ قرآن کے اجتماعی ، اقتصادی اور اخلاقی علوم کے گراں بہا منابع کو حاصل کرو ، دنیا والوں کے سامنے اسلام کے تئیں اصلاحی پروگرام کو پیش کرو اور اپنے عمل سے یہ ثابت کردو کہ اسلام صرف عبادت گا ہوں میں گوشہ نشینی کی تلقین نہیں کرتا ہے بلکہ وہ بشر کی ترقی و سرفرازی کے اسباب فراہم کرتا ہے _ تم دنیا کے خیر اندیش افراد کی امید بندھا دو اور اس مقدس جہاد میں انھیں بھی مدد کرنے کی دعوت دو اور دنیائے انسانیت کے قافلہ تمدن و خیرخواہی کی قیادت کرو _

اے جوانان اسلام اس مقدس جہاد اور انسانیت کے عظیم مقصد و ذمہ داری کو پورا کرنے میں تمہارا بہت بڑا حصہ ہے _ تمہیں عظمت اسلام، مسلمانوں کی ترقی اور امام زمانہ (عج) کے مقصد کی تکمیل میں بھرپور طریقہ سے کوشش کرنا چاہئے _ تمہیں آفتاب عدالت حضرت مہدی (ع) کے اصحاب میں شامل ہونا چاہئے کہ جن کے بارے میں امیر المؤمنین(ع) فرمایا ہے:'' مہدی موعود کے سارے اصحاب وانصار جوان ہوں گے ، ان میں بوڑھے کمیاب ہوں گے '' _(۱)

و من اللہ التوفیق

ابراہیم امینی

حوزہ علمیہ قم _ ایران

فروردین ۱۳۷۴ (مارچ ۱۹۹۵ء)

____________________

۱بحارالانوارج۵۲ص۳۳۳

۱۳

بسم اللہ الرحمن الرحیم

میں نے ایک انٹر کالج میں منعقد ہونے والی محفل میں شرکت کی _ یہ باشکوہ محفل ۱۵ / شعبان کو امام زمانہ کی ولادت کے سلسلے میں منعقد ہوئی تھی _ بڑی ہی آراستہ و پیراستہ محفل تھی ، اس میں ہر طبقے کے لوگ شریک تھے جبکہ اکثریت تعلیم یافتہ اور جوانوں کی تھی ، اس کا نظم و نسق اس کالج کی انجمن اسلامی کے ہاتھ میں تھا_

پروگرام کا آغاز ایک کمسن بچے نے کلام پاک کی تلاوت سے کیا _ اس کے بعد دوسرا طالب علم نے امام زمانہ کے بارے میں اشعار پڑھے، پھر ایک طالب علم کالکھا ہوا بہت ہی دلچسپ مقالہ پڑھاگیا _ پروگرام کے اختتام پر مذکورہ کالج کے پرنسپل جناب ہوشیار صاحب نے امام زمانہ (ع) کے سلسلے میں بصیرت افروز تقریر کی _ اور بعد از آں شیرینی و غیرہ سے ضیافت کی گئی _ مذکورہ پروگرام سے سب ہی متاثر تھے لیکن میں اں سب سے زیادہ متاثر تھا _ میں آرائشے اور مہمان نوازی کے وسائل سے متاثر نہیں ہواتھا_ بلکہ میں ان جوانوں کی پاکیزہ روح سے متاثر ہوا تھا جو کہ دین و دانش کے جمع کرنے کے ساتھ حقائق و معارف کی اشاعت ، اور عمومی اذہان و افکار کوروشن کرنے میں بے پناہ کوشش کررہے تھے _ ملّت کے نونہالوں کی روح پاکیزگی ، بلند ہمتی اور صفائے قلب محفل کے درودیوارسے عیاں تھی وہ ذوق و شوق اور گرم جوشی سے شرکت کرنے والوں کا استقبال و مدارات کررہے تھے_

ان روشن فکر اور حوصلہ مند جوانوں نے مجھے مسلمانوں کے تابناک مستقبل کے بارے میں مطمئن کردیا _ میں نے ان کے دوش پر قوم کی تہذیب و ترقی کا پرچم دیکھا تو میری آنکھوں میں

۱۴

خوشی کے آنسو ڈبڈبانے لگے اور اس کالج کی انجمن اسلامی اور طلبہ کی کمیٹی اور ان کی بلند ہمتی کو میں نے دل کی گہرائی سے سراہا اور خداوند عالم سے ان کی کامیابی کیلئے دعا کی _

اسی اثناء میں انجینئر مدنی صاحب نے _ جو کہ جناب ہوشیار صاحب کے پاس بیٹھے تھے _ کہا:'' کیا آپ لوگ واقعاً امام غائب پر عقیدہ رکھتے ہیں؟ کیا آپ کے عقیدہ کی بنیاد تحقیق پر استوار ہیں یا تعصب کی بناپر اس سے دفاع کرتے ہیں؟

ہوشیار: میرا ایمان اندھی تقلید کی بناپر نہیں ہے _ میں نے تحقیق و مطالعہ کے بعد یہ عقیدہ قبول کیا ہے ، پھر بھی اس عقیدہ پر نظر ثانی اور تحقیق کیلئے تیارہوں _

انجینئر: چونکہ امام زمانہ (عج) کا موضوع میرے لئے بخوبی واضح نہیں ہے اور ابھی تک اس سلسلے میں ، میں خود کو مطمئن نہیں کر سکا ہوں، اس لئے آپ سے بحث و تبادلہ خیال کے ذریعہ آپ کے مطالعہ سے مستفید ہونا چاہتاہوں _

ڈاکٹر امامی اور فہیمی : اگر ایسی کوئی نشست کا اہتمام ہوا تو ہم بھی اس میں شرکت کریں گے _

ہوشیار: جو وقت بھی آپ لوگ مقرر کریں میں حاضر ہوں _

آخر کار مناظرہ کے لئے ہفتہ کی شب کا تعین ہوااور اسی پر جشن ختم ہوگیا ، ہفتہ کی شب میں انجینئر صاحب کے گھر پر مجلس مناظرہ منعفد ہوئی رسمی چائے و غیرہ کے بعد ۸ بجے مناظرہ کی کاروائی شروع کرنے کا اعلان ہوا _

۱۵

عقیدہ مہدویت کا آغاز

ڈاکٹر: اسلامی معاشرہ میں عقیدہ مہدی کب داخل ہوا؟ کیا پیغمبراسلام کے زمانہ میں بھی اس کا تذکرہ ملتا ہے یا اس عقیدہ نے آپکی رحلت کے بعد مسلمانوں کے درمیان شہرت پائی ہے ؟ بعض صاحبان قلم نے لکھا ہے کہ : صدر اسلام میں اس عقیدہ کا کہیں نام و نشان نہیں تھا _

ایک جماعت محمد بن حنفیہ کو مہدی کہتی ہے اور ان کے ذریعہ اسلام کے ارتقاء کی خوش خبری سنائی اور جب ان کاانتقال ہوگیا تو کہا: وہ مرے نہیں ہیں بلکہ رضوی نامی پہاڑ میں چلے گئے اور ایک دن ظہور کریں گے _

ہوشیار: عقیدہ مہدی صدر اسلام ہی سے مسلمانوں کے درمیان مشہور تھا اور پیغمبر اسلام (ص) نے ایک بار نہیں بلکہ بار بار مہدی کے وجود کی خبر دی اور کبھی تو امام مہدی کی حکومت اور ان کے اسم و کنیت کو بھی بیان کرتے تھے _

اس سلسلے میں آپ (ص) نے جو احادیث بیان فرمائی ہیں وہ شیعہ و سنی طریقوں سے ہم تک پہنچی ہیں ، اور توا تر کی حد کو پہنچی ہوئی ہیں ، ان میں سے چند نمونے کے طور پر آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں :

عبداللہ بن مسعود نے پیغمبر اکرم (ص) سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: '' اس وقت تک دنیا کا خاتمہ نہ ہوگا جب تک میرے اہل بیت سے مہدی نام کا ایک شخص لوگوں

۱۶

پر حکومت نہیں کرے گا ''_(۱)

ابوالجحاف نے بیان کیا ہے کہ رسول خدا نے تین مرتبہ فرمایا: '' میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں _ جب لوگوں میں شدید اختلاف ہوگا اور سخت مشکلوں میں گھرے ہوں گے اور زمین ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی اس وقت ظہور کریں گے اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کریں گے اور اپنے پیروکاروں کے دلوں کو عبادت اور عدل گستری کے جذبہ سے بھردیں گے '' ( ۲)_

آپ (ص) ہی کا ارشاد ہے :'' اس وقت تک قیامت بر پا نہ ہوگی جب تک ہمارا برحق قائم قیام نہ کرے گا _ جب خدا حکم دے گا تو ظہور کرے گا _ جو شخص ان کی پیروی کرے گا ، نجات پائے گا اور جوروگردانی کرے گا ، وہ ہلاک ہوجائے گا _ خدا کے بندو خدا پر نظر رکھوجب بھی مہدی (عج) کا ظہور ہو تو فوراً ان کی طرف دوڑو اگر تمہیں برف کے اوپر ہی سے چل کرجانا پڑے کیونکہ وہ خلیفة اللہ ہیں ''(۳)

آپ (ص) ہی نے فرمایاہے :'' جو میرے بیٹے قائم کا انکار کرے گویا اس نے میرا انکار کیا ہے ''(۴) نیز فرمایا :'' دنیا اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حسین (ع) کی اولاد میں سے ایک شخص میری امت کا حاکم نہ ہوگا جو کہ دنیا کو اس طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسے وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی''(۵)

____________________

۱_ بحار الانوار طبع اسلامیہ سنہ ۱۳۸۴ ھ ج ۵۱ ص ۷۵ _ اثبات الہداة ط ۱ ج ۷ ص ۹ _

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۷۴_

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۶۵ و اثبات الہداة ج ۶ ص ۲۸۲_

۴_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۷۳_

۵_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۶۶_

۱۷

مہدی (ص) عترت نبی (ص) سے ہیں

ایسی احادیث بہت زیادہ ہیں بلکہ ان میں سے اکثر سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ حضرت امام مہدی اور قائم کا موضوع زمانہ رسول (ص) میں ایک مسلم عقیدہ تھا اور آپ (ص) مسلمانوں کے سامنے کسی نئی خبر کے عنوان سے پیش نہیں کرتے تھے بلکہ ان کے آثار و علامتیںبیان کرتے تھے اور فرماتے تھے:'' مہدی اور قائم میری عترت سے ہوگا '' _

حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں :'' میں نے رسول (ص) خدا کی خدمت میں عرض کی : کیا مہدی موعود ہم میں سے ہوگا یا ہمارے غیرمیں سے ؟ فرمایا : ہم میں سے ہوگا _ ان ہی کے ذریعہ خدا دین کو تمام کرے گا جیسا کہ اس کی ابتداء میرے ہاتھ سے ہوئی ہے ، اور ہمارے ذریعہ لوگ فتنوں سے نجات پائیں گے جیسا کہ ہمارے ہی وسیلہ سے شرک سے نجات پائی ہے ہمارے طفیل میں خدا انکے دلوں سے پرانی کدور تین ختم کرے گا جیسا کہ اس نے شرک و بت پرستی کے زمانہ کی دشمنی کے بعد دین میں انھیں باہم مہربان بنادیا ہے اور وہ ایک دوسرے کے بھائی بن گئی ہیں '' _(۱)

ابو سعید خدری کہتے ہیں :'' میں نے سنا کہ رسول(ص) نے بالائے منبر سے فرمایا : مہدی موعود میرے اہل بیت سے ہوگا ، آخری زمانہ میں ظہور کرے گا ، آسمان ان کے لئے بارش برسائے گا اور زمین سبزہ اگائے گی ، وہ زمین کو ایسے ہی عدل و انصاف سے پرکریں گے جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی''_(۲)

ام سلمہ کہتی ہیں کہ میں نے رسول (ص) خدا سے سنا کہ آپ (ص) نے فرمایا: '' مہدی میری عترت اور

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۸۴و اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۹۱ و مجمع الزوائد تالیف علی بن ابی بکر ہیثمی ط قاہرہ ج ۷ ص ۱۳۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۷۴و اثبات الہداة ج ۷ ص ۹_

۱۸

اولاد فاطمہ (ع) سے ہوگا ''_ (۱)

رسول خدا (ص) نے فرمایا :'' قائم میری ذریت سے ہوگا، اس کا نام میرا نام ، اس کی کنیت میری کنیت اور اس کی عادت میری عادت ہے _ وہ لوگوں کو میرے دین و مذہب اور کتاب خدا کی طرف بلائے گا_ جس نے اس کی اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے اس کی نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی_ جس نے س کی غیبت کے زمانہ میں اس کا انکار کیا اس نے میرا انکار کیا جس نے اس کی تکذیت کی اس نے میرے تکذیب کی ، جس نے اس کی تصدیق کی اس نے میری تصدیق کی _ او رمیں اسکی تکذیب کرنے والے اور اس کے بارے میں اپنی حدیث کے انکار کرنے والے اور امت کو گمراہ کرنے والے کی خدا سے شکایت کروں گا _ ظالم عنقریب اپنے لئے کا نتیجہ دیکھ لیں گے ''(۲)

ابو ایوب انصاری کہتے ہیں کہ میں نے رسول (ص) خدا کو فرماتے ہوئے سنا کہ آپ (ع) نے فرمایا : '' میں پیغمبروں کا سردار ہوں اور علی (ع) اوصیاء کے سردار ہیں اور میرے دو بیٹے بہترین بیٹے ہیں _ ہمارے معصوم ائمہ حسین (ع) کی اولاد سے ہوں گے اور اس امت کا مہدی ہم میں سے ہوگا'' یہ سن کر ایک صحرا نشین شخص اٹھا اور عرض کی :'' اے اللہ کے رسول (ص) آپ (ع) کے بعد کتنے امام ہوں گے ؟ فرمایا: ''جتنے عیسی کے حواری ، بنی اسرائیل کے نقباء اور اسباط تھے''(۳)

حذیفہ نے روایت کی ہے کہ رسول (ص) خدا نے فرمایا :'' میرے بعد اتنے ہی امام ہوں گے جتنے بنی اسرائیل کے نقباء تھے_ ان میں سے نو حسین کی نسل سے ہوں گے او راس امت کا مہدی ہم میں سے ہوگا _ آگاہ ہوجاؤ وہ حق کے ساتھ ہیں اور حق ان کے ساتھ ہے _ دیکھو

____________________

۱_ بحار ج ۵۱ ص ۷۵_

۲_ بحار ج ۵۱ ص ۷۳_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۵۱_

۱۹

میرے بعد ان کے ساتھ کیسا سلوک کروگے ''_ (۱)

سعید بن مسیب نے عمر اور عثمان بن عفان سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:'' ہم نے رسول (ص) خدا سے سنا ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہوں گے _ ان میں سے نو حسین (ع) کی اولاد میں سے ہوں گے اور اس امت کا مہدی ہم میں سے ہوگا _ میرے بعد جو بھی ان سے تمسک کرے وہ یقینا خدا کی مضبوط رسی کو تھام لے گا او رجو انھیں چھوڑ دے گا وہ خدا کو چھوڑ دے گا ''_(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۳۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۵۲۶_

۲۰