حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر0%

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 284

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی
زمرہ جات: صفحے: 284
مشاہدے: 125980
ڈاؤنلوڈ: 3768

تبصرے:

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 284 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 125980 / ڈاؤنلوڈ: 3768
سائز سائز سائز
حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آیہ شریفہ( اَلَّذِیْنَ اِنْ مکَّنّٰاهُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَاْمُوْااْلصَّلٰوةَ و آتُوالزَّکٰوةَ ) (۱)

ان لوگوں کو اگر زمین پر حکومت دیدیں تو نماز قائم کریں گے اور زکوة اداکریں گے۔

امام محمدباقر (علیہ السلام ) فرماتے ہیں : یہ آیت آل محمد اور آخری امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) سے مربوط ہے، خدا وند عالم مغرب و مشرق کو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)اور ان کے انصار کے اختیار میں دیدے گا“(۲)

رسول خدا فرماتے ہیں : مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہمارے فرزند ہیں، خدا وند عالم ان کے ذریعہ مشرق ومغرب کو فتح کرے گا ۔(۳) رسول خدا فرماتے ہیں : جب مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو دین کو اسکی اصلی جگہ لوٹادیں گے،اور درخشاں کامیابی ا ن کے لئے انھیں کے ذریعہ عطا کرے گا،اس وقت صرف اور صرف مسلمان ہوں گے، اور(لاالہ الااللہ )زبان سے جاری کریں گے۔(۴) امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہم سے ہیں ان کی حکومت مشر ق ومغرب کو محیط ہوگی ۔(۵)

نیز فرماتے ہیں : حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے قیام کے وقت اسلام تمام ادیان پر غالب آئے گا ۔(۶)

رسول خدا سے منقول ہے :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنے لشکر کو پوری دنیا میں پھیلا دیں گے۔(۷)

____________________

(۱)سورہ حج، آیت۴۱

(۲)تفسیر برہان، ج۲، ص۹۶؛ینابیع المودة ،ص۴۲۵؛بحار الانوار، ج۵۱،ص۱

(۳)احقا ق الحق، ج۱۳، ص۲۵۹ ینابیع المودة ،ص۴۸۷؛بحا رالانوار ،ج۵۲، ص۳۷۸؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۸

(۴)عقد الدرر ،ص۲۲۲؛فرائد فوائد الفکر، ص۹

(۵)کمال الدین ،ج۱،ص ۳۳۱؛الفصول المہمہ، ص۲۸۴؛اسعاف الراغبین، ص۱۴۰

(۶)ینابیع المودة ،ص۴۲۳

(۷)القول المختصر ،ص۲۳

۱۴۱

رسول خدا فرماتے ہیں :اگر زندگی اور دنیا کی عمر صرف ایک روز باقی بچے گی؛ تو بھی خداوند عالم مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کو مبعوث کرے گا ،اور اس کے ذریعہ، دین کی عظمت کو واپس کرے گا،اور آشکار و فائق کامیابی ان کے لئے انھیں کے ذریعہ عطا کرے گا، اس وقت ہر ایک (لاالہ الا اللّٰہ) زبان سے کہے گا۔(۱)

جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں : رسول خدا نے فرمایا :” ذوالقرنین خدا وند عالم کے ایک شایستہ بندے تھے، جنھیں خد اوند عالم نے اپنے بندوں پر حجت قرار دیا، اور اس نے اپنی قوم کویکتا پرستی کی دعوت دی، اور تقویٰ و پر ہیز گاری کا حکم دیا، لیکن انھوں نے اس کے سر پر ایک وار کیا تو وہ مدتوں پوشیدہ رہے؛ اور اتنا کہ انھوں نے خیال کر لیا کہ وہ اب مر چکے ہیں، پھر کچھ مدت بعد اپنی قوم کے درمیان آئے لیکن پھر سر کے دوسرے حصہ پر وار کیا۔

تمہارے درمیان ایسا شخص ہے، جو سنت پر سالک ہوگا ،خد اوند عالم نے ذوالقرنین کو زمین پر اقتدار دیا اور ہر چیز کو ان کے لئے وسیلہ بنادیا تو انھوں نے دین اس کے ذریعہ پوری دنیا میں پھیلا دیا، خد اوند عالم وہی رفتارو روش امام غائب =جو میرے فرزندوں میں ہیں =جاری رکھے گا اور اسے مشرق ومغرب میں پہنچادے گا نیز کوئی پانی کی جگہ ،پہاڑ ،اوربیابان باقی نہیں ہوں گے جس پر ذوا لقرنین نے قدم نہ رکھا ہو، اور جیسے ہی قدم رکھیں گے خداوند عالم زمین کے خزانے و معادن ظاہر کردے گا اور ان کاخوف دشمنوں کے دل میںڈال کر ان کی مدد کرے گا، اور زمین کو ان کے ذریعہ عدل و انصاف سے بھر دے گا، جیسا کہ قیام سے پہلے ظلم و جور سے بھری ہوگی“(۲) دوسرے گروپ

____________________

(۱)عیون اخبار الرضا ،ص۶۵؛احقاق الحق ،ج۱۳، ص ۳۴۶؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۸

(۲)کمال الدین ،ج۲،ص۳۹۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۲۳،۳۳۶؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۸؛ملاحظہ ہو:ابن حماد، فتن، ص۹۵؛الصراط المستقیم،ج۲،ص۲۵۰،۲۶۲؛مفید، ارشاد ،ص۳۶۲؛ اعلام الوری، ص۴۳۰

۱۴۲

کی روایات شہروں پر فتح کی جانب اشارہ کرتی ہیں ، ہم اس سلسلے میں چند روایت کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں :

حضرت امیر المو منین(علیہ السلام)حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کی شام کی جانب روانگی کے بارے میں فرماتے ہیں : حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے حکم سے لشکر کے حمل ونقل کے اسباب فراہم کئے جائیں گے : اس کے بعد چار سو کشتی بنائی جائے گی، اور ساحل عکا کے کنارے لنگر انداز ہوگی، دوسری طرف سے ملک روم والے سو صلیب کے ہمراہ کہ ہر صلیب دس ہزار لشکر پر مشتمل ہوگی باہر آئیں گے،اور نیزوں اوراسلحوں سے پہل کریں گے، حضرت اپنے سپاہیوں کے ساتھ وہاں پہنچیں گے، اور انھیں اتنا قتل کریں گے کہ فرات کا پانی بدل جائے گا،اور ساحل ان کے جسم کی بوسے متعفن ہو جائے گا۔

اس خبر کو سنتے ہی ملک روم میں باقی ر ہ گئے، افراد انطاکیہ فرار کر جائیں گے۔(۱)

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب حضرت قائم قیام کریں گے تو ایک لشکر قسطنطنیہ بھیجیں گے، اور جب وہ لوگ خلیج تک پہنچیں گے تو اپنے پاوں پر ایک جملہ لکھیں گے، اور پانی پر سے گذر جائیں گے “(۲)

رسول خدا فرماتے ہیں :”ا گر عمر دنیا کا ایک دن بھی بچے گا تو خد اوند عالم میری عترت سے ایک ایسے شخص کو مبعوث کرے گا جو میرا ہمنام ہوگا، اور اس کی پیشانی چمکتی ہوگی، اور وہ قسطنطنیہ اور جبل دیلم کو فتح کرے گا “(۳)

____________________

(۱)ابن حماد، فتن، ص۱۱۶؛عقد الدرر، ص۱۸۹

(۲)بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۵

(۳)فردوس الاخبار، ج۳،ص۸۳؛شافعی، بیان، ص۱۳۷؛احقاق الحق، ج۱۳، ص۲۲۹و ج۱۹، ص۶۶۰

۱۴۳

حذیفہ فرماتے ہیں :دیلم و طبرستان ہاشمی مر دکے ہاتھوں فتح ہوں گے اور بس۔(۱)

امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں:” جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو قسطنطنیہ ،چین(۲) اور دیلم کے پہاڑ فتح کرکے سات سال تک فرمانروائی کریں گے“(۳)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے ساتھی قسطنطنیہ فتح کریں گے اور جہاں روم کا بادشاہ قیام پذیر ہے وہاں جائیں گے، اور وہاں سے تین خزانے نکالیں گے جواہرات ،سونے اورچاندی پھر اموال اور غنیمت لشکر کے درمیان تقسیم کردیں گے ۔(۴)

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں: حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) فوج کے لئے تین پر چم تین نقطے پر آمادہ کریں گے؛ ایک پر چم قسطنطنیہ(۵) پر لہرائیں گے ،تو خدا وند عالم اس پرفتح و غلبہ عطا کرے گا؛ دوسرا پر چم چین روانہ کریں گے(۶) وہاں بھی حضرت فاتح ہوں گے اور تیسرا پرچم دیلم کے پہاڑ کے لئے روانہ کریں گے، تووہ جگہ بھی آپ کے لشکر کے تصرف میں آجائے گی۔(۷)

____________________

(۱)ابن ابی شیبہ، مصنف ،ج۱۳،ص۱۸

(۲)صین (چین)مشرقی ایشیا کو کہتے ہیں نیز سابق سوویت یونین ،ہند ،نیپال ،برمہ،ویتنام ،جاپان ،چین اور کرہ کے دریا کو بھی شامل ہوتا ہے(المنجد)

(۳)بحارالانوار، ج۵۲، ص۳۳۹؛حقاق الحق، ج۱۳،ص۳۵۲؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۴۰۰

(۴)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۶۲

(۵)قسطنطنیہ ترکیہ میں ایک شہر ہے جو ساتویں صدی میں عیسوی سے قبل بنایا گیا ہے اور ایک مدت تک روم کے بادشاہ کا پایہ تخت بھی رہا ہے۔ معجم البلدان، ج۴،ص۳۴۷؛اعلام المنجد ،ص۲۸

(۶)دیلم گیلان کے پہاڑی حصہ میں ایک جگہ کانام ہے جو قزوین کے شمال میں واقع ہے، معجم البلدان ،ج۱،ص۹۹؛ اعلام المنجد ، ص۲۲۷؛برہان قاطع ،ج۱،ص۵۷۰

(۷)اثبات الہداة، ج۳، ص۵۸۵؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۸۸؛ملاحظہ ہو:بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۲؛ حدیث نمبر۱،۶،۱۱،۱۴،۱۷،۱۸،۱۹،۳۴،۳۵،۳۶،۴۶

۱۴۴

حذیفہ کہتے ہیں : کہ بلنجر(۱) اور دیلم کے پہاڑ فتح نہیں ہوں مگر آل محمد کے جوان کے(۲) ذریعہ حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں : پھر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہزار کشتی کے ہمراہ شہر قاطع سے شہر قدس شریف کی جانب روانہ ہوں گے، اور عکا،صور،غزہ،اورعسقلان(۳) ہوتے ہوئے فلسطین میں داخل ہو جائیں گے، اموال و غنیمت باہر لائیں گے، پھر حضرت قدس شریف میں داخل ہو کر وہاں پڑاو ڈال دیں گے، اور دجال کے ظاہر ہونے تک وہیں مقیم رہیں گے ۔(۴)

ابو حمزہ ثمالی کہتے ہیں : میں نے امام محمد باقر(علیہ السلام) سے سنا ہے کہ آپ نے فرمایا: ”کہ جب قائم آل محمد ظہور کریں گے تو اپنی تلوار نیام سے باہر نکال کر روم،(۵) چین،دیلم، سند،ترک،ھند،کابل،(۶) شام،(۷) خزر کو فتح کریں گے ۔(۸)

ابن حجر کہتے ہیں کہ: سب سے پہلے پر چم، کوتُرک روانہ کریں گے ۔(۹)

____________________

(۱)معجم البلدان، ج۱،ص۹۹؛اعلام المنجد ،ص۲۱۴

(۲)عقد الدرر، ص۱۲۳ابن منادی نے ملاحم میں نقل کیا ہے

(۳)فلسطین کے توابع شام میں ایک شہر ہے جو دریا کے کنارے واقع ہے یہ حصہ دو شہر غزہ اور بیت جبرین کے درمیان میں ہے، معجم البلدان، ج۳، ص۶۷۳

(۴)عقدالدرر، ص۲۰۱

(۵)روم اس وقت اٹلی کا مرکز ہے اس زمانے میں ایسی حکومت کا مر کز تھا کہ قیصر کے نامز د بادشاہ اس پر حکومت کرتے تھے، اور دنیا کے بڑے حصہ پر مسلط تھے، اس طرح سے کہ ان کا نفوذ بحر مدیترانہ ،شمالی افریقہ ،یونان ،ترکیہ،سوریہ،لبنان، اورفلسطین تک کو شامل تھا اور پورے علاقہ کو روم کہتے تھے

(۶)ترکستان بر اعظم میں واقع ہے اور چین اورروس کے درمیان تقسیم ہے نیز چین سے سین کیا نغ اور ترکمنستان ، تاشکند ،تاجکستان ،قرنجیر ،اور قزاقستان کو شامل ہے

(۷)جزیرہ کے مانند مثلث کی شکل میں ایشیاء کے جنوب میں واقع ہے اور جمہوری ہند ،پا کستان ،نیپال ،بھوٹان کو بھی شامل ہے،برہان قاطع،ج۱،ص۷۰۳،اعلام المنجد ،ص۵۴۲

(۸)نعمانی ،غیبة، ص۱۰۸ ؛بحا رالانوار ،ج۵۲،ص۳۴۸

(۹)القول المختصر، ص۲۶

۱۴۵

شاید ثمالی کی روایت میں سیف مخترط سے مراد خاص اسلحے ہوں جو حضرت مہدی کی دسترس میں آئیں گے ؛اس لئے کہ تمام سرزمینوں کو فتح کرنے کے لئے مافوق طاقت کی ضرورت ہے، اور ایسے مناسب اسلحے جو تمام اسلحوں پر بھاری ہوں؛ خصوصاً اگر ہم کہیں کہ حضرت اپنی مختلف فعالیت عادی اورمعمولی طریقوں سے انجام دیں گے ۔

ہند کے فتح ہونے کے بارے میں کعب کہتا ہے: جو حکومت بیت المقدس میں ہوگی ہند سپاہی بھیجے گی، اور اس جگہ کوفتح کرے گی، اس کے بعد وہ لشکرہند میں داخل ہو جائے گا، اور وہاں کے خزانے بیت المقدس کی حکومت کے لئے روانہ کریں گے، اورہند کے بادشاہوں کو اسیر کی صورت میں ان کے پاس لے آئیں گے مشرق و مغرب ان کے لئے فتح ہو جائے گا، اور دجال کے خروج تک فوجین ہند میں رہیں گی۔(۱)

خذیفہ کہتے ہیں : رسول خدا نے فرمایا : طاہر اسماء کے فرزند نے بنی اسرائیل سے جنگ کی،اور انھیں اسیر کیا، اور بیت المقدس میں آگ لگائی، اور وہاں سے۱ ۷۰۰/ سو یا۱ ۹۰۰/ سو کشتی جواہرات اور سونے کی شہر روم میں لایا یقینا حضرت مہدی اسے باہر نکال کر بیت المقدس واپس لائیں گے ۔(۲)

اگر چہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کا آغاز مکہ سے ہوگا(۳) لیکن ظہور کے بعد سر زمین حجاز کو فتح کریں گے(۴) امام محمدباقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :

____________________

(۱)عقد الدر ،ص۹۷،۳۱۹؛ابن طاوس ،ملاحم، ص۸۱؛حنفی ،برہان، ص۸۸

(۲)عقد الدر ،ص۲۰۱؛شافعی ،بیان، ص۱۱۴؛احقاق الحق، ج۱۳، ص۲۲۹

(۳)حجاز شمال سے خلیج عقبہ کی سمت مغرب سے بحر الاحمر مشرق سے نجد اور جنوب سے عسیر تک محدود ہوجاتا ہے لیکن حموینی کی نقل کے مطابق یمن میں اعماق صنعا سے شام تک کو حجاز کہتے ہیں اور تبوک و فلسطین بھی اسی کا جزء ہے۔ معجم البلدان

(۴)ابن حماد، فتن ،ص۹۵؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۴۱؛ابن طاوس، ملاحم، ص۶۴؛القول المختصر ،ص۲۳

۱۴۶

حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)مکہ میں ظہور کریں گے، لیکن حجاز بھی فتح ہو جائے گا ،اور تمام ہاشمی قیدیوں کو زندان سے رہا کریں گے ۔(۱)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فتح خراسان کے بارے میں فرماتے ہیں -: حضرت خراسان فتح ہونے تک اپنی تحریک جاری رکھیں گے،(۲) پھراس کے بعد مدینہ واپس آجائیں گے۔(۳)

آنحضرت حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہاتھوں آرمینة(۴) کے فتح ہونے کے بارے میں فرماتے ہیں : حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنی تحریک جاری رکھیں گے،اور جب آرمینیہ پہنچ جائیں گے، اور انھیں وہاں کے لوگ دیکھیں گے تو ایک دانشمند راہب کو حضرت سے مذاکرہ کے لئے بھجیں گے، راہب امام (علیہ السلام) سے کہے گا : کیا تم ہی مہدی ہو؟ تو حضرت جواب دیں گے : ہاں میں ہی ہوں؛ میںوہی ہوں جس کا نام انجیل میں ذکر ہے، اور آخر زمانہ میں جس کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے، وہ سوالات کرے گا اور امام جواب دیں گے ۔

عیسائی راہب اسلام لے آئے گا،لیکن آرمینیہ کے رہنے والے سر کشی اور طغیانی کریں گے، اس کے بعد حضرت کے سپاہی شہر میں داخل ہو جائیں گے اور پانچ سوعیسائی فوج کو نیست ونابود کردیں گے، خدا وندعالم اپنی بے پایاں قدرت سے ان کے شہر کو زمین وآسمان کے مابین معلق کر دے گا اس طرح سے کہ بادشا ہ اور اس کے حوالی موالی جو شہر کے باہر ساکن تھے شہر کو آسمان

____________________

(۱)خراسان اس وقت ایران ،افغانستان ،روس کی سر زمین کو کہتے تھے ۔اعلام المنجد، ص۲۶۷

(۲)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۵۸

(۳)ارمینیہ ایشیاء صغیر میں آرارات کے پہاڑوں اور قفقاز ،ایران ،ترکیہ اور دریائے فرات میں محدود تھاایک وقت ایسا آیا کہ مستقل حکومت ہوگئی اور بیزانس کی بادشاہی ختم ہو ئی تو یہ سر زمین ایران ،روس اور عثمانیوں کے مابین تقسیم ہوگئی، المنجد ،ص۵ ۲

(۴)وہی، ص۱۶۲

۱۴۷

وزمین کے درمیان دیکھیں گے، آرمینیة کا باد شاہ خوف سے فرار کرجاے گا، اور اپنے حوالی موالی سے کہے گا : کسی پناہ گاہ میں پناہ لو، اَثنا ء راہ میں ایک شیر راستہ بند کر دے گا ،وہ لوگ خوفزدہ ہو کر ا پنے ہمراہ لئے اموال و اسلحوں کو پھینک دیں گے، اور حضرت کے سپاہی جو ان کے تعاقب میں ہوں گے لے لیں گے، اور اپنے درمیان اس طرح تقسیم کریں گے کہ سب کو سو سوہزار دینار ملے۔(۱) فتح جہان کا دوسرا حصہ حضرت کے لئے زنج کے شہر ہیں اس سلسلے میں حضرت امیر (علیہ السلام) فرماتے ہیں:حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اپنی تحریک شہر زنج کبریٰ پہنچنے تک جاری رکھیں گے اس شہر میں ہزار بازار اور ہر بازار میں ہزار دکانیں ہیں ،حضرت اس شہرکو بھی فتح کریں گے،(۲) اسے فتح کرنے کے بعد قاطعِ نامی شہر کا عزم کریں گے، جو جزیرہ کی صورت سمندر کے اوپر واقع ہے۔(۳) حضرت امام محمدباقر(علیہ السلام) پوری دنیا میں لشکر بھیجنے سے متعلق فرماتے ہیں : گویا ہم قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو دیکھ رہے ہیں کہ انھوں نے اپنا لشکر پوری دنیا میں پھیلا دیا ہے“(۴)

نیز حضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)اپنے لشکر کو بیعت لینے کے لئے پوری دنیا میں روانہ کریں گے ،ظلم و ظالم کو مٹادیں گے، اور فتح شدہ شہر حضرت کے لئے ثابت و بر قرار ہو جائے گا، اور خد اوند عالم آپ کے مبارک ہاتھوں سے، قسطنطنیہ کو فتح کرے گا“(۵)

____________________

(۱)وہی،ص۱۶۴

(۲)وہی،ج۱،ص۱۶۴؛ملاحظہ ہو:عقد الدرر ،ص۲۰۰؛احقاق الحق ،ج۱۳، ص۲۲۹

(۳)مفید ،ارشاد، ص۳۴۱؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۷

(۴)ابن طاوس ،ملاحم، ص۶۴الفتاوی الحدیثیہ، ص۳۱

(۵)ضبہ حجاز میں ایک دیہات ہے جو شام کے راستے میں دریا کے کنارے واقع ہے اس کے کنارے حضرت یعقوب کا دیہات ”بدا“کے نام سے ہے بنی ضبہ ایک قبیلہ ہے جس نے جنگ جمل میں دشمنان علی کی مدد سے قیام کیا، اور اکثر و بیشتر رجز اورا شعار جو انھوں نے پڑھے، قبیلہ ضبہ اور ازد سے مربوط تھے، وہ لوگ اس جنگ میں عائشہ کے اونٹ کے ارد گرد رہے، اور اس کی حمایت کی سمعانی انساب ،ج۴،ص۱۲؛ابن ابی الحدید، شرح نہج البلاغہ، ج۹، ص۳۲۰وج۱،ص۲۵۳

۱۴۸

شورشوں کی سرکوبی ،فتنوں کی خاموشی

حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور ومختلف شہروں ا ور ملکوں کے فتح ہوجانے کے بعد بعض شہراور قبیلے کے لوگ حضرت کے مقابل آجائیں گے، لیکن حضرت کے لشکر کے ذریعہ شکست کھائیں گے، نیز بعض کج فکر افراد حضرت کی بعض مسائل میں نا فرمانی کریں گے ،اور حضرت کے خلاف طغیانی کریں گے، پھر دوبارہ حضرت کے لشکر کے ذریعہ سرکوب ہوں گے، اس سلسلہ میں روایات ملاحظہ ہوں ۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : تیرہ ۱۳/ شہر و طائفے(قبیلے) ایسے ہیں جو حضرت کے ساتھ جنگ کریں گے، اور حضرت ان سے جنگ کریں گے، وہ تیرہ درج ذیل ہیں ۔

مکہ ،مدینہ ،شام، بنی امیہ،بصرہ،دمنسیان ،کرد،عرب قبیلے،بنی ضبہ،(۱) غنی(۲) باھلہ ،(۳) ازد،سر زمین رے کے لوگ۔(۴)

امام محمدباقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی باتوں سے بعض لوگوں کی پر خاش کے بارے میں کہتے ہیں : جب حضرت مہدی کچھ احکام بیان کریں گے

____________________

(۱)غنی ایک قبیلہ ہے جو جزیرة العرب کی سر زمین ”ہار“جو موصل اور شام کے درمیان واقع ہے رہتا تھا، اور غنی بن یعصر نامی شخص سے منسوب ہیںسمعانی انساب، ج۴،ص۳۱۵

(۲)باہلہ، باہلہ بن اعصر کی طرف منسوب ایک طائفہ ہے عرب اس زمانے میں ان سے ارتباط و تعلق سے پر ہیز کرتے تھے اس لئے کہ ان کے درمیان شرافتمند اور محترم انسان کوئی نہیں تھا ،باہلہ طائفہ کے لوگ پست تھے، حضرت علی نے جنگ صفین میں جانے سے پہلے ان کے بارے میں کہا:”خدا شاہد ہے کہ میں تم سے اور تم ہم سے ناراض ہو،لہٰذا تم لوگ آو اور اپنا حق لے لو، اور کوفہ سے دیلم روانہ ہو جاو؛سمعانی انساب، ج۱،ص۲۷۵؛وقعة صفین، ص۱۱۶:النفی والتغریب ،ص۳۴۹؛ابن ابی الحدید ،شرح نہج البلاغہ ، ج۳،ص۲۷۲؛الغارات ،ج۲،ص۲۱

(۳)نعمانی، غیبة، ص۲۹۹؛بصائر الدرجات ،ص۳۳۶؛حلیة الابرار، ج۲،ص۶۳۲؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۶۳ و ج۲۸، ص۸۴

(۴)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۶۱؛تفسیر برہان، ج۲،ص۸۳؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۴۵

۱۴۹

یابعض سنت کی بات کریں گے، توبعض گروہ حضرت پر اعتراض اور مخالفت کرتے ہوئے مسجد سے باہرنکل پڑیں گا حضرت ان کے تعاقب کا حکم دیں گے، حضرت کا لشکر تمّارین محلہ میں ان پر قابو پائے گا، اور انھیں اسیر کر کے، حضرت کی خدمت میں لائیں گے، تو حضرت حکم دیں گے کے سب کی گردن مار دو، یہ حضرت کے خلاف آخری شورش و سر پیچی ہوگی۔(۱)

مقام رمیلہ میں یورش اور اس کی نابودی کے بارے میں ابی یعفور کے بیٹے کہتے ہیں :میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں اس وقت آیا جب کہ ایک گروہ ان کے پاس موجود تھا، حضرت نے مجھ سے کہا: کیا تم نے قرآن پڑھا ہے؟میں نے کہا :ہاں!لیکن اس معروف و مشہور قرآن سے، امام نے کہا:میری مراد یہی تھی میں نے کہا: اس سوال کا کیا مطلب ؟ تو آپ نے کہا: حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے لئے کچھ بیان کیا،لیکن وہ اس کے اہل نہیں تھے، اور حضرت کے خلاف مصر میں قیام کر بیٹھے، موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی ان کے ساتھ مبارزہ کیا اور قتل کر ڈالا۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے بھی اپنی قوم کو کچھ کہا، ان لوگوں نے اسے برداشت نہیں کیا، اور ان کے خلاف شہر تکریت میں قیام کر بیٹھے، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بھی ان کے روبرو آگئے ، اور انھیں نابو د کر دیا ،یہ خدا وند عالم کے قول کے معنی ہیں۔

( فامنت من بنی اسرائیل ) (۲)

نبی اسرائیل کا ایک گروہ ایمان لایا اور دوسرا گروہ کافر ہو گیا تو ہم نے ایمان لانے والے کی نصرت کی اور دشمنوں پر کامیابی عطا کی۔

____________________

(۱)سورہ صف، آیت۱۴

(۲)بصائر الدرجات، ص۳۳۶؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۷۵و ج۴۷، ص۸۴و ج۱۴، ص۲۷۹

۱۵۰

حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) بھی جب ظہور کریں گے توایسی باتیں کہیں گے جسے بر داشت نہیں کر پاوگے، اس اعتبار سے شہر رمیلہ میں حضرت کے خلاف قیام اورجنگ کروگے، توحضرت بھی تمہارے مقابل آکر تمہیں قتل کریں گے ،یہ حضرت کے خلاف آخری یورش ہوگی“(۱)

ھ)جنگوں کا خاتمہ

حضرت امام عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت بر قرار اور نظام الٰہی کے استوار ہونے اور شیطانی طاقتوں کے خاتمے سے جنگ رک جائے گی، پھر کوئی ایسی طاقت نہیں ہوگی جو حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی فوج سے نبردآزمائی کرے اس لحاظ سے فوجی ساز و سامان بغیر مانگ کے بازاروں میں نظر آئیں گے، آخر کا راتنے سستے ہوں گے کہ کوئی خریدار نہ ہوگا۔

حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں: جنگیں بھی ختم ہو جائیں گی۔(۲)

کعب کہتے ہیں : اس وقت ایاّم کا خاتمہ ہوگا جب قریش سے ایک شخص بیت المقدس میں ساکن ہو جائے اور جنگیں بھی بند ہوجائیں ۔(۳) رسول خدا نے ایک خطبہ میں دجال اور اس کے قتل ہونے کے بارے میں فرمایا: کہ اس کے بعد ایک گھوڑے کی قیمت چند درہم ہو جائے گی۔(۴)

ابن مسعود کہتے ہیں :قیامت کی ایک علامت یہ ہے کہ عورت اور گھوڑے مہنگے ہو جائیں گے؛پھر اس کے بعد سستے ہوجائیں گے کہ قیامت تک پھر کبھی ان کی قیمت نہیں بڑھے گی ۔(۵)

____________________

(۱)ابن حماد ،فتن، ص۱۶۲؛المعجم الصغیر ،ص۱۵۰؛احقا ق الحق، ج۱۳،ص۲۰۴

(۲)عقد الدرر، ص۱۶۶ ؛ملاحظہ ہو:عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱،ص۴۰۱

(۳)ابن طاوس ،ملاحم ،ص۱۵۲

(۴)المعجم الکبیر، ج۹،ص۳۴۲؛ اور اسی سے مربوط مطلب عقد الدرر، ص۳۳۱خارجہ ابن صلت سے نقل ہوا ہے

(۵)الفائق، ج۱،ص۳۵۴

۱۵۱

شاید ظہور امام زمان(عجل اللہ تعالی فرجہ) سے پہلے عورت کی گرانی سے مراد یہ ہو کہ اقتصادی حالات کے ناگوار ہونے سے ایک عورت کی حفاظت اور خاندانوں کی تشکیل مشکل ہو جائے گی ؛اس طرح سے کہ جنگوں کی زیادتی اور گھوڑوں کی ضرورت کی بناء پر جنگی سامان کی فراہمی دشواراور گراں ہوگی، لیکن جنگ بند ہونے اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کے بعد جنگی آلات سستے ہو جائیں گے، اور اقتصادی حالات کی بہتری کی وجہ سے ازدواجی مشکل آسان ہو جائے گی گویا عورت سستی ہوگئی ہو۔

زمخشری نقل کرتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کی ایک علامت یہ ہے کہ شمشیر کو کلہاڑی کی جگہ استعما ل کیا جائے گا۔(۱)

اس لئے کہ جب اس زمانے میں پھر کوئی جنگ نہ ہوگی؛تو نتیجہ کے طور پر وہ آلات و ہتھیار جو جنگ میں استعما ل ہوتے ہیں، کھیتوں کی ترقی میں استعمال ہوں گے۔

رسول خدا فرماتے ہیں : گائے کی قیمت بڑھ جائے گی، لیکن گھوڑے کی قیمت گھٹ جائے گی(۲) شاید اس روایت کی بھی تفسیر اسی طرح ہو؛ اس لئے کہ گائے کاا ستعمال کھیتی میں ہونے لگے گا، اور اس کا گوشت ،اور دودھ قابل استفاہ ہوگا؛ لیکن گھوڑوں کازیادہ تر استعمال جنگی آلات کی جگہ ہوتاہے (اور جنگ ختم ہو چکی ہوگی)

____________________

(۱)الفائق، ج۱،ص۳۵۴

(۲)ابن حماد ،فتن ،ص۱۵۹؛ابن طاوس ،ملاحم، ص۸۲

۱۵۲

پانچویں فصل :

غیبی امداد

اگر چہ ساری روایات میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے بعداکثر جنگوں کی نسبت میدان رزم سے دی گئی ہے کہ جو پوری دنیا سے چل کر حضرت سے ملحق ہو جائیں گے، لیکن ساری کائنات پر تکنالوجی کی ترقی اور صنعتوں کی پیشرفت اور علمی ارتقاء کے باوجود ظہورسے قبل کامیابی حاصل کرنا ایک مشکل کام ہے؛ مگر ایک ایسے رہبر کے ذریعہ جس کی مدد و تائید خدا کی طرف سے ہو،انجام پذیر ہو۔

کبھی غیبی امداد اس قدرت میں ہے جو خدا وند عالم نے حضرت کو دی ہے نیز حضرت کرامتیں ظاہر کر کے راستے کی مشکلیں دور کریں گے، یا اتنا رعب و خوف ہوگا جس سے دشمن سپر انداختہ ہو جائے گا، یا خدا وند عالم ملائکہ کو حضرت کی مدد کے لئے بھیجے گا، بعض روایات میں فرشتہ صفت افواج کا بیان ہے کہ وہ لوگ حضرت کے ظہور کے منتظر اور مدد کے لئے آمادہ ہیں، تابوت اور اس میں موجود اشیاء نصرت و مدد کے ایک دوسرے وسیلے کے عنوان سے مذکور ہیں ۔

اس فصل میں اس طرح کی بعض روایات ذکر کریں گے۔

الف) رعب ،خوف اورامام کے اسلحے

حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: ہمارے قائم کی مدد رعب ، دبدبہ اور خوف کے ذریعہ ہوگی “(۱)

____________________

(۱)مستدرک الوسائل ،ج۱۲،ص۳۳۵و ج۱۴،ص۳۵۴

۱۵۳

( ان کا رعب دشمنوں کے دلوں میں اتنا ہوگا کہ ڈر سے ہتھیار ڈال دیں گے)

نیز حضرت فرماتے ہیں : ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی تین طرح کے لشکر سے مدد کی جائے گی : فرشتے ،مومنین اور رعب و ہیبت دشمنوں کے دل میں خوف پیدا ہوگا۔(۱)

امام محمد باقر(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں : خوف و وحشت امام مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی قدرت میں شمار ہوں گے اور وہ آپ کے سپاہیوں کے آگے آگے نیز پیچھے کے لحاظ سے بھی یک ماہ کے فاصلہ سے ظاہر ہوگا ۔(۲)

اسی طرح حضرت فرماتے ہیں : خوف و رعب حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے پرچم کے آگے ایک ماہ کے فاصلہ سے نیز پشت سے بھی ایک ماہ کے فاصلہ سے ظاہر ہوگا، اسی طرح داہنے اور بائیں طرف سے بھی ۔(۳)

ان روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ جب حضرت مہدی کسی جگہ کا ارادہ کریں گے تو دشمن پہلے ہی خوف و دہشت میں مبتلاء ہو جائے گا، اور حضرت کے سپاہیوں کے روبرو ہونے اور مقاومت کی صلاحیت کھو بیٹھے گا یہی صورت ہوگی جب حضرت کے لشکر والے کہیں جائیں گے تو کسی میں یورش کرنے کی جرات نہ ہوگی؛ اس لئے کہ دشمن حضرت کے لشکر سے خوفزدہ ہوگا یہ تفسیر و توضیح پہلے بیان کی جانے والی روایت سے ظاہر طور پر تضاد رکھتی ہے۔

ب) فرشتے اور جنات

حضرت امیر المو منین علیہ السلام فرماتے ہیں :خداوند عالم حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی فرشتوں اور جنات نیز مخلص شیعوں کے ذریعہ مدد کرے گا ۔(۴)

____________________

(۱)بحارالانوار، ج۵۲،ص ۳۵۶

(۲)وہی، ص۳۴۳

(۳)نعمانی، غیبة، ص۳۰۸؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۱

(۴)حصینی،الھدایہ،ص۳۱،ارشاد القلوب،ص۲۸۶

۱۵۴

ابان بن تغلب کہتے ہیں:امام جعفر صادق(علیہ السلام)نے فرمایا: گویاابھی میںحضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو شہر نجف کی پشت پر دیکھ رہا ہوں جب وہ دنیا کے اس نقطہ پر پہنچ جائیں گے توآپ سیاہ گھوڑے پر جس کے بدن پر سفید چتی ہوگی اور پیشانی پر ایک سفید نشان ہوگا سوار ہوں گے ،دنیا کے شہروں کو فتح کریں گے، دنیا کا ہر شہر قبول کرے گا، نیز حضرت مہدی انھیں شہروں میں ان کے درمیان ہوں گے، جب کہ وہ رسول خدا کا پر چم لہرا رہے ہوں گے ، ۳۱۳/ افراد فرشتے اس پرچم کے نیچے ہوں گے، جو برسوں سے ظہور کے منتظر تھے ،اور جنگ کے لئے آمادہ ہوجائیں گے، یہ وہی فرشتے ہیں جو حضرت نوح(علیہ السلام)کے ساتھ کشتی میں،ابراہیم(علیہ السلام) کے ساتھ آگ میں، عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ آسمان کی جانب پرواز کرنے میں ساتھ تھے ۔

اسی طرح چار ہزار فرشتے حضرت کی مدد کو آئیں گے، وہی فرشتے جو سر زمین کربلا پر امام حسین (علیہ السلام) کے ہمرکاب جنگ کے لئے آئے تھے، لیکن اس کی انھیں اجازت نہیں ملی، اور آسمان کی طرف چلے گئے، اور جب اذن جہاد کے ساتھ لوٹے، تو امام حسین (علیہ السلام) شہید ہو چکے تھے اور اس عظیم فیض کے کھو دینے پر مسلسل غمگین و محزون ہیں، اور قیامت تک امام حسین (علیہ السلام)کی ضریح کا طواف اور گریہ کرتے رہیں گے ۔(۱)

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں: گویا ابھی میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے یاوروں کو دیکھ رہا ہوں کہ جبرئیل فرشتہ حضرت مہدی کے داہنے جانب میکائیل بائیں جانب اور خوف و ہراس سپاہیوں کے آگے آگے ایک ماہ کے فاصلہ سے معلوم ہو رہا ہے، خدا وند عالم ان کی پانچ ہزار فرشتوں سے مدد کرے گا۔(۲)

____________________

(۱)کمال الدین ،ج۲،ص۶۷۲؛نعمانی ،غیبة، ص۳۰۹؛کامل الزیارات ،ص۱۲۰؛العدد القویہ ،ص۷۴؛مستدرک الوسائل ، ج۱۰،ص۲۴۵

(۲)بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۴۳؛نورا لثقلین ،ج۱،ص۳۸۸؛القول المختصر ،ص۲۱

۱۵۵

نیز آنحضرت فرماتے ہیں : جن فرشتوں نے رسول خدا کی جنگ بدر میں مدد کی تھی، ابھی تک آسمان پر نہیں گئے، بلکہ حضرت صاحب الامر (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی مدد کے لئے زمین پر موجود ہیں ،اور ان کی تعداد پانچ ہزار ہے۔(۱)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لئے ۹۳۱۳ فرشتے آسمان سے آئے ہیں، یہ وہی فرشتے ہیں جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے ہمراہ تھے جب خداوند عالم نے انھیں آسمان پر بلایاتھا“(۲)

حضرت علی(علیہ السلام) فرماتے ہیں : حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)تین ہزار فرشتوں کے ذریعہ مورد تائید واقع ہوں گے، وہ لوگ دشمنوں کے چہرے خراب اور کمر توڑ ڈالیں گے۔(۳)

آیہ شریفہ( اَتَیٰ اَمْرُ اللّٰهِ فَلَاْ تَسْتَعْجِلُوْه ) (۴) امر الٰہی آپہنچا ہے لہٰذا اس کے بارے میں جلدی نہ کرو، کی تفسیر میں امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: یہ امر الٰہی ہمارا امر ہے، یعنی خدا وند عالم نے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کے لئے حکم دیا ہے کہ جلد بازی نہ کرو؛اس لئے کہ خدا وند عالم تین طرح کے لشکر فرشتوں ،مومنین اوررعب ودبدبہ کے ذریعہ ان کی پشت پناہی کرے گا ،اورہم اپنا حق پائیں گے۔(۵)

____________________

(۱)اثبا ت الہداة، ج۳،ص۵۴۹؛نور الثقلین ،ج۱۲،ص۳۸۸؛مستدرک الوسائل، ج۲،ص۴۴۸

(۲)بحار الانوار، ج۱۴،ص۳۳۹ملاحظہ ہو:نعمانی غیبة،ص۳۱۱

(۳)ابن حماد، فتن، ص۱۰۱؛شافعی، بیان، ص۵۱۵؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۷۳؛الصواعق المحرقہ، ص۱۶۷؛کنزل العمال ، ج۴،ص۵۸۹؛ابن طاوس، ملاحم، ص۷۳؛احاق الحق ،ج۱۹،ص۶۵۲

(۴)سورہ نحل، آیت۱

(۵)تاویل الآیات الظاہرہ، ج۱،ص۲۵۲؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۶۲؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۵۶

۱۵۶

حضرت امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو خد اوند عالم فرشتوں کو حکم دے گا کہ مومنین کی مجالس میں شرکت کریں، اور ان پر سلام کریں اور اگر کسی مومن کو حضرت سے کوئی کام ہو گا تو حضرت فرشتوں کو حکم دیں گے کہ انھیں دوش پر اٹھا کر میرے پاس لے آو، اور جب ضرورت بر طرف ہو جائے گی تو پھر اسے پہلی جگہ لوٹا دیں گے ۔

بعض مومنین بادل کے اوپر چلیں گے، اور بعض فرشتوں کے ہمراہ آسمان پر پرواز کریں گے،اور بعض گروہ فرشتوں پر بھی سبقت لے جائیں گے نیز بعض مومنین کو فرشتے قاضی بنائیں گے، اس لئے کہ مومن کی خدا وندعالم کے نزدیک فرشتہ سے بھی زیادہ اہمیت اور قیمت ہے، اتنی کہ بعض مومنین کو سو ہزار فرشتے پر قاضی بنائے گا“(۱)

شاید مومنین کی فرشتوں کے درمیان قضاوت کرنا علمی مسائل میں رفع اختلاف کے عنوان سے ہو ااورس طرح کے اختلافات فرشتوں کی عصمت کے منافی نہیں ہیں ۔

ج)زمین کے فرشتے

محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے علمی میراث اور اندازہ کے بارے میں سوا ل کیا ؟ تو حضرت نے جواب دیا:خدا وند عالم کے دو شہرہیں، ایک مشرق میں اور ایک مغرب میں، ان دو شہروں میں ایسا گروہ رہتا ہے جو نہ ابلیس کو پہچانتا ہے، اور نہ ہی اس کی خلقت کے بارے میں کچھ جانتا ہے، اور جب کچھ دن کے بعد ایک بار ان کی زیارت کرتا ہوں تو مبتلا بہ مسائل اور دعا کی کیفیت کے بارے میں سوا ل کرتے ہیں، اور ہم انھیں سکھاتے ہیں، اسی طرح وہ لوگ حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے وقت کے بارے میں سوال کرتے ہیں،اوروہ لوگ خداوند عالم کی عبادت و پر ستش میں بہت زیادہ ہی کوشاں رہتے ہیں ۔

____________________

(۱)دلائل الامامہ، ص۲۴۱؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۷۳

۱۵۷

اس شہر میں دروازے ہیں جس کا ہر پلہ سو فرسخ فاصلہ پر ہے، وہ لوگ عبادت ، خدا کی تمجید اور دعاکی بہت کوشش کرتے ہیں، اگر تم لوگ انھیں دیکھوگے تو اپنے کر دار و رفتار کو معمولی شمار کروگے، نیز جب ان میں بعض نماز کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو ایک ماہ تک سجدہ کی حالت میں رہتے ہیں، ان کی غذا اللہ کی ستائش ،لباس پتے اوران کے رخسار نور کے سبب درخشاں ہیں، اگر ہم میں سے کسی امام کے روبروہوتے ہیں تو انھیں چاروں طرف سے گھیرے میں لے کر ان کے قدموں کی خاک اٹھا کر تبرک حاصل کرتے ہیں، نماز کے وقت ایسی آہ و زاری کرتے ہیںجو طوفان کی صدا سے زیادہ سہمانے والی ہوتی ہے، ان میں سے بعض گروہ جس دن سے حضرت کے ظہور کے منتظر ہیں کبھی اسلحے زمین میں نہیں رکھا ہے اور ان کی حالت ایسی ہی تھی، وہ ہمیشہ خدا وند عالم سے درخواست کرتے ہیں کہ صاحب الامر(عجل اللہ تعالی فرجہ) کو ظاہر کر دے۔

ان میں ہر ایک، ہزار سال زندہ رہتا ہے، ان کے رخسار سے خدا وندعالم کی بندگی اورتقرب و عاجزی کے آثار نمایا ں ہیں، اور جب ہم ان کے پاس نہیں جاتے ہیں تو وہ خیال کرتے ہیں کہ ہم ان سے راضی نہیں ہیں، اور جس وقت ہم ان کے دیدار کو جاتے ہیں تو وہ دیکھتے رہتے ہیں اور اسی وقت سے ہمارے انتظار میں بیٹھ جاتے ہیں، اور کبھی تھکتے نہیں ۔

جیسا میں نے انھیں سکھایا ہے اسی طرح قرآن پڑھتے ہیں، لیکن کچھ قرائتیں جو ہم نے سکھائی ہیں،اگر لوگوں کے سامنے پڑھی جائیں تو وہ قبول نہیں کریں گے،اور جو قرآنی مطالب کے بارے میں سوال کرتے ہیں اور ہم جواب دیتے ہیں، تو اپنے سینہ و فکر کو کھول دیتے ہیں ،نیز وہ ہمارے لئے خدا وند عالم سے طول عمر کی دعاکرتے ہیں، تاکہ ہمیں اپنے ہاتھوں نہ گنوائیں، و ہ جانتے ہیں کہ جو ہم سے سیکھتے ہیں خدا وندعالم کا احسان سمجھتے ہیں ۔

۱۵۸

جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو وہ لوگ حضرت کے ہمراہ ہوں گے ، اور امام کے دیگر سپاہیوں پر سبقت حاصل کریں گے، اور خدا وند عالم سے دعاکریں گے کہ وہ اپنے دین کی ان لوگوں کے ذریعہ مدد کرے، ان کا گروہ جوان اور بزرگ دونوں پر مشتمل ہے، اگر کوئی ایک جوان کسی بزرگ کو دیکھتا ہے تو ان کے احترام میں غلام کی طرح بیٹھ جاتا ہے، اور بغیر اجازت اپنی جگہ سے نہیں اٹھتا،نیز جس راہ کو وہ لوگ خود بہتر سمجھتے ہیں اسی راہ سے امام کے خیالات کو جان لیتے ہیں ،اور امام اگر کوئی حکم دیتے ہیں تو اس پر آخر تک باقی رہتے ہیں ،مگر یہ کہ خود حضرت انھیں کوئی دوسرا کام سپرد کردیں۔

اگرمشرق ومغرب والو ں سے جنگ کے لئے جائیں گے، تو انھیں منٹوں میں نیست و نابود کر دیں گے، اور ان پر اسلحوں کا کوئی اثر نہیں ہوگا، آھنی اسلحے اور تلواریں ان کے پاس ہیں، لیکن آلیاژ(یعنی ہم بستہ) لوہے کے علاوہ ہے، اگر کسی پہاڑ پر تلوار مار دیں تو دوٹکڑے ہو جائے گا،اور اسے اس جگہ سے اکھاڑ پھینکیں گے،امام(عجل اللہ تعالی فرجہ) ان سپاہیوں کو ، ھند،دیلم،کرد،روم، بربر، فارس،جابرسا،جابلقا اور مشرق ومغرب کے دوشہر کی سمت جنگ کے لئے روانہ کریں گے۔

کسی بھی ادیان کے ماننے والوںسے تعارض نہیں کریں گے، مگر یہ کہ پہلے انھیں اسلام اوریکتا پرستی ،پیغمبر کی نبوت اور ہماری ولایت کی دعوت دے دیں، لہٰذا جو قبول کرے گا اسے چھوڑدیں گے، اور جو انکار کرے گا اسے قتل کر ڈالیں گے، اسی طرح سے ہوگا کہ مشرق و مغرب میں صرف مومن رہ جائیں گے۔(۱)

ان سپاہیوں کا سرسری جایزہ لینے سے یہی سمجھ میں آتا ہے کہ شاید وہ لوگ وہی فرشتے ہیں جو زمین پر کسی جگہ رہ کر حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے قیام کا انتظار کر رہے ہیں ۔

د)تابوت موسیٰ (علیہ السلام)

”غایة المرام“ میں رسول خدا سے اس طرح منقول ہے: حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)

____________________

(۱)بصائر الدرجات ،ص۱۴۴؛اثبات الہداة ،ج۳ ،ص۵۲۳؛تبصرہ الولی ،ص۹۷؛بحار الانوار، ج۲۷،ص۴۱و ج۵۴ ، ص۳۳۴

۱۵۹

کےظہور کے وقت حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے زمین پر آئیں گے تو ا نطاکیہ سے کتابیں اکٹھا کریں گے ،خدا وند عالم (ارم ذات العماد)(۱) کے رخ سے پردہ اٹھا دے گا اور جو محل حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے اپنی موت سے پہلے بنوایا تھا اسے ظاہر کردیں گے، حضرت ، محل میں موجود ہ چیزوں کو جمع کرکے مسلمانوں کے درمیان تقسیم کر دیں گے، اور وہ تابوت جسے خدا وند عالم نے ”ارمیا“کو حکم دیا تھا کہ طبرستان کے دریا میں ڈال دو اسے نکال لیں گے،جو کچھ موسیٰ (علیہ السلام) وہارون کے خاندان کی یاد گار ہے اسی تابوت میں ہے، نیز الواح ،موسیٰ(علیہ السلام) عصا، ہارون کی قبا ،نیز دس کیلو وہ غذا جو بنی اسرائیل کے لئے نازل ہوئی تھی اور مرغ بریاں جو اپنے آیندہ کے لئے ذخیرہ کر تے تھے اسی تابوت میں ہے، پھر اس وقت تابوت کی مدد سے شہروں کو فتح کریں گے، اسی طرح کہ اس سے پہلے بھی ایسا کیا ہے۔(۲)

”ینابیع المودة“ معمولی تبدیلی کے ساتھ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) سے اس بات کی نسبت دیتی ہے کہ حضرت مہدی انطاکیہ کے غار سے کتابیں نکالیں گے،اور حضرت داود (علیہ السلام) کی زبور، طبرستان کے چھوٹے دریا سے باہر نکالیں گے، اس کتاب میں خاندان موسیٰ و ہارون( علیہما السلام) کی یاد گار ہے، فرشتے اسے کاندھے پر اٹھائے ہیں، الواح اور موسیٰ (علیہ السلام) کاعصا اسی میں ہے ۔(۳)

____________________

(۱)اس آیہ شریفہ <اِرَم ذاتِ العِماد التی لَمْ یُخلَق مثلها فی البِلاد >اے رسول کیا تم نے نہیں دیکھا کہ تمہارے پروردگار نے شہر ارم کے باشندے جو صاحب اقتدار تھے انھیں کیسا مزہ چکھایا ؟جب کہ ویسا شہر مضبوطی و عظمت کے اعتبار سے دنیا میں نہیں تھا )کی طرف اشارہ ہے سورہ فجر آیت ۸اس بات کا مطلب یہ ہے کہ ایسا باعظمت و پر رونق شہر دوبارہ حضرت عیسیٰ کے لئے آشکار ہوگا، اور یہ پوشیدہ شہر ظاہر ہو جائے گا

(۲)غایة المرام، ص۶۹۷؛حلیة الابرار، ج۲،ص۶۲۰؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۱۳۶؛ملاحظہ ہو:ابن طاوس ،ملاحم ، ص۱۶۶؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۸۹،۵۴۱

(۳)ینا بیع المودة، ص۴۰۱؛ابن حماد، فتن ،ص۱۹۸؛متقی ہندی، برہان ، ص۱۵۷؛ابن طاوس، ملاحم، ص۶۷

۱۶۰