حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر0%

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 284

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی
زمرہ جات: صفحے: 284
مشاہدے: 126038
ڈاؤنلوڈ: 3768

تبصرے:

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 284 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126038 / ڈاؤنلوڈ: 3768
سائز سائز سائز
حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ممکن ہے کہ صباح سے مراد ابن عبد الرحمان مرسی ہوں یا محارب تمیمی کوفی یا ان دونوں کے علاوہسیر اعلام النبلاء،ج ۱۴ ،ص ۱۲

کا حکم مل جائے گا یا حالت (گشایش و رحمت کہ فرشتوں کی رفتار کے مطابق عذاب نہیں ہے) دگرگون ہو جائے گی ایک مدت کے لئے خواہ کوتاہ کیوں نہ ہو زمین پر الٰہی حکومت کے تشکیل پانے کے احترام میں کافروں ، منافقوں کی روح سے شکنجہ عذاب ختم ہو جائے گا۔

ب)حکومت کا مرکز (پایہ تخت)

ابو بصیر کہتے ہیں :امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے فرمایا :” اے ابو محمد! گویا میں دیکھ رہا ہوں کہ قائم آل محمد اپنے اہل و عیال کے ساتھ مسجد سہلہ میںوارد ہوئے ہیں ‘ ‘ میں نے کہا: کیا ان کا گھر مسجد سہلہ ہے ؟ امام نے کہا:”ہاں؛وہی جگہ جو حضرت ادریس کا ٹھکانا تھی کوئی پیغمبر مبعوث نہیں ہو ا،جب تک وہاں اس نے نماز نہیں پڑھیجو وہاںٹھہرے ایسا ہی ہے کہ رسول خدا کے خیمہ میں ہو ۔کوئی مومن مرد و عورت ایسا نہیں ہے جس کا دل وہاں نہ ہو ہر روز وشب فرشتہ الٰہی اس مسجد میں پناہ لیتے ہیں اور خدا کی عبادت کرتے ہیں اے ابو محمد ! اگر میں بھی تمہارے قریب ہوتا تو میں نماز اسی مسجد میں پڑھتا۔

اُس وقت ہمارے قائم قیام کریں گے ،اورخدا وند عالم اپنے رسول اور ہمارے تمام دشمنوں سے انتقام لے گا “(۱)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے مسجد سہلہ کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:” وہ ہمارے صاحب (حضرت مہدی ) (عجل اللہ تعالی فرجہ)کا گھر ہے ،جس وقت وہ اپنے تمام خاندان سمیت وہاں قیام پذیر ہوں گے “(۲)

____________________

(۱)کافی،ج۳،ص۴۹۵؛کامل الزیارات، ص۳۰ ؛راوندی، قصص الانبیاء، ص۸۰؛التہذیب، ج۶، ص۳۱؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۸۳؛وسائل الشیعہ، ج۳،ص۵۲۴؛بحارا لانوار،ج۵۲، ص۳۱۷،۳۷۶؛مستدرک الوسائل ،ج۳،ص۴۱۴

(۲)کافی، ج۳،ص۴۹۵؛ارشاد، ص۳۶۲؛التہذیب، ج۳،ص۲۵۲؛طوسی، غیبة، ص۲۸۲؛وسائل الشیعہ،ج۳، ص۳۲۵؛ بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۱ملاذ الاخیار، ج۵،ص۴۷۵

۲۰۱

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے تو کوفہ کی سمت روانہ ہوں گے اور وہیں قیام پذیر ہوں(۱) گے“ نیز آنحضرت فرماتے ہیں:” جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کریں گے تو کوفہ کی سمت جائیں گے، تو ہر مومن حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے آس پاس اُس شہر میں مقیم ہونا چاہے گا یا حد اقل اس شہر میں آئے گا“(۲) حضرت امیر (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” ایک روز آئے گا کہ یہ جگہ (مسجد کوفہ)حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کا مصَلیّٰ قرار پائے گی “(۳)

ابو بکر حضرمی کہتے ہیں امام محمد باقر یا امام جعفر صادق (علیہما السلام) سے میں نے کہا: کونسی زمین اللہ اور رسول خدا کے حرم کے بعد زیادہ فضیلت رکھتی ہے؟ تو آپ نے کہا:”اے ابو بکر ! سر زمین کوفہ پاکیزہ جگہ اور اس میں مسجد سہلہ ہے ایسی مسجد ہے جس میں تمام پیغمبروں نے نماز پڑھی ہے یہ وہی جگہ ہے جہاں سے عدالت الٰہی جلوہ گر ہوگی نیز ا للہ کے قائم اور تمام قیام کرنے والے وہیں ہوں گے یہ پیغمبروں اور ان کے صالح جانشینوں کی جگہ ہے “(۴)

محمد بن فضیل کہتا ہے کہ اس وقت تک قیامت برپا نہیں ہوگی جب تک تمام مومنین کوفہ میں جمع نہ ہوجائیں(۵) رسول خدا فرماتے ہیں:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ۹/۱۰/ سال حکومت کریں گے اور لوگوں میں سب سے زیادہ خوش بخت کوفہ کے لوگ ہیں“(۶)

____________________

(۱)راوندی، قصص الانبیاء ،ص۸۰ ؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۲۲۵

(۲)بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۸۵؛طوسی ،غیبة، ص۲۷۵تھوڑے سے فرق کے ساتھ

(۳)روضة الواعظین ،ج۲،ص۳۳۷؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۵۲

(۴)کامل الزیارات ،ص۳۰ ؛مستدرک الوسائل ،ج۳،ص۴۱۶

(۵)طوسی ،غیبة، ص۲۷۳؛بحارا لانوار، ج۵۲، ص۳۳۰

(۶)فصل الکوفہ ،ص۲۵ ؛اثبات الہداة، ج۳،ص۶۰۹ ؛حلیة الابرار ،ج۲،ص۷۱۹؛اعیان الشیعہ، ج۲،ص۵۱

۲۰۲

تمام روایات سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ شہر کوفہ (امام زمانہ) کی کار کردگی و فعالیت نیز فرمانروائی کا مرکز ہوگا ۔

ج)حکومت مہدی کے کارگذار۔

فطری ہے کہ جس حکومت کی رہبری حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ہاتھ میں ہوگی، اس کے عہد یدار و کار گذار بھی امت کے نیک اور صالح افراد ہوں گے اس لحاظ سے، ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ روایات حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت، پیغمبروں ،ان کے جانشینوں، صاحبان تقوا،زمانہ کے نیک افراد ، گذشتہ امتوں اور بزرگ اصحاب پیغمبر کے ذریعہ تشکیل کو بیان کرتی ہیں جن میں بعض کا نام درج ذیل ہے۔

حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)۔اصحاب کہف کے سات آدمی ،یوشع و صی موسیٰ (علیہ السلام) ، مومن آل فرعون ،سلمان فارسی ،ابو دجانہ انصاری،مالک اشتر نخعی و قبیلہ ہمدان۔

حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) کے بارے میں روایات متعدد الفاظ سے یاد کرتی ہیں کبھی وزیر، جانشین ،کمانڈر، حکومت کے مسول و ذمہ دار وغیرہ۔(۱)

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے وزیر ،راز دار، جانشین ہیں۔(۲)

اس وقت حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) آسمان سے اتریں گے تو حضرت کے اموال دریافت کرنے کے مسول ہوں گے نیز اصحاب کہف ان کے پیچھے ہوں گے۔(۳)

____________________

(۱)ابن طاوس، ملاحم، ص۸۳ ؛ابن حماد، فتن، ص۱۶۰

(۲)غایة المرام، ص۶۹۷؛حلیة الابرار ،ج۲،ص۶۲۰

(۳)غایة المرام، ص۶۹۷؛حلیة الابرار، ج۲،ص۶۲۰

۲۰۳

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : جب قائم آل محمد قیام کریں گے تو۱ ۷/ افراد کو کعبہ کی پشت سے زندہ کریں گے وہ سترہ/۱ ۷ افراد یہ ہیں پانچ قوم موسیٰ (علیہ السلام) سے وہ لوگ جو حق کے ساتھ فیصلہ کرتے ہوئے عادلانہ رفتار رکھیں گے ، ۷/ آدمی اصحاب کہف سے یوشع وصی موسیٰ(علیہ السلام)۔ مومن آل فرعون ، سلمان فارسی، ابودجانہ انصاری ،مالک اشتر نخعی۔(۱)

بعض روایات میں ان کی تعداد ستائیس تک بیان کی گئی ہے نیز قوم موسیٰ (علیہ السلام) سے چودہ کی تعداد مذکور ہے(۲) اور ایک دوسری روایت میں مقداد کا بھی نام مذکور ہے۔(۳)

حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں ”سپاہی حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے

____________________

(۱)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۳۲؛دلائل الامامہ ،ص۲۷۴؛مجمع البیان ،ج۲،ص۴۸۹؛ارشاد، ص۳۶۵کشف الغمہ، ج۳ ،ص۲۵۶؛روضة الواعظین ،ج۲،ص۲۶۶؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۵۵۰؛ بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۴۶

(۲)اثبا ت الہداة، ج۳،ص۵۷۳

(۳)مقداد،رسول خدا اور حضرت علی کے اصحاب میں ہیں ان کی عظمت شان کے لئے یہی کافی ہے کہ ایک روایت کے مطابق ،خدا وندعالم نے سات آدمیوں کی وجہ سے کہ ان میں ایک مقداد بھی ہیں ہمیں روزی دیتا ہے اور تمہاری مدد کرتااور بارش نازل کرتا ہے اس نے حضرت امیر المومنین علیہ السلام کی خلافت و امامت کے موضوع سے بہت ہاتھ پیر مارا اور انتھک کوشش کی ہے ۔

رسول خدا ان کے بارے میں فرماتے ہیں :(کہ خدا وند عالم نے مجھے حکم دیا کہ میں چار شخص کو دوست رکھوں : علی ، مقداد ،ا بوذراور سلمان فارسی “دوسری روایت میں ہے کہ بہشت مقداد کی مشتاق ہے۔(معجم رجال الحدیث، ج۸، ص۳۱۴) اس نے دوبارہ ہجرت کی اور مختلف جنگوں میں شرکت کی جنگ بدر میں رسول خدا سے عرض کیا :کہ ہم بنی اسرائیل کی طرح حضرت موسی سے گفتگو نہیں کر رہے ہیں بلکہ ہم کہہ رہے ہیں کہ ہم آپ کے پہلو اوہمرکاب دشمن سے لڑیں گے، مقداد حضرت امیر کے شرطة الخمیس کا ایک جز تھے مقداد نتیجةً۷۰/سال کی عمر میں ۳۳ ء ھ کو”جرف “نامی سر زمین جو ۳۰/میل مدینہ سے دور ہے سرای جاودانی کی سمت کوچ کر گئے ، لوگوں نے بقیع تک آپ کے جنازہ کی تشییع کی اور وہیں سپرد لحد کردیا ۔

۲۰۴

آگے آگے ہوں گے اور قبیلہ(۱) ہمدان کے لوگ آپ کے وزیر ہوں گے۔(۲)

پھر بھی اس سلسلے میں یوں بیان کیا گیا ہے: -”خدا ترس لوگ حضرت مہدی کے ساتھ ہوں گے، ایسے لوگ جنھوں نے آپ کی دعوت پر لبیک کہی ہے وہی لوگ حضرت کی نصرت کریں گے اور آپ کے وزیر اور امور حکومت کو سنبھالیں گے جو کہ ایک بہت بڑی ذمہ داری ہے“(۳)

____________________

(۱)ہمدان یمن میں ایک بڑاقبیلہ ہے انھوںنے جنگ تبوک کے بعد حضرت رسول خدا کی خدمت میں ایک نمایندہ بھیجا اور حضرت نے ۹ ئھ میں حضرت امیر المومنین کو یمن روانہ کیا تاکہ ان لوگوں کو اسلام کی دعوت دیں رسول خدا کا پیغام پڑھے جانے کے بعد سارے کے سارے مسلمان ہوگئے حضرت علی نے ایک خط میں رسول خدا کو ہمدانی طائفہ کے اسلام کا تذکرہ کیا اور اس خط میں ہمدان پر تین بار دورد بھیجا رسول خدا خط پرھنے کے اس خبر کے شکرانہ کے طور پر سجدہ شکر بجالائے حضرت علی نے ان کی مدح میں اس طرح بیان کیا ہے :”ہمدان والے دیندار اور نیک اخلاق ہیں، ان کا دین ،ان کی شجاعت اور دشمن کے مقابل ان کے غلبہ نے انھیں زینت بخشی ہے اگر میں جنت کا دربان ہواتو ہمدانیوں سے کہوں گا سلامتی کے سے اس میں داخل ہو جا و ۔ آنحضرت نے معاویہ کی دھمکیوں کے جواب میں ،قبلیہ ہمدان کی توانائی و قوت کو اس پر ظاہر کیا اور کہا:”جب ہم نے موت کو سرخ موت پایا ،تو ہمدان طائفہ کو آمادہ کیا، ایک شخص نے حضرت پر اعتراض کیا بہت ممکن تھا کہ لشکر اکٹھا کرنے میں خلل واقع ہو جائے حاضرین واقعہ نے اسے لات گھونسا مارکر اس کی زندگی کا خاتمہ کر دیا اور حضرت نے اس کا دیہ دیا ۔ ہمدان کا طائفہ ان تین طائفہ میں ایک تھا جو حضرت کے لشکر کی بھاری اکثریت کو تشکیل دیتا تھا صفین کی ایک جنگ میں داہنا بازو بن کر اپنی بے مثال ثبات قدمی اور پایداری کا مظاہرہ کیا خاص کر ۸۰۰/سو ہمدانی جوانوں نے آخر دم تک استقلال و پایداری دیکھائی اس میں۱۸۰/ افراد شہید اور زخمی ہوئے اور گیارہ کمانڈر شہید ،اگر پرچم ان میں سے کسی کے ہاتھ سے زمین پر گر جاتا تھا تو دوسرا ہاتھ میں اٹھا لیتا تھا اور اپنے رقیب ”ازد “اور ”بجیلہ “سے جنگ کرنے میں ان کے تین ہزار کو مار ڈالا۔

جنگ صفین کی کسی ایک شب کے موقع پر معاویہ نے چار ہزار افراد کے ساتھ حضرت علی کے لشکر پر شب خون کا ارادہ کیا تو ہمدان کا قبیلہ اس ناپاک ارادہ سے آگاہ ہواتو صبح تک پوری آمادگی کے ساتھ نگہبانی کرتا رہا ،ایک دن معاویہ نے اپنے لشکر سمیت اس قبیلہ سے جنگ شروع کر دی ،لیکن ان سے قابل دید شکست کے ساتھ میدان جنگ سے فرار کر گیامعاویہ نے ”عک“نامی قبیلہ کو ان سے جنگ کے لئے روانہ کیا ہمدانیوں نے ان پر اس طرح حملہ کیا کہ معاویہ کو پیچھے ہٹنے کا حکم دینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ گیا ۔ حضرت علی نے ان سے فرمائش کی کہ سر زمین حمص کے سپاہیوں کو سرکوب کریں ہمدانی لوگ ان پر بھی حملہ ور ہوئے اور دلیرانہ جنگ کے بعد انھیں شکست دیدی اور معاویہ کے خیمے سے پیچھے ہٹا دیا، ہمدان کا گروہ ہمیشہ حضرت کا مطیع و فرمانبردار تھا اور جب نیزہ پر قرآن بلند کرنے سے حضرت علی کے لشکر کے درمیان اختلاف ہواتو اس قبیلہ کے رئیس نے حضرت سے کہا ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہے آپ جو حکم دیں گے ہم اجراکریں گے ۔

(۲)عقد الدرر، ص۹۷ (۳)نور الابصار، ص۱۸۷؛وافی، ج۲،ص۱۱۴؛نقل از ”فتوحات مکیہ “

۲۰۵

ابن عباس کہتے ہیں : اصحاب کہف حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ناصر ومدد گارہیں۔(۱)

حلبی کہتے ہیں : تمام اصحاب کہف عرب قبیلہ سے ہیں وہ صرف عربی بولتے ہیں اور وہی لوگ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے وزیر ہیں ۔(۲)

مذکور ہ بالا روایات سے نتیجہ نکلتا ہے کہ حکومت کی اتنی بڑی ذمہ داری اور وسیع و عریض اسلامی سر زمین کی مدیریت ہر کس وناکس کو نہیں دی جا سکتی، بلکہ ایسے افراد اس ذمہ دار ی کو قبول کریں گے کے جو بارہا کہ آزمائے ہوئے ہوں اور اپنی صلاحیتوں کو مختلف آزمایشوں میں ثابت کر چکے ہیں۔ اسی لئے ،دیکھتا ہوں کہ، حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت کے وزراء میں حضرت عیسیٰ(علیہ السلام) سر فہرست ہیں اسی طرح حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت کے لائق و قابل اہمیت افراد میں سلمان فارسی، ابو دجانہ انصاری، مالک اشتر نخعی ہوں گے یہ لوگ رسول خدا اور حضرت امیر المو منین(علیہ السلام) کے زمانہ میں بھی اپنی استعداد و صلاحیت ظاہر کر چکے ہیں نیز قبیلہ ہمدان نے تاریخ اسلام میں حضرت علی(علیہ السلام) کے دور میں نمایاں کام انجام دیئے ہیں لہٰذا اس حکومت کے وہ لوگ بھی منصب دار ہوں گے۔

د)حکومت کی مدت

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت کی کتنی مدت تک ہے اس سلسلے میں شیعہ و سنی کی متعدد روایات ہیں۔ بعض روایات ۷/ سال معین کرتی ہیں تو بعض ۹/۱۰/ اور۲ ۰/ سال بیان کرتی ہیں بلکہ بعض روایات ہزار سال تک بیان کرتی ہیں، لیکن جو مسلّم اور قطعی ہے وہ یہ کہ آپ کی حکومت

____________________

(۱)الدر المنثور، ج۴،ص۲۱۵؛متقی ہندی، برہان، ص۱۵۰؛العطر الوردی، ص۷۰

(۲)السیرة الحلبیہ، ج۱،ص۳۳؛منتخب الاثر، ص۴۸۵

۲۰۶

۷/ سال سے کم نہیں ہے نیز بعض ائمہ( علیہم السلام )سے مروی روایات اسی کہ زیادہ تاکید بھی کرتی ہیں ۔

شاید یہ کہا جا سکے کہ مدت حکومت ۷/ سال ہے؛ لیکن اس کے سال اس زمانے کے سالوں سے متفاوت ہوں گے جیسا کہ بعض روایات میں ذکر ہوا ہے کہ حضرت مہدی کی حکومت ۷/ سال ہے لیکن ہر سال تمہارے سالوں کے دس سال کے برابر ہے لہٰذا تمہارے اعتبار سے حکومت ۷۰/ سال تک ہوگی“(۱) حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) سات سال حکومت کریں گے کہ ہر سال تمہارے سال سے دس گنا ہوگا“(۲)

حضرت رسول خدا فرماتے ہیں : کہ” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)ہم سے ہیں اور سات سال تک جملہ امور کی دیکھ بھال کریں گے“(۳) نیز فرماتے ہیں : ”آنحضرت اس امت پر سات سال تک حکومت کریں گے ۔“(۴)

اسی طرح آنحضرت فرماتے ہیں :” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت سات سال تک ہے، اگرکم ہو ورنہ ۹/۱۰ / سال تک ہوگی“(۵) نیز مذکور ہے:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ۹/ سال اس دنیا میں حکومت کریں گے“(۶)

____________________

(۱)مفید، ارشاد،ص۳۶۳؛طوسی، غیبة، ص۲۸۳؛روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۴؛الصراط المستقیم، ج۲،ص۲۴۱؛ الفصول المھمہ، ص۳۰۲؛الا یقاظ، ص۲۴۹؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۹۱؛ نور الثقلین ، ج۴،ص۱۰۱

(۲) عقدالدرر، ص۲۲۴،۳۲۸؛اثبا ت الہداة، ج۳،ص۶۲۴

(۳)الفصول المھمہ، ص۳۰۲؛ابن بطریق ،عمدہ،، ص۴۳۵؛دلائل الامامہ ،ص۲۵۸؛حنفی ،برہان، ص۹۹؛مجمع الزوائد، ج۷، ص۳۱۴؛فرائد السمطین، ج۲،ص۳۳۰؛عقد الدرر، ص۲۰،۲۳۶؛شافعی ،بیان، ص۵۰؛حاکم ،مستدرک، ج۴، ص۷۵۵؛کنزل العمال، ج۱۴، ص۲۶۴؛ کشف الغمہ، ج۳،ص۲۶۲؛ینابیع المودة، ص۴۳۱؛غایة المرام، ص۶۹۸؛بحار الانوار ، ج۱۵ ، ص ۲۸

(۴)عقد الدرر، ص۲۰ ؛بحار الانوار،ج۵۱،ص۸۲

(۵)ابن طاوس ،ملاحم ،ص۱۴۰؛کشف الا ستار، ج۴،ص۱۱۲؛مجمع الزوائد، ج۷، ص۳۱۴

(۶)ابن طاو س، طرائف ،ص۱۷۷

۲۰۷

جابر بن عبد اللہ انصاری نے امام محمد باقر(علیہ السلام) سے سوال کیا:” امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کتنے سال زندگی کریں گے ؟حضرت نے کہا: قیام کے دن سے وفات تک۱ ۹/ سال طولانی ہوگی“(۱)

رسول خدا نے فرمایا:” حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)۲ ۰/ سال تک حکومت کریں گے اور زمین سے خزانے بر آمد کریں گے، نیز سر زمین شرک کو فتح کریں گے “(۲)

نیز حضرت فرماتے ہیں : مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) میرے فرزندوں میں ہیں اور۲ ۰/ سال حکومت کریں گے“(۳)

اسی طرح روایت میں ہے آنحضرت۱ ۰/ سال حکومت کریں گے ۔(۴)

حضرت علی(علیہ السلام) اس سوال کے جواب میں کہ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کتنے سال حکومت کریں گے ؟ آپ نے فرمایا:” ۳۰/ یا۴ ۰/ سال حکومت کریں گے “(۵)

امام جعفر صاد ق(علیہ السلام) نے فرمایا:”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ہمارے فرزندوں میں ہیں اور اور ان کی حضرت ابراہیم خلیل کی عمر کے برابر عمر ہوگی ۸۰/ سال میں ظہور کریں گے اور چالیس سال حکومت کریں گے “(۶)

____________________

(۱)عیاشی ،تفسیر ،ج۲،ص۳۲۶؛نعمانی، غیبة، ص۳۳۱؛اختصاص، ص۲۵۷؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۲۹۸

(۲)فردوس الاخبار، ج۴،ص۲۲۱؛العلل المتناہیہ، ج۲،ص۸۵۸؛دلائل الامامہ، ص۲۳۳؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۹۳؛بحار الانوار،ج۵۱، ص۹۱؛ملاحظہ ہو:طبرانی، معجم، ج۸، ص۱۲۰؛اسد الغابہ ،ج۴،ص۳۵۳؛فرائد السمطین، ج۲، ص۳۱۴؛ مجمع الزوائد ،ج۷، ص۳۱۸؛لسان المیزان، ج۴،ص۳۸۳

(۳)کشف الغمہ، ج۳،ص۲۷۱؛ابن بطریق ،عمدہ، ،ص۴۳۹؛بحارا لانوار، ج۵۱، ص۱؛ابن طاوس، ملاحم، ص۲۵۱؛ فردوس الاخبار، ج۴،ص۶؛دلائل الامامہ، ص۲۳۳؛عقدالدرر، ص۲۳۹؛ینابیع المودة، ص۴۳۲

(۴)نورا لابصار، ص۱۷۰؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۲۵؛ملاحظہ ہو:فضل الکوفہ، ص۲۵؛اعیان الشیعہ، ج۲،ص۱۵ ؛ ینابیع المودة، ص۴۹۲

(۵)ابن حماد ،فتن ،ص۱۰۴؛کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۹۱

(۶)اثبات الہداة، ج۳،ص۵۷۴

۲۰۸

نیز آنحضرت نے فرمایا:”۱ ۹/ سال و کچھ مہینے حکومت کریں گے “(۱)

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ۳۰۹/ سال حکومت کریں گے؛ جس طرح اصحاب کہف غار میں اتنی مدت رہے ہیں ‘و‘(۲)

مرحوم مجلسی فرماتے ہیں: جو روایات حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت کی تعین کرتی ہیں ان کی درج ذیل توجیہ کی جا سکتی ہے :بعض روایات تمام مدت حکومت پر دلالت کرتی ہیں بعض حکومت کے ثبات و بر قراری پر بعض سال اور ایام کے اعتبار سے ہیں جن سے ہم آشنا ہیں ۔ بعض احادیث حضرت کے زمانے میں سال و روز پر دلالت کرتی ہیں جو طولانی ہوں گے اور خدا وند عالم حقیقی مطلب سے آگاہ ہے۔(۳)

مرحوم آیة اللہ طبسی(میرے والد بزرگ )ان روایات کو بیان کرنے کے بعد ۷/ سال والی روایت کو ترجیح دیتے ہیں؛ لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ اس معنی میں کہ ہر سال ہمارے سالوں کے مطابق دس سال کے برابر ہوگا ۔(۴)

____________________

(۱)نعمانی ،غیبة، ص۳۳۱؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۹۸وج۵۳، ص۳

(۲)طوسی ،غیبة ،ص۲۸۳؛بحار الانوار،ج۵۲،ص ۳۹۰؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۸۴

(۳)بحارالانوار، ج۵۲، ص۲۸۰

(۴)الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۲۵

۲۰۹

دوسری فصل

علم و دانش اور اسلامی تہذیب میں ترقی

جس حکومت کا راہبر حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) جیسا ہو جن پر علم و دانش کے دروازے ا ن پر کھلے ہیں نہ اس حدتک کہ جیسا پیغمبروں اور اولیاء خدا پر کھلے تھے بلکہ تیرہ گنا سے بھی زیادہ علم و دانش سے بہرہ مند ہوں گے، قطعی طور پر علمی ترقی حیرت انگیز ہوگی اور دنیائے علم و دانش میں خیرہ کر دینے والے تبدیلی واقع ہوگی۔

علم و دانش کاا دراک و شعورامام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور میں آج کی ترقی سے قابل مقایسہ نہیں ہے نیز لوگ بھی اس ترقی پذیر دانش کا خیر مقدم کریں گے حتی عورتیں جن کا سن ابھی زیادہ گذر ا نہیں ہوگا اس طرح کتاب خدا وندی ومذہب کے مبانی سے آشنا ہوں گی کہ آسانی سے حکم خدا قرآن سے نکال لیں گی۔

نیز صنعت وٹکنالوجی کے لحاظ سے بھی حیرت انگیز ترقی ہوگی اگر چہ ان جزئیات کو روایات نے بیان نہیں کیاہے، ان تمام روایات سے جو اس سلسلے میں بیا ن ہو ئی ہیں حیرت انگیز دگر گونی و تغیرکا پتہ چلتا ہے ،جیسے وہ روایات جو بتاتی ہیں ایک شخص مشرق میں ہونے کے باوجود مغرب والے برادر کو دیکھے گا ،حضرت تقریر

کے وقت تمام دنیا والوں کو دیکھیں گے، حضرت کے چاہنے والے دوری کے باوجود ایک دوسرے سے باتیں کریں گے، اور ایک دوسرے کی بات سنیں گے، تعلیمی لکڑی(چھڑی) اور جوتے کے بند و فیتے انسان سے گفتگو کریں گے گھر کے اندر موجود چیزیں انسان کو خبردیں گی ،اور بادل پر سوار ہو کر اس سمت سے اس سمت پرواز کرے گابہت سارے نمونے ہیں اگرچہ بعض کا اشارہ اعجاز کی طرف ہو لیکن روایات کی جانب توجہ کرنے سے، ان دگر گونی کو دریافت کیا جا سکتا ہے ۔

روایات امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور میں دنیا کو مہذب و متمدن ، طاقتور،علمی اعتبار سے ترقی یافتہ بتاتی ہیں کلی طور پر آج کی صنعتی ترقی اس زمانہ کی ترقی سے کوسوں دور تصور کی جائے گی جس طرح آج کی صنعت اورٹکنالوجی گذشتہ سے قابل مقایسہ نہیں ہے۔

۲۱۰

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اور آج کے دور میں بنیادی فرق یہ ہے کہ آج ہمارے دور میں علم و صنعت کی ترقی معاشرہ انسانی کی اخلاقی و ثقافتی گراوٹ پر مبنی ہے جتنا انسان علمی ترقی کرتا جا رہا ہے اتنا ہی انسانیت سے دور ہوتا جارہا ہے اور تباہی و بر بادی ،فتنہ و فساد کی طرف مائل ہے لیکن حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں بالکل بر عکس شرائط ہوں گے باوجودیکہ انسان علم اور ٹکنالوجی کے اعتبار سے بلندی کی طرف جارہا ہے لیکن اخلاقی گراوٹ ،کج رفتاری سے ہٹ کر اسے اخلاق کی بلندی و انسانی کمال کی اعلیٰ منزل پر ہونا چاہئے ۔

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کی حکومت میں خدا وند ی پروگرام کے اجراء سے اتنا انسان کی شخصیت کی تربیت ہوگی کہ گویا وہ لوگ انسانوں کے علاوہ تصور کئے جائیں گے جو سابق میں زندگی گذارچکے ہیں۔وہ لوگ جو کل تک درہم و دینار کی خاطر اپنے نزدیک ترین شخص کا خون بہاتے تھے، حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور حکومت میں مال و دولت ان کی نظر میں اتنی بے قیمت ہو جائے گی کہ ان کا سوال اور مانگنا پستی و گرواٹ کی علامت بن جائے گا۔اگر کل تک ان کے دلوں میں بغض وحسد،کینہ و کدورت حاکم تھے تو حضرت کے زمانے میں دل ایک دوسرے سے نزدیک ہو جائیں گے گویا د و قالب ایک جان ہو جائیں گے جن لوگوں گے دل سست اور کمزور تھے اتنے محکم و مضبوط ہوں گے کہ لوہے سے بھی سخت و قوی ہوجائیں گے ۔

۲۱۱

ہاں آنحضرت کی حکومت عقلوں کے کمال و اخلاقی بلندی،رشد و آگہی کا سبب ہوگی وہ دورکمال و ترقی کا دور ہوگا جو کچھ کل تک ہوا وہ انسانی تنگ نظری کا نتیجہ تھا لیکن حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے الٰہی نظام میں انسان عقل و خرد ،اخلاق و کردار ، فکرونظر ،آرزو وتمنا کے اعتبار سے اعلیٰ منزل پر فائز ہوگا یہ وہی بڑا وعدہ ہے جو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور حکومت میں پورا ہوگا جسے کسی حکومت نے انسانیت کو ایسا ھدیہ نہیں پیش کیا ۔

الف)علم و صنعت کی بہار

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” علم و دانش کے۲ ۷/ حروف ہیں اور اب تک جو کچھ پیغمبروں نے پیش کیا ہے وہ دو حرف ہے اور بس ۔لوگ آج دوحرف کے علاوہ (حرفوںسے) آشنا نہیں ہیں جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے، تو باقی۲ ۵/ حروف کو پیش کریں گے اور لوگوں کے درمیان رایج و نشر کریں گے نیز ان دو حرفوں کو ضمیمہ کر کے مجموعا ۲ ۷/ حروف لوگوں کے درمیان پیش کریں گے“(۱)

خرائج میں راوندی کی نقل کے مطابق ”جزا “صرفا کا بدل ہے (صِرفاً کی جگہ پر ہے۔)

اس روایت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ انسان علم و دانش کے لحاظ سے جتنا بھی ترقی کر لے حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں بارہ گنا بڑھ جائے گا اور معمولی غور و فکر سے معلوم ہو جائے گا کہ انسان حضرت کے زمانہ میں کس درجہ حیرت انگیز اور خیرہ کر دینے والی ترقی کرے گا۔

____________________

(۱)خرائج، ج۲، ص۸۴۱؛مختصر بصائر الدرجات، ص۱۱۷؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۲۶

۲۱۲

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : علم و دانش کتاب خدا وندی و سنت نبوی کے اعتبار سے ہمارے مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دل میں اس طرح اُگے گا جس طرح گھاس عمدہ کیفیت کے ساتھ اُگتی ہے تم میں سے جو بھی حضرت کا زمانہ درک کرے اور ان سے ملاقات کرے ،تو ان پر میرا سلام کرے کہ تم پر سلام ہو اے خاندان رحمت و نبوت ،علم و دانش کے خزانہ، جانشین رسا لت ۔(۱)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں :”یہ امر، (ہمہ گیر اسلامی حکومت) اس کی شان میں ہے جو (امامت کے وقت) سن و سال کے اعتبار سے ہم سب سے کم ہوگا لیکن اس کی یاد ہم سب سے زیادہ دلنشین ہوگی خدا وند عالم علم و دانش انھیں عطا کرے گا ، اور کبھی انھیں خود پر موکول نہیں کرے گا۔(۲)

آنحضرت دوسری حدیث میں فرماتے ہیں :” جس امام کے پاس قرآن،علم اور اسلحے ہوںوہ مجھ سے ہے “(۳)

یہ روایات بشریت کے کمال و ترقی کے بارے میں بتا تی ہیں اس لئے کہ ایسا پیشوا سماج کو ترقی و خوش بختی کی راہ پر گامزن کر سکتا ہے جس میں تین چیز پائی جائے:(۱) ایسا قانون الٰہی جو انسانیت کو کمال کی سمت ہدایت و راہنمائی کرے(۲) ایسا علم و دانش جو انسانی زندگی کو رفاہ و عیش کی جہت دے(۳) اور قدرت و اسلحے جو بشریت کے کمال و ترقی کے لئے سد راہ و رکاوٹ ہیں راستے سے ہٹادے اور حضرت ولی عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) ان چند چیزوں کے مالک ہیں اس بناء پر دنیا میں حکومت کریں گے اور علمی وٹکنالوجی کی ترقی کے علاوہ، اخلاقی و انسانی ترقی کی بھی راہ پر گامزن کریں گے۔

____________________

(۱)کما ل الدین ،ج۲،ص۶۵۳؛العدد القویہ ،ص۶۵؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۴۹۱؛حلیة الابرار، ج۳، ص۶۳۹؛ بحار الانوار،ج۵۱، ص۳۶وج۵۲، ص۳۱۷

(۲)عقدالدرر، ص۴۲

(۳)مثالب النواصب ،ج۱،ص۲۲۲

۲۱۳

یہاں پر ہم بعض ان روایات کو بیان کریں گے جو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں علمی و صنعتی ترقی پر دلالت کرتی ہیں ۔

امام جعفر صادق (علیہ السلام) حضرت امام عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں ارتباط کی کیفیت سے متعلق فرماتے ہیں :” حضر ت کے زمانے میں مشرق میں رہنے والا مومن مغرب میں رہنے والے بھائی کو دیکھے گا اسی طرح مغرب میں رہنے والا مشرقی مومن کو مشاہدہ کرے گا“(۱)

یہ روایت تصویری ٹیلفون کی اختراع و ایجاد کے باوجود زیادہ قابل فہم وادراک ہے واضح نہیں ہے کہ یہی روش اس طرح سے دنیا میں رائج ہو گی کہ تمام لوگ اس سے استفادہ کریں گے یا یہ کہ ترقی یافتہ سیسٹم ( System )اس کا جاگزیں ہوگا یا ان سب سے بالا تر کوئی دوسرا مطلب ہوگا۔

نیز آنحضرت ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں :” جب ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) قیام کریں گے، تو خدا وند عالم ہمارے شیعوں کی قوت سماعت وبصارت میں اضافہ کردے گا ؛اور اتنا کہ حضرت کا قاصد چار فر سخ سے آپ کے شیعوں سے گفتگو کرے گا اوروہ لوگ ان کی باتیں سنیں گے اور حضرت کو دیکھیں گے ؛جب کہ حضرت اپنی جگہ پر قائم و موجود ہوں گے “(۲)

مفضل بن عمر نے امام جعفر صاد ق(علیہ السلام) سے سوال کیا: کس جگہ اور کون سی سر زمین پر حضرت ظہور کریں گے ؟

حضرت نے فرمایا :” کوئی دیکھنے والا نہیں ہے جو حضرت کو ،ظہور کے وقت دیکھے، لیکن

____________________

(۱)بحار الانوار ،ج۵۲،ص۳۹۱؛حق الیقین، ج۱،ص۲۲۹؛بشارة الاسلام، ص۳۴۱

(۲)کافی ،ج۸ ،ص۲۴۰؛خرائج ،ج۲،ص۸۴۰؛مختصر البصائر، ص۱۱۷؛الصراط المستقیم ،ج۲،ص۲۶۲؛منتخب الانوار المضیئہ، ص۲۰۰؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۶

۲۱۴

دوسرے لوگ اسے نہ دیکھیں (یعنی ظہور کے وقت سبھی اس کو دیکھیں گے)اگر کوئی اس کے علاوہ مطلب کا اثبات کرے تو اس کی تکذیب کرو“(۱)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”گویا حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کو رسول خدا کی زرہ پہنے ہوئے دیکھ رہا ہوں ہر جگہ کا رہنے والا حضرت کو اس طرح دیکھے گا کہ گویا آپ اس کے ملک و شہر میں ہیں “(۲) ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ لوگ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانے میں موجودہ وسائل کے علاوہ سے حضرت کو دیکھیں گے اس لئے کہ روایت میں ہے کہ لوگ آنحضرت کو اس طرح دیکھیں گے کہ گویا حضرت ان کے ملک و شہر میںموجود ہیں اس سلسلے میں دو احتمال ہے۱۔سہ جانبہ تصویر کے نشر کا سیسٹم اس زمانے میں پوری دنیا میں پھیل چکا ہوگا ۔ترقی یافتہ سیسٹم اس کی جگہ پر ہوگا جس کے ذریعہ حضرت کو دیکھیں گے یا یہ کہ حدیث امام (علیہ السلام) کے اعجاز کی جانب اشارہ کرتی ہے۔

رسول خدا اس زمانے میں حمل و نقل کی کیفیت کے بارے میں فرماتے ہیں: ”ہمارے بعد ایسا گروہ آئے گا جسے طی الارض (یعنی زمین اس کے قدموں تلے سمٹے گی)کی صلاحیت ہوگی اور دنیا کے دروازے ان کے لئے کھل جائیں گے زمین کی مسافت ایک پلک جھپکنے سے پہلے طے ہو جائے گی اس طرح سے کہ اگر کوئی مغرب و مشرق کی سیر کرنا چاہے تو ایک گھنٹہ میں ایسا ممکن ہو جائے گا“(۳)

____________________

(۱)بحار الانوار، ج۵۳،ص۶

(۲)کامل الزیارات، ص۱۱۹؛نعمانی،غیبة، ص۳۰۹؛کما ل الدین، ج۲،ص۶۷۱؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۲۵؛ اثبات الہداة، ج۳،ص۴۹۳؛نورالثقلین،ج۱،ص۳۸۷؛مستدرک الوسائل، ج۱۰،ص۲۴۵؛جامع احادیث الشیعہ ،ج۱۲، ص۰ ۷۳

(۳)فردوس الاخبار ،ج۲،ص۴۴۹؛احقاق الحق ،ج۱۳،ص۳۵۱

۲۱۵

حضرت کی حکومت اور ظہور کے زمانے میں ذرائع ابلاغ کی ترقی کے بارے میں روایات ہیں ہم یہاں پر صرف دو روایت کے ذکر کرنے پراکتفاء کرتے ہیں ۔

رسول خدا نے فرمایا : ”اس ذا ت کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تعلیمی لکڑی (چھڑی)،جوتے ، عصا(لاٹھی) خبر دینے لگیں کہ ہمارے گھر سے نکلنے کے بعد گھر والوں نے کیا کیا“(۱)

امام محمد باقر(علیہ السلام) حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں اخبار و اطلاعات سے متعلق فرماتے ہیں: ”حضر ت کو مہدی اس لئے کہتے ہیں کہ پوشیدہ امور کو جان لیں گے توپھر انھیں ایسی جگہ بھیجیں گے جہاں لوگ مجرم و گناہ گار کو قتل کر تے ہیں ۔

حضرت کی اطلاع لوگوں کے بنسبت اتنی ہوگی کہ گھر میں بات کرنے والا ڈرے گا کہ کہیں گھر کی دیوار حضرت سے کہہ نہ دے اور اس کے خلاف گواہی نہ دیدے “(۲)

یہ روایت ممکن ہے کہ حضرت کے زمانے میں متحیر و چکا چوندکردینے والی اطلاعات کی جانب اشارہ ہو البتہ عالمی حکومت کے لئے ضروری ہے کہ تشکیلات اور مخفی خبر دینے والے سیسٹم بھی ہوں ممکن ہے کہ مراد وہی ظاہری عبارت ہو یعنی گھر کی دیواریں خبر دیدیں ۔

ب)اسلامی تہذیب کارواج

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں لوگ بے سابقہ اسلام کی طرف مائل ہوں گے،نیزاضطراب،گھٹن ، دینداروں کے کچلنے اور مظاہر اسلامی پر پابند ی لگانے دور ختم ہو چکا ہوگا

____________________

(۱)احمد، مسند ،ج۳،ص۸۹؛فردوس الاخبار، ج۵،ص۹۸؛جامع الاصول، ج۱۱،ص۸۱

(۲)نعمانی، غیبة، ص۳۱۹؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۶۵

۲۱۶

ہر جگہ اسلام کا راگ بج رہا ہو گااور مذہبی آثار جلوہ فگن ہوں گے بعض روایات کی تعبیر کے مطابق اسلام ہر گھر ، خیمے،و محل میں پہنچ چکاہوگا جس طرح سردی و گرمی نفوذ کرتی ہے اس لئے کہ سردی و گرمی کا نفوذ اختیاری نہیں ہے ہر چند اس سے بچاو کیا جائے پھر بھی نفوذ کرکے اپنا اثر دیکھا ہی دیتی ہے اسلام اس زمانے میں بعض لوگوں کی مخالفت کے باوجود شہر ،دیہات،دشت و صحرا بلکہ دنیا کے چپہ چپہ میں نفوذ کر کے سب کو اپنے زیر اثر لے لے گا۔

ایسے ماحول میں فطری طور پر مذہبی شعار و مظاہر اسلامی سے لوگوں کی دلچسپی ، بے سابقہ ہوگی لوگوں کا قرآنی تعلیمات ،نماز جماعت اور نماز جمعہ میں شریک ہونا قابل دید ہوگا نیز موجود ہ مساجد یا جو بعد میں بنائی جائیں گی، لوگوں کی ضرورتیں بر طرف نہیں کر پائیں گی جو روایت میں ہے وہ یہ کہ ایک مسجد میں بارہ ۱۲/ دفعہ نماز جماعت ہوگی یہ خود ہی مظاہر اسلامی کے حددرجہ قبول کرنے کی واضح و آشکار دلیل ہے، یہ مطلب قابل توجہ ہے جب امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے دور والی روایت کو دیکھیں کیوں کہ دنیا قتل و کشتار سے کم ہو جائے گی ۔

ان حالات میں ادارے ،وزارتخانوں جن کی ذمہ داری دینی اورمذہبی ہے کا بڑا کردار ہے اور آبادی کے لحاظ سے مسجدیں بنائی جائیں گی حتی بعض ایسی جگہ پربھی مسجد بنانا لازم ہوگا جہاں پانچ سو دروازے ہوں گے یا روایت میں ہے کہ اس زمانے میں سب سے چھو ٹی مسجد آج کی مسجد کوفہ ہے جب کہ یہ مسجد آج دنیا کی سب سے بڑی مسجد ہے۔

یہاں پر قرآن کی تعلیم ،معارف دینی ، مساجد ،رشد معنوی و اخلاق کریمانہ روایت کی نظر میں دوران حکومت حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) بیان کریں گے ۔

۲۱۷

۱ ۔اسلامی معارف و قرآن کی تعلیم

امیر المو منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں : گ”ویا ہم اپنے شیعوں کو مسجد کوفہ میں اکٹھا دیکھ رہے ہیں کہ وہ( چادریں بچھا کر) چادروں پر لوگوں کو قرآن کی تنزیل کے اعتبار سے تعلیم دے رہے ہیں “(۱)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” گویا میں علی کے شیعوں کو دیکھ رہا ہوں کہ قرآن ہاتھ میں لئے لوگوں کو تعلیم دے رہے ہیں “(۲) اصبغ بن نباتہ کہتے ہیں :میںنے حضرت علی (علیہ السلام) کو کہتے ہوئے سنا : ”گویا غیر عرب (عجم) کو دیکھ رہا ہوں کہ مسجد کوفہ میں اپنی چادریں بچھائے تنزیل کے اعتبار سے لوگوں کو تعلیم دے رہے(۳) ہیں“ یہ روایت تعلیم دینے والوں کا نقشہ کھینچ رہی ہے کہ وہ سب عجم (غیر عرب) ہوں گے، و لغت دان، حضرات کے مطابق یہاں عجم سے مراد اہل فارس و ایرانی ہیں ۔

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں تمہیں اتنی حکمت و فہم و فراست عطا ہوگی کہ ایک عورت اپنے گھر میں کتاب خدا و سنت پیغمبر کے مطابق فیصلہ کرے گی “(۴)

۲ ۔تعمیر مساجد

حبہ عرنی کہتے ہیں کہ جب امیر المو منین(علیہ السلام) سر زمین ”حیرہ“( ۵ ) کی طرف روانہ ہوئے تو کہا:”-یقینا حیرہ شہر میں ایک مسجد بنائی جائے گی جس میں پانچ سو در ہوں گے اور بارہ ۱۲/ عادل امام جماعت اس میں نماز پڑھائیں گے میں نے کہا:یا امیر المو منین!(علیہ السلام)

____________________

(۱)نعمانی، غیبة، ص۳۱۹؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۶۵

(۲)نعمانی ،غیبة، ص۳۱۸؛بحارالانوار،ج۵۲، ص۳۶۴

(۳)نعمانی، غیبة، ص۳۱۸؛بحارالانوار،ج۵۲، ص۳۶۴

(۴)الارشاد، ص۳۶۵؛کشف الغمہ، ج۳،ص۲۶۵؛نور الثقلین ،ج۵،ص۲۷؛روضة الواعظین، ج۲،ص۲۶۵

(۵)مجمع البحرین ،ج۶، ص۱۱۱

۲۱۸

جس طرح آپ بیان کر رہے ہیں کیا مسجد کوفہ میں لوگوں کی اتنی گنجائش ہوگی؟توآپ نے کہا: وہاں چار مسجد بنائی جائے گی کہ موجود ہ مسجد کوفہ ان سب سے چھوٹی ہوگی اور یہ مسجد (مسجدحیرہ جو پانچ سو در والی ہے)اور دو ایسی مسجدیں کہ شہر کوفہ کے دو طرف میں واقع ہوں گی بنائی جائیں گی اس وقت حضرت نے بصرہ اور مغرب والوں کے دریا کی طرف اشارہ کیا “(۱)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)اپنی تحریک جاری رکھیں گے تاکہ قسطنطنیہ یا اس سے نزدیک مسجدیں بنادی جائیں “(۲)

مفضل کہتے ہیں کہ امام جعفرصادق(علیہ السلام)نے فرمایا:” حضرت قائم(عجل اللہ فر جہ ) قیام کے وقت شہر کوفہ سے باہر ایک ہزار در کی مسجدبنائیں گے“(۳) شاید (ظھرالکوفہ)سے مراد روایت میں شہر نجف اشرف ہو، چونکہ دانشمندوں نے شہر نجف کو ظہر الکوفہ سے تعبیر کیا ہے۔جناب طوسی کی صریح یا ظاہر روایت جو امام محمد باقر سے منقول ہے ایساہی ہے۔(۴)

۳ ۔اخلا ق و معنویت میں رشد اور ترقی

امیر المو منین(علیہ السلام) فرماتے ہیں کہ: لوگ حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں عبادت و دین کی طرف مائل ہوں گے اور نماز جماعت سے پڑھیں گے“(۵)

____________________

(۱)بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۵۲

(۲)حیرہ کوفہ سے ایک فرسخ کے فاصلہ پر ایک شہر تھا ساسانیوں کے زمانے میں ملوک لخمی وہاں حکومت کرتا تھا وہ لوگ ایران کی سر پرستی میں تھے لیکن خسرو پرویز نے ۶۰۲ئم میں اس سلسلے کو توڑ ڈالا اور وہاں حاکم معین کیا اور حیرہ مسلمانوں کے ہاتھوں میں آنے کے بعد بنای کوفہ کی علت سے زوال پذیر ہوا اور دسیوں صدی م سے اور چوتھی صدی ہجری سے قبل کلی طورپر نابود ہو گیا معین، ج۵،ص۴۷۰

(۳)التہذیب، ج۳،ص۲۵۳؛کافی، ج۴،ص۴۲۷؛من لایحضرہ الفقیہ، ج۲،ص۵۲۵؛وسائل الشیعہ، ج۹، ص۱۲۴؛ مراة العقول ،ج۱۸، ص۵۸؛ملاذ الاخیار، ج۵، ص۴۷۸؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۷۵ (۴)غیبت طوسی،ص۴۶۹اثبات الھداة؛۳،ص۵۱۵؛بحا رالانوار؛ج۵۲،ص۳۳۰

(۵) احقاق الحق، ج۱۳،ص۳۱۲؛

۲۱۹

امام جعفرصادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” کوفہ کے گھر کربلا و حیرہ سے متصل ہوجائیں گے اس طرح سے کہ ایک نماز گذار نما ز جمعہ میں شرکت کے لئے تیز رفتار سواری پر سوار ہوگا، لیکن وہاں تک نہیں پہنچ سکے گا “(۱)

شایدیہ کنایہ آبادی کی زیادتی اور لوگوں کے اژدہام کی جانب ہو جو نماز جمعہ میں شرکت سے مانع ہو اور جو یہ کہا گیا ہے کہ تمام نماز گذار یکجا ہو جائیں گے اور ایک نماز جمعہ ہوگی شاید اس کی وجہ تین شہروں کا ایک ہو جانا ہو ، اس لئے کہ شرعی لحاظ سے ایک شہر میں ایک ہی نماز جمعہ ہو سکتی ہے۔

فیض کاشانی نے ابن عربی کی بات نقل کی ہے جس کے بارے میں احتمال ہے کہ شاید کسی معصوم سے ہو:” حضرت قائم کے قیام کے وقت ایک شخص اپنی رات نادانی ،بزدلی کنجوسی میں گذارے گا لیکن صبح ہوتے ہی سب سے زیادہ عاقل ،شجاع ، جو ادانسان ہو جائے گا اور کا میابی حضرت کے آگے آگے قدم چومے گی“(۲)

حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم کے قیام کے وقت لوگوں کے دلوں سے کینے ختم ہو جائیں گے “(۳)

نیز پیغمبر اکر م اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” اس زمانے میں کینے اور دشمنی دلوں سے ختم ہو جائے گی “(۴)

شیعوں کے دوسرے پیشوا اخلاقی فسادو انحراف کے بارے میں فرماتے ہیں : ”خداوندعالم

____________________

(۱)الارشاد، ص۳۶۲؛طوسی، غیبة، ص۲۹۵؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۳۷؛وافی،ج۲، ص۱۱۲؛ بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۳۰،۳۳۷

(۲)عقدالدرر، ص۱۵۹

(۳)طوسی ،غیبة، ص۲۹۵؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۳۷؛وافی، ج۲،ص۱۱۲؛بحار الانوار،ج۵۲، ص۳۳۰،۳۳۷

(۴)وافی، ج۲،ص۱۱۳بہ نقل از: فتوحات مکیہ

۲۲۰