معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ0%

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

مؤلف: مولانا ذيشان حيدر جوادی
زمرہ جات:

مشاہدے: 8291
ڈاؤنلوڈ: 3466

تبصرے:

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 15 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 8291 / ڈاؤنلوڈ: 3466
سائز سائز سائز
معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

معرفت ِ امام عصر عجل الله تعالیٰ فرجہ

مؤلف:
اردو

نواب ِاربعہ

یہ وہ حضرات ہیں جنہیں غیبت ِ صغریٰ کے زمانہ میں نیابت کا کام سپرد کیا گیا ہے اور یہ درحقیقت سفارت کا کام انجام دیتے تھے، یعنی ان کا فریضہ مصادر شریعت کتاب و سنت سے احکام کا استنباط و استخراج کرکے قوم کے حوالے کرنا نہیں تھا بلکہ ان کا کام صرف یہ تھا کہ قوم کے مسائل کو امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف تک پہنچائیں اور جو جواب حاصل ہو، اسے قوم کے حوالے کر دیں۔ یہ کام اگرچہ غیر معمولی علم و دانش اور قوت ِ استنباط و استخراج کا متقاضی نہیں ہے اور ایک عام صلاحیت کا انسان بھی اس کام کو انجام دے سکتا تھا لیکن اس کے باوجود امام عصرں نے غیبت ِ کبریٰ کی صورت حال کے پیش نظر اس کام کے لیے بھی اس دور کے انتہائی ذی علم اور صاحبانِ کردار کا انتخاب کیا تھا تاکہ قوم غیبت ِصغریٰ ہی سے اس نکتہ کی طرف متوجہ ہو جائے کہ نیابت امام کا کام کوئی عام انسان انجام نہیں دے سکتا ہے اور اس نکتہ کے سمجھنے میں آسانی ہو جائے کہ جب اپنی قوت علم و دانش کو استعمال نہیں کرنا ہے اور نعوذ بالله خیانت کریں تو اصلاح کرنے والا امام موجود ہے اور اس کا رابطہ قوم سے قائم ہے تو اس قسم کے بلند مرتبہ افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ تو جب قوت اجتہاد و استنباط کے استعمال کا مرحلہ آئے گا اور اصلاح کرنے والے امام کے بظاہر جملہ روابط سفارت منقطع ہو جائیں گے تو اس دور کے نواب اور وکلاء کے علمی اور عملی مراتب کا کس قدر بلند ہونا ضروری ہوگا اور اس نکتہ کی طرف ائمہ طاہرین نے مختلف ادوار میں اپنے دور کے مروجین احکام کے صفات کے بیان کرنے میں واضح طور پر اشارہ کیا تھا۔

امام عصرں کے چار سفراء جن کو یکے بعد دیگرے سفارت کا منصب حاصل ہوا تھا۔ ان کی مختصر داستان زندگی یہ ہے:

۱ ۔ عثمان بن سعید عمروی

یہ امام علی نقی ں اور امام حسن عسکری ں کے اصحاب میں تھے اور ان کے وکیل خاص تھے۔ حالات کے تحت روغن فروشی کی دکان رکھ لی تھی تاکہ خریداروں کے بھیس میں آنے والوں سے حقوق امام حاصل کر سکیں اور ان کے سوالات کے جوابات امام سے حاصل کرکے ان کے حوالے کر سکیں اور اسی بنا پر انہیں سمّان بھی کہا جاتا ہے۔

احمد بن اسحاق قمی جو خود بھی ایک جلیل القدر عالم تھے ان کا بیان ہے کہ میں نے امام علی نقی ں سے عرض کیا کہ بعض اوقات آپ تک پہنچنا مشکل ہو جاتا ہے تو آپ کے احکام حاصل کرنے کا ذریعہ کیا ہوگا؟۔۔۔۔۔ تو آپ نے فرمایا کہ عثمان بن سعید کی طرف رجوع کرنا یہ جو کچھ کہیں وہ میرا قول ہے اور جو پیغام پہنچائیں وہ میرا پیغام ہے۔ اور آپ کے انتقال کے بعد میں نے یہی سوال امام حسن عسکریں سے کیا تو آپ نے بھی بعینہ یہی جواب دیا۔ بلکہ یمن سے آنے والی ایک جماعت کے بارے میں فرمایا کہ جاؤ ان سے جملہ رقم حاصل کر لو کہ تم میرے معتمد ہو اور جب لوگوں نے سوال کیا کہ آپ نے ان کے مرتبہ کو بہت بلند کر دیا ہے تو فرمایا کہ عثمان بن سعید میرے وکیل ہیں اور ان کا فرزند میرے فرزند کا وکیل ہوگا۔

امام حسن عسکری ں کی شہادت کے بعد امام عصرں نے بھی وکالت کا کام عثمان بن سعید ہی کے پاس رہنے دیا اور ائمہ طاہرین کی نیابت و وکالت کے طفیل میں ان سے اس قدر کرامات کا ظہور ہوتا تھا کہ لوگ دنگ رہ جاتے تھے۔ صاحبانِ مال سے ان کے مال کی مقدار اور اس میں حلال و حرام کا فرق بغیر دیکھے بیان کر دیتے تھے اور اکثر سوال سنے بغیر جواب بتا دیا کرتے تھے۔

واضح رہے کہ امام علی نقی ں اور امام حسن عسکریں کی طرف سے اس طرح کی سند کہ ”ان کا قول میرا قول ہے اور ان کا پیغام میرا پیغام ہے“ ایک ایسے مرتبہ کی نشان دہی کرتی ہے کہ جس کی بنا پر انہیں معصوم کا صحیح پیرو اور محفوظ عن الخطاء بھی شمار کیا جا سکتا ہے۔ کاش دنیا میں کسی بھی مدعی ایمان کو اس طرح کی سند زبان معصوم سے حاصل ہو جاتی ہے۔ جناب عثمان بن سعید کا دور سفارت پانچ سال تک جاری رہا۔

۲ ۔ محمد بن عثمان بن سعید عمروی

انہیں بھی امام عسکری ں ہی نے اپنے فرزند کا وکیل نامزد کر دیا تھا لیکن جب جناب عثمان بن سعید کا انتقال ہوا تو ان کے پاس امام زمانہ عجل الله تعالیٰ فرجہ الشریف کا تعزیت نامہ آیا جس کا مضمون یہ تھا: ”انا للّٰہ و انا الیہ راجعون! ہم امر الٰہی کے سامنے سراپا تسلیم ہیں اور اس کے فیصلہ پر راضی ہیں۔ تمہارے باپ نے نہایت ہی سعیدانہ زندگی گزاری ہے اور ایک قابل تعریف موت پائی ہے۔ خدا ان پر رحمت نازل کرے اور انہیں ان کے اولیاء اور آقاؤں سے ملحق کر دے۔ وہ امور ائمہ میں برابر قرب ِ الٰہید کے لیے کوشاں رہا کرتے تھے۔ خدا ان کے چہرہ کو شاداب کرے اور ان کی لغزشوں کو معاف کرے اور تمہارے ثواب میں اضافہ کرے اور تمہیں صبر جمیل عطا فرمائے۔ یہ مصیبت تمہارے لیے بھی مصیبت ہے اور میرے لیے بھی۔ اس فراق نے تمہیں بھی مضطرب بنا دیا ہے اور مجھے بھی۔ الله انہیں آخرت میں خوش رکھے۔ ان کی سعادت و نیک بختی کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ الله نے انہیں تمہارا جیسا فرزند عطا کیا ہے جو ان کا جانشین اور قائم مقام ہے اور ان کے حق میں دعائے رحمت کرتا ہے۔ میں اس امر پر حمد ِخدا کرتا ہوں۔ پاکیزہ نفوس تم سے اور جو شرف خدا نے تمہیں دیا ہے اس سے خوش ہیں خدا تمہاری مدد کرے، تمہیں قوت عطا کرے اور توفیقات کرامت فرمائے۔ وہی تمہارا سرپرست، محافظ اور نگراں رہے گا۔“

علامہ مجلسی نے کتاب غیبت طوسی کے حوالہ سے نقل کیا ہے کہ جناب عثمان بن سعید کے انتقال کے بعد امام عصرں نے ان کے فرزند کے بارے میں یہ پیغام بھیجا کہ یہ فرزند اپنے باپ کے زمانہ ہی سے ہمارا معتمد تھا (خدا اس سے خوش رہے اور اسے خوش رکھے اور اس کے چہرہ کو روشن رکھے) اب ہمارے لیے یہ اپنے باپ کا نائب اور جانشین ہے۔ یہ ہمارے ہی حکم سے حکم دیتا ہے اور ہمارے ہی احکام پر عمل کرتا ہے، خدا اسے جملہ آفات سے محفوظ رکھے۔!

جناب محمدبن عثمان بن سعید کی دختر نیک اختر ام کلثوم کا بیان ہے کہ میرے پدر بزرگوار نے کئی جلد کتاب تالیف کی تھی جس میں امام حسن عسکریں اور اپنے پدر بزرگوار سے حاصل کیے ہوئے علوم اور احکام کو جمع کیا تھا اور اپنے انتقال کے وقت سارا سامان جناب حسین بن روح کے حوالے کر دیا تھا۔

جناب محمدبن عثمان بن سعید ہی کی یہ روایت ہے کہ امام زمانہں ہر سال حج میں تشریف لاتے ہیں اور لوگوں سے ملاقات بھی کرتے ہیں لیکن لوگ انہیں پہچان نہیں سکتے ہیں۔ بلکہ میری آخری ملاقات بھی حج ہی میں ہوئی ہے جب وہ خانہ خدا کے قریب اس دعا میں مصروف تھے کہ ”خدایا! میرے وعدہ کو پورا فرما۔“ اور پھر مستجار کے قریب پہنچ کر یہ دعا کرنے لگے: ”خدایا! مجھے دشمنوں سے انتقام لینے کا موقع عنایت فرما۔“

انہوں نے چالیس سال سفارت کے فرائض انجام دیے ہیں۔

۳ ۔ جناب حسین بن روح

یہ محمد بن عثمان کے مخصوص اصحاب میں تھے لیکن بظاہر ان کا مرتبہ جعفر بن احمد سے کمتر تھا اور لوگوں کا خیال یہ تھا کہ چوتھے نائب جعفر بن احمد ہی ہوں گے۔ چنانچہ جب محمد بن عثمان کا آخری وقت آیا تو جعفر بن احمد سرہانے بیٹھے اور حسین بن روح پائینتی۔ لیکن جیسے ہی محمد بن عثمان نے یہ پیغام امام سنایا کہ حضرت نے نیابت کے لیے حسین بن روح کے بارے میں نصیحت فرمائی ہے تو فوراً ہی جعفر بن احمد نے انہیں سرہانے بٹھا دیا اور خود پائینتی بیٹھ گئے کہ امام سے بہتر حالات اور مصالح کا جاننے والا کوئی نہیں ہے اور ہمارا فرض ہے کہ ان کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم رکھیں۔

بعض روایات میں اس کا ایک راز یہ بیان کیا گیا ہے کہ ان میں اسرارِ امامت کے چھپانے کی صلاحیت زیادہ تھی اور ان کا برتاؤ بغداد میں تمام مذاہب کے افراد کے ساتھ ایسا تھا کہ ہر شخص انہیں اپنا ہم خیال سمجھتا تھا اور اس بات پر فخر کرتا تھا کہ حسین بن روح ہماری جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور ظاہر ہے کہ اس دور کی سفارت و نیابت کے لیے کمال علم و دانش سے زیادہ اہمیت رازداری اور قوت ِ برداشٹ کی تھی کہ ہزاروں مصائب کے بعد بھی امامت کا راز فاش نہ ہونے پائے اور انسان کسی بھی قیمت پر ان اسرار کا تحفظ کرے۔

حسین بن روح کے بارے میں امام عصرں کے الفاظ یہ تھے:

”ہم انہیں پہچانتے ہیں۔ الله انہیں تمام خیرات اور مرضات کی معرفت عطا کرے اور ان پر عمل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے۔ ہمیں ان کی کتاب ملی ہے اور ہمیں ان پر مکمل اعتماد ہے۔ وہ ہمارے نزدیک ایسا مقام اور ایسی منزلت رکھتے ہیں جو باعث ِ مسرت و اطمینان ہے۔ خدا ان کے بارے میں اپنے احسانات میں اضافہ کرے کہ وہ تمام نعمتوں کا مالک اور ہر چیز پر قادر ہے۔ ساری تعریف اس الله کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں ہے اور صلوات و رحمت اس کے رسول حضرت محمد پر اور ان کی آل طاہرین پر اور اس کا سلام ان تمام حضرات کے لیے۔“

ان کی سفارت کا سلسلہ اکیس سال تک جاری رہا۔

۴ ۔ ابو الحسن علی بن محمد سمری

انہیں جناب حسین بن روح نے حکم امام سے نامزد کیا تھا اور برابر وکالت و سفارت کے فرائض انجام دے رہے تھے اور لوگو کے اموال امام تک پہنچا رہے تھے یہاں تک کہ ان کا وقت ِ وفات قریب آیا تو لوگوں نے عرض کی کہ اب آپ کا نائب کون ہوگا؟ تو انہوں نے فرمایا کہ یہ میرے اختیار کا کام نہیں ہے، خدا اپنے مصالح کو بہتر جانتا ہے اور امام کی طرف سے اب یہ پیغام موصول ہواہے:

”بسم الله الرحمن الرحیم۔ علی بن محمد بن سمری! خدا تمہارے برادران ایمانی کو تمہارے بارے میں عظیم اجر عطا فرمائے کہ اب تمہارا وقت وفات قریب آگیا ہے۔ تمہاری زندگی میں صرف چھ دن باقی رہ گئے ہیں۔ اپنے جملہ امور کو جمع کر لو اور خبردار اپنی جگہ پر کسی کو وصی مت بنانا اس لیے کہ اب مکمل غیبت کا آغاز ہو رہا ہے۔ اب ظہور اذنِ خدا کے بعد ہی ہوگا اور یہ ایک طویل مدت اور قساوت ِ قلوب اور زمین کے ظلم و جور سے بھر جانے کے بعد ہوگا۔ عنقریب میرے شیعوں میں ایسے لوگ بھی پیدا ہوں گے جو میرے مشاہدہ کا دعویٰ کریں گے تو آگاہ ہو جاؤ کہ جو بھی ایسے مشاہدہ کا دعویٰ کرے سفیانی کے خروج اور ندائے آسمانی سے پہلے وہ جھوٹا اور افترا پرداز ہے۔ تمام طاقت اور قوت خدائے علی و عظیم کی توفیق سے وابستہ ہے۔“

جانشینی اور وصایت کی ممانعت کے ساتھ دعائے مشاہدہ کا ذکر اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مشاہدہ سے مراد ملاقات نہیں ہے۔ بلکہ مشاہدہ سے مراد وہ سفارت ہے جس میں برابر ملاقات ہوتی رہتی ہے اور ادھر کے پیغامات اُدھر جاتے رہتے ہیں۔ امام نے اس قسم کے مشاہدہ کی تردید کر دی ہے اور ایسی نیابت کے دعوے دار کو کذاب اور مفتری قرار دے دیا ہے۔ کہ اگر یک طرفہ ملاقات کی بات ہو اور کوئی شخص اپنی ملاقات کا تذکرہ کرے یا امامں سے کسی موقع پر کوئی بات دریافت کرے یا کسی مسئلہ میں مدد حاصل کرے اور اس کی رہنمائی ہو جائے تو یہ تمام باتیں حدود مشاہدہ سے خارج ہیں۔ مشاہدہ کا دعوے دار درحقیقت اس امر کا ادعا کرتا ہے کہ آپ حضرات مسائل اور اموال میرے حوالے کریں۔ میں آئندہ ملاقات میں امام کے حوالے کر دوں گا اور ان سے جوابات حاصل کرلوں گا اور یہ دعویٰ درحقیقت نیابت خاص کا دعویٰ ہے جس کا تعلق غیبت ِ صغریٰ سے تھا اور غیبت ِ کبریٰ میں نیابت خاصہ کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔

اس تشریح کے بعد ملاقات ِ امام عصر کا مسئلہ بالکل واضح ہو جاتا ہے لیکن دو باتیں بہرحال قابل توجہ ہیں:

۱ ۔ انسان کو یہ یقین ہو کہ یہ امام عصر ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ شیطان امام کے نام پر دھوکہ دے دے اور انسان اسی دھوکہ میں دنیا سے گزر جائے۔

۲ ۔ ملاقات کو اپنی ذات تک محدود رکھے اور لوگوں سے بیان نہ کرے اس لیے کہ اس کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہوتا ہے اور سا طرح ہر شخص کو تردید کرنے کا حق ہو جاتا ہے اور یہ بعض اوقات تردید ملاقات یا تو توہین امام کا باعث بھی ہو سکتا ہے جس کی ذمہ داری ملاقات کے دعوے دار پر عائد ہوگی۔ تردید کرنے والے کو بہرحال حق رہے گا۔

ان کی سفارت صرف تین سال رہی اور اس کے بعد غیبت ِ کبریٰ کا آغاز ہوگیا۔