عھد سے ظھور تک

عھد سے ظھور تک 0%

عھد سے ظھور تک مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

عھد سے ظھور تک

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سید اسد عالم نقوی
زمرہ جات: مشاہدے: 9126
ڈاؤنلوڈ: 3831

تبصرے:

عھد سے ظھور تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 10 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9126 / ڈاؤنلوڈ: 3831
سائز سائز سائز
عھد سے ظھور تک

عھد سے ظھور تک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کتاب نامہ:

نام کتاب: عھدسے ظھور تک

تالیف: سید اسد عالم نقوی

ناشر: دار الولایت پبلیکشنز۔کراچی

کمپوزنک: ارتضی

چاپ اول اکتوبر ۲۰۰۳ ء۔شعبان ۱۴۲۴ ھ

انتساب

اس عظیم الشان ماں حضرت نرجس خاتون علیھا السلام کے نام کہ جن کے فرزندکے ظھور سے کائنات جگمگا اٹھے گی!

مقدمہ

(الحمد الله رب العالمین باری الخلائق اجمعین الصلاة والسلام علی نبیه و حبیبه مولاناابو القاسم محمد وآله الطیبین الطاهرین المعصومین ولاسیما حضرت بقیة الله الاعظم روحی وارواح العالمین له الفدی واللعنة الدائمة علیٰ اعدائهم اجمعین الی قیام یوم الدین)

امام زمانہ علیہ السلام کی معرفت ہر مومن اور مومنہ کے لئے واجب عینی ہے ہم فقط اپنے بچوں کو چھاردہ معصومین علیہم السلام کے نام یاد کروا کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہماری ذمہ داری پوری ہوگئی لیکن نہ فقط یہ بلکہ اگر اس سے بڑھ کر بھی بتائیں تو ہم حق معرفت امام علیہ السلام ادا نہیں کر سکتے ہیں ہم نے گذشتہ سالوں میں متعدد تبلیغی دوروں کے دوران اس بات کی اہمیت کو بہت نزدیک سے احسا س کیا کہ حضرت ولی عصر (عج) کے حوالے سے لوگوں کی معلومات بہت ہی مجمل ہے بس لوگ یہی جانتے ہیں کہ ہمارے امام (عج) غیبت میں ہیں ۔اور وہ ظھور کریں گے تو پوری دنیا کے مسائل حل ہو جائیں گے و۔۔۔۔۔۔۔اور بس !۔

لیکن اس سے آگے کوئی نہیں سوچتا ہے کہ آیا ہماری بھی امام کے لئے کوئی ذمہ داری بنتی ہے کتنے ہی دن مہینے اور سال گزر جاتے ہیں لیکن ہماری دم میں امام (ع) کا خیال تک نہیں آ تا جب کہ ہم عالم اسلام کی کتب کا جائزہ لیں تو معلوم چلتا ہے کہ یہ مسئلہ اس تمام گفتگو سے کہیں زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔

کتنے ہی لوگ قم میں زیارت پر آکر یہ سوال کرتے ہیں کہ”مسجد جمکران کہاں ہے کہ جہاں امام زمان(عج) نماز پڑھاتے ہیں “اور اس ے ملتے جلتے سوالات۔۔۔۔۔۔۔

ہماری منطق اور ذہن کی کندی کا انھیں سوالات کی روشنی میں بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔اگر چہ کہ ایسے لوگوں کی تعداد بہت محدود ہے لیکن سوال یہ ہے کہ یہ محدود تعدادبھی کیوں ایسے سوالات کرتی ہیں ؟

وافر مقدار میں عقلی اور نقلی براھین موجود ہیں کہ جو معرفت اور امام وقت کی شناخت کے واجب ہونے پر دلالت کرتے ہیں ۔

یھاں پر فقط معروف حدیث کہ جسے بارھا آپ نے سنا اور پڑھا ہوگا بیان کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں ۔

حضرت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)فرماتے ہیں:

(من مات ولم یعرف امام زمانه مات میتة جاهلیة )

اس روایت کو علماء اہل سنت اور اہل تشیع نے تواتر کے ساتھ نقل کیا ہے ۔

البتہ بعض روایات تھوڑی کمی یا بیشی کے ساتھ بھی نقل ہوئی ہیں ۔

مانند ”من مات و لم یعرف امام زمانه فقد مات میتة جاهلیة “

من مات بغیر امام مات میتة جاهلیة“

من مات لایعرف امامه مات میتة جاهلیة

من مات لیس علیه امام فمیتة جاهلیة “

من مات لیس علیه امام فمیتة میتة جاهلیة “

”من مات لیس له امام مات میتة جاهلیة

ہم فقط ان احادیث کے حوالے پر ہی اکتفاء کریں گے ۔

کتب علماء اہل تشیع:

الذخیرة فی الکلام ص ۴۹۵ ،کشف الغمہ ج ۳ ص ۳۱۸ ،نفخات الاھوت ص ۳ ۱ ، اربعین شیخ بھائی (رہ)ص ۶۰۲ ،اعلام الوریٰ ص ۴۱۵ ،وسائل الشیعہ ج ۱۶ ص ۲۴۶ ، بحارالانوار ج ۸ ص ۳۶۸ ،ج ۳۲ ص ۳۲۱ و ۳۳۱ ،ج ۵۱ ص ۱۶۰ ،ج ۶۸ ص ۳۳۹ ، مناقب آل ابی طالب ج ۱ ص ۳۰۴ ،اختصاس شیخ مفید(رہ) ص ۲۶۸ ،تفسیر عیاشی ج ۲ ص ۳۰۳ ، تفسیر کنزالدقائق ج ۷ ص ۴۶۰ ،محاسن برقی ج ۱ ص ۲۵۲ ح ۴۷۵ ،الامامة والتبصرة ج ۱ ص ۲۷۷ ،اصول کافی ج ۱ ص ۳۷۷ ،غیبت نعمانی ص ۱۳۰ ،ثواب الاعمال ص ۲۰۵ ،تفسیر برہان ج ۱ ص ۳۸۶ ،اختیار رجال کشی ص ۴۲۵ ح ۷۹۹ ،الامامة والتبصرةص ۲۲۰ ،کمال الدین ج ۲ ص ۴۱۲ و ۴۱۳ پیروان معرف امام ص ۸ ،

کتب علماء اہل سنت :

صحیح مسلم ج ۲ ص ۴۷۵ ، ج ۳ ص ۱۴۷۸ ح ۱۸۵۱ ،المغنی ج ۱ ص ۱۱۶ ،الجمع بین الصحیحین حمیدی ج ۲ ص ۳۰۶ ،شرح المقاصد ج ۵ ص ۲۳۹ ،الجواھر المضیئة ج ۲ ص ۵۰۹ ،ازالة الفین ص ۴۲ ،ینابیع المودة ج ۳ ص ۳۷۲ ،یریقة المحمودیہ ج ۱ ص ۱۱۶ ،مسند طیالسی ص ۲۵۹ ح ۱۹۱۳ ،مسند احمد ج ۴ ص ۹۶ ،معجم الکبیر ج ۱۹ ص ۳۸۸ ،مجمع الزوائد ج ۵ ص ۲۱۸ ،کنزالعمال ج ۱ ص ۱۰۳ ،ح ۴۶۴ ،،ج ۶ ص ۶۵ ح ۱۴۸۶ جممع الزائد ج ۵ ص ۲۴۴ و ۲۵۵ ،کشف الاستار عن زوائد البزار ج ۲ ص ۲۵۲ ح ۱۶۳۵ ،الاحسان بترتیب صحیح ابن حبان ج ۷ ص ۴۹ ۔

ا س کتاب میں دعا عھد کی شرح بیان کی ہے تاکہ اس کی اہمیت اور عمق معنی کے حاصل ہونے کا اندازہ ہو سکے اگر چہ کہ معصوم کے کلام کی تشریح کا حق فقط معصوم ہی ادا کر سکتا ہے ،ہم تو اپنی ظرفیت کے حساب سے کلام معصوم کو سمجھتے اور بیان کرتے ہیں ۔

اس کتاب کے لکھنے میں ایک شخصیت کا نام ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جنھوں نے اپنے ارشادات اور راہنمائی سے حقیر کی اس کتاب کے لکھنے میں بہت مدد فرمائی ،حجة الاسلام والمسلمین جناب آقای شیخ علی اکبر مھدی پور مد ظلہ ۔ خدا وندعالم آپ کی توفیقات میں روز افزون اضافہ فرمائے (الٰھی آمین )

آخر میں تمام مومنین و مومنات کے لئے دعا کرتے ہیں کہ ہم سب کو حق معرفت امام زمانہ عطا فرمائے اور ہم کو اتنا علم عطا فرماتے کہ آپ علیہ السلام کے بیان کردہ کلمات کو سمجھ کر اس پر عمل پیر ا ہو سکیں ۔(الٰھی آمین )

سید اسد عالم نقوی

حوزہ علمیہ قم ، ایران