حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر0%

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 284

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی
زمرہ جات: صفحے: 284
مشاہدے: 126033
ڈاؤنلوڈ: 3768

تبصرے:

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 284 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126033 / ڈاؤنلوڈ: 3768
سائز سائز سائز
حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے فرمایا:” عنقریب ۳۱۳/ آدمی تمہاری مسجد(مکہ) میں آئیں گے، مکہ والے جانتے ہیں کہ یہ اپنے آباو واجداد کی طرف منسوب نہیں ہیں ،(اور مکہ والوں میں سے بھی نہیں ہیں) ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک تلوار ہوگی ،اور تلوار پر لکھا ہو گا کہ اس کلمہ سے ہزار کلمے(مشکل) حل ہوں گے “(۱)

بعض روایات میں ان بعض کا نام بھی درج ہے کہ اس سلسلے میں دو روایت پر اکتفاء کر ر ہا ہو ں ۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) مفضل بن عمر سے فرماتے ہیں : تم اور۴ ۴/ آدمی اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوستوں اور چاہنے والوں میں سے ہوں گے۔شاید۴ ۴ کی تعداد سے مراد امام جعفر صادق کے اصحاب ہوں۔(۲)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں :”جب حضرت قائم آل محمد(عجل اللہ تعالی فرجہ)ظہورکریں گے تو۲ ۷/ آدمی کعبہ کی پشت سے ظاہرہوں گے اور۲ ۵/ آدمی موسیٰ کی قوم سے،جو سارے کے سارے حق کے ساتھ قاضی اور عادل ہوں گے،زندہ ہوں گے اور ۷/ آدمی اصحاب کہف سے،یوشع وصی موسیٰ،مومن آل فرعون،سلمان فارسی ، ابو دجانہ انصاری ، مالک اشتر دنیا میں لو ٹائے جائیں گے،(۳) اور بعض روایات میں مقداد بن اسود کا بھی نام ہے، روایات کے مطابق فرشتے نیک لوگوں کو مقامات مقدسہ (کعبہ)میں منتقل کریں گے۔(۴)

اس بناء پر شاید ان کے جسم کعبہ کے کنارے منتقل کئے جا چکے ہیں، اور ان کا دوبارہ زندہ ہونا

____________________

(۱)کمال الدین، ج۲، ص۶۷۱؛بصائر الدرجات ،ص۳۱۱؛بحا رالانوار ،ج۵۲، ص۲۸۶

(۲)دلائل الامامہ ،ص۲۴۸؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۷۳

(۳)روضة الواعظین، ص۲۶۶؛اثبات الہداة ،ج۳ ،ص۵۵

(۴)دررالاخبار، ج۱،ص۲۵۸

۱۲۱

اور رجعت بھی وہیں سے ہوگی، ایک دوسری روایت کے مطابق، شاید یہ جگہ کوفہ شہر کی پشت (نجف) ہو، تو پھر روایت کے معنی صحیح ہو جائیں گے،اس لئے کہ ان کے جسم وہاں یعنی نجف اشرف منتقل ہو چکے ہیں، شایان ذکر یہ ہے کہ یہ لوگ زمانے کے طاغوت کے خلاف سیاسی اور فوجی سابقہ رکھتے ہیں، خصوصا! ،سلمان فارسی،ابو دجانہ ،مالک اشتر ، مقداد جنھوں نے صدرا سلام کی جنگوں میں شرکت کی ہے، اور اپنی ہدایت و راہنمائی کا اظہار کیا ہے، بعض لوگ تو کمانڈری کا بھی سابقہ رکھتے ہیں ۔

۲ ۔حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی فوج

ابو بصیر کہتے ہیں : ایک کوفے کے رہنے والے نے امام جعفرصادق (علیہ السلام) سے پوچھا: حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ساتھ کتنے لوگ قیام کریں گے؟ لوگ کہتے ہیں کہ ان کے ہمراہ اہل بدر کی تعدا د کے بقدر سپاہی ہوں گے یعنی ۳۱۳/ آدمی، امام (علیہ السلام) نے کہا:” حضرت مہدی توا نااور قوی فوج کے ساتھ ظہور کریں گے، اوریہ قوی فوج دس ہزار سے کم نہ ہوگی“(۱)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں: جب خدا وند عالم حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو قیام کی اجازت دے گا تو ۳۱۳/ افراد ان کی بیعت کریں گے، آنحضرت مکہ میں اس وقت تک توقف کریں گے جب تک کہ ان کے اصحاب کی تعداد دس ہزار نہ ہو جائے، پھر اس وقت مدینہ کی سمت حرکت کریں گے ۔(۲)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کم سے کم بارہ ہزاراور زیادہ سے زیادہ۱ ۵/ ہزار لشکر کے ساتھ ظہور کریں گے، آپ کی فوجی طاقت کا

____________________

(۱)کما ل الدین ،ج۲،ص۶۵۴؛عیاشی ،تفسیر، ج۱،ص۱۳۴؛نور الثقلین ،ج۴،ص۹۸؛ج۱، ص۳۴۰؛العدد القویہ، ص۶۵؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۴۸

(۲)المتجاد، ص۵۱۱

۱۲۲

رعب و دبدبہ سپاہیوں کے آگے آگے ہوگا، کوئی دشمن ان کے سامنے نہیں آئے گا، مگر شکست کھا جائے گا ،آنحضرت اور آپ کے سپاہی راہ خدا میں کسی کی ملامت کی پرواہ نہیں کریں گے، آپ کے لشکر کا نعرہ ہوگا ((مار ڈالو مار ڈالو))(۱)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” حضرت اس وقت ظہور کریں گے جب ان کی تعداد پوری ہو جائے گی “راوی نے پوچھا: ان کی تعداد کتنی ہے؟ حضرت نے کہا: ((دس ۱۰/ ہزار))(۲)

شیخ حر عاملی کہتے ہیں : روایت میں مکمل فوج کی تعداد ایک لاکھ ہے۔(۳)

۳ ۔ حفاظتی گارڈ

کعب کہتے ہیں : ایک ہاشمی مرد بیت المقدس میں ساکن ہوگا، اس کی محافظ فوج کی تعداد۱ ۲/ ہزار ہے، اور ایک دوسری روایت میں محافظوں کی تعداد ۳۶/ ہزار ہے، اور بیت المقدس تک منتہی ہونے والے ہر بڑے راستوں پر۱ ۲/ ہزار فوج لگی ہوگی ۔(۴)

البتہ کلمہ حرس جو روایت میں آیا ہے، اعوان و انصار کے معنی میں بھی ہے، اگر چہ یہ معنی حدیث کے عنوان سے مناسب نہیں ہے، اس لئے کہ ممکن ہے کہ حضرت کے اعوان و انصار مرادہوں ۔

د)سپاہیوں کا اجتماع

جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے ،حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لشکر والے دنیا کے گوشہ و کنار سے ان کے پاس اکٹھا ہو جائیں گے حضرت کے سپاہی کس طرح قیام اور مکہ میں کیسے جمع

____________________

(۱)ابن طاوس ،ملاحم، ص۶۵

(۲)نعمانی، غیبة، ص۳۰۷ ؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۴۵

(۳)اثبات الہداة، ج۳، ص۵۷۸؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰۷،۳۶۷؛بشار ة الاسلام، ص۱۹۰

(۴)ابن حماد، فتن ،ص۱۰۶؛عقد الدرر ،ص۱۴۳

۱۲۳

ہو جائیں گے مختلف روایتیں ہیں ؛بعض لوگ رات کو بستر پر سوئیں گے، اور امام کے حضورحاضر ہوں گے ؛بعض طی الارض(کم مدت میں طولانی سفر کا ہونا)کے ذریعہ حضرت سے جاملیں گے، اور بعض افراد قیام سے آگاہ ہونے کے بعد بادلوں کے ذریعہ حضرت کے پاس آئیں گے ۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :جب حضرت مہدی کو خروج اور قیام کی اجازت دی جائے گی تو عبری زبان میں خدا کو پکاریں گے، اس وقت ان کے اصحاب، جن کی تعداد ۳۱۳/ ہے اور بادلوں کے مانند پر اکندہ ہیں =آمادہ ہو جائیں گے، یہی لوگ پر چم دار اور کمانڈر ہیں، بعض لوگ رات کو بستر سے غائب ہو جائیں گے، اور صبح کو خود کو مکہ میں پائیں گے، اور بعض لوگ دن میں بادل پر سوار دیکھائی دیں گے ،یہ اپنے نام و نسب اور شہرت سے پہچانے جائیں گے“(۱)

مفضل بن عمر کہتے ہیں : میں نے عرض کیا: میں آپ پر فدا ہوجاوں؛ کون گروہ ایمان کے لحاظ سے بلند مرتبہ پر فائز ہو گا؟آپ نے فرمایا: جو ابر کی بلندی پر سوار ہوں گے وہی لوگ غائب ہونے والوں میں ہیں، جن کی شان میں یہ آیہ کریمہ ہے:( اَیْنَ مَا تَکُوْنُوا یَاتِ بِکُمُ اللّٰه جمیعاً ) ؛(۱)

”تم لوگ جہاں بھی ہوگے خدا وند عالم یکجا کر دے گا“

رسول خدا فرماتے ہیں : تمہارے بعد ایسا گروہ آئے گا، کہ زمین ان کے قدموں تلے سمٹے گی، اور دنیا ان کا استقبال کرے گی، فارس کے مردو عورت ان کی خدمت کریں گے، زمین

____________________

(۱)کمال الدین ،ج۲،ص۶۷۲؛عیاشی ،تفسیر ،ج۱،ص۶۷؛نعمانی ،غیبة، ص۳۱۵؛بحا رالانوار، ج۲، ص۳۶۸؛ کافی، ج۸، ص۳۱۳؛المحجة، ص۱۹

(۲)سورہ بقرہ، آیت۱۴۸

۱۲۴

پلک جھپکنے سے پہلے سمٹ جائے گی، اس طرح سے کہ ان میں سے ہر ایک شرق و غرب کی ایک آن میں سیر کرلے گا، وہ لوگ اس دنیا کے نہیں ہیں ،اور نہ ہی اس میں ان کا کوئی حصہ ہے“(۱)

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے شیعہ اور ناصر دنیا کے گوشے سے ان کی طرف آئیں گے، زمین ان کے قدموں میں سمٹ جائے گی، اور طی الارض کے ذریعہ امام تک پہنچ جائیں گے، اور آپ کی بیعت کریں گے “(۲)

عجلان کے بیٹے عبد اللہ کہتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کی بات چلی تو میں نے حضرت سے کہا: حضرت کے ظہور سے ہم کیسے باخبر ہوں گے ؟ آپ نے کہا: صبح کو اپنے تکیہ کے نیچے ایک خط پاوگے جس میں تحریر ہوگا کہ حضرت مہدی کی اطا عت اچھا اور نیک کام ہے“(۳)

امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں : خدا کی قسم اگر ہمارے قائم قیام کریں گے تو خداوندعالم ،شیعوں کو تمام شہروں سے ان کے قریب کر دے گا،(۴) نیز امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب ہمارے شیعہ ،چھتوں پر سوئے ہوں گے تو اچانک ایک شب بغیر کسی وعدہ کے، حضرت کے پاس لائے جائیں گے، اس وقت سبھی صبح کے وقت حضرت کے پاس ہوں گے۔(۵)

____________________

(۱)فردوس الاخبار، ج۲،ص۴۴۹

(۲)روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۳؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۴۵عقدد الدرر،ص۶۵

(۳)بحارالانوار، ج۵۲،ص۳۲۴؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۸۲؛ترجمہ جلد۱۳؛بحار الانوار، ص۹۱۶

(۴)مجمع البیان ،ج۱،ص۲۳۱؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۲۴؛نور الثقلین ،ج۱،ص۱۴۰؛بحا رالانوار ،ج۵۲، ص۲۹۱

(۵)نعمانی ،غیبة، ص۳۱۶؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۱۹۸؛بشارة الاسلام، ص۱۹۸

۱۲۵

ھ)سپاہیوں کی قبولیت کے شرائط اور امتحان

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار= جن کی تعداد ۳۱۳/ ہے =ان(حضرت) کی سمت جائیں گے ،اور اپنی گمشدہ چیز پالیں گے، اور سوال کریں گے :کیا تمہیں مہدی موعودہو ؟تو آپ فرمائیں گے : ہاں،میرے ساتھیو!اس کے بعد دوبارہ غائب ہو کر مدینہ چلے جائیں گے ،جب حضرت کے انصار کو خبر ہو گی، راہی مدینہ ہو جائیں گے اورجب وہ لوگ مدینہ پہنچیں گے ،تو امام پو شیدہ طور پر مکہ واپس آجائیں گے، انصا ر حضرت سے ملنے کے لئے مکہ جائیں گے، پھر دوبارہ حضرت مدینہ آجائیں گے، اور جب چاہنے والے مدینہ پہنچیں گے توحضرت مکہ کا قصد کرلیں گے اسی طرح تین بار تکرارہوگی۔

امام (علیہ السلام) اس طرح چاہنے والوں کو آزمائیں گے، تاکہ ان کی پیروی و اطاعت کا معیا ر معلوم ہوجائے، اس کے بعد صفاو مروہ کے درمیان،کعبہ میںظاہر ہوں گے، اور اپنے چاہنے والوں سے مخاطب ہو کر کہیں گے کہ میں اس وقت تک کوئی کام نہیں کروں گا جب تک تم لوگ شرائط کے ساتھ میری بیعت نہ کرو، اور اس پر پابند نہ رہو، اور ذرا بھی کوئی تبدیلی نہ ہو میں بھی آٹھ چیز وں کا وعدہ کرتا ہوں توسارے اصحاب جواب دیں گے: ہم مکمل تسلیم ہیں ،اور آپ کی پیروی کریں گے،جو شرائط رکھنا چائیں رکھ دیں بتایئے وہ شرائط کیا ہیں؟

حضرت مکہ میں صفا پہاڑی کی طرف جائیں گے تو ان کے انصار بھی پیچھے پیچھے جائیں گے وہاں ان سے مخاطب ہو کر کہیں گے: ”تم سے ان شرائط کے ساتھ عہدو پیمان کرتا ہوں:

۱۲۶

۱ ۔میدان جنگ سے فرار نہیں کرو گے۔

۲ ۔چوری نہیں کروگے۔

۳ ۔ناجائز کام نہیں کروگے۔

۴ ۔حرام کام نہیں کروگے۔

۵ ۔ منکر و بُرے کام انجام نہیں دوگے۔

۶ ۔کسی کو ناحق نہیں ماروگے۔

۷ ۔سونا چاندی ذخیرہ نہیں کروگے۔

۸ ۔جَو، گیہوں ذخیرہ نہیں کروگے۔

۹ ۔کسی مسجد کو خراب نہیں کروگے۔

۱۰ ۔ناحق گواہی نہیں دوگے۔

۱۱ ۔کسی مومن کو ذلیل و خوار نہیں کروگے۔

۱۲ ۔سود نہیں کھاوگے۔

۱۳ ۔سختی و مشکلات میں ثابت قدم رہوگے۔

۱۴ ۔خدا پرست و یکتا پرست انسا ن پر لعنت نہیں کروگے۔

۱۵ ۔شراب نہیں پیو گے۔

۱۶ ۔سونے سے بنا لباس نہیں پہنو گے۔

۱۷ ۔حریر و ریشم کا لباس نہیں پہنو گے۔

۱۸ ۔ بھاگنے والے کا پیچھا نہیں کروگے۔

۱۲۷

۱۹ ۔ خون حرام نہیں بہاوگے۔

۲۰ ۔کافر ومنافق سے اتحاد نہیں کروگے۔

۲۱ ۔خز کا لباس نہیں پہنو گے۔

۲۲ ۔مٹی کو اپنی تکیہ نہیں بناو گے (شاید اس معنی میں ہو کہ فروتن و خاکسار رہوگے)

۲۳ ۔نا پسندیدہ کاموں سے پر ہیز کروگے۔

۲۴ ۔نیکی کا حکم دو گے اور بُرائی سے روکو گے۔

اگر ان شرائط کے پابند ہو، اور ایسی رفتار رکھو گے، تو مجھ پر واجب ہوگا کہ تمہارے علاوہ کسی کو اپنا ناصر نہ بناوں اور میں وہی پہنوں گا جو تم پہنو گے، اور جو تم کھاوگے وہی کھاوں گا، اور جو سواری تم استعما ل کروگے وہی میں استعمال کروں گا، جہاں تم رہوگے وہیں میں بھی رہوں گا، جہاں تم جاوگے وہاں میں جاوں گا، اور کم فوج پر راضی و خو شحال رہوں گا، نیز زمین کو عدل و انصاف سے بھردوں گا، جس طرح ظلم و ستم سے بھری ہوگی، اور خدا کی ویسی ہی عبادت کروں گا جس کا وہ حقدار ہے، جو میں نے کہا اسے پورا کروں گا، تم بھی اپنے عہد وپیمان کو پورا کرنا۔ اصحاب کہیں گے جو آپ نے فرمایا ہم اس پر راضی اور آپ کی بیعت کرتے ہیں ،اس وقت امام (علیہ السلام) ایک ایک چاہنے والوں سے (بیعت کی علامت کے ساتھ)مصافحہ کریں گے۔(۱)

لیکن یہ خیال رکھنا چاہئے کہ حضرت امام (علیہ السلام) نے یہ شرا ئ ط و امتحان اپنی خاص فوج کے لئے رکھی ہیں ،

اس لئے کہ امام (علیہ السلام) کی حکومت کے کار گزاروں میں وہ لوگ ہیں جو اپنے نیک کردار سے دنیا میں عدالت بر قرار کرنے کے لئے ایک موثر اقدام کریں گے ۔

لیکن اس روایت کی سند قابل تامل ہے اس لئے کہ یہ” خطبة البیان“ سے ماخوذ ہے جس کو بعض لوگوں نے ضعیف سمجھاہے، اگر چہ بعض بزرگوں نے اس کا دفاع کر کے قوی بنانے کی

____________________

(۱)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۵۷؛عقدالدرر ،ص۹۶

۱۲۸

کوشش کی ہے۔(۱)

و)سپاہیوں کی خصوصیت

روایات میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے اصحاب وانصار کی بہت زیادہ ہی خصوصیت بیان کی گئی ہے، مگر ہم کچھ کے بیان پر اکتفاء کرتے ہیں :

۱ ۔عبادت و پر ہیز گاری

امام جعفر صادق (علیہ السلام) حضرت کے اصحاب کی توصیف فرماتے ہیں وہ لوگ شب زندہ دارانسان ہیں ۔جو راتوں کوقیام کی حالت میں عبادت کرتے ہیں۔ اور نماز کے وقت شہد کی مکھی کی طرح بھنبھناتے ہیں اور صبح کے وقت گھوڑوں پر سوار اپنی (وظیفوں کو)ما موریت انجام

____________________

(۱)والد مرحوم نے الشیعہ والرجعہ کی پہلی جلد کے حاشیہ پر،خطبہ بیان کے بارے میں اس طرح فرمایا ہے : ہم نے یہ خطبہ شیخ محمد یزدی کی کتاب دوحة الانوار سے نقل کیا ہے؛لیکن اسی کتاب میں منحصر نہیں ہے بلکہ دیگر کتابوں میں بھی درج ہے جیسا کہ آقا بزرگ تہرانی الذریعہ کی ساتویں جلد میں چند کتابوں کا تذکرہ کرتے ہیں :

۱۔قاضی سعید قمی در شرح حدیث غمامہ م۱۱۰۳ ھق؛۲۔محقق قمی در جامع الشتات ،ص۷۷۲۳۔ایک نسخہ کتاب خانہ امام رضا علیہ السلام تاریخ ۷۲۹ھق؛

۴۔ایک نسخہ خط علی بن کمال الدین تاریخ ۹۲۳ھق؛۵۔خلاصہ الترجمان ۶۔معالم التنزیل

اس خطبے میں ایسی عبارتیں ہیں جو توحید سے ہم آہنگ نہیں ہیں لیکن تمام نسخوں میں یہ عبارتیں نہیں ہیں ،بلا تردید یہ غالیوں کی گڑھی باتیں ہیں ”انا مورق الاشجار و مثمر الثمار “اس طرح کی روایت کثرت سے ہے”بنا اثمرت الاشجار و اینعت الثمار “اور زیارت مطلقہ میں اس طرح آیا ہے ”وبکم تنبت الارض اشجار ها و بکم تخرج الاشجار و اثمارها “اور زیارت رجبیہ میں ”انا سائلکم و املکم فیما الیکم التفویض وعلیکم التعویض،فبکم یجبر المهیض و یشفی المریض و “اس لحاظ سے جو بات بھی قرآن کے خلاف ہو اور اس کی صحیح تاویل بھی نہو تو بھی معصومین علیہم السلام اس سے بَری ہیں لیکن اس خطبہ کی عبارت کا جعلی ہونا تمام خطبہ کی صحت کو مخدوش نہیں کر سکتا

۱۲۹

دینے جاتے ہیں، وہ لوگ رات کے عبادت گزار، پاکیزہ نفس اور دن کے دلاور و شیر ہیں اور خوف الٰہی سے ایک خاص کیفیت پیدا کر چکے ہیں، خدا وندعالم ان کے ذریعہ امام برحق کی مدد کرے گا ۔(۱)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”گویا قائم آل محمد( علیہم السلام) اور ان کے چاہنے والوں کو شہر کوفہ کی پشت پر دیکھ رہا ہوں ،یوں کہئے کہ فرشتے ان کے سروں پر اپنے پروں کا سایہ کئے ہوئے ہیں، اور ان کی پیشانی پر سجدہ کا اثر ہے، راہ توشہ تمام ہو چکا ہے، اور ان کے لباس بوسیدہ و پرانے ہو چکے ہیں، ہاں وہ لوگ شب کے پارسا اور دن کے شیر ہیں،ان کے دل آ ہنی ٹکڑوں کے مانند محکم ومضبوط ہیں، ان میں سے ہر ایک چالیس آدمی کی قوت کا مالک ہو گا، اور کافر و منافق کے علاوہ کسی کو قتل نہیں کریں گے، خدا وند عالم قرآن میں ان کے بارے میں اس طرح فرماتا ہے :

( اِنَّ ذَلِکَ لاْیَاتٍ لِلْمُتَوَسِّمِیْنَ ) (۲)

”اس میں ہوشمند افراد کے لئے نشانی اور عبرت ہے“۔(۳)

۲ ۔امام سے عشق اور آپ کی اطاعت

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرما تے ہیں :”صاحب امر کے لئے بعض درّوں میں غیبت ہے ظہور سے دو شب قبل آپ کا نزدیک ترین خادم حضرت کے دیدار کو جائے گا، اور آپ سے پوچھے گا کہ آپ یہاں کتنے لوگ ہیں ؟

____________________

(۱)بحا ر الانوار، ج۵۲، ص۳۰۸

(۲)سورہ حجر، آیت۷۵

(۳)بحا رلانوار ،ج۵۲،ص۳۸۶

۱۳۰

کہیں گے : چالیس آدمی تو وہ کہے گا: تمہارا کیا حال ہوگا ،جب تم اپنے پیشوا کو دیکھو گے ،جواب دیں گے : اگر وہ پہاڑوں پر زندگی کریں گے تو ہم ان کے ساتھ ہوں گے، اور اُسی طرح زندگی گذاریں گے“(۱)

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت کے انصار اپنے ہاتھوں کو حضرت امام کی سواری کے زین میں ڈال کر برکت کے لئے کھینچیں گے، اور حضرت کے حلقہ بگوش ہوں گے، اور اپنے جسم و جان کو ان کی سپر بنالیں گے، اور آپ جو اُن سے چاہیں گے وہ کریں گے ۔(۲)

نیز آنحضرت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار و مدد گاروں کی توصیف میں فرماتے ہیں: ان کے پاس ایسے ایسے لوگ ہیں جن کے دل فولاد کے ٹکڑے ہیں وہ لوگ حضرت کے سامنے کنیز کی طرح جو اپنے مولا و آقا کے سامنے مطیع و فرمانبردارہوتی ہے تسلیم ہوں گے۔(۳)

رسول خدا فرماتے ہیں :” خدا وند عالم حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لئے دنیا کے گوشہ و کنار سے اہل بدر کی تعداد میں لوگوں کو ان کے ارد گرد جمع کر دے گا، وہ لوگ حضرت کی فرمانبرداری کرنے میں حد سے زیادہ کوشاں ہوں گے۔(۴)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے ناصرومدد گار

____________________

(۱)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۵۶؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱

(۲)بحا رالانوار، ج۵۲، ص۳۰۸

(۳)اسی جگہ

(۴)وہی،ص۲۱۰

۱۳۱

نجف(کوفہ) میں مستقر ہیں اور اس طرح ثابت قدم ہیں کہ گویا پرندہ ان کے سر پر سایہ فگن ہے۔(۱)

یعنی جنگجو، منظم ،اورتسلیم محض ہو کر حضرت کے سامنے کھڑے ہیں، گویا پرندہ ان کے سروں پر سایہ کئے ہوئے ہے، اگر معمولی حرکت کریں تو پرندے اڑجائیں گے۔

۳ ۔سپاہی قوی ہیکل اور جوان ہوں گے

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصر سارے کے سارے جوان ہیں، کوئی ان میں ضعیف و سن رسیدہ نہیں ہے، جز تھوڑے افراد کے ، جو آنکھ میں سرمہ یا غذامیں نمک کے مانند ہیں،لیکن سب سے کم قیمت زیادہ ضرورت کی چیز نمک ہی ہے۔(۲)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : لوط پیامبر کی مراد اپنی اس بات سے جو انھوں نے دشمنوں سے کہی ہے:اے کاش تمہارے مقابل قوی اور توانا ہوتا یا کسی مضبوط و محکم پایہ کی سمت پناہ لیتا ۔کوئی طاقت مہدی موعود(عجل اللہ تعالی فرجہ)اور ان کے ناصروں کی قدرت کے برابر نہیں ہوگی، اور ہر ایک آدمی کی قوت چالیس آدمی کے برابر ہوگی، ان کے پاس لوہے سے زیادہ ہموار دل ہے، اور جب پہاڑوں سے گذریں گے، تو چٹان لرز اٹھیں گے ،اور خدا وند عالم کی رضا و خوشنودی کے حصول تک وہ تلوار چلاتے رہیں گے۔(۳)

حضرت امام سجاد(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں:” جب ہمارے قائم قیام کریں گے تو خداوند عالم ہمارے شیعوں سے ضعف و سستی کو دور کردے گا ،اور ان کے دلوں کو آ ھنی ٹکڑوں کی طرح محکم و استوار کردے گا،نیز ان میں سے ہر ایک کوچالیس آدمی کی قوت عطا کرے گا ،یہی لوگ

____________________

(۱)اثبات الہداة، ج۳ ،ص۵۸۵

(۲)طوسی ،غیبة ،ص۲۸۴؛نعمانی ،غیبة، ص۳۱۵؛ابن طاو س، ملاحم، ص۱۴۵؛کنز ل العمال، ج۱۴،ص۵۹۲؛ بحار لاانو ار ج۵۲، ص۳۳۴؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۱۷

(۳)کمال الدین ،ج۲،ص۶۷۳؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۷و۳۲۷

۱۳۲

زمین کے حاکم اور رئیس ہوں گے“(۱)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں ہمارے شیعہ زمین کے حاکم اور رئیس ہوں گے، اور ان میں سے ہر ایک کو۴ ۰/ مرد کی قوت دی جائے گی۔(۲)

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: آج ہمارے شیعوں کے دلوں میں دشمنوں کا خوف بیٹھا ہوا ہے؛ لیکن جب ہماری حکومت آئے گی اور امام مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)ظہور کریں گے، توہماراہر ایک شیعہ شیر کی طرح نڈر اور تلوار سے زیادہ تیز ہو جائے گا، اور ہمارے دشمنوں کو پاوں سے کچل ڈالیں گے اور ہاتھ سے کھینچیں گے۔(۳)

عبد الملک بن اعین کہتا ہے : ایک روز حضرت امام (علیہ السلام)کی خدمت سے جب ہم اٹھے، تو ہاتھوں کا سہارا لیا اور کہا:کاش حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کو جوانی میں درک کرتا، (یعنی جسمی توانائی کے ساتھ)تو امام نے کہا: کیا تمہاری خوشی کے لئے اتنا کافی نہیں ہے کہ تمہارے دشمن آپس ہی میں ایک دوسرے کو مارڈالیں گے، لیکن تم لوگ اپنے گھروں میں محفوظ رہوگے؟ اگر امام ظہور کر جائیں گے تو تم میں سے ہر ایک کو۴ ۰/ مرد کی قوت دی جائے گی، اور تمہارے دل آ ھنی ٹکڑوں کی طرح ہوں گے، اس طرح سے کہ تم لوگ زمین کے رہبر اور امین رہوگے “(۴)

____________________

(۱)کما ل الدین ،ج۲،ص۶۷۳؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۷،۳۲۷،۳۷۲؛ینابیع المودة ،ص۴۲۴؛احقا ق الحق ، ج۱۳، ص۳۴۶ (۲)مفید ،اختصاص ،ص۲۴ ؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۷۲

(۳)مفید ،اختصاص، ص۲۴؛بصائر الدرجات، ج۱،ص۱۲۴؛ینابیع المودة،ص۴۴۸؛،۴۸۹؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۵۷؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۸،۳۷۲

(۴)کافی ،ج۸، ص۲۸۲؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۳۳۵

۱۳۳

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ہماراحکم (حضرت مہدی کی حکومت) آتے ہی خدا وند عالم ہمارے شیعوں کے دلوں سے خوف مٹادے کر ان کے دشمنوں کے دلوں میں ڈال دے گا اس وقت ہمارا ہر ایک شیعہ نیزہ سے زیادہ تیز اور شیر سے زیاد ہ دلیر ہو جائے گا، ایک شیعہ اپنے نیزہ اور تلوار سے دشمن کا نشانہ لے کر اسے کچل ڈالے گا۔(۱)

اسی طرح حضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے چاہنے والے وہ لوگ ہیں جن کے دل فولاد کے مانند سخت و مضبوط ہیں اور کبھی ان دلوں پر ذات الٰہی کی راہ میں شک و شبہ نہیں آئے گا ،وہ لوگ پتھر سے زیادہ سخت اور محکم ہیں اگر انھیں حکم دیا جائے کہ پہاڑوں کو ان کی جگہ سے ہٹا دیں اور جابجا کر دیں تو وہ بہت آسانی اور تیزی سے ایسا کر دیں گے اسی طرح شہروں کی تباہی کا حکم دیا جائے تو وہ فوراً ویران کر دیں گے، ان کے عمل میں اتنی قاطعیت ہوگی جیسے عقاب گھوڑوں پر سوار ہو۔(۲)

۴ ۔پسند ید ہ سپاہی

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصروں کو دیکھ رہا ہوں کہ پوری کائنات کا احاطہ کئے ہوئے ہیں ،اور دنیا کی کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ان کی مطیع و فرمانبردار نہ ہو، زمین کے درندے اور شکاری پرندے بھی ان کی خوشنودی کے خواہاں ہوں گے، وہ لوگ اتنی محبوبیت رکھتے ہوں گے کہ ایک زمین دوسری زمین پر فخر ومباحات کرے گی، اور وہ جگہ

____________________

(۱)خرائج، ج۲،ص۸۴۰؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۶؛ملاحظہ ہو:حلیة الاولیاء، ج۳، ص۱۸۴؛ کشف الغمہ،ج، ص۳۴۵؛ینابیع المودة، ص۴۴۸؛اس طرح کی روایت امام محمد باقر علیہ السلام سے بھی منقول ہے :بصائر الدرجات ،ص۴؛ بحار الانوار، ج۲، ص۱۸۹

(۲) بحار الانوار، ج۲۵،ص۳۰۸

۱۳۴

کہے گی کہ آج حضرت مہدی کے چاہنے والے نے مجھ پر قدم رکھا ہے ۔(۱)

شہادت کے متوالے

امام جعفر صادق (علیہ السلام) حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصروں کی خصوصیات کے بارے میں فرماتے ہیں :کہ وہ لوگ خدا کا خوف اور شہادت کی تمنا رکھتے ہیں ان کی خواہش یہ ہے کہ راہ خدا میں قتل ہو جائیں ان کا نعرہ حسین کے خون کا بدلہ لینا ہے جب وہ چلیں گے تو ایک ماہ کے فاصلہ سے دشمنوں کے دل میں خوف بیٹھ جائے گا۔(۲)

____________________

(۱)کما ل الدین، ج۲،ص۶۷۳؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۹۳؛ بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۲۷

(۲)مستدرک الوسائل، ج۱۱،ص۱۱۴

۱۳۵

چوتھی فصل :

حضرت کی جنگیں

جب حضرت کا ہدف پوری دنیا میں حکومت برپا کرنا اور ظلم و ستم کو فنا کرنا ہے تو یقینا اس ھدف کی تکمیل میں انواع و اقسام کی دشواریوں اور رکاوٹوں کا سامنا ہوگا؟ لہٰذاضروری ہے کہ فوجی مشق اور ٹرینگ کے ذریعہ ان رکاوٹوں کو ختم کریں، اور یکے بعد دیگرے ممالک کو فتح کر کے شرق و غرب عالم میں تسلط حاصل کریں ،اور عادلانہ خدا ئی حکومت قائم کریں، اس فصل میں اس سلسلے میں روایات نقل کرتے ہیںملاحظہ ہوں۔

الف) شہیدوں اور مجاھدوں کی جزا

حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں جنگ کا مقصد مفسدین زمانہ اور ستمگار وقت کی نابودی اور خاتمہ ہے، لہٰذا حضرت کے ہمرکاب جنگ میں شرکت بھی، کئی گنا جزا کی حامل ہو گی، اس طرح سے ہے کہ اگر کوئی سپاہی کسی ایک دشمن کو نابود کرے تو ۲۰/۲۵ شہید وں کا اجر پائے گا،(۱) اور اگر خود شہید ہو جائے تو اس کی جزا دو شہید وں کے برابر ہوگی، اسی طرح جانباز و زخمی افراد معنوی مقام کے علاوہ حکومت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)میں خصوصی امتیاز کے حامل ہوں گے، نیز شہداء کے گھرانے خصوصی امتیاز اور اہمیت کے حامل ہوں گے۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) اپنے شیعوں سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں: ” اگر تمہاری رفتار

____________________

(۱)کافی ،ج۲،ص۲۲۲

۱۳۶

ہمارے فرمان کے مطابق رہی، اور سر کشی دیکھنے میںنہ آئی، اور کوئی اس حال میں ظہور سے پہلے مرجائے تو شہید ہوگا ،اور اگر حضرت کو درک کر کے درجہ شہادت پر فائز ہوجائے، تو دو شہیدوں کے برابر اجر پائے گا اور اگر ہمارے کسی ایک دشمن کو قتل کر دے تو پھر بیس۲ ۰/ شہید وں کا اجر پائے گا “(۱)

اس روایت میں، دشمنوں کی نابودی ایک شہید کے اجر سے زیادہ اہمیت رکھتی ہے ؛اس لئے کہ دشمن کو قتل کرنا خدا کی خوشنودی ،لوگوں کے سکون و آرام اوراسلام کی عزت و شوکت کا باعث ہوگا؛ اگر چہ شہادت کے درجہ پرفائز ہونا شہید کو کمال تک پہنچاتا ہے اس لحاظ سے سپاہیوں کو چاہئے کہ محاذ جنگ پر دشمنوں کی فکر میں رہیں نہ شہادت کی۔

امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں:”امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمرکاب شہید ہونا دو شہیدوں کا اجر رکھتا ہے “(۲)

”کافی “میں اس طرح آیا ہے:” اگر امام کے سپاہی دشمن کو قتل کردیں تو ان کا اجر۲ ۰/ شہید وں کے برابر ہے، اور اگرکوئی حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمراہ شہید ہو جائے ،تو پھر۲ ۵/ شہید وں کا اجر پائے گا “(۳)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے شہداء کے گھرا نو ں اور شہیدوں کے ساتھ طرز سلوک کے سلسلے میں فرماتے ہیں: حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) فوجی تشکیل کے بعد کوفہ روانہ ہو جائیں گے، اور وہاں قیام کریں گے،اور کوئی شہید ایسا نہیں ہوگا، جس کا قرضہ امام ادانہ کریں، اور اس کے خاندان کو دائمی وظیفہ و تنخواہ عنایت کریں گے“(۴)

____________________

(۱)طوسی ،امالی، ج۱، ص۲۳۶؛بشارة ا لمصطفی ،ص۱۱۳؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۲۹؛بحا ر الانوار، ج۵۲،ص۱۲۳، ۷ ۳۱

(۲)اثبات الہداة ،ج۳ ،ص۴۹۰؛ملاحظہ ہو:طوسی، امالی، ج۱،ص۲۳۶؛برقی ،محاسن، ص۱۷۳؛نور الثقلین، ج۵، ص۳۵۶

(۳)کافی، ج۲،ص۲۲۲(۴)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۲۶۱؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۲۴

۱۳۷

یہ روایت حضرت کی خاندان شہداء کی دیکھ ریکھ کا پتہ دیتی ہے۔

ب)جنگی اسلحے اور ساز وسامان

قطعی و یقینی طور پر جو اسلحے حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) جنگوں میں استعمال کریں گے، دیگر اسلحوں سے بنیادی طور پر جدا ہوں گے، اور روایت میں لفظ سیف کا استعمال، شاید اسلحہ سے کنایہ ہو نہ یہ کہ مراد خاص کر تلوار ہو؛اس لئے کہ امام کا اسلحہ اس طرح ہے جس کے استعما ل سے کوفہ کی دیوارگر پڑیں گے، اور دھووں میںتبدیل ہوجائیں گی، اور دشمن ایک وار میں پانی میں نمک کی طرح پگھل جائے گا، اس لئے کہ دل ہل جائیں گے ۔

روایت کے مطابق، حضرت کے سپاہیوں کا اسلحہ آھنی ہے، لیکن ایساہے کہ اگر پہاڑ پر گرے تو دوٹکڑے ہو جائے گا، شاید دشمن بھی آتشی اسلحہ استعمال کرے ،اس لئے کہ امام وہ لباس پہنیں گے جو گرمی سے محفوظ ہوگا ،اور یہ وہی لبا س ہے جو جبرئیل (علیہ السلام) آسمان سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے لئے آتش نمرود سے نجات کے لئے لائے تھے، وہی لباس حضرت بقیتہ اللہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے اختیار میں ہے ،اگر ایسا نہ ہوتا یعنی ترقی یافتہ اسلحہ دشمن کے پاس نہ ہوتا تو پھر اس لباس کی ضروت نہ ہوتی ،ہر چند اس میں اعجازی جنبہ ہو۔

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو جنگی تلواریں آسمان سے نازل ہوں گی، ایسی تلواریں کہ جس پر سپاہی اور اس کے باپ کا نام لکھا ہوگا“(۱)

حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہمنواگروہ کے بارے میں فرماتے ہیں:”حضرت مہدی کے ناصر و یاور آھنی تلواریں رکھتے ہیں، لیکن اس کی جنس

____________________

(۱)نعمانی، غیبة، ص۲۴۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۹؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۴۲

۱۳۸

لوہے کے علاوہ ہے، اگر ان میں سے کوئی ایک پہاڑ پر وار کردے تو پہاڑ دوٹکڑے ہو جائے گا، حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ایسے سپاہیوں اور اسلحوں کے ساتھ ھند،دیلم ، کرد،روم، بربر، فارس،جابلقا اور جابرسا کے درمیان جنگ کے لئے جائیں گے “-(۱)

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی فوج کے پاس ایسے دفاعی وسائل ہوں گے کہ دشمن بے بس ہوگا امام جعفر صادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” اگر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصا ران سپاہیوں سے جو شرق و غرب میں پھیلے اور قبضہ جمائے ہیں روبرو ہوں گے تو ایک آن میں انھیں فنا کے گھاٹ اتاردیں گے، اور دشمن کے اسلحے ان پر کار آمد نہیں ہوں گے“(۲)

ج)امام کا نجات بشر کے لئے دنیا پر قبضہ

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی فوجی ترتیب او رشہرو ملک پر قابض ہونے کے بارے میں دوطرح کی روایت پائی جاتی ہے، بعض روایت میں شرق وغرب جنوب اور قبلہ ہے نتیجہ کے طور پر ساری کائنات پر تسلط کی خبر ہے اور بعض روایات صرف مخصوص و معین زمین پر فتح و غلبہ کی خبر دیتی ہیں۔

اس میں شک نہیں کہ حضرت تمام کائنات کو اپنے قبضہ و دسترس میں کرلیں گے؛ مگر ایسا کیوں ہوا کہ بعض شہروں کے نام مذکور ہیں، تو شاید ایسا کسی اہمیت کے اعتبار سے ہو کہ وہ تمام شہر

____________________

(۱)بصائر الدرجات، ص۱۴۱؛اثبات الہداة ،ج۳ ،ص۵۲۳؛تبصرةالولی ،ص۹۷؛بحار الانوار، ج۲۷، ص۴۱و ج۵۴، ص۳۳۴

(۲)بصائر الدرجات ،ص۱۴۱؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۲۳؛تبصرةالولی، ص۹۷؛بحار الانوار، ج۲۷، ص۴۱و ج۵۴، ص۳۳۴

۱۳۹

اس وقت ظاہر ہو جائیں گے یہ اہمیت اس لئے ہے کہ شاید اس وقت ان کا شمار طاقت ورمیں ہواور کسی نہ کسی جگہ کو اپنے نفوذ و تسلط میں رکھے ہوئے ہیں ،یا وہ سر زمین اتنی وسیع و عریض ہے کہ اکثریت آبادی اس میں زندگی گذارتی ہے، یا یہ کہ ایک دین و مذہب کی آرزوں کا مرکز ہے؛ اس طرح سے کہ وہ شہر قبضہ میں آجائے تو اس مکتب و آئین کے پیرو بھی تسلیم ہوجائیں ،یا یہ کہ ان کی فوجی اہمیت ہے اس طرح سے کہ ان کے سلنڈر ہو جانے سے دشمن کی تکنک بیکار ہو جائے، تو حضرت کے فوجی حملہ کی راہ ہموار ہو جائے گی ۔

آغاز قیام کے لحاظ سے شہر مکہ کا انتخاب، پھر اس کے بعد عراق ،کوفہ سیاسی مرکز بنانے حکومت کی فوجی تحریک شام کی جانب پھر بیت المقدس کو فتح کرنا شاید اس بات کی تائید ہو اس لئے کہ آج تینوں سرزمینوں کی سیاسی ،مذہبی اورفوجی سرگرمی کسی پر پوشیدہ نہیں ہے ۔

پہلے دستہ کی روایت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے پورے جہان پر قبضہ کے بارے میں تھی کہ بعض درج ذیل ہیں حضرت رضا (علیہ السلام) اپنے آباو اجداد سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں : رسول خدا نے فرمایا:”جب ہمیں معراج پر لیجایا گیا تو میںنے عرض کیا خدا یا !یہ لوگ (ائمہ)میرے بعد میرے جانشین ہوں گے آواز آئی :ہاں ! اے محمد! یہ لوگ میرے دوست ،منتخب، لوگوں پر حجت ہوں گے، اور تمہارے بعد بہترین بندے اور جانشین ہوں گے، میری عزت و جلال کی قسم اپنے دین و آئین کو ان کے ذریعہ سے لوگوں پر غالب کروں گا، اور کلمة اللّٰہ کو ان کے ذریعہ بر تری عطا کروں گا، اور ان میں آخری کے ذریعہ زمین کو سر کش اور گنہگار افراد سے پاک و پاکیزہ کردوں گا، اور شرق و غرب عالم کی حکومت اسے دے دوں گا۔(۱)

____________________

(۱)کمال الدین ،ج۱، ص۳۶۶؛عیون اخبار الرضا، ج۱،ص۲۶۲؛بحار الانوار، ج۱۸، ص۳۴۶

۱۴۰