نقش زندگانی حضرت صاحب الامر عجل الله فرجہ الشریف
ماہِ شعبان ۲۵۵ ئھ کی پندرہویں تاریخ صبح جمعہ کی مسعود ترین ساعت تھی جب پیغمبر اسلام کے آخری وارث اور سلسلہ امامت کے بارہویں اور آخری امام کی ولادت باسعادت ہوئی۔ بعض علماء نے سال ولادت ۲۵۶ ئھ سنہ نور لکھا ہے لیکن معروف ترین روایت ۲۵۵ ء ھ ہی کی ہے۔
والد ماجد امام حسن عسکریں تھے جن کی عمر مبارک آپ کی ولادت کے وقت تقریباً ۲۳ سال تھی اور والدہ گرامی جناب نرجس خاتون تھیں جنہیں ملیکہ بھی کہا جاتا ہے۔
جناب نرجس خاتون دادھیال کے اعتبار سے قیصر روم کی پوتی تھیں اور نانیہال کے اعتبار سے جناب شمعون وصی حضرت عیسیٰں کی نواسی ہوتی تھیں۔ اس اعتبار سے امام زمانہں نانیہال اور دادھیال دونوں اعتبار سے بلند ترین عظمت کے مالک ہیں اور آپ کا خاندان ہر اعتبار سے عظیم ترین بلندیوں کا مالک ہے۔
جناب نرجس کے روم سے سامرہ پہنچنے کی تاریخ دو حصوں میں بیان کی جاتی ہے۔ ایک حصہ سامرہ سے متعلق ہے اور ایک حصہ روم سے متعلق ہے۔ پہلے حصہ کے راوی جناب بشر بن سلیمان انصاری ہیں جو جناب ابو ایوب انصاری کے خاندان سے تعلق رکھتے تھے اور دوسرے حصہ کی راوی خود جناب نرجس ہیں جنہوں نے اپنی داستانِ زندگی خود بیان فرمائی ہے۔
پہلے حصہ کا خلاصہ یہ ہے کہ امام علی نقی ں کے خادم کافور نے بشر بن سلیمان تک یہ پیغام پہنچایا کہ تمہیں امام علی نقی ں نے یاد فرمایا ہے۔ بشر خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تم بردہ فروشی کا کام جانتے ہو۔ یہ ایک تھیلی ہے جس میں دو سو بیس اشرفی ہیں اسے لے کر میرے خط کے ساتھ جسر بغداد تک چلے جاؤ، وہاں ایک قافلہ بردہ فروشوں کا نظر آئے گا۔ اس قافلہ میں ایک خاتون بہ شکل کنیز ہوگی جس کی خریداری کی تمام لوگ کوشش کر رہے ہوں گے لیکن وہ کسی کی خریداری سے راضی نہ ہوگی اور نہ اپنے چہرہ سے نقاب اٹھائے گی۔ تم یہ منظر دیکھتے رہنا جب تمام لوگ قیمت بڑھا کر عاجز ہو جائیں اور مالک پریشان ہو اور کنیز یہ کہے کہ میرا خریدار عنقریب آنے والا ہے تو تم مالک کو یہ تھیلی دے دینا اور کنیز کو یہ خط دے دینا جو اسی کی زبان میں لکھا گیا ہے۔ معاملہ خود بخود طے ہو جائے گا۔ جناب بشر بن سلیمان نے ایسا ہی کیا اور حرف بحرف امام کی نصیحت پر عمل کیا۔ یہاں تک کہ معاملہ طے ہوگی اوار دو سو بیس اشرفی میں اس خاتون کو حاصل کر لیا اور امام کی خدمت میں لا کر پیش کر دیا۔
اس کے بعد جناب نرجس نے اپنی تاریخ زندگی یوں بیان کی ہے کہ میں ملیکہ قیصر روم کی پوتی ہوں۔ میری شادی میرے ایک رشتہ کے بھائی سے طے ہوئی تھی اور پورے اعزاز و احترام کے ساتھ محفل عقد منعقد ہوئی تھی۔ ہزاروں اعیانِ مملکت شریک بزم تھے لیکن جب پادریوں نے عقد پڑھنے کا ارادہ کیا تو تخت کا پایہ ٹوٹ گیا اور تخت الٹ گیا، بہت سے لوگ زخمی ہوگئے اور اسے رشتہ کی نحوست پر محمول کیا گیا۔ تھوڑے عرصہ کے بعد اس کے دوسرے بھائی سے رشتہ طے ہوا اور بعینہ یہی واقعہ پیش آیا جس کے بعد لوگ سخت حیران تھے کہ اس کے پس منظر میں کوئی بات ضرور ہے جو ہم لوگوں کی عقل میں نہیں آرہی ہے کہ رات کے وقت میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مقام پر حضرت رسول خدا اور حضرت مسیحں جمع ہیں اور ایسا ہی دربار آراستہ ہے جیساکہ میرے عقد کے موقع پر اس سے پہلے ہوا تھا۔ حضرت مسیحں نے حضرت محمد مصطفی اور حضرت علی مرتضیٰں کا بے حد احترام کیا اور ان دونوں بزرگوں نے فرمایا کہ ہم آپ سے آپ کے وصی کی صاحبزادی ملیکہ کا رشتہ اپنے فرزند حسن عسکریں کے لیے طلب کر رہے ہیں۔ حضرت مسیحں نے بصد مسرت رشتہ کو منظور کر لیا اور میرا عقد ہوگیا۔ اس کے بعد میں نے اکثر خواب میں حضرت حسن عسکریں کو دیکھا اور ان سے مطالبہ کیا کہ آپ کی خدمت میں حاضری کا راستہ کیا ہوگا تو ایک دن انہوں نے فرمایا کہ تمہارے یہاں سے ایک فوج جنگ پر جا رہی ہے، تم اس میں شامل ہو جاؤ۔ عنقریب اس فوج کو شکست ہوگی اور اس کی عورتوں کو قیدی بنا لیا جائے گا۔ تم ان قیدیوں میں شامل ہو جانا اور ان کے ساتھ بغداد تک آجانا، اس کے بعد میں تمہاری خریداری کا انتظام کر لوں گا۔ چنانچہ واقعہ ایسا ہی ہوا، اور امام علی نقی ں نے خریداری کا انتظام کر دیا اور جناب نرجس اس گھر تک پہنچ گئیں۔ جس کے بعد انہوں نے اس واقعہ کی ایک کڑی کا اور ذکر کیا کہ میں اپنے عالم انوار کے عقد کے بعد مسلسل اس خواب کی تعبیر کے لیے پریشان تھی اور نوبت شدید بیماری تک پہنچ گئی تھی تو ایک دن خواب میں جناب مریم اور جناب فاطمہ زہرا سلام الله علیہا کو دیکھا اور ان سے فریاد کی کہ آخر آپ کے فرزند تک پہنچنے کا راستہ کیا ہوگا جن کی خدمت کا شرف آپ کے پدر بزرگوار نے عنایت فرمایا ہے۔ تو آپ نے فرمایا کہ پہلے کلمہ اسلام زبان پر جاری کرو۔ اس کے بعد اس کا انتظام ہو جائے گا (اس لیے کہ مسیحی مذہب خاتون سے عقد تو ہو سکتا ہے لیکن رب العالمین نے جس مقصد کے لیے اس رشتہ کا انتخاب فرمایا ہے اس کی تکمیل دین اسلام کے بغیر ممکن نہیں ہے اس لیے کہ نورِ الٰہی کسی غیر موحد رحم میں نہیں رہ سکتا ہے) چنانچہ میں نے ان کی ہدایت کے مطابق کلمہ شہادتین زبان پر جاری کیا اور آج آپ کی خدمت میں حاضر ہوں۔ امام علی نقی ں نے فرمایا کہ جس نوجوان نے تم سے سامرہ پہنچنے کا وعہد کیا تھا اسے پہچان سکتی ہو؟ عرض کی: بے شک! آپ نے امام حسن عسکریں کو پیش کیا۔ جناب نرجس خاتون نے فوراً پہچان لیا اور آپ نے ان کو عقد کرکے اپنے فرزند کے حوالے کر دیا۔
(اس واقعہ میں عقد کی لفظ دلیل ہے کہ جناب نرجس کنیز نہیں تھیں، ورنہ اسلام میں کنیز کی حلیت کے لیے عقد کی ضرورت نہیں ہوتی ہے تنہا کنیزی ہی اس کے حلال ہونے کے لیے کافی ہوتی ہے جیساکہ ان متعدد آیات ِ قرآنی سے بھی ظاہر ہوتا ہے جن میں کنیزی کا تذکرہ ازواج کے مقابلہ میں کیا گیا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ کنیزی الگ ایک شے ہے اور زوجیت الگ ایک شے ہے، اور ایک مورد پر دونوں کا اجتماع ممکن نہیں ہے علاوہ اس کے کہ کنیز ایک شخص کی کنیز ہو اور دوسرے کی زوجہ ہو ورنہ ایک ہی جہت سے دونوں کا اجتماع ناممکن ہے)۔
اس کے بعد جناب حکیمہ بنت امام محمد تقی ں بیان کرتی ہیں کہ ایک دن امام حسن عسکری ں نے فرمایا کہ آج شب کو آپ میرے یہاں قیام کریں کہ پروردگار مجھے ایک فرزند عطا کرنے والا ہے۔ میں نے عرض کی کہ نرجس خاتون کے یہاں تو حمل کی کوئی علامت نہیں ہے۔۔۔۔۔ فرمایا کہ پروردگار اپنی حجت کو اسی طرح دنیا میں بھیجتا ہے، جناب مادر ِ حضرت موسیٰں کے یہاں بھی آثارِ حمل نہیں تھے اور بالآخر جناب موسیٰں دنیا میں آگئے اور فرعونیوں کو خبر بھی نہ ہو سکی۔ چنانچہ میں نے امام کی خواہش کے مطابق گھر میں قیام کیا اور تمام رات حالات کی نگرانی کرتی رہی۔ یہاں تک کہ میری نماز شب بھی تمام ہوگئی اور آثارِ حمل نمودار نہیں ہوئے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ نرجس نے خواب سے بیدار ہوکر وضو کیا اور نمازِ شب ادا کی اور اس کے بعد دردِ زہ کا احساس کیا، میں نے دعائیں پڑھنا شروع کیں۔ امام عسکری ں نے آواز دی کہ سورہ انا انزلناہ پڑھئے۔ میں نے سورہ قدر کی تلاوت کی اور یہ محسوس کیا کہ جیسے رحم مادر میں فرزند بھی میرے ساتھ تلاوت کر رہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ میرے اور نرجس کے درمیان ایک پردہ حائل ہوگیا اور میں سخت پریشان ہوگئی کہ اچانک امام عسکری ں نے آواز دی کہ آپ بالکل پریشان نہ ہوں۔ اب جو پردہ اٹھا تو میں نے دیکھا کہ ایک چاند سا بچہ رو بقبلہ سجدہ ریز ہے اور پھر آسمان کی طرف اشارہ کرکے کلمہ شہادت زبان پر جاری کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ تمام ائمہ کی امامت کی شہادت دینے کے بعد یہ فقرات زبان پر جاری کیے : ”خدایا! میرے وعدہ کو پورا فرما، میرے امر کی تکمیل فرما، میرے انتقام کو ثابت فرما اور زمین کو میرے ذریعہ عدل و انصاف سے معمور کر ے۔“
دوسری روایت کی بنا پر ولادت کے موقع پر بہت سے پرندے بھی جمع ہوگئے اور سب آپ کے گرد پرواز کرنے لگے کہ گویا آپ پر قربان ہو رہے تھے۔ آپ کے داہنے شانہ پر ﴿جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلَُ اِنَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَهُوْقًا
﴾ کا نقش تھا اور زبانِ مبارک پر یہ آیت ِ کریمہ تھی: ﴿وَ نُرِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِی الْاَرْضِ وَ نَجْعَلَهُمْ اَئِمَّةً وَّ نَجْعَلَهُمُ الْوٰرِثِیْنَ
﴾۔
اس کے بعد امام عسکری ں کی ہدایت کے مطابق ایک پرندہ فرزند کو اٹھا کر جانب ِ آسمان لے گیا اور روزانہ ایک مرتبہ باپ کی خدمت میں پیش کرتا تھا اور عالم قدس میں آپ کی تربیت کا مکمل انتظام تھا۔ یہاں تک کہ چند روز کے بعد جناب حکیمہ نے دیکھا تو پہچان نہ سکیں۔ آپ نے فرمایا کہ پھوپھی جان! ہم اہل بیت کی نشو و نما عام انسانوں سے مختلف ہوتی ہے۔ صاحبانِ منصب ِ الٰہی کی نشو و نما ایک ماہ میں ایک سال کے برابر ہوتی ہے۔ چنانچہ جناب حکیمہ نے اس فرزند حسن عسکری ں سے تمام صحف سماویہ اور قرآن مجید کی تلاوت بھی سنی ہے۔
(واضح رہے کہ وقت ِ ولادت سورہ انا انزلناہ کی تلاوت کا شاید ایک راز یہ بھی تھا کہ اس سورہ میں ہر شب قدر میں ملائکہ آسمان کے امر الٰہی کے ساتھ نازل ہونے کا ذکر ہے اور یہ علامت ہے کہ ہر دور میں ایک صاحب الامرکا رہنا ضروری ہے اور آج دنیا میں آنے والا اپنے دور کا صاحب الامر ہے)۔
محمد بن عثمان عمروی راوی ہیں کہ صاحب الامر کی ولادت کے بعد امام عسکریں نے بطور عقیقہ متعدد جانور ذبح کرنے کا حکم دیا اور دس ہزار رطل روٹی اور اسی مقدار میں گوشت تقسیم کرنے کا حکم دیا اور میں نے اسی کے مطابق عمل کیا۔
(واضح رہے کہ عقیقہ میں ایک جانور کی قربانی بھی کافی ہوتی ہے اور صرف عقیقہ کے گوشت کی تقسیم بھی کافی ہوتی ہے لیکن امام عسکری ں نے متعدد جانور ذبح کرنے کا حکم دیا اور کافی مقدار میں گوشت اور روٹی کی تقسیم کا بھی حکم دیا، جس سے حضرت صاحب الامرں کی خصوصیت اور ان کے امتیاز کے علاوہ اس نکتہ کی بھی وضاحت ہوتی ہے کہ اس طرح آبادی کے ایک بڑے حصہ کو حضرت صاحب العصرں کی ولادت کی خبر ہو جائے گی اور اس کے بعد اگر لوگ ان کی زیارت نہ بھی کر سکیں تو ان کے وجود کا انکار نہ کر سکیں گے اور چند سال کے بعد جب میرا انتقال ہو جائے گا تو کوئی یہ نہ کہنے پائے گا کہ حسن عسکری لا ولد دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ صاحب الامرں کی ولادت کی خبر کا عام ہونا ضروری تھا کہ اس سے پوری کائنات کا مستقبل وابستہ تھا اور اسی کے سہارے سارے صاحبانِ ایمان کو زندہ و سلامت رہنا تھا۔ ایسا نہ ہو کہ کل حکام جور اس کے وجود کا انکار کرکے مطمئن ہو جائیں اور صاحبانِ ایمان شک اور شبہ میں مبتلا ہو جائیں۔
یہ کام اگرچہ امام حسن عسکریں کے لیے انتہائی مشکل تھا کہ حکومت ِ وقت کی طرف سے آپ کے گھر کی سخت ترین نگرانی کی جا رہی تھی اور تمام تر کوشش یہی تھی کہ آخری حجت پروردگار دنیا مین نہ آنے پائے اور قدرت نے اس کے مقابلہ میں غیبت کا مکمل اہتمام بھی کر دیا تھا اور آپ نے بھی ولادت سے پہلے انتہائی راز داری سے کام لیا تھا لیکن اس کے باوجود جب صاحب الامر کو پرندہ (روح القدس) نے اپنی تحویل میں لے لیا اور ظالموں کے شر سے محفوظ ہوگئے تو آپ نے دوسرے فریضہ وک انتہائی اہم قرار دیا کہ قوم میں ان کی ولادت کا اعلان ہو جائے اور دنیا کو آخری وارث ِ پیغمبر کے نزول اجلال کا علم ہو جائے چاہے اس کے نتیجہ میں حکومت ِ وقت کی طرف سے کسی قدر بھی مشکلات اور مصائب کا سامنا کیوں نہ کرنا پڑے اور اس راہ میں کسی قدر آفات و شدائد کیوں نہ برداشت کرنا پڑیں۔
آپ کا اسم گرامی محمد اور کنیت ابو القاسم ہے اور یہ آپ کے امتیازات میں سے ہے کہ رسول اکرم نے آپ کو اپنے نام اور کنیت دونوں کا وارث قرار دیا ہے ورنہ دونوں کا اجتماع عام طور سے ممنوع ہے جس طرح کہ اکثر علماء نے دور ِ غیبت کبریٰ کو آپ کو اس نام گرامی ”محمد“ کے ساتھ یاد کرنے کی سخت ممانعت کی ہے اور بعض روایات میں اس نام سے یاد کرنے کو حرام تک قرار دیا گیا ہے۔
آپ کے معروف القاب و خطابات یہ ہیں جن کے ذریعہ یاد کرنے کی تاکید کی گئی ہے:
۱ ۔ بقیة اللّٰہ :۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ جب وقت ظہور آپ دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوں گے تو آلله کے گرد ۳۱۳ اصحاب کا جمع ہوگا، تو سب سے پہلے اس آیت کی تلاوت کریں گے ﴿بَقِیَّتُ اللّٰهِ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ
﴾ اگر تم لوگ صاحبانِ ایمان ہو تو تمہارے لیے خیر اور بھلائی بقیة الله میں ہے جسے پرورگار نے اس دن کے لیے بچا کر رکھا ہے۔
۲ ۔ حُجّت :۔ یہ لقب اگرچہ دیگر ائمہ معصومین کے ساتھ بھی استعمال ہوتا ہے اور انہیں بھی حجة الله کہا جاتا ہے لیکن عام طور سے حضرت حجت سے آپ ہی کی ذات گرامی مقصود ہوتی ہے اور شاید اس کا ایک راز یہ بھی ہو کہ آپ کے ذریعہ پروردگار مادی اور معنوی دونوں اعتبار سے اپنی حجت تمام کر دے گا اور شاید اسی لیے آپ کی انگشتری مبارک کا نقش بھیاَنَا حُجَّةَ اللّٰهِ
ہے۔
۳ ۔ خلف یا خلف صالح :۔ یہ لقب بھی آپ کے بارے میں اکثر ائمہ طاہرین کی حدیثوں میں وارد ہوا ہے اور حقیقت امر یہ ہے کہ آپ تمام انبیاء و مرسلین کے جانشین اور ان کے کمالات کے وارث ہیں جیساکہ حدیث مفضل میں وارد ہوا ہے کہ وقت ِظہور دیوار کعبہ سے ٹیک لگا کر کھڑے ہوں گے اور فرمائیں گے کہ جو شخص بھی آدم، شیث، نوح، سام، ابراہیم، اسماعیل، موسیٰ، یوشع، شمعون، رسول اکرم اور ائمہ طاہرین کی زیارت کرنا چاہے وہ مجھے دیکھ لے کہ میں سب کے کمالات کا وارث اور سارے انبیاء و اولیاء کا خلف صالح ہوں۔
۴ ۔ شرید (دور افتادہ) :۔ اس لقب کا راز غالباً یہ ہے کہ زمانہ نے بے معرفتی کی بنیاد پر آپ کو سماج سے دور کر دیا ہے اور آپ نے مصلحت ِ الٰہی کی بنا پر اپنے کو معاشرہ سے دور رکھا ہے جیساکہ خود آپ نے فرمایا تھا کہ میرے والد بزرگوار نے وصیت فرمائی ہے کہ اپنے کو سماج سے دور رکھنا کہ ہر ولی خدا کے دشمن ہوتے ہیں اور رب العالمین تمہیں باقی رکھنا چاہتا ہے۔
۵ ۔ غریم (قرض دار یا قرض خواہ) :۔ اس لقب کا راز یہ بتایا جاتا ہے کہ آپ کا امت ِ اسلامیہ کے ذمہ قرض ہے اور آپ پر احکام اسلامیہ کا قرض ہے جسے ادا کرنے کے لیے آپ کو باقی رکھا گیا ہے اور جس کے لیے آپ اسی طرح بے چین رہتے ہیں جس طرح ایک قرض دار اپنے قرض کی ادائیگی کے لیے بے چین رہا کرتا ہے۔
روایات میں اس لقب کی ایک مصلحت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ اس طرح مومنین اپنے حقوق کو مختلف افراد کے ذریعہ امام تک پہنچا دیا کرتے تھے اور کسی بھی شخص کو مال دیتے ہوئے اس لقب کا استعمال کیا کرتے تھے اور کہتے تھے: ہمارے قرض خواہ تک پہنچا دینا اور یہ بات سو فیصد صحیح بھی تھی کہ امت کے ذمہ امامت کے بے شمار حقوق ہیں جن کی ادائیگی کی ذمہ داری امت کے لیے ضروری ہے۔
۶ ۔ قائم :۔ اس لقب کا راز یہ ہے کہ اصلاح عالم کی خاطر آخری قیام اور انقلاب آپ ہی کے ذمہ رکھا گیا ہے جیساکہ ابو حمزہ نے امام باقرں کی روایت بھی نقل کیا ہے کہ میں نے حضرت سے دریافت کیا کہ جب آپ سب ہی حق کے ساتھ قیام کرنے والے ہیں تو صرف آخری حجت کو قائم کیوں کہا جاتا ہے؟ تو آپ نے فرمایا کہ شہادت امام حسینں کے بعد ملائکہ نے بارگاہِ احدیت میں عرض کی کہ تیرے پیارے نبی کا پیارا فرزند شہید ہوگیا اور ہم اس کی کمک بھی نہ کر سکے تو ارشاد احدیت ہوا کہ تمہیں آخری وارث ِ حسین کی کمک کے لیے باقی رکھا گیا ہے اور اس کے بعد جملہ انوار ائمہ کو ظاہر کیا گیا تو آخری نور مشغول نماز تھا۔ ارشاد قدرت ہوا کہ یہی قائم ایک دن قیام کرنے والا ہے اور اس کے ذریعہ دنیا کو عدل و انصاف سے معمور کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ امام کے القاب میں اس لقب کے بارے میں خصوصیت کے ساتھ ذکر کیا گیا ہے کہ جب آپ کے اس لقب کا تذکرہ کیا جائے تو انسان کو کھڑا ہو جانا چاہیے جیساکہ علامہ عبد الرضا بن محمد نے اپنی کتاب ”تاجیج نیران الاحزان فی وفاة سلطان خراسان“ میں نقل کیا ہے کہ جب دعبل خزاعی نے اپنے قصیدہ میں امام کا ذکر کیا تو امام رضاں سروپا کھڑے ہوگئے اور آپ نے اپنا ہاتھ اپنے سر مبارک پر رکھ لیا اور ظہور امام میں عجلت کی دعا فرمائی اور اس کے بعد یہ طریقہ شیعوں میں رائج ہوگیا۔
ظاہر ہے کہ اس کا مقصد صرف عظمت ِ امام کا اظہار نہیں ہے ورنہ یہ طریقہ کار ہر امام کے ذکر کے ساتھ ہونا چاہیے تھا بلکہ بزرگوں کے ذکر کے ساتھ بطریق اولیٰ ہونا چاہیے تھا لیکن صرف امام عصرں کے ذکر کے ساتھ یہ طریقہ کار علامت ہے کہ اس طرح امت اسلامیہ کو تربیت دی جا رہی تھی کہ جب امام کے قیام کا ذکر آئے تو فوراً کھڑے ہو جائیں تاکہ اس کے بعد جب واقعاً قیام کی منزل سامنے آجائے اور یہ خبر نشر ہو کہ انہوں نے مکہ سے قیام فرما لیا ہے تو فوراً نصرت کے لیے کھڑے ہو جائیں اور سر پر ہاتھ رکھ کر سر تسلیم خم کر دیں کہ اب اس سر کو بھی آپ کی راہ میں قربان کرنے کے لیے حاضر ہیں۔ (منتہی الآمال)
۷ ۔ مہدی :۔ اس لقب کا ذکر روایات ِ مرسل اعظم میں بھی بکثرت پایا جاتا ہے اور اسی لیے تمام عالم اسلام میں آپ کو عام طور سے اسی لقب کے ذریعہ پہچانا جاتا ہے اور اس کے بارے میں روایت میں وارد ہوا ہے کہ جو مہدی کے قیام اور خروج کا انکار کر دے اس نے پیغمبر اسلام پر نازل ہونے والے تمام احکام کا انکار کر دیا ہے۔ پیغمبر کے تمام احکام اور تعلیمات کا دار و مدار قیام مہدی پر ہے اور اس سے انحراف کے معنی سارے احکام و تعلیمات سے انحراف کے ہیں۔
۸ ۔ منتظر :۔ یہ آپ کی واضح ترین صفت ہے کہ تمام صاحبان ایمان کو مسلسل آپ کا انتظار ہے اور روایات معصومین میں برابر اس انتظار کی تاکید کی گئی ہے اور اسے افضل اعمال قرار دیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ انتظار کے افضل اعمال ہونے کے معنی ہی یہ ہیں کہ انتظار ایک عمل ہے، بے عملی اور کاہلی نہیں ہے اور زمانہ کو اس کے حالات پر چھوڑ کر بغیر کسی اصلاحی عمل اور حرکت کے صرف ظہور امام کی آس لگا کر بیٹھنا ایک طرح کی کاہلی اور سستی ہے انتظار نہیں ہے۔ انتظار کے لیے مقدمات کا فراہم کرنا اور حالات کا سازگار بنانا ایک بنیادی شرط ہے۔ کسی مجلس میں ذاکر کا انتظار کرنے والا فرش عزا بچھا دیتا ہے اور کسی مسجد میں امام جماعت کا انتظار کرنے والا صفیں درست کر لیتا ہے، تو یہ کیسے ممکن ہے کہ انسان امام حقیقی کے قیام کا انتظار کرے اور نہ صفیں منظم کرے نہ دیدہ و دل فراش راہ کرے۔ دنیا میں ہر اصلاحی عمل اور تحریک انتظار امام کی اعلیٰ ترین فرد ہے جس سے بہتر انتظار کا کوئی طریقہ نہیں ہو سکتا ہے۔
یہ بھی واضح رہے کہ انتظار میں دو خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ ایک یہ ہے کہ انتظار اعتبار کی دلیل ہے کہ انسان کو جس کا اعتبار ہوتا ہے اسی کا انتظار بھی کرتا ہے اور جب اعتبار ختم ہو جاتا ہے تو انتظار بھی ختم کر دیتا ہے۔ انتظار امام کی تاکید بقائے اعتبار ظہور امام کا بہترین ذریعہ ہے۔ اور دوسری بات یہ بھی ہے کہ انتظار کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ انسان موجودہ حالات سے راضی نہیں ہے اور ایک بہترین مستقبل کا انتظار کر رہا ہے گویا اس تعلیم کے ذریعہ اس نکتہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ انسنا کو مال، دولت، خزانہ اور اقتدار کچھ بھی بھی کیوں نہ حاصل ہو جائے، اسے اپنے دور کے نظام کو آخری سمجھ کر مطمئن نہ ہو جانا چاہیے بلکہ دین و مذہب اور احکام و تعلیمات ِ الٰہیہ کے لیے سکون و اطمینان کا دور ہوگا۔ انسان کا اپنا سکون و اطمینان کوئی قیمت نہیں رکھتا ہے اگر دین الٰہی کو سکون و اطمینان حاصل نہ ہو سکے۔
۹ ۔ ماء معین (چشمہ جاری) :۔ اس لقب میں قرآن مجید کی اس آیت ِ کریمہ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ ”اگر پروردگار پانی کو زمین میں جذب کر دے تو چشمہ جاری کو کون منظر عامپر لا سکتا ہے؟“‘ یعنی دنیا مین جس قدر آب جاری نظر آرہا ہے سب رحمت ِا لٰہی کا کرشمہ ہے۔ اسی طرح جب رحمت ِ الٰہی کا تقاضا ہوگا تو چشمہ جاری علوم و کمالات ِ آل محمد بھی منظر عام پر آجائے گا اور تمام دنیا اس کے فیوض و برکات سے استفادہ کرے گی اور یہ زمین دل کو اسی طرح زندہ کر دے گا جس طرح آب رحمت عام مردہ زمینوں کو زندہ بنا دیا کرتا ہے۔
۱۰ ۔ غائب :۔ یہ امام کی واضح ترین صفت ہے اور اس کی طرف ائمہ طاہرین نے لفظی اشارات کے علاوہ عملی اشارات بھی فرمائے ہیں۔ مثال کے طور پر آخری دور کے ائمہ معصومین اکثر حالات میں قوم سے ملاقات نہیں فرمایا کرتے تھے تاکہ لوگ غیبت کے عادی ہو جائیں اور غیبت کی بنیاد پر وجود امام کا انکار نہ کرنے پائیں۔ خود امام عصر کی زندگی کا ابتدائی دور بھی اسی عالم میں گزرا ہے کہ جناب حکیمہ جنہوں نے ولادت کے موقع پر سارے فرائض انجام دیے ہیں انہیں بھی ہفتہ عشرہ یا بعض اوقات چالیس دن کے بعد ہی زیارت نصیب ہوتی تھی اور یہی حال دیگر اصحاب اور اہل خاندان کا تھا کہ اکثر افراد نے ولادت کے بعد صرف اس وقت دیکھا جب آپ پدر بزرگوار کی نماز جنازہ کے لیے تشریف لائے اور جعفر کو ہٹا کر نماز جنازہ ادا فرمائی۔ اس کے بعد پھر آپ نے اپنی غیبت کے دو حصے رکھے:
غیبت ِ صغریٰ جس کا سلسلہ تقریباً ۷۰ سال تک جاری رہا اور اس میں مختلف سفراء کے ذریعہ خط و کتابت اور سوال و جواب کا سلسلہ جاری رہا تاکہ لوگ غیبت پر ایمان کے عادی ہو جائیں اور یہ اعتقاد راسخ ہو جائے کہ غیبت کے ذریعہ فیوض و برکات کا سلسلہ موقوف نہیں ہوتا بلکہ ہدایت و ارشاد کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
۷۰ سال کی اس تربیت کے بعد غیبت ِ کبریٰ کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ایک اعلان عام ہوگیا کہ اس کے بعد سوالات کے جوابات براہِ راست نہیں ملیں گے بلکہ ہمارے محفوظ تعلیمات کے ذریعہ حاصل کرنا ہوں گے اور ان تعلیمات سے استنباط و استخراج کا کام وہ علماءِ اعلام انجام دیں گے جو اپنے نفس کو ہوا و ہوس سے بچانے والے، اپنے دین کو خطرات سے محفوظ رکھنے والے، اپنے مولا کے احکام کی اطاعت کرنے والے اور اپنے خواہشات کی مخالفت کرنے والے ہوں گے۔ یہی حجت امام ہوں گے اور انہیں کے ذریعہ امت کی ہدایت کا کام انجام دیا جائے گا۔ یہ احکام کو کتاب و سنت سے بھی حاصل کریں گے اور ملاقات امام کے ذریعہ بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ لیکن چونکہ وقت ظہور تک ملاقات کرنے والوں کی فہرست نہیں بتائی جا سکتی ہے اور فہرست میں بھی ہر شخص کے اپنے ہی اوپر منطبق کر لینے کا خطرہ ہے لہٰذا یہ اعلان عام کر دیا گیا کہ اگر کوئی شخص غیبت ِ کبریٰ میں مشاہدہ اور ملاقات کا دعویٰ کرے اور امام کی طرف سے کوئی ایسی خبر لے کر آئے جو عام تعلیمات کتاب و سنت سے ہم آہنگ نہ ہو تو خبردار اس کی تصدیق نہ کرنا اور اسے افترا پرداز سمجھ کر اس کی بات رد کر دینا ورنہ نئی شریعت سازی کا سلسلہ شروع ہو جائے گا اور اصلی دین تباہ و برباد ہو کر رہ جائے گا۔
یہ روک تھام اور پابندی بھی دور غیبت میں فرض ہدایت کے انجام دینے کا ایک راستہ ہے کہ اس طرح گمراہی کو اس کے پیدا ہونے سے پہلے ختم کر دیا جائے اور مذہب میں کوئی نیا کاروبار نہ قائم ہو سکے۔
واضح رہے کہ غیبت امام کے بارے میں دو طرح کے تصورات پائے جاتے ہیں:
( ۱) غیبت شخص۔
( ۲) غیبت ِ شخصیت۔
غیبت شخص کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ خود انسان نگاہوں سے غائب رہے اور ایسے مقام پر محفوظ اور مستور ہو جائے کہ کوئی نگاہ اسے دیکھ نہ سکے جو عام طور سے غیبت کا مفہوم سمجھا جاتا ہے اور اسی اعتبار سے کسی انسان کو غائب کہا جاتا ہے۔
اور غیبت ِ شخصیت کے معنی یہ ہیں کہ انسان نگاہوں کے سامنے موجود رہے لیکن اس کی شخصیت نگاہوں سے غائب رہے جس طرح کہ جناب موسیٰں اور فرعون کے قصہ میں واضح طور پر یہ بات نظر آتی ہے کہ جناب موسیٰ فرعون کے قصر میں اور اس کی آغوش میں رہے لیکن وہ آخر دم تک ان کی شخصیت کا اندازہ نہ کر سکا اور برابر یہی کہتا رہا کہ کہیں یہ وہی بچہ تو نہیں ہے جس کے بارے میں منجمین نے خبر دی ہے کہ وہ میری سلطنت کے لیے ایک عظیم خطرہ بن کر ابھرنے والا ہے۔
روایات اور واقعات پر دقت ِ نظر سے کام لیا جائے تو امام زمانہ کی غیبت کا یہی مفہوم منظر عام پر آتا ہے اور اسی غیبت کی بنیاد پر ان سارے واقعات کی توجیہہ کی جا سکتی ہے جن میں ملاقات ِ امام کا ذکر پایا جاتا ہے لیکن آپ کی شخصیت کا اندازہ نگاہوں سے غائب ہو جانے کے بعد ہوا اور بر وقت یہ احساس بھی نہ پیدا ہو سکا اور اسی مفہوم کی بنیاد پر ان روایات کی توجیہہ بھی کی جا سکتی ہے جن میں یہ مضمون پایا جاتا ہے کہ آپ کے ظہور کے وقت بہت سے افراد اس بات کے دعویدار ہوں گے کہ ہم نے آپ کو مختلف مقامات پر دیکھا ہے اور مناسک ِ حج کے موقع پر آپ کی زیارت کا باقاعدہ شرف حاصل کیا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس وقت اس امر کا اندازہ نہیں تھا کہ آپ امام زمانہ ہیں اور آج باقاعدہ ظہور کے بعد اس حقیقت کا اعلان ہوگیا ہے۔
غیبت کا پہلا مفہوم بھی بعض اعتبارات سے صحیح ہے اور عام طور سے لوگ آپ کے جمال مبارک کی زیارت سے محروم ہیں لیکن مکمل طور پر غیبت کے باوجود ملاقاتوں کا سلسلہ دوسرے ہی مفہوم کی تائید کرتا ہے۔ بہرحال غیبت، امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کے ان خصوصیات میں ہے جن کے اعتبار سے آپ کو مظہر اوصاف ِ الٰہیہ کہا جا سکتا ہے کہ گویا آپ کو پروردگار نے دیگر صفات جمال و کمال کی طرح اپنی غیبت کا مظہربھی قرار دیا ہے یہ اور بات ہے کہ غیبت الٰہیہ میں کسی طرح کے مشاہدہ کا امکان نہیں ہے اور غیبت امام میں بہرحال مشاہدہ کا امکان بلکہ یقین پایا جاتا ہے اور اس اعتبار سے غیبت ِ امام کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ غیبت ِ اسلام کے تمام غیب کے درمیان سب سے آسان ترین غیبت ہے جس پر انسان بآسانی ایمان پیدا کر سکتا ہے۔
جب مرد مسلمان اس غیبت ِ الٰہیہ پر ایمان لا چکا ہے جس میں نہ ماضی میں مشاہدہ تھا اور نہ مستقبل میں مشاہدہ کا امکان ہے اور اس غیبت رسول پر ایمان لا چکا ہے جس میں ماضی میں مشاہدہ تھا لیکن مستقبل میں اس دنیا میں عام اسلامی عقائد کی بنیاد پر مشاہدہ کا امکان نہیں ہے اور اس آخرت پر ایمان رکھتا ہے جس کا ماضی میں کوئی مشاہدہ نہیں تھا اور صرف مستقبل میں مشاہدہ کا یقین ہے اور وہی اس دنیا کی آخری انتہا ہے، تو اس غیبت ِ امام پر ایمان لانے میں کیا تکلف ہے جس میں ماضی اور مستقبل دونوں طرف مشاہدہ پایا جاتا ہے اور صرف دور حاضر غیبت کا دور کہا جاتا ہے اور اس کے علاوہ مستقل غیب کا کوئی سوال نہیں ہے۔
امام کی غیبت ہی سے ظہور کا اندازہ بھی کیا جا سکتا ہے کہ آپ کے ظہور کا مفہوم بھی کسی گمنام مقام یا جزیرہ سے منتقل ہوکر کسی خاص مقام پر نمایاں ہو جانا نہیں ہے بلکہ نگاہوں سے اس پردہ کا اٹھ جانا ہے جو آج امت اور امام کے درمیان حائل ہے، یا شخصیت کے اس ابہام کا ختم ہو جانا ہے جو مصلحت ِ الٰہی کی بنیاد پر قائم ہے اور جس کی بنا پر شخصیت کا باقاعدہ تعارف نہیں ہو رہا ہے اگرچہ امکان ہے کہ وہ ہمارے مشاہدہ میں برابر یا کبھی کبھی آرہا ہو اور شاید اسی نکتہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مالک کائنات نے حدیث قدسی میں ارشاد فرمایا ہے کہ:
”ہمارے کسی بندہ کو حقیر نہ سمجھ لینا کہیں وہ ہمارا کوئی ولی نہ ہو۔“
ہم اپنے ماحول کی کمزوریوں کی بنا پر شخصیت کو لباس اور ظاہری آرائش و زیبائش سے پہچانتے ہیں اور اولیاء خدا کا انداز اس سے بالکل مختلف ہوا کرتا ہے لہٰذا اس کا امکان بہرحال رہتا ہے کہ ہم کسی انسان کو معمولی سمجھ کر اسے حقارت کی نگاہ سے دیکھیں اور بعد میں وہ ولی خدا ثابت ہو، اور ہم کو ولی خدا کی توہین کا جواب دہ ہونا پڑے جس کے بارے میں روایت میں وارد ہوا ہے کہ جس نے میرے ولی کی توہین کی اس نے مجھے دعوت جنگ دے دی اور میرے مقابلہ پر کھڑا ہوگیا۔ میں اپنے ولی کی عزت کو اپنی عزت اور اس کی توہین کو اپنی توہین تصور کرتا ہوں، صاحبان ایمان کی عزت، عزت ِ الٰہیہ سے وابستہ ہے اور ان کی توہین بھی توہین پروردگار کے مترادف ہے۔
واضح رہے کہ امام عصرں کے بارے میں تین طرح کے موضوعات زیر بحث آتے ہیں:
( ۱) غیبت۔
( ۲) ظہور۔
( ۳) انتظار۔
دو کا تعلق ان کی ذات ِ مبارک سے ہے اور ایک کا تعلق ہمارے فرائض سے ہے۔ غیبت، ظہور اور انتظار کے مفاہیم کا تذکرہ کرنے کے بعد اب ان سے متعلق تین موضوعات باقی رہ جاتے ہیں جن کی وضاحت بہرحال ضروری ہے۔
غیبت کے سلسلہ میں فرائض دور غیبت، انتظار کے سلسلہ میں علامات ظہور، اور ظہور کے بارے میں خصوصیات طرز حکومت اور اس امر کی وضاحت کہ امام زمانہ ظہور کے بعد کیا امور انجام دیں گے اور کس طرح ظلم و جور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل و انصاف سے بھر دیں گے۔