نويد امن وامان

نويد امن وامان0%

نويد امن وامان مؤلف:
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)

نويد امن وامان

مؤلف: آيت اللہ صافی گلپایگانی
زمرہ جات:

مشاہدے: 17980
ڈاؤنلوڈ: 3317

تبصرے:

نويد امن وامان
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 218 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 17980 / ڈاؤنلوڈ: 3317
سائز سائز سائز
نويد امن وامان

نويد امن وامان

مؤلف:
اردو

اتحا دکی زمین ہموار ہو رہی ہے

گذشتہ دور میں ایک عالمی سماج اور معاشرے کے قیام کا نظریہ اس لئے بہت کم سامنے آتا تھا اور اس سے متعلق اسلامی تعلیمات پر توجہ نہ ہونے کی وجہ یہ تھی کہ پہلے زمانے میں ارسال و ترسیل اور ایک دوسرے سے رابطہ پیدا کرنے کے وسائل موجود نہ ہونے کی وجہ سے لوگ ایسی عالمی حکومت قائم ہونے کو دشوارہی نہیں بلکہ نا ممکن سمجھتے تھے لیکن آج ٹیلیفون،ٹیلیویژن، ریڈیو،کمپیوٹر،انٹرنیٹ، جہاز اور دوسرے ترقی یافتہ وسائل نے جس طرح تمام دنیا والوں کو ایک گھرمیں رہنے والوں کی طرح ایک دوسرے سے قریب کر دیا ہے اسی طرح اس سے اسلامی تعلیمات کے سائے میں ایک عالمی حکومت کے قیام کا راستہ صاف ہو گیا ہے چنانچہ صنعت اور ٹیکنالوجی جتنی بھی ترقی کرے گی اسلام کے بیش قیمت اور بلند و بالا احکامات کے لئے حالات اتنے ہی سازگار ہوتے چلے جائیں گے اور اولیائے الٰہی کی بشارتیں اپنی منزل سے اتنی ہی قریب ہو تی چلی جائیں گی آہستہ آہستہ انفرادی اورعلاقائی قدریں کمزور پڑتی نظر آئیں گی اور دنیا کی تمام قومیں اپنے مقدر کے فیصلہ میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر خود حصہ لے سکیں گی جسکے بعدتمام علاقائی نظاموں کا خاتمہ ہو جائے گا اور وہ تنہا نظام جو ان نظاموں کی جگہ پر آنے کے بعد پوری دنیا کے نظم و نسق کو عدل و انصاف کے ساتھ چلا سکے گا وہ اسلامی نظام ہی ہوگا۔

مختصر یہ کہ دنیا خود بخود اسلامی مقاصد کی طرف آگے بڑھتی جا رہی ہے اور ایک دن وہ ان تمام خود ساختہ قوانین، نظاموں اور سیاسی یا سماجی امتیازات اور اونچ نیچ کو پیچھے چھوڑ دیگی ،اسلامی مفاہمت کا ایک عام ماحول پیدا ہو جائے گا اور ظلم و ستم اور افراط وتفریط کا خاتمہ ہو گا(۱)

____________________

(۱)امریکی فلاسفر ”ویلم لوکا ریسون“ کا کہنا ہے :” بشریت کے لئے ہمیں ایک ملک ،ایک قانون ،ایک قاضی اور ایک حاکم کا اعتراف ہے دنیا کے تمام شہر ہمارے شہر اور دنیا کی ہر قوم والے ہمارے شہری اور ہمارے ہیں ہمیں اپنے شہروں کی سر زمین سے اتنی ہی محبت ہے جتنی کہ دوسرے شہروں سے محبت ہے“ البتہ امریکی اپنے اس نظریہ میں کس حد تک سچے یا جھوٹے ہیں اسکا فیصلہ دنیا والے خود کرینگے۔

مشہور اطالوی ادیب”دانٹہ“ نے کہا : پوری زمین اور اس پر جتنے لوگ زندگی بسر کر رہے ہیں سب کو ایک حاکم کے ما تحت رہنا واجب ہے اور اسے ہر چیز کا اختیار ہو،تا کہ جنگ کی آگ نہ بھڑک سکے اور امن و آشتی قائم رہے ۔

فرانسوی ”نولیتر“نے یہ کہا ہے: کسی بھی شخص نے اس وقت تک اپنے شہروں کی سر بلندی کی آرزو نہیں کی جب تک اس نے دوسروں کی بدبختی اور انکے فنا ہونے کی آرزو نہیں کر لی ۔دوسرے مفکرین جیسے صموئیل وغیرہ کے بھی ایسے ہی نظریات ہیں جن سے ”ایک عالمی حکومت کے قیام “کے نظریہ کا پتہ چلتا ہے۔

اسلام نے شروع ہی سے اس روشن مستقبل کے بارے میں پیشین گوئی کی تھی اورآیات و روایات میں اسکا صاف صاف وعدہ کیا گیاہے اور بشر کو ایسے دن کا منتظر رہنے کے لئے کہاگیاہے کہ جس دن سب لوگ اسلامی پرچم کے نیچے جمع ہوجائیں گے اور سب کا دین و مذہب قومیت اور حکومت ایک ہی ہوگی اور ان میں ایسے عالی مرتبہ ہادی عالم کے ظہور کی بشارت دی گئی ہے جو پوری دنیا کا نظام چلا سکے اور اس کو عدل و انصاف سے بھر دے اس کے ساتھ ساتھ اسلام نے سب کو اس کی شناخت بھی کرا دی ہے۔

قرآن مجید کی آیتیں

سورہ توبہ آیت ۳۳ ،سورہ فتح آیت ۲۸ اور سورہ صف کی ۹ ویں آیت میں خداوند عالم نے یہ ارشاد فرمایا ہے:

( هوالذی اٴرسل رسوله بالهدیٰ و دین الحق لیُظهره علی الدین کله )

وہ خدا وہ ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تا کہ اپنے دین کو تمام ادیان پر غالب بنا ئے ۔

تمام مذاہب پر اسلام کے غلبہ کے وعدہ سے متعلق ان آیتوں کی دلالت بالکل واضح ہے ۔

سورہ انبیاء کی ۱۰۵ ویں آیت میں خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( ولقد کتبنا فيا لزبور من بعد الذکر ان الاٴرض یرثها عبادي ا لصالحون )

اور ہم نے ذکر کے بعد زبور میں لکھ دیا ہے کہ ہماری زمین کے وارث ہمارے نیک بندے ہی ہونگے۔

اس آیت میں بھی واضح اعلان ہے کہ زمین پر خدا کا اختیار ہے اور اسکے صالح بندے ہی اسکے مالک بنیں گے ۔

سورہ نور کی ۵۵ ویں آیت میں ارشاد فرمایا ہے:

( وعد الذین آمنوا منکم و عملوا الصالحات لیستخلفنّهم فی الاٴرض )

اللہ نے تم میں سے صاحبان ایمان و عمل صالح سے یہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں روئے زمین میں اسی طرح خلیفہ بنائے گا جس طرح پہلے والوں کو بنایا ہے۔

ان دونوں آیتوں میں واضح تاکیدوں کے بعد یہ وعدہ کیا گیا ہے کہ اسلام طاقتور ہو جائے گا اور انکا خوف و ہراس امن میں بدل جائے گا۔

سورہ قصص کی پانچویں آیت میں ارشاد ہے:

( و نرید ان نمن علی الذین استُضعفوافي الارض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثین )

اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ جن لوگوں کو زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے ان پر احسان کریں اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں ۔

احادیث اور تفسیروں کے مطابق یہ آیت بھی انہیں آیتوں میں سے ہے جن میں حضرت ولی عصرکے ظہور اور ان کی عالمی حکومت کی بشارت دی گئی ہے ۔

نہج البلاغہ اور دیگر بہت سی معتبر کتابوں میں امیر المومنین کا یہ ارشاد نقل ہواہے:

لتعطفنّ الدنیا علینا بعد شماسها عطف الضروس علی ولدها وتلیٰ عقیب ذلک و نرید ان نمن علی الذین استُضعفوافي الارض و نجعلهم ائمة و نجعلهم الوارثین (۱)

یہ دنیا منھ زوری دکھلانے کے بعد ایک دن ہماری طرف بہر حال جھکے گی جس طرح کاٹنے والی اونٹنی کو اپنے بچہ پر رحم آجاتا ہے اسکے بعد آپ نے اس آیت کریمہ کی تلاوت فرمائی ”اور ہم یہ چاہتے ہیں کہ ان بندوں پر احسان کریں جنھیںروئے زمین میں کمزور بنا دیا گیا ہے اور انہیں لوگوں کا پیشوا بنائیں اور زمین کا وارث قرار دیں “

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۰۹

احادیث

شیعہ اور سنی دونوں کے یہاں متواتر حدیثوں سے یہ بات ثابت ہے کہ اسلام پوری کائنات میں پھیل جائے گا اور کوئی گھر ایسا باقی نہیں رہے گا کہ جو اسلامی تعلیمات کے زیر اثر نہ آ جائے کوئی شہر اور دیہات ایسا نہ ہوگاجس میں ہر صبح و شام اذان اور توحید ورسالت کی گواہی کی آواز بلند نہ ہو جب ہر قوم انقلابی تحریکوں، فتنہ وفساد ،لوٹ مار، گھروں کو جلا کر راکھ کر دینے والی جنگوں ،قحط،مہنگائی اور بیماریوں سے تنگ آچکی ہوگی توخدا وند عالم دنیا کے حقیقی مصلح یعنی قائم آل محمد عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کو بھیجے گا تاکہ وہ ظلم و جور سے دنیا کے بھر جانے کے بعد اسے عدل و انصاف سے بھر دیں، آپ کے ظہور کی برکت سے ہرظلم اور بے چینی کا خاتمہ ہو جائے گا ،ہرجگہ امن وآشتی کا دور دورہ ہوگا۔ پوری دنیا میں ایک حکومت قائم ہو گی اور خدا وند عالم مشرق ومغرب کو آپ کے حوالے کر دے گا اور انہیں آپ کے ہاتھوں فتح کر دے گا۔

یہ روایات ان کلیدی اور معتبر کتابو ںمیںموجود ہیں جن پر اہلسنت اور شیعوں کا اعتماد ہے جن میں وہ کتابیں بھی شامل ہیں جو امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور سے بہت پہلے یعنی پہلی صدی ہجری میں لکھی گئی ہیں اور اہل نظر بخوبی واقف ہیں کہ رسول اکرم اور ائمہ معصومین اور صحابہ و تابعین کی احادیث و روایات میں جس کثرت کے ساتھ اس مسئلہ کا تذکرہ ہوا ہے اس کے مقابلے میں دوسرے مسائل کا تذکرہ بہت ہی کم ہے ،کیونکہ اس مصلح عالم اور کائنات کے نجات دینے والے کے ظہور کا ایمان در حقیقت پیغمبر اکرم کی صداقت اور آپ کی نبوت کی تصدیق کا اٹوٹ حصہ ہے اور یہ ایک الٰہی وعدہ ہے جو ہر گز غلط نہیں ہو سکتا:

( ان اللّٰه لا یخلف المیعاد ) (۱)

اور اللہ کا وعدہ غلط نہیں ہوتا۔

یہ وعدہ ظہور،الٰہی سنتوں اوربشریت نیز عالم ہستی کے ارتقائی سفر کے عین مطابق ہے اور خدا کے اسمائے حسنیٰ جیسے ’الحاکم‘ ’العادل‘ ’الظاہر ‘ ’الغالب‘ کی تائید ہے۔

( فلن تجد لسنة الله تبدیلا ولن تجد لسنة الله تحویلا ) (۲)

اور خدا کا طریقہ کار ہرگز بدلنے والا نہیں ہے اور نہ اس میں کسی طرح کا تغیر ہوسکتا ہے ۔

____________________

(۱)سورہ آل عمران آیت۹

(۲)سورہ فاطر آیت۴۳

دوسر ا حصه فلسفہ واسرار غیبت

غیبت کا راز

حضرت امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی غیبت کے فائدو ں اور اس کی مصلحت کے بارے میں گفتگو کرنے سے پہلے ہمیں یہ دھیان رکھنا چاہئے کہ انسان نے عام طریقوں سے اب تک جو بھی معلومات حاصل کی ہیں ان کے با وجودوہ موجودات دنیا کے تمام رازوں کو نہیں سمجھ پایا اور اگر علم ہزاروں نہیں بلکہ کروڑوں سال اور ترقی کر لے تب بھی انسان کی معلومات کی تعداد اسکے مجہولات کے مقابلہ میں بہت ہی مختصر اور نا چیز ہوگی اور ایک بڑے دانشورکے بقول”یہ ایک نا متناہی چیز کے مقابلہ میں بالکل نہ ہونے کے مثل ہے“ اور یہ بھی اُس صورت میں ہے کہ جب ہم تمام انسانوں کے علم کا حساب کریں لیکن اگر صرف ایک عالم اور دانشور کے علم پر نظر رکھیں تو پھر ابھی تک کشف اور واضح ہونے والے رازوں سے اسکا موازنہ کرنا کسی مضحکہ سے کم نہیں ہے اور اسے جہالت و نادانی کے علاوہ کچھ نہیں کہا جا سکتا ۔

جب حضرت علی کی زبان پر یہ الفاظ جاری ہیں:

سبحانک ما اعظم ما نری من خلقک وما اصغر عظیمَها في جنب ماغاب عنا من قدرتک

پاک و پاکیزہ ہے تو ،تیری وہ مخلوق کتنی عظیم ہے جو ہماری نگاہوں کے سامنے ہے اور اس کی عظمت کتنی چھوٹی ہے تیری اس قدرت کے مقابلہ میں جو ہماری نظروں سے پوشیدہ ہے۔

تو پھر دوسروں کا حال تو خودبخود معلوم ہے !

لہٰذا کسی کے اندر یہ مجال نہیں ہے کہ وہ اس عظیم کائنات کی کسی بھی خلقت کا راز معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اسکے وجود کے بارے میں اعتراض شروع کردے یا اس کائنات کے بعض نظاموں اور اسکے قوانین کو فضول سمجھنے لگے ۔

کوئی شخص بھی یقینی طور پر یہ دعویٰ نہیں کر سکتا ہے کہ دنیا کی چھوٹی سے چھوٹی چیزمیں کوئی راز یا نکتہ پوشیدہ نہیں ہے جس طرح کوئی یہ دعویٰ نہیں کر سکتا کہ اسے دنیا کے تمام اسرار معلوم ہیں قدیم اور جدید علماء وفلاسفہ اوردانشوروں نے صرف اسی ادراک کو اپنے لئے باعث فخر قرار دیا ہے کہ :

ہر گز دلم نز علم محروم نشد

کم ماند ز اسرار کہ مفہوم نشد

میرا دل علم سے ہر گز محروم نہیں رہا

وہ راز کم ہیں جو میرے لئے واضح نہ ہو گئے ہوں

ہفتاد و دو سال جہد کردم شب وروز

معلومم شدکہ ھیچ معلوم نشد

۷۲ سال تک میں نے دن رات محنت کی ہے

اور صرف اتنا معلوم ہو سکا کہ کچھ معلوم نہیں ہے

بہ جائی رسیدہ دانش من

کہ بدانم ھنوز نادانم

میرایہ علم صرف وہاں تک پہونچ سکا

کہ یہ جان سکوں کہ ابھی نادان ہوں

عرب کا ایک دانش مند اور حکیم شاعر کہتا ہے :

ما للتراب و للعلوم و ا نمّا

یسعیٰ لیعلم انه لا یعلم

مٹی اور علوم کے درمیان کیا رابطہ بلکہ وہ تویہ

کوشش کرتا ہے کہ یہ جا ن لے کہ و ہ جانتانہیں ہے

مشہور ہے کہ ایک عورت نے مشہور حکیم” بزرگ مہر“ سے کوئی سوال پوچھا حکیم نے اسے جواب دیا کہ مجھے معلوم نہیں ہے ۔

عورت نے کہا اے حکیم صاحب: بادشاہ سلامت تمہیںہر مہینے صرف اس لئے تنخواہ دیتے ہیں تاکہ تم اپنے علم و حکمت کے ذریعہ لوگوں کی مشکلات کو حل کر سکو !کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ میرے سوال کے جواب میں تم اپنی جہالت اور نادانی کا اقرار کر رہے ہو ؟

حکیم نے کہا : بادشاہ مجھے جو کچھ دیتا ہے وہ میری معلومات کے اعتبار سے دیتا ہے لیکن اگر وہ میرے مجہولات (جو چیزیں مجھے معلوم نہیں ہےں ان)کے اعتبارسے مجھے دینا چاہے تو وہ اپنا پورا خزانہ بھی خالی کر دے گا تب بھی میرے لئے کم رہے گا ۔

لہٰذا ہمیں مجہولات کو کشف کرنے اور اسرار کائنات کو جاننے کے لئے ہر دم کوشش کرتے رہنا چاہئے اور اگر کسی جگہ پر ہماری تحقیق اور جستجوکا کوئی نتیجہ برا ٓمد نہ ہو سکا تو اسے اسکے موجود نہ ہونے کی دلیل قرار نہ دینا چاہئے ۔

مثلاً جب انسان کی آنکھیں طاقتورٹیلسکوپ اور میکروسکوپ سے مسلح نہیں تھیں تو اسے یہ حق نہیں تھا کہ وہ ذرہ کے برابر موجودات ،یا ان لاکھوں کرات کا انکار کر دے جو اس سے پہلے کشف نہیں ہوئے تھے ۔

جس طرح وہ حیوانات جو ہر رنگ نہیں دیکھ پاتے یا انہیں صرف ایک رنگ دکھائی دیتا ہے وہ ان رنگوں کا انکار نہیں کر سکتے جو انسان کو مختلف انداز سے دکھائی دیتے ہیں ،جس طرح کوئی سنی جانے والی اور نہ سنی جانے والی آوازوں اور ان کی امواج کا انکار نہیں کر سکتا ہے ۔

یہ قاعدہ تکوینی دنیا اور شرعی دنیا دونوں ہی جگہ جاری ہے دنیائے شریعت میں بھی بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کے فلسفہ و حکمت تک ہماری عقل نہیں پہونچ پاتی ہے اور ایسے احکام شریعت کا حال بھی بالکل بقیہ کائنات (عالم تکوین)کی طرح ہے لہٰذا جس طرح ہمیں کائنات کے بارے میں اس قسم کے اعتراض کا حق نہیں ہے اسی طرح شرعی مسائل میں بھی اعتراض کا حق نہیں ہے ۔

اگر ان دونوں مقامات (شریعت اور تکوین (کائنات))پر ہمیں کوئی ایسا مسئلہ دکھائی دے کہ صحیح عقل اور برہان اسکے خیرنہ ہونے یا شر (مضر)ہونے کا فیصلہ کر دیں تو ہمیں ناراض ہونے کا حق ہے ،لیکن آج تک شریعت اور کائنات میں ہمیں ایسی کوئی چیز نظر نہیں آئی اور نہ کبھی آئندہ نظرآئے گی۔

اس مقدمہ کے بعد ہم کہتے ہیں : کہ امام زمانہ کی غیبت پر ایمان رکھنے کے لئے اسکا فلسفہ جاننا ہر گز ضروری نہیں ہے اور اگر بالفرض ہمیں اسکا کوئی راز معلوم نہ ہو سکا تب بھی ہمیں اسکا پختہ یقین رہے گا ، ہمیں اجمالا ًیہ معلوم ہے کہ اس غیبت میں بہت اہم فائدہ اور مصلحت پوشیدہ ہے ،لیکن ہمارے جاننے یا نہ جاننے سے اسکے ہونے یا نہ ہونے پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے جیسا کہ اگر ہم اصل مسئلہ غیبت کو ہی نہ جانتے ہوں تب بھی اس کا کوئی ضرر نہ ہوگا ۔

حضرت کی غیبت ایک انجام یافتہ امر الٰہی ہے جسکی اطلاع معتبر احادیث سے ہم تک پہونچی ہے اور اس مدت میں بہت سے بزرگوں نے آپ کی زیارت کا شرف حاصل کیا ہے۔

لہٰذااگر غیبت کے نہ جاننے اور اس کے واقع ہونے کے درمیان کسی قسم کا کوئی ربط نہیں ہے توہم یہ کہتے ہیں کہ ہمیں غیبت کا راز معلوم نہیں ہے اس کے باوجود ہمیں امام زمانہ کے وجود پر مکمل ایمان ہے بالکل اسی طرح جس طرح ہم بہت ساری چیزوں کا فائدہ نہیں جانتے ہیں مگر ان کے موجود ہونے کا ہمیں علم ہے۔

غیبت کے فوائد

واضح رہے کہ غیبت کے اسرار کے بارے میں سوالات کا آغاز ہمارے ہی زمانہ سے نہیں ہوا ہے اور اسکا تعلق صرف اِسی دور سے نہیں ہے بلکہ جب آپ کی غیبت شروع نہیںہوئی تھی حتی کہ آپ کی ولادت سے بہت پہلے جب پیغمبر اکرم اور ائمہ معصومین نے حضرت مہدی کے ظہور کی خبر دی تھی اسی وقت یہ سوالات سامنے آگئے تھے۔

آپ غیبت کیوں اختیار کرینگے ؟ اس غیبت کا فائدہ کیا ہے ؟

آپ کی غیبت کے دور میں آپ کے وجودسے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے گا؟

معصومین نے حضرت مہدی کے ظہور کی بشارت دینے کے ساتھ ہمیں ان سوالات کے جوابات سے بھی آگاہ کر دیا ہے جن میں سے بعض جوابات کو مختصر طور سے اس مقام پر ذکر کیا جا رہا ہے ۔

۱ ۔آپ کے ظہور کاسب سے اہم راز اور سب سے بڑی وجہ آپ کے ظہور کے بعد ہی معلوم ہو سکے گی جیسا کہ جب جناب موسیٰ (علی نبینا و آلہ و علیہ السلام) جناب خضر کے ساتھ گئے تھے تو ان کے کاموں کی حکمت اور راز اس وقت تک معلوم نہ ہو سکے جب تک وہ ایک دوسرے سے جدا نہ ہو گئے ۔

یا بالکل اسی طرح جیسے ہر موجود کی خلقت کا فائدہ چاہے وہ جمادات ہوں یا نباتات اور یا انسان اور حیوان ہوں ان کا فائدہ کئی مہینے یا کئی سال گذرنے کے بعد ظاہر ہو پاتا ہے ۔

۲ ۔اس غیبت کے کچھ اسرار معلوم ہیں جیسے یہ بندوں کا امتحان ہے کیونکہ غیبت کی وجہ سے خاص طور سے جبکہ اسکا راز معلوم نہ ہو تو لوگوں کے ایمان کا اندازہ ہو جاتا ہے کہ تقدیر الٰہی کے بارے میں انکا ایمان کتنا قوی ہے ان کی زبان میں کتنی سچائی پائی جاتی ہے اس طرح غیبت کے زمانہ میں رونما ہونے والے حادثات میں تمام لوگ شدید ترین امتحانات میں مبتلا ہوتے ہیں جن کی تفصیل بیان کرنے کافی الحال امکان نہیں ہے ۔

انہیں اسرار میں سے ایک رازیہ ہے کہ غیبت کے زمانہ میں دنیا کی تمام قومیں آہستہ آستہ علمی اخلاقی اور عملی طور پر اس مصلح حقیقی اور بشریت کے حالات کو سدھارنے والے کے ظہور کےلئے تیار ہو جائیں کیونکہ حضرت کا ظہور دوسرے تمام انبیاء کی طرح نہیں ہے جسکا دار و مدار ظاہری اور عام اسباب کے اوپر ہو بلکہ دنیا کی قیادت میں آپ کا طریقہ کار حقیقتوں پر مبنی ہوگا اور اصل حق کے مطابق حکم کریں گے اسکے علاوہ تقیہ سے پرہیز، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر میں سختی، تمام کارندوں اورذمہ داروں سے سخت مواخذہ (بازپرس)اور انکے کاموں کی کڑی نگرانی کرنا بھی آپ کی حکومت کا اہم حصہ ہے اور ان کاموں کی انجام دہی کے لئے علوم و معارف کے ارتقاء اور بشریت کی فکری اور اخلاقی ترقی بے حد ضروری ہے تاکہ اسلامی تعلیمات کے دنیا میں چھا جانے اور قرآنی احکامات کی عالمی حکومت کے لئے و سائل فراہم رہےں۔

آخر میں لازم ہے کہ اپنے قارئین محترم کی مزید واقفیت کے لئے مسئلہ غیبت سے متعلق کچھ اہم کتابوں کی طرف اشارہ کر دیا جائے جیسے ”غیبت نعمانی“ غیبت شیخ طوسی اور ”کمال الدین وتمام النعمہ“ کیونکہ غیبت کے بعض اسرار کو سمجھنے کے لئے انکا مطالعہ نہایت مفید ہے۔

امید ہے کہ خدا وند عالم اپنے فضل و کرم سے حضرت ولی عصرعجل اللہ تعالی فرجہ الشریف کے ظہور کو نزدیک فرمائے اور ہماری آنکھوں کو انکے بے مثال جمال کے نور سے روشن کرے ، پوری دنیا میں ایک اسلامی حکومت قائم ہو اور دنیا کوجاہ طلب لوگوں کے ظلم و ستم اور متصادم سیاستوں کے نقصانات سے نجات عطا فرمائے ۔

بحق محمد و آله الطاهرین علیهم السلام

غیبت کی حکمت اور اس کا فلسفہ

( وقل رب زدنی علما ) (۱)

اور آپ کہتے رہیں کہ پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔

اکثر لوگوں کا خیال یہ ہے کہ انہیں چیزوں کی حقیقت اور واقعیت معلوم ہے اور انھوں نے جو کچھ دیکھا یا سنا یا پہنا اور چکھا ہے یا اسے چھوا ہے اسکے ذریعہ انہیں اس کی حقیقت معلوم ہو گئی ہے اور شاید اپنی نادانی کی طرف ان کی تھوڑی توجہ بھی نہ ہو ۔

جو کسان یا مالی (باغبان)کھیت اور باغ کے اندر کھیتی یا باغبانی میں مصروف ہے اسکا خیال یہ ہے کہ جن جن چیزوں سے اسکا سرو کار (رابطہ)ہے جیسے زمین مٹی، گھاس پھوس، پانی، بیج، جڑیں، تنا، ڈالی، پتے، کلی، پھل، دانہ، پتھر اور درختوں کی بیماریوں سے وہ نا واقف نہیں ہے اور یہ سب اسکے لئے مجہول نہیں ہیں، ایک معدن کا مزدور بھیڑ ،بکریوں اور گائے بھینس کا چرواہا سب کا یہی خیال ہے کہ انہوں نے کم ازکم اپنے ماتحت چیزوں کو پہچان لیا ہے ۔

جن لوگوں نے تھوڑی بہت تعلیم حاصل کی ہے وہ بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں اسی لئے وہ اپنے کو عالم حقائق سمجھتے ہیں ۔

بجلی،معدنیات اورکھیتی باڑی کا ماہر، کھال ،اعصاب ،خون،ہڈی،دماغ وغیرہ کے اسپشلسٹ

____________________

(۱)سورہ طہ آیت۱۱۴۔

ڈاکٹر، ریاضیات، نجوم، نفسیات، ہستی شناس، علم کیمیا یا دوسرے علوم کے تمام ماہر ین ، اپنے علم و فن سے متعلق تمام چیزوں کوچاہے اچھی طرح پہچان لیں لیکن وہ ان کی حقیقت کو پہچاننے سے عاجز ہیں اور چاہے وہ جتنی مہارت حاصل کر لیں ان چیزوں کے بعض ظاہری آثار اورخاصیتوں کو پہچاننے کے علاوہ اس کی کوئی حقیقت بیان نہیں کر سکتے، نیز آئندہ بھی وہ جتنے زیادہ ماہر ہوتے چلے جائیں گے وہ اپنی بتائی ہوئی تعریفوں (اصطلاحوں) کے نقائص اور مشکلات سے اتنا ہی واقف ہوں گے۔

کیونکہ دنیا کے اندر پیچیدہ مسائل کا ایک اتنا طویل سلسلہ ہے کہ اس کی ابتداء و انتہا بشر سے بالکل پوشیدہ ہے اور اس سلسلہ کی ہر منزل اور ہر مرحلے پر اتنے راز اور معمے (گتھیاں)موجود ہیں جن کا صرف تصور ہی انسان کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کافی ہے۔

”لیڈی اسٹور“ کا بیان ہے کہ اگر کوئی شخص صرف اس مقدار میں بولے جسکی حقیقت کو اس نے پہچان لیا ہے تو پوری کائنات کے اوپر ایک گہری خاموشی کی حکومت قائم ہو جائے گی(۱)

ادارہ رو کفلر کے نائب صدر ”وارین ویفر“نے کہا : کیا علم، جہل و نادانی سے جنگ جیت سکتا ہے ؟ جبکہ علم جس سوال کا جواب بھی پیش کر تا ہے اسکے سامنے کئی نئے سوالات پیدا ہو جاتے ہیں اور مجہولات کوکشف کرنے کے راستے میں وہ جتنا آگے بڑھتا ہے اسے جہل کی تاریکیاں اتنی ہی زیادہ دکھائی دیتی ہیں ،علم بشر کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے لیکن یہ احساس کہ اسمیں کوئی ترقی نہیں ہو رہی ہے اب بھی اپنی جگہ پر باقی ہے کیونکہ جن چیزوں کے بارے میں ہمیں معلومات حاصل ہوئی ہیں (انکی دریافت کرتے ہیں )اور ان کو نہیں سمجھ پاتے یا انکونہیں پہچانتے ہیں ان کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔(۲)

____________________

(۱) رسالہ:المختار من ریدرزدایجست صفحہ ۳۷/ نومبر۱۹۵۹

(۲)رسالہ ”المختار من ریدر دائجست صفحہ ۱۱۳ /اکتوبر۱۹۵۹

جی ہاں جس بشر نے اپنے تجربی اور حسی علوم کے ذریعہ بجلی، بھاپ، لوہا، پانی، مٹی ہوااور ایٹم کو مسخر کر لیا ہے اورآسمانی کرات بھی اس کی رسائی کے دائرے میں ہیں اور اس نے عناصر کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا ہے نئی نئی ایجادات جیسے فون، ریڈیو اور ٹیلیویژن یا کمپیوٹر، بڑے بڑے صنعتی کارخانے اس نے بنائے ہیں اسکے باوجود آج بھی وہ ان چیزوں کی حقیقت جاننے سے قاصر ہے جن سے اسے دن رات سروکار رہتا ہے ۔

اس نے بجلی کی حقیقت ،پانی کی حقیقت ،عناصر کی حقیقت ،درختوں اور معدنوں ،جراثیم اور خلیوں، ایٹم ،الکٹرونوغیرہ کی حقیقتوں کو نہیں پہچانا ہے اور انکے بعض خصوصیات یا چند ظاہری چیزوں کے علاوہ اسے کچھ معلوم نہیںہو پایا اور یہ تمام چیزیں اسکے لئے آج بھی ایک پہیلی (معمہ) اورنہ سمجھ میں آنے والی گتھی بنی ہوئی ہیں ۔

ایک مفکر دانشور کے بقول جو لوگ انسان کی تعریف میں حیوان ناطق اور گھوڑے کی تعریف میں حیوان صاہل(ہنہنانے والا)کہتے ہیں یہ لوگ ان الفاظ سے اس کی اسی طرح شناخت کراتے ہیں اور علمی غرور نے انکے ذہن کے غبار ے میں اتنی ہوا بھر دی ہے کہ وہ یہ خیال کرتے ہیں کہ انہوںنے انسانوں اور گھوڑوں کی حقیقت کو پہچان لیا ہے۔

لیکن اگر انکے اس غبارے کی ہوا نکل جائے تو ان کی سمجھ میں آجائے گا کہ اس تعریف کے ذریعہ نہ انہوں نے کسی انسان کوگھوڑے کی حقیقت سے واقف کیا ہے اور نہ خود ہی ان کی حقیقت کو سمجھ پائے ہیں لہٰذا بہتر یہی ہے کہ اشیاء کی حقیقت پہچنوانے کے لئے ان تعریفوں کو بیان نہ کیا جائے ۔

یہ انسان اپنے سے قریب ترین اشیاء کی حقیقت کو جاننے سے قاصر ہے کیونکہ اس کی روح سے زیادہ اور کوئی چیز اسکے نزدیک نہیں ہے تو کیا اس نے اپنی زندگی کو پہچان لیا ہے ؟اور کیا وہ روح اور حیات کی حقیقت کی وضاحت کر سکتا ہے ؟

کیا اسے اپنے بہت سارے فطری امور کی معرفت ہے ؟کیا وہ عشق و محبت لذت وصل، ذوق اور شجاعت یا دوسری فطری چیزوں کو سمجھتا ہے ؟

لیکن ان تمام دشواریوں اور جہالتوں کے باوجود کیا انسان صرف اس لئے ان حقیقتوں کا انکار کر سکتا ہے کہ اس کی عقل ان کو سمجھنے سے قاصر ہے یا اسکے اندر اتنی طاقت ہے کہ وہ ان کروڑوں، اربوں بلکہ ان سے بھی زیادہ مخلوقات اور عجیب وغریب اشیاء کا انکار کر دے جو اس کی نظروں سے پوشیدہ ہیں اور اسے معلوم نہیں ہیں؟ کیا وہ اس عالم ہستی کی ضخیم کتا ب کے کلمات کے معانی ،اسرارو خصوصیات اور اسکے فائدوں کا انکار کر سکتا ہے ؟

کیاہم کہہ سکتے ہیں کہ کیونکہ ہم نے فلاں چیز نہیں دیکھی لہٰذا اسکا کوئی وجود نہیں پایا جاتا یا کسی چیز کا راز اوراسکا فائدہ میری سمجھ میں نہیں آیا لہٰذا وہ بے فائدہ ہے اور اسمیں کوئی راز پوشیدہ نہیں ہے؟

ہر گز ہر گز ایسا نہیں ہو سکتا ! اور چاہے انسان کا علم و فن کتنی ہی ترقی کرلے وہ کبھی بھی یہ دعویٰ نہیں کرے گا بلکہ علم جتنا آگے بڑھے گا وہ اس قسم کے دعووں سے اتنا ہی دور رہے گا ۔

وہ آسمانی بجلی جس سے انسان ہزاروں سال تک ڈرتا رہا کیا اُس زمانہ میں کہ جب تک اسکے خصوصیات اور فائدوں تک سائنس کی رسائی نہیں ہوئی تھی اور خدا کی اس عظیم طاقت میں اس کی قدرت کا جو اعجازاور نشانیاںموجود ہیں اور نباتات یا حیوانات کے اوپر اسکا کیا اثر ہوتا ہے وہ ان سے آگاہ نہیں ہواتھا تو کیا اسکے اندر یہ منافع موجود نہیں تھے ؟اور کیا اس وقت وہ خدا وند عالم کی ایک عظیم نعمت نہیں تھی؟اور وہ لوگ جو اسے صرف نعمت یا عذاب کا ایک مظہر سمجھتے ہیں کیاوہ نا سمجھی کا شکار نہیں تھے ؟(۱)

ہر عالم اور دانشور دنیا کی عمارت کو منطق اور صحیح نظر کی بنیاد پر استوار سمجھتا ہے اور ان ظاہری

____________________

(۱)بجلی کے عجیب و غریب اہم فوائدکی تفصیلات کے لئے”الصواعق نعمة“ کے عنوان کا مقالہ ملاحظہ فرمائیے جو ماہنامہ رسالہ”بو بیلدرسائینس“ ”المختار من ریدرز دائجست“ شمارہ اکتوبر۱۹۵۹ ءء ص ۱۰۶ پر موجود ہے۔

چیزوں کو حقائق کا خزانہ قرار دیتا ہے اور اسے یہ کائنات ایک ایسا مدرسہ دکھائی دیتی ہے جس میںوہ علم و حکمت حاصل کرے وہ اس کے خصوصیات لوازم اور اجزاء کے بارے میں گفتگو کرنے سے لطف اندوز ہوتا ہے اور اسکے یہی معمے اور اسرار اس کے لئے پر لطف چیز یں ہیں نیز پوری زندگی تعلیم اور تحقیق (انکشافات) کے میدان میں بسر کرنے کے بعد اسکے اندر حیرت اور استعجاب کی جو کیفیت پیدا ہوتی ہے وہ اس کی علمی زندگی کی سب سے (با لذت)لذیذ اور پر کیف چیز ہے جس لذت سے کسی چیز کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا ،وہ دنیا کو ریاضی اور علم ہندسہ کے اس پیجیدہ سوال کی طرح سمجھتا ہے جسکا حل کرنا بظاہر آسان ہے لیکن جب اسے حل کرنا چاہیں تو اسمیں جتنا آگے بڑھتے جائیں اس کی پیچیدگی اور گہرائی میں اتنا ہی اضافہ ہو تاجاتا ہے ۔

ایک مفکر اور فلسفی کے لئے یہ لمحات بڑے حسین اور پر کیف ہوتے ہیں اور وہ یہ چاہتا ہے کہ اس کی حیرت میں اور اضافہ ہوتا رہے اور وہ اس منزل تک پہونچ جائے کہ اسکویہ دکھائی دینے لگے کہ اس کی آنکھ ان تمام مجہولات (پوشیدہ چیزوں کو)دیکھنے والے آلات سے مسلح نہیں ہے اور پھر معرفت و بصیرت کے ساتھ قرآن مجید کی اس آیت کی تلاوت کرے:

ولو انّ ما فيالا رض من شجرة اقلام و البحر یمدّہ من بعدہ سبعة ابحر ما نفدت کلمات اللہ۔(۱)

”اور اگر روئے زمین کے تمام درخت قلم بن جائیں اور سمندر کا سہارا دینے کے لئے سات سمندر اور آجائیں تو بھی کلمات الٰہی تمام ہونے والے نہیں ہیں “۔

اور وہ یہ کہتا ہو ا دکھائی دے:

مجلس تمام گشت و بہ آخر رسید عمر

ما ہم چنان در اول وصف تو ماندہ ایم

مجلس ختم ہو گئی اور عمر تمام ہو گئی مگر ہم تیری توصیف کی شروعات میں ہی رکے رہ گئے ہیں۔

____________________

(۱)سورہ لقمان آیت۲۷

اسکے با وجود انسان ہر علمی میدان میں اپنی تمام تحقیقات نیز محنتوں اور مشقتوں سے اس دنیا کے پیدا کرنے والے کی حکمت ،منطق ،مقصد،ارادہ،قدرت اور اسکے علم سے واقف ہوتا ہے اور اسے بخوبی یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی بے نظمی نہیں ہے اور دنیا کی کسی مخلوق کو فضول یا بے فائدہ قرار نہیں دیا جا سکتا ۔

یہ انسانی عاجزی (ناتوانی)اور اس کی فہم و شناخت کے مختلف طریقوں کی ایک مختصر سی جھلک تھی ، اور یہی اس کی عقل و خرد کی عجیب و غریب قدرت و طاقت کی دلیل بھی ہے ۔

ان خصوصیات کے بعد اگر وہ عالم تشریع یا عالم تکوین میں (کشف)ظاہر ہونے والی کسی بھی چیز کا فلسفہ نہ سمجھ پائے اور اس کی تاویل یا تشریح نہ کر سکے یا اس کی تعریف و توصیف کرتے وقت اسے الفاظ کا دامن (دائرہ)تنگ دکھائی دے تو وہ اسکے فائدہ کا انکار نہیں کر سکتا ۔

دنیائے حقیقت و معانی اور بشری علوم اور معلومات کی مثال ایسی ہے جیسے الفاظ اور معانی کے درمیان رابطہ ہوتا ہے، الفاظ کی دنیا چاہے جتنی وسیع اور کشادہ کیوں نہ ہو جائے پھر بھی وہ اپنے اندر تمام معانی کو نہیں سمیٹ سکتی ،کیونکہ زبانیں اور انکے الفاظ یا کلمات کی تعداد محدود ہے جبکہ معانی اور اشیاء (چیزیں)نا محدود ہیں اور یہ طے ہے کہ محدود چیز، نا محدود چیز کا احاطہ نہیں کر سکتی جیسا کہ ایک عربی شاعر نے کہا ہے:

وان قمیصا ً خیط من نسج تسعة

و عشرین حرفا عن معالیہ قاصر

ایک قمیص اگرچہ ۹ دھاگوں سے بنائی گئی ہے مگر بیس حروف بھی اس کے فضائل بیان کرنے سے قاصر ہیں ۔

اس حقیقت کو سب سے بہترین اور اچھے طریقہ سے قرآن مجید نے اس آیت میں بیان کیا ہے :

( قل لو کان البحر مداداً لکلمات ربي لنفد البحر قبل ان تنفد کلمات ربيولو جئنا بمثله مدد ا ) (۱)

”آپ کہہ دیجئے کہ اگر میرے پروردگار کے کلمات کے لئے سمندر بھی روشنائی بن جائیں تو کلمات رب کے ختم ہونے سے پہلے ہی سارے سمندر ختم ہو جائیں گے چاہے ان کی مدد کے لئے ہم ویسے ہی سمندر اور بھی لے آئیں “

قرآن مجید نے آج سے چودہ صدی پہلے اس آیت میں کائنات کی مخلوقات کی عظمت اور ان کی بے شمار تعداد کو نہایت حسین انداز میں بیان کر دیا ہے جس کا علمی استحکام اور اعجاز سامنے آتا رہتا ہے اسکے علاوہ معصومین کی احادیث میں بھی اس حقیقت کو آشکار کیا گیا ہے مثلا ً اس وقت جبکہ انسان صرف تھوڑے سے ستاروں کو ہی پہچانتا تھا تو اس وقت کسی چیز کی کثرت میں مبالغہ کرنے کے لئے بارش کے قطروں ،ریت کے ذروں اور آسمان کے ستاروں کی مثال دیا کرتا تھا ۔

انسانی فہم و شعور اس دنیا کی حقیقتوں کو درک کرنے سے کتنا قاصر ہے اس سلسلہ میں امام جعفر صادق علیہ السلام نے یہ فرمایا ہے:

یا بن آدم لو اکل قلبک طائر لم یشبعہ و بصرک لو وضع علیہ خرت ابرة لغطاہ ترید ان تعرف بھا ملکوت السموات والارض۔(۲)

اے فرزند آدم ! اگر تیرا دل ایک پرندہ کھالے تو اس سے اسکا پیٹ نہیںبھر سکتا اور اگر تیری آنکھ کے اوپر ایک سوئی کی نوک رکھ دی جائے تو وہ اسے ڈھک لے گی اور پھر تو یہ چاہتا ہے کہ اسکے ذریعہ ملکوت آسمان و زمین کو پہچان لے ۔

اس تمہید کے بعد جو لوگ امام زمانہ عجل اللہ تعالیٰ فرجہ کی غیبت کے راز اور آپ کے پوشیدہ رہنے کا فلسفہ معلوم کرنا چاہتے ہیں ہم ان سے یہ کہیں گے :

آپ دریافت کیجئے اور غور و فکر سے کام لیجئے تحقیق اور جستجو فرمائیے ہمیں آپ کے تحقیق کرنے

یا آپ کے دریافت کرنے پر کوئی اعتراض نہ ہو گا،پوچھئیے اور تلاش میں لگے رہئے کیونکہ اگر آپ اس

____________________

(۱)سورہ لقمان آیت۲۷۔

(۲)حق الیقین ج ۱ص ۴۶۔