آفتاب عدالت

آفتاب عدالت17%

آفتاب عدالت مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 455

آفتاب عدالت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 455 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 181588 / ڈاؤنلوڈ: 5474
سائز سائز سائز
آفتاب عدالت

آفتاب عدالت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اور درونی جذبات عقل عملی سے حقیقت کی تشخیص صلاحیت اور انسانیت کے سیدھے راستہ کو چھپادیتے ہیں اور اسے بدبختی کی طرف کھینچ لے جاتے ہیں _

کونسا قانون انسان کی کامیابی کا ضامن ہے ؟

چونکہ انسان اجتماعی زندگی گزار نے کیلئے مجبور ہے اور منافع میں اپنے بھائیوں سے مزاحمت بھی اجتماعی زندگی کالازمہ ہے لہذا انسانوں کے درمیان قانوں کی حکومت ہونا چاہئے تا کہ اختلاف و پراکندگی کا سد باب ہوجائے _ قانوں بھی معاشرہ کو اسی صورت میں چلا سکتا ہے کہ جب درج ذیل شرائط کا حامل ہوگا _

۱_ قوانین جامع و کامل ہوں تا کہ تمام اجتماعی و انفرادی امور میں ان کا نفوذ اور دخل ہو _ ان میں تمام حالات اور ضرورتوں کی رعایت کی گئی ہو ، کسی موضوع سے غفلت نہ کی گئی ہو ایسے قوانین کو معاشرہ کے افراد کی حقیقی اور طبیعی ضرورتوں کے مطابق ہونا چاہئے _

۲_ قوانین حقیقی کامیابی و کمالات کی طرف انسان کی راہنمائی کرتے ہوں ، خیالی کامیابی و کمالات کی طرف نہیں _

۳_ ان قوانین میں عالم بشریت کی سعادت و کامیابی کو ملحوظ رکھا گیا ہو اور مخصوص افراد کے مفاد کو پور ا نہ کرتے ہوں _

۴_ وہ معاشرے کو انسانی کمالات و فضائل کے پایوں پر استوار کرتے ہوں اور اس کے اعلی مقصد کی طرف راہنمائی کرتے ہوں یعنی اس معاشرے کے افراد دنیوی زندگی کو انسانی فضائل و کمالات کا ذریعہ سمجھتے ہوں اور اسے ( دنیوی زندگی کو) مستقل ٹھکانا خیال نہ کرتے ہوں_

۸۱

۵_ وہ قوانین ظلم و تعدی اور ہرج و مرج کو رد کرکے کی صلاحیت رکھتے ہوں اور تمام افراد کے حقوق کو پورا کرتے ہوں _

۶_ ان قوانین کی ترتیب و تدوین میں روح اور معنوی زندگی کے پہلوؤں کی بھی مکمل طور پر رعایت کی گئی ہو یعنی ان میں سے کوئی قانون بھی نفس اور روح کیلئے ضرر رساں نہ ہو اور انسان کو سیدھے راستہ سے منحرف نہ کرتا ہو _

۷_ معاشرے کو انسانیت کے سیدھے راستہ سے منحرف کرنے اور ہلاکت کے غار میں ڈھکیل دینے والے عوامل سے پاک و صاف کرتا ہو _

۸_ ان قوانین کا بنانے والا تزاہم ( ٹکراؤ) مصلحت اور مفاسد کو بھی اچھی طرح جانتا ہو _ زمان و مکان کے اقتضا سے واقف ہو _

انسان یقینا ایسے قوانین کا محتاج ہے اور یہ اس کی زندگی کے ضروریات میں شمار ہوتے ہیں اور قانون کے بغیر انسانیت تباہ ہے _ لیکن یہ بات موضوع بحث ہے کہ کیا بشر کے بنائے ہوئے قوانین اس عظیم ذمہ داری کو پورا کرسکتے ہیں اور معاشرہ کو چلانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا نہیں ؟

ہمار ا عقیدہ ہے کوتاہ فکر اور کوتاہ اندیش افراد گا بنایا ہوا قانون ناقص اور معاشرہ کے نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی صلاحیت سے عاری ہے _ دلیل کے طور پر چند موضوعات پیش کئے جا سکتے ہیں _

۱_ انسان کے علم و اطلاع کا دائرہ محدود ہے _ عام آدمی مختلف انسانوں کی ضروریات خلقت کے رموز و اسرار خیر و شر کے پہلوؤں ، زمان و مکان کے اقتضاء کے اعتبار سے فعل و انفعالات ، تاثیر وتاثر اور قوانین کے تزاحم سے مکمل طور پر واقف

۸۲

نہیں ہے _

۲_ اگر بفرض محال قانون بنانے والے انسان ایسے جامع قانون بنانے میں کامیاب بھی ہوجائیں تو بھی وہ دنیوی زندگی اور معنوی حیات کے عمیق ارتباط اور ظاہر حرکات کے نفس پر ہونے والے اثرات سے بے خبر ہیں اور کچھ آگہی رکھتے ہیں تو وہ ناقص ہے اصولی طور پر معنوی زندگی ، ان کے پروگرام سے ہی خارج ہے _ وہ بشریت کی خوش بختی اور سعادت مندی کو مادی امور میں محدود سمجھتے ہیں جبکہ ان دونوں زندگیوں میں گہرا ربط ہے اور جدائی ممکن نہیں ہے _

۲_ چونکہ انسان خودخواہ ہے لہذا دوسرے انسانوں کا استحصال طبیعی ہے چنانچہ نوع انسان کا ہر فرد اپنے مفاد کو دوسروں کے مفاد پر ترجیح دیتا ہے _ پس اختلاف اور استحصال کا سد باب کرنا اس کی صلاحیت سے باہر ہے ، کیونکہ قانون بنانے والے انسان کو اس کی خواہش ہرگز اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ وہ اپنے اور اپنے عزیزوں کے منافع و مفاد سے چشم پوشی کرکے لوگوں کی مصلحت کو مد نظر رکھے _

۴_ قانون بنانے والا انسان ہمیشہ اپنی کوتاہ نظری کے اعتبار سے قانون بناتا ہے اور انھیں اپنے کوتاہ افکار ، تعصبات اور عادتوں کے غالب میں ڈھالتاہے ، لہذا چند افراد کے منافع اور مفاد کے لئے قانون بتاتا ہے اور قانون بناتے وقت دوسروں کے نفع و ضرر کو ملحوظ نہیں رکھتا _ ایسے قوانین میں عام انسانوں کی سعادت کو مد نظر نہیں رکھا جاتا _ صرف خدا کے قوانین ایسے ہیں جو کہ انسان کی حقیقی ضرورتوں کے مطابق اور خلقت کے رموز کے مطابق نبے ہیں ، ان میں ذاتی اغراض و مفاد او رکجی نہیں ہے اور ان میں عالم بشریت کی سعادت کو مد نظر نظر رکھا گیا ہے _ واضح ہے کہ انسان قانون الہی کا محتاج ہے

۸۳

اور خدا کے الطاف کا اقتضا یہ ہے کہ وہ مکمل پروگرام بنا کر اپنے پیغمبروں کے ذریعہ بندوں تک پہنچائے _

سعادت اخروی

جس وقت انسان دن رات اپنی دنیوی زندگی میں سرگرم ہوتا ہے اسی وقت اس کے باطن میں بھی ایک سربستہ زندگی موجود ہوتی ہے _ ممکن ہے وہ اس کی طرف بالکل متوجہ نہ ہو اور مکمل طور پر اسے فراموش کرچکا ہو _ اس مجہول زندگی کی بھی سعادت و شقاوت ہوتی ہے _ بر حق عقائد و افکار ، پسندیدہ اخلاق اور شائستہ اعمال روحانی ترقی او رکمال کا باعث ہوتے ہیں اور اسے سعادت و کمال کی منزل تک پہنچاتے ہیں جیسا کہ باطل عقائد ، برے اخلاق اور ناروا حرکتیں بھی نفس کی شقاوت و بدبختی کا سبب قرار پاتی ہیں _ اگر انسان ارتقاء کے سیدھے راستہ پر گامزن ہوتا ہے تو وہ اپنی ذات کے جوہر اور حقیقت کی پرورش کرتا اور اسے ترقی دیتا ، اپنے اصلی مرکز عالم نورانیت کی طرف پرواز کرتا ہے اور اگر روحانی کمالات اور پسندیدہ اخلاق کو اپنی حیوانی قوت و عادت اور خواہش نفس پر قربان کردیتا ہے اور ایک درندہ و ہوس راں دیوبن جاتاہے تو وہ ارتقاء کے سیدھے راستہ سے منحرف ہوجائے گا اور تباہی و بدبختی کے بیابان میں بھٹکتا پھرے گا _ پس معنوی حیات کے لئے بھی انسان ایک مکمل پروگرام اور معصوم راہنما کامحتاج ہے _ کسی کی مدد کے بغیر اس خطرناک راستہ کو طے نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی نفسانی خواہشیں اس کی عقل کواکثر صحیح فیصلہ کرنے اور حقیقت بینی سے باز رکھتی ہیں اور اسے ہلاکت کی طرف لے جاتی ہیں ، وہ اچھے کہ برا اور برے کو اچھا کرکے دکھاتی ہیں _

۸۴

صرف خالق کائنیات انسان کے حقیقی کمالات ، واقعی نیک بختی اور اس کے اچھے برے سے واقف ہے اور وہی اس کی نفس کی سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی کے عوامل سے بچانے کامکمل دستور العمل انسان کے اختیا رمیں دے سکتا ہے _ پس اخروی سعادت تک پہنچنے کے لئے بھی انسان خالق کائنات کا محتاج ہے _

اس سے یہ نتیجہ برآمد ہوتا ہے کہ خدائے حکیم نے انسان کو ، جو کہ سعادت و بدبختی دونوں کی صلاحیت رکھتا ہے ، ہرگز خواہشات نفس اور حیوانی طاقت کا مطیع نہیں بنایا ہے اور جہالت و نادانی کے بیابان میں سرگرداں نہیںچھوڑا ہے _ بلکہ اس کے بے شمار الطاف کا اقتضا تھا کہ وہ اپنے برگزیدہ پیغمبروں کے ذریعہ ایسے احکام ، قوانین اور مکمل دستور العمل جو کہ دنیوی و اخروی سعادت و کامیابی کا ضامن ہو ، انسانوں تک پہنچائے اور سعادت و کامیابی اور بدبختی و ناکامی سے انھیں آگاہ کرے تا کہ ان پر حجّت تمام ہوجائے اور مقصد تک پہنچنے کا راستہ ہموار ہوجائے _

ترقی کا راستہ

انسان کی ترقی اور خدا تک پہنچنے کا سیدھا راستہ ، برحق عقائد ، اعمال صالح اور نیک اخلاق ہیں کہ جنھیں خدا نے انبیاء کے پاکیزہ قلوب پرنانزل کیا ہے تاکہ وہ انھیں لوگوں تک پہنچادیں لیکن یادرہے یہ راستہ کوئی وقتی اور تشریفاتی نہیں ہے کہ جس کا مقصد سے کوئی ربط نہ ہو بلکہ یہ حقیقی اور واقعی راستہ ہے کہ جس کا سرچشمہ عالم ربوبیت ہے جو بھی اس پر گامزن ہوتا ہے _ وہی اپنے باطن میں سیر ارتقاء کرتا ہے اور بہشت رضوان کی طرف پرواز کرتا ہے _

۸۵

بعبارت دیگر : دین حق ایک سیدھا راستہ ہے ، جو بھی اسے اختیار کرتا ہے اسکی انسانیت کامل ہوتی ہے اور وہ انسانیت کے سیدھے راستہ سے سرچشمہ کمالات کی طرف چلا جاتا ہے جو دیانت کے سیدھے راستے سے منحرف ہوجاتا ہے وہ مجبوراً انسانیت کے فضائل کی راہ کو گم کرکے حیوانیت کے کج راستہ پر لگ جاتا ہے _ حیوانیت و درندگی کے صفات کی تقویت کرتا اور راہ انسانیت کو طے کرنے سے عاجز ہوجاتا ہے ایسے شخص کی زندگی دشوار ہوجاتی اور جہنم اس کی تقدیر بن جاتاہے _

عصمت انبیائ

خداوند عالم کے لطف کا اقتضا یہ ہے کہ لوگوں تک احکام اور ضروری قوانین پہچانے کے لئے انبیاء کو مبعوث کرے تا کہ وہ مقصد تخلیق کی طرف ان کی راہنمائی کریں _ خدا کا یہ مقصد اس صورت میں پورا ہوسکتا ہے کہ جب اس کے احکام بغیر کسی تحریف _ بغیر کمی بیشی_ کے لوگوں تک پہنچ جائیں اور ان کا عذر بھی ختم ہوجائے _ اس لئے پیغمبر خطا و نسیان سے معصوم و محفوظ ہوتے ہیں یعنی خدا سے احکام لینے ، ان کا یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے محفوظ ہوتے ہیں _ اس کے علاوہ ان احکام پر انبیاء کو خود بھی عمل کرنا چاہئے تا کہ ان کے قول و عمل میں تضاد نہ ہو اور قول و عمل کے ذریعہ لوگوں کو حقیقی کمالات کی طرف دعوت دیں کہ ان کے پاس کو ئی عذر و بہانہ باقی نہ رہے اور راہ حق کی تشخیص میں ادھر ادھر نہ بھٹکین اور پھر پیغمبر ہی احکام خدا کا اتباع نہیں کریں گے تو ان کی تبلیغ کا بھی کوئی اثر نہ ہوگا ، لوگان پر اعتماد نہیں کریں گے ، کیونکہ وہ اپنی بات کے خلاف عمل کرتے ہیں اور اپنے عمل سے لوگوں کو احکام کے خلاف عمل کرنے کی دعوت دیتے ہیں

۸۶

اور یہ بات تو واضح ہے کہ عملی تبلیغ اگر قولی تبلیغ کے برابر نہیں تو کم بھی نہیں ہے _

ہمارے علوم و مدرکات خطا سے محفوظ نہیں ہیں کیونکہ وہ حواس اور قوائے مدرکہ کے ذریعہ حاصل حاصل ہوتے ہیں اور حواس سے سرزد ہونے والی غلطی و خطا سب پر عیاں ہے _ لیکن لوگوں کی ہدایت کیلئے جو علوم و احکام خدا کی طرف سے وحی کے ذریعہ انبیاء پر نازل ہوتے ہیں _ ان کی یہ کیفیت نہیں ہے ، انھیں انبیاء نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ حاصل نہیں کیا ہے ورنہ ان کی معلومات میں خطاکار واقع ہونا ضروری ہوتا اور اس طرح لوگوں تک حقیقی احکام نہیں پہنچ سکتے تھے _ بلکہ ان کے علوم کا طریقہ یہ ہے کہ وہ عالم غیب سے ان کے قلب پر نازل ہوتے ہیں ، ان حقائق کو وہ علم حضوری کی صورت میں مشاہدہ کرتے ہیں اور جن چیزوں کا وہ دل کی آنکھوں سے مشاہدہ کرتے ہیں وہ ان پر عالم بالا سے نازل ہوتے ہیں اور وہ انھیں لوگوں کے اختیار میں دیتے ہیں ، چونکہ انبیاء ان حقائق کا ادراک کرتے ہیں اسلئے ان کے سمجھنے اور یادر کھنے میں کوئی خطا واقع نہیں ہوتی _

اسی لئے وہ ان احکا م کی مخالفت اور عصیان سے بھی معصوم و محفوظ ہوتے ہیں ، اپنے علم پر عمل کرتے ہیں کیونکہ جو شخص عین حقائق اور اپنے کمالات و سعادت کا مشاہدہ کرتا ہے وہ یقین کے ساتھ اپنے مشاہدات پر عمل کرتا ہے اور ایسا انسان اپنے کمال کو نہیں گنواتا ہے _

امامت پر عقلی دلیل

نبوّت عامہ کی دلیل کی وضاحت کے بعد آپ اس بات کی ضرور تصدیق کریں گے کہ اسی برہان کا اقتضا یہ ہے کہ جب لوگوں کے درمیان کوئی پیغمبر نہ ہو تو اس وقت کسی انسان کو نبی کا جانشین اور احکام خدا کا خزینہ دار ہونا چاہئے کہ جو احکام کی حفاظت اور ان کی تبلیغ

۸۷

میں کوشاں رہے _ کیونکہ انبیاء کی بعثت اور لوگوں تک احکام بھیجنے میں جو خدا کا مقصد ہے وہ اسی وقت پورا ہوگا اور اس کے الطاف کمال کوپہنچیں گے اور اس کے بندوں پرحجت تمام ہوگی جب اس کے تمام قوانین و احکام لوگوں میں بغیر کسی تحریف کے محفوظ رہیں گے _ پس پیغمبر کی عدم موجودگی میں لطف خدا کا اقتضاء یہ ہے کہ انسانوں میں کسی کو ان احکام کی حفاظت و نگہداری کا ذمہ داربنائے _

اس منتخب شخص کو بھی احکام لینے ، یادرکھنے اور لوگوں تک پہنچانے میں خطا و نسیان سے معصوم ہونا چاہئے تا کہ خدا کا مقصد پورا ہوجائے اور اس کے بندوں پر اسکی حجت تمام ہوجائے _ احکام دین کو اس میں جلوہ گر ہونا چاہئے ، خود ان پر عمل پیرا ہونا چاہئے تا کہ دوسرے اپنے اعمال و اخلاق اور اقوال کی اس کے اعمال سے مطابقت کریں _ اس کا اتباع کریں ، اور راہ حقیقت کو تلاش کرنے میں کسی شک و تردد میں مبتلا نہ ہوں اور ہرطریقہ سے حجت تمام ہوجائے _ چونکہ وہ اس اہم ذمہ داری کے قبول کرنے میں خطا و اشتباہ سے معصوم ہے _ اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ اس نے حواس اور قوہ مدرکہ کے ذریعہ علوم کسب نہیں کئے ہیں اورلوگوں کے علوم سے بہت زیادہ مختلف ہیں ،بلکہ پیغمبر کی ہدایت سے اس کی چشم بصیرت چمک اٹھتی ہیں وہ دل کی آنکھوں سے انسانیت کے حقائق و کمالات کو مشاہدہ کرتا ہے اس لئے وہ بھی خطا سے محفوظ و معصوم ہے اور یہی حقائق و کمالات کا مشاہدہ ان کی عصمت کی علت ہے اور اپنے علوم و مشاہدات کے مطابق عمل کرنے کا باعث ہے اور علم و عمل کے ذریعہ لوگوں کا امام بنتا ہے _

بہ عبارت دیگر : نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے انسان کامل کا وجود ضروری ہے کہ جو خدا کے برحق عقائد کا معتقد اورانسانیت کے نیک اخلاق و صفات پر عمل پیراہو

۸۸

اور احکام دین پر عمل کرتاہو اور سب کو اچھی طرح جانتا ہو ، ان مراحل میں خطا و عصیان سے معصوم ہو ، علم و عمل کے ذریعہ تمام انسانی کمالات اس میں وجود پذیر ہوگئے ہوں اور وہ لوگوں کا امام ہو ں جس زمانہ میں ایسا شخص موجود نہ ہوگا اس زمانہ میں خدا کے وہ احکام ، جو کہ لوگوں کی ہدایت کے لئے نازل ہوئے ہیں ، ختم ہوجائیں گے اور حق تعالی کے فیوض و غیبی امداد کا سلسلہ منقطع ہوجائے گا اور عالم ربوبیت و عالم انسانی میں کوئی رابطہ برقرار نہ رہے گا ں

بہ عبارت دیگر: نوع انسان کے درمیان ہمیشہ ایسے شخص کو موجود ہونا چاہئے جو کہ مستقل ، خدا کی تائید و ہدایت اور فیضان کا مرکز ہو اور وہ معنوی فیوض ، باطنی مدد کے ذریعہ ہر انسان کو اس کی استعداد کے مطابق مطلوبہ کمال تک پہنچائے اور احکام الہی کا خزینہ دار ہوتا کہ ضرورت کے وقت مانع نہ ہونے کی صورت میں لوگ اس کے علوم سے مستفید ہوں _ امام حجّت حق ، نمونہ دین اور انسان کامل ہے جو بشر کی توانائی کی حد تک خدائی معرفت رکھتا اور اس کی عبادت کرتا ہے _ اگر اس کا وجود نہ ہوگا تو خدا کی کامل معرفت اور عبادت نہ ہوگی _ امام کا قلب خدا کے علوم کا خزینہ دار اور اسرار الہی کا مخزن ہے ایک آئینہ کی مانند ہے کہ جس میں عالم ہستی کے حقائق جلوہ گر ہوتے ہیں تا کہ دوسرے ان حقائق کے انعکاس سے مستفید ہوں _

جلالی: دین کے احکام و قوانین کا طریقہ اسی میں منحصر نہیں ہے کہ ایک شخص ان سب کو جانتا ہو اور ان پر عمل کرتا ہو ، بلکہ اگر دین کے تمام احکام و قوانین کو مختلف لوگوں میں تقسیم کردیا جائے اور ان میں سے ایک جماعت بعض احکام کا علم حاصل کرکے ان پر عمل پیرا ہو تو اس صورت میں بھی ، علم و عمل کے اعتبار سے دین کے تمام احکام لوگوں کے درمیان محفوظ رہیں گے _

۸۹

ہوشیار: آپ کا فریضہ دو اعتبار سے غلط ہے:

اول: گزشتہ بحثوں میں یہ بات کہی جا چکی ہے کہ نوع انسان کے درمیان ایک ممتاز انسان کو موجود ہونا چاہئے کہ جس میں انسانیت کے تمام ممکنہ کمالات جمع ہوں اور وہ دین کے سیدھے راستہ پرقائم ہو اور تعلیم و تربیت میں خدا کے علاوہ کسی کا محتاج نہ ہو _ اگرایسا کامل انسان لوگوں کے درمیان نہ رہے تو انسانیت کی کوئی غایت نہ ہوگی اور غایت کے بغیر نوع کا بتاہ ہونا یقینی ہے جبکہ آپ کے فرضیہ میں ایسا کامل انسان نہیں ہے کیونکہ ان اشخاص میں اگر چہ ایک بہت سے احکام کو جانتا اورا ن پر عمل کرتا ہے لیکن دین کے سیدھے راستہ پر ان میں سے کوئی بھی واقع نہیں ہوا ہے بلکہ سب جادہ حقیقت سے منحرف ہیں کیونکہ صراط مستقیم اور دین کے احکام کے درمیان ایک مضبوط و عمیق رابطہ برقرار ہے کہ جس کو منقطع کرنا ممکن نہیں ہے _

دوسرے : جیسا کہ پہلے بھی بیان کیا جا چکا ہے کہ جو قوانین خدا کی طرف سے انسان کی ہدایت کیلئے نازل ہوئے ہیں انھیں ہمیشہ ان کے درمیان محفوظ رہنا چاہئے یعنی ان میں :سی قسم کی تحریف ممکن نہ ہو اور تغیر و تبدل کے ہر خطرہ سے محفوظ ہوں تا کہ لوگ ان کے صحیح ہونے کو پورے اعتماد سے تسلیم کرلیں اور یہ اسی وقت ممکن ہے جب ان کا محافظ و خزینہ دار معصوم اور خطا و نسیان اور معصیت سے محفوظ ہو _ جبکہ آپ کے دونوں مفروضوں میں یہ چیز نہیں ہے کیونکہ خطا و نسیان اور معصیت ہر فرد سے سرزد ہوسکتی ہے _ نتیجہ میں خداوند عالم کے احکام تغیر و تبدل سے محفوظ نہیں ہیں اور خدا کی حجت تمام نہیں ہے اور بندوں کا عذر اپنی جگہ باقی ہے _

امامت حدیث کی نظر میں

ہوشیار: امامت سے متعلق جو چیزیں بیان ہوئی ہیں وہ سب اہل بیت کی

۹۰

روایات میں موجود ہیں ، اگر تحقیق کرنا چاہتے ہیں تو احادیث کی کتابوں کا مطالعہ فرمائیں _ ان میں سے چند یہ ہیں:

ابوحمزہ کہتے ہیں : میں نے حضرت امام صادق (ع) کی خدمت میں عرض کی کیا امام کے وجود کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: اگر زمین پر امام کا وجود نہ ہوگا تو دھنس جائے گی _(۱)

و شاء کہتے ہیں : میں نے امام رضا (ع) کی خدمت میں عرض کی : اما م کے بغیر زمین باقی رہ سکتی ہے ؟ فرمایا: نہیں _ عرض کی : ہم تک روایت پہنچی ہے کہ زمین حجت خدا ، امام کے وجود سے اس وقت خالی ہوتی ہے جب خدا اپنے بندوں پر غضبناک ہوتا ہے _ امام رضا (ع) نے فرمایا کہ : زمین وجود امام سے خالی نہ ہوگی ورنہ دھنس جائے گی _(۲)

ابن طیا رکہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق سے سنا کہ آپ نے فرمایا : اگر زمین پر صرف دو انسان ہوں گے تو بھی ان میں سے ایک امام ہوگا _(۳)

حضرت ابوجعفر (ع) فرماتے ہیں : خدا کی قسم حضرت آدم (ع) کے انتقال کے وقت سے اس وقت تک خدا نے زمین کو اس امام کے وجود سے خالی نہ رکھا ہے جس سے لوگ ہدایت پاتے ہیں اور وہی لوگوں پر خدا کی حجت ہے _ زمین کبھی امام کے وجود سے خالی نہیں رہتی کیونکہ وہ بندوں پرخدا کی حجت ہے _(۴)

____________________

۱_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۲۴_

۲_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۴_

۳_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۵_

۴_ اصول کافی ج ۱ ص ۳۳۳_

۹۱

حضرت امام جعفر صادق (ع) کا ارشاد ہے : خدا نے ہمیں بہترین طریقہ سے خلق فرمایا ہے اور زمین و آسمان میں اپنے علم کاخزینہ دار قراردیا ہے ، درخت ہم سے ہم کلام ہوتے ہیں اور ہماری عبادت سے خدا کی عبادت ہوتی ہے اگر ہم نہ ہوتے تو خدا کی عبادت نہ ہوتی _(۱)

آپ (ع) ہی کا ارشاد ہے : اوصیاء خدا علوم کے دروازے ہیں _ ان ہی کے ذریعہ دین میں داخل ہونا چاہئے اگر وہ نہ ہوتے تو خدا نہ پہچانا جاتا اور خدا ان کے وجود سے اپنے بندوں پر حجت قائم کرتا ہے _(۲)

ابوخالد کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق (ع) سے آیت فآمنوا باللہ و رسولہ و النّور الذی انزلنا _ کی تفسیر دریافت کی تو آپ نے فرمایا : اے ابوخالد خداکی قسم نور سے مراد ائمہ ہیں، اے ابوخالد نور امام سے مومنوں کے دل سورج سے زیادہ روشن ہوتے ہیں _ وہی مومنوں کے دلوں کو نورانی بنانتے ہیں _ خدا جس سے چاہتا ہے ان کے نور کو پوشیدہ رکھتا ہے اور اس کا قلب تاریک ہوجاتا ہے _(۳)

حضرت امام رضا (ع) فرماتے ہیں : جب خد اکسی کو اپنے بندوں کے امور کے لئے منتخب کرتا ہے تو اسے سعہ صدر عطا کرتا ہے ، اس کے قلب کو علم و حکمت کا اور حقائق کاسرچشمہ قرار دیتا ہے اور ہمیشہ اپنے علوم کا الہام کرتا ہے اس کے بعد وہ کسی جواب سے عاجز نہیں ہوتا ہے اور صحیح راہنمائی اور حقائق کو بیان کرنے میں گمراہ نہیں ہوتا ، خطا سے معصوم ہے

____________________

۱_ اصول کافی جلد۱ ص ۳۶۸_

۲_ اصول کافی جلد ۱ص ۳۶۹_

۳_ اصول کافی جلد ۱ ص ۳۷۲_

۹۲

خدا کی توفیقات و تائیدات ہمیشہ اس کے شامل حال رہتی ہیں ، خطا و لغزش سے محفوظ رہتا ہے _ اس لئے خدا نہ اسے متخب کیا ہے تا کہ اس کے بندوں پر حجت و گواہ ہوجاے _ یہ خدا کی بخشش ہے ،جس کو چاہتا ہے عطا کرتا ہے _ بے شک خدا بہت بڑا فضل کرنے والا ہے _(۱)

پیغمبر فرماتے ہیں: ستارے آسمان والوں کے لئے باعث امان ہیں _ ان کے تباہ ہونے سے آسمان والے بھی تباہ ہوجائیں گے اور میرے اہل بیت زمین والوں کے لئے باعث امان ہیں اگر میرے اہل بیت نہ رہیں گے تو زمین والے ہلاک ہوجائیں گے _(۲)

حضرت علی بن ابی طالب کا ارشاد ہے : زمین خدا کیلئے قیام کرنے والے قائم اور حجت خدا سے خالی نہیں رہتی ، وہ کبھی ظاہر و آشکار ہوتا ہے _ کبھی پوشیدہ رہتا ہے تا کہ خدا کی حجت باطل نہ ہوجائے وہ کتنے اور کہاں ہیں؟؟ خدا کی قسم وہ تعداد میں بعت کم ہیں لیکن خدا کے نزدیک قدر کے اعتبار سے عظیم ہیں ان کے ذریعہ اپنی حجت و برہان کی حفاظت کرتا ہے تا کہ اس امانت کو اپنے ہی رتبہ کے افراد کے سپردکریں اوراپنے جیسے لوگو ں کے قلوب میں اس کا بیچ بوئیں _

علم نے انھیں بصیرت و حقیقت تک پہنچادیا ہے ، وہ یقین کی منزلوں میں وارد ہوچکے ہیں اور جس چیز کو مال دار و دولت مند دشوار سمجھتے ہیں وہ ان کیلئے سہل و آسان ہے جس چیز سے جاہل دڑتے ہیں یہ اس سے مانوس ہیں _ یہ دنیا میں ان جسموں کے ساتھ رہتے ہیں کہ جن کی ارواح ملائے اعلی سے معلق رہتی ہیں _ یہ زمین پر خدا کے خلیفہ اور

____________________

۱_ اصول کافی جلد ۱ ص۳۹۰_

۲_ تذکرة الخواص الامة ص ۱۸۲_

۹۳

دین کے دعوت دینے والے ہیں _(۱)

آپ (ص) ہی کا ارشاد ہے : اہل بیت (ع) کے وجود میں قرآن کے گراں بہا گوہر ودیعت کئے گئے ہیں _ وہ خدا کے خزانے ہیں اگر وہ بولتے ہیں تو سچ اور خاموش رہتے ہیں تو کوئی ان پر سبقت نہیں کرتا _(۲)

دوسری جگہ ارشاد فرماتے ہیں _ اہل بیت کی برکت سے حق اپنی جگہ مستقر ہوا ہے او ر باطل کی بنیاد اکھڑگئی ہے اور اس کی بنیاد تو اکھڑ نے والی ہی تھی _ انہوں نے دین کو سمجھ لیا ہے _ چنانچہ اس کو حفظ کرتے اور اس پر عمل پیرا رہتے ہیں _ یہ تعقل ، سننے اور نقل کرنے میں محدود نہیں ہے _ یقینا علم کے بیان کرنے والے بہت ہیں لیکن اس پر عمل کرنے والے بہت ہی کم ہیں _(۲)

اب میں اپنے بیان کو سٹمیتا ہوں ، اور اس سلسلے میں مذکورہ عقلی دلیلوں اور احادیث سے استفادہ کرتا ہوں : جب تک روئے زمین پر نوع انسان کا وجود ہے اس وقت تک ان کے درمیان ایک ایسے کامل و معصوم انسان کا وجود بھی ضروری ہے کہ جس میں اس نوع کے تمام کمالات جلوہ گر ہوں ، علم و عمل سے لوگوں کی ہدایت کرتا ہو اور لوگوں کا امام ہو وہ انسانی کمالات کی راہوں کو طے کرتا اور دوسرے لوگوں کو ان کمالات و مقامات کی طرف بلاتا ہو _ اس کے واسطہ سے عالم انسانیت کا عالم غیب سے ارتباط و اتصال

____________________

۱_ نہج البلاغہ ج ۳ خطبہ ۱۴۷_

۲_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۱۵۰_

۳_ نہج البلاغہ ج ۲ خطبہ ۲۳۴_

۹۴

برقرار رہتا ہے _ عالم غیب کے فیوض و برکات پہلے اس کے مقدس وجود پر اور پھر دوسروں پر نازل ہوتے ہیں _ اگر لوگوں کے درمیان ایسا کامل اور ممتاز انسان موجود نہ ہو تو نوع انسان کی کوئی غرض و غایت نہ رہے گی اور غرض و غایت سے انقطاع کے بعد نوع کا تباہ ہوجانا یقینی ہے _ پس دوسری دلیلوں سے قطع نظر یہ دلیل بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ : کوئی زمانہ یہاں تک کہ ہمارا زمانہ بھی ، وجود امام سے خالی نہیں ہے اور چونکہ ہمارے زمانہ میں امام ظاہر نہیں ہیں اس لئے کہنا چاہئے کہ پردہ غیب میں ہیں _

نگارندہ: بحث طویل ہوگئی تھی _ لہذا بقیہ بحث کو دوسرے جلسہ پر موقوف کردیا گیا _

۹۵

عالم ہورقلیا اور امام زمانہ

جلالی صاحب کے گھر پر جلسہ منعقد ہوا اور موصوف نے ہی گفتگو کا آغاز کیا _

جلالی : مسلمانوں کی ایک جماعت کہتی ہے کہ امام زمانہ اما م حسن عسکری کے فرزند ہیں جو کہ ۲۵۶ ھ میں پیدا ہوئے اور اس دنیا سے عالم ہورقلیا منتقل ہوگئے اور جب انسانیت درجہ کمال پر پہنچ جائے گی اور دنیا کی کدورتوں سے پاک ہوجائے گی اور امام زمانہ کے دیدار کی صلاحیت پیدا کرے گی تو اس وقت آپ کا دیدار کرے گی _

اسی جماعت کے ایک بزرگ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں : یہ عالم زمین کہ تہہ میں تھا آدم کے زمانہ میں اسے کہا گیا : اوپر آؤجبکہ وہ اوپر کی طرف ہی محو سفر تھا وہ گردو غبار اور کثافتوں سے نکل کر صاف فضا میں نہیں پہنچا ہے _ پس یہ ایک تاریک جگہ ہے جہاں وہ دین کو تلاش کرتا ہے ، عمل کرتا ہے اعتقاد پیدا کرتا ہے اور جب غبار سے گزرکر صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا اور ان کے نور کو مشاہدہ صاف ہوا میں داخل ہوگا تو مہدی کے روئے منور کو دیکھے گا او ران کے نور کو مشاہدہ کرے گا اور کھلم کھلا ان سے استفادہ کرے گا _ احکام بدل جائیں گے دنیا کی کچھ اور ہی حالت ہوگی ، دین کی کیفیت بھی بدل جائے گی _

پس ہمیں وہاں جانا چاہئے جہاں ولی ظاہر و آشکار ہیں نہ کہ ولی ہمارے پاس آئے اگر ولی ہمارے پاس آجائے اور ہم میں صلاحیت ولیقات نہ ہو تو ان سے مستفید نہ

۹۶

ہو سکیں گے ، اگر وہ آجائے اور اسی حالت پر باقی رہیں گے تو انھیں دیکھ سکیں گے اور نہ مستفیض ہوسکیں گے اور اگر ہماری قابلیت میں اضافہ ہوجائے اور اچھے بن جائیں تو واضح ہے کہ ہم نے ترقی کی کچھ منزلیں طے کرلی ہیں لہذا ہمیں ترقی کرکے اوپر جانا چاہئے تا کہ اس مقام تک پہنچ جائیں جس کو فلسفہ کی اصطلاح میں ، ہورقلیا کہتے ہیں _ جب دنیا ترقی کرکے ہورقلیا تک پہنچ جائے گی تو وہاں اپنے امام کی حکومت و حق کو مشاہدہ کریگی اور ظلم ختم ہوجائے گا _(۱)

ہوشیار: مؤلف کا مقصد واضح نہیں ہے _ اگر وہ یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ امام زمانہ نے اپنے مادی جسم کو چھوڑ کر جسم مثالی اختیار کرلیا ہے اور اب زمین کے موجودات میں ان کا شمار نہیں ہوتا اور مادّہ کے آثار سے بری ہیں ، تو یہ بات نامعقول اور امامت کی عقلی و نقلی دلیلوں کے منافی ہے کیونکہ اندلیلوں کامقتضییہ ہے کہ ہمیشہ لوگوں کے درمیان ایک ایسے کامل نسان کا وجود ضروری ہے کہ جس میں انسانیت کے سارے کمالات جمع ہوں ، صراط مستقیم پر گامز ن ہو اورلوگوں کے امور کی زمام اپنے ہاتھ رکھتا ہوتا کہ نوع انسان حیران و سرگردان نہ رہے اور خدا کے احکام ان کے درمیان محفوظ رہیں اور خدا کے بندوں پر حجت تمام ہوجائے _ بہ عبارت دیگ: جہاں انسان کمال اور مقصد انسانیت کی طرف رواں دواں ہیں وہیں رہبر کا وجود بھی ناگزیرہے _

اگر مؤلف کی مراد عالم ہورقلیا سے اسی دنیا کا کوئی نقطہ مراد ہے تو یہ بات ہمارے عقیدے کے منافی نہیں ہے لیکن ان کلام سے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی لہذا نامعقول ہے _

____________________

۱_ ارشاد العوام مولفہ محمد کریم خان ج ۳ ص ۴۰۱_

۹۷

کیا مہدی آخری زمانہ میں پیدا ہونگے ؟

ہم آپ کی بت کو اس حدتک تو تسلیم کرتے ہی کہ مہدی کا وجود اسلام کے مسلم موضوعات ہیں سے ہے کہ پیغمبر اکرم(ع) نے بھی ان کے ظہور کی خبردی ہے _ لیکن اس بات میں کیا حرج ہے کہ مہدی ابھی پیدا نہیں ہوئے ہیں جب دنیا کے حالات سازندگار ہوجا ئیں گے اس وقت خداوند عالم پیغمبر اکرم (ع) کی اولامیں سے ایک شخص کو بھیجے گا جو کہ عدل وانصاف کے پھیلانے ،ظلم کے مٹا نے اور خدا پرستی کے فروغ کے لئے قیام کرے گا اور کامیاب ہوگا؟

ہوشیار: اول تو ہم نے عقلی و نقلی دلیلوں سے یہ بات ثابت کردی ہے کہ امام کے وجود سے کوئی زمانہ خالی نہیں ہے چنانچہ امام نہ ہوں گے تو یہ دنیا بھی نہ ہوگی، اس بناپر ہمارے زمانہ میں بھی امام موجود ہیں _

دوسرے ہم نے پیغمبر اور ان کے اہل بیت کی احادیث سے امام مہدی کے وجود کو ثابت کیا ہے _ پس ان کے اوصاف و تعارف کو بھی احادیث ہی سے ثابت کرنا چاہئے خوش قسمتی سے امام مہدی کی تمام علامتیں اور صفات احادیث میں موجود ہیں اور اس میں کسی قسم کا ابہام نہیں ہے لیکن چونکہ ان حادیث کے بیا ن کیلئے کئی جلسے درکار ہیں اس لئے آپ کے سامنے انکی فہرست پیش کرتا ہوں اگر تفصیل چاہتے ہیں تو احادیث کی کتب کا مطالعہ فرمائیں _

مہدی کی تعریف

امام بارہ ہیں ان میں پہلے علی بن ابیطالب اور آخری مہدی ہیں

۹۱ حدیث

۹۸

امام بارہ ہیں اور آخری مہد ی ہیں

۹۴ حدیث امام بارہ ہیں ان میں سے نو امام حسین (ع) کی نسل سے ہوں گے اور نواں قائم ہے

۱۰۷ حدیث

مہدی (عج) عترت رسول (ص) سے ہیں

۳۸۹ حدیث

مہدی (عج) اولاد علی (ع) سے ہیں

۲۱۴ حدیث

مہدی (عج)اولاد فاطمہ (ع) سے ہیں

۱۹۲ حدیث

مہدی (عج)اولاد حسین (ع) سے ہیں

۱۸۵حدیث

مہدی (عج)حسین (ع) کی نویں پشت میں ہیں

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)امام زین العابدین (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۸۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد باقر (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی اولاد سے ہیں

۱۰۳ حدیث

مہدی (عج)امام جعفر صادق (ع) کی چھٹی پشت میں ہیں

۹۹

۹۹ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی اولاد میں ہیں

۱۰۱ حدیث

مہدی (عج)امام موسی کاظم (ع) کی پانچویں پشت میں ہیں

۹۸ حدیث

مہدی (عج)امام رضا (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۵ حدیث

مہدی (عج)امام محمد تقی (ع) کی تیسری پشت میں ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام علی نقی (ع) کی اولاد سے ہیں

۹۰ حدیث

مہدی (عج)امام حسن عسکری (ع) کے فرزند ہیں

۱۴۵ حدیث

مہدی (عج)کے والد کا نام حسن ہے

۱۴۸ حدیث

مہدی (عج)رسول (ص) کے ہم نام و ہم کنیت ہیں

۴۷ حدیث(۱)

____________________

۱_ یہ احادیث منتخب الاثر ، مولف آیت اللہ صافی ، سے نقل کی گئی ہیں _

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

حریم الہی پر تجاوز کیا ہے اور لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت دی ہے _ اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ غیر اسلامی تحریکیں قابل قبول نہیں ہیں _ لیکن اگر کوئی تحریک دین حاکمیت اور قرآن کے قوانین سے دفاع کے عنوان سے وجود میں آتی ہے تو وہ قابل قبول ہے _ کیونکہ یہاں پرچم دین کے مقابلہ میں علم بلند نہیں کیا گیا ہے چنانچہ ایسی تحریک کا قائد بھی طاغوت نہیں ہے بلکہ وہ طاغوت کا مخالف ہے _ ایسا قائد ورہبر لوگوں کو اپنی اطاعت کی دعوت نہیں دیتا ہے بلکہ رب العالمین کی عبادت کی دعوت دیتا ہے _ ایسا پرچم قائم آل محمد کےعلم کے مقابلہ میں بلند ہیں کیا جاتا ہے بلکہ امام زمانہ کی عالمی حکومت کیلئے زمین ہموار کرے گا _ کیا یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ ظہور امام زمانہ سے قبل ہر بلند کئے جانے والے پرچم کا حامل شیطان ہے ؟ کیا معاویہ کی طاغوتی حکومت کے خلاف علی (ع) نے قیام نہیں کیا تھا؟ کیا امام حسن (ع) نے معاویہ سے اعلان جنگ نہیں کیا تھا ؟ کیا امام حسین (ع) نے اسلام سے دفاع کی خاطر یزید (لعن) سے جنگ نہیں کی تھی ؟ کیا زید بن علی (ع) بن حسین نے قرآن سے دفاع کیلئے ظلم و ستم کے خلاف انقلاب برپا نہیں کیا تھا؟

خلاصہ

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا اس حصہ کی اکثر احادیث ضعیف اور ناقابل اعتماد ہیں ان سے تمسک نہیں کیا جا سکتا _ مذکورہ احادیث کا لب لباب یہ ہے _

۱_ جو شخص بھی قیام کرے اور تم سے مدد طلب کرے تو تم سوچے سمجھے بغیر اس کی آواز پر لبیک نہ کہو بلکہ آواز دینے والے اور اس کے مقصد کی تحقیق کرو _ اگر اس نے مہدی موعود کے عنوان سے قیام کیا ہے یا اس کا مقصد باطل ہے تو اس کی آواز

۳۸۱

پر لبیک نہ کہو _ کیونکہ امام زمانہ کے ظہور اور قیام کا وقت نہیں آیا ہے _

۲_ یہ احادیث ان شیعوں کو جو کہ ائمہ سے قیام کرنے کااصرار کرتے تھے ، اس خارجی حقیقت کی خبر دیتی ہے کہ قائم آل محمد کے قیام سے قبل ہم ائمہ میں سے جو بھی قیام کرے گا اس کا قیام ناکام ہوگا اور شہید کردیا جائے گا _ کیونکہ حضرت مہدی کے عالمی انقلاب کے مقدمات فراہم نہیں ہوئے ہیں _

۳_ حضرت مہدی کے ظہور کے مخصوص علامات ہیں چنانچہ ان علائم کے ظاہر ہونے سے قبل جو شخص بھی مہدی موعود کے عنوان سے قیام کرے اس کی دعوت قبول نہ کرو _

۴_ کسی بھی حکومت کا تختہ پلٹنے کیلئے اسباب و مقدمات کی فراہمی کی ضرورت ہوتی ہے مقدمات و اسباب کی فراہمی سے قبل تحریک و انقلاب میں عجلت سے کام نہ لو ورنہ ناکام ہوگا _

۵_ قائم آل محمد کے قیام سے قبل حاکمیت خدا کے مقابلہ میں جو پرچم بلند ہوگا اس کا حاکم شیطان ہے کہ جس نے عظمت خدا کو چینج کیا ہے لہذا اس کی آواز پر لبیک نہین کہنا چاہئے _

مذکورہ احادیث صرف ان انقلابات کی تردید کرتی ہیں کہ جن کا رہبر مہدویت کا مدعی ہو اور قائم آل محمد کے نام سے قیام کرے یا باطل اس کا مقصدہو یا ضروری اسباب کے فراہم ہونے سے قبل قیام کرے _ لیکن اگر انقلاب کا رہبر مہدویت کے عنوان سے قیام نہ کرے ، اور حاکمیت خدا کے مقابلہ میں حکومت کی تشکیل کیلئے انقلاب برپا نہ کرے بلکہ اس کا مقصد اسلام و قرآ ن سے دفاع، ظلم و استکبار سے جنگ ، حکومت الہی کی تشکیل اور آسمانی قوانین کا نفاذ ہو اور اس کے اسباب فراہم کر لیئےوں اور ان تمام چیزوں کے بعد وہ لوگوں سے مدد طلب کرلے تو مذکورہ روایات ایسے انقلاب و قیام

۳۸۲

کی مخالفت نہیں کرتی ہیں _ ایسی تحریک کا پرچم شیطان کا پرچم نہیں ہے بلکہ یہ علم طاغوت کے خلاف ہے _ ایسی حکومت کی تشکیل خدا کی حکومت کے مقابلہ میں نہیں ہے بلکہ یہ تو حاکمیت خدا اور امام مہدی کی عالمی حکومت کیلئے زمین ساز ہے _ اس بناپر مذکورہ احادیث ایسے انقلاب و تحریک کی مخالفت نہیں کرتی ہیں _

نتیجہ بحث

چونکہ ہماری بحث بہت طویل ہوگئی ہے اس لئے دو حصوں کے خلاصہ کو بھی اشارتاً بیان کرنا ضروری ہے _ اس کے بعد نتیجہ بیان کریں گے _ پہلے حصہ میں درج ذیل مطالب کا اثبات ہوا ہے :

۱_ قوانین اور سیاسی و اجتماعی منصوبے اسلام کے بہت بڑے حصہ کو تشکیل دیتے ہیں جیسے ، جہاد ، دفاع ، ظلم و بیدادگری سے جنگ ، عدل و انصاف کی ترویج ،جزاء و سزا کے قوانین ، شہری حقوق ، امر بالمعروف ، نہی عن المنکر اور مسلمانوں کے آپسی و کفار سے روابط و غیرہ _

۲_ اسلام کے احکام و قوانین نفاذ و اجراء کیلئے آئے نہ کہ پڑھنے اور لکھنے کے لئے _

۳_ اسلام کے قوانین کامکمل اجراء حکومت کی تاسیس اور اداری تشکیلات کا محتاج ہے مسلمانوں کے درمیان ہمیشہ ایسے افراد کا وجود ضروری ہے کہ جو آسمانی قوانین کے اجراء کی ذمہ داری قبول کریں اور اس طرح مسلمانوں کے معاشر ہ کو چلائیں _ اس بناپر حکومت متن اسلام میں شامل ہے اور اس کے بغیر کامل طور پر اسلام کانفاذ ممکن نہیں ہے _

۴_ مسلمانوں کے امور کی زمام اور قوانین اسلام کے اجراء کی ذمہ داری عملی طور پر

۳۸۳

پیغمبر اسلام کے دست مبارک میں تھی _

۵_ اسلام کے سیاسی و اجتماعی قوانین کا مکمل اجراء رسول خدا کے زمانہ ہی میں واجب نہیں تھا بلکہ تا قیامت واجب رہے گا _

۶_ جب پیغمبر اکرم بقید حیات ہوں یا مسلمانوں کی معصوم امام تک رسائی ہو تو اس زمانہ میں مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ حکومت کی تاسیس اور پیغمبر یا امام کی طاقت کے استحکام کی کوشش کریں اور اس کے فرمان کی اطاعت کی اطاعت کریں _ اوراگر مسلمانوں کے درمیان میں ایسا کوئی معصوم نہ ہو تو بھی مسلمانوں کا فریضہ ہے کہ وہ پرہیزگار فقیہ کو اپنا مدار الہام بنائیں اور اس کی ولایت و حکومت کے استحکام کی کوشش کریں اور اس کے فرمان کی اطاعت کریں _ یعنی ایسی

حکومت تشکیل دیں جو اسلام کے پروگراموں کو نافذ کرسکے اور اسلامی حکومت کے یہی معنی ہیں _

اس بحث کے دوسرے حصہ میں آپ نے مخالف احادیث اور ان کے مفہوم کو ملاحظہ فرمایا ہے _

اب آپ ہی فیصلہ فرمائیں کہ مذکورہ احادیث اپنی سند و دلالت کے باوجود مسلمانوں سے ایسی قطعی و حتمی فریضہ ، یعنی قوانین اسلام کے نفاذ ، کو ساقط کرسکتی ہیں؟

کیا ان احادیث کو ان آیات و روایات کے مقابل میں لایاجا سکتاہے جو کہ جہاد دفاع امر بالمعروف ، نہی عن المنکر ، ظلم و ستم سے جنگ اور مستضعفین سے دفاع کو واجب قرار دیتی ہیں ؟ کیا غیبت امام زمانہ میں اس فرضہ کو مسلمانوں سے ساقط کیاجا سکتا ہے ؟ کیا ایسی احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ شارع اسلا م نے اس زمانہ میں اپنے سیاسی و اجتماعی احکام سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور ان کے اجراء کو امام مہدی کے زمانہ پر موقوف

۳۸۴

کردیا ہے ؟ کیا ایسی احادیث کے پیش نظر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسلام سے دفاع کرنا واجب نہیں ہے حتی اس کی اساس ہی کیوں نہ خطرہ میں ہو ؟ کیا یہ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں پر خاموش رہنا واجب ہے خواہ کفار و مشرکین ان کی تمام چیزوں پر قابض ہوجائیں ، ان کے جان و مال اور ناموس پر مسلط ہوجائیں ، انھیں ظہور امام تک صبر کرنا چاہئے ؟ کیا مذکورہ احادیث اس سند و مفہوم کے باوجود درج ذیل آیات کے مقابل میں آسکتی ہیں؟

فقاتلوا ائمة الکفر انهم لا ایمان لهم ( توبہ/ ۱۲)

کفر کے سر غناؤ سے جنگ کرو کہ ان کی کسی قسم کا اعتبا رنہیں ہے _

و قاتلوا المشرکین کافة کما یقاتلونکم کافة (توبہ / ۳۶)

اور مشرکین سے تم سب ہی جنگ کرو جیسا کہ وہ تم سے جنگ کرتے ہیں _

و قاتلوهم حتی لا تکون فتنة و یکون الدین کله لله ( انفال/ ۲۹)

اور ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ ختم ہوجائے اور دین خدا ہی باقی رہے

و ما لکم لا تقاتلون فی سبیل الله والمستضعین ( نسائ/ ۷۵)

اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ راہ خدا اور مستضعفین کی نجات کیلئے جہاد نہیں کرتے؟

فقاتلوا اولیاء الشیطان ان کید الشیطان کا ن ضعیفا ( نساء / ۷۵)

پس شیطان کااتباع کرنے والوں سے جنگ کرو بے شک شیطان کا مکر بہت ہی کمزور ہے _

و جاهد فی الله حق جهاده ( حج / ۷۸)

اور راہ خدا میں اس طرح جہاد کرو جو اس کاحق ہے _

و قاتلوا فی سبیل الله الذین یقاتلونکم و لاتعتدوا ( بقرہ / ۱۹۰)

اور راہ خدا میں ان لوگوں سے جنگ کرو جو تم سے جنگ کرتے ہیں پس حد سے نہ گزر جاؤ _

۳۸۵

و لتکن منکم امة یدعون الی الخیر و یأمرون بالمعروف و ینهون عن المنکر _ (آل عمران / ۱۰۴)

اور تم میں سے کچھ لوگوں کو ایسا ہونا چاہئے جو نیکیوں کی طرف دعوت دیں اور امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں _

یا ایها الذین آمنوا کونوا قوامین بالقسط شهداء لله ( نسائ/ ۱۳۵)

ایمان لانے والو عدل و انصاف کے ساتھ قیام کرو اور اللہ کیلئے گواہ بنو_

واعدّوا لهم مااستعطتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون به عدوالله و عدوکم ( انفال / ۶۰)

او ر تم جہاں تک ہوسکے طاقت اور گھوڑوں کی صف بندی کا انتظام کرو کہ جس سے تم اپنے دشمن اور اللہ کے دشمنوں کو ڈرا سکو _

ایسی ہی دسیوں آیت اور سیکڑوں احادیث ہیں _ مذکورہ احادیث ہرگز مسلمانوں سے اسلام کے قطعی و حتمی فریضہ کو ساقط نہیں کرسکتی ہیں بلکہ مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ دین کی اشاعت ، اسلام ومسلمانوں سے دفاع اور قرآن کے حیات بخش پروگراموں کے اجراء میں کوشش کریں خواہ اس سلسلہ میں سب کو جہاد کرنا پڑے _

اس اہم امر کو انجام دینے کے سلسلہ میں فقہائے اسلام اور علمائے دین کی سخت ذمہ اری ہے _ کیونکہ وہ انبیاء کے وارث ، دین کے نگہبان اور لوگوں کی پناہ گاہ ہیں _ کیا علما و فقہا کو یہ حق حا صل ہے کہ وہ انکفار مستکبرین اور طاغوت کے مقابلہ میں خاموش رہیں کہ جنہوں نے ملت اسلامیہ کو بدبخت بنا دیا ہے ؟ اور مستضعفین و محرومین کو ایک عظیم انقلاب کی تشویق نہ دلائیں ؟ کیا حضرت امیر المؤمنین (ع) نے نہیں

۳۸۶

فرمایا؟

'' قسم اس خدا کی جس نے دانہ کو شگافتہ کیا اور انسانوں کو پیدا کیا ، اگر میری بیعت کیلئے اتنا مجمع نہ آتا اور اس طرح مجھ پر حجت تمام نہ ہوگئی ہوتی اگر خدا نے علی سے یہ عہد نہ لیا ہو تا کہ وہ ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گرسنگی پر خاموش نہیں بیٹھیں گے تو میں شنر خلافت کی رسی کو اس کی پشت پر ڈالدیتا کہ وہ جہاں چاہے چلا جائے ''_(۱)

کیا امام حسین (ع) نے پیغمبر اکرم (ص) سے یہ نقل نہیں کیا ہے ؟:

من را ی سلطاناً جائراً مستحلاً لحرم ناکثاً لعهد الله مخالفاًلسنة رسول الله صلی الله علیه و آله یعمل فی عبادالله بالاثم و العدوان فلم یغيّر علیه بفعل و لا قول کان حقاً علی الله ان یدخله مدخله '' (۲)

'' جو شخص ظالم بادشاہ کو دیکھے کہ اس نے حرام خدا کو حلال کردیا ہے اور حدود خدا کو توڑدیا ہے ، پیغمبر (ص) کی سنت کو پامال کررہا اور خدا کے بندوں کے درمیان گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے اس کے باوجود (دیکھنے والا) اپنے قول و عمل سے اس کی مخالفت نہ کرے تو خدا کو حق ہے کہ اسے ظالم کے ساتھ جہنّم میں ڈالد ے '' _

____________________

۱_ نہج البلاغہ خطبہ /۲_

۲_ الکامل فی التاریخ ج ۴ ص ۴۸ چھاپ بیروت _

۳۸۷

دوسری جگہ امام حسین (ع) فرماتے ہیں :

ذالک بان مجاری الامور والاحکام علی ایدی العلماء بالله الامناء علی حلاله و حرامه ، فانتم المسلموبوت تلک المنزلة و ما سلبتم ذالک الاّ بتفرقکم ع الحق و اختلافکم فی السنة بعد البيّنة الواضعة و لو صبرتم علی الاذی و تحملتم المؤونة فی ذات الله کانت امور الله علیکم تردو عنکم تصدر والیکم ترجع و لکنکم مکنتم الظلمة من منزلتکم و استسلمتم امور الله فی ایدیهم یعمولن بالشبهات و یسیرون فی الشهوات سلّطهم علی ذالک فرارکم من الموت و اعجابکم بالحیاة التی هی مفارقتکم فاسلمتم الضعفاء فی ایدیهم فمن بین مستعبد مقهور و بین مستضعف علی معیشتهم مغلوب ، یتقلبون فی الملک بآرائهم و یستشعرون الخز ی باهوائهم اقتداء بالاشرار و جراة علی الجبار _(۱)

یہ اس لئے ہے کہ امور و احکام علماء کے ہاتھ میں ہیں وہ خدا کے حلال و حرام میں اس کے امین ہیں اور تم نے اس عظمت و منزلت کو گنوادیا ہے اور یہ عظمت تم سے اس لئے سلب ہوئی ہے کہ تم نے حق کے سلسلہ میںافتراق کیا اور واضح دلیلوں کے باوجود سنت پیغمبر کے بارے میں اختلاف

____________________

۱_ تحف العقول ص ۲۴۲_

۳۸۸

کیا _ اگر تم نے صبر کیا ہوتا اور راہ خدا میں سختیاں برداشت کی ہوتیں تو امور خدا تم پر وارد ہوتے اور تم ہی سے صادر ہوتے اور تم ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن تم نے اپنے فریضہ کی انجام وہی میں کوتاہی کرکے اپنی جگہ پر دشمن کو بٹھادیا ہے اور امور خدا کو اس کے سپردکردیا تا کہ وہ جیسا چاہیں کریں _ تمہارے موت سے فرار کرنے اور دنیا سے دل لگانے کی وجہ سے وہ تم پر مسلط ہوگئے کمزور و محروم لوگوں کو تم ہی نے ظالموں کے ہاتھ میں دیا ہ تا کہ وہ ان میں سے بعض کو غلام بنالیں اور بعض کونان شبینہ کا محتاج بنادیں اور ظلم اپنی خواہش کے مطابق حکومت کریں اور اپنی ملت کو ذلت و رسوائی میں مبتلا کریں اور اس میں وہ اشرار کی پیروی کریں اور خدا کی مخالفت میں جری ہوجائیں _

علماء و فقہا پر اسلام میں اتنی ہی سنگین ذمہ داری ہے _ اگر وہ اس اہم ذمہ داری کی ادائیگی میں کوتاہی کریں گے تو قیامت میں ان سے بازپرس ہوگی _ صرف درس دینا بحث و مباحثہ ، تقریرات نویسی ، نماز پڑھنا اور مسائل بیان کرنا ہی نہیں ہے بکلہ ان کا سب سے بڑا فریضہ دین اسلام و مسلمانوں سے دفاع ، کفر و الحاد سے جنگ اور اسلام کے احکام و قوانین کے اجراء میں کوشش کرنا ہے _ اگر اس سلسلے میں کوتاہی کریں گے تو خدا کے سامنے وہ کوئی عذر پیش نہیں کر سکیں گے اوراس اہم ذمہ داری کو چند ضعیف حدیثوں سے تمسک کرکے وہ سبکدوش نہیں ہوسکتے ہیں _

کیا خدا و رسول (ص) ہمیں اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ ہم دشمنوں کی خطرناک سازشوں اور اسلامی ممالک سے ان کی افسوس ناک رقابت پر خاموش رہیں اور ماضی کی طرح بحث و مباحث اور اقامہ نماز پر اکتفا کریں؟ ہرگز نہیں _

۳۸۹

ظہورکی کیفیت

حسب سابق ۸ بجے جلسہ کی کاروائی شروع ہوئی اور اولین سوال ڈاکٹر صاحب نے اٹھایا :

ڈاکٹر: اجمالی طور پر امام زمانہ کے ظہور کی کیفیت بیان کیجئے _

ہوشیار : اہل بیت کی احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب دنیا کے حالات سازگار ہوجائیں گے اور حکومت حق کو قبول کرنے کیئے دنیا والوں کے قلب آمادہ ہوجائیں گے اس وقت خداوند عالم امام مہدی کوانقلاب کی اجازت دے گا چنانچہ آپ یکایک مکہ میں ظاہر ہوں گے اور منادی حق دنیا والوں کے کانوں تک آپ (ع) کے ظہور کی بشارت پہنچائے گا _ دنیا کے برگزیدہ افراد ، کہ بعض روایات میں جن کی تعداد تین سو نیرہ بیان ہوئی ہے _ ندائے حق پر سب سے پہلے لبیک کہیں گے اور لمحوں میں ولی خدا کی طرف کھینچ آئیں گے _

امام صادق کا ارشاد ہے : جب صاحب الامر ظہور فرمائیں گے کچھ شیعہ جوان پہلے سے کسی وعدہ کے بغیر شب میں مکہ یہنچ جائیں گے _(۱)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۷۰_

۳۹۰

اس کے بعدآپ اپنی دعوت عام کا سلسلہ شروع کریں گے _ مظلوم و مایوس لوگ آپ کے پاس جمع ہوجائیں گے _ بیعت کریں گے اور دیکھتے ہی دیکھتے شجاع ، فداکار اور اصلاح طلب لوگوں فوج تیار ہوجائے گی _ امام زمانہ کے انصار کی توصیف میں امام محمد باقر و امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا ہے کہ وہ دنیا کے مشرق و مغرب پر قابض ہوجائیں گے دنیا کی ہر چیز کو مسخر کرلیں گے، ان میں سے ہر ایک میں چالیس مردوں کی قوت ہوگی ، ان کے دل فولاد کے ہیں ، مقصد کے حصول میں اگر پہاڑ بھی سامنے آئے گا تو اسے بھی ریزہ ریزہ کردیں گے ، اس وقت تک جنگ سے دست بردار نہ ہوں گے جب تک خدا راضی نہ ہوگا _(۱)

اس زمانہ میں ظالم و خود سر حاکمان خطرہ محسوس کریں گے ، دفاع کیلئے اٹھیں گے اور اپنے ہم مسلکوں کو امام زمانہ کی مخالفت کی دعوت دیں گے ، لیکن عدل دوست و اصلاح پسند سپاہی جو کہ ظلم و جور سے عاجز آچکے ہیں ، متحد ہوکر ان پر حملہ کریں گے ، خدا کی مدد سے ان کا قلع قمع کریں گے اور تہ تیغ کریں گے ، ہر

جگہ خوف و ہراس طاری ہوگا اور ساری دنیا حکومت حق کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائے گی _

بہت سے کفار صدق و حقیقت کی علامتیں دیکھ کر اسلام کے حلقہ بگوش ہوجائیں گے اور جو اپنے کفر و ظلم پر اٹل رہیں گے انھیں امام زمانہ کے سپاہی قتل کریں گے ، پوری دنیا میں اسلام کی مقتدر و طاقتور حکومت تشکیل پائے گی اور لوگ دل و جان سے اسکی حفاظت و نگہبانی کی کوشش کریں گے(۲) اور ہر جگہ ، اسلام کا بول بالا ہوگا _(۳)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۲۷

۲_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۷۹ تا ص ۳۸۰

۳_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۵۵ ،اثبات الہداة ج ۷ ص ۵۰

۳۹۱

کفار کی سرنوشت

ڈاکٹر : امام زمانہ کی حکومت کے دوران کفار و مشرکین کی سرنوشت کیا ہوگی ؟

ہوشیار : آیات و روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں غیر کتابی کفار اور ملحدین سے زمین کی طاقت و قدرت چھین لی جائے گی اور اس پر مسلمانوں کا تسلط ہوگا مثال کے طور پر چند آیات پیش کرتا ہوں _

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

'' ہم نے توریت کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہمارے صالح بندے زمین کے وارث ہوں گے ''( ۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

'' خدا وہ ہے جس نے دین حق کے ساتھ اپنے رسول (ص) کو مبعوث کیا تا کہ وہ تمام ادیان پر غالب ہوجائے _ اگرچہ مشرکوں کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو _(۲)

____________________

۱_ انبیاء / ۱۰۵

۲_ صف / ۹۰

۳۹۲

نیز ارشاد ہے :

خدانے ایمان لانے والوں اور عمل صالح انجام دینے والوں سے وعدہ کیا ہے کہ انھیں زمین پر خلیفہ بنائے گا جیسا کہ ان سے پہلے والوں کو خلیفہ بنایا تھا اورانھیں یہ بشارت دی ہے کہ جو دین ان کیلئے پسند کیا ہے وہ اسے غلبہ عطا کرے گا اور ان کے خوف کو اطمینان و سکون سے بدل دے گا تا کہ و ہ میرے عبادت کریں اور کسی کو شریک نہ قرار دیں _(۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

اور ہمارا ارادہ ہے کہ جن لوگوں کو روئے زمین پرکمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں او رانھیں زمین کا وارث قرا ردیں اور طاقت عطا کریں _(۲)

مذکورہ آیات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا کہ جس میں شائستہ و صالح مومنون اور مسلمانوں کی حکومت ہوگی اور نور اسلام کے سامنے تمام ادیان ماند پڑجائیں گے اور اسلام ہی کا بول بالا ہوگا _ احادیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ امام زمانہ کے زمانہ حکومت میں روئے زمین سے کفر و

شرک کی طاقت کاخاتمہ ہوجائے گا اور موحد و کلمہ توحید کے پڑھنے والوں کے علاہ کوئی باقی نہ رہے گا _ مثال کے طور پر ملاحظہ فرمائیں پیغمبر(ص) اسلام کا ارشادہے :

اگر دنیا کی عمر کا صرف ایک ہی دن باقی رہے گا تو بھی خدا اس شخص کو مبعوث

____________________

۱_ نور / ۵۴

۲_ قصص/ ۴

۳۹۳

کرے گا جس کا نام میرا نام ہے ، جس کا اخلاق میرا اخلاق ہے اور جس کی کنیت ابو عبداللہ ہے اور ان کے ذریعہ دین کو عظمت رفتہ عطا کرے گا ، انھیں فتح عطا کرے گا اور روئے زمین پر کلمہ توحید کے پڑھنے والوں کے علاوہ کسی کا وجود نہ ہوگا ، عرض کیا گیا : یہ شخص آپ (ص) کے کس بیٹے کی نسل سے ہوگا؟ پیغمبر اکرم (ص) نے اپنا دست مبارک حسین کے شانہ پر رکھا اور فرمایا : اس سے _(۱)

حضرت ابو جعفر نے فرمایا:

'' قائم اور ان کے اصحاب اس وقت تک جنگ کریں گے کہ جب تک مشرکوں کا خاتمہ نہ ہوگا _(۲)

____________________

۱_ اثبات الہداة ج ۷ ص ۲۱۵ و ص ۲۴۷

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۴۵

۳۹۴

یہود و نصاری کی سرنوشت

ڈاکٹر : یہود و نصاری تو آسمانی مذہب کے ماننے والے ہیں ان کے سرنوشت کیا ہوگی ؟

ہوشیار: بعض آیات کے ظاہر سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تا قیامت باقی رہیں گے _ خداوند عالم کا ارشادہے :

'' ہم نے نصرانیت کا دعوی کرنے والوں سے عہد لیا _ لیکن انہوں نے ہماری بعض نصیحتوں کو فراموش کردیا تو ہم نے بھی قیامت تک کیلئے ان کے درمیان کینہ و عداوت ڈال دی '' _(۱)

دوسری جگہ ارشاد ہے :

'' خدا نے عیسی سے فرمایا: ہم تمہاری دنیوی عمر تمام کرنے والے اور تمہیں اپنی طرف پلٹانے والے اور تمہیں کفار سے نجات دلانے والے اور تمہارا اتباع کرنے والوں کو قیامت کیلئے کفار پر تسلط عطا کرنے والے ہیں '' _(۲)

____________________

۱_ مائدہ / ۱۴

۲_ آل عمران / ۵۵

۳۹۵

پہلی آیت میں خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے : ہم ان کے درمیان قیامت کیلئے کینہ توزی و عداوت ڈالدیں گے _ دوسری آیت میں فرماتا ہے : نصاری قیامت تک کفار سے بلند رہیں گے _ ان دو آیتوں کے ظاہر کا مقتضی یہ ہے کہ نصاری کا مذہب قیامت تک اور امام مہدی کے زمانہ (ع) حکومت میں بھی باقی رہے گا _

سورہ مائدہ میں ارشاد ہے:

'' یہود کہتے ہیں کہ خدا کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں _ حقیقت یہ ہے کہ ان ہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور یہ اپنے قول کی بناپر ملعوں ہیں اور خدا کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں وہ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ آپ (ص) کے پروردگار کی طرف سے آپ پر نازل ہوا ہے اس کا انکار ان میں سے بہت سول کے کفر اور ان کی سرکشی کو اور بڑھادے گا اور ہم قیامت کیلئے ان کے درمیان بغض و عداوت پیدا کردیں گے _(۱)

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا: ان آیتوں کے ظاہر کی دلالت اس بات پر ہے کہ نصاری و یہود کامسلک قیامت تک باقی رہے گا _

بعض احادیث سے بھی یہ بات سمجھ میں آتی ہے ، مثلاً:

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام صادق کی خدمت میں عرض کی : اہل ذمہ _ یہود و نصاری _ کے ساتھ صاحب الامر کا کیا سلوک ہوگا ؟ فرمایا : پیغمبر کی مانند ان سے مصالحت کریں گے اور وہ بھی نہایت ہی انکسار کے ساتھ جزیہ

____________________

۱_ مائدہ -۶۴

۳۹۶

دیں گے _(۱)

حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں : مہدی (عج) کو صاحب الامر اس لئے کہا گیا ہے کہ آپ توریت اور تمام آسمانی کتابوں کو اس غار سے نکالیں گے جو کہ انطاکیہ میں واقع ہے _ توریت والوں کے درمیان توریت سے ، انجیل والوں کے درمیان انجیل سے اور زبور والوں کے درمیان زبور سے قضاوت کریں گے _(۲)

ان احادیث و آیات کے مقابلہ میں جو مخالف احادیث بھی موجود ہیں کہ جنکی دلالت اس بات پر ہے کہ حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں روئے زمین پر مسلمانوں کے علاوہ کسی کا وجود نہ ہوگا _ آپ یہود و نصار ی کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے جو قبول کریگا وہ نجات پائے گا اور جو انکار کرے گا وہ قتل کیا جائے گا _ مثلاً:

ابن بکیر کہتے ہیں : میں نے حضرت ابو الحسن سے آیہ '' ولہ اسلم من فی السموات و الارض طوعاً و کرہاً و الیہ یرجعون'' کی تفسیر دریفات کی تو فرمایا:

یہ حضرت قائم کی شان میں نازل ہوئی ہے _ ظہور کے بعد آپ یہود ، نصاری ، صائبین اور مشرق و مغرب کے کافروں کو دین اسلام قبول کرنے کی دعوت دیں گے ، پس جو شخص راضی برضا اسلام قبول کرے گا ، اسے نماز پڑھنے اور زکوة کی ادائیگی اور دیگر واجبات کا حکم دیں گے اور جو قبول کرنے سے روگردانی کریگا اسکی گردن ماریں گے _ یہاں تک کہ روئے زمین پر موحدین کے علاوہ

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۸۱و ص ۳۷۶_

۲_ غیبت نعمانی ص ۱۳۵_

۳۹۷

کوئی باقی نہ رہے گا _ ابن بکیر کہتے ہیں : میں نے عرض کی قربان جاؤں _کیا دنیا کے اتنے لوگوں کو قتل کیا جا سکتا ہے؟ فرمایا : جب خدا کسی کام کا ارادہ کرلیتا ہے تو اس وقت کم و زیادہ اور زیادہ کم کردیتا ہے _(۱)

حضرت ابو جعفر فرماتے ہیں : خدا دنیا کے مشرق و مغرب میں صاحب الامر کو فتح عطا کرے گا آپ اس وقت تک جنگ کریں گے جب تک دین محمد پور ی دنیا میں نافذ ہوگا _(۲)

ابوجعفر (ع) ہی آیہ لیظہرہ علی الدین کلہ و لو کرہ المشرکون کی تفسیر بیان فرماتے ہیں دنیا میں ایسا کوئی شخص باقی نہیں بچے گا جو محمد کا کلمہ نہیں پڑھے گا _(۳)

جیسا کہ آپ (ع) نے ملاحظہ فرمایا : احادیث کے دو حصے ہیں _ ان میں سے ایک قرآن کے موافق اور دوسرا مخالف ہے ، علما پر یہ بات مخفی نہیں ہے کہ قرآن کے موافق والا حصہ مقدم ہے اور مخالف قرآن کا کوئی اعتبار نہیں ہے _ اس بناپر ، حضرت مہدی کے زمانہ حکومت میں یہود و نصاری باقی رہیں گے لیکن تثلیث و

شرک کا عقیدہ ترک کردیں گے صرف خدا کی عبادت کریں گے اور اسلامی حکومت کی پناہ میں زندگی بسر کریں گے _ باطل حکومتوں کاتختہ الٹ جائے گا اور دنیا کی حکومت با صلاحیت مسلمانوں کے دست اختیار میں آجائے گی اور دین اسلام تمام ادیان پر غالب ہوگا اور ہرجگہ کلمہ توحید کا ہمہمہ ہوگا امام صادق (ع) فرماتے ہیں _

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۴۰

۲_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۹۰

۳_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۲۴۶_

۳۹۸

جب امام مہدی ظہور فرمائیں گے اس وقت زمین کے گوشہ گوشہ سے اشہد ان لا الہ الا اللہ و ان محمداً رسول اللہ کی آواز بلند ہوگی _(۱)

حضرت ابوجعفر (ع) کاارشاد ہے : ظہور قائم کے بعد باطل حکومت ہمیشہ کیلئے نیست و نابود ہوجائے گی _(۲)

حضرت ابو جعفر نے فرمایا : خدا ائمہ اور مہدی (عج) کو مشرق و مغرب کا حاکم قرار دے گا _ ان کے ذریعہ دین کو مضبوط کرےگا _ بدعتوں کو ختم کرے گا _ اس وقت ظلم مٹ جائیگا وہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ انجام دیں گے _(۳)

ابوبصیر کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق کی خدمت میں عرض کی فرزند رسول آپ اہل بیت کے قائم کوں ہیں ؟ فرمایا : ابوبصیر میرے بیٹے موسی کے پانچویں فرزند ہیں _ یہ بہترین کنیز کے بطن سے ہوں گے _ ان کی غیبت اتنی طولانی ہوگی کہ ایک گروہ شک میں پڑجائے گا _ اس کے بعد خداظاہر ہونے کا حکم دے گا اور مشرق و مغرب پر انھیں فتح عطا کرے گا _ عیسی بن مریم نازل ہوں گے اور آپ کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے _ زمین اس وقت نور خدا سے چمک اٹھے گی اور جہاں جہاں بھی غیر خدا کی عبادت ہوتی تھی وہاں خدا کی عبادت ہوگی _ صرف دین خداہوگا اگر چہ مشرکوں کو یہ ناگوار ہی کیوں نہ ہو _(۴)

____________________

۱_ بحار الانوار ج ۵۲ ص ۳۴۰

۲_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۶۲

۳_بحار الانوار ج ۵۱ ص ۴۷

۴_ بحار الانوار ج ۵۱ ص ۱۴۶

۳۹۹

پیغمبر اسلام نے حضرت علی سے فرمایا: میرے بعد بارہ امام ہونگے ، ان میں سے پہلے تم اور آخری قائم ہے کہ جن کے ہاتھوں پر خدا مشرق و مغرب کو فتح کرے گا _(۱)

انجینئر : اس سلسلہ میں ایک بات میرے ذہن میں آتی ہے لیکن وقت ختم ہوچکا ہے اس سے زیادہ ڈاکٹر صاحب اوردیگر احباب کا وقت نہ لیا جائے اگر اجازت ہو تو آئندہ جلسہ میں اسے پیش کروں _

* * *

جلسہ ختم ہوگیا اور یہ طے پایا کہ اگلے ہفتہ احباب جناب جلالی صاحب کے گھر تشریف لائیں _

____________________

۱_ بحارالانوار ج ۵۲ ص ۳۷۸_

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455