نويد امن وامان

نويد امن وامان0%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان

مؤلف: آيت اللہ صافی گلپایگانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17971
ڈاؤنلوڈ: 3317

تبصرے:

نويد امن وامان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17971 / ڈاؤنلوڈ: 3317
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

سے کی گئی ہے ذیل میں صرف چند آیات پیش کی جارہی ہیں۔

( لیستخلفنّهم في الارض ) (۱)

یا( لیظهره علی الدین کله )

بہت سے مفسرین جیسے ابن عباس، سعید بن جبیر، اور سدی نے کہا ہے کہ اس وعدہ الٰہی کی تکمیل حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کے ذریعہ ہوگی(۲)

یا( ولقد کتبنا في الزبور ) (۳)

( الذین یوٴمنون بالغیب ) (۴)

( ونرید ان نمنّ علی الذین استُضعفوا في الارض ) (۵)

واِنه لعلمٌ للساعة “ اس آیہ کریمہ کے سلسلہ میں مقاتل بن سلیمان اور انکے تابع تمام مفسرین کا نظریہ ہے کہ یہ آیت حضرت مہدی کے بارے میں نازل ہوئی ہے(۶)

۲ ۔ ظہور سے متعلق روایات

ظہور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف سے متعلق بے شمار روایات ہیں ان روایات کی کثرت کو دیکھ کر بااطمینان یہ کہا جاسکتا ہے کہ دوسرے کسی اسلامی موضوع سے متعلق اتنی روایات شائد ہی ہوں، اتنی کثیر روایات کادسواں حصہ بلکہ ان کے ایک فیصد کو بھی رد کردینا خلاف ایمان

____________________

(۱)ینابیع المودة،ص۴۲۶ ، تفسیر غرائب القرآن نیشاپوری۔

(۲) تفسیر فخر، السراج المنیر شربینی، البیان ص۱۰۹، نورالابصارص۱۵۳ باب۲۔

(۳)ینابیع المودة،ص۴۲۵۔

(۴)غرائب القرآن، تفسیر کبیر۔

(۵)شرح ابن ابی الحدید،ج۴ص۳۳۶۔

(۶)اسعاف الراغبین، باب ۲ ص۱۴۱، نورالابصار، باب ۲ ص۱۵۳، ینابیع المودة، ص۱۵۳، البیان، ص۱۰۹۔

اورعقلا کے نزدیک قبول روایت کے معتبر طریقوں کے سراسر منافی ہے مزید یہ کہ ان میں سے بعض روایات میں ایسے قرائن بھی موجود ہیں جن سے ان کے قطعی ہونے کا یقین حاصل ہوجاتا ہے اور ان کے بارے میں کوئی شک وتردد باقی نہیں رہ جاتا۔

ان روایات میں احادیث ”عالیة السند“ اور ایسی احادیث بکثرت ہیں جن کے راوی موثق وممدوح ہیں، تاریخ، رجال اور حدیث کی کتابوں کے سرسری مطالعہ سے یہ بات بخوبی محسوس کی جاسکتی ہے کہ راویوں کے درمیان ان روایات کی بہت شہرت تھی، اور راویان کرام ان روایات کے مضامین ومطالب کے سلسلہ میںصحابہ اور تابعین سے توضیح وتشریح کے طالب رہتے تھے اورا ن کے مضامین کو مسلم الثبوت اور حتمی الوقوع سمجھتے تھے بعض اصحاب جیسے کہ ”حذیفہ بن یمان“ کو ان روایات کے بارے میں مہارت تامّہ حاصل تھی۔

۳ ۔ تواتر روایات

اہل سنت کے حفاظ ومحدثین کی کثیر تعداد مثلا صبان نے اسعاف الراغبین (باب ۲ ص ۱۴۰ مطبوعہ مصر ۱۳۱۲) شبلی نے نورا لابصار (ص ۱۵۵ مطبوعہ مصر ۱۳۱۲) ، شیخ عبدالحق نے لمعات میں بحوالہ حاشیہ سنن ترمذی (ص ۴۶ ج ۲ مطبوعہ دہلی) ابی الحسین آبری بحوالہ صواعق (ص ۹۹ مطبوعہ مصر) ابن حجر، سید احمد بن سید زینی دحلان مفتی شافعیہ نے فتوحات الاسلامیہ (ج ۲ ص ۲۱۱ مطبوعہ مصر) حافظ نے فتح الباری، شوکانی نے التوضیح میںبحوالہ غایة المامول (ص ۳۸۲ ج ۵) گنجی شافعی نے ”البیان“ (باب ۱۱) شیخ منصور علی ناصف نے غایة المامول، استاد احمد محمد صدیق نے ”ابراز الوھم المکنون“، ابوالطیب نے ”الاذاعة“ ابوالحسن سحری اور عبدالوھاب عبداللطیف استاد دانش کدہ شریعت نے حاشیہ ”صواعق“ میں صراحت کے ساتھ امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہکے اوصاف وعلائم کے بارے میں وارد ہونے والی روایات کے ”متواتر“ ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

علامہ شوکانی نے تو اِن روایات کے تواتر کے سلسلہ میں ”التوضیح في تواتر ما جاء فيالمنتظروالدجال والمسیح “ کے نام سے ایک مکمل کتاب تالیف فرمائی ہے، محمد بن جعفر الکتانی اپنی کتاب ”نظم المتناثر“ میں فرماتے ہیں ”الاحادیث الواردة في المهدي المنتظر متواترة “ ”مہدی منتظر کے سلسلہ میں وارد احادیث متواتر ہیں۔“

شیخ محمد زاہدکوثری اپنی کتاب ”نظرة عابرة“ میں تحریر کرتے ہیں ”واما تواتر اٴحادیث المهدي والدجال والمسیح فلیس بموضع ریب عند اهل العلم بالحدیث “ مہدی، دجال، مسیح کے متعلق احادیث کا تواترعلماء علم حدیث کے نزدیک شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ واسنوی ”مناقب شافعیہ“ میں فرماتے ہیں ”ظہور مہدی اور آپ کے اہلبیت پیغمبر ہونے سے متعلق روایات متواتر ہیں۔“

۴ ۔چند اصحاب کے اسماء جن سے اہل سنت نے ان روایات کو نقل کیا ہے:

۱ ۔حضرت علی ، ۲ ۔حضرت امام حسن ، ۳ ۔حضرت امام حسین ، ۴ ۔حضرت فاطمہ، ۵ ۔ ام المومنین عائشہ، ۶ ۔عبداللہ بن مسعود، ۷ ۔عبداللہ بن عباس، ۸ ۔عبداللہ بن عمر، ۹ ۔عبداللہ بن عمرو، ۱۰ ۔سلمان فارسی، ۱۱ ۔ابوایوب انصاری، ۱۲ ۔ابوعلی الہلالی، ۱۳ ۔جابر بن عبداللہ انصاری، ۱۴ ۔جابر بن سمرہ، ۱۵ ۔ثوبان، ۱۶ ۔ابوسعید الخدری، ۱۷ ۔عبدالرحمن بن عوف، ۱۸ ۔ابوسلمیٰ، ۱۹ ۔ابوہریرہ، ۲۰ ۔انس بن مالک، ۲۱ ۔عوف بن مالک، ۲۲ ۔حذیفہ بن الیمان، ۲۳ ۔ابولیلیٰ الانصاری، ۲۴ ۔جابر بن ماجد صدفی، ۲۵ ۔عدی بن حاتم، ۲۶ ۔طلحہ بن عبیداللہ، ۲۷ ۔قرة بن ایاس مزنی، ۲۸ ۔عبداللہ بن الحارث بن جزء، ۲۹ ۔ابوامامہ، ۳۰ ۔عمروبن العاص، ۳۱ ۔عمار بن یاسر، ۳۲ ۔ابوالطفیل، ۳۳ ۔ام سلمہ، ۳۴ ۔اویس ثقفی(۱)

____________________

(۱)غالباً صحیح نام ”اوس“ ہے جو کہ متعدد اصحاب کا نام تھا جیسے اوس بن حذیفہ، اوس بن ابی اوس ثقفی، اوس بن اوس ثقفی، اوس بن عوف ثقفی لیکن ”بدائع الظہور“ میں نزول حضرت عیسیٰ اور ان کے حضرت مہدی کی اقتدا سے متعلق حدیث میں اسی (اویس) نام کی تصریح ہے۔قال اویس الثقفی :سمعت رسول الله ۔

۵ ۔ مشہور علماء اہلسنت اوران کی وہ کتب جن میں ظہور سے متعلق احادیث موجود ہیں:

۱ ۔مسند احمد، ۲ ۔سنن ترمذی۔ ۳ و ۴ ، کنزالعمال ومنتخب کنز العمال علی متقی ہندی مکی، ۵ ۔سنن ابن ماجہ، ۶ ۔سنن ابی داود، ۷ ۔صحیح مسلم، ۸ ۔صحیح بخاری، ۹ ۔ینابیع المودة قندوزی، ۱۰ ۔مودة القربی ہمدانی، ۱۱ ۔فرائد السمطین حموینی شافعی، ۱۲ و ۱۳ ۔مناقب ومقتل خوارزمی، ۱۴ ۔اربعین حافظ ابی الفوارس، ۱۵ ۔مصابیح السنة بغوی، ۱۶ ۔التاج الجامع للاصول شیخ منصور علی ناصف، ۱۷ ۔صواعق ابن حجر، ۱۸ ۔جواہر العقدین شریف سمہودی، ۱۹ ۔سنن بیہقی، ۲۰ ۔الجامع الصغیر سیوطی، ۲۱ ۔جامع الاصول ابن اثیر، ۲۲ ۔تیسیر الوصول ابن الدیبع شیبانی، ۲۳ ۔المستدرک حاکم، ۲۴ ۔معجم کبیر طبرانی، ۲۵ ۔معجم اوسط طبرانی، ۲۶ ۔معجم صغیر طبرانی، ۲۷ ۔الدر المنثور سیوطی، ۲۸ ۔نورالابصار شبلنجی، ۲۹ ۔اسعاف الراغبین صبان، ۳۰ ۔مطالب السول محمد بن طلحہ شافعی، ۳۱ ۔تاریخ اصفہان ابن مندہ، ۳۲ و ۳۳ ۔تاریخ اصفہان وحلیة الاولیاء حافظ ابی نعیم، ۳۴ ۔تفسیر ثعلبی، ۳۵ ۔عرایس ثعلبی، ۳۶ ۔فردوس الاخبار دیلمی، ۳۷ ۔ذخائر العقبی محب الدین طبری، ۳۸ ۔تذکرة الخواص سبط ابن الجوزی، ۳۹ ۔فوائد الاخبار ابی بکر الاسکاف، ۴۰ ۔شرح ابن ابی الحدید، ۴۱ ۔غرائب نیشاپوری، ۴۲ ۔تفسیر فخر رازی، ۴۳ ۔نظرة عابرة کوثری، ۴۴ ۔البیان والتبیین جاحظ، ۴۵ ۔الفتن نعیم تابعی، ۴۶ ۔عوالی ابن حاتم، ۴۷ تلخیص خطیب، ۴۸ ۔بدایع الزھور محمد بن احمد حنفی، ۴۹ ۔الفصول المھمة ابن صباغ مالکی، ۵۰ ۔تاریخ ابن عساکر، ۵۱ ۔السیرة الحلبیة علی بن برھان الدین حلبی، ۵۲ ۔سنن ابی عمرو الدانی، ۵۳ ۔سنن نسائی، ۵۴ ۔الجمع بین الصحیحین عبدری، ۵۵ ۔فضائل الصحابہ قرطبی، ۵۶ ۔تہذیب الآثار طبری، ۵۷ ۔المتفق والمفترق خطیب، ۵۸ ۔تاریخ ابن الجوزی، ۵۹ ۔الملاحم ابن منادی، ۶۰ ۔فوائد ابی نعیم، ۶۱ ۔اسد الغابہ ابن اثیر، ۶۲ ۔الاعلام بحکم عیسیٰ علیہ السلام سیوطی، ۶۳ ۔الفتن ابی یحییٰ، ۶۴ ۔کنوز الحقائق منادی، ۶۵ ۔الفتن سلیلی، ۶۶ ۔عقیدة اہل الاسلام غماری، ۶۷ ۔صحیح ابن حبان، ۶۸ ۔مسند رویانی، ۶۹ ۔مناقب ابن المغازلی، ۷۰ ۔مقاتل الطالبیین ابی الفرج اصبہانی، ۷۱ ۔الاتحاف بحبّ الاشراف شبراوی شافعی، ۷۲ ۔غایة المامول منصور علی ناصف، ۷۳ ۔شرح سیرة الرسول عبدالرحمن حنفی سھیلی، ۷۴ ۔غریب الحدیث ابن قتیبہ، ۷۵ ۔سنن ابی عمرو المقری، ۷۶ ۔التذکرہ عبدالوہاب شعرانی، ۷۷ ۔الاشاعة برزنجی مدنی، ۷۸ ۔الاذاعة سید محمد صدیق حسن، ۷۹ ۔الاستیعاب ابن عبدالبر، ۸۰ ۔مسند ابی عوانہ، ۸۱ ۔مجمع الزوائد ہیثمی، ۸۲ ۔لوامع الانوار البھیة سفارینی حنبلی، ۸۳ ۔الھدیة الندیة سید مصطفی البکری، ۸۴ ۔حجج الکرامة سید محمد صدیق، ۸۵ ۔ابراز الوھم المکنون سید محمد صدیق، ۸۶ ۔مسند ابی یعلی، ۸۷ ۔افراد دارقطنی، ۸۸ ۔المصنف بیہقی، ۸۹ ۔الحربیات ابی الحسن الحربی، ۹۰ ۔نظم المتناثر من الحدیث المتواتر محمد بن جعفر الکتانی،

۹۱ ۔التصریح بما تواتر فی نزول المسیح شیخ محمد انور کشمیری، ۹۲ ۔اقامة البرہان غماری، ۹۳ ۔المنار ابن القیم، ۹۴ ۔معجم البلدان یاقوت حموی، ۹۵ ۔مقالید الکنوز احمد محمد شاکر، ۹۶ ۔شرح الدیوان میبدی، ۹۷ ۔مشکاة المصابیح خطیب تبریزی، ۹۸ ۔مناقب الشافعی محمد بن الحسن الاسنوی، ۹۹ ۔مسند بزار، ۱۰۰ ۔دلائل النبوة بیہقی، ۱۰۱ ۔جمع الجوامع سیوطی، ۱۰۲ ۔تلخیص المستدرک ذہبی، ۱۰۳ ۔الفتوح ابن اعثم کوفی، ۱۰۴ ۔تلخیص المتشابہ خطیب، ۱۰۵ ۔شرح وردّ السحر ابی عبدالسلام عمر الشبراوی، ۱۰۶ ۔لوامع العقول کشخانوی اور تقریباًسبھی کتب حدیث وغیرہ۔

۶ ۔اس موضوع سے متعلق علماء اہل سنت کی کتب:

۱ ۔ البرہان فی علامات مہدی آخر الزمان، مولفہ عالم شہیر ملا علی متقی (متوفیٰ ۹۷۵ ء)۔

۲ ۔ البیان فی اخبار صاحب الزمان، مولفہ علامہ گنجی شافعی (متوفیٰ ۶۵۸ ء)۔

۳ ۔ عقد الدرر فی اخبار الامام المنتظر، مولفہ شیخ جمال الدین یوسف الدمشقی، ساتویں صدی کے عظیم المرتبت عالم۔

۴ ۔ مناقب المہدی ،مولفہ حافظ ابی نعیم اصفہانی (متوفیٰ پانچویں صدی ہجری)۔

۵ ۔ القول المختصر فی علامات المہدی المنتظر، مولفہ ابن حجر(متوفیٰ ۹۷۴) ۔

۶ ۔ العرف الوردی فی اخبار المہدی، مولفہ عالم شہیر سیوطی (متوفیٰ ۹۱۱) ۔

۷ ۔ مہدی آل الرسول، مولفہ علی بن سلطان محمد الھروی الحنفی نزیل مکہ معظمہ۔

۸ ۔ فوائد الفکر فی ظہور المہدی المنتظر، مولفہ شیخ مرعی۔

۹ ۔ المشرب الوردی فی مذہب المہدی، مولفہ عالم شہیر علی القاری۔

۱۰ ۔ فرائد فوائد الفکر فی الامام المہدی المنتظر، مولفہ المقدسی۔

۱۱ ۔ منظومة القطر الشھدی فی اوصاف المہدی، نظم شہاب الدین احمد خلیجی حلوانی شافعی۔

۱۲ ۔ العطر الوردی بشرح قطر الشہدی، مولفہ بلیسی۔

۱۳ ۔ تلخیص البیان فی علامات مہدی آخر الزمان، مولفہ ابن کمال پاشا حنفی (متوفیٰ ۹۴۰) ۔

۱۴ ۔ ارشاد المستھدی فی نقل بعض الاحادیث والآثار الواردة فی شان الامام المہدی، مولفہ محمد علی حسین البکری المدنی۔

۱۵ ۔ احادیث المہدی واخبار المہدی، مولفہ ابی بکر بن خثیمہ۔

۱۶ ۔ الاحادیث القاضیہ بخروج المہدی، مولفہ محمد بن اسماعیل امیرالیمانی (متوفیٰ ۷۵۱) ۔

۱۷ ۔ الہدیة الندیہ فیما جاء فی فضل الذات المہدیة، مولفہ ابی المعارف قطب الدین مصطفی بن کمال الدین علی بن عبدالقادر البکری الدمشقی الحنفی (متوفیٰ ۱۱۶۲) ۔

۱۸ ۔ الجواب المقنع المحرر فی الرد علی من طغی وتبحر بدعوی انہ عیسیٰ او المہدی المنتظر، مولفہ شیخ محمد حبیب اللہ بن مایابی الجکنی الشنقیطی المدنی۔

۱۹ ۔ النظم الواضح المبین، مولفہ شیخ عبدالقادر بن محمد سالم۔

۲۰ ۔ احوال صاحب الزمان، مولفہ شیخ سعد الدین حموی۔

۲۱ ۔ اربعین حدیث فی المہدی، مولفہ ابی العلاء ہمدانی (بحوالہ ذخائر العقبی، ص ۱۳۶)

۲۲ ۔ تحدیق النظر فی اخبار المہدی المنتظر، مولفہ محمد بن عبدالعزیز بن مانع (مقدمہ ینابیع المودة)۔

۲۳ ۔ تلخیص البیان فی اخبار مہدی آخرالزمان ، مولفہ علی متقی (متوفیٰ ۹۷۵) ۔

۲۴ ۔ الرد علی من حکم وقضی ان المہدی جاء ومضی، مولفہ ملا علی قاری (متوفیٰ ۱۰۱۴)

۲۵ ۔ ”رسالة فی المہدی“ کتابخانہ اسعد افندی سلیمانیہ ترکی میں موجود رسالہ شمارہ ۳۷۵۸ ۔

۲۶ ۔ علامات المہدی، مولفہ سیوطی۔

۲۷ ۔ کتاب المہدی، مولفہ ابی داود (یہ کتاب، سنن ابی داود کی کتابوںمیں سے ہے اورمتعدد بار شائع ہوچکی ہے۔

۲۸ ۔ المہدی، مولفہ شمس الدین ابن القیم الجوزیة (متوفیٰ ۷۵۱) ۔

۲۹ ۔ المہدی الی ماورد فی المہدی، مولفہ شمس الدین محمد بن طولون۔

۳۰ ۔ النجم الثاقب فی بیان ان المہدی من اولاد علی بن ابی طالب، ۷۸ صفحہ مکتبہ لالہ لی سلیمانیہ میں کتاب اندراج نمبر ۶۷۹ پرموجود ہے۔

۳۱ ۔ الھدیة المہدویة، مولفہ ابوالرجاء محمد ہندی۔

۳۲ ۔ الفواصم عن الفتن القواصم، اس کتاب میں مولف نے صرف امام مہدی کے حالات تشریح وتوضیح کے ساتھ جمع کئے ہیں۔ (السیرہ الحلبیة، ص ۲۲۷ ، ج ۱)

۷ ۔ظہور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے بارے میں اجماع مسلمین

”آخر ی دور میں ایک مصلح عالم کا ظہور ہوگا“ اس سلسلہ میں اصحاب، تابعین اور تابعین کے پیروںسے لے کر آج تک کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا مسئلہ اجماعی اور متفق علیہ تھا اور ہےاگر کوئی اس قسم کی روایات کی صحت یاپیغمبر اکرم سے منقول بشارتوں کے بار ے میں ذرا بھی تردد کا اظہار کرتا تو اس کو سفاہت وجہالت پر محمول کیا جاتا تھا،یہی وجہ ہے کہ آج تک کسی نے بھی مہدویت کا دعویٰ کرنے والے کی یہ کہہ کر تکذیب نہیں کی کہ ”مہدویت اور ظہور حضرت مہدی “ کا عقیدہ ہی بے بنیاد ہے بلکہ ایسے جھوٹے مدعی کی بات کو یہ کہہ کر رد کیا جاتا رہا کہ یہ شخص ان علائم واوصاف کا مالک نہیں ہے جو آپ کے لئے احادیث میں بیان کئے گئے ہیں۔سویدی تحریر کرتے ہیں:

الذی اتفق علیه العلماء انّ المهدي هو القائم في آخر الوقت واٴنّه یملاٴ الاٴرض عدلاً، والاحادیث فیه وفی ظهوره کثیرة(۱)

”اس امر پر علماء کا اتفاق ہے کہ حضرت مہدی ہی آخری زمانہ میں قیام فرمائیں گے اور زمین کو عدل وانصاف سے بھر دیں گے اور (حضرت)مہدی اور آپ کے ظہور سے متعلق روایات بہت زیادہ ہیں۔“

ابن ابی الحدید نے بھی اس متفق علیہ امر کو صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے۔

ابن خلدون مقدمہ تاریخ میں رقم طراز ہیں:

واعلم انّ المشهور بین الکافة من اهل الاسلام علی ممر الاعصارانه لابّد في آخرالزمان من ظهور رجل من اهل البیت یوٴید الدین ویظهر العدل ویتبعه المسلمون ویستولٰي علی الممالک الاسلامیة ویسمیٰ بالمهدي

____________________

(۱)سوائک الذہب، ص۷۸۔

”ہر عہد کے تمام مسلمانوں کے درمیان یہ بات شہرت کی حامل رہی ہے کہ آخری زمانہ میں یقینی طورپر اہل بیت (پیغمبر ) میں سے ایک شخص کا ظہور ہوگا جو دین کی تائید ونصرت اور عدل وانصاف کو ظاہر کرے گا، مسلمان اس کی پیروی کریں گے اور وہ تمام اسلامی ممالک کا حکمراں ہوگا اس کا نام ”مہدی“ ہوگا۔(۱)

شیخ علی ناصف تحریر کرتے ہیں:

فائدة : اتضح مما سبق ان المهدي المنتظر من هٰذه الامة الی ان قال وعلیٰ هذا اهل السنة سلفا وخلفا(۲)

”گذشتہ بیان سے یہ بات واضح ہوگئی کہ ”مہدی منتظر“ اسی امت سے ہوں گے اہل سنت گزشتہ اور موجودہ سب اسی عقیدہ کے قائل تھے اور ہیں۔“

علامہ ابو الطیب اپنی کتاب ”الاذاعة لما کان ویکون بین یدی الساعة “ میں تحریر فرماتے ہیں ”آخری زمانہ میں مہدی کا ظہور ہوگا اور آپ کا انکار بہت بڑی گستاخی اور عظیم خطا ولغزش ہے۔“

اس قسم کے اعترافات اہل سنت کے جلیل القدر علماء ومحققین کی کتب میں بکثرت پائے جاتے ہیں۔

۸ ۔ کتب اہل سنت میں حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے بعض اوصاف و علائم

۱ ۔مہدی موعود ذریت پیغمبر اور اولاد فاطمہ میں سے ہیں۔

۲ ۔ مہدی موعود نسل حسین سے ہیں۔ (اولاد حسین میں سے ہیں)

۳ ۔ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ ظلم وجور سے بھری دنیا کو عدل وانصاف سے پُر

____________________

(۱) مقدمہ ابن خلدون، ص۳۶۷۔

(۲) غایة المامول ج۵ ص۳۶۲ ، ۳۸۱۔

کردیں گے۔

۴ ۔ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ دو غیبت اختیار کریں گے جن میں سے ایک غیبت طولانی ہوگی۔

۵ ۔ مہدی اُس سلسلہ امامت ورہبریت وخلافت کی بارہویں کڑی ہیں جس کی بشارت پیغمبر اکرم نے دی ہے اور مسند احمد، صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابوداؤد اور اہل سنت کی دیگر معتبر کتب کی کثیر روایات کے مطابق جن بارہ اماموں کی امامت حجت ہے۔

۶ ۔ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہکی حکومت تمام ممالک اور شہروں پر ہوگی اور آپ لشکر کفر کو شکست دیں گے۔

۷ ۔ دین اسلام اور کلمہ توحید آپ کے ذریعہ عالم گیر سطح پر رائج ہوگا اور روئے زمین پر کوئی خدا کی وحدانیت کا منکر نہ ہوگا۔

۸ ۔ آپ کے دور حکومت میں لوگ اس قدر آرام وآسائش سے ہوں گے جس کی نظیر کسی دور میں نہیں ملتی۔

۹ ۔ حضرت مہدی ،پیغمبر کے ہم نام ہیں اور آپ کی کنیت پیغمبر کی کنیت ہے۔

۱۰ ۔ حضرت مہدی صورت وسیرت میں تمام لوگوں کی بہ نسبت پیغمبر سے سب سے زیادہ مشابہ ہوں گے۔

۱۱ ۔ لوگوں کو سنت وشریعت وسیرت پیغمبر کی طرف پلٹا دیں گے اور کتاب وسنت کا احیاء کریں گے۔

۱۲ ۔ آپ کی غذا اور لباس نہایت سادہ ہوں گے۔

۱۳ ۔ آپ کے عہد میں زمین وآسمان کی برکتیں فراواں ہوں گی۔

۱۴ ۔ حلال وحرام خدا کے بارے میں آپ سے بڑا کوئی عالم نہ ہوگا۔

۱۵ ۔ آپ فقرا ومساکین پر مہربان اور حکومتی کارندوں پر سخت گیرہوں گے تاکہ کوئی عوام پر ظلم نہ کرسکے۔

۱۶ ۔ عیسیٰ بن مریم زمین پر نازل ہوں گے اور حضرت مہدی کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے۔

۱۷ ۔حضرت کے ظہور سے پہلے عظیم حوادث اور فتنے اٹھیں گے، عالمی جنگ ہوگی جس میں دنیا کی دو تہائی آبادی تباہ ہوجائے گی۔

۱۸ ۔ آپ کے ظہور سے پہلے گناہ وعصیان کا رواج ہوگا، کھلم کھلا شراب اور جوئے کا دور دورہ ہوگا،عورتوں میں حیا وعفت کم ہوجائے گی، لہوولعب اور غنا کے آلات ظاہر ہوں گے، سود معاملات کا حصہ ہوجائے گا، عورتیں نیم برہنہ وعریاں گھر سے باہر آئیں گی اور مردوں کے امور ومشاغل میں شریک ہوں گی، مرد، عورتوں کے تابع ومطیع ہوجائیں گے، احکام خدا اور حدود الٰہیہ معطل ہوجائیں گے اور ان کا نفاذ نہ ہوگاامربالمعروف اور نہی عن المنکر متروک ہوجائے گا بلکہ منکرات کا حکم دیا جائے گا اور معروف سے اس حد تک روکا جائے گا کہ لوگ معروف کو منکر اور منکر کو معروف سمجھنے لگیں گے، عورتیں فاسد اور جوان بدکردار ہوں گے اور امور نااہلوں کے سپرد کردئے جائیں گے،اس کے علاوہ بھی بہت سے علائم ہیں، جو حضرات ان اوصاف وعلائم جیسے ” زمین کا دھنس جانا“، ”خروج سفیانی“، ”دجال“، ”یمانی“ ، ”قتل نفس زکیہ“حضرت کے ظہور کی کیفیت یا آپ کے اعلان وغیرہ کے بارے میں تفصیلات جاننا چاہتے ہیں وہ تفصیلی کتب کا مطالعہ فرمائیں۔(۱)

____________________

(۱) اسی کتاب میں آئندہ صفحات پر اوصاف وعلائم حضرت مہدی کا شیعہ وسنی کتب سے تفصیلی تذکرہ کیا جائے گا، سردست یہاں ،بطور اختصار کتب اہل سنت سے آپ کے چند اوصاف وعلائم بیان کردئے گئے ہیں۔

۹ ۔ حضرت مہدی کی ولادت و حیات کے معترف علما ء اہلسنت

اپنی کتاب ”منتخب الاثر“کے باب اول، فصل سوم میں ہم نے اہل سنت کے ان علماء کے نام ذکر کئے ہیں جوحضرت کی ولادت اور آپ کی حیات مبارکہ کے قائل ہیں۔ مذکورہ کتاب اور بعد کی تلاش وتحقیق کے مطابق ایسے علماء کی تعداد ستر سے زیادہ ہے۔

۱۰ ۔ مہدی کاانکارکفر ہے

فرائد السمطین، کتاب البرہان فی علامات مہدی آخرالزمان، باب ۲ ، کتاب الاشاعة ص ۱۱۲ ، کتاب الاذاعہ، ص ۱۳۷ ،، کتاب التصریح، ص ۴۴۲ ، کتاب العرف الوردی فی اخبار المہدی، ج ۲ ص ۸۳ اور بعض دیگر کتب میں فوائد الاخبار مولفہ ابی بکر اسکافی نیز ابوبکر بن خیثمہ کی کتاب اخبار المہدی، اور شرح سیر سھیلی کے حوالوں سے جابر بن عبداللہ نے یہ روایت نقل کی ہے کہ: پیغمبراکرم نے فرمایا:

مَن انکر خروج المهدي فقد کفر

”جو شخص خروج مہدی کا منکر ہو وہ کافر ہے۔“

الفاظ کے معمولی اختلاف کے ساتھ یہ روایت بھی آپ ہی سے منقول ہے۔

مَن کذب بالمهدي فقد کفر

”جو شخص مہدی کی تکذیب کرے وہ کافر ہے۔“

سفارینی کے مطابق ان روایات کی سند قابل اعتبار ہے،سفارینی کتاب ”لوامع“ میں تحریر فرماتے ہیں:

”ظہور مہدی پر ایمان رکھنا واجب اور اہل سنت کے عقائد میں شامل ہے۔“

”ارشادالمستھدی“(۱) کے مولف اس کتاب کے صفحہ، ۵۳ پر تحریر فرماتے ہیں: اے عقلمند! ظہور حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کے بارے میں ہر طرح کے شک وشبہ سے اجتنا ب کر، اس لئے کہ حضرت کے ظہور کا عقیدہ خدا، رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کی رسالت پر عقیدہ کی تکمیل او رآپ کے ذریعہ بیان کی گئی باتوں کی تصدیق کا باعث ہے، پیغمبر صادق ومصدّق ہیں، اس بات میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں ہونا چاہئے کہ مہدی موعود کا ابھی تک ظہور نہیں ہوا ہے اگر کسی شخص نے ایسا دعویٰ کیا بھی ہے تو وہ جھوٹا اور کذّاب ہے اس لئے کہ حضرت مہدی کے لئے روایات میں جو اوصاف وعلائم بیان کئے گئے ہیں وہ ایسے شخص میں نہیں پائے جاتے، حضرت مہدی کا ظہور اور آپ کی شناخت کے ذرائع بالکل واضح اور عیاں ہیں آپ کا ظہور حضرت عیسیٰ کے نزول سے پہلے ہوگا، حضرت عیسیٰ کے ساتھ آپ کی موجودگی روایات صحیحہ کی رو سے قطعی اور بدیہی ہے۔

جو شخص تفصیل کا طالب ہو وہ اس موضوع پر لکھی جانے والی کتب کی طرف رجوع کرے اس کتاب (ارشاد المستہدی) میں ہمارا نصب العین حضرت عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور سے متعلق بطور اختصار روایات کے تواتر کا اثبات ہے۔

صفحہ/ ۵۲ پر فاضل مولف تحریر فرماتے ہیں:

”مذکورہ احادیث (احادیث ظہور) وروایات کو اکثر محدثین اور غیر محدثین نے اپنی کتابو ں میں نقل فرمایا ہے اور حضرت مہدی رضی اللہ عنہ (ارشاد المستھدی کے الفاظ بعینہ نقل کئے گئے ہیں) کے ظہور کاعقیدہ صحابہ کے درمیان مشہور ومعروف تھا اور صحابہ کا یہ عقیدہ وایمان پیغمبر سے ماخوذ ہے اسی طرح تابعین سے منقول آثار وروایات مرسلہ سے بھی یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے اس لئے کہ اس قسم

____________________

(۱) ارشاد المستہدی حلب سے طبع ہوئی ہے اور حلب کے ہی ایک عالم جناب شیخ عبدالمتعالی سرمینی نے راقم الحروف کے پاس بطور ہدیہ ارسال فرمائی تھی۔

کے مسائل میں تابعین اپنے نظریئے یا اپنی رائے سے کوئی فیصلہ نہیں کرتے تھے۔“

اس مقالہ سے با آسانی یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ حضرت مہدی موعود منتظر ارواح العالمین لہ الفداء کے ظہور کا مسئلہ تمام مسلمانوں کے نزدیک اجماعی اورمتفق علیہ ہے نیز اس موضوع سے متعلق اہل سنت نے اپنے ذریعوںسے جو روایات نقل کی ہیں وہ بھی متواتر اور مسلم الثبوت ہیں، پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر ایمان لانے، آپ کی نبوت کی تصدیق کرنے اور آپ کے ذریعہ بیان کی گئیغیبی اخبارکا جزء ہے جن میں کسی شک وشبہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے، بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت پر ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ حضرت مہدی علیہ السلام کے ظہور پر بھی ایمان لایا جائے اور ان دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا جائز نہیں ہے۔

اس مقالہ میںسندکے طور پر صرف اہل سنت کے اقوال اور کتب کو بنیاد قرار دیا گیا ہے، اگر کوئی شخص، شیعوں کی معتبر کتب اور اہل بیت عصمت وطہارت سے معتبر ترین اسناد کے ساتھ منقول روایات اور گزشتہ ایک ہزار سال سے زائد عرصہ میں اس موضوع پر لکھی جانے والی لاتعداد کتابوں کو ملاحظہ کرے تو اس کی معلومات جامع اور کامل ہوسکتی ہیں۔

اس قسم کی روایات واحادیث شیعوں کی ان کتب میں بھی پائی جاتی ہیں جن کی تالیف وترتیب امیرالمومنین کے عہد میں ہوئی، اسی طرح ائمہ معصومین علیہم السلام کے دور میں حضرت مہدی بلکہ آپ کے پدر بزرگوار امام حسن عسکری کی ولادت باسعادت سے قبل جو کتب اور اصول مرتب ہوئے ان میں بھی ایسی روایات موجود ہیں جو بذات خود ایک معجزہ اور خبر غیبی کا درجہ رکھتی ہیں۔

ہم دست بدعا ہیں کہ خداوند عالم جملہ مسلمانان عالم کی آنکھوں کوحضرت کے جمال بے مثال کی زیارت سے منور فرمائے انتظار کے لمحے تمام ہوں،اوراس مصلح حقیقی کے ظہور سے انسانی زندگی میں پائے جانے والے اضطراب کا خاتمہ ہو۔

( انه علی کل شیء قدیر ) ” بیشک وہ ہر چیز پر قد رت رکھنے والا ہے۔“

ایک تابناک مستقبل کا انتظار(۱)

( ولقد کتبنا فی الزبور من بعد الذکر ان الارض یرثها عبادی الصالحون ) (۲)

اسلام خدائے واحد پر ایمان اور توحید حقیقی کے عقیدے کی دعوت دیتا ہے،اسلام کے عقائد اور اخلاقی نظام ،جزا وسزا، طرز حکومت اور تمام انفرادی ومعاشرتی احکام سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ دین اسلام کا اصل ہدف لغو اور بے بنیاد امتیازات اوربرتری کی دیواروں کو توڑکر تمام گروہوں اور قوموں کو متحد کرکے پوری نوع بشر کے درمیان اتحاد ویگانگت اورتعاون وخیرخواہی کا ایسا مستحکم رشتہ برقرار کرنا ہے جس کی بنیاد صرف ”کلمہ توحید“ اور خدائے وحدہ لاشریک کاایمان ہو۔

اسلام عقیدہ توحید کے ذریعہ ہر طرح کے اختلافات کو ختم کردینا چاہتا ہے،چاہے وہ نسلی، طبقاتی، قومی، ملکی، جغرافیائی یا لسانی اختلاف ہوں یامسلک ومذہب اور پارٹی یا گروہ کے نام پر، ان میں سے کوئی اختلاف باقی نہیں رہنا چاہئے ،اسلام کی نگاہ میں انمیں سے کوئی چیز ایسی نہیں ہے جو انسان کے لئے فضیلت وبرتری کا باعث ہو یا جس پر انسان فخر کرسکے حتیٰ کہ دینی اختلافات کا بھی خاتمہ ہونا چاہئے اور بلا استثناء سبھی کو خدا کے حکم (واقعی) کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہئے۔

اسلام کا اعلان ہے کہ قافلہ بشریت ایک دن اس منزل مقصود تک ضرور پہنچے گا، اسلام کے

____________________

(۱)یہ مضمون رسالة مکتب انبیاء (دین در عصر دانش )نمبر ۲ میںص۶۱سے۲۳تک طبع ہوا ہے۔

(۲) اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میںبھی لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔ سورہ انبیاء آیت ۱۰۵۔

قوانین اور نظام کسی حد تک اس کے مقدمات بھی فراہم کردیتے ہیں البتہ اس کو عملی شکل دینے کے لئے مناسب ماحول اور حالات کا انتظار ہے۔

عالمی حالات، مادی وصنعتی ترقی اور دور حاضر میں رابطہ کے ذرائع کے باعث جو نزدیکیاں پیدا ہوئی ہیں ان تمام چیزوں کی بدولت تمام انسانوں کے درمیان حقیقی اتحاد اور اخوت اور پختہ روابط کی ضرورت آج شدت سے محسوس کی جارہی ہے اور انسانیت جتنا آگے قدم بڑھائے گی اس ضرورت کا احساس شدید تر ہوتا جائے گا۔

آج اقوام عالم ایک اکائی کی شکل اختیار کرچکی ہیں اور پوری دنیا کے انسان ایک دوسرے کے پڑوسی بلکہ ایک ہی کنبہ کے افراد کی مانند ہوگئے ہیں، اگر دو پڑوسیوں یا ایک گھر کے دو افراد کے درمیان اختلاف ہو، ہر ایک کا دین ومسلک، وطن، زبان، عادات واطوار الگ الگ ہوں اور دونوں کو ایک ہی حکومت کے زیر سایہ زندگی بسر کرنا پڑے یا دونوں کو کوئی ایک مکتب فکر اور طرز معاشرت اختیار کرنا پڑے تو دونوں کی زندگی تلخ اور دشوار ہوجائے گی، دونوں کے درمیان ہمیشہ رسہ کشی اور جنگ وجدال کی کیفیت برقرار رہے گی۔

آج کی دنیا بعینہ اسی صورت حال سے دوچار ہے جب تک ایک عقیدہ، ایک نظریہ، ایک قانون، ایک طرح کے عادات واطوار، ایک نظام نہ ہو امن وآسائش میسر نہیں ہوسکتی اور یہ نظام وقانون بھی ایسا ہونا چاہئے کہ جس میں دنیا کے تمام چھوٹے بڑے سماجوں کو برابرکے حقوق دئے گئے ہوں، یورپ کو افریقہ پر اور مغرب کو مشرق پر کوئی برتری حاصل نہ ہو اگر ایسا نہ ہوا تو ہمیشہ ایک طبقہ محروم رہے گا اور دوسرا خوشحال، ایک فاتح وغالب ہوگا اور دوسرا مفتوح ومغلوب، اختلاف وجدائی کے ایسے تمام اسباب کا خاتمہ ہونا چاہئے۔

آج فکر بشرارتقا ء کی اس منزل پر پہنچ چکی ہے کہ اسے اختلاف وجدائی کے اسباب کی بے مایہ حقیقت کا احساس بخوبی ہوچکا ہے لہٰذا انسانیت کو ایسے بے مایہ و بے بنیاد اسباب سے دست بردار ہو جانا چاہئے اور روئے زمین پرایک ایسا حقیقت پسند، ایسا صالح او رمستحکم معاشرہ وجود میں آنا چاہئے جس کا وعدہ قرآن نے کیا ہے۔

یہ بالکل واضح ہے کہ ایسا صالح معاشرہ خودبخود وجود میں نہیں آسکتا اس کے لئے مختلف اسباب درکار ہیں اس کے لئے عادلانہ قوانین، اجتماعی تعلیم، جزا وسزا کے منصفانہ نظام کے ساتھ ذاتی یا طبقاتی مفادات سے بلند ہوکر عالی مرتبت افراد کے ہاتھوں تعلیم وتربیت کا صحیح انتظام ضروری ہے اور صرف دین اسلام ہی اعلیٰ پیمانہ پر ان امور کی فراہمی کا ضامن ہوسکتا ہے، اسی کے ساتھ فکر بشر کا ارتقاء بھی ضروری ہے تاکہ ظلم وجور، قتل وغارتگری کی کثرت، بڑھتی ہوئی بدامنی کے باوجود حکام وقت کو اصلاح سے عاجز دیکھ کر بشریت خود متوجہ بلکہ فریادی ہوجائے کہ عدل وانصاف سے لبریز سماج اور نظام کی ضرورت ہے!

صرف عادلانہ نظام بھی کافی نہیں ہے بلکہ اس کے لئے عالی ہمت وعالی مرتبت رہبر کی ضرورت ہے، ایسا قائد ورہبر جو مادیت پرست نہیںبلکہ روحانیت کا علم بردار ہو، خواہشات نفس، غروروتکبر، غضب وغصہ اور خود غرضی جیسے پست جذبات واحساسات سے مبرا ہو، ایسا رہبر وپیشوا جو صرف خدا کو پیش نظر رکھے اور اتنا عالی نظر وعالی ظرف ہو کہ قومی، جغرافیائی اور نسلی اختلافات کے بجائے تمام انسانوں کو رافت ورحمت اور مساوات کی نگاہ سے دیکھے اور یہ اعلان کرے:

لا فضل لعربيعلیٰ اٴعجمي

”عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت وبرتری حاصل نہیں ہے۔“

الناس کلهم سواسیة کاٴسنان المشط

”تمام لوگ کنگھی کے دندانوں کی مانند برابر ہیں۔“

الخلق کلهم عیال اللّٰه فاٴحبّهم الی الله انفعهم لعیاله

”لو گ عیال خدا ہیں، ان میں سب سے زیادہ محبوب ِخدا وہ ہے جو عیال خدا کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچاتا ہو۔“

جن رہبروں میں یہ صفات نہیں پائے جاتے جو ایسے بلند وبالا مفاہیم سے واقف ہی نہیں یقینی طور پر وہ اس عادلانہ دنیا کے سربراہ نہیں ہوسکتے جس کی آج انسانیت متلاشی ہے، ہماری آج کی دنیا کے قائدین سیاہ وسفید، ایشیائی، یوروپی، افریقی، امریکی کو برابر نہیں تسلیم کرسکتے اور نہ ہی سب کے مساوی حقوق قرار دے سکتے ہیں۔