انتظار کا صحیح مفہوم

انتظار کا صحیح مفہوم0%

انتظار کا صحیح مفہوم مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 84

انتظار کا صحیح مفہوم

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آیت اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات: صفحے: 84
مشاہدے: 34921
ڈاؤنلوڈ: 3515

تبصرے:

انتظار کا صحیح مفہوم
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 84 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 34921 / ڈاؤنلوڈ: 3515
سائز سائز سائز
انتظار کا صحیح مفہوم

انتظار کا صحیح مفہوم

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

”اس کا وقت معین کرنے والے اور اس سلسلہ میں جلد بازی سے کام لینے والے ہلاک ہوگئے۔“

فضیل بن یسار نے امام محمدباقر -سے سوال کیا:کیا اس امر کا کوئی وقت معین ہے؟۔تو پ نے فرمایا:”کذب الوقّاتون(۱) وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔

توکیا ان علامتوں سے ظہور امام کے وقت کا دقیق اندازہ لگایا جا سکتا ہے؟ حقیقت تویہ ہے کہ ان کا تعلق بھی ہمارے اعمال سے ہے،یہ صحیح ہے کہ زمین کا دھنس جانا یا سمانی چنگھاڑ ظہور کی علامت ہے لیکن ہمارے اعمال کی بنا پر ان میںعجلت یا تاخیر ہوسکتی ہے اور یہی فکرظہور کی ضروری وضاحت اور تاویل میں شامل ہے اوریہی ”بامقصد انتظار“ ہے۔

مفہوم انتظار کی تصحیح

ہمارے زمانے میں ظہور امام کے بارے میں بحث و گفتگو کا بازار اتنا گرم ہے کہ جس کی مثال مجھے ،ماضی قریب یا بعید میں کسی جگہ نظر نہیں آتی اس طرح مسئلہ ”انتظار“ اس دور کے اہم مسائل میں سر فہرست دکھائی دیتا ہے ۔لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ عوام الناس کے سامنے یہ مسئلہ صحیح انداز سے پیش نہیں کیا گیا ہے اسی لئے ہمارے جوان امام زمانہ کے ظہور اور اس کی علامتوں کو کتابوں کے اندر تلاش کرتے ہیں جب کہ میرے خیال میں یہ طریقہ کار صحیح نہیں ہے بلکہ اس کا صحیح راستہ یہ ہے کہ ہم ظہور امام اور آپ کی عالمی حکومت کو اپنی سیاسی اور سماجی زندگی کے اندر تلاش کریں ۔

بے شک کتابوں کے اوراق میں ظہور امام کی اتنی علامتیں نہیں مل سکتی جتنی علامتیں

____________________

(۱)الزام الناصب،ج/۱،ص/۲۶۰

۶۱

ہمیں اپنی معاصرسیاسی اور تہذیبی صورتحال نیز ہماری بیداری وشعور ،استقامت ،وحدت کلمہ سیاسی انسجام واتحاد ،قربانیوں اور تحریکی سیاسی اورذرائع ابلاغ میں مل سکتی ہیں۔

ہمارے جوانوں نے ظہور امام کی علامتوں کو تلاش کرنے کے لئے کتابوں کی ورق گردانی کا کر جو راستہ اختیار کیا ہے یہ بالکل منفی اور غلط انداز فکر ہے لہٰذا مثبت انداز سے انتظار کا صحیح مفہوم بیان کرنا اور لوگوں کو اس کے صحیح اورمثبت انداز سے آگاہ کر نا ہمارا فریضہ ہے۔

انتظار کے ان دونوں مفاہیم کا واضح فرق یہ ہے کہ انتظار کے بارے میں پہلا تصور انتظار کے سلسلہ میں انسان کے کردار کو منفی بنادیتا ہے جب کہ دوسرا تصورانسان کے اندر ظہور امام سے متعلق مثبت ،پر تحرک رخ پیدا کرکے اسے ہماری موجودہ سیاسی ،انقلابی صورتحال اور مسائل و مشکلات سے جوڑ دیتا ہے۔

معمر بن خلاد نے امام ابو الحسن سے اس آیہ کریمہ( الم اٴَحَسِبَ النَّاسُ اٴَنْ یُتْرَکُوا اٴَنْ یَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لاَیُفْتَنُونَ ) (۱) کی تفسیر میں یہ نقل کیا ہے:کہ امام نے ارشاد فرمایا:”یفتنون کما یفتن الذهب “”انہیں اسی طرح پرکھا جائے گا جیسے سونے کو پرکھا جاتا ہے“ پھر آپ نے فرمایا”یخلصون کما یخلص الذهب(۲) ” انہیں اسی طرح خالص بنا دیا جائے گا جیسے سونے کو خالص بناتے ہیں “

منصور صیقل بیان کرتے ہیں کہ میں اورہمارے مومن بھائی حارث بن مغیرہ بیٹھے ہوئے باتیں کر رہے تھے اور امام جعفر صادق -ہماری باتیں سن رہے تھے تو آپ نے ہمیں مخاطب کرکے فرمایا ”فی اٴی شیء اٴنتم ها هنا؟هیهات لا واللّٰه لا یکون ما

____________________

(۱)عنکبوت /۱۔۲

(۲)الزام الناصب،ج/۱،ص/۲۶۱

۶۲

تمدّون الیه اٴعینکم حتی تمیزوا “تم یہ کیسی گفتگو کر رہے ہو؟بہت بعید ہے خدا کی قسم جس چیز پر تمہاری نظریں لگی ہوئی ہیں یہ اس وقت تک نہیں ہو سکتا جب تک تم ایک دوسرے سے ممتاز نہ کر دئیے جاو ۔

امام جعفر صادق -نے منصور سے فرمایا:”یامنصوران هٰذاالاٴمرلا یاٴتیکم الّا بعد اٴیاس،لاوالله حتیٰ تمیزوا،لا والله حتیٰ یشقیٰ من یشقیٰ ویسعد من یسعد(۱)

”اے منصور ،یہ امر مایوسی کے بعد ہی تمہارے سامنے آئے گا،خدا کی قسم جب تک ایک دوسرے سے ممتاز نہ کر دئیے جائیں ،نہیں خداکی قسم ،بلکہ جسے شقی وبد بخت ہونا ہے وہ شقی وبدبخت اور جسے خوش قسمت ہونا ہے وہ خوش قسمت اور سعادت مند نہ ہو جائے۔“

اس طرح امام زمانہ کے ظہور کا تعلق کتابوں میں مذکور علامات سے کہیں زیادہ ہمارے عمل ،باطن، امتحان ،جد وجہد اور سعادت وشقاوت سے ہے اور اس بارے میں عمیق انداز سے غوروفکر کرنا اور اسے ثابت کرنا ہمارا فریضہ ہے۔

منتظر کون ،ہم یا امام ؟

اس انداز فکر کے مطابق یہ مسئلہ بالکل بر عکس ہے کہ ہم امام کے منتظر نہیں بلکہ امام ہماری جدوجہد،سعی وحرکت،استقامت اور جہادکے منتظر ہیں !

لہٰذا اگر امام کے ظہور کا تعلق ہماری سیاسی اور سماجی نقل وحرکت اورجدوجہد سے ہے تو پھر اس کو ہم ہی واقعیت میں تبدیل کر سکتے ہیں۔

____________________

(۱)الکافی،ج/۱،ص/۳۷۰،ح/۳

۶۳

یا دوسرے الفاظ میں یوں سمجھ لیاجائے کہ ہمارے اندر یہ صلاحیت موجود ہے کہ ہم اپنے کردار وعمل ،جد وجہد،وحدت کلمہ،انسجام واتحاد،ایثار وقربانی اور امر بالمعروف کے ذریعہ امام کے ظہور کی راہ ہموار کردیں ۔اور ہمارے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ ہم اسے ایک دوسرے کے سر ڈال کر میدان عمل سے غیر حاضررہ کر اپنی ذمہ داریوں سے فرار اختیار کرکے اس میں تاخیر کردیں۔

انتظار کی قدر وقیمت

در حقیقت یہ با مقصد اور مثبت انتظار ہی اُس عظیم قدر وقیمت کا حقدارہے جس سے نصوص اور روایات نے نوازاہے ۔

جیسا کہ رسول خدا سے منقول ہے :”اٴفضل اٴعمال اٴمتی الانتظار “ ”میری امت کا سب سے بہترین عمل انتظارہے۔“(۱)

آپ ہی سے یہ قول بھی منقول ہے:”انتظار الفرج عبادة “”ظہور کا انتظار عبادت ہے۔“یا آپ نے فرمایا:”المنتظر لاٴمرنا کالمتشحّط بدمه(۲) ” ہمارے امرکا انتظار کرنے والا اپنے خون سے نہانے والے کی طرح ہے۔“

مختصر یہ کہ روایات میں مذکور انتظار کی اس قدر وقیمت کا تعلق انتظار کے اس صحیح اور مثبت معنی ومفہوم سے ہے اور انتظار کے غلط اور منفی معنی ”معطل اور خاموش تماشائی بنے رہنے“سے اس کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔

____________________

(۱)الزام الناصب،ج/۱،ص/۴۶۹

(۲)اکمال الدین وتمام النعمة،ص/۶۴۵

۶۴

حرکت اور انتظار کا رابطہ

حرکت اور انتظار کے درمیان تقابلی رابطہ

حرکت اور انتظار کے ربط کے سلسلہ میں ہم پہلے گفتگو کر چکے ہیں اور انشاء اللہ اب ہم یہ بیان کر یں گے کہ انتظار کے ساتھ حرکت کا کیا ربط ہے؟

تحریکی عمل

تحریکی عمل ایک تعمیری اور تخریبی مہم کا نام ہے اس لئے اسے مسلسل مزاحمت اور مشکلات اور پریشانیوں کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑتاہے اگر یہ تحریک صرف تعمیری ہوتی اور تخریب سے اس کا کوئی تعلق نہ ہوتا تو پھر اس کی راہ میں اتنی زحمتیں اور پریشانیاں نہ ہوتیںدر اصل یہ تخریبی کارروائی موجود ہ سیاسی نظام کے خلاف ہوتی ہے اور ہر سیاسی نظام سے کچھ افراد وابستہ ہوتے ہیں جو اس سے فائدہ اٹھاتے رہتے ہیں اور وہی اس کادفاع بھی کرتے ہیں۔اور توحید کی طرف دعوت بھی بعینہ ایسی ہی تحریک تھی اسی بنا پر اس دعوت کے ساتھ ”جنگ وجہاد“دونوں شامل ہیں جےسا کہ خدا وند عالم ارشاد ہے:( وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ وَیَکُونَ الدِّینُ کُلُّهُ لِلَّه ) (۱)

____________________

(۱)انفال/۳۹

۶۵

اوریہ ممکن نہیں ہے کہ یہ تحریک فتنوں کا خاتمہ کئے بغیر اور دنیا ئے شرک کے مفاد پرست اہل سیاست کے بچھائے ہوئے جال کو پارہ پارہ کئے بغیرلوگوں کے درمیان اپنا اثر ورسوخ قائم کرلے۔اوریہ بھی طے ہے کہ جنگ و جہاد کے بغیر صرف زبانی تبلیغ سے ان فتنوں کا ازالہ ممکن نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ توحید کا پرچم سیاست اور سماج سے خالی کسی میدان میں نصب نہیں ہوگا ،بلکہ اسے توشرک آلود مقامات پر لہرانا ہے لہٰذا جب تک شرک کاخاتمہ نہ ہوجائے اس وقت تک خدائی تبلیغ کا استحکام ممکن نہیں ہے۔

تحریکی عمل کا تاوان

اسی بنا پرمشرکانہ قیادت ورہبری توحیدی تحریک کی راہ میں ہر ممکن رکاوٹ کھڑی کر تی ہے اور خدا کی طرف دعوت دینے والوں کے راستے میں کبھی فتنہ وفساد کو ہوا دیتی ہیں تو کبھی بارودی سرنگیں بچھا کر ان کا راستہ روکنے کی کوشش کرتی ہیں لہٰذا توحید کی طرف دعوت دینے کا مطلب ان تمام فتنوں کا ازالہ،اور ان تمام رکاوٹوں کو ہٹا کر دنیا ئے شرک کے چیلنج کاجواب دینا ہے۔

ظاہر سی بات ہے کہ ان دونوں چیزوں (چیلنج اور مقابلہ)کی وجہ سے خدا کی طرف دعوت دینے والوں کو اپنی جان ،مال اور اولاد ہر طرح کی قربانی پیش کرنا ہوتی ہے اور اس کے لئے انہیں جان توڑکوشش کرنے کے علاوہ بے شمار نقصانات کا سامنا کرنا پڑتاہے۔

تحریک ایک فریضہ

ان ہی اسباب کی بنا پر قرآن مجید نے تحریک اورجد وجہدپر بے حد زور دیا ہے اور خاص تاکید کی ہے اگر توحیدی تحریک میں اتنی زحمتوں اور مشقتوں کا سامنا نہ ہوتا تو پھر اس قدرتاکید کی کوئی ضرورت نہیں تھی جیسا کہ خدا وندعالم کا ارشاد ہے:

۶۶

( وقومواللّٰه قانتین ) (۱)

( وَاٴْمُرْ بِالْمَعْرُوفِ وَانْهَ عَنْ الْمُنکَرِ ) (۲)

( فَاسْتَقِمْ کَمَا اٴُمِرْت ) (۳)

( ادْعُ إِلَی سَبِیلِ رَبِّکَ ) (۴)

( اقْرَاٴْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِی خَلَقَ ) (۵)

( جَاهِدْ الْکُفَّارَ وَالْمُنَافِقِینَ ) (۶)

( وَجَاهَدُوا فِی سَبِیلِ اللهِ ) (۷)

( انفرواخفافًاوثقالاً وجاهد وا باٴموالکم واٴنفسکم فی سبیل اللّٰه ) مسلمانو! تم ہلکے ہو یا بھاری گھر سے نکل پڑو اور راہ خدا میں اپنے اموال اور نفوس سے جہاد کرو۔(۸)

( وَاقْتُلُوهُمْ حَیْثُ ثَقِفْتُمُوهُمْ ) اور مشرکین کو جہاں پاو قتل کر دو(۹)

( وَقَاتِلُوا فِی سَبِیلِ الله ) اور تم بھی ان سے راہ خدا میں جہاد کرو۔(۱۰)

____________________

(۱) اور اللہ کی بارگاہ میں خشوع وخضوع کے ساتھ کھڑے ہو جاو ۔بقرہ/۲۳۸ (۲) نیکیوں کاحکم دو برائیوں سے منع کرو۔ لقمان/۱۷

(۳) لہٰذا آپ کو جس طرح حکم دیا گیا ہے اسی طرح استقامت سے کام لیں۔ہود/۱۱۲ (۴) آپ اپنے رب کے راستے کی طرف دعوت دیں۔ نحل/۱۲۵

(۵) اس خدا کا نام لے کر پڑھو جس نے پےدا کےا ہے ۔علق/۱ (۶) پےغمبر! کفار و منافقےن سے جہاد کےجئے ۔توبہ/۷۳

(۷) اور انہوں نے راہ خدا مےں جہاد کےا۔بقرہ/۲۱۸ (۸)توبہ/۴۱

(۹)بقرہ/۱۹۱ (۱۰)بقرہ/۱۹۰

۶۷

( وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّی لاَتَکُونَ فِتْنَةٌ ) اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے۔(۱)

دو ٹوک اور صریح آیات کریمہ میں ایسے لب ولہجہ میں حرکت وتبدیلی کا حکم شرک کے مقامات پر توحید کا پر چم لہرانے اور دعوت تو حید کی راہ سے رکاوٹیں ہٹانے کے لئے ہے۔

انسانی کمزوری

انسان اس قسم کی ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانے سے قاصرہے اوراپنے اندر ان تمام مشکلات اورمصائب کامقابلہ کرنے کی قوت وطاقت نہیں پایا کیونکہ توحید اور شرک

کے درمیان لڑائی بے حد خوں ریز اور شدید ہوتی ہے اس لئے عام انسان اس قسم کے محاذ پر تن تنہا اورمومنین کی تھوڑی سی تعداد کے ساتھ دشمن کے مقابلہ سے کتراتاہے ۔

عموماً لوگ پہلو تہی میں ہی عافیت محسوس کرتے ہیں مگر یہ کہ خداوندعالم اسے اس پہلوتہی اور فکر عافیت سے محفوظ رکھے ۔ خدا کی راہ میں اٹھ کھڑے ہونے والوں کی راہ میں یہ سب سے پہلی رکاوٹ آتی ہے اور پھر یہی کمزوری طاغوت اور اس کے ساتھیوں کے مقابلہ میںخوف اور بزدلی کی شکل میں ظاہر ہوتی ہے یا اس سے جہد مسلسل کے بجائے تھکن کا احساس ہوتا ہے کبھی انھیں مقابلہ جاری رکھنے میں مایوسی کے آثارنظر آتے ہیں کبھی عافیت اور راحت وآسائش کو ترجیح دیتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ منزل کو پا لینے والوں کے مقابلہ میں ان لوگوں کی تعداد بہت زیادہ ہے جو ہمت ہار کر راستہ میں ہی بیٹھے رہ گئے۔

____________________

(۱)انفال/۳۹

۶۸

تباہی سے محفوظ رہنے کے طریقے

اس مقام پر ان اسباب وعوامل کاتذکرہ بھی ضروری ہے کہ جن کے ذریعہ ہم اس پر نشیب وفراز راستے پر پھسلنے سے محفوظ رہ سکتے ہیں اور وہ ہمیں شیطان اور ہمارے نفس کی کمزوری سے بچا سکتے ہیں اگرچہ باعمل افراد کی زندگی میں محفوظ رکھنے اور بچانے والے اسباب ووسائل بے شمار ہیں لیکن اس مقام پر ہم ان میں سے صرف چار چیزوں کا تذکرہ کر رہے ہیں جنہیں قرآن مجید نے ذکر کیاہے:

۱ ۔صبر اور نماز سے استعانت

۲ ۔ولاء(آپسی میل محبت اور اتحاد)

۳ ۔تاریخی میراث

۴ ۔انتظار

ذیل میں ان وسائل کی مختصر وضاحت پیش کی جارہی ہے:

۱ ۔صبر اور نماز سے استعانت

خدا وندعالم کا ارشاد ہے:( وَاسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ ) ”صبر اور نماز کے ذریعہ مددمانگو۔“(۱)

دوسرے مقام پر ارشادہوتا ہے:( یَااٴَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا اسْتَعِینُوا بِالصَّبْرِ وَالصَّلاَةِ إِنَّ اللهَ مَعَ الصَّابِرِینَ ) (۲) ” ایمان والو!صبر اور نماز کے ذریعہ مددمانگوبیشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“

____________________

(۱)بقرہ/۴۵

(۲)بقرہ/۱۵۳

۶۹

جب رسول اکرم مشرکین کے ساتھ ایک خونریزجنگ میں مصروف جہاد تھے تو اس لڑائی کے درمیان خدا وندعالم نے سورہ ہود کے ذریعہ رسول خداکے دل کو تقویت عطا فرمائی اور ان کے سامنے توحید کے طولانی سفر کا قصہ بھی بیان کردیااور اس کے تذکرہ کے بعد خداوندعالم نے پیغمبراکرم سے خطاب فرمایا:( فَاسْتَقِمْ کَمَا اٴُمِرْتَ وَمَنْ تَابَ مَعَکَ وَلاَتَطْغَوْا إِنَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِیرٌ وَلاَتَرْکَنُوا إِلَی الَّذِینَ ظَلَمُوا فَتَمَسَّکُمْ النَّارُ وَمَا لَکُمْ مِنْ دُونِ اللهِ مِنْ اٴَوْلِیَاءَ ثُمَّ لاَتُنصَرُونَ وَاٴَقِمْ الصَّلَاةَ طَرَفِی النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنْ اللَّیْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ یُذْهِبْنَ السَّیِّئَاتِ ذَلِکَ ذِکْرَی لِلذَّاکِرِینَ وَاصْبِرْ فَإِنَّ اللهَ لاَیُضِیعُ اٴَجْرَ الْمُحْسِنِینَ ) (۱)

”لہٰذاآپ کو جس طرح حکم دیا گیا ہے اسی طرح استقامت سے کام لیں اور وہ بھی جنہوں نے آپ کے ساتھ توبہ کرلی ہے اور کوئی کسی طرح کی زیادتی نہ کرے کہ خداسب کے اعمال کو خوب دیکھنے والاہے اور خبردار تم لوگ ظالموں کی طرف جھکاو اختیار نہ کرنا کہ جہنم کی آگ تمہیں چھولے گی اور خداکے علاوہ کوئی تمہارا سرپرست نہ ہوگا اورتمہاری مددبھی نہیں کی جائے گی،اور پیغمبرآپ دن کے دونوں حصوں میں اوررات گئے نماز قائم کریں نیکیاں برائیوں کو ختم کر دینے والی ہیں اور یہ ذکر خدا کرنے والوں کے لئے ایک نصیحت ہے اور آپ صبر سے کام لیں کہ خدا نیک عمل کرنے والوں کے اجر کو ضائع نہیں کرتاہے۔“

صبر، الٰہی سنتوں میں حتمی اور ثابت سنت ہے اورمعرکہ الٰہی سنتوں کے مطابق سر ہوتے ہیں۔لہٰذاجوشخص کسی معرکہ میں فتح حاصل کرناچاہتاہے اس کے لئے ان الٰہی سنتوں کی شناخت ان پرثابت قدمی ضروری ہے اور سنت الٰہی کی راہ میں جودشواری ،زحمت یا

____________________

(۱)ہود/۱۱۲۔۱۱۵

۷۰

رکاوٹ آئے اس کا تحمل کرنا بھی ضروری ہے اور میدان جنگ میں دشمن کا مقابلہ کرنے کے لئے او ر قوت وطاقت یاسیاست اور پروپیگنڈے کے میدان میں اس کے برابر وسائل مہیا کرنایہ سبھی چیزیں صبر کا حصہ ہیں۔

صبر کے یہ معنی ہرگزنہیں ہیں کہ انسان اپنے دشمن کوبرداشت کرتارہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ دشمن کے مقابلہ میں ثابت قدمی کے ساتھ ڈٹارہے اور اس کے مقابلہ میں پسپائی یا روگردانی اختیار نہ کرے بلکہ اس کا منہ توڑجواب دے کر خود اسے پسپاہونے پر مجبور کر دے اور یہی صبر کے صحیح اور مثبت معنی ہیں۔

نماز یادخدااورذکرالٰہی کی علامت ہے نماز کے ذریعہ خدا سے رابطہ مضبوط ہوتاہے لہٰذاجنگ اور معرکہ آرائی کے درمیان ایک مسلمان کے لئے اللہ تعالیٰ سے مددطلب کرنااور کثرت کے ساتھ اس کا ذکر کرتے رہنا بیحدضروری ہے نیز وہ خدا سے طاقت اور عزم وحوصلہ کی دعابھی کرتے رہنا چاہئے اور اپنی رسی کو خدا کی رسی سے باندھ لے چنانچہ جب انسان میدان جنگ میں اپنی رسی کی گرہ خدا کی رسی میں لگالے (خدا سے وابستہ ہو کر خود کو اس کے حوالہ کردے)تو پھر اسے نہ خوف ہوگااور نہ اس کے اندربزدلی پیدا ہوگی اور نہ وہ ناتوانی و کمزوری کا احساس کرے گا۔ اور نماز وصبر کے معنی یہی ہیں۔

۲ ۔ولاء

( ان هٰذه امتکم اٴمة واحدة )

تمام مسلمان ایک لڑی میں پروئے ہوئے دانوں کی طرح ہیں،ان میں ہر ایک سے دوسرے کا تعلق ہے اوراسلامی اخوت ومحبت کے رشتہ نے انہیں ایک دوسرے سے ایسے جوڑ رکھاہے جیسے بدن کے اعضاء ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔اخوت ومحبت کا رشتہ ”ولاء“سے تعلق رکھتاہے ۔جس طرح اللہ ،اس کے رسول اور ائمہ کو تمام مسلمانوں پر ولایت حاصل ہے کم وبیش ایسی ہی قرابت وولایت مومنین کو ایک دوسرے کے سلسلہ میں حاصل ہے۔

۷۱

یہی وہ قرابت ومحبت ہے جس نے پوری امت مسلمہ کو ایک دھاگے میں پرو کر ایک دوسرے سے اس طرح جوڑدیا ہے کہ وہ ایک منظم ہار کی طرح دکھائی دیتے ہیں اس کی طرف قرآن مجید کی اس آیت میں ارشاد موجود ہے:( وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ اٴَوْلِیَاءُ بَعْضٍٍ ) (۱)

”مومن مرد اور مومن عورتیں آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں۔“

اس دوستی کے نتیجہ میں ان کے درمیان آپسی محبت ،ایک دوسرے کی امداد ، کفالت ، تعاون،صلح وصفائی اور وعظ ونصیحت کی فضاہموارہوتی ہے۔

اور جس قوم کے درمیان اتنے مضبوط اور مستحکم تعلقات استوار ہوئے ہوں وہ قوم جنگ کے میدان میں بالکل ٹھوس اور مضبوط ہوتی ہے اور اسی مقصد کے لئے خداوندعالم ان رشتوں کو اور مضبوط کر دیتا ہے یہاں تک کہ پوری امت کا اتحاد ایک خاندان کے اتحاد سے زیادہ قوی ہو جاتا ہے۔

اورپھر جب اس امت کا مشن میدان میں رہ کر دشمنوں سے مقابلہ اورمعرکہ آرائی ہے تو اس کے لئے اندرسے بے حد مضبوط اور مستحکم اور ٹھوس ہونا بھی ضروری ہے ۔

اسی وقت وہ اپنے اوپر ہونے والے کمرشکن حملوں کا منہ توڑجواب دے سکتی ہے اور یہ کام آپسی ولایت ،اتحاد ،اخود ومحبت سے ہی ممکن ہے کہ ان سے تمام مسلمانوں کے ہاتھ

____________________

(۱)توبہ/۷۱

۷۲

مضبوط ہوتے ہیں اورانہیں ایک دوسرے کی پشت پناہی حاصل رہتی ہے اس کے بغیر یہ قوم اس طولانی معرکہ آرائی میں کفرونفاق کے سامنے بالکل نہیں ٹھہر سکتی ہے۔ متحد قوم اللہ تعالیٰ کی رسی سے وابستہ ہوتی ہے اور گویاکہ کفرکے مقابل یہ ایک آہنی چٹان ،ایک وجود،ایک خاندان اور ایک ہی جماعت ہے :( وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِیعًا وَلاَتَفَرَّقُوا ) (۱) ” اور اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہو اور آپس میں تفرقہ نہ پیدا کرو۔“

اس آیہ کریمہ میں خدا وندعالم نے پہلے تو ان لوگوں کو میدان جنگ میں خداکی رسی کو مضبوطی سے پکڑے رہنے کا حکم دیا ہے اور دوسرے یہ کہ حبل اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم سب کے لئے ہے نہ کہ چند افراد کے لئے ۔

کیونکہ جنگ کا مطلب ہی یہ ہوتاہے کہ اس میں طرفین میں سے ہر ایک اپنی پوری طاقت وقوت صرف کردیتاہے اور اس امت کی قوت وطاقت کا راز دوچیزیں ہیں: ”اللہ کی رسی سے مضبوط وابستگی “اور” اتحاد واجتماع“

۳ ۔تاریخی میراث

اس قوم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ میدان جنگ میں اپنے بزرگوں کی تاریخ کو بھی اپنے پیش نظر رکھے کیونکہ اپنی گذشتہ تاریخ اور اس کی مضبوط اور گہری بنیادوں کی معرفت سے راہ خدا کی طرف دعوت دینے والوں اور اس کے دین کے مبلغین کے اندر اپنے دشمنوں کے سامنے بیحد قوت وطاقت اورمتانت واستحکام پیدا ہوتاہے کیونکہ تاریخ کی اس عظیم تحریک کی جڑیں خشک یاناقص نہیں ہیں بلکہ اس کی جڑیں تو جناب آدم سے جناب

____________________

(۱)آل عمران/۱۰۳

۷۳

نوح و ابراہیم اور رسول خداتک ہر تاریخ کی گہرائیوں میں نظر آتی ہیں ۔اور جو تحریک اندرسے اتنی گہری اور تاریخی حیثیت کی حامل ہو اور اس نے مشرکین کی من مانی اور ان کے مکروفریب کے مقابلہ میں برس ہا برس تک استقامت وپائیدار ی کا مظاہرہ کیا ہووہی معرکہ آرائی میں ان کا مقابلہ کرنے کی حقدار ہے۔ بیشک وحدت پرست امت روئے زمین پر ایک ایسا درخت ہے جس کی جڑیں زمین میں ثابت واستواراور شاخیں آسمان میں پھیلی ہوئی ہیں۔

( اٴَلَمْ تَرَی کَیْفَ ضَرَبَ اللهُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً کَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اٴَصْلُهَا ثَابِتٌ وَفَرْعُهَا فِی السَّمَاءِ تُؤْتِی اٴُکُلَهَا کُلَّ حِینٍ بِإِذْنِ رَبِّهَا وَیَضْرِبُ اللهُ الْاٴَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَکَّرُونَ ) (۱)

”کیاتم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے کس طرح کلمہ طیبہ کی مثال شجرہ طیبہ سے بیان کی ہے جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخ آسمان تک پہنچی ہوئی ہے،یہ شجرہر زمانہ میں حکم خداسے پھل دیتارہتاہے اور خدا لوگوں کے لئے مثالیں بیان کرتاہے کہ شاید اسی طرح ہوش میں آجائیں۔ “

اسی طرح شرک بھی ایک متحدہ محاذاور ایک ہی خاندان کی مانند ہے مگر یہ خاندان ایسا ناقص ہے جس کا ڈیل ڈول زمین کے اوپر تودکھائی دیتاہے مگر اس کی کوئی ٹھوس بنیاد نہیں ہے ۔لہٰذا توحید خدا کی طرف دعوت دینے والی جماعت کے لئے یہ بے حد ضروری ہے کہ تاریخ کے اور اق میں جس نقطہ سے ان کا رشتہ جڑاہوا ہے وہ اس کا گہرائی سے جائزہ لیں

____________________

(۱)ابراہیم/۲۵۔۲۴

۷۴

اور صادقین ،صالحین ،اہل رکوع وسجود،اہل ذکر اور مبلغین راہ خداسے اپنے رابطہ کو مستحکم سے مستحکم تربنائیں۔

اسی عظیم میراث کی بنا پر ہم امام حسین -کی خدمت میں سلام وتحیت کا نذرانہ پیش کرتے ہیں جو انہیں اپنے آباء واجد اد یعنی حضرت آدم ،نوح،ابراہیم اور رسول خدا سے میراث میں ملی تھی اوراسی لئے ہم زیارت میں انہیں یہ کہہ کر سلام کرتے ہیں:

السّلاٰم علیک یٰاوٰارث آدم صفوة اللّه،السّلاٰم علیک یٰاوٰارث نوحٍ نبیّ اللّٰه،السّلاٰم علیک یٰاوٰارث ابراهیم خلیل اللّٰه

”اے آدم صفی اللہ کے وارث آپ پر سلام ہو،اے نوح نبی اللہ کے وارث آپ پر ہماراسلام ہو،اے خلیل خداابراہیم کے وارث آپ پر ہماراسلام ہو۔ “

لہٰذا معرکہ آرائی کے میدان میں یہ بے حد ضروری ہے کہ انسان ماضی کے ان گہرے رشتوں کو نظر میں رکھے اور ان کی طرف متوجہ رہے کیونکہ اس کے ذریعہ خطرناک سے خطرناک مقابلوں میں محفوظ رہ سکتاہے اور ان سے اسے پشت پناہی بھی حاصل ہوتی ہے۔

۴ ۔انتظاراور آرزو

انتظار انسان کومتحرک اورفعال بنانے کا چوتھا سبب ہے کیونکہ انتظار سے انسان کے دل میں امید و آرزو پیدا ہوتی ہے اور آرزو پیدا ہونے کی وجہ سے اسے استقامت اور متحرک رہنے کی قدرت وطاقت نصیب ہوتی ہے جس کی مثال ڈوبتے ہوئے انسان کے ذیل میں پہلے ہی گذرچکی ہے۔

”زمین صالحین کی میراث ہے “یا”امامت مستضعف مومنین کاحق ہے“ اور ”عاقبت متقین کے لئے ہے“ ان تمام باتوں پر ایمان کی وجہ سے نیک کرداراورصالح ومتقی افراد کو

۷۵

ایسی قوت وطاقت اورایسی خوداعتمادی حاصل ہوتی ہے کہ ہر طرح کے معرکہ میں ان کے قدم جمے رہتے ہیں اور سخت سے سخت اور دشوار ترین حالات میں وہ ظالموں اور جابروں کو چیلنج کر سکتے ہیں اور یہی ایمان ان کو خطرناک مواقع پر پسپائی ،ہزیمت اوراحساس کمتر ی کا شکار نہیں ہونے دیتا۔

اسی لئے قرآن نے اس حقیقت پر زور دیا ہے :( وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ ) (۱)

قرآن روئے زمین پر صالحین کی وراثت کے بارے میں اسی طرح پر زورانداز سے بیان کرتا ہے جس طرح اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے زبورمیں اس کا تذکرہ فرمایاہے:( وَلَقَدْ کَتَبْنَا فِی الزَّبُورِ مِنْ بَعْدِ الذِّکْرِ اٴَنَّ الْاٴَرْضَ یَرِثُهَا عِبَادِی الصَّالِحُونَ ) (۲) ” اور ہم نے ذکرکے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہوں گے۔“

اس تاریخی حقیقت کی اہمیت کی بنا پر مومنین کے اذہان میں اسے راسخ کرنے کی ضرورت اور اسلامی عقلاء کی جانب سے بنیادی حقیقت حاصل ہونے کی وجہ سے خدا وندعالم نے اسے ذکر کے ساتھ ساتھ زبور میں بھی تحریری شکل میں محفوظ کر دیا ہے۔ دنیا کے کمزور اوردبے کچلے لوگ خداکے احکام پر عمل پیراہوں گے اور اس کی دعوت کے مطابق چلیں گے اورایمان وعمل صالح کے جوہر سے آراستہ ہوں گے تو اس وقت اس خدائی فیصلہ کا آشکار ہوناحتمی ویقینی ہے۔

____________________

(۱)اعراف/۱۲۸

(۲)انبیاء /۱۰۵

۷۶

خدا وندعالم کاارشاد ہے: ( وَنُرِیدُ اٴَنْ نَمُنَّ عَلَی الَّذِینَ اسْتُضْعِفُوا فِی الْاٴَرْضِ وَنَجْعَلَهُمْ اٴَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمْ الْوَارِثِینَ) ”اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کر یں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں اور انہیں کوروئے زمین کا اقتدار دیں ۔“

یہ دونوں آیتیں اگرچہ جناب موسیٰ -،فرعون اور ہامان کے قصہ کے ذیل میں ذکرہوئی ہیں لیکن کمزوروں کی امامت ورہبری کے بارے میں ارادہ الٰہیہ بالکل مطلق ہے اور اس کے لئے کسی قسم کی کوئی قید نہیں ہے ۔ہاں!البتہ اگرکوئی قید ہے وہ تو صرف وہی ہے جس کی طرف خدا وندعالم نے مومنین کرام کو دعوت دی ہے یعنی” ایمان “،”عمل صالح“ یہی وجہ ہے کہ خدا وندعالم نے کمزورمومنین سے جو یہ وعدہ کیا ہے اس سے انہیں قوت وطاقت اور اعتماد ملتاہے اور ان کے مشکل حالات ومصائب کو برداشت کرنے کی قوت تحمل اور استقامت کامادہ پیدا ہوجاتاہے ،اور انہیں وادی پر خار بھی گلزار نظر آتی ہے اور وہ میدان جنگ میں بھی اپنے ہمالیائی مظاہروں کی داد وتحسین حاصل کرتے ہیں اور اس دوران ان کا انداز بالکل ویسا ہی ہوتاہے جیسے ایک ڈوبتے ہوئے آدمی کو بچانے والے نجات غریق کا انتظار رہتاہے اسی لئے میدان جنگ میں لڑتے ہوئے مجاہدین کا جذبہ جہاد کچھ اور مہمیز ہوجاتاہے اور عین لڑائی کے دوران بھی فرعون وہامان کے مقابلہ میںخدا کے رسول جناب موسیٰ بن عمران -اپنی قوم بنی اسرائیل کے ساتھ قدم جمائے ہوئے نظر آتے ہیں یہ صرف وعدہ الٰہی اور انتظار فرج اور خدا وندعالم کی نصرت ومدد کے انتظار کا جوہر اور کرشمہ ہے۔

____________________

(۲)قصص/۵۔۶

۷۷

ذراسورہ اعراف کی ان آیتوں پر غور فرمائیں:

( قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ اسْتَعِینُوا بِاللهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْاٴَرْضَ لِلَّهِ یُورِثُهَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ قَالُوا اٴُوذِینَا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَاٴْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ اٴَنْ یُهْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ) (۱)

”موسیٰ نے اپنی قوم سے کہااللہ سے مددمانگو اور صبر کرو،زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں جس کوچاہتاہے وارث بناتاہے اور انجام کار بہرحال صاحبان تقویٰ کے لئے ہے ،قوم نے کہا ہم تمہارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے اور تمہارے آنے کے بعد بھی ستائے گئے موسیٰ نے جواب دیا عنقریب تمہارا پر وردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اورتمہیں زمین میں اس کا جانشین بنادے گا اور پھر دیکھے گا کہ تمہارا طرزعمل کیسا ہوتاہے۔“

ان آیتوں سے معلوم ہوتاہے کہ جناب موسیٰ - کی پوری کوشش یہ تھی کہ میدان جنگ میں دشمن سے روبروہونے کے بعد بنی اسرائیل کو خدا کی طرف سے پرامیداور وعدہ الٰہی پر اعتماد اور مشکلات سے نجات کا آرزو مند بنائے رکھیں اور ان کے دلوں میں اس عظیم خدائی فرمان کو راسخ کردیں :

( قَالَ مُوسَی لِقَوْمِهِ اسْتَعِینُوا بِاللهِ وَاصْبِرُوا إِنَّ الْاٴَرْضَ لِلَّهِ یُورِثُهَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِه )

عجیب بات یہ ہے کہ جناب موسیٰ - نے وعدہ الٰہی کی بنیاد پر ”صبر “ اور ”انتطار “کو ایک دوسرے سے مربوط قرار دیا ہے چنانچہ آپ فرماتے ہیں:

____________________

(۱)اعراف/۱۲۸۔۱۲۹

۷۸

( وَاصْبِرُوا إِنَّ الْاٴَرْضَ لِلَّهِ یُورِثُهَا مَنْ یَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ) ”صبر سے کام لو،زمین اللہ کی ہے وہ اپنے بندوں میں جسے چاہتاہے وارث بناتاہے۔“ جبکہ بنی اسرائیل کی یہ کوشش تھی کہ وہ اپنے نبی کے دھیان کو مستقبل کے انتظار کے بجائے یہ کہہ کر اپنی موجودہ تلخیوں کی طرف متوجہ کریں:”قَالُوا اٴُوذِینَا مِنْ قَبْلِ اٴَنْ تَاٴْتِیَنَا وَمِنْ بَعْدِ مَا جِئْتَنَا “”ہم تمہارے آنے سے پہلے بھی ستائے گئے ہیں اور تمہارے آنے کے بعد بھی ستائے گئے ۔“چنانچہ جناب موسیٰ نے ان کی طرف دوبارہ رخ کر کے انہیں اسی انداز سے بآواز بلند یہ اطمینان دلایاکہ وعدہ الٰہی کا انتظار کریں ،اور حالات سازگار ہونے تک وہ صورتحال پر صبر کرتے رہیں:( قَالَ عَسَی رَبُّکُمْ اٴَنْ یُهْلِکَ عَدُوَّکُمْ وَیَسْتَخْلِفَکُمْ فِی الْاٴَرْضِ فَیَنظُرَ کَیْفَ تَعْمَلُونَ ) ”موسیٰ نے جواب دیا:” عنقریب تمہارا پر وردگار تمہارے دشمن کو ہلاک کر دے گا اورتمہیں زمین میں اس کا جانشین بنادے گا اور پھر دیکھے گا کہ تمہارا طرزعمل کیسا ہوتاہے۔“

اسی طرح خدا وندعالم بھی یہی چاہتاہے کہ یہ امت ”وارثت“اور”انتظار“کی تہذیب سے آراستہ ہوجائے یعنی ابنیاء وصالحین کی وراثت اور حالات کی سازگار ی اور صالحین کے متعلق وعدہ الٰہی کا انتظار۔ توحیدی تحریک میں ایک جانب ” وراثت“ اور دوسری جانب”انتظار“ساتھ ساتھ چلتے ہیں بلکہ دوسرے الفاظ میں یہ کہاجاسکتاہے کہ”وراثت“و”انتظار“توحید کے دشوار گذار اور طولانی سفر میں دواہم وسیلہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔لہٰذا ہمارے لئے ضروری ہے کہ ہم قرآن مجید کی ان دونوں تہذیبوں ”وراثت“اور ”انتظار“سے اپنے دامن تہذیب وتمدن کو آراستہ وپیراستہ کریں۔

۷۹

منابع و مآخذ

بحارالانوار، علامہ مجلسی

اکمال الدین وتمام النعمة،شیخ صدوق

الزام الناصب

رسالہ الجامعة الاسلامیہ شمارہ ، ۴۵

صواعق محرقہ،ابن حجر

ا صول کافی، شیخ کلینی

کتاب مقدس،سفر مزامیر داود مزمور/ ۳۷

معجم احادیث امام مہدی ،تالیف :ادارہ معارف اسلامی کی علمی کمیٹی :زیر نظر شیخ علی کورانی ،ناشر:موسسہ معارف اسلامی ،طبع اول ( ۱۴۱۱ ئھ ) قم

مسند احمد بن حنبل

مقدمہ ابن خلدون

منتخب الاثر ،صافی گلپائےگانی

مفاتیح الجنان، شیخ عباس قمی

مستدرک صحیحین،حاکم نیشاپوری

عصر الظہور، علی کورانی

کنزالعمال، علی متقی ہندی

نہج البلاغہ

ینابیع المودة، سلیمان بن ابراہیم قندوزی حنفی

۸۰