حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر0%

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 284

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی
زمرہ جات: صفحے: 284
مشاہدے: 126346
ڈاؤنلوڈ: 3795

تبصرے:

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 284 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126346 / ڈاؤنلوڈ: 3795
سائز سائز سائز
حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو تین ایسا حکم دیں گے کہ آپ سے پہلے کسی نے ایسا حکم نہ دیا ہوگا ۔ آنحضرت بوڑھے زنا کار مرد کو پھانسی دیں گے اور زکوة نہ دینے والوں کو قتل کردیں گے ایک برادردینی کی میراث دوسرے برادر دینی کودیں گے (یعنی جو عالم ذر میں باہم بھائی رہے ہوں گے)“(۱)

علامہ حِلّی زکوة نہ دینے والے کی پھانسی کے بارے میں کہتے ہیں: مسلمان ہر زمانہ میں زکوة کے وجوب پر متفق اور زکوة کو اسلام کے پنجگانہ ارکان میں سے ایک جانتے ہیں۔ لہٰذاجو اس کے وجوب کو قبول نہ کرے جبکہ فطری مسلمان ہو اور مسلمانوں کے درمیان نشو ونما پائی ہو، تو اسے بغیر توبہ کے پھانسی دیدیں گے اور اگر مسلمان ملی ہوگا تواسے تین بار مرتد ہونے کے بعد، توبہ کی مہلت دیں گے اس کے بعد پھانسی دیدیں گے۔

یہ احکام اس صورت میں ہیں جب آگاہ و باشعور انسان وجوب کے بارے میں علم رکھتا ہو لیکن اگر وجوب سے ناواقف ہو تو اس پر کفر کا حکم نہیں لگے گا“(۲)

مجلسی اول، اس روایت کی شرح میں بعض وجوہ کو بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں : شاید مراد یہ ہو کہ حضرت ان دو مورد میں اپنے علم کے مطابق حکم اور قضاوت کریں گے اور شاہد کی ضرورت نہیں ہوگی جیسا کہ یہی روش حضرت کے دیگر فیصلوں میں بھی ہوگی ان دو مورد سے اختصاص دینے کا راز اہمیت کے لحاظ سے ہے ۔(۳)

____________________

(۱)صدوق ،خصال، باب ۳،ص۱۳۳ ؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۹۵

(۲)تذکرة الفقہاء، ج۵،ص۷کتا ب زکات ؛ملاحظہ ہو:مرا ة العقول ،ج۱۶،ص۱۴

(۳)روضة المتقین، ج۳،ص۱۸

۱۸۱

۲ ۔قانون ارث

امام موسیٰ کاظم (علیہ السلام) فرماتے ہیں : خدا وند عالم نے، جسم سے دس ہزارسال قبل ارواح کو خلق فرمایا۔ان میں سے جو ایک دوسرے سے آسمان پر آشنا و متعارف رہے ہیں وہ زمین پر بھی آشنارہیں گے اور جو ایک دوسرے سے اجبنی رہا ہے، زمین پر بھی ایسا ہی ہوگا جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو برادر دینی کو میراث تو دیں گے لیکن نسبی برادر کو محروم کر دیں گے یہی معنی ہیں خداوند عالم کے قول کے سورہ مومنون میں :( فَاِذَاْ نُفِخَ فِیْ الصُّورِ فَلاَ اَنْسَابَ بَیْنَهُمْ یَوْمَئِیذٍ وَلَاْ یَتَسَائَلُوْنَ ) (۱) جب صور پھونکاجائے گا تو اس وقت لوگوں کے درمیان کوئی نسب نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کی علت دریافت کریں گے۔(۲)

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” خدا وندعالم نے جسم کی خلقت سے دس ہزار سال قبل ،ارواح کے درمیان بھائی چارگی قائم کی لہٰذا جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو برادران دینی جن کے درمیان برادری قائم ہے ایک دوسرے کے وارث ہوں گے اور نسبی بھائی جو ایک ماں باپ سے ہوں گے ایک دوسرے کے وارث نہیں ہوں گے“(۳)

۳ ۔جھوٹوں کا قتل

امام جعفرصاد ق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”جب حضرت قائم ظہور کریں گے تو سب سے پہلے جھوٹے شیعوں کا تعاقب کریں گے اور انھیں قتل کر ڈالیں گے۔“(۴) احتما ل ہے کہ شاید

____________________

(۱)سورہ مومنون آیت۱۰۱

(۲)دلائل الامامہ، ص۲۶۰؛تفسیر برہان ،ج۳،ص۱۲۰؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۴۰۲

(۳)الفقیہ، ج۴،ص۲۵۴؛صدوق ،عقاید، ص۷۶؛حصینی، ہدایہ، ص۶۴،۸۷؛مختصر البصائر، ص۱۵۹؛روضہ المتقین، ج۱۱،ص۴۱۵؛بحار الانوار، ج۶،ص۲۴۹وج۱۰۱،ص۳۶۷

(۴)کشی، رجال، ص۲۹۹؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۶۱

۱۸۲

اس سے مراد منافقین اور مہدویت کے مدعی اور بدعت گذار افراد ہوں جو دین سے لوگوں کے منحرف ہونے کا سبب بنے ہیں ۔

۴ ۔حکم جزیہ کا خاتمہ

حضرت امیر المو منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”خدا وند عالم دنیا کا اس وقت تک خاتمہ نہیں کرے گا، جب تک حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام نہ کریں اور ہمارے دشمنوں کو نیست و نابود اور جزیہ قبول نہ کریں اور صلیب و بتوں کونہ توڑدیں نیز جنگ کا زمانہ ختم ہوگا اور لوگوں کو مال ودولت لینے کے لئے آواز دیں گے اور ان کے درمیان اموال کو برابر سے تقسیم کریں گے اور لوگوں سے عادلانہ رفتار رکھیں گے“(۱)

رسول خدا نے صلیبوں کے توڑنے اورسوروں کے قتل کرنے کے بارے میں (کہ اس کا مطلب جزیہ کا حکم اور مسیحیت کا دور ختم ہونا ہے) فرماتے ہیں :” حضرت مہدی ایک منصف فرمانروا کی حیثیت سے ظہور کریں گے صلیبوں کو توڑ اور سوروں کو قتل کر ڈالیں گے نیز اپنے کار گذاروں کو حکم دیں گے،مال ودولت لئے شہروں کا چکر لگائیں تاکہ نیاز مند اسے لے لیں؛ لیکن کوئی نیاز منداور محتاج نہیں ملے گا“(۲) شاید یہ حدیث مسیحیت اور اہل کتاب کے آخری دور کی طرف اشارہ ہو۔

۵ ۔ امام حسین (علیہ السلام) کے باقی ماندہ قاتلوں سے انتقام

ہروی کہتے ہیں : میں نے حضرت امام رضا (علیہ السلام) سے عرض کیا: یابن رسول اللہ!

____________________

(۱)اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۹۶

(۲)عقدالدرر، ص۱۶۶؛القول المختصر ،ص۱۴

۱۸۳

امام جعفر صادق(علیہ السلام) کی اس بات کا آپ کی نظر میں کیا مطلب ہے کہ آپ فرماتے ہیں : ”جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلین کے باقی ماندہ افراد اپنے اباو اجداد کے گناہ کی سزا پائیں گے “کیا ہے؟حضرت امام رضا(علیہ السلام) نے کہا:” یہ بات ٹھیک ہے۔پھر میں نے ان سے کہا کہ اس آیت( وَلاَ تَزِر وَاْزِرَة وِزْر اُخْرَیٰ ) (۱) ” کوئی کسی دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا “کے کیا معنی ہیں ؟

توآپ نے کہا: جو خدا نے کہا ہے وہ درست ہے لیکن امام حسین (علیہ السلام) کے قاتلین کے باقی ماندہ افراد اپنے آباو اجداد کے رویہ سے خوشحال ہیں اور اس پر فخر کرتے ہیں اور جوکوئی کسی چیز سے خوش ہو تو وہ اس شخص کے مانند ہے جس نے انجام دیا ہو اگر کوئی شخص مشرق میں قتل کیا جائے اور دوسرا مغرب میں رہ کر اس قتل پر اظہار خوشی کرے خدا وند عالم کے نزدیک قاتل کے گناہ میں شریک ہے۔

اور حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) امام حسین(علیہ السلام) کے قاتلوں کے باقی ماندہ افراد کو نیست و نابود کریں گے؛ اس لئے کہ وہ اپنے آباو اجداد کے کردار پر اظہار خوشی کرتے ہیں“

میں نے کہا : آپ کے قائم سب سے پہلے کس گروہ سے شروع کریں گے ؟ آپ نے کہا: ”بنی شیبہ سے ان کے ہاتھوں کو قطع کریں گے اس لئے کہ وہ مکہ معظمہ میں خانہ خدا کے چور ہیں “(۲)

۶ ۔رہن و وثیقہ کا حکم

علی کہتے ہیں کہ میرے والد ،سالم نے امام جعفرصادق(علیہ السلام) سے حدیث ”جو کوئی

____________________

(۱)سورہ کہف آیت ۹

(۲)علل الشرائع، ج۱،ص۲۱۹؛عیون اخبار الرضا، ج۱،ص۲۷۳؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۱۳؛اثبات الہداة، ج۳، ص۴۵۵

۱۸۴

رہن اور وثیقہ حوالہ کرنے پر برادر مومن سے زیادہ مطمئن ہو میں اس سے بیزار ہوں “کے بارے میں میںنے سوال کیا ۔

توامام جعفر صادق(علیہ السلام) نے کہا:” یہ مطلب قائم اہل بیت (علیہم السلام) کے زمانے میں ہے “(۱)

۷ ۔ تجارت کا فا ئد ہ

سالم کہتا ہے : میں نے امام جعفرصاد ق(علیہ السلام) سے کہا : ایک روایت نقل کی گئی ہے کہ مومن کابرادر مومن سے سود لینا حرام اور رباہے؟حضرت نے کہا: ”یہ مطلب ہمارے اہل بیت( علیہم السلام) قائم کے ظہور کے وقت ہوگا؛ لیکن آج جایز ہے کہ کوئی شخص کسی مومن سے کچھ فروخت کرے اور اس سے فائدہ حاصل کرے تو جائز ہے۔(۲)

مجلسی اول اس روایت کی سند کو قوی جاننے کے بعد فرماتے ہیں : اس روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ جو روایات کسی مومن سے فائدہ لینے کو مکر وہ سمجھتی ہیں اور اسے ربا کہتی ہیں ،مبالغہ نہیں ہے ممکن ہے کہ فی الحال مکروہ ہو، لیکن حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں حرام ہو جائے،(۳) لیکن مجلسی دوم اس روایت کو مجہول قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں : شاید ان دو مورد میں حرمت ،حضرت حجت کے قیام کے زمانے سے مقید ہو۔(۴)

____________________

(۱)من لایحضرہ الفقیہ، ج۳،ص۲۰۰؛التہذیب، ج۷، ص۱۷۹؛وسائل الشیعہ، ج۱۳،ص۱۲۳؛ اثبات الہداة،ج۳، ص۴۵۵؛ملاذ الاخیار، ج۱۱، ص۳۱۵

(۲)من لایحضرہ الفقیہ، ج۳،ص۲۰۰؛التہذیب ،ج۷، ص۱۷۹؛وسائل الشیعہ، ج۱۳، ص۱۲۳؛ اثبات الہداة ، ج۳، ص۴۵۵؛ملاذ الاخیار، ج۱۱،ص۳۱۵

(۳)روضہ المتقین، ج۷، ص۳۷۵

(۴)ملاذ الاخیار ،ج۱۱، ص۳۱۵

۱۸۵

۸ ۔برادران دینی کا ایک دوسرے کی مدد کرنا

اسحاق کہتے ہیں : میں امام جعفرصاد ق (علیہ السلام)کی خدمت میں تھا کہ حضرت نے برادر مومن کی مدد و تائید کی بات چھیڑدی اوراس وقت کہا-”جب قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)ظہور کریں گے تو برادران مومن کی مدد اس وقت واجب ہو جائے گی اور چاہئے کہ ان کی مدد کریں“(۱)

۹ ۔قطایع کا حکم (غیر منقول اموال کا مالک ہونا)

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :”قطایع حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے قیام کے وقت نیست و نابو د ہو جائیں گے ؛اس طرح سے کہ پھر کوئی قطایع کا وجود نہیں ہوگا“(۲)

قطایع ۔یعنی بہت بڑا سرمایہ ،جیسے دیہات میں بے شمار زمینیں اور قلعے ہیں جسے باد شاہوں اور طاقتور افرا د نے اپنے نام درج کرا لیا ہے ساری کی ساری امام زمانے(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے وقت ان کی ہو جائیں گی۔

۱۰ ۔دولتوں کا حکم

معاذ بن کثیر کہتا ہے کہ امام جعفر صادق(علیہ السلام)نے فرمایا:” ہمارے خوشحال شیعہ آزاد ہیں کہ جو کچھ حاصل کریں راہ خیر میں خرچ کردیں، لیکن جب قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو ہر خزانہ دار پر اسی کا ذخیرہ حرام ہو جائے گا مگر یہ کہ اسے حضرت کی خدمت میںلائے تاکہ اس

____________________

(۱)صدوق، مصدقہ لاخوان، ص۲۰؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۹۵

(۲)قرب الاسناد، ص۵۴؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۰۹؛و ج۹۷،ص۵۸؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۲۳،۵۸۴ بشارة الاسلام، ص۲۳۴

۱۸۶

کے ذریعہ دشمن سے جنگ میں مدد حاصل کریں یہی خدا وند عالم فرماتا ہے کہ( وَالَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّهْبَ وَالْفِضَّةَ وَلَاْ یُنْفِقُوْنَهَاْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ فَبَشِّرْهُمْ بِعَذَاْبٍ اَلِیْمٍ ) (۱)

”جو لوگ سونا چاندی ذخیرہ کرتے ہیں لیکن اسے راہ خدا میں خرچ نہیں کرتے انھیں دردناک عذاب کی بشارت دیدو۔“(۲)

ب)اجتماعی اصلاح،مسجد کی عمارت کی تجدید

۱ ۔مسجد کوفہ کی تخریب اور اس کے قبلہ کا درست کرنا

اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں کہ امیر المو منین (علیہ السلام) کوفہ میں داخل ہوتے وقت جب کہ اس وقت ٹھیکریوں اور مٹی سے بنا ہوا تھا فرمایا :” اس شخص پروای ہو جس نے تجھے ویران و کھنڈر کردیا اس شخص پر وای ہو جس نے تیری بربادی کی آسانی پیدا کی ہے، اس پر وای ہو جس نے نرم و پختہ مٹی سے بنایا اور حضرت نوح(علیہ السلام) کے قبلہ کا رخ موڑ دیا۔ پھر بات جاری رکھتے ہوئے اس شخص کومبارک ہو جوحضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانے میں تیری ویرانی کے گواہ ہوں، وہ لوگ امت کے نیک لوگ ہیں جو ہماری عترت کے نیک لوگوں کے ساتھ ہوں گے“(۳)

اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں :” بے شک جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تومسجد کوفہ کو خراب اور اس کے قبلہ کو درست کریں گے “(۴)

____________________

(۱)سورہ توبہ آیت ۳۶

(۲)کافی،ج۴،ص۶۱؛التہذیب،ج۴،ص۱۴۳؛عیاشی ،تفسیر، ج۲،ص۸۷؛المحجہ، ص۸۹؛ تفسیر صافی، ج۲، ص۴۱۳؛ تفسیر برہان، ج۲،ص۱۲۱؛نورالثقلین ،ج۲،ص۲۱۳؛بحار الانوار، ج۳۷ ، ص۱۴۳؛مرا ة العقول، ج۱۶،ص۱۹۳

(۳)طوسی ،غیبة، ص۲۸۳؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۱۶؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۲

(۴)نعمانی، غیبة، ص۳۱۷؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۴؛مستدرک الوسائل ،ج۳،ص۳۶۹وج۱۲،ص۲۹۴

۱۸۷

۲ ۔راستے میں واقع مساجد کی تخریب

ابو بصیر کہتے ہیں : امام محمد باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:جب حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے، تو کوفے میں چار مسجدکو ویرا ن کر دیں گے نیز کسی بلند پایہ مسجد کو نہیں چھوڑیں گے اور اس کی اونچائی و کنگورہ کو گرادیں گے اور بغیر بلندی سادہ حالت میں چھوڑدیں گے نیز جو مسجد راستہ میں واقع ہوگی، اُسے گرادیں گے“(۱)

شاید اس سے مراد، وہ چار مسجدیں ہیں جسے لشکر یزید کے سربراہوں نے امام حسین (علیہ السلام) کے قتل کے بعد شکرانہ کے عنوان سے کوفہ میں بنائی تھیں اور بعدمیں ”مساجد ملعونہ“کے نام سے مشہور ہوئیں اگر چہ آج یہ مساجد موجود نہیں ہیں لیکن ممکن ہے کہ بعد میں ایک گروہ اہل بیت (علیہم السلام)کی دشمنی میں دوبارہ بناڈالے۔(۲)

امام محمد باقر(علیہ السلام) ان مساجد کے بارے میں فرماتے ہیں :”کوفہ میں قتل حسین (علیہ السلام) پر خوشی منانے کے عنوان سے چار مسجد بنائی گئی یعنی مسجد اشعث، مسجد جریر،مسجد سماک،مسجد شبث بن ربعی“(۳)

۳ ۔مناروں کی ویرانی

ابو ہاشم جعفری کہتا ہے : امام حسن عسکری(علیہ السلام) کی خدمت میں تھا توآپ نے فرمایا: جب قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے ،تومنارے اور محراب(۴) کو مساجد سے ویران

____________________

(۱)من لایحضرہ الفقیہ ،ج۱،ص۵۳بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۳۳؛اثبات الہداة،ج۳، ص۵۱۷،۵۵۶ الشیعہ والرجعہ ،ج۲،ص۴۰۰؛ملاحظہ ہو:من لایحضرہ الفقیہ، ج۱، ص۲۳۲؛ ارشاد ، ص۳۶۵؛ روضہ الواعظین، ج۲،ص۲۶۴

(۲)مہدی موعود، ص۹۴۱؛الغارات ،ج۲،ص۳۲۴

(۳)بحار الانوار ،ج۴۵،ص۱۸۹

(۴)مسجد میں خلیفہ یا امام جماعت کے لئے ایک جگہ بنائی تاکہ نماز کی حالت میں وہاں کھڑے ہوں اور دشمن کی دسترس سے محفوظ رہیں

۱۸۸

کریں گے میں نے خود سے کہا: حضرت ایسا کیوں کریں گے؟امام حسن عسکری (علیہ السلام) نے میری طرف رخ کر کے کہا:”اس لئے کہ یہ ایسی بدعت ، نئی تبدیلی ہے جسے رسول خدا اور کسی امام نے ایسا نہیں کیا ہے“(۱)

ایک روایت کے مطابق مرحوم صدوق کہتے ہیں : کہ حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) نے ایک ایسی مسجد کے پاس سے جس کا منارہ بلند تھا گذرتے وقت کہا: اسے ویران کردو۔(۲) مجلسی اول کہتے ہیں : کہ ان روایات سے بلند منارے کی مسجد بنانے کی حرمت ثابت ہوتی ہے؛ اس لئے کہ مسلمانوں کے گھروں پر بلندی و تسلط رکھنا حرام ہے، لیکن اکثر فقہا ء نے اس روایت کو کراہت پر حمل کیا ہے(۳) ( یعنی ایسا کرنا مکرو ہ ہے) مسعودی و طبری کی نقل کے مطابق آپ منبروں کے ویران کرنے کاحکم دیں گے۔(۴)

۴ ۔مساجد کی چھتوں اور منبروں کی تخریب

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”سب سے پہلے جس چیز کا حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) آغاز کریں گے وہ یہ ہے کہ مساجد کی چھتوں کو توڑ دیں گے۔ اور عریش موسیٰ(۵) کی طرح اس پر سائبان بنائیں گے(۶) ( جس سے گرمی و سردی میں بچاو ہو سکے “

____________________

(۱)طوسی، غیبة، ص۱۲۳؛ابن شہر آشوب، مناقب ،ج۴،ص۴۳۷؛اعلام الوری، ص۳۵۵؛کشف الغمہ، ج ۳، ص۸۲۰ ؛ اثبات الہداة، ج۳،ص۴۱۲؛بحار الانوار،ج۵۰، ص۲۱۵وج۵۲، ص۲۲۳؛مستدرک الوسائل، ج۳،ص ۹ ۷۳،۴۸۳

(۲)من لایحضرہ الفقیہ، ج۲،ص۱۵۵ (۳)روضہ المتقین ،ج۲،ص۱۰۹ (۴)اثبات الوصیہ ،ص۲۱۵؛اعلام الوری، ص۳۵۵

(۵)عریش ایک سائبان ہے جسے اپنے سردی و گرمی اور دھوپ سے سے حفاظت کے لئے بناتے ہیں اور طریحی کی نقل کے مطابق اسے کھجور کی پتیوں یا چھال سے بناتے ہیں اور فصل کھجور کے آخر تک اس میں زندگی گذارتے ہیں اس کا خراب کرنا شاید اس دلیل سے ہے کہ ظہور امام (عج) سے پہلے مساجد سادہ حالت میں ہوجائیں گی اور آرایش کھو بیٹھیں گی منابر کی ویرانی اس دلیل سے ہے کہ یہ لوگوں کی راہنمائی اور ہدایت کے ذمہ دار نہیں رہ جائیں گے بلکہ خائن و ظالم حکام کی تقویت اور مملکت اسلامیہ میں دشمنوں کے نفوذ کی توجیہ بیان ہوگی

(۶)من لایحضرہ الفقیہ، ج۱،ص۱۵۳؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۲۵؛وسائل الشیعہ، ج۳،ص۴۸۸؛روضة المتقین، ج۲،ص۱۰۱

۱۸۹

اس روایت کو استحباب پر حمل کیا گیا ہے؛ اس لئے کہ آسمان و نماز گذار کے درمیان کسی مانع اور رکاوٹ کا نہ ہونا مستحب ہے نیز مانع کا نہ ہونانماز و دعا کے قبول ہونے کا ایک ذریعہ ہے۔

۵ ۔مسجد الحرام و مسجد النبی کا اصلی حالت پر لوٹانا

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :”حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) مسجد الحرام کی موجو دہ عمارت توڑ کر پہلے کی طرح اسے پرانی حالت میںتبدیل کردیں گے، نیز مسجد رسول خد ا کو بھی توڑ کر اس کی اصلی حالت پر لوٹادیں گے اور کعبہ کو اس کی اصلی جگہ پرتعمیر کریں گے“(۱)

اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں : جب حضرت قائم قیام کریں گے تو خانہ کعبہ کو اسکی پہلی صورت میں لوٹا دیں گے(۲) نیز مسجد رسول خدا اور مسجد کو فہ میں بھی تبدیلی لائیں گے۔

ج) قضاوت (فیصلہ )

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :خدا وند عالم حضرت مہدی(عجل اللہ فرجہ) کے ظہور کے بعد ایک ہوا کو بھیجے گا جو ہر زمین پر آوازدے گی کہ یہ مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ہیں جو داود و سلیمان کی روش پر فیصلہ کریں گے اور اپنے فیصلہ پر کوئی شاہدو گواہ کے طالب نہیں ہوں گے“(۳)

____________________

(۱)ارشاد ،ص۳۶۴؛طوسی، غیبة، ص۲۹۷؛نعمانی ،غیبة، ص۱۷۱اعلام الوری، ص۴۳۱؛ کشف الغمہ، ج۳، ص۵۵ ۲اثبات الہداة، ج۳،ص۵۱۶؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۲

(۲)اس کی حدود کو صدوق و مجلسی بیان کرتے ہیں ؛ملاحظہ ہو:روضةالمتقین، ج۲، ص۹۴؛ من لایحضرہ الفقیہ ،ج۱، ص۹۱۴

(۳)کافی، ج۱، ص۳۹۷؛کمال الدین، ج۲،ص۶۷۱؛مراة العقول، ج۴،ص۳۰۰؛اس حدیث کو مجلسی موثق جانتے ہیں ؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۲۰،۳۳۰،۳۳۶،۳۳۹

۱۹۰

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) سے ایسے احکام اور فیصلے صادرہوں گے کہ بعض آپ کے چاہنے والے اور ہمرکاب تلوا ر چلا نے والے بھی معترض ہوں گے وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی قضاوت ہے لہٰذا حضرت اعتراض کرنے والوں کی گردن ماردیں گے پھر دوسرے انداز میں فیصلہ کریں گے جو حضرت داود کا انداز تھا؛ پھر حضرت کے چاہنے والوں کا دوسرا گروہ اس پر معترض ہوگا تو حضرت اس کی بھی گردن مار دیں گے۔

تیسری دفعہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام)کی روش پر فیصلہ کریں گے تو پھر حضرت کے چاہنے والوں کا گروہ معترض ہوگا حضرت اس کی بھی گردن ماردیں گے اور انھیں پھانسی دیدیں گے اس کے بعد حضرت رسول خدا کی روش سے فیصلہ کریں گے توپھر کوئی اعتراض نہیں کرے گا“(۱)

بڑی بڑی نامور کمیٹیاں جو محرومین اور حقوق بشر کا دم بھرتی ہیں وہ ایسی رفتار رکھیں گی کہ بشریت سے دشمنی کے سوا کچھ اور ظاہر نہیں ہوگا۔

حکومت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا انجام دنیا ،کا وارث و مالک ہونا ہے جس میں دشمن اپنی پوری طاقت سے انسانیت کے ساتھ مبارزہ کرے گااور انسانوں کی خاصی تعداد کو قتل کر چکا ہو گا اور جو لوگ زندہ بچ گئے ہیں دوسری حکومتوں سے نا امید ہو کر ایک ایسی حکومت سے متمسک ہوں گے جو اپنا وعدہ پورے کرے گی۔ یہ وہی مہدی آل محمد کی حکومت ہے۔

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” ہماری حکومت و سلطنت آخری حکومت ہوگی کوئی خاندان ،پارٹی ،گروہ حکومت کا مالک نہیں رہ جائے گا مگر یہ کہ ہم سے پہلے بروی کار آکر وہ

____________________

(۱)اثبات الہداة، ج۳،ص۵۸۵؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۸۹

۱۹۱

بھی اس لئے کہ اگر ہماری حکومت کی روش و سیاست دیکھیں تو نہ کہیں کہ اگر ہم بھی امور کی باگ و ڈور تھامتے تو ایسی رفتار کرتے یہی خدا وند عالم کے قول کے معنی ہیں کہ فرمایا:( وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِیْن ) (۱) ” انجام متقین کے لئے ہے“(۲)

د)حکومت عدل

عدالت ،ایک ایسا لفظ ہے جس سے سبھی آشنا ومتعارف ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ عدالت ایک ایسی چیز ہے کہ سب سے ظاہر ہو یہ نیک اور اچھی چیز ہے ذمہ داروں اور حکام سے اس کا ظہور اور بھی اچھی چیز ہے لیکن افسوس کا مقام ہے اکثر زمانوں میں، عدالت کا صرف نام و نشان باقی رہا ہے اور بشریت نے تھوڑے زمانے میں وہ بھی اللہ والوں کی حکومت میں عدالت دیکھی ہے۔

استعمار نے اپنے فائدہ اور اپنی حاکمیت کے نفوذ کی خاطر مختلف شکلوں میں اس مقدس لفظ سے سوء استفادہ کیا ایسے دلکش نعرے سے کچھ گروہ کو اپنے ارد گرد جمع کرتے تو ہیں، لیکن زیادہ دن نہیں گذرتا کہ رسوا ہو جاتے ہیں ،اور اپنی حکومت کے دوام کے لئے طاقت اور نا انصافی کا استعما ل کرنے لگتے ہیں ۔

مرحوم طبرسی کی نظر

مرحوم طبرسی کے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ذریعہ سنت کے زندہ کرنے کے بارے میں اقوال ہیں جسے ہم ذکر کریں گے :

اگر سوال کیا جائے کہ تمام مسلمان معتقد ہیں کہ حضرت ختمی مرتبت کے بعد کوئی

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت۱۲۷

(۲)ارشاد ،ص۳۴۴؛روضة الواعظین، ص۲۶۵؛بحار الانوار ،ج۵۲، ص۳۳۲

۱۹۲

پیغمبر نہیں آئے گا، لیکن تم شیعہ لوگ عقیدہ رکھتے ہو کہ جب حضرت قائم قیام کریں گے، تو اہل کتاب سے جزیہ قبول نہیں کریں گے جو بیس سال سے زیادہ ہو ، اور احکام دین کو نہ جانتا ہوگا اسے قتل کر دیں گے،اور مساجد، دینی زیارت گاہوں کو ویران کرادیں گے اور داود کے طریقہ پر(کہ وہ حکم صادر کرنے میں گواہ نہیں چاہتے تھے )حکم کریں گے اس طرح کی چیزیں تمہاری روایات میں وارد ہوئی ہیں یہ عقیدہ دیانت کے نسخ ہونے اور دینی احکام کے ابطال کا باعث ہے اور حضرت خاتم کے بعد ایک پیغمبر کا تم لوگ اثبات کرتے ہو اگر چہ اس کانام تم لوگ پیغمبر کا نام نہ دو ۔تمہارا جواب کیا ہے؟

ہم کہیں گے: جو کچھ سوال کیا گیا ہے ۔ یعنی یہ کہ قائم جزیہ قبول نہیں کریں گے بیس سالہ شخص جو احکام دینی نہ جانتا ہو اسے قتل کریں گے ہم اس سے باخبر نہیں ہیں اور اگر فرض کر لیا جائے کہ اس سلسلے میں خصوصی روایات ہیں تو قطعی طور پر اسے قبول نہیں کیا جا سکتا ۔ ممکن ہے کہ بعض مساجد، زیارت گاہوں کی تخریب سے مراد وہ مساجد اور زیارت گاہیں ہو ں جو تقویٰ و دستور خداوندی کے خلاف بنائی گئی ہوں۔

تو یقینا یہ مشروع و جایز کام ہوگا نیز رسول خدا نے بھی ایسا کام کیا ہے ۔ یہ جو کہا گیا ہے قائم، حضرت داود(علیہ السلام) کی طرح بغیر شاہد کے فیصلہ کریں گے تویہ بھی ہمارے نزدیک قطعی و یقینی نہیں ہے اگر صحیح بھی ہوتو اس کی تاویل اس طرح ہو گی کہ جن موارد میں قضیوں کی حقیقت اور دعوے کی صداقت کا خود علم رکھتے ہیں اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے اور شاہد و دلیل کے طالب نہیں ہوں گے اس لئے کہ اگر امام یا قاضی کسی مطلب پر یقین حاصل کر لے تو اس پر لازم ہے کہ اپنے علم کے مطابق عمل کرے اور یہ نکتہ دیانت کے منسوخ ہونے کا باعث نہیں ہے ۔

۱۹۳

اسی طرح جو یہ بات کہی ہے کہ قائم جزیہ نہیں لیں گے اور گواہ و شاہد کی بات نہیں سنیں گے، اگر یہ درست ہوتو بھی، دیانت کے ختم ہونے کا سبب نہیں ہے اس لئے کہ نسخ اسے کہتے ہیں کہ اس کی دلیل منسوخ شدہ کے بعد ہوا ور ایک ساتھ بھی نہ ہو اگر ہر دودلیل ایک ساتھ ہوں تو ایک کودوسرے کا ناسخ نہیں کہہ سکتے اگر چہ معنی کے اعتبار سے مخالف ہو مثلاً اگر فرض کریں گے شنبہ کے دن فلاں وقت گھر میں سر کاٹو اور اس کے بعد آزاد ہو، تو ایسی بات کو نسخ نہیں کہتے ؛ اس لئے کہ دلیل رافع ،دلیل موجب کے ہمراہ ہے ۔

چونکہ یہ معنی روشن ہو چکے ہیں کہ رسول خدا نے ہمیں بتا یا ہے کہ قائم ہمارے فرزندں میں سے ہیں اس کے حکم کی پیروی کرو اور جو حکم دیں قبول کرو ہم پر واجب ہے کہ ان کی پیروی کریں قائم جو ہمیں حکم دیں اس پر عمل کریں لہٰذا اگر ہم نے ان کے حکم کو قبول کیا ۔اگر چہ بعض گذشتہ احکام سے فرق ہوگا دین اسلام کے احکام کو منسوخ نہیں جانتے ؛ اس لئے کہ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نسخ احکام ایسے موضوع میں جس کی دلیل وارد ہوثابت نہیں ہوتا۔(۱)

____________________

(۱)بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۸۳؛اہل سنت سے اسی مضمون کی روایات نقل ہوئی ہیں

۱۹۴

حصہ سوم

پہلی فصل

حکومت حق

دنیا کی وسعت اور گسترش کے باوجوداس کا ادارہ کرنا ایک دشوار و مشکل کام ہے جو صرف الٰہی راہبر اور دلسوز و ہمدرد کار گذار، الٰہی نظام اور اسلامی حکومت کے اعتقاد کے ساتھ ہی امکان پذیر ہے ۔(ممکن ہے)

امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) دنیا کا ادارہ کرنے کے لئے ایسے ایسے وزراء بھیجیں جو جنگی سابقہ رکھتے ہوں گے اور تجربہ و عمل کے اعتبار سے اپنی پایداری و ثبات قدمی کا مظاہرہ کریں گے۔

صوبہ کا مالک اپنی بھاری بھر کم شخصیت کے ساتھ صوبوں کی اداری ذمہ داری قبول کرے گا جو صرف اسلامی حکومت اور خوشنودی خدا وندی کا خواہش مند ہوگا ظاہر ہے کہ جس ملک کے ذمہ دار ایسے ہوں گے وہ مشکلات پر قابو پا سکتے ہیں نیز گذشتہ حکومتوں کی تباہی، کامیابی میں تبدیل ہوجائے گی اور ایسی حالت ہو جائے گی کہ زندہ افراد مردوں کی دوبارہ حیات کی آرزو کریں گے۔

توجہ رکھنا چاہئے کہ حضرت (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت امور کی باگ ڈور ہاتھ میں لیں گے جب دنیا بے سر سامانی اورلاکھوں زخمی ،جسمی و روحانی اورذ ھنی بیماریوں سے بھری ہوگی دنیا پر تباہی و بربادی سایہ فگن ناامنی و بے چینی عالم پر محیط ہوگی شہر، جنگ کی وجہ سے ویران ہو چکے ہوں گے کھیتیاں آلودہ فضا کی وجہ سے خراب اور روزی میں کمی ہوگی۔

دوسری طرف دنیا والوں نے احزاب، پارٹیاں، کمیٹیاں حکومتیں دیکھی ہیں جو دعویدار تھیں اور ہیں، کہ اگر حکومت مجھے مل جائے، تو دنیا اور اہل دنیا کی خدمت کریں اور چین و سکون ،راحت و آرام اقتصادی حالت کو بہتر بنادیں گے لیکن ہر ایک عملی طورپر ایک دوسرے سے بُرا ہی ثابت ہوتا ہے سوائے فتنہ و فساد ، قتل و غارت گری ، ویرانی کے کچھ نہیں دیتے ۔کمیونسٹ نے تلاش کی ۔مالویزم اپنے راہبروں کی نظر میں معتوب ٹھہرا ۔ مغربی ڈیموکراسی نے انسان فریبی کے علاوہ کوئی نعرہ نہیں لگایا۔

۱۹۵

آخر میں ایک ایسادن آئے گا کہ عدل و عدالت ایک قوی خدا رسیدہ الٰہی انسان کے ہاتھ میں ہوگی اور ظلم و جور سے مردہ زمین پر عدالت قائم ہوگی وہ اس شعار کے اجرا کرنے میں ((یَمْلَا ءُ الْاَرْضَ قِسْطاً وَ عَدْلاً ))”زمین کو عدل و انصاف سے بھردیں گے “مصمم ہوں گے جس کے آثار ہر جگہ ظاہر ہوں گے۔(۱)

حضرت، حکومت اس طرح تشکیل دیں گے اور لوگوں کو ایسی تربیت کریں گے کہ ذہنوں سے ستم مٹ چکا ہوگا بلکہ روایات کی تعبیر کے اعتبار سے پھر کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا حدیہ کہ حیوانات بھی ظلم و تعدی سے باز آجائیں گے گوسفند ،بھڑیئے ایک ساتھ بیٹھیں گے۔

ام سلمیٰ کہتی ہیں :رسول خدا نے فرمایا : ”مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) سماج میں ایسی عدالت قائم کریں گے کہ زندہ افراد آرزوکریں گے ،کہ کاش ہمارے مردے زندہ ہوتے اور اس عدالت سے فیضیاب ہوتے“

امام محمد باقر(علیہ السلام) آیہ شریفہ( وَاعْلَمُوْا اَنَّ اللّٰهَ یُحِْیْ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَاْ ) (۲)

____________________

(۱)مجمع الزوائد، ج۷، ص۳۱۵؛الاذاعہ، ص۱۱۹؛حقاق الحق ،ج۱۳،ص۲۹۴ (۲)سورہ بقرہ آیت۲۵۱

۱۹۶

”جان لو کہ خداوندعالم زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کرے گا“ کی تفسیر فرماتے ہیں : خدا وند عالم زمین کو حضرت قائم کے ذریعہ زندہ کرے گا آنحضرت زمین پر عدالت برپا کریں گے اور اسے عادلانہ انداز سے زندہ کریں گے جب کہ ظلم و جور سے مردہ ہو چکی ہوگی “(۱)

نیز امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : خدا کی قسم یقینی طور پر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی عدالت گھروں کے اندر بلکہ کمروں میں نفوذ کر چکی ہوگی جس طرح سردی و گرمی کا اثر ہوتا ہے“(۲)

ان روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ بعض گروہ کے چاہنے اور مخالفت کے باوجود، عدالت پوری دنیا میں بغیر استثناء قائم ہوگی ۔

امام محمد باقر (علیہ السلام) آیہ شریفہ( اَلَّذِیْنَ اِنْ مَکَّنَّاهُمْ فِیْ الْاَرْضِ اَقَاْمُوْا اْلصَّلٰوةّ ) (۳) ” اگر زمین میں ان لوگوں کو حاکم بنادیں تو وہ نماز قائم کریں گے وغیرہ ‘ ‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں :یہ آیت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے ناصروں کی شان میں نازل ہوئی ہے ۔خدا وند عالم ان کے ذریعہ اپنے دین کو ظاہر کرے گا اس طرح سے کہ ظلم و ستم کا خاتمہ اور بدعت کا نشان تک مٹ جائے گا “(۴)

امام رضا(علیہ السلام) اسی سلسلے میں فرماتے ہیں : ”جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)

____________________

(۱)کما ل الدین، ص۶۶۸؛المحجہ، ص۴۱۹؛نور الثقلین ،ج۵،ص۲۴۲؛ینابیع المودة، ص۴۲۹؛ بحار الانوار ،ج۵۱، ص۵۴

(۲)نعمانی ،غیبة، ص۱۵۹؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۴۴؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۶۲

(۳)سورہ حج آیت۴۱

(۴)تفسیر صافی، ج۲،ص۸۷؛المحجہ، ص۱۴۳؛احقا ق الحق، ج۱۳،ص۳۴۱

۱۹۷

ظہور کریں گے تو معاشرہ میں ایسی میزان عدالت قائم کریں گے جس کے بعد پھر کوئی ظلم نہیں کرے گا ۔(۱)

نیز حضرت امیر المومنین (علیہ السلام)فرماتے ہیں:”حضرت کسانوں اور لوگوں کے درمیان عادلانہ رویہ اپنائیں گے“(۲)

جابر بن عبد اللہ انصاری کہتے ہیں کہ ایک شخص نے امام محمد باقر(علیہ السلام) کی خدمت میں عرض کیاکہ یہ پانچ سو درہم بابت زکات ہیں اسے لے لیجئے ! امام نے کہا:”اسے تم خود ہی اپنے پاس رکھو اور اپنے پڑوسیوں ،بیماروں ،ضرورت مندمسلمانوں کو دیدو“ پھر فرمایا: جب ہمارے مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے تو برابر سے مال تقسیم کریں گے اور عدالت کے ساتھ ان سے رفتار رکھیں گے جو ان کی پیروی کرے گا، گویااس نے خدا کی پیروی کی ہے اور جو نافرمانی کرے ،خدا کا نافرمان شمار ہوگا اسی وجہ سے حضرت کا نام مہدی رکھا گیا ہے کہ پوشیدہ امور ومسائل سے آگاہ ہوتے ہیں ۔(۳)

حضرت مہدی کی عدالت زمانے میں اتنی وسیع ہوگی کہ شرعی اولویت کی بھی رعایت ہوگی یعنی جو لو گ واجبات انجام دیتے ہیں، ان پر مستحبات انجام دینے والوں کو، مقدم رکھا جائے گا ۔مثال کے طور پر حضرت قائم کے زمانے میں اسلام اور الٰہی حکومت کا پوری دنیا میں بول بالا ہوگا،تو فطری ہے کہ الٰہی نعروں کی ناقابل وصف شان و شوکت ظاہر ہو

حج ابراہیمی شعار الٰہی کا ایک جز ہے جو حکومت اسلامی کی وسعت سے پھر کوئی حج پر جانے سے مانع و رکاوٹ نہیں ہوگی اور لوگ باڑھ کی مانند کعبہ کی سمت روانہ ہوں گے نتیجہ یہ ہوگا کہ کعبہ کے اردگردایک بھیڑ اژدہام ہوگا اور اتنا کہ حج کرنے والوں کے لئے کافی نہ ہوگا پھر امام(علیہ السلام)

____________________

(۱)کمال الدین، ص۳۷۲؛کفایة الاثر، ص۲۷۰؛ اعلام الوری، ص۴۰۸؛کشف الغمہ، ج۳، ص۳۱۴؛فرائد السمطین ، ج۲،ص۳۳۶؛ینابیع المودة ،ص۴۴۸؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۲۱؛ احقاق الحق، ج۱۳، ص۳۶۴

(۲)اثبات الہداة، ج۳،ص۴۹۶

(۳)عقدالدرر، ص۳۹ ؛احقاق الحق ،ج۱۳،ص۱۸۶

۱۹۸

حکم دیں گے اولویت ان کو ہے جو واجب ادا کرنے آتے ہیں امام صادق(علیہ السلام) کے بقول یہ سب سے پہلی عدالت کی جلوہ گاہ ہوگی۔

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”سب سے پہلے حضرت (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی عدالت سے جو چیز آشکار ہوگی وہ یہ کہ حضرت اعلان کریں گے کہ جو لوگ مستحبی حج ،مناسک اور حجر اسود کو چومنے اورمستحبی طواف انجام دینے جارہے ہیں وہ واجب حج ادا کرنے والوں کے حوالے کردیں “(۱)

الف) دلوں پر حکومت

واضح ہے کہ کوئی حکومت مختصر مدت میں دشواریوں پر حاکم ہو اور بے سرو سامانی کا خاتمہ اور دلوں سے یاس و نا امیدی کو ختم کرے اوران دلوں میں امید کی لہر دوڑ ائے تو یقینا لوگ اس کی حمایت کریں گے نیز ایسا نظام جو جنگ کی آگ بجھا دے امنیت و آسایش کی راہ ہموار کردے حتی کہ حیوانات اس سے بہرہ مند ہوں یقینا لوگوں کے دلوں پر حاکم ہوگا نیزلوگ ایسی حکومت کے خواہشمند بھی ہیں اس لحاظ سے روایات میں امام سے لگاو اور تمسک کو پسندیدہ انداز میں بیان کیا گیا ہے ۔

رسول خدا فرماتے ہیں : تم لوگوں کو مہدی قریشی کی بشارت دیتا ہوں جس کی خلافت سے زمین و آسمان کے رہنے والے راضی ہیں“(۲)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” میری امت کا ایک شخص قیام کرے گا جسے زمین و آسمان والے دوست رکھیں گے“(۳) صباح کہتا ہے کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں

____________________

(۱)کافی، ج۴،ص۴۲۷؛من لایحضرہ الفقیہ، ج۲،ص۵۲۵؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۷۴

(۲)ینابیع المودة ،ص۴۳۱؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۲۴

(۳)فردوس الاخبار ،ج۴،ص۴۹۶؛اسعاف الراغبین، ص۱۲۴؛احقاق الحق ،ج۱۹،ص۶۶۳؛ الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص ۶۱۲

۱۹۹

بزرگ خرد ہونے اور خرد بزرگ ہونے کی تمنا کریں گے“(۱) شاید اس لئے چھوٹے ہونے کی آرزو ہو کہ وہ زیادہ دن تک حضرت مہدی کی حکومت میں رہنا چاہتے ہوں اور خرد بڑے ہونے کی آرزو اس لئے کریں گے کہ وہ مکلف ہونا چاہتے ہوں گے تاکہ حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی الٰہی حکومت کے پروگرام کو اجراء کرنے میں خاص نقش و کردار پیش کرسکیں اور اخروی جزا کے مالک ہوں۔ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت اس درجہ موثر ہوگی کہ مردے زندہ ہونے کی آرزو کریں گے ۔

حضرت علی(علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” میرے فرزندوں میں سے ایک شخص ظہور کرے گا جس کے ظہور اور حکومت کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مردے قبر میں رہنا نہیں چاہیں گے مگر یہ کہ وہی تمام سہو لتیں و فوائد انھیں قبر میں حاصل ہوں وہ لوگ ایک دوسرے کے دید ار کو جائیں گے اور حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے قیام کی خوشخبری دیں گے “(۲)

کامل الزیارات میں،(۳) ” الفرحة “خوشی و شادمانی کے معنی میں استعما ل ہوا ہے اور لفظ میت کا روایت میں استعما ل قابل غور ہے ،اس لئے کہ یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ عیش و عشرت عمومی و نوعی ہے اور ارواح کے کسی گروہ سے مخصوص نہیں ہے ،اگر اس روایت کو اُن روایات سے ضمیمہ کر دیں جو کہتی ہیں : ”کافروں کی روح بد ترین حالت اور زنجیرو قید خانوں میں زندگی بسر کریں گی “تو اس روایت کے معنی روشن ہو جاتے ہیں ،اس لئے کہ امام کے ظہور کے ساتھ ہی انھیں عذاب سے رہائی

____________________

(۱)ابن حماد ،فتن ،ص۹۹؛الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۷۸؛القول المختصر ،ص۲۱؛متقی ہندی، برہان، ص۸۶؛ابن طاوس، ملاحم، ص۷۰

(۲)کمال الدین ،ج۲،ص۶۵۳؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۲۸؛وافی، ج۲، ص۱۱۲(۳)کامل الزیارات ،ص۳۰

۲۰۰