آفتاب عدالت

آفتاب عدالت8%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181845 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اور درونی جذبات عقل عملی سے حقیقت کی تشخیص صلاحیت اور انسانیت کے سیدھے راستہ کو چھپادیتے ہیں اور اسے بدبختی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں _

کونسا قانون انسان کی کامیابی کا ضامن ہے ؟

چونکہ انسان اجتماعی زندگی گزار نے کیلئے مجبور ہے اور منافع میں اپنے بھائیوں سے مزاحمت بھی اجتماعی زندگی کالازمہ ہے لہذا انسانوں کے درمیان قانوں کی حکومت ہونا چاہئے تا کہ اختلاف و پراکندگی کا سد باب ہوجائے _ قانوں بھی معاشرہ کو اسی صورت میں چلا سکتا ہے کہ جب درج ذیل شرائط کا حامل ہوگا _

۱_ قوانین جامع و کامل ہوں تا کہ تمام اجتماعی و انفرادی امور میں ان کا نفوذ اور دخل ہو _ ان میں تمام حالات اور ضرورتوں کی رعایت کی گئی ہو ، کسی موضوع سے غفلت نہ کی گئی ہو ایسے قوانین کو معاشرہ کے افراد کی حقیقی اور طبیعی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہئے _

۲_ قوانین حقیقی کامیابی و کمالات کی طرف انسان کی راہنمائی کرتے ہوں ، خیالی کامیابی و کمالات کی طرف نہیں _

۳_ ان قوانین میں عالم بشریت کی سعادت و کامیابی کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور مخصوص افراد کے مفاد کو پور ا نہ کرتے ہوں _

۴_ وہ معاشرے کو انسانی کمالات و فضائل کے پایوں پر استوار کرتے ہوں اور اس کے اعلی مقصد کی طرف راہنمائی کرتے ہوں یعنی اس معاشرے کے افراد دنیوی زندگی کو انسانی فضائل و کمالات کا ذریعہ سمجھتے ہوں اور اسے ( دنیوی زندگی کو) مستقل ٹھکانا خیال نہ کرتے ہوں_

۸۱

۵_ وہ قوانین ظلم و تعدی اور ہرج و مرج کو رد کرکے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور تمام افراد کے حقوق کو پورا کرتے ہوں _

۶_ ان قوانین کی ترتیب و تدوین میں روح اور معنوی زندگی کے پہلوؤں کی بھی مکمل طور پر رعایت کی گئی ہو یعنی ان میں سے کوئی قانون بھی نفس اور روح کیلئے ضرر رساں نہ ہو اور انسان کو سیدھے راستہ سے منحرف نہ کرتا ہو _

۷_ معاشرے کو انسانیت کے سیدھے راستہ سے منحرف کرنے اور ہلاکت کے غار میں ڈھکیل دینے والے عوامل سے پاک و صاف کرتا ہو _

۸_ ان قوانین کا بنانے والا تزاہم ( ٹکراؤ) مصلحت اور مفاسد کو بھی اچھی طرح جانتا ہو _ زمان و مکان کے اقتضا سے واقف ہو _

انسان یقینا ایسے قوانین کا محتاج ہے اور یہ اس کی زندگی کے ضروریات میں شمار ہوتے ہیں اور قانون کے بغیر انسانیت تباہ ہے _ لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا بشر کے بنائے ہوئے قوانین اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں ؟

ہمار ا عقیدہ ہے کوتاہ فکر اور کوتاہ اندیش افراد گا بنایا ہوا قانون ناقص اور معاشرہ کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہے _ دلیل کے طور پر چند موضوعات پیش کئے جا سکتے ہیں _

۱_ انسان کے علم و اطلاع کا دائرہ محدود ہے _ عام آدمی مختلف انسانوں کی ضروریات خلقت کے رموز و اسرار خیر و شر کے پہلوؤں ، زمان و مکان کے اقتضاء کے اعتبار سے فعل و انفعالات ، تاثیر وتاثر اور قوانین کے تزاحم سے مکمل طور پر واقف

۸۲

نہیں ہے _

۲_ اگر بفرض محال قانون بنانے والے انسان ایسے جامع قانون بنانے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو بھی وہ دنیوی زندگی اور معنوی حیات کے عمیق ارتباط اور ظاہر حرکات کے نفس پر ہونے والے اثرات سے بے خبر ہیں اور کچھ آگہی رکھتے ہیں تو وہ ناقص ہے اصولی طور پر معنوی زندگی ، ان کے پروگرام سے ہی خارج ہے _ وہ بشریت کی خوش بختی اور سعادت مندی کو مادی امور میں محدود سمجھتے ہیں جبکہ ان دونوں زندگیوں میں گہرا ربط ہے اور جدائی ممکن نہیں ہے _

۲_ چونکہ انسان خودخواہ ہے لہذا دوسرے انسانوں کا استحصال طبیعی ہے چنانچہ نوع انسان کا ہر فرد اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر ترجیح دیتا ہے _ پس اختلاف اور استحصال کا سد باب کرنا اس کی صلاحیت سے باہر ہے ، کیونکہ قانون بنانے والے انسان کو اس کی خواہش ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے اور اپنے عزیزوں کے منافع و مفاد سے چشم پوشی کرکے لوگوں کی مصلحت کو مد نظر رکھے _

۴_ قانون بنانے والا انسان ہمیشہ اپنی کوتاہ نظری کے اعتبار سے قانون بناتا ہے اور انھیں اپنے کوتاہ افکار ، تعصبات اور عادتوں کے غالب میں ڈھالتاہے ، لہذا چند افراد کے منافع اور مفاد کے لئے قانون بتاتا ہے اور قانون بناتے وقت دوسروں کے نفع و ضرر کو ملحوظ نہیں رکھتا _ ایسے قوانین میں عام انسانوں کی سعادت کو مد نظر نہیں رکھا جاتا _ صرف خدا کے قوانین ایسے ہیں جو کہ انسان کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق اور خلقت کے رموز کے مطابق نبے ہیں ، ان میں ذاتی اغراض و مفاد او رکجی نہیں ہے اور ان میں عالم بشریت کی سعادت کو مد نظر نظر رکھا گیا ہے _ واضح ہے کہ انسان قانون الہی کا محتاج ہے

۸۳

اور خدا کے الطاف کا اقتضا یہ ہے کہ وہ مکمل پروگرام بنا کر اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بندوں تک پہنچائے _

سعادت اخروی

جس وقت انسان دن رات اپنی دنیوی زندگی میں سرگرم ہوتا ہے اسی وقت اس کے باطن میں بھی ایک سربستہ زندگی موجود ہوتی ہے _ ممکن ہے وہ اس کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو اور مکمل طور پر اسے فراموش کرچکا ہو _ اس مجہول زندگی کی بھی سعادت و شقاوت ہوتی ہے _ بر حق عقائد و افکار ، پسندیدہ اخلاق اور شائستہ اعمال روحانی ترقی او رکمال کا باعث ہوتے ہیں اور اسے سعادت و کمال کی منزل تک پہنچاتے ہیں جیسا کہ باطل عقائد ، برے اخلاق اور ناروا حرکتیں بھی نفس کی شقاوت و بدبختی کا سبب قرار پاتی ہیں _ اگر انسان ارتقاء کے سیدھے راستہ پر گامزن ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کے جوہر اور حقیقت کی پرورش کرتا اور اسے ترقی دیتا ، اپنے اصلی مرکز عالم نورانیت کی طرف پرواز کرتا ہے اور اگر روحانی کمالات اور پسندیدہ اخلاق کو اپنی حیوانی قوت و عادت اور خواہش نفس پر قربان کردیتا ہے اور ایک درندہ و ہوس راں دیوبن جاتاہے تو وہ ارتقاء کے سیدھے راستہ سے منحرف ہوجائے گا اور تباہی و بدبختی کے بیابان میں بھٹکتا پھرے گا _ پس معنوی حیات کے لئے بھی انسان ایک مکمل پروگرام اور معصوم راہنما کامحتاج ہے _ کسی کی مدد کے بغیر اس خطرناک راستہ کو طے نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اس کی عقل کواکثر صحیح فیصلہ کرنے اور حقیقت بینی سے باز رکھتی ہیں اور اسے ہلاکت کی طرف لے جاتی ہیں ، وہ اچھے کہ برا اور برے کو اچھا کرکے دکھاتی ہیں _

۸۴

صرف خالق کائنیات انسان کے حقیقی کمالات ، واقعی نیک بختی اور اس کے اچھے برے سے واقف ہے اور وہی اس کی نفس کی سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی کے عوامل سے بچانے کامکمل دستور العمل انسان کے اختیا رمیں دے سکتا ہے _ پس اخروی سعادت تک پہنچنے کے لئے بھی انسان خالق کائنات کا محتاج ہے _

اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ خدائے حکیم نے انسان کو ، جو کہ سعادت و بدبختی دونوں کی صلاحیت رکھتا ہے ، ہرگز خواہشات نفس اور حیوانی طاقت کا مطیع نہیں بنایا ہے اور جہالت و نادانی کے بیابان میں سرگرداں نہیںچھوڑا ہے _ بلکہ اس کے بے شمار الطاف کا اقتضا تھا کہ وہ اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعہ ایسے احکام ، قوانین اور مکمل دستور العمل جو کہ دنیوی و اخروی سعادت و کامیابی کا ضامن ہو ، انسانوں تک پہنچائے اور سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی سے انھیں آگاہ کرے تا کہ ان پر حجّت تمام ہوجائے اور مقصد تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہوجائے _

ترقی کا راستہ

انسان کی ترقی اور خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ، برحق عقائد ، اعمال صالح اور نیک اخلاق ہیں کہ جنھیں خدا نے انبیاء کے پاکیزہ قلوب پرنانزل کیا ہے تاکہ وہ انھیں لوگوں تک پہنچادیں لیکن یادرہے یہ راستہ کوئی وقتی اور تشریفاتی نہیں ہے کہ جس کا مقصد سے کوئی ربط نہ ہو بلکہ یہ حقیقی اور واقعی راستہ ہے کہ جس کا سرچشمہ عالم ربوبیت ہے جو بھی اس پر گامزن ہوتا ہے _ وہی اپنے باطن میں سیر ارتقاء کرتا ہے اور بہشت رضوان کی طرف پرواز کرتا ہے _

۸۵

بعبارت دیگر : دین حق ایک سیدھا راستہ ہے ، جو بھی اسے اختیار کرتا ہے اسکی انسانیت کامل ہوتی ہے اور وہ انسانیت کے سیدھے راستہ سے سرچشمہ کمالات کی طرف چلا جاتا ہے جو دیانت کے سیدھے راستے سے منحرف ہوجاتا ہے وہ مجبوراً انسانیت کے فضائل کی راہ کو گم کرکے حیوانیت کے کج راستہ پر لگ جاتا ہے _ حیوانیت و درندگی کے صفات کی تقویت کرتا اور راہ انسانیت کو طے کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے ایسے شخص کی زندگی دشوار ہوجاتی اور جہنم اس کی تقدیر بن جاتاہے _

عصمت انبیائ

خداوند عالم کے لطف کا اقتضا یہ ہے کہ لوگوں تک احکام اور ضروری قوانین پہچانے کے لئے انبیاء کو مبعوث کرے تا کہ وہ مقصد تخلیق کی طرف ان کی راہنمائی کریں _ خدا کا یہ مقصد اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے کہ جب اس کے احکام بغیر کسی تحریف _ بغیر کمی بیشی_ کے لوگوں تک پہنچ جائیں اور ان کا عذر بھی ختم ہوجائے _ اس لئے پیغمبر خطا و نسیان سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں یعنی خدا سے احکام لینے ، ان کا یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے محفوظ ہوتے ہیں _ اس کے علاوہ ان احکام پر انبیاء کو خود بھی عمل کرنا چاہئے تا کہ ان کے قول و عمل میں تضاد نہ ہو اور قول و عمل کے ذریعہ لوگوں کو حقیقی کمالات کی طرف دعوت دیں کہ ان کے پاس کو ئی عذر و بہانہ باقی نہ رہے اور راہ حق کی تشخیص میں ادھر ادھر نہ بھٹکین اور پھر پیغمبر ہی احکام خدا کا اتباع نہیں کریں گے تو ان کی تبلیغ کا بھی کوئی اثر نہ ہوگا ، لوگان پر اعتماد نہیں کریں گے ، کیونکہ وہ اپنی بات کے خلاف عمل کرتے ہیں اور اپنے عمل سے لوگوں کو احکام کے خلاف عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں

۸۶

اور یہ بات تو واضح ہے کہ عملی تبلیغ اگر قولی تبلیغ کے برابر نہیں تو کم بھی نہیں ہے _

ہمارے علوم و مدرکات خطا سے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ وہ حواس اور قوائے مدرکہ کے ذریعہ حاصل حاصل ہوتے ہیں اور حواس سے سرزد ہونے والی غلطی و خطا سب پر عیاں ہے _ لیکن لوگوں کی ہدایت کیلئے جو علوم و احکام خدا کی طرف سے وحی کے ذریعہ انبیاء پر نازل ہوتے ہیں _ ان کی یہ کیفیت نہیں ہے ، انھیں انبیاء نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ حاصل نہیں کیا ہے ورنہ ان کی معلومات میں خطاکار واقع ہونا ضروری ہوتا اور اس طرح لوگوں تک حقیقی احکام نہیں پہنچ سکتے تھے _ بلکہ ان کے علوم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عالم غیب سے ان کے قلب پر نازل ہوتے ہیں ، ان حقائق کو وہ علم حضوری کی صورت میں مشاہدہ کرتے ہیں اور جن چیزوں کا وہ دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں وہ ان پر عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں اور وہ انھیں لوگوں کے اختیار میں دیتے ہیں ، چونکہ انبیاء ان حقائق کا ادراک کرتے ہیں اسلئے ان کے سمجھنے اور یادر کھنے میں کوئی خطا واقع نہیں ہوتی _

اسی لئے وہ ان احکا م کی مخالفت اور عصیان سے بھی معصوم و محفوظ ہوتے ہیں ، اپنے علم پر عمل کرتے ہیں کیونکہ جو شخص عین حقائق اور اپنے کمالات و سعادت کا مشاہدہ کرتا ہے وہ یقین کے ساتھ اپنے مشاہدات پر عمل کرتا ہے اور ایسا انسان اپنے کمال کو نہیں گنواتا ہے _

امامت پر عقلی دلیل

نبوّت عامہ کی دلیل کی وضاحت کے بعد آپ اس بات کی ضرور تصدیق کریں گے کہ اسی برہان کا اقتضا یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر نہ ہو تو اس وقت کسی انسان کو نبی کا جانشین اور احکام خدا کا خزینہ دار ہونا چاہئے کہ جو احکام کی حفاظت اور ان کی تبلیغ

۸۷

میں کوشاں رہے _ کیونکہ انبیاء کی بعثت اور لوگوں تک احکام بھیجنے میں جو خدا کا مقصد ہے وہ اسی وقت پورا ہوگا اور اس کے الطاف کمال کوپہنچیں گے اور اس کے بندوں پرحجت تمام ہوگی جب اس کے تمام قوانین و احکام لوگوں میں بغیر کسی تحریف کے محفوظ رہیں گے _ پس پیغمبر کی عدم موجودگی میں لطف خدا کا اقتضاء یہ ہے کہ انسانوں میں کسی کو ان احکام کی حفاظت و نگہداری کا ذمہ داربنائے _

اس منتخب شخص کو بھی احکام لینے ، یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے معصوم ہونا چاہئے تا کہ خدا کا مقصد پورا ہوجائے اور اس کے بندوں پر اسکی حجت تمام ہوجائے _ احکام دین کو اس میں جلوہ گر ہونا چاہئے ، خود ان پر عمل پیرا ہونا چاہئے تا کہ دوسرے اپنے اعمال و اخلاق اور اقوال کی اس کے اعمال سے مطابقت کریں _ اس کا اتباع کریں ، اور راہ حقیقت کو تلاش کرنے میں کسی شک و تردد میں مبتلا نہ ہوں اور ہرطریقہ سے حجت تمام ہوجائے _ چونکہ وہ اس اہم ذمہ داری کے قبول کرنے میں خطا و اشتباہ سے معصوم ہے _ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ علوم کسب نہیں کئے ہیں اورلوگوں کے علوم سے بہت زیادہ مختلف ہیں ،بلکہ پیغمبر کی ہدایت سے اس کی چشم بصیرت چمک اٹھتی ہیں وہ دل کی آنکھوں سے انسانیت کے حقائق و کمالات کو مشاہدہ کرتا ہے اس لئے وہ بھی خطا سے محفوظ و معصوم ہے اور یہی حقائق و کمالات کا مشاہدہ ان کی عصمت کی علت ہے اور اپنے علوم و مشاہدات کے مطابق عمل کرنے کا باعث ہے اور علم و عمل کے ذریعہ لوگوں کا امام بنتا ہے _

بہ عبارت دیگر : نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے انسان کامل کا وجود ضروری ہے کہ جو خدا کے برحق عقائد کا معتقد اورانسانیت کے نیک اخلاق و صفات پر عمل پیراہو

۸۸

اور احکام دین پر عمل کرتاہو اور سب کو اچھی طرح جانتا ہو ، ان مراحل میں خطا و عصیان سے معصوم ہو ، علم و عمل کے ذریعہ تمام انسانی کمالات اس میں وجود پذیر ہوگئے ہوں اور وہ لوگوں کا امام ہو ں جس زمانہ میں ایسا شخص موجود نہ ہوگا اس زمانہ میں خدا کے وہ احکام ، جو کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوئے ہیں ، ختم ہوجائیں گے اور حق تعالی کے فیوض و غیبی امداد کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اور عالم ربوبیت و عالم انسانی میں کوئی رابطہ برقرار نہ رہے گا ں

بہ عبارت دیگر: نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے شخص کو موجود ہونا چاہئے جو کہ مستقل ، خدا کی تائید و ہدایت اور فیضان کا مرکز ہو اور وہ معنوی فیوض ، باطنی مدد کے ذریعہ ہر انسان کو اس کی استعداد کے مطابق مطلوبہ کمال تک پہنچائے اور احکام الہی کا خزینہ دار ہوتا کہ ضرورت کے وقت مانع نہ ہونے کی صورت میں لوگ اس کے علوم سے مستفید ہوں _ امام حجّت حق ، نمونہ دین اور انسان کامل ہے جو بشر کی توانائی کی حد تک خدائی معرفت رکھتا اور اس کی عبادت کرتا ہے _ اگر اس کا وجود نہ ہوگا تو خدا کی کامل معرفت اور عبادت نہ ہوگی _ امام کا قلب خدا کے علوم کا خزینہ دار اور اسرار الہی کا مخزن ہے ایک آئینہ کی مانند ہے کہ جس میں عالم ہستی کے حقائق جلوہ گر ہوتے ہیں تا کہ دوسرے ان حقائق کے انعکاس سے مستفید ہوں _

جلالی: دین کے احکام و قوانین کا طریقہ اسی میں منحصر نہیں ہے کہ ایک شخص ان سب کو جانتا ہو اور ان پر عمل کرتا ہو ، بلکہ اگر دین کے تمام احکام و قوانین کو مختلف لوگوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان میں سے ایک جماعت بعض احکام کا علم حاصل کرکے ان پر عمل پیرا ہو تو اس صورت میں بھی ، علم و عمل کے اعتبار سے دین کے تمام احکام لوگوں کے درمیان محفوظ رہیں گے _

۸۹

ہوشیار: آپ کا فریضہ دو اعتبار سے غلط ہے:

اول: گزشتہ بحثوں میں یہ بات کہی جا چکی ہے کہ نوع انسان کے درمیان ایک ممتاز انسان کو موجود ہونا چاہئے کہ جس میں انسانیت کے تمام ممکنہ کمالات جمع ہوں اور وہ دین کے سیدھے راستہ پرقائم ہو اور تعلیم و تربیت میں خدا کے علاوہ کسی کا محتاج نہ ہو _ اگرایسا کامل انسان لوگوں کے درمیان نہ رہے تو انسانیت کی کوئی غایت نہ ہوگی اور غایت کے بغیر نوع کا بتاہ ہونا یقینی ہے جبکہ آپ کے فرضیہ میں ایسا کامل انسان نہیں ہے کیونکہ ان اشخاص میں اگر چہ ایک بہت سے احکام کو جانتا اورا ن پر عمل کرتا ہے لیکن دین کے سیدھے راستہ پر ان میں سے کوئی بھی واقع نہیں ہوا ہے بلکہ سب جادہ حقیقت سے منحرف ہیں کیونکہ صراط مستقیم اور دین کے احکام کے درمیان ایک مضبوط و عمیق رابطہ برقرار ہے کہ جس کو منقطع کرنا ممکن نہیں ہے _

دوسرے : جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ جو قوانین خدا کی طرف سے انسان کی ہدایت کیلئے نازل ہوئے ہیں انھیں ہمیشہ ان کے درمیان محفوظ رہنا چاہئے یعنی ان میں :سی قسم کی تحریف ممکن نہ ہو اور تغیر و تبدل کے ہر خطرہ سے محفوظ ہوں تا کہ لوگ ان کے صحیح ہونے کو پورے اعتماد سے تسلیم کرلیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کا محافظ و خزینہ دار معصوم اور خطا و نسیان اور معصیت سے محفوظ ہو _ جبکہ آپ کے دونوں مفروضوں میں یہ چیز نہیں ہے کیونکہ خطا و نسیان اور معصیت ہر فرد سے سرزد ہوسکتی ہے _ نتیجہ میں خداوند عالم کے احکام تغیر و تبدل سے محفوظ نہیں ہیں اور خدا کی حجت تمام نہیں ہے اور بندوں کا عذر اپنی جگہ باقی ہے _

امامت حدیث کی نظر میں

ہوشیار: امامت سے متعلق جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ سب اہل بیت کی

۹۰

روایات میں موجود ہیں ، اگر تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو احادیث کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _ ان میں سے چند یہ ہیں:

ابوحمزہ کہتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کیا امام کے وجود کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: اگر زمین پر امام کا وجود نہ ہوگا تو دھنس جائے گی _(۱)

و شاء کہتے ہیں : میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : اما م کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: نہیں _ عرض کی : ہم تک روایت پہنچی ہے کہ زمین حجت خدا ، امام کے وجود سے اس وقت خالی ہوتی ہے جب خدا اپنے بندوں پر غضبناک ہوتا ہے _ امام رضا (ع) نے فرمایا کہ : زمین وجود امام سے خالی نہ ہوگی ورنہ دھنس جائے گی _(۲)

ابن طیا رکہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا : اگر زمین پر صرف دو انسان ہوں گے تو بھی ان میں سے ایک امام ہوگا _(۳)

حضرت ابوجعفر (ع) فرماتے ہیں : خدا کی قسم حضرت آدم (ع) کے انتقال کے وقت سے اس وقت تک خدا نے زمین کو اس امام کے وجود سے خالی نہ رکھا ہے جس سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور وہی لوگوں پر خدا کی حجت ہے _ زمین کبھی امام کے وجود سے خالی نہیں رہتی کیونکہ وہ بندوں پرخدا کی حجت ہے _(۴)

____________________

۱_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۲۴_

۲_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۴_

۳_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۵_

۴_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۳_

۹۱

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے : خدا نے ہمیں بہترین طریقہ سے خلق فرمایا ہے اور زمین و آسمان میں اپنے علم کاخزینہ دار قراردیا ہے ، درخت ہم سے ہم کلام ہوتے ہیں اور ہماری عبادت سے خدا کی عبادت ہوتی ہے اگر ہم نہ ہوتے تو خدا کی عبادت نہ ہوتی _(۱)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے : اوصیاء خدا علوم کے دروازے ہیں _ ان ہی کے ذریعہ دین میں داخل ہونا چاہئے اگر وہ نہ ہوتے تو خدا نہ پہچانا جاتا اور خدا ان کے وجود سے اپنے بندوں پر حجت قائم کرتا ہے _(۲)

ابوخالد کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق (ع) سے آیت فآمنوا باللہ و رسولہ و النّور الذی انزلنا _ کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا : اے ابوخالد خداکی قسم نور سے مراد ائمہ ہیں، اے ابوخالد نور امام سے مومنوں کے دل سورج سے زیادہ روشن ہوتے ہیں _ وہی مومنوں کے دلوں کو نورانی بنانتے ہیں _ خدا جس سے چاہتا ہے ان کے نور کو پوشیدہ رکھتا ہے اور اس کا قلب تاریک ہوجاتا ہے _(۳)

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں : جب خد اکسی کو اپنے بندوں کے امور کے لئے منتخب کرتا ہے تو اسے سعہ صدر عطا کرتا ہے ، اس کے قلب کو علم و حکمت کا اور حقائق کاسرچشمہ قرار دیتا ہے اور ہمیشہ اپنے علوم کا الہام کرتا ہے اس کے بعد وہ کسی جواب سے عاجز نہیں ہوتا ہے اور صحیح راہنمائی اور حقائق کو بیان کرنے میں گمراہ نہیں ہوتا ، خطا سے معصوم ہے

____________________

۱_ اصول کافی جلد۱ ص ۳۶۸_

۲_ اصول کافی جلد ۱ص ۳۶۹_

۳_ اصول کافی جلد ۱ ص ۳۷۲_

۹۲

خدا کی توفیقات و تائیدات ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہیں ، خطا و لغزش سے محفوظ رہتا ہے _ اس لئے خدا نہ اسے متخب کیا ہے تا کہ اس کے بندوں پر حجت و گواہ ہوجاے _ یہ خدا کی بخشش ہے ،جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے _ بے شک خدا بہت بڑا فضل کرنے والا ہے _(۱)

پیغمبر فرماتے ہیں: ستارے آسمان والوں کے لئے باعث امان ہیں _ ان کے تباہ ہونے سے آسمان والے بھی تباہ ہوجائیں گے اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے باعث امان ہیں اگر میرے اہل بیت نہ رہیں گے تو زمین والے ہلاک ہوجائیں گے _(۲)

حضرت علی بن ابی طالب کا ارشاد ہے : زمین خدا کیلئے قیام کرنے والے قائم اور حجت خدا سے خالی نہیں رہتی ، وہ کبھی ظاہر و آشکار ہوتا ہے _ کبھی پوشیدہ رہتا ہے تا کہ خدا کی حجت باطل نہ ہوجائے وہ کتنے اور کہاں ہیں؟؟ خدا کی قسم وہ تعداد میں بعت کم ہیں لیکن خدا کے نزدیک قدر کے اعتبار سے عظیم ہیں ان کے ذریعہ اپنی حجت و برہان کی حفاظت کرتا ہے تا کہ اس امانت کو اپنے ہی رتبہ کے افراد کے سپردکریں اوراپنے جیسے لوگو ں کے قلوب میں اس کا بیچ بوئیں _

علم نے انھیں بصیرت و حقیقت تک پہنچادیا ہے ، وہ یقین کی منزلوں میں وارد ہوچکے ہیں اور جس چیز کو مال دار و دولت مند دشوار سمجھتے ہیں وہ ان کیلئے سہل و آسان ہے جس چیز سے جاہل دڑتے ہیں یہ اس سے مانوس ہیں _ یہ دنیا میں ان جسموں کے ساتھ رہتے ہیں کہ جن کی ارواح ملائے اعلی سے معلق رہتی ہیں _ یہ زمین پر خدا کے خلیفہ اور

____________________

۱_ اصول کافی جلد ۱ ص۳۹۰_

۲_ تذکرة الخواص الامة ص ۱۸۲_

۹۳

دین کے دعوت دینے والے ہیں _(۱)

آپ (ص) ہی کا ارشاد ہے : اہل بیت (ع) کے وجود میں قرآن کے گراں بہا گوہر ودیعت کئے گئے ہیں _ وہ خدا کے خزانے ہیں اگر وہ بولتے ہیں تو سچ اور خاموش رہتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں کرتا _(۲)

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں _ اہل بیت کی برکت سے حق اپنی جگہ مستقر ہوا ہے او ر باطل کی بنیاد اکھڑگئی ہے اور اس کی بنیاد تو اکھڑ نے والی ہی تھی _ انہوں نے دین کو سمجھ لیا ہے _ چنانچہ اس کو حفظ کرتے اور اس پر عمل پیرا رہتے ہیں _ یہ تعقل ، سننے اور نقل کرنے میں محدود نہیں ہے _ یقینا علم کے بیان کرنے والے بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے بہت ہی کم ہیں _(۲)

اب میں اپنے بیان کو سٹمیتا ہوں ، اور اس سلسلے میں مذکورہ عقلی دلیلوں اور احادیث سے استفادہ کرتا ہوں : جب تک روئے زمین پر نوع انسان کا وجود ہے اس وقت تک ان کے درمیان ایک ایسے کامل و معصوم انسان کا وجود بھی ضروری ہے کہ جس میں اس نوع کے تمام کمالات جلوہ گر ہوں ، علم و عمل سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہو اور لوگوں کا امام ہو وہ انسانی کمالات کی راہوں کو طے کرتا اور دوسرے لوگوں کو ان کمالات و مقامات کی طرف بلاتا ہو _ اس کے واسطہ سے عالم انسانیت کا عالم غیب سے ارتباط و اتصال

____________________

۱_ نہج البلاغہ ج ۳ خطبہ ۱۴۷_

۲_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۱۵۰_

۳_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۲۳۴_

۹۴

برقرار رہتا ہے _ عالم غیب کے فیوض و برکات پہلے اس کے مقدس وجود پر اور پھر دوسروں پر نازل ہوتے ہیں _ اگر لوگوں کے درمیان ایسا کامل اور ممتاز انسان موجود نہ ہو تو نوع انسان کی کوئی غرض و غایت نہ رہے گی اور غرض و غایت سے انقطاع کے بعد نوع کا تباہ ہوجانا یقینی ہے _ پس دوسری دلیلوں سے قطع نظر یہ دلیل بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ : کوئی زمانہ یہاں تک کہ ہمارا زمانہ بھی ، وجود امام سے خالی نہیں ہے اور چونکہ ہمارے زمانہ میں امام ظاہر نہیں ہیں اس لئے کہنا چاہئے کہ پردہ غیب میں ہیں _

نگارندہ: بحث طویل ہوگئی تھی _ لہذا بقیہ بحث کو دوسرے جلسہ پر موقوف کردیا گیا _

۹۵

عالم ہورقلیا اور امام زمانہ

جلالی صاحب کے گھر پر جلسہ منعقد ہوا اور موصوف نے ہی گفتگو کا آغاز کیا _

جلالی : مسلمانوں کی ایک جماعت کہتی ہے کہ امام زمانہ اما م حسن عسکری کے فرزند ہیں جو کہ ۲۵۶ ھ میں پیدا ہوئے اور اس دنیا سے عالم ہورقلیا منتقل ہوگئے اور جب انسانیت درجہ کمال پر پہنچ جائے گی اور دنیا کی کدورتوں سے پاک ہوجائے گی اور امام زمانہ کے دیدار کی صلاحیت پیدا کرے گی تو اس وقت آپ کا دیدار کرے گی _

اسی جماعت کے ایک بزرگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : یہ عالم زمین کہ تہہ میں تھا آدم کے زمانہ میں اسے کہا گیا : اوپر آؤجبکہ وہ اوپر کی طرف ہی محو سفر تھا وہ گردو غبار اور کثافتوں سے نکل کر صاف فضا میں نہیں پہنچا ہے _ پس یہ ایک تاریک جگہ ہے جہاں وہ دین کو تلاش کرتا ہے ، عمل کرتا ہے اعتقاد پیدا کرتا ہے اور جب غبار سے گزرکر صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا اور ان کے نور کو مشاہدہ صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا او ران کے نور کو مشاہدہ کرے گا اور کھلم کھلا ان سے استفادہ کرے گا _ احکام بدل جائیں گے دنیا کی کچھ اور ہی حالت ہوگی ، دین کی کیفیت بھی بدل جائے گی _

پس ہمیں وہاں جانا چاہئے جہاں ولی ظاہر و آشکار ہیں نہ کہ ولی ہمارے پاس آئے اگر ولی ہمارے پاس آجائے اور ہم میں صلاحیت ولیقات نہ ہو تو ان سے مستفید نہ

۹۶

ہو سکیں گے ، اگر وہ آجائے اور اسی حالت پر باقی رہیں گے تو انھیں دیکھ سکیں گے اور نہ مستفیض ہوسکیں گے اور اگر ہماری قابلیت میں اضافہ ہوجائے اور اچھے بن جائیں تو واضح ہے کہ ہم نے ترقی کی کچھ منزلیں طے کرلی ہیں لہذا ہمیں ترقی کرکے اوپر جانا چاہئے تا کہ اس مقام تک پہنچ جائیں جس کو فلسفہ کی اصطلاح میں ، ہورقلیا کہتے ہیں _ جب دنیا ترقی کرکے ہورقلیا تک پہنچ جائے گی تو وہاں اپنے امام کی حکومت و حق کو مشاہدہ کریگی اور ظلم ختم ہوجائے گا _(۱)

ہوشیار: مؤلف کا مقصد واضح نہیں ہے _ اگر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام زمانہ نے اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر جسم مثالی اختیار کرلیا ہے اور اب زمین کے موجودات میں ان کا شمار نہیں ہوتا اور مادّہ کے آثار سے بری ہیں ، تو یہ بات نامعقول اور امامت کی عقلی و نقلی دلیلوں کے منافی ہے کیونکہ اندلیلوں کامقتضییہ ہے کہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان ایک ایسے کامل نسان کا وجود ضروری ہے کہ جس میں انسانیت کے سارے کمالات جمع ہوں ، صراط مستقیم پر گامز ن ہو اورلوگوں کے امور کی زمام اپنے ہاتھ رکھتا ہوتا کہ نوع انسان حیران و سرگردان نہ رہے اور خدا کے احکام ان کے درمیان محفوظ رہیں اور خدا کے بندوں پر حجت تمام ہوجائے _ بہ عبارت دیگ: جہاں انسان کمال اور مقصد انسانیت کی طرف رواں دواں ہیں وہیں رہبر کا وجود بھی ناگزیرہے _

اگر مؤلف کی مراد عالم ہورقلیا سے اسی دنیا کا کوئی نقطہ مراد ہے تو یہ بات ہمارے عقیدے کے منافی نہیں ہے لیکن ان کلام سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی لہذا نامعقول ہے _

____________________

۱_ ارشاد العوام مولفہ محمد کریم خان ج ۳ ص ۴۰۱_

۹۷

کیا مہدی آخری زمانہ میں پیدا ہونگے ؟

ہم آپ کی بت کو اس حدتک تو تسلیم کرتے ہی کہ مہدی کا وجود اسلام کے مسلم موضوعات ہیں سے ہے کہ پیغمبر اکرم(ع) نے بھی ان کے ظہور کی خبردی ہے _ لیکن اس بات میں کیا حرج ہے کہ مہدی ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں جب دنیا کے حالات سازندگار ہوجا ئیں گے اس وقت خداوند عالم پیغمبر اکرم (ع) کی اولامیں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ عدل وانصاف کے پھیلانے ،ظلم کے مٹا نے اور خدا پرستی کے فروغ کے لئے قیام کرے گا اور کامیاب ہوگا؟

ہوشیار: اول تو ہم نے عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ امام کے وجود سے کوئی زمانہ خالی نہیں ہے چنانچہ امام نہ ہوں گے تو یہ دنیا بھی نہ ہوگی، اس بناپر ہمارے زمانہ میں بھی امام موجود ہیں _

دوسرے ہم نے پیغمبر اور ان کے اہل بیت کی احادیث سے امام مہدی کے وجود کو ثابت کیا ہے _ پس ان کے اوصاف و تعارف کو بھی احادیث ہی سے ثابت کرنا چاہئے خوش قسمتی سے امام مہدی کی تمام علامتیں اور صفات احادیث میں موجود ہیں اور اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے لیکن چونکہ ان حادیث کے بیا ن کیلئے کئی جلسے درکار ہیں اس لئے آپ کے سامنے انکی فہرست پیش کرتا ہوں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو احادیث کی کتب کا مطالعہ فرمائیں _

مہدی کی تعریف

امام بارہ ہیں ان میں پہلے علی بن ابیطالب اور آخری مہدی ہیں

۹۱ حدیث

۹۸

امام بارہ ہیں اور آخری مہد ی ہیں

۹۴ حدیث امام بارہ ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع) کی نسل سے ہوں گے اور نواں قائم ہے

۱۰۷ حدیث

مہدی (عج) عترت رسول (ص) سے ہیں

۳۸۹ حدیث

مہدی (عج) اولاد علی (ع) سے ہیں

۲۱۴ حدیث

مہدی (عج)اولاد فاطمہ (ع) سے ہیں

۱۹۲ حدیث

مہدی (عج)اولاد حسین (ع) سے ہیں

۱۸۵حدیث

مہدی (عج)حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)امام زین العابدین (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۸۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد باقر (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی چھٹی پشت میں ہیں

۹۹

۹۹ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی اولاد میں ہیں

۱۰۱ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی پانچویں پشت میں ہیں

۹۸ حدیث

مہدی (عج)امام رضا (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد تقی (ع) کی تیسری پشت میں ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام علی نقی (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام حسن عسکری (ع) کے فرزند ہیں

۱۴۵ حدیث

مہدی (عج)کے والد کا نام حسن ہے

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت ہیں

۴۷ حدیث(۱)

____________________

۱_ یہ احادیث منتخب الاثر ، مولف آیت اللہ صافی ، سے نقل کی گئی ہیں _

۱۰۰

رسول خدا (ص) کا ارشاد ہے : مہدی (عج) میری اولاد سے ہے وہ میرا ہم نام و ہم کنیت ہوگا ، اخلاق و خلق میں تمام لوگوں کی بہ نسبت وہ مجھ سے مشابہ ہے ، اس کی غیبت کے دوران لوگ سرگردان اور گمرا ہ ہوں گے _ اس کے بعد وہ چمکتے ہوئے ستارے کی مانند ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پرکرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھرچکی ہوگی _(۱)

ملاحظہ فرمایا آپ نے کہ ان احادیث میں جس طرح مہدی کی تعریف و توصیف کی گئی ہے اس سے کسی قسم کے شک کی گنجائشے باقی نہیں رہتی _

یہاں یہ بات عرض کردینا ضروری ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے بعض احادیث میں ایک ہی شخص میں اپنے نام اور اپنی کنیت کوجمع کرنے سے منع فرمایا ہے _

ابوہریرہ نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم نے فرمایا : میرے نام اور کنیت کو ایک شخص میں جمع نہ کرو _(۲)

چنانچہ اسی ممانعت کی بناپر جب حضرت علی بن ابیطالب نے اپنے بیٹے محمد بن حنفیہ کا نام محمد اور کنیت ابوالقاسم رکھی تو بعض صحابہ نے اعتراض کیا لیکن حضرت علی بن ابی طالب نے فرمایا : میں نے اس سلسلے میں رسول خدا سے خصوصی اجازت لی ہے _ صحابہ کی ایک جماعت نے بھی حضرت علی (ع) کی بات کی تائید کی _ اگر اس بات کو ان احادیث کے ساتھ ضمیمہ کرلیا جائے کہ جن میں مہدی کو رسول خدا کا ہم نام و ہم کنیت قراردیا گیا ہے تو یہ بات واضح ہوجائے گی کہ رسول خدا (ص) نام محمد اور ابوالقاسم کنیت کے اجتماع کو مہدی کی علامت

____________________

۱_ بحارالانوار جلد ۵۱ ص ۷۲_

۲_ الطبقات الکبری طبع لندن جلد ۱ ص ۶۷_

۱۰۱

بنانا اور اسے دوسروں کیلئے ممنوع قرار دینا چاہتے تھے _ اسی بنیاد پر محمد بن حنفیہ نے اپنے مہدی ہونے کے سلسلہ میں اپنے نام اور کنیت کی طرف اشارہ کرکے کہا تھا : میں مہدی ہوں میرا نام رسول(ص) کا نام ہے اور میری کنیت رسول (ص) خدا کی کنیت ہے _(۱)

مہدی امام حسین (ع) کی اولاد سے ہیں

فہیمی: ہمارے علماء تو مہدی کو حسن (ع) کی اولاد سے بتاتے ہیں اور ان کا مدرک وہ حدیث ہے جو سنن ابی داؤد میںنقل ہوئی ہے _

ابواسحاق کہتے ہیں : علی (ع) نے اپنے بیٹے حسن (ع) کو دیکھ کر فرمایا: میرا بیٹا سید ہے کہ رسول (ص) نے انھیں سید کہا ہے ان کی نسل سے ایک سید ظاہر ہوگا کہ جس کا نام رسول کا نام ہوگا _ اخلاق میں رسول (ص) سے مشابہہ ہوگا لیکن صورت میں ان جیسا نہ ہوگا _(۲)

ہوشیار: اولاًممکن ہے کتابت و طباعت میں غلطی کی وجہ سے حدیث میں اشتباہ ہواہو اور حسین کے بجائے حسن چھپ گیا ہو کیونکہ بالکل یہی حدیث اسی متن و سند کے ساتھ دوسری کتابوں میں موجودہے اور اس میں حسن کے بجائے حسین مرقوم ہے _(۳)

ثانیاً : اس حدیث کا ان احادیث کے مقابل کوئی اعتبار نہیں ہے جو کہ شیعہ ، سنّی کتابوں میں نقل ہوئی ہیں اور ان میں مہدی کو اولاد حسین سے بتایا گیا ہے _ مثال کے

____________________

۱_ الطبقات الکبری ج ۵ ص ۶۶_

۲_ سنن ابی داؤد ج ۲ ص ۲۰۸_

۳_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۲۰۸_

۱۰۲

طور پر اہل سنّت کی کتابوں سے یہاں چند حدیثیں پیش کی جاتی ہیں :

حذیفہ کہتے ہیں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے فرمایا :

'' اگر دنیا کا ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طولانی بنادے گا کہ میری اولاد سے میرا ہمنام ایک شخص قیام کرے گا _ سلمان نے عرض کی : اے اللہ کی رسول (ص) وہ آپ کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ رسول اکرم (ص) نے اپنا ہاتھ حسین(ع) کی پشت پر رکھا اورفرمایا : اس سے ''(۱)

ابوسعید خدری نے روایت کی ہے کہ پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) سے فرمایا :

'' اس امت کا مہدی ، کہ جن کی اقتداء میں جناب عیسی نماز پڑھیں گے ، ہم سے ہوگا _ اس کے بعد آپ (ص) نے اپنا دست مبارک حسین (ع) کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس امت کا مہدی میرے اس بیٹے کی نسل سے ہوگا ''_(۲)

سلمان فارسی کہتے ہیں کہ میں رسول خدا کی خدمت میں شرفیاب ہواتو حسین (ع) آنحضرت (ص) کے زانو پر بیٹھے ہوئے تھے ، آپ (ص) ان کے ہاتھ اور رخسار کو چوم رہے تھے اور فرمارہے تھے:

''تم سید ، سید کے بیٹے ، سید کے بھائی ، امام کے بیٹے ، امام کے بھائی ، حجّت ، حجت کے بیٹے اور حجت کے بھائی ہو ، تم نو حجت خدا کے باپ ہو کہ جن میں نواں قائم ہوگا _(۳)

____________________

۱_ ذخائر العقبی ص ۱۳۶_

۲_ کتاب البیان فی اخبار صاحب الزمان باب ۹_

۳_ ینابیع المودة ج۱ ص ۱۴۵_

۱۰۳

ان احادیث کا اقتضا جو کہ مہدی کے اولاد حسین(ع) سے ہونے پر دلالت کررہی ہیں ، یہ ہے کہ اس حدیث کی پروا نہیں کرنا چاہئے ، جو کہ مہدی کو نسل حسن (ع) سے قراردیتی ہے _ اگر متن و سند کے اعتبار سے یہ حدیث صحیح بھی ہو تو پہلی حدیث کے ساتھ جمع کیا جا سکتا ہے _ کیونکہ امام حسن (ع) و امام حسین (ع) دونوں ہی امام زمانہ کے جد ہیں ۷ اس لئے امام محمد باقر کی مادر گرامی امام حسن کی بیٹی تھیں ، درج ذیل حدیث سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے ، پیغمبر اکرم (ص) نے جناب فاطمہ (ع) زہرا سے فرمایا:

'' اس امت کے دو سبط مجھ سے ہوں گے اور وہ تمہارے بیٹے حسن (ع) و حسین (ع) ہیں جو کہ جوانان جنت کے سردار ہیں _ خدا کی قسم ان کے باپ ان سے افضل ہیں _ اس خدا کی قسم جس نے مجھے حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اس امت کا مہدی تمہارے ان ہی دونوں بیٹوں کی اولاد سے ہوگا جب دنیا شورش ہنگاموں میں مبتلا ہوگی ''(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۱۸۳_

۱۰۴

اگر مہدی مشہور ہوتے ؟

جلالی : اگر مہدی موعود کی شخصیت اتنی ہی مشہور ہوتی اور صدر اسلام کے مسلمان ائمہ اور اصحاب نے مذکورہ تعریض سنی ہوتیں تو اصولی طور پر اشتباہ اور کج فہمی کا سد باب ہوجانا چاہئے تھا اور اصحاب و ائمہ اور علماء سے اشتباہ نہ ہوتا جبکہ دیکھنے میں تو یہ بھی آتا ہے کہ ائمہ اطہا رکی بعض اولاد کو بھی اس کی خبر نہ تھی ، پس جعلی و جھوٹے مہدی جو کہ صدر اسلام میں پیدا ہوئے انہوں نے خود کو اسلام کے مہدی کا قالب میں ڈھال کر لوگوں کو فریب دیتے ہیں ، نے کیسے کامیابی حاصل کی ؟ اگر مسلمان مہدی کے نام ، کنیت ، ان کے ماں ، باپ کے نام ، ان کے بارہویں امام ہونے اور دوسری علامتوں کے باوجود لوگ کیسے دھوکہ کھا گئے او رمحمد بن حنفیہ ، محمد بن عبداللہ بن حسن یا حضرت جعفر صادق و موسی کا ظم (ع) کو کیسے مہدی سمجھ لیا ؟

ہوشیار: جیسا کہ میں پہلے بھی عرض کر چکا ہوں کہ صدر اسلام میں مہدی کے وجود کا عقیدہ مسلمانوں کے درمیان مسلم تھا ، ان کے وجود میں کسی کو شک نہیں تھا _ پیغمبر اکرم وجود مہدی، اجمالی صفات ، توحید و عدالت کی حکومت کی تشکیل ، ظلم و ستم کی بیخ کنی ، دین اسلام کا تسلط اور ان کے ذریعہ کائنات کی اصلاح کے بارے میں مسلمانوں کو خبر دیا کرتے تھے اور ایسے خوشخبریوں کے ذریعہ ان کے حوصلہ بڑھاتے تھے_ لیکن مہدی کی حقیقی خصوصیات اور علامتوں کو بیان نہیں کرتے تھے بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اس موضوع کو کسی حد تک راز میں رکھتے او راسرار نبوت کے حاملین اور قابل اعتماد افراد ہی سے بیان کرتے تھے _

۱۰۵

رسول اسلام نے مہدی کی حقیقی علامتوں کو علی بن ابیطالب (ع) ، فاطمہ زہرا (ع) اور اپنے بعض راز دار صحابہ سے بیان کرتے تھے لیکن عام صحابہ سے اسے سربستہ اور اجمالی طور پر بیان کرتے تھے _ ائمہ اطہار بھی اس سلسلے میں پیغمبر (ص) کی سیرت پر عمل کرتے اور عام مسلمانوں کے سامنے اسے مجمل طریقہ سے بیان کرتے تھے _ لیکن ایک امام دوسرے سے مہدی کی حقیقی و مشخص علامتیں بیان کرتا تھا اور راز دار قابل اعتماد اصحاب سے بیان کرتا تھا _ لیکن عام مسلمان یہاں تک ائمہ کی بعض اولاد بھی اس کی تفصیل نہیں جانتی تھی _

اس اجمالی گوئی سے پیغمبر اور ائمہ اطہار کے دو مقصد تھے ، ایک یہ کہ اس طریقہ سے حکومت توحید کے دشمن ظالموں اور ستمگروں کو حیرت میں ڈالنا تھا تا کہ وہ مہدی موعود کو نہ پہچان سکیں چنانچہ اسی طریقہ سے انہوں نے مہدی کو نجات دی ہے _ پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہا رجانتے تھے کہ اگر ظالم اور بر سر اقتدار حکومت و قت اور حلفاء مہدی کو نام ، کنیت اور ان کے ماں باپ و دیگر خصوصیات کے ذریعہ پہچان لیں گے تو یقینی طور پر انکے آبا و اجداد کو قتل کرکے ان کی ولادت میںمانع ہوں گے _ اپنی حکومت کو بچانے کے لئے بنی امیہ و بنی عباس ہر احتمالی خطرہ سے نمٹنے کیلئے تمام تھکنڈے استعمال کرتے تھے اور اس سلسلے میں قتل و غارت گری سے بھی درگزر نہیں کرتے تھے جس شخص کے متعلق وہ یہ سوج لیتے تھے کہ وہ ان کی حکومت کے لئے خطرہ بن سکتا ہے اسی کے قتل کے درپے ہوجاتے تھے خواہ متہم شخص ان کا عزیز، خدمت گارہی ہوتا ، اپنی کرسی کو بچان کیلئے وہ اپنے بھائی اور بیٹے کے قتل سے بھی دریغ نہیں کرتے تھے _ بنی امیہ اور بنی عباس کو مہدی کی علامتوں اور خصوصیات کی کامل اطلاع نہیں تھی اس کے باوجود انہوں نے احتمالی خطرہ کے سد باب کے لئے اولاد فاطمہ اور علویوں میں سے ہزاروں افراد کو

۱۰۶

تہ تیغ کرڈالا ، صرف اس لئے تاکہ مہدی قتل ہوجائے یا وہ قتل ہوجائے کہ جس سے آپ (ع) پیدا ہونے والے ہیں _ امام جعفر صادق (ع) نے ایک حدیث میں مفضل و ابو بصیر اور ابان بن تغلب سے فرمایا:

'' بنی امیہ و بنی عباس نے جب سے یہ سنا ہے کہ ہمارے قائم ستمگروں کی حکومت کا خاتمہ کریں گے اسی وقت سے وہ ہماری دشمنی پر اتر آئے ہیں اور اولاد پیغمبر کے قتل کیلئے تلوار کیھنچ لی اور اس امید پر کہ وہ مہدی کے قتل میں کامیاب ہوجائیں _ نسل رسول (ص) کو مٹانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے لیکن خدا نے اپنے مقصد کی تکمیل کے لئے ستمگروں کو حقیقی واقعات کی اطلاع ہی نہ ہونے دی ''_(۱)

ائمہ اطہار(ع) مہدی کی خصوصیات کے شہرت پا جانے کے سلسلے میں اتنے خوفزدہ رہتے تھے کہ اپنے اصحاب اور بعض علویوں سے بھی حقائق پوشیدہ رکھتے تھے _

ابوخالد کابلی کہتے ہیں کہ : میں نے امام محمد باقر(ع) سے عرض کی مجھے قائم کا نام بتادیجئے تا کہ میں صحیح طریقہ سے پہچان لوں _ امام نے فرمایا:

'' اے ابوخالد تم نے ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا ہے کہ اگر اولاد فاطمہ سن لیں تو مہدی کو ٹکڑے ٹکڑے کرڈالیں گے '' _(۲)

اس اجمال گوئی کا دوسرا مقصد یہ تھا کہ کمزور ایمان والے دین کے تسلط سے مایوس نہ ہوجائیں کیونکہ صدر اسلام سے انہوں نے پیغمبر اکرم اور حضرت علی (ع) پاکیزہ

____________________

۱_ کمال الدین جلد ۲ ص ۲۳_

۲_ غیبت شیخ ص ۳۰۲_

۱۰۷

زندگی اور ان کی عدالت کا مشاہدہ کیا تھ ا اور دین حق کے غلبہ پانے کی بشارتیں سنی تھیں ، ظلم و ستم سے عاجز آچکے تھے_ ہزاروں امیدوں کے ساتھ اسلام میں داخل ہوئے تھے اور چونکہ نئے نئے مسلمان ہوئے تھے ، ان کے کفر کا زمانہ قریب تھا ، ابھی ان کے دلوں میں ایمان راسخ نہیں ہوا تھا اور تاریخ کے ناگورا حوادث سے جلد متاثر ہوجاتے تھے _ دوسری طرف بنی امیہ و بنی عباس کے کردار کا مشاہد کررہے تھے اور اسلامی معاشرہ کی زبوں حالی کو اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے _ ان ناگوار حوادث اور شورشوں نے انہیں حیرت زدہ کررکھا تھا _ اس بات کا خوف تھا کہ کہیں کمزور ایمان والے دین اور حق کے غلبہ پانے سے مایوس ہوکر اسلام سے نہ پھر جائیں جن موضوعات نے مسلمانوں کے ایمان کی حفاظت کرنے ، ان کی امید بندھانے اور ان کے دلوں کو شاداب کرنے میں کسی حد تک مثبت کردار ادا کیا ہے ان میں سے ایک یہی مہدی موعود کا انتظار تھا _ لوگ ہرروز اس انتظار میں رہتے تھے کہ مہدی موعود قیام کریں اور اسلام و مسلمانوں کے ناگفتہ بہ حالات کی اصلاح کریں ظلم و ستم کا قلع و قمع کریں اور قانون اسلام کو عالمی سطح پر رائج کریں _ ظاہر ہے اس کا نتیجہ اسی وقت برآمد ہوسکتا تھا کہ جب مہدی کی حقیقی علامتوں اور خصوصیات کہ لوگوں کو واضح طور پر نہ بتا یا جاتا ورنہ اگر مکمل طریقہ سے ظہور کا وقت اور علامتیں بتادی جاتیں اور انھیں یہ معلوم ہوجاتا کہ مہدی کس کے بیٹے ہیں اور کب قیام کریں گے _ مثلاً ظہور میں کئی ہزار سال باقی ہیں تو اس کا مطلوبہ نتیجہ کبھی حاصل نہ ہوتا _ اسی اجمال گوئی نے صدر اسلام کے کمزور ایمان والے افراد کے امید بندھائی چنانچہ انہوں نے تمام مصائب و آلام کو برداشت کیا _

یقطین نے اپنے بیٹے علی بن یقطین سے کہا : ہمارے بارے میں جو پیشین گوئیاں

۱۰۸

ہوئی ہیں وہ تو پوری ہوتی ہیں لیکن تمہارے مذہب کے بارے میں جو پیشین گوئی ہوئی ہیں وہ پوری نہیں ہورہی ہیں؟ علی بن یقطین نے جواب دیا : ہمارے اور آپ کے بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں ان کا سرچشمہ ایک ہی ہے لیکن چونکہ آپ کی حکومت کا زمانہ آگیا ہے لہذا آپ سے متعلق پیشین گوئیاں یکے بعد دیگرے پوری ہورہی ہیں _ لیکن آل محمد (ص) کی حکومت کا زمانہ ابھی نہیں آیا ہے اس لئے ہمیں مسرت بخش امیدوں کا سہارا دے کر خوش رکھا گیا ہے _ اگر ہم سے بتادیا جاتا کہ آل محمد (ص) کی حکومت دو سو یا تین سو سال تک قائم نہیں ہوگی تو لوگ مایوس ہوجاتے اور اسلام سے خارج ہوجاتے لیکن یہ قضیہ ہمارے لئے اس طرح بیان ہوا ہے کہ ہمارا ہر دن آل محمد (ص) کی حکومت کی تشکیل کے انتظار میں گزرتا ہے _(۱)

____________________

۱_ غیبت شیخ طبع دوم ص ۲۰۷_

۱۰۹

احادیث اہل بیت (ع) تمام مسلمانوں کیلئے حجّت ہیں

فہیمی :انصاف کی بات تو یہ ہے کہ آپ کی احادیث نے مہدی کی خوب تعریف و توصیف کی ہے مگر آپ کے ائمہ کے اقوال و اعمال ہم اہل سنّت کے نزدیک معتبر نہیں ہیں اور ان کی قدر و قیمت نہیں ہے _

ہوشیار: میں امامت وولایت کاموضوع آپ کے لئے ثابت نہیں کرنا چاہتا ہوں لیکن اتنا ضرور کروں گا کہ عترت رسول (ص) کے اقوال تمام مسلمانوں کیلئے حجت اور معتبر ہیں خواہ وہ انھیں امام تسلیم کرتے ہوں یا نہ کرتے ہوں _ کیونکہ رسول (ص) نے اپنی احادیث میں جو کہ قطعی ہیں اور شیعہ ، سنی دونوں کے نزدیک صحیح ہیں ، اہل بیت کو علمی مرجع قرار دیا ہے اور ان کے اقوال و اعمال کو صحیح قرار دیا ہے _ مثلاً:

رسول اکرم (ص) کا ارشاد ہے :

'' میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑرہا ہوں اگر تم نے ان سے تمسک کیا تو کبھی گمراہ نہ ہوگے _ ان میں سے ایک دوسرے سے بڑی ہے _ ان میں سے ایک کتاب خدا ہے جو کہ زمین و آسمان کے درمیان

۱۱۰

واسطہ اور وسیلہ ہے دوسرے میرے اہل بیت عترت ہیں یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ دیکھو تم ان کے ساتھ کیا سلوک کرتے ہو''(۱)

اس حدیث کو شیعہ اور اہل سنّت دونوں مختلف اسناد و عبارت کے ساتھ اپنی اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور صحیح مانا ہے _ صواعق محرقہ میں ابن حجر لکھتے ہیں : نبی اکرم سے یہ حدیث بہت سے طرق و اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے اور بیسویں راویوں نے اسکی روایت کی ہے _ پیغمبر اسلام قرآن و اہل بیت کو اس قدر اہمیت دیتے تھے کہ بارہا مسلمانوں سے ان کے بارے میں تاکید کی ہے چنانچہ حجة الوداع ، غدیر خم اور طائف سے واپسی پر ان کے بارے میں تاکید کی _

ابوذر نے رسول (ص) اسلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' میرے اہل بیت کی مثال کشتی نوح کی سی ہے ، جو سوار ہوگیا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا ''(۲)

رسول (ص) کاارشاد ہے :

'' جو چاہتا میری زندگی جئے او رمیری موت مرے اورجنت میں درخت طوبی کے سایہ میں کہ جس کو خدا نے لگایا ہے ، ساکن ہوا سے چاہئے کہ وہ میرے بعد

____________________

۱_ ذخائر العقبی طبع قاہرہ ص ۱۶ ، صواعق محرقہ ص ۱۴۷ ، فصول المہمہ ص ۲۲ _ البدایہ و النہایہ ج ۵ ص ۲۰۹_ کنز العمال طبع حیدر آباد ص ۱۵۳و ۱۶۷ ، درر السمطین مولفہ محمد بن یوسف طبع نجف ص ۲۳۲ ، تذکرة الخواص ص ۱۸۲

۲_ صواعق محرقہ ص ۱۵۰ و ص ۱۸۴_ تذکرة الخواص ص ۱۸۲ _ذخائر العقبی ص ۲۰ _ دررالسمطین ص ۲۳۵_

۱۱۱

علی کو اپنا ولی قرار دے اور ان کے دوستوں سے دوستی کرے اور میرے بعد ائمہ کی اقتدا کرے ، کیونکہ وہ میری عترت ہیں ، میری ہی طینت سے خلق کئے گئے ہیں اور علم و فہم کے خزانے سے نوازے گئے ہیں _ تکذیب کرنے والوں اور ان کے بارے میں میرا احسان قطع کرنے والوں کے لئے تباہی ہے ، انھیں ہرگز میری شفاعت نصیب نہیں ہوگی ''(۱)

رسول خد ا نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

'' اے علی آپ اور آپ کی اولاد سے ہونے والے ائمہ کی مثال کشتی نوح کی سی ہے جو سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے روگردانی کی وہ ہلاک ہوا آپکی مثال ستاروں جیسی ہے ایک غروب ہوتا ہے تو دوسرا اس کی جگہ طلوع ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا _(۲)

جابر بن عبداللہ انصاری نے رسول خدا سے روایت کی ہے کہ آپ (ص) نے فرمایا:

'' علی (ع) کے دو بیٹے جوانان جنت کے سردار ہیں اور وہ میرے بیٹے ہیں ، علی ان کے دونوں بیٹے اور ان کے بعد کے ائمہ خدا کے بندوں پر اس کی حجت ہیں _ میری امت کے درمیان وہ علم کے باب ہیں _ ان کی پیروی کرنے والے آتش جہنّم سے بری ہیں _ ان کی اقتداء کرنے والا صراط مستقیم پر ہے ان کی محبت خدا اسی کو نصیب کرتا ہے جو جنتی ہے ''(۳)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص ۱۵۳_

۲_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۲۴_

۳_ اثبات الہداة ج ۱ ص ۵۴_

۱۱۲

حضرت علی بن ابیطالب نے لوگوں سے فرمایا:

'' کیا تم جانتے ہو کہ رسول (ص) خدا نے اپنے خطبہ میں یہ فرمایا تھا :لوگو میں کتاب خدا اور اپنے اہل بیت کو تمہارے درمیان چھوڑ رہاہوں ان سے وابستہ ہوجاؤگے تو کبھی گمراہ نہ ہوگے کیونکہ مجھے خدائے علیم نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں قیامت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے _ یہ سن کہ عمر بن خطاب غضب کی حالت میں کھڑے ہوئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول کیا یہ چیز آپ (ص) کے تمام اہل بیت کے لئے ہے ؟ فرمایا : نہیں یہ صرف میرے اوصیاء کے بارے میں ہے کہ ان میں سے پہلے میرے وزیر ، میرے وارث ، میرے جانشین اور مومنین کے مولا علی ہیں اور علی (ع) کے بعد میرے بیٹے حسن (ع) اور ان کے بعد میرے بیٹے حسین اور ان کے بعد حسین (ع) کی اولاد سے میرے نو اوصیا ہوں گے جو کہ قیامت تک یکے بعد دیگرے آئیں گے _ وہ روئے زمین پر علم کا خزانہ ، حکمت کے معادن اور بندوں پر خدا کی حجت ہیں _ جس نے ان کی اطاعت کی اس نے خدا کی اطاعت کی اور جس نے ان کی نافرمانی کی اس نے خدا کی معصیت و نافرمانی کی _ جب حضرت کا بیا یہاں تک پہنچا تو تمام حاضرین نے بیک زبان کہا : ہم گواہی دیتے ہیں رسول خدا نے یہی فرمایا تھا ''_(۱)

اس قسم کی احادیث سے کہ جن سے شیعہ ، سنی کتابیں بھری پڑی ہیں ، چند چیزیں سمجھ میں آتی ہیں:

____________________

۱_ جامع احادیث الشیع ج ۱ مقدمہ _

۱۱۳

الف: جس طرح قرآن قیامت تک لوگوں کے درمیان باقی رہے گا اسی طرح اہل بیت رسول بھی قیامت تک باقی رہیں گے _ ایسی احادیث کو امام غائب کے وجود پر دلیل قراردیا جا سکتا ہے _

ب: عترت سے مراد رسول (ص) کے بارہ جانشین ہیں_

ج: رسول (ص) نے اپنے بعد لوگوں کو حیرت کے عالم میں بلا تکلیف نہیں چھوڑا ہے ، بلکہ اپنی اہل بیت کو علم و ہدایت کا مرکز قراردیا اور ان کے اقوال و اعما ل کو حجب جانا ہے ، اور ان سے تمسک کرنے پر تاکید کی ہے _

د: امام قرآن اور اس کے احکام سے جدا نہیں ہوتا ہے _ اس کا پروگرام قرآن کے احکام کی ترویج ہوتا ہے _ اس لئے اسے قرآن کے احکام کا مکمل طور پر عالم ہونا چاہئے جس طرح قرآن لوگوں کو گمراہ نہیں کرتا بلکہ اپنے تمسک کرنے والے کو کامیابی عطا کرتا ہے _ اسی طرح امام سے بھی راہ ہدایت میں خطا نہیں ہوتی ہے اگر ان کے اقوال و اعمل کا لوگ اتباع کریں گے تو یقینا کامیاب و رستگار ہوں گے کیونکہ امام خطا سے معصوم ہیں _

علی(ع) علم نبی (ص) کا خزانہ ہیں

رسول (ص) کی احادیث اور سیرت سے واضح ہوتاہے کہ جب آنحضرت نے یہ بات محسوس کی کہ تمام صحابہ علم نبی (ص) کے برداشت کرنے کی صلاحیت و قابلیت نہیں رکھتے اور حالات بھی سازگار نہیں ہیں اور ایک نہ ایک دن مسلمانوں کو اس کی ضرورت ہوگی تو آپ (ص) نے اس کے لئے حضرت علی (ع) کو منتخب کیا اور علوم نبوت اور معارف اسلام کو آپ (ع) سے

۱۱۴

مخصوص کیا اور ان کی تعلیم و تربیت میں رات ، دن کوشاں رہے _ اس سلسلہ میں چند حدیثیں نقل کی جاتی ہیں تا کہ حقیقت واضح ہوجائے :

''علی (ع) نے آغوش رسول میں تربیت پائی اور ہمیشہ آپ(ص) کے ساتھ رہے''(۱)

پیغمبر (ص) نے حضرت علی (ع) سے فرمایا:

''خدا نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمھیں قریب بلاؤں اور اپنے علوم کی تعلیم دوں تم بھی ان کے حفظ و ضبط میں کوشش کرو اور خدا پر تمہاری مدد کرنا ضروری ہے ''(۲)

''حضرت علی (ع) نے فرمایا: میں نے جو کچھ رسول خدا سے سنا اسے فراموش نہیں کیا '' _(۳)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے :'' رسول (ص) خدا نے ایک گھنٹہ رات میں اور ایک گھنٹہ دن میں مجھ سے مخصوص کررکھا تھا کہ جس میں آپ کے پاس میرے سو اکوئی نہیں ہوتا تھا''(۴)

حضرت علی (ع) سے دریافت کیا گیا : آپ (ع) کی احادیث سب سے زیادہ کیوں ہیں؟ فرمایا:

'' میں جب رسول خدا سے کوئی سوال کرتا تھا تو آپ (ص) جواب دیتے اور جب میں خاموش ہوتا تو آپ ہی گفتگو کا سلسلہ شروع فرماتے تھے _(۵)

____________________

۱_ اعیان الشیعہ ج ۳ ص ۱۱_

۲_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۰۴_

۳_ اعیان الشیعہ ج ۳_

۴_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۷۷_

۵_ ینابیع المودة ج ۲ ص ۳۶_ طبقات بن سعد ج ۲ ص ۱۰۱_

۱۱۵

حضرت علی (ع) فرماتے ہیں : رسول خدا نے مجھ سے فرمایا:

'' میری باتوں کو لکھ لیا کرو _ میں نے عرض کی اے اللہ کے رسول کیا آپ کو یہ اندیشہ ہے کہ میں فراموش کردوں گا ؟ فرمایا : نہیں کیونکہ میں نے خداند عالم سے یہ دعا کی ہے کہ تمہیں حافظ اور ضبط کرنے والا قرار دے _ لیکن ان مطالب کو اپنے شریک کار اور اپنی اولاد سے ہونے والے ائمہ کے لئے محفوظ کرلو _ ائمہ کے وجود کی برکت سے بارش ہوتی ہے _ لوگوں کی دعائیں مستجاب ہوتی ہیں بلائیں ان سے رفع ہوتی ہیں اورآسمان سے رحمت نازل ہوتی ہے _ اس کے بعد حسن (ع) کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: تمہارے بعد یہ پہلے امام ہیں _ بھر حسین(ع) کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا : یہ ان کے دوسرے ہیں اور ان کی اولاد سے نو امام ہونگے ''(۱) _

کتاب علی(ع)

حضرت علی (ع) نے اپنی ذاتی صلاحیت ، توفیق الہی اور رسول خدا کی کوشش سے پیغمبر اسلام کے علوم و معارف کا احاطہ کرلیا اور انھیں ایک کتاب میں جمع کیا اور اس صحیفہ جامعہ کو اپنے اوصیاء کی تحویل میں دیدیا تا کہ وقت ضرورت وہ اس سے استفادہ کریں _

اہل بیت کی احادیث میں یہ موضوع منصوص ہے ازباب نمونہ :

حضرت امام صادق (ع) نے فرمایا:

'' ہمارے پاس ایک چیز ہے کہ جس کی وجہ سے ہم لوگوں کے نیازمند نہیں

____________________

۱_ ینابیع المودة ج ۱ ص ۱۷_

۱۱۶

ہیں جبکہ لوگ ہمارے محتاج ہیں کیونکہ ہمارے پاس ایک کتاب ہے جو رسول (ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کے خط میں مرقوم ہے _ اس جامع کتاب میں تمام حلال و حرام موجود ہے ''(۱) _

حضرت امام محمد باقر (ع) نے جابر سے فرمایا :

'' اے جابر اگر ہم اپنے عقیدہ اور مرضی سے تم سے کوئی حدیث نقل کرتے تو ہلاک ہوجاتے _ ہم تو تم سے وہی حدیث بیا ن کرتے ہیں جو کہ ہم نے رسول خدا سے اسی طرح ذخیرہ کی ہے جیسے لوگ سونا چاندی جمع کرتے ہیں ''(۲) _

عبداللہ بن سنان کہتے ہیں : میں نے حضرت صادق (ع) سے سنا کہ آپ (ع) فرماتے ہیں :

''ہمارے پاس ایک مجلد کتاب ہے جو ستر گز لمبی ہے یہ رسول(ص) کا املا اور حضرت علی (ع) کا خط ہے ، لوگوں کی تمام علمی ضرورتیں اس میں موجود ہیں، یہاں تک بدن پروارد ہونے والی خراش بھی مرقوم ہے ''(۳)

علم نبوّت کے وارث

فہیمی صاحب آپ تو اولاد رسول (ص) کی امامت کو قبول نہیں کرتے ہیں لیکن انکے اقوال کو تو بہرحال آپ کو معتبر اور حجت تسلیم کرنا پڑے گا _ جس طرح صحابہ و تابعین کی احادیث کو حجت سمجھتے ہیں _ اسی طرح عترت رسول (ص) کی بیان کردہ احادیث کو بھی حجت سمجھئے بالفرض

____________________

۱_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۳_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱_

۱۱۷

اگر وہ امام نہیں ہیں تو روایت کرنے کا حق تو ان سے سلب نہیں ہوا ہے _ ان کے اقوال کی اہمیت ایک معمولی راوی سے کہیں زیادہ ہے _ اہل سنّت کے علما نے بھی ان کے علم اور طہارت کا اعتراف کیا ہے _ (۱)

ائمہ نے باربار فرمایا ہے کہ : ہم اپنی طرف سے کوئی چیز بیان نہیں کرتے ہیں بلکہ پیغمبر کے علوم کے وارث ہیں جو کچھ کہتے ہیں اسے اپنے آبا و اجداد کے ذریعہ پیغمبر (ص) سے نقل کرتے ہیں _ از باب نمونہ ملا حظہ فرمائیں :

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے :

'' میری حدیث میرے والد کی حدیث ہے اور ان کی حدیث میرے جد کی حدیث ہے اور میرے جد کی حدیث حسین (ع) کی حدیث ہے ، حسین (ع) کی حدیث حسن (ع) کی حدیث ہے اور حسن (ع) کی حدیث امیر المؤمنین کی حدیث ہے اور امیر المومنین کی حدیث رسول اللہ (ص) کی حدیث ہے اور حدیث رسول (ص) ، خدا کا قول ہے ''(۲)

فہیمی صاحب آپ سے انصاف چاہتا ہوں کیا جوانان جنّت کے سردار حسن (ع) و حسین (ع) ، زین العابدین ، ایسے عابد و متقی اور محمد باقر (ع) و جعفر صادق جیسے صاحبان علم کی احادیث ابوہریرہ ، سمرہ بن جندب اور کعب الاحبار کی حدیثوں کے برابر بھی نہیں ہیں ؟

پیغمبر اسلا م نے علی (ع) اور ان کی اولاد کو اپنے علوم کا خزانہ قراردیا ہے اور اس موضوع کو باربار مسلمانوں کے گوش گزارکیا ہے اور ہر مناسب موقع محل پر ان کی طرف لوگوں کی راہنمائی

____________________

۱_ روضة الصفا ج۳ ، اثبات الوصیہ مؤلفہ مسعودی

۲_ جامع احادیث الشیعہ ج ۱ مقدمہ

۱۱۸

کی ہے مگر افسوس وہ اسلام کے حقیقی راستہ منحرف ہوگئے اوراہل بیت کے علوم سے محروم ہوگئے جو کہ ان کی پسماندگی کا سبب ہوا _

جلالی : ابھی میرے ذہن میں بہت سے سوالات باقی ہیں لیکن چونکہ وقت ختم ہوچکا ہے اس لئے انھیں آئندہ جلسہ میں اٹھاؤں گا _

انجینئر : اگر احباب مناسب سمجھیں تو آئندہ جلسہ غریب خانہ پر منعقد ہوجائے _

۱۱۹

کیا امام حسن عسکری (ع) کے یہاں کوئی بیٹا تھا؟

ہفتہ کی رات میں احباب انجینئر صاحب کے گھر جمع ہوئے اور جلالی صاحب کے سوال سے جلسہ کا آغاز ہوا _

جلالی : میں نے سنا ہے کہ امام حسن عسکری کے یہاں کوئی بیٹا ہی نہیں تھا

ہوشیار : چند طریقوں سے یہ ثابت کیا جا سکتا ہے کہ امام حسن عسکری (ع) کے یہاں بیٹا تھا :

الف: پیغمبر اکرم اور ائمہ اطہار علیہم السلام سے نقل ہونے والی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ حسن بن علی محمد کے یہاں بیٹا پیدا ہوگا جو طولانی غیبت کے بعد لوگوں کی اصلاح کے لئے قیام کرے گا _ اورزمین کو عدل و انصاف سے بھردیگا یہ موضوع روایات میں مختلف تعبیروں میں بیان ہوا ہے :

مثلاً: مہدی حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں ، مہدی حضرت صادق کی چھٹی اولاد ہیں ، مہدی موسی کاظم (ع) کی پانچویں اولاد ہیں ، مہدی امام رضا (ع) کی چوتھی اولاد ہیں مہدی امام محمد تقی کی تیسری اولاد ہیں _

ب _ بہت سی احادیث میں اس بات کی تصریح ہوئی ہے کہ مہدی موعود گیارہویں امام حسن عسکری کے بیٹے ہیں ، بطور مثال ملا حظہ فرمائیں :

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455