انتظار کا صحیح مفہوم

انتظار کا صحیح مفہوم0%

انتظار کا صحیح مفہوم مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 84

انتظار کا صحیح مفہوم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات: صفحے: 84
مشاہدے: 34919
ڈاؤنلوڈ: 3515

تبصرے:

انتظار کا صحیح مفہوم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 84 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34919 / ڈاؤنلوڈ: 3515
سائز سائز سائز
انتظار کا صحیح مفہوم

انتظار کا صحیح مفہوم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

یدعون بالشهادة ویتمنون اٴن یقتلوا فی سبیل اللّه شعارهم:یا لثارات الحسین،اذا ساروایسیر الرعب اٴمامهم مسیرة شهر،یمشون الیٰ المولیٰ ارسالاً،بهم ینصر الله امام الحق

”طالقان میں ایسا خزانہ ہے جو سونا اور چاندی نہیں ہے اور ایک ایسا پرچم ہے جسے جب سے لپیٹا گیا ہے وہ کھلا نہیں ہے اور ایسے مرد میداں ہیں کہ ان کے دل آہنی چٹان کے مانند ہیں، جن کے اندر ذات خدا کے بارے میں ذرہ برابر بھی شک نہیں ہے ، یہ پتھروں سے زیادہ مضبوط ہیں،اگریہ پہاڑوں پر (حملہ کر دیں )تو اسے اس کی جگہ سے ہٹا دیں گے۔ اپنے پرچم کوکسی شہر کی طرف لے کر نہیں بڑھیں گے مگر یہ کہ اسے ویران کر ڈالیں گے ۔گویا ان کے گھوڑے پر ندوں کی طرح ہوں گے ،امام کی زین کو مسح کر کے وہ اس سے برکت حاصل کریں گے اور جنگ میں اس سے انہیں طاقت وقوت ملے گی،رات بھر خدا کی عبادت میں جاگ کر گذارنے والے اورصبح ہونے پر اپنے گھوڑوں پر سوار ہونے والے ہیں ۔

راتوں کو راہب (صفت)دن میں شیرنر ،اپنے آقا کے لئے کنیز سے زیادہ فرمانبردار ،چراغوں کی طرح ،جیسے ان کے دلوں میں قندیلیں روشن ہوں ،خداوندعالم کی خشیت سے خائف ،انہیں شہادت کے لئے دعوت دی جائے گی ،ان کی تمنا راہ خدامیں شہید ہونا ہے ان کا نعرہ” یا لثارات الحسین“جب وہ آگے بڑھیں گے تو ان کا رعب ودبدبہ ان سے ایک مہینہ کے فاصلہ پر آگے آگے چلے گا،اپنے مولیٰ کی طرف بڑھیں گے ان کے ذریعہ خداوندعالم امام حق کی نصرت کرے گا۔“(۱)

____________________

(۱)بحار الانوار،ج/۵۲،ص/۳۰۷

۴۱

امام کے اصحاب جوان ہوں گے

روایات سے اندازہ ہوتا ہے کہ امام کے اکثر اصحاب بھر پور جوان ہوں گے اور

ان میں بوڑھے اور ضعیف افراد بالکل نادر ونایاب ہوں گے۔

علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں یہ روایت نقل کی ہے :”اٴصحاب المهدی شباب لاکهول فیهم الّا کمثل کحل العین(۱) ” مہدی کے اصحاب جوان ہوں گے ان کے درمیان کوئی بوڑھانہ ہوگا مگر اتنی ہی تعداد (مقدار )میں جتنا آنکھ میں سرمہ ہوتا ہے۔“

امام کے انصار کی تعداد

علامہ مجلسی نے بحارالانوار میں یہ روایت کی ہے:”فیجمع اللّٰه علیه اصحابه،هم ثلاثمئة وثلاثة عشر رجلاً ویجمعهم علیه علیٰ غیر میعاد فیبایعونه بین الرکن والمقام، ومعه عهد من رسول اللّٰه قد توارثتة الابناء عن الآباء(۲)

” خداوندعالم ان کے گرد ان کے اصحاب کو جمع کر دے گا ان کی تعدا د ۳۱۳ ہوگی اور خداوندعالم انہیں کسی میعاد کے بغیر جمع کردے گا ،پھروہ رکن ومقام کے درمیان اس کی بیعت کریں گے آپ کے ہمراہ رسول خدا کاوہ عہد ہوگا جو اولاد کو اپنے آباء واجداد سے میراث میں ملتا ہے۔“

____________________

(۱)بحار الانوار،ج/۵۲،ص/۳۳۴

(۲)بحار الانوار،ج/۵۲،ص/۲۳۸،۲۳۹

۴۲

اکثر روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ رکن ومقام کے درمیان جو تعداد امام کی بیعت کرے گی یہی لشکرِ امام کے سپہ سالاروں کی تعداد بھی ہوگی ۔

امام کے انصار کے صفات

سب سے پہلے ہم تذکرہ ضروری سمجھتے ہیں کہ اس دور میں جو زبان استعمال ہوسکتی تھی وہ رمزی اور علامتی زبان ہے جس میں تلواروں سے مراد اسلحہ اور گھوڑوں سے مرادجنگی سواری ہے بالکل اسی طرح جیسے ”رھبان باللیل لیوث بالنھار “(راہبان شب اور دن کو شیرنر) بھی ایک طرح کی مجازی تعبیر ہے جس سے رات میں کثرت عبادت وتہجد اور دن کے وقت جرات وہمت مراد ہے۔

جو شخص روایتوں کے لب ولہجہ سے مانوس ہو اس کے لئے اس قسم کے جملات عام بات ہیں۔اب ہم روایتوں کے مضامین پر غور وفکر کرکے امام کے انصار کی صفات تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں:

۱ ۔ایسے خزانے جن کے اندر نہ سونا ہوگا نہ چاندی

امام کے انصار” خزانے “ہیں اور خزانہ پوشیدہ دولت کو کہا جاتا ہے ،جو کبھی انسان کے گھر میں ہی ہوتا ہے،کبھی اس کے قدموں کے نیچے (زمین میں) ہوتا ہے ،کبھی گھر کے آس پاس یا شہر کے اطراف میں ہوتاہے لیکن انسان کو اس کا علم نہیں ہوتا ہے اسی طرح امام کے انصار بھی چھپا ہوا خزانہ ہیں لہٰذا عین ممکن ہے کہ ان میں سے کوئی ہمارے گھر کے اندر یا پڑوس میں یا شہر میں موجود ہو اور ہم اسے نہ پہچانتے ہوں بلکہ بسا اوقات اسے حقیر بھی سمجھتے ہوں اورایسے لوگوں کی نظروں میں بھی وہ حقیر ہوں جن کی نظر میں وہ گہرائی نہ ہوجس سے انہیں اس خزانہ کا علم نہ ہو سکے گا۔

۴۳

بے شک یہ بصیرت ویقین،خدا سے قلبی رابطہ، شجاعت،جرات اور ذات خدا میں اپنے کو غرق کر دینا ان کے اندرایسے خصوصیات اچانک اور یک بہ یک پیدا نہیں جائیں گے بلکہ یہ صفات ان جوانوں کے نفوس میں پہلے سے موجود ہوں گے مگریہ خصوصیات لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ ہوں گے ،بالکل اسی طرح جیسے لوگوں کی نگاہوں سے خزانہ پوشیدہ رہتا ہے۔

۲ ۔طاقت وقوت

خداوندعالم نے اپنے صالح بندوں ابراہیم واسحاق ویعقوب کی تعریف اس انداز سے کی ہے:

( وَاذْکُرْ عِبَادَنَا إبْرَاهِیمَ وَإِسْحَاقَ وَیَعْقُوبَ اٴُوْلِی الْاٴَیْدِی وَالْاٴَبْصَارِ إِنَّا اٴَخْلَصْنَاهُمْ بِخَالِصَةٍ ذِکْرَی الدَّارِ وَإِنَّهُمْ عِنْدَنَا لَمِنْ الْمُصْطَفَیْنَ الْاٴَخْیَار ) (۱) کسی بھی شخص کی تعریف کی یہ بہترین مثال ہے۔

بے شک بصیرت کے لئے قوت وطاقت ضروری ہے ورنہ اس کے بغیر بصیرت ضائع ہو جائے گی اور اس پر جمودطاری ہو جائے گا اور بصیرت صرف مضبوط اور مستحکم ایمان والے مومن کے اندر ہی پیدا ہو سکتی ہے لہٰذا اگر مومن کمزور ہوا تو اس کی بصیرت بھی ختم ہو جائے گی قوت کے لئے بھی بصیرت ضروری ہے کیونکہ بصیرت کے بغیر طاقت ،ہٹ دھرمی ،دشمنی اور تکبر میں تبدیل ہو جاتی ہے اور خداوندوعالم نے جناب ابراہیم واسحاق یعقوب کی یوں تعریف کی ہے”اولیٰ الایدی والابصار“ہمارے بندے صاحبان قوت بھی تھے اور صاحبان بصیرت بھی۔

____________________

(۱)سورہ ص/ ۴۵۔۴۷

۴۴

ابھی آپ نے جو روایات ملاحظہ فرمائیں ان میں یہ اشارہ موجود ہے کہ امام مہدی کے انصار صا حب قوت بھی ہوں گے ا ور اہل بصیرت بھی ۔

۳ ۔شعور اور بصیرت

روایت میں امام کے انصار کے شعور اور بصیرت کا تذکرہ نہایت حسین انداز سے کیا گیا ہے ۔”کالمصابیح کان فی قلوبھم القنادیل“”چراغوں کی مانند جیسے ان کے دلوں میں قندیلیں روشن ہوں۔“بھلا یہ ممکن ہے کہ تاریکی چراغ کو توڑ ڈالے ؟ہاں یہ تو ممکن ہے کہ اندھیرا چاروں طرف سے چراغ کو گھیر لے لیکن وہ اسے گل نہیں سکتا ہے۔

چاہے جتنی زیادہ تاریکی پھیل جائے اورفتنوں کا راج ہو مگر امام زمانہ کے انصار کے دلوں میں شک وشبہہ کا گذر نہ ہوگا اسی لئے وہ شک وشبہہ کا شکار نہ ہوں گے نہ ہی واپس پلٹیں گے اورنہ ہی راستہ چلتے وقت اپنے پیچھے مڑکر دیکھیں گے ان کی اس صفت کے لئے روایت میں یہ جملہ ہے ”لا یشوبھا شک فی ذات اللہ“ذات خدا کے بارے میں ان کے یہاں شک کی آمیزش بھی نہ ہوگی چنانچہ شک کی آمیزش کا مطلب شک اور یقین کا مجموعہ ہے ۔ بعض اوقات شک یقین کو پارہ پارہ کر دیتا ہے اور شک کو شکست دینے والے یقین کو ثبات حاصل نہیں ہوتا۔اس صورت حال سے اکثر مومنین دوچار ہوتے رہتے ہیں لیکن امام کے انصار ایسے ہوں گے کہ ان کے یقین میں شک کی آمیزش بھی نہ ہوگی ایسا خالص یقین ہوگا جہاں دور دور تک شک کا شائبہ بھی نہ ہوگا۔

۴ ۔ عزم محکم

اس بصیرت کے نتیجے میں ان کے اندر ایسا مضبوط عزم وحوصلہ پیداہو جائے گا جس میں کسی قسم کا شک وترددیا بازگشت کا سوال نہ ہوگا۔ان کی اس استحکام کو روایت میں ”الجمر“کہا گیا ہے جو ایک شاندار مثال ہے کیونکہ شعلہ جب تک روشن رہتا ہے وہ چیز کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے اور روایت کے الفاظ یہ ہیں ”اشد من الجمر“کہ وہ شعلے سے زیادہ شدید ہوں گے یہ ان کے عزم وحوصلہ کے استحکام کے بہترین مثال ہے۔

۴۵

ہمیں نہیں معلوم کہ خداوندعالم نے طالقان کے جوانوں کے اندر شعور وآگہی ،عزم ویقین اور قدرت وطاقت کی کون سی طاقت ودیعت فرمادی ہے؟کیونکہ اس روایت میں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں وہ عام طور سے سننے میں نہیں آتے ہیں گویا کہ یہ حدیث ان کی محبت اور شدت عشق کی ترجمانی کر رہی ہے:”زبرالحدید،کالمصابیح ،کاٴنَّ فی قلوبهم القنادیل،اشد من الجمر، رهبان باللیل لیوث بالنهار

گویا کہ الفاظ کے دامن میں جتنی وسعت تھی حدیث نے ان جوانوں کے شعور وآگہی ، قوت وبصیرت اورعزم وحوصلہ کے نفوذ کی عکاسی کے لئے زبان وبیان کی تمام توانائیوں کو صرف کر دیا ہے۔

۵ ۔قوت وطاقت

روایت میں طالقان کے جوانوں کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ اتنے زیادہ طاقتور ہوں گے کہ اپنے زمانے میں جن جوانوں کوجانتے ہیں ان کے یہاں ایسی شجاعت کا کوئی نام ونشان نہیں ملتا ذرا اس جملہ پر غور کیجئے:”کاٴنَّ قلوبهم زبر الحدید “گویا کہ ان کے دل آہنی چٹان ہیں۔

کیا آپ نے دیکھا ہے کہ کوئی شخص ہاتھ میں لوہے کا ٹکڑا لے کر اسے پگھلا دے اسے توڑدے یا نرم کر دے؟اس کے بعد ارشاد ہوتاہے:اگر یہ پہاڑ پر حملہ کر دیں تو اسے اس کی جگہ سے ہٹا دیں گے ،اپنے پرچموں کے ساتھ کسی شہر کارخ نہیں کریں گے مگر یہ کہ اسے ویران کرکے رکھ دیں گے گویا کہ وہ ہوا پر اڑنے والے اپنے گھوڑوں پر سوار ہوں گے۔“

ان عجیب وغریب تعبیروں سے ان کی عظیم قدر ت وطاقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور یہ طاقت دنیا پر قابض ظالموں اور جابروں کے پاس موجود نہیں ہوسکتی کیونکہ یہ صرف عزم وارادہ اور یقین کی طاقت ہے۔

۴۶

۶ ۔موت کی آرزو اور شوق شہادت

یدعون بالشهادة ویتمنون اٴن یقتلوا فی سبیل اللّٰه “بے شک موت نوے اور سوسال کے ضعیف العمر اور بوڑھے افراد کو بھی خوفزدہ کر دیتی ہے جب کہ ان کے پاس دنیا کی کوئی لذت اور خواہشات باقی نہیں رہ جاتی ہیں۔

میرا خیال یہ ہے کہ جس موت کے نام سے بڑے بوڑھے لرزجاتے ہیں یہ جوان عنفوان شباب سے ہی اس کے عاشق اور دیوانے ہوں گے اور شہادت کی محبت دوچیزوں سے پیدا ہو تی ہے اور انسانی زندگی میں اس سے دو فائدے حاصل ہوتے ہیںشہادت کی محبت کی وجہ دنیا سے چشم پوشی اور خدا سے وابستگی اوراسی کی طرف رخ کر لیناہے ۔لہٰذا جب انسان اپنے دل میں پائی جانے والی دنیا کی محبت سے نبردآزما ہے اور اس سے بالکل قطع تعلق کر لیتا ہے اور اس کے فریب میں نہیں آتا تو اس راستہ کی پہلی منزل طے ہوجاتی ہے اور یہ منز ل دوسری منزل سے بے حد دشوار ہے۔جب کہ اس کا دوسرا مرحلہ یہ ہے کہ انسان کے دل میںخدا کی محبت جاگزیں ہو جائے انسان اس کے ذکر اور محبت کا ہی دلدادہ بن جائے اور ایسے دل کامالک انسان اپنے قلب بلکہ پورے وجود کے ساتھ خدا کی طرف رخ کر لیتاہے جس کے بعد ایسے افراد کی نظر میں دنیا کی کسی چیزکی کوئی وقعت نہیں رہ جاتی

۴۷

یہ لوگ دوسروں کے ساتھ دنیامیں زندگی گذارتے رہتے ہیں اور ان کے ساتھ بازاروں اور اجتماعات میں دکھائی دیتے ہیں مگر یہ قلبی اعتبار سے دنیا سے غائب رہتے ہیں۔ایسے لوگوں کو ”حاضرغائب“کہا جا سکتا ہے یہ موت کے عاشق ہوتے ہیں موت سے محبت کرتے ہیں جب کہ اکثر لوگ موت کے نام ہی سے لرزجاتے ہیں ،یہ شہادت کی طرف دعوت دیتے ہیں اور اس میں انہیں اپنے رب سے ملاقات کا سامان نظر آتاہے اور ان کے دل میں شہادت راہ خدا کا ایسا ہی شوق ہوتا ہے جیسے عام لوگوں کو دنیا کی رنگینیوں کا شوق ہوتا ہے بلکہ ان کا شوق شہادت لوگو ں کے شوق دنیا سے کہیں زیادہ ہوتا ہے۔

بہت کم لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو ان کی معرفت رکھتے ہوں ،خاص طور سے اہل مغرب تو ان کی معرفت اور انہیں سمجھنے سے ہی قاصر ہیں اہل مغرب کبھی انہیں خودکشی کرنے والا کہتے ہیں حالانکہ خود کشی کرنے والا اسے کہا جاتا ہے جو دنیا سے آزردہ خاطر ہو جاتا ہے اور اس کے سامنے تمام راستے مسدود ہو جاتے ہیں جب کہ ان جوانوں کے سامنے دنیا کے راستے بالکل کھلے ہوتے ہیں دنیا ان کے ساتھ دل لگی کرے گی اور وہ اپنی تمام زینتوں اور آرائشوں کے ساتھ ان کے سروں پر سایہ فگن ہوتی ہے انھیں اپنے فریب میں پھنسانے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے تو پھر وہ دنیا سے کس طرح آزردہ خاطر ہو سکتے ہیں جب کہ ان کے سامنے دروازے بند نہیں ہوں گے بلکہ وہ اس سے منہ پھیر لیں گے کیونکہ ان کے دل میں خدا کی ملاقات کاشوق ہوگا۔اہل مغرب کبھی ان لوگوں کو دہشت گر دکہتے ہیں جب کہ یہ دہشت گرد نہیں ہیں بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ وہ دہشت گردی سے نہیں ڈرتے ہیں تو یہ حقیقت سے قریب تر ہے۔

۴۸

مختصر یہ کہ یہ دونوں چیزیں خدا کی راہ میں شہادت کی بنیاد ہیں لیکن جو چیز شہادت کی محبت سے پیدا ہو تی ہے وہ عزم وارادہ اور قوت وطاقت ہے کیونکہ موت کا وہ خواہشمند انسان جو اپنے کودنیا سے آزاد کر سکتا ہے اس کے اندر وہ عزم وحوصلہ پایا جاتا ہے جو دوسروں کے یہاں یکسر مفقود ہوتا ہے۔

اور اس عزم وارادہ سے ان لوگوں کا کوئی تعلق نہیں ہوسکتا جو مادی وسائل پر بھروسہ کرنے والے ہیں۔

۷ ۔متوازن شخصیت

”رھبان باللیل لیوث بالنھار“اس جماعت کی ایک واضح صفت اور علامت یہ ہے کہ یہ لوگ متوازن شخصیت کے مالک ہوں گے اور یہی ان کی قوت اور نفوذ کا راز ہے ،یعنی دنیاو آخرت اور قوت و بصیرت کے درمیان توازن قائم رکھنا اور خداوندعالم اسی توازن اوراعتدال قائم کرنے کو پسند کرتا ہے اور افراط وتفریط یا دائیں بائیں جھکاو کو ناپسند کرتا ہے جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:( وَابْتَغِ فِیمَا آتَاکَ اللهُ الدَّارَ الْآخِرَةَ وَلاَتَنسَ نَصِیبَکَ مِنْ الدُّنْیَا ) (۱)

”اور جو کچھ خدا نے دیا ہے اس سے آخرت کے گھر کا انتظام کرو اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جاو ۔“

یا خداوندعالم نے ہمیں اس دعاکی تعلیم دی :( رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَفِی الْآخِرَةِ حَسَنَةً ) (۲)

____________________

(۱)قصص /۷۷

(۲)بقرہ/۲۰۱

۴۹

”پروردگار ہمیں دنیا اور آخرت میں نیکی عطافرما۔“

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے:( وَلاَتَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُولَةً إِلَی عُنُقِکَ وَلاَتَبْسُطْهَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًاً ) (۳)

”اور خبردارنہ اپنے ہاتھوں کو گردنوں سے بندھا ہوا قرار دواور نہ بالکل پھیلا دو کہ (آخرت میں )قابل ملامت اور خالی ہاتھ بیٹھے رہ جاو ۔“

اسی توازن اوراعتدال میں یہ بھی شامل ہے کہ انسان اللہ کی عبودیت وبندگی اور مومنین کے سامنے انکساری اور کافرین کے مقابل سیسہ پلائی ہوئی مستحکم دیوار دکھائی دے :( اٴَذِلَّةٍ عَلَی الْمُؤْمِنِینَ اٴَعِزَّةٍ عَلَی الْکَافِرِینَ ) (۴)

”مومنین کے سامنے خاکسار اور کفار کے سامنے صا حب قوت ہوگی۔“

اسی توازن واعتدال میں یہ بھی شامل ہے کہ خدا پرتوکل اورمستقبل کی منصوبہ بندی کے ساتھ محنت ومشقت اور جہد مسلسل کے درمیان توازن قائم رکھے جیسا کہ امیر المومنین نے خطبہ ہمام میں متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے اس توازن واعتدال کو اس انداز سے بیان فرمایا ہے:”فمن علامة اٴحدهم اٴنک تری له قوة فی دین ،و حزماً فی لین ،وعلماً فی حلم،وقصداً فی غنی،وتجمّلاً فی فاقة،وصبراً فی شدّة،یعمل الاٴعمال الصالحة وهو علیٰ وجل ،یبیت حذراًویصبح فرحاً،یمزج الحلم بالعلم،والقول بالعمل،فی الزلازل وقور،وفی الرخاء شکور،نفسه منه فی عناء والناس منه فی راحة(۱)

____________________

(۳)اسراء/۲۹

(۴)مائدہ/۵۴

(۱)نہج البلاغہ ،اقتباس از خطبہ متقین ،ج/۲،ص/۱۶۴،شرح محمد عبدہ

۵۰

”ان کی ایک علامت یہ بھی ہے ان کے پاس دین میں قوت، نرمی میں شدت احتیاط،یقین میں ایمان، علم کے بارے میں طمع، حلم کی منزل میں علم ،مالداری میںمیانہ روی،فاقہ میں خودداری، سختیوں میں صبر،وہ نیک اعمال بھی انجام دیتے ہیں تو لرزتے ہوئے انجام دیتے ہیں،خوف زدہ عالم میںرات کرتے ہیں فرح و سرورمیں صبح،یہ حلم کو علم سے اور قول کو عمل سے ملا ئے ہوئے ہیں، زلزلوں میں باوقار ۔ دشواریوں میں صابر ۔ آسانیوں میں شکر گزار ۔دشمن پر ظلم نہیں کرتے ہیں۔ان کا اپنا نفس ہمیشہ رنج میں رہتا ہے اور لوگ ان کی طرف سے ہمیشہ مطمئن رہتے ہےں۔“

یہ اعتدال، امام کے انصار کی واضح صفت اور پہچان ہے۔

۸ ۔رھبان باللیل لیوث بالنھار

اس توازن کی طرف روایت کا یہ جملہ اشارہ کر رہا ہے”رھبا ن باللیل لیوث بالنھار“ ”راہبان شب اور دن میں شیر نر “۔واضح رہے کہ دن اور رات انسان کی شخصیت سازی میں دو الگ الگ کردار ادا کرتے ہیں لیکن ان دونوں کے ملنے کے بعد ہی ان کی تکمیل ہوتی ہے اور یہ دونوں ہی ایک مبلغ اور مجاہد مومن کی شخصیت کے لئے بنیادی اعتبار سے ضروری ہیں یہی وجہ ہے کہ اگر رات کی عبادتیں نہ ہوں گی تو انسان دن میں مشکلات کامقابلہ نہیں کر سکے گا۔اور اس کے اندرخاردارراستوں پرسفرجاری رکھنے کی طاقت پیدانہیں ہوگی اور اگر یہ دن کی جد وجہد نہ ہوگی تو پھر رات بھی قائم باللیل کے لئے سماج میں دین الٰہی کی تبلیغ کے راستے میں مانع ہو جائے گی۔

اور اس طرح انسان دنیاوی زندگی کے دوسرے مرحلہ یعنی عبادت الٰہی کے بعد اپنی زندگی کے اہم حصہ سے ہاتھ دھو بیٹھے گا جس کا نام بندگی خدا کی طرف دعوت دیناہے۔

۵۱

قرآن مجید میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ دین خدا کی تبلیغ میں نماز شب اہم کردار ادا کرتی ہے تبلیغ اسلام کے ابتدائی دور میں ہی رسول اکرم پر سورہ مزمل نازل ہوا تھا جس میں پروردگار عالم نے آپ کو یہ حکم دیا ہے کہ دن کے بھاری اور مشقت آور کاموں کوانجام دینے کے لئے اپنے نفس کو رات کی عبادتوں کے ذریعہ تیار کریں جیسا کہ ارشادہوتا ہے:

( یَااٴَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ قُمْ اللَّیْلَ إِلاَّ قَلِیلاً نِصْفَهُ اٴَوْ انْقُصْ مِنْهُ قَلِیلاً اٴَوْ زِدْ عَلَیْهِ وَرَتِّلْ الْقُرْآنَ تَرْتِیلاً إِنَّا سَنُلْقِی عَلَیْکَ قَوْلاً ثَقِیلا إِنَّ نَاشِئَةَ اللَّیْلِ هِیَ اٴَشَدُّ وَطْئًا وَاٴَقْوَمُ قِیلاً إِنَّ لَکَ فِی اَلنَّهَارِ سَبْحًا طَوِیلا ) (۱)

”اے میرے چادر لپیٹنے والے ،رات کو اٹھو مگر ذرا کم ،آدھی رات یااس سے بھی کچھ کم کردو،یا کچھ زیادہ کردواور قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر باقاعدہ پڑھو،ہم عنقریب

تمہارے اوپر ایک سنگین حکم نازل کرنے والے ہیں،بے شک رات کا اٹھنا نفس کی پامالی کے لئے بہترین ذریعہ اور ذکر خدا کا بہترین وقت ہے ،بے شک آپ کے لئے دن میں بہت سے مشغولیات ہیں۔“

اس آیت میں”ناشئة اللیل “(رات کا اٹھنا )کی جو تعبیر استعمال ہوئی ہے یہ انتہائی دقیق اور پر معنی ہے کیونکہ جو انسان اہم اور مشکل کاموں کے لئے اپنے کو تیار کرتا ہے اور رات بھر عبادت میں مشغول رہتا ہے وہی دن کے طاقت فرسا کاموں کو انجام دے سکتا ہے۔

اورخطبہ متقین میں امیر المومنین - نے جناب ہمام کے لئے متقین کی زندگی کے ان دونوں حصوں یعنی رات اور دن کی توصیف اس انداز سے کی ہے:

اٴما اللّیل فصافون اٴقدامهم ،تالین لاجزاء القرآن یرتلونه ترتیلاً،

____________________

(۱)مزمل/۱تا۷

۵۲

یحزّنون به اٴنفسهم و یستثیرون به دواء دائهم،فاذا مروا بآیة تشویق رکنوا الیها طمعاً وتطلّعت نفوسهم الیها شوقاً،وظنوا انهانصب اٴعینهم،واذا مروابآیة فیها تخویف اٴصغوا الیها مسامع قلوبهم اما النهار فحلماء علماء اٴبرار اٴتقیاء قد براهم الخوف بری القداح ،ینظر الیهم الناظر فیحسبهم مرضی وما بالقوم من مرض

”راتوں کے وقت مصلے پر کھڑے رہتے ہیں۔خوش الحانی کے ساتھ تلاوت قرآن کرتے رہتے ہیں ۔اپنے نفس کو محزون رکھتے ہیں اور اسی طرح اپنی بیماری دل کا علاج کرتے ہیں۔جب کسی آیت تر غیب سے گذرتے ہیںتو دل کے کانوں کو اس کی طرف یوں مصروف کر دیتے ہیں جیسے جہنم کے شعلوں کی آواز اوروہاں کی چیخ پکار مسلسل ان کے کانوں تک پہنچ رہی ہو۔ اس کے بعد دن کے وقت تک یہ بردبارعلما ء اور دانشمند۔نیک کردار اور پر ہیز گار ہوتے ہیں جیسے انھیں تیر انداز کے تیر کی طرح خوف خدا نے تراشا ہو دیکھنے والا انھیں دیکھ کر بیمار تصور کرتا ہے حالا نکہ یہ بیمار نہیں ہیں۔ “

بے شک رات اور دن انسانی زندگی کے دو حصے ہیں جو ایک دوسرے کی تکمیل کرتے رہتے ہیں رات کے کچھ لوگ اور مخصوص حصے ہوتے ہیں،اسی طرح دن کے حصے اور اس کے اپنے لوگ ہوتے ہیں ۔جو دن والے افراد ہوتے ہیں وہ رات کے حصے سے محروم رہ جاتے ہیں اور جو اہل شب ہیں انہیں دن کے حصے خدا کی طرف تبلیغ،اقامہ حق، اور لوگوں کو بندگی خدا کی طرف دعوت دینے سے مانع ہو جاتے ہیں لیکن امام زمانہ کے ساتھی اہل شب بھی ہوں گے اور مردان روز بھی ہوں گے جنہیں خداوندعالم دن اور رات دونوں کے حصوں سے مالا مال کرے گا ۔

سمة العبید من الخشوع علیهم

للّٰه ان ضمّتهم الاٴسحار

فاذا ترجّلت الضحیٰ شهدت لهم

بیض القواضب انّهم اٴحرار

۵۳

اگر ان لوگوں کے پاس رات کی دولت نہ ہو تو یہ تن تنہا زمین پر قابض طاغوتوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور اگر یہ اہل روز نہ ہوں تو زمین کوشرک کی گندگی سے پاک کرکے اس پر توحید الٰہی او رعدل کا پرچم نہیں لہرا سکتے ۔اور اگر یہ اہل شب نہ ہوں گے تو غرور کا شکار ہو کر صراط مستقیم سے بہک جائیں گے۔

دو مرحلے یا دو جماعتیں

ہمارے سامنے دو جماعتیں موجود ہیں:ایک ہم عصر جماعت ہے جس نے مارکسی اشتراکیت اور سرماداری نیز کمےونزم کی شکست اور ان کا جنازہ نکلتے ہوئے دیکھا ہے اس سے زمین امام زمانہ کے ظہور کے لئے تیار ہو رہی ہے ”یہ ظہورکے لئے تیاری کرنے والی جماعت ہے“اور دوسرا گروہ”انصار“کا ہے ۔لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ صرف دو جماعتیں ہیں یا تاریخ کے دو مرحلے ہیں؟مجھے نہیں معلوم۔لیکن بعید نظر آتاہے کہ یہ عظیم اقدام ایک ہم عصرجماعت کے ذریعہ پورا ہو جائے۔

انتظار کے دوران ہماری ذمہ داریاں

اس وقت ہم انتظار کے دور سے گذر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ یہ تاریخ اسلام کا سب سے طویل دور ہو تو پھر اس کے دوران ہمارے واجبات اور ہماری ذمہ داریاں کیا ہیں؟ئندہ صفحات میں ہم ان ہی ذمہ داریوں کا مختصر ساخاکہ پیش کررہے ہیں:

۵۴

۱) شعور اوربیداری

شعور وگہی کی چند قسمیں ہیں:

۱ ۔شعور توحید : پوری کائنات کا خالق اللہ ہے دنیا کی ہر چیز اسی کے حکم کی تابع ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے اور زمین وسمان کی ہرچیزاسی کے سامنے مسخرہے کسی شی کا اپنے بارے میں کوئی اختیار نہیں ہے جیسا کہ سورہ اعراف کی ۵۴ ویں یت میں ارشاد ہے:”اور فتاب وماہتاب اور ستارے سب اسی کے حکم کے تابع ہیں اسی کے لئے خلق بھی ہے اور امر بھی اس کی ذات نہایت ہی با برکت ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے۔“

۲ ۔سیاسی گھٹن کے دوران وعدہ الٰہی کا شعور:افسوس اور لاچاری کی فضانیزگھٹن کے سخت ترین ماحول میں بھی انسان خداوندعالم کے اس قول پر یقین واذعان رکھے اگر چہ ایسے گھٹن کے عالم میں وعدہ الٰہی پر یقین بہت سخت کام ہے :( وَلاَتَهِنُوا وَلاَتَحْزَنُوا وَاٴَنْتُمْ الْاٴَعْلَوْنَ إِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِینَ ) .(۱) ” خبردار سستی نہ کرنا ،مصائب پر محزون نہ ہونا،اگر تم صاحب ایمان ہوتو سر بلند ی تمہارے ہی لئے ہے۔“

یا خداوندعالم کا یہ قول ہے :( وَنُرِیدُ اٴَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْاٴَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اٴَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمْ الْوَارِثِینَ وَنُمَکِّنَ لَهُمْ فِی الْاٴَرْض ) (۲) ” اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنادیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنا ئیں اور زمین کا وارث قرار دے دیں،اور انہیں روئے زمین کا اقتدار دیں ۔“

____________________

(۱)ل عمران/۱۳۹

(۲)قصص/۵۔۶

۵۵

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

( وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ ) (۱) ” اور ہم نے ذکر کے بعد زبورمیں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔“یا خداوندعالم کا یہ قول:( لَاٴَغْلِبَنَّ اٴَنَا وَرُسُلِی ) (۲) ” بیشک میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔‘ ‘ یاارشاد ہوتا ہے:( وَلَیَنصُرَنَّ اللهُ مَنْ یَنصُرُه ) (۳) ” اور اللہ اپنے مددگار وں کی یقینا مدد کرے گا۔“

۳ ۔روئے زمین پر مسلمانوں کی حکومت کاشعور:یہ بشریت کی قیادت یعنی امامت کی گواہی ہوگی چنانچہ خداوندعالم کا ارشادہے: ( وَکَذَلِکَ جَعَلْنَاکُمْ اٴُمَّةً وَسَطًا لِتَکُونُوا شُهَدَاء عَلَی النَّاسِ وَیَکُونَ الرَّسُولُ عَلَیْکُمْ شَهِیدًا ) (۴) ” ہم نے تم کو درمیانی امت قرار دیا ہے تاکہ تم لوگوں کے اعمال کے گواہ رہو اور پیغمبر تمہارے اعمال کے گواہ رہیں۔“

۴ ۔حیات بشری میں اس دین کے عملی ہونے کاشعور:تبلیغ کے ذریعہ فتنہ وفساداور موانع کے خاتمہ کاجذبہ جیسا کہ خداوندعالم کا ارشاد ہے:( وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ لِلَّه ) (۵) ” اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہوجائے اور دین صرف اللہ کا رہ جائے۔“

____________________

(۱)انبیاء/۱۰۵

(۲)مجادلہ/۲۱

(۳)حج /۴۰

(۴)بقرہ/۱۴۳

(۵)بقرہ/۱۹۳

۵۶

۵ ۔تاریخ اور سماج پر حاکم سنت الٰہیہ کا شعور :اور ان سنتوں کے ضمن میں تیاری، تمہید اور حرکت و عمل کی ضرورت نیز ان کی خلاف ورزی کا محال ہونا اسی لئے خدا وندعالم نے مسلمانوں کو اس فیصلہ کن جنگ کی تیاری کا حکم دیا ہے:( وَاٴَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّة ) (۱)

۲) امید ورزو

اگر بندہ خدا وندعالم کی قوت وطاقت ، سلطنت اور وعدوں سے لولگائے تو نہ یہ امید فنا ہو سکتی ہے اور نہ ہی ایسا امید وار ناکام ونامراد ہو سکتاہے اور اس رزو اور امید کے سہارے ہی ایک مسلمان اپنی رسی کو خداکی رسی اور اپنی طاقت کو خدا ئی طاقت میں ضم کر دیتاہے اور جو شخص اپنی رسی کو خدائی رسی سے باندھ لے تو پھر اس کی قوت وطاقت اور سلطنت ختم نہیں ہوسکتی ہے۔

۳) استقامت

رزو کا نتیجہ استقامت وپائیداری ہے:بالکل اسی طرح جیسے کوئی ڈوبتا ہو ا انسان بچانے والے کسی فرد کو اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھتا ہے تو پھر پانی کی موجوں کا مقابلہ شروع کر دیتاہے اور اس مقابلہ کے لئے اس کے اعضائے بدن اورعضلات کے اندر ناقابل تصور حد تک قوت اور طاقت پیدا ہوجاتی ہے۔

۴) حرکت

حرکت کا ہی دوسرا نام امربالمعروف اور نہی عن المنکر نیز خدا کی طرف دعوت دینا ظہور امام اور پ کی عالمی حکومت کے لئے حالات فراہم کرنا نیز ایسی مومن جماعت کو

____________________

(۱)انفال/۶۰

۵۷

مادہ اور تیار کرنے کانام ہے جو شعور وادراک ایمان وتقویٰ اور نظم وضبط اور قوت وطاقت کے میدان میں امام کی مددکی اہل ہو اور اس کے اندر پ کے ظہورکی تیاری کرنے کی صلاحیت موجود ہو جیسا کہ ل عمران کی ۱۰۴ ویں یت میں اشارہ موجود ہے:”اور تم میں سے ایک گروہ کو ایسا ہونا چاہئے جو خیر کی دعوت دے،نیکیوں کاحکم دے،برائیوں سے منع کرے اور یہی لوگ نجات یافتہ ہیں۔“

۵) ظہور امام کے لئے دعا

اس میں کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ عمل اور تحریک نیز امربالمعروف ونہی عن المنکر کے ساتھ ظہور کی دعاکرنا ظہور امام کے قریب ہونے کا ایک بہتر ین ذریعہ ہے۔جیسا کہ ظہور امام کے سلسلہ میں کثرت کے ساتھ دعا ئیں واردہوئی ہیں نیزروایتوں میں انتظار کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے ان ہی میں سے ایک یہ دعا بھی ہے جوعام طور سے مومنین کی زبانوں پر رہت ی ہے:”اللّهم کن لولیک الحجّة ابن الحسن،صلواتک علیه وعلیٰ بائه فی هذه الساعة وفی کلّ ساعة،ولیّاًوحافظاً،وقائداًوناصراً ودلیلاً وعیناً،حتّیٰ تسکنه اٴرضک طوعاًوتمتعه فیها طویلاً(۱)

خدایااپنے ولی حضرت حجةبن الحسن پرتیرا سلام و درود ان پر اور ان کے بائے طاہرین پر، ان کے لیے اس ساعت میں اورہر سا عت میں سر پرست محافظ پیشوا ، مدد گار رہنما اور نگراں ہو جا،تا کہ انہیں اپنی زمین میں سکون کے ساتھ سکونت عطا کر اور انہیں ایک طویل مدت تک راحت عنا یت فرما۔

____________________

(۱) مفاتیح الجنان اعمال شب۲۳ رمضان

۵۸

شکوہ ودعا

امام زمانہ -سے منقول دعائے افتتاح میں ہم یہ شکوہ کرتے ہیں اور پھر ہماری زبان پر یہ شیریں جملات جاتے ہیں:”اللّهم انّانشکوااِلیک فقد نبیّنا، وغیبة ولیّنا،وکثرة عدوّنا،وقلة عددنا،وشدّه الفتن بنا،وتظاهر الزمان علینا اللّهم انّا نرغب الیک فی دولة کریمة تعزبهاالا سلام واٴهله وتذلّ بها النّفاق واٴهله وتجعلنا فیها من الدعاة الیٰ طاعتک والقادة الی سبیلک،وترزقنابهاکرامة الدنیا والآخرة(۱)

”خدا یا!ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں اس با عظمت حکومت کا جس سے اسلام اور اہل اسلام کوعزت ملے اور نفاق اور اہل نفاق کوذلت نصیب ہو ہمیں اس حکومت میں اپنی اطاعت کا طر فداراور اپنے راستے کا قا ئدبنا دے اور اس کے ذریعہ ہمیں دنیا اور اخرت کی کرامت عنا یت فرماخدایا !ہم تجھ سے فریاد کرتے ہیں کہ نبی دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں،امام پردہ غیب میں ہیں ۔دشمنوں کی کثرت ہے اور ہماری تعداد کی قلت ہے ۔فتنوں کا زور ہے اور زمانہ نے ہمارے خلاف اتحاد کر لیا ہے۔ً“

معقول انتظار

اس طرح انتظار کی دوقسمیں ہیں:بامقصداور معقول انتظار دوسرے بے مقصداور غیر معقول انتظار اس دوسرے انتظار کامطلب نہایت سادگی کے ساتھ ظہور کی علامتوں کی طرف نکھیں لگاکر بیٹھ جاناہے۔ہم سمانی چنگھاڑ،زمین کادھنس جانا،سفیانی خروج،

____________________

(۱)مفاتیح الجنان، دعائے افتتاح

۵۹

دجال جیسی علامتوں کے منکر نہیں ہےں اور اس سلسلہ میں کتابوں میں کثرت کے ساتھ روایات موجود ہیں مگر اب تک صحیح علمی طریقے سے ان کے سلسلہ اسناد کی تحقیق وتفتیش نہیں ہوسکی ہے۔اگر چہ میں ماضی میں بھی باقاعدہ طور سے ان میں سے بعض روایتوں کی صحت کا پرزور موافق رہاہوں،لیکن ان بعض روایات کی پر زورتاکید کے باوجود اسی وقت سے میں مسئلہ انتظار سے متعلق”خاموش تماشائی“بنے رہنے کا بھی مخالف رہاہوں ،اور میرا خیال ہے کہ یہ طریقہ کا ر امت کو مسئلہ انتظار کے سلسلہ میں اپنے فرائض اور ذمہ داریوں سے کنارہ کش اور انتظار کے صحیح مفہوم سے منحرف کر دے گا۔

اس کے برخلاف انتظار کی پہلی قسم یعنی ”بامقصد انتظار“میں تحریک ، امربالمعروف ونہی عن المنکر خدا اور جہاد کی طرف دعوت سبھی شامل ہیں نیز یہی امام کے ظہور کی سب سے بڑی علامت اور سب سے بہترین ذریعہ ہے کیونکہ مسئلہ ظہور کا تعلق بھی تاریخ انسانیت پرحاکم الٰہی سنتوں سے ہے اور یہ سنتیں جد وجہد ،تحریک عمل کے بغیر جاری نہیں رہ سکتیں۔ صحیح روایات میں مذکورہ علامتیں اجمالی انداز سے ذکر ہوئی ہیں اورمیرا خیال ہے کہ ان کا کوئی خاص وقت معین نہیں کیا گیا ہے بلکہ جولوگ ظہور کا وقت معین کرتے ہیں روایات میں ان کی تکذیب صراحت کے ساتھ کی گئی ہے۔

عبدالرحمن بن کثیر کا بیان ہے:جب امام جعفر صادق -کے پاس مہزم ئے ہم اس وقت پ کی خدمت میں تھے۔تو انہوں نے امام کی خدمت میں عرض کی:ذراہمیں اس امر کے بارے میں کچھ بتادیں جس کے ہم منتظر ہیں!کہ یہ کب سامنے ئے گا؟تو پ نے فرمایا:”یامهزم،کذب الوقاتون وهلک المستعجلون(۱)

____________________

(۱)الزام الناصب،ج/۱،ص/۲۶۰

۶۰