نويد امن وامان

نويد امن وامان0%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان

مؤلف: آيت اللہ صافی گلپایگانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17979
ڈاؤنلوڈ: 3317

تبصرے:

نويد امن وامان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17979 / ڈاؤنلوڈ: 3317
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

بکریاں اور جاندار بلکہ نباتات اور درخت انھیں جراثیم اور سیل کے ذریعہ باقی ہیں یہ جراثیم ہزاروں بلکہ لاکھوں بر س پہلے سے زندہ تھے۔

آگے چل کر مزید تحریر کرتے ہیں کہ ”قابل اعتماد علم کے حامل افراد یہ تسلیم کرتے ہیں کہ حیوان کے جسم کے تمام اعضائے رئیسہ میں لامحدود اور دائمی بقا کی صلاحیت پائی جاتی ہے اور اگررشتہ حیات کو منقطع کرنے والے اسباب وحوادث رونما نہ ہوں تو انسان بھی ہزاروں سال زندگی گزار سکتا ہے، ان حضرات کا نظریہ محض اندازہ اور خیال نہیں ہے بلکہ تجربات کے ذریعہ ثابت ہوچکا ہے۔

نیویارک کی روکفکر لیبوریٹری کے ممبر ڈاکٹر ”الیکس کارل“ ( Alex Carl ) نے حیوان کے بدن کے ایک جداشدہ حصہ کو اس حیوان کی طبیعی عمر سے کہیں زیادہ عرصہ تک زندہ رکھنے میں کامیابی حاصل کی یعنی جدا شدہ حصہ تک اس کی مطلوبہ اور معینہ غذا پہنچتی رہی اور وہ زندہ رہا جس سے صاف پتہ چلتا ہے کہ اگر ہمیشہ مطلوبہ غذا پہنچتی رہے تو ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے۔

یہی تجربہ انہوں نے گھریلو مرغی کے جنین پر بھی کیا وہ جنین آٹھ سال تک زندہ رہا، اسی طرح خود انھوں نے اور دیگر محققین نے انسانی بدن کے بعض اعضاء، پٹھوں، دل، کھال، گردوں پر بھی یہ تجربہ کیا جس سے یہ نتیجہ اخذکیا کہ جب تک اعضاء کو غذا ملتی رہے گی وہ زندہ رہیں گے اور ان میں نشوء نما بھی ہوتی رہے گی۔

جانس ہنکش یونیورسٹی کے پروفیسر ڈائمنڈ وبرل تو یہاں تک دعویٰ کرتے ہیں کہ جسم انسانی کے تمام اعضائے رئیسہ کے سیل کی ابدی زندگی یا تو تجربات کے ذریعہ ثابت ہوچکی ہے یا ان کی ابدی حیات کا احتمال قطعا رجحان کا حامل ہے۔

بظاہر سب سے پہلے حیوانات کے اعضاء پر کامیاب تجربہ کرنے والے روکفلر لیبوریٹری کے ممبر ڈاکٹر جاک لوب تھے، ان کے بعد ڈاکٹر ورن لوئٹس اور ان کی زوجہ نے یہ ثابت کیا کہ مرغ کے جنین کے سیل ( Cells ) کو ایک نمکین مایع میں زندہ رکھا جاسکتا ہے اور اگر اس میں غذا ئی اجزا کا اضافہ کردیا جائے تو ان Cells میں نشوء نما ہوسکتی ہے۔

تجربات کا سلسلہ یوں ہی چلتا رہا اور آخرکار یہ ثابت ہوگیاکہ حیوانی بدن کے سیل کوایسے مایع میں زندہ رکھا جاسکتا ہے جس میں ان سیلز کے لئے ضروری غذائی مواد موجود ہوں لیکن ان تجربات سے یہ ثابت نہ ہوسکا کہ ان اجزاء کو ضعیفی ( Fluids ) کے باعث موت نہ آئے گی،یہاں تک کہ ڈاکٹر کا رل کی تحقیقات سامنے آئیں جن میں انھوں نے ثابت کیا کہ سیلز حیوانات کے بڑھاپے کا سبب نہیں ہیںبلکہ یہ تو معمول سے بہت زیادہ عرصہ تک زندہ رہ سکتے ہیں، ڈاکٹر کارل اور ان کے ساتھیوں نے ہمت نہ ہاری اور سخت جدوجہد کے ساتھ تحقیقات کا سلسلہ جاری رکھا یہاں تک کہ انھوں نے یہ ثابت کیا کہ:

۱ ۔ جسم کے خلیوں ( Cells )کے اجزاء زندہ رہتے ہیں انھیں صرف اسی صورت میں موت آتی ہے جب غذا نہ ملے یا کوئی بیکٹریا ان کو ختم کردے۔

۲ ۔ اجزاء نہ صرف یہ کہ زندہ رہتے ہیں بلکہ ان میں نشوء نما کا سلسلہ جاری رہتا ہے اور ان کی تعداد میں ایسے ہی اضافہ ہوتا رہتا ہے جیسے زندہ جسم کا حصہ ہونے کی صورت میں ہوتا رہتا تھا۔

۳ ۔ ان کی نشو نما اور تعداد میں اضافہ کا تعلق ان کی غذا سے ہے۔

۴ ۔ زمانہ ان کی ضعیفی یا بڑھاپے پر قطعاً اثر انداز نہیں ہوتا اور طول عمر سے ان کی ضعیفی پر معمولی سا بھی اثر نمایاں نہیں ہوتا بلکہ نشوء نما اور توالد وتناسل کا سلسلہ ہر سال گزشتہ برسوں کی مانند جاری رہتا ہے او ربظاہر آثار یہ نظر آتے ہیں کہ جب تک تجربہ کرنے والوں کے ذریعہ ان تک مطلوبہ غذا پہنچتی رہے گی وہ زندہ ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ضعیفی خود سبب نہیں ہے بلکہ نتیجہ ہے۔

پھر وہ خود بھی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ واقعا اگر ایسا ہے تو آخر انسان کو موت کیوں آتی ہے؟ انسان کی عمر محدود کیو ں ہوتی ہے؟ اور آخر کیوں صرف معدودے چند افراد ہی سو سال سے زیادہ عمر گزارتے ہیں؟

وہ جواب دیتے ہیں کہ حیوانات کے جسمانی اعضاء بہت زیادہ ہیں اور مختلف ہونے کے باوجود ان کے اندر اتنا زیادہ تعلق وارتباط بھی ہوتا ہے کہ ایک عضو کی زندگی دوسرے پر موقوف ہوتی ہے۔

لہٰذا جب کوئی عضو کمزور پڑ جاتا ہے یا کسی سبب سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے تودوسرے اعضاء کو بھی موت آجاتی ہے جیسا کہ مائکروب( Microbe ) کی بیماری میں یہ بات صاف طور پر نظر آتی ہے اس لئے اوسط عمر ستر، اسّی سال سے کم ہوتی ہے۔

اب تک کے تجربات اور تحقیقات کا ماحصل یہ ہے کہ انسان کو اس لئے موت نہیں آتی کہ وہ ساٹھ یا ستّر یا اسّی یا سویا اس سے زیادہ سال کا ہوگیا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جسم کے کچھ اجزا بعض عوارض کی بنا پر ختم ہوجاتے ہیں اور اس کے بعد آپسی ارتباط کے باعث ان اجزاء سے تعلق رکھنے والے اجزا بھی مرجاتے ہیں لہٰذا جب علم وسائنس ان عوارض کو برطرف کرنے یا ان کی تاثیر ختم کرنے کے قابل ہوجائے گا تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ انسان سینکڑوں سال زندگی نہ گزار سکے، جب کہ بعض درخت ہزاروں سال تک زندہ رہتے ہیں(۱)

کچھ عرصہ قبل غیر ملکی جرائد سے ایک مقالہ کا ترجمہ روزنامہ ”اطلاعات“ میں شائع ہوا تھا جس میں ضعیفی کے علاج او ردائمی زندگی کے بارے میںچند عالمی شہرت یافتہ ڈاکٹروں کی آخری تحقیقات پیش کی گئی تھیں۔

مذکورہ مقالہ میں صراحت کے ساتھ یہ بات ثابت کی گئی تھی کہ اگر مرنے والے انسان کے بدن سے کوئی حصہ اس کی زندگی میں جدا کرلیا جائے اور پھر اسے مناسب ماحول میں رکھا جائے تو وہ حصہ زندہ رہے گا معلوم ہوا کہ حیات ابدی کا راز مناسب اور سازگار ماحول ہے(۲)

امریکہ میں ایسی کمپنیاں وجود میں آچکی ہیں جو مردوں کو مومیائی کرنے کے بعد منجمد کرکے دیتی ہیں تاکہ انھیں دوبارہ زندہ کیا جاسکے، ان کمپنیوں کا اعلان ہے کہ حیات ابدی کا تصور

____________________

(۱)رسالہ المقتطف شمارہ ۳ سال ۵۹سے ماخوذ ، اصل مقالہ منتخب الاثر ص ۲۸۰تا ۲۸۳ پر نقل ہوا ہے۔

(۲)اطلاعات شمارہ ،۱۱۸۰۵۔

ناقابل قبول نہیں ہے البتہ حیات ابدی کا مطلب لامحدود زندگی نہیں ہے یہ زندگی بھی محدود ہوگی اور تقریباً ایک لاکھ برس سے زیادہ نہ ہوسکے گی! یہ بھی ضروری ہے کہ حیات ابدی تک رسائی کے لئے ہمیں نفسیاتی موانع کو بھی راہ سے ہٹانا پڑے گا اس وقت ہم موت اور محدود ومختصر زندگی کے اتنا زیادہ عادی ہوچکے ہیں کہ ابدی زندگی کے بارے میں سوچتے ہی نہیں ہیں، اس طرز فکر کو تبدیل کرنا ہوگا۔(۱)

اگر ہم طول عمر اور ابدی زندگی کے بارے میں محققین ومفکرین کی تمام آرا ونظریات جمع کریں تو متعدد تفصیلی مقالات کے بعد بھی ہم محققین کے نظریات وتحقیقات بیان نہ کرسکیں گے، البتہ مکمل وثوق کے ساتھ یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ جو حضرات بھی علمی دنیا کے ایسے جرائد ومجلات سے تھوڑا بہت سروکار رکھتے ہیں جن میں دانشوروں کے تازہ ترین نظریات اور جدید ترین تحقیقات اور علم وصنعت کی دنیا میں ہرروز نئی تبدیلیوں اور ارتقاء کے بارے میں رپورٹیں شائع ہوتی ہیں ایسے افراد کو جدید علمی نظریات اور تجربات کے نتائج نیز معمر حضرات کے بارے میں کہیں زیادہ اطلاعات ومعلومات فراہم ہوتی رہتی ہیں۔

ایک اور چیز کہ جس سے طول عمر اور ابدی زندگی کے امکان کو تقویت حاصل ہوتی ہے وہ اعضا کی پیوند کاری ہے یہ کارنامہ اس سال ڈاکٹر برنارڈ نے انجام دیا ہے جس کا چرچا ہر طرف سنائی دیتا ہے(۲)

دوسرے انسان کے بدن میں ایک انسان کے کسی عضو کی پیوندکاری کا مطلب ہے کہ خراب اور بے کار عضو نکال کر اس کی جگہ دوسرا صحیح عضو لگا دیا جائے اور اگر متعدد مرتبہ اس کا امکان ہو تو اس کے معنی یہ ہیں کہ موت کو ٹالا جاسکتا ہے، عین ممکن ہے کہ مستقبل میں مزید بہتر اور آسان امکانات فراہم ہوجائیں۔

____________________

(۱)اطلاعات، شمارہ۱۲۱۴۳، مجلہ دانشمند، شمارہ۶۴/۶۵۔

(۲) یہ اس وقت کی بات ہے جب فاضل مصنف نے یہ مقالہ تحریر فرمایا تھا آج کل تو اعضا کی پیوندکاری میڈیکل سائنس کے روزمرہ کے معمولات کا حصہ ہے۔ (مترجم)

علمی میدان سے اتنی وضاحتیں اور شہادتیں پیش کرنے کے بعد ہم کہتے ہیں کہ ”امام زمانہ حضرت ولی عصر ارواحنافداہ “کی طول عمر او رغیبت کے تسلسل سے متعلق شیعوں کا عقیدہ وایمان، عقل، علم وسائنس اور عالم خلقت وطبیعت پر حکم فرما قوانین کے عین مطابق ہے۔

جب حیات ابدی انسان کے اختیار میں ہوسکتی ہے تو کیا خداوندعالم کے لئے اپنے ولی خاص کو بہت طولانی عمر عطا کرنا مشکل ہے؟

جو کام انسان کے دائرہ قدرت میں ہے کیا وہ کام خالق انسان کے دائرہ قدرت میں نہ ہوگا؟

کیا طویل عمر کے حالات وشرائط حضرت ولی عصرکے لئے فراہم کئے نہیں جاسکتے ہیں؟

پائیدار جوانی

امام زمانہ کے اوصاف وخصوصیات میں یہ بات بھی شامل ہے کہ آپ کے وجود مبارک پر بڑھتی عمر کا کوئی اثر نہ ہوگا، اور ایسا ہونا بھی چاہئے اس لئے کہ اگر طولانی عمر کے باعث پیری وضعیفی کے آثار آپ کے وجود میں پائے جائیں تو آپ وہ تمام اصلاحات اور عظیم انقلاب کیسے برپا کرسکیں گے جو آپ کے ذمہ ہیں۔

لہٰذا جس طرح حکم خداوندی سے آپ کو طویل عمر حاصل ہے اسی طرح اس عالمی رہبر کی جوانی، نشاط اور توانائیاں بھی حکم خدا سے باقی رہیں گی اور اس میں کوئی تعجب کا مقام نہیں ہے اس لئے کہ ہم طول عمر سے متعلق گفتگو میں یہ باتیں ثابت کرچکے ہیں کہ:

۱ ۔ یہ چیز خدا کے دائرہ قدرت میں شامل ہے، جو انسان خدا کے وجود اور اس کی خالقیت پرا یمان رکھتا ہے اور یہ تسلیم کرتا ہے کہ خدا نے ہی مادہ کو پیدا کیا ہے مختلف مادوں کو آپس میں جوڑ کر اتنے مستحکم نظام کے ساتھ یہ کائنات خلق کی ہے صرف یہی عالم نہیں بلکہ وہ عالمین کا خالق ہے کیا وہ خدا کسی انسان کی جوانی، نشاط اور توانائی کو باقی رکھنے پر قادر نہیں ہے؟

۲ ۔ بقائے جوانی کے امکان کا مسئلہ طولانی عمر کے امکان کے ضمن میں حل ہوچکا ہے اور سائنسی تجربات سے اس کی تصدیق وتائید ہوتی ہے، تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے اور بہت سے محققین ضعیفی، کمزوری کے خاتمہ اورجوانی کے بقاء بلکہ واپسی اور بڑھاپے کی تاخیر کو ممکن قرار دیتے ہیں بلکہ اسے اب عملاً مسلّم جانتے ہیں۔

ضعیفی سے مقابلہ اور نشاط ونوجوانی کی واپسی اگرچہ عہد قدیم سے ہی توجہ کا مرکز رہی ہے اور تاریخ خصوصاً مذہبی تاریخ میں جن معمر حضرات کا تذکرہ ملتا ہے ان میں بہت سے جوانی کی نعمت سے مالا مال تھے لیکن جدید علوم کے اعتبار سے اس سلسلہ میں تحقیقات کا سلسلہ اٹھارویں اور انیسویں صدی سے شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

سب سے پہلے ”براؤن اکار“ نامی دانش مند نے ۱۸۶۹ ءء میں ضعیفی کے عالم میں جوانی حاصل کرنے کی کوشش کی اس کے بعد دیگر محققین ”ورونوف“ نے ۱۹۱۸ ءء میں براؤن کے تجربات کی روشنی میں مزید تحقیقات کیں، تجربہ کے لحاظ سے سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ”اشیناش“ کے تجربات ہیں جس نے بعض جانوروں کے تناسلی نظام میں آپریشن کے ذریعہ جوانی واپس لانے کا کارنامہ انجام دیا لیکن ایسے تجربات میں آپریشن سے ہارمون میں نقص وغیرہ جیسے خطرات کا فی پائے جاتے تھے۔(۱)

بعض محققین نے ضعیفی کے اصل اسباب کے لئے راہ علاج تلاش کرنا شروع کردیا کہ ان کے خیال میں بڑھاپے کا اصل سبب سیلز کا کمزور یا پرانا ہوجانا تھا۔

عمر کو طولانی بنانے اور جانوروں پر تجربات کے ذریعہ جوانی کی واپسی کی کوشش کرنے والوں میں ایک مشہور ومعروف ”ڈاکٹر فوردنوف“ کا کہنا ہے: کہ اب تک چھ سو کامیاب تجربہ کرچکا ہوں اوروہ بڑے اعتماد کے ساتھ بھروسہ دلاتے ہیں کہ مستقبل قریب میں معمر افراد کی ازکاررفتہ قوتوں کی تجدید اور ان سے بڑھاپے کے گرد وغبار کا زائل کرنا اور جھکی ہوئی کمر کو دوبارہ سیدھا کرنا ممکن

____________________

(۱)اطلاعات، شمارہ ۸۹۳۰۔

ہوگا اور اس طرح بڑھاپے میں تاخیر اور آخر عمر تک قلب ودماغ کی صحت کے ساتھ عمر کو طویل بنانا بلکہ انسان کے عادات واطوار اور شخصیت میں بھی تبدیلی ممکن ہوگی ۔(۱)

آج میڈیکل سائنس کے محققین کے ذریعہ ضعیفی کا سبب تلاش کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔

اقوام متحدہ کی جانب سے جاری دنیا کی آبادی کے اعداد وشمار اور عمر میں فرق سے متعلق اعداد وشمار کی مناسبت سے ”الثورہ“ اخبار نے مشہور ومعروف ڈاکٹروں کی آراء پر مشتمل ایک مقالہ شائع کیا ہے اس مقالہ کا بیشتر حصہ ضعیفی کے اسباب اور اصل سبب کی شناخت سے متعلق بڑی بڑی یونیورسٹیوں میں کی جانے والی تحقیقات سے تعلق رکھتا ہے۔

مذکورہ مقالہ میں زور دے کر یہ بات کہی گئی ہے کہ بڑھاپے کا عمر کی زیادتی سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ماہرین نفسیات کہتے ہیں کہ کثرت سن کے بجائے جب انسان اپنے کو بے کار اور بے اہمیت سمجھنے لگتا ہے تو اس پر بڑھاپا طاری ہوجاتا ہے، میڈیکل سائنس کے لحاظ سے بڑھاپے کا مطلب یہ ہے کہ جسم کے حیاتی خلیے معمول کے مطابق اپنی ذمہ داری ادا نہیں کرپار ہے ہیں یعنی بقدر ضرورت زندہ سیل بنانے کی صلاحیت ان میں ختم ہوگئی ہے اور اس احساس یا صورت حال کا تعلق سن کی زیادتی سے نہیں ہے بلکہ کبھی بعض عوارض کے باعث انسان کو چالیس سال کی عمر میں ہی یہ احساس ہونے لگتا ہے اور بسااوقات سو سال کی عمر میں بھی اس کے آثار نہیں دکھائی دیتے اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی بنا پر جسم کے ایک حصہ میں ضعیفی کے آثار نمایاں ہونے لگتے ہیں جب کہ دیگر اعضاء میں جوانی اور نشاط کی وہی کیفیت پائی جاتی ہے۔

اس مقالہ کے مطابق جدید میڈیکل سائنس کی نگاہ میں ضعیفی کے تین اسباب ہیں:

۱ ۔ پرانی اور مزمن ( Chronie )بیماریاں : جیسے معدہ کی بیماریاں یا غذا کی قلت کے باعث پیدا ہونے والی بیماریاں وغیرہ۔

____________________

(۱)مجلہ کل شئی، تفسیر طنطاوی، ج۱۷ص۲۲۴۔

۲ ۔ نفسیاتی اور اعصابی حالات: یہ حالات بھی ضعیفی کا باعث یا نشاط کے خاتمہ اور حیاتی سیلز کی قلت کا سبب ہوتے ہیں۔

۳ ۔ بیرونی عوامل: جیسے ماحول، آب و ہوا، سردی ،گرمی یا رطوبت(۱) ضعیفی کا علاج تلاش کرنے والوں میں ایک تاریخی نام ”بوکومالتھس“ کا بھی ہے، مالتھس کا عقیدہ تھا کہ انجکشن کے ذریعہ بدن کی ساخت میںپہلی جیسی نرمی واپس لائی جاسکتی ہے ،مالتھس گھوڑے کو مخصوص انجکشن لگاکرا س گھوڑے سے ایسے انجکشن تیار کرتا تھا جنہیں وہ عرصہ دراز تک مغربی ممالک میں اعلیٰ قیمتوں پر بلیک مارکیٹ میں فروخت کرتا تھا۔

مغربی ممالک میں بھی مالتھس کے نقش قدم پر چلنے والوں میں ”ڈاکٹر پنھانس“ کا شمار ہوتا ہے جو سوئڈ لینڈ کا باشندہ تھا۔

ڈاکٹر پنھانس کا طریقہ یہ تھا کہ ازکار رفتہ نسوں کے اندر کسی دوسرے حیوان یا انسان کی جوان نس لے کر منتقل کردیا کرتا تھا لیکن اس کے لئے یہ ضروری تھا کہ ایک بدن سے نس نکالنے اور دوسرے جسم میں منتقل کرنے کے درمیان ساٹھ منٹ سے زیادہ کا وقفہ نہ ہو۔

ڈاکٹر پنھانس کہتے ہیں کہ اب تک بیس ہزار ایسے تجربات کرچکا ہوں اور کسی میں بھی ناکامی نہیں ہوئی۔

کچھ عرصہ قبل رومانیہ کے ڈاکٹر ”اصلان“ نے ضعیفی سے مقابلہ کے لئے ایک نیا مادہ بنام H-۳ پیش کیا ہے جو اس وقت تقریباً پوری دنیا میں استعمال ہورہا ہے اسے استعمال کرنے والوں میں مشہور ڈاکٹر” شرمن“ کہتے ہیں کہ اس مادہ سے جلد ملائم ہوجاتی ہے اور بدن کی تکان بھی دور ہوتی ہے یہ حافظہ کو قوی کرتا ہے اور اس سے نیند بھی خوب اچھی طرح آتی ہے۔

ڈاکٹر شرمن کہتے ہیں کہ اس دوا سے جو نتائج حاصل ہوتے ہیں ان میں ۴۰ فیصدمیں مکمل کامیابی

____________________

(۱)روزنامہ الثورة مطبوعہ بغداد شمارہ ۹۴ سال اول۔

۳۵ فیصدمیں مناسب کامیابی اور ۲۵ فیصد موارد میں ناکامی ہوئی(۱)

فرانس کے مشہور ومعروف ماہر حیاتیات ”بلوفر“ شہد کی مکھیوں سے متعلق اپنی مشہور تحقیقات کے دوران حیرت انگیز مسئلہ سے دو چار ہوئے اور آخرکار اسے حل کرنے کے لئے انھوں نے انتھک کوشش کی اور وہ ”رانی مکھی“ کی بھرپور جوانی اور نشاط کے ساتھ اس کی طویل زندگی“ کا مسئلہ تھا۔

اپنی تحقیقات کے دوران انھوں نے پایا کہ رانی مکھی زندگی بھر وہ مخصوص غذا استعمال کرتی ہے کہ جو دوسری کام کرنے والی مکھیاں تیار کرتی ہیں جب کہ عام مکھیاں زندگی کے صرف ابتدائی تین ایام میں ہی اس پراسرار دستر خوان سے غذا استعمال کرتی ہیں، آخر یہ حیرت انگیز غذا کیا ہے؟ کیا واقعا اسی پر اسرار غذا میں رانی مکھی کی جوانی، رعنائی اور طویل عمر کا راز پوشیدہ ہے کہ رانی مکھی عام مکھیوں کی بہ نسبت چار سو گنا زیادہ زندہ رہتی ہے؟

فرانس کے اس محقق نے ۱۹۳۸ ءء میں شب وروز اسی مشکل مسئلہ کو حل کرنے کے لئے مسلسل تگ ودو کی اور آخرکار بڑی گراں قدر کامیابیاں حاصل کیں۔

اس دسترخوان ”شاہانہ شہد“( Royal Jelly ) کی ترکیبات واقعا اسرار آمیز ہیں اور اس کے بارے میں صرف اتنا معلوم ہوسکا ہے کہ اس میں کاربن، ہائڈروجن، نائٹروجن Azote -، آرگیسٹرول، وٹامن بی اور بالخصوص ایسڈ بانتو نشیک کافی مقدار میں پایا جاتاہے۔

بلوفر نے اپنی ۱۴/ سالہ تحقیقات کے ذریعہ ثابت کیا کہ شہد کی مکھیوں کی جنین کی تبدیلی وتکامل اور رانی مکھی کی جوانی سے بھرپور طویل عمر میں ”شاہانہ شہد“ ( Royal Jelly ) حیرت انگیز حد تک موثر ہے اسی طرح اس نے اس مادہ سے ایک دوا تیار کی جو ”ا ے پی سرم“ کے نام سے مشہور ہوئی، یہ دوا اس نے جب بوڑھے افراد کے لئے تجویز کی تو اس سے حیرت انگیز نتائج حاصل ہوئے،بلوفر نے اپنے تجربات کی بنیا دپر یہ اعلان کیا کہ شاہانہ شہد کے ذریعہ انسان کی ضعیفی کو مکمل طور پرروکاتو نہیں

____________________

(۱)اطلاعات شمارہ،۵۔۱۱۸۰۔

جاسکتا لیکن دوران جوانی کومزید طویل بنایا جاسکتا ہے ایسی جوانی کہ جس میں قوت وتندرستی بھرپور طورپر موجود ہو، درحقیقت ”اے پی سرم“ کوئی دوا نہیں تھی مگر ایک معجز نما اور حیات بخش نعمت تھی۔(۱)

روزنامہ اطلاعات میں فرانسیسی نیوز ایجنسی سروسز کے حوالہ سے ایک مقالہ شائع ہوا ہے جس کا عنوان ہے ”انسان عمر کے آخری مرحلہ تک مکمل جوان اور شاداب رہے گا“ اس مقالہ میں مذکور ہے کہ ”کیوبک میں منعقدہ اطباء کی آخری بین الاقوامی کانفرنس کے تبادلہ خیال کے نتیجہ میں اس سوال کا کہ ”کیا موت کی منزل تک ضعیفی کا علاج،اور شباب وشادابی کی بقا ممکن ہے؟“ اب مثبت جواب دیا جاسکتا ہے، اسی مقالہ میں امریکی محقق اور بروکلین ریسرچ سنٹر سے وابستہ ”ڈاکٹر ھاورڈ کورئیس“ کے حوالہ سے یہ بات بھی کہی گئی کہ ضعیفی اور بدن کے Cells کا فرسودہ وبے کار ہونا درحقیقت D.N.A .نامی سیل کی خرابی کے باعث ہوتا ہے جس کی وجہ سے سیلز بننے کی مقدار کم ہوجاتی ہے او ربعض ادویات کے ذریعہ اس کا علاج ممکن ہے اس طرح دواؤں کے ذریعہ ضعیفی کو روکنا ممکن ہے۔

مقالہ میں مزید یہ لکھا ہے کہ اس وقت دنیا میں ضعیفی روکنے کے لئے جن تحقیقاتی اداروں اور ریسرچ سنٹروں میں تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے ان میں بخارسٹ، پیرس اور بالٹیمور کے ریسرچ کرنے والے مراکز زیادہ اہمیت کے حامل ہیں، بالٹیمور میں اس وقت ۱۸/ سال سے لے کر ۹۹ / سال کے چھ سو افراد پر تجربات جاری ہیں۔

روزنامہ مقالہ کے آخر میں لکھتا ہے کہ اس وقت ڈاکٹروں کی کوشش یہ ہے کہ ادویات کے ذریعہ D.N.A کی خرابی کو روکا جاسکے اور اس سلسلہ میں خاطرخواہ کامیابی ملی ہے لہٰذا یہ کہا جاسکتا ہے کہ بہت جلد ضعیفی نامی بیماری کا خاتمہ ہوجائے گا۔(۲)

____________________

(۱)روزنامہ اطلاعات، شمارہ۸۹۳۰۔

(۲)اطلاعات، شمارہ ۱۲۶۷۲۔

طویل عمر کے ساتھ جوانی

ایسے افراد بہت ہیں جو طویل عمر کے باوجود جوانی کی نعمت سے مالامال تھے، بطور نمونہ کولمبیا کا رہنے والا ”پی پرارا“ نامی شخص ہے جس کی عمر ۱۶۷ سال تھی اس شخص کے بارے میں روزنامہ اطلاعات کے شمارہ ۹۱۲۱ اور ۹۲۳۶ میں تفصیلات شائع ہوئی ہیں، ۱۶۷ سال کی عمر میں بھی اس شخص کی جوانی کی قوتیں صحیح وسالم تھیں، اس کی ہڈیاں اور جوڑ بند اتنے مضبوط تھے کہ جوان ایسی ہڈیوں اور جوڑوں کی صرف تمنا کرتے ہیں تجربات سے یہ بات سامنے آئی کہ اتنی عمر کے باوجود اس کی رگوں میں کیلشیم کی کمی کا کوئی اثر نہیں تھا جب کہ ۹۰ فی صدسن رسیدہ افراد کے یہاں یہ خرابی عموماً پائی جاتی ہے۔

کینیا میں ایک ۱۵۸ سالہ شخص موجود ہے اور کچھ عرصہ قبل اس کے اپنڈکس کا آپریشن کیاگیا ہے، اس عمر میں یہ شخص جوانوں کے درمیان جوان ترین افراد سے بھی زیادہ جوان ہے۔(۱)

چند سال قبل روس کے باشندے ”عیوض رف“ کے بارے میں یہ خبر شائع ہوئی کہ موصوف ۱۴۷ سا ل کی عمر میں بھی اپنے تمام امور خود انجام دیتے ہیں گھوڑسواری کرتے ہیں اور بہ نفس نفیس انگور کے باغ کی دیکھ بھال کرتے ہیں(۲)

چین میں ”دلی چینگ“ نامی شخص کی ۲۵۳ سال کی عمر میں بھی بال سیاہ اور شباب کی رعنائیاں برقرار تھیں جب کہ موصوف کی ۲۳ بیویاں ان کے گھر میں خداکوپیاری ہوچکی تھیں۔(۳)

آسٹریا میں ایک صاحب نے اپنی ۱۴۰ ویں سالگرہ اس عالم میں منائی کہ موصوف اب بھی زراعت کے امور خود انجام دیتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ ”مجھے یادنہیں کہ زندگی میں کبھی بیماری میرے نزدیک آئی ہو۔“(۴)

____________________

(۱)اطلاعات، شمارہ۱۲۶۷۲۔

(۲)اطلاعات ۱۱۸۰۵۔

(۳)الامالی المنتخبہ شیخ عبدالواحد مظفری، ص۷۹ مطبوعہ نجف۔ (۴)اطلاعات،۸۷۳۹۔

شمالی قفقاز کے ایک گاؤں ”گالون“کی رہنے والی ”گوھوگا“ نامی خاتون نے اپنی ۱۴۷ ویں سالگرہ کا جشن منایا، اس عمر میں بھی اس کے نشاط میں کوئی کمی نہیں آئی اوربصارت وسماعت بھی قطعاً متاثر نہیں ہوئی ہے(۱)

گذشتہ بیانات سے یہ واضح ہوجاتاہے کہ آخر عمر تک شباب ونشاط کا باقی رہنا ناممکن نہیں ہے اور بہت سے ایسے عمرِدراز کے مالک افراد گذرے ہیں جو آخر وقت تک تمام رعنائیوں کے ساتھ زندگی گزارتے رہے یہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہے اس وقت محققین یہ تلاش کرنے میں اپنی توانائیاں صرف کررہے ہیں کہ ضعیفی کے اسباب کیا ہیں ؟اور کس طرح جوانی کو برقرار رکھا جاسکتا ہے اور کس طرح ان معمر حضرات نے اپنی توانائیوں کو باقی رکھا ہے ۔

ماہرین کی رائے سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس سلسلہ میں بشریت کو مستقبل میں بہت سی کامیابیاں ملنے والی ہیں۔

بہر حال ان باتوں سے ہمارا مقصود یہ ثابت کرنا تھا کہ ضعیفی وبڑھاپے کے بغیر بھی طویل عمر ممکن ہے تاکہ ضعیف ایمان والے بھی اسے تسلیم کرلیں اور اسے عجیب وغریب اور بعید از عقل قرار نہ دیںورنہ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی طویل عمر او ربقائے جوانی کے لئے ہمارا اصل سرمایہ قدرت خدا، انبیاء واوصیاء الٰہی کی بیان کردہ خبریںہیں اور ہم انھیں کو مضبوط ترین دلیل سمجھتے ہیں اور قرین عقل اسی دلیل پر ایمان رکھتے ہیں چاہے امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ تاریخ بشریت میں تن تنہا طویل عمر کے مالک ہوں اور طول عمر کے باوجود صرف آپ کی ہی جوانی برقرار رہے، چاہے محققین اپنے تجربات کے سہارے کسی نتیجہ تک نہ پہنچ سکیں اور اعلان کردیں کہ سائنس کے لئے طویل عمر بنانا ممکن نہیں ہے ان تمام باتوں سے ہمارے اوپر کوئی فرق پڑنے والا نہیں ہے کیونکہ حضرت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی جوانی اور طول عمر عقلی اعتبار سے ایسے مویدات کی محتاج نہیں ہے،یہ مسئلہ قدرت خدا کا مسئلہ ہے، اعجاز، خرق عادت اور مشیت

____________________

(۱)اطلاعات اخبار شمارہ ۹۱۹۸۔

ایسے مسائل میں اس طرح کے مویدات کی موجودگی اور عدم موجودگی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

روایات

شیخ صدوق نے اپنی کتاب ”کمال الدین“ اور علی بن محمد خزاز رازی نے ”کفایة الاثر“ میں امام حسن مجتبیٰ علیہ السلام سے ایک روایت نقل کی ہے۔ امام حسن نے فرمایا: ”میرے بھائی حسین کے نویں فرزند کی عمر کو خداوندعالم غیبت کے دوران طویل کردے گا اور اس کے بعد اپنی قدرت کے ذریعہ انہیں اس طرح ظاہر کرے گا کہ وہ چالیس سال سے بھی کم عمر کے جوان دکھائی دینگے ۔

( وذلک لیعلم ان الله علی کل شیء قدیر ) (۱)

تاکہ معلوم ہوجائے کہ خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔

شیخ صدوق نے امام رضا علیہ السلام سے ایک حدیث کے ضمن میں اس طرح نقل کیا ہے:

القائم هو الذی اذا خرج کان فی سنّ الشیوخ ومنظر الشُبّان قویٌ فی بدنه(۲)

”قائم وہ ہیں کہ جب ظاہر ہوں گے تو سن بزرگوں کا ہوگا لیکن شکل وشمائل جوانوں کی سی ہوگی اوربدن قوی ہوگا۔“

ابو ا لصلت ہروی امام رضا علیہ السلام سے ایک روایت میں نقل کرتے ہیں کہ میں نے امام رضا سے دریافت کیا کہ قائم جب ظہور کریں گے تو ان کی علامت کیا ہوگی؟ امام علیہ السلام نے فرمایا: ”ان کی علامت یہ ہے کہ عمر ضعیفوں کی ہوگی مگر شکل وصورت جوانوں کے مانند ہوگی کہ جو بھی آپ کو دیکھے گا چالیس برس یا اس سے بھی کم عمر کا گمان کرے گا،ان کی علامتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ

____________________

(۱)منتخب الاثر، ص۲۰۶باب۱۰فصل۲ج۶۔

(۲)منتخب الاثر، باب۱۷فصل۲ج۲،ص۲۲۱۔

دنیا سے رخصت ہونے تک ان پر گردش شب وروز کا کوئی اثر نہ ہوگا“(۱)

برادران اہل سنت کی خدمت میں دو باتیں

اہل سنت کے بہت سے بزرگ اور نامور علماء ،ائمہ اثنیٰ عشر کی ولایت وجانشینی کے قائل ہیں اور اسی طرح امام زمانہ کے مہدی موعود ہونے کا بھی عقیدہ رکھتے ہیں یہاں تک کہ بعض حضرات امام زمانہ عج کی زیارت کے مدعی بھی ہیں اور آپ کے بہت سے معجزات ان علماء نے نقل کئے ہیں۔

بہت سے ایسے علمائے اہل سنت بھی ہیں جو مہدی موعود کی تعیین کے بارے میں شیعوں کے ساتھ اختلاف رکھتے ہیں لیکن اس پر اتنے زیادہ تعصب کا مظاہرہ بھی نہیں کرتے اور نہ ہی اسے شیعوں اور سنیوں کے درمیان بنیادی اختلاف کا باعث گردانتے ہیں بلکہ اسے ایک جزوی مسئلہ قرار دیتے ہیں اوران کی نگاہ میں اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے۔

چوں کہ دونوں فرقوں کے نزدیک یہ بات توحتمی اور متفق علیہ ہے کہ آخری زمانہ میں حضرت مہدی کا ظہور ہوگا لہٰذا یہ حضرات کہتے ہیں کہ جب آسمانی آواز جیسی حتمی علامات ظاہر ہوجائیں گی تو یہ جزئی اختلاف بھی ختم ہوجائے گا۔

اسی طرح مہدی موعود سے متعلق شیعوں کا عقیدہ فریقین کے درمیان مسلّم اور متواتر روایات کے خلاف بہرحال نہیں ہے تو آخر اس مسئلہ میں سنّیوں کی جانب سے شیعوں کی اتنی مخالفت کیوں ہوتی ہے؟ کیوں اس مسئلہ کو اختلاف اور بحث ومباحثہ کا موضوع بنایا جاتا ہے؟ جب شیعوں کی جانب سے اس موضوع پر اتفاق واجماع کے خلاف کوئی بات نہیں کہی جاتی ہے توآخر شیعوں کی تردید کیوں کی جاتی ہے؟

اہل سنت کے معاصر عالم ”استاد محمد زکی ابراہیم رائد“ نے عشیرہ محمدیہ نیمہ شعبان اورمہدی

____________________

(۱)منتخب الاثر،باب۳۱فصل۲ج۲۔

منتظرکی مناسبت سے اپنے مقالہ جو مجلہ ”المسلم“ اور مجلہ ”العشیرة المحمدیہ“ (مطبوعہ مصر شعبان ۱۳۸۷) میں شائع ہوا ایک فصل ”موعود آخرالزمان فی مختلف المذاہب والادیان“ کے عنوان سے قائم کی ہے۔ اس فصل میں استاد زکی ابراہیم تحریر فرماتے ہیں: ”مہدی موعود کے بارے میں شیعوں کے نظریات کی تشریح ہم کسی اور موقع پر پیش کریں گے لیکن برادران شیعہ جس چیز کے قائل ہیں اس کی بازگشت جمہور اہل سنت کے بنیادی اصول ومبادی کی طرف ہی ہے ان اصول کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی آرزووں کو پورا کرنے والے اور بشریت کے بدترین حالات کی اصلاح کرنے والے مہدی اہلبیت کاظہور یقینی ہے۔“

جیسا کہ آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں کہ فاضل مقالہ نگار نے مہدویت کے بارے میں شیعوں کے عقیدہ کو شیعہ وسنی دونوں کے درمیان متفق علیہ اصول ومبانی کے موافق ومطابق بتایا ہے اور ادب واحترام کا پاس ولحاظ رکھتے ہوئے شیعوں کے جذبات کو مجروح کئے بغیر شائستہ انداز میں گفتگو کی ہے اور دشنام طرازی وہرزہ سرائی سے دور رہ کر قلم کو حرکت دی ہے مگر افسوس ایسے افراد بھی ہیں جو ہمیشہ اتحاد بین المسلمین کی راہ میں رکاوٹ بنتے ہیں، دونوں فرقوں کے درمیان غلط فہمیاں پھیلاکر اختلاف کی آگ کو ہمیشہ شعلہ ور رکھتے ہیں اور اس طرح ان دونوںفرقوں کے درمیان خلیج میں اضافہ کرتے رہتے ہیں، جو آپس میں مسالمت آمیز زندگی بسر کرسکتے ہیں اور دشمنان اسلام کو ہم آواز ہوکر للکار سکتے ہیں ۔

ایسے مفاد پرست افراد ہمارے دور میں تو شائد عالمی سامراج اور صہیونزم کے آلہ کار اور ایجنٹ محسوس ہوتے ہیں ایسے افراد کو شیعوں اور سنیوں کے درمیان بے شمار مشترکات اور متفق علیہ مسائل نظر نہیں آتے یہ لوگ ایسے اختلافی مسائل کے درپے رہتے ہیں جن کے ذریعہ مسلمانوں کے اتحاد کو ختم کرکے ان کی صفوں میں انتشار پیدا کرسکیں، ایسے جزئی اور معمولی اختلافی مسائل کے سہارے جن کا آج کے زمانہ میں کوئی وجود ہی نہیں ہے رائی کا پہاڑ تیار کرتے ہیں اور جب کبھی زبان یا قلم سے اظہار کا موقع آتا ہے تو دشنام طرازی اور افتراء پردازی سے کام لے کر شیعوں پر بے بنیاد الزام لگاتے ہیں تاکہ شیعہ بھی غصہ میں آکر جوابی کارروائی کریں اور دونوں کی آپسی لڑائی سے دشمنان اسلام اور سامراجی طاقتوں کو فائدہ پہنچے،آج کم وبیش سبھی کو معلوم ہے کہ اسلام ومسلمین کے بارے میں سامراجی طاقتوں کے کیا عزائم ہیں اپنے زعم باطل میں یہ قوتیں دونوں فرقوں کی عظمت دیرینہ کو ختم کرنا چاہتی ہیں بلکہ ان کااصل مقصد مسلمانوں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرکے انھیں ایک دوسرے کا خونی دشمن بناکر کفار کو ان پر مسلط کرنا ہے۔

سردست ہمارا مقصد ایسے ضمیر فروش صاحبان قلم یا حکمرانوں کی شناخت کرانا نہیں ہے جو اس زمانہ میں مذہبی، قومی، ملکی، نسلی یا لسانی مسائل کے ذریعہ انتشار پھیلاکر پوری امت مسلمہ کو نقصان پہنچا رہے ہیں، البتہ ماضی وحال میں خود کو اہلسنت کہنے والے ”ابن حجر“ اور ”محب الدین خطیب“ جیسے لوگوں کی جانب سے اس انتشار کو مزید ہوا دینے کے لئے شیعوں پر جو الزامات عائد کئے جاتے رہے ہیں ان میں سے حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی طویل عمر کا مسئلہ بھی ہے، اس عقیدہ کے باعث شیعوں کامذاق اڑایا جاتا ہے انھیں برا بھلا کہا جاتا ہے اورا ن کی طرف جہالت ونادانی کی نسبت دی جاتی ہے، شیعوں کے جذبات کو مجروح اور انکے افکار منحرف کرنے کے لئے ایسی سخت وسست باتیں کہی جاتی ہیں کہ گویا امام زمانہ کی طویل عمر کو تسلیم کرکے شیعوں نے انتہائی احمقانہ اور نامعقول نظریہ قائم کرلیا ہے۔

ہم ان حضرات کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ آپ مسلمان ہیں، خداوندعالم کی قدرت کاملہ پر ایمان رکھتے ہیں تو آخر ہم پر اعتراض کیوں کرتے ہیں؟

آپ ان لوگوں کا مذاق کیوں اُڑاتے ہیں جو خدا کو اس بات پر قادر سمجھتے ہیں کہ وہ اپنے کسی خاص بندے کی عمر کو مصلحتوں کے مطابق طولانی کرسکتا ہے کیا آپ خدا کو قادر مطلق نہیں مانتے ہیں؟

کیا آپ نے قرآن نہیں پڑھا؟ قرآن حضرت نوح کے بارے میں اعلان کرتا ہے:

( فلبث فیهم الف سنة اِلّا خمسین عاماً ) (۱)

____________________

(۱) سورہ عنکبوت،۱۴۔