حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر0%

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 284

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی
زمرہ جات: صفحے: 284
مشاہدے: 126020
ڈاؤنلوڈ: 3768

تبصرے:

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 284 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126020 / ڈاؤنلوڈ: 3768
سائز سائز سائز
حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

آخر زمانہ میں ایک شخص کو مبعوث کرے گا کہ کوئی فاسد و منحرف نہیں رہ جائے گا مگر یہ کہ اس کی اصلاح ہو جائے“(۱) حضرت کے زمانہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ حرص و طمع لوگوں کے درمیان سے ختم ہو جائیں گی اور بے نیازی پیدا ہو جائے گی ۔

رسول خدا فرماتے ہیں:” جس وقت حضرت قائم قیام کریں گے، تو خداوند عالم لوگوں کے دلوں کو غنی و بے نیازی سے بھر دے گا ،اس درجہ کہ حضرت اعلان کریں گے جسے مال و دولت چاہئے وہ میرے پاس آئے لیکن کوئی آگے نہیں بڑھے گا“(۲)

اس روایت میں ،قابل غور و توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس حدیث میں لفظ”عباد“کا استعمال ہوا ہے؛ یعنی روحی دگر گونی و تغیر کسی گروہ سے مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ اندرونی تغیر و تبدیلی تمام انسانوں کے لئے ہے۔

اسی میں آنحضرت فرماتے ہیں :”تم کو مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی خوشخبری دے رہا ہوں ، جو لوگوں کے درمیان مبعوث ہوں گے، جب کہ لوگ آپسی کشمکش اور اختلاف و تزلزل میں مبتلا ہوں گے پھر اس وقت زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے، جس طرح وہ ظلم و ستم سے بھری ہوگی نیز زمین و آسمان کے ساکن اس سے راضی و خوشنود ہوں گے۔

خدا وند عالم امت محمد کے دل بے نیازی سے بھر دے گا اس طرح سے کہ منادی ندا دے گا جسے بھی مال کی ضرورت ہے آجائے (تاکہ اس کی ضرورت بر طرف ہو)لیکن ایک شخص کے علاوہ کوئی نہیں آئے گا اس وقت حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کہیں گے : ”خزانہ دار کے پاس جاو اور اس سے کہو کہ مہدی نے حکم دیا ہے کہ مجھے مال و ثروت دیدو“خزانہ دار کہے گا :دونوں ہاتھوں سے پیسہ جمع کروو ہ بھی پیسے اپنے دامن میں بھرے گا؛ لیکن ابھی وہاں سے باہر نہیں نکلے گا کہ پشیمان

____________________

(۱)خصال ،ج۲،ص۲۵۴،ح۱۰۵۱

(۲)عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱،ص۴۰۲؛ابن حماد، فتن ،ص۱۶۲؛ابن طاو س، ملاحم، ص۱۵۲

۲۲۱

ہوگا اور خود سے کہے گا کیا ہو ا کہ میں محمد کی امت کا سب سے لالچی انسان ٹھہرا !کیا جو سب کی بے نیازی و غنا کا باعث بنا ہے وہ ہمیں بے نیاز کرنے سے ناتواں ہے پھر اس وقت واپس آکر تمام مال لوٹا دے گا ؛لیکن خزانہ دار قبول نہیں کرے گا اور کہے گا ہم جو چیزدیدیتے ہیں وہ واپس نہیں لیتے۔(۱) روایت میں( یملاء قلوب امة محمد) کا جملہ استعما ل ہوا ہے تو شایان غور و دقت ہے اس لئے کہ غناء و بے نیازی کا ذکر نہیں ہے بلکہ روح کی بے نیازی مذکور ہے ممکن ہے کہ ایک انسان فقیر ہو لیکن اس کی روح بے نیازو مطمئن ہوگی اس روایت میں(یملا قلوب امة محمد) کے جملے کااستعمال یہ بتا تا ہے کہ ان کے دل بے نیاز و مطمئن ہیں اس کے علاوہ مالی اعتبار سے بھی بہتر حالت ہوگی۔

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں اخلاقی کمال ،قلبی قوت، عقلی رشد و اضافہ کے بارے میں چند روایت کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں ۔

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب قائم(علیہ السلام) قیام کریں گے، تو اپنا ہاتھ بندگان خدا کے سروں پر پھیریں گے ان کی عقلوں کو جمع کریں گے (رشد عطا کریں گے اورایک مرکز پرلگا دیں گے)ان کے اخلاق کو کامل کریں گے“(۲)

بحار الانوار میں (احلامھم)کا استعمال ہوا ہے یعنی ان کی آرزو ں کو پورا کریں گے۔(۳)

امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) جب اسلامی قوانین کو بطور کامل اجراء کریں گے تو لوگوں کی رشد فکری میں اضافہ کا باعث ہوگا نیز رسول خدا کا ہدف کہ آپ کہتے تھے :” میں لوگوں کے اخلاق کامل کرنے کے لئے مبعوث ہوا ہوں “محقق ہوگا۔(عملی ہو جائے گا)

رسول خدا حضرت فاطمہ( سلام اللہ علیہا) سے فرماتے ہیں : ”خدا وند عالم ان

____________________

(۱)منن الرحمن ،ج۲،ص۴۲؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۲۴نقل از :امیر المو منین علیہ السلام

(۲)ابن طاوس، ملاحم، ص۷۱؛احقاق الحق ،ج۱۳،ص۱۸۶؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۷

(۳)احمد ،مسند ،ج۳،ص۳۷،۵۲؛جامع احادیث الشیعہ، ج۲،ص۳۴؛احقا ق الحق ،ج۱۳، ص۱۴۶

۲۲۲

دونوں (حسن وحسین علیہما السلام ) کی نسل سے ایک شخص کو مبعوث کرے گا جو گمراہی کے قلعوں کو فتح اور سیاہ دل،کور باطن، مردہ ضمیروں کو تسخیر کرے گا ۔“(۱)

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : امیر المو منین (علیہ السلام) نے فرمایا : ”ایک شخص میرے فرزندوں میں ظہور کرے گا اور اپنے ہاتھ بندگان خدا کے سرپر رکھے گا اس وقت ہر مومن کا دل لوہے سے زیادہ مضبوط اور سندان(جس پر لوہار لوہا کوٹتے ہیں)سے زیادہ محکم تر ہو جائے گا اور ہر شخص چالیس مرد کی قوت کا مالک ہوگا“(۲)

حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور حکومت کے افراد دنیا کے فریب کا یقین کرتے ہوئے تمام مصیبتوں و گناہوں کو جان لیں گے نیز تقویٰ و ایمان کے لحاظ سے ایسے ہو جائیں گے کہ پھر دنیا انھیں فریب نہیں دے پائے گی۔

رسول خدا فرماتے ہیں : ”زمین اپنے سینے میںمحفوظ بہتر سے بہتر چیزوں کو باہر نکال دے گی جیسے سونے چاندی کے ٹکڑے ،اس وقت قاتل آئے گا اور کہے گا ہم نے ان چیزوں کے لئے قتل کیا ہے جس نے قطع رحم کیا ہے کہے گا یہ قطع رحم کا باعث ہوا ہے چور کہے گا اس کے لئے میرا ہاتھ قطع ہوا ہے پھر سب سونے کو پھینک دیں گے اورکوئی بھی اس سے کچھ نہیں لے گا“(۳)

زید زراء کہتے ہیں میں نے امام صادق(علیہ السلام) سے عرض کی: مجھے خوف ہے کہ کہیں میں مومنین میں نہ رہوں آپ نے کہا:” کیوں؟“میں نے کہا : چونکہ میں اپنے درمیان، کوئی ایسا شخص نہیں پا رہا ہوں جو درہم و دینا ر پر اپنے دینی بھائی کو مقدم کرے بلکہ دیکھ رہا ہوں کہ درہم و

____________________

(۱)کافی ،ج۱،ص۱۵؛خرائج، ج۲،ص۸۴۰؛کمال الدین ،ج۲،ص۶۷۵

(۲)بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۶

(۳)عقد الدرر ،ص۱۵۲؛حقاق الحق ،ج۱۳،ص۱۱۶؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۴۸،۴۹۵

۲۲۳

دینارہمارے نزدیک اُن براد ر دینی وا یمانی پر اہمیت رکھتے ہیں جو امیر المو منین (علیہ السلام) کی ولایت و دوستی کا دم بھرتے ہیں ۔

حضرت نے کہا : ”نہیں، تم ایسے نہیں ہو بلکہ تم مومن ہو؛ لیکن تمہارا ایمان ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور سے قبل کامل نہیں ہوگا اس وقت خدا وند عالم تمہیں برد باری ،وصبر عطا کرے گا پھر اس وقت کامل مومن بن جاو گے“(۱)

____________________

(۱)کما ل الدین ،ج۲،ص۶۵۳؛دلائل الامامہ، ص۲۴۳؛کامل الزیارات، ص۱۱۹

۲۲۴

تیسری فصل

امنیت

جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے نا امنیت و غیرسا لمیت کا ماحول پوری دنیا پر محیط ہوگا تو حضرت کا سب سے بنیادی کا م معاشرہ میں امن و سکون پیدا کرنا ہے، حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں دقیق پروگرام جو بنائےء جائیں گے کوتاہ مدت میں امنیت ، سماج میں قائم ہو جائے گی اور لوگ پرسکون انداز سے دنیا میں زندگی بسر کریں گے ایسی امنیت قائم ہوگی کہ انسان نے کسی زمانے میں نہیں دیکھا ہوگا۔

راستے اس طرح پر امن ہو جائیں گے کہ جوان عورتیں بغیر کسی محرم کو ہمراہ لئے ہوئے سفر کریں گی اور ہر طرح کی چھیڑ چھاڑ او رسو استفادہ سے محفوظ رہیں گی۔

لوگ بھرپور قضاوت کے ساتھ امنیت میں زندگی بسر کریں گے اس طرح سے کہ کسی کا معمولی حق کبھی پایمال نہیں ہوگا قوانین و پروگرام اس طرح اجراء ہوں گے کہ لوگ مالی و جانی اعتبار سے مکمل امنیت میں ہوں گے چوری سماج سے ختم ہو جائے گی اور اس درجہ کے اگر کوئی جیب میں ہاتھ ڈالے گا تو چوری کا تصور نہیں ہوگا بلکہ اس کی توجیہ ہو جائے گی۔

ایسی امنیت و سا لمیت ہوگی کہ اس کے دائرے میں حیوانات و جاندار سبھی آجائیں گے اور گوسفند و بھیڑ ئے ایک جگہ زندگی گذاریں گے نیز بچے بچھو اور ڈسنے والے جانوروں سے کھلیں گے اور انھیں کوئی گزند بھی نہیں پہنچے گا۔

۲۲۵

الف)عمومی امنیت

رسول خدا اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” جب عیسیٰ بن مریم (علیہ السلام)آسمان سے زمین پر آئیں گے تو دجّال کو قتل کریں گے ، چرواہے اپنی گوسفندوں سے کہیں گے چرنے کے لئے فلاں جگہ جاو اور اس وقت لوٹ آو ،گوسفند کے گلے دو کھیتوں کے درمیان ہوں گے مگر اس کے ایک خوشے سے تجاوز نہیں کریں گے نیز اس کی ایک شاخ بھی اپنے پیروں سے نہیں روندیں گے ۔(۱)

رسول خدا فرماتے ہیں : ”زمین کو عدل وانصاف سے بھر دے گا تاکہ لوگ اپنی فطرت کی جانب باز گشت کریں نہ کوئی ناحق خون بہے گا اور نہ ہی کسی سوئے ہوئے کو جگایا جائے گا“(۲)

ابن عباس حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں امنیت کے محیط ہونے کے بارے میں کہتے ہیں کہ حتی اس زمانے میں بھیڑیا گو سفند پر حملہ نہیں کرے گا نیز شیر ،گائے کو نہیں کھائے گا سانپ انسان کو کوئی گزند نہیں پہنچائے گا ،چوہا ذخیرہ نہیں کھائے گا نہ ہی اسے بر باد کرے گا۔(۳)

امیر المو منین(علیہ السلام)فرماتے ہیں : ”جب قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)ہمارے قیام کریں گے تو آسمان سے پانی برسے گا، درندے و چوپائے ایک درسے صلح و آشتی کے ساتھ داخل ہو ں گے نیز انسانوں سے انھیں کوئی سرو کار نہ ہوگا اور اتنا امن و سکون ہوگا کہ ایک عورت عراق سے شام چلی

____________________

(۱)ابن طاوس، ملاحم، ص۹۷

(۲)ابن حماد، فتن، ص۹۹؛متقی ہندی،برہان، ص۷۸؛ابن طاوس، ملاحم، ص۷۰؛ملاحظہ ہو:عقدالدرر، ص۱۵۶ القول المختصر ،ص۱۹؛سفارینی ،لوائح، ج۲،ص۱۲؛طوسی ،غیبة، ص۲۷۴؛خرائج ،ج۳،ص۱۴۹؛اثبات الہداة، ج۳، ص۵۱۴ ؛ بحار الانوار،ج۵۲،ص۲۹۰

(۳)بحار الانوار، ج۱،ص۶۱؛بیہقی ،سنن ،ج۹،ص۱۸۰

۲۲۶

جائے گی نہ کوئی درندہ اسے پریشان کرے گا اور نہ ہی وہ کسی درندہ سے خوفزدہ ہوگی “(۱)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کا لشکر (کانے دجال کی فوج ) کو نیست ونابود کرے گا زمین اس کے منحوس وجود سے پا ک ہو جائے گی پھر حضرت شرق و غرب عالم کی فرمانروائی کریں گے اور جابلقا سے جابرسا تک کو فتح کریں گے بلکہ تمام شہروں پر محیط حکومت ہوگی اور آپ کی حکومت کو استقرار و دوام ملے گا “(۲)

آنحضرت لوگوں کے ساتھ عادلانہ رفتار رکھیں گے حدیہ ہو گی کہ گوسفند بھیڑئے کے نزدیک چرنے میں مشغول ہوگی اور بچے بچھو سے کھیلیں گے بغیر اس کے کہ انھیں کوئی گزند پہنچے برائیاں ختم اور نیکیاں باقی رہیں گی ایک روایت میں آیا ہے کہ” حضرت عیسیٰ(علیہ السلام)کی آمد سے پہلے قیامت برپا نہیں ہوگی(گرگ) بھیڑیاگوسفند کے گلہ میں گلہ کے کتے کے مانند ہوگا شیر اونٹ کے گلے میں اونٹ کے بچے یا اس کے جوڑے کے مانندہوگا“(۳)

حذیفہ کہتے ہیں کہ میں نے پیغمبر کو فرماتے سنا : ”حضرت قائم کے ظہور کے وقت پرندے اپنے آشیانے و مچھلیاں دریا میں تخم گذاری کریں گی“(۴)

شاید اس سے مرادیہ ہو کہ وہ امنیت کا احساس کریں گی اور بغیر دغدغہ اپنے آشیانہ و ٹھکانہ پر تخم گذاری کریں گی۔ابو امامہ باہلی کہتے ہیں کہ ایک دن رسول خدا نے ہمارے لئے خطبہ دیا اور اس کے آخر میں کہا اُس زمانے میں لوگوں کا پیشوا ایک نیک و صالح انسان ہے اس زمانے

____________________

(۱)صدوق ،خصال ،باب۴۰۰،ص۲۵۵؛الامامة والتبصرہ،ص۱۳۱؛اثبات الہداة،ج۳،ص۴۹۴؛بحار الانوار ، ج۵۲، ص۳۱۶

(۲)ینابیع المودة، ص۴۲۲؛المحجہ، ص۴۲۵؛احقاق الحق، ج۱۳،ص۳۶۱

(۳)عبد الرزاق، مصنف ،ج۱۱،ص۴۰۱؛ملاحظہ ہو:احمد،مسند ،ج۲،ص۴۳۷،۴۳۸؛ابن حماد، فتن، ص۱۶۲

(۴)اختصاص ،ص۲۰۸؛بحارالانوار،ج۵۲،ص۳۰۴

۲۲۷

میں بھیڑ، گا ئے پر ظلم نہیں ہو گا، دلوں سے کینے ختم ہو جائیں گے جانوروں کے منھ سے لگام ہٹالی جائے گی (اور حیوانات دوسرے کے حقوق سے تجاوز نہیں کریں گے چہ جائیکہ انسان ایک دوسرے کے حقوق سے تجاوز کریں ) بچہ درندہ کے منھ میں اپناہاتھ ڈال دے گا لیکن حیوان اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائے گا، حیوا ن کا بچہ شیر اور درندوں کے سامنے ڈال دیا جائے گا لیکن اسے کوئی گزند نہیں پہنچے گا شیر اونٹ کی قطار میں اور بھیڑیا ،گوسفند کے گلہ میں حفاظتی کتے کی طرح ہو گا“(۱)

شاید یہ روایت بھر پور امنیت اور اطمینان بخش فضا کی حکایت کر رہی ہو ۔

نیز آنحضرت فرماتے ہیں:”جب حضرت عیسیٰ ابن مریم (علیہ السلام)آسمان سے زمین پر آئیں گے اور دجّال کو قتل کریں گے تو سانپ ،بچھو ظاہر ہوں گے لیکن کسی کو نقصان نہیں پہنچائیں گے “(۲)

اس حدیث سے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانے میں جانی ومالی حفاظت کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے؛ اس لئے کہ چرواہا جو اپنے چوپایوں کو جنگل میں بھیجے گا تو انسانوں اور درندوں کی تعدی سے آسودہ خاطر ومطمئن ہوگا جو انسان سفر کر رہا ہو یا موذی جانوروں کے درمیان زندگی گذارتا ہو ان کی ایذا رسانی سے محفوظ ر ہے گا ، اس طرح سے کہ گویا احترام کا قانون دوسرے کے حق میں حتی کہ حیوانات کے درمیان میں مورد قبول ہوگاسب ہی اس کے سامنے سر اپا تسلیم و مطیع ہوں گے شاید کچھ امنیت اس وجہ سے ہو کہ اس زمانہ میں نعمت الٰہی وافر ہو گی اورجب تمام جاندار اس سے فیضیاب ہوں گے تو امنیت کا احساس کرتے ہوئے کوئی کسی کو ایذا نہیں پہنچائے گا ۔

حضرت امام عصر (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانے میں امنیت کا دور دورہ اس طرح

____________________

(۱)طیالسی ،مسند ،ج۱۰،ص۳۳۵؛ابن طاوس ،ملاحم ،ص۱۵۲

(۲)ابن طاوس ،ملاحم، ص۹۷

۲۲۸

سے ہوگا کہ اگر کوئی سوئے گا تو اس اطمینان سے کہ کوئی اس کی نیند میں خلل انداز نہیں ہوگا اور کوئی اسے بیدار نہیں کرے گا ۔

رسول خدا اس سلسلے میں فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی امت آنحضرت سے پناہ حاصل کرے گی، جس طرح شہد کی مکھیاں اپنی شہزادی کے پاس پناہ لیتی ہیں آنحضرت زمین کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے؛ جیسا کہ اس سے پہلے ظلم وجور سے پُر ہوگی؛ اس حد تک کہ لوگ اپنی اصلی فطرت کی جانب لوٹ آئیں گے سوئے ہوئے انسان کو کوئی بیدار نہیں کرے گا اور نہ ہی کسی کاناحق خون بہے گا “(۱)

ب)راستے کی امنیت

حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دوران حکومت راستوں کی سا لمیت و امنیت سے متعلق بہت ساری روایتیں ہیں مگر یہاں ہم چند روایت کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں۔

رسول خدا فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے زمانہ میں عورت ظلم و ستم ،ناانصافی سے بے خوف و خطر ہو کر شب کو سفر کرے گی“(۲)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” یقینا خدا وند عالم اس امر (اپنے دین ) کو تمام کر کے رہے گا اس طرح سے کہ شخص رات کو صنعا سے حضرموت تک مسافرت کرے گا تو اسے خدا کے علاوہ ،کسی کا خوف نہیں ہوگا“(۳) ان دو جگہوں کا نام شاید اس لئے لیا گیا ہے کہ یہ خوفناک بیابان ہیں کہ کبھی انھیں مفازہ سے تعبیر کیا جاتا تھا اس لئے کہ کامیابی اور سلامتی سے تفال کیاجاتا تھا۔

____________________

(۱)الحاوی للفتاوی، ج۲،ص۷۷؛ابن طاوس ،ملاحم، ص۷۰؛او رصفحہ ۶۳ پر تھوڑے سے فرق کے ساتھ ؛احقا ق الحق، ج۱۳،ص۱۵۴

(۲)المعجم الکبیر ،ج۸،ص۱۷۹

(۳)المعجم الکبیر ،ج۴،ص۷۲؛جامع الاصول ،ج۷، ص۲۸۶؛بیہقی، سنن، ج۹،ص۱۸۰

۲۲۹

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” خدا کی قسم، مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ناصر اس حد تک جنگ کریں گے کہ لوگ صرف اور صرف خدا ئے وحدہ لاشریک کی عبادت کریں اور اس کا کسی کو شریک قرار نہ دیں حتی کہ بوڑھی سن رسیدہ عورت اس سمت سے اس سمت جائے اور کوئی معترض نہ ہو“(۱)

ایک شخص نے حضرت امام جعفر صاد ق(علیہ السلام) سے سوال کیا: ہم کیوں حضرت قائم کے ظہور کی تمنا کریں ؟ کیاہم غیبت کے زمانہ میں بلند مرتبہ ہوں گے ؟ حضرت نے کہا: سبحان اللہ! کیا تم نہیں چاہتے کہ امام اپنی عدالت پوری دنیا میں عام کردیں اور راستوں کو پر امن بنادیں اور اپنے منصفانہ فیصلے سے ستم دیدہ کی نصرت فرمائیں ؟“(۲)

امام جعفر صادق(علیہ السلام) کے ایک ناصر کہتے ہیں کہ ایک دن ابو حنیفہ امام جعفر صادق(علیہ السلام) کے پاس آئے حضرت نے اس سے مخاطب ہو کر کہا :”یہ آیت کہتی ہے( سِیْرُوْا فِیْهَاْ لِیَاْلِی وْاَیَّامًاآمِنِیْن ) (۳) ” زمین میں شب و روز امن و سلامتی کے ساتھ حرکت کرو یہ کس زمین کے متعلق ہے ؟“

ابو حنیفہ نے کہا :میرا خیال ہے کہ مکہ و مدینہ کے درمیان ہو۔

حضرت اپنے چاہنے والوں کی طرف رخ کرکے کہنے لگے :”کیا تم لوگ جانتے ہو کہ لوگ اس راستے میں ڈاکو وں کا سامنا کریں گے اور ان کے اموال لوٹ لئے جائیں گے اور امنیت نہیں ہوگی اور مارڈالے جائیں گے ۔

____________________

(۱)عیاشی، تفسیر، ج۲،ص۶۲؛نعمانی، غیبة، ص۲۸۳؛تفسیر برہان، ج۱،ص۳۶۹؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۴۵؛ ینابیع المودة، ص۴۲۳؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۳۸۰

(۲)مفید ،اختصاص، ص۲۰؛عیاشی ،تفسیر ،ج۱،ص۶۴؛نعمانی، غیبة، ص۱۴۹؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۱۴۴؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۵۷؛بحار الانوار، میں ینصر المظلوم کے بجائے ینف المظلوم (آیا ہے )ملاحظہ ہو:الفائق ، ج۴،ص۱۰۰

(۳)سورہ سباء آیت۱۸

۲۳۰

اصحاب نے کہا: ہاں ایسا ہی ہے اور ابو حنیفہ خاموش رہے ۔

حضرت نے دوبارہ اس سے پوچھا : یہ آیت جس میں خدا وند عالم فرماتا ہے :( وَمَنْ دَخَلَهُ کَانَ اٰمِناً ) (۱) ” جو اس میں داخل ہو گیا محفوظ ہو گیا “کس زمین کے بارے میں ہے ،ابو حنیفہ نے کہا : کعبہ ۔

امام (علیہ السلام) نے کہا :” کیا تم نہیں جانتے کہ حجاج بن یوسف ثقفی ابن زبیر کی سر کوبی کے لئے کعبہ پر منجنیق سے حملہ کیا اور اسے مار ڈالا ،کیا وہ محفوظ جگہ پر تھا؟

ابو حنیفہ خاموش ہو گیا پھر کچھ نہیں بولا ۔

جب وہ وہاں سے چلا گیا ؛تو ابو بکر حضرمی نے آپ سے عرض کیا : میں آپ پر فدا ہو جاوں! ان دو سوالوں کا جواب کیا ہے ؟

امام جعفر صادق(علیہ السلام) نے کہا:”اے ابو بکر ! پہلی آیت سے مراد ہمارے قائم کی ہمراہی ہے نیز خدا وند عالم کے قول کا مطلب کہ اس نے کہا :” جو اس میں داخل ہو گیا محفوظ ہو گیا “ یعنی جو بیعت کے لئے ہاتھ بڑھائے اور حضرت کی بیعت کر لے تو حضرت کے ناصرو یاور میں قرار پائے گا اور امان میں ہوگا“

علی بن عقبہ اپنے باپ سے نقل کرتے ہیں کہ جس وقت حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، توعدالت بر قرار کریں گے نیز آپ کے دوران حکومت میں ظلم کا خاتمہ ہو جائے گا اور آپ کے وجود ذی جود سے راستے ،سڑکیں پُر امن ہو جائیں گی ۔(۲)

قتادہ کہتے ہیں کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) سب سے اچھے انسان ہیں آپ

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت ۹۷

(۲) علل الشرائع ،ج۱،ص ۸۳نورالثقلین ،ج۳،ص۳۳۲؛تفسیر برہان ،ج۳،ص۲۱۲؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۱۴

۲۳۱

کے زمانے میں زمین اتنی پُرامن ہوگی کہ ایک عورت دیگر پانچ عورتوں کے ہمراہ بغیر کسی مرد کے حج پر جائے گی اور ذرہ برابر خوفزدہ نہیں ہوگی ۔(۱)

عدی بن حاتم کہتے ہیں : یقینا ایک زمانہ آئے گا کہ ضعیف وناتواں عورت؛ تنِ تنہا حیرہ (نجف سے نزدیک ) سے خانہ خدا کی زیارت کو جائے گی اور خدا کے علاوہ کسی سے خائف نہیں ہوگی۔(۲)

ج)فیصلوں پر اعتماد

امام کے ظہور کے بعد ایک کام یہ ہے کہ جن لوگوں نے دنیا میں بے چینی و اضطراب پیدا کیا ہے اور لاکھوں افراد کو زخمی ،معلول ،اورقتل کر کے مادی و معنوی بے سرو سامانی ایجاد کی ہے انھیں سزا دی جائے گی کیونکہ وہ ایسے جرائم پیشہ افراد ہیں جنھوں نے دنیا کو ہلاکت و تباہی کے دہانے پر لگادیاہے۔

حضرت کے ظہور کے بعد ان کا تعاقب ،گرفتاری،محاکمہ ایک ضروری امر ہے ؛ اس لئے کہ حدود الٰہی کا اجراء کرنا واجب ہے؛ خصوصا امام معصوم (علیہ السلام) اور حضرت بقیة اللہ کی موجودگی میں کتاب خدا وندی کے مطابق ہر طرح کی ہو او ہوس سے، بری ہو کر حدود الٰہی کا اجراء ہو گا ۔

اس زمانہ میں اس اہم وظیفہ کی ادائیگی کے لئے ان افراد کو جو فقہی و اسلامی مبانی پر مسلط ہونے کے علاوہ گذشتہ میں ان پر معمولی اشکال و اعتراض بھی نہ ہواہو۔

روایات میں ان کے قضائی تسلط اور گذشتہ خوبیوں کا تذکرہ ہے ہم اس سلسلے میں چند روایات کے ذکر پر اکتفاء کرتے ہیں ۔

____________________

(۱)ابن حماد، فتن ،ص۹۸؛ابن طاوس ،ملاحم، ص۶۹؛عقدالدرر ،ص۱۵۱؛القول المختصر، ص۲۱

(۲)فردو س الاخبار، ج۳،ص۴۹۱

۲۳۲

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”جب قائم آل محمد قیام کریں گے، تو پشت کعبہ سے ۳۱۷ افراد کو باہر نکالیں گے۵ / جناب موسیٰ(علیہ السلام) کی قوم سے جو حق فیصلہ کرتے ہیں اصحاب کہف کے سات ،یوشع و صی موسیٰ (علیہ السلام) ، مومن آل فرعون ،سلمان فارسی، ابو دجانہ انصاری ، مالک اشتر نخعی۔(۱)

ابو بصیر امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے سوال کرتے ہیں : کیا اس گروہ ( ۳۱۳ افراد) کے علاوہ دوسرے لوگ پشت کعبہ پر نہیں ہیں ؟ امام نے کہا:” کیوں نہیں، دوسرے مومن بھی ہیں ؛ لیکن وہ فقہاء ،چیدہ چیدہ افراد ،حکام و قضاة ہوں گے جن کے سینے اور پشت پر حضرت ہاتھ پھیریں گے اس کے بعد ان کے لئے کوئی فیصلہ مشکل نہیں ہوگا“(۲) بحار الانوار میں ہے کہ وہ لوگ حضرت کے ناصر و یاور اور زمین کے حاکم ہوں گے ۔(۳)

صادق اہل بیت (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ)قیام کریں گے تو ہر محاذ اورباڈر پر ایک حاکم معین کریں گے، اور ان سے کہیں گے:” تمہارے کاموں کا پروگرام تمہارے ہی ہاتھ میں ہے اور اگر کبھی وظیفہ کی ادائیگی میں کوئی مشکل پیش آئے تو اپنی ہتھیلیوں پر نظر کرنا اور جو اس پر تحریر ہو اس کے مطابق عمل کرنا“(۴)

ہتھیلیوں سے مشکلات کا سمجھنا ممکن ہے کنایہ ہو مرکزی حکومت سے فوری ارتباط اور رفع مشکل کے وظیفہ کی تعیین ہو یا اشارہ ہو کہ ذمہ دار و عہد دار اپنے کاموں میں انتہائی حیرت انگیز

____________________

(۱)اثبات الہداة، ج۳، ص۵۵؛نقل از:عیاشی روضة الواعظین ص۲۶۶؛امام۲۷/ آدمیوں کو پست کعبہ سے باہر لائیں گے

(۲)ابن طاوس، ملاحم، ص۲۰۲؛دلائل الامامہ، ص۳۰۷/تھوڑے سے فرق کے ساتھ

(۳)دلائل الامامہ، ص۲۴۹؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۵

(۴)نعمانی ،غیبة، ص۳۱۹؛دلائل الامامہ، ص۲۴۹؛اثبات الہداة،ج۳، ص۵۷۳؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۶۵و ج۵۳، ص۹۱

۲۳۳

مہارت کے مالک ہوں گے کہ ایک آن میں اپنی فکر و نظر کا اظہار کر دیں یا معجزہ کے ذریعہ مشکل حل ہو جائے جس سے عقل انسان عاجز ہے ۔

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں: ”حضرت مہدی کے ظہور کے بعد کسی کا کوئی حق کسی کے ذمہ باقی نہیں رہے گاکیونکہ حضرت اسے واپس لے کر صاحب حق کو واپس کر دیں گے“(۱)

امام جعفر صادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب قائم آل محمد قیام کریں گے تو داود پیغمبر کے فیصلوں اور حکم پر عمل کریں گے انھیں شاہد و گواہ کی احتیاج نہیں ہوگی خدا وند عالم احکام الٰہی ان پر الہام کرے گا وہ بھی اپنے علم کے مطابق عمل کریں گے اور اسی کے اعتبار سے فیصلہ کریں گے“(۲)

سیار شامی کے فرزند جعفر کہتے ہیں کہ حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں پایمال حقوق کی واپسی اس درجہ ہے کہ اگر کسی کا کوئی حق کسی کے دانتوں کے نیچے ہوگا تو بھی اسے واپس لے کر صاحب حق کو لوٹا دیں گے(۳) البتہ یہ رفتار حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں ہی مناسب ہے اس کے قاضی : سلمان فارسی ،مالک اشتر ،جناب موسیٰ کی قوم کے سربرآوردہ افراد ہوں گے لیکن اس کی قیادت و رہبری خود آنحضرت کے ہاتھ میں ہوگی فطری ہے کہ پھر حقوق کی پامالی کا سوال نہیں ہوگا جیسا کہ (دانتوں کے نیچے والا) جملہ اس حقیقت کو بیان کرتا ہے۔

____________________

(۱)عیاشی، تفسیر ،ج۱،ص۶۴؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۲۲۴

(۲)روضة الواعظین، ص۲۶۶؛بصائر الدرجات ،ج۵، ص۲۵۹

(۳)ابن حماد، فتن، ص۹۸؛عقد الدرر، ص۳۶؛ابن طاوس ،ملاحم، ص۶۸؛القول المختصر ،ص۵۲

۲۳۴

چوتھی فصل

اقتصاد

اگر حکومت؛ خدا وند عالم کی تائیدسے الٰہی احکام و قوانین کامعاشرہ (سماج)میں اجراء کرے تو لوگ بھی اس کی برکت سے تبدیل ہو کر تقویٰ و پر ہیز گاری کی راہ پر لگ جائیں گے نتیجہ یہ ہوگا کہ خدا وند عالم کی نعمتیں ہر طرف سے بندوں پر برسنے لگیں گی۔

قرآن کریم میں ہم پڑھتے ہیں :( وَلَوْ اَنَّ اَهْل الْقُریٰ اَمَنُوْا وَ اتَّقُوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرْکَاتٍ مِنَ السَّمَاءِ وَ الْاَرْضِ ) (۱) ” اگر اس بستی کے لوگ ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں تو ہم زمین و آسمان کی بر کتیں ان کے اختیار میں دیدیں ۔“

حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی حکومت میں لوگ خدا کی طرف مائل اور حجت خدا کے حکم کے سامنے تسلیم ہوں گے ،پھر کوئی زمین و آسمان کی بر کتوں کے درمیان حائل نہیں ہوگا اس لحاظ سے موسم کے اعتبار سے بارش ہونے لگے گی دریاسے پانی لبریز ہوگا زمینیں زرخیز ہو جائیں گی اور کھیتی لہلہا اٹھے گی باغات سر سبزا ور میووں سے بھر جائیں گے مکہ و مدینہ جیسے صحرا جہاں کبھی ہر یالی کا نام و نشان نہیں تھا یکبارگی نخلستان میں تبدیل ہو جائیں گے اور منڈی وسیع ہو جائے گی۔

معاشرہ کا اقتصاد بہتر ہوگا فقر و تنگدستی ختم ،ہر طرف آبادی نظر آئے گی۔ تجارت میں خاطر خواہ رونق آجائے گی خصوصا حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے زمانہ میں اقتصاد بہتر ہوگا اس سلسلے

____________________

(۱)سورہ اعراف آیت ۹۵

۲۳۵

میں روایات بہت ہیں ہر مورد میں چند روایات کے ذکر پر اکتفاء کریں گے ۔

الف)اقتصاد اور اجتماعی رفاہ میں رونق

اس سلسلے میں جو روایات سے استفادہ ہوتا ہے وہ یہ کہ اقتصادی حالت کی بہتری کی وجہ سے سماج فقر و فاقہ میں پھرمبتلا نہیں ہوگا اورایک ضرورت مند انسان کو اتنی دولت و ثروت دی جائے گی کہ وہ لیجانے سے معذور ہوگا عمومی اقتصادی حالت اتنی بہتر ہو جائے گی کہ زکات نکالنے والے مستحق و ضرورت مند کی تلاش میں پریشان رہیں گے ۔

۱ ۔مال و دولت کی تقسیم

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :” جب قائم اہل بیت (علیہ السلام) قیام کریں گے، تو بیت المال کو لوگوں کے درمیان عادلانہ طور پر تقسیم کر دیں گے ،زمین کے اوپر کی دولتیں (جیسے خمس و زکوة ) اور زمین کے اندر چھپی ہوئی (جیسے خزانے و معادن و)حضرت کے پاس جمع ہو جائیں گی ،پھر اس وقت حضرت لوگوں سے خطاب کریں گے: ”آو جس کے لئے تم لوگوں نے اپنی رشتہ داریاں منقطع کر دی تھیں اور خون ریزی و گناہ پر آمادہ ہوگئے تھے لیجاو ،آپ اس طرح سے مال تقسیم کریں گے کہ ان سے پہلے کسی نے اس طرح نہیں تقسیم کیا ہوگا “(۲)

رسول خدا فرماتے ہیں :” آخر زمانہ میں ایک خلیفہ ہوگا جو لوگوں کو بے شمار مال عطا کرے گا“(۳)

____________________

(۱)علل الشرائع، ص۱۶۱؛نعمانی ،غیبة، ص۲۳۷؛عقد الدرر ،ص۳۹؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۳۹۰؛اثبات الہداة، ج۳،ص۴۹۷

(۲)ابن حماد، فتن، ص۹۸؛ابن ابی شیبہ، مصنف، ج۱۵،ص۱۹۶؛احمد ،مسند ،ج۳،ص۵ابن بطریق ،عمدہ، ص۴۲۴

(۳)شافعی ،بیان ،ص۱۲۴؛احقاق الحق ،ج۱۳،ص۲۴۸؛الشیعة والرجعہ،ج۱،ص۲۰۷

۲۳۶

رسول خدا فرماتے ہیں :” نا امیدی اورفتنوں کے زمانہ میں مہدی نامی شخص ظہور کرے گا کہ اس کی دادو دہش لوگوںپرخوشگوارہوگی“(۱)

حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی بخشش مہربان باپ کے عنوان سے اور بغیر احسان کے ہوگی اس لحاظ سے دوسروں کی بخشش کے مقابل جو لوگوں کو غلام بناتے ہیں ،دین فروشی اور آبرو ریزی پر موقوف ہو لوگوں کے لئے پسندیدہ و خوشگوار ہوگی ۔

نیز آنحضرت فرماتے ہیں : ”ایک شخص قریش سے ظاہر ہو گا جو لوگوں کے درمیان مال تقسیم کرے گا اور پیغمبروں کی سیرت پر عمل پیرا ہوگا“(۲)

ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں :” مہدی زمین کے خزانوں کو باہر نکالیں گے اور لوگوں کے درمیان مال تقسیم کریں گے اور اسلام کی گئی شان وشوکت دوبارہ لوٹ آئے گی “(۳)

اسی طرح فرماتے ہیں :” میری امت کے آخری دور میں ایک خلیفہ ہوگا جو اموال لوگوں کو مٹھی مٹھی بے شما ر مال و دولت عطا کرے گا“(۴)

عبد اللہ بن سنان کہتے ہیں: میرے والد نے امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے کہا : میرے پاس ٹیکس کی کچھ زمین ہے جس پر میں نے کھیتی کر دی ہے حضرت کچھ دیر خاموش رہے ؛پھر کہا: اگر ہمارے قائم قیام کریں تو تمہارا حصہ اس سر زمین سے زیادہ ہوگا“(۵)

____________________

(۱)شافعی، بیان، ص۱۲۴احقا ق الحق، ج۱۳،ص۲۴۸؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۰۷

(۲)ابی داود، سنن، ج۴،ص۱۰۸

(۳)ابن طاوس ،ملاحم، ص۶۹

(۴)عبد الرزاق ،مصنف ،ج۱۱،ص۳۷۲؛ابن بطریق ،عمدہ،ص۴۲۴؛الصواعق المحرقہ، ص۱۶۴؛بغوی ،مصابیح السنہ، ج۲،ص۱۳۹؛شافعی، بیان، ص۱۲۲؛ابن طاوس ،ملاحم، ص۶۹

(۵)کافی ،ج۵،ص۲۸۵؛التہذیب، ج۷، ص۱۴۹

۲۳۷

امام محمد باقر(علیہ السلا م) فرماتے ہیں :” جب ہمارے قائم قیام کریں گے، تو لوگوں کے درمیان مساوات و برابری سے اموال تقسیم کر کے عادلانہ رفتار بر قرار کریں گے“(۱)

رسول خدا فرماتے ہیں:” آخری امام ہمارا ہمنام ہے وہ ظاہر ہو کر دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دے گا مال کا انبار لگا ہوگا جب کوئی مال و دولت کی درخواست کرے گا تو اس سے کہیں گے : تم خود ہی اپنی مر ضی سے جتنا چاہو لے لو“(۲)

۲۔سماج سے فقر وتنگد ستی کا خاتمہ

رسول خدا فرماتے ہیں :” حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور کے وقت لوگ اموال و زکوة گلی کوچے میں ڈال دیں گے ؛لیکن اس کا دریافت کرنے والا نہیں ملے گا“(۳)

نیز آنحضرت فرماتے ہیں :” مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) میری امت میں ہوں گے ان کی حکومت میں مال کا ڈھیر لگ جائے گا “(۴)

یہ حدیث معاشرہ کی ضرورت بر طرف ہو جائے گی سے کنایہ ہے چونکہ مال و دولت مصرف سے زیادہ ہوگا دوسری لفظوں میں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) بجٹ میں کمی نہیں کریں گے بلکہ بجٹ سے اضافی در آمد ہوگی۔امام جعفرصادق(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت قائم کے قیام کے وقت زمین اپنے دفینہ اُگل دے گی اس طرح کہ لوگ! اپنی آنکھوںسے زمین پر پڑا دیکھیں

____________________

(۱)نعمانی، غیبة، ص۲۳۷؛بحار الانوار،ج۵۱،ص۲۹

(۲)ابن طاوس، ملاحم، ص۷۰؛بحار الانوار، ص۳۷۹؛ملاحظہ ہو:احمد، مسند، ج۳، ص۲۱؛ احقا ق الحق، ج۱۳، ص۵۵

(۳)عقد الدرر، ص۱۶۶؛المستجاد، ص۵۸،روایت میں اسی طرح آیا ہے،مال کو محلے کے گھروں میں گھوماتے رہے، ایک دوسرے سے متصل گھروں اور محلہ کو ”حواء “کہتے ہیں

(۴)حاکم ،مستدرک، ج۴،ص۵۵۸؛الشیعہ والرجعہ، ج۱،ص۲۱۴

۲۳۸

گے صاحبان زکوٰةمستحق کی تلاش کریں گے لیکن کوئی لینے والا نہیں ملے گا اور لوگ خدا وند عالم کے فضل وکرم سے بے نیاز ہو جائیں گے“(۱)

علی بن عقبة کہتے ہیں : اس زمانے میں صدقے دینے اور راہ خدا میں پیسہ خرچ کرنے کی کوئی جگہ نہیں ملے گی ؛چونکہ سبھی مومنین بے نیاز ہوں گے “(۲)

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں :”لوگ ٹیکس اپنے کاندھوں پر رکھے حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی طرف جائیں گے خدا وند عالم نے ہمارے شیعوں کو عیش و عشرت کی زندگی عطا کی ہے وہ لوگ بے نیا زی سے زندگی بسر کریں گے اور اگر خدا وندعالم کا لطف ان کے شامل حال نہ ہو تو پھر وہ لوگ بے نیازی کی وجہ سے سرکشی و طغیانی پر آمادہ ہو جائیں گے“(۳)

امام محمد باقر(علیہ السلام) فرماتے ہیں : ”حضرت سال میں دوبار لوگوں کو عطا کریں گے آنحضرت ہر ماہ دوبار تنخواہ و حقوق دیں گے نیز لوگوں کے درمیان یکساں رفتار اس طرح رکھیں گے کہ پھر معاشرہ میں کوئی زکوة لینے والا نہیں ملے گا زکوة نکالنے والے فقراء کا حصہ ان کی خدمت میں پیش کریں گے لیکن وہ قبول نہیں کریں گے مجبوراً پیسوں کی مخصوص تھیلی میں اسے رکھ کر شیعوں کے محلوں میں پہنچا دیں گے لیکن وہ لوگ کہیں گے کہ ہمیں تمہارے پیسوں کی ضرورت نہیں ہے “(۴)

____________________

(۱)مفید ،ارشاد،ص۳۶۳؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۳۳۷

(۲)مفید، ارشاد، ص۳۴۴؛المستجاد، ص۵۰۹؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۳۹؛ملاحظہ ہو:احمد، مسند ،ج۲،ص۵۲،۲۷۲، ۳۱۳وج۳،ص۵؛مجمع الزوائد ،ج۷، ص۳۱۴؛اثبات الہداة ،ج۳، ص۴۹۶

(۳)بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۴۵

(۴)نعمانی، غیبة، ص۲۳۸؛حلیة الابرار، ج۲،ص۶۴۲؛بحار الانوار،ج۵۲،ص۳۹۰؛ملاحظہ ہو:بحار الانوار،ج۵۲، ص۵۲۳؛ابن ابی شیبہ، مصنف ،ج۳،ص۱۱۱؛احمد، مسند، ج۴، ص۶۰۳؛ بخاری ،صحیح ،ج۲،ص۱۳۵؛مسلم ،صحیح، ج۲،ص۷۰

۲۳۹

مذکورہ بالا روایت سے دو نکتہ نکلتا ہے : پہلا یہ کہ لوگ حضرت مہدی کی حکومت میں ایسی رای و نظر کے مالک ہوں گے کہ بغیر کسی دباو کے اپنے وظیفہ پر تمام جوانب سے عمل کریں گے ۔

انھیں وظائف میں، ایک اسلامی حکومت کو آمدنی کا ٹیکس دینا بھی ہے ۔

اگر تمام مسلمان اپنی اپنی آمدنی کا خمس اور اموال کی زکوة دیدیں تو ایک بہت بڑی رقم ہوگی اور حکومت ہر طرح کے اصلاحی اقدامات اور رفاہی خدمت پر قادر ہوجائےگی ۔

دوسرے یہ کہ ہر چند حضرت کی دادودہش اس زمانے میں بے حساب ہے اور لوگ مختلف طریقوں سے در آمد کریں گے لیکن جو چیز زیادہ قابل توجہ و جاذب نظرہے طبیعت کی بلندی اور روح کی بے نیازی ہے،اس لئے کہ بہت سارے دولت مند افراد پائے جاتے ہیں لیکن طبیعت میں سیری نہیں روح میں حرص وہوس کے جذبے بعض لو گ ایسے بھی ہیں جو فقرو فاقہ میں بسر کرنے کے باوجود ان کے دل غنی ،روح بے نیاز ہوتی ہے ۔لوگ امام زمانہ (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے دور حکومت میں روحی بے نیازی کے مالک ہوں گے یہی اس زمانہ کی معنوی دگر گونی ہے ۔

۳ ۔محرومین و مستضعفین کی رسیدگی

رسول خدا فرماتے ہیں :” اس زمانے میں مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے اور وہ اِس شخص (حضرت علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) کی نسل سے ہوں گے۔

خدا وندعالم ان کے ذریعہ جھوٹ کا خاتمہ ،بُرے ایام ،اورغلامی کی زنجیروں سے تمہیں نجات دے گا “(۱)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”جب حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)

____________________

(۱)طوسی، غیبة، ص۱۱۴؛اثبات الہداة ،ج۳،ص۵۰۲؛بحار الانوار،ج۵۱،ص۷۵

۲۴۰