حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر0%

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 284

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: حجة الاسلام والمسلمین آقای نجم الدین طبسی
زمرہ جات: صفحے: 284
مشاہدے: 126065
ڈاؤنلوڈ: 3768

تبصرے:

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 284 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 126065 / ڈاؤنلوڈ: 3768
سائز سائز سائز
حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

حکومت مہدی پر طائرانہ نظر

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ہو جائیں گے اور جزیرہ حجاز کا اس میں ہاتھ خون آلود ہوگا ،مصیبتیں لوگوں کو ہلاکے رکھ دیں گی، اور ایسا ہو جائے گا کہ کسی کو چوں و چرا کی گنجائش نہیں رہ جائے گی، اور اگر کسی طرف سے فتنے کی آگ خاموش بھی ہو گی تو دوسری طرف سے بھڑک جائے گی “(۱)

دوسری حدیث میں فرماتے ہیں :” میرے بعد ایسے ایسے فتنے اٹھیں گے کہ انسان کو اس سے راہ نجات نہیں ملے گی، اس میں جنگ ،فرار اور آوارگی ہوگی، اس کے بعد ایسے فتنے اٹھیں گے کہ ہر فتنہ پہلے فتنہ سے سخت تر ہوگا، ابھی ایک فتنہ خاموش نہیں ہونے پائے گا کہ دوسرا فتنہ اٹھ کھڑا ہوگا ۔ حدیہ ہو گی کہ عرب کا کوئی گھر اس فتنے کی آگ سے محفوظ نہیں رہ پائے گا ۔اور کوئی مسلمان ایسا نہیں ہوگا جو اس فتنے سے امان میں ہو اس وقت میرے خاندان سے ایک شخص ظہور کرے گا “(۲)

نیز فرماتے ہیں : ”عنقریب میرے بعد ایسے ایسے فتنے اٹھیں گے کہ اگر ایک طرف سے امن ہوگا تو دوسر ی طرف سے نا امنی کی آواز آئے گی ، یہاں تک کہ آسمان سے منادی ندا کرے گا: تمہارا امیر و سردار مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)ہے“(۳)

ان روایات میں ان فتنوں سے متعلق گفتگو ہے جو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے رونما ہوں گے، لیکن دوسری روایتوں میں ان خانہ سوز جنگوں کا تذکرہ ہے جسے ابھی بیان کروں گا ۔

عمار یاسر فرماتے ہیں : تمہارے پیغمبر کے اہل بیت کی دعوت آخر زمانہ میں یہ ہے کہ جب تک ہمارے اہل بیت سے اپنے رہبر کو نہ دیکھ لو ہر طرح کی نزاع سے پر ہیز کرو۔

____________________

(۱)ابن طاوس، ملاحم، ص۲۱؛کمال الدین ،ج۲، ص۳۷۱

(۲)عقد الدرر، ص۵۰

(۳)احقا ق الحق، ج۱۳،ص۲۹۵؛احمد ،مسند ،ج۲، ص۳۷۱

۴۱

اس وقت ترک ،رومیوں کی مخالفت کریں گے، اور زمین پر جنگ چھڑ جائے گی “(۱)

کچھ روایتیں، ظہورمہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) سے پہلے قتل و کشتار کی خبر دیتی ہیں ،ان میں سے بعض روایات میں صرف کشتار کا تذ کر ہ ہے، اور بعض قتل و غارت گری کے عالمگیر ہونے کی خبر دیتی ہیں ۔

اس سلسلے میں امام رضا (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے پئے در پئے اور بدون وقفہ قتل ہوں گے “(۲)

ابو ہریرہ کہتے ہیں کہ شہر مدینہ میں اس درجہ قتل و غارت گری ہوگی کہ اس میں ”احجار الزیت“(۳) نامی علاقہ درہم و برہم ہو جائے گا اور ”حرہ“(۴) کا حادثہ اس کے سامنے ایک تازیانہ کی چوٹ سے زیادہ نہیں سمجھاجائے گا ؛اس وقت کشتار کے بعد تقریباً دو فر سخ مدینہ سے دور ، حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی بیعت کی جائے گی ۔(۵)

ابوقبیل کہتا ہے کہ بنی ہاشم کا ایک شخص سر براہ حکومت ہوگا، اور صرف بنی امیہ کا قتل عام کرے گا؛ اس طرح سے کہ معدود چند کے سوا ،کوئی باقی نہیں بچے گا۔ اس کے بعد بنی امیہ کا ایک شخص خروج کرے گا اور ہر فرد کے مقابل ،دو آدمی کو قتل کرے گا؛ اس طرح سے کہ عورتوں کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا۔(۶)

____________________

(۱)طوسی، غیبة، چاپ جدید ،ص۴۴۱؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۱۲

(۲)قرب الاسناد، ص۱۷۰؛نعمانی ،غیبة، ص۲۷۱

(۳) مدینہ شہرمیں ایک محلہ ہے جو نماز استسقاء پڑھنے کی جگہ ہے معجم البلدان ،ج۱،ص۱۰۹

(۴)امام حسین کی شہادت اور مدینہ والوں کے یزید کے خلاف قیام کے بعد مدینے کے لوگ یزیدی حکم سے قتل عام ہوئے اور اس واقعہ میں دس ہزار سے زیادہ افر اد مارے گئے یہ جگہ وہی (حرةو اقم)ہے معجم البلدان ،ج۲،ص۲۴۹

(۵)ابن طاوس، ملاحم ،ص۵۸

(۶)وہی ص۵۹

۴۲

رسول خدا اس طرح فرماتے ہیں :”قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، دنیا کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک وہ زمانہ نہ آجائے جس میں قاتل کو اپنے قتل کرنے کی اور مقتول کے قتل ہونے کی علت معلوم نہ ہو جائے ۔ اور ھرج ومرج (اضطراب و بے چینی) سارے عالم پر محیط ہوگا ایسے وقت میں، قاتل و مقتول دونوں ہی جہنم میں جائیں گے “(۱)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” ظہور سے پہلے دنیا دو طرح کی موت سے دو چار ہوگی: سفید و سرخ ۔سرخ موت تلوار (اسلحوں) سے ہوگی اور سفید موت طاعون کے ذریعہ“(۲)

امام محمد باقر (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” قائم آل محمد (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے لئے دو غیبتیں ہیں اس میں سے ایک دوسری سے دراز مدت ہے ،اس وقت لوگوں کو موت و قتل کا سامنا ہوگا“(۳)

جابر کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے سوال کیا کہ کس وقت یہ بات (قیام مہدی عج) وقوع پذیر ہوگی؟(۴) امام (علیہ السلام) نے جواب میں کہا: کیسے اس کا تحقق ہو جب کہ ابھی ”حیرہ“ اور کوفہ کے درمیان کشتوں کی تعداد زیادہ نہیں ہوئی ہے ۔(۵)

____________________

(۱)فردوس الاخبار، ج۵، ص۹۱

(۲)نعمانی ،غیبة، ص۲۷۷؛مفید، ارشاد، ص۳۵۹؛طوسی، غیبة، ص۲۶۷ ؛صراط المستقیم ،ج۲، ص۲۴۹بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۱۱

(۳)نعمانی، غیبة، ص۱۷۳؛دلائل الامامہ ،ص۲۹۳؛تقریب المعارف ،ص۱۸۷؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۱۵۶

(۴)(کوفہ سے (۶ کیلو میٹر ) دور ایک شہر ہے؛معجم البلدان، ج۲،ص۳۲۸

(۵)طوسی ،غیبة، چاپ جدید ،ص۴۴۶؛اثبات الہداة، ج۳،ص۷۲۸؛بحار الانوار ،ج۵۲،ص۲۰۹

۴۳

امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے دو طرح کی موت آئے گی سرخ اور سفید، اور اس درجہ انسان قتل کئے جائیں گے کہ ہر ۷/ آدمی میں دو آدمی باقی بچیں گے“(۱)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:”حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)اس وقت ظہور کریں گے جب ایک تہائی انسان قتل کر دئے جائیں گے، اور ایک تہائی مر جائیں اور ایک تہائی باقی بچیں گے “(۲)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) سے پوچھا گیا:” آیا حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کی کوئی علامت و پہچان بھی ہے؟ تو آپ نے فرمایا :”درد ناک قتل، اچانک موت ، اور دہشت آمیزطاعون“(۳)

کتاب ارشاد قلوب کی نقل کے مطابق ۔(۴) ” قتل ذریع“یعنی اچانک و عالمگیر۔

اورکتاب مدینة المعاجز کے(۵) مطابق ۔”قتل رضیع“یعنی لئیم و پست۔

اورحلیة الابرار کے مطابق۔(۶) ” قتل فضیع“یعنی ناگوار۔

روایت کے معنی یہ ہیں ”ہاں ،حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ)کے ظہور کی علامتیں ہیں، من جملہ عالمگیر ،ناگوار ،پست قتل،اچانک موتیں پئے در پئے اور ،طاعون کا رواج“

____________________

(۱)کمال الدین، ج۲،ص۶۶۵؛العدد القویہ، ص۶۶؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۰۷

(۲)ابن طاووس، ملاحم، ص۵۸؛احقاق الحق، ج۱۳،ص۲۹

(۳)حصینی، ہدایہ، ص۳۱

(۴)ارشاد القلوب ،ص۲۸۶

(۵)مدینة المعاجز ،ص۱۳۳

(۶)حلیة الابرار، ص۶۰۱

۴۴

محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا :” امام زمانہ(عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے جب دوتہائی آبادی ختم ہو جائے گی “کہا گیا:کہ اگر دوتہائی قتل ہو جائیں گے تو پھر کتنی تعداد باقی بچے گی؟ تو آپ نے فرمایا :کیا تم راضی نہیں ہو (اور دوست نہیں رکھتے) کہ ایک تہائی باقی رہنے والوں میں تم ایک رہو۔(۱)

امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں : ظہوراس وقت ہوگا جب ( ۱۰/۹) آبادی ختم ہو جائے گی ۔(۲)

حضرت علی (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” اس زمانے میں ایک تہائی کے علاوہ کوئی باقی نہیں بچے گا“(۳)

رسول خدا فرماتے ہیں :” ہر دس ہزار کی تعداد میں نو ہزار نو سوافراد قتل ہو جائیں گے جز معدود چند افراد کے“(۴)

ابن سیرین کہتے ہیں حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے جب ہر نو آدمی پر مشتمل جماعت کے سات آدمی قتل ہو جائیں ۔(۵)

____________________

(۱)طوسی ،غیبة،چاپ جدید، ص۳۳۹؛کمال الدین، ج۲،ص۶۵۵؛اثبات الہداة، ج۳،ص۵۱۰؛ بحار الانوار، ج۵۲،ص۷ا۲۰؛الزام الناصب ،ج۲،ص۱۳۶؛ابن حماد، فتن ،ص۹۱؛کنزل العمال، ج۱۴،ص۵۸۷؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۱۱

(۲)الزام الناصب، ج۲، ص۱۳۶،۱۸۷؛عقد الدرر، ص۵۴،۵۹،۶۳،۶۵،۲۳۷؛نعمانی، غیبة، ص۲۷۴؛بحار الانوار، ج۵۲،ص۲۴۲

(۳)حصینی، ہدایہ، ص۳۱؛ارشاد القلوب، ص۲۸۶

(۴)مجمع الزوائد، ج۵، ص۱۸۸

(۵)ابن طاوس، ملاحم، ص۷۸

۴۵

محترم قارئین! مذکورہ تمام روایات سے مندرجہ ذیل نکات نکلتے ہیں :

۱ ۔حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے کشت و کشتار ہوگی ،اور اکثر انسان قتل ہو جائیں گے ،اور جو لوگ بچ جائیں گے ان کی تعداد مقتولین سے کم ہوگی۔

۲ ۔کچھ افراد جنگ کی وجہ سے قتل ہوں گے، اور کچھ لوگ سرایت کرنے والی بیماری کی وجہ سے، (جو احتمال قوی )کی بناء پر لاشوں کی وجہ سے پیدا ہوئی ہوگی ۔اسی طرح احتمال ہے کہ کیمیائی اسلحوں اور خطرناک اور مہلک ہتھیاروں کی وجہ سے بیماری وجود میں آئے گی، اور لوگ جان بحق ہوں گے ۔

۳ ۔اس اقلیت کے درمیان امام کے چاہنے والے شیعہ ہوں گے؛ اس لئے کہ وہی لوگ ہیں جو امام کی بیعت کریں گے نیز امام صادق (علیہ السلام) کی حدیث میں آیا ہے کہ کیا تم اس بات پر راضی نہیں کہ اس باقی رہنے والی ایک سوم آبادی میں تم رہو۔؟

۴۶

پانچویں فصل

دنیا کی اقتصادی حالت ظہور کے وقت

اس فصل کی روایتوں سے استفادہ ہوتا ہے، کہ فساد و تباہی کے پھیلاو ا ورعطوفت صلہ رحمی کے ختم ہوجانے اور جنگ وغیرہ سے دنیا اقتصادی اعتبار سے انحطاطی کیفیت سے دو چار ہوگی؛ اس طرح سے کہ آسمان بھی ان پر رحم نہیں کرے گا، اور بارش کانزول جو کہ رحمت الٰہی ہے غضب میں تبدیل ہو جائے گا، اور ایک تباہ کن حالت ہو گی۔

ہاں، آخر زمانہ میں بارش کم ہو گی، یاپھر بے موسم ہو گی جو کھیتیوں کی نابودی کا سبب قرار پائے گی، چھوٹے چھوٹے دریا اور جھیلیں خشک ہوجائیں گی، اور کھیتیاں سود مند ثابت نہیں ہوں گی، اور تجارت کی آب و تاب ختم اور بھوک مری عام ہو جائے گی، اس درجہ کہ لوگ پیٹ بھرنے کے لئے اپنی عورتوں اور لڑکیوں کو بازار میں لے آئیں گے، اور انھیں تھوڑی سی غذا کے بدلے بدل ڈالیں گے ۔

الف) بارش کی کمی اور بے موقع بارش

رسول خدا فرماتے ہیں : ”لوگوں پر ایک ایسا وقت آنے والا ہے کہ خدا وند عالم بارش سے انھیں محروم کر دے گا ۔ اور بارش نہیں ہوگی اور اگر ہوگی تو بے موسم ہوگی“(۱)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”گرمی کے موسم میں بارش ہوگی “(۲)

____________________

(۱)جامع الاخبار،ص۱۵۰؛مستدر ک الوسائل، ج۱۱،ص ۳۷۵

(۲)دوحة الا نوار، ص۱۵۰؛الشیعہ والرجعہ، ج۱، ص۱۵۱؛کنز ل العمال ،ج۱۴،ص۲۴۱

۴۷

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے پہلے ایک سال ایسا ہوگا کہ خوب بارش ہوگی جس سے میوہ خراب اور کھجوریں درخت پر ہی فاسد ہوجائیں گی لہٰذا اس وقت شک و شبہ میں مبتلا نہ ہونا(۱)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) فرماتے ہیں :” بارش اتنی کم ہوگی کہ نہ زمین پودا اگاسکے گی اور نہ ہی آسمان سے بارش ہوگی ایسے موقع پر حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے“(۲)

عطا بن یسار کہتے ہیں:”روز قیامت کی نشانیوں میں ایک۔یہ ہے کہ بارش تو ہوگی لیکن زراعت نہیں ہو پائے گی“

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:” جس وقت حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) اور ان کے اصحاب قیام کریں گے تو پانی زمین پر نایاب ہوجائے گا، مو منین خدا وند عالم سے گریہ و زاری، نالہ و فریاد کے ذریعہ بارش کی در خواست کریں گے، تاکہ خدا وند عالم پانی بر سائے اور لوگ سیراب ہوں“(۳)

ب) چھوٹی چھوٹی (ندیوں، جھیلوں کا خشک ہو نا)

رسول خدا فرماتے ہیں :” مصر کے شہر؛ دریائے نیل کے خشک ہو جانے کی وجہ سے تباہ ہوجائیں گے “(۴)

ارطات کہتے ہیں :”اس وقت،دریائے فرات ،نہریں،اورچشمے خشک ہو جائیں گے“(۵)

____________________

(۱)شیخ مفید ،ارشاد، ص۳۶۱؛شیخ طوسی، غیبة، ص۲۷۲؛اعلام الوری، ص۴۲۸؛خرائج ج۳،ص۱۱۶۴؛ابن طاو س، ملاحم، ص۱۲۵؛بحار الانوار، ج۵۲، ص۲۱۴

(۲)ابن طاوس ،ملاحم ،ص۱۳۴

(۳)عبد الرزاق ،مصنف ،ج۳ ،ص۱۵۵

(۴)دلائل الامامہ، ص۲۴۵

(۵)بشارة الاسلام ،ص۲۸

۴۸

نیز روایت میں آیا ہے ”طبرستان کے چھوٹے چھوٹے دریا خشک ہو جائیں گے، کھجور کے درخت بار آور نہیں ہوں گے اور ”زعر“(جو شام میں واقع ہے)چشمہ کا پانی زمین کی تہہ میں چلا جائے گا ‘ ‘(۱)

اسی طرح ایک دوسری روایت میں آیا ہے : نہریں خشک ہو جائیں گی،اور مہنگائی اور خشک سالی تین سال تک بر قرار رہے گی ۔(۲)

ج)قحط،فقرو کساد بازاری

ایک شخص نے رسول خدا سے سوال کیا : قیامت کب آئے گی ؟ آپ نے کہا: جس سے سوال کیا گیا ہے وہ (رسولخدا) سوال کرنے والے سے زیادہ باخبر نہیں ہے، مگر قیامت کی نشانیاں ہیں: ان میں سے ایک تقارب بازار ی ہے، سوال کیا گیا: تقارب بازار کیا ہے؟ تو آپ نے جواب دیا مندا بازاری و بارش کا نہ ہونا کہ جس میں گھاس و محصول اپج نہ سکے“(۳)

حضرت امیر المو منین (علیہ السلام) نے ابن عباس سے کہا: ”تجارت و معاملات زیادہ ہوں گے، لیکن لوگوں کو اس سے فائدہ کم نصیب ہوگا ۔اس کے بعد شدید قحط پڑے گا “(۴)

محمد بن مسلم کہتے ہیں : میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) کو کہتے سنا :” حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل خدا وند عالم کی جانب سے مومنین کے لئے علامتیں ہیں “میں نے کہا خدا مجھے آپ کا فدیہ قراردے ؛وہ علامتیں کیا ہیں ؟

آپ نے جواب دیا ”وہ خدا وند عالم کے قول کے مطابق ہیں۔

( وَلِنَبْلُوَنَّکُمْ بِشْیءٍ مِنَ الْخَوْفِ والجوعِ و نقصٍ من الاموال والانفس

____________________

(۱)ابن حماد ،فتن ،ص۱۴۸

(۲)بشارة الاسلام ،ص۱۹۱؛الزام الناصب ،ص۱۶۱

(۳)بشارة الاسلام ،ص۹۸

(۴)الترغیب و الترہیب ،ج۳، ص۴۴۲

۴۹

والثمراتِ وبَشّر الصابرین ) ؛(۱)

تمہیں (مو منین ) حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل خوف ، بھوک، جان و مال،اورمیووں کی کمی سے آزمائیں گے لہٰذا صبر کرنے والوں کو مژدہ سناو“

اس وقت فرمایا:خدا وند عالم مومنین کو بنی فلاں کے بادشاہوں کے خوف سے ان کے اختتامی حکومت کے زمانے میں آزمائے گا۔

گر سنگی سے مراد ،قیمت کی گرانی ہے اور”کمی دارایھا“سے مراد( Income ) آمدنی کی کمی اور مندا بازاری ہے۔نقصان جان سے مراد، موتوں کی زیادتی اور اس کاپئے در پئے واقع ہونا ہے اور میووں کی کمی سے مراد، کاشت کی منفعت میں کمی ہے ۔لہٰذا صبر کرنے والوں کو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کا اس وقت مژدہ سناو “(۲)

کتاب”اعلام الوریٰ“ کی نقل کے مطابق ”قلة المعاملات“سے مراد کساد بازاری ، اورعدل و انصاف کی کمی کے معنی میں ہے۔(۳)

امام جعفر صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں :”جب سفیانی خروج کرے گا، تو اشیاء خورد و نوش میں کمی آچکی ہوگی ،لوگوں کو قحط کا سامنا ہو گا بارش کم ہوگی “(۴)

ابن مسعود کہتا ہے:جب تجارتیں ختم ہو جائیں گی،اور راستے خراب ہو جائیں گے، تو حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور فرمائیں گے۔(۵)

____________________

(۱)ابن طاوس، ملاحم، ص۱۲۵

(۲)سورہ بقرہ، آیت۱۵۵

(۳)کمال الدین ،ج۲،ص۶۵۰؛نعمانی، غیبة، ص۲۵۰؛مفید ،ارشاد، ص۳۶۱؛اعلام الوری، ص۴۶۵؛عیاشی ،تفسیر، ج۱، ص۶۸

(۴)اعلام الوری ،ص۴۵۶

(۵)ابن طاوس، ملاحم، ص۱۳۳

۵۰

شاید مندہ بازاری کی وجہ صنعتی وپیداوار مراکز کی ویرانی اور انسانی طاقتوں کی کمی ،خریدنے کی طاقت کا نہ ہونا ،قحط اور راستوں کا غیر محفوظ ہونا وغیرہ ہے۔

مسند احمد بن حنبل میں مذکورہے: حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے قبل لوگ تین سال تک شدید خشک سالی میں مبتلا ہوں گے۔(۱)

ابو ہریرہ کہتے ہیں : اس شر سے جو اُ ن سے نزدیک ہو رہا ہے عرب پر وائے ہو؛ سخت بھوک مری کا سامنا ہوگا، مائیں اپنے بچوں کی بھوک کی وجہ سے، گریہ و زاری کریں گی ۔(۲)

د)غذاکے بدلے عورتوں کا تبادلہ

ظہور سے پہلے قحط اور بھوک مری کا حادثہ اس درجہ دردناک ہوگا کہ کچھ لوگ اپنی لڑکیوں کا معمولی غذا کے عوض معاملہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔

ابو محمد، مغربی شخص سے روایت کرتے ہیں : حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) اس وقت ظہور کریں گے کہ انسان (فقر فاقہ کی شدت اور بھوک مری سے) اپنی خوبصورت کنیزوں اور لڑکیوں کو بازار میں لائے گا ،اور کہے گا: کون ہے جو مجھ سے اس لڑکی کو خرید لے اور اس کے بدلے خوراک دیدے ؟ایسے شرائط میں حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے ۔(۳)

____________________

(۱)الفتاوی الحدیثیہ، ص۳۰؛متقی ہندی ،برہان، ص۱۴۲؛عقد الدرر،ص۱۳۲

(۲)ابن ماجہ، سنن، ج۲، ص۱۳۶۳

(۳)کنزل العمال ،ج۱۱،ص۲۴۹

۵۱

چھٹی فصل

امید کے دریچے

گذشتہ بحثوں میں روایات کے سہارے امام عصر( (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہورسے قبل، دنیا کے حالات سے آگاہ ہوئے اگر چہ اِن روایات میں بے سر و سامانی اور اس درجہ مشکلات کا تذکرہ ہے کہ انسان مایوس و ناامید ہو جائے۔ لیکن دیگر روایات میں شیعوں اور مو منین کے لئے امید کی جھلکیں اور روشن مستقبل کی طرف اشارہ ہے۔

بعض روایات تو بس ان مومنین کے بارے میں ہیں کہ کبھی زمین ان سے خالی نہیں رہے گی ،اور وہ لوگ ظہورسے قبل کے سخت ترین شرائط کے باوجود عالم میں پائے جائیں گے ۔

کچھ روایتیں دوران غیبت علماء اور اسلامی دانشوروں کے کردار کی جانب اشارہ کرتی ہیں خواہ کتنا ہی معاشرہ کی بد حالی کا باعث ہوں انھیں محافظ دین کے عنوان سے متعارف کراتی ہیں ۔

معصومین (علیہم السلام) کی بعض تقریروں میں ظہور سے قبل شہر قم کے کردار کا تذکرہ ہے ۔

روایتیں ظہور سے قبل و بعد ایرانیوں کی فعالیت و کار کردگی کی خبر دیتی ہیں ۔

الف)حقیقی مومنین

کبھی ایسی روایتوں سے بھی سابقہ ہوتا ہے جو کسی کے جواب میں بیان کی گئی ہیں، جن سے گمان ہوتا ہے کہ ایک زمانہ آئے گا جو مومن انسان کے وجود سے خالی ہوگا ۔ امام (عجل اللہ تعالی فرجہ) نے اس گمان کی نفی کی اور ہر زمانہ میں مومنین کے وجود کی خبردی۔

۵۲

زراد کہتے ہیں :کہ میں نے امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے عرض کیا : میں ڈرتا ہوں کہ مومنین میں نہ رہوں امام نے کہا :”کیوں ایسا سوچ رہے ہو؟“میں نے کہا: اس لئے کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ ہمارے درمیان کوئی ایسا نہیں ہے جو اپنے بھائی کو درہم و دینا رپر مقدم کرے؛ لیکن یہ ضرور دیکھ رہا ہوں کہ درھم و دینار کو برادر دینی(جسے ولایت علی علیہ السلام نے ہم سب کو ایک جگہ جمع کیا ہے) پرترجیح دیتا ہے، امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے کہا:ایسا نہیں ہے جیسا تم کہہ رہے ہوتم لوگ صاحبان ایمان ہولیکن تمہاراایمان حضرت قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور کے وقت کامل ہو گا، اس وقت خداو ند عالم تمہاری عقلوں کو کامل کرے گا ،اور تم لوگ مکمل مومن بن جاو گے ۔

اس خدا کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، سارے جہان میں، ایسے انسان پائے جاتے ہیں جن کی نگاہ میں ساری دنیا مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے“(۱)

ب)شیعہ علماء و دانشوروں کا کردار

ہر زمانے میں جہالت و ظلمت نے اپنا سایہ انسانی سماج پر ڈال رکھا ہے یہ علماء و دانشور افراد ہیں جنھوں نے ہمیشہ جہل و نادانی کو دور کرنے کی ذمہ داری لے رکھی ہے، اوراپنی سالم فکر سے انھیں دور کرتے رہتے ہیں لوگوں کے درمیان فساد و تباہی کو بحسن و خوبی ختم کرتے ہیں روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخر زمانہ میں علماء اس ذمہ داری کو بخوبی انجام دیں گے۔

امام ہادی (علیہ السلام) فرماتے ہیں:” اگر قائم آل محمد کی غیبت کے زمانے میں علماء و دانشور نہ ہوتے اور لوگوں کو ان کی طرف ہدایت و رہنمائی نہ کرتے اورحجت الٰہی کے ذریعہ دین کا دفاع نہ کرتے اور ضعیف شیعوں کو شیطانی جالوں اوران کے بہی خواہوں سے نجات نہیں دیتے، اور ناصبی (دشمن اہل بیت ) کے شر سے محفوظ نہ رکھتے تو کوئی اپنے دین پر ثابت نہ رہتا،اور سب مر تد ہوجاتے؛ لیکن وہ لوگ جو شیعوں کے ضعیف دلوں کی رہبری اپنے ہاتھ میں لئے ہوئے حفاظت

____________________

(۱)بحارالانوار، ج۶۷،ص۳۵۱

۵۳

کرتے ہیں؛جس طرح کشتی کا ناخدا کشتی پر سوار افراد اور کشتی کے قانون کی حفاظت کرتا ہے لہٰذا، وہ خدا وند عالم کے نزدیک ،بلند ترین انسان ہیں“(۱)

رسول خدا ہر صدی میں دین کو زندہ کرنے والوں کے بارے میں فرماتے ہیں : ”خدا وندبزرگ و بر تر امت اسلام کے لئے ہر صدی کے آغاز میں ایک شخص کو مبعوث کرتا ہے تاکہ وہ دین کو زندہ رکھے“(۲)

خصوصاً یہ دو روایتیں اوراس طرح کی دیگر روایات، علماء کے کردار کو غیبت کے زمانہ میں با صراحت بیان کرتی ہیں ۔اور شیطانی مکر و فریب کی نابودی ، اوردین کو حیات نو ملنا دانشوروں کا صدقہ سمجھتی ہیں ۔

البتہ اس مطلب کا اثبات اس زمانے میں دلیل و برہان کا طالب نہیں ہے اس لئے کہ امام خمینی کا کردار دشمنوں کی ناپاک سازشوں کے بے کار بنا نے میں جنھوں نے اس دور میں اساس دین کو خطرہ میں ڈال رکھا تھا ،کسی پر پو شیدہ نہیں ہے۔

بے شک جو آج اسلام کو عزت و سر بلندی ملی ہے وہ ایران کے اسلامی انقلاب اور اس کے بانی امام خمینی کی برکت سے ہے ۔

ج)شہر قم کا آخر زمانہ میں کردار

اس زمانے میں انسانی جب کہ سماج؛ انحطاط و پستی ،تباہی اوربربادی کی طرف گامزن

____________________

(۱)تفسیر امام حسن علیہ السلام :ص۳۴۴؛احتجاج ،ج۲،ص۲۶۰؛منیة المرید،ص۳۵؛ محجة البیضاء، ج۱، ص۳۲؛حلیة الابرار، ج۲، ص۵۴۵؛بحار الانوار، ج۲، ص۶؛العوالم ،ج۳، ص۲۹۵

(۲)عن النبی :”ان اللّٰه تعالیٰ یبعث لهذه الامة علی راس کل مائة سنة من یجدد لها دینها “ ابی داودسنن، ج۴ ،ص۱۰۹؛حاکم مستدرک ،ج۴ ،ص۵۲۲؛تاریخ بغداد، ج۲، ص۶۱؛جامع الاصول، ج۱۲، ص۶۳؛کنزل العما ل، ج۱۲، ص۱۹۳اوراس روایت کا مدرک جہاں تک میں نے کوشش کی شیعہ کی کسی کتاب میں نہیں پایا

۵۴

ہوگا ،توامید کیجھلک ظاہر ہوگی اور نور کے پر چم دار اس تاریکی کے دل میں جگہ بنالیں گے آخر زمانہ میں شہر قم اس ذمہ داری کو نبھائے گا ۔

روایات بہت ہیں جو اس مقدس شہر اور لائق افراد جومکتب اہل بیت(علیہم السلام) کے صاف و شفاف چشمہ سے سیراب ہوئے اور پیام رسانی کی ذمہ داری لئے ہوئے ہیں ،کی ستائش کرتی ہیں ۔

ائمہ معصومین علیہم السلام کی مختلف تقریر یں ہیں جو قم اورثقافتی انقلاب سے متعلق عصر غیبت میں پائی جاتی ہے ہیںجن میں سے آیندہ۔

قم اہل بیت علیہم السلام کا حرم

بعض روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ قم اور اہل قم ولایت اور شیعت کے لئے نمونہ اور اس کا راز و رمز ہیں اس لئے، جسے چاہا کہ دوستدار اہل بیت اور ان کے چاہنے والے کا خطاب دیں ،تو قمی سے خطاب کیا۔

ایک گروہ امام جعفر صادق (علیہ السلام) کی خدمت میں مشرف ہوا اور اس نے کہا : ہم رے کے رہنے والے ہیں، حضرت نے فرمایا: ”ہمارے قمی بھائیوں کو مبارک ہو“ان لوگوں نے چند بار تکرار کی، کہ ہم اہل رے ہیں اور رے سے آئے ہیں لیکن حضرت نے اپنی پہلی ہی بات دہرائی اس وقت کہا: خداوندعالم کا حرم مکہ ہے رسول خدا کا حرم مدینہ اور کوفہ امیر المو منین کا حرم ہے اور ہم اہل بیت کا حرم شہر قم ہے، عنقریب میرے فرزندوں میں فاطمہ نامی بیٹی وہاں دفن ہوگی، جو بھی اس کی (معرفت کے ساتھ) زیارت کرے گا اس پر بہشت واجب ہوگی ۔

راوی کہتا ہے :امام جعفر صادق (علیہ السلام) نے یہ بات اس وقت کہی جب امام کاظم (علیہ السلام) ابھی پیدا نہیں ہوئے تھے ۔(۱)

____________________

(۱)بحار الانوار، ج۶۰،ص۲۱۷

۵۵

صفوان کہتے ہیں : ایک دن میں ابو الحسن ۔امام کاظم (علیہ السلام) کے پاس تھا کہ قمیوں اور حضرت مہدی(عجل اللہ تعالی فرجہ) سے ان کے لگاو کی بات نکل گئی؛ تو امام ہفتم (علیہ السلام) نے فرمایا :

”خداوندسبحان ان پر رحمت نازل کرے، اور ان سے راضی رہے اس کے بعد اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا: بہشت کے آٹھ دروازے ہیں اس کا ایک دروازہ قم والوں کے لئے ہے، ملکوں اور شہروں کے درمیان و ہ لوگ ( اہل قم) نیک اور بر گزیدہ افراد میں ہمارے شیعہ ہیں خداوندعالم نے ہماری ولایت اور دوستی ان کی طینت اورسرشت سے ملا دی ہے “(۱)

اس روایت سے استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ معصومین( علیہم السلام) نے شہر قم کو اہل بیت علیہم السلام اورحضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے عاشقوں کی مرکزسمجھاہے ،شاید وہ بہشتی دروازہ جو شہر قم سے مخصوص ہے ،باب المجاہدین یا باب الاخیار (نیکوں کا دروازہ)ہو جیسا کہ روایت میں بھی اہل قم کو نیکو کار شیعوں سے یاد کیا گیا ہے ۔

شہر قم دوسرے افراد پر حجت ہے

خدا وند عالم کے ہر زمانے میں ایسے افرا د پائے جاتے ہیں جو دوسروں پر حجت ودلیل ہوں،اور جب وہ لوگ راہ خدا میں قدم اٹھاتے ہیں، اور کلمة اللہ کی بلندی کے لئے مبارزہ کرتے ہیں، تو خدا وندعالم ان کا ناصر و مدد گار ہوتاہے اور ان کو دشمنوں کے شر سے محفوظ رکھتاہےغیبت کے زمانے میں شہر قم اور اس کے باشندے دوسروں پر حجت ہیں۔

امام صادق (علیہ السلام) فرماتے ہیں: مشکلات و گرفتاریاں قم اور اس کے باشندوں سے دور ہیں، اورایک دن آئے گا کہ قم کے باشندے تمام لوگوں پر حجت ہوں گے، اوریہ زمانہ

____________________

(۱)وہی ص۲۱۶

۵۶

ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کی غیبت اور ظہور کازمانہ ہوگا اگر ایسا نہ ہو، تو زمین اپنے باشندہ کو نگل جائے گی یقینا فرشتے بلاوں کو قم و اہل قم سے دور رکھتے، اور کوئی ستمگر قم کا ارادہ نہیں کرتا، مگر یہ کہ خداوند عالم اس کی کمر توڑ دیتا ہے ،اور اسے درد و الم ، یا دشمنوں سے گرفتار کر دیتا ہے، خدا وند عالم قم اور اہل قم کا نام ستمگروں کے حافظہ سے اس طرح مٹا دیتا ہے جس طرح انھوں نے خدا کو فراموش کر دیا ہے “

قم؛اسلامی تہذیب و ثقافت کے نشر کا مر کز

روایات میں گذشتہ باتوں کے علاوہ قابل توجہ بات یہ ہے کہ غیبت کے دوران شہر قم اسلامی پیغام رسانی کا مر کز بنے گا ،اور یہاں سے زمین کے کمزور طبقوں کے کانوں تک اسلام کی بات پہنچے گی، نیز وہاں کے علماء دین اور دانشور حضرات دنیا پر حجت قرار پائیں گے۔

امام صادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :“عنقریب شہر کوفہ مومنین سے خالی ہو جائے گا، اور علم و دانش وہاں سے رخصت ہو جائے گا، اور سانپ کے مانند جو اپنی بل میں محدود رہتا ہے، محدود ہو جائے گا ،اور شہر قم سے ظاہر ہوگا پھر وہ جگہ علم و دانش اور فضل و کمال کامرکز بن جائے گی، اس درجہ کہ روئے زمین پر کوئی فکری اعتبار سے کمزور باقی نہیں بچے گا جو دین کے بارے میں جانتا نہ ہو، حدیہ ہے کہ پر دہ نشین خواتین بھی ،اورایسا ہمارے قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) کے ظہور سے نزدیک زمانہ میں ہوگا۔

۵۷

خدا وندعالم قم اور اہل قم کو حضرت حجت (عجل اللہ تعالی فرجہ) کا جانشین قرار دے گا ،اگر ایسا نہ ہوا تو زمین اپنے رہنے والوں کو نگل جائے گی اور روئے زمین پر کوئی حجت نہیں رہ جائے گی لہٰذا شرق و غرب عالم میں قم سے علم و دانش کی اشاعت ہوگی ،اور عالم پر حجت تمام ہوگی ،اس طرح سے کہ کوئی ایسا نہیں باقی بچے گا جو علم و دانش سے محروم ہو،اوراس وقت حضرت قائم(عجل اللہ تعالی فرجہ) ظہور کریں گے، اور کافروں پر خدا کا عذاب ان کے ذریعہ نازل ہوگا؛ اس لئے کہ خدا وند عالم اپنے بندوں سے اس وقت تک انتقام نہیں لیتا ،جب تک کہ ان پر حجت نہ تمام ہوئی ہو“(۱)

دوسری روایت میں اس طرح آیاہے : ”اگر قم کے رہنے والے نہ ہوتے تو دین مٹ چکا ہوتا “(۲)

قم کی فکری روش کی تائید

بعض روایات سے استفادہ ہوتاہے کہ ائمہ معصومین( علیہم السلام) نے علماء قم کی تائید کی ہے ۔

چنانچہ امام صادق (علیہ السلام) اس سلسلے میں فرماتے ہیں :”قم کی بلندی پر ایک فرشتہ ہے جو اپنے دونوں پروں کو ہلاتا رہتا ہے ،اور کوئی ظالم سوء ارادہ نہیں کرپاتا ؛مگر اسے خدا وند عالم نمک کی طرح پانی میں گھلا دیتا ہے۔

پھر اس وقت حضرت نے عیسیٰ بن عبدا للہ قمی کی طرف اشارہ کرکے کہا: قم پر خداو ندعالم کا درود ہو،خدا وند عالم ان کی سر زمین کو بارش سے سیراب کرے گا، اور ان پر اپنی بر کتیں نازل کرے گا، اورگناہوں کو نیکیوں میں تبدیل کردے گا ،وہ لوگ رکوع ، سجود،قیام اور قعود والے ہیں؛ جس طرح وہ لوگ فقیہ ، دانشمند،اور صاحب درک و فہم ہیں، وہ لوگ اہل درایت و روایت ،اور نیک اور عبادت گذار وں کی بصیرت رکھنے والے ہیں “

اس طرح امام (علیہ السلام) نے اس شخص کے جواب میں جس نے کہا :میں چاہتا ہوں آپ سے وہ سوال کروں کہ مجھ سے پہلے کسی نے نہ پوچھا ہو ،اور نہ میرے بعد پوچھے گا ،کہتے ہیں : شاید تم حشر و نشر سے متعلق سوال کرنا چاہتے ہو ؟“اس نے کہا:ہاں ،اس ذات کی قسم جس نے

____________________

(۱)وہی،، ص۲۱۳

(۲)وہی ،ج،۶۰،ص۲۱۳؛سفینة البحار، ج۷، ص۳۵۶

۵۸

محمدکو بشیر و نذیر بنا کر بھیجا ،حضرت نے کہا: تمام افراد کا حشر بیت المقدس کی سمت ہے؛سرزمین جبل کہ ٹکڑے کی موت جسے قم کہتے ہیں بخشش الٰہی ان کے شامل حال ہے اس شخص نے اونگھتی ہوئی حالت میں کہا : اے فرزند رسول !کیا یہ قم والوں سے مخصوص ہے؟ امام (علیہ السلام) نے جواب دیا: ”ہاں؛وہ لوگ بلکہ ہر وہ شخص جو ان کے عقیدہ پر ہو اور ان کی بات کہے“(۱)

حضرت مہدی (عجل اللہ تعالی فرجہ)کے انصار

قابل غور نکتہ یہ ہے کہ روایا ت میں قم والوں اور ان افراد کے جو اہل بیت (علیہم السلام) کا حق لینے کے لئے قیام کریں گے اسماء مذکور ہیں۔

عفان بصری کہتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) نے مجھ سے کہا:کیا جانتے ہو کہ قم کو قم کیوں کہتے ہیں ؟تو میں نے کہا : خداوندعالم اس کا رسول اور آپ بہتر جانتے ہیں ،آپ نے کہا: قم کو اس لئے اس نام سے یا د کرتے ہیں کہ اس کے رہنے والے قائم آل محمد کے ارد گرد جمع ہوں گے، اور حضرت کے ساتھ قیام کریں گے، اور اس راہ میں ثبات قدم اور پایداری کا ثبوت پیش کریں گے، اور آپ کی مدد کریں گے“(۲)

صادق آل محمد (علیہ السلام) ایک دوسری روایت میں اس طرح فرماتے ہیں:”قم کی مٹی، مقدس و پاکیزہ ہے، اور قم والے ہم سے ہیں اور ہم ان سے ہیں، کوئی ظالم برائی کا ارادہ نہیں کرے گا مگر یہ کہ اس کواس سے پہلے سزامل جائے ،البتہ یہ اس وقت تک ہے جب اپنے بھائی سے نہ کریں اور اگر ایسا کیا تو، خدا وند عالم ،بد کردارستمگروں کو ان پر مسلط کر دے گا،لیکن قم والے ہمارے قائم (عجل اللہ تعالی فرجہ) کے انصار اور ہمارے حق کی دعوت دینے والے ہیں ۔ اس وقت امام علیہ السلا م

____________________

(۱)۲و۳ بحار الانوار، ج۶۰، ص۲۱۷

(۲)وہی ،ص۲۱۸

۵۹

نے آسمان کی جانب سر اٹھا یا اور اس طرح دعا کی : خدا وند! انھیں ہر فتنے سے محفوظ رکھ اور ہر ہلاکت و تباہی سے نجات عطا کر“(۱)

ایران،امام زمانہ کا ملک ہے

جو روایات شہر قم کے بارے میں بیان کی گئی ہیں وہ ایک حد تک ظہور سے قبل اور ظہور کے وقت ایرانیوں کی تصویر کشی کرتی ہیں،لیکن معصومین( علیہم السلام) کی تقریروں میں تھوڑا غور کرنے سے اس نتیجہ تک پہنچیں گے کہ انھوں نے، ایرانیوں اور ایران کی طرف خاص توجہ رکھی ہے، اور مختلف مواقع پر دین کی مدد اور ظہور کے لئے مقدمہ چینی کے بارے میں اور بھی تقریریں کی ہیں یہاں پر چند ایسی روایات پر جو ایرانیوں اور ظہور کے سلسلے میںمقدمہ بنانے والوں کی عظمت بیان کرتی ہیں اکتفاء کرتے ہیں :

ایرانیوں کی عظمت

ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول خدا کی خدمت میں فارس، کی بات چلی تو آنحضرت نے کہا:”اہل فارس( ایرانی)بعض ہم اہل بیت سے ہیں“(۲)

جس وقت رسول خدا کی خدمت میں غیر عرب(۳) یا موالی (چاہنے والوں)کی بات چلی تو آنحضرت نے فرمایا :خدا کی قسم میں ان پر تم سے زیادہ اعتماد و اطمینان رکھتا ہوں“(۴) ممکن ہے یہ چیز اہل فارس سے مخصوص نہ ہو بلکہ عام ہو۔

____________________

(۱)وہی ،ص۲۱۶

(۲)وہی ،ص۲۱۸

(۳)ذکر اصفہان ،ص۱۱

(۴)موالی ومولی کا لغت میں مختلف استعمال ہے علامہ امینی نے الغدیر کی پہلی جلد میں۲۲معنی ذکر کیا ہے لیکن حدیث و آیت کی اصطلاح میں پانچ معنی ذکر ہوئے ہیں:ولاء عتق،ولاء اسلام،ولاء حلف،ولاء قبیلہ،ولاء عرب کے مقابل لیکن اس سے مراد غیر عرب ہیں اور غالباً یہی معنی علماء رجال کی مراد ہے

۶۰