عھد سے ظھور تک

عھد سے ظھور تک 0%

عھد سے ظھور تک مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

عھد سے ظھور تک

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سید اسد عالم نقوی
زمرہ جات: مشاہدے: 9127
ڈاؤنلوڈ: 3831

تبصرے:

عھد سے ظھور تک
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 10 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9127 / ڈاؤنلوڈ: 3831
سائز سائز سائز
عھد سے ظھور تک

عھد سے ظھور تک

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دعائے عھد

اَللّهُمَّ رَبَّ النُّورِ الْعَظِیمِ وَرَبَّ الْکُرْسِیِّ الرَّفِیعِ وَرَبَّ الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ وَمُنْزِلَ التَّوْراةِ وَالاْنْجِیلِ وَالزَّبُورِ وَرَبَّ الظِّلِّ وَالْحَرُورِ وَمُنْزِلَ الْقُرْآنِ الْعَظِیمِ وَرَبَّ الْمَلائِکَةِ الْمُقَرَّبِینَ وَالاََْنْبِیاءِ وَالْمُرْسَلِینَ

اللّهُمَّ إِنِّی اسْالُکَ بِاسْمِکَ الْکَرِیمِ وَبِنُورِ وَجْهِکَ الْمُنِیرِ وَمُلْکِکَ الْقَدِیمِ یَا حَیُّ یَا قَیُّومُ اسْالُکَ بِاسْمِکَ الَّذِی اشْرَقَتْ بِهِ السَّمَاواتُ وَالاََْرَضُونَ وَبِاسْمِکَ الَّذِی یَصْلَحُ بِهِ الاََْوَّلُونَ وَالاَْخِرُونَ یَا حَیّاً قَبْلَ کُلِّ حَیٍّ وَیَا حَیّاً بَعْدَ کُلِّ حَیٍّ وَیَا حَیّاً حِینَ لاَ حَیَّ یَا مُحْیِیَ الْمَوْتی وَمُمِیتَ الاََْحْیاءِ یَا حَیُّ لاَ إِلهَ إِلاَّ انْتَ

اللّهُمَّ بَلِّغْ مَوْلانَا الاِِْمامَ الْهادِیَ الْمَهْدِیَّ الْقائِمَ بِامْرِکَ صَلَواتُ اللّهِ عَلَیْهِ وَعَلَی آبائِهِ الطَّاهِرِینَ عَنْ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ فِی مَشارِقِ الاََْرْضِ وَمَغارِبِها سَهْلِها وَجَبَلِها وَبَرِّها وَبَحْرِها وَعَنِّی وَعَنْ وَالِدَیَّ مِنَ الصَّلَواتِ زِنَةَ عَرْشِ اللّهِ وَمِدادَ کَلِماتِهِ وَمَا احْصاهُ عِلْمُهُ وَاحاطَ بِهِ کِتابُهُ

اللّهُمَّ إِنِّی اجَدِّدُ لَهُ فِی صَبِیحَةِ یَوْمِی هذَا وَمَا عِشْتُ مِنْ ایَّامِی عَهْداً وَعَقْداً وَبَیْعَةً لَهُ فِی عُنُقِی لاَ احُولُ عَنْه وَلاَ ازُولُ ابَداً اللّهُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ انْصارِهِ وَاعْوانِهِ وَالذَّابِّینَ عَنْهُ والْمُسارِعِینَ إِلَیْهِ فِی قَضاءِ حوَائِجِهِ وَا لْمُمْتَثِلِینَ لاََِوامِرِهِ وَالْمُحامِینَ عَنْهُ وَالسَّابِقِینَ إِلی إِرادَتِهِ وَالْمُسْتَشْهَدِینَ بَیْنَ یَدَیْهِ

اللّهُمَّ إِنْ حالَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ الْمَوْتُ الَّذِی جَعَلْتَهُ عَلَی عِبادِکَ حَتْماً مَقْضِیّاً فَاخْرِجْنِی مِنْ قَبْرِی مُؤْتَزِراً کَفَنِی شاهِراً سَیْفِی مُجَرِّداً قَناتِی مُلَبِّیاً دَعْوَةَ الدَّاعِی فِی الْحاضِرِ وَالْبادِی اللّهُمَّ ارِنِی الطَّلْعَةَ الرَّشِیدَةَ وَالْغُرَّةَ الْحَمِیدَةَ وَاکْحَُلْ ناظِرِی بِنَظْرَةِ مِنِّی إِلَیْهِ وَعَجِّلْ فَرَجَهُ وَسَهِّلْ مَخْرَجَهُ وَاوْسِعْ مَنْهَجَهُ وَاسْلُکْ بِی مَحَجَّتَهُ وَانْفِذْ امْرَهُ وَاشْدُدْ ازْرَهُ وَاعْمُر

اللّهُمَّ بِهِ بِلادَکَ وَاحْیِ بِهِ عِبادَکَ فَإِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ ایْدِی النَّاسِ فَاظْهِرِ اللّهُمَّ لَنا وَلِیَّکَ وَابْنَ بِنْتِ نَبِیِّکَ الْمُسَمَّی بِاسْمِ رَسُولِکَ صَلَّی اللّٰه عَلَیْهِ وَآلِهِ حَتَّی لاَ یَظْفَرَ بِشَیْءٍ مِنَ الْباطِلِ إِلاَّ مَزَّقَ هوَیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُحَقِّقَهُ وَاجْعَلْهُ اللّهُمَّ مَفْزَعاً لِمَظْلُومِ عِبادِکَ وَناصِراً لِمَنْ لاَ یَجِدُ لَهُ ناصِراً غَیْرَکَ وَمُجَدِّداً لِمَا عُطِّلَ مِنْ احْکامِ کِتابِکَ وَمُشَیِّداً لِمَا وَرَدَ مِنْ اعْلامِ دِینِکَ وَسُنَنِ نَبِیِّکَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وآلِهِ وَاجْعَلْهُ اللّهُمَّ مِمَّنْ حَصَّنْتَهُ مِنْ بَاسِ الْمُعْتَدِینَ

اللّهُمَّ وَسُرَّ نَبِیَّکَ مُحَمَّداً صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وآلِهِ بِرُؤْیَتِهِ وَمَنْ تَبِعَهُ عَلَی دَعْوَتِهِ وَارْحَمِ اسْتِکانَتَنا بَعْدَهُ اللَّهُمَّ اکْشِفْ هذِهِ الْغُمَّةَ عَنْ هذِهِ الاَُْمَّةِ بِحُضُورِه وَعَجِّلْ لَنا ظُهُورَهُ إِنَّهُمْ یَرَوْنَهُ بَعِیداً وَنَرَاهُ قَرِیباً بِرَحْمَتِکَ یَا ارْحَمَ الرَّاحِمِینَ

الْعَجَلَ الْعَجَلَ یَامَوْلایَ یَا صاحِبَ الزَّمانِ

دعائے عھد دعا کی سند:

اس دعا کو مرحوم مجلسی (رہ) نے متعدد واسطوں سے اپنی کتاب بحارالانوار میں مختلف مقامات پر نقل کیا ہے۔ من جملہ سید ابن طاؤس کی مصباح الزائر اور محمد بن علی جبعی کی مجموعہ جباعی ہے اور اسکے علاوہ بلد الامین،مصباح کفعمی اور کتاب عتیق سے بھی نقل کیا ہے۔( ۱ )

ہم نمونہ کے طور پر فقط ایک سند کو نقل کرنے پر اکتفاء کریں گے۔

جلال الدین ابوالقاسم

اور انھوں نے فخار بن معد بن فخار العلوی الحسینی الموسوی سے

اور انھوں نے تاج الدین ابو محمد الحسن بن علی سے

اور انھوں نے ابو عبداللہ محمد بن عبداللہ بحرانی سے

اور انھوں نے ابی محمد الحسن بن علی سے

اور انھوں نے علی بن اسماعیل سے

اور انھوں نے ابو ذکریا یحییٰ بن کثیر سے

اور انھوں نے محمد بن علی القرشی سے

اور انھوں نے احمد بن سعید سے

اور انھوں نے علی بن حکم سے

اور انھوں نے ربیع بن محمد المسلمی سے

اور انھوں نے ابو عبداللہ بن سلمی سے

اور انھوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے نقل کیا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا: ”جو کوئی بھی اس دعا کو چالیس روز تک صبح کے وقت پڑھے گا ہمارے قائم عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے ساتھیوں میں سے ہوگا اور اگر حضرت علیہ السلام کے ظھور سے پہلے انتقال کرجائے تو خداوند عالم اسے قبر سے نکالے گا تاکہ حضرت کے ساتھیوں میں شامل ہو جائے اور خدائے متعال دعا کے ہر جملہ کے بدلے اسے ہزار نیکیا ں اور کرامت عطاء فرمائے گا اور اسکے ہزار گناہ معاف کردےئے جائیںگے۔

چالیس دنوں کی خصوصیات:

ایک قابل توجہ بات یہ ہے کہ نہ صرف اس دعا کو پڑھنے کی تاکید چالیس روز تک ہے بلکہ بہت سے دوسرے مقامات پر ان چالیس دنوں کو خاص اہمیت حاصل ہے۔

جیسا کہ مرحوم کلینی (رہ) نقل کرتے ہیں

ما اجمل عبد ذکر اللّٰه اربعين صباحاً الّا زَهَّدَهُ فی الدنيا…… واَثْبَتَ الحکمةَ فی قلبه ( ۲ )

ترجمہ: اس سے خوبصورت بندہ کون ہوگا جو خدا کا ذکر چالیس صبح تک کرے اور خدا اسکو زاھد قرار دے اور اسکے قلب میں حکمت راسخ فرمائے ۔

علامہ مجلسی (رہ) جناب قطب راوندی(رہ) کی کتاب لب اللباب سے نقل کرتے ہیں کہ:

من اخلص العبادة لِلّٰه اربعين صباحاً ينابيع الحکمة من قلبه علی لسانه ( ۳ )

ترجمہ: جو کوئی چالیس روز تک خلوص کے ساتھ خدا کی عبادت انجام دے تو حکمت کا چشمہ اسکے قلب سے پھوٹ کر زبان پر جاری ہوجائے گا۔

معرفت اور عبودیت کے درجات اور منازل کو طے کرنے کے لیئے ضروری ہے کہ اس طرح سے قدم بہ قدم بڑھے تاکہ کسی نتیجہ تک پہنچ سکے اسکے برعکس گناہوں اور معصیت کے بارے میں بیان ہوا ہے ۔

جیسا کہ امام موسی کاظم سے نقل ہوا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

من شرب الخمر لم يحتسب له صلا ته اربعين يوماً( ۴ )

ترجمہ: جو کوئی شراب نوشی کرے تو چالیس دنوں تک اسکی نماز قبول نہیں ہوگی۔

اگرکوئی بھی گناہ انجام نہ دیا جائے فقط شراب پی جائے تو اسکا اثر چالیس روز تک برقرار رہتا ہے اس بارے میں متعدد روایت بیان ہوئی ہیں۔

بھلول نبّاش کا واقعہ بہت مشور ہے اس واقعہ کو مرحوم صدوق (رہ) نے اپنی کتاب امالی میں ذکرکیا ہے” بھلول کاگناہ کبیرہ میں مبتلا ہونے کے بعد حضرت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خدمت اقدس میں حاضر ہونا پھر اسکا چالیس دنوں تک مدینہ کے پہاڑوں میں پناہ لینا اور خداوند کے حضور میں اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنا اور مسلسل گریہ و زاری میں مشغول رہنا، اس واقعہ کے بعد یہ آیت نازل ہوئی :

( يا ايها الذين امنواتوبوا الی اللّٰه توبةً نصوحاً ) ( ۵ )

ترجمہ: اے ایمان والو ! خلوص دل کے ساتھ توبہ کرو۔

اسی طرح حضرت موسی علیہ السلام کے ساتھ ہوا کہ انھوں نے کتاب خدا اور احکامات الٰھی کے حصول کے لیئے چالیس دنوں تک کہانا پینا ترک کیا ۔( ۶ )

ان تمام روایت کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ کسی مقصد کے حصول کے

لئے چالیس دن تک کوئی عمل انجام دینا خاص اہمیت رکھتا ہے۔جس طرح دعاؤں کا اثرچالیس دنوں بعد ظاہر ہوتا ہے اسی طرح گناہوں کا اثربھی چالیس دنوں تک باقی رہتا ہے ۔

( الَّلهُمَّ ربِّ النُّورِ الْعَظِيْم )

(اے اللہ ! اے نور عظیم کے پروردگار)

ممکن ہے کہ اس نور عظیم سے مراد رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا نور ہو کیونکہ اولین اور آخرین میں ان سے بڑا کوئی نہیں جیسا کہ بعض روایت کے مطابق آنحضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو نور سے تعبیر کیا گیا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ راوی نے سوال کیا مثل نورہ سے کون لوگ مراد ہیں ؟

تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا:

” محمد (ص)“( ۷ ) اور ممکن ہے کہ اس نور سے مراد مطلق (ہر قسم کا)نور ہو جیسے ان آیت میں ذکر ہوا ہے۔

( يا ايها الناس قد جائکم برهان من ربکم و انزلنا اليکم نوراً مبينا) ( ۸ )

ترجمہ: اے انسانو! تمھارے پاس تمھارے پروردگار کی طرف سے برہان آچکا ہے اور ہم نے تمھاری طرف روشن نور بھی نازل کردیا ہے۔

( فآمنوا باللّٰه و رسوله والنور الذی انزلنا ) ( ۹ )

ترجمہ: لہٰذا خدا اور رسول اور اس نور پر ایمان لے آؤ جسے ہم نے نازل کیا ہے۔

جو نور بھی خداوند کی جانب سے خلق ہواوہ نور عظیم ہے اگرچہ اس بارے میں اور بہت سے احتمالات دےئے جاسکتے ہیں جیسا کہ نور فاطمہ زہرا سلام اللہ علیھا یانور آئمہ معصومین علیہم السلام.

لیکن ایک بات حتمی ہے اور وہ یہ کہ یہاں خداوند عالم سے جو درخواست کی جارہی ہے وہ ایک بہت بڑی خواہش ہے یعنی حضرت بقیة اللہ روحی و ارواح العالمین لہ الفدیٰ کے ظھور کی خواہش ہے اسی لئے واسطہ بھی کوئی عظیم اور بڑا ہونا چاہیے۔

حتی کہ یہ بھی ممکن ہے کہ اس نور عظیم سے مراد خود حضرت حجت عج اللہ فرجہ شریف کی ذات اقدس ہو، اس سے بہتر بات کیا ہوسکتی ہے کہ ہم آپ کے ظھور کے لئے خود حضرت کوواسطہ قرار دیں۔

و ربّ الکرسی الرفيع

اے بلند کرسی والے پروردگار۔

عام طور پر کرسی سے وہ مقام مراد لیا جاتا ہے جو عرش سے نچلے درجے پر ہو جسکے بارے میں روایت میں بھی اشارہ ہوا ہے یعنی فضیلت اور مقام میں عرش کے بعد والے مرحلہ کو کرسی سے تعبیر کیا گیا ہے۔

قال رسول اللہ (ص):

يا اباذر ما السماوات السبع فی الکرسی الّا کحلقة ملقاة فی ارض فلاة ( ۱۰ )

اے ابوذر ! کرسی میں سات آسمان نہیں ہیں مگر جیسے بیابان میں دائرے ہوں۔

یعنی تمام آسمانوں کی حیثیت کرسی کے سامنے ایک دائرے سے زیادہ نہیں بس یہیں سے کرسی کی عظمت کاپتہ چلتا ہے۔

اوراگرکرسی سے مراد علم خداوند لیا جائے جیسا کہ آیت شریفہ میں ہے :

( وسع کرسيه السموات و الارض ) ( ۱۱ )

اس کی کرسی علم و اقتدار زمین و آسمان سے وسیع تر ہے۔

تو پھر اس کرسی کی وسعت میں اور بھی اضافہ ہوجائے گا۔

سالت ابا عبداللّٰه علیه السلام عن قول اللّٰه عزّ و جلّ وسع کرسيّه السموات والارض قال علیه السلام علمه ( ۱۲ )

امام جعفر صادق علیہ السلام سے ”وسع کرسيّه السموات والارض “ کے بارے میں سوال کیا گیا کہ اس سے کیا مراد ہے تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”خداوند عالم کا علم“

اللہ تعالیٰ کے علم کی کوئی قید نہیں علم خدا سے وسیع کیا چیز ہوسکتی ہے؟ جوخود اسکی ذات کا حصہ ہے البتہ یہ عرض کرتے چلیں کہ ذات کا حصہ ہونے سے یہ مراد نہیں کہ پہلے ذات پھر علم بلکہ یہاں مسامحہ کے خاطر ایسی عبارات کو مطلب سمجھنے کے لئے لایا جاتا ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد وہی کرسی ہو جو مقام و منزلت میں عرش کے بعد آتی ہے پھر بھی یہ عظیم خلق ہے کہ جس کے بارے میں امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

الشمس جزء من سبعين جزء من نور الکرسی والکرسی جزء من سبعين جزء من نور العرش ( ۱۳ )

سورج کرسی کے نور کا سترّواں حصّہ ہے اور کرسی نور عرش کا سترّواں حصّہ ہے۔

ربّ البحر المسجور

اے مارتی ہوئی موجوں سے بھرے ہوئے سمندر کے ربّ۔

مناسب تو یہ ہے کہ اس بحر مسجور سے مراد امام علیہ السلام ہوں کیونکہ وہی حجت اور مظھرخداوند ہیں کہ جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے تمام مخلوقات کے اوپر احاطہ کےئے ہوئے ہیں اور جو کچھ بھی اس دنیا میں ہے وہ انھیں کے دم سے ہے یہاں تک کہ زندگی کا تصور ان کے بغیر ناممکن ہے، یہ نا ممکن ہونا محالات عقلیہ میں سے ہے نہ کہ عادتاً ممکن نہ ہو۔

اگرچہ بعض روایت میں بحر مسجور سے مراد وہ سمندر ہے کہ جو آسمان اور زمین کے--- درمیان پایا جاتا ہے، جیسے مولائے کائنات امیر المومنین علیہ السلام سے روایت ہے کہ:

البحر المسجور بحر فی السماء تحت العرش ( ۱۴ )

بحر مسجور وہ سمندر ہے جو آسمانوں پر عرش کے نیچے ہے۔

بعض روایت میں اس کو انسان کی منی سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو قیامت کے وقت آسمان سے بارش کی صورت میں نازل ہوگی کہ جس کے سبب مرنے والوں میں (جو مٹی کی صورت میں ہیں)دوبارہ زندگی نمودار ہوجائے گی اورسب اٹھ کھڑے ہونگے۔ منی سے تشبیہ دینے کی وجہ بھی یہی ہے کہ وہ مردہ مخلوقات کے لیئے حیات لیکر نازل ہوگی جیسے ایک مفصّل روایت میں بیان ہوا ہے :

” والبحر المسجور و هی من منی کمنی الرجل فيمطر ذلک علی الارض فيلقی الماء المنی مع السموات الباليه فينبتون من الارض و يحيون ( ۱۵ )

بحر مسجور منی سے ہے اور انسان کی منی کی طرح ہے زمین پر بارش کی صورت میں برسے گی اور مردوں کی مٹی میں مل جائے گی پھر وہ زمین سے زندہ ہو کر کھڑے ہوجائیں گے۔

اسی طرح بعض مقامات پر اس کو بحر الحیوان سے تعبیر کیا گیا ہے جیسے:

و هو بحر معروف فی السماء يسمّی بحر الحيوان ( ۱۶ )

اور وہ بحر معروف ہے جو آسمان پر ہے اور جسے بحر الحیوان کے نام سے یاد کرتے ہیں۔

( منزل التواريٰة والانجيل و الزّبور )

اے تورات، انجیل اور زبور کے نازل کرنے والے۔

یہاں پر واسطہ ان آسمانی کتابوں کا دیا جارہا ہے جو عالم بشریت کے لیئے رحمت بن کر نازل ہوئیں لوگوں کو مقصد حیات بتانے آئیں اور مومنین کے لیئے جنت کی بشارت اور کفار کے لیئے عذاب کا وعدہ دینے آئیں۔

تورات حضرت موسی علیہ السلام پر انجیل حضرت عیسی علیہ السلام پر اور زبور حضرت داؤد علیہ السلام پر نازل ہوئی۔

اے خداوند تجھے ان آسمانی صحائف کاواسطہ کہ اپنی کتاب ناطق صاحب العصر و الزمان عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کو اپنے بے یارومددگار اور صالحین کے لئے ظھور فرما۔

( رب الظل والحرور )

اے سایہ اور گرمی کے پروردگار

واضح ہے کہ سایہ ٹھنڈاہوتا ہے اور گرمی گرم ہوتی ہے یہ دونوں لفظ ایک دوسرے کی ضد ہیں لہٰذا ممکن ہے کہ سایہ سے مراد نیک لوگ ہوں جنکے قلوب امید رحمت پروردگار سے ٹھنڈے ہیں جبکہ کفار و منافقین عذاب جھنم کے خوف سے اپنے سینوں میں آگ کی تپش لیئے گھوم رہے ہیں۔

اگرچہ ممکن ہے کہ یہاں پر ظاہری معنیٰ یعنی سایہ اور حرارت ہی مراد ہو خداوند متعال نے عالم ہستی کو نظم کے ساتھ خلق کیا اور انسان کے لیئے رات اور دن خلق کئے رات کو لوگوں کے آرام اور آسائش کے لئے قرار دیا جبکہ دن کو حرارت کی صورت میں کام کرنے کے لیئے مقرر کیا ۔

( الم يرو انا جعلنا الليل ليسکنوا فيه و النهار مبصراً ) ( ۱۷ )

کیا ان لوگوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے رات کو سکون حاصل کرنے کے لیئے خلق کیا اوردن کو روشنی کا ذریعہ بنایا۔

( منزل القرآن العظيم )

اے قرآن عظیم کو نازل کرنے والے۔

یہاں پر خداوند عالم کو اس کی اکمل اور اتم کتاب کا واسطہ دیا جارہا ہے کہ جسکے بارے میں خود باری تعالی کا ارشاد ہے کہ۔

( ما فرّطنا فی الکتاب من شیٴ ) ( ۱۸ )

ہم نے کتاب میں کسی شی کے بیان میں کوئی کمی نہیں کی۔

( ولا رطب و لا يابس الّا فی کتاب مبين ) ( ۱۹ )

نہ کوئی خشک اور نہ ہی کوئی تر ایسا ہے جو کتاب میں محفوظ نہ ہو۔

( و کلّ شیٴ احصيناه فی اما م مبين ) ( ۲۰ )

ہم نے ہر شئے کے شمارکو ایک روشن امام کے حصار میں رکھا ہے۔

( تبياناً لکل شیٴ ) ( ۲۱ )

ہر چیز کی وضاحت اس (کتاب) میں موجود ہے۔

( تنزِّل من القرآن ما هو شفاء و رحمة للمومنين ) ( ۲۲ )

اور ہم نے قرآن میں وہ سب کچھ نازل کیا جو صاحبان ایمان کے لیئے شفاء اور رحمت ہے۔

پس معلوم ہوگیا کہ کوئی چیز ایسی نہیں جو اس کتاب مقدس میں بیان نہ کی گئی ہو اور یہ بیان پورے عالم بشریت کے لئے حجت ہے اور یہی مومنین کے لیئے نجات کی صورت میں رحمت ہے جبکہ کفار کے لیئے عذاب کی شکل میں نازل ہوا۔

ارشاد رب العزت ہے :۔

( ولايزيد الظالمين الا خساراً ) ( ۲۳ )

اور ظالمین کے لیئے خسارے میں اضافہ کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا۔

اور یہ وہی کتاب ہے جو حضرت کے ظھور کے سبب مقام عمل میں آئے گی آپ کے ظھور کے بعد دنیا میں صرف دو گروہ رہ جائیں گے ایک وہ جو آپ کی صدا پر لبیک کہے گا اور دوسرا وہ جو آپ کی اطاعت کرنے سے انکار کرے گا چاہے وہ حربی ہوں یا فقط حق کا انکار کر نے والے۔ سب برابر ہوں گے اور خسارا انھیں لوگوں کے لیئے بیان کیا گیا ہے۔

( و رب الملائکة المقربين و الانبياء و المرسلين )

اے مقربین ملائکہ اور انبیاء اور رسولوں کے پروردگار !

یہاں پر ان تمام مقدس ہستیوں کا واسطہ دینے کی وجہ شاید یہ ہو کہ جیسے قیامت کبریٰ کے دن لوگوں کے اعمال کا حساب ہوگا انسانوں کو مومن اور کافر کی صورت میں پیش کیا جائے گا اور ان کو جنت یا جھنم میں بھیجا جائے گا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہوتا ہے :

( هل ينظرون الانسان ياتيهم اللّٰه فی ظلل من العمام والملائکة ) ( ۲۴ )

( ۵) بقرہ آیت ۲۱۰ ۔

ترجمہ:کیاانسان اس بات کا انتظار کررہاہے کہ ابر کے سایہ کے پیچھے عذاب خدا یا ملائکہ آجائیں۔

جاء ربک والملک صفاً صفاً ( ۱)

ترجمہ: ادھرتمھارے پروردگار عالم کا حکم ہوا اورادھر فرشتے صفیں باندھے ہوئے صف در صف آجائیں گے۔

( فاذا جاء امر اللّٰه قُضی بينهم بالحق و خسر هنا لک المبطلون ) ( ۲۵ )

پھر جب حکم خدا آگیا تو حق کے ساتھ فیصلہ کردیا گیا اور اس وقت اہل باطل ہی خسارے میں رہے۔

( و جيیٴ بالنبين و الشهداء ) ( ۲۶ )

اور انبیاء اور شھدا کو لایا جائے گا۔

حضرت کا ظھور میدان عمل میں قیامت صغری کی صورت میں یہی عمل پیش کرے گا جیسا کہ پہلے بھی اشارہ ہوچکا ہے اور آپ اس مقصد اور مشن کو پورا کریں گے جو انبیاء اور ملائکہ لے کر آئے تھے۔

( اللهم انّی اسالک بوجهک الکريم و بنور وجهک المنير )

اے خدا ! بے شک میں سوال کرتا ہوں تیری کریم اور روشن ذات کے صدقے میں ۔

نور اور وجہ میں ایسا ہی فرق ہے جیسا ذات اور مظھر ذات میں فرق ہوتا ہے۔

یہاں پر ممکن ہے کہ وجہ سے مراد ذات پروردگار ہو جیسا کہ آیت شریفہ میں وارد ہوا ہے :

( کل شیٴ هالکٌ الّا وجهه )

اسکی ذات کے سوا ہر چیز ہلاک ہونے والی ہے( ۲۷ )

اس سے مراد وجہ اللہ یعنی ذات خداوند عالم ہے( ۲۸ ) ۔اور ممکن ہے کہ اس ”وجہ“ سے مراد آئمہ علیہم لسلام ہوں۔

جیسا کہ امام جعفرصادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

نحن حجة اللّٰه نحن باب اللّٰه نحن لسان اللّٰه نحن وجه اللّٰه ( ۲۹ )

ہم خدا کی حجت ہیں۔ ہم خدا کے دروازے ہیں ۔ہم خدا کی زبان ہیں اور ہم وجہ اللہ ہیں۔

اب چاہے اس سے مراد ذات پروردگار ہو یا خود آئمہ علیہم السلام ہوں جو مظھر ذات ہیں مطلب واضح اور روشن ہے۔ کہ ایک عظیم چیز کے لیئے دعا مانگتے وقت واسطہ بھی عظیم ہی ہونا چاہئے۔

( وَمُلْکِکَ القَديمُ )

اور تجھے تیری قدیم مملکت کا واسطہ ہے

یہ واضح رہے کہ ملک اور مملکت افعال خداوند کے مظھر ہیں یہ پوری کائنات آئمہ / کے صدقہ میں خلق ہوئی ہے اسی قدیم اور نا قابل تغیر بادشاہیت کا واسطہ،اُس بادشاہیت کا جو تیری ذات کی طرح قدیم اور جس کی تجھ سے جدائی غیر ممکن ہے۔

( يا حیّ يا قيّوم )

اے زندہ جاودان کہ جس کا مرنا محال ہے اور اے ہمیشہ رہنے والے کہ جس کا زوال ممکن نہیں ہے۔

یہ اسماء حسنیٰ خداوند میں سے ہیں یعنی اللہ تبارک و تعالی نہ فقط زندہ تھا اور رہے گا بلکہ اس کی موت محال ہے وہی حیات دینے والا بھی ہے اور وہی ہے جو عدم سے وجود میں لیکر آتا ہے۔ مردہ کو زندہ کرتا ہے اور بعض مخلوقات تو بار بار موت و زندگی کا مزا چکھتی ہیں جیسے کہ آیت شریفہ میں بیان ہوا ہے۔

( اذ قال ابراهيم ربّی يحی و يميت ) ( ۳۰ )

جب ابراہیم نے یہ کہا کہ میرا پروردگار زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے۔

( واللّٰه يحی و يميت واللّٰه بما تعملون بصير ) ( ۳۱ )

اور اللہ ہی زندگی اور موت کا اختیار رکھتا ہے اور وہ تمھارے اعمال سے خوب باخبر ہے۔

( هو يحی و يميت و اليه ترجعون ) ( ۳۲ )

(اللہ) ہی ہے جو زندگی اور موت عطا کرتا ہے اور سب کو اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

( يخرج ا لميت من الحیّ و يحي الارض بعد موتها ) ( ۳۳ )

زندگی سے موت کی جانب لے جاتا ہے اور زمین کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کرتا ہے۔

حیّ کی طرح قیوم بھی ایسی صفت ہے جوصرف خداوند متعال کے لیئے مخصوص ہے اور اس کی قیومیت میں کوئی شریک نہیں ہوسکتا۔لفظ قیوم قرآن مجید میں تین مرتبہ استعمال ہوا ہے اور تینوں مرتبہ صفت حیّ کے ساتھ وارد ہوا ہے جیسا کہ:

( اللّه لا اله الّا هو الحیّ القيوّم ) ( ۳۴ )

اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ ہمیشہ زندہ ہے اور ہر شی اس کے طفیل قائم ہے۔

( وعنت الوجوه للحیّ القيوّم ) ( ۳۵ )

اور اس دن سارے چھرے خدائے حیّ اور قیوم کے سامنے جھکے ہونگے۔

شاید یہی وجہ ہے کہ اس دعا ئے شریفہ میں بھی لفظ قیوم حیّ کے ساتھ آیا ہے اور خداوند عالم کو ان دو اسماء اعظم کا واسطہ دیا جارہا ہے۔

( اسالُکَ بِاسْمِکَ الَذّی اَشّرَقْتَ بِهِ السَمٰواتِ والارْضُونَ )

سوال کرتا ہوں تیرے اس نام کے صدقے میں کہ جو آسمانوں اور زمینوں کو منور کرتا ہے۔

ممکن ہے اس نام سے مراد باعث خلقت عالم نور پاک حضرت رسوال خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)ھوں جیسا کہ حدیث ”لولاک“ میں بیان ہوا ہے۔ خداوند متعال فرماتا ہے:

يا احمدُ لَوْلاکَ لَما خَلَقْتَ الا فلاک و لولا علی لما خلقتک ولولا فاطمه لما خلقتکما ( ۳۶ )

اے احمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اگر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نہ ہوتے توہر گز اس کائنات کو خلق نہ کرتا اور اگر علی علیہ السلام نہ ہوتے توہر گز آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو خلق نہ کرتا اور اگر فاطمہ سلام اللہ علیھا نہ ہوتیں توہرگز آپ دونوں کو خلق نہ کرتا۔

ممکن ہے اس سے مراد نور حضرت بقیة اللہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ہو جیسے کلام مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

( اشرقت الارض بنور ربها ) ( ۳۷ )

زمین اپنے رب کے نور سے جگمگا اٹھے گی۔

اس آیت شریفہ کے ذیل میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ:

اذ ا قام قائمنا اشرقت الارض بنور ربّهاو استغنی العباد عن ضوء الشمس ونور القمر ( ۳۸ )

جس وقت ہمارے قائم = قیام کریں گے تو زمین پروردگار عالم کے نور سے روشن ہوجائے گی اور لوگ سورج اور چاند کی روشنی سے بے نیاز ہوجائیں گے۔

( و باسمک الذّی يصلح به الاوّلون ولآخرون )

اور تیرے اس نام کا واسطہ جس سے اگلوں اور پچھلوں نے بھلائی پائی۔

بات واضح ہے کہ یہاں پر خداوند متعال کی ثناء کے ساتھ ساتھ اسی نام کو بھی واسطہ قرار دیا جارہا ہے ممکن ہے یہاں خداوند کے ہم مثال نہ ہونے کو اشارے کے طور پر بیان کیا جارہا ہو۔

جب کوئی اس کا ہم نام اور ہم صفت اگلے اور پچھلوں میں نہ مل سکتا ہو تو یہ کیسے ممکن ہے کوئی اس کا ہم مثال ہو جیسے قرآن مجید میں ارشاد ربّ العزت ہوتا ہے:

( ليس کمثله شیٴ و هو السميع البصير ) ( ۳۹ )

اس جیسا کوئی نہیں ہے اور وہ سب کی سننے اور ہر چیز کا دیکھنے والا ہے۔

شناخت خدا کی بحث میں یہ مسئلہ ایک بنیادی حیثیت رکھتا ہے اور یہی مقام ہے کہ جہاں پرانسان بھٹک کر خدائے حقیقی لایزال سے دور چلاجاتا ہے اور مادیات میں سے خدا بنا بیٹھتا ہے جبکہ آیہ شریفہ میں واضح طور پربیان ہوا ہے کہ کوئی بھی شی اس جیسی نہیں ہوسکتی جسکی مثال دی جاسکے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ ہمارے محدود۔ ذہنوں میں ایک لامحدود ذات کو تصویری شکل دی جاسکے شاید اسی لیئے کہا جاتا ہے کہ عقل سالم کے لئے اصل وجود خدا کو درک کرنا ایک بدیہی ،آسان اور فطری بات ہے لیکن خدا کی صفات کے بارے میں جاننا انتھائی مشکل ہے خلاصہ یہ کہ وہ ایک ایسا وجود ہے جو ہر جہت سے لامحدود اور مطلق ہے۔

( يا حیّ قبل کلِّ حی )

اے وہ زندہ جو ہر زندہ سے پہلے موجودتھا۔

جیسا کہ ذکرکیا جاچکا ہے کہ ذات باری تعالی قدیم ہے، جب وہ قدیم اور لامحدود ہے تو اسکے علاوہ ہر شی اسکے بعد وجود میں آئی چاہے وہ مخلوق، جمادات میں سے ہویا مادیات میں سے یا انسانوں میں سے ہویا جنوں میں سے ہو۔

جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے:

( و ان من شیٴ الّا يسبّح بحمده و لکن لا تفهمون تسبّحهم ) ( ۴۰ )

اور کوئی شی ایسی نہیں ہے جو اس کی تسبیح نہ کرتی ہو لیکن یہ اور بات ہے کہ تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے۔

یعنی تمام مخلوقات عالم چاہے وہ کسی بھی جنس یا نوع میں سے ہوں جو کچھ بھی غیراز خدا ہے، وہ خداوند عالم کی تسبیح اور عبادت میں مشغول ہے۔

( يا حیّ بعد کل حیّ )

اے ہر زندہ کے بعد زندہ رہنے والے۔

یعنی ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ جب صرف خدا ہوگا اور کچھ نہیں ہوگا جیسا کہ خداوند کی توصیف میں بیان کرچکے ہیں کہ وہ واجب الوجودِ لازوال ہے جبکہ فنا اور نابودی تو فقط زوال پذیر اشیاء کے لیئے تصور کی جاسکتی ہے۔

( يا حیّ حين لاحیّ )

اے زندہ کہ جب کوئی زندہ نہ تھا ۔

ممکن ہے یہ جملہ گذشتہ دو جملوں کو دوسرے الفاظ میں بیان کررھا ہو جس میں بیان کیا گیا کہ ہر شی سے پہلے اور بعد میں فقط خدا ہے یہاں پر پہلے اور بعد کی قید ہٹا کر کلی طور پر بیان کیا جارہا ہے اور یہ بھی ممکن ہے کہ یہاں پر بیان کیا جارہا ہو کہ خدا متعال کا وجود ایک ایسا وجود ہے جو اُس وقت بھی موجود ہے کہ جب کوئی نہ ہو جبکہ گذشتہ دو جملوں کا مطلب خداوند کا ہر شی سے مقدّم اور موخّر ہونا منظور ہو۔

( يا محی الموتی و مميت الاحياء )

اے مردوں کو زندہ اور زندہ کو موت دینے والے۔

اگرچہ اس بارے میں لفظ حیّ کی تفسیر میں بھی اشارہ ہوچکا ہے لیکن پھر بھی چند مزید آیت کو ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں:

( و هو الذی احياکم ثم يميتکم ثم يحيکم ) ( ۴۱ )

”وہی خدا ہے جس نے تم کو حیات دی ہے اور پھر موت دے گا اور پھر زندہ کرے گا۔“

( اللّٰه الذی خلقکم ثم رزقکم ثم يميتکم ثم يحيکم ) ( ۴۲ )

”اللہ وہی ہے جس نے تم سب کو خلق کیا ہے پھر روزی دی ہے پھر موت دیتا ہے پھر زندہ کرتا ہے“

( کيف تکفرون باللّٰه و کنتم امواتاً فاحياکم ) ( ۴۳ )

”آخر تم لوگ کس طرح کفر اختیار کرتے ہو جبکہ تم بے جان تھے اور خدا نے تمھیں زندگی بخشی ہے“

آخری آیت میں خداوند متعال اپنے وجود کی دلیل پیش کررھا ہے کہ میں تو وہ ہوں جو تمھیں عدم سے وجود اور نیستی سے ہستی میں لیکر آیا اور اس کے باوجودبھی تم میرے وجود کا انکار کررہے ہو۔

( يا حیّ لا اله الا انت )

اے زندہ کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں ہے

یہاں گذشتہ جملات کو مذید تاکید کے ساتھ بیان کیا جارہا ہے اب جبکہ تو ایسا حیّ ہے تو بھلا کون تیرے علاوہ معبود ہوسکتا ہے فقط تو ہی ھمارا معبود ہے اور ہم فقط تجھ ہی کو سجدہ کریں گے اور تجھ ہی سے مدد مانگیں گے“۔

ضمناً یہ بیان کرتے چلیں کہ ” لا الہ “ مادّہ ”حیّ“ کے ساتھ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر بیان کیا گیا ہے مثلاً:

( لا اله الا هو يحی و يميت ربّکم و ربّ آبائکم الاوّلين ) ( ۴۴ )

”اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہی حیات عطاکرنے والا ہے اور وہی موت دینے والا ہے

وہی تمھارا بھی پروردگار ہے اور تمھارے گذشتہ آباو اجداد کا بھی پروردگار ہے“

( لا اله الا هو يحی و يميت فاٰمنوا باللّٰه و رسوله ) ( ۴۵ )

”اس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے وہی حیات دیتا ہے اور وہی موت دیتا ہے لہٰذا اللہ اور اس کے پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر ایمان لے آؤ“

( اللّٰه لا اله الّا هو الحیّ القيوم ) ( ۴۶ )

”وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہر شی اس کے طفیل میں قائم ہے“

( الم اللّٰه لا اله الّا هو الحیّ القيوم ) ( ۴۷ )

”الم۔ وہ اللہ جس کے علاوہ کوئی خدا نہیں اور وہ ہمیشہ سے زندہ ہے اور ہر شی اس کے طفیل میں قائم ہے“

( هو الحیّ لا اله الّا هو فادعوه ) ( ۴۸ )

”وہ ہمیشہ زندہ جاوید رہنے والا ہے اوراسکے علاوہ کوئی دو سراخدا نہیں پس اسی کی عبادت کرو “

مذکورہ آیت کریمہ کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ حیات باری تعالیٰ اور اس کے معبود ہونے میں کوئی خاص رابطہ ہے، معبود صرف حیّ ہوسکتا ہے مردہ اور زوال پذیر چیز کی کوئی وقعت نہیں ہے۔

( اللهمّ بلغّ مولانا الامام الهادی المهدی القائم بامرک صلوات اللّٰه عليه و علی آبائه الطاهرين )

اے خداوند ! ہمارے آقا امام زمان عجل اللہ تعالیٰ

فرجہ الشریف کو بھیج، جو ہماری ہدایت کرنے والے اور خود ہدایت شدہ ہیں اور تیرے امر کو انجام دینے کے لیئے تیار ہیں ،خدا کا درود ہو ان پر اور ان کے اجداد طاھرین پر۔

”مولا“ مشترک لفظ ہے کبھی کنیزا ور غلام کے مالک کومولا کہا جاتا ہے اور کبھی کسی بزرگ یا عالم دین کو مولانا (ہمارے مولا)کہتے ہیں ،جب کہ کبھی اپنے حقیقی اور مکمل معنی میں جو کہ صاحب اختیار کے ہیں استعمال ہوتا ہے جوکہ فقط پروردگار عالم کی ذات اقدس کے لئے مخصوص ہے جبکہ کبھی ایسی شخصیات کے لیئے بھی استعمال ہوتا ہے جو خداوند عالم کی جانب سے ہمارے دنیاوی اور اخروی امور کے مالک ہوں ہمارے دین اور دنیا میں تصرف کا حق رکھتے ہوں خلاصہ یہ کہ ہم سراپا ان کے اختیار میں ہوں یقینا ہر زمانے کی حجت صاحب اختیار اور مولا ہیں لہٰذا ہمارے زمانے کے مولیٰ حضرت بقیة اللہ الاعظم روحی و ارواح العالمین لہ الفدیٰ ہیں۔

لفظ ” امام“کے معنی رہبر اور آگے چلنے والے کے ہیں امام ملّت یعنی قوم کے رہبر یا پیش امام جن کی اقتداء میں نماز پڑھی جائے جو وقت ادائے فریضہ نماز میں سب سے آگے کھڑے ہوتے ہیں۔

یہاں پرامام اپنے حقیقی اور وسیع معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی پوری امت کے رہبر جیسا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لیئے رب العزت کا ارشاد ہے:

( و ما ارسالناک الّا رحمة للعالمين ) ( ۴۹ )

”اور ہم نے آپ کو عالمین کے لیئے صرف رحمت بنا کر بھیجا ہے“

فقط مومنین یا انسانوں تک بات محدود نہیں بلکہ عالمین کے لیئے رحمت ہیں،آپ کے کاندھوں پر دو عالم کی رہبری کی ذمّہ داری ہے لہٰذا جو بھی انکا نائب حقیقی ہوگا وہ بھی عالمین کے لیئے امام اور رحمت ہوگاپس اسی طرح امام معصوم (ع) عالمین کے امام اور رحمت ہیں۔

لفظ ” ہادی“ یہاں اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یعنی وہ لوگوں کی ہدایت کریں گے ،گمراھی اور ضلالت سے نکال کر صراط مستقیم کی جانب رھنمائی فرمائیں گے جیسا کہ آدم علیہ السلام سے لیکر سارے اولیاء اور اوصیاء کا یہی ھدف اور مقصد رہاہے اورسب کا ایک ہی نعرہ رھا ہے ” لوگوں کی حق مطلق کی طرف ہدایت“ آپ کے ظھور سے وہ دعا جو ہم دن میں حد اقل دس مرتبہ اپنی نمازوں میں دھراتے ہیں:

( اهدنا الصراط المستقيم ) ( ۵۰ )

”ہمیں سیدھے راستے کی ہدایت فرما‘ اپنے انجام کو پھنچے گی۔

لفظ ”مھدی“ (عج) حضرت کے لئے متعدد روایت میں وارد ہوا ہے آپ کے اسماء گرامی میں یہ نام سب سے زیادہ شھرت کا حامل ہے اہل سنت اور اہل تشیع کے منابع میں یہ نام یکساں طور پر پہچانا جاتا ہے۔

جیسے کا امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ:

انما سمّی القائم مهديّا لاَنّه يهدی الیٰ امر مضلول عنه ( ۵۱ )

” بے شک حضرت قائم کو مھدی اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ ایک گمشدہ اور ترک شدہ امر کی جانب ہدایت کریں گے،

ایک اور مقام پر امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

لاَنّه يهدی الی کل امر خفیّ ( ۵۲ )

”کیونکہ وہ ہر پوشیدہ امر کی جانب ہدایت فرمائیں گے“۔

ایک اور مقام پر امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل ہوتا ہے :

فانّما سمّی المهدی لانّه يهدی لامر خفیّ ( ۵۳ )

” بے شک حضرت کو مھدی(عج) کھنے کی وجہ یہ ہے کہ وہ پوشیدہ امر کی طرف ہدایت کریں گے۔

تمام مذکورہ روایت میں گمشدہ امر سے مراد دین مبین اسلام ہے جس کو یا تو بھلایا جاچکا ہے یا پھر ابھی تک بہت سے ایسے احکامات ہیں کہ جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔

لفظ ”قائم“ کا اطلاق بھی فقط آپ ہی کے لئے مخصوص ہے ،حضرت ابو حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے سوال کیا کہ :

يا ابن رسول اللّٰه الستم کلکم قائمين بالحق “آیا آپ سارے آئمہ قائم بر حق نہیں ہیں۔

امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ہاں (کیوں نہیں ؟)

ابوحمزہ نے پوچھا: تو پھر حضرت بقیة اللہ الاعظم کا نام قائم کیوں رکھا گیا ہے ؟

جس کے جواب میں امام علیہ السلام نے فرمایا:لمّا قتل جدّی الحسين علیه السلام ضجّت الملائکة الیٰ اللّٰه عزّ و جلّ بالبکاء والنجيب و قالوا الهنا و سيدنا اَ تفعل عمّن قتل صفوتک و ابن صفوتک من خلقک فاوحیٰ اللّٰه عزّ و جلّ اليهم قرّوا ملائکتی فوعزّتی وجلالی لانتقمنَّ منهم و لو بعد حين ثم کشف اللّٰه عزّ و جلّ عن الائمة من ولد الحسين علیه السلام للملائکة فسّرت الملائکة بذلک فاذا احدهم قائم يصلّی فقال اللّٰه عزّ و جلّ بذلک القائم انتقم منهم ( ۵۴ )

ترجمہ:”جس وقت میرے جدّ حضرت امام حسین علیہ السلام شھید ہوئے تھے تو ملائکہ نے گریہ وزاری شروع کردی اور خداوند عالم سے کھنے لگے اے خدا آیا تو اپنے برگزیدہ اور پیامبر گرامی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے فرزند کے قتل کو نظر انداز کردے گا جو تیری بہترین مخلوق کا فرزند ہیں۔

پھر خداوند عالم نے ملائکہ کے لئے وحی فرمائی: اے میرے ملائکہ ! صبر کرو ،میری عزت اور جلال کی قسم بے شک ان لوگوں سے انتقام لوں گا چاہے کتنا عرصہ بھی کیوں نہ گزر جائے ،پھر خداوند عالم نے پردہ ہٹاکر فرشتوں کو امام حسین علیہ السلام کی اولاد میں سے آئمہ علیہم السلام کی زیارت کروائی جس پر فرشتے خوش ہوگئے انھوں نے انوار آئمہ علیہم السلام میں سے ایک کو دیکھا جو ان کے درمیان کھڑے ہوکر نماز میں مشغول تھے۔

پھر خداوند عالم نے فرمایا: میں اس قائم (عج)کے ذریعہ انتقام لوں گا“ جیسا کہ ہم دعائے شریف ندبہ میں پڑھتے ہیں ”این الطالب بدم المقتول بکربلا (دعائے ندبہ)کہاں ہے کربلا میں شھید ہونے والے کے خون کا بدلہ لینے والے۔

اسی لفظ ”قائم“ کے بارے میں مزید روایت میں یوں وارد ہوا ہے:

امام جواد علیہ السلام سے جب سوال ہوا کہ حضرت (ع) کو قائم کیوں کہا جاتا ہے تو امام علیہ السلام نے فرمایا:

لاَنّه يقوم بعد موت ذکره و ارتداد اکثر القائلين بامامته ( ۵۵ )

کیونکہ وہ اس وقت ظھور فرمائیں گے کہ جب ان کا ذکر ختم ہوچکا ہوگا او راکثر لوگ جو انکی امامت کے قائل ہوں گے وہ مرتد ہوچکے ہونگے۔

اور یہ واضح رہے کہ یہ قیام پروردگار عالم کے امر سے ہوگا اور حضرت (عج) خداوند عالم کے احکامات کو لوگوں تک پہنچائیںگے شاید مراد وہ امر ہو کہ جسکی اطاعت کا قرآن مجید میں ذکر ہوا ہے:

( اطيعوا اللّٰه و اطيعوا الرسول و اولی الامر منکم ) ( ۵۶ )

”اللہ کی اطاعت کرواور اسکے رسول کی اطاعت کرو اور ان لوگوں کی اطاعت کرو جو اولی الامر ہوں“

اگرچہ مسلمانوں کے درمیان اولی الامر کے معنی میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ اولی الامر سے مراد حکومت کی سب سے بڑی اور اعلیٰ شخصیت ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ اس سے مراد علماء اور لوگوں کا نمائندہ ہے۔ بعض افراد کے مطابق روحانی اور معنوی قائ دین ہیں یعنی فقط عادل علماء جو قرآن و سنت کو مکمل طور پر جانتے ہوں جبکہ بعض علماء اہل سنت کا اس بات پر اصرار ہے کہ اس سے مراد اجماع ہے یعنی لوگوں کی اکثریت جس بات پر قائل ہوجائے وہی حجت ہے۔

جبکہ اہل تشیع کے سارے علماء اور مفسرین اس بات پر متفق ہیں کہ اس آیت شریفہ میں اولی الامر سے مراد آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں۔

آیہ شریفہ میں اطاعت کا حکم مطلق آیا ہے، جسکا مطلب یہ ہے کہ بغیر کسی خدشہ اور خوف کے ان کی اطاعت کی جائے ،اس سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جس کی اطاعت کا حکم بغیر کسی خطا ء کے خوف سے ہو اسے یقینا ”معصوم“ ہونا چاہیے کیونکہ ہرگز غیر معصوم کی مطلق اطاعت معقول نہیں کیونکہ اس کے ہر فعل و قول میں غلطی اور اشتباہ کا احتمال ہوتا ہے جبکہ فقط معصوم علیم السلام کی ہی ذات ایسی ہوتی ہے جس میں غلطی اور بھولنے کا کوئی امکان نہیں ہوتا۔

ان تمام باتوں کو مدنظر رکھیں تو گذشتہ تمام احتمالات خود بخود ختم ہوجائیں گے۔ حکومتی رئیسوں کی اطاعت کسی طور پر جائز نہیں ہوسکتی کیونکہ حکومت کے بڑے عھدے پر فائز ہو نے کا ہرگز یہ لازمہ نہیں کہ وہ خطاؤں سے پاک ہو جس کا مشاھدہ مسلمانوں کے درمیان ہونے والے واقعات میں کثرت کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔

بغیر کسی تردید کے بنی امیہ اور بنی عباس کے خلفاء اسکی بہت روشن مثال ہیں اسی طرح موجودہ زمانے تک مشاھدہ کرتے چلے آئیں کس مسلمان حکومت کے حاکم صدر یا وزیر اعظم پر اندھا اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟اگر اپنے ضمیر سے جواب طلب کریں تو بغیر کسی شک کے جواب منفی ہوگا۔

جن لوگوں کا کہنا ہے کہ” وہ عادل علماء جو قرآن و سنت سے آگاہ ہوں“ مراد ہیں تو پھر سوال یہ پیدا ہوگا کہ اس بات کا فیصلہ کون کرے گا کہ کونسا عالم عادل ہے اور قرآن و سنت سے پوری طرح آگاہ ہے۔ عوام میں تو اس بات کی صلاحیت نہیں ہوتی ہے لہٰذا اہل خُبراء یعنی مفتی اور مجتھدین ہی اس بات کا فیصلہ کرسکتے ہیں جسکا مطلب یہ ہوا کہ مفتی اور مجتھدین حضرات جس کے حق میں فیصلہ کریں وہ ہی واجب الاطاعت ہوگاجس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ دراصل مفتی اور مجتھ دین ہی واجب الاطاعت ہونگے کیونکہ اصل فیصلہ تو انکا ہوگا نہ کہ اس عالم کاجو منتخب ہوا ہے، اوریہ بات قطعاً آیہ مبارکہ کے خلاف ہے۔

اگر اس سے مراد اجماع ہے تو عرض کرتے چلیں کہ اس بات کا وجود میں آنا کہ ساری امت متفق ہوجائے یہ غیر ممکن ہے رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی حیات طیبہ کے بعد سے آج تک مسلمان رہبری اور امامت جیسے اہم مسئلہ پر متفق نہیں ہوسکے ہیں اگر پھلی اور دوسری صدی کی تاریخ کو ہی مد نظر رکھیں تو حکومت اور سیاسی نوک جھوک میں کتنے ہی قتل و غارت اور جنگیں نظر سے گزریں گی حتی حکومت کے حصول کے لیئے بچے اور عورتوں کا تو کیا اپنے خاندان کے افراد کو بھی ذبح کرنے سے دریغ نہیں کیا گیا۔ یہ ساری سیاسی چالیں اور مکاریاں آج بھی تاریخ میں درج ہیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ جب یہ ثابت ہوچکا ہے کہ امت کو کوئی بھی شخص معصوم نہیں ہے یعنی اگر سب کو الگ الگ کرکے حساب کیا جائے تو کوئی بھی گناہوں اور خطاؤں کی لپیٹ سے آزاد نہیں ملے گا ایسی صورت حال میں ان کی حیثیت صفر کی ہے اب یہ صفر چاہے لاکھوں اور کڑوڑوں میں بھی تبدیل ہوجائیں صفر ہی رہیں گے ان کی حیثیت میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوگی۔

اگرچہ اہل تشیع میں کسی بھی اجماع کی اگر وہ معصوم (ع) کے بغیر ہو کوئی حیثیت نہیں ہے۔ اگر کہیں اجماع کو دلیل مانا بھی جاتا ہے تو وہ وجود مقدس معصوم (ع) کی وجہ سے ہے۔ معصوم (ع) کے وجود سے خالی اجماع ہرگز قابل قبول نہیں ہے۔

اس بات کا اعتراف کہ اطاعت مطلق کے واجب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جس کی اطاعت کی جارہی ہو وہ معصوم ہو اہل سنت کے عظیم مفسر فخر رازی نے اس طرح کیا ہے کہ ” خدا جس کی اطاعت کا حکم قطعی طور پر اور بغیر کسی چون وچرا کے دیتا ہے وہ یقینا معصوم (ع) ہونا چاہیے کیونکہ اگر خطاء سے محفوظ نہ ہو اور خداوند عالم نے اس کی اطاعت کا حکم دے رکھا ہو تو یہ ایک قسم کا کلام خدا میں تضاد ہے کیونکہ ایک جانب سے اس کا حکم ماننا ممنوع ہے اور دوسری طرف سے اطاعت کا حکم دیا جارہا ہو کہ جو ایک ہی فعل میں امر و نھی کے جمع ہونے کا سبب بنے گا جو محال ہے لہذا اس بات سے ثابت ہوجاتا ہے کہ خداوند عالم نے جو قطعی طور پر مطلق اطاعت کا حکم دیا ہے اس کا لازمہ یہ ہے کہ یہ اولی الامر معصوم (ع) ہو“( ۵۷ )

لہٰذا اب جو احتمال باقی بچتا ہے کہ جس پر کوئی اعتراض ممکن نہیں ہے وہ یہی ہے کہ جو علمائے اہل تشیع کہتے ہیں۔اس آیت مبارکہ شریفہ میں اولی الامر سے مراد آئمہ معصومین علیہم السلام ہیں۔

اس بات کی تائید میں منابع اہل تشیع میں متعدد روایت بھی وارد ہوئی ہیں ہم فقط منابع اہل سنت سے نمونہ کے طور پر چند ایک روایت کو نقل کرتے ہیں۔

ابو حیان اندلسی نے لکھا ہے کہ یہ آیت علی علیہ السلام کے حق میں نازل ہوئی ہے۔( ۵۸ )

علامہ ابوبکر بن مومن شیرازی اپنے ”رسالة الاعتقاد “ میں لکھتے ہیں۔(طبق مناقب الکاشی) ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت مبارکہ علی علیہ السلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے( ۵۹ )

شیخ سلیمان حنفی قندوزی لکھتے ہیں کہ ایک دن ایک آدمی حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی خدمت میں آیا اور سوال کیا کہ سب سے معمولی چیز کون سی ہے کہ جس کی وجہ سے انسان مومن بن جاتا ہے ؟ اور سب سے کم چیز کون سی ہے کہ جس کے سبب انسان کافر یا گمراہ ہوجاتا ہے؟

حضرت امیر المومنین علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ” سب سے کم چیز کی جس کے سبب انسان گمراہ ہوجاتا ہے وہ یہ ہے کہ انسان حجّت خدا کہ جس کی اطاعت لازم ہو اس کو نہ پہچانے“

اس آدمی نے سوال کیا :” یا امیر المومنین علیہ السلام وہ لوگ کون ہیں مجھے بتلائیں “

امام علیہ السلام نے فرمایا: وہی لوگ جو آیت شریفہ :( يا ايها الذين آمنوا اطيعوا اللّٰه و اطيعوا الرسول و اولی الامر منکم ) ( ۶۰ ) میں ذکر ہیں۔

اس شخص نے پھر سوال کیا ” میری جان آپ پر قربان ہو کچھ وضاحت کے ساتھ فرمائیں۔

امام عالی مقام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: وہی لوگ کہ جن کے بارے میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے اپنے آخری خطبہ میں ذکر کیا تھا ”انی ترکت فيکم امرين لن تضلوا بعدی ان تمسکتم بهما کتاب الله و عترتی اهل بيتی( ۶۱ )

” میں تمھارے درمیان دو یادگار چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں اگر ان کے ساتھ رہو گے تو ہر گز میرے بعد گمراہ نہیں ہوگے خدا کی کتاب قرآن اور میرے اہل بیت علیہم السلام ۔“

یہ بات تو مقدمہ میں بیان ہوچکی ہے کہ اگر کوئی منصب یا فضیلت کسی ایک معصوم (ع)کے لیئے ثابت ہوجائے تو سب میں یکساں طور پر پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ ہم حضرت بقیة اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کو ”صاحب امر“ ارواحنا فدا بھی کہتے ہیں۔

محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر درود بھیجنے کے بارے میں ارشاد رب العزت ہے کہ :

( ان اللّٰه و ملائکته و يصلون علی النبی يا ايها الذين آمنوا صلّوا عليه و سلّموا تسليماً )

”بے شک اللہ اور اس کے ملائکہ رسول پر صلوات بھیجتے ہیں تو اے صاحبان ایمان تم بھی ان پر صلوات بھیجتے رہو اور سلام کرتے رہو( ۶۲ )

البتہ یہ بات واضح رہے کہ جب صلوات کو خداو ند متعال سے نسبت دی جائے تو رحمت کے نزول کے معنی میں آتا ہے اور جس وقت فرشتوں اور مومنین سے نسبت دی جائے تو طلب رحمت کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

دوسری بات کہ جسکا جاننا ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ” صلوات اور سلام “ میں فرق ہے ۔صلّوا طلب رحمت اور پیامبر گرامی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر درود بھیجنے کے لئے آتا ہے لیکن سلّموا کے بارے میں دو احتمال ہیں ” ایک تو یہ کہ حضرت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانے میں اور احکامات کے سامنے سر تسلیم خم ہونا ہے جیسے ایک اور مقام پر خالق کائنات کا ارشاد ہوتا ہے کہ :

( ثم لا يجدوا فی انفسهم حرجا جامعا قضيت و يسلموا تسليماً ) ( ۶۳ )

ترجمہ: ”اور پھر جب آپ فیصلہ کردیں تو اپنے دل میں کسی طرح تنگی کا احساس نہ کریں اور آپ کے فیصلہ کے سامنے سراپا تسلیم ہوجائے ں“۔

جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ حضرت ابو بصیر رضی اللہ عنہ نے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی نسبت کے معنی کے بارے میں سوال کیا تو حضرت علیہ السلام نے فرمایا :

هو التسليم له فی الامور ( ۶۴ )

ھر کام میں پیامبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے سامنے تسلیم رہنا ہے۔دوسرا معنی آپ پر سلام بھیجنے کے لیئے ہے جیسے ” السلام علیک یا رسول اللّٰہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)“

ابو حمزہ ثمالی سے روایت ہے کہ جب آیت مذکورہ نازل ہوئی تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے صحابی کعب نے پوچھا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر سلام کرنے کو تو ہم سمجھ گئے ہیں لیکن صلوات کیسے بھیجی جائے تو حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جواب میں فرمایا کھو:

اللهم صلی علی محمد وآل محمدکماصليت علی ابراهيم انک حميد مجيدو با ر ک علی محمد و آل محمد کما بارکت علی ابراهيم و آل ابراهيم انک حميد مجيد ( ۶۵ )

اگرچہ ظاہری طور پر یہ دونوں معنیٰ ایک دوسرے سے مختلف نظر آتے ہیں لیکن حقیقت میں اس کا نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے اور وہ یہ ہے کہ جو شخص آپ (ص)پر سلام بھیج رھا ہے اور خدای متعال سے آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی سلامتی کا طلب گار ہے یقینا وہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے دوستوں اور محبت کرنے والوں میں سے ہے جبکہ محبت کرنے والا صرف اسی کو کہا جائے گا کہ جو مطلق طور پر آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے فرمان اور احکامات کے سامنے تسلیم ہو۔

اہل سنت کے بزرگ مفسر امام جلال الدین سیوطی اپنی تفسیر در المنثور میں اس آیت شریفہ کے ذیل میں بخاری ، مسلم ، ابوداؤد ، نسائی ،ابن ماجہ اور ابن مردویہ سے متعدد

متعدد روایت نقل کرتے ہیں( ۶۶ ) ہم صرف ایک روایت کو نقل کرنے پر اکتفاء کرتے ہیں۔

ایک شخص حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی خدمت میں حاضر ہوا اور سوال کیا کہ آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر سلام بھیجنے کو تو ہم سمجھ گئے لیکن صلوات کیسے بھیجی ۔

جائے حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے جواب میں فرمایا کھو: ”اللهم صلی علی محمد و علی آل محمد کما صليت علی ابراهيم انّک حميد مجيد اللهم بارک علی محمد و علی آل محمد کما بارکت علی ابراهيم و آل ابراهيم انّک حميد مجيد

اسی مضمون کی تفسیر میں ۱۸ روایت نقل ہوئی ہیں البتہ یاد رہے کہ اہل سنت اور اہل تشیع کے منابع میں متعدد روایت میں کلمہ ”علی“ کے بغیر صلوات نقل ہوئی ہے جیسے :اللهم صلی علی محمد و آل محمد ۔

اہل تشیع کے تمام فقھاء اور مجتھ دین کا اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ نماز کے دونوں تشھدوں میں صلوات بھیجنا واجب ہے اور اگر کوئی بغیر صلوات کے نماز پڑھے گا تو اس کی نماز صحیح نہیں ہے۔

( عَنْ جَمِیعِ الْمُؤْمِنِینَ وَالْمُؤْمِناتِ فِی مَشارِقِ الاََْرْضِ وَمَغارِبِها سَهْلِها وَجَبَلِها وَبَرِّها وَبَحْرِها )

(تما م مومنین اور مومنات کی جانب سے چاہے وہ کرہ ارض کے شرق میں ہوں یا غرب میں ،صحراء میں ہوں یا پہاڑوں میں خشکی میں ہوں یا سمندر میں )

تمام خلائق عالم کی جانب سے اُن پر اور اُن کے اجداد پر صلوات ہو دنیا کی ہر مخلوق اُن کے انتظار میں سرگرداں ہے۔حضرت عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظھور سے ہر چیز کو قرار آجائے گا۔اسی لیئے ہماری دعا ہے کہ ہماری اور تمام مخلوقات کی جانب سے حضرت کو درود اور سلام پھنچے۔

( وَعَنِّی وَعَنْ وَالِدَیَّ مِنَ الصَّلَواتِ )

(اور میری طرف سے اور میرے والدین کی طرف سے درود ہو)

یہاں پر ادبی لحاظ سے عطف خاص، عام کے بعد ذکر ہواہے یعنی مطلب یہ ہوا کہ جب مومنین اور مومنات کہا جاچکا تو پھر (میں اور میرے والدین) بھی انھی مومنین میں شامل ہیں لیکن اہمیت اور خصوصیت کو بیان کرنے کے لیئے یہ عطف خاص ، عام کے بعد لانا معمول کے مطابق ہے۔

( زِنَةَ عَرْشِ اللّهِ وَمِدادَ کَلِماتِه وَمَا احْصاهُ عِلْمُهُ وَاحاطَ بِهِ کِتابُهُ )

(جو عرش خدا کا ہم وزن ہوخدا کے کلمات کی طرح پھیلاؤ کا حامل ہو اور اس کے علم نے جس جس شی کا احاطہ کیا ہے اور جس جس شی کا اس کتاب میں ذکر ہے اتنا ہی وسیع اور گستردہ ہو)

ظاہری طور پر سارے کلمات دعا کی اہمیت اور خصوصیت کو بیان کررہے ہیں کیونکہ جب کسی عظیم چیز کو مانگا جائے تو واسطہ بھی اس کے شایان شان ہونا چاہیے۔ عرش خدا کا وزن باوجود اسکے کہ وہ بھی مخلوق خداوند ہے لیکن ممکن نہیں کہ خداوند اور اسکے خاص بندوں کے علاوہ کوئی بھی اسکے بارے میں علم رکھتا ہو۔

کلمات خداوند کی مقدار بھی اسی طرح سے ہے کہ جس طرح سے خود ارشاد خداوند رب العزت ہے کہ:

( قل لو کان البحر مداداً لکلمات ربّی لنفذ البحرُ قَبْلَ ان تنفذ کلمات ربّی و لو جئنا بمثله مداداً ) ( ۶۷ )

”آپ کہہ دیجئے کہ اگر پروردگار کے کلمات کے لیےء سمندر بھی روشنائی بن جائے تو کلمات رب ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہوجائیں گے چاہیں ان کی مدد کے لیئے ہم ویسے ہی سمندر اور بھی لے آئیں“

علم اور کتاب خداوند عالم لا محدود ہے اس لامحدود علم اور کتاب کو واسطہ قرار دیا جارہا ہے جیسا کہ کتاب خداوند کے بارے میں ارشاد ہوتا ہے ۔

( ما فّرطنا فی الکتاب من شیٴ )

(ہم نے کتاب میں کسی چیز کے بیان میں کوئی کمی نہیں کی ہے)( ۶۸ )

( و لا رطب و لا يابس الّا فی کتاب مبين )

(ا ور کوئی خشک وتر ایسا نہیں ہے جوکتاب مبین کے اندر محفوظ نہ ہو)( ۶۹ )

( تبياناً لکلّ شیٴ )

(اس (کتاب ) میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے)( ۷۰ )

اس کتاب خدا کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ ظاہر تو معلوم ہے کہ شریعت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور باطن وہ علم ہے کہ جو خداوند کی طرف سے حضرت خاتم الانبیاء (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اور ان کے جانشین کو عطا ہواہے۔

جیسے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)فرماتے ہیں:

انا مدينة العلم و علی بابها فمن اراد العلم فليات باب المدينة

میں علم کا شھر ہوں اور علی علیہ السلام اس کا دروازہ ہیں لہذا جو کوئی علم کے حصول کا ارادہ رکھتا ہے وہ دروازے سے آئے۔( ۷۱ )

اسی طرح امیر المومنین حضرت علی ابن ابی طالب علےھما السلام نے فرمایا:

اعلم ان جميع اسرار الکتب السماويه فی القرآن وجميع ما فی القرآن فی الفاتحة و جميع مافی الفاتحة فی البسمله وجميع مافی البسمله فی باء البسمله و جميع ما فی باء البسمله فی النقطة التی هی تحت الباء قال الامام علیه السلام انا نقطة التی تحت اللباء ( ۷۲ )

ترجمہ:”جان جاو بے شک ساری آسمانی کتابوں کا علم قرآن میں ہے اور جو کچھ قرآن میں ہے وہ سورہ فاتحہ میں ہے اور کچھ سورہ فاتحہ میں ہے ۔۔۔میں ھے وہ بسم اللہ میں ہے اور جو کچھ بسم اللہ میں ہے وہ اس کے حرف باء میں ہے اور جو کچھ حرف باء میں ہے وہ اس کے نقطہ میں ہے امام علی علیہ السلام نے فرمایا: اور میں وہ نقطہ ہوں جو باء کے نیچے ہے۔“

اسی طرح جب جنگ صفین میں شامیوں نے قرآن کو نیزوں پر اٹھایا اور اس کو حَکَم بنانا چاہا تو حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام نے فرمایا:

انا القرآن الناطق( ۷۳ )

ترجمہ: میں قرآن ناطق ہوں۔

جب دعا قرآن ناطق اور باء بسم اللہ کے ظھور کی ہو تو واسطہ بھی اس کی حیثیت کے مطابق ہونا چاہیے۔

حال حاضر میں خلائق کائنات میں حضرت (عج)سے زیادہ افضل و اعلم کوئی ذات وجود نہیں رکھتی وہ وارث علم انبیاء اور اوصیاء سلام اللہ علیہ م اجمعین ہیں لہٰذا ان کی حیثیت کے مطابق وسیع و عریض چیزوں کے واسطہ دےئے جارہے ہیں۔

< اللّهُمَّ إِنِّی اجَدِّدُ لَهُ فِی صَبِیحَةِ یَوْمِی هذَا وَمَا عِشْتُ مِنْ ایَّامِی عَهْداً وَعَقْداً وَبَیْعَةً لَهُ فِی عُنُقِی لاَ احُولُ عَنْه وَلاَ ازُولُ ابَداً )

(اے خدا ! بے شک میں آج کی صبح کا آغازا ور جب تک زندھرہوں گا یہ عھد اور پیمان اور ان کی بیعت جو میری گردن پر ہے اس کو نہ بدلوں گا اور نہ کبھی ترک کروں گا۔)

یہ بات صرف اس صبح اور باقی ماندہ زندگی کے لیئے نہیں ہے بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے عھد وعقداور بیعت کرتا ہوں واضح رہے کہ ”عھد“ ایک عملی مظاھرہ ہے کہ جو معاھدہ کے بعد کا مرحلہ ہے جبکہ ”عقد“ اعتقاد قلبی اور اس پر ایمان کا نام ہے اسی طرح ”بیعت“ ملکی معاملات میں تسلیم ہونے کانام ہے۔ میرا پواراخلاص میراایمان میرا عقیدہ میرا ظاہر میرا باطن سب حضرت بقیة اللہ کے لیئے ہے اس طرح سے کہ ان امور میں سے کچھ بھی کمی نہ ہونے پائے۔

یہاں پر امامت اور ولایت کے تابع ہونے کا ثبوت دیا جارہا ہے اور یہ عقیدہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیئے ہے اس میں کچھ تبدیلی نہ آنے پائے۔

یہ ہر صبح پڑھنے کے لیئے ہے حدّ اقل چالیس صبح کو ضرور پڑھے کیونکہ چالیس دنوں میں جاکر ممکن ہے کہ انسان کا عھد،عقد اور بیعت مکمل ہو جیسے کہ چالیس سال میں پہنچ کر انسان کامل ہوتا ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ:اذا بلغ اربعين سنة فقد بلغ منتها ( ۷۴ )

جب انسان چالیس سال کا ہوتا ہے تو پھر جاکر مکمل ہوتا ہے۔

لہٰذا جب تک چالیس عدد پورے نہ ہوجائیں اس کو پڑھا جائے یہاں تک کہ ایمان کامل ہوجائے اور اس کے بعد اس لئے پڑھتا رہے کہ ایمان باقی رکھ سکے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:ما اخلص عبد الايمان با للّٰه اربعين يوماً الّا زهده اللّٰه فی الدنيا و بصّره دائها و دوائها و اثبت الحکمة فی قلبه ( ۷۵ )

کسی بندہ کا ایمان خداوند کے اوپر خالص نہیں ہوتا مگر یہ کہ خداوند ا س کو چالیس روز دنیا سے بے رغبت کردیتا ہے اور اس کے درداور دواء کی نشاندھی کردیتا ہے اور حکمت کو اس کے قلب پر ثابت کردیتا ہے۔

اب جبکہ چالیس دنوں میں ایمان خالص،بیعت و عھد و عقد خالص ہوجائے تو ہرگز میں اپنے مقام سے تنزل نہ کروں اور صبح کی تاکید بھی اسی لیئے ہے کہ جب اس دعا کے نتیجہ کا وقت ہوگا یعنی جب دعا کا ثمرہ ظھور کی صورت میں نصیب ہوگا تو میں شروع سے ان کے ساتھ رہوں خدانخواستہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ظھور کے وقت میرے ایمان میں کمی آجائے مجھے شروع سے ان کے ساتھ رہنا چاہیے نہ یہ کہ وسط یا آخری دور میں جاکر ملوں۔ میں اپنی شروعات انہیں کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں جیسے اپنے دن کی شروعات اس عقد و عھد کے ذریعہ کررھا ہوں۔

اور پھر جب عھد و پیمان ہوگیا اور بیعت کرلی گئی تو پھر کہا جائے گا:

( اللّهُمَّ اجْعَلْنِی مِنْ انْصارِهِ وَاعْوانِهِ وَالذَّابِّینَ عَنْهُ والْمُسارِعِینَ إِلَیْهِ فِی قَضاءِ حوَائِجِهِ وَا لْمُمْتَثِلِینَ لاََِوامِرِهِ وَالْمُحامِینَ عَنْهُ وَالسَّابِقِینَ إِلی إِرادَتِهِ وَالْمُسْتَشْهَدِینَ بَیْنَ یَدَیْهِ )

(اے خدا! مجھے ان کے انصار اور اعوان میں سے قرار دے اور ان کا دفاع کرنے والوں میں سے اور انکی حاجت روائی کرنے والوں میں انکی طرف بڑھنے والوں میں سے اور انکے حکم پر چلنے والوں میں سے اور انکی جانب لوگوں کو بلانے والوں میں سے اور انکے ارادوں کو پہلے پورا کرنے والوں میں سے اور انکے سامنے شھید ہونے والوں میں سے قرار دے)۔

اس مقام پر آکر بندہ اپنے خالق سے توفیق طلب کررھا ہے کہ مجھے اُن کے انصار و اعوان میں سے قرار دے۔ تمام نیکیوں اور خوبیوں کا منشاء اور منبع خداوند متعال ہے اسی لیئے ہمیشہ انسان کو طالب توفیق ہونا چاہیے کہ خداوند عالم انسان کوراہ مستقیم پر لاکر اس پر باقی رکھے ہر شخص کو چاہیے کہ صدق دل سے دعاکرے کیونکہ خداوند متعال اس کے دل کے حال سے آگاہ ہے اور وہ سب کچھ جانتا ہے۔

ارشاد رب العزت ہے:

( عالم الغيب و الشهادة و هو الحکيم الخبير ) ( ۷۶ )

”وہ غائب اور حاضر سب کا جاننے والا صاحب حکمت اور ہر شی سے باخبر ہے“

( و للّٰه غيب السموات والارض ) ( ۷۷ )

”اور آسمان اور زمین کا سارا غیب اللہ ہی کے لیئے ہے“

( ان اللّٰه يعلم غيب السموات و الارض واللّٰه بصير بما تعملون ) ( ۷۸ )

”بے شک اللہ آسمان اور زمین کے ہر غیب کا جاننے والا ہے اور وہ تمھارے اعمال کا بھی دیکھنے والا ہے“

اسی لئے زیارت سید الشھداء امام حسین علیہ السلام میں بھی ہم پڑہتے ہیں:

يا ليتنی کنتُ معکم فافوز فوزاً عظيماً ۔

”اے کاش میں بھی (کربلا میں ) آپ کے ساتھ ہوتا تاکہ آپ علیہم السلام

کے اوپر اپنی جان نثار کرکے اس مقام شھادت پر فائز ہوسکتا“۔

اگر واقعاً یہ خواہش ہو اور صدق دل کے ساتھ مانگا جائے یقینا درگاہ پروردگار میں قبول ہوگئی جس کے بارے میں متعدد روایت وارد ہوئی ہیں مانند:

حضرت ابو بصیر امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:

بے شک عبد مومن فقیر یہ کھے:يا ربّ ارزقنی حتّی افعل کذا کذا من البرّ و وجوه الخير فاذا علم الله عز و جلّ ذلک منه بصدق نيةٍ کتب اللّٰه له من الاجر مثل ما يکتب له عمله ان اللّٰه واسع عليم ( ۷۹ )

”پروردگار مجھے رزق عطا فرما تاکہ میں نیکی اور بھلائی وغیرہ کرسکوں پھر جب خداوند عالم اس کی نیت کی سچائی کو دیکھے گا تو اس کے لئے وہی اجر لکھ دے گا کہ جو اس پر عمل کرنے سے لکھا جا تا بے شک خداوند عالم واسع اور سب چیزوں کو جاننے والا ہے۔“

ابوھاشم امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ امام علیہ السلام نے فرمایا:انّما خلّد اهل النار فی النار لانّ نيّاتهم کانت فی الدنيا ان لو خلدوا فيها ان يعصو اللّه ابداً و انّما خلّد اهل الجنة فی الجنة نيّا تهم کانت فی الدنيا ان لو بقوا فيها ان يطيعوا اللّٰه ابداً فبا لنيّات خلّد هولاء و هو لاء ثم تلا قوله تعالیٰ:

قل کل يعمل علی شاکلة ( ۸۰ )

”آپ کہہ دیجئے کہ ہر ایک اپنے طریقہ پر عمل کرتا ہے“

قال علی علیہ السلام : علی نیتہ( ۸۱ )

”بے شک اہل جھنم ہمیشہ جھنم میں رہیں گے کیونکہ دنیا میں ان کی نیت یہ تھی کہ اگر ہمیشہ کے لئے دنیا میں رہ جائیں تو خدا کی نافرمانی کرتے رہیں گے اور اہل جنت ہمیشہ جنت میں رہیں گے کیونکہ دنیا میں ان کی نیت یہ تھی کہ اگر دنیا میں ہمیشہ کے لیئے بھی رہ جائیں تو پھر بھی خداوند کی فرمانبردای کرتے رہیں گے لہٰذا نیتوں پر ہے۔

جس کی جیسی نیت ہے وہ ویسا ہی رہے گا پھر امام علیہ السلام نے اس آیت شریفہ کی تلاوت فرمائی:

( ” (اے رسول(ص))کہہ دو ہر شخص اپنی ذات اور طبیعت کے مطابق عمل انجام دے گا“)

امام علیہ السلام نے فرمایا: ”اس سے مراد ان کی نیت ہے“

یہاں پر ہماری نیتوں پر منحصر ہے کہ ہم کس چیز کی خواہش رکھتے ہیں۔ اگر ہماری دعا میں خلوص شامل ہے تو یقینا ہمیں یہ درجہ عطا کیا جائے گا کہ جس کی ہم خواہش رکھتے ہیں۔

لفظ انصار اور اعوان کا مطلب تقریباً ملتا جلتا ہے۔البتہ عون کادرجہ نصرت سے زرا زیادہ ہے یعنی اگر کوئی زبانی حمایت بھی کرے تو ناصر کھلائے گا مگر عون اس وقت بنے گا جب عملی طور پر حمایت کرے ممکن ہے کہ یہ سوال پیدا ہو کہ غیبت کے زمانے میں عملی طور پر کس طرح کام کیا جاسکتا ہے؟ توا س کے جواب میں عرض کرتے چلیں کہ فرائض اور واجبات ہر دو رکی مناسبت سے مختلف ہوتے ہیں۔ زمان ظھور میں جو فرائض ہوں گے وہ خود ہی حضرت(عج) آکر معین فرمائیں گے لیکن زمان غیبت میں ہمارے کچھ فرائض ہیں یہ فرائض تکالیف اور احکامات شرعی کے علاوہ ہیں کہ جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کے لیئے ضروری ہے۔ خود امام زمان(عج) کی نسبت سے بھی مخصوص فرائض ہیں جیسے حضرت(عج) کے ظھور کے لئے دعا کی جائے۔

کہ جس کی روایت میں بہت تاکید کی گئی ہے یہاں تک کہ افضل الاعمال میں سے قرار دیا گیا ہے۔آپ کے ذکر کو زندہ رکھا جائے۔ بچوں کی تربیت کرتے وقت شروع ہی سے آپ کے لئے وقف کیا جائے وغیرہ۔

شروع ہی سے بچوں کے ذہن میں ڈالا جائے کہ ہم اور ہمارے پاس جو کچھ ہے اس کے اصل مالک خدا کے بعد آج کے دور میں حضرت ولی عصر (عج) ہیں۔

”زابین عنہ“سے مراد یہ ہرگز نہیں ہے کہ حضرت کو دشمنوں کے شرّ سے بچائیں کیونکہ حضرت کو کسی کی محتاجگی نہیںھے۔

بلکہ یہاں احتیاج تو ہماری طرف سے ہے ہمیں ان کی ضرورت ہے نہ یہ کہ اُن کو ہماری ضرورت ہو۔اس سے مراد اپنے خلوص کو ظاہر کرنا ہے اور یہ ایک طرح کا مومنین کا حضرت سے اظھار محبت ہے۔

”المسار عین الیہ “سے بھی مراد یہ ہے کہ حضرت کی خدمت میں رہ کر ان کی غلامی کی جائے خداوند عالم کے بعد وہ ہمارے امور کے مالک ہیں جس طرح ایک غلام اپنے مالک کے فرمان کو بجالانے کے لئے ہر دم تیار رہتا ہے۔ یہی نسبت ہماری حضرت کے ساتھ ہو کہ جس کو باقی جملوں ”الممتثلين لاوامره “ اور ”والمحامين عنه “ میں بیان کیا جارہا ہے۔

ھمارا پورا وجود حضرت(عج) کے اختیار میں ہو اس طرح سے کہ کوئی فکر و سوچ ہماری اپنی نہ رہے بلکہ جیسے حضرت(عج) مستقل طور پر ہر وقت اپنے پروردگار اور خالق کائنات سے رابطہ میں رہتے ہیں اور کسی لمحہ بھی اپنے خدا سے غافل نہیں ہوتے اس طرح ھمارا وجود اور فکر حضرت (عج)کے اختیار میں رہے اور لمحہ بھر کے لیئے بھی حضرت(عج) سے غافل نہ ہونے پائے۔

جملہ ” السابقین الیٰ ارادتہ “ میں بیان کیا گیا ہے کہ ہمیں حضرت (عج) کے پاس پہلے جانے والوں میں قرار دیا جائے کیونکہ جس کا ایمان زیادہ محکم ہوگا وہ پہلے حضرت(عج) کی خدمت میں پھنچے گا ہمارے ایمان کو اس درجہ پر لے جاکہ حضرت (عج)کی نصرت میں پھل کرنے والوں میں سے ہوں۔

جتنے پرانے اصحاب ہوں گے اتنا ہی حضرت(عج) کے مورد عنایت قرار پائیں گے جیسے کہ آیت شریفہ میں بھی اس بات کی جانب اشارہ ملتا ہے:

( والسابقون السابقون اولئک المقربون )

”اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں، وہی اللہ کی بارگاہ کے مقرّب ہونگے“( ۸۲ )

المستشه دین بین یدیه “ میں بھی مومن کی جانب سے شھادت کی تمنّا کا اظھار کیا جارہا ہے یعنی امام علیہ السلام کی رکاب میں شھادت نصیب ہو۔ جبکہ بہترین موت اور فضیلت تو صرف شھادت میں ہے اور جو مقام شھیدوں کا ہے وہ کسی کو نصیب نہیں ہوسکتا۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( ولا تحسبنّ الذين قتلوا فی سبيل اللّٰه امواتا بل احياء عند ربهم يرزقون )

ترجمہ: اور خبردار راہ خدا میں قتل ہونے والوں کو مردہ خیال نہ کرو وہ زندہ ہیں اور اپنے پروردگار کے یہاں رزق پارہے ہیں( ۸۳ )

یہ عام شیعوں کا مقام ہے اور جب امام علیہ السلام کی رکاب میں شھادت نصیب ہوگی تو اس کامقام اور فضیلت کیا ہوگی ؟ واللہ عالم۔

( اللّهُمَّ إِنْ حالَ بَیْنِی وَبَیْنَهُ الْمَوْتُ الَّذِی جَعَلْتَهُ عَلَی عِبادِکَ حَتْماً مَقْضِیّاً فَاخْرِجْنِی مِنْ قَبْرِی مُؤْتَزِراً کَفَنِی شاهِراً سَیْفِی مُجَرِّداً قَناتِی مُلَبِّیاً دَعْوَةَ الدَّاعِی فِی الْحاضِرِ وَالْبادِی )

(اے خدا ! اگر میرے اور میرے آقا امام زمان(عج) کے درمیان موت حائل ہوجائے جو تو نے اپنے بندوں کے لیئے قرار دی ہے تو پھر مجھے میری قبر سے اس طرح نکالنا کہ میں نے کفن پھنا ہوا ہو ننگی تلوار ایک ھاتھ میں ہو جبکہ دوسرے ھاتھ میں نیزہ اٹھایا ہو اور آپکی آواز پر لبیک کہہ رھا ہوں چاہے شھر میں ہو ںیا بیابان میں )۔

یہاں پر مومن اپنے خلوص کی انتھاء کو پہنچ کر حضرت حجت(عج) سے اپنی محبت اور عشق کا اظھار کررھا ہے حضرت (عج)کی زیارت اور ھمراھی ہونے کا شدت کے ساتھ ایسے بیان کیا جارہا ہے کہ اگر حضرت (عج)کے ظھور سے پہلے میری اجل اور موت کا وقت آپھنچے تو پھر بھی مجھے قبر سے اٹھالیا جائے جیسا کہ بعض آئمہ علیہم السلام کے اصحاب کے لیئے بھی کہا جاتا ہے کہ ظھور کے وقت اپنی قبروں سے اٹھائے جائیں گے یہاں تک کہ اصحاب کہف وغیرہ کے لیئے بھی یوں ہی بیان ہوتا ہے۔

یقینا ایسا ہی ہوگا کہ جو دنیا میں اور اپنی زندگی میں حضرت(عج) کی نصرت کی تمنا رکھتا ہو یقینا ظھور کے وقت قبروں سے اٹھایا جائے گا۔ جبکہ ہم جانتے ہیں کہ ہر شخص کے لیئے موت حتمی ہے جیسا کہ آیہ شریفہ میں بیان ہوا ہے:

( کل نفس ذائقة الموت ثم الينا ترجعون )

ھر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے اس کے بعد تم سب ہماری بارگاہ میں پلٹا کر لائے جاؤ گے۔( ۸۴ )

موت اور زندگی تو کسی کے اختیار میں نہیں ہے لیکن اس موت کے بعد زندگی جو حضرت (عج)کی خدمت میں گذرے اس کی تمنا کا اختیار ہے۔

کفن پوش ہوکر قبر سے نکلنے کی خواہش کی کئی وجوھات ہوسکتی ہیں۔ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ جس طرح انسان دنیاوی بناوٹوں اور رنگا رنگ لباس کو چھوڑ کر ایک سادہ کپڑے میں لپٹ کر قبر میں جاتا ہے مجھے اسی سادگی کے ساتھ اٹھا اور میرے پاس سوائے ننگی تلوار اور نیزہ کے کچھ نہ ہو۔

ممکن ہے مراد یہ ہو کہ جیسے انسان قبر میں فقط اپنے اعمال لے کر جاتا ہے اور انھی اعمال کے ساتھ قبر سے اٹھالیا جائے گا۔اگر اعمال اچھے ہوں گے تو صحیح ہے ورنہ

سب کے سامنے بے آبرو ہوجائے گا اور سب کے اعمال ایک دوسرے پر ظاہر ہوجائیں گے۔یہ اس بات سے کنایہ ہے کہ مجھے برھنہ نہ اٹھانا بلکہ میرے نیک اعمال کے ھمراہ با لباس اٹھانا اور یہ لباس وہی عقیدہ امامت و ولایت ہو کہ جس پر میں دنیا میں ایمان رکھتا تھا جیسا کہ کلام مجید میں ایسے لباس کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ سب سے بہتر لباس کونسا ہے ؟ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( يابنی آدم قد انزلنا عليکم لباساً يواری سواتکم و ريشا! ولباس التقوی ذلک خيرٌ )

”اے اولاد آدم ہم نے تمھارے لیئے لباس نازل کیا ہے جس سے اپنی شرمگاھوں کا پردہ کرو اور زینت کا لباس بھی دیا ہے لیکن تقوی کا لباس سب سے بہتر ہے۔“( ۸۵ )

اس کے بعد اسی گذشتہ بات کی تاکید کی جارہی ہے کہ میں جس حالت میں بھی ہوں چاہے سفر میں رہوں یا اپنے وطن میں ہمیشہ حضرت (عج)کو لبیک کھنے کے لیئے تیار ہوں ممکن ہے یہاں پر اشارہ اس خدشہ کی جانب ہو جو تاریخ میں انبیاء علیہم السلام یا معصوم علیہم السلام کے ساتھ پیش آتا رھا ہے جب انھوں نے کسی ضرورت کے وقت یا کسی

جنگ کے موقع پر لوگوں کو طلب کرنا چاہا تو سب کو بھانے سوجھنے لگتے تھے کسی کو بیوی بچوں کا بھانہ تو کسی کو والدین کا، کسی کو سیاسی خوف تو کسی کو اقتصادی مسائل ہر شخص اپنی مشکل کو لے کر بیٹھ جاتا تھا اور عذر تراشی کرنے لگتا ایسے موقع پر فقط خالص ایمان والے ہی ساتھ ہوسکتے ہیں۔

اگر کوئی اپنی دنیوی مشکلات کو اہمیت دے گا تویقینا وہ فضیلت کے قافلہ سے پیچھے رہ جائے گا لہذا ہر وقت یہی دعا کریں کہ ہمیشہ سراپا حضرت (عج) کی آواز پر لبیک کھنے کے لیئے تیار رہیں اور ہمیں ایمان کے اس درجہ سے نیچے نہ گرنے دیا جائے جوامام(ع) کی نصرت کے لیئے ہونا ضروری ہے دنیا کی کوئی بھی طاقت اور کشش ہمارے اور حضرت کے درمیان حائل نہ ہو پائے۔

( اللّهُمَّ ارِنِی الطَّلْعَةَ الرَّشِیدَةَ وَالْغُرَّةَ الْحَمِیدَةَ وَاکْحَُلْ ناظِرِی بِنَظْرَةِ مِنِّی إِلَیْهِ )

(اے خدا! مجھے حضرت (عج)کا چمکتا ہوا چھرہ دکہا اور درخشاں پیشانی کو اور ان کے دیدار کو میری آنکھوں کا سرما بنادے)۔

الطلعة الرشيده “ سے مراد خود حضرت (عج)ھیں کیونکہ قرآن اور روایت میں حضرت (عج)کو آفتاب سے تشبیہ دی گئی ہے۔

ارشاد رب العزت ہے:

( اشرقت الارض بنور ربّها )

(زمین اپنے پروردگار کے نور سے جگمگا اٹھے گی)( ۸۶ )

اس آیت کے ذیل میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو زمین آپ کو خدا کی طرف سے عطا کئے گئے نور سے بھر جائے گی( ۸۷ )

اسی طرح خود حضرت (عج) بھی اپنی غیبت کے بارے میں بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ مجھ سے زمانہ غیبت میں کسی طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے۔

اما وجه الانتفاع فی غیبتی فکالانتفاع بالشمس اذا غيّبها عن الابصار السحاب ( ۸۸ )

”مجھ سے غیبت کے زمانہ میں اس طرح فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے جیسے بادلوں میں سورج کے چھپ جانے سے فائدہ پھنچتا ہے۔“

الغرة الحميدة “ کا مطلب سفید پیشانی ہے جو کنایہ ہے خوشبختی اور خوش قسمتی سے،مراد وہ نور ہے جس سے دنیا روشن ہوجائے ۔ اس علامت خوشبختی کو جو مومنین کے

لئے باعث مسرت ہو مجھ پر ظاہر فرما اور حضرت (عج) کے دیدار کو میری آنکھوں کے لئے ٹھنڈک قراردے۔ میرے غم اور درد کا علاج خود حضرت (عج) ہیں۔

جیسے انسان اپنی پسند کی چیزکو دیکھ کر کہتا ہے کہ میری آنکھوں میں ٹھنڈک پڑ گئی یہ اسی مناسبت سے ہے کیونکہ ا س کا دیدار مومنین کے لئے باعث مسرت اور فرح ہوگا۔

ایسے دیدار چاہے عالم رویا اور خواب میں بھی کیوں نہ ہوں انسان پوری زندگی اس پر فخر محسوس کرتا رہے اور خواب میں بھی یہی تمنا رہے گی کہ خدایا یہ خواب کبھی ختم نہ ہونے پائے۔

البتہ ایک بات قابل ذکر رہے کہ دیدار فقط مومنین کے لیئے باعث مسرت ہوگا کیونکہ مومن کی دعا فقط آنکھوں سے زیارت کرنا نہیں بلکہ آنکھوں کے ذریعہ اپنے دل کو زیارت سے منور کرنا ہے۔ ایمان اور عقیدہ کے اس درجہ کے حصول کے لیئے جو محبت اور ولایت اہل بیت علیہم السلام کے لئے مطلوب ہے۔

یوں تو بہت سے لوگوں نے رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زیارت کی اور مسلسل زیارت کرتے رہے مگر یہ محبت ان کے لیئے فائدہ مند نہ رھی کیونکہ ان کے قلوب گناہوں کی میل سے ڈھک چکے تھے یہاں تک کہ نہ انہیں حق سمجھ میں آیا اور نہ ہی اپنی عاقبت سنوار سکے۔

ارشاد رب العزت ہے:

( ختم اللّٰه علی قلوبهم وعلی سمعهم وعلی ابصارهم غشاوة ولهم عذاب عظيم ) ( ۸۹ )

”خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر گویا مھر لگادی ہے کہ نہ کچھ سنتے ہیں اور نہ سمجھتے ہیں اور آنکھوں پر بھی پردے پڑ گئے ہیں“

پھر جب یہ لوگ گمراھی اور ضلالت کے سمندر میں غرق ہونے لگتے ہیں تو پھر خداوند عالم فرماتا ہے:

( فی قلوبهم مرض فزادهم اللّٰه مرضا و لهم عذاب اليم بما کانوا يکذبون )

”ان کے دلوں میں بیماری ہے اور خدا نے نفاق کی بنا پر اسے اور بڑھا دیا ہے اب اس جھوٹ کے نتیجے میں انہیں دردناک عذاب ملے گا۔“( ۹۰ )

لہٰذا ہماری دعا ہے کہ ہمیں وہ زیارت نصیب عطا فرما جیسے کہ زیارت کرنے کا حق ہے ھمارا وجود ایمان میں غرق ہوا ور قلب کی دھڑکنوں سے آواز آرھی ہو لبیک میرے امام (عج)خداوند ہمارے قلوب کو دنیاوی غلاظتوں کے میل سے پاک کردے تاکہ نور ایمان و ہدایت ہمارے دل میں اتر سکے۔

( وَعَجِّلْ فَرَجَهُ وَسَهِّلْ مَخْرَجَهُ وَاوْسِعْ مَنْهَجَهُ وَاسْلُکْ بِی مَحَجَّتَهُ وَانْفِذْ امْرَهُ وَاشْدُدْ ازْرَهُ )

(حضرت (عج) کے ظھور میں تعجیل فرما اور اُن کے خروج کو آسان فرما اور ان کے راستہ کو وسیع فرما اور مجھے ان کی راہ میں قرار دے اور ان کے امر کو نافذ فرما اور ان کی پشت کو مضبوط و محکم فرما)۔

یا تو ممکن ہے کہ فرج سے مراد حضرت (عج)کا ظھور یا پھر یہ کہ وہ چیزیں ہوں جو آپ (عج)کے ظھور کے اثرات میں سے ہوں جیسے فتح و نصرت اور دشمنان خدا پر غلبہ حاصل کرنا۔

دوسری بات زیادہ بہتر لگتی ہے جبکہ پھلی بات بھی قاعدہ عقلی سے دور نہیں کیونکہ اس سے بڑھ کر کیا مصیبت اور بلا ہوگی کہ ہمارے امام (عج) ہم سے دور اور ہماری آنکھوں سے اوجھل ہوں۔

کیونکہ یہ سب باتیںلوگوں کے لیئے طغیان اور نافرمانی کے اسباب فراہم کرتی ہیں اور پھر ایسے موقع سے فائدہ اٹھا کر شیطان بہت آسانی سے خداوند متعال کے راستہ سے لوگوں کو شکار کر کے اپنا قیدی بنالیتا ہے۔

حضرت موسی علیہ السلام کی مثال جو صرف چالیس روز کے لیئے اپنی امت سے دور ہوگئے تو ادھر بنی اسرائیل خدائے وحدہ لا شریک کو چھوڑ کر ایک بچھیا کی پرستش کرنے لگے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( و اذ وعدنا موسیٰ اربعين ليلة ثم اتّخذ تم العجل من بعده و انتم ظالمون )

”اور ہم نے موسیٰ سے چالیس راتوں کا وعدہ لیاتو تم نے ان کے بعد گوسالہ تیار کرلیا کہ تم بڑے ظالم ہو”( ۹۱ )

”ان کے خروج کو آسان فرما “سے مراد یہ ہے کہ ایسے اسباب پیدا کر جو حضرت(عج) کے ظھور میں مددگار بن سکیں۔سب سے پہلے تو خود لوگوں کو اتنی صلاحیت اور قوت ایمان دے کہ حضرت(عج) کو پہچان سکیں۔حضرت(عج) کی خدمت اور غلامی کے لئے دنیا کے کونے کونے سے آپ کے یاروں اور ناصروں کو آمادہ کر اور سب سے بڑھ کر اے خدای متعال توخود ظھور کی اجازت دے اور مومنین کے مرجھائے ہوئے دلوں کو بھار ظھور کی نسیم و شبنم سے طراوت فرما۔

ان کے راستے کو وسیع کرنے سے مراد ان کے ظھور کے موانع کو ختم کردے کسی بھی مورد میں آپ کو کوئی وقت نہ پیش آئے مجھے ان کے راستہ میں قرار دے یعنی میرے

لئے ان کو قبول کرنے میں آسانی فرما مجھے ان کی معرفت عطا فرما اور میرے ایمان کو اتنا محکم بنا کہ مجھے حضرت(عج) کو پہچاننے میں کوئی دشواری نہ ہو۔

ان کے امر کو نافذ کروانے سے بھی یہی مراد ہے کہ لوگوں کو حضرت (عج)کی اتنی معرفت ہو کہ فوراً آپ(عج) کی بات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہوسکیں۔

ایسا نہ ہو کہ جیسے انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوتا رھا ہے کہ ان کی قومیں نہ فقط یہ کہ ان کی بات اور حجتوں کو سمجھ نہیں پائی تھیں بلکہ بات بات پر شک میں مبتلا ہوجاتی تھیں لاتعداد واقعات تاریخ میں ہمیں اس مطلب کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔

حضرت بقیة اللہ (عج)کی پشت کو محکم کرنے سے مراد ممکن ہے کہ آپ(عج) کے لئے ایسے احباب اور ناصر مھیا کرے کہ جو آپ(عج) کی پشت پناھی کرسکیں یہ سنت انبیاء ہے کہ جو چلی آرھی ہے۔

قرآن کریم میں حضرت موسی علیہ السلام دعا فرماتے ہوئے نظر آتے ہیں:

( قال ربّ اشرح لی صدری و يسّر لی امری واحلُلْ عقدة من لسانی يفقهوا قولی واجعل لی وزيراً من اهلی هٰرون اخی واشدد به ازری واشرکه فی امری ) ( ۹۲ )

”موسی (ع)نے عرض کی پروردگار میرے سینے کو کشادہ فرما ، میرے کام کو آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کھول دے کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرا وزیر قرار دیدے۔ ھارون جو میرا بھائی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط فرما اسے میرے کام میں شریک بنادے“

اس طرح معروف روایت کہ جو اہل سنت اور اہل تشیع کے یہاں یکساں طور پر مقبول ہے۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا: ”انت منی بمنزلة هٰرون من موسیٰ الّا انه لا نبی بعدی …( ۹۳ )

”تمھارا میری نسبت وہی مرتبہ ہے جو ھارون کا موسی علیہ السلام کی نسبت تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں ہے۔“

امیرالمومنین علیہ السلام اول بعثت سے آخر رحلت تک حضرت ختمی مرتبت(ص) کی خدمت میں رہے اور ہمیشہ ان کے یاروناصر رہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد یہ ہو کہ ایسے دلائل اور براھین حضرت(عج) کے ساتھ بھیجے جس کے سبب آپ کو حق کی حقانیت ثابت کرنے میں کم سے کم دشواری پیش آئے اور جلد سے جلد لوگوں پر اتمام حجّت ہوسکے یہ دلائل سبب بنیں کہ لوگ جلد از جلد آپ(عج) کی حمایت اور نصرت کے لیئے تیار ہوجائے ں۔

( وَاعْمُرِ اللّهُمَّ بِهِ بِلادَکَ وَاحْیِ بِهِ عِبادَکَ فَإِنَّکَ قُلْتَ وَقَوْلُکَ الْحَقُّ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا کَسَبَتْ ایْدِی النَّاسِ )

(پروردگار اپنے شھروں کو حضرت(عج) کے توسط سے آباد فرما اور اپنے بندوں کو زندہ فرما بے شک تو نے کہا ہے اور تیرا کہا حق ہے کہ خشکی اور سمندر میں فساد ظاہر ہوجائے گا جو لوگوں کے اپنے اعمال کے ھاتھوں سے ہوگا)

ممکن ہے شھروں کو آباد کرنے سے مراد یہ ہو کہ حضرت بقیة اللہ کا شھروں پر غلبہ حاصل ہوجائے اور وھاں پر خدا کی حکومت قائم ہوجائے اگرچہ خدا کی حکومت ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی مراد یہ ہے کہ لوگوں کی اصلاح ہوجائے اور سب لوگ خدا کی بندگی میں آجائیں۔

لوگوں کو زندہ کرنے سے بھی یہی مراد ہے کہ مردہ قلوب جو گمراہ ہوچکے ہیں نور ایمان سے زندہ ہوجائیں اور ان کے دلوں میں فقط خدا کی حکومت ہو ۔اس بات پردعا کے بعد والا جملہ جو آیت ہے قرینہ ہے۔

( ظهر الفساد فی البرّ و البحر بما کَسَبَتْ ايدی الناس ليذيقهم بعض الذی عملوا لعلّهم يرجعون )

”لوگوں کے ھاتھوں کی کمائی(اعمال) کی وجہ سے خشکی اور تری ہر جگہ فساد غالب آگیا ہے تاکہ خدا ان کے کچھ اعمال کا مزہ چکہادے تو شاید یہ لوگ پلٹ کر راستے پر آجائیں“( ۹۴ )

اس آیت شریفہ کے ذیل میں بھی یہی بیان کیا جاتا ہے کہ جو بھی تباھی اور بربادی ہمیں دنیا میں نظر آتی ہے اس کا سبب خود وھاں کے لوگ ہوتے ہیں اور یہاں لو گو ں

کو ہوشیار کیا جارہا ہے جو فساد اور نقصان ہوگا اس کے اصل ذمہ دار تم لوگ خود ہوگے۔

لہٰذا اس سے مراد زمین میں فساد اور عمومی بلائیں ہیں جو جھان میں نمودار ہونگیں وھاں کے لوگوں کو تباہ و برباد کردیں گیں چاہے وہ قحط کی صورت میں ہو یا مرض کی، چاہے زلزلہ کی صورت میں ہو یا معاشرے میں بدامنی کی وجہ سے ہو۔

جو بھی چیز نظام معاشرت اور زندگی میں خلل پیدا کرے گی اس کا سبب لوگوں کا اپنا عمل ہوگا۔

جیسا کہ امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

حيات دواب البحر بالمطر فاذا کف المطر ظهر الفساد فی البحر و البر و ذلک اذا کثرت الذنوب والمعاصی( ۹۵ )

”سمندری حیوانات کی حیات بارشوں پر منحصر ہے اور جب بارشیں نہ ہوں تو سمندر اور خشکی پر تباھی آجاتی ہے اور یہ اس وقت ہوتا ہے جب گناہ اور نافرمانی حد سے زیادہ ہوجائے ۔“

اس کے برعکس مطلب کی طرف قرآن مجید نے اشارہ کیا ہے کہ:

( ولو ان اهل القری آمنوا واتّقوا لفتحنا عليهم برکات من السماء والارض )

”اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقوی اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لیئے زمین اور آسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے“( ۹۶ )

انسان اگر عبودیت اختیار کرلے اور خدا کا ہو کر رہ جائے تو زمین و آسمان اس کے لیئے خزانے اگلنے لگیں اور چاروں طرف سے نعمتوں کا نزول شروع ہوجائے گا۔

( فَاظْهِرِ اللّهُمَّ لَنا وَلِیَّکَ وَابْنَ بِنْتِ نَبِیِّکَ الْمُسَمَّی بِاسْمِ رَسُولِکَ صَلَّی اللّٰه عَلَیْهِ وَآلِهِ )

( پروردگار ! ہمارے لیئے اپنے ولی او راپنے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی بیٹی کے فرزند کو کو ظاہر فرما جو تیرے رسول (ص)کا ہم نام ہے)

یہاں پر حضرت بقیة اللہ کو خدا کے ولی ہونے سے نسبت دی گئی ہے جس سے یہ ثابت ہوتا کہ وہ صاحب اور مالک ہیں یعنی خداوند عالم کی جانب سے یہ مالکیت ان کو عطا کی گئی ہے جیسا کہ آیت مبارکہ میں حضرت (عج)کے جد بزرگوار مولائے کائنات

حضرت علی بن ابی طالب علےھما السلام کے لئے نازل ہوا۔

( انّما وليکم اللّٰه و رسوله والذين آمنوا و يقيمون الصلوة و يوتون الزکاة و هم راکعون )

”بس تمھارا ولی، اللہ ہے اور اس کا رسول(ص) اور وہ صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوة دیتے ہیں“( ۹۷ )

اہل تشیع( ۹۸ ) کے نزدیک اور اہل تسنن( ۹۹ ) کے نزدیک اتفاق ہے کہ یہ آیت حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کے لیئے نازل ہوئی ہے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہاں لفظ ” ولی “ دوست یا ناصر کے معنی میں نہیں آیا کیونکہ یا رو دوستی کرنے کا حکم فقط ان لوگوں کے لئے نہیں جو نماز قائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکات دیتے ہیں بلکہ ایک کلی اور عام حکم ہے حتی ان لوگوں کے لئے بھی یہی حکم ہے جن پر زکات اور صدقہ دینا واجب ہی نہیں بلکہ خود فقیر ہیں لیکن پھر بھی مسلمانوں میں آپس کے بھائی چارے کا حکم ان کے بھی شامل حال ہے۔

یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت مبارکہ میں ”ولی“ ولایت کے معنی میں ہے جس کا لازمہ سرپرستی کرنا اور مادی و معنوی امور میں تصرف کا حق رکھنے کے ہے مخصوصاً جب اس ولایت کی بات اللہ اور رسول (ص)کی ولایت کے ساتھ کی جارہی ہو اور یہ پورا جملہ ایک ہی سیاق میں بیان ہوا ہے۔

یہ بات تو ذکر ہوچکی ہے کہ اگر کسی بھی معصوم (ع)کے لئے کوئی فضیلت ثابت ہوجاتی ہے تو تمام معصوم (ع)اس میں شریک ہوتے ہیں جیسا کہ معروف روایت میں ذکر ہوا ہے کہ:

اولنا محمد و آخرنا محمد و اوسطنا محمد ( ۱۰۰ )

”ھمارا پھلا بھی محمد اور ھمارا آخری بھی محمد اور ہمارے اوسط بھی محمد ہیں“

یہاں پر حضرت زہرا سلام اللہ علیھا سے نسبت دینے کا مقصد ایک تو یہ ہوسکتا ہے کہ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زریت حضرت زہرا سلام اللہ علیھا سے ہے۔

قال رسول الله (ص): کل نبی اُمّ ينتمنون الی عصبتهم الا ولد فاطمه فانی انا ابوهم و عصبتهم ( ۱۰۱ )

” ہر ماں سے پیدا ہونے والے بچے کو اس کے باپ کے اجداد سے نسبت دی جائے گی سوائے اولاد فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیھابے شک میں ان کا باپ ہوں اور میں ہی ان کا جد ہوں۔“

اور یہ بھی ممکن ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیھا اہل آسمان میں بہت معروف ہیں لہذا ان کی شھرت کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے نسبت دی گئی ہے۔

امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہے کہ آپ کے صحابی حضرت جابر بن عبداللہ انصاری نے سوال کیا کہ:

”حضرت فاطمہ کو زہرا کیوں کہا جاتا ہے “

تو امام علیہ السلام نے جواب میں فرمایا: ”لان اللّٰه عزّ و جلّ خلقهما من نور عظمته فلمّا اشرقت اضائت السموات والارض بنوريها و غشيت ابصار الملائکة و خرّت الملائکة للّٰه ساجدين، قالوا الهنا و سيدنا ما هذا النور ؟ فاوحیٰ اللّه اليهم هذا نور من نوری ( ۱۰۲ )

”کیوں کہ جب خداوند عالم نے حضرت زہرا سلام اللہ علیھاکواپنے نور سے خلق کیا اور جب اس نور نے پوری کائنات کو اپنی آغوش میں لے لیا تو ملائکہ نے سوال کیا پروردگار ! یہ کونسا نور ہے ؟ جس کے جواب میں خداوند نے فرمایا:

” یہ میرے نور میں سے ہے“

یہی وجہ ہے کہ حضرت زہرا سلام اللہ علیھاکی بڑی فضیلت ہے کیونکہ بقاء دین حضرت زہرا(س)کے توسط سے ممکن ہوا ہے، اسلام اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے نام کو زندہ رکھنے والے یہی لوگ ہیں اسی بنا پر اللہ تعالیٰ اور رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی مرضی کے مطابق حضرت بقیة اللہ اس دنیا کو عدل اور انصاف سے بھر دیں گے جیسے ظلم و جور سے بھری ہوئی ہے۔

رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے ھمنام ہونے کی جانب جو اشارہ ہوا ہے در اصل ان روایت کی روشنی میں ہے جن کے مطابق حضرت حجت(عج) کی کنیت اور نام اپنے جد بزرگوار رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)والا ہوگا۔

( حَتَّی لاَ یَظْفَرَ بِشَیْءٍ مِنَ الْباطِلِ إِلاَّ مَزَّقَه وَیُحِقَّ الْحَقَّ وَیُحَقِّقَه )

(یہاں تک کہ باطل کامیاب نہ ہونے پائے مگر یہ کہ وہ متفرق ہوجائیں اور حق پائیدار اور اپنے مقام پر ثابت ہوجائے )

یہ بات تو روایت علامات ظھور میں بیان ہوچکی ہے کہ حضرت ولی عصر(عج) باطل پر غلبہ پاجائیں گے اور کوئی نا حق اس دنیا میں باقی نہیں رہے گا جیسا کہ پہلے بھی اس چیز کی جانب اشارہ کرچکے ہیں۔اس زمانے میں فقط دو گروہ رہ جائیں گے ایک وہ جو حضرت(عج) کے ساتھ ہونگے اور آپ کے حامی و ناصر ہونگے اور دوسرا و ہ گروہ ہے جو حضرت (عج)کے مخالف ہونگے چاہے وہ بے طرفی اور کسی کے ساتھ نہ ہونے کا بھی اقرار کرلیں یہ سب لوگ ایک حساب میں شمار کئے جائیں گے۔

یہ معلوم رہے کہ حق جو حقیقت اور واقعیت ہے ایک وقت میں ایک سے زیادہ نہیں ہوسکتا جبکہ باطل ممکن ہے کہ متعدد گروھوں کی شکل میں ہو۔اب جبکہ حق صرف ایک ہی ہوسکتا ہے توآپ(عج) پوری دنیا میں حق کی حکومت قائم کریں گے اور حق کو وہ مقام دلائیں گے جو اس کا حق ہے ۔جیسا کہ عدالت کی تعریف میں بیان کیا جاتا ہے کہ: ”وضع شیٴ علی موضعه

یعنی ”عدالت یہ ہے کہ ہر چیز کواس کے مقام پر رکھ دیا جائے“ نتیجہ کے طور پر یہ وہ زمانہ ہوگا جب اہل کو منصب ملے گا اور نااہل وں کو ہٹادیا جائے گا یہ زمانہ عدالت اور انصاف کا زمانہ ہوگا۔

گرہم دیکھیں کہ جس معاشرے میں نظم و ضبط نہ رہے اور وہ تباھی کی جانب تنزل کرتا نظر آئے تو اس کی اصل وجہ یہ ہوتی ہے کہ نااہل آگے آجاتے ہیں جبکہ حقدار کا کوئی پرسان حال نہیں ہوتا۔

جبکہ وہ زمانہ حق کا باطل پر چھا جانے کا زمانہ ہوگا جہاں عزت اور شرافت کا معیار آیت مبارکہ کے مطابق ہوگا جیسے:

( انَّ اکرمکم عند اللّٰه اتقٰکم ) ( ۱۰۳ )

” تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے“

شرافت و عزت کا معیارکسی عھدے یا مال و دولت کی وجہ سے نہیں ہوگا موجودہ زمانہ میں کیونکہ باطل کا بول بالا ہے حتی ایک گویے اور ناچنے والے کو عزت کی نگاہ سے

دیکھا جاتا ہے جبکہ معاشرے میں دیندار طبقہ کو حقارت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا یہ وہ بے عدالتی اور حق تلفی ہے کہ جس کو آپ(عج) مٹانے کے لیئے ظھور فرمائیں گے۔

( وَاجْعَلْهُ اللّهُمَّ مَفْزَعاً لِمَظْلُومِ عِبادِکَ وَناصِراً لِمَنْ لاَ یَجِدُ لَهُ ناصِراً غَیْرَکَ وَمُجَدِّداً لِمَا عُطِّلَ مِنْ احْکامِکِتابِکَ وَمُشَیِّداً لِمَا وَرَدَ مِنْ اعْلامِ دِینِکَ وَسُنَنِ نَبِیِّکَ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْهِ وآلِه )

(پروردگارا ! ان کو اپنے مظلوم بندوں کے لئے پناہ گاہ اور جن کا کوئی تیرے سوا ”یاور“ نہ ہو ” یاور“ قرار دے اور اپنی کتاب(قرآن) کے متروک قوانین کو زندہ فرما اور اپنے دین کی علامتوں اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی سنت کو مضبوط فرما درود ہو ان پر اور انکی آل پر۔)

یہاں پر گذشتہ کلمات کی تفسیر کی جارہی ہے کہ صرف آپ(عج) ہی مظلوموں کے لئے سھارا ہونگے اور آپ(عج) ظالموں سے مظلوموں کاحق واپس دلوائیں گے ۔ جیسا کہ بیان کرچکے ہیں ۔وہ زمانہ حق کی بالادستی کا زمانہ ہوگا لہذا کوئی مظلوم باقی نہ رہے گا مگر یہ کہ اس کا حق اسکو مل جائے۔ اور اسی طرح بے سھارا لوگ جوصرف خداوند متعال کے آسرے پر ہوتے ہیں جن کو کوئی پناہ دینے والا نہیں ہوتا ۔آپ(عج) آکر انکی مدد فرمائیں گے۔ان لوگوں کو اس حالت میں آکر نجات دینگے جب کوئی انکا پوچھنے والا نہیں رہ جائے گا۔

کتاب خدا کے احکامات کو زندہ کرنے سے مراد ممکن ہے یہ ہو کہ زمان غیبت کے طولانی ہونے کے سبب جو لوگ تعلیمات قرآنی سے دور ہوچکے ہیں اور قرآن پر عمل نہیں کرتے آپ آکر اس قرآن کو احیاء کریں گے اس صورت میں کہ اس کے احکامات کو دنیا میں رائج کریں گے۔

اور یہ بھی ممکن ہے کہ قرآن کو ہر فرقہ اور گروہ نے اپنی نظر اور عقیدے کے مطابق بیان کیا ہے اور اپنے ذہن کے مطابق اسکی تفسیر اور تاویل کرتے پھرتے ہیں جب کہ آپ(عج) کے آنے کے بعد وہ باتیں جو ابھی تک قرآن میں مخفی تھیں ظاہر ہوجائیں گی اور آپ(عج) ہی کے توسط سے ان کو بیان کیا جائیگا۔

البتہ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ قرآن میں کچھ کمی ہے اور کچھ باتیں بیان نہیں ہوئیں بلکہ قرآن کامل ہے اور اس میں ہر چیز بیان ہوچکی ہے جیسا کہ خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

( ما فرّطنا فی الکتاب من شیٴ )

” ہم نے اس (کتاب) میں کسی چیز کی وضاحت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی“( ۱۰۴ )

دین اور سنت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کو مضبوط کرنے سے مراد دین اسلام کی نصرت کرنا ہے اور صرف یہی دین خداوند عالم کے نزدیک مقبول ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

( ان الدين عند اللّٰه الاسلام )

” بے شک ! خداوند عالم کے نزدیک صرف اسلام ہی دین ہے“( ۱۰۵ )

اعلام دین سے مراد احکام اسلام ہیں کہ جن کا پیروان مذھب اسلام پر بجا لانا واجب ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ جو احکامات بجا نہیں لاتے ۔اور محرمات علنی طور پر مرکتب ہوتے ہیں ۔حضرت (عج) ان کو احکام پر عمل کروائیں گے۔ سادہ زبان میں یوں عرض کریں کہ واجبات پر عمل کروانے اور محرمات سے روکنے کا فریضہ بھی آپ(عج) ہی کے کاندھوں پر ہوگا۔ اور یہی حال سنت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کا ہے جو کافی حد تک لوگوں کے درمیان سے ختم ہوچکی ہوگی اس کے احیاء کے فرائض انجام دیں گے۔

البتہ ایک بات قابل ذکر ہے کہ یہاں پر مضبوط کرنے کی بات کی گئی ہے تو اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اگرچہ کم ہی کیوں نہ ہوں لیکن مومنین ہونگے اور وہ احکامات خدا وند

اور سنتِ رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر قائم ہونگے ۔یقینا ایسے ہی مومنین سب سے پہلے ندائے امام (ع)پر لبیک کہیں گے اور یہی لوگ:

< والسابقون السابقون اولئک المقربون )

ترجمہ: ”اور سبقت کرنے والے تو سبقت کرنے والے ہی ہیں، وہی اللہ کی بارگاہ کے مقرّب ہیں“( ۱۰۶ ) کے مصداق بنیں گے۔

< وَاجْعَلْهُ اللّهُمَّ مِمَّنْ حَصَّنْتَهُ مِنْ بَاسِ الْمُعْتَدِینَ )

(پروردگارا ! ان کو قرار دے ان لوگوں میں سے جنکی تو محافظت کرے گا باغیوں کے شرّ سے)

یہ ایک طبعی رد عمل ہوتا ہے یہ مسئلہ ھمیشہ سے انبیاء (ع)اور اولیاء کرام علیہم السلام کے ساتھ چلا آرھا ہے۔ ہر زمانے میں باغی اور طغیان کرنے والے ہوتے ہیں اور اگر کوئی بات ان کی مرضی کے مطابق نہ ہو تو ہر گز اس کو نہیں مانتے اور اگر کوئی ان سے اصرار کرے

تو دشمنی اور قتل غارت گری پر اتر آتے ہیں ۔

جب حضرت بقیتہ اللہ اوراحنا فدا ظھور کریں گے تو بہت بڑی تعداد بلکہ اکثر بڑی قوتیں چاہے وہ علاقائی سطح پر ہوں یا عالمی سطح پر آپ (عج) کے وجود کو برداشت نہیں کریں گی اور آپ(عج) کو نقصان پہچانے کاکوئی موقعہ ھاتھ سے نہیں جانے دیں گی جس کے سبب بات جنگ وجدال تک جا پھنچے گی ۔

یقینا اسی صورت حال میں آپ(عج) کو نقصان پھنچنے کا اندیشہ ہے ۔اسی لئے یہ دعا کی جارہی ہے جیسے خدا وند متعال نے حضر ت عیسی مسیح علیہ السلام اور اصحاب کہف و غیرہ کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھا اور خود حضرت (عج) کو بھی ایک طویل عرصہ تک غیبت میں رکھ کر ہر نقصان سے بچایا اسی طرح ظھور کے بعد بھی محافظت فرما ۔اور یقینا خدا وند عالم محافظت فرمائے گا کیونکہ زمین کبھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی کہ جو عقلاً و نقلا ثابت شدہ بات ہے۔

( اللّهُمّ و سر نبیک محمد اً صلی الله علیه و آله برویته ومن تبعه علیه دعوته )

(پروردگارا!اپنے پیغمبر(ص) اور ان کی دعوت پر پیروی کرنے والوں کو آپ (ع)کے دیدار سے خوشحال کر۔)

یہاں پر خداوندعالم سے ظھور کی درخواست کہ جارہی ہے جوآپ کا ظاہر ہونا مومنین کے لئے خوشحالی کا باعث ہوگا اس سے بڑھ کر خود ذات مقدس رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے لئے بھی باعث مسرت ہوگا یہ وہ موقع ہوگا جب صدر اسلام سے لیکر ظھور تک جن لوگوں نے محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہ م اجمعین کی حق تلفی کی ہوگی چاہے وہ جنگ و جدال کی صورت میں ہو چاہے ان کی پیروی نہ کرنے کی وجہ سے ہو سب سے بدلہ لیا جائے گا۔

جیسا کہ ہم دعا میں پڑھتے ہیں: ”يا ربّ الحسين بحق الحسين اشفع صدر الحسين بظهور الحجة

”اے حسین علیہ السلام کے پروردگار تجھے حسین علیہ السلام کا واسطہ، حضرت حجت کو ظاہر کر کے حسین علیہ السلام کے سینے کو شفا (قلب کو خوشحال فرمادے )بخش دے۔“

اوراسی طرح دعاء شریف ندبہ میں پڑھتے ہیں ”این الطالب بدم المقتول بکربلا

”کربلا میں شھید ہونے والے کے خون کا بدلہ لینے والا کہاں ہے۔“

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی شفاعت سے لیکر جناب زہرا سلام اللہ علیھا کی کمر شکنی اور محسن علیہ السلام کے قتل کا بدلہ لیا جائے گا۔مسجد کوفہ کی محراب کو خون سے رنگین کرنے کا حساب لیا جائے گا۔حسن علیہ السلام کے جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ہونے کا جواب طلب کیا جائے گا پھر جو کچھ مظالم کربلا اور شام میں گزرے یہاں تک کہ بغداد اور شام کے زندانوں میں رونما ہونے والے واقعات کا بھی حساب ہوگا۔

خلاصہ یوں کہیں کہ محمدو آل محمد صلوات اللہ علیہ م اجمعین کے خون سے لکھی گئی تاریخ کا حساب ہوگا اور بات فقط اہل بیت علیہم السلام پر آکر نہیں رکتی بلکہ ان کے تابعین اور محبت کرنے والوں کے خون کے قطرہ قطرہ کا حساب ہوگا۔

تو اس حال میں محمد و آل محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کیوں نہ خوشحال ہوں جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے دشمنوں سے حساب چکایا جارہا ہوگا اس وقت نفاق اور ایمان ظاہر ہوچکے ہونگے اور منافق کا وجود باقی نہیں رہے گا۔

( وَارْحَمِ اسْتِکانَتَنا بَعْدَهُ )

(اے پروردگار ! آپ کے ظھور کے بعد ہم پر رحم فرما اور ہمیں اس غم سے نجات دے)

یہاں پر دو احتمال دےئے جاسکتے ہیں ممکن ہے اس سے مراد یہ ہو کہ وہ مصیبتیں جو کفار کی طرف سے ظھور کے بعد مومنین پر پڑیں گی ہمیں ان سے نجات دے اور ہمارے ایمان کو محفوظ فرما۔

اور دوسری بات ممکن ہے یہ ہو کہ اے خدارا اب جب کہ گریہ و زاری کے ساتھ تجھ سے اپنی حاجت بیان کرچکے ہیں۔ہمارے غم کے آنسووں کو آپ(عج) کے ظھور سے خوشی کے آنسووں میں بدل دے اور ہماری دعا کو اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔

اگرچہ سیاق جملہ سے دوسری بات بہتر لگتی ہے کیونکہ اس کے بعد ہم پڑھتے ہیں:

( اللَّهُمَّ اکْشِفْ هذِهِ الْغُمَّةَ عَنْ هذِهِ الاَُْمَّةِ بِحُضُورهِ وَعَجِّلْ لَنا ظُهُورَهُ )

(پروردگارا ! آپ(عج) کے ظاہر کرنے کے سبب اس امت کے غم کو دور فرما اور ہمارے لئے ان کے ظھور میں تعجیل فرما)

یہاں پر بھی پچھلے مطالب کی وضاحت کی جارہی ہے کہ ہم کو آپ(عج)کے ظھورکے سبب غم سے باھر نکال دے یہی ہماری دعا ہے اور یہی تمنّا۔خدایا اس امت پر بہت ظلم ہوچکے ہیں ہمارے شانے جنازوں کے بوجھ سے خم ہوچکے ہیں۔

( إِنَّهُمْ یَرَوْنَهُ بَعِیداً وَنَرَاهُ قَرِیباً )

(بے شک دشمنان خدا اور اسلام آپ(عج) کے ظھور کو دور اور ہم نزدیک دیکھ رہے ہیں)

خدارا ہم کبھی بھی تیری رحمت سے مایوس نہیں ہوتے ہیں خدارا ہماری حیات میں حضرت حجت (عج)کو ظاہر فرما ہمیں تجھ سے امید ہے اور بس۔تو ہی ھمارا مالک ہے تو ہی نے ہم کو اس دنیا میں پیدا کیا تو ہی نے محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہ م اجمعین سے محبت کرنے کا حکم دیا۔اے خدا ہم تیرے ناچیز بندے تیری بارگاہ میں سوالی ہیں ہم ہر سال ہر ماہ اور ہر دن کو اسی امید سے شروع کرتے ہیں کہ شاید آج خانہ کعبہ کی دیوار کے پاس سے آواز آجائے۔ہمارے آنسووں کو آپ(عج) کے دیدار سے خشک فرما۔

( بِرَحْمَتِکَ یَا ارْحَمَ الرَّاحِمِینَ ۔)

(اے ارحم الراحمین تجھے تیری رحمت کی قسم)

پروردگارا تجھ کو تیری رحمت کا واسطہ تجھے تیری رحمت کی قسم، تو جو رحم کرنے والوں میں سب سے برتر ہے ہماری حالت زار پر رحم فرما ہماری دعا کو مستجاب کردے۔

اس کے بعد حکم ہوا ہے کہ تین مرتبہ اپنی دائیں ران پر ھاتھ مار کر کھیں:

( الْعَجَلَ الْعَجَلَ یَامَوْلایَ یَا صاحِبَ الزَّمانِ )

(جلدی آئیے ، جلدی آےئے ، اے میرے مولیٰ اے اس زمانہ کے امام (ع))

یہاں موالی انتھائی عاجزی اور بے بسی کا اظھار کرتے ہوئے کہتا ہے اے میرے مولیٰ آپ جلدی کیوں نہیں آتے ؟ جلدی سے آئیں آپ کے غلام قدم بوسی کے لیئے آمادہ ہیں انہیں اپنی زیارت کا شرف بخشیں۔

اے خدا ہماری اس دعا کو قبول فرما ہمیں ،ہمارے وال دین،ہمارے اجداد اور ہماری اولاد کو اصحاب اور اعوان حضرت بقیة اللہ میں سے قرار دے۔

الٰهی آمين ثم آمين ۔

زمانہ غیبت میں حضرت (عج)کا کردار

ایک سوال جو بہت زیادہ کیا جاتا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت بقیة اللہ (عج) زمانہ غیبت میں کس طرح استفادہ کریں ؟ جبکہ غیبت کے زمانہ میں امام علیہ السلام تک کسی کی رسائی بھی نہیں ہے تو وہ کون سا طریقہ ہے یا سادہ الفاظ میں یوں بیان کریں کہ وجود مقدس بقیة اللہ (عج)کا ہماری زندگی میں کیا کردار ہے ؟

یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ یہ سوال آئمہ علیہم السلام کے زمانہ میں بھی کیا جاچکا ہے اور متعدد روایت میں ہمیں اس کا جواب ملتا ہے ہم نمونہ کے طور پر چند ایک روایت کو بیان کرتے ہیں۔

پھلی روایت:

حضرت جابر بن عبداللہ انصاری نے حضرت پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)سے سوال کیا کہ ” آیا زمانہ غیبت میں شیعہ حضرت قائم آل محمد علیہ السلام سے استفادہ کرسکیںگے۔

حضرت رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

ای والذی بعثنی بالنبوة انهم ليستضيون بنوره و ينتفعون بولايتهِ فی غیبته کانتفاع بالشمس و وان تجلَّهَا سحاب

ھاں اس خدا کی قسم جس نے مجھے پیغمبری کے لیئے منتخب کیا ان سے شیعہ ان سے اور انکے نور ولایت سے اسی طرح فائدہ اٹھائیں گے جس طرح سورج جب بادلوں میں چھپ جائے تو اس سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔( ۱۰۷ )

دوسری روایت:

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا” جب سے اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو خلق کیا ہے اور روز قیامت تک یہ زمین نہ حجّت خدا سے خالی رھی ہے اور نہ رہے گی“

راوی نے سوال کیا : ”پھر غائب امام علیہ السلام سے کس طرح استفادہ کیا جاسکتا ہے؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:

کما ينتفعون بالشمس اذا سترها السحاب “ جیسا کہ بادلوں میں چھپنے کے بعد سورج سے استفادہ کیا جاتا ہے( ۱۰۸ )

تیسری روایت:

حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف خود اپنی توقیع میں جو اپنے دوسرے نائب

خاص حضرت محمدبن عثمان کے ذریعہ اسحاق بن یعقوب (رہ) کے نام بھیجتے ہیں، فرمایا :

اماوجه الإنتفاع بی فی غیبتی فکالإنتفاع بالشمس اذا غیبتها عن الابصار السحاب ( ۱۰۹ )

”اور لوگ مجھ سے غیبت میں اس طرح مستفےض ہونگے جیسے سورج کے بادلوں میں چھپ جانے کے بعد مستفےض ہوتے ہیں۔“

حدیث ” من مات ولم یعرف۔۔۔۔۔“ کی توضیح اور تشریح:

البتہ بہت سے مخالفوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ جب ہم امام علیہ السلام کو دیکھ نہیں سکتے اور ان کی بات کو سن نہیں سکتے تو ہم کس طرح اس متفقہ حدیث پر عمل کرسکتے ہیں ۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

من مات و لم يعرف امام زمانه مات ميتة جاهلية

(جو بھی اس حالت میں مرے کہ اپنے زمانہ کے امام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ جاہل یت کے زمانہ کے کافر کی موت مرے گا)

جیسا کہ ذکر ہوچکا ہے اس حدیث کا صادر ہونا تواتر( ۱۱۰ ) سے ثابت ہوچکا ہے اسی وجہ سے بعض علماء اہل سنت نے سوال اٹھایا تو پھر زمانہ غیبت میں ہم کیونکر امام علیہ السلام کو پہچان سکتے ہیں ؟ اور کیسے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ؟

علمائے شیعہ نے جواب د یا کہ پھلی بات یہ ہے کہ فائدہ فقط اس بات پر منحصر نہیں ہے کہ امام علیہ السلام کی زیارت کی جائے ۔

خود حضرت(عج) کے وصی ہونے کی تصدیق کرنا کیونکہ منصب خدا کی طرف سے عطاء شدہ ہے اور دراصل یہ خدا کی تصدیق ہے یہ بھی ذاتاً مطلوب ہے ۔اور یہ بات ارکان دین میں سے ہے جیسا کہ حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے زمانہ میں تھا۔

فقط حضرت پیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زیارت کرنے والوں کو مسلمان نہیں کہا جاتا تھا۔بلکہ زیارت کرنا یا نہ کرنا تو کبھی بھی معیار نہیں رھا۔ معیار تو آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی نبی اللہ کی حیثیت سے تصدیق اور آپ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر ایمان لانا تھا۔

دوسری بات یہ ہے کہ جو لوگ رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی وفات کے بعد دنیا میں آئے انھوں نے تو حضرت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کی زیارت نہیں کی جبکہ آج تک کیا بلکہ قیامت تک کسی کے مسلمان ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ خدا اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)پر ایمان لایا جائے۔

اسی اعتراض کی بنا پر بعض علماء مخالف نے حدیث شریف میں معرفت امام کا مطلب کتاب خدا کی معرفت جانا ہے۔( ۱۱۱ )

جس کے جواب میں عرض کرتے چلیں کہ روایت میں امام کا ساتھ زمانہ کا اضافہ ہے یعنی ”زمانہ کے امام“ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر زمانہ میں امام مختلف ہوگا یا دوسرے الفاظ میں یوں کہیں کہ یہ تو امام کے تبدیل ہونے کا ثبوت ہے جبکہ قرآن تو ہر زمانے میں ایک ہی رھا ہے اور رہے گا اور اس کتاب خدا کے بدلنے کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس بات پر تمام مسلمانوں کا اتفاق ہے۔

اگر یہی بات ہوتی تو کہہ دیا جاتا کہ کتاب خدا کی معرفت حاصل کرو نہ یہ کہ زمانہ کی کتاب کی معرفت حاصل کرو۔

حدیث شریف میں حضرت کی سورج سے تشبیہ :

اس حدیث شریف کو سمجھنے کے لیئے جس میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کوسورج سے تشبیہ دی گئی ہے ضروری ہے کہ سورج کے کردار پر ایک نظر ڈالی جائے۔

ھمارا منظومہ شمسی(سولر سیسٹم) اگرچہ کائنات میں ایک ناچیز حیثیت رکھتا ہے ابھی تک کی تحقیق کے مطابق ۰۰۰،۳۰ سے زیادہ منظومہ کا انکشاف ہوچکا ہے جبکہ یہ جستجو اور تحقیق ہمیشہ جاری رہے گی با وجود اسکے کہ اس عظیم خلقت خداوند متعال کو دیکھ کرہمارے منظومہ شمسی کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہ جاتی لیکن کیونکہ ہم اسی منظومہ سے زیادہ مانوس ہیں لہذا اسی کو معیار گفتگو قرار دیں گے۔

سورج کے گرد متعدد سیارے مسلسل گردش میں ھیں جس میں سے تیسرا نمبر ہماری زمین کا آتا ہے ہماری یہ زمین ۵۹۵۵ بلین ٹن وزن کے ساتھ چار ہزار ملین سال سے ۱۰۶۲۰۰ کیلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سورج کے گرد گھوم رھی ہے اس کے باوجود کبھی بھی اپنے مدار سے خارج نہیں ہوتی ہے اس کی وجہ وہ جاذبہ اور کشش ہے کہ جو سورج میں پایا جاتا ہے۔جو زمین کو اپنی جانب کھینچتا ہے اور دوسری طرف سے زمین میں وہ قدرت ہے کہ جو مسلسل اپنے مرکز(سورج) سے دور ہونے کے اوپر صرف کررھی ہے۔انھی دونوں قوتوں اور کشش کا نتیجہ ہے کہ زمین اپنے مدار میں باقی ہے۔

اگر ایک لمحہ کے لئے بھی سورج اپنی کشش کو روک لے تو یہ زمین اپنے مدار سے خارج ہونے کے بعد دوسرے سیاروں سے ٹکرا کر ریزہ ریزہ ہوجائے گی اسی طرح سے اگر زمین اپنی قوت دافعہ کو ایک لمحہ کے لئے بھی ختم کرلے تو سورج سے جا ٹکرائے گی یہ سورج جو ۳ ،ملین اور ۳۳۰ ہزار زمین کے برابر وزن رکھتا ہے جس کی وجہ سے زمین کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔

حیات اور بقاء زمین اس پر متوقف ہے کہ زمین اور سورج مسلسل اپنی قوت دافعہ اور جاذبہ کو برقرار رکھیں اگر یہ رابطہ لمحہ بھر کے لئے بھی منقطع ہوجائے تو اسی وقت زمین کا وجود عدم میں بدل جائے گا۔سورج کا کردار زمین اور منظومہ شمسی کے دوسرے سیاروں کی بقاء کے لیئے بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔

اسی طرح کائنات میں جھان ہستی کی نسبت سے مرکزی کردار امام زمانہ(عج) کا ہے یہ جھان ہستی اپنے محور اور مرکز حضرت حجّت(عج)کے گرد گردِش میں ہے میں ہے اگر ایک لمحہ کے لئے بھی رابطہ منقطع ہوجائے تو سب کے سب فوراً ہلاک ہوجائیں گے۔حجّت خدا کا صرف موجود ہونا ہی بقاء زندگی کے لئے کافی ہے اگر یہ حجّت نہ رہے تو کائنات فنا ہوجائے گی۔

اس بات کی تائید میں متعدد روایت نقل ہوئی ہیں ہم نمونہ کے طورپر چند ایک روایت کو نقل کرتے ہیں۔

پھلی روایت:

حضرت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حضرت علی ابن ابی طالب علےھماالسلام سے فرماتے ہیں :

” انی و احد عشر من ولدی و انت يا علیّ زرُّ الارض بنا اوتد الله الارض ان تسیخ باهلها فاذا ذهب الاثنا عشر فی ولدی ساخت الارض باهلها و لم ينظروا( ۱۱۲ )

”میں اور میرے اولادوں میں سے گیارہ آدمی اور تم اے علی زمین کے لنگر ہیں ہمارے توسط سے خداوند عالم نے زمین کو بچا رکھا ہے وہ اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل نہ سکے پھر جب ھمارا بارہواں اس زمین سے چلا جائے گا تو زمین اپنے اوپر رہنے والوں کو نگل لے گی اور انہیں مھلت نہ دی جائے گی۔“

دوسری روایت:

ایک اور مقام پرپیغمبر (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنی زندگی کے آخری ایام کے خطبہ میں فرماتے ہیں :

معاشر النّاس کانی اُدعی فاجيب وانّی تارک فيکم الثقلين کتاب اللّٰه و عترتی اهل بيتی ما إن تمسّکتُم بهما لن تضلّوا فتعلّموا منهم و لا تعلِّمُوهم فانهم اعلم منکم لاتخلوالارض منهم و لو خَلَتْ اذاً لساخت باهلها( ۱۱۳ )

”اے لوگوں وقت نزدیک آگیا ہے کہ مجھے بلایا جائے اور دعوت حق کو لبیک کھوں ۔میں تمھارے درمیان دو قیمتی چیزیں چھوڑ کر جارہا ہوں خدا کی کتاب اور میری آل اگر ان دونوں سے منسلک رہو گے تو گمراہ نہیں ہوگے ان سے سیکھو اُن کو پڑھانے کی کوشش مت کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔کبھی بھی زمین ان سے خالی نہیں رہے گی اور اگر خالی ہوگئی تو یہ زمین اپنے اہل کو نگل لے گی۔“

تیسری روایت:

ارشاد رب العزت ہے:

( انما انت منذرٌ و لکل قوم هادٍ ) ( ۱۱۴ )

آیت مبارکہ کے ذیل میں رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)فرماتے ہیں:

بے شک منذر میں ہوں، آیا جانتے ہو کہ ہدایت کرنے والا کون ہے ؟ لوگوں نے جواب دیا: نہیں یا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)حضرت ختمی مرتبت (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے حضرت علی ابن ابی طالب علےھما السلام کی جانب اشارہ کیا اور پھر امیر المومنین علیہ السلام کے کچھ فضائل بیان کےئے اور پھر فرمایا:

هو الامام ابو الائمّة الزُهَر

”وہ امام ہیں اور نور باٹنے والے اماموں کے والد ہیں۔“

لوگوں نے سوال کیا : ” یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)آپ کے بعد کتنے امام آئیں گے ؟

حضرت (ص)نے جواب میں فرمایا:

اثنا عشر عدد نقباء بنی اسرائيل و منّا مهدی هذه الامة يَمْلَاُ اللّٰه به الارض قسطاً و عدلاً کما مُلِئَتْ جوراً و ظلماً و لا يخلو الارض منهم الّا ساٰخَت باهلها( ۱۱۵ )

بارہ عدد بنی اسرائیل کے خلفاء کے جتنے۔ امت کا مھدی بھی ہم میں سے ہے خداوند عالم ان کے توسط سے زمین کو عدل سے بھردے گا جیسے کہ ظلم وجور سے بھری ہوگی۔زمین ان سے خالی نہیں ہوگی مگر یہ کہ اہل زمین کو نگل لے گی۔

چوتھی روایت:

امام زین العاب دین علیہ السلام فرماتے ہیں:

بنا يمسک الارض ان تميد باهلها و بنا يُنَزِّلُ الغيث و بنا ينشرُ الرحمة و يخرجُ برکاتِ الارضِ و لولا ما فی الارض منّا لساخت باهلها( ۱۱۶ )

”ہمارے توسط سے زمین اپنے اوپر رہنے والوں کو تنگ نہیں کرتی ہے اور ہماری وجہ سے بارشیں ہوتی ہیں اور ہماری وجہ سے زمین اپنے اوپر خزانے اگل دیتی ہے اگر ہم میں سے کوئی ایک بھی نہ ہو تو زمین اپنے اہل کو نگل لے گی۔“

پانچویں روایت:

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

لو اَنَّ الامامَ رُفِعَ من الارض ساعةً لماٰ جَتْ باهلها کما يموجُ البحر باهله( ۱۱۷ )

اگر ایک لمحہ کے لئے بھی امام زمین سے اٹھا لئے جائیں تو زمین اپنے رہنے والوں کو اس طرح غرق کردے گی جیسے طوفان سمندر میں رہنے والوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔

چٹھی روایت:

امام محمد باقر علیہ السلام ایک اور مقام پر فرماتے ہیں:

لو بقيت الارض يوماً بلا امام منّا لساخَتْ باهلها( ۱۱۸ )

اگر ایک دن بھی ہم میں سے کوئی امام زمین پر نہ رہے تو زمین اپنے رہنے والوں کو نگل لے گی۔

ساتویں روایت:

امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

و لولا مَن علی الارض مِن حجج اللّٰه لنفضتِ الارض ما فيها و الْقَتْ ما عليها انّ الارضَ لا تخلوا ساعةً من الحجة( ۱۱۹ )

اگر زمین پر خدا کی حجت نہ رہے تو جو کچھ اس کے اندر ہے باھر اگل دے گی اور جو کوئی اس پر رہنے والے ہیں دور پھینک دے گی بے شک زمین ایک لمحہ کے لیئے بھی حجت خدا سے خالی نہیں رہ سکتی۔

آٹھویں روایت:

حضرت ابوحمزہ ثمالی (رہ) حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہو کر فرماتے ہیں:

” آیا ممکن ہے کہ زمین حجت سے خالی رہ جائے“

امام علیہ السلام نے فرمایا:

لو بقيت الارض بغير امام لساخت( ۱۲۰ )

”اگر زمین امام سے خالی ہوجائے تو سب کچھ تباہ ہوجائے گا۔“

نویں روایت:

امام جعفر صادق علیہ السلام ایک طویک حدیث کے ضمن میں فرماتے ہیں:

لوخَلَتِ الارض ساعة واحدةً من حجّةٍ للّٰه لساخت باهلها( ۱۲۱ )

”اگر زمین ایک لمحہ کے لیئے بھی حجت خدا سے خالی ہوجائے تو اپنے رہنے والوں کو نگل لے گی۔“

مذکورہ روایت کو مدنظر رکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح سورج بادلوں میں چھپ کر اور اہل زمین سے بظاھر رابطہ منقطع کرنے کے باوجود پورے نظام شمسی کو تباھی اور بربادی سے بچائے رکھتا ہے اور سورج ہی کی وجہ سے پورا نظام اپنی جگہ پر قائم اور دائم رہتا ہے بالکل اسی طرح خودحضرت(عج) انسانوں سے بظاھر دوری اور غیبت میں رہ کر بھی ان کو حیات بخشے ہوئے ہیں اور اگر یہ رابطہ منقطع ہوجائے توحیات انسانی وجود سے عدم میں بدل جائے گی اور سب کچھ نابود ہوجائے گا انھی کے وجود کی برکت

سے اہل زمین،آسمان اور زمین سے فیوضات حاصل کرتے رہتے ہیں۔

زمین اپنے خزانے اگلتی رہے گی اور آسمان سے عنصر حیات جس پر انسانی زندگی کا انحصار ہے باران رحمت نازل ہوتی رہے گی جس طرح مادی زندگی میں انسان آپ(عج) سے فیضیاب ہوتا رہتا ہے اسی طرح سے معنوی زندگی میں بھی آپ (عج) کا کردار بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔آپ(عج) کا ذکر لوگوں کو خدا کی جانب ہدایت کرتا ہے۔آپ(عج) کے انتظار میں لوگ خدا سے گڑگڑاکر انتھائی عاجزی کی حالت میں ظھور کی دعائیں کرتے ہیں خود یہ عمل انسان کو عبودیت کی منزل کی جانب دھکیلتا ہے۔

آپ (عج)کی معرفت فرض کی گئی ہے جیسا کہ معروف روایت میں ارشاد ہوتا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)نے فرمایا:

من مات و لم يعرف امام زمانه مات ميتةً جاهليةً

جوکوئی بھی اس حالت میں مرے کہ اپنے زمانہ کے امام علیہ السلام کو نہ پہچانتا ہو تو وہ جاہل یت کی موت مرے گا۔

آپ(عج)سے دوری انسان کو زمانہ جاہل یت میں پلٹا دیتی ہے آپ (عج)کی معرفت نہ رکھنا اس کا مترادف ہے کہ انسان بے دین ہے اور وہ زمانہ قبل از اسلام کی طرح گمراہ ہوچکا ۔

کچھ امام زمانہ (ع) کی والدہ معظمہ کے بارے میں

یہ بھی معجزات الٰھی میں سے ہے کہ حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے لیے زوجہ کا انتخاب کہاں سے کیا گیا ہے حضرت نرجس کا تعلق سلسلہ بادشاہت روم سے ہے جس کا دارلخلافہ بیزانس کہ جو مو جو ہ دور میں استنبول کے نام سے معروف ہے ۔حضرت نرجس خاتون کے والد یشوعا قیصر روم کے بیٹے تھے جنکا سلسلہ نسب حضرت عیسیٰ علیٰ نبّینا و علیہ السلام کے اصحاب سے ملتا ہے اور والدہ کی طرف سے شمعون علیہ السلام کی نسل سے ہیں جو حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کے وصی تھے۔

اسماء شریفہ:

حضرت نرجس خاتون علیھا السلام کے نو( ۹) نام نقل ہو ئے ہیں:

جو ملیکہ، حکیمہ ، سبیکہ، نرجس، سوسن ،مریم ،ریحانہ ،خمط اورصقیل ھیں۔

( ۱) نرجس: ایک پھول کا نام ہے جسے اردو زبان میں نرگس کا پھول کہتے ہیں ۔( ۱۲۲ )

( ۲) سوسن : موسمی پھول کا نام ہے اور مختلف رنگوں میں ہوتا ہے ۔ یہ اصل میں یورپ،امریکہ اور ھمالیہ میں پایا جاتا ہے۔( ۱۲۳ )

( ۳) سبیکہ : خالص سو نے کو کہتے ھیں۔اورخالص چاندی کے لیے بھی استعما ل ہو تاھے ۔( ۱۲۴ )

( ۴( حکیمہ : اسکالر خاتون کو کہا جا تاھے ۔ آپ نے علم وحکمت کوبیزانس میں ایک خصوصی عربی زبان استانی سے سیکہا تھا۔( ۱۲۵ ) جبکہ اسلامی تعلیمات کو امام علی نقی علیہ السلام کی بیٹی حکیمہ خاتون سے سیکہا۔( ۱۲۶ )

( ۵) ملیکہ -: ملکہ کے معنٰی میں استعمال ہو تا ہے اور حق بھی یہی ہے کہ وہ پوری دنیا پر حکومت کرنے والے فرزند ارجمند کی والدہ ماجدہ ہیں

( ۶) مریم : حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی والدہ کا نام ہے اورعلماء اہل تشیع اور اہل سنت اس بات پر متفق ھیںکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام حضرت بقیّة اللہ کی اقتداء میں نماز پڑھیں گے ۔( ۱۲۷ )

( ۷) ریحانہ: ھرخوشبو والے پودے کو کہا جاتا ہے ۔( ۱۲۸ ) اور یقینا ایسا ہی ہے کہ جنکے فرزند کی خوشبو سے پورا جھان معّطر ہوگا اور نور ولایت ہر جگہ چھا جائے گا ۔

( ۸) خمط : پھلدار درخت کا نام ہے اور ھرتازہ اور خوشبووالی چیز کو کہتے ہیں ۔( ۱۲۹ )

( ۹) صقیل : ہر نورانی چیز کو کہتے ہیں ۔شیخ صدوق (رہ)اورشیخ طوسی (رہ) کا کہنا ہے کہ حضرت نرجس خاتون کے حاملہ ہونے کے بعد آپکو صقیل کانام دیا گیا تھا۔( ۱۳۰ )

دو خاندانوں کاملاپ :

اب دیکھتے ہیں کہ یہ قیصر روم کی خوشبو خاندان نبّوت و عصمت تک کیسے پہنچ گئی۔ اس قصّہ کو علماء اکرام نے اپنی کتابوں میں تفصیل سے لکھا ہے مانند شیخ صدوق(رہ) نے کمال الدین میں ، شیخ طوسی(رہ) نے غیبت میں ، طبری(رہ) نے دلائل الامامة میں ،ابن شھر آشوب (رہ)نے مناقب میں ، لیلیٰ(رہ) نے منتخب میں ، ابن فتّال نیشاپوری(رہ) نے روضہ میں ، شیخ حرّعاملی(رہ) نے اثبات الھداة میں ،سید ھاشم بحرانی(رہ) نے حلیّةالابرار میں اور علامہ مجلسی(رہ) نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے ،ہم اس واقعہ کو تلخیص کے ساتھ پیش کریں گے ۔

بشربن سلیمان نخّاس :

بشر کا تعلق رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے صحابی حضرت ابوایوب انصاری (رہ) کی نسل سے ہے

ھے بشر حضرت امام ہادی علیہ السلام اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام کے صحابیوں میں سے تھے پیشہ کے اعتبار سے بشر بن سلیمان غلام اور کنیز وغیرہ کی خریدوفروش کا کام کیا کرتے تھے ۔

بشر بن سلیمان کا بلا وا :

ایک رات سامرہ میں بشر بن سلیمان اپنے گھر میں بیٹھے تھے کہ دروازہ پر دستک ہوئی تو پتہ چلا کہ امام ہادی علیہ السلام کا خادم کافور آیا ہے اور کہتا ہے کہ فوراً چلو! حضرت امام علیہ السلام نے بلایا ہے ۔ بشر بن سلیمان بھی جلدی سے تیار ہو کر حضرت امام علیہ السلام کی خدمت میں پہچے ۔ انھوں نے دیکھا کے امام ہادی علیہ السلام اپنے فرزند ارجمند امام حسن عسکری علیہ السلام سے گفتگو میں مشغول ھیں۔

امام ہادی علیہ السلام نے بشربن سلیما ن سے فرمایا :

” اے بشر تم انصاری کی نسل سے ہو ۔ہماری محبت ھمیشہ سے تمھارے دلوں میں رہتی آرھی ہے تمھاری ہر نسل نے ہماری محبت کو ارث میں حاصل کیااور اب میں چاہتا ہوں کہ ایک راز تم پر آشکار کروں اور تمھیں ایک اہم کام کی ذمہ داری سو نپوں ۔یہ کام تمھارے لیے با عث فضیلت ہو گا اس طرح سے کہ تم سارے شیعوں میں اس فضیلت میں پھل کروگے۔ “

اسکے بعد امام ہادی علیہ السلام نے رومی زبان میں ایک خط لکھا اور اپنی مھر مبارک لگا کر بشر کو دیا اور اس کے ساتھ ایک بٹوا بھی دیا ۔ جس میں دوسو بیس( ۲۲۰) دینار تھے ۔یہ دونوں چیز تھمانے کے بعد فرمایا !” یہ دونوں چیزیں لیکر بغداد کی جانب روانہ ہوجاؤ فلاں دن ظھرسے پہلے فرات کے راستے میں پہنچ جاؤ ۔ جب غلاموں اور کنیزوں کی کشتیاںوھاں پھنچیں اس جگہ پر بہت سے لوگ خریداری کی غرض سے آ ئے ہوئے ہوں گے کچھ لوگ عباسی عھداروں کی طرف سے ہونگے جبکہ تھوڑے بہت جوانان عرب بھی دکہائی دینگے تم اس دن دور سے دیکھتے رہنا اور ایک کنیز وغلام بیچنے والا بنام عمربن یزید کے پاس جانا اور تم دیکھو گے کہ اسکے پاس ایک کنیز ہوگی جس نے رنگین ریشمی کپڑے پھنے ہوئے ہونگے ۔اور جب کوئی اسکی بولی لگائے گا تو وہ کسی کے لیے بھی اپنا نقاب نہیں اٹھائے گی ۔

اسی دوران خریداروں کے ہجوم میں ایک سیاہ شخص آگے بڑھ کر تین سو( ۳۰۰) دینار میں اس کنیزکو خریدنا چاہے گا ۔جس پر یہ کنیز اس شخص کی غلامی میں جانے سے انکار کر دے گی اور کہے گی کہ:

”اگر مجھے کوئی رئیس زادہ بھی آکرکیوںنہ خریدنے کی کوشش کرے مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہو گی لہٰذا تم اپنا پیسہ ضائع مت کرو “

اس موقع تم اٹھکر عمروبن یزید سے کہنا ! میرے پاس اشراف عرب میں سے ایک کا خط ہے جو رومی زبان میں لکھا ہوا ہے یہ اس کنیز کو دیدواگر یہ راضی ہو جائے تو مجھے اپنے موکّل کی طرف سے اجازت ہے کہ ان کے لیے کنیز خریدلوں کنیزنے خط لیکر پڑھا اور عمروبن یزید سے کہا کہ مجھے اس خط کے لکھنے والے کے لیے بیچو ورنہ میں اپنے آپ کو ہلاک کر لوں گی اس موقع پر بشربن سلیمان اور عمروبن یزید میں مزاکرہ شروع ہوا اور یہ سودا دوسوبیس( ۲۲۰) دینار پر آکر ختم ہوا ۔

پھر بشربن سلیمان کنیز کو لیکر گھر آیا تو دیکھا کہ وہ خط کوھاتھ میں لیکر چومتی جارہی ہے ۔بشربن سلیمان نے حیرت سے سوال کیا کہ ! تم ایسے خط کو چوم رھی ہو جس کے لکھنے والے کو جانتی تک نہیں ہو ۔جس پر اس خاتون نے جواب دیا :غور سے سنو !میں ملیکہ بنت یشوعا بن قیصر رو م ہوں میری ماں کا نسب شمعون علیہ السلام سے ملتا ہے جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے وصی تھے اب میں تمھیں بہت حیرت انگیزواقعہ سنانے جارہی ہوں ۔

خاتون علیھاالسلام کی کہانی ان کی اپنی زبانی :

جب میری عمرتیرہ سال کی ہوئی تو میرے دادا قیصر روم نے اپنے بھتیجے سے میری شادی کرنے کا فیصلہ کیا ۔محفل منعقد کی گئی تین سو راھب اور سات سوپادری وھاں موجود تھے نیز چارہزار فوجی سردار ،شرفاء اور معززین بھی اس محفل میں شریک تھے ۔تخت وتاج شھنشاھی کو جواھرات سے سجایاھواتھا جیسے ہی میرے دادا کا بھتیجا تخت پر بیٹھا اور صلیب کواسکے گرد گھما یا جانے لگا سب تعظیم میں کھڑے ہوگئے اور انجیل کے صفحات کو کھولا گیا۔

محفل درہم برہم ہوگئی :

جس وقت شادی کی رسم شروع کی جانے لگی ایک مرتبہ ساری صلیبیں الٹ کر گرگئیں ۔تخت وتاج لرزنے لگے وہ جوان جو شادی کی غرض سے آیا تھا بیھوش ہو کر گر پڑا سب کے چھروں سے رنگ اڑ گیا راھبو ں کے بزرگ نے میرے داداسے کہا ! اس نحوست والے عمل کو چھو ڑدو کہ جس کی وجہ سے مسیحیت نابودھوتی ہوئی نظر آرھی ہے ۔ میرے داداقیصرروم نے جواب میں کہا کہ صلیبوںکو اپنی جگہ نصب کرو ۔ ساری چیزوںکو اسکی جگہ پر رکھو پھر اپنے دوسرے نمبر کے بھتیجے کو بلایا تا کہ میری شادی اس سے کر دی جائے دوبارہ سے دربار کو سجایا گیا اور محفل جمائی گئی جیسے ہی رسم شادی شروع کرنے کی بات کی گئی دو بارہ وہی حادثہ پیش آیا اور سب کچھ درہم برہم ہوگیا میرے دادا افسردہ ہوکر اپنے حر م سرا میں چلے گئے۔

پھلا خواب :

میں نے اس رات ایک خواب دیکھاکہ جس نے مجھے بدل کر رکھ دیا ۔میں نے دیکھا کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام ، شمعون اور حواریوں کا ایک گروہ میر ے دادا کے محل میں جمع ہے اور ایک نور سے بناھوامنبر عین اسی مقام پر نصب ہے کہ جھان میرے دادا کا تخت ہوتا ہے ۔اسی وقت حضرت محمد (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)اپنے وصی اور دامادامیرالمومنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام اور ان کی اولادمیں سے ایک گروہ کے ھمراہ تشریف لائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے آگے بڑھ کر حضرت محمد (ص)کو اپنی آغوش میں لے لیا ۔ اس وقت حضرت محمد (ص)نے حضرت عیسیٰ سے فرمایا !میں تمھارے وصی شمعون کی بیٹی ملیکہ کا رشتہ اپنے بیٹے ابومحمد علیہ السلام کے لیے ما نگنے آیا ہوں ۔

حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے حضرت شمعون علیہ السلام کو مخاطب کرکے فر مایا! اے شمعون علیہ السلام تمھاری قسمت جاگ اٹھی ہے شر افت اور فضیلت تمھیں نصیب ہو رھی ہے اپنے خاندان کا آل محمدعلیہم السلام کے خاندان سے رشتہ جوڑ لو ۔

شمعون نے جواب دیا !اطاعت ہوگی ۔اس وقت رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)منبر پر تشریف لائے اور خطبہ نکاح پڑھکر میرا ابومحمد سے عقد کر دیا ۔حضرت عیسیٰ علیہ السلام ، انکے حواری اور آل محمدعلیہم السلام ہمارے نکاح کے گواہ ہیں ۔

جب اس سنھرے خواب سے میری آنکھ کھلی تو میں ڈر گئی کہ اگر اس خواب کو اپنے دادا کو سنایا تو وہ مجھے قتل کردیں گے لہٰذا اس خواب کو ایک راز کی طرح اپنے سینے میں رکھا لیکن اس خواب نے مجھے اتنا بدل دیا تھا کہ ہر وقت ابو محمد علیہ السلام کی محبت کے بارے میں سوچتی رہتی تھی اور کہانے پینے کی طرف سے بالکل توجہ ہٹ گئی تھی یھاں تک کہ میں مریض ہوگئی ۔

پوری مملکت روم میں کوئی ایسا طبیب نہ تھا جس نے میرا علاج نہ کیا ہو مگر سب کا سب بے فائدہ رھا میرے دادا نے مایوس ہوکر مجھ سے سوال کیا ! میری بیٹی ! کیا تمھارے دل میں کوئی خواہش ہے کہ جو اس دنیا میں تمھارے لئے پوری کروں۔

میں نے جواب دیا ! داداجان اگر آپ حکم کریں کہ جتنے بھی مسلمان آپکی قید میں ہیں انکی زنجیروں کو کھول دیا جائے اور انکو اذیت کرنا بند کردیا جائے اور ان پر احسان کرکے ان کو آزاد کردیا جائے تو مجھے امید ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور انکی والدہ حضرت مریم علیھا السلام میرے لیے سلامتی اور رحمت کے دروازے کھول دیں ۔

کیوںکہ میرے دادا نے میری خواہش پوری کردی تھی میں بھی کوشش میں لگی رھی کہ اپنے آپ کو صحتمند دکہاؤں لہٰذا تھوڑا بہت کہانا پینا شروع کردیا میرے دادا نے خوش ہو کر اسیروں کو مزید رعایت دیدی ۔

دوسرا خواب :

پھلے خواب کے چودہ روز بعد دوبارہ خواب دیکھا کہ خاتون جنت حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھاتشریف لائی ہیں اور حضرت مریم سلام اللہ علیھابھی انکے ھمراہ ہیں جبکہ ایک ہزار کنیزیں بھی انکے ھمراہ ہیں حضرت مریم سلام اللہ علیھانے مجھ سے مخاطب ہوکرفرمایا ! یہ خاتون جنت سلام اللہ علیھا اور تمھارے شوھر ابو محمد علیہ السلام کی والدہ ہیں ۔ میں حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا کے دامن میں سر رکھ کر رونے لگی اور ابو محمد علیہ السلام کے میرے پاس نہ آنے کا شکوہ کیا ۔

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا نے فرمایا ! جب تک تم مشرک رہو گی ابو محمد علیہ السلام تمھارا دیدار کر نے نہیں آئیں گے یہ میری بھن مریم بنت عمران ھیںکہ جو بارگاہ الٰھی میں تمھارے دین سے اظھار برائت اور دوری کرتی ھیںاب اگر تم خدا ، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اورحضرت مریم سلام اللہ علیھاکی خوشنودی چاہتی ہو اور ابو محمد علیہ السلام سے ملنے کی خواہش بھی رکھتی ہو تو بو لو:

اشهد ان لا اله ا لّا اللّه واشهد انّ محمد اًرسول اللّه ۔

جیسے ہی میں نے کلمہ شھادتیں اپنی زبان پر جاری کیا حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھانے مجھے سینے سے لگا کر فرمایا:

اب ابومحمد علیہ السلام کے انتظار میں رہنا تمھاری جلدی ہی ان سے ملاقات ہو جائے گی۔

نیند سے اٹھکر ابو محمد علیہ السلام کے دیدار کے لئے لمحہ شماری کرتی رھی اس کے بعد والی رات کو خواب میں ابومحمد علیہ السلام کی زیارت کی اور اس کے بعد سے آج تک ہر رات ان کو خوا ب میں دیکھتی آرھی ہوں ۔

حضرت نرجس خاتون کی اسیری :

بشر بن سلیمان نے سوال کیا کہ: پھر اسیر کس طرح ہوئیں ؟

جناب نرجس خاتون علیھا السلام نے جواب دیا :ایک رات ابو محمد علیہ السلام کو خواب میں دیکھا تو انھوں نے فرمایا ! ابھی کچھ دنوں میں تمھارے دادا مسلمانوں سے جنگ کرنے کی غرض سے ایک لشکر لے کر چلیں گے تم بھی نوکرانیوں کے لباس میں چھپ کر انکے ساتھ مل جانامیں نے ان کے فرمان کی اطاعت کی اور یہی ہوا کہ مسلمانوں نے حملہ کیا اور میں اسیر ہو گئی اور ابھی تک کسی کو معلوم نہیں کہ میں روم کے بادشاہ کی پوتی ہوں بشربن سلیمان نے سوال کیا کہ یہ فصیح و بلیغ عربی کہاں سے سیکھی ؟ تو خاتون علیھا السلام نے جواب دیا کہ میرے داداکو پڑھنے پڑھانے کا بہت شوق ہے اوران کی خواہش تھی کہ میں مختلف قوموں کی زبان اوران کے ادب وآداب سیکھوں اسی بنا پر انھوں نے ایک خاتون کو حکم دیا کہ وہ مجھے صبح وشام عربی سکہائے ۔

اور یہ پورا قصّہ تھاکہ اس طرح سے حضرت نرجس خاتون علیھا السلام روم سے سامراء پھنچیں ۔اس کے بعد حضرت امام ہادی علیہ السلام نے اپنی بھن حکیمہ علیھا السلام کو بلا کر میری جانب اشارہ کرکے فرمایا یہ وہی خاتون ہیں کہ جن کا انتظار تھا اور ان سے کہا کہ مجھے احکام دین اور اسلامی آداب سیکہائیں۔( ۱۳۱ )

____________________

(۱) بحار الانوار ج۵۳،ص۹۵ اور ج۸۶،ص۲۸۴ اور ج۹۴،ص۴۲ اور ج۱۰۲،ص۱۱۱۔

(۲) کافی ج۲،ص۱۲،باب اخلاص ج۶

(۳) بحار الانوار ج۵۳،ص۳۲۶۔

(۴) کافی ج۶،ص۴۰۶۔

(۵) سورہ تحریم آیت ۸ ۔

(۶) بحارالانوار ج۵۳، ص۳۲۶ ۔

(۷) سفینة البحار ج۲،ص۶۱۲،مادہ نور، بحار الانوار ج۲۳،ص۳۰۶۔

(۸) سورہ نساء آیت ۱۷۴۔

(۹) تغابن آیت ۸۔

(۱۰) بحارالانوار ج۵۸،ص۵۔

(۱۱) بقرہ آیت ۲۵۵۔

(۱۲) بحارالانوار ج۵۸،ص۲۸۔

(۱۳) بحار الانوار ج۵۸،ص۲۸۔

(۱۴) بحارالانوار ج۵۸،ص۱۰۷۔

(۱۵) بحارالانوار ج۱۳،ص۲۷۳۔

(۱۶) بحارالانوار ج۶۰،ص۲۷۔

(۱۷) سورہ نمل آیت ۸۶ ۔

(۱۸) سورہ انعام آیت ۳۸۔

(۱۹) سورئہ انعام آیت ۵۹۔

(۲۰) یس آیت ۱۲۔

(۲۱) نمل آیت ۸۹۔

(۲۲) اسراء آیت ۸۲۔

(۲۳) اسراء آیت ۸۲۔

(۲۴) فجر آیت ۲۲۔

(۲۵) غافر آیت ۷۸۔

(۲۶) زمر آیت ۶۹۔

(۲۷) قصص آیت ۸۸۔

(۲۸) مجمع البیان ج۷،ص۴۲۱۔

(۲۹) البرہان ج۳،ص۲۴۱۔

(۳۰) بقرہ آیت ۲۵۸۔

(۳۱) آل عمران آیت ۱۵۶۔

(۳۲) یونس آیت ۵۶۔

(۳۳) روم آیت ۱۹۔

(۳۴) آل عمران آیت ۲،بقرہ آیت ۲۵۵۔

(۳۵) طہ آیت ۱۱۱۔

(۳۶) عوالم العلوم ج۱۱،ص۲۶، مستدرک سفینة البحار ج۳،ص۳۳۴۔

(۳۷) زمر آیت ۶۹۔

(۳۸) تفسیر صافی ج۴،ص۳۳۱، نور الثقلین ج۴،ص۵۰۴۔

(۳۹) شوریٰ آیت ۱۱۔

(۴۰) اسراء۔۴۴۔

(۴۱) حج۔۶۶ ۔

(۴۲) روم۔۴۰ ۔

(۴۳) بقرہ ۔۲۸

(۴۴) دخان۔۸۔

(۴۵) اعراف۔۱۵۸۔

(۴۶) بقرہ۔۲۵۵۔

(۴۷) ل عمران ۔۲۔

(۴۸) غافر۔۶۵۔

(۴۹) انبیاء ۔۱۰۷ ۔

(۵۰) حمد ۔۶ ۔

(۵۱) بحار الانوار ج۵۱،ص۳۰،ح۷ ۔

(۵۲) بحار الانوار ج۵۱،ص۳۰،ح۶۔

(۵۳) بحار الانوار ج۵۱،ص۲۹،ح۲ ۔

(۵۴) بحارالانوار ج۵۱،ص۲۸،ح۱۔

(۵۵) بحارالانوار ج۵۱،ص۳۰،ح۴ ۔

(۵۶) نساء ۵۹ ۔

(۵۷) تفسیر الکبیر ج۱۰ ص۱۴۴۔

(۵۸) تفسیر البحر المحیط ج۳، ص۲۷۸ ۔

(۵۹) احقاق الحق ج۳،ص۴۲۵۔

(۶۰) نساء آیت ۵۹۔

(۶۱) ینابیع المودہ ص۱۱۶۔

(۶۲) احزاب آیت ۵۶ ۔

(۶۳) نساء آیت ۶۵۔

(۶۴) مجمع البیان ج۸،ص۵۷۹۔

(۶۵) مجمع البیان ج۸،ص۵۷۹۔

(۶۶) تفسیر در المنثور ج۶ص۶۴۶۔۶۵۶۔

(۶۷) کہف، آیت ۱۰۹ ۔

(۶۸) انعام ،آیت ۳۸۔

(۶۹) انعام ،آیت ۵۹ ۔

(۷۰) نحل ، آیت ۸۹،

(۷۱) اسد الغابة ج۴،ص۱۰۸،مختصر تاریخ دمشق ج۱۷،ص۳۵۳

(۷۲) ینابیع المودہ ص۶۹۔

(۷۳) ینابیع المودہ۔ ص۶۹۔

(۷۴) سفینة البحار ج۱،ص۵۰۴ کلمہ ربع۔

(۷۵) سفینة البحار ج۱،ص۵۰۴،کلمہ ربع۔

(۷۶) انعام آیت ۷۳۔

(۷۷) نمل آیت ۷۷۔

(۷۸) حجرات آیت ۱۸ ۔

(۷۹) بحار الانوار ج۷۰، ص۱۹۹ ح۴۔

(۸۰) اسراء آیت ۸۴۔

(۸۱) بحارالانوار ج۷۰،ص۲۰۱،ح۵۔

(۸۲) واقعہ آیت ۱۱۔

(۸۳) آل عمران ۱۶۹۔

(۸۴) عنکبوت ،آیت۵۷۔

(۸۵) اعراف، آیت۲۶۔

(۸۶) زمر ،آیت ۶۹۔

(۸۷) بحارالانوار ج۵۳،ص۱۸۰۔

(۸۸) تفسیر صافی ج۴،ص۳۳۱،نور الثقلین ج۴،ص۵۰۴۔

(۸۹) بقرہ ،آیت۷۔

(۹۰) بقرہ، آیت ۱۰۔

(۹۱) بقرہ ،آیت ۵۱۔

(۹۲) طہ ،آیت ۲۵۔۳۲

(۹۳) یہ حدیث مختلف کتابوں میں ذکر ہوئی ہے حوالہ کے طور پر بحار الانوار ج۳۳، ص۱۷۶،باب ۱۷ ۔اصول کافی ج۸،ص۱۰۷،روایت۸۰،باب۸ اور المستدرک الوسائل ج۱۸،باب ۲۰، ص۳۶۷ روایت ۲۲۹۷۱ میں رجوع کریں۔

(۹۴) روم،آیت ۴۱۔

(۹۵) تفسیر المیزان ج۱۶، ص۲۰۰ ۔

(۹۶) اعراف ،آیت ۹۶۔ ۳۔

(۹۷) مائدہ،آیت ۵۵۔

(۹۸) احقاق الحق ج۲،ص۳۹۹ سے ۴۱۰ تک،مجمع البیان ج۳،ص۳۲۴، نورالثقلین ج۱ ، ص۶۴۷ ، تفسیر المیزان ج۶،ص۵۔

(۹۹) تفسیر در المنثور ج۳ ص۱۰۵،تفسیر کشاف ج۱ ص۳۴۷،تفسیر فتح القدیر ج۲ ص۶۶۔

(۱۰۰) بحارالانوار ج۲۵،ص۳۶۳،ج۳۶،ص۴۰۰۔

(۱۰۱) عوالم العلوم ج۱۱،ص۵۴۰۔

(۱۰۲) عوالم العلوم ج۱۱،ص۶۱،باب ۳،ح۲۔

(۱۰۳) حجرات،آیت ۱۳۔

(۱۰۴) انعام،آیت ۳۸۔

(۱۰۵) آل عمران، آیت ۱۹۔

(۱۰۶) واقعہ ،آیت ۱۰۔۱۱۔

(۱۰۷) کمال الدین ج۱،ص۲۵۳،بحارالانوار ج۳۶،ص۲۵۰ ،مراة العقول ج۴،ص۲۷۔

(۱۰۸) امالی صدوق ص۱۵۷،کمال الدین ص۲۰۷، بحارالانوار ج۵۲،ص۹۲، فرائد السمطین ج۱،ص۴۶، ینابیع المودة ج۱،ص۷۶،ج۳،ص۳۶۱۔

(۱۰۹) بحار الانوار ج۵۳ ص۱۸۱،کمال الد ین ج۲ ص۴۸۵،غیبت شیخ طوسی(رہ)ص۱۷۷،احتجاج طبر سی (رہ)ص۴۷۱،اعلام الوری ص۴۲۴،کشف الغمہ ج۳ص۳۲۲،النوادر فیض کاشانی ص۱۶۴،کلمہ الامام مھدی ص۲۲۵،المختارمن کلمات الامام المھدی ج۱ص۲۹۴۔

(۱۱۰) تواتر اسے کہتے ہیں کہ ایک روایت اتنی تعداد میں مختلف روایوں اور واسطوں سے ایسے نقل کی جائے کہ اس کے جھوٹ ہونے کا احتمال بھی باقی نہ رہے۔

(۱۱۱) مراة العقول،ج۴،ص۲۸۔

(۱۱۲) غیبت شیخ طوسی ص۱۳۹ ، بحارالا نوارج۳۶ص۲۵۹، اثبات الھداة ج۱ص۴۶۰ تقریب المعارف ص۱۷۵۵۔

(۱۱۳) کفاےة الاثر ص۱۶۳، بحارالانوار ج۳۶،ص ۲۳۸، محینة البلاغہ ج۱،ص۱۷۰،ینا بیع المودة ج۱ ص۷۴۔

(۱۱۴) سورہ رعد آیت ۷۔

(۱۱۵) کفاےة الاثر ،ص۸۹،بحارالانوار ج۳،ص۳۱۶۔

(۱۱۶) فرائد المسمطین ج۱،ص۴۶،ینابیع المودة ج۱،ص۷۵،ج۳ص۳۶۰۔ امالی شیخ صدوق ص۱۷۵،کمال الدین ج۱،ص۲۰۷۔

(۱۱۷) کمال الدین ج۱ص۲۰۲،بحارالانوار ج۲۳ص۳۴۔

(۱۱۸) کمال الدین ج۱،ص۲۰۴، بحارالانوار ج۲۳،ص۳۷۔

(۱۱۹) کمال الدین ج۱ص۲۰۲، بحارالانوار ج۲۳،ص۲۴۔

(۱۲۰) غیبت نعمانی ص۱۳۸،علل الشرایع ص۱۹۸،بصائر الدرجات ص۵۰۸۔

(۱۲۱) غیبت نعمانی ص۱۶۱۔،بحار الانوار ج۵۱ص۱۱۳۔

(۱۲۲) فرھنگ معین ج۴،ص۴۷۰۲۔

(۱۲۳) فرھنگ معین ج۲ ص۱۹۵۴۔

(۱۲۴) لسان العرب ج۶ ص۱۶۳۔

(۱۲۵) غیبت شیخ طوسی(رہ) ص۱۲۸،کمال الدین ج ۲ص۲۳ ۴۔

(۱۲۶) دلائل الامامة ص ۲۶۷،بحارالانوار ج۵۱ ص۱۰۔

(۱۲۷) مصنف ابن ابی شیبہ ج۱۵ ص۱۹۸ ح۱۹۴۹۵

(۱۲۸) فرھنگ معین ج۲ ص۱۷۰۲۔

(۱۲۹) لسان العرب ج۴ص۲۲۰۔

(۱۳۰) غیبت طوسی(رہ) ص۲۴۱،کمال الدین ج۲س۴۳۲۔

(۱۳۱) غیبت طوسی ص۱۲۴،۱۲۸، کمال الدین صدوق ج۲،ص۴۱۷،۴۲۳ دلائل الامامة ص۲۶۳،۲۶۷، مناقب ابن شھر آشوب ج۴،ص۴۴۰،۴۴۱ ،روضة الواعظین ج۱،ص۲۵۲،۲۵۵، اثبات الھداة ج۳، ص۳۶۔ ۳۶۵ اور ص ۰۸ ۴ ۔ ۴۰۹، بحارالانوار ج۵۱،ص۶۔۱۰،حلےة الابرار ج۶،ص۵۱۵۔