نويد امن وامان

نويد امن وامان0%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان

مؤلف: آيت اللہ صافی گلپایگانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17969
ڈاؤنلوڈ: 3317

تبصرے:

نويد امن وامان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17969 / ڈاؤنلوڈ: 3317
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

ان کا سب سے بڑا کارنامہ ایک طبقہ کے مفاد میں دوسرے طبقہ کا استحصال، طاقتور معاشرہ کے ذریعہ کمزور سماج کو نگل جانا اور اپنی قوم کے منافع کا حصول ہے۔ یہ لوگ افریقہ کے غریب و بے نوا اور الجزائر کے حریت پسند افراد کو شدید قتل وغارتگری اور سخت ترین آزار وشکنجہ کے ذریعہ اپنا غلام بناکر رکھنا چاہتے ہیں ان کے منھ کا لقمہ بھی چھین لینا چاہتے ہیں، دوسرے ممالک کے قدرتی ذخیروں پر قبضہ کرتے ہیں تاکہ اپنے ملک کے عیاش دولت مند ان سے ناراض نہ ہونے پائیں، دوسری جانب کچھ سربراہ کمزوروں اور ضعیفوں کی حمایت اور سامراجیت کے خلاف جنگ کے پر فریب نعرہ کے بہانے ”فردکی آزادی“ کو نیست نابود کرکے انسان کو اس کے بنیادی حقوق سے محروم کردینا چاہتے ہیں، شخص کے بجائے معاشرہ اور سماج کے اختیارات کے قائل ہیں اور سماج کو بالکل ایک ایسی زندہ مشین میں تبدیل کردینا چاہتے ہیں جس میں ارادہ کا کوئی دخل نہ ہو اور جس کا کنٹرول خودا س کے بجائے چند بے ضمیرافراد کے ہاتھوں میں ہو۔

تیسری طرف اقلیتوں کی تقویت کے نام پر قوموں کے درمیان پھوٹ ڈال کر انھیں تقسیم کررہے ہیں ، اس طرح کمزور ممالک پر قبضہ جمائے ہوئے ہیں،دنیاوی رہبروں اور لیڈروں کا یہی طریقہ کار ہے، کل بھی یہی صورت حال تھی اورآئندہ بھی یہی رہے گی، یہ لوگ کتنے ہی ناوابستہ کیوں نہ ہوں ان کا مقصد اپنے ملک وملت کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے انھیں دوسرے ممالک یا اقوام کی آزادی سے کیا واسطہ؟ اور جب یہ لوگ ایک پارٹی یا سماج کے لئے منتخب ہوتے ہیں تو ان سے اس سے زیادہ کی توقع بھی نہیں کی جاسکتی،آج کل سربراہان مملکت کی لیاقت وصلاحیت کا کل معیار اپنے سماج ومعاشرہ کے مفادات ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ بڑی مچھلی چھوٹی مچھلی کو نگلتی رہتی ہے، طاقتور، کمزور کو دباتا ہے اور کمزور قوموں کو وہ حقوق نہیں دئیے جاتے جو طاقتور قوموں کو حاصل ہیں،ا وروہ اپنے منافع حاصل کرنے کے لئے خطرناک جنگوں سے بھی پرہیز نہیں کرتے۔

اس کے برخلاف خدا ئی منصب دار اور الٰہی رہبر چونکہ کسی خاص گروہ یا قوم سے تعلق نہیںر کھتا اور اپنے کو اس خدا کا نمائندہ سمجھتا ہے جو سب کا خالق ورازق ہے لہٰذا اس کا مقصد سب کے لئے راحت وآسائش اور سبھی کی آزادی ہوتا ہے وہ ایک ایسے عالمی ادارہ اور معاشرے کی تعمیر کرتا ہے جس کے زیر سایہ پورا عالم انسانیت گھر کے افراد کی طرح زندگی بسر کرسکے، گورے، کالے کا کوئی فرق نہ ہو سب ایک دوسرے کو بھائی سمجھتے ہوں البتہ اس مقصدتک رسائی کے لئے انسانوں کی ذہنی آمادگی، علمی سطح کی بلندی اور فکری رشد درکا رہے۔

احادیث وروایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آخری زمانہ میں علوم وفنون کی ترقی، وسائل ارتباط کی وسعت، اقوام عالم کی قربت ہلاکت خیزجنگ کے نتیجہ میں دوتہائی یا اکثر آبادی کی نابودی، ظلم وجور، فسق وفجور، فحشاء وفساد کے رواج اور حکام وقت کے ہاتھوں ان امور کی اصلاح سے عاجزی کے بعد عالم انسانیت دھیرے دھیرے دینی ومذہبی رہبر کی معصوم قیادت (یعنی حضرت مہدی موعود) کے تحت عدل وانصاف پر مبنی حک ومت الٰہی کی ضرورت کو محسوس کرے گا۔(۱)

____________________

(۱) آخری زمانہ کے فتنوں اور حوادث کے بارے میں شیعہ وسنی دونوں فرقوں کے نامور محدثین نے اپنی کتب (جن میں بعض کتب ایک ہزار سال سے زائد عرصہ قبل لکھی گئی ہیں) میں بے شمار روایات واحادیث نقل فرمائی ہیں،درحقیقت ان روایات کو بھی معجزات اورغیبی اخبار میں شمار کرنا چاہئے۔ تفصیل کے خواہاں افراد کو ان کتابوں کی طرف مراجعہ کرنا چاہئے۔آخری زمانہ سے متعلق روایات میں عورتوں کی بے پردگی، عریانیت، مردوں پر غلبہ، مشوروں میں شرکت، مردوں کے امور میں مداخلت، حکومتی مشاغل میں حصہ داری، شراب خوری اور مے فروشی، سود، زنا، جوے کا رواج، نماز کو سبک سمجھنا، سربفلک عمارتوں اور محلوں کی تعمیر، نااھلوں کی تقرری، کھلم کھلا گناہ، باطل اور لایعنی امور میں رقوم صرف کرنا (جیسا کہ آج نائٹ کلب اور کیبرہ ڈانس، سال نو کی خوشی یا دیگر راتوں میںعیاشی وفحاشی کا رواج ہے) بے حیا اور بدکردار عورتوں کی تعریف وتوصیف، گلوکاری، موسیقی اور عورتوں کو فحشا وفساد کی جانب راغب کرنے والے افراد کی خوشامد وچاپلوسی، حدود واحکام الٰہی کا معطل ہوجانا، حکم خدا کے خلاف فیصلہ کرنا، طلاق کی کثرت، امربالمعروف سے روکنا، مردوں کا سونے کے ذریعہ آرائش کرنا مثلا سونے کی انگوٹھی پہننا، نیززنازادوں کی بھرمار کا تذکرہ ملتا ہے۔ انہیں علامات میں شہر مقدس قم کی علمی مرکزیت اور اس کی حجیت اور اس شہر سے دوسرے شہروں تک علم دین کی تبلیغ وترویج بھی شامل ہے۔

جس طریقہ سے جزیرہ نمائے عرب اور عالمی سطح پر نظام کی خرابیوں اور انتظامی برائیوں اور کمزور طبقوں کے شدید اضطراب وبے چینی کی بدولت دنیا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفی کے ظہور کا استقبال کرنے کے لئے آمادہ ہوچکی تھی اسی طرح آخری زمانہ میں بھی دنیا عظیم مصلح اورآپ کی ذریت واہلبیت کے جانشین کے ظہورکے لئے آمادہ ہوگی، اگرچہ عہد پیغمبر میں طویل مسافت، وسائل ارتباط کی قلت اور فکری سطح کے انحطاط کے باعث اقوام عالم کو اس ارفع واعلیٰ مقصد تک پہنچانا ممکن نہ ہوسکا لیکن اتنا ضرور ہے کہ اسلام کے آفاقی پیغام کے ظہور کے باعث دنیا اس مقصد سے قریب ضرور ہوئی ہے اور اس کی جھلک صدر اسلام کی حق وانصاف پر مبنی پیغمبر اکرم کی حکومت اور امیرالمومنین کے دور حکومت کے ان صوبوں میں دیکھی جاسکتی ہے جہاں سلمان فارسی، حذیفہ یمانی، عمار یاسر، مقداد جیسے خاص اصحاب گورنر تھے۔

چودہ صدی قبل اگر قرآن مجید کایہ حریت بخش پیغام( تعالَوا الیٰ کلمة سواء بیننا وبینکم ) (۱) تمام اقوام عالم تک پہنچانے کے لئے طویل مدت درکار تھی تو آج زمان ومکان کے فاصلہ ختم ہوچکے ہیں آج عالمی نجات دہندہ کی آواز پوری دنیا کے کانوں تک پہنچ سکتی ہے اور بلا شبہ مستقبل میں ایسے وسائل مزید ترقی یافتہ اور فراواں ہوں گے۔

پیغمبراسلام نے قرآنی وعدہ کی تکمیل کے لئے شریعت ونبوت کے قوانین اوراپنی متعلقہ ذمہ داریوں کی حد تک مقدمات فراہم کردئے ہیں اور دوسرے مقدمات اور حالات کو آنے والے زمانہ کے حوالہ کردیا ہے، اور اسلام کی پیشین گوئی کے مطابق دھیرے دھیرے وقت کے ساتھ ساتھ دنیا میں تعجب خیز تبدیلیاں رونما ہوں گی، قرآنی آیات اور متواتر روایات میں بہت صراحت کے ساتھ یہ بشارت موجو دہے کہ آخر ی زمانہ میں ایک عظیم مصلح ولی عصر حضرت حجة بن الحسن العسکری ارواح العالمین لہ الفدا کا ظہور ہوگا اور شرق وغرب عالم میں دین اسلام کا پرچم لہرائے گا اور ایک شخص

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت۶۴۔

بھی ایسا نہ ہوگا کہ جو کلمہ طیبہ ”توحید“ کا قائل نہ ہو۔

حضرت کے ظہور، علائم وخصوصیات اور ان سے متعلق جزئیات کے بارے میں شیعہ وسنی دونوں فرقوں کے اکابر علماء اور بڑے بڑے محدثین نے اپنی کتابوں میں متواتر، قطعی اور کثرت سے مشہور ومعروف روایات جمع کی ہیں کہ عقائد واحکام میں سے چندمسائل کے علاوہ کسی بھی مسئلہ میں اتنی روایات نظر نہیں آئیں۔ بلکہ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اکرم کی رسالت اور آنحضرت کے ذریعہ بیان کی گئی غیبی باتوں پر ایمان کا لازمہ یہ ہے کہ حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور اورآپ کے ہاتھوں اسلام کے آفاقی مذہب ہونے پر بھی ایمان لایا جائے۔

ہم بہت سے ایسے مذہبی امور اور اعتقادی مسائل پر عقیدہ رکھتے ہیں (اور عقیدہ ہونا بھی چاہئے)جن کے بارے میں صرف چند صحیح روایات ہی پائی جاتی ہیں توآخرکیا وجہ ہے کہ جس بات کی تائیدو تصدیق عقل وشریعت کرتی ہے، عہد پیغمبر سے لے کر آج تک جو علما ئے اسلام اور محدثین کرام کی توجہ کا مرکز رہی ہے جس کے بارے میں شیعہ علماء کے علاوہ اہل سنت کے متعدد علماء نے کتابیں لکھی ہیں ایک ہزار سے زائد روایات جس مسئلہ پر دلالت کرتی ہیں جس کے بارے میں قرآن مجید کی بہت سی آیات کی تفسیر کی گئی ہو آخر اس پر عقیدہ کیوں نہ ہو؟ اس کا ایمان وعقیدہ تو اور مستحکم ہونا چاہئے۔

بے شک! ہمارا عقیدہ ہے اور ہمیں یقین کامل ہے کہ ایک دن نظام کائنات کی مہار بشریت کی صالح ترین فرد کے دست حق پرست میںہوگی اور انسانیت ظلم وستم، فقروفاقہ اور ہر طرح کی بدامنی سے نجات حاصل کرلے گی، ہم دیکھ رہے ہیں کہ دنیا ایک تابناک مستقبل، روحانی وعقلی ترقی وتکامل اور مستحکم دینی والٰہی نظام اور صلح وآشتی، پختگی اور خیرسگالی کی جانب گامزن ہے۔

ہم بے کراں شوق ونشاط اور زندہ دلی کے ساتھ اس نورانی دور کی تمنا میں ثبات قدم کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے لئے مشغول ہیں اور شب نیمہ شعبان یعنی روز ولادت مصلح اعظم ومنجی بشریت کوعظیم عید سمجھتے ہیں اور ہر سال اس موقع پر چراغاں، جشن مسرت، محفل فضائل اور مدح وثنا کے گل نچھاور کرکے اس آستانہ کی غلامی کا اظہار کرتے ہیں جس کی پاسبانی ملائکہ کرتے ہیں اس طرح اپنے ایمان کے لئے نشاط تازہ کا سامان فراہم کرتے ہیں۔

ہم بارگاہ خداوندی میں دست بدعا ہیں کہ تمام شیعیان اہلبیت اور عشاق قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کو مذہبی شعائرکی تعظیم اور دینی وظائف پر عمل کرنے کی توفیق کرامت فرمائے۔

خداوند عالم ان کے ظہور میں تعجیل فرمائے اور ہمیں ان کے مددگاروں میں قرار دے آمین۔

ایک مصلح، دنیا جس کی منتظر ہے(۱)

جب دنیا سخت ترین اضطراب و بے چینی میں مبتلا ہوگی ہر طرف ظلم وتشدد کے شعلے بھڑک رہے ہوں گے انسانیت کے درمیان سے امن اوربرادری ناپید ہوچکی ہوگی اور سربراہان حکومت اصلاح اور بڑھتے ہوئے فساد کو روکنے سے عاجز ہوں گے، جنگ وجدال، قتل وغارتگری اور اختلافات کے باعث نسل انسانی خطرہ میں پڑ جائے گی، خطرناک ایجادات اور اجتماعی قتل کے اسلحے ترقی کی منزل پر ہوں گے انسانی اقدار دم توڑ چکی ہوں گی اورا ن کی جگہ اخلاقی برائیوں کا دور دورہ ہوگا، کمزور اور چھوٹے ممالک اوراقوام کی حمایت وحفاظت کے نام پر وجود میں آنے والے اداروںسے بھی ضعیف اور مظلوم اقوام مایوس ہوچکی ہوں گی۔

خلاصہ یہ کہ جب ہر طرح کی خباثت، فحشا وفساد اور منکرات کا رواج ہوگا اس وقت کے لئے ایک عظیم مصلح الٰہی کے ظہور کی بشارت مکمل کوائف وخصوصیات کے ساتھ معتبر کتب ومآخذ اور متواتر

روایات میں دی گئی ہے، جس وقت یہ عظیم مصلح الٰہی قیام کرے گا تو نظام کائنات کی اصلاح کرے گا

اوراس کے وجود سے کائنات کو ہر طرح کی بدبختی سے نجات حاصل ہوگی، یہ عظیم مصلح پیغمبر اسلام صلی اللہ

____________________

(۱)یہ مقالہ رسالہ مکتب اسلام کے شمارہ نمبر ۳ میں ص۶/۱۰پر شائع ہوا ہے ۔

علیہ و آلہ وسلم کی ذریت اور علی وفاطمہ زہراسلام اللہ علیہماکی اولاد سے ہوگا۔

بے شمار راویوں سے منقول مشہور ومعروف حدیث:

یملاٴ الارض قسطا وعدلا کما ملئت ظلما وجوراً “ کے مطابق وہ عظیم الشان مصلح، رو ئے زمین پر حق وعدالت کی حکومت کا پرچم لہرائے گا اور چھوٹے بڑے قصبوں، شہروں سے لے کر دیہاتوں تک دنیا کے چپہ چپہ پر نور اسلام جلوہ فگن ہوگا ہر جگہ قرآنی احکام نافذ ہوں گے،ذاتی اغراض ومنافع کی آلائش سے پاک الٰہی قوانین کی حکمرانی ہوگی ہر ادارہ خلق خدا کے آرام وآسائش اور فلاح وبہبود کے لئے کوشاں ہوگا،بہترین نظام کے تحت عملی واخلاقی کمالات کا سلسلہ شروع ہوگا اور اس طرح عمومی خوشحالی اور سطح زندگی کے معیار پر بہتری کے باعث روئے زمین پر کوئی فقیر نظر نہ آئے گا۔

یہ محض لفاظی یا خوش بیانی نہیں ہے بلکہ ان تمام جزئیات کے بارے میں فریقین نے مسلّم الثبوت روایات کا تذکرہ کیا ہے، جسکی تفصیلات ہم نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ میں بیان کی ہیں۔

روایات کے مطالعہ سے ایسی پیشین گوئیاں بہت عجیب وغریب بلکہ بحد اعجاز نظرآتی ہیں کہ معصومین نے کئی صدی قبل ایسے حالات سے مطلع فرمایا ہے اس سے زیادہ باعث حیرت بات یہ ہے کہ صنعتی ترقی ہو یا اخلاقی انحطاط ہر میدان میں جو کچھ بھی رونما ہورہا ہے ”علائم ظہور“ کے عنوان سے ان تمام امور کا تذکرہ روایات میں موجود ہے۔

قرآن مجید کی متعدد آیات مثلا سورہ توبہ، سورہ صف یا سورہ انبیاء آیت ۱۰۵ ، سورہ نورآیت ۵۵ میں خدا کا یہ وعدہ ہے کہ دین اسلام عالمی دین ہوگا اور حضرت کے ظہور سے اس وعدہ کی تکمیل ہوگی،مصلح منتظر کے ظہور کی بشارت فریقین کی مسلم الثبوت اور قطعی روایات میں منقول ہے کہ پیغمبر اکرمنے فرمایا :

”کائنات کا خاتمہ اس وقت تک نہیں ہوسکتا جب تک ”مہدی موعود“ کا ظہور نہ ہوجائے اگر اس کائنات کی عمر کا صرف ایک دن باقی ہوگا تو خداوندعالم اسی دن کو اتنا طولانی کردے گا کہ یہ عظیم مصلح اپنے ظہور کے ذریعہ ظلم وجور سے بھری ہوئی دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دے“ ۔

حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے اوصاف وکمالات اور سیرت طیبہ، انداز ہدایت اور طرز حکومت، سے متعلق بھی بے شمار روایات وارد ہوئی ہیں۔ا سی طرح ابتدائے ولادت سے لیکر آپ کے امتیازات وخصوصیات، لوگوں کے ساتھ آپ کے برتاؤ، طول عمر، غیبت کے اسباب اور دور غیبت میں لوگوں کی ذمہ داریوں تک کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں

اور ہزار سال سے زائد عرصہ سے بے شمار علماء ومحققین کی کتابوں کا محور ومرکز اور موضوع بحث قرار پائی ہیں، یہ مباحث اتنے وسیع ہوچکے ہیں کہ ان سب کا احاطہ اب کسی بھی محقق کے لئے ممکن نہیں ہے۔

راقم الحروف نے اپنی کتاب ”منتخب الاثر“ کی تالیف کے دوران مذکورہ بالا عناوین سے متعلق روایات تلاش کی ہیں ہم تمام روایات تک رسائی کے مدعی تو نہیں ہیں پھر بھی مذکورہ عناوین وموضوعات میں سے اکثر موضوعات سے متعلق روایات کا تواتر ثابت کرنے کی توفیق وسعادت حاصل ہوئی جسے قارئین کرام مذکورہ کتاب میں ملاحظہ فرماسکتے ہیں۔

مقصود یہ ہے کہ جو شخص بھی شیعہ وسنی محدثین کی کتب یا جوامع حدیث کی ورق گردانی کرے یہ بات بہ آسانی اس کے علم میں آجائے گی کہ جس مقدار میں حضرت ولی عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہسے متعلق احادیث موجود ہیں اس مقدار میں شائد ہی کسی موضوع سے متعلق روایات پائی جاتی ہوں

قطعی طور پر پیغمبراسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرنے کے بعد حضرت مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کے ظہور کا انکار کرنا اور اس پر ایمان وعقیدہ نہ رکھنا ممکن نہیں ہے، فریقین کے محدثین کرام نے حضرت علیہ السلام کی ولادت سے قبل بھی اپنی کتب میں آپ سے متعلق روایات نقل کی ہیں جس کے بعد کسی بھی مسلمان کے لئے شک وشبہ کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ۔

اس بشارت کے پورا ہونے کے لئے عالمی تغیرات، معاشرت کے موجودہ حالات اور مادی ترقی ان افراد کے لئے بھی امیدافزا ہے جو مسائل کو صرف ظاہری اسباب وعلل اور سطحی نگاہ سے دیکھنے کے قائل ہیں اوراس سے بخوبی واضح ہوتا ہے کہ آخرکار ایک دن انسانیت حکومت الٰہی کے زیر سایہ پناہ حاصل کرے گی۔

انسان نے اگرچہ قدر تی قوتوں کو مسخر کرلیا ہے اور اس بات کا مدعی ہے کہ ایک گھنٹہ سے بھی کم مدت میں روئے زمین کے تمام جانداروں کو موت کے گھاٹ اتار سکتا ہے لیکن اخلاق ومعنویات سے روگرداں اور گریزاں ہے اور اپنی خواہش کی تکمیل اور اپنے اقتدار پسند عزائم کو پورا کرنے کی کسی بھی کوشش سے باز نہیں آتا اور ہاتھ پیر مارتا رہتا ہے ایسے میں کیا یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ انسان آرام سے بیٹھا رہے گا اور جنگ سے پرہیز کرے گا۔

کیا یہی چیزیں اس بات کا سبب نہیں ہوں گی کہ انسانیت کو عالمی انقلاب اور مختلف کوششوں کے باوجود اخلاق وتمدن کی نابودی کے علاوہ کچھ بھی حاصل نہ ہو، خدا اور قیامت کے ایمان کی بنیاد پر انسانیت دونوں ہاتھ پھیلا کر عادل پیشوا کی حکومت کا استقبال کرے۔

ہم ہی نہیں ہر مسلمان اس دن کا انتظار کررہا ہے، ہمیں انسانیت کا مستقبل روشن وتابناک نظرآتا ہے اس لئے نشاط وامید سے لبریز جذبہ کے ساتھ اپنی ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں کوشاں رہتے ہیںہم بشریت کے آخری نجات دہندہ کی ولادت باسعادت کے پرمسرت موقع پر عالم انسانیت خصوصاً ان حضرات کی خدمت میں مبارکباد پیش کرتے ہیں جو مادیت کی تاریکی، ظالموں کے ظلم وستم اور تباہی وفساد سے جاں بلب ہیں۔

اللهم عجّل فرجه وسهل مخرجه واجعلنا من انصاره واعوانه

خدایا !امام زمانہ (عج)کے ظہور میں تعجیل فرما اور ہم کو ان کے ناصراور مدد گاروںمیں قرار دے(آمین)

عالمی اسلامی معاشرہ(۱)

تمام مسلمانوں کایہ عقیدہ ہے کہ قرآن مجید کی آیتوں اورپیغمبر اکرم کی حدیثوں میں اس بات کی صراحت موجود ہے کہ خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیٰ کا پیغام اور آپ کی رسالت کوئی خصوصی دین اور علاقائی یاملکی سطح کی نبوت و رسالت نہیں تھی کہ جس سے صرف ایک سماج اور معاشرہ یا کسی خاص قوم و ملت یا علاقہ کی ہدایت و رہبری مقصود ہو اور اسلامی قوانین اور قرآنی احکام کسی ایک سماج یا معین ملک علاقہ یا کسی قوم و قبیلہ سے مخصوص نہیں ہیں ۔

عمومی تبلیغ

بلکہ اسلام کا پیغام پوری دنیا کے لئے ہے اور اسکے قوانین سب لوگوں کے واسطے ہیں اور وہ تمام مردوں،عورتوں ،مالدار ،فقیر ،کالے ،گورے،شہری یا دیہاتی بلکہ ہر طبقہ اور ہر صنف کے لئے ہدایت ہے(۲)

پیغمبر اسلام پوری کائنات کے لئے رحمت اور تمام عالمین کے لئے نبی بنا کر بھیجے گئے

____________________

(۱)یہ مقالہ مسجد اعظم کے کتب خانہ کے رسالہ میں شائع ہوا تھا ملاحظہ فرمائیے جلد ۲ شمارہ ۱۱۔

(۲)قرآن کریم کی وہ متعدد آیتیں ملاحظہ فرمائیں جن میں پیغمبر اکرم کی رسالت کے عام ہونے کی صراحت موجود ہے جیسے:وما اٴرسلنٰک الا رحمة للعالمین ان هو الا ذکر للعالمین قل یا ایهاالناس اني رسول الله الیکم جمیعا ً مَن یبتغ غیر الاسلام دیناً فلن یقبل منه ۔

تھے ان کی رسالت تمام لوگوں کو بری عادتوں اور استعمار وطاغوت کی غلامی سے نجات دلانے ، توحید پر ایمان اور اخلاقی اقدارنیز انسانی حقوق کو ادا کرنے کی دعوت دینے کے لئے تھی ۔

ایک خدا کی عباد ت کی طرف دعوت دینا اور اس حسِین انداز سے تمام لوگوں کی ہدایت کرنا جس سے انکے اندر اتحاد کی فضا قائم ہو جائے ۔ ہر قسم کے فاصلے مٹ جائیں اور دوسروں پر ناحق کسی کو ترجیح دینے کا خاتمہ ہو سکے اور ایک عالمی سماج ، برادری اور ہر لحاظ سے نمونہ عمل شہر یا بستی کے قیام کے لئے کوشش کرنا یہ صرف اسلام کا ہی امتیاز ہے ۔

تمام اختلافات کی بنیاد در اصل خدائے وحدہ لاشریک سے منھ موڑنا اور غیر خدا کی عبادت کرنا ہے ۔

مختلف بنیادوں پر حکومتوں کا قیام اور انکے متضاد اور متصادم نظام اور ایک دوسرے کے مخالف قوانین یہ سب توحید کے معنی سے نا واقفیت ،خاص ماحول میں پرورش اور محدود ذہنیت کی بنیاد پر ہیں، اسلام کی عالمی رسالت کے فلسفہ پر توجہ اور عقیدہ توحید سے یہ بصیرت اور طہارت نظر پیدا ہوتی ہے کہ وہ سرحدوں اورزبانوں اور ہر طرح کے ضخیم پردوں کے پیچھے سے دنیا کے تمام علاقوں اور تمام لوگوں کو ایک انداز سے دیکھ لے اور اسلام کی اعلیٰ تعلیمات کے سائے میں ایک عالمی حکومت قائم ہو جائے ۔

حقیقی توحید

اسلامی تبلیغ اور پیغام کا ایک اہم ستون، جس پر فلسفہ نبوت کا بھی دارو مدار ہے، وہ یہ ہے کہ ہر شریعت کا سرچشمہ اور تمام قوانین اور ہر طرح کے نظام کو بنانے والا، صرف خدا وند متعال ہی ہے، شریعتوں کے قوانین اور احکام سب اسی کی لازوال اور عالم و حکیم ذات سے تعلق رکھتے ہیں اور لوگوں کو صر ف احکام خدا کے سامنے سرتسلیم خم کر نا چاہے

اورخدا کے علاوہ کسی دوسرے کے احکام کے آگے یا غیر اسلامی قوانین کے سامنے سر جھکانے کا مطلب اسلام کے راستہ سے انحراف ،شرک کی طرف توجہ اور حقیقی توحیدتک نہ پہنچنا ہے(۱)

احکام خدا کے سامنے سر تسلیم خم کرنا در حقیقت خدا کے سامنے سر جھکانا اور اس کی عبادت کرنا ہے اور جن حکومتوں اور قوانین کا خدا سے کوئی تعلق نہیں ہے ان کی پابندی کر نا غیر خدا کی عبادت اور ان کی غلامی کو قبول کرنا ہے ۔

جو شخص قانون اور احکام بنانے کو اپنا حق بھی سمجھتا ہو وہ خدا کے مخصوص افعال میں اپنے کو شریک قرار دیتا ہے اور جو شخص کسی دوسرے کے لئے ایسے حق کا اعتراف کرے تو اس نے اسکے خدا ہونے کا اقرارکیا ہے اور اس کی بندگی کو قبول کیا ہے ۔

الٰہی حکومت

اسلام یہ چاہتا ہے کہ لوگوں کے اوپر صرف خدا اور احکام خدا کی حکومت رہے، اسی لئے اس نے اس دور میںشرک کی ان تمام قسموں کا مقابلہ کیا جو اُس وقت ایران،روم یا دوسرے علاقوں میں بادشاہوں کے احترام کے نام یا کسی اور دوسری شکل میں رائج تھیں ۔

رہبران اسلام جیسے حضرت علی نے ہر ایک کے لئے یہ واضح کر دیا کہ دور جاہلیت میں روم اور ایران کے اندر جس شاہی ٹھاٹ باٹ کا چلن تھا وہ سب خدا پرستی کی روح کے سراسر مخالف اور مقام انسانیت کی توہین ہے ، حضرت علی علیہ السلام جیساخلیفہ مسلمین جنکی ذات اور شخصیت کا ہر پہلو انسانیت کی

____________________

(۱)موجودہ دور کے ایک بڑے دانشمند نے اپنی کتاب میں قرآن مجید کی چند آیتیں ذکر کرنے کے بعد یہ نتیجہ نکالاہے کہ دین ،قوانین، حدود ،شریعت اور فکری و عملی نظام کا نام ہے۔لہٰذا اگر کسی شخص کے پاس قوانین و حدود کی پابندی کے وقت کوئی خدا ئی دلیل ہو تو وہ دین خدا کے دائرہ میں ہے لیکن اگر اسکے سامنے کسی شخص یا حاکم کا حکم معیار ہو تو اسے اسی کا پیرو کہا جائے گا اسی طرح اگر وہ کسی قبیلے کے سردار یا عوام الناس کی رائے کے ماتحت چلے تو اسے انہیں کے دین کا پابند قرار دیا جائے گا۔

عظمت کی علامت ہے وہ بنفس نفیس بہت سارے کام خود کیا کرتے تھے غریبوں کے لئے آٹا، روٹی یا کھجور لے جاتے تھے اور اگر لوگ زمانہ جاہلیت کی رسموں کے مطابق آپ کے احترام یا آپ کے اعزاز میں کوئی خاص اہتمام کرنا چاہتے تھے تو آپ ان کو سختی سے منع کر دیتے تھے پرانے اور پیوند لگے ہوئے کپڑوں میں ہر جگہ آتے جاتے تھے خود ہی بازار جاتے تھے اور وہاں سے گھر کا لازمی سامان خرید کر خود ہی اپنے گھر پہنچاتے تھے ۔

اولیائے خدا کا یہ اہتمام صرف اس لئے تھا تاکہ کوئی بھی اپنے کو کسی قوم کا حاکم اور لوگوں کی زندگی کا مالک و مختار نہ سمجھے بلکہ سب خدائی حکومت اور اسکے احکام کے دائرہ کے اندر رہیں اور تمام لوگوں کا حاکم اور ہا دی صرف خدا ہی ہو ۔

آزادی بشر کا اعلان

یہ آیہ کریمہ:( قل یا اٴهل الکتاب تعالوا الی کلمة سواء بیننا و بینکم ان لا نعبد الا اللّٰه ولا نشرک به شیئاً ولا یتخذ بعضنا بعضا ً اٴرباباً من دون اللّٰه ) (۱)

”اے پیغمبر آپ کہہ دیں کہ اہل کتاب آو ایک منصفانہ کلمہ پر اتفاق کرلیں کہ خدا کے علاوہ کسی کی عبادت نہ کریں کسی کو اسکا شریک نہ بنائیں اور خدا کے علاوہ آپس میں ایک دوسرے کو خدائی کا درجہ نہ دیں “

یہ ہر طرح کی آزادی اور حریت کا اعلان ہے کہ خدا کے علاوہ کسی کا کوئی مالک اور صاحب اختیار نہیں ہے، کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ پوری قوم کو اپنی ملکیت سمجھ بیٹھے لہٰذا سب کو خدا کی حکومت کے دائرے میں داخل ہونا چاہئے کیونکہ وہی ہر ایک کا مالک و مختار ہے ۔ اس طرح پوری دنیا میں عدل و انصاف احسان ومساوات اور بھائی چارگی کا رواج پیدا ہو جائے اور ہر قسم کی اونچ نیچ

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت۶۴

اور دوریاں ختم ہو جائیں ۔

تیز رفتار ترقی

انہیں اصولوں کی وجہ سے اسلام نے ایک صدی سے کم مدت کے اندر برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی، دل روشن و منور ہو گئے اور رومی و ایرانی قوموں نے اپنے حاکموں کے ظلم و بربریت کا جو تلخ مزہ چکھ رکھا تھا اوروہ ان کی کھو کھلی اور بے بنیاد عزت و احترام سے تنگ آچکے تھے، انسان پرستی کی وبا نے ان کو شقاوت و بد بختی کیبد ترین وادیوں میں ڈال رکھا تھا، وہ سب ان تعلیمات کے صدقہ میں جب بیدار ہو گئے(۱) تو انہیں ہوش آیا اور انہوں نے اپنے کو پہچانا ،چنانچہ جب وہ لوگ عوام اور رعایا کے ساتھ یا فوجیوں کے ساتھ اسلامی حاکموں کا اچھا برتاو دیکھتے تھے توانھیںبڑی خوشی ہوتی تھی، وہ اطمینان کی سانس لیتے تھے، انھوں نے آزادی کا ایسا مزہ چکھا کہ ایک دم اسلام کے دلدادہ اور عاشق ہو گئے،اگر خلافت اپنے راستے سے نہ بھٹکی ہوتی، خاص طور سے معاویہ جیسے لوگوں کی حکومت نے اگرقیصر وکسریٰ کے ٹھاٹ باٹ کو دوبارہ زندہ نہ کیا ہوتا، تو دنیا میں انسان پرستی کا کہیں نام و نشان بھی نہ ملتا ۔

مختصر یہ کہ اسلام اپنی ان تعلیمات کے ساتھ ایک نہ ایک دن پوری دنیا میں ایک عادلانہ

____________________

(۱)ہماری نظر میں انسان پرستی کا نقصان بت پرستی سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ انسان دوسروں کے ذریعہ احترام اورانکی تواضع و انکساری اور چاپلوسی کی وجہ سے مغرور ہو جاتا ہے اور اسکے اندر اس حد تک تکبر اور خود سری پیدا ہو جاتی ہے کہ دوسروں کی تنقیدوں یا مشوروں سے اس کی پیشانی پر بل پڑ جاتے ہیں اور وہ فرعونیت کا اظہار کرنے لگتا ہے اور اگر لوگ اس کی پوجا کریں یا اسکے سامنے سر تسلیم خم کئے رہیں تووہ اس سے لطف اندوز ہوتا ہے لیکن بت پرستی میں یہ نقصانات موجود نہیں ہےں یہ واقعاً بڑے ہی افسوس کا مقام ہے کہ موجودہ دور کی موڈرن کہی جانے والی دنیا میں بھی یہ انسان پرستی نئی یا پرانی شکلوں میں آج بھی باقی ہے۔

حکومت قائم کرے گا کیونکہ اسکاپیغام دنیا کے ہر انسان کے لئے ہے اور اس کی نظر میں ہر کالا گورا خدا کے احکام کے سامنے برابر ہے ۔

اسلامی پرچم

دین حق تمام انسانوں کو صرف ایک پرچم تلے جمع کرتا ہے جسکا تعلق صرف خدا سے ہے اور کسی ملک ،حکومت ،قوم، قبیلے یا کسی شخص سے اس کی کوئی نسبت نہیں ہے اور اس طرح وہ پورے انسانی سماج کو ایک جسم کی طرح ایسا بنا دیتا ہے کہ:

اذا اشتکیٰ منہ عضو تداعیٰ لہ سائرُہ بالحُمّیٰ والسھر

یعنی جب کسی عضو میں کوئی درد پید ا ہوتا ہے تو دودسرے تمام اعضاء بھی بخار یا بیداری کے ذریعہ اسکے درد میں شریک ہو جاتے ہیں ۔

اسلام کے اس پر چم اورجھنڈے کی یہ خاصیت ہے کہ اسکے نیچے دنیا کے ہرملک اور ہر طرح کے لوگ ایک ساتھ جمع ہو سکتے ہیں اور کسی شخص کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اسے اپنی یا اپنی قوم ا ور قبیلے کی طرف نسبت دے سکے کہ جس کے نتیجے میں ایک دوسرے سے تعصب پیدا ہو جائے ۔

اسلامی پرچم ایک ایسا پرچم ہے جس سے ہر پرانے اور نئے مسلمان کا رابطہ ہے، چاہے وہ کہیں رہتا ہواور اسکا تعلق کسی بھی سرزمین سے ہو، مختصر یہ کہ اسکے سائے میں ہر قسم کے قومی اور نسلی تعصب کا خاتمہ ہوتا ہے، لیکن دوسرے تمام پرچم چاہے وہ کسی نام سے ہوں ، اختلاف ،جدائی اور ذاتیات کی پہچان ہیں ۔

اسلام کا ہر قانون سب کے لئے یکساں ہے، اگر اس کی ان تعلیمات پر عمل کیا جائے تو وہ خود بخود تمام قوموں کو ایک عالمی برادری کی طرف لے جائے گا اور تمام قوموں کو ایک اسلامی قوم کے اندر ضم کرکے انہیں دونوں جہان میں سعادت مند بنا دے گا ۔

عالمی متحدہ حکومت

مختصر یہ کہ اسلام دنیا کے تمام انسانوں اور ہر معاشرے کا قانون ہے لیکن اس معنی میں وہ عالمی حکومت نہیں کہ جو”لاینس پالینک“ یا دوسرے مفکرین کا نظریہ ہے کہ وہ عالمی متحدہ حکومت کا نعرہ لگاتے ہیں اور عالمی متحدہ حکومت کا طرفداررسالہ انکے افکار کو نشر کرتا رہتا ہے کیونکہ اگر بالفرض دنیا میں ایک دن ایسی حکومت قائم بھی ہو گئی تو وہ بھی ایسی ہی ہوگی جیسے پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ ( U.N.O )کے نام پر عالمی حکومت بنائی گئی اور جیسا کہ اس نظرئے کے مخالفین مثلاً ”اسٹراوس“ کا کہنا ہے کہ اس سے درد سری پیدا ہو گی اور لوگوں کی آزادی چھن جائے گی طاقتور کمزوروں پر مسلط ہو جائیں گے یا متحدہ عالمی حکومت کے مخالفین کے بقول اس دنیا میں موڈرن قسم کے مظالم کا راستہ کھل جائے گا کیونکہ انہوں نے جس متحدہ حکومت کا نظریہ پیش کیا ہے اسکا خدا اور توحید پر ایمان یا ایسے عقیدے سے کوئی تعلق نہیں ہے جو سب کے لئے یکساں طور پر قابل قبول ہو اور اسکا دارو مدار ایک دوسرے کے حقوق یا تمام لوگوں کی آزادی کے اوپر نہیں ہے ۔

یہ لوگ جس حکومت کا نظریہ پیش کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ اگر پوری دنیا میں ایک متحدہ حکومت نہ ہو تو ایٹم بم جیسے مہلک اسلحوں کی دوڑ ایک نہ ایک دن پوری انسانیت کو نیست و نابود کر کے رکھ دے گی لہٰذا اس سے بچاو کے لئے ابھی سے دنیا کی تمام قوموں کو قانونی طور پر ایک عالمی سماج اور معاشرے کی بنیاد ڈالنا چاہئے ۔

ایسی کوئی حکومت وجود میں نہیں آسکتی اور بالفرض وجود میں آبھی جائے تو اسکے نفاذ کی کوئی ضمانت نہیں لی جا سکتی اور نہ ہی وہ لوگوں کی خواہشات اور جذبات پر قابو پاکر ان کی رہنمائی کر سکتی ہے اور نہ ہی اس سے دنیا میں ایک ایمانی اور انسانی برادری قائم ہو سکتی ہے۔

ایمانی برادری

لیکن اسلام جو کچھ بھی کہتا ہے اس کے مطابق اسکے نفاذ کی یقینی ضمانت موجود ہے اور ایمان و عقیدے سے اس کی پشت پناہی ہوتی ہے اور وہ لوگوں کو ایک دوسرے کا بھائی قرار دیتا ہے نیزان کی خواہشات اور جذبات کوصحیح رخ پر لگاتا ہے ۔

جیسا کہ صدر اسلام میں اسکا عملی نمونہ سب نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا اور آج بھی اسلامی ملکوں کی حد بندیوں کے باوجود کروڑوں مسلمان اپنے کو ایک ہی اسلامی معاشرے کا حصہ سمجھتے ہیں ، انکے اندر ایک دوسرے کے بارے میں یکساں طور پر بھائی چارگی کا احساس پایا جاتا ہے اور وہ لوگ ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک رہنا چاہتے ہیں ۔

دنیا کے موجودہ یا اسلام سے پہلے کے ہر چھوٹے بڑے سماج اور معاشرہ کے مقابلہ میں اسلامی سماج اور معاشرہ کا امتیاز یہی ہے کہ اس معاشرے میں ہر چیز کی بنیاد اور اس کا مرکز خدا کی ذات اور اسکے احکام وتعلیمات ہی ہیں اور اسلام کے تعلیمات اس عالمی معاشرے کا نظم و نسق چلانے کے لئے ہر لحاظ اور ہراعتبار سے کافی ہیں ۔

ایمان کا کردار

اس عقیدہ کا مرکزی نقطہ اور بنیادی قلعہ عقیدہ توحید اور وحدہ لاشریک خدا پر ایمان رکھنا ہے، جو سب کا خالق اور رازق ہے اور جوشخص جتنا بڑا متقی ہوگا وہ اس سے اتنا ہی قریب ہوتا جائے گا، اس اسلامی معاشرے کا ایک حقیقی اور واقعی محور ہے جو کسی ایک شخص سے مخصوص نہیں ہے بلکہ اس سے ہر ایک کا رابطہ ہے جبکہ ”لاینس پالینک“ اور اس کے ساتھیوں کے عالمی معاشرے کی کوئی بنیاد اور مرکز نہیں ہے بلکہ انکے یہاں اس کی اصل وجہ سب کو جلا کر رکھ دینے والی عالمی جنگ کا خوف اور اس کی دہشت کے علاوہ اور کچھ نہیں ہے ۔

اسلام عقیدہ توحید کے ذریعہ لوگوں کے انداز فکر کو تبدیل کرکے انکی فکروں کی سطح کو بلند کرتا ہے اور لوگوں کی سوجھ بوجھ اور وسعت نظر میں اضافہ کر دیتا ہے تاکہ وہ لوگ کسی جنگ یا مہلک اسلحوں کی وحشت اور خوف کے بغیر ایک دوسرے سے نزدیک ہو سکیں اور کسی بھی مسئلے کے بارے میں انکے درمیان بآسانی مفاہمت پیدا ہو سکے ۔

ہمیں اس بات کا مکمل یقین ہے کہ اسلام کی یہ عالمی حکومت ایک دن پوری دنیا کے نظم و نسق کو بخوبی چلائے گی اور تمام مذاہب ،تمام حکومتوں اورقوانین کی وحدت عملی شکل اختیار کرکے رہے گی اور جب تک دنیا میں یہ وحدت پیدا نہ ہوگی اسلام کے پیغام کا حق بخوبی ادا نہیں ہو سکتا ہے ۔

یہ بڑی خوشی کی بات ہے کہ دنیا میں اس اتحاد کے طرفدارو ں کی تعداد میں ہر دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جا چکا ہے کہ ایک عالمی حکومت کے قیام کی فکر سامنے آنے کی وجہ سے ہی عالمی اداروں کی بنیاد پڑی اگر چہ ایسے ادارے لوگوں کو دھوکہ میں رکھکر ان سے سیاسی فائدہ اٹھانے کے لئے ہی بنائے گئے ہیں لیکن اسکے با وجود یہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ ایک بین الاقوامی دینی ،سیاسی اور سماجی اتحاد، انسانی فطرت اور اس کی روح کی آواز ہے اور یہی مجازی تحریکیں در حقیقت بشریت کی جانب سے اسلام کی عالمی حکومت کی تیاریوں کی علامت ہے۔