فرائض دور ِ غیبت
علامہ شیخ عباس قمی علیہ الرحمہ نے دور ِ غیبت ِامام میں آٹھ طرح کے فرائض کا تذکرہ کیا ہے جو احساس غیبت امام اور امام کی حقیقت کے واضح کرنے کے بہترین وسائل ہیں اور جن کے بغیر نہ ایمان بالغیب مکمل ہو سکتا ہے اور نہ انسان کو منتظرین امام زمانہ میں شمار کیا جا سکتا ہے۔ ان آٹھ فرائض کی مختصر تفصیل یہ ہے:
۱ ۔ محزون و رنجیدہ رہنا: ۔
حقیقت امر یہ ہے کہ انسان کو غیبت ِ امام کی حقیقت اور اس سے پیدا ہونے والے نقصانات کا اندازہ ہو جائے تو اس کی زندگی سے مسرت و ابتہاج ناپید ہو جائے۔
زمانہ کے بدترین حالات، اہل زمانہ کے بے پناہ ظلم و ستم، نظام اسلامی کی بربادی، تعلیمات الٰہیہ کا استہزاء اور اس طرح کے بے شمار معاملات ہیں جن سے غیبت ِ امام کے نقصانات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے اور ان کا احساس ہی انسان کے آنسو بہانے کے لیے کافی ہے۔ پھر اگر یہ بات صحیح ہے کہ امام انسان کی زندگی کی محبوب ترین شخصیت کا نام ہے، تو کیسے ممکن ہے کہ محبوب نگاہوں سے اوجھل رہے اور عاشق کے دل میں اضطراب اور بے قراری نہ پیدا ہو اور وہ اپنے محبوب کی طرف سے اس طرح غافل ہو جائے کہ مخصوص تاریخوں اور مواقع کے علاوہ اس کے وجود اور اس کی غیبت کا احساس بھی نہ پیدا کرے۔
دعائے ندبہ میں انہیں تمام حالات کا تفصیلی تذکرہ موجود ہے اور اسی لیے اس دعا کو دعائے ندبہ کہا جاتا ہے کہ انسان اس کے مضامین کی طرف متوجہ ہو جائے اور غیبت ِ امام کی مصیبت کا صحیح اندازہ کر لے تو گریہ اور ندبہ کے بغیر نہیں رہ سکتا ہے اور شاید اسی لیے اس دعا کی تاکید ایام عید میں کی گئی ہے یعنی روز عید فطر، روز عید قربان، روز عید غدیر اور روز جمعہ جسے اسلامی احکام کے اعتبار سے عید سے تعبیر کیا گیا ہے کہ عید کا دن انسان کے لیے انتہائی مسرت کا دن ہوتا ہے اور اس دن ایک محب اور عاشق کا فرض ہے کہ اپنے محبوب حقیقی کے فراق کا احساس پیدا کرے اور اس کی فرقت پر آنسو بہائے تاکہ اسے فراق کی صحیح کیفیت کا اندازہ ہو سکے جیساکہ امام محمد باقرں نے فرمایا ہے کہ :
”جب کوئی عید کا دن آتا ہے تو ہم آل محمد کا غم تازہ ہو جاتا ہے کہ ہم اپنا حق اغیار کے ہاتھوں پامال ہوتے دیکھتے ہیں اور مصلحت ِ الٰہیہ کی بنیاد پر کوئی آواز بھی بلند نہیں کر سکتے۔“
ائمہ معصومین میں مولائے کائنات کے دور سے امام عسکریں تک ہر امام نے غیبت کے نقصانات اور مصائب کا تذکرہ کرکے اس حقیقت کی طرف اشارہ کیا ہے کہ اس کائنات میں خیر صرف اس وقت نمایاں ہوگا جب ہمارا قائم قیام کرے گا اور اس سے پہلے اس دنیا سے کسی واقعی خیر کی امید نہیں کی جا سکتی ہے تاکہ انسان مومن بدترین حالات سے بھی مایوس نہ ہو جائے اور پھر انہیں حالات سے راضی اور مطمئن بھی نہ ہو جائے کہ یہ اس کے نقص ایمان کا سب سے بڑا ذریعہ ہوگا۔
اس مقام پر سدیر صیرفی کی اس روایت کا نقل کرنا نامناسب نہ ہوگا کہ میں (سدیر) اور مفضل بن عمر اور ابو بصیر اور ابان بن تغلب امام صادقں کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا کہ آپ خاک پر بیٹھے ہوئے بے تحاشہ گریہ فرما رہے ہیں اور فرماتے جاتے ہیں کہ میرے سردار! تیری غیبت نے میری مصیبت کو عظیم کر دیا ہے، میری نیند کو ختم کر دیا ہے اور میری آنکھوں سے سیلاب ِ اشک جاری کر دیا ہے۔ میں نے حیرت زدہ ہوکر عرض کی کہ ”فرزند رسول! خدا آپ کو ہر بلا سے محفوظ رکھے، یہ گریہ کا کون سا انداز ہے اور خدا نخواستہ کون سی تازہ مصیبت آپ پر نازل ہوگئی ہے؟“ تو فرمایا کہ:
”میں نے کتاب ِ جفر کا مطالعہ کیا ہے جس میں قیامت تک کے حالات کا ذکر موجود ہے تو اس میں آخری وارث پیغمبر کی غیبت اور طول غیبت کے ساتھ اس دور میں پیدا ہونے والے بدترین شکوک و شبہات اور ایمان و عقیدہ کے تزلزل کے حالات اور پھر شیعوں کے مبتلائے شک و ریب ہونے اور تغافل اعمال کا مطالعہ کیا ہے اور اس امر نے مجھے اس طرح بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر دیا ہے کہ اس غیبت میں صاحبانِ ایمان کا کیا حشر ہوگا اور ان کا ایمان کس طرح محفوظ رہ سکے گا۔“
عزیزانِ گرامی! اگر ہمارے حالات اور ہماری بد اعمالیاں سیکڑوں سال پہلے امام صادقں کو بے قرار ہوکر رونے پر مجبور کر سکتی ہیں تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں ہے کہ ہم اس دور ِ غیبت میں ان حالات اور آفات کا اندازہ کرکے کم از کم روز ِ جمعہ خلوص دل کے ساتھ دعائے ندبہ کی تلاوت کرکے اپنے حالات پر خود آنسو بہائیں کہ شاید اسی طرح ہمارے دل میں عشق امام زمانہ کا جذبہ پیدا ہو جائے وار ہم کسی آن ان کی یاد سے غافل نہ ہونے پائیں جس طرح کہ انہوں نے خود اپنے بارے میں فرمایا ہے کہ ہم کسی وقت بھی اپنے چاہنے والوں کی یاد سے غافل نہیں ہوتے ہیں اور نہ ان کی نگرانی کو نظر انداز کرتے ہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ان کا اعتماد ہمارے اوپر رہے اور ان کی حفاظت و رعایت کی ذمہ داری بھی ہمارے ہی حوالے کی گئی ہے۔
۲ ۔ انتظار ِ حکومت و سکونِ آل محمد :۔
اس انتظار کو دور ِ غیبت میں افضل اعمال قرار دیا گیا ہے اور اس میں اس امر کا واضح اشارہ پایا جاتا ہے کہ اس دنیا میں ایک دن آل محمد کا اقتدار ضرور قائم ہونے والا ہے اور مومنین کرام کی ذمہ داری ہے کہ اس دن کا انتظار کریں اور اس کے لیے زمین ہموار کرنے اور فضا کو سازگار بنانے کی کوشش کرتے رہیں۔
اب یہ دور کب آئے گا اور اس کا وقت کیا ہے؟ یہ ایک راز ِ الٰہی ہے جس کو تمام مخلوقات سے مخفی رکھا گیا ہے بلکہ روایات میں یہاں تک وارد ہوا ہے کہ امیر المومنینں کے زخمی ہونے کے بعد آپ کے صحابی عمرو بن الحمق نے آپ کی عیادت کرتے ہوئے عرض کی کہ مولا! ان مصائب کی انتہاء کیا ہے؟ تو فرمایا کہ ۷۰ ء ھ تک۔ عرض کی کہ کیا اس کے بعد راحت و آرام ہے؟ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا اور غش کھا گئے۔
اس کے بعد جب غش سے افاقہ ہوا تو دوبارہ سوال کیا۔ فرمایا: بے شک ہر بلا کے بعد سہولت اور آسانی ہے لیکن اس کا اختیار پروردگار کے ہاتھ میں ہے۔
اس کے بعد ابو حمزہ ثمالی نے امام باقرں سے اس روایت کے بارے میں دریافت کیا کہ ۷۰ ء ھ تو گزر چکا ہے لیکن بلاؤں کا سلسلہ جاری ہے؟ تو فرمایا کہ شہادت ِ امام حسینں کے بعد جب غضب پروردگار شدید ہو تو اس نے سہولت و سکون کے دور کو آگے بڑھا دیا۔
پھر اس کے بعد ابو حمزہ نے یہی سوال امام صادقں سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ بے شک غضب ِ الٰہی نے اس مدت کو دوگنا کر دیا تھا، اس کے بعد جب لوگوں نے اس راز کو فاش کر دیا تو پروردگار نے اس دور کو مطلق راز بنا دیا اور اب کسی کو اس امر کا علم نہیں ہو سکتا ہے، اور ہر شخص کا فرض ہے کہ اس دور کا انتظار کرے کہ انتظار ظہور کرنے والا مر بھی جائے گا تو وہ قائم آل محمد کے اصحاب میں شمار کیا جائے گا۔
۳ ۔ امام کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں دست بدعا رہنا:۔
ظاہر ہے کہ دعا ہر اس مسئلہ کا علاج ہے جو انسان کے امکان سے باہر ہو اور جب دور ِ غیبت میں امام کی حفاظت کسی اعتبار سے بھی ہمارے اختیار میں نہیں ہے اور ہم خود انہیں کے رحم و کرم سے زندہ ہیں تو ہمارا فرض ہے کہ ہم ان کے وجود ِ مبارک کی حفاظت کے لیے بارگاہِ احدیت میں مسلسل دعائیں کرتے رہیں اور کسی وقت بھی اس فرض سے غافل نہ ہوں: ﴿اَللّٰھُمَّ کُنْ لِّوَلِیِّکَ الْحُجَّةِ بْنِ الْحَسَنِ﴾ جسے عام طور سے اثنائے نماز قنوت یا بعد نماز وظیفہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔ امامں کے وجود کی حفاظت، ان کے ظہور کی سہولت اور ان کی عادلانہ حکومت کے بارے میں جامع ترین دعا ہے، جس سے صاحبانِ ایمان کو کسی وقت غافل نہیں ہونا چاہیے۔
۴ ۔ امام کی سلامتی کے لیے صدقہ نکالنا :۔
صدقہ درحقیقت خواہش سلامتی کا عملی اظہار ہے کہ انسان جس کی سلامتی کی واقعاً تمنا رکھتا ہے اس کے حق میں صرف لفظی طور پر دعا نہیں کرتا ہے بلکہ عملی طور پر بھی دفع بلا کا انتظام کرتا ہے اور یہ انتظام صدقہ سے بہتر کوئی شے نہیں ہے۔ دعا ان لوگوں کے لیے بہترین شے ہے جو صدقہ دینے کی بھی استطاعت نہیں رکھتے ہیں لیکن جن کے پاس یہ استطاعت پائی جاتی ہے وہ اگر صرف دعا پر اکتفا کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف لفظی کاروبار کرنا چاہتے ہیں اور امام کی سلامتی کے لیے چند پیسے بھی خرچ نہیں کرنا چاہتے ہیں جب کہ جو کچھ مالک کائنات سے لیا ہے وہ سب انہیں کے صدقہ میں لیا ہے اور جو کچھ آئندہ لینا ہے وہ بھی انہیں کے طفیل میں اور انہیں کے وسیلہ سے حاصل کرنا ہے۔
۵ ۔ امام عصر کی طرف سے حج کرنا یا دوسروں کو حج نیابت کے لیے بھیجنا :۔
جو دور قدیم سے شیعوں کے درمیان مرسوم ہے کہ لوگ اپنے امام زمانہں کی طرف سے نیابةً اعمال انجام دیا کرتے تھے اور امام عصرں ان کے ان اعمال کی قدر دانی بھی فرمایا کرتے تھے جیساکہ ابو محمد دعلجی کے حالات میں نقل کیا گیا ہے کہ انہیں کسی شخص نے امام عصرں کی طرف سے نیابةً حج کے لیے پیسہ دیے تو انہوں نے اپنے فاسق و فاجر اور شرابی فرزند کو حج نیابت ِ امام کے لیے اپنے ساتھ لے لیا جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ میدانِ عرفات میں ایک انتہائی نوجوان شخص کو دیکھا جو یہ فرما رہے ہیں کہ تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی ہے کہ لوگ تمہیں حج نیابت کے لیے رقم دیتے ہیں تو تم فاسق و فاجر افراد کو یہ رقم دے دیتے ہو۔ قریب ہے کہ تمہاری آنکھ ضائع ہو جائے کہ تم نے انتہائی اندھے پن کا ثبوت دیا ہے۔ چنانچہ راوی کہتا ہے کہ حج سے واپسی کے چالیس روز کے بعد ان کی وہ آنکھ ضائع ہوگئی جس کی طرف اس مرد نوجوان نے اشارہ کیا تھا۔
۶ ۔ امام عصر کا اسم گرامی آنے پر قیام کرنا :۔
بالخصوص اگر آپ کا ذکر لفظ قائم سے کیا جائے کہ اس میں حضرت کے قیام کا اشارہ پایا جاتا ہے اور آپ کے قیام کے تصور کے ساتھ کھڑا ہو جانا محبت ،عقیدت اور غلامی کا بہترین مقتضی ہے جس سے کسی وقت بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ہے۔
۷ ۔ دور غیبت میں حفاظت دین و ایمان کے لیے دعا کرتے رہنا :۔
امام صادقں نے زرارہ سے فرمایا تھا کہ ہمارے قائم کی غیبت میں اس قدر شبہات پیدا کیے جائیں گے کہ اچھے خاصے لوگ مشکوک ہو جائیں گے لہٰذا اس دور میں ہر شخص کا فرض ہے کہ سلامتی ایمان کی دعا کرتا رہے اور یاد امام میں مصروف رہے اور عبد الله بن سنان کی امام صادقں سے روایت کی بنا پر کم سے کم ﴿یٰا مُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبیْ عَلٰی دِیْنِکَ﴾ کا ورد کرتا رہے کہ سلامتی دین و ایمان کے لیے یہ بہترین اور مختصر ترین دعا ہے۔
۸ ۔ امام زمانہ سے مصائب و بلیات کے موقع پر استغاثہ کرنا :۔
کہ یہ بھی اعتقاد کے استحکام اور روابط و تعلقات کے دوام کے لیے بہترین طریقہ ہے اور پروردگار عالم نے ائمہ طاہرین کو یہ طاقت اور صلاحیت دی ہے کہ وہ فریاد کرنے والوں کی فریاد رسی کر سکتے ہیں جیساکہ ابو طاہر بن بلال نے امام صادقں سے نقل کیا ہے کہ پروردگار جب اہل زمین تک کوئی برکت نازل کرنا چاہتا ہے تو پیغمبر اکرم سے امام آخر تک سب کو وسیلہ قرار دیتا ہے اور ان کی بارگاہوں سے گزرنے کے بعد برکت بندوں تک پہنچتی ہے اور جب کسی عمل کو منزل قبولیت تک پہنچانا چاہتا ہے تو امام زمانہں سے رسول اکرم تک ہر ایک کے وسیلہ سے گزار کر اپنی بارگاہِ جلالت پناہ تک پہنچاتا ہے اور پھر قبولیت کا شرف عنایت کرتا ہے بلکہ خود امام عصرں نے بھی شیخ مفید کے خط میں تحریر فرمایا تھا کہ تمہارے حالات ہماری نگاہوں سے پوشیدہ نہیں ہیں اور ہم تمہارے مصائب کی مکمل اطلاع رکھتے ہیں اور برابر تمہارے حالات کی نگرانی کرتے رہتے ہیں۔
علامہ مجلسی نے تحفة الزائر میں نقل کیا ہے کہ صاحبانِ حاجت کو چاہیے کہ اپنی حاجت کو کسی کاغذ پر لکھ کر ائمہ طاہرین کی قبور مبارکہ پر پیش کر دیں یا کسی خاک میں رکھ کر دریا یا نہر وغیرہ کے حوالہ کر دیں کہ امام زمانہں اس حاجت کو پورا فرما دیں گے۔ اس عریضہ کی ترسیل میں آپ کے چاروں نواب خاص میں سے کسی کو بھی مخاطب بنایا جا سکتا ہے۔ انشاء الله وہ اسی طرح امام کی بارگاہ میں پیش کریں گے جس طرح اپنی زندگی میں اس فرض کو انجام دیا کرتے تھے اور امامں اسی طرح مقصد کو پورا کریں گے جس طرح اس دور میں کیا کرتے تھے۔