آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181857 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

بات ناگوار ہی کیوں نہ ہو _ مہدی ایک زمانہ تک غیبت میں رہیں گے _ غیبت کے زمانہ میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن کچھ لوگ ثابت قدم رہیں گے اور اس راہ میں مصیبتیں اٹھائیں گے سرزنش کے طور پر ان سے کہا جائے گا ، اگر تمہارا عقیدہ صحیح ہے تو تمہارا امام موعود کب انقلاب برپا کرے گا؟ لیکن جان لو کہ جوان کی غیبت کے زمانہ میں دشمنوں کے طعن و تشنیع کو برداشت کرے گا اس کی مثال اس شخص کی ہے جس نے رسول خدا کے ہمراہ تلوار سے جنگ کی(۱) اس سلسلے میں آپ کی تیرہ حدیثیں اورہیں _

امام زین العابدین (ع) نے مہدی (عج) کی خبردی

امام زین العابدین (ع) نے فرمایا: لوگوں پر ہمارے قائم کی ولادت آشکار نہیں ہوگی یہاں تک وہ یہ کہنے لگیں گے کہ ابھی پیدا ہی نہیں ہوئے ہیں _ ان کے مخفی ہونے کی وجہ یہ ہے کہ جب وہ اپنی تحریک کا آغاز کریں اس وقت کسی کی بیعت میں نہ ہوں(۲) دس حدیثیں اورہیں _

حضرت امام باقر (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت امام محمد باقر (ع) نے ابان بن تغلب سے فرمایا: خدا کی قسم امامت وہ عہدہ ہے جو رسول خدا سے ہمیں ملا ہے _ پیغمبر کے بارہ امام ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع)

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۳۳ اثبات الہداة ج ۲ ص ۳۳۳ ، ص ۳۹۹_

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۳۵_

۶۱

کے اولاد سے ہوں گے _ مہدی بھی ہم ہی میں سے ہوگا اور آخری زمانہ میں دین کی حفاظت کرے گا(۱) ۶۲ حدیثیں اور ہیں _

امام صادق (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام صادق (ع) نے فرمایا : جو شخص وجود مہدی کے علاوہ تمام ائمہ کا اقرار کرتا ہے اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کہ تمام انبیاء کا معتقد ہے لیکن رسول (ص) خدا کی نبوت کا انکار کرتا ہے _ عرض کیا گیا : فرزند رسول (ع) مہدی کس کی اولاد سے ہوں گے ؟ فرمایا : ساتویں امام موسی بن جعفر کی پانچویں پشت میں ہوں گے ، لیکن غائب ہوجائیں گے اور تمہارے لئے ان کا نام لینا جائز نہیں ہے _۲_ ۱۲۳ حدیثیں اور ہیں _

امام موسی کاظم (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام موسی کاظم (ع) سے یونس بن عبدالرحمن نے سوال کیا : کیا آپ مہدی بر حق ہیں ؟ آپ (ع) نے فرمایا: میں قائم برحق ہوں لیکن جو قائم زمین کو خدا کے دشمنوں سے پاک کرے گا اور اس عدل و انصاف سے بھرے گا وہ میری پانچویں پشت میں ہے _ وہ دشمنوں کے خوف سے مدت دراز تک غیبت میں رہے گا _ زمانہ غیبت میں کچھ لوگ دین سے خارج ہوجائیں گے لیکن ایک جماعت اپنے عقیدہ پر ثابت و قائم رہے _ اس کے بعد فرمایا : خوش نصیب

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۲ ص۵۵۹_

۲_ بحارالانوار ج۵۱ ص ۱۴۳ اثبات الہداة ج ۶ ص ۳۰۴_

۶۲

ہیں وہ شیعہ جو امام زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں ہماری ولایت سے وابستہ اور ہمار ی محبت اور ہمارے دشمنوں سے بیزاری میں ثابت قدم رہیں گے وہ ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں وہ ہماری امامت سے راضی اور ہم ا ن کے شیعہ ہونے سے راضی ہیں یقینا خوش نصیب ہیں وہ لوگ ، خدا کی قسم وہ جنت میں ہمارے ساتھ ہوں گے(۱) پانچ حدیثیں اورہیں _

امام رضا(ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

حضرت اما م رضا (ع) سے ریان بن صلت نے دریافت کیا تھا : کیا آپ (ع) ہی صاحب الامر ہیں ؟ فرمایا : میں صاحب الامر ہوں لیکن میں وہ صاحب الامر نہیں ہوں جو زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا _ میری اس ناتوانی کے باوجود جسے تم مشاہدہ کررہے ہو کیسے ممکن ہے کہ میں وہی صاحب الامر ہوں ؟ قائم وہ ہے جو بڑھاپے کی منزل میں ہے لیکن جوان کی صورت میں ظاہر ہوگا وہ اتنا طاقتور اور قوی ہے کہ اگر روئے زمین کے بڑے سے بڑے درخت کو ہاتھ لگا دے تو اکھڑجائے _ اور اگر پہاڑوں کے درمیان نعرہ بلند کرے تو بڑے بڑے پتھر چورچور ہوکر بکھر جائیں ، اس کے پاس موسی کا عصا اورجناب سلیمان کی انگوٹھی ہے ، وہ میری چوتھی پشت میں ہے ،جب تک خدا چاہے گا اسے غیبت میں رکھے گا _ اس کے بعد ظہور کا حکم دے گا اور اس کے ذریعہ زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی(۲) ۱۸ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۵۱ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۷_

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۲۲ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۱۹_

۶۳

امام محمد تقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام محمد تقی (ع) نے عبدالعظیم حسنی سے فرمایا : قائم ہی مہدی موعود ہے کہ غیبت کے زمانہ میں ان کا انتظار اور ظہور کے زمانہ میں ان کی اطاعت کرنی چاہئے اور وہ میری تیسری پشت میں ہے _ قسم اس خدا کی جس نے محمد (ص) کو رسالت او رہمیں امامت سے سرفراز کیا ہے _ اگر دنیا کی عمر کا ایک ہی دن باقی بچے گا تو بھی خدا اس دن کو اتنا طویل بنادے گا کہ جس میں مہدی ظاہر ہوگا اور زمین کو اسی طرح عدل و انصاف سے پر کرے گاجیسا کہ ظلم و جور سے بھری ہوگی _ خداوند عالم ایک رات میں ان کی کامیابی کے اسباب فراہم کریگا جیسا کہ اپنے کلیم موسی کی کامیابی کے اسباب ایک ہی رات میں فراہم کئے تھے_ موسی (ع) بیوی کے لئے آگ لینے گئے تھے لیکن منصب رسالت لیکر پلٹے _ اس کے بعد امام نے فرمایا: فرج کا انتظار ہمارے شیعوں کا بہترین عمل ہے(۱) پانچ حدیثیں اور ہیں _

امام علی نقی (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام علی نقی نے فرمایا : میرے بعد میرا بیٹا حسن (ع) امام ہے اور حسن (ع) کے بعد ان کے بیٹے قائم ہیں جو کہ روئے زمین پر عدل و انصاف پھیلائیں گے(۲) پانچ حدیثیں اورہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۵۶ اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۰_

۲_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰ اثبات الہداة ج۶ ص ۴۲۷_

۶۴

اما م حسن عسکری (ع) نے مہدی (عج) کی خبر دی

امام حسن عسکری نے موسی بن جعفر بغدادی سے فرمایا: گویا میںدیکھ رہا ہوں کہ تم لوگ میرے جانشین کے بارے میں اختلاف کررہے ہو لیکن یادرہے جو شخص پیغمبر کے بعد تمام ائمہ پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے اور صرف میرے بیٹے کی امامت کا انکار کرتا ہے تو وہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی تمام انبیاء پر ایمان و اعتقاد رکھتا ہے لیکن محمد (ص) کی رسالت کا منکرہے کیونکہ ہم سے آخری امام کی اطاعت ایسی ہی ہے جیسے اولی کی _ پس جو شخص ہمارے آخری امام کا انکار کریگا گویا اس نے پہلے کا بھی انکار کردیا _ جان لو میرے بیٹے کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ لوگ شک میں پڑجائیں گے مگر یہ کہ خدا ان کے ایمان کو محفوظ رکھے(۱) ۲۱ حدیثیں اورہیں _

کیا احادیث مہدی صحیح ہیں؟

انجینئر : ہم ان حدیثوں کو اسی وقت قبول کرسکتے ہیں جب وہ صحیح اور معتبر ہوں کیا مہدی کے متعلق یہ تمام حدیثیں صحیح ہیں؟

ہوشیار: میں یہ دعوی نہیں کرتا کہ مہدی سے متعلق تمام حدیثیں صحیح اور ان کے تمام راوی ثقہ و عادل ہیں _ لیکن اچھی خاصی تعداد صحیح احادیث کی ہے _ البتہ تمام احادیث کی طرح ان میں بھی بعض صحیح ، کچھ حسن ، موثق اور چند ضعیف ہیں _ ان میں سے ہر ایک کی تحقیق اور ان کے راویوں کے حالات کی چھان بین کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ آپ

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۱ ص ۱۶۰اثبات الہداة ج ۶ ص ۴۲۷_

۶۵

ملاحظہ فرما چکے ہیں کہ ان کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ جو بھی غیر جانب دارانہ اور انصاف کیساتھ ان سے رجوع کرے گا اسے اس بات کا یقین حاصل ہوجائے گا کہ ان سب کی دلالت اس بات پر ہے کہ وجود مہدی اسلام کے ان مسلّم عقائد و موضوعات میں سے ہے کہ جن کا بیج خودسرور کائنات نے بویا اور ائمہ نے اس کی آبیاری کی ہے _ یقین کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وجود مہدی کے بارے میں اسلام میں جتنی حدیثیں وارد ہوئی ہیں اتنی کسی اور موضوع کے لئے وارد نہیں ہوئی ہوں گی _

واضح رہے کہ ابتدائے بعثت سے حجة الوداع تک پیغمبر اکرم (ص) نے سیکڑوں بارمہدی کے بارے میں گفتگو کی ہے _ علی بن ابی طالب نے ان کی خبر دی ، فاطمہ زہراء نے خبر دی ہے اور رسول کے اہل بیت اور نبوت کے رازداروں نے امام حسن (ع) ، اما م حسین (ع) ، امام زین العابدین (ع) ، امام محمد باقر ، امام جعفر صادق (ع) ، امام موسی کاظم (ع) ، امام رضا (ع) ، امام محمد تقی (ع) ، امام علی نقی اور امام حسن عسکری نے ان کی خبر دی ہے _ عہد رسول (ص) کے لوگ ان کے انتظار میں دن گنتے تھے یہاں تک کہ کبھی تو بعض لوگ کسی کو اس کا حقیقی سمجھ بیٹھے تھے_ ان سے متعلق شیعہ اور اہل سنت نے احادیث نقل کی ہیں ۷اشعری اور معتزلیہ نے قلم بند کی ہیں _ ان کے راویوں میں عرب ، عجم ، مکی ،مدنی ، کوفی ، بغدادی ، بصری، قمی، کرخی ، خراسانی نیشاپوری و غیرہ شامل ہیں _ کیا ان ہزاروں سے زائد احادیث کے باوجود کوئی منصف مزاج وجود مہدی کے بارے میں شک کرے گا اور یہ کہے گا کہ یہ احادیث متعصب شیعوں نے جعل کرکے پیغمبر کی طرف منسوب کردی ہیں؟

رات کافی گز رچکی تھی اورمذاکرات کا وقت ختم ہوچکا تھا لہذا مزید گفتگو کو آئندہ ہفتہ کی شب میں ہونے والے جلسہ پر موقوف کردیا _

۶۶

تصوّر مہدی"

احباب یکے بعد دیگرے فہیمی صاحب کے مکان پر جمع ہوئے جب سابق مختصرضیافت کے بعد ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی _ انجینئر صاحب نے گفتگو کا آغاز کیا :

انجینئر: مجھے یاد آتا ہے کہ کسی نے لکھا تھا کہ اسلامی معاشرہ میں مہدویت اور غیبی مصلح کا تصوّر یہود اور قدیم ایرانیوں سے سرایت کرآیا ہے _ ایرانیوں کا خیال تھا کہ زردتشت کی نسل سے '' سالوشیانت'' نام کا ایک شخص ظاہر ہوگا جو اہریمن کو قتل کرکے پوری دنیا کو برائیوں سے پاک کرے گا _ لیکن چونکہ یہودیوں کا ملک دوسروں کے قبضہ میں چلا گیا تھا اور ان کی آزادی سلب ہوگئی تھی ، زنجیروں میں جکڑگئے تھے ، لہذا ان کے علماء میں سے ایک نے یہ خوش خبری دی کہ مستقبل میں دنیا میں ایک بادشاہ ہوگا وہی زردشتیوں کو آزادی دلائے گا _

چونکہ مہدویت کی اصل یہود و زردشتیوں میں ملتی ہے _ اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ ان سے مسلمانوں میں آیا ہے ورنہ اس کی ایک افسانہ سے زیادہ حقیقت نہیں ہے _

ہوشیار : یہ بات صحیح ہے کہ دوسری اقوام و ملل میں بھی یہ عقیدہ تھا اور ہے لیکن یہ اس بات کا ثبوت نہیں ہے کہ یہ عقیدہ خرافات میں سے ہے

۶۷

کیا یہ ضروری ہے کہ اسلام کے تمام احکام و عقائد اسی وقت صحیح ہوسکتے ہیں جب وہ گزشتہ احکام وعقائد کے خلاف ہوں ؟ جو شخص اسلام کے موضوعات میں سے کسی موضوع کی تحقیق کرناچاہتا ہے تو اسے اس موضوع کے اصلی مدارک و ماخذ سے رجوع کرنا چاہئے تا کہ اس موضوع کا سقم و صحت واضح ہوجائے _ اصلی مدارک کی تحقیق اورگزشتہ لوگوں کے احکام و عقائدکی چھان بین کے بغیر یہ شور بر پا نہیں کرنا چاہئے کہ میں نے اس باطل عقیدہ کی اصلی کا سراغ لگالیا ہے _

کیا یہ کہا جا سکتا ہے چونکہ زمانہ قدیم کے ایرانی یزدان کا عقیدہ رکھتے تھے اور حقیقت کو دوست رکھتے تھے _ لہذا خدا پرستی بھی ایک افسانہ ہے اور حقیقت و صداقت کبھی مستحسن نہیں ہے ؟

لہذا صرف یہ کہکر کہ دوسرے مذاہب و ملل بھی مصلح غیبی اور نجات دینے والے کے منتظر تھے _ مہدویت کے عقیدہ کو باطل قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی اتنی بات سے اس کی صحت ثابت کی جا سکتی ہے _

رجحان مہدویت کی پیدائشے کے اسباب

فہیمی : ایک صاحب قلم نے عقیدہ مہدویت کے وجود میں آنے کی بہترین توجیہ کی ہے ، اگر اجازت ہو تو میں اس کا لب لباب بیان کروں؟

حاضرین : بسم اللہ :

فہیمی : عقیدہ مہدویت شیعوں نے دوسرے مذاہب سے لیا اور اس میں کچھ چیزوں کااضافہ کردیا ہے چنانچہ آج مخصوص شکل میں آپ کے سامنے ہے _ اس عقیدہ کی ترقی

۶۸

اور وسعت کے دو اسباب ہیں:

الف: غیبی نجات دینے والے کا ظہور اوراس کا پیدائشے کا عقیدہ یہودیوں میں مشہور تھا اور ہے _ ان کا خیال تھا کہ جناب الیاس آسمان پرچلے گئے ہیں اور آخری زمانہ میں بنی اسرائیل کو نجات دلانے کے لئے زمین پر لوٹ آئیں گے چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ''ملک صیدق'' اور فنحاس بن العاذار'' آج تک زندہ ہے _

صدر اسلام میں ''مادی فوائد کے حصول'' اور اسلام کی بنیادوں کو کھوکھلا بنانے کی غرض سے یہودیوں کی ایک جماعت نے اسلام کا لباس پہن لیاتھا اور اپنے مخصوص حیلہ و فریب سے مسلمانوں کے درمیان حیثیت پیدا کرلی تھی اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کے درمیان تفرقہ اندازی ، اپنے عقائد کی اشاعت اور استحصال کے علاوہ اور کچھ نہ تھا ، ان ہی میں سے ایک عبداللہ ابن سبا ہے جس کو ان کی نمایان فرد تصور کرنا چاہئے _

ب: رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ (ص) کے اہل بیت (ع) وقر ابتدار منجملہ علی بن ابیطالب خود کو سب سے زیادہ خلافت کا حق دار سمجھتے تھے _ چند اصحاب بھی ان کے ہم خیال تھے _ لیکن ان کی توقع کے برخلاف حکومت خاندان رسالت سے چھن گئی ، جس سے انھیں بہت رنج وصدمہ پہنچا _ یہاں تک کہ جب حضرت علی (ع) کے ہاتھوں میں زمام خلافت آئی تو وہ مسرور ہوئے اوریہ سمجھنے لگے کہ اب خلافت اس خاندان سے باہر نہ جائے گی _ لیکن علی (ع) داخلی جنگوں کی وجہ سے اسے کوئی ترقی نہ دے سکے نتیجہ میں ابن ملجم نے شہید کردیا پھر ان کے فرزند حسن (ع) بھی کامیاب نہ ہوسکے ، آخر کار خلافت بنی امیہ کے سپردکردی _ رسول (ص) خدا کے دو فرزند حسن و حسین خانہ نشینی کی زندگی بسر کرتے تھے اور اسلام کی حکومت و اقتدا ر دوسروں کے ہاتھ میں تھا رسول(ص) کے اہل بیت اور ان کے ہمنوا

۶۹

فقر و تنگ دستی کی زندگی گزار تے اور مال غنیمت ، مسلمانوں کا بیت المال بنی امیہ اور بنی عباس کی ہوس رانی پر خرچ ہوتا تھا _ ان تمام چیزوں کی وجہ سے روز بروز اہل بیت کے طرفداروں میں اضافہ ہوتا گیا اور گوشہ و کنار سے اعتراضات اٹھائے جانے لگے دوسری طرف عہد داروں نے دل جوئی اور مصالحت کی جگہ سختی سے کام لیا اور انھیں دار پر چڑھایا ، کسی کو جلا وطن کیا اور باقی قید خانوں میں ڈالدیا _

مختصر یہ کہ رسول(ص) کی وفات کے بعد آپ کے اہل بیت اور ان کے طرفداروں کو بڑی مصیبتیں اٹھنا پریں ، فاطمہ زہرا کو باپ کی میراث سے محروم کردیا گیا _ علی (ع) کو خلافت سے دور رکھا گیا ، حسن بن علی (ع) کو زہر کے ذریعہ شہید کردیا گیا _ حسین بن علی (ع) کو اولاد و اصحاب سمیت کربلا میں شہید کردیا گیا اور ان کے ناموس کو قیدی بنالیا گیا ، مسلم بن عقیل اور ہانی کو امان کے بعد قتل کرڈالا ، ابوذر کو ربذہ میں جلا وطن کردیا گیا اور حجر بن عدی ، عمروبن حمق ، میثم تمار، سعید بن جبیر ،کمیل بن زیاد اور ایسے ہی سیکڑوں افراد کو تہہ تیغ کردیا گیا _ یزید کے حکم سے مدینہ کو تاراج کیا گیا ایسے ہی اور بہت سے ننگین واقعات کے وجود میں آئے کہ جن سے تاریخ کے اوراق سیاہ ہیں _ ایسے تلخ زمانہ کو بھی شیعیان اہل بیت نے استقامت کے ساتھ گزارا اور مہدی کے منتظر رہے _ کبھی غاصبوں سے حق لینے اور ان سے مبارزہ کیلئے علویوں میں سے کسی نے قیام کیا _ لیکن کامیابی نہ مل سکی اور قتل کردیا گیا _ ان ناگوار حوادث سے اہل بیت کے قلیل ہمنوا ہر طرف سے مایوس ہوگئے اور اپنی کامیابی کا انھیں کوئی راستہ نظر نہ آیا ، تو وہ ایک امید دلانے والا منصوبہ بنانے کے لئے تیار ہوئے _ ظاہر ہے کہ مذکورہ حالات و حوادث نے ایک غیبی نجات دینے والے اور مہدویت کے عقیدہ کو قبول کرنے کیلئے مکمل طور پر زمین ہموار کردی تھی _

۷۰

اس موقع سے نو مسلم یہودیوں اور ابن الوقت قسم کے لوگوں نے فائدہ اٹھایا اور اپنے عقیدہ کی ترویج کی یعنی غیبی نجات دینے والے کے معتقد ہوگئے _ ہرجگہ سے مایوس شیعوں نے اسے اپنے درددل کی تسکین اور ظاہری شکست کی تلافی کے لئے مناسب سمجھا اور دل و جان سے قبول کرلیا لیکن اس میں کچھ رد وبدل کرکے کہنے لگے : وہ عالمی مصلح یقینا اہل بیت سے ہوگا _ رفتہ رفتہ لوگ اس کی طرف مائل ہوئے اور اس عقیدہ نے موجودہ صورت اختیا رکرلی _(۱)

توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے

ہوشیار: اہل بیت (ع) اور ان شیعوں سے متعلق آپ نے جو مشکلیں اور مصیبتیں بیان کی ہیں وہ بالکل صحیح ہیں لیکن تحلیل و توضیح کی ضرورت اس وقت پیش آتی جب ہمیں مہدویت کے اصلی سرچشمہ کا علم نہ ہوتا _ لیکن جیسا کہ آپ کو یا دہے _ ہم یہ بات ثابت کرچکے ہیں کہ خود پیغمبر اکرم(ص) نے اس عقیدہ کو مسلمانوں میں رواج دیا اور ایسے مصلح کی پیدائشے کی بشارت دی ہے چنانچہ اس سلسلے میں آپ (ص) کی احادیث کو شیعوں ہی نے نہیں ، بلکہ اہل سنّت نے بھی اپنی صحاح میںدرج کیا ہے _ اس مطلب کے اثبات کے لئے کسی توجیہہ کی ضرورت نہیں ہے _

اپنی تقریر کی ابتداء میں آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ عقیدہ یہودیوں کے درمیان مشہور تھا _ یہ بھی صحیح ہے لیکن آ پ کی یہ بات صحیح نہیں ہے کہ اس عقیدہ کو ابن سبا جیسے

____________________

۱_ المہدیہ فی الاسلام ص ۴۸_۶۸

۷۱

یہودیوں نے مسلمانوں کے درمیان فروغ دیا ہے کیونکہ ہم پہلے کہہ چکے ہیں کہ عالمی مصلح کی پیدائشے کی بشارت دینے والے خود نبی اکرم (ص) ہیں ، ہاں یہ ممکن ہے کہ مسلمان ہونے والے یہودیوں نے بھی اس کی تصدیق کی ہو _

عبداللہ بن سبا

اس بات کی وضاحت کردینا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ عبداللہ بن سبا تاریخ کے مسلّمات میں سے نہیں ہے _ بعض علماء نے اس کے وجود کو شیعوں کے دشمنوں کی ایجاد قراردیا ہے اور اگر واقعی ایسا کوئی شخص تھا تو ان باتوں کا کوئی ثبوت نہیں ہے جن کو اسکی طرف منسوب کیا جاتا ہے کیونکہ کوئی عقلمند اس بات کو قبول نہیں کرسکتا کہ ایک نو مسلم یہودی نے ایسی غیر معمولی صلاحیت و سیاست پیدا کرلی تھی کہ وہ اس گھٹن کے زمانہ میں بھی کہ جب کوئی فضائل اہل بیت کے سلسلے میں ایک بات بھی کہنے کی جرات نہیں کرتا تھا اس وقت ابن سبا نے ایسے بنیادی اقدامات کئی اور مستقل تبلیغات اور وسائل کی فراہمی سے لوگوں کو اہل بیت کی طرف دعوت دی اور خلیفہ کے خلاف شورش کرنے اور ایسا ہنگامہ برپاکرنے پر آمادہ کیا کہ لوگ خلیفہ کو قتل کردیں اور خلیفہ کے کارندوں اور جاسوسوں کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہو _ آپ کے کہنے کے مطابق ایک مسلم یہودی نے ان کے عقیدہ کی بنیادیں اکھاڑدیں اور کسی شخص میں ہمت دم زدن نہیں ہوئی ایسے کارناموں کے حامل انسان کا وجود صرف تصورات کی دنیا میں تو ممکن ہے _(۱)

____________________

۱_ محققین '' نقش وعاظ در اسلام '' مولفہ ڈاکٹر علی الوردی ترجمہ خلیلیان ص ۱۱۱_۱۳۷_ عبداللہ بن سبا مولفہ سید مرتضی عسکری اور '' علی و فرزندانش '' مولفہ ڈاکٹر طہ حسین ترجمہ خلیلی ص ۱۳۹ _۱۴۳ سے رجوع فرمائیں _

۷۲

مہدی تمام مذاہب میں

انجینئر مہدی موعود کا عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص ہے یا یہ عقیدہ تمام مذاہب میں پایا جاتا ہے ؟

ہوشیار: مذکورہ عقیدہ مسلمانوں سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام آسمانی مذاہب میں یہ عقیدہ موجود ہے _ تمام مذاہب کے ماننے والوں کا عقیدہ ہے کہ تاریک و بحرانی زمانہ میں، جب ہرجگہ فساد و ظلم اور بے دینی پھیل جائے گی ، ایک دنیا کو نجات دلانے والا ظہور کرے گا اور بے پناہ غیبی طاقت کے ذریعہ دنیا کے آشفتہ حالات کی اصلاح کرے گا اور بے دینی و مادی رجحان کو ختم کرکے خداپرستی کو فروغ دے گا اور یہ بشارت ان تمام کتابوں میں موجود ہے جو کہ آسمانی کتاب کے عنوان سے باقی ہیں جیسے زردشتیوں کی مقدس کتاب '' زندوپازند'' ''جاماسنامہ'' یہودیوں کی مقدس کتاب توریت اور اس کے ملحقات میں عیسائیوں کی مقدس کتاب انجیل میں بھی اس کو تلاش کیا جا سکتا ہے نیز برہمنوں اور بودھ مذہب کی کتاب میں بھی کم و بیش اس کا تذکرہ ہے _

یہ عقیدہ سارے مذاہب و ملتوں میں موجود ہے اور وہ ایسے طاقتور غیبی موعود کے انتظار میں زندگی بسر کرتے ہیں _ ہر مذہب والے اسے مخصوص نام سے پہچانتے ہیں زردشتی سوشیانس _ دنیا کو نجات دلانے والا _ یہودی سرور میکائیلی _ عیسائی

۷۳

مسیح موعود اور مسلمان مہدی موعود کے نام سے پہچانتے ہیں لیکن ہر قوم یہ کہتی ہے کہ وہ غیبی مصلح ہم میں سے ہوگا _ زردشتی کہتے ہیں وہ ایرانی اور مذہب زردشت کا پیروکار ہوگا یہودی کہتے ہیں وہ بنی اسرائیل سے ہوگا اور موسی کا پیروہوگا ، عیسائی اپنے میں شمار کرتے ہیں اور مسلمان بنی ہاشم اور رسول (ص) کے اہل بیت میں شمار کرتے ہیں _ اسلام میں اس کی بھر پور طریقہ سے شناخت موجود ہے جبکہ دیگر مذاہب نے اس کی کامل معرفت نہیں کرائی ہے _

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس دنیا کو نجات دینے والے کی جو علامتیں اور مشخصات دیگرمذاہب میں بیان ہوئے ہیں وہ اسلام کے مہدی موعود یعنی امام حسن عسکری کے فرزند پر بھی منطبق ہوتے ہیں ، انھیں ایرانی ناد بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ آپ کے جد امام زین العابدین کی والدہ شہر بانو ساسانی بادشاہ یزدجرکی بیٹی تھیں اور بنی اسرائیل جناب اسحق (ع) کی اولاد ہیں _ اس لحاظ سے بنی ہاشم و بنی اسرائیل کو ایک خاندان کہا جاتا ہے _ عیسائیوں سے بھی ایک نسبت ہے کیونکہ بعض روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ روم کی شہزادی جناب نرجس کے بطن سے ہوں گے _

اصولی طور پر یہ بات صحیح نہیں ہے کہ ہم دنیا کے نجات دلانے والے کو کسی ایک قوم سے مخصوص کردیںکہ جس سے قومی اختلاف پیدا ہو ، اس قوم سے ہیں اس سے نہیں ، اس ملک کا باشندہ ہے اس کا نہیں ہے، اس مذہب سے تعلق رکھتا ہے دوسروں سے نہیں _ اس بناپر مہدی موعود کو عالمی کہنا چاہئے _ وہ ساری دنیا کے خداپرستوں کو نجات دلائیں گے _ ان کی کامیابی ، تمام انبیاء اور صالح انسانوں کی

۷۴

کامیابی ہے _ ترقی یافتہ دین ، دین اسلام ، ابراہیم ، موسی ، عیسی اور تمام آسمانی مذاہب کی حمایت کرتا ہے اور موسی و عیسی کے حقیقی دین و مذہب ، کہ جنہوں نے محمد (ص) کی آمد کی بشارت دی ہے کا حامی ہے _

واضح رہے مہدی موعود کی بشارتوں کے ثابت کرنے کے لئے ہم قدیم کتابوں سے استدلال نہیں کرتے ہیں _ اس کی ضرورت بھی نہیں ہے _ ہم تو یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ایک غیر معمولی عالمی نجات دہندہ کے ظہور کا عقیدہ تمام ادیان و مذاہب کا مشترک عقیدہ ہے جس کا سرچشمہ وحی ہے اور تمام انبیاء نے اس کی بشارت دی ہے ساری قومیں اس کی انتظار میں ہیں لیکن اس کی مطابقت میں اختلاف ہے _

۷۵

قرآن اور مہدویت

فھیمی : اگر مہدویت کا عقیدہ صحیح ہوتا تو قرآن میں بھی اس کا ذکر ہوتا جبکہ اس آسمانی کتاب میں لفظ مہدی بھی کہیں نظر نہیں آتا _

ھوشیار : اول تویہ ضروری نہیں ہے کہ ہر صحیح موضوع اپنی تمام خصوصیات کے ساتھ قرآن میں بیان ہو _ ایسی بہت سی صحیح چیزیں ہیں کہ جن کا آسمانی کتاب میں نام و نشان بھی نہیں ملتا _ دوسرے اس مقدس کتاب میں چند آیتیں ہیں جو اجمالی طور پر ایک ایسے دن کی بشارت دیتی ہیں کہ جس میں حق پرست ، اللہ والے ، دین کے حامی اور نیک و شائستہ افراد زمین کے وارث ہوں گے اور دین اسلام تمام مذاہب پر غالب ہوگا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں :

سورہ انبیاء میں ارشاد ہے :

ہم نے توریت کے بعد زبور میں بھی لکھد یا ہے کہ ہمار ے شائستہ اور شریف بند ے زمین کے وارث ہوں گے ۱_

سورہ ء نور میں ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے

____________________

۱ _ انبیاء / ۱۰۵

۷۶

وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین میں سی طرح خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے کے لوگوں کو بنا یا تھا ، تا کہ اپنے پسندیدہ دین کو استوار کردے اور خوف کے بعد انھیں مطمئن بنادے تا کہ وہ میری عبادت کریں اور کسی کو میرا شریک قرار نہ دیں(۱)

سورہ ء قصص میں ارشاد ہے :

ہمارا ارادہ ہے کہ ان گوں پر احسان کریں ، جنھیں روئے زمین پر کمزور بناد یا گیا ہے اور ، انھین زمین کا وارث قرار دیں(۲)

سورہ ء صف میں ارشاد ہے :

خداوہی ہے جس نے اپنے رسول(ع) کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ مبعوث کیا تا کہ دین حق تمام ادیان و مذاہب ، پر غالت ہو جائے اگر چہ مشر کوں کو یہ نا گوار ہی کیوں نہ ہو(۳)

ان آیتوں سے اجمالی طور پر یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ دنیا پر ایک دن ایسا آئے گا جس میں زمین کی حکومت کی زمام مومنوں اور صالح لوگوں کے ہا تھوں میں ہوگی اور وہی تمدن بشریت کے میر کارواں ہوں گے _ دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوجائے گا اور شرک کی جگہ خدا پرستی ہوگی _ یہی درخشاں زمانہ مصلح غیبی منجی بشریت مہدی موعود کے انقلاب کادن ہے اور یہ عالمی انقلاب صالح مسلمانوں کے ذریعہ آئے گا _

____________________

۱_ نور / ۵۵۰

۲_ قصص / ۴

۳ _صف / ۹

۷۷

نبوّت عامہ اور امامت

فھیمی : میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ شیعہ ایک امام کے وجودکوثابت کرنے پر کیوں مصر ہیں ؟ اپنے عقیدہ کے سلسے میں آپ اتنی جد و جہد کرتے ہیں کہ : اگر امام ظاہر نہیں ہے تو پردہ غیبت میں ہے _ اس بات کے پیش نظر کہ انبیاء نے احکام خدا کو لوگوں کے سامنے مکمل طور پر پیش کرہے _ اب خدا کو کسی امام کے وجود کی کیا ضرورت ہے ؟

ہوشیار: جو دلیل نبوت عامہ کے اثبات پر قائم کی جاتی ہے اور جس سے یہ بات ثابت کی جاتی ہے کہ خدا پر احکام بھیجنا واجب ہے اس دلیل سے امام ، حجت خدا اور محافظ احکام کا وجود بھی ثابت ہوتا ہے _ اپنا مدعا ثابت کرنے کیلئے پہلے میں اجمالی طور پر نبوت عامہ کے برہان کو بیان کرتا ہوں _ اس کے بعد مقصد کا اثبات کروں گا _

اگر آپ ان مقدمات اور ابتدائی مسائل میں صحیح طریقہ سے غور کریں جو کہ اپنی جگہ ثابت ہوچکے ہیں تو ثبوت عاملہ والا موضوع آپ پرواضح ہوجائے گا _

۱_ انسان اس زاویہ پر پیدا کیا گیا ہے کہ وہ تن تنہا زندگی نہیں گزار سکتا بلکہ دوسرے انسانوں کے تعاون کامحتاج ہے _ یعنی انسان مدنی الطبع خلق کیا گیا ہے _

۷۸

اجتماعی زندگی گزارنے کیلئے مجبور ہے _ واضح ہے کہ اجتماعی زندگی میں منافع کے حصول میں اختلاف ناگزیر ہے _ کیونکہ معاشرہ کے ہر فرد کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ مادہ کے محدود و منافع سے مالامال ہوجائے اور اپنے مقصد کے حصول کی راہ میں رکاوٹ بننے والوں کو راہ سے ہٹادے جبکہ دوسرے بھی اسی مقصد تک پہنچنا چاہتے ہیں _ اس اعتبار سے منافع کے حصول میں جھگڑا اور ایک دوسرے پر ظلم و تعدی کا باب کھلتا ہے لہذا معاشرہ کو چلانے کیلئے قانون کا وجود ناگزیر ہے تا کہ قانون کے زیر سایہ لوگوں کے حقوق محفوظ رہیں اور ظلم و تعدی کرنے والوں کی روک تھام کی جائے اور اختلاف کا خاتمہ ہوجائے _ اس بنیاد پر یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ بشریت نے آج تک جو بہترین خزانہ حاصل کیا ہے وہ قانون ہے اور اس بات کا بھی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ انسان اپنی اجتماعی زندگی کے ابتدائی زمانہ سے ہی کم و بیش قانون کا حامل تھا اور ہمیشہ سے قانون کا احترام کرتا چلا آرہا ہے _

۲_ انسان کمال کا متلاشی ہے اور کمال و کامیابی کی طرف بڑھنا اس کی فطرت ہے _ وہ اپنی سعی مبہم کو حقیق مقصد تک رسائی اور کمالات کے حصول کیلئے صرف کرتا ہے ، اس کے افعال ، حرکات اور انتھک کوششیں اسی محور کے گرد گھومتی ہیں _

۳_ انسان چونکہ ارتقاء پسند ہے اور حقیقی کمالات کی طرف بڑھنا اس کی سرشت میں ودیعت کیا گیا ہے اس لئے اس مقصد تک رسائی کا کوئی راستہ بھی ہونا چاہئے کیونکہ خالق کوئی عبث و لغو کام انجام نہیں دیتا ہے _

۴_ یہ بھی ثابت ہوچکا ہے کہ انسان جسم و روح سے مرکب ہے جسم کے اعتبار سے مادی ہے _ لیکن روح کے ذریعہ ، جو بدن سے سخت ارتباط و اتصال رکھتی ہے ، وہ

۷۹

ترقی یافتہ ہے اور روح مجرّد ہے _

۵_ انسان چونکہ روح و بدن سے مرکب ہے اس لئے اس کی زندگی بھی لامحالہ دوقسم کی ہوگی : ایک دنیوی حیات کہ جس کا تعلق اس کے بدن سے ہے _ دوسرے معنوی حیات کہ جس کا ربط ا س کی روح اور نفسیات سے ہے _ نتیجہ میں ان میں سے ہر ایک زندگی کے لئے سعادت و بدبختی بھی ہوگی _

۶_ جیسا کہ روح اور بدن کے درمیان سخت قسم کا اتصال و ارتباط اور اتحاد برقرار ہے ایسا ہی دنیوی زندگی اور معنوی زندگی میں بھی ارتباط و اتصال موجود ہے _

یعنی دنیوی زندگی کی کیفیت ، انسان کے بدن کے افعال و حرکات اس کی روح پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں جب کہ نفسانی صفات و کمالات بھی ظاہر افعال کے بجالانے پر اثر انداز ہوتے ہیں _

۷_ چونکہ انسان کمال کی راہ پر گامزن ہے اور کمال کی طرف راغب ہونا اس کی فطرت میں داخل ہے ، خدا کی خلقت بھی عبث نہیں ہے _ اس لئے انسانی کمالات کے حصول اور مقصد تک رسائی کے لئے ایسا ذریعہ ہونا چاہئے کہ جس سے وہ مقصد تک پہنچ جائے اور کج رویوں کو پہچان لے _

۸_ طبعی طور پر انسان خودخواہ اور منفعت پرست واقع ہوا ہے ، صرف اپنی ہی مصلحت و فوائد کو مد نظر رکھتا ہے _ بلکہ دوسرے انسانوں کے مال کو بھی ہڑپ کرلینا چاہتا ہے اور ان کی جانفشانی کے نتیجہ کا بھی خودہی مالک بن جانا چاہتا ہے _

۹_ باوجودیکہ انسان ہمیشہ اپنے حقیقی کمالات کے پیچھے دوڑتا ہے اور اس حقیقت کی تلاش میں ہر دروازہ کو کھٹکھٹاتا ہے لیکن اکثر اس کی تشخیص سے معذور رہتا ہے

۸۰

کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اور درونی جذبات عقل عملی سے حقیقت کی تشخیص صلاحیت اور انسانیت کے سیدھے راستہ کو چھپادیتے ہیں اور اسے بدبختی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں _

کونسا قانون انسان کی کامیابی کا ضامن ہے ؟

چونکہ انسان اجتماعی زندگی گزار نے کیلئے مجبور ہے اور منافع میں اپنے بھائیوں سے مزاحمت بھی اجتماعی زندگی کالازمہ ہے لہذا انسانوں کے درمیان قانوں کی حکومت ہونا چاہئے تا کہ اختلاف و پراکندگی کا سد باب ہوجائے _ قانوں بھی معاشرہ کو اسی صورت میں چلا سکتا ہے کہ جب درج ذیل شرائط کا حامل ہوگا _

۱_ قوانین جامع و کامل ہوں تا کہ تمام اجتماعی و انفرادی امور میں ان کا نفوذ اور دخل ہو _ ان میں تمام حالات اور ضرورتوں کی رعایت کی گئی ہو ، کسی موضوع سے غفلت نہ کی گئی ہو ایسے قوانین کو معاشرہ کے افراد کی حقیقی اور طبیعی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہئے _

۲_ قوانین حقیقی کامیابی و کمالات کی طرف انسان کی راہنمائی کرتے ہوں ، خیالی کامیابی و کمالات کی طرف نہیں _

۳_ ان قوانین میں عالم بشریت کی سعادت و کامیابی کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور مخصوص افراد کے مفاد کو پور ا نہ کرتے ہوں _

۴_ وہ معاشرے کو انسانی کمالات و فضائل کے پایوں پر استوار کرتے ہوں اور اس کے اعلی مقصد کی طرف راہنمائی کرتے ہوں یعنی اس معاشرے کے افراد دنیوی زندگی کو انسانی فضائل و کمالات کا ذریعہ سمجھتے ہوں اور اسے ( دنیوی زندگی کو) مستقل ٹھکانا خیال نہ کرتے ہوں_

۸۱

۵_ وہ قوانین ظلم و تعدی اور ہرج و مرج کو رد کرکے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور تمام افراد کے حقوق کو پورا کرتے ہوں _

۶_ ان قوانین کی ترتیب و تدوین میں روح اور معنوی زندگی کے پہلوؤں کی بھی مکمل طور پر رعایت کی گئی ہو یعنی ان میں سے کوئی قانون بھی نفس اور روح کیلئے ضرر رساں نہ ہو اور انسان کو سیدھے راستہ سے منحرف نہ کرتا ہو _

۷_ معاشرے کو انسانیت کے سیدھے راستہ سے منحرف کرنے اور ہلاکت کے غار میں ڈھکیل دینے والے عوامل سے پاک و صاف کرتا ہو _

۸_ ان قوانین کا بنانے والا تزاہم ( ٹکراؤ) مصلحت اور مفاسد کو بھی اچھی طرح جانتا ہو _ زمان و مکان کے اقتضا سے واقف ہو _

انسان یقینا ایسے قوانین کا محتاج ہے اور یہ اس کی زندگی کے ضروریات میں شمار ہوتے ہیں اور قانون کے بغیر انسانیت تباہ ہے _ لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا بشر کے بنائے ہوئے قوانین اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں ؟

ہمار ا عقیدہ ہے کوتاہ فکر اور کوتاہ اندیش افراد گا بنایا ہوا قانون ناقص اور معاشرہ کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہے _ دلیل کے طور پر چند موضوعات پیش کئے جا سکتے ہیں _

۱_ انسان کے علم و اطلاع کا دائرہ محدود ہے _ عام آدمی مختلف انسانوں کی ضروریات خلقت کے رموز و اسرار خیر و شر کے پہلوؤں ، زمان و مکان کے اقتضاء کے اعتبار سے فعل و انفعالات ، تاثیر وتاثر اور قوانین کے تزاحم سے مکمل طور پر واقف

۸۲

نہیں ہے _

۲_ اگر بفرض محال قانون بنانے والے انسان ایسے جامع قانون بنانے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو بھی وہ دنیوی زندگی اور معنوی حیات کے عمیق ارتباط اور ظاہر حرکات کے نفس پر ہونے والے اثرات سے بے خبر ہیں اور کچھ آگہی رکھتے ہیں تو وہ ناقص ہے اصولی طور پر معنوی زندگی ، ان کے پروگرام سے ہی خارج ہے _ وہ بشریت کی خوش بختی اور سعادت مندی کو مادی امور میں محدود سمجھتے ہیں جبکہ ان دونوں زندگیوں میں گہرا ربط ہے اور جدائی ممکن نہیں ہے _

۲_ چونکہ انسان خودخواہ ہے لہذا دوسرے انسانوں کا استحصال طبیعی ہے چنانچہ نوع انسان کا ہر فرد اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر ترجیح دیتا ہے _ پس اختلاف اور استحصال کا سد باب کرنا اس کی صلاحیت سے باہر ہے ، کیونکہ قانون بنانے والے انسان کو اس کی خواہش ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے اور اپنے عزیزوں کے منافع و مفاد سے چشم پوشی کرکے لوگوں کی مصلحت کو مد نظر رکھے _

۴_ قانون بنانے والا انسان ہمیشہ اپنی کوتاہ نظری کے اعتبار سے قانون بناتا ہے اور انھیں اپنے کوتاہ افکار ، تعصبات اور عادتوں کے غالب میں ڈھالتاہے ، لہذا چند افراد کے منافع اور مفاد کے لئے قانون بتاتا ہے اور قانون بناتے وقت دوسروں کے نفع و ضرر کو ملحوظ نہیں رکھتا _ ایسے قوانین میں عام انسانوں کی سعادت کو مد نظر نہیں رکھا جاتا _ صرف خدا کے قوانین ایسے ہیں جو کہ انسان کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق اور خلقت کے رموز کے مطابق نبے ہیں ، ان میں ذاتی اغراض و مفاد او رکجی نہیں ہے اور ان میں عالم بشریت کی سعادت کو مد نظر نظر رکھا گیا ہے _ واضح ہے کہ انسان قانون الہی کا محتاج ہے

۸۳

اور خدا کے الطاف کا اقتضا یہ ہے کہ وہ مکمل پروگرام بنا کر اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بندوں تک پہنچائے _

سعادت اخروی

جس وقت انسان دن رات اپنی دنیوی زندگی میں سرگرم ہوتا ہے اسی وقت اس کے باطن میں بھی ایک سربستہ زندگی موجود ہوتی ہے _ ممکن ہے وہ اس کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو اور مکمل طور پر اسے فراموش کرچکا ہو _ اس مجہول زندگی کی بھی سعادت و شقاوت ہوتی ہے _ بر حق عقائد و افکار ، پسندیدہ اخلاق اور شائستہ اعمال روحانی ترقی او رکمال کا باعث ہوتے ہیں اور اسے سعادت و کمال کی منزل تک پہنچاتے ہیں جیسا کہ باطل عقائد ، برے اخلاق اور ناروا حرکتیں بھی نفس کی شقاوت و بدبختی کا سبب قرار پاتی ہیں _ اگر انسان ارتقاء کے سیدھے راستہ پر گامزن ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کے جوہر اور حقیقت کی پرورش کرتا اور اسے ترقی دیتا ، اپنے اصلی مرکز عالم نورانیت کی طرف پرواز کرتا ہے اور اگر روحانی کمالات اور پسندیدہ اخلاق کو اپنی حیوانی قوت و عادت اور خواہش نفس پر قربان کردیتا ہے اور ایک درندہ و ہوس راں دیوبن جاتاہے تو وہ ارتقاء کے سیدھے راستہ سے منحرف ہوجائے گا اور تباہی و بدبختی کے بیابان میں بھٹکتا پھرے گا _ پس معنوی حیات کے لئے بھی انسان ایک مکمل پروگرام اور معصوم راہنما کامحتاج ہے _ کسی کی مدد کے بغیر اس خطرناک راستہ کو طے نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اس کی عقل کواکثر صحیح فیصلہ کرنے اور حقیقت بینی سے باز رکھتی ہیں اور اسے ہلاکت کی طرف لے جاتی ہیں ، وہ اچھے کہ برا اور برے کو اچھا کرکے دکھاتی ہیں _

۸۴

صرف خالق کائنیات انسان کے حقیقی کمالات ، واقعی نیک بختی اور اس کے اچھے برے سے واقف ہے اور وہی اس کی نفس کی سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی کے عوامل سے بچانے کامکمل دستور العمل انسان کے اختیا رمیں دے سکتا ہے _ پس اخروی سعادت تک پہنچنے کے لئے بھی انسان خالق کائنات کا محتاج ہے _

اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ خدائے حکیم نے انسان کو ، جو کہ سعادت و بدبختی دونوں کی صلاحیت رکھتا ہے ، ہرگز خواہشات نفس اور حیوانی طاقت کا مطیع نہیں بنایا ہے اور جہالت و نادانی کے بیابان میں سرگرداں نہیںچھوڑا ہے _ بلکہ اس کے بے شمار الطاف کا اقتضا تھا کہ وہ اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعہ ایسے احکام ، قوانین اور مکمل دستور العمل جو کہ دنیوی و اخروی سعادت و کامیابی کا ضامن ہو ، انسانوں تک پہنچائے اور سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی سے انھیں آگاہ کرے تا کہ ان پر حجّت تمام ہوجائے اور مقصد تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہوجائے _

ترقی کا راستہ

انسان کی ترقی اور خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ، برحق عقائد ، اعمال صالح اور نیک اخلاق ہیں کہ جنھیں خدا نے انبیاء کے پاکیزہ قلوب پرنانزل کیا ہے تاکہ وہ انھیں لوگوں تک پہنچادیں لیکن یادرہے یہ راستہ کوئی وقتی اور تشریفاتی نہیں ہے کہ جس کا مقصد سے کوئی ربط نہ ہو بلکہ یہ حقیقی اور واقعی راستہ ہے کہ جس کا سرچشمہ عالم ربوبیت ہے جو بھی اس پر گامزن ہوتا ہے _ وہی اپنے باطن میں سیر ارتقاء کرتا ہے اور بہشت رضوان کی طرف پرواز کرتا ہے _

۸۵

بعبارت دیگر : دین حق ایک سیدھا راستہ ہے ، جو بھی اسے اختیار کرتا ہے اسکی انسانیت کامل ہوتی ہے اور وہ انسانیت کے سیدھے راستہ سے سرچشمہ کمالات کی طرف چلا جاتا ہے جو دیانت کے سیدھے راستے سے منحرف ہوجاتا ہے وہ مجبوراً انسانیت کے فضائل کی راہ کو گم کرکے حیوانیت کے کج راستہ پر لگ جاتا ہے _ حیوانیت و درندگی کے صفات کی تقویت کرتا اور راہ انسانیت کو طے کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے ایسے شخص کی زندگی دشوار ہوجاتی اور جہنم اس کی تقدیر بن جاتاہے _

عصمت انبیائ

خداوند عالم کے لطف کا اقتضا یہ ہے کہ لوگوں تک احکام اور ضروری قوانین پہچانے کے لئے انبیاء کو مبعوث کرے تا کہ وہ مقصد تخلیق کی طرف ان کی راہنمائی کریں _ خدا کا یہ مقصد اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے کہ جب اس کے احکام بغیر کسی تحریف _ بغیر کمی بیشی_ کے لوگوں تک پہنچ جائیں اور ان کا عذر بھی ختم ہوجائے _ اس لئے پیغمبر خطا و نسیان سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں یعنی خدا سے احکام لینے ، ان کا یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے محفوظ ہوتے ہیں _ اس کے علاوہ ان احکام پر انبیاء کو خود بھی عمل کرنا چاہئے تا کہ ان کے قول و عمل میں تضاد نہ ہو اور قول و عمل کے ذریعہ لوگوں کو حقیقی کمالات کی طرف دعوت دیں کہ ان کے پاس کو ئی عذر و بہانہ باقی نہ رہے اور راہ حق کی تشخیص میں ادھر ادھر نہ بھٹکین اور پھر پیغمبر ہی احکام خدا کا اتباع نہیں کریں گے تو ان کی تبلیغ کا بھی کوئی اثر نہ ہوگا ، لوگان پر اعتماد نہیں کریں گے ، کیونکہ وہ اپنی بات کے خلاف عمل کرتے ہیں اور اپنے عمل سے لوگوں کو احکام کے خلاف عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں

۸۶

اور یہ بات تو واضح ہے کہ عملی تبلیغ اگر قولی تبلیغ کے برابر نہیں تو کم بھی نہیں ہے _

ہمارے علوم و مدرکات خطا سے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ وہ حواس اور قوائے مدرکہ کے ذریعہ حاصل حاصل ہوتے ہیں اور حواس سے سرزد ہونے والی غلطی و خطا سب پر عیاں ہے _ لیکن لوگوں کی ہدایت کیلئے جو علوم و احکام خدا کی طرف سے وحی کے ذریعہ انبیاء پر نازل ہوتے ہیں _ ان کی یہ کیفیت نہیں ہے ، انھیں انبیاء نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ حاصل نہیں کیا ہے ورنہ ان کی معلومات میں خطاکار واقع ہونا ضروری ہوتا اور اس طرح لوگوں تک حقیقی احکام نہیں پہنچ سکتے تھے _ بلکہ ان کے علوم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عالم غیب سے ان کے قلب پر نازل ہوتے ہیں ، ان حقائق کو وہ علم حضوری کی صورت میں مشاہدہ کرتے ہیں اور جن چیزوں کا وہ دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں وہ ان پر عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں اور وہ انھیں لوگوں کے اختیار میں دیتے ہیں ، چونکہ انبیاء ان حقائق کا ادراک کرتے ہیں اسلئے ان کے سمجھنے اور یادر کھنے میں کوئی خطا واقع نہیں ہوتی _

اسی لئے وہ ان احکا م کی مخالفت اور عصیان سے بھی معصوم و محفوظ ہوتے ہیں ، اپنے علم پر عمل کرتے ہیں کیونکہ جو شخص عین حقائق اور اپنے کمالات و سعادت کا مشاہدہ کرتا ہے وہ یقین کے ساتھ اپنے مشاہدات پر عمل کرتا ہے اور ایسا انسان اپنے کمال کو نہیں گنواتا ہے _

امامت پر عقلی دلیل

نبوّت عامہ کی دلیل کی وضاحت کے بعد آپ اس بات کی ضرور تصدیق کریں گے کہ اسی برہان کا اقتضا یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر نہ ہو تو اس وقت کسی انسان کو نبی کا جانشین اور احکام خدا کا خزینہ دار ہونا چاہئے کہ جو احکام کی حفاظت اور ان کی تبلیغ

۸۷

میں کوشاں رہے _ کیونکہ انبیاء کی بعثت اور لوگوں تک احکام بھیجنے میں جو خدا کا مقصد ہے وہ اسی وقت پورا ہوگا اور اس کے الطاف کمال کوپہنچیں گے اور اس کے بندوں پرحجت تمام ہوگی جب اس کے تمام قوانین و احکام لوگوں میں بغیر کسی تحریف کے محفوظ رہیں گے _ پس پیغمبر کی عدم موجودگی میں لطف خدا کا اقتضاء یہ ہے کہ انسانوں میں کسی کو ان احکام کی حفاظت و نگہداری کا ذمہ داربنائے _

اس منتخب شخص کو بھی احکام لینے ، یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے معصوم ہونا چاہئے تا کہ خدا کا مقصد پورا ہوجائے اور اس کے بندوں پر اسکی حجت تمام ہوجائے _ احکام دین کو اس میں جلوہ گر ہونا چاہئے ، خود ان پر عمل پیرا ہونا چاہئے تا کہ دوسرے اپنے اعمال و اخلاق اور اقوال کی اس کے اعمال سے مطابقت کریں _ اس کا اتباع کریں ، اور راہ حقیقت کو تلاش کرنے میں کسی شک و تردد میں مبتلا نہ ہوں اور ہرطریقہ سے حجت تمام ہوجائے _ چونکہ وہ اس اہم ذمہ داری کے قبول کرنے میں خطا و اشتباہ سے معصوم ہے _ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ علوم کسب نہیں کئے ہیں اورلوگوں کے علوم سے بہت زیادہ مختلف ہیں ،بلکہ پیغمبر کی ہدایت سے اس کی چشم بصیرت چمک اٹھتی ہیں وہ دل کی آنکھوں سے انسانیت کے حقائق و کمالات کو مشاہدہ کرتا ہے اس لئے وہ بھی خطا سے محفوظ و معصوم ہے اور یہی حقائق و کمالات کا مشاہدہ ان کی عصمت کی علت ہے اور اپنے علوم و مشاہدات کے مطابق عمل کرنے کا باعث ہے اور علم و عمل کے ذریعہ لوگوں کا امام بنتا ہے _

بہ عبارت دیگر : نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے انسان کامل کا وجود ضروری ہے کہ جو خدا کے برحق عقائد کا معتقد اورانسانیت کے نیک اخلاق و صفات پر عمل پیراہو

۸۸

اور احکام دین پر عمل کرتاہو اور سب کو اچھی طرح جانتا ہو ، ان مراحل میں خطا و عصیان سے معصوم ہو ، علم و عمل کے ذریعہ تمام انسانی کمالات اس میں وجود پذیر ہوگئے ہوں اور وہ لوگوں کا امام ہو ں جس زمانہ میں ایسا شخص موجود نہ ہوگا اس زمانہ میں خدا کے وہ احکام ، جو کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوئے ہیں ، ختم ہوجائیں گے اور حق تعالی کے فیوض و غیبی امداد کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اور عالم ربوبیت و عالم انسانی میں کوئی رابطہ برقرار نہ رہے گا ں

بہ عبارت دیگر: نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے شخص کو موجود ہونا چاہئے جو کہ مستقل ، خدا کی تائید و ہدایت اور فیضان کا مرکز ہو اور وہ معنوی فیوض ، باطنی مدد کے ذریعہ ہر انسان کو اس کی استعداد کے مطابق مطلوبہ کمال تک پہنچائے اور احکام الہی کا خزینہ دار ہوتا کہ ضرورت کے وقت مانع نہ ہونے کی صورت میں لوگ اس کے علوم سے مستفید ہوں _ امام حجّت حق ، نمونہ دین اور انسان کامل ہے جو بشر کی توانائی کی حد تک خدائی معرفت رکھتا اور اس کی عبادت کرتا ہے _ اگر اس کا وجود نہ ہوگا تو خدا کی کامل معرفت اور عبادت نہ ہوگی _ امام کا قلب خدا کے علوم کا خزینہ دار اور اسرار الہی کا مخزن ہے ایک آئینہ کی مانند ہے کہ جس میں عالم ہستی کے حقائق جلوہ گر ہوتے ہیں تا کہ دوسرے ان حقائق کے انعکاس سے مستفید ہوں _

جلالی: دین کے احکام و قوانین کا طریقہ اسی میں منحصر نہیں ہے کہ ایک شخص ان سب کو جانتا ہو اور ان پر عمل کرتا ہو ، بلکہ اگر دین کے تمام احکام و قوانین کو مختلف لوگوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان میں سے ایک جماعت بعض احکام کا علم حاصل کرکے ان پر عمل پیرا ہو تو اس صورت میں بھی ، علم و عمل کے اعتبار سے دین کے تمام احکام لوگوں کے درمیان محفوظ رہیں گے _

۸۹

ہوشیار: آپ کا فریضہ دو اعتبار سے غلط ہے:

اول: گزشتہ بحثوں میں یہ بات کہی جا چکی ہے کہ نوع انسان کے درمیان ایک ممتاز انسان کو موجود ہونا چاہئے کہ جس میں انسانیت کے تمام ممکنہ کمالات جمع ہوں اور وہ دین کے سیدھے راستہ پرقائم ہو اور تعلیم و تربیت میں خدا کے علاوہ کسی کا محتاج نہ ہو _ اگرایسا کامل انسان لوگوں کے درمیان نہ رہے تو انسانیت کی کوئی غایت نہ ہوگی اور غایت کے بغیر نوع کا بتاہ ہونا یقینی ہے جبکہ آپ کے فرضیہ میں ایسا کامل انسان نہیں ہے کیونکہ ان اشخاص میں اگر چہ ایک بہت سے احکام کو جانتا اورا ن پر عمل کرتا ہے لیکن دین کے سیدھے راستہ پر ان میں سے کوئی بھی واقع نہیں ہوا ہے بلکہ سب جادہ حقیقت سے منحرف ہیں کیونکہ صراط مستقیم اور دین کے احکام کے درمیان ایک مضبوط و عمیق رابطہ برقرار ہے کہ جس کو منقطع کرنا ممکن نہیں ہے _

دوسرے : جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ جو قوانین خدا کی طرف سے انسان کی ہدایت کیلئے نازل ہوئے ہیں انھیں ہمیشہ ان کے درمیان محفوظ رہنا چاہئے یعنی ان میں :سی قسم کی تحریف ممکن نہ ہو اور تغیر و تبدل کے ہر خطرہ سے محفوظ ہوں تا کہ لوگ ان کے صحیح ہونے کو پورے اعتماد سے تسلیم کرلیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کا محافظ و خزینہ دار معصوم اور خطا و نسیان اور معصیت سے محفوظ ہو _ جبکہ آپ کے دونوں مفروضوں میں یہ چیز نہیں ہے کیونکہ خطا و نسیان اور معصیت ہر فرد سے سرزد ہوسکتی ہے _ نتیجہ میں خداوند عالم کے احکام تغیر و تبدل سے محفوظ نہیں ہیں اور خدا کی حجت تمام نہیں ہے اور بندوں کا عذر اپنی جگہ باقی ہے _

امامت حدیث کی نظر میں

ہوشیار: امامت سے متعلق جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ سب اہل بیت کی

۹۰

روایات میں موجود ہیں ، اگر تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو احادیث کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _ ان میں سے چند یہ ہیں:

ابوحمزہ کہتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کیا امام کے وجود کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: اگر زمین پر امام کا وجود نہ ہوگا تو دھنس جائے گی _(۱)

و شاء کہتے ہیں : میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : اما م کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: نہیں _ عرض کی : ہم تک روایت پہنچی ہے کہ زمین حجت خدا ، امام کے وجود سے اس وقت خالی ہوتی ہے جب خدا اپنے بندوں پر غضبناک ہوتا ہے _ امام رضا (ع) نے فرمایا کہ : زمین وجود امام سے خالی نہ ہوگی ورنہ دھنس جائے گی _(۲)

ابن طیا رکہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا : اگر زمین پر صرف دو انسان ہوں گے تو بھی ان میں سے ایک امام ہوگا _(۳)

حضرت ابوجعفر (ع) فرماتے ہیں : خدا کی قسم حضرت آدم (ع) کے انتقال کے وقت سے اس وقت تک خدا نے زمین کو اس امام کے وجود سے خالی نہ رکھا ہے جس سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور وہی لوگوں پر خدا کی حجت ہے _ زمین کبھی امام کے وجود سے خالی نہیں رہتی کیونکہ وہ بندوں پرخدا کی حجت ہے _(۴)

____________________

۱_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۲۴_

۲_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۴_

۳_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۵_

۴_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۳_

۹۱

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے : خدا نے ہمیں بہترین طریقہ سے خلق فرمایا ہے اور زمین و آسمان میں اپنے علم کاخزینہ دار قراردیا ہے ، درخت ہم سے ہم کلام ہوتے ہیں اور ہماری عبادت سے خدا کی عبادت ہوتی ہے اگر ہم نہ ہوتے تو خدا کی عبادت نہ ہوتی _(۱)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے : اوصیاء خدا علوم کے دروازے ہیں _ ان ہی کے ذریعہ دین میں داخل ہونا چاہئے اگر وہ نہ ہوتے تو خدا نہ پہچانا جاتا اور خدا ان کے وجود سے اپنے بندوں پر حجت قائم کرتا ہے _(۲)

ابوخالد کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق (ع) سے آیت فآمنوا باللہ و رسولہ و النّور الذی انزلنا _ کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا : اے ابوخالد خداکی قسم نور سے مراد ائمہ ہیں، اے ابوخالد نور امام سے مومنوں کے دل سورج سے زیادہ روشن ہوتے ہیں _ وہی مومنوں کے دلوں کو نورانی بنانتے ہیں _ خدا جس سے چاہتا ہے ان کے نور کو پوشیدہ رکھتا ہے اور اس کا قلب تاریک ہوجاتا ہے _(۳)

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں : جب خد اکسی کو اپنے بندوں کے امور کے لئے منتخب کرتا ہے تو اسے سعہ صدر عطا کرتا ہے ، اس کے قلب کو علم و حکمت کا اور حقائق کاسرچشمہ قرار دیتا ہے اور ہمیشہ اپنے علوم کا الہام کرتا ہے اس کے بعد وہ کسی جواب سے عاجز نہیں ہوتا ہے اور صحیح راہنمائی اور حقائق کو بیان کرنے میں گمراہ نہیں ہوتا ، خطا سے معصوم ہے

____________________

۱_ اصول کافی جلد۱ ص ۳۶۸_

۲_ اصول کافی جلد ۱ص ۳۶۹_

۳_ اصول کافی جلد ۱ ص ۳۷۲_

۹۲

خدا کی توفیقات و تائیدات ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہیں ، خطا و لغزش سے محفوظ رہتا ہے _ اس لئے خدا نہ اسے متخب کیا ہے تا کہ اس کے بندوں پر حجت و گواہ ہوجاے _ یہ خدا کی بخشش ہے ،جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے _ بے شک خدا بہت بڑا فضل کرنے والا ہے _(۱)

پیغمبر فرماتے ہیں: ستارے آسمان والوں کے لئے باعث امان ہیں _ ان کے تباہ ہونے سے آسمان والے بھی تباہ ہوجائیں گے اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے باعث امان ہیں اگر میرے اہل بیت نہ رہیں گے تو زمین والے ہلاک ہوجائیں گے _(۲)

حضرت علی بن ابی طالب کا ارشاد ہے : زمین خدا کیلئے قیام کرنے والے قائم اور حجت خدا سے خالی نہیں رہتی ، وہ کبھی ظاہر و آشکار ہوتا ہے _ کبھی پوشیدہ رہتا ہے تا کہ خدا کی حجت باطل نہ ہوجائے وہ کتنے اور کہاں ہیں؟؟ خدا کی قسم وہ تعداد میں بعت کم ہیں لیکن خدا کے نزدیک قدر کے اعتبار سے عظیم ہیں ان کے ذریعہ اپنی حجت و برہان کی حفاظت کرتا ہے تا کہ اس امانت کو اپنے ہی رتبہ کے افراد کے سپردکریں اوراپنے جیسے لوگو ں کے قلوب میں اس کا بیچ بوئیں _

علم نے انھیں بصیرت و حقیقت تک پہنچادیا ہے ، وہ یقین کی منزلوں میں وارد ہوچکے ہیں اور جس چیز کو مال دار و دولت مند دشوار سمجھتے ہیں وہ ان کیلئے سہل و آسان ہے جس چیز سے جاہل دڑتے ہیں یہ اس سے مانوس ہیں _ یہ دنیا میں ان جسموں کے ساتھ رہتے ہیں کہ جن کی ارواح ملائے اعلی سے معلق رہتی ہیں _ یہ زمین پر خدا کے خلیفہ اور

____________________

۱_ اصول کافی جلد ۱ ص۳۹۰_

۲_ تذکرة الخواص الامة ص ۱۸۲_

۹۳

دین کے دعوت دینے والے ہیں _(۱)

آپ (ص) ہی کا ارشاد ہے : اہل بیت (ع) کے وجود میں قرآن کے گراں بہا گوہر ودیعت کئے گئے ہیں _ وہ خدا کے خزانے ہیں اگر وہ بولتے ہیں تو سچ اور خاموش رہتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں کرتا _(۲)

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں _ اہل بیت کی برکت سے حق اپنی جگہ مستقر ہوا ہے او ر باطل کی بنیاد اکھڑگئی ہے اور اس کی بنیاد تو اکھڑ نے والی ہی تھی _ انہوں نے دین کو سمجھ لیا ہے _ چنانچہ اس کو حفظ کرتے اور اس پر عمل پیرا رہتے ہیں _ یہ تعقل ، سننے اور نقل کرنے میں محدود نہیں ہے _ یقینا علم کے بیان کرنے والے بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے بہت ہی کم ہیں _(۲)

اب میں اپنے بیان کو سٹمیتا ہوں ، اور اس سلسلے میں مذکورہ عقلی دلیلوں اور احادیث سے استفادہ کرتا ہوں : جب تک روئے زمین پر نوع انسان کا وجود ہے اس وقت تک ان کے درمیان ایک ایسے کامل و معصوم انسان کا وجود بھی ضروری ہے کہ جس میں اس نوع کے تمام کمالات جلوہ گر ہوں ، علم و عمل سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہو اور لوگوں کا امام ہو وہ انسانی کمالات کی راہوں کو طے کرتا اور دوسرے لوگوں کو ان کمالات و مقامات کی طرف بلاتا ہو _ اس کے واسطہ سے عالم انسانیت کا عالم غیب سے ارتباط و اتصال

____________________

۱_ نہج البلاغہ ج ۳ خطبہ ۱۴۷_

۲_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۱۵۰_

۳_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۲۳۴_

۹۴

برقرار رہتا ہے _ عالم غیب کے فیوض و برکات پہلے اس کے مقدس وجود پر اور پھر دوسروں پر نازل ہوتے ہیں _ اگر لوگوں کے درمیان ایسا کامل اور ممتاز انسان موجود نہ ہو تو نوع انسان کی کوئی غرض و غایت نہ رہے گی اور غرض و غایت سے انقطاع کے بعد نوع کا تباہ ہوجانا یقینی ہے _ پس دوسری دلیلوں سے قطع نظر یہ دلیل بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ : کوئی زمانہ یہاں تک کہ ہمارا زمانہ بھی ، وجود امام سے خالی نہیں ہے اور چونکہ ہمارے زمانہ میں امام ظاہر نہیں ہیں اس لئے کہنا چاہئے کہ پردہ غیب میں ہیں _

نگارندہ: بحث طویل ہوگئی تھی _ لہذا بقیہ بحث کو دوسرے جلسہ پر موقوف کردیا گیا _

۹۵

عالم ہورقلیا اور امام زمانہ

جلالی صاحب کے گھر پر جلسہ منعقد ہوا اور موصوف نے ہی گفتگو کا آغاز کیا _

جلالی : مسلمانوں کی ایک جماعت کہتی ہے کہ امام زمانہ اما م حسن عسکری کے فرزند ہیں جو کہ ۲۵۶ ھ میں پیدا ہوئے اور اس دنیا سے عالم ہورقلیا منتقل ہوگئے اور جب انسانیت درجہ کمال پر پہنچ جائے گی اور دنیا کی کدورتوں سے پاک ہوجائے گی اور امام زمانہ کے دیدار کی صلاحیت پیدا کرے گی تو اس وقت آپ کا دیدار کرے گی _

اسی جماعت کے ایک بزرگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : یہ عالم زمین کہ تہہ میں تھا آدم کے زمانہ میں اسے کہا گیا : اوپر آؤجبکہ وہ اوپر کی طرف ہی محو سفر تھا وہ گردو غبار اور کثافتوں سے نکل کر صاف فضا میں نہیں پہنچا ہے _ پس یہ ایک تاریک جگہ ہے جہاں وہ دین کو تلاش کرتا ہے ، عمل کرتا ہے اعتقاد پیدا کرتا ہے اور جب غبار سے گزرکر صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا اور ان کے نور کو مشاہدہ صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا او ران کے نور کو مشاہدہ کرے گا اور کھلم کھلا ان سے استفادہ کرے گا _ احکام بدل جائیں گے دنیا کی کچھ اور ہی حالت ہوگی ، دین کی کیفیت بھی بدل جائے گی _

پس ہمیں وہاں جانا چاہئے جہاں ولی ظاہر و آشکار ہیں نہ کہ ولی ہمارے پاس آئے اگر ولی ہمارے پاس آجائے اور ہم میں صلاحیت ولیقات نہ ہو تو ان سے مستفید نہ

۹۶

ہو سکیں گے ، اگر وہ آجائے اور اسی حالت پر باقی رہیں گے تو انھیں دیکھ سکیں گے اور نہ مستفیض ہوسکیں گے اور اگر ہماری قابلیت میں اضافہ ہوجائے اور اچھے بن جائیں تو واضح ہے کہ ہم نے ترقی کی کچھ منزلیں طے کرلی ہیں لہذا ہمیں ترقی کرکے اوپر جانا چاہئے تا کہ اس مقام تک پہنچ جائیں جس کو فلسفہ کی اصطلاح میں ، ہورقلیا کہتے ہیں _ جب دنیا ترقی کرکے ہورقلیا تک پہنچ جائے گی تو وہاں اپنے امام کی حکومت و حق کو مشاہدہ کریگی اور ظلم ختم ہوجائے گا _(۱)

ہوشیار: مؤلف کا مقصد واضح نہیں ہے _ اگر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام زمانہ نے اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر جسم مثالی اختیار کرلیا ہے اور اب زمین کے موجودات میں ان کا شمار نہیں ہوتا اور مادّہ کے آثار سے بری ہیں ، تو یہ بات نامعقول اور امامت کی عقلی و نقلی دلیلوں کے منافی ہے کیونکہ اندلیلوں کامقتضییہ ہے کہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان ایک ایسے کامل نسان کا وجود ضروری ہے کہ جس میں انسانیت کے سارے کمالات جمع ہوں ، صراط مستقیم پر گامز ن ہو اورلوگوں کے امور کی زمام اپنے ہاتھ رکھتا ہوتا کہ نوع انسان حیران و سرگردان نہ رہے اور خدا کے احکام ان کے درمیان محفوظ رہیں اور خدا کے بندوں پر حجت تمام ہوجائے _ بہ عبارت دیگ: جہاں انسان کمال اور مقصد انسانیت کی طرف رواں دواں ہیں وہیں رہبر کا وجود بھی ناگزیرہے _

اگر مؤلف کی مراد عالم ہورقلیا سے اسی دنیا کا کوئی نقطہ مراد ہے تو یہ بات ہمارے عقیدے کے منافی نہیں ہے لیکن ان کلام سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی لہذا نامعقول ہے _

____________________

۱_ ارشاد العوام مولفہ محمد کریم خان ج ۳ ص ۴۰۱_

۹۷

کیا مہدی آخری زمانہ میں پیدا ہونگے ؟

ہم آپ کی بت کو اس حدتک تو تسلیم کرتے ہی کہ مہدی کا وجود اسلام کے مسلم موضوعات ہیں سے ہے کہ پیغمبر اکرم(ع) نے بھی ان کے ظہور کی خبردی ہے _ لیکن اس بات میں کیا حرج ہے کہ مہدی ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں جب دنیا کے حالات سازندگار ہوجا ئیں گے اس وقت خداوند عالم پیغمبر اکرم (ع) کی اولامیں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ عدل وانصاف کے پھیلانے ،ظلم کے مٹا نے اور خدا پرستی کے فروغ کے لئے قیام کرے گا اور کامیاب ہوگا؟

ہوشیار: اول تو ہم نے عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ امام کے وجود سے کوئی زمانہ خالی نہیں ہے چنانچہ امام نہ ہوں گے تو یہ دنیا بھی نہ ہوگی، اس بناپر ہمارے زمانہ میں بھی امام موجود ہیں _

دوسرے ہم نے پیغمبر اور ان کے اہل بیت کی احادیث سے امام مہدی کے وجود کو ثابت کیا ہے _ پس ان کے اوصاف و تعارف کو بھی احادیث ہی سے ثابت کرنا چاہئے خوش قسمتی سے امام مہدی کی تمام علامتیں اور صفات احادیث میں موجود ہیں اور اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے لیکن چونکہ ان حادیث کے بیا ن کیلئے کئی جلسے درکار ہیں اس لئے آپ کے سامنے انکی فہرست پیش کرتا ہوں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو احادیث کی کتب کا مطالعہ فرمائیں _

مہدی کی تعریف

امام بارہ ہیں ان میں پہلے علی بن ابیطالب اور آخری مہدی ہیں

۹۱ حدیث

۹۸

امام بارہ ہیں اور آخری مہد ی ہیں

۹۴ حدیث امام بارہ ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع) کی نسل سے ہوں گے اور نواں قائم ہے

۱۰۷ حدیث

مہدی (عج) عترت رسول (ص) سے ہیں

۳۸۹ حدیث

مہدی (عج) اولاد علی (ع) سے ہیں

۲۱۴ حدیث

مہدی (عج)اولاد فاطمہ (ع) سے ہیں

۱۹۲ حدیث

مہدی (عج)اولاد حسین (ع) سے ہیں

۱۸۵حدیث

مہدی (عج)حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)امام زین العابدین (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۸۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد باقر (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی چھٹی پشت میں ہیں

۹۹

۹۹ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی اولاد میں ہیں

۱۰۱ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی پانچویں پشت میں ہیں

۹۸ حدیث

مہدی (عج)امام رضا (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد تقی (ع) کی تیسری پشت میں ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام علی نقی (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام حسن عسکری (ع) کے فرزند ہیں

۱۴۵ حدیث

مہدی (عج)کے والد کا نام حسن ہے

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت ہیں

۴۷ حدیث(۱)

____________________

۱_ یہ احادیث منتخب الاثر ، مولف آیت اللہ صافی ، سے نقل کی گئی ہیں _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455