آفتاب عدالت

آفتاب عدالت13%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181821 / ڈاؤنلوڈ: 5475
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اور درونی جذبات عقل عملی سے حقیقت کی تشخیص صلاحیت اور انسانیت کے سیدھے راستہ کو چھپادیتے ہیں اور اسے بدبختی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں _

کونسا قانون انسان کی کامیابی کا ضامن ہے ؟

چونکہ انسان اجتماعی زندگی گزار نے کیلئے مجبور ہے اور منافع میں اپنے بھائیوں سے مزاحمت بھی اجتماعی زندگی کالازمہ ہے لہذا انسانوں کے درمیان قانوں کی حکومت ہونا چاہئے تا کہ اختلاف و پراکندگی کا سد باب ہوجائے _ قانوں بھی معاشرہ کو اسی صورت میں چلا سکتا ہے کہ جب درج ذیل شرائط کا حامل ہوگا _

۱_ قوانین جامع و کامل ہوں تا کہ تمام اجتماعی و انفرادی امور میں ان کا نفوذ اور دخل ہو _ ان میں تمام حالات اور ضرورتوں کی رعایت کی گئی ہو ، کسی موضوع سے غفلت نہ کی گئی ہو ایسے قوانین کو معاشرہ کے افراد کی حقیقی اور طبیعی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہئے _

۲_ قوانین حقیقی کامیابی و کمالات کی طرف انسان کی راہنمائی کرتے ہوں ، خیالی کامیابی و کمالات کی طرف نہیں _

۳_ ان قوانین میں عالم بشریت کی سعادت و کامیابی کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور مخصوص افراد کے مفاد کو پور ا نہ کرتے ہوں _

۴_ وہ معاشرے کو انسانی کمالات و فضائل کے پایوں پر استوار کرتے ہوں اور اس کے اعلی مقصد کی طرف راہنمائی کرتے ہوں یعنی اس معاشرے کے افراد دنیوی زندگی کو انسانی فضائل و کمالات کا ذریعہ سمجھتے ہوں اور اسے ( دنیوی زندگی کو) مستقل ٹھکانا خیال نہ کرتے ہوں_

۸۱

۵_ وہ قوانین ظلم و تعدی اور ہرج و مرج کو رد کرکے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور تمام افراد کے حقوق کو پورا کرتے ہوں _

۶_ ان قوانین کی ترتیب و تدوین میں روح اور معنوی زندگی کے پہلوؤں کی بھی مکمل طور پر رعایت کی گئی ہو یعنی ان میں سے کوئی قانون بھی نفس اور روح کیلئے ضرر رساں نہ ہو اور انسان کو سیدھے راستہ سے منحرف نہ کرتا ہو _

۷_ معاشرے کو انسانیت کے سیدھے راستہ سے منحرف کرنے اور ہلاکت کے غار میں ڈھکیل دینے والے عوامل سے پاک و صاف کرتا ہو _

۸_ ان قوانین کا بنانے والا تزاہم ( ٹکراؤ) مصلحت اور مفاسد کو بھی اچھی طرح جانتا ہو _ زمان و مکان کے اقتضا سے واقف ہو _

انسان یقینا ایسے قوانین کا محتاج ہے اور یہ اس کی زندگی کے ضروریات میں شمار ہوتے ہیں اور قانون کے بغیر انسانیت تباہ ہے _ لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا بشر کے بنائے ہوئے قوانین اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں ؟

ہمار ا عقیدہ ہے کوتاہ فکر اور کوتاہ اندیش افراد گا بنایا ہوا قانون ناقص اور معاشرہ کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہے _ دلیل کے طور پر چند موضوعات پیش کئے جا سکتے ہیں _

۱_ انسان کے علم و اطلاع کا دائرہ محدود ہے _ عام آدمی مختلف انسانوں کی ضروریات خلقت کے رموز و اسرار خیر و شر کے پہلوؤں ، زمان و مکان کے اقتضاء کے اعتبار سے فعل و انفعالات ، تاثیر وتاثر اور قوانین کے تزاحم سے مکمل طور پر واقف

۸۲

نہیں ہے _

۲_ اگر بفرض محال قانون بنانے والے انسان ایسے جامع قانون بنانے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو بھی وہ دنیوی زندگی اور معنوی حیات کے عمیق ارتباط اور ظاہر حرکات کے نفس پر ہونے والے اثرات سے بے خبر ہیں اور کچھ آگہی رکھتے ہیں تو وہ ناقص ہے اصولی طور پر معنوی زندگی ، ان کے پروگرام سے ہی خارج ہے _ وہ بشریت کی خوش بختی اور سعادت مندی کو مادی امور میں محدود سمجھتے ہیں جبکہ ان دونوں زندگیوں میں گہرا ربط ہے اور جدائی ممکن نہیں ہے _

۲_ چونکہ انسان خودخواہ ہے لہذا دوسرے انسانوں کا استحصال طبیعی ہے چنانچہ نوع انسان کا ہر فرد اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر ترجیح دیتا ہے _ پس اختلاف اور استحصال کا سد باب کرنا اس کی صلاحیت سے باہر ہے ، کیونکہ قانون بنانے والے انسان کو اس کی خواہش ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے اور اپنے عزیزوں کے منافع و مفاد سے چشم پوشی کرکے لوگوں کی مصلحت کو مد نظر رکھے _

۴_ قانون بنانے والا انسان ہمیشہ اپنی کوتاہ نظری کے اعتبار سے قانون بناتا ہے اور انھیں اپنے کوتاہ افکار ، تعصبات اور عادتوں کے غالب میں ڈھالتاہے ، لہذا چند افراد کے منافع اور مفاد کے لئے قانون بتاتا ہے اور قانون بناتے وقت دوسروں کے نفع و ضرر کو ملحوظ نہیں رکھتا _ ایسے قوانین میں عام انسانوں کی سعادت کو مد نظر نہیں رکھا جاتا _ صرف خدا کے قوانین ایسے ہیں جو کہ انسان کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق اور خلقت کے رموز کے مطابق نبے ہیں ، ان میں ذاتی اغراض و مفاد او رکجی نہیں ہے اور ان میں عالم بشریت کی سعادت کو مد نظر نظر رکھا گیا ہے _ واضح ہے کہ انسان قانون الہی کا محتاج ہے

۸۳

اور خدا کے الطاف کا اقتضا یہ ہے کہ وہ مکمل پروگرام بنا کر اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بندوں تک پہنچائے _

سعادت اخروی

جس وقت انسان دن رات اپنی دنیوی زندگی میں سرگرم ہوتا ہے اسی وقت اس کے باطن میں بھی ایک سربستہ زندگی موجود ہوتی ہے _ ممکن ہے وہ اس کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو اور مکمل طور پر اسے فراموش کرچکا ہو _ اس مجہول زندگی کی بھی سعادت و شقاوت ہوتی ہے _ بر حق عقائد و افکار ، پسندیدہ اخلاق اور شائستہ اعمال روحانی ترقی او رکمال کا باعث ہوتے ہیں اور اسے سعادت و کمال کی منزل تک پہنچاتے ہیں جیسا کہ باطل عقائد ، برے اخلاق اور ناروا حرکتیں بھی نفس کی شقاوت و بدبختی کا سبب قرار پاتی ہیں _ اگر انسان ارتقاء کے سیدھے راستہ پر گامزن ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کے جوہر اور حقیقت کی پرورش کرتا اور اسے ترقی دیتا ، اپنے اصلی مرکز عالم نورانیت کی طرف پرواز کرتا ہے اور اگر روحانی کمالات اور پسندیدہ اخلاق کو اپنی حیوانی قوت و عادت اور خواہش نفس پر قربان کردیتا ہے اور ایک درندہ و ہوس راں دیوبن جاتاہے تو وہ ارتقاء کے سیدھے راستہ سے منحرف ہوجائے گا اور تباہی و بدبختی کے بیابان میں بھٹکتا پھرے گا _ پس معنوی حیات کے لئے بھی انسان ایک مکمل پروگرام اور معصوم راہنما کامحتاج ہے _ کسی کی مدد کے بغیر اس خطرناک راستہ کو طے نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اس کی عقل کواکثر صحیح فیصلہ کرنے اور حقیقت بینی سے باز رکھتی ہیں اور اسے ہلاکت کی طرف لے جاتی ہیں ، وہ اچھے کہ برا اور برے کو اچھا کرکے دکھاتی ہیں _

۸۴

صرف خالق کائنیات انسان کے حقیقی کمالات ، واقعی نیک بختی اور اس کے اچھے برے سے واقف ہے اور وہی اس کی نفس کی سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی کے عوامل سے بچانے کامکمل دستور العمل انسان کے اختیا رمیں دے سکتا ہے _ پس اخروی سعادت تک پہنچنے کے لئے بھی انسان خالق کائنات کا محتاج ہے _

اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ خدائے حکیم نے انسان کو ، جو کہ سعادت و بدبختی دونوں کی صلاحیت رکھتا ہے ، ہرگز خواہشات نفس اور حیوانی طاقت کا مطیع نہیں بنایا ہے اور جہالت و نادانی کے بیابان میں سرگرداں نہیںچھوڑا ہے _ بلکہ اس کے بے شمار الطاف کا اقتضا تھا کہ وہ اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعہ ایسے احکام ، قوانین اور مکمل دستور العمل جو کہ دنیوی و اخروی سعادت و کامیابی کا ضامن ہو ، انسانوں تک پہنچائے اور سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی سے انھیں آگاہ کرے تا کہ ان پر حجّت تمام ہوجائے اور مقصد تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہوجائے _

ترقی کا راستہ

انسان کی ترقی اور خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ، برحق عقائد ، اعمال صالح اور نیک اخلاق ہیں کہ جنھیں خدا نے انبیاء کے پاکیزہ قلوب پرنانزل کیا ہے تاکہ وہ انھیں لوگوں تک پہنچادیں لیکن یادرہے یہ راستہ کوئی وقتی اور تشریفاتی نہیں ہے کہ جس کا مقصد سے کوئی ربط نہ ہو بلکہ یہ حقیقی اور واقعی راستہ ہے کہ جس کا سرچشمہ عالم ربوبیت ہے جو بھی اس پر گامزن ہوتا ہے _ وہی اپنے باطن میں سیر ارتقاء کرتا ہے اور بہشت رضوان کی طرف پرواز کرتا ہے _

۸۵

بعبارت دیگر : دین حق ایک سیدھا راستہ ہے ، جو بھی اسے اختیار کرتا ہے اسکی انسانیت کامل ہوتی ہے اور وہ انسانیت کے سیدھے راستہ سے سرچشمہ کمالات کی طرف چلا جاتا ہے جو دیانت کے سیدھے راستے سے منحرف ہوجاتا ہے وہ مجبوراً انسانیت کے فضائل کی راہ کو گم کرکے حیوانیت کے کج راستہ پر لگ جاتا ہے _ حیوانیت و درندگی کے صفات کی تقویت کرتا اور راہ انسانیت کو طے کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے ایسے شخص کی زندگی دشوار ہوجاتی اور جہنم اس کی تقدیر بن جاتاہے _

عصمت انبیائ

خداوند عالم کے لطف کا اقتضا یہ ہے کہ لوگوں تک احکام اور ضروری قوانین پہچانے کے لئے انبیاء کو مبعوث کرے تا کہ وہ مقصد تخلیق کی طرف ان کی راہنمائی کریں _ خدا کا یہ مقصد اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے کہ جب اس کے احکام بغیر کسی تحریف _ بغیر کمی بیشی_ کے لوگوں تک پہنچ جائیں اور ان کا عذر بھی ختم ہوجائے _ اس لئے پیغمبر خطا و نسیان سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں یعنی خدا سے احکام لینے ، ان کا یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے محفوظ ہوتے ہیں _ اس کے علاوہ ان احکام پر انبیاء کو خود بھی عمل کرنا چاہئے تا کہ ان کے قول و عمل میں تضاد نہ ہو اور قول و عمل کے ذریعہ لوگوں کو حقیقی کمالات کی طرف دعوت دیں کہ ان کے پاس کو ئی عذر و بہانہ باقی نہ رہے اور راہ حق کی تشخیص میں ادھر ادھر نہ بھٹکین اور پھر پیغمبر ہی احکام خدا کا اتباع نہیں کریں گے تو ان کی تبلیغ کا بھی کوئی اثر نہ ہوگا ، لوگان پر اعتماد نہیں کریں گے ، کیونکہ وہ اپنی بات کے خلاف عمل کرتے ہیں اور اپنے عمل سے لوگوں کو احکام کے خلاف عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں

۸۶

اور یہ بات تو واضح ہے کہ عملی تبلیغ اگر قولی تبلیغ کے برابر نہیں تو کم بھی نہیں ہے _

ہمارے علوم و مدرکات خطا سے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ وہ حواس اور قوائے مدرکہ کے ذریعہ حاصل حاصل ہوتے ہیں اور حواس سے سرزد ہونے والی غلطی و خطا سب پر عیاں ہے _ لیکن لوگوں کی ہدایت کیلئے جو علوم و احکام خدا کی طرف سے وحی کے ذریعہ انبیاء پر نازل ہوتے ہیں _ ان کی یہ کیفیت نہیں ہے ، انھیں انبیاء نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ حاصل نہیں کیا ہے ورنہ ان کی معلومات میں خطاکار واقع ہونا ضروری ہوتا اور اس طرح لوگوں تک حقیقی احکام نہیں پہنچ سکتے تھے _ بلکہ ان کے علوم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عالم غیب سے ان کے قلب پر نازل ہوتے ہیں ، ان حقائق کو وہ علم حضوری کی صورت میں مشاہدہ کرتے ہیں اور جن چیزوں کا وہ دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں وہ ان پر عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں اور وہ انھیں لوگوں کے اختیار میں دیتے ہیں ، چونکہ انبیاء ان حقائق کا ادراک کرتے ہیں اسلئے ان کے سمجھنے اور یادر کھنے میں کوئی خطا واقع نہیں ہوتی _

اسی لئے وہ ان احکا م کی مخالفت اور عصیان سے بھی معصوم و محفوظ ہوتے ہیں ، اپنے علم پر عمل کرتے ہیں کیونکہ جو شخص عین حقائق اور اپنے کمالات و سعادت کا مشاہدہ کرتا ہے وہ یقین کے ساتھ اپنے مشاہدات پر عمل کرتا ہے اور ایسا انسان اپنے کمال کو نہیں گنواتا ہے _

امامت پر عقلی دلیل

نبوّت عامہ کی دلیل کی وضاحت کے بعد آپ اس بات کی ضرور تصدیق کریں گے کہ اسی برہان کا اقتضا یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر نہ ہو تو اس وقت کسی انسان کو نبی کا جانشین اور احکام خدا کا خزینہ دار ہونا چاہئے کہ جو احکام کی حفاظت اور ان کی تبلیغ

۸۷

میں کوشاں رہے _ کیونکہ انبیاء کی بعثت اور لوگوں تک احکام بھیجنے میں جو خدا کا مقصد ہے وہ اسی وقت پورا ہوگا اور اس کے الطاف کمال کوپہنچیں گے اور اس کے بندوں پرحجت تمام ہوگی جب اس کے تمام قوانین و احکام لوگوں میں بغیر کسی تحریف کے محفوظ رہیں گے _ پس پیغمبر کی عدم موجودگی میں لطف خدا کا اقتضاء یہ ہے کہ انسانوں میں کسی کو ان احکام کی حفاظت و نگہداری کا ذمہ داربنائے _

اس منتخب شخص کو بھی احکام لینے ، یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے معصوم ہونا چاہئے تا کہ خدا کا مقصد پورا ہوجائے اور اس کے بندوں پر اسکی حجت تمام ہوجائے _ احکام دین کو اس میں جلوہ گر ہونا چاہئے ، خود ان پر عمل پیرا ہونا چاہئے تا کہ دوسرے اپنے اعمال و اخلاق اور اقوال کی اس کے اعمال سے مطابقت کریں _ اس کا اتباع کریں ، اور راہ حقیقت کو تلاش کرنے میں کسی شک و تردد میں مبتلا نہ ہوں اور ہرطریقہ سے حجت تمام ہوجائے _ چونکہ وہ اس اہم ذمہ داری کے قبول کرنے میں خطا و اشتباہ سے معصوم ہے _ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ علوم کسب نہیں کئے ہیں اورلوگوں کے علوم سے بہت زیادہ مختلف ہیں ،بلکہ پیغمبر کی ہدایت سے اس کی چشم بصیرت چمک اٹھتی ہیں وہ دل کی آنکھوں سے انسانیت کے حقائق و کمالات کو مشاہدہ کرتا ہے اس لئے وہ بھی خطا سے محفوظ و معصوم ہے اور یہی حقائق و کمالات کا مشاہدہ ان کی عصمت کی علت ہے اور اپنے علوم و مشاہدات کے مطابق عمل کرنے کا باعث ہے اور علم و عمل کے ذریعہ لوگوں کا امام بنتا ہے _

بہ عبارت دیگر : نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے انسان کامل کا وجود ضروری ہے کہ جو خدا کے برحق عقائد کا معتقد اورانسانیت کے نیک اخلاق و صفات پر عمل پیراہو

۸۸

اور احکام دین پر عمل کرتاہو اور سب کو اچھی طرح جانتا ہو ، ان مراحل میں خطا و عصیان سے معصوم ہو ، علم و عمل کے ذریعہ تمام انسانی کمالات اس میں وجود پذیر ہوگئے ہوں اور وہ لوگوں کا امام ہو ں جس زمانہ میں ایسا شخص موجود نہ ہوگا اس زمانہ میں خدا کے وہ احکام ، جو کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوئے ہیں ، ختم ہوجائیں گے اور حق تعالی کے فیوض و غیبی امداد کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اور عالم ربوبیت و عالم انسانی میں کوئی رابطہ برقرار نہ رہے گا ں

بہ عبارت دیگر: نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے شخص کو موجود ہونا چاہئے جو کہ مستقل ، خدا کی تائید و ہدایت اور فیضان کا مرکز ہو اور وہ معنوی فیوض ، باطنی مدد کے ذریعہ ہر انسان کو اس کی استعداد کے مطابق مطلوبہ کمال تک پہنچائے اور احکام الہی کا خزینہ دار ہوتا کہ ضرورت کے وقت مانع نہ ہونے کی صورت میں لوگ اس کے علوم سے مستفید ہوں _ امام حجّت حق ، نمونہ دین اور انسان کامل ہے جو بشر کی توانائی کی حد تک خدائی معرفت رکھتا اور اس کی عبادت کرتا ہے _ اگر اس کا وجود نہ ہوگا تو خدا کی کامل معرفت اور عبادت نہ ہوگی _ امام کا قلب خدا کے علوم کا خزینہ دار اور اسرار الہی کا مخزن ہے ایک آئینہ کی مانند ہے کہ جس میں عالم ہستی کے حقائق جلوہ گر ہوتے ہیں تا کہ دوسرے ان حقائق کے انعکاس سے مستفید ہوں _

جلالی: دین کے احکام و قوانین کا طریقہ اسی میں منحصر نہیں ہے کہ ایک شخص ان سب کو جانتا ہو اور ان پر عمل کرتا ہو ، بلکہ اگر دین کے تمام احکام و قوانین کو مختلف لوگوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان میں سے ایک جماعت بعض احکام کا علم حاصل کرکے ان پر عمل پیرا ہو تو اس صورت میں بھی ، علم و عمل کے اعتبار سے دین کے تمام احکام لوگوں کے درمیان محفوظ رہیں گے _

۸۹

ہوشیار: آپ کا فریضہ دو اعتبار سے غلط ہے:

اول: گزشتہ بحثوں میں یہ بات کہی جا چکی ہے کہ نوع انسان کے درمیان ایک ممتاز انسان کو موجود ہونا چاہئے کہ جس میں انسانیت کے تمام ممکنہ کمالات جمع ہوں اور وہ دین کے سیدھے راستہ پرقائم ہو اور تعلیم و تربیت میں خدا کے علاوہ کسی کا محتاج نہ ہو _ اگرایسا کامل انسان لوگوں کے درمیان نہ رہے تو انسانیت کی کوئی غایت نہ ہوگی اور غایت کے بغیر نوع کا بتاہ ہونا یقینی ہے جبکہ آپ کے فرضیہ میں ایسا کامل انسان نہیں ہے کیونکہ ان اشخاص میں اگر چہ ایک بہت سے احکام کو جانتا اورا ن پر عمل کرتا ہے لیکن دین کے سیدھے راستہ پر ان میں سے کوئی بھی واقع نہیں ہوا ہے بلکہ سب جادہ حقیقت سے منحرف ہیں کیونکہ صراط مستقیم اور دین کے احکام کے درمیان ایک مضبوط و عمیق رابطہ برقرار ہے کہ جس کو منقطع کرنا ممکن نہیں ہے _

دوسرے : جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ جو قوانین خدا کی طرف سے انسان کی ہدایت کیلئے نازل ہوئے ہیں انھیں ہمیشہ ان کے درمیان محفوظ رہنا چاہئے یعنی ان میں :سی قسم کی تحریف ممکن نہ ہو اور تغیر و تبدل کے ہر خطرہ سے محفوظ ہوں تا کہ لوگ ان کے صحیح ہونے کو پورے اعتماد سے تسلیم کرلیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کا محافظ و خزینہ دار معصوم اور خطا و نسیان اور معصیت سے محفوظ ہو _ جبکہ آپ کے دونوں مفروضوں میں یہ چیز نہیں ہے کیونکہ خطا و نسیان اور معصیت ہر فرد سے سرزد ہوسکتی ہے _ نتیجہ میں خداوند عالم کے احکام تغیر و تبدل سے محفوظ نہیں ہیں اور خدا کی حجت تمام نہیں ہے اور بندوں کا عذر اپنی جگہ باقی ہے _

امامت حدیث کی نظر میں

ہوشیار: امامت سے متعلق جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ سب اہل بیت کی

۹۰

روایات میں موجود ہیں ، اگر تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو احادیث کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _ ان میں سے چند یہ ہیں:

ابوحمزہ کہتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کیا امام کے وجود کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: اگر زمین پر امام کا وجود نہ ہوگا تو دھنس جائے گی _(۱)

و شاء کہتے ہیں : میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : اما م کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: نہیں _ عرض کی : ہم تک روایت پہنچی ہے کہ زمین حجت خدا ، امام کے وجود سے اس وقت خالی ہوتی ہے جب خدا اپنے بندوں پر غضبناک ہوتا ہے _ امام رضا (ع) نے فرمایا کہ : زمین وجود امام سے خالی نہ ہوگی ورنہ دھنس جائے گی _(۲)

ابن طیا رکہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا : اگر زمین پر صرف دو انسان ہوں گے تو بھی ان میں سے ایک امام ہوگا _(۳)

حضرت ابوجعفر (ع) فرماتے ہیں : خدا کی قسم حضرت آدم (ع) کے انتقال کے وقت سے اس وقت تک خدا نے زمین کو اس امام کے وجود سے خالی نہ رکھا ہے جس سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور وہی لوگوں پر خدا کی حجت ہے _ زمین کبھی امام کے وجود سے خالی نہیں رہتی کیونکہ وہ بندوں پرخدا کی حجت ہے _(۴)

____________________

۱_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۲۴_

۲_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۴_

۳_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۵_

۴_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۳_

۹۱

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے : خدا نے ہمیں بہترین طریقہ سے خلق فرمایا ہے اور زمین و آسمان میں اپنے علم کاخزینہ دار قراردیا ہے ، درخت ہم سے ہم کلام ہوتے ہیں اور ہماری عبادت سے خدا کی عبادت ہوتی ہے اگر ہم نہ ہوتے تو خدا کی عبادت نہ ہوتی _(۱)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے : اوصیاء خدا علوم کے دروازے ہیں _ ان ہی کے ذریعہ دین میں داخل ہونا چاہئے اگر وہ نہ ہوتے تو خدا نہ پہچانا جاتا اور خدا ان کے وجود سے اپنے بندوں پر حجت قائم کرتا ہے _(۲)

ابوخالد کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق (ع) سے آیت فآمنوا باللہ و رسولہ و النّور الذی انزلنا _ کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا : اے ابوخالد خداکی قسم نور سے مراد ائمہ ہیں، اے ابوخالد نور امام سے مومنوں کے دل سورج سے زیادہ روشن ہوتے ہیں _ وہی مومنوں کے دلوں کو نورانی بنانتے ہیں _ خدا جس سے چاہتا ہے ان کے نور کو پوشیدہ رکھتا ہے اور اس کا قلب تاریک ہوجاتا ہے _(۳)

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں : جب خد اکسی کو اپنے بندوں کے امور کے لئے منتخب کرتا ہے تو اسے سعہ صدر عطا کرتا ہے ، اس کے قلب کو علم و حکمت کا اور حقائق کاسرچشمہ قرار دیتا ہے اور ہمیشہ اپنے علوم کا الہام کرتا ہے اس کے بعد وہ کسی جواب سے عاجز نہیں ہوتا ہے اور صحیح راہنمائی اور حقائق کو بیان کرنے میں گمراہ نہیں ہوتا ، خطا سے معصوم ہے

____________________

۱_ اصول کافی جلد۱ ص ۳۶۸_

۲_ اصول کافی جلد ۱ص ۳۶۹_

۳_ اصول کافی جلد ۱ ص ۳۷۲_

۹۲

خدا کی توفیقات و تائیدات ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہیں ، خطا و لغزش سے محفوظ رہتا ہے _ اس لئے خدا نہ اسے متخب کیا ہے تا کہ اس کے بندوں پر حجت و گواہ ہوجاے _ یہ خدا کی بخشش ہے ،جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے _ بے شک خدا بہت بڑا فضل کرنے والا ہے _(۱)

پیغمبر فرماتے ہیں: ستارے آسمان والوں کے لئے باعث امان ہیں _ ان کے تباہ ہونے سے آسمان والے بھی تباہ ہوجائیں گے اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے باعث امان ہیں اگر میرے اہل بیت نہ رہیں گے تو زمین والے ہلاک ہوجائیں گے _(۲)

حضرت علی بن ابی طالب کا ارشاد ہے : زمین خدا کیلئے قیام کرنے والے قائم اور حجت خدا سے خالی نہیں رہتی ، وہ کبھی ظاہر و آشکار ہوتا ہے _ کبھی پوشیدہ رہتا ہے تا کہ خدا کی حجت باطل نہ ہوجائے وہ کتنے اور کہاں ہیں؟؟ خدا کی قسم وہ تعداد میں بعت کم ہیں لیکن خدا کے نزدیک قدر کے اعتبار سے عظیم ہیں ان کے ذریعہ اپنی حجت و برہان کی حفاظت کرتا ہے تا کہ اس امانت کو اپنے ہی رتبہ کے افراد کے سپردکریں اوراپنے جیسے لوگو ں کے قلوب میں اس کا بیچ بوئیں _

علم نے انھیں بصیرت و حقیقت تک پہنچادیا ہے ، وہ یقین کی منزلوں میں وارد ہوچکے ہیں اور جس چیز کو مال دار و دولت مند دشوار سمجھتے ہیں وہ ان کیلئے سہل و آسان ہے جس چیز سے جاہل دڑتے ہیں یہ اس سے مانوس ہیں _ یہ دنیا میں ان جسموں کے ساتھ رہتے ہیں کہ جن کی ارواح ملائے اعلی سے معلق رہتی ہیں _ یہ زمین پر خدا کے خلیفہ اور

____________________

۱_ اصول کافی جلد ۱ ص۳۹۰_

۲_ تذکرة الخواص الامة ص ۱۸۲_

۹۳

دین کے دعوت دینے والے ہیں _(۱)

آپ (ص) ہی کا ارشاد ہے : اہل بیت (ع) کے وجود میں قرآن کے گراں بہا گوہر ودیعت کئے گئے ہیں _ وہ خدا کے خزانے ہیں اگر وہ بولتے ہیں تو سچ اور خاموش رہتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں کرتا _(۲)

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں _ اہل بیت کی برکت سے حق اپنی جگہ مستقر ہوا ہے او ر باطل کی بنیاد اکھڑگئی ہے اور اس کی بنیاد تو اکھڑ نے والی ہی تھی _ انہوں نے دین کو سمجھ لیا ہے _ چنانچہ اس کو حفظ کرتے اور اس پر عمل پیرا رہتے ہیں _ یہ تعقل ، سننے اور نقل کرنے میں محدود نہیں ہے _ یقینا علم کے بیان کرنے والے بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے بہت ہی کم ہیں _(۲)

اب میں اپنے بیان کو سٹمیتا ہوں ، اور اس سلسلے میں مذکورہ عقلی دلیلوں اور احادیث سے استفادہ کرتا ہوں : جب تک روئے زمین پر نوع انسان کا وجود ہے اس وقت تک ان کے درمیان ایک ایسے کامل و معصوم انسان کا وجود بھی ضروری ہے کہ جس میں اس نوع کے تمام کمالات جلوہ گر ہوں ، علم و عمل سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہو اور لوگوں کا امام ہو وہ انسانی کمالات کی راہوں کو طے کرتا اور دوسرے لوگوں کو ان کمالات و مقامات کی طرف بلاتا ہو _ اس کے واسطہ سے عالم انسانیت کا عالم غیب سے ارتباط و اتصال

____________________

۱_ نہج البلاغہ ج ۳ خطبہ ۱۴۷_

۲_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۱۵۰_

۳_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۲۳۴_

۹۴

برقرار رہتا ہے _ عالم غیب کے فیوض و برکات پہلے اس کے مقدس وجود پر اور پھر دوسروں پر نازل ہوتے ہیں _ اگر لوگوں کے درمیان ایسا کامل اور ممتاز انسان موجود نہ ہو تو نوع انسان کی کوئی غرض و غایت نہ رہے گی اور غرض و غایت سے انقطاع کے بعد نوع کا تباہ ہوجانا یقینی ہے _ پس دوسری دلیلوں سے قطع نظر یہ دلیل بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ : کوئی زمانہ یہاں تک کہ ہمارا زمانہ بھی ، وجود امام سے خالی نہیں ہے اور چونکہ ہمارے زمانہ میں امام ظاہر نہیں ہیں اس لئے کہنا چاہئے کہ پردہ غیب میں ہیں _

نگارندہ: بحث طویل ہوگئی تھی _ لہذا بقیہ بحث کو دوسرے جلسہ پر موقوف کردیا گیا _

۹۵

عالم ہورقلیا اور امام زمانہ

جلالی صاحب کے گھر پر جلسہ منعقد ہوا اور موصوف نے ہی گفتگو کا آغاز کیا _

جلالی : مسلمانوں کی ایک جماعت کہتی ہے کہ امام زمانہ اما م حسن عسکری کے فرزند ہیں جو کہ ۲۵۶ ھ میں پیدا ہوئے اور اس دنیا سے عالم ہورقلیا منتقل ہوگئے اور جب انسانیت درجہ کمال پر پہنچ جائے گی اور دنیا کی کدورتوں سے پاک ہوجائے گی اور امام زمانہ کے دیدار کی صلاحیت پیدا کرے گی تو اس وقت آپ کا دیدار کرے گی _

اسی جماعت کے ایک بزرگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : یہ عالم زمین کہ تہہ میں تھا آدم کے زمانہ میں اسے کہا گیا : اوپر آؤجبکہ وہ اوپر کی طرف ہی محو سفر تھا وہ گردو غبار اور کثافتوں سے نکل کر صاف فضا میں نہیں پہنچا ہے _ پس یہ ایک تاریک جگہ ہے جہاں وہ دین کو تلاش کرتا ہے ، عمل کرتا ہے اعتقاد پیدا کرتا ہے اور جب غبار سے گزرکر صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا اور ان کے نور کو مشاہدہ صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا او ران کے نور کو مشاہدہ کرے گا اور کھلم کھلا ان سے استفادہ کرے گا _ احکام بدل جائیں گے دنیا کی کچھ اور ہی حالت ہوگی ، دین کی کیفیت بھی بدل جائے گی _

پس ہمیں وہاں جانا چاہئے جہاں ولی ظاہر و آشکار ہیں نہ کہ ولی ہمارے پاس آئے اگر ولی ہمارے پاس آجائے اور ہم میں صلاحیت ولیقات نہ ہو تو ان سے مستفید نہ

۹۶

ہو سکیں گے ، اگر وہ آجائے اور اسی حالت پر باقی رہیں گے تو انھیں دیکھ سکیں گے اور نہ مستفیض ہوسکیں گے اور اگر ہماری قابلیت میں اضافہ ہوجائے اور اچھے بن جائیں تو واضح ہے کہ ہم نے ترقی کی کچھ منزلیں طے کرلی ہیں لہذا ہمیں ترقی کرکے اوپر جانا چاہئے تا کہ اس مقام تک پہنچ جائیں جس کو فلسفہ کی اصطلاح میں ، ہورقلیا کہتے ہیں _ جب دنیا ترقی کرکے ہورقلیا تک پہنچ جائے گی تو وہاں اپنے امام کی حکومت و حق کو مشاہدہ کریگی اور ظلم ختم ہوجائے گا _(۱)

ہوشیار: مؤلف کا مقصد واضح نہیں ہے _ اگر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام زمانہ نے اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر جسم مثالی اختیار کرلیا ہے اور اب زمین کے موجودات میں ان کا شمار نہیں ہوتا اور مادّہ کے آثار سے بری ہیں ، تو یہ بات نامعقول اور امامت کی عقلی و نقلی دلیلوں کے منافی ہے کیونکہ اندلیلوں کامقتضییہ ہے کہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان ایک ایسے کامل نسان کا وجود ضروری ہے کہ جس میں انسانیت کے سارے کمالات جمع ہوں ، صراط مستقیم پر گامز ن ہو اورلوگوں کے امور کی زمام اپنے ہاتھ رکھتا ہوتا کہ نوع انسان حیران و سرگردان نہ رہے اور خدا کے احکام ان کے درمیان محفوظ رہیں اور خدا کے بندوں پر حجت تمام ہوجائے _ بہ عبارت دیگ: جہاں انسان کمال اور مقصد انسانیت کی طرف رواں دواں ہیں وہیں رہبر کا وجود بھی ناگزیرہے _

اگر مؤلف کی مراد عالم ہورقلیا سے اسی دنیا کا کوئی نقطہ مراد ہے تو یہ بات ہمارے عقیدے کے منافی نہیں ہے لیکن ان کلام سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی لہذا نامعقول ہے _

____________________

۱_ ارشاد العوام مولفہ محمد کریم خان ج ۳ ص ۴۰۱_

۹۷

کیا مہدی آخری زمانہ میں پیدا ہونگے ؟

ہم آپ کی بت کو اس حدتک تو تسلیم کرتے ہی کہ مہدی کا وجود اسلام کے مسلم موضوعات ہیں سے ہے کہ پیغمبر اکرم(ع) نے بھی ان کے ظہور کی خبردی ہے _ لیکن اس بات میں کیا حرج ہے کہ مہدی ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں جب دنیا کے حالات سازندگار ہوجا ئیں گے اس وقت خداوند عالم پیغمبر اکرم (ع) کی اولامیں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ عدل وانصاف کے پھیلانے ،ظلم کے مٹا نے اور خدا پرستی کے فروغ کے لئے قیام کرے گا اور کامیاب ہوگا؟

ہوشیار: اول تو ہم نے عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ امام کے وجود سے کوئی زمانہ خالی نہیں ہے چنانچہ امام نہ ہوں گے تو یہ دنیا بھی نہ ہوگی، اس بناپر ہمارے زمانہ میں بھی امام موجود ہیں _

دوسرے ہم نے پیغمبر اور ان کے اہل بیت کی احادیث سے امام مہدی کے وجود کو ثابت کیا ہے _ پس ان کے اوصاف و تعارف کو بھی احادیث ہی سے ثابت کرنا چاہئے خوش قسمتی سے امام مہدی کی تمام علامتیں اور صفات احادیث میں موجود ہیں اور اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے لیکن چونکہ ان حادیث کے بیا ن کیلئے کئی جلسے درکار ہیں اس لئے آپ کے سامنے انکی فہرست پیش کرتا ہوں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو احادیث کی کتب کا مطالعہ فرمائیں _

مہدی کی تعریف

امام بارہ ہیں ان میں پہلے علی بن ابیطالب اور آخری مہدی ہیں

۹۱ حدیث

۹۸

امام بارہ ہیں اور آخری مہد ی ہیں

۹۴ حدیث امام بارہ ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع) کی نسل سے ہوں گے اور نواں قائم ہے

۱۰۷ حدیث

مہدی (عج) عترت رسول (ص) سے ہیں

۳۸۹ حدیث

مہدی (عج) اولاد علی (ع) سے ہیں

۲۱۴ حدیث

مہدی (عج)اولاد فاطمہ (ع) سے ہیں

۱۹۲ حدیث

مہدی (عج)اولاد حسین (ع) سے ہیں

۱۸۵حدیث

مہدی (عج)حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)امام زین العابدین (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۸۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد باقر (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی چھٹی پشت میں ہیں

۹۹

۹۹ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی اولاد میں ہیں

۱۰۱ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی پانچویں پشت میں ہیں

۹۸ حدیث

مہدی (عج)امام رضا (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد تقی (ع) کی تیسری پشت میں ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام علی نقی (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام حسن عسکری (ع) کے فرزند ہیں

۱۴۵ حدیث

مہدی (عج)کے والد کا نام حسن ہے

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت ہیں

۴۷ حدیث(۱)

____________________

۱_ یہ احادیث منتخب الاثر ، مولف آیت اللہ صافی ، سے نقل کی گئی ہیں _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہوتا ہے اور ایک انجانی قدرت پر بھروسہ کرتا ہے _ وہ رنے کی زبان سے اس کی پناہ حاصل کرتا ہے اور اپنی احتیاج کا اظہار کرتا ہے _ مارپیٹ کے ذریعے اسے مایوس اور بدظن نہ کردیں _

پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

''بچوں کو رونے پر مارنانہ چاہیئےیونکہ چار ماہ تک اپنے اس رونے کے ذریعے وہ اللہ اور اس کی توحید کی گواہی دیتے ہیں '' _ (1)

ہر حال میں بچے کے مددگار رہیں اگر وہ کوئی انجام دینا چاہتا ہے اور آپ اس کی مدد نہیں کرسکتے تو بھی اس سے نوازش و محبت سے پیش آئیں _ اگر بچہ پریشان ہواور وہ ناراحتی محسوس کرتا ہو تو اس پریشانی کے اسباب ختم کریں اور اس کو مطمئن کریں اسے ہرگز ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں اور یہ نہ کہیں کہ میں تمہیں یہیں چھوڑ کر جارہی ہوں _ کیونکہ یہی ڈانٹ ڈپٹ ممکن ہے اس کی روح پر برا اثر کرے اور اسے پریشان کردے _ بچہ چاہتا ہے کہ وہ ماں باپ اور دوسروں کو محبوب ہو _ اگر ماں باپ اس سے محبت نہ کریں تو وہ اس پر سخت پریشان ہوتا ہے _ وہ ہمیشہ کوشش کرتا ہے کہ ان کا پیارااور محبت ہمیشہ باقی رہے _ بعض ماں باپ بچے کے اس جذبے سے استفادہ کرتے ہیں اور بچے کو ڈانٹتے ہیں کہ اگر تونسے یہ کام نہ یکا تو ہم تم سے پیار نہیں کریں گے لیکن آپ کو چاہیے کہ اس حربے کو استعمال نہ کریں _ کیونکہ اس طرح کی ڈانٹ ممکن ہے تدریجاً بچے کی روح پر برے اثرات مرتب کرے اور اس سے اس کا عتماد اور رآرام جاتا رہے اور یہ بچے کے ضعیف اعصاب اور داخلی اضطراب کا سبب بن جائے _ اگر وہ رورہا ہو یا شور کررہا ہو تو وہ یہ نہیں چاہ رہا ہوتا کہ آپ کو بے آرام کرے بلکہ وہ آپ کی توجہ مبذول کرنا چاہ رہا ہوتا ہے تا کہ آپ اس کی بات سنیں _ آپ صبر اور سمجھداری کے ساتھ اس کی بے آرامی کی وجوہ سمجھیں اور اس بے آرامی کو دور کریں _ تا کہ اسے آرام ملے _ اگر آپ اسے رونے پر ڈانٹیں گے یا ماریں _ گے تو ممکن ہے وہ خاموش ہوجائے _ لیکن کیسے خاموش ؟ ایک اضطراب آمیز

----------

1_ بحار الانوار _ جلد 104 ص 103

۱۲۱

مایوسانہ خاموشی کہ جو بہت خطرناک ہے جو ممکن ہے اس کے مستقبل کو دگرگوں کردے _ ماں باپ کی موجودگی سے بچہ ہمیشہ خوش رہتا ہے اور ان کی جدائی سے وحشت کھاتا ہے _ آپ کبھی اپنی موت کے بارے میں سے بات نہ کریں کیونکہ یہ اس کی پریشانی اور وحشت کا سبب ہوگی _ اگر آپ بیمار ہوجائیں تو موت کاذکر نہ کریں _ بلکہ اپنے بچوں کو پر امید رکھیں اور ان کا حوصلہ بڑھائیں اگر آپ ایک عرصے کے لیے بچوں سے دور ہونے پر مجبور ہوں تو پہلے انہیں اس پر آمادہ کریں _ ان کادل بڑھائیں پھر سفر اختیار کریں اور اس کے بعد ابھی ہمیشہ ان سے رابطہ برقرار رکھیں اور نامہ و پیام کے ذریعے سے ان کی دھارس بندھاتے رہیں_

اگر آپ کا بچہ بیمار ہوجائے تو دوا کھلانے کے لیے اسے موت سے اور اچھا نہ ہونے سے نہ ڈرائیں _ بلکہ ایسے مواقع پر تشویش کی راہ اختیار کریں اور اسے صحیح ہوجانے کی امید دلائیں _ یہاں تک کہ اسے اگر کوئی خطرناک بیماری ہو تو اپنی پریشانی اور اضطراب کو اس سے چھپائے رکھیں _ مختصر یہ کہ پوری عمر اپنے بچوں سے ایسا سلوک رکھیں کہ وہ آپ کو اپنا بہترین غمگسار اور غمخوار سمجھیں _

البتہ اس بات کا خیال رہے کہ بچے سے اظہار محبت ضروری حد تک اور ضروری مقامات پر ہونا چاہیے _ اس طرح سے کہ وہ لا ڈپیارسے بگڑنہ جائے اور خود اعتمادی سے محروم نہ ہوجائے _ جہاں بچہ واقعی کوئی کام نہ کرسکتا ہو اس کی مدد کرنا چاہیے لیکن اگر وہ ایک کام خود کرسکتا ہے اور اسے مدد کی ضرورت نہیں ہے بلکہ وہ دوسروں پر رعب جمانے کے لیے شور کررہا ہو تو اس کی طرف اعتناء نہیں کرنا چاہیے _

رسل لکھتا ہے :

اگر بچہ کسی وجہ اور واضح علت کے بغیر روئے تو اسے اس کے حال پر چھوڑ دینا چاہیے اور وہ جتنا چلاّ نے دیں _ ایسے مواقع پر اگر کوئی اور روش اپنائی گئی تو وہ جلدی ہی ایک جابر حاکم کی صورت اختیار کرلے گا

۱۲۲

ایسے مواقع کہ جہاں ضرورت ہے کہ اس کی طرف توجہ کی جائے وہاں بھی افراط سے کام نہیں لینا چاہیے بلکہ حسب ضرورت طرز عمل اپنا ناچاہیے اور زیادہ ہی اظہار محبت نہیں کرنا چاہیے _ (1)

----------

1_ در تربیت ، ص 79

۱۲۳

جب بچہ باہر کی دنیا کو دیکھنے لگتا ہے

بچہ ایک چھو ٹا سا انسان ہوتا ہے اور انسان مدنی با لطبع ہے _ مدد اور تعادن کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا اور نہ زندگی گزار سکتا ہے دوسروں کی طرف توجہ رکھتا ہے ان سے استفادہ کرتا ہے اور انہیں فائدہ پہنچا تا ہے _ لیکن نومولود اپنی زندگی کے ابتدائی مہینوں میں کسی کو نہیں پہچانتا اور دوسروں کی طرف توجہ نہیں کرتا یعنی اجتماعی مزاج ابھی اس میں ظاہر نہیں ہوا ہوتا جب تقر بیا چار ماہ کا ہو جاتا ہے تو آہستہ آہستہ مدنی بالطبع ہونے کے آثار اس میں ظاہر ہو نے لگتے ہیں _ اس وقت وہ اپنے سے خارجی دنیا اور اپنےھ ارد گرد کے موجودات کی طرف توجہ کرتا ہے وہ ماں کی حرکات و سکنات کو دیکھتا رہتا ہے _ ماں کی حرکات پر اپنا رو عمل ظاہر کرتا ہے مسکراہٹ کے جواب میں مسکراتا ہے اور اس کی را بردؤں کے جواب میں اپنے ابردؤں کو حرکت دیتا ہے بچوں کے کھیل کو حیرت سے دیکھتا ہے ، اٹھکیلیاں کرتا ہے اور مسکر اتا ہے دوسروں کے جذبات کو محسوس کرتا ہے ، غصے پر اپنے تیئں پیچھے کھینچ لیتا ہے _

خوش دخرم چر ے اور محبّت آمیز آواز ہو تو ھمک ھمک کر قریب آتا ہے _ وہ چا ہتا ہے کہ اسے بٹھا دیا جائے تا کہ دنیا کو اپنے سامنے دیکھے _

جب بچہ اس مرحلے میں پہنچ جائے تو ماں باپ کو توجہ رکھنا چاہیئے کہ بچے میں اجتماعی احساسات پیدا ہو چکے ہیں اور وہ اب خاندان کا ایک با قاعدہ حصہ بن گیا ہے _ دوسروں کی طرف تو جہ رکھٹا ہے اور ان کے جذبات کو کسی حد تک محسوس کرتا ہے _ اب نہیں چائے کہ اسے بے شعور

۱۲۴

اور لا تعلق سمجھا جائے اور اس سے لا تعلق ہا جائے _ ان چار اہ کی مدت میں اس نے تجربے کیے ہیں اور چیزوں کو یاد کیا ہے وہ اب خارجی دنیا کو دیکھنے والا اور اجتماعی وجود رکھنے والا انسان ہے _ یہ احساس اگر چہ بہت سادہ اور بار یک ساہے _ لیکن یہ اس کی آئندہ کی مفصّل اجتماعی زندگی کا افق ہے _ اگر ماں باپ اپنے بچے کے اس نئے احساس کو پہچانیں اور سوچ سنجھ کر عقلی بنیاد وں پر اس کی تکمیل کی کوشش کریں تو وہ ایک اجتماعی شعور رکھنے والا مفید انسان پروان چڑھا سکتے ہیں لیکن خارجی دنیا کایہ احساس آہستہ آہستہ دب جاتا ہے اور بچہ داخلی دنیا کی ہو لنا ک وادی کی طرف لوٹ جاتا ہے اور یہ بذات خود نقصان وہ صفات میں سے ہے _ اسی صفت کی وجہ سے انسان گوشہ نشینی پسند کرنے لگتا ہے اور خو د بین ہو جاتا ہے _ معاشر ے اور معاشرتی کاموں سے گریزاں ہو جاتا ہے دوسرں کے بارے میں بد گمال ہو جاتا ہے اور احساس کمتری کا شکار ہو جاتا ہے _ تعاوں اور ہمکار ی سے ڈرتاہے اور خوف کھا تا ہے _

اس موقع پر ماں باپ کے سر پرنئی ذمہ داریاں آجاتی ہیں _ انہیں چا ہیے کہ بچے کو با شعور سمجھیں کہ جو ان کے جذبات کو محسوس کرتا ہے اور ان کے کردار سے اثر قبول کرتا ہے _ بچے کو بھول نہیں جانا چاہیے اور ہمیشہ اس کی طرف تو جہ رکھنا چاہیے اس سے مسکراتے برتٹوں اور اور خوش و

و خرم چہرے سے ملاقات کرناچا ہیے _ اس سے محبت آمیز انداز سے بات کرنا چاہیے _ پیار بھر ے انداز سے بوسہ لے کر اس سے اظہار محبت کرنا چا ہیے _ ایک مہربان ماں اپنے سر اور گردن کی حرکت سے ، اپنے چشم و آبرو کے اشار ے سے ، اپنی میٹھی مسکراہٹ سے اور اپنی محبت آمیز گنگنا ہٹ سے بچے کی حس اجتماعی کو تقویت پہنچا سکتی ہے اور اسے خارجی دنیا کی طرف متوجہ کرسکتی ہے کھیلنے کی اچھی اچھی اور مناسب چیزوں کے ذریعے اسے خارجی دنیا کی طرف متوجہ کیا جاسکتا ہے _

بچے کی اندرونی خواہشات اگر ٹھیک طریقے سے پوری کردی جائیں تو وہ آرام اور سکون محسوس کرتا ہے _ دوسروں کے بارے میں خوش بین ہوجاتا ہے _لوگوں کو خیر خواہ ، مہربان اور ہمدرد سمجھتا ہے _ جب معاشرہ اس سے اچھا سلوک کرتا ہے اور اس کی اندرونی خواہشات کا مثبت جواب دیتا ہے تو بچہ بھی اس سے خوش بین اور مانوس ہو جاتا ہے _ اس طرح کا

۱۲۵

طرز فکر بچے کی روح اور جسم پر اچھے اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کی آئندہ زندگی کے لیے اچھی بنیاد بنتا ہے اچھے ماں اور باپ بچے کو مارتے نہیں ، تر ش روٹی سے پیش نہیں آتے اور اس کی زندگی کو تلخ نہیں بنا تے کیونکہ انہیں معلوم ہو تا ہے کہ اس طرح کا احمقانہ رویہ بچے پر روحانی اور نفسیاتی اعتبار سے برے اثرات مرتب کرتا ہے اور اس کے جذبات اور پاک احساسات کو مجروح کردیتا ہے اور اس کی شکستگی کا باعث بنتا ہے _ اسی غیر عاقلانہ طر ز عمل کا نتیجہ ہی ہو تا ہے کہ بچہ ڈر پوک ، احساس کمتر ی کا شکار ، گوشہ نشین ، بد بین اوردل گرفتہ ہو جاتا ہے _

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ و سلّم نے فرمایا :

اپنی اولاد کا احترام کرواور ان کی اچھی تربیت کرد تا کہ اللہ تمہین بخش دے ( 1)

--------

1_ مکارم الاخلاق ص 255

۱۲۶

محبّت

انسان محبت کا پیا سا ہے محبّت دلوں کو زندگی بخشتی ہے _ جو اپنے آپ کو پسند کرتا ہے اور چاہتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کریں ، محبوبیت کا یہ احساس اس کے دل کو شاد کردیتا ہے _ جسے یہ معلوم ہو کہ اسے کوئی بھی پسند نہیں کرتا وہ اس پر آشوب زندگی میں اپنے آپ کو تنہا اور بے کس سمجھتا ہے _ اس وجہ سے وہ ہمیشہ افسردہ اور پر مدہ رہتا ہے_ بچہ بھی ایک چھوٹا سا انسان ہے اور اسے بڑوں کی نسبت محبت کی بھی ضرورت ہوتی ہے _ بچہ یہ نہیں سمجھتا کہ محل میں زندگی گزار رہا ہے یا جھونپٹری میں _ البتہ یہ خوب سمجھتا ہے کہ دوسرے اس سے محبت کرتے ہیں یا نہیں _ اس احساس محبت سے وہ آرام و سکون کے ساتھ اپنی نشوو نما کے راستے پر گامزن ہو سکتا ہے اور انسانیت کی بلند صفات حاصل کرسکتا ہے _ اچھے اخلاق کا سرچشمہ محبت ہے _ محبّت کے پر تومیں بچے کے جذبات اور احساسات کو اچھے طریقے سے پروان چڑ ھا یا جا سکتا ہے اور اسے ایک اچھا انسان بنا یا جاسکتا ہے

جس بچے کو بھر پور محبت ملی ہو اس کی روح شاد اور دل پر نشاط ہو تا ہے _ وہ احساس محرومی کا شکار ہو کر بڑاردّ عمل ظاہر نہیں کرتا _ خوش بین ، خوش مزاج اور پر اعتماد ہو تا ہے _ اس فطری نشوونما کی وجہ سے وہ نفسیاتی مشکلات کا شکار نہیں ہو تا _ خیر خواہ اور انسان دوست بن جاتا ہے _ کیونکہ وہ محبت کے میٹھے چشمے سے سیراب ہو ا ہوتا ہے لہذا چاہتا ہے کہ دوسروں کوبھی اس سے سیراب کرے _ وہ لوگوں سے ایسا سلوک کرتا ہے جیسااس سے کیا جاتا ہے _

۱۲۷

جو بچہ پیار محبت کے ماحول میں پرورش پاتا ہے وہ دوران بلوغت پیش آنے والی مشکلات اور جسمانی و نفسیاتی تبدیلیوں کا بہتر طور پر مقابلہ کرسکتا ہے _جس لڑکی کو ماں باپ سے محبت ملی ہوا ور اس کا گھریلو حول محبت سے معمور ہو وہ جوانی میں بے کسی اور محرومی کا احساس نہیں کرتی _ وہ کسی خود غرض لڑکے کے چند محبت آمیز جملے سن کر اپنے تئیں اس کے سپرد کرکے اپنا مستقبل تباہ نہیں کردیتی _ جس نوجوان نے پیار اور محبت کے ماحول میں پرورش پائی ہو وہ احساس محرومی کا شکار نہیں ہوتا کہ اسے برائیوں ، منشیات اور شراب کے مراکز پناہ کی ضرورت پڑے _

نفسیاتی نکتہ نظر سے بھی یہ بات ثابت ہے کہ وہ بچے جنہیں خوب محبت ملی ہو ان بچوں کے مقابلے میں زیادہ ہوشمند اور صحیح و سالم ہوتے ہیں جو پرورش گاہوں میں پلے ہوں _ اگر چہ پرورش گاہوں میں پلنے والے بچے غذا اور حفظان صحت کے اعتبار سے اچھے ہوں ،مگر جس نے جذبات سے عاری سرد ماحول میں پرورش پائی ہو اور ماں باپ کی مہر و محبت نہ دیکھی ہو اس شخص کی کیفیت اطمینان بخش اور فطری نہیں ہوگی _ جس شخص نے محبت کا ذائقہ نہ چکھا ہو وہ اسے دوسروں پر کیسے نثار کرسکتاہے _ ایسے محروم انسان سے انسان دوستی کی توقع نہیں کی جا سکتی _

جو بچہ ماں باپ کی محبت سے محروم رہا ہو یا صحیح طریقے سے اس سے بہرہ مند نہ ہوا ہو وہ اپنے اندر احساس محرومی و کمتری کرتا ہے اور اس میں ہر طرح کے انحراف کی گنجائشے ہوتی ہے ، تندخوئی ، غصّہ، ڈھٹائی ، بدبینی ، جھوٹ ، حساسیت ، ناامیدی، افسردگی ، گوشہ نشینی، نام آہنگی کی زیادہ تر وجہ محبت سے محروی ہوتی ہے _

جو محبت سے محروم رہا ہو ، ہوسکتا ہے ، وہ چوری اور قتل میں ملوث ہوجائے تا کہ وہ اس معاشرے سے انتقام لے جو اسے پسند نہیں کرتا یہاں تک ممکن ہے وہ خودکشی کرلے تا کہ وہ وحشت اور تنہائی سے نجات حاصل کرے _ بہت سے چور اور مجروم ایسی ہی محرومیت کا شکار اور دلگرفتہ ہوتے ہیں _ آپ اخبارات اور رسائل کو دیکھ سکتے ہیں اور ایسے لوگوں کا حال پڑھ سکتے ہیں اور اس سے عبرت حاصل کرسکتے ہیں _

۱۲۸

انجمن ملی حمایت بچگان کے شعبہ نفسیات کے سربراہ ڈاکٹر حسن احدی نے پانچ سو مجرموں پر ایک تحقیق کی ہے _ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے افراد نے پہلا جرم 12 سے 13 سال کی عمر کے دوران کیا ہے اور اس کی وجہ خاندان میں محبت کی کمی سے مربوط ہے ...انجمن ملی حمایت بچگان کے نفسیاتی دیکھ بھال کے شعبے کے سربراہ اور معروف ماہر نفسیات و عمرانیات کہتے ہیں :

''بہت سارے نفسیاتی مسائل کو بنیاد بچپن میں پڑی ہوتی ہے _ یہاں تک کہ سمجھدار ترین بچے کو جو مسئلہ پریشان کرتا ہے وہ اس کے جذبات کی تسکین کا معاملہ ہے '' _ (1)

... اپنے خط میں لکھتا ہے :

ایک چھوتے سے قصبے میں، ایک غریب سے گھرانے میں میں نے آنکھ کھولی _ میرے ماں باپ کے لیے میری اور میری دو بہنوں کی پرورش مشکل تھی _ میری دادی مجھے اپنے گھرلے گئی _ ان کی حالت ہم سے بہتر تھی _ وہ مجھ سے بہت محبت کرتی تھی _ میرے لیے اچھے اچھے کپڑے اور دیگر ضروری چیزیں مہیا کرتی تھی _ لیکن یہ رنگارنگ دنیا میری اس تشنگی کو دور نہ کرسکی جو ماں باپ سے دوری کی وجہ سے محسوس ہوتی تھے مجھے یوں لگتا جیسے مجھ سے کچھ کھو گیا ہو _ کبھی کبھی دوسروں کی نظروں سے اوجھل میں پہروں روتا رہتا _ میں تیسری جماعت میں پڑھتا تھا _ ایک مرتبہ میرا باپ مجھے ملنے آیا _ اس نے مجھے اپنے گھر جانے کے لیے کہا _ میں خوش ہوکر چلنے کو تیار ہوگیا _ مجھے یوں لگا جیسے میرا سالہا سال کا غم پل بھر میں ختم ہوگیا ہے _ میں ہر ماں باپ کو یہ نصیحت کرتا ہوں کہ حالات کچھ بھی ہوں اپنے بچوں کو اپنے آپ سے جدا نہ کریں _ انہیں اس امر کی طرف متوجہ رہنا چاہیے کہ ماں باپ سے دوری اور ان کی محبت سے

------------

1_ روزنامہ کیہا ن _ شمارہ 10042

۱۲۹

محرومی بچوں کے لیے نہایت سنگین اور تکلیف وہ ہے اس کی جگہ کوئی چیز بھی پر نہیں کرسکتی _

... اپنے ایک خط میں لکھتا ہے _

میں ماں باپ کے پیار سے محروم تھا _ اس لیے میں ایک دل گرفتہ اور حاسد انسان ہوں _ ڈرپوک بھی ہوں اور غصیلا بھی _ بچپن میں میں اسکول سے بھاگ جایا کرتا تھا _ چھٹی جماعت مشکل سے پڑھ پایا ہوں _

دین مقدس اسلام کہ جس کی تربیتی مسائل کی جانب پوری توجہ ہے ، اس نے محبت کے بارے میں بہت تاکید کی ہے _ قرآن او رحدیث میں اس ضمن میں بہت کچھ موجود ہے _ نمونے کے طور پر چند مثالیں پیش خدمت ہیں :

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا:

انسان کو اپنی اولاد سے جو شدید محبت ہوتی ہے اس کے باعث اللہ اپنے اس بندے کو مشمول رحمت قرار دے گا _ (1)

بچوں سے محبت بہترین عمل ہے کیونکہ ان کی خلقت کی بنیاد خداپرستی اور توحید ہے _ اگر وہ بچپن میں ہی مرجائیں تو بہشت میں داخل ہوں گے _ (2) پیغمبر اکر م صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:بچوں سے پیار کرو اور ان پر مہربانی کرو _ (3)

رسول اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:اپنے بچوں کو خوب چوموکیونکہ ہر بوسے کے بارے میں اللہ جنّت میں تمہارا ایک درجہ بڑھادے گا _ (4)

----------

1_ وسائل ، ج 15 ، ص 98

2_ مستدرک ، ج 2، ص 615

3_ بحار، ج 104، ص 92

4_ بحار، ج104، ص 92

۱۳۰

ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے کہا :

میں نے آج تک کسی بچے کا بوسہ نہیں لیا _

جب وہ شخص چلا گیا تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اپنے اصحاب سے فرمایا:

میری نظر میں یہ شخص دوزخی ہے _ (1)

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جو ، بچوں پر شفقت نہ کرے اور بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے _ (2)

حضرت علی علیہ السلام نے وصیت کرتے وقت فرمایا:

بچوں پر مہربانی کرو اور بڑوں کا احترام کرو _ (3)

---------

1_ بحار، ج 104، ص 99

2_ بحار ، ج 75، ص 137

3_ بحار، ج 175، ص 136

۱۳۱

اظہار محبت

اولاد کی محبت ایک فطری امر ہے _ شاید بہت کم ماں باپ ایسے ملیں جو اپنی اولاد کو دل سے عزیز رکھتے ہوں_ البتہ نری یہ دلی محبت بچے کی خواہشات کی تکمیل کے لیے کافی نہیں ہے _ بچہ اس محبت کا ضرورت مند ہے جو ماں باپ کے طرز عمل سے ظاہر ہو _ بچے سے پیار کیا جائے _ اس کا بوسہ لیا جائے ، اسے گود میں اٹھایا جائے ، اس سے مسکراکر پیش آیا جائے ، یہاں تک کہ ماں باپ چب اسے پیار بھری لوریاں سناتے ہیں تو وہ احساس محبت کرتا ہے _ بچے کا دل چاہتا ہے کہ کبھی ماں باپ سے کھیلے اور اٹھکیلیاں کرے _ اسے وہ محبت کی ایک علامت سمجھتا ہے _ ان کے غصے، جھگڑے اور سختی کو بے مہری کی دلیل سمجھتا ہے _ جب ماں باپ بچے کی طرف دیکھتے ہیں اور اس سے بات کرتے ہیں تو وہ اندازہ لگالیتا ہے کہ اس سے پیارکرتے ہیں یا نہیں _

بعض ماں باپ ایسے بھی ہیں کہ بچہ چھوٹا ہو تواس سے اظہار محبت کرتے ہیں _ لیکن جب بڑا ہوجائے تواظہار محبت تدریجا کم کردیتے ہیں اور جب وہ نوجوان اور جوان ہوجاتا ہے تو اسے بالکل ترک کردیتے ہیں اور کہتے ہیں اب بڑا ہوگیا ہے او راظہار محبت سے بگڑجائے گا اور ویسے بھی بڑا ہو کر کسی محبت اور نوازش کی ضرورت نہیں ہوتی _ لیکن یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ بیٹا تمام عمر محبت کا محتاج رہتا ہے _ ماں باپ کی محبت سے خوش ہوتا ہے اور ان کی بے مہری پر افسردہ ہوجاتا ہے _خاص طور پر نوجوانی اور جوانی کی عمر کہ جو نفسیاتی اعتبار سے ایک ہیجانی دورہوتا ہے اس میں اسے ہر زمانے سے زیادہ ماں باپ کی ہمدردی مہربانی

۱۳۲

اور دلجوئی کی احتیاج ہوتی ہے _ یہ بے مہریوں کا نتیجہ ہے کہ بہت سے جوان خودکشی کر لیتے ہیں _ یا اپنے گھر ، شہر اور ملک سے بھاگ جاتے ہیں _ اس مقام پر غیر مناسب نہ ہوگا کہ ایک سولہ سالہ لڑکی کی ڈائری سے چند یادداشتیں آپ کی توجہ کے لیے پیش کی جائیں _ لڑکی کا نام نازنین ہے لکھتی ہے _

واقعاً جب میں اپنی امی اور ابو کے بارے سوچتی ہوں تو ہنستی ہوں اگر چہ ان کی کیفیت نہ صرف کہ ہنسنے کے لائق نہیں بلکہ بہت ہی غم انگیز ہے _ ماں تو اپنی ہی دنیا میں اور اپنی زبان چلانے میں اور نہ جانے اپنے ہی کاموں میں سرگرم رہتی_ اس کی کل خواہش یہی ہے کہ خالہ و رزی جان اور حمیدہ بیگم کے ساتھ بیٹھی رہے اور گھنٹوں باتیں کرتی رہے جب وہ ان سے باتین کررہی ہو تو اگر میں یا میرے بھائی بہنوں کو اس سے کوئی کام پڑجائے تو گویا اس کی گھڑیاں بہت تلخ ہوجاتی ہیں _ اسے معلوم نہیں کہ جب وہ عورتوں کے ساتھ بیٹھی دوسروں کی غیبت کررہی ہوتی ہے _ کبھی کسی کے جوتے کی بات ہے اور کبھی کسی کی پگڑی کی _ اس وقت میرے دل کی حالت ایک ایسے بے آشیاں پرندے کی سی ہوتی ہے کہ جو سرگرداں او رنالاں ہو اور درودیوار سے ٹکرار ہا ہوتا کہ اسے بھی بات کرنے کے لیے کوئی ساتھی مل جائے _ اس سے اپنا دردبیان کرے اور کچھ تسلی پائے _ کوئی ایسا ساتھی ہو کہ جو غلطیوں اور کوتاہیوں پر کبھی برا بھلا نہ کہے اور بے عزتی نہ کرے _ امی اور ابوتوآپس میں تو تکرار کرتے رہتے ہیں یا اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھ جاتے ہیں _ یا پھر گھر میں نہیں ہوتے _ میں بھی صبح سے شام تک مدد سے میں ہوں اور بہت دن گزر گئے کہ میں نے ابوکو نہیں دیکھا کہ انہیں سلام کروں _ میری ادبیات کی استاد ایک ماہر نفسیات ہے آج اس نے کلام میں بیٹی کی زندگی پر باپ کے اثر پر بات کی _ اس کے باتیں کیسے میرے دل میں بیٹھ گئیں _ ہم سب کے دل میں بیٹھ گئیں _ اس نے سچ کہا آج جب کہ میں سب لڑکیوں کی نظروں میں بڑی ہوگئی ہوں ہر زمانے سے زیادہ احساس کرتی ہوں کہ مجھے اپنے باپ کی راہنمائی کی ضرورت ہے

۱۳۳

ایک فہمیدہ اور مہربان شخص کی توانائی کی احتیاج ہے _

میں سچ کہتی ہوں :

مجھے اپنے باپ کی عمدہ نوازشات کی چند سال پہلے کی نسبت زیادہ ضرورت ہے _ میرا دل چاہتا ہے کہ کبھی وہ مجھے اپنے زانو پر بٹھالے اور مجھے کہانی سنائے _ مجھے اجازت دے کہ میں ہر چیز کے بارے میں اس سے سوال کروں _ مجھے اجازت دے کہ میرے دل کی گہرائیوں میں اس کے بارے میں جو احساس ہے اور ارادہ ہے اس کا اظہار کروں لیکن ہائے افسوس کہ وہ کس قدر سرد اور ترش رد انسان ہے _ اصلاً اسے اس کا خیال بھی نہیں آتا کہ میں اس کی سولہ سالہ بیٹی چھ سال کی عمر سے زیادہ اس کی دلگرم اور خوبصورت مہربانیوں کی احتیاج مند ہوں _ میرے دل میں کتنی باتیں ہیں جو میں اس سے کہنا چاہتی ہوں _ میرے ایسے غم ہیں کہ ایک دانا شخص بہتر سمجھ سکتا ہے لیکن وہ مجھ سے اور ہم سب سے یوں دور ہے جیسے ہم اس کی زندگی میں کچھ بھی نہیں گھر میں اگر کوئی مہمان نہ ہو تو پھر وہ کتاب پڑھتا ہے _ اخبار کا مطالعہ کرتا ہے یا سردرد اور دل درد لے کر بیٹھ جاتا ہے اور پیار محبت کی کوئی بات نہیں کرتا _ یہ باپ ایسا کیوں سمجھتے ہیں کہ جب وہ خاندان کے لیے نان و نفقہ فراہم کردیں تو اس کے بعد ان کی کوئی ذمہ داری نہیں _ یہ کیوں نہیں سمجھنا چاہتے کہ بیٹی اور بیٹا جب بڑے ہوجاتے ہیں تو بالکل اسی طرح جیسے انہیں غذا کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے انہیں زیادہ معقول اور بیشتر محبت اور توجہ کی بھی نیاز ہوتی ہے _ ماں باپ کیوں یہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے اپنی 16 سالہ بیٹی سے کبھی محبت کا اظہار کیا یا کوئی پیار بھر اکلمہ کہہ دیا اس سے پندو نصیحت کے بغیر کوئی دوستانہ بات کردی تو ماں باپ کی شخصیت اور حیثیت مجروح ہوگی _ میرے دل میں بہت غصہ ہے _ میں بہت کمی کا احساس کرتی ہوں _ اگر چہ میرے خوبصورت گھر میں میرے لیے اچھا کمرہ ہے اچھے اسکول میں جاتی ہوں _ میری وضع قطع اور لباس اچھا ہے ان سب چیزوں کے لیے میرے ابو پیسہ بھی دیتے ہیں اور آرام ہے خرچ بھی کرنے ہیں _ زحمت بھی اٹھاتے

۱۳۴

ہیں _ لیکن وہ کام جس پر کچھ خرج نہیں ہوتا اور بہت ہی کم زحمت اٹھانا پڑتی ہے وہ نہیں کرتے _ وہ ہماری طرف توجہ نہیں کرتے _ (1)

بچے کی تربیت کے لیے بہترین جگہ ، بالخصوص زندگی کے ابتدائی دور میں گھر کا ماحول ہوتا ہے _ اس میں بچہ اپنے ماں باپ کی پوری توجہ ، نوازش اور محبت سے بہرہ مند ہوتا ہے _ ماں باپ کو یہ نصیحت کی جاتی ہے کہ حتی المقدور اپنے بچوں کو مراکز پرورش کے سپرد نہ کریں کیونکہ ہوسکتا ہے پرورش گاہ غذا اور حفظان صحت کا اعتبار سے گھر کی نسبت بہتر ہو لیکن بچے کے لیے ایک سرد اور بے مہر ماحول ہے _ پرورش گاہ اس بچے کے لیے زندان اور صحت افزا مقام پر جلا وطنی کے مانند ہے کہ جو ماں باپ کی توجہ اور محبت کا ضرورت مند ہے _ اچھی آب و ہوا اوراچھی غذا روحانی مسرت اور مہر و محبت کی جگہ نہیں لے سکتی _

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

جب تم کسی کو پسند کرتے ہو تو اپنے محبت کا اظہار بھی کرو اظہار محبت سے صلح و صفائی وجود میں آتی ہے وہ تمہیں ایک دوسرے کے نزدیک کردیتی ہے _ (2)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم صبح سویرے اپنی اولاد اور نواسوں سے پیار کیا کرتے تھے _ (3)

----------

1_ روزنامہ اطلاعات ، شمار 14113 ، خرداد ماہ ص 1358

2_ مستدرک ، ج 2 ، ص 67

3_ بحار، ج 104، ص 99

۱۳۵

محبّت _ کام نکا لنے کاذریعہ نہیں

چونکہ بچے کوماں باپ کی محبّت اور پیار کی ضرورت ہے ، بعض ماں باپ بچے کے اس احساس سے استفادہ کرتے ہیں اور اسے کام نکا لنے کا ذریعہ بنا تے ہیں _ اس سے کہتے ہیں یہ کام کرو تا کہ امی تجھ سے پیار کر ے اور اگرتم نے فلاں کام کیا تو ابوتم سے پیار نہیں کریں گے _ البتہ شک نہیں ہے کہ اس طریقے سے بچے پر اثر انداز ہو ا جاسکتا ہے اور اس کمے کاموں کو ایک حد تک کنٹروں کیا جاسکتا ہے _ لیکن اسی راستی راستے کو اختیار کئے رہنا بے ضرر نہیں ہے کیونکہ اس ذریعہ سے آہستہ آہستہ بچہ میں عادت پیدا ہو جائے گی کہ وہ ماں اور باپ اور دوسر ے لوگوں کی محبت حاصل کرنے کے لیے کام کرے نہ اس لئے کہ وہ کام واقعی اسکے اور معاشر ے کے مفا دمیں ہے وہ کاموں کی اچھائی اور برائی کامعیار انفرادی اور اجتماعی مفاد اور بھلائی اور رضائے الہی کا حصول ہونہ کہ لوگوں خواہش اور ایسا نہیں ہے کہ سب ماں باپ بچے اور معاشر ے کے حقیقی مفادات کو بخوبی پہچان سکیں ایسے ماں باپ بھی ہیں کہ اپنے مفادات اور آرام کو حقیقی فائدے پر ترجیح دیتے ہیں _ اس ذریعہ سے یہ بھی ممکن ہے کہ بچہ چاپلوس ، منافق اور فریب کاربن جائے کیونکہ اس کا مقصد دوسروں کی خوشنودی اور توجہ حاصل کرنا بن جائے گا اگر چہ وہ منافقت اور فریب کاری ہی کے ذریعے کیوں نہ ہو _لہذا ایک سمجھدار مربی محبت کو مطلب نکالنے اور بچے پر اثر انداز ہونے کا وسیلہ قرار نہیں دیتا _

۱۳۶

محبّت _ جو تربیت میں حائل نہ ہو

بعض ماں باپ اپنی اولاد سے حد سے زیادہ محبّت رکھتے ہیں اس لیے اس کے لئے جو چیزیں ضرر رساں ہیں قطعا نہیں سمجھتے اور اگر کبھی وہ اس میں عیب و یکھیں یا کوئی دوسرا اس کی طرف متوجہ کرے تو چونکہ یہ نہیں چاہتے کہ بچے کو ناراض کریں لہذا وہ اس عیب کو ان دیکھاکر دیتے ہیں اور اس کی اصلاح کی کوشش نہیں کرتے ہیں آپ ایسے بے ادب بچوں کو دیکھتے ہوں گے جو دوسرے بچوں کو اذیت دیتے ہیں ، لوگوں کو تنگ کرتے ہیں ، لوگں کی در و دیوار کو خراب کردیتے ہیں ، شیشے توڑ دیتے ہیں ، گالیاں دیتے ہیں ،لوگوں کے مال کو نقصان پہنچا تے ہیں اور اسی طر ح کی دوسری حرکتیں کرتے ہیں لیکن ان کے نادان ماں باپ نہ قفط یہ کہ ان کو تنبیہ نہیں کرتے بلکہ ایک احمقانہ ، ہنسی سے ان کا بے جاد فاع کرتے ہیں اور اس طر ح سے ایسے کاموں میں ان کی تشویق کا باعث بنتے ہیں یہ بے وقوف ماں باپ اپنی بے جا محبت سے دوستی کے لباس میں اپنے بچوں کے ساتھ بہت بڑی خیا نت کے مرتکب ہوتی ہیں اور یہ ظلم عظیم اللہ کے نزدیک بے مواخذہ نہیں ہو گا _ بچوں سے محبت کایہ مطلب نہیں کہ ان کی تربیت سے غافل ہو جائیں اور انہیں ہر کام کرنے کی کھلی چھٹی دے دیں _ اظہار محبت تربیت _

کا وسیلہ ہے اسے تربیت میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتے _ بہترین ماں باپ وہ ہیں جو بچے کی محبت کو اور تربیت کے مسئلہ کو الگ الگ کرکے دیکھیں، اپنے بچوں سے خوب محبّت کریں لیکن حقیقت بین نظروں سے ان کی خوبیوں اور خامیوں پر نظر رکھیں اور نہایت سمجھداری سے ان کی اصلاح کی کوشش کریں بچے کو بھی یہ بات سمجھنی چاہیئے کہ وہ بر ے کام کرنے

۱۳۷

میں آزاد نہیں اور اس پر اس کی باز پرس کی جائے گی اور اس کوہمیشہ خوف اور امید کے عالم میں زندگی گزارنی چاہیئےاں باپ کی محبت سے اس کو دلگرم اور پر امید ہونا چاہیئےور بے کاموں پر ان کی ناراضی اور غصّے کا اسے خوف ہو ناچا ہیئےن ماں باپ کو اپنے بچے سے محبت ہے ان کو یہ جاننا چا ہیئےہ ہمیشہ یہ بچہ ہی نہیں رہیگا اور نہ ہمیشہ ان کے ساتھ ساتھ رہیگا بلکہ وہ بڑا ہو جائے گا اور ناچار معاشر ے میں زندگی گزار ے گالوگوں سے معاشرت کرے گااگر اسے زندگی اور معاشرت کے آداب نہ آنے اور اس نے دوسرں کے حقوق کا احترام کرنانہ سیکھا تو لوگ اس سے نفرت کریں گے اور اس طرح سے وہ لوگوں توجہ او ر محبت حاصل نہیں کرسکے گاکہ جوزندگی کی خوشی اور راحت کے لیے ضروری ہے لوگ ماں باپ کی طرح نہیں ہو تے کہ اولاد کے عیوب کو نظر انداز کردیں _

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

سب سے براباپ وہ ہے کہ جو اولاد سے محبت اور احسان کرنے میں حد سے تجاوز کرے ( 1)

حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا :جسے ادب سکھا دیا گیا اس کی برائیاں کم ہو گئیں (2)

امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:میرے اباجان نے ایک شخص کو دیکھا کہ جو اپنے بیٹے کے ساتھ جار ہا تھا _ وہ بے ادب بیٹا اپنے باپ کے ہاتھ کا سہارا لیے ہو ئے تھا _ میر ے والد زین العابدین اس بے ادب بیٹے پر اتنے ناراض ہوئے کہ ساری عمر اس سے بات نہ کی ( 3)

--------

1_ تاریخ یعقوبی ، ج 2 ، ص 320

2_ غررا لحکم ج 2 ، ص 645

3_ بحار جلد 74 ص 64

۱۳۸

بگڑا ہو ابچّہ

یہ صحیح ہے کہ بچے کو محبت و نوازش کی ضرورت ہوتی ہے لیکن محبت میں افراط صحیح نہیں ہے _ محبت غذا کے مانند ہے اگر ضروری مقدار میں اپنے مقام پر صرف ہو تومفید ہے لیکن ضروری مقدار سے زیادہ غیر مناسب مقام پر صرف ہو تونہ صرف یہ کہ سود مندنہیں ہے بلکہ کئی ایک نقصانات کی حامل بھی ہے _ زیادہ لا ڈپیار نہ صرف بچے کے لیے مفید نہیں ہے بلکہ ہے نہ ماں باپ کے دل بہلا نے کا ذریعہ ہے وہ ایک چھوٹا سا انسان ہے کہ جس کی خود اس کے لیے اور اکے مستقبل کے لیے تعمیر و تربیت کی جاتی ہے اور یہ بہت بڑی ذمہ داری ماں باپ کے کند ھے پر رکھی گئی ہے _ بچہ ہمیشہ چھوٹا نہیں رھتا بلکہ بڑابھی ہو جاتا ہے اسے معاشر ے میں زندگی بسر کرنا ہے اور زندگی بسر کرنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ اس میں اونچ نیچ ، کامیابی و ناکامی ، عروج وزوال راحت و مصیبت اور خوشی اور غم موجود ہو تا ہے _ ایک سمجھدار مربی صحیح اور علاقلانہ طرز تفکر کے ساتھ زندگی کے حوادث کو مدّ نظر رکھتے ہوئے اپنے بچے کی اس طرح سے تربیت کرتا ہے کہ وہ زندگی کے نشیب و فراز سے گزرنے کے لیے تیار ہو جائے _ ماں باپ کویہ بات معلوم ہو نا چاہیے کہ جیسے بچے کی تربیت کے لیے اصولی طور پر محبت ضرور ہی ہے اسی وہ بگڑ جاتے ہیں اوران کے ناز نخر ے بہت بڑھ جاتے ہیں _ اس بری صفت کا نتیجہ خطر ناک نکلتا ہے مثلا ً:

۱۳۹

1_ جب بچہ یہ محسوس کرے گا کہ اس کے ماں باپ اسے بے انتہا چاہتے ہیں، پرستش کی حد تک اس سے محبت کرتے ہیں اور اس کی مرضی کے مطابق اسے سے سلوک کرتے ہیں تو اسے سے اس کی خواہشات کا دائرہ بہت وسیع ہوجائے گا _ وہ چاہے گا کہ فقط فرمان صادر کرے اور ماں باپ بلا چون و چرا اس پر عمل کریں کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے _ ایسے بچے میں دن بدن استبداد اور قدرت طلبی بڑھتی جائے گی _ یہاں تک کہ وہ ایک آمر حکمران کی صورت اختیار کر لیتا ہے _ ایسا شخص جب معاشرے میں آتا ہے تو لوگوں سے بھی یہ توقع رکھتا ہے کہ اس سے اس کے ماں باپ کی طرح محبت کریں ، اور اس کی خواہشات پر اسی طرح عمل پیراموں جیسے اس کے ماں باپ ہوتے ہیں لیکن لوگ خود غرض شخص سے محبت کرتے ہیں اور نہ اس کی خواہشات کی طرح توجہ کرتے ہیں _ اس بناء پر معاشرے سے اس کادل اچاٹ ہوجاتا ہے _ وہ شکست و ریخت کا شکار ہوجاتا ہے _ احساس کمتری کے باعث تنہائی پسند اور گوشہ نشین ہوجاتا ہے _ وہ مجبور ہوجاتا ہے کہ شکست و ناکامی کے ساتھ زندگی گزارے یا پھر خودکشی کرکے اپنے آپ کو اس سے نجات دے لے _ بگڑے ہوئے اور ناز پرورلوگ ازدواجی زندگی میں بھی عموماً کامیاب نہیں ہوتے _ ایسا شخص اپنی بیوی سے بھی یہ توقع رکھے گا کہ اس کی ماں سے بھی بڑھ کر اس سے اظہار محبت کرے، اس کے فرامین کی پوری طرح اطاعت کرے اور بلا چون و چرا ان پر عمل کرے _ لیکن افسوس کی عملی زندگی میں صورت حال مختلف ہے بہت سی بیویاں اپنے شوہر کے استبداد اور حکم کے سامنے تسلیم محض کے لیے تیار نہیں ہیں _ اس لیے گھریلو لڑائی جھگڑے شروع ہوجاتے ہیں _ اسی طرح ایک بگڑی ہوئی بیٹی بھی جب اپنے سسرال میں جاتی ہے تو اس کی بھی اپنے شوہر سے یہی توقع ہوتی ہے کہ وہ اس سے اس کے ماں باپ سے زیادہ محبت کرے اور اس کی ہر خواہش کوبلا حیل و حجّت قبول کرے _ عموماً مرد بھی ایک بلند پرواز اور ایسی بگڑی ہوئی عورت کی تمام خواہشات پوری نہیں کرسکتے ، لہذا گھر میں لڑائی جھگڑا شروع ہوجاتا ہے _ ایسے مرد اور عورتیں دیکھنے میں آجاتے ہیں جو اپنے بڑھاپے میں بھی اس بات پر تیار نہیں ہیں کہ اس بگڑے پن اور بچگانہ عادت سے دست بردار ہو کر بڑے ہوجائیں _ ایسے لوگ گویا اس پر مصر ہیں کہ ہمیشہ بچے ہی رہیں _

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455