انتظار کا صحیح مفہوم

انتظار کا صحیح مفہوم0%

انتظار کا صحیح مفہوم مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 84

انتظار کا صحیح مفہوم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات: صفحے: 84
مشاہدے: 34900
ڈاؤنلوڈ: 3515

تبصرے:

انتظار کا صحیح مفہوم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 84 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34900 / ڈاؤنلوڈ: 3515
سائز سائز سائز
انتظار کا صحیح مفہوم

انتظار کا صحیح مفہوم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

۲

انتظار کا صحیح مفہوم

آیة اللہ محمد مہدی آصفی مدظلہ العالی

ترجمہ:مولاناسید کمیل اصغر زیدی

۳

حرف اوّل

جب آفتاب عالم تاب افق پرنمودار ہو تا ہے تو کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیض یاب ہو تی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کر نوں سے سبزی حاصل کر تے ہیں غنچے اور کلیاںرنگ و نکھار پیدا کر لےتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ وراہ اجالوں سے پر نور ہو جاتے ہیں ۔

چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیّاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا ،دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت وقابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ ومو سس سرو رکائناتغار حرا سے مشعل حق لےکر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی ایک دنیا کو چشمہ حق وحقیقت سے سیراب کر دیا، آپ کے تمام الہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل، فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقاء بشریت کی ضرورت تھا۔اس لئے تیئیس برس کے مختصر سے عرصے میں ہی اسلام کی عالم تاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پرحکمران ایران وروم کی قدیم تہذیبیں اسلامی اقدار کے سامنے ماند پڑ گئیں، وہ تہذیبی اصنام صرف جو دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذاہب عقل وآگاہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھو دیتے ہیں یہی وجہ ہے ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کر لیا ۔

۴

اگر چہ رسول اسلام کی یہ گراں بہا میراث کو جس کی اہلبیت اور ان کے پیرو وں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے ،وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور نا قدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہو کر اپنی عمومی افادیت کو عام کر نے سے مرحوم کر دی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہلبیت نے اپنا چشمہ فیض جاری رکھا، چودہ سو سال کے عرصہ میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماا ور دانشور دنیاء اسلام کوپیش کئے جنہوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری ونظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے ہر دور اور زمانہ میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے۔

خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگا ہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہلبیت کی طرف اٹھی اور گڑی ہو ئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت و اقتدار کو توڑنے کیلئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑ نے اور کامیاب و کامران زندگی حاصل کر نے کے لے بے چین وبےتاب ہے۔یہ زمانہ علمی و فکری مقابلہ کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر واشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھا کر انسانی عقل و شعور کو جذب کر نے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گاوہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا ۔

مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام (عالمی اہلبیت کونسل)نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہلبیت عصمت و طہارت کے پیروو ں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھا یا ہے کہ اس نورانی تحریک میں بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے۔

۵

موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے، زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہو سکے۔ہمیں یقین ہے، عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہلبیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علم بر دار خاندان نبوت و رسالت کی جاوداں میراث، اپنے صحیح خد وخال میں دنیا تک پہنچا دی جائے تو اخلاق و انسانیت کی دشمن ،انانیت کی شکار، سامراجی خونخواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اورعصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو، امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر کی عالمی حکومت کے استقبا ل کے لئے تیار کیا جا سکتا ہے ۔

ہم اس راہ میںتمام علمی و تحقیقی کو ششوں کیلئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مو لفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمت گار تصور کر تے ہیں ۔زیر نظر کتاب ،مکتب اہلبیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے آیة اللہ محمد مہدی آصفیمدظلہ العالی کی گراں قدر کتاب الانتظار الموجہ کو فاضل جلیل مولاناسید کمیل اصغر زیدی نے اردو زبان میں اپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم ان تمام حضرات کے شکر گذار اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں۔اس منزل میں ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکر یہ ادا کر تے ہیں کہ جنہوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھا ئی ہے خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکر ام

مدیر امور ثقا فت :مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام

۶

مقدمہ

اللہ تعالیٰ کے نیک بندے زمین کی اس وراثت کے منتظر ہیں جس کا وعدہ خدا نے اپنے بندوں سے اس آیہ کریمہ میں کیا ہے:( وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ ) (۱) ” اور ہم نے زبور کے بعد ذکر میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے ۔“

اسی کے مانند رسول اللہ نے ان سے یہ وعدہ فرمایا ہے:”اٴُبشرکم بالمهدی یبعث فی امتی علی اختلاف من الناس وزلازل فیملاٴ الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت ظلماً وجوراً(۲)

”میں تمہیں مہدی کی بشارت دیتا ہوں جو میر ی امت کے درمیا ن اس وقت بھیجا جائے گا جب لوگوں کے درمیا ن اختلاف اور بے ثباتی کی کیفیت ہوگی،اور وہ زمین کو عدل وانصاف سے اس طرح بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جورسے بھری ہوگی۔“

بعض لوگ اسی خیال میں مگن ہیں کہ انتظار کا مطلب تلخ حقیقت سے فراراور مستقبل کے خواب دیکھنا ہے کہ جب ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا عدل وانصاف سے بھر جائے گی۔

____________________

(۱)انبیاء/۱۰۵

(۲)مسند احمد بن حنبل ،ج/۳،ص/۳۹۳،ح/۱۰۷۴۶

۷

اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ زمانہ یقینا آئے گاکیو نکہ خداوند عالم نے اس کا وعدہ فرمایا ہے ، اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں پایا جاتا ہے،بلکہ اختلاف اس بارے میں ہے کہ انتظار کا انداز کیا ہوناچاہئے ؟کیونکہ انتظار کا مطلب آئندہ پیش آنے والے مشکلات سے فرار یا ان کی تبدیلی کے خواب دیکھنا اور اسی خواب کو کافی سمجھ لینا نہیں ہے ۔

بلکہ یہ ایک ایسا انتظار ہے جس میں نقل وحرکت او ر تبدیلی کے درمیان اعضائے جسمانی جیسا رابطہ پایا جاتا ہے یا یہ ایسا انتظار ہے جس میں جد وجہد کے ذریعہ اسے اس حقیقت میں تبدیل کر دیا جائے گاکہ جس کے بعد زمین پر اللہ کے نیک بندوں کی وراثت مسلم ہو جائے گی۔

مولف محترم نے اپنے انداز فکر کے اعتبار سے انتظار کے بارے میں تحقیق کی ہے فاضل مولف کا نظریہ ہے کہ”انتظار اور حرکت کے درمیان اعضائے بدن جیسا مضبوط رابطہ پا یا جاتا ہے کیونکہ انتظار کا نتیجہ حرکت ہے اور وہ اس کا محافظ ونگہبان ہے“اس کے بعد یہ گفتگو مزید آگے بڑھتی ہے تو اس میں یہ موضوعات سامنے آتے ہیں:غیر دینی مکاتب فکر میں انتظار کا عقیدہ، مسئلہ انتظار لا مذہب مکاتب فکر کی روشنی میں ،انتظار کے بارے میں اسلام سے پہلے موجود ادیان کا نظریہ،مسئلہ انتظار اہل سنت کی نظر میں ،احادیث انتظار ، شیعہ امامیہ کی نظرمیں ، انتظار اور اس کی تہذیبی (سماجی )قدرو قیمت کیا ہے؟،انقلاب سنن الٰہیہ اور غیبی امدادوں کا کرداد،روایتوں میں ظہور کی تیاری کرنے والی جماعتوں کا تذکرہ، راہ ہموارکرنے والوں کے امتیازات اور خصوصیات،ظہور کی تیاری کا طریقہ،زمین ہموار کئے جانے کا طریقہ (ظہو ر کی تیاری کے لئے مختلف چیلنچ)،رایتوں میں جماعت انصار کا تذکرہ،طالقان کے جوان مرد،امام کے جوان اصحاب،امام کے انصار کی تعداد،امام کے انصارکے صفات”انتظار “کے دوران ہماری ذمہ داریاں،شکوہ ودعا،بامقصد انتظار (معقول انتظار)،مسئلہ انتظار کی صحیح وضاحت،منتظر کون ،ہم یا امام؟ انتظار کی قدر وقیمت ، دوڑ دھوپ اور انتظار کا آپسی رابطہ،تحریکی عمل،تحریکی عمل کا ٹیکس،تحریک ایک فریضہ،انسانی کمزوری،تباہی سے محفوظ رہنے کا طریقہ۔

۸

مولف محترم نے پھر یہ سوال اٹھایا ہے کہ :انتظار کس کو ہے ؟ہمیں یا امام کو ؟ اور پھر جواب دیتے ہیں:کہ انتظار دونوں کو ہے امام کو ہماری جد وجہد ،قیام،استقامت اور ہمارے جہاد کا اتنظار ہے۔نہ کہ بیکار اور معطل بیٹھے رہنے کا ۔اور اسی سے انتظار کی عظیم قدر وقیمت کا صحیح اندازہ ہو تا ہے جس کے بارے میں ہمیں رسول خدا نے آگا ہ کیا ہے:” افضل اعمال امتی الانتظار“”میر ی امت کا سب سے اہم عمل انتظار کرنا ہے۔“

اسی بنا پر محقق بصیر نے تحریک حرکت اور انتظار کے با ہمی رابطے کے بارے میں گفتگو کو آگے بڑھا یا ہے،اور آپ کا نظریہ ہے کہ قرآن مجید نے تحریک وحرکت کو اہم فریضہ قرار دیا ہے اور مسلمانوں کومتوجہ کیا ہے کہ اپنے حالات خود تبدیل کریں۔شرک کانام ونشان مٹا کر اس کی جگہ توحیدکا پرچم لہرائیں ،تبلیغ دین کی راہ میں حائل رکاوٹوں کودور کریں ۔ اور یہ سب اسی وقت ممکن ہے کہ جب انسان خود اپنے کو تباہی وبربادی اور تنزلی کے اسباب سے محفوظ رکھے۔

مولف محترم نے انسان کی حفاظت کرنے والے ان اسباب کی وضاحت بھی کی ہے اور وہ اسباب صبر ونماز سے استمداد،ولایت ومحبت ،میراث ،انتظار اور آرزوہیں۔

اس طرح مولف محقق نے نہایت سادہ الفاظ میں منطقی دلائل کے ذریعہ یہ واضح کر دیا ہے کہ قافلہ توحید کے طولانی اور پر مشقت سفر کے لئے انتظار ایک اہم ستون کی حیثیت رکھتا ہے۔

مرکز غدیر الدراسات الاسلامیہ

۹

انتظار اورحرکت کا باہمی رابطہ

مسئلہ انتظار کی وضاحت

بعض لوگ”انتظار “کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ ”انتظار“ سماج اور تاریخ کے کمزور اور دوکچلے ہوئے لوگوں کی محرومیوں کی دین ہے اور انتظاردر اصل موجودہ مشکلات ومصائب سے بچنے کے لئے ایسے مستقبل کے تصور میں غرق ہوجانا ہے جس میں تمام محرومین اپنے حقوق اور اپنی کھوئی ہوئی شان وشوکت کو دوبارہ حاصل کرلیں گے ایسا تصور در حقیقت ”بیداری میں خواب“دیکھنے یا ”حقائق سے خیالات کی دنیا کی طرف فرارکرنے کے “ مانند ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ انتظار کی اس تاویل او روضاحت کا علم سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے آئیے انتظار کی تاریخ کو انسانیت کے مشہور ومعروف ادیان کے وسیع وعریض میدانوں میں تلاش کرنے کی کوشش کی جائے ۔

انتظار لا مذہب مکاتب فکر کی روشنی میں

انتظار کا تعلق فقط مذہبی مکاتب فکر سے نہیں ہے بلکہ انتظار کا دائرہ مارکسزم جیسے بے دین مکاتب فکر تک پھیلا ہوا ہے چنانچہ برٹرانڈراسل کا بیان ہے:”انتظارکا تعلق صرف مذاہب سے نہیں ہے بلکہ غیر مذہبی مکاتب فکربھی ایسی شخصیت کے منتظر میں جو عدل وانصاف کا پرچم لہرا کر دنیا کو نجات دے سکے ۔“

انتظار کے بارے میں راسل نے جوکہا ہے :انتظار کا وہی مفہوم عیسائیوں کے یہاں بھی پایا جا تا ہے اسی طرح”ٹولسٹائے“کے نزدیک بھی انتظار کا مفہوم وہی ہے جو عیسائیوں کے یہاں ہے البتہ اس روسی مفکر کے یہاں اس مسئلہ کو پیش کرنے کا انداز عیسائیوں سے قدرے مختلف ہے۔

۱۰

انتظار کے بارے میں ما قبل اسلام موجود ادیان کا نظریہ

کتاب مقدس کے عہد قدیم میں ہمیں یہ ملتا ہے :”اشراراور ظالموں کی موجودگی سے آزردہ خاطر نہ ہو کیونکہ ظالموں کا سلسلہ عنقریب ہی ختم ہو جائے گا اور عدل الٰہی کے منتظر زمین کے وارث ومالک بن جائیں گے اور قابل لعنت افراد پراکندہ ہو جائیں گے اور نیک بندے ہی زمین کے مالک ہوں گے اور دنیا کے آخری دورتک وہی آبادرہیں گے۔“(۱)

کتاب مقدس نے جس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے اسی کا تذکرہ قرآن مجید کی اس آیت میں ہے:( وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ ) (۲) ” اور ہم نے زبور کے بعد ذکر میں بھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے ۔“

انتظار اہل سنت کی نظر میں

صرف شیعوں کوہی دنیا کو ظلم وجور سے ”نجات دینے والے مہدی“کاانتظار

____________________

(۱)کتاب مقدس،سفر مزامیر داود مزمور/۳۷

(۲)انبیاء/۱۰۵

۱۱

نہیں ہے بلکہ شیعی احادیث کی طرح اہل سنت کے یہاں بھی اس سلسلہ میں بکثرت اتنی صحیح احادیث موجود ہیں جن کے بعد کسی شک وشبہہ کا امکان باقی نہیں رہ جاتا ہے۔

آٹھویں صدی ہجری کے معروف سنی عالم اور کتاب ”العِبَر“کے مقدمہ کے مولف عبد الرحمٰن بن خلدون کے یہ الفاظ ملاحظہ فرمائیے:”یا د رکھو کہ ہر دور کے مسلمانوں کے درمیان یہ بات مشہوررہی ہے کہ آخری زمانہ میں اہل بیت کی ایک فرد کا ظہور ضروری ہے جودین کی حمایت کر ے گااور عدل وانصاف کو ظاہر کر ے گا ،مسلمان اس کی پیروی کریں گے ،تمام اسلامی ممالک کے اوپراس کا تسلط قائم ہوگا ،اس کا نام”مہدی“ہوگا۔اور دجال کا خروج یا قیامت کے دوسرے آثار جو صحیح احادیث سے ثابت ہیں اور ان کے بعد حضرت عیسیٰ نازل ہوں گے اور وہ دجال کو قتل کر دیں گے یا یہ کہ حضرت عیسیٰ ان کے ساتھ نازل ہو کر دجال کو قتل کرنے میں ان کی مدد کریں گے اور پھر حضرت عیسیٰ حضرت مہدی کے پیچھے نماز پڑھیں گے ۔“(۱)

مدینہ اسلامی یونیورسٹی کے پروفیسر شیخ عبد المحسن العباد کہتے ہیں:” حرم کے المناک واقعہ سے بہت سے سوالات پیدا ہو گئے ہیں انہیں سوالات کی وضاحت کے لئے بعض علما ء نے ریڈیو اور دیگرذرائع ابلاغ کے ذریعہ اس بات کی وضاحت کی ہے کہ رسول خدا سے منقول روایتیں صحیح ہیں ،ان علماء میں شیخ عبد العزیز بن عبد اللہ بن باز (صدر ارادہ تعلیم وتبلیغ)نے اپنے بعض رسائل اور کتابچوں میں اس مسئلہ کو رسول اللہ کی صحیح اور مستفیض احادیث سے ثابت کیا ہے ، ان علماء میں مسجد نبوی کے امام شیخ عبد العزیز بن صالح بھی شامل ہیں۔ “

____________________

(۱)مقدمہ ابن خلدون،ص/۳۱۱

۱۲

اس کے بعد شیخ محسن العباد تحریر کرتے ہیں کہ انہوں نے یہ رسالہ اس مسئلہ کی وضاحت کے لئے تحریر کیا ہے کہ مہدی آخر الزمان کے خروج پر صحیح روایات دلالت کرتی ہیں اور شاذ ونادرافراد کے علاوہ تقریباً سبھی علمائے اہل سنت اس کے قائل ہیں۔“(۱)

آیہ کریمہ :( وَإِنَّهُ لَعِلْمٌ لِلسَّاعَةِ فَلاَتَمْتَرُنَّ بِهَا وَاتَّبِعُونِی هَذَا صِرَاطٌ مُسْتَقِیمٌ ) (۲) کے بارے میں ابن حجر الہیتمی نے یہ تحریر کیا ہے:کہ مقاتل اور ان کا اتباع کرنے والے مفسرین کا یہ بیان ہے کہ:”یہ آیت مہدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔“آئندہ ایسی احادیث بیان کی جائیں گی جن میں یہ صراحت موجود ہے کہ مہدی“ کا تعلق اہل بیت ٪ نبوت سے ہے۔اور اس بنا پر ------ آیہ کریمہ نسل فاطمہ و علی رضی اللہ عنہما میں برکت پرصراحت کے ساتھ دلالت کرتی ہے اور یہ کہ خداوندعالم انہیں کثیر وطیب اولاد عطا کرے گا اور ان کی نسل کو حکمت کی کنجی اور رحمت کی معدن قرار دے گااور اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کریم نے جنا ب فاطمہ =اور ان کی ذریت کے لئے شیطان رجیم سے محفوظ رہنے کے لئے پناہ طلب کی تھی اور یہی دعا آپ نے حضرت علی کے لئے بھی کی تھی۔(۳)

عصر حاضر کے شیخ الحدیث اور عالم ”شیخ ناصر الدین البانی“”التمدن الاسلامی “ نامی رسالہ میں تحریر کرتے ہیں:

” z جہاں تک مسئلہ مہدی کا سوال ہے تو یاد رکھو کہ ان کے ظہور کے بارے میں بکثرت معتبر

____________________

(۱)رسالہ الجامعة الاسلامیہ شمارہ ،۴۵

(۲)زخرف /۶۱

(۳)صواعق محرقہ،ابن حجر،ج/۱،ص/۲۴۰

۱۳

احادیث پائی جاتی ہیں ان احادیث میں سے کثیر روایات کی سند صحیح ہے اور میں اس مقام پر ا ن کے چند نمونے پیش کر رہا ہوں ۔“پھر انہوں نے کچھ حدیثوں کا تذکرہ کیا ہے۔

احادیث انتظار،شیعہ امامیہ کی نظرمیں

اثنا عشری شیعوں کے یہاں انتظار کے بارے میں بکثرت روایات بحدتواتر موجود ہیں اور ان میں اکثرکی سند صحیح ہے۔اور بعض علمائے کرام نے ان احادیث کو نہایت علمی انداز میں جمع کیا ہے۔جن میں شیخ لطف اللہ صافی کی کتاب ’منتخب الاثر “اور شیخ علی کورانی کی کتاب ”موسوعة الامام المهدی “ اہم اور قابل ذکرہیں۔(۱)

سر دست ان احادیث کوپیش کر نامقصود نہیں ہے کیونکہ ہماری گفتگو کا موضوع امام مہدی کے بارے میں منقول احادیث کے بارے میں تحقیق اور سند یا دلالت کے اعتبار سے ان کا جائزہ لینا نہیں ہے بلکہ اس رسالہ میں ہمیں دوسرے موضوع کے بارے میں گفتگو کرنا ہے خداوندعالم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں مقصد میں کامیاب کرے امام مہدی سے متعلق احادیث پر گفتگو کو ہم اس موضوع سے متعلق حدیث کی مفصل کتابوں پر ہی چھوڑتے ہیں کیونکہ ہم فی الحال جس موضوع کے بارے میں گفتگو کریں گے وہ انتظار اور اس کی تہذیبی قدرو قیمت ہے:

انتظار ایک اسلامی اصطلاح ہے جو ہمارے تہذیبی اقدار کا حصہ ہے:انتظار کے اس مفہوم پر مخصوص تہذیبی و ثقافتی انداز فکر سامنے آتا ہے کیونکہ کبھی لوگ انتظار کا غلط اور منفی

____________________

(۱)معجم احادیث امام مہدی ،تالیف :ادارہ معارف اسلامی کی علمی کمیٹی :زیر نظر شیخ علی کورانی ،ناشر:موسسہ معارف اسلامی ،طبع اول ( ۱۴۱۱ ئھ )قم

۱۴

مفہوم مراد لیتے ہیں جس سے ا نتظار بے حس وحرکت ،ساکت وجامد پڑے رہنے کے معنی بیان کرنے یا تاخیر والتواء میں تبدیل ہو جاتا ہے۔

اور کبھی اس کا صحیح اور مثبت مفہوم میں استعمال ہوتاہے جس سے یہ انسانی زندگی میں جو ش وجذبہ اور شوق وولولہ کا ذریعہ قرار پاتا ہے۔

اس لئے مسئلہ انتظار کے صحیح مفہوم کی باقاعدہ وضاحت ضروری ہے ،اور اس کتابچہ کی تالیف کا بنیادی مقصد بھی یہی ہے۔

انتظار ایک کلچر ہے جو ہماری ذہنی نشوونما ، اندازفکر ،طرز زندگی اور مستقبل میں دخیل ہے یہی کلچر حال اور مستقبل سے متعلق ہماری سیاسی منصوبہ بندیوں میں بھی موثر ہے۔

ہماری قومی تہذیب اور ثقافتی زندگی میں انتظار کی جڑیں ۱۱۹۰/ سال پرانی ہیں کیونکہ غیبت صغریٰ ۳۲۹ ئھ میں اختتام پذیر ہوگئی تھی۔

اس طویل عرصہ میں انتظارنے ہمارے سیاسی شعور اور انقلابی طرز فکرمیں موثرکردارادا کیاہے،اور بالفرض اگرہم اپنی سیاسی اور انقلابی تاریخ کو ”مفہوم انتظار“سے الگ کرنے کی کوشش کریں تو پھر اس تاریخ کی شکل وصورت ہی کچھ اور ہوگی۔

چنانچہ جو افرادبھی دعائے ندبہ پڑھتے ہیں (جیسا کہ عام طور سے مومنین کرام ہرجمعہ اس کی تلاوت کرتے ہیں)اس سے مومنین کے قلوب،عقل وشعوراور انداز فکر ونظرپر ابھرنے والے انتظار کے گہرے نقوش کا خود بخود اندازہ ہو جائے گا۔

۱۵

انتظار کی قسمیں

نجات دینے والے انتظار کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم :ایسا نجات دہندہ انتظار جسے مقدم یاموخر کرنامصیبت زدہ انسان کے لئے ممکن نہیں ہے بالکل اسی طرح جیسے کسی ڈوبنے والے انسان کو انتظار ہو کہ کوئی شخص ساحل سے آکر اسے ڈوبنے سے بچانے والاہے اسی لئے اس کی نظر یں ساحل پر لگی رہتی ہیں،لیکن یہ طے شدہ ہے کہ ڈوبنے والے کے لئے اپنے نجات دہندہ کی رفتار تیز کرنا توممکن نہیں ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ نجات دہندہ کودیکھنے کے بعد ڈوبنے والے کے اندر نجات کے لئے ایک نیا عزم وحوصلہ پیدا ہو جاتا ہے اور اس کے قلب ودماغ پر چھائے ہوئے مایوسی کے بادلوں کو چیرکر زندگی کی آرزوا ورتمنا اس کی آنکھوں میں زندگی کی نئی روشنی اور چمک پیدا کر دیتی ہے۔

قطعی طور پر ”امید“سے انسان کو مقابلہ اوراستقامت کا عزم وحوصلہ ملتا ہے اسی لئے ڈوبنے والا نجات دہندہ کے پہنچنے تک ہاتھ پیر مارنے کی بھر پور کوشش کرتا رہتاہے۔چنانچہ اس انسان کی صورت حال اس وقت عجیب دیدنی ہوتی ہے کہ جب وہ ہمت ہار جاتاہے یا جب مقاومت کرتا ہے۔کیونکہ اس کے ہمت ہار جانے کے بعد کوئی بھی اسے اس بھنور سے باہر نہیں نکال سکتا اور نہ ہی اس کی ڈوبتی ہو ئی کشتی کو ساحل نجات تک پہنچا سکتا ہے۔اور کبھی کبھی تو یہ شکست کسی فرد یا جماعت تک محدود نہیں رہتی بلکہ پورے ملک یاسیاسی نظام کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے جیسا کہ ہم نے ماضی قریب میں سوویت یونین کا زوال دیکھا ہے جو ایک سپر پاور ملک تھا۔

۱۶

جب انسان ثابت قدمی کامظاہرہ کرتا ہے تو خداوندعالم ایسے بندہ کو اس راہ میں ڈٹے رہنے کاعزم وحوصلہ عطا کردیتاہے تو کوئی چیز بھی اس کے قدموں کو نہیں ہلا سکتی اور نہ ہی اس کے آہنی ارادوں میں کوئی تزلزل پیدا ہو سکتا ہے۔بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ گوشت اور پوست سے بنا ہوا یہ انسان عزم وہمت کا ایک ہمالیہ ثابت ہوتا ہے اوربڑے سے بڑے مصائب کے بالمقابل سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن جاتا ہے۔اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس کی یہ استقامت خداوندعالم کاعطیہ ہوتی ہے۔اور یہ بھی طے شدہ بات ہے کہ اس استقامت کی اصل بنیاد ”امید وآرزو“ہی ہے ان دونوں باتوں کے درمیان رابطہ کے سلسلہ میں کسی شک وشبہہ کی گنجائش نہیں ہے:

ایک تو یہ کہ انتظار سے ”آرزو اورامید “کی کرن پیدا ہو تی ہے اور انسانی زندگی پر مایوسی کے چھائے ہوئے بادل چھٹ جاتے ہیں۔

دوسرے یہ کہ آرزو اور امید سے انسان کو ثبات قدم کا عزم وحوصلہ ملتا ہے۔

دوسری قسم : یہ ہے کہ انسان کے پاس اس کے بارے میں خود فیصلہ کرنے بلکہ اس میں اصلاح وترمیم کرنے کی صلاحیت موجود ہو۔جیسے بیماری سے شفا یاب ہونا ،یا کسی تعمیری ،تجارتی ،یا علمی منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچانا ،دشمن پر فتحیاب ہونا،فقیری سے نجات پانا وغیرہ کہ یہاں بھی ایک طرح کا انتظار ہی ہے اور ان تمام امور میںعجلت یا تاخیر خودانسان کے اختیار میں ہے۔

انسان کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ وہ بیماری سے جلد ی شفایاب ہوجائے یا اس میں تاخیر کر دے یا شفا حاصل ہی نہ کرے،یا یہ کہ کسی تجارتی وتعمیری اور علمی منصوبہ کو جلد سے جلد مکمل کر لے یا اسے دیر تک معطل رکھے یا مثلاً دولت وثروت یا دشمن پر فتح حاصل کرے یا ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھے۔

۱۷

اس انتظار کاانداز گذشتہ انتظار سے بالکل مختلف ہے کیونکہ اسے جس چیز کا انتظار ہے اس کو حاصل کرنے میں جلدی یا تاخیر حتی کہ اس سے صرف نظر کرنا خود انسان کے اختیار میں ہے۔

اس طرح انتظار کی دوسری قسم میں انسان کے اندر ”آرزو“اور ”استقامت“ کے علاوہ ”تحریک حرکت اور جد وجہد“بھی پیدا ہو تی ہے۔اس طرح ”تحریک حرکت“انتظار کی صرف اسی قسم کالازمہ ہے۔کیونکہ جب کسی انسان یہ معلوم ہو جائے کہ اسے نجات اور کامیابی اسی وقت مل سکتی ہے جب وہ جد وجہداور دوڑ دھوپ کرے تو وہ ایسا ضرورکرے گا چنانچہ اس یقین کے بعد اس کی زندگی کا نقشہ یکسر تبدیل ہو جاتاہے اور وہ لگن کے ساتھ باقاعدہ محنت ومشقت شروع کر دیتا ہے جب کہ اس کی زندگی میں پہلے ان چیزوں کا نام ونشان نہیں ہے۔

مختصر یہ کہ انتظار کی پہلی قسم میں ”امیدوآرزو “اور ”استقامت“کے علاوہ انسان کے بس میں کچھ نہیں ہوتا لیکن انتظار کی دوسری قسم میں آرزو اور استقامت کے علاوہ اس کے اندر عزم وحوصلہ اور جوش وجذبہ (تحریک وحرکت)بھی پیدا ہو جاتاہے۔

۱ ۔ انسان کے دل میں آرزو پیدا ہوتی ہے تو وہ حال کے دریچوں سے اپنے مستقل کودیکھنے کی کوشش کرتا ہے دو طرح کے افراد ہوتے ہیں کچھ وہ ہوتے ہیں جو صرف اپنی موجودہ مشکلات کی عینک سے خدا ،کائنات اور لوگوں کو دیکھتے ہےں اور کچھ وہ جو ان تمام چیزوں کو ماضی،حال اور مستقل کے آئینے میں دیکھتے ہیں ان دونوں افراد کے درمیان بہت نمایاں فرق پایا جاتا ہے ۔کیونکہ پہلے طرز نگاہ میں دھندھلاپن ،تاریکی اور منفی رخ پایاجاتا ہے جب کہ دوسرا طرز نگاہ ان چیزوں قطعاً مبراہے۔

۲ ۔ استقامت کی بنا پرانسان جووجہد سے کام لیتا ہے اور مدد پہنچنے تک مسلسل تباہی و بربادی یا تنزلی کے مقابل ڈٹا رہتا ہے اور جس انسان کو مدد پہنچنے کی امیدنہیں ہوتی اس کی ہمت جواب دے جاتی ہے اوروہ خود ہی گھٹنے ٹیک دیتا ہے۔

۳ ۔ جد وجہد اور حرکت سے کامیابی ، نجات طاقت واستغناء اور خود کفائی وخود اعتمادی حاصل ہوتی ہے ۔ایسی صفات کے حصول کے لئے جد وجہد کو”تحریکی انتظار “کہا جاتا ہے اور یہ انتظارکی سب سے اعلیٰ قسم ہے لہٰذا اس وقت ہم انتظار کی اسی قسم کے بارے میں گفتگو کر رہے ہیں۔

۱۸

تبدیلی کے اسباب

اس انتظار کی بنا پر بندے خداوندعالم سے یہ توقع اور امید رکھتے ہیں کہ وہ ان کے معاملات کو اس طرح تبدیل کر دے کہ برائی کی جگہ بھلائی ،فقیری وناداری کی جگہ مال ودولت کی فراوانی ،عاجزی ولاچاری کی جگہ قدرت وطاقت اور ناکامی کی جگہ کامیابی اس کا مقدر بن جائے اور یہ صحیح اور معقول توقع بھی ہے کیونکہ انسان ضعف وناتوانی ،ناداری وجہالت اور برائیوں کا پتلہ ہے۔

اور وہ صرف خدا کی ذات ہے جس سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ ان حالات کو تبدیل کر سکتا ہے اور خدا سے ایسی توقع رکھنے میں بندوں کے لئے کوئی حرج بھی نہیں ہے البتہ اس تبدیلی کے لئے یہ شرط ضرور ہے کہ انسان ان حالات اوراسباب کو بھی فراہم کرنے کی کوشش کرے جن کی فراہمی کا حکم خدا نے د یاہے تبدیلی خدا وند عالم کی جانب سے ہوگی ہے۔اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے لیکن اس کے لئے طے شدہ اور معین اسباب بہر حال ضروری ہیں لہٰذا جب تک انسان ان اسباب کا سہارا نہ لے خداوندعالم کی جانب سے اس تبدیلی کی توقع رکھنا بھی صحیح نہیں ہے لہٰذا ان انسا ن حالات واسباب کو تبدیل کرنے کے لئے پہل خود کرنا چاہئے تاکہ خداوندعالم بھی اس کے امور میں تبدیلی پیدا کردے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری اقتصادی اورفوجی کمزوری، تعلیمی پسماندگی ،بدانتظامی کی اصل بنیاد جہالت ،سستی،کاہلی اور نا توانی کے علاوہ نیز جرات وہمت اور شجاعت کا فقدان ہے۔

لہٰذا اگر ہم”خود اپنے اندر“ تبدیلی پیدا کر لیں تو بے شک خدا بھی ہمارے حالات تبدیل کردے گا اور اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ خداوندعالم تن تنہا ہمارے حالات تبدیل کر سکتا ہے۔

اور اس میں بھی کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ جب تک ہم اپنے حالات تبدیل نہیں کریں گے خداوند عالم بھی ہمارے حالات کی اصلاح نہیں کرے گا۔اور یہ ایسے حقائق ہیں جن میں کسی قسم کے شک وشبہہ کی گنجائش ہی نہیں ہے ۔مختصر یہ ہے کہ خدا کی طرف سے حالات میں تبدیلی کا انتظار صحیح اور حق بجانب ہے اس میں کوئی شک نہیں لیکن اس کے ساتھ انسان کی جانب سے جد وجہد،سعی وعمل بھی ضرور ی ہے ،اور اسی کو دوسرے الفاظ میں تحریکی انتظار کہا جاتا ہے۔

۱۹

انتظارجد وجہد مسلسل یا تعطل؟

اگرت ہم یہ سمجھتے ہیں کہ انتظار کسی ایسے غیر متوقع حادثہ کا منفی انداز سے مشاہدہ کر لینے کا نام ہے جس میں ہمار اکوئی منفی یا مثبت کردار نہ ہو۔بالکل ایسے ہی جیسے ہم چاند یا سورج گرہن کا مشاہدہ کر لیتے ہیں تو یہ ہماری غلط فہمی ہے ،انتظار کے صحیح معنی ”حرکت‘پیہم‘ ”سعی مسلسل“”جد وجہد“اور ”عمل“کرنے کے ہیں جس کی تفصیل انشا ء اللہ عنقریب ہی پیش کی جائے گی۔

ظہور میں تاخیر کی وجہ ؟

اس سوال کاصحیح جواب تلاش کے لئے انتظار کے صحیح معنی سمجھناضروری ہیں کہ ظہور حرکت وعمل کا نام ہے یاتعطل اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہنے کا نام ہے؟

پہلانظریہ

اگر امام زمانہ (عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف)کے ظہور اور آپ کے عالمی انقلاب میں تاخیر کی وجہ یہ ہے کہ ابھی تک دنیا ظلم وجور سے نہیں بھری ہے تو پھر انتظارکا مطلب تعطل اور حالات کا مشاہدہ کرنا ہیں۔ حالانکہ اسلام کا واضح حکم ہے کہ ہم دنیا میں ظلم وجور کو بڑھاوا نہیں دے سکتے ہیں۔

اس نظریہ کے مطابق ہمیں ظلم وجور کا مقابلہ نہیں کرناچاہئے کیونکہ اس سے غیبت کا زمانہ اور طولانی ہو جائے گا اس طرح ہم اپنی سیاسی سماجی اور عسکری زندگی میں ہاتھ پرہاتھ رکھے ہوئے خاموش تماشائی بنے رہیں۔تاکہ ظلم وجور کااضافہ ہوتا رہے اور جب زمین ظلم وجور سے بھر جائے تو امام زمانہ (عجل)ظہور فرما کر ظالموں کا تختہ الٹ دیں اور مظلوموں کی دستگیری فرمائیں۔

۲۰